1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بانگ درا (مکمل)

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از الف لام میم, ‏30 جولائی 2006۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں

    ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں

    ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں
    مري سادگي ديکھ کيا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابي
    کوئي بات صبر آزما چاہتا ہوں

    يہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں، مگر شوخ اتنا
    وہي لن تراني سنا چاہتا ہوں

    کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں، بجھا چاہتا ہوں

    بھري بزم ميں راز کي بات کہہ دي
    بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں​
     
  2. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے

    کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے

    کشادہ دست کرم جب وہ بے نياز کرے
    نياز مند نہ کيوں عاجزي پہ ناز کرے

    بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے اے واعظ!
    خدا وہ کيا ہے جو بندوں سے احتراز کرے

    مري نگاہ ميں وہ رند ہي نہيں ساقي
    جو ہوشياري و مستي ميں امتياز کرے

    مدام گوش بہ دل رہ ، يہ ساز ہے ايسا
    جو ہو شکستہ تو پيدا نوائے راز کرے

    کوئي يہ پوچھے کہ واعظ کا کيا بگڑتا ہے
    جو بے عمل پہ بھي رحمت وہ بے نياز کرے

    سخن ميں سوز ، الہي کہاں سے آتا ہے
    يہ چيز وہ ہے کہ پتھر کو بھي گداز کرے

    تميز لالہ و گل سے ہے نالہء بلبل
    جہاں ميں وانہ کوئي چشم امتياز کرے

    غرور زہد نے سکھلا ديا ہے واعظ کو
    کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے

    ہوا ہو ايسي کہ ہندوستاں سے اے اقبال
    اڑا کے مجھ کو غبار رہ حجاز کرے​
     
  3. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سختياں کرتا ہوں دل پر، غير سے غافل ہوں ميں

    سختياں کرتا ہوں دل پر، غير سے غافل ہوں ميں
    ہائے کيا اچھي کہي ظالم ہوں ميں، جاہل ہوں ميں

    ميں جبھي تک تھا کہ تيري جلوہ پيرائي نہ تھي
    جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں ميں

    علم کے دريا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست
    وائے محرومي! خزف چين لب ساحل ہوں ميں

    ہے مري ذلت ہي کچھ ميري شرافت کي دليل
    جس کي غفلت کو ملک روتے ہيں وہ غافل ہوں ميں

    بزم ہستي! اپني آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
    تو تو اک تصوير ہے محفل کي اور محفل ہوں ميں

    ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
    آپ ہي گويا مسافر ، آپ ہي منزل ہوں ميں​
     
  4. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھ

    مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھوڑ دے

    مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھي چھوڑ دے
    نظارے کي ہوس ہو تو ليلي بھي چھوڑ دے

    واعظ! کمال ترک سے ملتي ہے ياں مراد
    دنيا جو چھوڑ دي ہے تو عقبي بھي چھوڑ دے

    تقليد کي روش سے تو بہتر ہے خودکشي
    رستہ بھي ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھي چھوڑ دے

    مانند خامہ تيري زباں پر ہے حرف غير
    بيگانہ شے پہ نازش بے جا بھي چھوڑ دے

    لطف کلام کيا جو نہ ہو دل ميں درد عشق
    بسمل نہيں ہے تو تو تڑپنا بھي چھوڑ دے

    شبنم کي طرح پھولوں پہ رو، اور چمن سے چل
    اس باغ ميں قيام کا سودا بھي چھوڑ دے

    ہے عاشقي ميں رسم الگ سب سے بيٹھنا
    بت خانہ بھي، حرم بھي، کليسا بھي چھوڑ دے

    سوداگري نہيں، يہ عبادت خدا کي ہے
    اے بے خبر! جزا کي تمنا بھي چھوڑ دے

    اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
    ليکن کبھي کبھي اسے تنہا بھي چھوڑ دے

    جينا وہ کيا جو ہو نفس غير پر مدار
    شہرت کي زندگي کا بھروسا بھي چھوڑ دے

    شوخي سي ہے سوال مکرر ميں اے کليم!
    شرط رضا يہ ہے کہ تقاضا بھي چھوڑ دے

    واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز ميں
    اقبال کو يہ ضد ہے کہ پينا بھي چھوڑ دے​
     
  5. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محبت

    محبت

    عروس شب کي زلفيں تھيں ابھي نا آشنا خم سے
    ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے

    قمر اپنے لباس نو ميں بيگانہ سا لگتا تھا
    نہ تھا واقف ابھي گردش کے آئين مسلم سے

    ابھي امکاں کے ظلمت خانے سے ابھري ہي تھي دنيا
    مذاق زندگي پوشيدہ تھا پہنائے عالم سے

    کمال نظم ہستي کي ابھي تھي ابتدا گويا
    ہويدا تھي نگينے کي تمنا چشم خاتم سے

    سنا ہے عالم بالا ميں کوئي کيمياگر تھا
    صفا تھي جس کي خاک پا ميں بڑھ کر ساغر جم سے

    لکھا تھا عرش کے پائے پہ اک اکسير کا نسخہ
    چھپاتے تھے فرشتے جس کو چشم روح آدم سے

    نگاہيں تاک ميں رہتي تھيں ليکن کيمياگر کي
    وہ اس نسخے کو بڑھ کر جانتا تھا اسم اعظم سے

    بڑھا تسبيح خواني کے بہانے عرش کي جانب
    تمنائے دلي آخر بر آئي سعي پيہم سے

    پھرايا فکر اجزا نے اسے ميدان امکاں ميں
    چھپے گي کيا کوئي شے بارگاہ حق کے محرم سے

    چمک تارے سے مانگي، چاند سے داغ جگر مانگا
    اڑائي تيرگي تھوڑي سي شب کي زلف برہم سے

    تڑپ بجلي سے پائي، حور سے پاکيزگي پائي
    حرارت لي نفسہائے مسيح ابن مريم سے

    ذرا سي پھر ربوبيت سے شان بے نيازي لي
    ملک سے عاجزي، افتادگي تقدير شبنم سے

    پھر ان اجزا کو گھولا چشمہء حيواں کے پاني ميں
    مرکب نے محبت نام پايا عرش اعظم سے

    مہوس نے يہ پاني ہستي نوخيز پر چھڑکا
    گرہ کھولي ہنر نے اس کے گويا کار عالم سے

    ہوئي جنبش عياں، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا
    گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

    خرام ناز پايا آفتابوں نے، ستاروں نے
    چٹک غنچوں نے پائي، داغ پائے لالہ زاروں نے​
     
  6. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    حقيقت حسن

    حقيقت حسن

    خدا سے حسن نے اک روز يہ سوال کيا
    جہاں ميں کيوں نہ مجھے تو نے لازوال کيا

    ملا جواب کہ تصوير خانہ ہے دنيا
    شب دراز عدم کا فسانہ ہے دنيا

    ہوئي ہے رنگ تغير سے جب نمود اس کي
    وہي حسيں ہے حقيقت زوال ہے جس کي

    کہيں قريب تھا ، يہ گفتگو قمر نے سني
    فلک پہ عام ہوئي ، اختر سحر نے سني

    سحر نے تارے سے سن کر سنائي شبنم کو
    فلک کي بات بتا دي زميں کے محرم کو

    بھر آئے پھول کے آنسو پيام شبنم سے
    کلي کا ننھا سا دل خون ہو گيا غم سے

    چمن سے روتا ہوا موسم بہار گيا
    شباب سير کو آيا تھا ، سوگوار گيا​
     
  7. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
  8. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سوامي رام تيرتھ

    سوامي رام تيرتھ

    ہم بغل دريا سے ہے اے قطرہ بے تاب تو
    پہلے گوہر تھا ، بنا اب گوہر ناياب تو

    آہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
    ميں ابھي تک ہوں اسير امتياز رنگ و بو

    مٹ کے غوغا زندگي کا شورش محشر بنا
    يہ شرارہ بجھ کے آتش خانہ آزر بنا

    نفي ہستي اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
    'لا' کے دريا ميں نہاں موتي ہے 'الااللہ' کا

    چشم نابينا سے مخفي معني انجام ہے
    تھم گئي جس دم تڑپ ، سيماب سيم خام ہے

    توڑ ديتا ہے بت ہستي کو ابراہيم عشق
    ہوش کا دارو ہے گويا مستي تسنيم عشق​
     
  9. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    طلبہء علي گڑھ کالج کے نام

    طلبہء علي گڑھ کالج کے نام

    اوروں کا ہے پيام اور ، ميرا پيام اور ہے
    عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے

    طائر زير دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
    يہ بھي سنو کہ نالہء طائر بام اور ہے

    آتي تھي کوہ سے صدا راز حيات ہے سکوں
    کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے

    جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
    اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے

    موت ہے عيش جاوداں، ذوق طلب اگر نہ ہو
    گردش آدمي ہے اور، گردش جام اور ہے

    شمع سحر يہ کہہ گئي سوز ہے زندگي کا ساز
    غم کدہء نمود ميں شرط دوام اور ہے

    بادہ ہے نيم رس ابھي ، شوق ہے نارسا ابھي
    رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کليسيا ابھي​
     
  10. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اختر صبح

    اختر صبح

    ستارہ صبح کا روتا تھا اور يہ کہتا تھا
    ملي نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملي

    ہوئي ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے
    اماں مجھي کو تہ دامن سحر نہ ملي

    بساط کيا ہے بھلا صبح کے ستارے کي
    نفس حباب کا، تابندگي شرارے کي

    کہا يہ ميں نے کہ اے زيور جبين سحر!
    غم فنا ہے تجھے! گنبد فلک سے اتر

    ٹپک بلندي گردوں سے ہمرہ شبنم
    مرے رياض سخن کي فضا ہے جاں پرور

    ميں باغباں ہوں، محبت بہار ہے اس کي
    بنا مثال ابد پائدار ہے اس کي​
     
  11. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    حسن و عشق

    حسن و عشق

    جس طرح ڈوبتي ہے کشتي سيمين قمر
    نور خورشيد کے طوفان ميں ہنگام سحر

    جسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
    چاندني رات ميں مہتاب کا ہم رنگ کنول

    جلوہ طور ميں جيسے يد بيضائے کليم
    موجہ نکہت گلزار ميں غنچے کي شميم​

    [align=left:3k10jgzu]ہے ترے سيل محبت ميں يونہي دل ميرا[/align:3k10jgzu]

    تو جو محفل ہے تو ہنگامہء محفل ہوں ميں
    حسن کي برق ہے تو ، عشق کا حاصل ہوں ميں

    تو سحر ہے تو مرے اشک ہيں شبنم تيري
    شام غربت ہوں اگر ميں تو شفق تو ميري

    مرے دل ميں تري زلفوں کي پريشاني ہے
    تري تصوير سے پيدا مري حيراني ہے​

    [align=left:3k10jgzu]حسن کامل ہے ترا ، عشق ہے کامل ميرا[/align:3k10jgzu]

    ہے مرے باغ سخن کے ليے تو باد بہار
    ميرے بے تاب تخيل کو ديا تو نے قرار

    جب سے آباد ترا عشق ہوا سينے ميں
    نئے جوہر ہوئے پيدا مرے آئينے ميں

    حسن سے عشق کي فطرت کو ہے تحريک کمال
    تجھ سے سر سبز ہوئے ميري اميدوں کے نہال​

    [align=left:3k10jgzu]قافلہ ہو گيا آسودہء منزل ميرا[/align:3k10jgzu]
     
  12. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ــــــــ کي گود ميں بلي ديکھ کر

    ــــــــ کي گود ميں بلي ديکھ کر

    تجھ کو دزديدہ نگاہي يہ سکھا دي کس نے
    رمز آغاز محبت کي بتا دي کس نے

    ہر ادا سے تيري پيدا ہے محبت کيسي
    نيلي آنکھوں سے ٹپکتي ہے ذکاوت کيسي

    ديکھتي ہے کبھي ان کو، کبھي شرماتي ہے
    کبھي اٹھتي ہے ، کبھي ليٹ کے سو جاتي ہے

    آنکھ تيري صفت آئنہ حيران ہے کيا
    نور آگاہي سے روشن تري پہچان ہے کيا

    مارتي ہے انھيں پونہچوں سے، عجب ناز ہے يہ
    چھيڑ ہے، غصہ ہے يا پيار کا انداز ہے يہ؟

    شوخ تو ہوگي تو گودي سے اتاريں گے تجھے
    گر گيا پھول جو سينے کا تو ماريں گے تجھے

    کيا تجسس ہے تجھے، کس کي تمنائي ہے
    آہ! کيا تو بھي اسي چيز کي سودائي ہے

    خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہيں
    صورت دل ہے يہ ہر چيز کے باطن ميں مکيں

    شيشہ دہر ميں مانند مے ناب ہے عشق
    روح خورشيد ہے، خون رگ مہتاب ہے عشق

    دل ہر ذرہ ميں پوشيدہ کسک ہے اس کي
    نور يہ وہ ہے کہ ہر شے ميں جھلک ہے اس کي

    کہيں سامان مسرت، کہيں ساز غم ہے
    کہيں گوہر ہے، کہيں اشک، کہيں شبنم ہے​
     
  13. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کلي

    کلي

    جب دکھاتي ہے سحر عارض رنگيں اپنا
    کھول ديتي ہے کلي سينہء زريں اپنا

    جلوہ آشام ہے صبح کے مے خانے ميں
    زندگي اس کي ہے خورشيد کے پيمانے ميں

    سامنے مہر کے دل چير کے رکھ ديتي ہے
    کس قدر سينہ شگافي کے مزے ليتي ہے

    مرے خورشيد! کبھي تو بھي اٹھا اپني نقاب
    بہر نظارہ تڑپتي ہے نگاہ بے تاب

    تيرے جلوے کا نشيمن ہو مرے سينے ميں
    عکس آباد ہو تيرا مرے آئينے ميں

    زندگي ہو ترا نظارہ مرے دل کے ليے
    روشني ہو تري گہوارہ مرے دل کے ليے

    ذرہ ذرہ ہو مرا پھر طرب اندوز حيات
    ہو عياں جوہر انديشہ ميں پھر سوز حيات

    اپنے خورشيد کا نظارہ کروں دور سے ميں
    صفت غنچہ ہم آغوش رہوں نور سے ميں

    جان مضطر کي حقيقت کو نماياں کر دوں
    دل کے پوشيدہ خيالوں کو بھي عرياں کر دوں​
     
  14. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    چاند اور تارے

    چاند اور تارے

    ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
    تارے کہنے لگے قمر سے

    نظارے رہے وہي فلک پر
    ہم تھک بھي گئے چمک چمک کر

    کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
    چلنا چلنا ، مدام چلنا

    بے تاب ہے اس جہاں کي ہر شے
    کہتے ہيں جسے سکوں، نہيں ہے

    رہتے ہيں ستم کش سفر سب
    تارے، انساں، شجر، حجر سب

    ہوگا کبھي ختم يہ سفر کيا
    منزل کبھي آئے گي نظر کيا

    کہنے لگا چاند ، ہم نشينو
    اے مزرع شب کے خوشہ چينو!

    جنبش سے ہے زندگي جہاں کي
    يہ رسم قديم ہے يہاں کي

    ہے دوڑتا اشہب زمانہ
    کھا کھا کے طلب کا تازيانہ

    اس رہ ميں مقام بے محل ہے
    پوشيدہ قرار ميں اجل ہے

    چلنے والے نکل گئے ہيں
    جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہيں

    انجام ہے اس خرام کا حسن
    آغاز ہے عشق، انتہا حسن​
     
  15. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    وصال

    وصال

    جستجو جس گل کي تڑپاتي تھي اے بلبل مجھے
    خوبي قسمت سے آخر مل گيا وہ گل مجھے

    خود تڑپتا تھا ، چمن والوں کو تڑپاتا تھا ميں
    تجھ کو جب رنگيں نوا پاتا تھا ، شرماتا تھا ميں

    ميرے پہلو ميں دل مضطر نہ تھا ، سيماب تھا
    ارتکاب جرم الفت کے ليے بے تاب تھا

    نامرادي محفل گل ميں مري مشہور تھي
    صبح ميري آئنہ دار شب ديجور تھي

    از نفس در سينہء خوں گشتہ نشتر داشتم
    زير خاموشي نہاں غوغائے محشر داشتم

    اب تاثر کے جہاں ميں وہ پريشاني نہيں
    اہل گلشن پر گراں ميري غزل خواني نہيں

    عشق کي گرمي سے شعلے بن گئے چھالے مرے
    کھليتے ہيں بجليوں کے ساتھ اب نالے مرے

    غازہء الفت سے يہ خاک سيہ آئينہ ہے
    اور آئينے ميں عکس ہمدم ديرينہ ہے

    قيد ميں آيا تو حاصل مجھ کو آزادي ہوئي
    دل کے لٹ جانے سے ميرے گھر کي آبادي ہوئي

    ضو سے اس خورشيد کي اختر مرا تابندہ ہے
    چاندني جس کے غبار راہ سے شرمندہ ہے

    يک نظر کر دي و آداب فنا آموختي
    اے خنک روزے کہ خاشاک مرا واسوختي​
     
  16. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    سليمي

    سليمي

    جس کي نمود ديکھي چشم ستارہ بيں نے
    خورشيد ميں، قمر ميں، تاروں کي انجمن ميں

    صوفي نے جس کو دل کے ظلمت کدے ميں پايا
    شاعر نے جس کو ديکھا قدرت کے بانکپن ميں

    جس کي چمک ہے پيدا، جس کي مہک ہويدا
    شبنم کے موتيوں ميں، پھولوں کے پيرہن ميں

    صحرا کو ہے بسايا جس نے سکوت بن کر
    ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن ميں

    ہر شے ميں ہے نماياں يوں تو جمال اس کا
    آنکھوں ميں ہے سليمي تيري کمال اس کا​
     
  17. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عا شق ہر جائي

    (1)

    ہے عجب مجموعہء اضداد اے اقبال تو
    رونق ہنگامہء محفل بھي ہے، تنہا بھي ہے

    تيرے ہنگاموں سے اے ديوانہ رنگيں نوا!
    زينت گلشن بھي ہے ، آرائش صحرا بھي ہے

    ہم نشيں تاروں کا ہے تو رفعت پرواز سے
    اے زميں فرسا ، قدم تيرا فلک پيما بھي ہے

    عين شغل ميں پيشاني ہے تيري سجدہ ريز
    کچھ ترے مسلک ميں رنگ مشرب مينا بھي ہے

    مثل بوئے گل لباس رنگ سے عرياں ہے تو
    ہے تو حکمت آفريں ، ليکن تجھے سودا بھي ہے

    جانب منزل رواں بے نقش پا مانند موج
    اور پھر افتادہ مثل ساحل دريا بھي ہے

    حسن نسواني ہے بجلي تيري فطرت کے ليے
    پھر عجب يہ ہے کہ تيرا عشق بے پروا بھي ہے

    تيري ہستي کا ہے آئين تفنن پر مدار
    تو کبھي ايک آستانے پر جبيں فرسا بھي ہے ؟

    ہے حسينوں ميں وفا نا آشنا تيرا خطاب
    اے تلون کيش! تو مشہور بھي ، رسوا بھي ہے

    لے کے آيا ہے جہاں ميں عادت سيماب تو
    تيري بے تابي کے صدقے، ہے عجب بے تاب تو

    (2)

    عشق کي آشفتگي نے کر ديا صحرا جسے
    مشت خاک ايسي نہاں زير قبا رکھتا ہوں ميں

    ہيں ہزاروں اس کے پہلو ، رنگ ہر پہلو کا اور
    سينے ميں ہيرا کوئي ترشا ہوا رکھتا ہوں ميں

    دل نہيں شاعر کا ، ہے کيفيتوں کي رستخيز
    کيا خبر تجھ کو درون سينہ کيا رکھتا ہوں ميں

    آرزو ہر کيفيت ميں اک نئے جلوے کي ہے
    مضطرب ہوں، دل سکوں نا آشنا رکھتا ہوں ميں

    گو حسين تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
    حسن سے مضبوط پيمان وفا رکھتا ہوں ميں

    بے نيازي سے ہے پيدا ميري فطرت کا نياز
    سوز و ساز جستجو مثل صبا رکھتا ہوں ميں

    موجب تسکيں تماشائے شرار جستہ اے
    ہو نہيں سکتا کہ دل برق آشنا رکھتا ہوں ميں

    ہر تقاضا عشق کي فطرت کا ہو جس سے خموش
    آہ! وہ کامل تجلي مدعا رکھتا ہوں ميں

    جستجو کل کي ليے پھرتي ہے اجزا ميں مجھے
    حسن بے پاياں ہے، درد لادوا رکھتا ہوں ميں

    زندگي الفت کي درد انجاميوں سے ہے مري
    عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں ميں

    سچ اگر پوچھے تو افلاس تخيل ہے وفا
    دل ميں ہر دم اک نيا محشر بپا رکھتا ہوں ميں

    فيض ساقي شبنم آسا ، ظرف دل دريا طلب
    تشنہء دائم ہوں آتش زير پا رکھتا ہوں ميں

    مجھ کو پيدا کر کے اپنا نکتہ چيں پيدا کيا
    نقش ہوں، اپنے مصور سے گلا رکھتا ہوں ميں

    محفل ہستي ميں جب ايسا تنک جلوہ تھا حسن
    پھر تخيل کس ليے لا انتہا رکھتا ہوں ميں

    در بيابان طلب پيوستہ مي کوشيم ما
    موج بحريم و شکست خويش بر دوشيم ما​
     
  18. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کوشش نا تمام

    کوشش نا تمام

    فرقت آفتاب ميں کھاتي ہے پيچ و تاب صبح
    چشم شفق ہے خوں فشاں اختر شام کے ليے

    رہتي ہے قيس روز کو ليلي شام کي ہوس
    اختر صبح مضطرب تاب دوام کے ليے

    کہتا تھا قطب آسماں قافلہ نجوم سے
    ہمرہو، ميں ترس گيا لطف خرام کے ليے

    سوتوں کو نديوں کا شوق، بحر کا نديوں کو عشق
    موجہء بحر کو تپش ماہ تمام کے ليے

    حسن ازل کہ پردہء لالہ و گل ميں ہے نہاں
    کہتے ہيں بے قرار ہے جلوہء عام کے ليے

    راز حيات پو چھ لے خضر خجستہ گام سے
    زندہ ہر ايک چيز ہے کوشش ناتمام سے​
     
  19. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    نوائے غم

    نوائے غم

    زندگاني ہے مري مثل رباب خاموش
    جس کي ہر رنگ کے نغموں سے ہے لبريز آغوش

    بربط کون و مکاں جس کي خموشي پہ نثار
    جس کے ہر تار ميں ہيں سينکڑوں نغموں کے مزار

    محشرستان نوا کا ہے اميں جس کا سکوت
    اور منت کش ہنگامہ نہيں جس کا سکوت

    آہ! اميد محبت کي بر آئي نہ کبھي
    چوٹ مضراب کي اس ساز نے کھائي نہ کبھي

    مگر آتي ہے نسيم چمن طور کبھي
    سمت گردوں سے ہوائے نفس حور کبھي

    چھيڑ آہستہ سے ديتي ہے مرا تار حيات
    جس سے ہوتي ہے رہا روح گرفتار حيات

    نغمہ ياس کي دھيمي سي صدا اٹھتي ہے
    اشک کے قافلے کو بانگ درا اٹھتي ہے

    جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے
    ميري فطرت کي بلندي ہے نوائے غم سے​
     
  20. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عشرت امروز

    عشرت امروز

    نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پيام عيش و سرور
    نہ کھينچ نقشہ کيفيت شراب طہور

    فراق حور ميں ہو غم سے ہمکنار نہ تو
    پري کو شيشہ الفاظ ميں اتار نہ تو

    مجھے فريفتہ ساقي جميل نہ کر
    بيان حور نہ کر، ذکر سلسبيل نہ کر

    مقام امن ہے جنت، مجھے کلام نہيں
    شباب کے ليے موزوں ترا پيام نہيں

    شباب، آہ! کہاں تک اميدوار رہے
    وہ عيش، عيش نہيں، جس کا انتظار رہے

    وہ حسن کيا جو محتاج چشم بينا ہو
    نمود کے ليے منت پذير فردا ہو

    عجيب چيز ہے احساس زندگاني کا
    عقيدہ 'عشرت امروز' ہے جواني کا​
     
  21. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    انسان

    انسان

    قدرت کا عجيب يہ ستم ہے!

    انسان کو راز جو بنايا
    راز اس کي نگاہ سے چھپايا

    بے تاب ہے ذوق آگہي کا
    کھلتا نہيں بھيد زندگي کا

    حيرت آغاز و انتہا ہے
    آئينے کے گھر ميں اور کيا ہے

    ہے گرم خرام موج دريا
    دريا سوئے سجر جادہ پيما

    بادل کو ہوا اڑا رہي ہے
    شانوں پہ اٹھائے لا رہي ہے

    تارے مست شراب تقدير
    زندان فلک ميں پا بہ زنجير

    خورشيد، وہ عابد سحر خيز
    لانے والا پيام بر خيز

    مغرب کي پہاڑيوں ميں چھپ کر
    پيتا ہے مے شفق کا ساغر

    لذت گير وجود ہر شے
    سر مست مے نمود ہر شے

    کوئي نہيں غم گسار انساں
    کيا تلخ ہے روزگار انساں!​
     
  22. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جلوہء حسن

    جلوہء حسن

    جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بے تاب
    پالتا ہے جسے آغوش تخيل ميں شباب

    ابدي بنتا ہے يہ عالم فاني جس سے
    ايک افسانہ رنگيں ہے جواني جس سے

    جو سکھاتا ہے ہميں سر بہ گريباں ہونا
    منظر عالم حاضر سے گريزاں ہونا

    دور ہو جاتي ہے ادراک کي خامي جس سے
    عقل کرتي ہے تاثر کي غلامي جس سے

    آہ! موجود بھي وہ حسن کہيں ہے کہ نہيں
    خاتم دہر ميں يا رب وہ نگيں ہے کہ نہيں​
     
  23. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ايک شام

    ايک شام
    (دريائے نيکر 'ہائيڈل برگ' کے کنارے پر)


    خاموش ہے چاندني قمر کي
    شاخيں ہيں خموش ہر شجر کي

    وادي کے نوا فروش خاموش
    کہسار کے سبز پوش خاموش

    فطرت بے ہوش ہو گئي ہے
    آغوش ميں شب کے سو گئي ہے

    کچھ ايسا سکوت کا فسوں ہے
    نيکر کا خرام بھي سکوں ہے

    تاروں کا خموش کارواں ہے
    يہ قافلہ بے درا رواں ہے

    خاموش ہيں کوہ و دشت و دريا
    قدرت ہے مراقبے ميں گويا

    اے دل! تو بھي خموش ہو جا
    آغوش ميں غم کو لے کے سو جا​
     
  24. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    تنہائي

    تنہائي

    تنہائي شب ميں ہے حزيں کيا
    انجم نہيں تيرے ہم نشيں کيا!

    يہ رفعت آسمان خاموش
    خوابيدہ زميں، جہان خاموش

    يہ چاند، يہ دشت و در، يہ کہسار
    فطرت ہے تمام نسترن زار

    موتي خوش رنگ، پيارے پيارے
    يعني ترے آنسوئوں کے تارے

    کس شے کي تجھے ہوس ہے اے دل!
    قدرت تري ہم نفس ہے اے دل!​
     
  25. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پيامِ عشق

    پيامِ عشق

    سن اے طلب گار درد پہلو! ميں ناز ہوں، تو نياز ہو جا
    ميں غزنوي سومنات دل کا، تو سراپا اياز ہو جا

    نہيں ہے وابستہ زير گردوں کمال شان سکندري سے
    تمام ساماں ہے تيرے سينے ميں، تو بھي آئينہ ساز ہو جا

    غرض ہے پيکار زندگي سے کمال پائے ہلال تيرا
    جہاں کا فرض قديم ہے تو ، ادا مثال نماز ہو جا

    نہ ہو قناعت شعار گلچيں! اسي سے قائم ہے شان تيري
    وفور گل ہے اگر چمن ميں تو اور دامن دراز ہو جا

    گئے وہ ايام، اب زمانہ نہيں ہے صحرانورديوں کا
    جہاں ميں مانند شمع سوزاں ميان محفل گداز ہو جا

    وجود افراد کا مجازي ہے ، ہستي قوم ہے حقيقي
    فدا ہو ملت پہ يعني آتش زن طلسم مجاز ہو جا

    يہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزري کر رہے ہيں گويا
    بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا​
     
  26. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فراق

    فراق

    تلاش گوشہء عزلت ميں پھر رہا ہوں ميں
    يہاں پہاڑ کے دامن ميں آ چھپا ہوں ميں

    شکستہ گيت ميں چشموں کے دلبري ہے کمال
    دعائے طفلک گفتار آزما کي مثال

    ہے تخت لعل شفق پر جلوس اختر شام
    بہشت ديدہء بينا ہے حسن منظر شام

    سکوت شام جدائي ہوا بہانہ مجھے
    کسي کي ياد نے سکھلا ديا ترانہ مجھے

    يہ کيفيت ہے مري جان ناشکيبا کي
    مري مثال ہے طفل صغير تنہا کي

    اندھيري رات ميں کرتا ہے وہ سرود آغاز
    صدا کو اپني سمجھتا ہے غير کي آواز

    يونہي ميں دل کو پيام شکيب ديتا ہوں
    شب فراق کو گويا فريب ديتا ہوں​
     
  27. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عبدالقادر کے نام

    عبدالقادر کے نام

    اٹھ کہ ظلمت ہوئي پيدا افق خاور پر
    بزم ميں شعلہ نوائي سے اجالا کر ديں

    ايک فرياد ہے مانند سپند اپني بساط
    اسي ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر ديں

    اہل محفل کو دکھا ديں اثر صيقل عشق
    سنگ امروز کو آئينہ فردا کر ديں

    جلوہ يوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
    تپش آمادہ تر از خون زليخا کر ديں

    اس چمن کو سبق آئين نمو کا دے کر
    قطرہ شبنم بے مايہ کو دريا کر ديں

    رخت جاں بت کدہء چيں سے اٹھا ليں اپنا
    سب کو محو رخ سعدي و سليمي کر ديں

    ديکھ! يثرب ميں ہوا ناقہ ليلي بيکار
    قيس کو آرزوئے نو سے شناسا کر ديں

    بادہ ديرينہ ہو اور گرم ہو ايسا کہ گداز
    جگر شيشہ و پيمانہ و مينا کر ديں

    گرم رکھتا تھا ہميں سردي مغرب ميں جو داغ
    چير کر سينہ اسے وقف تماشا کر ديں

    شمع کي طرح جييں بزم گہ عالم ميں
    خود جليں، ديدہ اغيار کو بينا کر ديں

    ''ہر چہ در دل گذرد وقف زباں دارد شمع
    سوختن نيست خيالے کہ نہاں دارد شمع''​
     
  28. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    صقليہ

    صقليہ
    (جزيرہ سسلي)


    رو لے اب دل کھول کر اے ديدہء خوننابہ بار
    وہ نظر آتا ہے تہذيب حجازي کا مزار

    تھا يہاں ہنگامہ ان صحرا نشينوں کا کبھي
    بحر بازي گاہ تھا جن کے سفينوں کا کبھي

    زلزلے جن سے شہنشاہوں کے درباروں ميں تھے
    بجليوں کے آشيانے جن کي تلواروں ميں تھے

    اک جہان تازہ کا پيغام تھا جن کا ظہور
    کھا گئي عصر کہن کو جن کي تيغ ناصبور

    مردہ عالم زندہ جن کي شورش قم سے ہوا
    آدمي آزاد زنجير توہم سے ہوا

    غلغلوں سے جس کے لذت گير اب تک گوش ہے
    کيا وہ تکبير اب ہميشہ کے ليے خاموش ہے؟

    آہ اے سسلي! سمندرکي ہے تجھ سے آبرو
    رہنما کي طرح اس پاني کے صحرا ميں ہے تو

    زيب تيرے خال سے رخسار دريا کو رہے
    تيري شمعوں سے تسلي بحر پيما کو رہے

    ہو سبک چشم مسافر پر ترا منظر مدام
    موج رقصاں تيرے ساحل کي چٹانوں پر مدام

    تو کبھي اس قوم کي تہذيب کا گہوارہ تھا
    حسن عالم سوز جس کا آتش نظارہ تھا

    نالہ کش شيراز کا بلبل ہوا بغداد پر
    داغ رويا خون کے آنسو جہاں آباد پر

    آسماں نے دولت غرناطہ جب برباد کي
    ابن بدروں کے دل ناشاد نے فرياد کي

    غم نصيب اقبال کو بخشا گيا ماتم ترا
    چن ليا تقدير نے وہ دل کہ تھا محرم ترا

    ہے ترے آثار ميں پوشيدہ کس کي داستاں
    تيرے ساحل کي خموشي ميں ہے انداز بياں

    درد اپنا مجھ سے کہہ، ميں بھي سراپا درد ہوں
    جس کي تو منزل تھا، ميں اس کارواں کي گرد ہوں

    رنگ تصوير کہن ميں بھر کے دکھلا دے مجھے
    قصہ ايام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے

    ميں ترا تحفہ سوئے ہندوستاں لے جاؤں گا
    خود يہاں روتا ہوں، اوروں کو وہاں رلواؤں گا​
     
  29. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    غزليات

    غزليات
     
  30. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھ

    زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں

    زندگي انساں کي اک دم کے سوا کچھ بھي نہيں
    دم ہوا کي موج ہے، رم کے سوا کچھ بھي نہيں

    گل تبسم کہہ رہا تھا زندگاني کو مگر
    شمع بولي، گريہء غم کے سوا کچھ بھي نہيں

    راز ہستي راز ہے جب تک کوئي محرم نہ ہو
    کھل گيا جس دم تو محرم کے سوا کچھ بھي نہيں

    زائران کعبہ سے اقبال يہ پوچھے کوئي
    کيا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھي نہيں!​
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں