1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بانگ درا (مکمل)

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از الف لام میم, ‏30 جولائی 2006۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    الٰہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوا

    الٰہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوانگي سکھا دے

    الہي عقل خجستہ پے کو ذرا سي ديوانگي سکھا دے
    اسے ہے سودائے بخيہ کاري ، مجھے سر پيرہن نہيں ہے

    ملا محبت کا سوز مجھ کو تو بولے صبح ازل فرشتے
    مثال شمع مزار ہے تو ، تري کوئي انجمن نہيں ہے

    يہاں کہاں ہم نفس ميسر ، يہ ديس نا آشنا ہے اے دل!
    وہ چيز تو مانگتا ہے مجھ سے کہ زير چرخ کہن نہيں ہے

    نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنايا
    بنا ہمارے حصار ملت کي اتحاد وطن نہيں ہے

    کہاں کا آنا، کہاں کا جانا، فريب ہے امتياز عقبي
    نمود ہر شے ميں ہے ہماري ، کہيں ہمارا وطن نہيں ہے

    مدير 'مخزن' سے کوئي اقبال جا کے ميرا پيام کہہ دے
    جوکام کچھ کر رہي ہيں قوميں، انھيں مذاق سخن نہيں ہے​
     
  2. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر ا

    زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا

    زمانہ ديکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
    مري خموشي نہيں ہے، گويا مزار ہے حرف آرزو کا

    جو موج دريا لگي يہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان ميري
    گہر يہ بولا صدف نشيني ہے مجھ کو سامان آبرو کا

    نہ ہو طبيعت ہي جن کي قابل، وہ تربيت سے نہيں سنورتے
    ہوا نہ سرسبز رہ کے پاني ميں عکس سرو کنار جو کا

    کوئي دل ايسا نظر نہ آيا نہ جس ميں خوابيدہ ہو تمنا
    الہي تيرا جہان کيا ہے نگار خانہ ہے آرزو کا

    کھلا يہ مر کر کہ زندگي اپني تھي طلسم ہوس سراپا
    جسے سمجھتے تھے جسم خاکي ، غبار تھا کوئے آرزو کا

    اگر کوئي شے نہيں ہے پنہاں تو کيوں سراپا تلاش ہوں ميں
    نگہ کو نظارے کي تمنا ہے، دل کو سودا ہے جستجو کا

    چمن ميں گلچيں سے غنچہ کہتا تھا، اتنا بيدرد کيوں ہے انساں
    تري نگاہوں ميں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا

    رياض ہستي کے ذرے ذرے سے ہے محبت کا جلوہ پيدا
    حقيقت گل کو تو جو سمجھے تو يہ بھي پيماں ہے رنگ و بو کا

    تمام مضموں مرے پرانے، کلام ميرا خطا سراپا
    ہنر کوئي ديکھتا ہے مجھ ميں تو عيب ہے ميرے عيب جو کا

    سپاس شرط ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
    ذرا سا اک دل ديا ہے، وہ بھي فريب خوردہ ہے آرزو کا

    کمال وحدت عياں ہے ايسا کہ نوک نشتر سے تو جو چھيڑے
    يقيں ہے مجھ کو گرے رگ گل سے قطرہ انسان کے لہو کا

    گيا ہے تقليد کا زمانہ، مجاز رخت سفر اٹھائے
    ہوئي حقيقت ہي جب نماياں تو کس کو يارا ہے گفتگو کا

    جو گھر سے اقبال دور ہوں ميں، تو ہوں نہ محزوں عزيز ميرے
    مثال گوہر وطن کي فرقت کمال ہے ميري آبرو کا​
     
  3. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    چمک تيري عياں بجلي ميں، آتش ميں،

    چمک تيري عياں بجلي ميں، آتش ميں، شرارے ميں

    چمک تيري عياں بجلي ميں ، آتش ميں ، شرارے ميں
    جھلک تيري ہويدا چاند ميں ،سورج ميں ، تارے ميں

    بلندي آسمانوں ميں، زمينوں ميں تري پستي
    رواني بحر ميں، افتادگي تيري کنارے ميں

    شريعت کيوں گريباں گير ہو ذوق تکلم کي
    چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے ميں

    جو ہے بيدار انساں ميں وہ گہري نيند سوتا ہے
    شجر ميں، پھول ميں، حيواں ميں، پتھر ميں، ستارے ميں

    مجھے پھونکا ہے سوز قطرہء اشک محبت نے
    غضب کي آگ تھي پاني کے چھوٹے سے شرارے ميں

    نہيں جنس ثواب آخرت کي آرزو مجھ کو
    وہ سوداگر ہوں، ميں نے نفع ديکھا ہے خسارے ميں

    سکوں نا آشنا رہنا اسے سامان ہستي ہے
    تڑپ کس دل کي يا رب چھپ کے آ بيٹھي ہے پارے ميں

    صدائے لن تراني سن کے اے اقبال ميں چپ ہوں
    تقاضوں کي کہاں طاقت ہے مجھ فرقت کے مارے ميں​
     
  4. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    يوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگام

    يوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے

    يوں تو اے بزم جہاں! دلکش تھے ہنگامے ترے
    اک ذرا افسردگي تيرے تماشائوں ميں تھي

    پا گئي آسودگي کوئے محبت ميں وہ خاک
    مدتوں آوارہ جو حکمت کے صحرائوں ميں تھي

    کس قدر اے مے! تجھے رسم حجاب آئي پسند
    پردہ انگور سے نکلي تو مينائوں ميں تھي

    حسن کي تاثير پر غالب نہ آ سکتا تھا علم
    اتني ناداني جہاں کے سارے دانائوں ميں تھي

    ميں نے اے اقبال يورپ ميں اسے ڈھونڈا عبث
    بات جو ہندوستاں کے ماہ سيمائوں ميں تھي​
     
  5. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہيں

    مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہيں

    مثال پرتو مے، طوف جام کرتے ہيں
    يہي نماز ادا صبح و شام کرتے ہيں

    خصوصيت نہيں کچھ اس ميں اے کليم تري
    شجر حجر بھي خدا سے کلام کرتے ہيں

    نيا جہاں کوئي اے شمع ڈھونڈيے کہ يہاں
    ستم کش تپش ناتمام کرتے ہيں

    بھلي ہے ہم نفسو اس چمن ميں خاموشي
    کہ خوشنوائوں کو پابند دام کرتے ہيں

    غرض نشاط ہے شغل شراب سے جن کي
    حلال چيز کو گويا حرام کرتے ہيں

    بھلا نبھے گي تري ہم سے کيونکر اے واعظ!
    کہ ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہيں

    الٰہي سحر ہے پيران خرقہ پوش ميں کيا!
    کہ اک نظر سے جوانوں کو رام کرتے ہيں

    ميں ان کي محفل عشرت سے کانپ جاتا ہوں
    جو گھر کو پھونک کے دنيا ميں نام کرتے ہيں

    ہرے رہو وطن مازني کے ميدانو!
    جہاز پر سے تمھيں ہم سلام کرتے ہيں

    جو بے نماز کبھي پڑھتے ہيں نماز اقبال
    بلا کے دير سے مجھ کو امام کرتے ہيں​
     
  6. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مارچ 1907ء

    مارچ 1907ء

    زمانہ آيا ہے بے حجابي کا، عام ديدارِ يار ہو گا
    سکوت تھا پردہ دار جس کا، وہ راز اب آشکار ہوگا

    گزر گيا اب وہ دور ساقي کہ چھپ کے پيتے تھے پينے والے
    بنے گا سارا جہان مے خانہ، ہر کوئي بادہ خوار ہو گا

    کبھي جو آوارہء جنوں تھے، وہ بستيوں ميں پھر آ بسيں گے
    برہنہ پائي وہي رہے گي، مگر نيا خارزار ہو گا

    سنا ديا گوشِ منتظر کو حجاز کي خامشي نے آخر
    جو عہد صحرائيوں سے باندھا گيا تھا، پھر اُستوار ہو گا

    نکل کے صحرا سے جس نے روما کي سلطنت کو اُلٹ ديا تھا
    سنا ہے يہ قدسيوں سے ميں نے، وہ شير پھر ہوشيار ہو گا

    کيا مرا تذکرہ جوساقي نے بادہ خواروں کي انجمن ميں
    تو پيرِ ميخانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے، خوار ہو گا

    ديارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کي بستي دکاں نہيں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عيار ہو گا

    تمھاري تہذيب اپنے خنجر سے آپ ہي خودکشي کرے گي
    جوشاخِ نازک پہ آشيانہ بنے گا، ناپائدار ہو گا

    سفينہء برگِ گل بنا لے گا قافلہ مورِ ناتواں کا
    ہزار موجوں کي ہو کشاکش مگر يہ دريا سے پار ہو گا

    چمن ميں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلي کلي کو
    يہ جانتا ہے کہ اِس دکھاوے سے دل جلوں ميں شمار ہو گا

    جو ايک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہميں دکھايا
    يہي اگر کيفيت ہے تيري تو پھر کسے اِعتبار ہو گا

    کہا جوقمري سے ميں نے اک دن، يہاں کے آزاد پا بہ گِل ہيں
    توغنچے کہنے لگے، ہمارے چمن کا يہ رازدار ہو گا

    خدا کے عاشق تو ہيں ہزاروں، بنوں ميں پھرتے ہيں مارے مارے
    ميں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پيار ہو گا

    يہ رسمِ بزمِ فنا ہے اے دل! گناہ ہے جنبشِ نظر بھي
    رہے گي کيا آبرو ہماري جو تو يہاں بے قرار ہو گا

    ميں ظلمتِ شب ميں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
    شررفشاں ہوگي آہ ميري، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

    نہيں ہے غير از نمود کچھ بھي جو مدعا تيري زندگي کا
    تو اِک نفس ميں جہاں سے مٹنا تجھے مثالِ شرار ہو گا

    نہ پوچھ اِقبال کا ٹھکانا، ابھي وہي کيفيت ہے اُس کي
    کہيں سرِ رہگزار بيٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا​
     
  7. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بلاد اسلاميہ

    بلاد اسلاميہ

    سرزميں دلي کي مسجود دل غم ديدہ ہے
    ذرے ذرے ميں لہو اسلاف کا خوابيدہ ہے

    پاک اس اجڑے گلستاں کي نہ ہو کيونکر زميں
    خانقاہ عظمت اسلام ہے يہ سرزميں

    سوتے ہيں اس خاک ميں خير الامم کے تاجدار
    نظم عالم کا رہا جن کي حکومت پر مدار

    دل کو تڑپاتي ہے اب تک گرمي محفل کي ياد
    جل چکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کي ياد

    ہے زيارت گاہ مسلم گو جہان آباد بھي
    اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھي

    يہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے ليے سامان ناز
    لالہ صحرا جسے کہتے ہيں تہذيب حجاز

    خاک اس بستي کي ہو کيونکر نہ ہمدوش ارم
    جس نے ديکھے جانشينان پيمبر کے قدم

    جس کے غنچے تھے چمن ساماں ، وہ گلشن ہے يہي
    کاپنتا تھا جن سے روما ، ان کا مدفن ہے يہي

    ہے زمين قرطبہ بھي ديدہء مسلم کا نور
    ظلمت مغرب ميں جو روشن تھي مثل شمع طور

    بجھ کے بزم ملت بيضا پريشاں کر گئي
    اور ديا تہذيب حاضر کا فروزاں کر گئي

    قبر اس تہذيب کي يہ سر زمين پاک ہے
    جس سے تاک گلشن يورپ کي رگ نم ناک ہے

    خطہ قسطنطنيہ يعني قيصر کا ديار
    مہدي امت کي سطوت کا نشان پائدار

    صورت خاک حرم يہ سر زميں بھي پاک ہے
    آستان مسند آرائے شہ لولاک ہے

    نکہت گل کي طرح پاکيزہ ہے اس کي ہوا
    تربت ايوب انصاري سے آتي ہے صدا

    اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے يہ شہر
    سينکڑوں صديوں کي کشت و خوں کا حاصل ہے يہ شہر

    وہ زميں ہے تو مگر اے خواب گاہ مصطفي
    ديد ہے کعبے کو تيري حج اکبر سے سوا

    خاتم ہستي ميں تو تاباں ہے مانند نگيں
    اپني عظمت کي ولادت گاہ تھي تيري زميں

    تجھ ميں راحت اس شہنشاہ معظم کو ملي
    جس کے دامن ميں اماں اقوام عالم کو ملي

    نام ليوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
    جانشيں قيصر کے ، وارث مسند جم کے ہوئے

    ہے اگر قوميت اسلام پابند مقام
    ہند ہي بنياد ہے اس کي ، نہ فارس ہے ، نہ شام

    آہ يثرب! ديس ہے مسلم کا تو ، ماوا ہے تو
    نقطہ جاذب تاثر کي شعاعوں کا ہے تو

    جب تلک باقي ہے تو دنيا ميں ، باقي ہم بھي ہيں
    صبح ہے تو اس چمن ميں گوہر شبنم بھي ہيں​
     
  8. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ستارہ

    ستارہ

    قمر کا خوف کہ ہے خطرہء سحر تجھ کو
    مآل حسن کي کيا مل گئي خبر تجھ کو؟

    متاع نور کے لٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
    ہے کيا ہراس فنا صورت شرر تجھ کو؟

    زميں سے دور ديا آسماں نے گھر تجھ کو
    مثال ماہ اڑھائي قبائے زر تجھ کو

    غضب ہے پھر تري ننھي سي جان ڈرتي ہے!
    تمام رات تري کانپتے گزرتي ہے

    چمکنے والے مسافر! عجب يہ بستي ہے
    جو اوج ايک کا ہے ، دوسرے کي پستي ہے

    اجل ہے لاکھوں ستاروں کي اک ولادت مہر
    فنا کي نيند مے زندگي کي مستي ہے

    وداع غنچہ ميں ہے راز آفرينش گل
    عدم، عدم ہے کہ آئينہ دار ہستي ہے!

    سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے ميں
    ثبات ايک تغير کو ہے زمانے ميں​
     
  9. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    دوستارے

    آئے جو قراں ميں دو ستارے
    کہنے لگا ايک ، دوسرے سے

    يہ وصل مدام ہو تو کيا خوب
    انجام خرام ہو تو کيا خوب

    تھوڑا سا جو مہرباں فلک ہو
    ہم دونوں کي ايک ہي چمک ہو

    ليکن يہ وصال کي تمنا
    پيغام فراق تھي سراپا

    گردش تاروں کا ہے مقدر
    ہر ايک کي راہ ہے مقرر

    ہے خواب ثبات آشنائي
    آئين جہاں کا ہے جدائي​
     
  10. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    گورستان شاہي

    گورستان شاہي

    آسماں، بادل کا پہنے خرقہء ديرينہ ہے
    کچھ مکدر سا جبين ماہ کا آئينہ ہے

    چاندني پھيکي ہے اس نظارہء خاموش ميں
    صبح صادق سو رہي ہے رات کي آغوش ميں

    کس قدر اشجار کي حيرت فزا ہے خامشي
    بربط قدرت کي دھيمي سي نوا ہے خامشي

    باطن ہر ذرہء عالم سراپا درد ہے
    اور خاموشي لب ہستي پہ آہ سرد ہے

    آہ! جولاں گاہ عالم گير يعني وہ حصار
    دوش پر اپنے اٹھائے سيکڑوں صديوں کا بار

    زندگي سے تھا کبھي معمور ، اب سنسان ہے
    يہ خموشي اس کے ہنگاموں کا گورستاں ہے

    اپنے سکان کہن کي خاک کا دلدادہ ہے
    کوہ کے سر پر مثال پاسباں استادہ ہے

    ابر کے روزن سے وہ بالائے بام آسماں
    ناظر عالم ہے نجم سبز فام آسماں

    خاک بازي وسعت دنيا کا ہے منظر اسے
    داستاں ناکامي انساں کي ہے ازبر اسے

    ہے ازل سے يہ مسافر سوئے منزل جا رہا
    آسماں سے انقلابوں کا تماشا ديکھتا

    گو سکوں ممکن نہيں عالم ميں اختر کے ليے
    فاتحہ خواني کو يہ ٹھہرا ہے دم بھر کے ليے

    رنگ و آب زندگي سے گل بدامن ہے زميں
    سينکڑوں خوں گشتہ تہذيبوں کا مدفن ہے زميں

    خواب گہ شاہوں کي ہے يہ منزل حسرت فزا
    ديدہء عبرت! خراج اشک گلگوں کر ادا

    ہے تو گورستاں مگر يہ خاک گردوں پايہ ہے
    آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمايہ ہے

    مقبروں کي شان حيرت آفريں ہے اس قدر
    جنبش مژگاں سے ہے چشم تماشا کو حذر

    کيفيت ايسي ہے ناکامي کي اس تصوير ميں
    جو اتر سکتي نہيں آئينہء تحرير ميں

    سوتے ہيں خاموش ، آبادي کے ہنگاموں سے دور
    مضطرب رکھتي تھي جن کو آرزوئے ناصبور

    قبر کي ظلمت ميں ہے ان آفتابوں کي چمک
    جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبيں گستر فلک

    کيا يہي ہے ان شہنشاہوں کي عظمت کا مآل
    جن کي تدبير جہاں باني سے ڈرتا تھا زوال

    رعب فغفوري ہو دنيا ميں کہ شان قيصري
    ٹل نہيں سکتي غنيم موت کي يورش کبھي

    بادشاہوں کي بھي کشت عمر کا حاصل ہے گور
    جادہ عظمت کي گويا آخري منزل ہے گور

    شورش بزم طرب کيا ، عود کي تقرير کيا
    درد مندان جہاں کا نالہء شب گير کيا

    عرصہء پيکار ميں ہنگامہء شمشير کيا
    خون کو گرمانے والا نعرہء تکبير کيا

    اب کوئي آواز سوتوں کو جگا سکتي نہيں
    سينہ ويراں ميں جان رفتہ آ سکتي نہيں

    روح، مشت خاک ميں زحمت کش بيداد ہے
    کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس ، فرياد ہے

    زندگي انساں کي ہے مانند مرغ خوش نوا
    شاخ پر بيٹھا، کوئي دم چہچايا، اڑ گيا

    آہ! کيا آئے رياض دہر ميں ہم ، کيا گئے!
    زندگي کي شاخ سے پھوٹے، کھلے، مرجھا گئے

    موت ہر شاہ و گدا کے خواب کي تعبير ہے
    اس ستم گر کا ستم انصاف کي تصوير ہے

    سلسلہ ہستي کا ہے اک بحر نا پيدا کنار
    اور اس دريائے بے پاياں کے موجيں ہيں مزار

    اے ہوس! خوں رو کہ ہے يہ زندگي بے اعتبار
    يہ شرارے کا تبسم ، يہ خس آتش سوار

    چاند، جو صورت گر ہستي کا اک اعجاز ہے
    پہنے سيمابي قبا محو خرام ناز ہے

    چرخ بے انجم کي دہشت ناک وسعت ميں مگر
    بے کسي اس کي کوئي ديکھے ذرا وقت سحر

    اک ذرا سا ابر کا ٹکڑا ہے ، جو مہتاب تھا
    آخري آنسو ٹپک جانے ميں ہو جس کي فنا

    زندگي اقوام کي بھي ہے يونہي بے اعتبار
    رنگ ہائے رفتہ کي تصوير ہے ان کي بہار

    اس زياں خانے ميں کوئي ملت گردوں وقار
    رہ نہيں سکتي ابد تک بار دوش روزگار

    اس قدر قوموں کي بربادي سے ہے خوگر جہاں
    ديکھتا بے اعتنائي سے ہے يہ منظر جہاں

    ايک صورت پر نہيں رہتا کسي شے کو قرار
    ذوق جدت سے ہے ترکيب مزاج روزگار

    ہے نگين دہر کي زينت ہميشہ نام نو
    مادر گيتي رہي آبستن اقوام نو

    ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا يہ رہ گزر
    چشم کوہ نور نے ديکھے ہيں کتنے تاجور

    مصر و بابل مٹ گئے باقي نشاں تک بھي نہيں
    دفتر ہستي ميں ان کي داستاں تک بھي نہيں

    آ دبايا مہر ايراں کو اجل کي شام نے
    عظمت يونان و روما لوٹ لي ايام نے

    آہ! مسلم بھي زمانے سے يونہي رخصت ہوا
    آسماں سے ابر آذاري اٹھا ، برسا ، گيا

    ہے رگ گل صبح کے اشکوں سے موتي کي لڑي
    کوئي سورج کي کرن شبنم ميں ہے الجھي ہوئي

    سينہ دريا شعاعوں کے ليے گہوارہ ہے
    کس قدر پيارا لب جو مہر کا نظارہ ہے

    محو زينت ہے صنوبر ، جوئبار آئينہ ہے
    غنچہ گل کے ليے باد بہار آئينہ ہے

    نعرہ زن رہتي ہے کوئل باغ کے کاشانے ميں
    چشم انساں سے نہاں ، پتوں کے عزلت خانے ميں

    اور بلبل ، مطرب رنگيں نوائے گلستاں
    جس کے دم سے زندہ ہے گويا ہوائے گلستاں

    عشق کے ہنگاموں کي اڑتي ہوئي تصوير ہے
    خامہ قدرت کي کيسي شوخ يہ تحرير ہے

    باغ ميں خاموش جلسے گلستاں زادوں کے ہيں
    وادي کہسار ميں نعرے شباں زادوں کے ہيں

    زندگي سے يہ پرانا خاک داں معمور ہے
    موت ميں بھي زندگاني کي تڑپ مستور ہے

    پتےاں پھولوں کي گرتي ہيں خزاں ميں اس طرح
    دست طفل خفتہ سے رنگيں کھلونے جس طرح

    اس نشاط آباد ميں گو عيش بے اندازہ ہے
    ايک غم ، يعني غم ملت ہميشہ تازہ ہے

    دل ہمارے ياد عہد رفتہ سے خالي نہيں
    اپنے شاہوں کو يہ امت بھولنے والي نہيں

    اشک باري کے بہانے ہيں يہ اجڑے بام و در
    گريہ پيہم سے بينا ہے ہماري چشم تر

    دہر کو ديتے ہيں موتي ديدہء گرياں کے ہم
    آخري بادل ہيں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم

    ہيں ابھي صد ہا گہر اس ابر کي آغوش ميں
    برق ابھي باقي ہے اس کے سينہء خاموش ميں

    وادي گل ، خاک صحرا کو بنا سکتا ہے يہ
    خواب سے اميد دہقاں کو جگا سکتا ہے يہ

    ہو چکا گو قوم کي شان جلالي کا ظہور
    ہے مگر باقي ابھي شان جمالي کا ظہور​
     
  11. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    نمود صبح

    نمود صبح

    ہو رہي ہے زير دامان افق سے آشکار
    صبح يعني دختر دوشيزہ ليل و نہار

    پا چکا فرصت درود فصل انجم سے سپہر
    کشت خاور ميں ہوا ہے آفتاب آئينہ کار

    آسماں نے آمد خورشيد کي پا کر خبر
    محمل پرواز شب باندھا سر دوش غبار

    شعلہء خورشيد گويا حاصل اس کھيتي کا ہے
    بوئے تھے دہقان گردوں نے جو تاروں کے شرار

    ہے رواں نجم سحر ، جيسے عبادت خانے سے
    سب سے پيچھے جائے کوئي عابد شب زندہ دار

    کيا سماں ہے جس طرح آہستہ آہستہ کوئي
    کھينچتا ہو ميان کي ظلمت سے تيغ آب دار

    مطلع خورشيد ميں مضمر ہے يوں مضمون صبح
    جيسے خلوت گاہ مينا ميں شراب خوش گوار

    ہے تہ دامان باد اختلاط انگيز صبح
    شورش ناقوس ، آواز اذاں سے ہمکنار

    جاگے کوئل کي اذاں سے طائران نغمہ سنج
    ہے ترنم ريز قانون سحر کا تار تار​
     
  12. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    تضمين بر شعر انيسي شاملو

    تضمين بر شعر انيسي شاملو

    ہميشہ صورت باد سحر آوارہ رہتا ہوں
    محبت ميں ہے منزل سے بھي خوشتر جادہ پيمائي

    دل بے تاب جا پہنچا ديار پير سنجر ميں
    ميسر ہے جہاں درمان درد نا شکيبائي

    ابھي نا آشنائے لب تھا حرف آرزو ميرا
    زباں ہونے کو تھي منت پذير تاب گويائي

    يہ مرقد سے صدا آئي ، حرم کے رہنے والوں کو
    شکايت تجھ سے ہے اے تارک آئين آبائي!

    ترا اے قيس کيونکر ہوگيا سوز دروں ٹھنڈا
    کہ ليلي ميں تو ہيں اب تک وہي انداز ليلائي

    نہ تخم 'لا الہ' تيري زمين شور سے پھوٹا
    زمانے بھر ميں رسوا ہے تري فطرت کي نازائي

    تجھے معلوم ہے غافل کہ تيري زندگي کيا ہے
    کنشتي ساز، معمور نوا ہائے کليسائي

    ہوئي ہے تربيت آغوش بيت اللہ ميں تيري
    دل شوريدہ ہے ليکن صنم خانے کا سودائي

    ''وفا آموختي از ما، بکار ديگراں کر دي
    ربودي گوہرے از ما نثار ديگراں کر دي''​
     
  13. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فلسفہ غم

    فلسفہ غم
    (مياں فضل حسين صاحب بيرسٹرايٹ لاء لاہور کے نام)


    گو سراپا کيف عشرت ہے شراب زندگي
    اشک بھي رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگي

    موج غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگي
    ہے 'الم' کا سورہ بھي جزو کتاب زندگي

    ايک بھي پتي اگر کم ہو تو وہ گل ہي نہيں
    جو خزاں ناديدہ ہو بلبل، وہ بلبل ہي نہيں

    آرزو کے خون سے رنگيں ہے دل کي داستاں
    نغمہ انسانيت کامل نہيں غير از فغاں

    ديدہ بينا ميں داغ غم چراغ سينہ ہے
    روح کو سامان زينت آہ کا آئينہ ہے

    حادثات غم سے ہے انساں کي فطرت کو کمال
    غازہ ہے آئينہء دل کے ليے گرد ملال

    غم جواني کو جگا ديتا ہے لطف خواب سے
    ساز يہ بيدار ہوتا ہے اسي مضراب سے

    طائر دل کے ليے غم شہپر پرواز ہے
    راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے

    غم نہيں غم، روح کا اک نغمہء خاموش ہے
    جو سرود بربط ہستي سے ہم آغوش ہے

    شام جس کي آشنائے نالہء 'يا رب' نہيں
    جلوہ پيرا جس کي شب ميں اشک کے کوکب نہيں

    جس کا جام دل شکست غم سے ہے ناآشنا
    جو سدا مست شراب عيش و عشرت ہي رہا

    ہاتھ جس گلچيں کا ہے محفوظ نوک خار سے
    عشق جس کا بے خبر ہے ہجر کے آزار سے

    کلفت غم گرچہ اس کے روز و شب سے دور ہے
    زندگي کا راز اس کي آنکھ سے مستور ہے

    اے کہ نظم دہر کا ادراک ہے حاصل تجھے
    کيوں نہ آساں ہو غم و اندوہ کي منزل تجھے

    ہے ابد کے نسخہ ديرينہ کي تمہيد عشق
    عقل انساني ہے فاني، زندہء جاويد عشق

    عشق کے خورشيد سے شام اجل شرمندہ ہے
    عشق سوز زندگي ہے ، تا ابد پائندہ ہے

    رخصت محبوب کا مقصد فنا ہوتا اگر
    جوش الفت بھي دل عاشق سے کر جاتا سفر

    عشق کچھ محبوب کے مرنے سے مر جاتا نہيں
    روح ميں غم بن کے رہتا ہے، مگر جاتا نہيں

    ہے بقائے عشق سے پيدا بقا محبوب کي
    زندگاني ہے عدم ناآشنا محبوب کي

    آتي ہے ندي جبين کوہ سے گاتي ہوئي
    آسماں کے طائروں کو نغمہ سکھلاتي ہوئي

    آئنہ روشن ہے اس کا صورت رخسار حور
    گر کے وادي کي چٹانوں پر يہ ہو جاتا ہے چور

    نہر جو تھي، اس کے گوہر پيارے پيارے بن گئے
    يعني اس افتاد سے پاني کے تارے بن گئے

    جوئے سيماب رواں پھٹ کر پريشاں ہو گئي
    مضطرب بوندوں کي اک دنيا نماياں ہو گئي

    ہجر، ان قطروں کو ليکن وصل کي تعليم ہے
    دو قدم پر پھر وہي جو مثل تار سيم ہے

    ايک اصليت ميں ہے نہر روان زندگي
    گر کے رفعت سے ہجوم نوع انساں بن گئي

    پستي عالم ميں ملنے کو جدا ہوتے ہيں ہم
    عارضي فرقت کو دائم جان کر روتے ہيں ہم

    مرنے والے مرتے ہيں ليکن فنا ہوتے نہيں
    يہ حقيقت ميں کبھي ہم سے جدا ہوتے نہيں

    عقل جس دم دہر کي آفات ميں محصور ہو
    يا جواني کي اندھيري رات ميں مستور ہو

    دامن دل بن گيا ہو رزم گاہ خير و شر
    راہ کي ظلمت سے ہو مشکل سوئے منزل سفر

    خضر ہمت ہو گيا ہو آرزو سے گوشہ گير
    فکر جب عاجز ہو اور خاموش آواز ضمير

    وادي ہستي ميں کوئي ہم سفر تک بھي نہ ہو
    جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھي نہ ہو

    مرنے والوں کي جبيں روشن ہے اس ظلمات ميں
    جس طرح تارے چمکتے ہيں اندھيري رات ميں​
     
  14. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پھول کا تحفہ عطا ہونے پر

    پھول کا تحفہ عطا ہونے پر

    وہ مست ناز جو گلشن ميں جا نکلتي ہے
    کلي کلي کي زباں سے دعا نکلتي ہے

    ''الہي! پھولوں ميں وہ انتخاب مجھ کو کرے
    کلي سے رشک گل آفتاب مجھ کو کرے''

    تجھے وہ شاخ سے توڑيں! زہے نصيب ترے
    تڑپتے رہ گئے گلزار ميں رقيب ترے

    اٹھا کے صدمہ فرقت وصال تک پہنچا
    تري حيات کا جوہر کمال تک پہنچا

    مرا کنول کہ تصدق ہيں جس پہ اہل نظر
    مرے شباب کے گلشن کو ناز ہے جس پر

    کبھي يہ پھول ہم آغوش مدعا نہ ہوا
    کسي کے دامن رنگيں سے آشنا نہ ہوا

    شگفتہ کر نہ سکے گي کبھي بہار اسے
    فسردہ رکھتا ہے گلچيں کا انتظار اسے​
     
  15. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ترانہ ملي

    ترانہ ملي

    چين و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
    مسلم ہيں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

    توحيد کي امانت سينوں ميں ہے ہمارے
    آساں نہيں مٹانا نام و نشاں ہمارا

    دنيا کے بت کدوں ميں پہلا وہ گھر خدا کا
    ہم اس کے پاسباں ہيں، وہ پاسباں ہمارا

    تيغوں کے سائے ميں ہم پل کر جواں ہوئے ہيں
    خنجر ہلال کا ہے قومي نشاں ہمارا

    مغرب کي واديوں ميں گونجي اذاں ہماري
    تھمتا نہ تھا کسي سے سيل رواں ہمارا

    باطل سے دبنے والے اے آسماں نہيں ہم
    سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

    اے گلستان اندلس! وہ دن ہيں ياد تجھ کو
    تھا تيري ڈاليوں پر جب آشياں ہمارا

    اے موج دجلہ! تو بھي پہچانتي ہے ہم کو
    اب تک ہے تيرا دريا افسانہ خواں ہمارا

    اے ارض پاک! تيري حرمت پہ کٹ مرے ہم
    ہے خوں تري رگوں ميں اب تک رواں ہمارا

    سالار کارواں ہے مير حجاز اپنا
    اس نام سے ہے باقي آرام جاں ہمارا

    اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گويا
    ہوتا ہے جادہ پيما پھر کارواں ہمارا​
     
  16. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    وطنيت

    وطنيت
    (يعني وطن بحيثيت ايک سياسي تصور کے)


    اس دور ميں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
    ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور

    مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
    تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

    ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
    جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

    يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے
    غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے

    بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے
    اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے

    نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
    اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے !

    ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي
    رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي

    ہے ترک وطن سنت محبوب الہي
    دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي

    گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
    ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے

    اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے
    تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے

    خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے
    کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے

    اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
    قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے​
     
  17. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ايک حاجي مدينے کے راستے ميں

    ايک حاجي مدينے کے راستے ميں

    قافلہ لوٹا گيا صحرا ميں اور منزل ہے دور
    اس بياباں يعني بحر خشک کا ساحل ہے دور

    ہم سفر ميرے شکار دشنہء رہزن ہوئے
    بچ گئے جو ، ہو کے بے دل سوئے بيت اللہ پھرے

    اس بخاري نوجواں نے کس خوشي سے جان دي !
    موت کے زہراب ميں پائي ہے اس نے زندگي

    خنجر رہزن اسے گويا ہلال عيد تھا
    'ہائے يثرب' دل ميں ، لب پر نعرہ توحيد تھا

    خوف کہتا ہے کہ يثرب کي طرف تنہا نہ چل
    شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل

    بے زيارت سوئے بيت اللہ پھر جاؤں گا کيا
    عاشقوں کو روز محشر منہ نہ دکھلاؤں گا کيا

    خوف جاں رکھتا نہيں کچھ دشت پيمائے حجاز
    ہجرت مدفون يثرب ميں يہي مخفي ہے راز

    گو سلامت محمل شامي کي ہمراہي ميں ہے
    عشق کي لذت مگر خطروں کے جاں کاہي ميں ہے

    آہ! يہ عقل زياں انديش کيا چالاک ہے
    اور تاثر آدمي کا کس قدر بے باک ہے​
     
  18. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    قطعہ

    قطعہ

    کل ايک شوريدہ خواب گاہ نبي پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
    کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہيں

    يہ زائران حريم مغرب ہزار رہبر بنيں ہمارے
    ہميں بھلا ان سے واسطہ کيا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہيں

    غضب ہيں يہ 'مرشدان خود بيں خدا تري قوم کو بچائے!
    بگاڑ کر تيرے مسلموں کو يہ اپني عزت بنا رہے ہيں

    سنے گا اقبال کون ان کو ، يہ انجمن ہي بدل گئي ہے
    نئے زمانے ميں آپ ہم کو پراني باتيں سنا رہے ہيں !​
     
  19. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شکوہ

    شکوہ

    کيوں زياں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
    فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں

    نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
    ہم نوا ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں

    جرات آموز مري تاب سخن ہے مجھ کو
    شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو

    ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
    قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم

    ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
    نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم

    اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
    خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے

    تھي تو موجود ازل سے ہي تري ذات قديم
    پھول تھا زيب چمن پر نہ پريشاں تھي شميم

    شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عميم
    بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم

    ہم کو جمعيت خاطر يہ پريشاني تھي
    ورنہ امت ترے محبوب کي ديواني تھي؟

    ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
    کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر

    خوگر پيکر محسوس تھي انساں کي نظر
    مانتا پھر کوئي ان ديکھے خدا کو کيونکر

    تجھ کو معلوم ہے ، ليتا تھا کوئي نام ترا؟
    قوت بازوئے مسلم نے کيا کام ترا

    بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
    اہل چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي

    اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
    اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي

    پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
    بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے

    تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
    خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں

    ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
    کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں

    شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہاں داروں کي
    کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي

    ہم جو جيتے تھے تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
    اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے

    تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
    سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟

    قوم اپني جو زر و مال جہاں پر مرتي
    بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي!

    ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
    پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے

    تجھ سے سرکش ہوا کوئي تو بگڑ جاتے تھے
    تيغ کيا چيز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

    نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
    زير خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے

    تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا در خيبر کس نے
    شہر قيصر کا جو تھا ، اس کو کيا سر کس نے

    توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
    کاٹ کر رکھ ديے کفار کے لشکر کس نے

    کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہ ايراں کو؟
    کس نے پھر زندہ کيا تذکرہ يزداں کو؟

    کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
    اور تيرے ليے زحمت کش پيکار ہوئي

    کس کي شمشير جہاں گير ، جہاں دار ہوئي
    کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي

    کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
    منہ کے بل گر کے 'ھو اللہ احد' کہتے تھے

    آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقت نماز
    قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قوم حجاز

    ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
    نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز

    بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
    تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے

    محفل کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
    مے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے

    کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
    اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھي ناکام پھرے!

    دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
    بحر ظلمات ميں دوڑا ديے گھوڑے ہم نے

    صفحہ دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
    نوع انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے

    تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
    تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے

    پھر بھي ہم سے يہ گلہ ہے کہ وفادار نہيں
    ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں!

    امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہ گار بھي ہيں
    عجز والے بھي ہيں ، مست مےء پندار بھي ہيں

    ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
    سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں

    رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
    برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر

    بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں ، مسلمان گئے
    ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

    منزل دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
    اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے

    خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہيں
    اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں

    يہ شکايت نہيں، ہيں ان کے خزانے معمور
    نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور

    قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
    اور بيچارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

    اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
    بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں

    کيوں مسلمانوں ميں ہے دولت دنيا ناياب
    تيري قدرت تو ہے وہ جس کي نہ حد ہے نہ حساب

    تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
    رہرو دشت ہو سيلي زدہء موج سراب

    طعن اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
    کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟

    بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
    رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا

    ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالي دنيا
    پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا

    ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
    کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے!

    تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
    شب کے آہيں بھي گئيں ، صبح کے نالے بھي گئے

    دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلا لے بھي گئے
    آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے

    آئے عشاق، گئے وعدہء فردا لے کر
    اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخ زيبا لے کر

    درد ليلي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
    نجد کے دشت و جبل ميں رم آہو بھي وہي

    عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
    امت احمد مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي

    پھر يہ آزردگي غير سبب کيا معني
    اپنے شيداؤں پہ يہ چشم غضب کيا معني

    تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربي کو چھوڑا؟
    بت گري پيشہ کيا ، بت شکني کو چھوڑا؟

    عشق کو، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
    رسم سلمان و اويس قرني کو چھوڑا؟

    آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
    زندگي مثل بلال حبشي رکھتے ہيں

    عشق کي خير وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
    جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي

    مضطرب دل صفت قبلہ نما بھي نہ سہي
    اور پابندي آئين وفا بھي نہ سہي

    کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
    بات کہنے کي نہيں ، تو بھي تو ہرجائي ہے !

    سر فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
    اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے

    آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
    پھونک دي گرمي رخسار سے محفل تو نے

    آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
    ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟

    وادي نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
    قيس ديوانہ نظارہ محمل نہ رہا

    حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
    گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا

    اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
    بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئي

    بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لب جو بيٹھے
    سنتے ہيں جام بکف نغمہ کو کو بيٹھے

    دور ہنگامہ گلزار سے يک سو بيٹھے
    تيرے ديوانے بھي ہيں منتظر 'ھو' بيٹھے

    اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزي دے
    برق ديرينہ کو فرمان جگر سوزي دے

    قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
    لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز

    مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
    تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز

    نغمے بے تاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
    طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے

    مشکليں امت مرحوم کي آساں کر دے
    مور بے مايہ کو ہمدوش سليماں کر دے

    جنس ناياب محبت کو پھر ارزاں کر دے
    ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے

    جوئے خوں مي چکد از حسرت ديرينہء ما
    مي تپد نالہ بہ نشتر کدہ سينہ ما

    بوئے گل لے گئي بيرون چمن راز چمن
    کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غماز چمن !

    عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گيا ساز چمن
    اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پرواز چمن

    ايک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
    اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

    قمرياں شاخ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
    پےتاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں

    وہ پراني روشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں
    ڈالياں پيرہن برگ سے عرياں بھي ہوئيں

    قيد موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي
    کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي!

    لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
    کچھ مزا ہے تو يہي خون جگر پينے ميں

    کتنے بے تاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
    کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں

    اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
    داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہي نہيں

    چاک اس بلبل تنہا کي نوا سے دل ہوں
    جاگنے والے اسي بانگ درا سے دل ہوں

    يعني پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
    پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں

    عجمي خم ہے تو کيا، مے تو حجازي ہے مري
    نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري!​
     
  20. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    چاند

    چاند

    اے چاند! حسن تيرا فطرت کي آبرو ہے
    طوف حريم خاکي تيري قديم خو ہے

    يہ داغ سا جو تيرے سينے ميں ہے نماياں
    عاشق ہے تو کسي کا، يہ داغ آرزو ہے؟

    ميں مضطرب زميں پر، بے تاب تو فلک پر
    تجھ کو بھي جستجو ہے، مجھ کو بھي جستجو ہے

    انساں ہے شمع جس کي ، محفل وہي ہے تيري؟
    ميں جس طرف رواں ہوں، منزل وہي ہے تيري؟

    تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کي خامشي ميں
    پوشيدہ ہے وہ شايد غوغائے زندگي ميں

    استادہ سرو ميں ہے، سبزے ميں سو رہا ہے
    بلبل ميں نغمہ زن ہے، خاموش ہے کلي ميں

    آ ! ميں تجھے دکھاؤں رخسار روشن اس کا
    نہروں کے آئنے ميں شبنم کي آرسي ميں

    صحرا و دشت و در ميں، کہسار ميں وہي ہے
    انساں کے دل ميں، تيرے رخسار ميں وہي ہے​
     
  21. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    رات اور شاعر

    رات اور شاعر

    (1)

    رات

    کيوں ميري چاندني ميں پھرتا ہے تو پريشاں
    خاموش صورت گل ، مانند بو پريشاں

    تاروں کے موتيوں کا شايد ہے جوہري تو
    مچھلي ہے کوئي ميرے دريائے نور کي تو

    يا تو مري جبيں کا تارا گرا ہوا ہے
    رفعت کو چھوڑ کر جو بستي ميں جا بسا ہے

    خاموش ہو گيا ہے تار رباب ہستي
    ہے ميرے آئنے ميں تصوير خواب ہستي

    دريا کي تہ ميں چشم گرادب سو گئي ہے
    ساحل سے لگ کے موج بے تاب سو گئي ہے

    بستي زميں کي کيسي ہنگامہ آفريں ہے
    يوں سو گئي ہے جيسے آباد ہي نہيں ہے

    شاعر کا دل ہے ليکن ناآشنا سکوں سے
    آزاد رہ گيا تو کيونکر مرے فسوں سے؟

    (2)

    شاعر

    ميں ترے چاند کي کھيتي ميں گہر بوتا ہوں
    چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں

    دن کي شورش ميں نکلتے ہوئے گھبراتے ہيں
    عزلت شب ميں مرے اشک ٹپک جاتے ہيں

    مجھ ميں فرياد جو پنہاں ہے ، سناؤں کس کو
    تپش شوق کا نظارہ دکھاؤں کس کو

    برق ايمن مرے سينے پہ پڑي روتي ہے
    ديکھنے والي ہے جو آنکھ ، کہاں سوتي ہے!

    صفت شمع لحد مردہ ہے محفل ميري
    آہ، اے رات! بڑي دور ہے منزل ميري

    عہد حاضر کي ہوا راس نہيں ہے اس کو
    اپنے نقصان کا احساس نہيں ہے اس کو

    ضبط پيغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
    تيرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں​
     
  22. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بزم انجم

    بزم انجم

    سورج نے جاتے جاتے شام سيہ قبا کو
    طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے

    پہنا ديا شفق نے سونے کا سارا زيور
    قدرت نے اپنے گہنے چاندي کے سب اتارے

    محمل ميں خامشي کے ليلائے ظلمت آئي
    چمکے عروس شب کے موتي وہ پيارے پيارے

    وہ دور رہنے والے ہنگامہء جہاں سے
    کہتا ہے جن کو انساں اپني زباں ميں 'تارے'

    محو فلک فروزي تھي انجمن فلک کي
    عرش بريں سے آئي آواز اک ملک کي

    اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
    تابندہ قوم ساري گردوں نشيں تمھاري

    چھيڑو سرود ايسا ، جاگ اٹھيں سونے والے
    رہبر ہے قافلوں کي تاب جبيں تمھاري

    آئينے قسمتوں کے تم کو يہ جانتے ہيں
    شايد سنيں صدائيں اہل زميں تمھاري

    رخصت ہوئي خموشي تاروں بھري فضا سے
    وسعت تھي آسماں کي معمور اس نوا سے

    ''حسن ازل ہے پيدا تاروں کي دلبري ميں
    جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسي ميں

    آئين نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا
    منزل يہي کھٹن ہے قوموں کي زندگي ميں

    يہ کاروان ہستي ہے تيز گام ايسا
    قوميں کچل گئي ہيں جس کي رواروي ميں

    آنکھوں سے ہيں ہماري غائب ہزاروں انجم
    داخل ہيں وہ بھي ليکن اپني برادري ميں

    اک عمر ميں نہ سمجھے اس کو زمين والے
    جو بات پا گئے ہم تھوڑي سي زندگي ميں

    ہيں جذب باہمي سے قائم نظام سارے
    پوشيدہ ہے يہ نکتہ تاروں کي زندگي ميں​
     
  23. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سير فلک

    سير فلک

    تھا تخيل جو ہم سفر ميرا
    آسماں پر ہوا گزر ميرا

    اڑتا جاتا تھا اور نہ تھا کوئي
    جاننے والا چرخ پر ميرا

    تارے حيرت سے ديکھتے تھے مجھے
    راز سر بستہ تھا سفر ميرا

    حلقہ صبح و شام سے نکلا
    اس پرانے نظام سے نکلا

    کيا سناؤں تمھيں ارم کيا ہے
    خاتم آرزوئے ديدہ و گوش

    شاخ طوبي! پہ نغمہ ريز طيور
    بے حجابانہ حور جلوہ فروش

    ساقيان جميل جام بدست
    پينے والوں ميں شور نوشانوش

    دور جنت سے آنکھ نے ديکھا
    ايک تاريک خانہ سرد و خموش

    طالع قيس و گيسوئے ليلي
    اس کي تاريکيوں سے دوش بدوش

    خنک ايسا کہ جس سے شرما کر
    کرہ زمہرير ہو روپوش

    ميں نے پوچھي جو کيفيت اس کي
    حيرت انگيز تھا جواب سروش

    يہ مقام خنک جہنم ہے
    نار سے، نور سے تہي آغوش

    شعلے ہوتے ہيں مستعار اس کے
    جن سے لرزاں ہيں مرد عبرت کوش

    اہل دنيا يہاں جو آتے ہيں
    اپنے انگار ساتھ لاتے ہي​
     
  24. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    نصيحت

    نصيحت

    ميں نے اقبال سے از راہ نصيحت يہ کہا
    عامل روزہ ہے تو اور نہ پابند نماز

    تو بھي ہے شيوہ ارباب ريا ميں کامل
    دل ميں لندن کي ہوس ، لب پہ ترے ذکر حجاز

    جھوٹ بھي مصلحت آميز ترا ہوتا ہے
    تيرا انداز تملق بھي سراپا اعجاز

    ختم تقرير تري مدحت سرکار پہ ہے
    فکر روشن ہے ترا موجد آئين نياز

    در حکام بھي ہے تجھ کو مقام محمود
    پالسي بھي تري پيچيدہ تر از زلف اياز

    اور لوگوں کي طرح تو بھي چھپا سکتا ہے
    پردہ خدمت ديں ميں ہوس جاہ کا راز

    نظر آجاتا ہے مسجد ميں بھي تو عيد کے دن
    اثر وعظ سے ہوتي ہے طبيعت بھي گداز

    دست پرورد ترے ملک کے اخبار بھي ہيں
    چھيڑنا فرض ہے جن پر تري تشہير کا ساز

    اس پہ طرہ ہے کہ تو شعر بھي کہہ سکتا ہے
    تيري مينائے سخن ميں ہے شراب شيراز

    جتنے اوصاف ہيں ليڈر کے ، وہ ہيں تجھ ميں سبھي
    تجھ کو لازم ہے کہ ہو اٹھ کے شريک تگ و تاز

    غم صياد نہيں ، اور پر و بال بھي ہيں
    پھر سبب کيا ہے ، نہيں تجھ کو دماغ پرواز

    ''عاقبت منزل ما وادي خاموشان است
    حاليا غلغلہ در گنبد افلاک انداز''​
     
  25. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    رام

    رام

    لبريز ہے شراب حقيقت سے جام ہند
    سب فلسفي ہيں خطہء مغرب کے رام ہند

    يہ ہنديوں کے فکر فلک رس کا ہے اثر
    رفعت ميں آسماں سے بھي اونچا ہے بام ہند

    اس ديس ميں ہوئے ہيں ہزاروں ملک سرشت
    مشہور جن کے دم سے ہے دنيا ميں نام ہند

    ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
    اہل نظر سمجھتے ہيں اس کو امام ہند

    اعجاز اس چراغ ہدايت کا ہے يہي
    روشن تر از سحر ہے زمانے ميں شام ہند

    تلوار کا دھني تھا ، شجاعت ميں فرد تھا
    پاکيزگي ميں ، جوش محبت ميں فرد تھا​
     
  26. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    موٹر

    موٹر

    کيسي پتے کي بات جگندر نے کل کہي
    موٹر ہے ذوالفقار علي خان کا کيا خموش

    ہنگامہ آفريں نہيں اس کا خرام ناز
    مانند برق تيز ، مثال ہوا خموش

    ميں نے کہا ، نہيں ہے يہ موٹر پہ منحصر
    ہے جادہء حيات ميں ہر تيزپا خموش

    ہے پا شکستہ شيوہء فرياد سے جرس
    نکہت کا کارواں ہے مثال صبا خموش

    مينا مدام شورش قلقل سے پا بہ گل
    ليکن مزاج جام خرام آشنا خموش

    شاعر کے فکر کو پر پرواز خامشي
    سرمايہ دار گرمي آواز خامشي!​
     
  27. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    انسان

    انسان

    منظر چمنستاں کے زيبا ہوں کہ نازيبا
    محروم عمل نرگس مجبور تماشا ہے

    رفتار کي لذت کا احساس نہيں اس کو
    فطرت ہي صنوبر کي محروم تمنا ہے

    تسليم کي خوگر ہے جو چيز ہے دنيا ميں
    انسان کي ہر قوت سرگرم تقاضا ہے

    اس ذرے کو رہتي ہے وسعت کي ہوس ہر دم
    يہ ذرہ نہيں ، شايد سمٹا ہوا صحرا ہے

    چاہے تو بدل ڈالے ہےئت چمنستاں کي
    يہ ہستي دانا ہے ، بينا ہے ، توانا ہے​
     
  28. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    خطاب بہ جوانان اسلام

    خطاب بہ جوانان اسلام

    کبھي اے نوجواں مسلم! تدبر بھي کيا تو نے
    وہ کيا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

    تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت ميں
    کچل ڈالا تھا جس نے پائوں ميں تاج سر دارا

    تمدن آفريں خلاق آئين جہاں داري
    وہ صحرائے عرب يعني شتربانوں کا گہوارا

    سماں 'الفقر فخري' کا رہا شان امارت ميں
    ''بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زيبا را''

    گدائي ميں بھي وہ اللہ والے تھے غيور اتنے
    کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا يارا

    غرض ميں کيا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشيں کيا تھے
    جہاں گير و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا

    اگر چاہوں تو نقشہ کھينچ کر الفاظ ميں رکھ دوں
    مگر تيرے تخيل سے فزوں تر ہے وہ نظارا

    تجھے آبا سے اپنے کوئي نسبت ہو نہيں سکتي
    کہ تو گفتار وہ کردار ، تو ثابت وہ سےارا

    گنوا دي ہم نے جو اسلاف سے ميراث پائي تھي
    ثريا سے زميں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

    حکومت کا تو کيا رونا کہ وہ اک عارضي شے تھي
    نہيں دنيا کے آئين مسلم سے کوئي چارا

    مگر وہ علم کے موتي ، کتابيں اپنے آبا کي
    جو ديکھيں ان کو يورپ ميں تو دل ہوتا ہے سيپارا

    ''غني! روز سياہ پير کنعاں را تماشا کن
    کہ نور ديدہ اش روشن کند چشم زليخا را''​
     
  29. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    غرہ شوال

    غرہ شوال
    يا
    ہلال عيد


    غرہء شوال! اے نور نگاہ روزہ دار
    آ کہ تھے تيرے ليے مسلم سراپا انتظار

    تيري پيشاني پہ تحرير پيام عيد ہے
    شام تيري کيا ہے ، صبح عيش کي تميد ہے

    سرگزشت ملت بيضا کا تو آئينہ ہے
    اے مہ نو! ہم کو تجھ سے الفت ديرينہ ہے

    جس علم کے سائے ميں تيغ آزما ہوتے تھے ہم
    دشمنوں کے خون سے رنگيں قبا ہوتے تھے ہم

    تيري قسمت ميں ہم آغوشي اسي رايت کي ہے
    حسن روز افزوں سے تيرے آبرو ملت کي ہے

    آشنا پرور ہے قوم اپني ، وفا آئيں ترا
    ہے محبت خيز يہ پيراہن سيميں ترا

    اوج گردوں سے ذرا دنيا کي بستي ديکھ لے
    اپني رفعت سے ہمارے گھر کي پستي ديکھ لے !

    قافلے ديکھ اور ان کي برق رفتاري بھي ديکھ
    رہر و درماندہ کي منزل سے بيزاري بھي ديکھ

    ديکھ کر تجھ کو افق پر ہم لٹاتے تھے گہر
    اے تہي ساغر! ہماري آج ناداري بھي ديکھ

    فرقہ آرائي کي زنجيروں ميں ہيں مسلم اسير
    اپني آزادي بھي ديکھ ، ان کي گرفتاري بھي ديکھ

    ديکھ مسجد ميں شکست رشتہ تسبيح شيخ
    بت کدے ميں برہمن کي پختہ زناري بھي ديکھ

    کافروں کي مسلم آئيني کا بھي نظارہ کر
    اور اپنے مسلموں کي مسلم آزاري بھي ديکھ

    بارش سنگ حوادث کا تماشائي بھي ہو
    امت مرحوم کي آئينہ ديواري بھي ديکھ

    ہاں، تملق پيشگي ديکھ آبرو والوں کي تو
    اور جو بے آبرو تھے ، ان کي خود داري بھي ديکھ

    جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کيا
    اس حريف بے زباں کي گرم گفتاري بھي ديکھ

    ساز عشرت کي صدا مغرب کے ايوانوں ميں سن
    اور ايراں ميں ذرا ماتم کي تياري بھي ديکھ

    چاک کر دي ترک ناداں نے خلافت کي قبا
    سادگي مسلم کي ديکھ ، اوروں کي عياري بھي ديکھ

    صورت آئينہ سب کچھ ديکھ اور خاموش رہ
    شورش امروز ميں محو سرود دوش رہ​
     
  30. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شمع اور شاعر

    شمع اور شاعر
    (فروري 1912ء)
    شاعر


    دوش مي گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
    گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے

    درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
    نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے

    مدتے مانند تو من ہم نفس مي سوختم
    در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے

    مي تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
    بر نمي خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے

    از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختي
    کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختي

    شمع

    مجھ کو جو موج نفس ديتي ہے پيغام اجل
    لب اسي موج نفس سے ہے نوا پيرا ترا

    ميں تو جلتي ہوں کہ ہے مضمر مري فطرت ميں سوز
    تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا

    گريہ ساماں ميں کہ ميرے دل ميں ہے طوفان اشک
    شبنم افشاں تو کہ بزم گل ميں ہو چرچا ترا

    گل بہ دامن ہے مري شب کے لہو سے ميري صبح
    ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا

    يوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہيں
    شعلہ ہے مثل چراغ لالہء صحرا ترا

    سوچ تو دل ميں ، لقب ساقي کا ہے زيبا تجھے؟
    انجمن پياسي ہے اور پيمانہ بے صہبا ترا!

    اور ہے تيرا شعار ، آئين ملت اور ہے
    زشت روئي سے تري آئينہ ہے رسوا ترا

    کعبہ پہلو ميں ہے اور سودائي بت خانہ ہے
    کس قدر شوريدہ سر ہے شوق بے پروا ترا

    قيس پيدا ہوں تري محفل ميں يہ ممکن نہيں
    تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے ليلا ترا

    اے در تابندہ ، اے پروردہء آغوش موج!
    لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دريا ترا

    اب نوا پيرا ہے کيا ، گلشن ہوا برہم ترا
    بے محل تيرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا

    تھا جنھيں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے
    لے کے اب تو وعدہ ديدار عام آيا تو کيا

    انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
    ساقيا! محفل ميں تو آتش بجام آيا تو کيا

    آہ، جب گلشن کي جمعيت پريشاں ہو چکي
    پھول کو باد بہاري کا پيام آيا تو کيا

    آخر شب ديد کے قابل تھي بسمل کي تڑپ
    صبحدم کوئي اگر بالائے بام آيا تو کيا

    بجھ گيا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
    اب کوئي سودائي سوز تمام آيا تو کيا

    پھول بے پروا ہيں ، تو گرم نوا ہو يا نہ ہو
    کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو يا نہ ہو

    شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالي رہا
    تيرے پروانے بھي اس لذت سے بيگانے رہے

    رشتہ الفت ميں جب ان کو پرو سکتا تھا تو
    پھر پريشاں کيوں تري تسبيح کے دانے رہے

    شوق بے پروا گيا ، فکر فلک پيما گيا
    تيري محفل ميں نہ ديوانے نہ فرزانے رہے

    وہ جگر سوزي نہيں ، وہ شعلہ آشامي نہيں
    فائدہ پھر کيا جو گرد شمع پروانے رہے

    خير، تو ساقي سہي ليکن پلائے گا کسے
    اب نہ وہ مے کش رہے باقي نہ مے خانے رہے

    رو رہي ہے آج اک ٹوٹي ہوئي مينا اسے
    کل تلک گردش ميں جس ساقي کے پيمانے رہے

    آج ہيں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
    رقص ميں ليلي رہي ، ليلي کے ديوانے رہے

    وائے ناکامي! متاع کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساس زياں جاتا رہا

    جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ويرانے کبھي
    شہر ان کے مٹ گئے آبادياں بن ہو گئيں

    سطوت توحيد قائم جن نمازوں سے ہوئي
    وہ نمازيں ہند ميں نذر برہمن ہو گئيں

    دہر ميں عيش دوام آئيں کي پابندي سے ہے
    موج کو آزادياں سامان شيون ہو گئيں

    خود تجلي کو تمنا جن کے نظاروں کي تھي
    وہ نگاہيں نا اميد نور ايمن ہوگئيں

    اڑتي پھرتي تھيں ہزاروں بلبليں گلزار ميں
    دل ميں کيا آئي کہ پابند نشيمن ہو گئيں

    وسعت گردوں ميں تھي ان کي تڑپ نظارہ سوز
    بجلياں آسودہء دامان خرمن ہوگئيں

    ديدہء خونبار ہو منت کش گلزار کيوں
    اشک پيہم سے نگاہيں گل بہ دامن ہو گئيں

    شام غم ليکن خبر ديتي ہے صبح عيد کي
    ظلمت شب ميں نظر آئي کرن اميد کي

    مژدہ اے پيمانہ بردار خمستان حجاز!
    بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آيا ہے ہوش

    نقد خودداري بہائے بادہء اغيار تھي
    پھر دکاں تيري ہے لبريز صدائے نائو نوش

    ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سيمايان ہند
    پھر سليمي کي نظر ديتي ہے پيغام خروش

    پھر يہ غوغا ہے کہ لاساقي شراب خانہ ساز
    دل کے ہنگامے مےء مغرب نے کر ڈالے خموش

    نغمہ پيرا ہو کہ يہ ہنگام خاموشي نہيں
    ہے سحر کا آسماں خورشيد سے مينا بدوش

    در غم ديگر بسوز و ديگراں را ہم بسوز
    گفتمت روشن حديثے گر تواني دار گوش

    کہہ گئے ہيں شاعري جزو يست از پيغمبري
    ہاں سنا دے محفل ملت کو پيغام سروش

    آنکھ کو بيدار کر دے وعدہ ديدار سے
    زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

    رہزن ہمت ہوا ذوق تن آساني ترا
    بحر تھا صحرا ميں تو ، گلشن ميں مثل جو ہوا

    اپني اصليت پہ قائم تھا تو جمعيت بھي تھي
    چھوڑ کر گل کو پريشاں کاروان بو ہوا

    زندگي قطرے کي سکھلاتي ہے اسرار حيات
    يہ کبھي گوہر ، کبھي شبنم ، کبھي آنسو ہوا

    پھر کہيں سے اس کو پيدا کر ، بڑي دولت ہے يہ
    زندگي کيسي جو دل بيگانہء پہلو ہوا

    فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہيں
    موج ہے دريا ميں اور بيرون دريا کچھ نہيں

    پردہ دل ميں محبت کو ابھي مستور رکھ
    آبر باقي تري ملت کي جميعت ہے تھي

    جب يہ جميعت گئي ، دنيا ميں رسوا تو ہوا
    يعني اپني مے کو رسوا صورت مينا نہ کر

    خيمہ زن ہو وادي سينا ميں مانند کليم
    شعلہ تحقيق کو غارت گر کاشانہ کر

    شمع کو بھي ہو ذرا معلوم انجام ستم
    صرف تعمير سحر خاکستر پروانہ کر

    تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقي نہ ہو
    عين دريا ميں حباب آسا نگوں پيمانہ کر

    کيفيت باقي پرانے کوہ و صحرا ميں نہيں
    ہے جنوں تيرا نيا، پيدا نيا ويرانہ کر

    خاک ميں تجھ کو مقدر نے ملايا ہے اگر
    تو عصا افتاد سے پيدا مثال دانہ کر

    ہاں، اسي شاخ کہن پر پھر بنا لے آشياں
    اہل گلشن کو شہيد نغمہ مستانہ کر

    اس چمن ميں پيرو بلبل ہو يا تلميذ گل
    يا سراپا نالہ بن جا يا نوا پيدا نہ کر

    کيوں چمن ميں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو
    لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو

    آشنا اپني حقيقت سے ہو اے دہقاں ذرا
    دانہ تو ، کھيتي بھي تو ، باراں بھي تو ، حاصل بھي تو

    آہ، کس کي جستجو آوارہ رکھتي ہے تجھے
    راہ تو، رہرو بھي تو، رہبر بھي تو ، منزل بھي تو

    کانپتا ہے دل ترا انديشہء طوفاں سے کيا
    ناخدا تو، بحر تو ، کشتي بھي تو ، ساحل بھي تو

    ديکھ آ کر کوچہء چاک گريباں ميں کبھي
    قيس تو، ليلي بھي تو، صحرا بھي تو، محمل بھي تو

    وائے ناداني کہ تو محتاج ساقي ہو گيا
    مے بھي تو، مينا بھي تو، ساقي بھي تو، محفل بھي تو

    شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غير اللہ کو
    خوف باطل کيا کہ ہے غارت گر باطل بھي تو

    بے خبر! تو جوہر آئينہء ايام ہے
    تو زمانے ميں خدا کا آخري پيغام ہے

    اپني اصليت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
    قطرہ ہے، ليکن مثال بحر بے پاياں بھي ہے

    کيوں گرفتار طلسم ہيچ مقداري ہے تو
    ديکھ تو پوشيدہ تجھ ميں شوکت طوفاں بھي ہے

    سينہ ہے تيرا اميں اس کے پيام ناز کا
    جو نظام دہر ميں پيدا بھي ہے، پنہاں بھي ہے

    ہفت کشور جس سے ہو تسخير بے تيغ و تفنگ
    تو اگر سمجھے تو تيرے پاس وہ ساماں بھي ہے

    اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت
    اے تغافل پيشہ! تجھ کو ياد وہ پيماں بھي ہے ؟

    تو ہي ناداں چند کليوں پر قناعت کر گيا
    ورنہ گلشن ميں علاج تنگي داماں بھي ہے

    دل کي کيفيت ہے پيدا پردہء تقرير ميں
    کسوت مينا ميں مے مستور بھي ، عرياں بھي ہے

    پھونک ڈالا ہے مري آتش نوائي نے مجھے
    اورميري زندگاني کا يہي ساماں بھي ہے

    راز اس آتش نوائي کا مرے سينے ميں ديکھ
    جلوہ تقدير ميرے دل کے آئينے ميں ديکھ!

    آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئينہ پوش
    اور ظلمت رات کي سيماب پا ہو جائے گي

    اس قدر ہوگي ترنم آفريں باد بہار
    نکہت خوابيدہ غنچے کي نوا ہو جائے گي

    آمليں گے سينہ چاکان چمن سے سينہ چاک
    بزم گل کي ہم نفس باد صبا ہو جائے گي

    شبنم افشاني مري پيدا کرے گي سوز و ساز
    اس چمن کي ہر کلي درد آشنا ہو جائے گي

    ديکھ لو گے سطوت رفتار دريا کا مآل
    موج مضطر ہي اسے زنجير پا ہو جائے گي

    پھر دلوں کو ياد آ جائے گا پيغام سجود
    پھر جبيں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گي

    نالہء صياد سے ہوں گے نوا ساماں طيور
    خون گلچيں سے کلي رنگيں قبا ہو جائے گي

    آنکھ جو کچھ ديکھتي ہے ، لب پہ آ سکتا نہيں
    محو حيرت ہوں کہ دنيا کيا سے کيا ہو جائے گي

    شب گريزاں ہو گي آخر جلوہ خورشيد سے
    يہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحيد سے​
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں