1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

مرزا عادل نذیر کی پسندیدہ شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از بےلگام, ‏31 جنوری 2009۔

  1. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کعبے کي سمت جا کے مرا دھيان پھر گيا
    اس بت کو ديکھتے ہي بس ايمان پھر گي

    محشر میں داد خواہ جو اے دل نہ تو ہوا
    تو جان لے يہ باتھ سے ميدا پھر گي

    چھپ کر کہاں گئے تھے وہ شب کو کہ ميرے گھر
    سو بار آ کے ان کا نگہبان پھر گي

    رونق جو آ گئي پسينے سے موت کے
    پاني ترے مريض پر اک آن پھر گي

    گريے نے ايک دم ميں بنا دي وہ گھر کي شکل
    ميري نظر ميں صاف بيابان پھر گيا

    لائے تھے کوئے يار سے ہم داغ کو ابھي
    لو اس کي موت آئي وہ نادان پھر گي
     
  2. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ديکھو جو مسکراکے تم آغوش نقش پا
    گستاخيوں کرے لب خاموش نقش پا

    پائي مرے سراغ سے دشمن نے راہ دوست
    اے بيخودي مجھے نہ رہا ہوش نقش پا

    ميں خاکسار عشق ہوں آگاہ راز عشق
    ميري زباں سے حال سنے گوش نقش پا

    آئے بھي وہ چلے بھي گئے مري راہ سے
    ميں نا مراد والہ و مدہوش نقش پا

    يہ کون ميرے کوچہ سے چھپ کر نکل گيا
    خالي نہيں ہے فتنوں سے آغوش نقش پا

    يہ داغ کي تو خاک نہيں کوئے يار ميں
    اک نشہ وصال ہے آغوش نقش پا
     
  3. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    يہ قول کسي کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
    وہ کچھ نہيں کہتا ہے کہ ميں کچھ نہیں کہتا

    سن سن کر ترے عشق ميں اغيار کے طعنے
    مير اہي کليجا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    ان کا يہي سننا ہے کہ وہ کچھ نہيں سنتے
    ميرا يہي کہنا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    خط ميں مجھے اول تو سنائي ہيں ہزاروں
    آخر ميں يہ لکھا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    پھٹتا ہے جگر ديکھ کے قاصد کي مصيبت
    پوچھوں تو يہ کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    يہ خوب سمجھ ليجئے غمار وہي ہے
    جو آپ سے سے کہتا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    تم کو يہي شاياں ہے کہ تم ديتے ہوئے وشنام
    مجھ کو يہي زيبا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا

    مشتاق بہت ہيں مرے کہنے کے پر اے داغ
    يہ وقت ہي ايسا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
     
  4. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    تو جو اللہ کا محبوب ہوا خوب ہوا
    يا نبي خوب ہوا خوب ہوا خوب ہوا

    شب معراج يہ کہتے تھے فرشتے باہم
    سخن طالب و مطلوب ہوا خواب ہوا

    حشر ميں امت عاصي کا ٹھکانا ہي نہ تھا
    بخشوانا تجھے مر غوب ہوا خوب ہوا

    تھا سبھي پيش نظر معرکہ کرب و بلا
    صبر ميں ثاني ايوب ہوا خوب ہوا

    داغ ہے روز قيامت مري شرم اسکے ہاتھ
    ميں گناہوں سے جو محبوب ہوا خوب ہوا
     
  5. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    يہاں بھي تو وہاں بھي تو زميں ميں تيري فلک تيرا
    کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا

    صفات و ذات ميں يکتا ہے تو اے واحد مطلق
    نہ کوئي تيرا ثاني کوئي مشترک تيرا

    جمال احمد و يوسف کو رونق تونے بخشي ہے
    ملاحت تجھ سے شيريں حسن شيريں ميں نمک تيرا

    ترے فيض و کرم سے نارو نور آپس ميں يکدل ہيں
    ثنا گر يک زبان ہر ايک ہے جن و ملک تيرا

    کسي کو کيا خبر کيوں شر پيدا کئے تونے
    کہ جو کچھ ہے خدائ ميں وہ ہے لاريب کيئے تونے

    نہ جلتا طور کيونکر کس طرح موسي نہ غش کھاتے
    کہاں يہ تاب و طاقت جلوہ ديکھئے مر ديک تيرا

    دعا يہ ہے کہ وقت مرگ اسکي مشکل آساں ہو
    زباں پر داغ کے نام آئے يارب يک بہ يک تيرا
     
  6. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    آئينہ تصوير کا تيرے نہ لے کر رکھ ديا
    بو سے لينے کيلئے کعبے ميں پتھر رکھ ديا

    ہم نے ان کے سامنے اول تو خنجر رکھ ديا
    پھر کليجا رکھ ديا دل رکھ ديا سر رکھ ديا

    زندگي ميں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جدا
    قبر ميں تنہا مجھے ياروں نے کيونکر رکھ ديا

    ديکھئے اب ٹھوکريں کھاتي ہے کس کس کي نگاہ
    روزون ديار ميں ظالم نے پتھر رکھ ديا

    زلف خالي ہاتھ خالي کس جگہ ڈھونڈيں اسے
    تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ ديا

    داغ کي شامت جو آئي اضطراب شوق ميں
    حال دل کمبخت نے سب ان کے منہ پر رکھ ديا
     
  7. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کيا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
    پھر بھي يہ کہوں جلوہ جاناں نہيں ديکھا

    محشر ميں وہ نادم ہوں خدا يہ نہ دکھائے
    آنکھوں نے کبھي اس کو پشيماں نہيں ديکھا

    ہر چند ترے ظلم کي کچھ حد نہيں ظالم
    پر ہم نے کسي شخص کو نالاں نہيں رکھا

    ملتا نہيں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
    تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہيں ديکھا

    لو اور سنو کہتے ہيں وہ ديکھ کے مجھ کو
    جو حال سنا تھا وھ پريشان نہيں ديکھا

    کيا پوچھتے ہو کون ہے يہ کسي کي ہے شہرت
    کيا تم نے کبھي داغ کا ديوان نہيں ديکھا
     
  8. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کيا ذوق ہے کہ شوق ہے سو مرتبہ ديکھوں
    پھر بھي يہ کہوں جلوہ جاناں نہيں ديکھا

    محشر ميں وہ نادم ہوں خدا يہ نہ دکھائے
    آنکھوں نے کبھي اس کو پشيماں نہيں ديکھا

    ہر چند ترے ظلم کي کچھ حد نہيں ظالم
    پر ہم نے کسي شخص کو نالاں نہيں رکھا

    ملتا نہيں ہم کو دل گم گشتہ ہمارا
    تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہيں ديکھا

    لو اور سنو کہتے ہيں وہ ديکھ کے مجھ کو
    جو حال سنا تھا وھ پريشان نہيں ديکھا

    کيا پوچھتے ہو کون ہے يہ کسي کي ہے شہرت
    کيا تم نے کبھي داغ کا ديوان نہيں ديکھا
     
  9. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    محبت ميں کرے کيا کچھ کسي سے ہو نہيں سکتا
    مرا مرنا بھي تو ميري خوشي سے ہو نہيں سکتا

    کيا ہے وعدہ فراد انہوں نے ديکھئے کيا ہو
    يہاں صبر و تحمل آج ہي سے ہو نہيں سکتا

    چمن ميں ناز بلبل نے کيا جب اپنے نالے پر
    چٹک کر غنچہ بولا کيا کسي ہے ہو نہيں سکتا

    نہ رونا ہے طريقہ کا نہ ہنسنا ہے سليقےکا
    پريشاني ميں کوئي کا جي سے ہو نہيں سکتا

    ہوا ہوں اس قدر محبوب عرض مدعا کرکے
    اب تو عذر بھي شرمندگي سے ہو نہيں سکتا

    خدا جب دوست ہے اے داغ کيا دشمن سے انديشہ
    ہمارا کچھ کسي کي دشمني سے ہو نہيں سکتا
     
  10. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    لے چلا جان مري روٹھ کے جانا تيرا
    ايسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا تيرا

    تو جو اے زلف پريشان رہا کرتي ہے
    کس کے اجڑے ہوئے دل ميں ہے ٹھکانا تيرا

    اپني آنکھوں ميں کوند گئي بجلي سي
    ہم نہ سمجھے کہ يہ آنا ہے کہ جانا تيرا
     
  11. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اعمال سے ميں اپنے بہت بے خبر چلا
    آيا تھا آہ کس لئے اور کيا ميں کر چلا

    ہے فکر وصل صبح تو اندوہ ہجر شام
    اس روزو شب کے دھندے ميں اب ميں تو مر چلا
    کيا اس چمن ميں آن کے لے جائے گا کوئي
    دامن کو ميرے سامنے گل جھاڑ کر چلا

    طوفان بھرے تھاپاني جن آنکھوں کے سامنے
    آج ابر ان کے آگے زميں کرکے تر چل
     
  12. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    بہنا کچھ اپني چشم کا دستور ہوگيا
    دي تھي خدا نے آنکھ سو نامور ہوگيا

    بھٹکي پھرے ہے کب سے خدايا مري دعا
    دروازہ کيا قبول کا معمور ہوگي

    اخوش ہيں شکتہ بالي سے اپني ہم اس لئے
    پرواز کا تو دل سے خلش دور ہوگيا

    شب آگيا جو بزم ميں پيارے تويک بيک
    چہرے سے رنگ شمع کے کافور ہوگيا

    سودا کو کہتے ہيں کہ اس سے مصاحبت
    کہنا غلط يہ حرف بھي مشہور ہوگيا
     
  13. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    بلبل نے جسے جاکے گلستان ميں ديکھا
    ہم نے اسے ہر خار بيابان مين ديکھا

    روشن ہے وہ ہر ايک ستارے ميں زليخا
    جس نور کو تو نے مہ کنعان ميں ديکھا
    اے زخم جگر سودھ الماس سے خوکر
    کتنا وہ مزہ تھا جو نمک دان ميں ديکھا

    سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہيں وہ
    کيا جانئيے تو نے اسے کس آن ميں ديکھا
     
  14. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
    دل پہ کچھ اختيار تھا، نہ رہ

    دل مرحوم کو خدا بخشے
    ايک ہي غمگسار تھا، نہ رہ

    آ، کہ وقت سکون مرگ آيا
    نالہ نا خوشگوار تھا، نہ رہ

    ان کي بے مہريوں کو کيا معلوم
    کوئي اميدوار تھا، نہ رہ

    آہ کا اعتبار بھي کب تک
    آہ کا اعتبار تھا نہ رہا
     
  15. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ہوش بھلا بيٹھي ميں
    تجھ بن ڈھول بلوچ

    تيرا حال ہوا کيا
    کچھ تو بول بلوچ

    ظلم کيا بابل نے
    جان لگي ہے رلنے

    اب کيسے جيناہے
    بھيد يہ کھول بلوچ

    قہر يہ مجھ پر ٹوٹا
    تيرا ساتھ بھي چھوٹ

    ديکھ ليا جگ سارا
    تو انمول بلوچا
     
  16. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے
    اور مري کھڑکي ميں آئے
    بالکل تنہا اور اکيلا
    ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں
    ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں
    جو ميرے تالو سے چمٹي
    دل ميں سمٹي رہتي ہيں
    سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا
    چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا
     
  17. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    جو تم نے ٹھان ہي لي ہے
    ہمارے دل سے نکلو گے
    تو اتنا جان لو پيارے
    سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نکلو گے
    ستارے جن کي آنکھوں نے ہميں اک ساتھ ديکھا تھا
    گواہي دينے آئيں گے
    پرانےکاغذوں کي بالکوني سے بہت لفظ جھانکيں گے
    تمہيں واپس بلائيں گے
    کئي وعدے فسادي قرض خواہوں کي طرح رستے ميں روکيں گے
    تمھيں دامن سے پکڑیں گے
    تمہاري جان کھائيں گے
    چھپا کر کس طرح چہرہ
    بھري محفل سے نکلو گے
    ذرا پھر سوچ لو جاناں
    نکل تو جائو گے شايد
    مگر مشکل سے نکلو گے
     
  18. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    کوئي زنجير
    آہن کي چاندي کي روايت کي
    محبت توڑ سکتي ہے
    يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
    زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
    يہ ايسا شہر ہے جس
    ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
    اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
    يہ آئينہ نہيں چلتا
    يہ ايسي آگ ہے جس ميں
    بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
    يہ وہ سيلاب ہے جس کو
    دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
    يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
    جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنورير مل جائے
    دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
    کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
    محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
    کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
    محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
    يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
    جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
    کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے
     
  19. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    تو چل اے گريہ، پھر اب کي بار بھي ہم ہي
    تري انگلي پکڑتے ہيں تجھے گھر لے کے چلتے ہيں
    وہاں ہر چيزويسي ہے کوئي منظر نہيں بدلا
    ترا کمرہ بھي ويسے ہي پڑا جس طرح تونے
    اسے ديکھا تھا چھوڑا تھا
    ترے بستر کے پہلو ميں رکھي اس ميز پر اب بھي
    دھرا ہے مگ وہ کافي کا
    کہ جس کہ خشک اور ٹوٹے کناروں پر
    ابھي تک وسوسوں اور خوشبوں کي جھاگ کے دھبے نماياں ہيں
    قلم ہے جس کي نب پر رت جگوں کي روشنائي يوں لرزتي ہے
    کہ جيسے سوکھتے ہونٹوں پہ پپڑي جمنے لگتي ہے
    وہ کاغذ ہيں
    جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوئوں سے بھيگے رہتے ہيں
    ترے چپل بھي رکھے ہيں
    کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹۓ ہيں
    جو اتنا روندے جانے پر بھي اب تک سانس ليتے ہيں
    ترے کپڑے
    جو غم کي بارشوں ميں دھل کے آئے تھے
    مري الماريوں کے ہنگريوں میں اب بھي لٹکے ہيں
    دلاسوں کا وہ گيلا توليہ
    اور ہچکيوں کا ادھ گھلا صابن
    چمکتے واش بيسن ميں پڑے ہيں اور
    ٹھنڈے گرم پاني کي وہ دونوں ٹونٹياں اب تک
    رواں ہيں تو جنھيں اس دن
    کسي جلدي ميں چلتا چھوڑ آيا تھا
    دريچے کي طرف ديوار پر لٹکي گھڑي
    اب بھي ہميشہ کي طرح
    آدھا منٹ پيچھے ہي رہتي ہے
    کلنڈر پر رکي تاريخ نے پلکيں نہيں جھپکيں
    اور اس کے ساتھ آويزاں
    وہ اک منظر
    وہ ايک تصوير جس ميں وہ
    مرے شانے پہ سر رکھتے مرے پہلو ميں بيٹھي ہے
    مري گردن اور اس کے گيسوئوں کے پاس اک تتلي
    خوشي سے اڑتي پھرتي ہے
    کچھ ايسا سحر چھايا ہے
    کہ دل رکتا ہوا چلتي ہوئي محسوس ہوتي ہے
    مگر اے موسم گريہ
    اسي ساعت
    نجانےکس طرف سے تو چلا آيا
    ہمارے بيچ سے گزرا
    ہمارے بيچ سےتو اس طرح گزرا
    کہ جيسے دو مخالف راستوں کا کاٹتي سرحد
    کي جس کے ہر طرف بس دوريوں کي گرد اڑتي ہے
    اسي اک گرد کي تہہ سي
    تجھے دروازے کي بيل پر جمي شايد نظر آئے
    کوئي تصوير کے اندر کمي شايد نظر آئے
    تمنا سے بھري آنکھيں جو ہر دم مسکراتي تھيں
    اب ان آنکھوں کے کونوں ميں نمي شايد نظر آئے
     
  20. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    دريچہ ہے دھنک کا اوراک بادل کي چلمن ہے
    اور اس چملن کے پيچھے چھپ کے بيٹھے
    کچھ ستارے ہيں ستاروں کي
    نگاہوں ميں عجيب سي ايک الجھن ہے
    وہ ہم کو ديکھتے ہيں اور پھر آپس ميں کہتے ہيں
    يہ منظر آسماں کا تھا يہاں پر کس طرح پہنچا
    زميں ذادوں کي قسمت ميں يہ جنت کس طرح آئي؟

    ستاروں کي يہ حيراني سمجھ ميں آنے والي ہے
    کہ ايسا دلنشيں منظر کسي نے کم ہي ديکھا ہے
    ہمارے درمياں اس وقت جو چاہت کا موسم ہے
    اسے لفظوں ميں لکھيں تو کتابيں جگمگااٹھيں
    جو سوچيں اس کے بارے ميں توروہيں گنگنا اٹھيں
    يہ تم ہو ميرے پہلو ميں
    کہ خواب زندگي تعبير کي صورت ميں آيا ہے؟
    يہ کھلتے پھول سا چہرہ
    جو اپني مسکراہٹ سے جہاں ميں روشني کردے
    لہو ميں تازگي بھردے
    بدن اک ڈھير ريشم کا
    جو ہاتھوں ميں نہيں رکتا
    انوکھي سي کوئي خوشبو کہ آنکھيں بند ہو جائيں
    سخن کي جگمگاہٹ سے شگوفے پھوٹتے جائيں
    چھپا کاجل بھري آنکھوں ميںکوئي راز گہرا ہے
    بہت نزديک سے ديکھيں تو چيزيں پھيل جاتي ہيں
    سو ميرے چار سو دو جھيل سي آنکھوںکا پہرا ہے
    تمہيں ميں کس طرح ديکھوں
     
  21. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
    ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي

    پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا
    اک ياد جگاتا گزرے گا

    اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
    ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
    تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا

    اس موسم ميں
    دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
    اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
    شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
    تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا

    آنکھيں پھول بچھائيں گي
    اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
    يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو
     
  22. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    محبت کے موسم
    زمانے کے سب موسمون سے نرالے
    بہار و خزاں ان کي سب سے جدا
    الگ ان کو سوکھا الگ ہے گھٹا
    محبت کے خطے کي آب و ہوا
    ماورا ان عناصرے سے جو
    موسموں کے تغير کي بنياد ہيں
    يہ زمان و مکاں کے کم و بيش سے
    ايسے آزاد ہيں
    جيسے صبح زال۔۔۔جيسے شام فنا
    شب وروز عالم کے احکام کو
    يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
    زندگي کي مسافت کے انجام کو
    يہ محبت کے موسم نہيں مانتے
    رفاقت کي خوشبو سے خالي ہو جو
    يہ کوئي ايسا منظر نہيں ديکھتے
    وفا کے علاوہ کسي کلام کو
    يہ محبت کے موسم نہيں مانت
     
  23. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
    ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
    موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
    سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے

    آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
    بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
    جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
    جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

    راہ گزر کا مومسم کا ناں بارش کا محتاج
    وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
    کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن
    بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

    آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
    ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
     
  24. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    تمھارا نام کچھ ايسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
    اندھيري رات ميں جيسے
    اچانک چاند بادلوں کے کسي کونے سے باہر جھانکتا ہے
    اور سارے منظروں ميں روشني سي پھيل جاتي ہے
    کلي جيسے لرزتي اوس کے قطرے پہن کر مسکراتي ہے
    بدلتي رت کسي مانوس سي آہٹ کي ڈالي لے کے چلتي ہے
    تو خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک صلتا ہے
    تمہارے نام کا تارا مري سانسوں ميں کھلتا ہے

    تمہيں کسي الجھن ہوني گمنام سي چنتا کے جادو ميں
    کس سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کي خوشبو ميں
    کسي موسم کے دامن ميںکسي خواہش کے پہلو ميں
    تو اس خوش رنگ منظر ميں تمہاري ياد کا رستہ
    نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
    اور پھر ايسے مري ہر راہ کے ہم راہ چلتا ہے
    کہ آنکھوں ميں ستاروں کي گزرگاہ ہيں سي بنتي ہيں
    دھنک کي کہکشائيں سي
    تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں ميں ڈھلتي ہيں
    کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہيں
    تمہارے خواب کا رشتہ مري نيندوں سے ملتا ہے
    تو دل آباد ہوتا ہے
    مرا ہر اک چاک سلتا ہے
    تمہارے نام کا تارا مري راتوں ميں کھلتا ہے
     
  25. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    تمہاري ياد جو دلاتے تھے
    وہ سارے خط ميں جلا چکا ہوں

    بھلا چکا ہوں
    بھلا چکا ہوں
    عہد ماضي کے وہ سارے قصے

    جو تمہاري ذات سے منسوب تھے
    ہاں کبھي ہم بھي بہت اچھے تھے

    ہاں کبھي ہم بھي بہت خوب تھے
    کہ محبتوں کہ در ديورا پر

    جس نے قدم رکھ ديا
    اس نے اپنے دل ميں

    خوشي سے غم رکھ دئيے
    کہ کسي کا دل دکھانےسے

    کسي کو بھلانے سے
    کہيں اچھا ہے

    کہ کسي کو ياد ہي نہ کيا جائے
    کل راستے جدا کرنے سے

    کہيں بہتر ہے منزل ہي الگ رکھنا
    اگر تمہارے بس ميں ہو مجھے معاف
    کرسکنا
    تو مجھ کو معاف کردينا
    کہ محبتوں کے شہر ميں ملنا

    لکھا ہي نہيں ہوتا
    جو کچھ ہم سوچتے ہيں

    وہ کبھي کبھي نہيں ہوتا
    وہ کبھي کبھي نہيں ہوتا
     
  26. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    لوگ بہشت کے تصور ميں کھوئے رہتے ہيں
    آئو بہشت کي تصوير کي بات کرتے ہيں

    کہيں کہسار، کہيں مر غزار، کہيں پر برف پوش پہاڑ
    آئو قدرت کے بنانے والے کي تعمير کي بات کرتے ہيں

    وہ جس کي واديوں پہ ہميشہ بہاروں کا بسيرا ہے
    آئو اس کے دلکش موسموں موسم دلگير کي بات کرتے ہيں

    اس حسن نے لوگوں کو کتنا حسن بخشا
    آئو عارش آج تمہاري تحرير کي بات کرتے ہيں
     
  27. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    تمہارے دل کي دريچوں پر
    جو ہوابن کر دوں دستک تو

    دل کے در تم تم کھولو گئے
    ياموسوں کي چھيڑ چھاڑ

    کہہ کر چپ ہو جائو گئے
    تہارے قدموں ميں اگر ميں

    پيتاں بن کر بکھر جائوں
    تو اپنے پائوں کي نرمي سے

    مجھ کو تم نوازو گئے؟؟؟
    ياسرخ انگارے کہہ کر

    واپس پلٹ جائو گئے
    کبھي تمہارے پاس بيٹھے

    يہ سر گوشي ميں کروں
    مجھے تم سے محبت ہے

    تو کن انکھيوں سے ہاں کہو گئے
    يا جيسے کچھ سنا ہي نہ ہو

    ايسے ہي چپ بيٹھے رہو گئے
     
  28. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    اپنے ماتھے کا تلک بنا کرع کر دو لازاوال ہم
    جس کا جواب تم بنو رکھ لو وہ سوال ہم

    مدت ہوئي جلاتے تيرے نام کا ديا مزاروں
    کبھي تو دے دو قربتيں کبھي تو بخش دو وصال ہم

    اپني سانسوں کو کر لو منسوب تم صرف ميري ذات
    محبتوں کے نام پہ لوگ ديں ايسي بنا دو مثال ہم

    بخش دو ساري زندگي، دن مہ و سال ہم
    نہ کوئي ہو گلہ ہميں نہ کوئي ہو ملال ہم

    عارش يوں اترو ميري ذات ميں ميں اپنا نام بھول جائوں
    ذرا بھي عارش نہ رہے کوئي نہ رہے خيال ہم کو

    آئو حسن بے نظير کي بات کرتے ہيں
    آئو اپنےوطن کشمير کي بات کرتے ہيں
     
  29. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    ايسي محبت کي تمنا ہم کيوں کر کريں آخر؟
    جو پھرتي ہے بازاروں ميں عرياں تن سے
    جو تولي جاتي ہے مرتبہ و دھن ميں
    جو جسم سے ہوتي ہے نہ کہ من ميں
    ايسي محبت کي تمنا ہم کيوں کر کريں آخر
    جو ديتي ہے دعوت نظارہ ہر نظر کو
    لبوں کي سرخي اڑاتي ہے ہر نگر کو
    جو منزل سمجھے انجان ڈگر کو
    ايسي محبت کي تمنا ہم کيوں کر کريں آخر
    جو تجھ سے ہو کر بھي ہونے کو ترسے
    جو پا کر تجھ کو کھونےکو ترسے
    جو ہر دامن ميں سونےکو ترسے
    ايسي محبت کي تمنا ہم کيوں کر کريں آخر
     
  30. بےلگام
    آف لائن

    بےلگام مہمان

    مجھ کو محسوس ہورہا ہے يوں
    اپني صورت ميں ہوں نہ دنيا ميں
    زنگ آلود آئينے ميں ہو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں