1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ساگراج, ‏7 ستمبر 2008۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ واقعہ بیان فرمایا ہے ماشاء اللہ :dilphool:
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ساگراج صاحب

    کیا باقی لشکر کو کچھ حصہ ملا؟ یا پھر بس قاضی صاحب نے حق بات کی تو صرف ان کی بچت ہوگئی؟ بس ذرا تشنگی سی محسوس ہوئی۔ سو سوال کا سہارہ لیا۔

    باقی بہت ہی اعلی۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت پیاری بات ۔
    ساگراج بھائی ۔ ہماری معلومات میں نیک اضافہ کرنے پر شکریہ :dilphool:
     
  4. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    نور جی ، ھارون بھائی، محبوب بھائی اور نعیم بھائی پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
    :flor:

    مجھے جتنا واقعہ معلوم ہوا تھا میں‌ نے آپ سے شیئر کردیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کے اس کے بعد علاؤالدین خلجی صاحب کا رویہ اپنی رعایا سے کیسا تھا۔ اس لئے معذرت خواہ ہوں۔
     
  5. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    چین کا فلسفی کنفیوشس کسی خیال میں گم بیٹھا تھا، قریب ہی چند اشخاص اور بیٹھے تھے۔ وہ آپس میں اشارے کرکے کنفیوشس کا مذاق اڑا رہے تھے۔ اس لئے کہ وہ خستہ حال اور نادار تھا۔
    کنفیوشس کو ان کے اشاروں کا احساس ہو گیا۔ وہ کچھ دیر تک خاموشی سے ان کی حرکتیں دیکھتا رہا اور پھر مسکرا کے بولا لوگو! جب تم کسی کی جانب ایک انگلی اٹھا کر انگشت نمائی کرتے ہو۔
    "تو جانتے ہو کیا ہوتا ہے"
    "کیا ہوتا ہے" لوگوں نے حیرت سے پوچھا
    کنفیوشس نے جواب دیا
    "تمہاری تین انگلیاں خود تمہاری طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہیں"
     
  6. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب بات ہے :happy:
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ساگراج بھائی ۔۔ عمدہ اور سبق آموز بات ہے
    شکریہ
     
  8. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ ساگراج جی عمدہ بات بتائی ھے شکریہ
     
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ساگراج صاحب بہت خوب اور یقین کریں کہ ہمارے ہاں انگلیاں اٹھا اٹھا کر مزاق کرنا تو عام ہے لیکن ساتھ یہ بھی عام ہے کہ کسی اور کی طرف ایک انگلی اور باقی انگلیاں اپنی طرف بر سر اشارہ ہوجاتی ہیں۔ لیکن آج پتہ چلا کہ یہ تو چینی النسل کہاوت ہے۔ بہرحال اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔جہاں روشنی دیکھو حاصل کرو یہ نہ دیکھو کہ مشعل بردار کون ہے۔ سو خوب رہا۔
     
  10. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب اور نصیحت آموز واقعہ سنانے کا شکریہ
     
  11. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب ساگراج جی
    آپکی شئرنگ ہمیشہ معیاری ہوتی ہے۔
     
  12. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ساگراج جی ۔ آپکے ذوق مطالعہ کی داد دینا پڑتی ہے۔
    بہت عمدہ چیزیں شئیر کرتے ہیں آپ ۔ :mashallah:
     
  13. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    نعیم بھائی، خوشی ، محبوب بھائی، ھارون بھائی ، نور، اور زہرا جی دو دفعہ۔ سب کا بہت بہت شکریہ کہ اس لڑی کو عزت بخشی۔ :flor: :flor: :flor:
     
  14. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    بے گناہ

    جب سقراط کو زہر کا پیالہ دیا جانے لگا تو اس کے شاگرد زاروقطار رونے لگے۔
    سقراط نے پوچھا
    "تم کیوں روتے ہو؟"

    شاگردوں نے کہا
    "اس لئے کہ آپ بے گناہ مارے جا رہے ہیں"

    سقراط نے کہا
    "ارے کم بختو! کیا تم چاہتے تھے کہ میں کسی گناہ پر مارا جاتا"


    :a191:
     
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پورا فلسفہ زندگی صرف دو ڈائیلاگ میں۔۔۔۔ساگراج صاحب بہت ہی خوب
     
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔
    یہ بڑے لوگ اپنی دولت شہرت سے نہیں بلکہ اپنے عظیم فکروتخیلات کی وجہ سے بڑے کہلاتے ہیں۔
    بہت عمدہ شئیرنگ ساگراج بھائی ۔
     
  17. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    محبوب بھائی اور نعیم بھائی بہت بہت شکریہ
    :flor: :flor: :flor:
     
  18. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    مثالی بیوی


    فرانسیسی سیاست دان رابرٹ شوماں تمام عمر کنوارا رہا۔ ایک موقع پر کسی اخبار کے نمائندے نے ان سے اس ازلی کنوارےپن کی وجہ معلوم کی؟؟؟؟
    "اس نے کہا میں تمام عمر ایک مثالی بیوی کی تلاش میں رہا"

    "کیا پھر آپ کو ایسی بیوی ملی؟؟؟" اخباری نمائندے نے پوچھا

    شوماں نے جواب دیا
    "جی ہاں مل گئی تھی۔ مگر وہ خود ایک مثالی شوہر کی تلاش میں تھی :neu: "


    :a191:
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ساگراج بھائی ۔
    اللہ تعالی آپکے نصیب اچھے کرے ۔ آمین ۔ اپنا مطالعہ ہم سے بانٹنے کا شکریہ ۔



    کہیں آپ بھی " مثالی بیوی " کی تلاش میں تو نہیں ؟؟؟ :hasna:
     
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ھی زبردست شئیرنگ ھے،!!!!!!!!!!
     
  22. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    نعیم بھائی، ہارون بھائی، اور انکل جی پسندیدگی کا بہت شکریہ۔
    :flor: :flor: :flor:

    نعیم بھائی ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں

    اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

    :a191:
     
  23. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    محمود اور ایاز کے بہت قصے مشہور ہیں۔ محمود (محمود غزنوی) افغانستان کا بادشاہ تھا۔ وہ بہت پرعزم اور باہمت بادشاہ تھا۔ اس نے ہندوستان پر سترہ حملے کیئے اور ہر دفعہ کامیاب لوٹا۔
    اس نے سومنات (یہ ہی نام ہے شائید، اب ٹھیک سے یاد نہیں ) کا ناقابل تسخیر مندر توڑا۔ اس پر ہندؤں کا یقین تھا کہ یہ دیوتاؤں کی رہائش ہے اور کوئی انسان بھی اس کو تسخیر نہیں کر سکتا۔ اس لئے محمود غزنوی کو بت شکن بھی کہتے تھے۔ کیونکہ اس نے سومنات کا مندر گرا کر اس کے سارے بت توڑ دیئے تھے۔
    ایاز اس کا ایک غلام تھا جو کہ اپنی ذہانت، قابلیت، فرض شناسی، اور ایمانداری سے محمود کا وزیر خاص بن گیا۔ محمود اس پر اندھا اعتماد کرتا تھا اور بہت پسند کرتا تھا۔ محمود کے باقی وزیر اور امراء ایاز سے جیلس رہتے تھے اور ہمیشہ اس کی برائیاں اور خامیاں ڈھونڈنے کےلئے کوشاں رہتے تھے۔ لیکن ایاز نے ہر موقع پر خود کو اس عزت اور اعتماد کا اہل ثابت کیا جو بادشاہ نے اسے دی تھی۔


    ایک دفعہ محمود کے تمام وزراء نے مل کر(ایاز کی غیر موجودگی میں) یہ شکایت کی کہ ایاز ایک غلام ہے اور باقی تمام وزراء بڑے خاندانوں اور نام و نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک غلام کی اتنی قدردانی اور اس کو دربار میں اتنی عزت دینے سے ان کو اپنی ہتک محسوس ہوتی ہے۔ ایک غلام اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کو ایسا مقام دیا جائے۔
    محمود نے کہا ٹھیک ہے میں دیکھتا ہوں۔
    اگلے دن دربار میں محمود نے ایک بہت قیمتی ہیرا شاہی خزانے سے منگوایا۔
    اور ساتھ ایک ہتھوڑا بھی۔
    محمود نے اپنے ایک عالی نسب وزیر کو بلایا اور کہا
    "میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اس کو توڑ دو"
    وزیر نے اپنے آپ کو عقلمند ثابت کرنے کی کوشش میں کہا
    بادشاہ سلامت یہ ایک قیمتی ہیرا ہے اور ریاست کی امانت ہے۔ اس کے ٹوٹنے سے نقصان ہوگا، اس لئے میرے خیال میں بادشاہ سلامت اپنے فیصلہ میں نظرِ ثانی فرما لیں۔
    محمود نے کہا ٹھیک ہے۔
    محمود نے ایک اور وزیر کو بلا کر یہ حکم دیا۔ اس نے بھی اس قسم کی وجہ بیان کی۔ اور خود کو بادشاہ اور قوم کے نقصان بچانے کےلئے عقلمند ثابت کیا۔

    محمود نے ایک ایک کرکے تمام وزراء کو بلایا اور وہی حکم دہرایا۔ لیکن کسی نے بھی ہیرا نہیں توڑا۔ انکار بھی نہیں کیا لیکن کوئی نہ کوئی عقلی دلیل دی اور معذرت کرتا رہا۔

    محمود سب سے بہت خوش ہوا کہ انھوں نے بادشاہ اور قوم کو نقصان سے بچایا۔

    آخر پر محمود نے ایاز کو بلا کر وہی حکم دیا۔

    ایاز نے فورا ہتھوڑا پکڑا اور ہیرا توڑ دیا۔
    پورے دربار میں دہائی مچنے لگی کہ ایک غلام اور چھوٹی سوچ کے انسان نے اپنی کم عقلی سے اتنا بڑا نقصان کر دیا ہے۔ اس کو کڑی سزا دینی چاہیے۔

    محمود بہت برہم ہوا اور اس نے ایاز سے ہیرا توڑنے کی وجہ پوچھی۔

    ایاز نے بہت تاریخی جواب دیا اور پورے دربار کا منہ بند کر دیا۔
    ایاز نے کہا
    "بادشاہ سلامت میرے لیئے آپ کا حکم اس ہیرے سے بہت قیمتی تھا"




    (یہ ساری کی ساری باتیں سنی سنائی ہیں۔ اگر کوئی تاریخی غلطی ہوتو معذرت خواہ ہوں)
     
  24. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    :a180: اور سبق آموز واقعہ ہے بہت خوب :dilphool:
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ساگراج بھائی ۔ یہ واقعہ اکثر اہل علم و دانش سے سننے کو ملتا ہے۔ غالباً کچھ عرفاء و صوفیا کی کتب میں بطور سبقِ وفاداری درج بھی ہے ۔انہی "محمود و ایاز " کا ذکر علامہ اقبال :ra: نے اپنے شعر میں بھی کیا ہے۔

    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رہا، نہ بندہ نواز
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایک اور مشہور واقعہ انہی دو عظیم ہستیوں کا سننے کو ملتا ہے۔ کہ جیسا کہ اوپر ساگراج بھائی نے بھی بیان کیا ، سلطان محمود غزنوی :ra: کے دربار کے دیگر عالی نسب وزراء ایک غلام "ایاز " کے وزیر بن جانے اور بادشاہ کا نور نظر وزیر بن جانے پر ہمیشہ اندر ہی اندر حسد کرتے رہتے تھے۔ بہت سوچ بچار کے بعد انہوں نے سوچا کہ معلوم کرنا چاہیے کہ ایاز کی بادشاہ کے دربار میں اتنی قدر و منزلت کی وجہ کیا ہے۔ کہیں یہ کوئی وظیفہ وظائف تو نہیں کرتا۔ چنانچہ وزرا نے ایاز کی جاسوسی کرنے کا ارادہ کیا۔ ایک شام جب دربار ختم ہوا اور تمام وزرا اپنی اپنی رہائش کی جانب گئے ۔ ایاز بھی اپنی رہائش کی طرف چل پڑا۔ تو یہ وزرا چپکے سے ایاز کے پیچھے ہولیے۔ ایاز جب کمرے میں پہنچا۔ تو یہ سب لوگ دروازوں کے کواڑوں یا کھڑکیوں کے سوراخوں سے آنکھیں لگا کر کھڑے ہوگئے کہ ایاز کرتا کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایاز نے شاہی پلنگ کے نیچے سے ایک پرانا سا بکس باہر کھینچا۔ اسکے اندر سے پھٹے پرانے کپڑے اور پرانے ٹوٹے جوتے رکھے تھے۔ ایاز نے اپنا وزیروں والا شاہی لباس اتارا اور پھٹے پرانے کپڑے اور پرانے خستہ حالت کے جوتے پہن کر آئینے کے سامنے کھڑا ہوگیا اور رونا شروع کردیا۔ بہت دیر تک روتا رہا اور اللہ کے حضور کچھ دعا کرتا رہے۔ وزرا ء حیرت میں گم ہوگئے اور واپس گھروں کو لوٹ گئے۔

    اگلی صبح وزراء نے چپکے سے یہ ماجرا سلطان محمود غزنوی کو بتا دیا کہ ایاز کا راتوں کو یہ معمول ہے۔ بادشاہ نے ایاز کو بلوایا اور پوچھا کہ رات کو پھٹے پرانے کپڑے اور پرانے جوتے پہن کر آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر کیا کرتے رہتے ہو۔ تو ایاز نے جواب دیا ۔
    "بادشاہ سلامت ! وزارت امارت بڑی شئے ہے۔ انسان کو تکبر میں مبتلا کردیتی ہے ۔ میرے پلنگ کے نیچے والے بکس میں پرانے کپڑے اور پرانے جوتے میرا وہ سامان ہے کہ کئی برس پہلے جب میں‌آپکے دربار میں بطور غلام آیا تھا تو وہ میرا پہناوا تھا ۔ آج جب آپ کی مہربانی سے میں وزیر بن گیا ہوں تو ہر رات وہی پرانے کپڑے اور پرانے جوتے پہن کر اپنی اوقات یاد کرتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ۔۔
    " اے ایاز ! یاد رکھ۔ یہ تیری اوقات تھی۔ تو اس پھٹے پرانے لباس اور ٹوٹے پھوٹے جوتوں کا حقدار تھا۔ لیکن اللہ نے تجھ پر کرم کیا اور سلطان محمود نے تجھ پر مہربانی کی کہ تو وزیر بنا بیٹھا ہے۔ ہمیشہ اپنی اوقات یاد رکھنا اور کبھی تکبر نہ کرنا۔ کیونکہ جو مالک فقیری سے تجھے وزارت دے سکتا وہ مالک تجھ سے وزارت چھین کر دوبارہ فقیری بھی دے سکتا ہے"
     
  26. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    بہت خوب ۔اپنی اوقات اور اپنی اصلیت یاد رکھنے والے ہی تکبر سے بچ پاتے ہیں۔ ماشاءاللہ
     
  27. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    نعیم بھائی بہت شکریہ۔

    اگلا واقعہ میں نے یہ ہی پیش کرنا تھا :suno:
    لیکن آپ نے جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے، شائید میں نہ کر پاتا۔ جزاک اللہ

    :flor: :flor: :flor:
     
  28. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ہر انسان کو اپنی اصلیت نہیں بھولنی چاہئے :flor:
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ساگراج بھائی ۔ آپ نے پیش کیا یا میں نے۔ بھائیوں میں ایک ہی بات ہے۔
    خوبصورتی سے بیان میں ہمارے جیسے بےعلموں اور بےہنروں کا کیا عمل دخل۔
    اعلی لوگوں کی اعلی باتیں ہوتی ہیں اور آپ جیسے کرمفرماؤں کا حسنِ نظر ہوتا ہے۔
    :a191:
     
  30. عاطف چوہدری
    آف لائن

    عاطف چوہدری ممبر

    شمولیت:
    ‏17 جولائی 2008
    پیغامات:
    305
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :a180: اور سبق آموز واقعہ ہے بہت خوب :dilphool:[/quote:28qy3vbv]



    نعیم بردار،،،،،،،،جوک اور ھیرا کی مثال سنی ہے،،،،،،،،،،،اگر اسکو تم ایاز اور مھمود سے تشبی دو گے تو،،،،،،،،تم کو مثال کی سمجھ آ جایے گی،،،،
    دیگر ھضرات نے بھی اگر جوک اور ھیرا والی مثال سنی مگر اسکا پرکیٹکل دیکھنا ہے تو ان لوگون کے پیغام ہے کہ


    ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی
     

اس صفحے کو مشتہر کریں