1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا عادل نذیر کی پسندیدہ شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏31 جنوری 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
    اللہ کریم آپکے کزن مرحوم کی بخشش و مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
     
  2. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اک بار تو مجھ سے ملو اے میرے ہم سفر
    سن لو میرے دل کی بات چن لو کوئی ڈگر

    کب زندگی بھر ساتھ نبھا پائیں گے تمہارا
    لیکن مجھے قبول تو سکتے ہو لمحہ بھر

    ٹھہرو ذرا آنکھوں سے دل میں اتار لوں
    کچھ پل تو دیکھ لوں میں آپ کو جی بھر

    اے کاش میرے خواب کی تعبیر مل جائے
    میری دعاؤں میں بھی پیدا ہو جائے اثر

    عظمٰی میری حیات کو مہکا گیا کوئی
    روح میں سما گیا کوئی دل میں گیا اتر
    چھوٹی سی خواہش کے پیچھے ساری عمر بتا کر بھی
    ہم نے انکے دل میں جگہ نہ پائی حال دل سنا کر بھی

    قطرہ قطرہ رستی چاہت اپنے دل تک بھی پہنچی تھی
    لیکن پیاس نہ بجھ پائی ہونٹوں سے جام لگا کر بھی

    ایک چاہت کی خاطر ہم دل اور جان لٹا بیٹھے ہیں
    کچھ حاصل نہ کر پائے ہم دل اور جان لٹا کر بھی

    خوابوں اور خیالوں میں رہنے والے کب تک جیتے ہیں
    ٹوٹ کر بکھر جائیں گے وہ بھی خوابوں کو سجا کر بھی

    عظمٰی ایسے مر مر کر کب تک دنیا میں رہنا ہے
    مرنا تو لازم ٹھہرا ہے موت سے آنکھ چرا کر بھی

    جو زمانے میں خوشیاں تقسیم کرتے ہیں
    اچھے لوگ ان کی بڑی تعظیم کرتے ہیں

    ہم سوچ سمجھ کر تو کچھ نہیں کرتے
    مگر جو بھی کرتے ہیں عظیم کرتے ہیں

    ہمیں جس کسی انسان سے پیار ہو جائے
    ان کی پیاری صورت دل میں مقیم کرتے ہیں

    محبت میں اپنا ایک ہی بیان رہتا ہے
    ایسی باتوں میں نہ ہم ترمیم کرتے ہیں

    غریبوں و یتیموں کی مدد کرنا شوق ہے ہمارا
    ہر شخص کو نیک کاموں کی تعلیم کرتے ہیں
     
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    یہ دن بھی گزرا تمہیں یاد کر کے
    ہم تھک گئے ایک فریاد کر کے

    لبوں پر نہ آئی میرے دل کی بات
    ہم چپ رہے دل کو برباد کر کے

    آنکھوں کی ویرانیاں ختم کر دیں
    آنکھوں کو اشکوں سے آباد کر کے

    وہ خوش رہیں میرا دل توڑ کے
    میں خوش رہوں انکا دلشاد کر کے

    عظمٰی کبھی دیکھ ہوتا ہے کیا
    دل کے پرندے کو آزاد کر کے
     
  4. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    انکو بھلانا فطرت نہیں اپنی Adil nazir
    اگر بھلانا ہوتا تو محبت ہی کیوں کرتے
     
  5. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اک اداسی سی لگی رہتی ہے
    کوئی مشکل سی بنی رہتی ہے

    ایسے لگتا ہے دل کی بستی میں
    کوئی آندھی سی چلی رہتی ہے

    اسے کہنا تمہاری یادوں کی
    ایک محفل سی سجی رہتی ہے

    یون بھی ہوتا ہے ان فضاؤں میں
    تیری خوشبو سی بسی رہتی ہے

    روز لکھتا ہوں اک فسانے کو
    پھر بھی لگتا ہے کمی رہتی ہے

    میں نے دیکھا ہے کتنی آنکھوں میں
    ایک حسرت سی دبی رہتی ہے

    پھر وہ موسم سدید لوٹے ہیں
    دل میں رم جھم سی لگی رہتی ہے
     
  6. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ملتی نہیں بلند نگاہوں کی جھلکیاں
    رنگین اداؤں کی ضرورت نہیں مجھے

    سینے میں بھرے ہیں جو ہزاروں ستم ملے
    اب راز پنہاؤں کی ضرورت نہیں مجھے

    اک شا م پھر غم نے آ لیا مجھے
    من میں میرے کچھ ٹوٹا تھا

    اک اک یاد درد کی لہر بنی اس شام
    ان گنت لہروں کو گنا تھا میں نے

    وحشت سی اتری تھی میرے وجود
    اک نیا دکھ ملا ہو جیسے مجھے

    یا خدا پھر نہ آئے وہ شام کبھی
    سورج کے ساتھ میرا دل ڈوبا تھا

    وہ اک شب جلی تو اسے شمع کہہ دیا چوہان
    ہم برسوں سے جل رہے ہیں ہمیں کوئی تو خطاب دو
     
  7. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    وہ جس نے سارے خواب تیرے زندہ کر دیے
    اپنے جنوں کی آب سے تابندہ کر دیے
    خود بجھ کے تیرے راستے رخشندہ کر دیے

    چھپ کر جو بیٹھنا ہو کبھی اپنے آپ سے
    تو سوچنا اُسے

    وہ اجنبی سا آشنا کس راہ گم ہوا
    ایسا گیا کہ لوٹ کر آیا نہ پھر کبھی

    اب گرد سے اٹی ہوئی راہوں میں کچھ نہیں
    وہ نقشِ پا بھی وقت نے شرمندہ کر دیے

    پھر شاخِ دل پہ پھول جو اک اجنبی لگے
    مت دیکھنا اُسے

    مت سوچنا اُسے
    کس کو خبر کہ راز کوئی بے طرح کھلے

    جو در اک بار کھلا تھا وہ کھلا نہیں دوبارہ
    ہم نے انہیں پکارا لیکن وہ نہ آئے دوبارہ

    ہجر کے لمحوں میں تنہائی نے پکارا
    لیکن وصال یار کا لمحہ آیا نہیں دوبارہ

    تم سے جدا ہوئے تو خود سے جدا ہوئے
    اپنا ہی نشاں ہم نے پایا نہیں دوبارہ

    گر ہو سکے تو پھر سے شہر دل آباد کرو
    میرے لئے کھول دو اس دل کا در دوبارہ

    عظمٰی اسے پہلے کی طرح پا کے نہ کھونا
    مل جائے تم کو شاید اپنا نشاں دوبارہ

    پرانی شاعری کا آج پھر مجھ کو خیال آیا
    پرانی ڈائری کا آج پھر مجھ کو خیال آیا

    اٹھایا طاق کھولی ڈائری اس پہ نگاہ ڈالی
    ایک بیتی کہانی کا آج پھر مجھ کو خیال آیا

    تمہیں پہلی نظر میں دیکھنا اور دیکھتے جانا
    نگاہوں کے تصادم کا آج پھر مجھ کو خیال آیا

    وہ گھبراتے ہوئے ذرا ذرا ڈرتے ہوئے میرا
    تمہارے پاس آنا آج پھر مجھ کو خیال آیا

    اپنے دل کا ہر اک قصہ ڈائری میں لکھ دینا
    ادھورا وہ فسانہ آج پھر مجھ کو خیال آیا

    تمہیں ملنا تو چاہا تھا مگر ہم مل نہیں پائے
    ہوا دشمن زمانہ آج پھر مجھ کو خیال آیا

    اگر معلوم ہوتا کہ وقت ہم کو بھی دغا دے گا
    تو ہم تنہا نہ ہوتے آج پھر مجھ کو خیال آیا

    جنہیں ہم بھول نہ پائے انہیں کو بھول بیٹھے تھے
    انہی بھولے ہوؤں کا آج پھر مجھ کو خیال آیا

    اپنی الفت کا کوئی اقرار وہ کرتا نہیں
    میری عداوت پہ تکرار وہ کرتا نہیں

    کچھ تو کہے کچھ تو سنے وہ میرا مہرباں
    اقرار بھی کرتا نہیں انکار بھی کرتا نہیں

    میں جس کی ہمنوا ہوں جو میرا ہمنوا ہے
    اپنے کسی جذبے کا اظہار وہ کرتا نہیں

    ہم جس سے دور رہ کر بھی دور نہ رہے
    وہ ہم سے دور ہو کہ ہم سے جدا ہوا نہیں

    تم روٹھ بھی جاؤ تو ہم تم کو منا لیں گے
    ہم تم سے روٹھ جائیں ہم نے کبھی سوچا نہیں

    یہ دوریاں یہ فاصلے مٹ جائیں ایک آن میں
    اپنے دل میں دیکھو گے تو پاؤ گے جدا نہیں

    جس کو کبھی خبر تھی سارے جہاں کی
    وہ اپنے حال سے ہی اب آشنا رہا نہیں
     
  8. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جسے ملناں ہمیں دشوار بھی ہے
    اس کی آنکھوں سے عیاں پیار بھی ہے

    روز کرتا ہے وہ باتیں مجھ سے
    میرا قاتل میرا غم خوار بھی ہے

    جسے شکوہ تھا کہ چپ رہتاں ہوں
    میری باتوں سے وہ بیزار بھی ہے

    کوئی مرتا ہے تو مر جانے دو
    موت اچھی ہے مددگار بھی ہے

    سدید تم سے گر یزاں مگر
    ایک پا گل سے اسے پیار بھی ہے
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ مرزا عادل بھائی ۔
    آپ نے تو اتنا اچھا کلام سنا کر دل خوش کردیا۔
    جیتے رہیں بھائی ۔
     
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب :dilphool:
     
  11. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    :dilphool:
     
  12. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    سسسلام علیکم شششششششششکریہ سب بھاییوں کا جی
     
  13. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جسے شکوہ تھا کہ چپ رہتا ہوں
    میری باتوں سے وہ بیزار بھی ہے


    واہ بہت خوب اور بھی اچھا لگے اگر آپ لکھ کے پڑھ لیا کریں عادل جی
     
  15. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    مین تو پڑکر ہی لکھتا ہون جی
     
  16. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی بہت ہی خوب :flor:
    :a180:
     
  17. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    میں اپنے آپ سے اکثر کلام کرتا ہوں
    میں اپنی بات کو اپنے ہی نام کرتا ہوں

    سلامتی رہے مجھ پر خدا کی ہر لمحہ
    بس اسی واسطے خود کو سلام کرتا ہوں

    تواضع کیجئیے مہماں کی بنے خود مہماں
    پھر اپنے واسطے خود اہتمام کرتا ہوں

    خودی کو سامنے رکھ کر خودی سے لڑتا ہوں
    خودی پھر آکے لڑائی تمام کرتا ہوں

    یہ میری زندگی خود سے شروع خود ہی پہ ختم
    عجب سی بات ہے عجیب کام کرتا ہوں

    ہے میری بات میں احسن میری خودی کا زکر
    خودی کو اس طرح اپنا غلام کرتا ہوں

     
  18. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    سنا ہے سامنے سب کے وہ اکثر مسکراتی ہے
    مگر تنہائیوں میں ٹوٹ کر آنسو بہاتی ہے

    میں الفت کو جہا ں کی گردشوں سے ماورا سمجھا
    وہ اس کو وقت کے خانوں تلک محدود کہتی ہے

    مجھے بھی چاند راتوں میں اکیلے پن سے وحشت ہے
    سنا ہے بے کلی میں اس کی عادت خود کلامی ہے

    کبھی باتوں ہی باتوں میں جو میرا نام آ جائے
    وہ مر جھائے گلابوں کو سنا ہے چوم لیتی ہے

    وہ ساون کی رتوں میں جب ملن کے گیت گاتی ہے
    مجھے کچے گھڑ ے والی وہ سوہنی یاد آتی ہے

    اسے تو چاند کی کرنوں سے اندھا پیار تھا انجم
    سنا ہے اب اماوس کی راتوں کی بات کرتی ہے

    انا کا مسئلہ درپیش ہے ورنہ حقیقت میں
    اسے میری مجھے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے
     
  19. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    پھول جو مر جھا گئے تھے انتظار میں
    تربت پہ آرزو کی آخر سجا دیے

    یہ پیار ہے کہ نفرت میرے سامنے ہی اس نے
    کچھ حرف میرے نام کے لکھے مٹا دیے
     
  20. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کوشش ہی جو کرنی ہے تو ایسا کرو دوستوں
    بھلا کے غم زندگی کی پھر ابتدا کرو دوستوں

    مسکرانا جب صدقہ ہے تو پھر تم
    اب اتنا بھی اداس نا رہا کرو دوستوں

    بہت ہار چکے لوگ راہ عشق میں زندگی
    زندگی پھر سے جی کر زندگی سے وفا کرو دوستوں

    حادثے جو بھی ہوئے زندگی میں بھلا دو
    کر کے ماں، باپ کی خدمت فرض ادا کرو دوستوں

    دکھوں کو اپنے لفظوں میں پرو کر
    اب علی کی طرح خوش رہا کرو دوستو
     
  21. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان


    میری آرزو کا محور میری شاعری کا مرکز
    بے نام زندگی کے بے نام سے حروف

    بھلا دیا ہے میں نے وفا کا ہر فسانہ
    لیکن بھلا سکا نہ تیرے نام کے حروف
     
  22. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  23. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  24. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

  25. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ستم ہي کرنا جفا ہي کرنا نگاہ الفت کبھي نہ کرنا
    تمھيں قسم ہے ہمارے سر کي ہمارے حق ميں کمي نہ کرنا

    ہماري ميت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
    ذرا رہے پاس آبرو بھي نہيں ہماري ہنسي نہ کرنا

    کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہي نہيں يہ رسميں
    وہاں ہے وعدے کي بھي يہ صورت کبھي تو کرنا کبھي نہ کرنا

    نہيں ہے کچھ قتل انکا آساں يہ سخت جاں ہيں بري بلا کے
    قضا کو پہلے شريک کرنا يہ کام اپني خوشي نہ کرنا

    مري تو ہے بات زہران کو وہ ان کے مطلب ہي کي نہ کيوں ہو
    کہ ان سے جو التجا سے کہنا غضب ہے ان کو وہي نہ کرنا

    وہ ہے ہمارا طريق الفت کہ دشمنوں سے بھي مل کے چلنا
    يہ ايک شيوہ ترا ستمگر کہ دوست سے دوستي نہ کرنا

    ہم ياک رستہ گلي کا اس کي دکھا کے اس کو ہوئے پشيماں
    يہ حضرت خضر کو جتا دو کسي کي تم رہبري نہ کرنا

    بياں درد فراق کيا کہ ہے وہاں اپني يہ حقيقت
    جو بات کرني تو نالہ کرنا نہيں تو وہ بھي کبھي نہ کرنا

    مدار ہے نا صحو تمہي پر تمام اب اس کي منصفي کا
    زرا تو کہنا خدا لگي بھي فقط سخن پروي نہ کرنا
     
  26. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    دل کے نالوں سے جگر دکہنے لگا
    ياں تلک روئے کہ سر دکھنے لگا

    دور تہي از بسکہ راھ انتظار
    تہک کے ھر پائے نظر دکہنے لگا

    روتے روتے چشم کا ھر گوشہ ياں
    تجہ بن اے نور بصر دکہنے لگا

    درد يہ ھے ہاتھ اگر رکہا ادہر
    واں سے تب سرکا ادہار دکنہے لگا

    مت کر اھ انشا نہ کر افشائے راز
    دل دکہنے دے اگر دکہنے لگا
     
  27. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
    برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھ

    نھ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
    خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھ

    نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
    اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھ

    پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
    ہم اس کي آنکھوں کے صدق جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھ

    يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
    مکاں سے تا لاديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھ

    جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
    جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھ
     
  28. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    خواب ميں بھي نہ کسي شب و ستم گر آيا
    وعدہ ايسا کوئي جانے کہ مقرر آي

    مجھ سے مے کش کو کہاں صبر، کہاں کي توبہ
    لے ليا دوڑ کے جب سامنے ساغر آي

    غير کے روپ ميں بھيجاہے جلانے کو مرے
    نامہ بر ان کا نيا بھيس بدل کر آي

    سخت جاني سے مري جان بچے گي کب تک
    ايک جب کند ھوا دوسرا خنجر آي

    داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
    لے ليا عشق ميں جو ھم کو ميسر آي

    عشق تاثير ہي کرتا ھے کہ اس کافر نے
    جب مرا حال سنا سنتے ہي جي بھر آي

    اس قدر شاد ھوں گويا کہ ملي ھفت اقليم
    آئينہ ہاتھ ميں آيا کہ سکندر آي

    وصل ميں ہائے وہ اترا کے مرا بول اٹھنا
    اے فلک ديکھ تو يہ کون مرے گھر آي

    راہ ميں وعدہ کريں جاؤں ميں گھر پر تو کہيں
    کون ہے، کس نے بلايا اسے، کيونکر آي

    داغ کے نام سے نفرت ھے، وہ جل جاتے ھيں
    ذکر کم بخت کا آنے کو تو اکثر آيا
     
  29. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اب دل ہے مقام بے کسي کا
    يوں گھر نہ تبا ہو کسي کا

    کس کس کو مزا ہے عاشقي کا
    تم نام تو لو بھلا کسي کا

    پھر ديکھتے ہيں عيش آدمي کا
    بنتا جو فلک مير خوشي کا

    گلشن ميں ترے لبوں نے گويا
    رس چوم ليا کلي کلي کا

    ليتے نہيں بزم ميں مرا نام
    کہتے ہيں خيال ہے کسي کا

    جيتے ہيں کسي کي آس پر ہم
    احسان ہے ايسي زندگي کا

    بنتي ہے بري کبھي جو دل پر
    کہتا ہوں برا ہو عاشقي کا

    ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہيں
    منہ پر نہیں نام بھي ہنسي کا

    اتنا ہي تو بس کسر ہے تم ميں
    کہنا نہيں مانتے کسي کا

    ہم بزم ميں ان کي چپکے بيٹھے
    منہ ديکھتے ہيں ہر آدمي کا

    جو دم ہے وہ ہے بسا غنيمت
    سارا سودا ہے جيتے جي کا

    آغاز کو کون پوچھتا ہے
    انجام اچھا ہو آدمي کا

    روکيں انہيں کيا کہ ہے غنيمت
    آنا جانا کبھي کبھي کا

    ايسے سے جو داگ نے نباہي
    سچ ہے کہ يہ کام تھا اسي کا
     
  30. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کس نے کہا کہ داغ وفا دار مرگيا
    وہ ہاتھ مل کے کہتے ہيں کيا يار مر گيا

    دام بلائے عشق کي وہ کشمکش رہي
    اک ايک پھڑک پھڑک کے گرفتار مرگيا

    آنکھيں کھلي ہوئي پس مرگ اس لئے
    جانے کوئي کہ طالب ديدار مرگيا

    جس سے کيا ہے آپ نے اقرار جي گيا
    جس نے سنا ہے آپ سے انکار مرگيا

    کس بيکسي سے داغ نے افسوس جان دي
    پڑھ کر ترے فراق کے اشعار مرگيا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں