1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

آزاد قوم ۔ غلامانہ روش

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از بےباک, ‏13 مارچ 2009۔

  1. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    وزیرستان کے بعد بلوچستان پربھی

    ٰیہ بھی کتنا عجیب اتفاق ہے کہ امریکا جو بظاہر تو ہمارا(پاکستان ) کابڑاہمدرد اور خیر خواہ بنا پھرتا ہے مگر درحقیقت وہ اندر سے ایسا نہیں ہے کہ جیسا وہ نظر آتا ہے اس کی نظر میں ہماری بقا وسلامتی اور خودمختاری کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس کے سامنے صرف اس کی بقا وسا لمیت اور خودمختاری ہی مقدم ہے اس لحاظ سے وہ ہمیںزمین پر رینگنے والے اس ننھے کیڑے سے بھی کہیں کم سمجھتاہے جوزمین پر رات دن اپنی خوارک اور اپنے حصول کے خاطررینگتا رہتا ہے اور پھر یہ کسی پاو ں تلے آکرکچلاجاتا ہے کیوں کہ اس کی قسمت میں ہی یہ ہوتاہے اوراس کی حیثیت ہی انتی ہوتی ہے ۔

    بہر کیف! یہ سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے ہم سب کے لئے کہ ہم یہ غور کریں کے ہمارے ساتھ امریکا کتنا مخلص ہے اور ہم نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ اور وہ ہمارے ساتھ کیا کررہاہے ؟بہرحال! یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے کہ اسے پڑھ کرایک طرف کردیاجائے کہ اوہ! یہ بھی کوئی خبر ہے اور اسے ایک کان سے سن کر دوسرے سے یوں نکال دیا جائے کہ جیسے کچھ سناہی نہیں۔

    مگر درحقیقت یہ وہ اہم ترین خبرہے جس پر ابھی سے حکومت پاکستان کی جانب سے سنجیدگی سے کام نہ کیا گیا تو یہ ہی اپنی مفاد میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اچھا بہانا بنا کر افغانستان کے راستے وزیرستان پر ڈرون حملے کرنے والا امریکا اور اس کے حواری (نیٹوافواج) اب بلوچستان پر بھی ڈرون حملے شروع کردیں گے جس کے بعد ملک میں پیدا ہونے والا سیاسی بحران ایک بار پھر سنگین صورت اختیار کرجائے گا اور ہم یوں پے درپے بحرانوں میں پھنستے چلے جائیں گے ۔

    میرا مطلب یہ ہے کہ ایک امریکی کثیرالاشاعت اخبار نیویارک ٹائمز نے گزشتہ دنوں اپنے یہاںایک خبر کچھ اس طرح سے شائع کی ہے کہ ” امریکی صدربارک اوباما اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر طالبان کی سرگرمیوں کے باعث ڈرون حملوں کا سلسلہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے بعد اب بلوچستان تک وسیع کرنے پر غورکررہے ہیں یہاں افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ وہی امریکی صدربارک اوباماہیں جن کی کامیابی پر پاکستان کی ساڑھے سولہ کروڑ عوام نے بھی خوشیاں منائی تھیں اور خدا کا شکراداکیا تھا کہ اب پاکستان سے متعلق امریکی انتظامیہ کی سوچ تبدیل ہوگی اور پاکستان میں دور بش میں شروع کئے گئے اندھے ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی بند ہوجائے گا اور ان کے بند ہونے سے پاکستان اور امریکا کے درمیان اسلام اور مسلمان دشمن امریکی پالیسیوں میں بھی نمایاں کمی آئیگی ۔

    مگر یہ کیاہوا ؟ یہ سب تو بلکل الٹا ہوگیا بارک اوباما(میں پہلے نئے امریکی صدر بارک اوباما کو بارک حسین اوباما تحریر کیاکرتا تھا یہ سوچ کر کے شاید ان کے دل میں حسین کی لاج رہتے ہوئے امت مسلمہ بشمول پاکستان سے ہمدردی ہومگر یہ تو )مسلمانوں اور پاکستانیوںسے دشمنی میں جوتے کھانے والے سابق فاسق وفاجرامریکی صدربش سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بھی لگاسکتے ہیں کہ نیویارک ٹائمز نے اپنی اس خبر میں آگے چل کر اوباما انتظامیہ کے اعلی اہلکاروں کے حوالے سے دعوی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ”افغانستان اور پاکستان کے بارے میں دواعلی سطحی رپورٹس اس ہفتے وائٹ ہاو ¿س کو بھیجی گئی ہیں اور ان رپورٹس میں اس تجویز کو یقینی بنانے پر زور دیاگیا ہے کہ ڈرون طیاروںکے حملوںکا دائرہ وسیع کیاجائے اور ساتھ ہی ان رپورٹس اور تجاویز میں ان علاقوں کی بھی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے۔

    کہ بلوچستان کے کوئٹہ شہر کے آس پاس کے علاقوںمیں طالبان کی اعلی قیادت کی مبینہ محفوظ پناہ گاہیں ان مقامات کو ڈرون حملوں سے فی الفور نشانہ بنایاجائے اور ساتھ ہی اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے بعض اہلکار اس با ت کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ملاعمر اور ان کے ساتھیوں کی سرگرمیاں گوئٹہ کے اردگرد کے علاقوں میں بہت بڑہ گئی ہیں اس پر حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ وائٹ ہاﺅس کے ذرائع نے بھی اپنی خفیہ ایجنسیوں کے تجاویز پر آنکھ بند کرکے یقین کرتے ہوئے یہ کہہ کر کام شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے کہ مستقبل میں امریکیوں کے لئے بلوچستان بھی خطرناک صورت حال پیداکرسکتا ہے اور اس حوالے سے امریکا کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں بلوچستان میں طالبان کی سرگرمیوں کے حوالے سے جاسوس طیاروں کے حملے بھی شامل ہیں ۔

    ہاںالبتہ!اخبار یہ بھی لکھتا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ اور ان کے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اس بات پر متفق ہیں کہ بلوچستان پر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے پاکستان اور افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی پر بھی نظر ثانی کی جائے گی یہاں میں امریکی نظرثانی اور پالیسی کے حوالے سے کہی گئی بات پر قطعا متفق نہیں ہوں کیوں کہ؟ امریکا کی یہ فطرت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے پہلے اس پر نظرثانی کرتا ہے پھر کوئی بات لیک کرتا ہے اس پر آپ یہ یقین کرلیں کہ اب وزیرستان کے بعد امریکا کا اگلا ہدف بلوچستان ہے اور امریکا یہاں بھی اپنے ڈرون حملوں سے وہ ہی تباہی مچا ئے گا جواس نے وزیر ستان میںمچائی ہے جس سے اس نے ہزاروں نہتے اور معصوم انسانوں کوموت کی وادی میں دھکیل دیاہے۔

    اس ساری خبر پر انتہائی مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ جو ایک فرانسیسی خبررساں ایجنسی نے اپنے یہاں اس حوالے خبر دی ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے امریکی اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے رپورٹ دیکھی ہے یہ قیاس آرائی ہے اور قیاس آرائی پر تبصرہ نہیں کیا جاسکتا اور ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہنا ہے کہ ڈرون حملوں پر پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ یہ حملے نقصان دہ ہیں بس انہوں نے اتنا ہی کہ اپنا فرض ادا کردیا ہے اور خاموش ہوگئے جبکہ اس صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکیوں کی اس رپورٹ کا حکومت پاکستان کوسنجیدگی سے سیاسی اور خارجہ پالیسی کے تحت جواب دیتی جبکہ اس امریکی اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر پر یوں قیاس آرائی کا خود سے لیبل چسباں کر کے حکومت پاکستان کو ٹالنا نہیں چاہئے تھا اور امریکیوں کے اس عندیئے کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جاتا کہ ان پر تھرتھری طاری ہوجاتی مگر ہائے رے!افسوس کہ ہم نے اس امریکی منصوبہ بندی کو اس انداز سے نہیں لیا جس انداز سے ہمیں لینا چاہئے تھا بہرحال! اب یہ بھی دیکھئے کہ امریکا اب کب اپنی اس منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان پر ڈرون حملے کرتاہے اور ہم جب حسب معمول کف افسوس کے ہاتھ ملتے اور بے جان احتجاجوں اور مظاہروں کے سواکچھ نہیں کرپائیں گے

    اعظم عظیم اعظم
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بےباک بھائی ۔
    بہت اہم مضمون ارسال کیا ہے آپ نے۔
    بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہر محب وطن پاکستانی ، امریکی اور پاکستان دشمن طاقتوں کے ان منصوبہ جات پر تشویش میں‌مبتلا ہے۔

    اللہ تعالی ہم سب کو جذبہء حب الوطنی اور قومی شعور اور ملی غیرت سے سرشار ہوکر باہم متحد ہوکر وطنِ عزیز کی ترقی و استحکام کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    پاکستان اور إٓئی ایم ایف کی غلامی


    پاکستان غیر ملکی زر مبادلہ کے سنگین بحران سے نجات حاصل کرنے کے لٔے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف سے ہنگامی قرضہ کے حصول کے لئے اس قدر بے تاب ہے کہ وہ اس کی ہر شرط پر سر تسلیم خم کرنے کے لٔے تیار ہے۔ ابھی آئی ایم ایف نے ہنگامی قرضہ کی با قاعدہ منظوری کا عندیہ بھی نہیں دیا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر سود کی شرح میں غیر معمولی طور پر دو فی صد اضافہ کا اعلان کردیا جس کے بعد سود کی شرح پندرہ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ بلا شبہ اس اقدام سے ملک کی معیشت پر نہایت کاری اثرات پڑیں گے۔ صنعت و کاروبار کے قرضے مہنگے ہوجائیں گے جس کے نتیجہ میں صنعتی پیداوار اور اشیاء صرف اور مہنگی ہو جائیں گی اور ایک طرف گرانی بڑھے گی تو دوسری طرف برآمدات مہنگی ہو جائیں گی۔ عمومی نتیجہ اس کا بے روزگاری میں زبردست اضافے کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
    یہ عجیب و غریب بات ہے کہ امریکا برطانیہ اور یورپ میں موجودہ مالی بحران سے نکلنے کے لٔے سود کی شرح میں غیر معمولی تخفیف کی گئی ہے جس کے بعد امریکا میں سود کی شرح ایک فی صد رہ گئی ہے اور برطانیہ میں محض تین فی صد۔ادھر پاکستان کے پڑوس میں ہندوستان نے بھی سود کی شرح میں تخفیف کی ہے جو اب ساڑھے سات فی صدر رہ گئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں پاکستان میں سود کی شرح اس سے دوگنی ہو گئی ہے۔
    پاکستان کے موجودہ مالی بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف نے ہنگامی قرضہ کے لئے بتایا جاتا ہے گیارہ شرائط پیش کی تھیں ۔ با خبر ذرایع کے حوالہ سے یہ خبریں ہیں کہ ان شرائط میں اگلے چار برس کے دوران پاکستان کے دفاعی بجٹ میں تیس فی صد تخفیف ،سرکاری محکموں میں کم سے کم ایک لاکھ بیس ہزار ملازمین کی چھانٹی ،ٹیکس کے نظام میں وسیع اصلاحات، زرعی پیداوا رپر ٹیکس کے نفاذ، درآمدات پر محصول میں تخفیف اور بجلی اور انرجی کے شعبہ میں بڑے پیمانہ پر نج کاری کی شرائط شامل ہیں۔ یہ شرائط اتنی سخت اور دوررس اثرات کی حامل ہیں کہ عملی طور پر ملک مالی غلامی کا طوق پہن لے گا۔
    پاکستان کے اقتصادی اور مالی پالیسی ساز یہ بھول گئے کہ ہنگامی قرضہ کے لئے پاکستان اسی آئی ایم ایف کے سامنے جھولی پھیلا رہا ہے جس نے ١٩٩٨ میں جب پاکستان نے جوہری تجربہ کیا تھا تو اسے سزا دینے کے لئے پہلے سے منظور شدہ دو سو اسی ملین ڈالر کے قرضہ کی ادائیگی روک دی تھی جس کے نتیجہ میں پاکستان سنگین مالی بحران میں گرفتار ہو گیا تھا۔ پھر جب سن دو ہزار ایک میں پاکستان نے آئی ایم ایف سے تیس کڑوڑ ڈالر کا قرضہ مانگا تھا تو اس وقت آئی ایم ایف نے پاکستان سے بڑے پیمانے پر نج کاری کا پیمان لیا تھا جس میں اسٹیل ملز سمیت ٹیلی مواصلات، بجلی اور انرجی کے شعبوں میں نج کاری شامل تھی۔ اسٹیل ملز کی نج کاری تو سپریم کورٹ کے وصیلہ کی وجہ سے نہ ہو سکی البتہ دوسرے شعبوں میں بڑے پیمانہ پر نجکاری عمل میں آئی جن میں بجلی اور انرجی کے شعبے شامل تھے۔ اسی وقت آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخوں میں دس فی صد اضافہ کی شرط بھی منوائی تھی۔
    آئی ایم ایف کی اس سال کے اوائل میں جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پاکستان نے بجلی کے نرخوں میں دس فی صد اضافہ کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں ہوا چنانچہ عالمی بنک نے اس کی سزا کے طور پر پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی روک دی تھی آخر کار جب بجلی کے نرخ بڑھائے گئے تو عالمی بنک نے قرضے جاری کئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہاے کہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف کس جابرانہ انداز سے مشترکہ حکمت عملی پر کام کرتے ہیں۔
    اب ایم آئی ایف کی طرف سے نئے ہنگامی قرضہ کے لئے مزید شعبوں میں نج کاری پر زور دیا جارہا ہے اور اسی دباؤ کے تحت پاکستان نے قادر پور گیس فیلڈ کی نج کاری کا فیصلہ کیا ہے جس سے توقع ہے کہ پاکستان کی حکومت کو ایک ارب ڈالر کی آمدنی ہوگی لیکن انرجی کے اس اہم شعبہ میں غیر ملکی کمپنیوں کا تسلط حاوی ہو جائے گا اور دوسرے لفظوں میں پاکستان کی معیشت پر پاکستان کی گرفت ختم ہو جائے گی۔
    آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان پر اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ ملک کے زرعی شعبہ کے دروازے بھی کثیر القومی کمپنیوں کے لئے کھول دئے جائیں اور پاکستان کے بندوں کی تعمیر کے منصوبوں میں ان کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سرمایہ لگانے کا موقع دیا جائے۔
    عام طور پر لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عالمی بنک اور آئی ایم ایف کے ادارے دوسری عالمگیر جنگ کے فورا بعد امریکا اور برطانیہ نے دو بنیادی مقاصد کے لئے قائم کئے تھے۔ اول اس کا مقصد مغربی یورپ میں جنگ کی تباہی اور معاشی بدحالی کے اثرات پر قابو پانا اور سرمایہ دارای نظام کو مضبوط بنانا تھا۔ دوم اس کے ذریعہ مغربی سرمایہ کے بل پر پوری دنیا کی مالی اور اقتصادی نظام پر تسلط جمانا تھا۔ چنانچہ ان مقاصد کے حصول کے لئے ان دونوں اداروں کی بڑی مربوط حکمت عملی رہی ہے۔ عالمی بنک نے شروع شروع میں تیسری دنیا کے نو آزاد ملکوں کو جنہیں اپنی معیشت کے بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے سرمایہ کی اشد ضرورت تھی مالی امداد اور آسان شرائط پر قرضوں کے جال میں گرفتار کیا اور جب یہ ممالک اس جال میں پوری طرح جکڑ گئے اور سود کے بوجھ نے ان ملکوں کی معیشتوںکمر توڑ دی تو آئی ایم ایف نے میدان میں آکر ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے امداد پیش کی اور اس کے عوض ان ملکوں کی معیشتوں کے ڈھانچوں کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ کیا ۔ اس سلسلہ میں آ ئی ایم ایف نے تین نکات پر زور دیا۔ اول مکمل طور پر آزاد تجارت اور کاروباری لین دین کی اجازت دی جائے دوئم تمام سرکاری صنعتوں اور کاروبار کی نج کاری کا عمل شروع کیا جائے اور سوئم تمام سرکاری کنٹرول اور پابندیوں کے خاتمہ کے ذریعہ مغربی سرمایہ کاروں کے لئے دروازے کھول دئے جائیں۔
    آئی ایم ایف بنیادی طور پر مغربی بنکوں عالمی کارپوریشنوں اور بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے مفادات کا محافظ اور ان کے فروغ کا امین ہے۔ اسے تیسری دنیا کے عوام کی ترقی خوشحالی اور فلاح و بہبود سے قطعی کوئی غرض نہیں بلکہ لاطینی امریکا ایشیا اور افریقہ میں آئی ایم ایف نے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران قرضوں کے عوض ان ملکوں پر اپنی جو اقتصادی پالیسیاں مسلط کیں ان کے نتیجہ میں ان ملکوں کی معیشتیں تباہ ہوئی ہیں اور عوام کے مصائب کم ہونے کے بجائے اور بڑھے ہیں۔ افریقہ میں سن اسی کے عشرہ میں آئی ایم ایف کے پروگراموں کے نتیجہ میں صحت عامہ پر اخراجات میں پچاس فی صد تخفیف ہوئی اور تعلیم پر اخراجات میں پچیس فی صد تخفیف ہوئی۔
    گو آئی ایم ایف میں نوے سے زیادہ دنیا کے ممالک ممبر ہیں لیکن اس ادار ہ پر امریکا اور برطاینہ حاوی ہیں اور قطعا کوئی جمہوری عمل کارفرما نہیں۔اس ادارہ کا سربراہ بھی امریکا برطانیہ کے مشورہ کے ساتھ مقرر کرتا ہے۔
    بیشتر مالی ماہرین کو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر پانچ ارب کروڑ ڈالر کے قرضہ کے لئے پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کردیا تو ملک کی معیشت پر یکسر مغربی سرمایہ داروں اور غیر ملکی بنکوں اور کمپنیوں کا تسلط جم جائے گا اور پاکستان اپنی مالی اور اقتصادی آزادی اور خود مختاری سے محروم ہو جائے گا۔


    آصف جیلانی روزنامہ اوصاف
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ بےباک بھائی ۔
    مضمون نگار نے بہت تشویشناک حالات کی نشاندہی کی ہے۔
    لیکن اگر عام مضمون نگاروں اور مجھ جیسے ان پڑھ شہریوں کو ان حقائق کا علم ہے تو کیا حکمرانوں ، بیوروکریٹس اور ٹیکنو کریٹس کو اس کا علم نہیں ہوگا ؟ یقیناً ہوگا ۔ لیکن ہر کوئی اپنی دہاڑی پکی کرتا ہے ۔
    خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ اور ہمیں باغیرت اور باصلاحیت قیادت عطا فرمائے۔ آمین
     
  5. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    روزنامہ ایکسپریس 27 مارچ 2009
    اس مضمون میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟ دھمکی ہے یا انعام ہے؟


    [​IMG]

    روزنامہ ایکسپریس 27 مارچ 2009
     
  6. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    پاکستان میں خود کفیل امریکی جاسوسی نظام
    زبیر احمد ظہیر

    کیاامر یکی فضائی حملے رک پائیں گے ؟ساری سفا ر تی کو ششوں اور سرکا ری احتجاج سے لے کر صدر زرداری اورصدربش ملاقات تک مزید فضا ئی حملے نہ ہونے کی ٹھوس ضمانت نہیں مل سکی ، لہٰذاعام قبائلی بدستور امریکی دہشت گردی کی زد میں ہے۔بظاہریہ فضا ئی حملے عسکریت کے خلا ف کے انتہائی قدم ہیں، مگر ان سے عا م لو گ ،خو ا تین اور بچے زیادہ جاں بحق ہورہے ہیں۔اس نا قص امریکی انٹیلی جنس پرعام شہریوں کی مسلسل امو ا ت سے بڑی کوئی دلیل نہیں ۔ امر یکا نے قبا ئلی علا قو ں میں مقا می مخبر وں کا تعا ون حا صل کرلیا ہے، اور ہماری انٹیلی جنس پر اپنا ا نحصا ر کم کر دیا ہے ،اس بات کی تصد یق اس سے ہو تی ہے کہ متعدد بار پا کستا نی انٹیلی جنس نے امریکہ کومعلومات فر اہم کیں ، مگر ا س نے کا رروائی نہ کی اوراتنی تا خیر کر د ی کہ عسکر یت پسندوں کو نکلنے کا مو قع مل گیاپاکستان کو مسلسل لاعلم رکھ کر میزائل حملے اس بات کا کھلا ثبوت ہیںکہ امریکا نے پاکستانی اداروں پر اپنا انحصار ختم کر دیا ہے۔اورا س نے اپنا جاسوسی نظام خود کفیل بنا لیا ہے ،امریکا کی قبائلی علاقوں میں جاسوسی کی دیوار جن پتھروں پر کھڑی ہے وہ اس کے مقامی ایجنٹ ہیں۔

    قبائلی علاقوں اور افغانستان میں امریکی جنگ کا دارومدار جن ایجنٹوں پر ہے، ان کا انٹیلی جنس معیار کتنا بلند ہے ؟یہ جاننے کے لیے ماہر سراغ رسان ہونا ضروری نہیں،عام آدمی بھی بچوں بوڑھوں اور خواتین کی مسلسل اموات سے ناقص انٹیلی جنس کا بخوبی اندازہ لگا سکتاہے ۔ کرائے کے ایسے مقا می بھیدی با لعمو م غیر تر بیت یا فتہ ہو تے ہیں، یہ کم علمی کی و جہ سے جا نچ پڑ تا ل کی زحمت نہیں اٹھا تے اورمعلو ما ت جوں کی توں آگے بڑ ھا د یتے ہیں، امر یکی ان کی تصد یق کیے بغیربٹن د با دیتے ہیں۔ قبا ئلی علا قو ں میں صد یوں پر ا نی ر نجشیں چلی آر ہی ہیں، اس لیے مقا می مخبروں کو ذا تی مخالفت سے الگ نہیں کیاجا سکتا۔ بیشترفضائی حملو ں میں مختلف لو گو ں کی بجا ئے عا م طور پر ایک ہی خا ند ان اور ایک ہی گھر کے افر ا د نشا نہ بنے ہیںجس سے انتقام کو رد نہیںکیا جاسکتا ۔یہ رنجش اور اس کے ذریعے دشمنی نکالنے کا معا ملہ صرف قبائلی علاقوں تک محدوود نہیں

    اس وقت ملک میں طا لبا ن اور القا عد ہ کے نا م پر گر فتا ر کر ا نے کی دھمکیا ں دینا عام سی بات بن گئی ہے، کسی کو خوف زدہ کرنے کے لیے یہ دھمکی کافی ہے۔ یہی وجہ ہے اب یہ دھمکی ہر گلی محلے کی چھوٹی لڑائیوں کا حصہ بن گئی ہے اور تو اور مذہبی افراد کو تھانے دار معمولی تنازعوں میں طالبان کے نام پر فٹ کر انے کی دھمکی دے کر پیسے بٹورلیتے ہیں۔اس عذاب میں پھنسنے کے لیے مذہبی ہونا ضروری نہیں اس لیے یہ رسک کوئی نہیں لے سکتا۔ یہ وبا ء پورے ملک میں کسی موذی مرض کی طرح پھیل گئی ہے۔جب پر امن شہروں کی صورت حال یہ ہو تو جنگ زدہ اور صدیوں پرانی رنجشوں کے جنگل میں انتقامی صورت حال سے قبائلی علاقوں کوکیسے الگ کیا جا سکتا ،لہٰذا مقامی ایجنٹوں کی معلومات ذاتی مخالفت کے شک سے خالی نہیں ۔قبائلی علاقہ جات میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے رہتے ہیں۔ان علاقوں میں تو بطور خاص یہ وبا ء طاعون کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لیے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں، جب امریکا یا فورسز کارروائی کر کے چلی جاتی ہیں تو پھر بدلہ ان سے لیا جاتا ہے ،جن پر مخبری کا شک گزرے۔ایسے لوگوں کی معلومات پر کارروئی کر نا اتنی بڑی بے وقوفی ہے ،جس کا امریکابار بار ارتکاب کر تا جارہاہے اور ایسی بدنامی کا بیج کاشت کر تا جا رہا ہے، جس کی فصل بر سوں امریکی دشمنی اگاتی رہے گے۔

    امریکا کی قبائلی علاقوں پر گہری نظر تھی ،بر طانیہ کی ماضی میں قبائلیوں سے شکست اسے یاد ہے ۔ امریکاکو روس دور کی پاکستان کی دور اندیشی اور اپنی غلطی بھی یاد تھی، جب پاکستان نے امریکا کو مجاہدین سے براہ راست ڈیل کی رسائی نہ دے کر اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے تھے۔ اس بار امریکا نے ایسا نہیں ہونے دیا، خودترقیاتی فنڈ دیے ،سڑکیں بناکر دیں ، اوراس بہانے قبائلیوں میںجگہ بنالی ۔، مزاحمت کم کرنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر سے مدد لی اوراپنا نیٹ ورک پھیلا دیا۔ جس سے قبائلیوں میں باہمی تصادم ہوا اوران کی طاقت تقسیم ہو گئی ۔حکومت نے امن معاہدے کیے اورجانی ومالی نقصان سے بچنے کی کوشش کی۔ امریکا نے فضائی حملے شروع کردیے اوریوں جلتی پر تیل کے اس چھڑکاؤ نے امن معاہدے ختم کر وادیے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے میزائل حملوں کوعملا بچوں کا کھیل بنا دیاہے ،جب مرضی آئی میزائل داغ دیے۔امریکا نے اب جس تواتر سے حملے شروع کردیے ہیں۔اتنے حملے مشرف کے آٹھ سالہ دور میں نہیںہوئے ،معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کو اقتدار اعلی جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ میں بکھر اہوا قطعی پسند نہیں اسے تو ایک آمر چاہیے جو یک جنبش قلم امریکہ کی مان لے ۔آج پاکستان میں جمہوری حکومت دن بدن کمزور ہورہی ہے اس کی وجہ اپوزیشن ہے نہ فوج بلکہ امریکہ ہے

    پاکستان نے امریکا کے لیے کیا کچھ نہیں کیا؟پاکستان کے سیکورٹی حکام نے امریکا کی جانب بڑھتی گولیاں اپنے سینے پر کھا کر یہ جنگ لڑی،کندھوں سے کندھے ملا کر ڈنکے کی چوٹ پر امریکا کا ساتھ دیا۔ایک ہزار فوجیوں کی قربانی دی ،ایک لاکھ بیس ہزارفوجی امریکا کے تحفظ کے لیے افغان سر حد پرلگادیے۔امریکی حملوں میں اپنے سیکڑوںشہریوں کی مظلومانہ موت پر خاموشی اختیار کر لی ،فوجی آپریشن کے دوران اپنے ہزاروں شہریوں کی اموات قبول کرلیں، قر بانی سے لے کر بدنامی تک اس ساری محنت پر امریکا اس وقت پانی پھیر دیتا ہے،جب افغانستان سے اندھیرے میں تیر چلا تاہے، ا نہیں لا علم رکھ کر ا مر یکا جب فضا ئی حملے کر تاہے ،تو یہ لا علمی کے حملے قبائلی علاقوں میں آستین کے سانپوں کی موجودگی کی چغلی کھا تے ہیں ،جن کی چغلی قبائلیوں کے خون بہنے پرمنتج ہوتی ہے۔امریکا فضاء سے جاسوسی کی لاکھ کوشش کرلے ،جب تک ہدف کاتعین زمین سے نہیں ہوتا ،جاسوس طیاروںاورسیٹلائیٹ کی تصاویر کی اہمیت اندازے اورتخمینے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

    ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس کے مسائل ہماری طر ح ہیں۔ امریکا اس پر حملوں کی آئے روز دھمکیا ں دیتا ہے اور ہمارے اوپر آئے روز حملے کر تاہے۔ایران میں بارہ سال پہلے ایک بم دھماکہ ہوا تھا، ایران نے اس کی تفتیش میں بال کی کھال نکال دی، جس کا اثر بارہ سال رہا۔ گزشتہ دنوں جو بم دھماکہ ایران میں ہوا یہ بارہ سال بعد ہوا ہے۔ ایک ہمار ملک ہے،جہاں ہر نیا بم پہلے دھماکے سے بھاری ہوتا ہے۔آخر کیا وجہ ہے؟ ایران امریکا کو دھمکیاں دے اوراسرائیل پرتڑیاں جمائے۔ امریکا ایران سے زیادہ سے دور بھی نہیں،عراق کی سرحدیں ایران سے متصل ہیں اوراندر خفیہ علیحدگی کی تحریکیں بھی چل رہی ہے، مگر مجال ہے کہ امریکا ایران کا بال تک بیکا کرسکے۔جب ایرانی صدر امریکا کو دھمکی دیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی سیکورٹی ایجنسیاںکسی کو ایران کے اندر پر نہیں مارنے دیں گی، اس لیے ایران میں در اندازی میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران کے اس امن کا راز یہ ہے کہ اس کی قوم ڈالروں کی لالچ میں مخبری جیسی غلاظت میں ہاتھ نہیں ڈبوتی، ایک پاکستان ہے کہ جس پتھر کو اٹھائیں ڈالروں میں بکا لگتاہے۔ اگر ہم امریکی میزائل حملے نہیں روک سکتے، توان غداروں کو تو لگام دے سکتے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آئے روز جاسوسوں کو مارے جانے کی خبریں آتی ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبائیلوں کو بغل میںچھپے دشمن کا ادراک ہے۔

    امریکا کے پاس جاسوسی کی جدید ٹیکنالوجی ہے ،یہ فضا سے مچھر کے پر گن سکتی ہے۔مان لیا ،مگریہ ٹیکنالوجی ہے کو ئی دیو جن قسم کی مخلوق ہر گز نہیں۔ امریکا کے پاس ان عسکریت پسندوں کی تصاویر ہیں،نہ ان کی آواز ہے ۔امریکی حملے آواز یا سیٹلائٹ کی تصاویر کی مددسے ہوتے ہیں۔اگر یہ مان لیا جائے تواسامہ بن لادن پر ایسے کتنے حملے ہوئے ہیں ؟اور کتنے کامیاب ہوئے
    ہم نیٹو افواج کی سپلائی بند نہیں بند کرسکتے اور ہم مخبری کے جال کوبھی پھلانگ نہیں سکتے تو امریکی صدراتی انتخاب ہونے تک قبائلی علاقوں میں کفن دفن کا انتظام کم از کمحکومت اپنے ذمے لے،اگر ہم زندگی نہ دے سکیں، یہ ہمارے بس میں نہیںرہا تو آخر ی مذہبی رسومات کا حق تونہ چھنا جا ئے، جو حکومت اپنے شہریوں کو زندہ رہنے کی ضمانت نہ دے سکے وہ ان سے اپنے مطالبات بھی نہیں منوا سکتی۔

    روس کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکاکو مجاہدین تک رسائی نہ دے کر جس دور اندیشی کا مظاہر ہ کیا تھا، آج اسی دور اندیشی کو امریکا نے ہمارے اورپرالٹ دیا ہے، روس کے خلاف جنگ کاکنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنا ہماری مجبوری تھا ،وہ پاکستان کے دفاع کی جنگ تھی ،اس بار امریکا نے ابتداء ہی سے ماضی کی غلطی نہیں دہرائی اورافغانستان اور قبائلی علاقوںمیں براہ راست اپنے حامی پیدا کیے اور مخبروں کا جال بچھا لیا، لہٰذا آج اس جنگ کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے ،وہی اسے طول دے سکتاہے اورمختصر کر سکتاہے۔ہم ویسے تماشائی ہیں جسے روس کے خلاف جنگ میںامریکہ تھا۔
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بجا فرمایا بےباک بھائی ۔
    واقعی صورتحال بہت شرمناک و افسوسناک ہے۔
    اللہ کریم ہمیں ہدایت عطا فرمائے۔ آمین

    بےباک بھائی ۔ اتنی اہم تحریر پر بہت شکریہ ۔
     
  8. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    الزام ہمیشہ پاکستان پر رہے گا ، کہ امریکا کی ناکامی کی وجہ پاکستان کی انٹیلجنس سروسز ہیں ،

    ایکسپریس نیوز 30 مارچ 2009
     
  9. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]


    سامراجی استعمار کے پرانے حربے دیکھیں ، اور ہماری حالت دیکھیں ،ہم کب ہوش کے ناخن لیں گے؟؟؟
    روزنامہ ایکسپریس 30 مارچ 2009
     
  10. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پیارے بھائی بہت خوب اللہ آپ کو خوش رکھے آمین پیارے بھائی یہ ہماری غلط فہمی ہے کہ نیا امریکی صدر مسلم اقوام کا دوست ہے پاکستانی قوم کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ وہ مسلم ہے پیارے بھائی امریکہ کی کوئی بھی پارٹی برسر اقددار آئے وہ پاکستان کی دوست نہیں ہو سکتی ہنود یہود کو یہ کہاں پسند ہے کہ پاک اسلامی ملک ہونے کے باوجود ایٹمی طاقت ہو پیارے بھائی الحمد اللہ ہم اتنے بھی کمزور نہیں یہ تو ہمارے حکمران ہمیں کمزور بنانے پر تولے ہوئے ہیں آپ ایران کی مثال لے لیں جس کے حکمران آج تک ثابت قدم ہیں لیبیا کی مثال لے لیں جب تک کرنل قذافی ثابت قدم رہے دونوں ملکوں پر ہزاروں پابندیوں کے باوجود کوئی فرق نہ پڑا
     
  11. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    امریکہ کسی کا دوست نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے مفادات کا دوست ہے۔ ہماری آنکھوں اور دل ودماغ پر پردہ پڑا ہوا ہے ہم کیوں بھول رہے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح طور پر فرمادیا گیا ہے کہ یہودونصارٰی کبھی تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔

    ہم ان کی دوستی اور ان کی امداد پر مرے جارہے ہیں۔اور وہ ہماری جڑیں کاٹ‌رہا ہے۔
     
  12. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    پاکستان اور إٓئی ایم ایف کی غلامی
    پیارے بھائی بہت شکریہ معلومات دینے کا یہاں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اگر میاں برادران چوہددری برادران اور جنرل زرداری سے پاک قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے لی جاے تو پاک عرض کے تمام قرض اتر جایں گئے بلکہ ایک خوشحال پاکستان بن سکتا ہے مجھے یاد ہے وہ وقت جب مرحوم بی بی محل خرید رہیں تھیں لیکن سرکاری خرچ چلانے کے لیے زاید نوٹ شاپ رہیں تھیں ۔ مجھے وہ بھی یاد ہے جب شریف برادران کی حکومت تھی اور ان کی ایک فرم سے جس کا نام اتفاق فونڈری تھا پاکستان میں ان کی کئی شوگر ملز اور نہ جانے کون کون سی مل بن رہی تھی اور حریسہ کھانے کے لیےاسلام آباد سے لاہور بائی ایر تشریف لاتے تھے لیکن وطن عزیز کے لیے آئی ایم ایف سے باری شرائیط کے ساتھ قرض لیتے تھے مجھے وہ بھی یاد ہے جب مرحوم بی بی کہتیں تھیں کہ میں اسمارٹ اس لیے ہوں کہ میری عوام غریب ہے اور میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتی ہوں ( جیسے ان کے کھانے سے پاکستان غریب ہو جائے گا ( لیکن اس وقت ان کے شوہر کے جناب جنرل زرداری کے گھوڑے وزیر اعظم ہاوس کے ایر کنڈیشن کمروں میں آرام فرماتے تھے میں یہ بھی نہیں بھولا چوہدری برادران
    جو کہ ایک حوالدار کی اولاد ہیں آج اتنی دولت ان کے پاس کہاں سے آگئی
     
  13. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    بھائی لوگو ۔
    یہ ڈرون حملے کیا ہوتے ہیں ؟
    انکی کوئی تفصیل بتا کر مجھ کم علم کے علم میں اضافہ فرما دے۔ شکریہ
     
  14. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    بہت ہی زیادہ سچ لکھا، یہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ،

    :a180:
     
  15. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب نر ہو گا۔ وجہ یہ کہ اس جہاز کی شکل آلہ تناسل سے ملتی ہے۔

    ایک ڈرون سسٹم میں چار جہاز شامل ہوتے ہیں

    اصل میں میل مخفف ہے ’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘ کا۔ ابتداء میں بغیر پائلٹ کے جہاز یا ’پریڈیٹر‘ کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیئے گئے۔

    سن انیس سو پچانوے سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیئے جا چکے ہیں۔

    ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔

    پینٹاگن اور سی آئی اے انیس سو اسی کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔

    انیس سو نوے میں سی آئی کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔

    ڈرون انیس سو نوے کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور انیس سو پچانے میں پہلی مرتبہ اسے بالکان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

    ڈرون کے بارے میں حقائق

    بنیادی کام: جاسوسی اور اہداف کو نشانہ بنانا بنانے والے: جنرل اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم انکارپویٹڈ انجن: روٹیکس 914 ایف چار سلنڈر قوت: ایک سو پندرہ ہارس پاؤر پروں کا پھیلاؤ: اڑتالیس اعشاریہ سات فٹ لمبائی: ستائس فٹ اونچائی چھ اعشاریہ نو فٹ وزن: ایک ہزار ایک سو تین پاؤنڈ اڑان کا وزن: دو ہزار دو سو پچاس پاؤنڈ ایندھن کی گنجائش: چھ سو پینسٹھ پاؤنڈ رفتار: چوراسی میل فی گھنٹہ سے ایک سو پینتیس میل فی گھنٹہ مار: چار سو پینتالیس میل پرواز کی بلندی: پچیس ہزار فٹ ہتھیار: دو لیزر گائڈڈ میزائل

    افغانستان پر فوجی چڑھائی سے قبل امریکی فضائیہ ساٹھ کے قریب پریڈیٹر طیارے حاصل کر چکی تھی اور ان میں بیس مختلف کارروائیوں میں ضائع ہو گئے تھے۔ ضائع ہونے والے زیادہ تر موسمی خرابیوں کی وجہ سے تباہ ہوئے۔

    انتہائی کم درجہ حرارت کی وجہ سے پیدا ہونے والی فنی خرابیوں کے باعت بعد میں ان طیاروں کو برف پگھلانے والے آلات اور ٹربو چارج انجنوں سے لیس کر دیا گیا۔


    ڈرون کی کم از کم دو پروازوں میں قندہار کے قریب ترناک کے فارمز پر سفید لباس میں ملبوس ایک طویل قامت شخص جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن تھے دیکھا گیا۔


    سن دو ہزار ایک میں افغانستان میں پریڈیٹر جہاز کے جاسوسی مشن کے نتائج دیکھنے کے بعد سی آئی کے انسداد دہشت گردی کے مرکز کے سربراہ کوفر بلیک نے اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون جہازوں پر میزائل نصب کرنے کی ضرورت پر زور دینا شروع کیا۔

    بائیس مئی اور سات جون سن دو ہزار ایک میں ڈرون سے میزائل داغنے کے مزید تجربات کیئے گئے اور جون کے پہلے ہفتے میں امریکہ کے نیواڈا صحرا میں افغانستان کے صوبے قندہار کے علاقے ترناک میں اسامہ بن لادن کے گھر کی طرح کا ایک گھر بنایا گیا اور اس پر ڈرون سے میزائل داغا گیا۔ یہ میزائل اس گھر کے کمرے میں پھٹا اور یہ فرض کیا گیا کہ اس کمرے میں موجود بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔

    تاہم ستمبر دو ہزار ایک میں امریکہ پر ہونے والے حملوں سے پہلے ڈرون کو میزائل داغنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

    سی آئی اے اور پینٹاگن نے سن دو ہزار میں مشترکہ طور پر افغانستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کا پلان بنایا۔ اس پلان کو ’افغان آئیز‘ کا نام دیا گیا اور ڈرون طیاروں کا ساٹھ دن کی تجرباتی پروازیں شروع کی گئیں۔

    اس سلسلے کی پہلی تجرباتی پرواز سات ستمبر دو ہزار کو کی گئی۔ وائٹ ہاؤس کے سیکیورٹی چیف رچرڈ اے کلارک ان تجرباتی پروازوں کے نتائج سے بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مستقبل میں اسامہ بن لادن کو ڈرون سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

    رچرڈ کلارک، سی آئی اے کے کاونٹر ٹریورزم کے سینٹر کے چیف کوفر بلیک اور سئی آئی اے کے خفیہ معلومات اکھٹی کرنے والے آپریشن کے انچارج چارلس ایلن امریکی انتظامیہ کے وہ تین اعلی اہلکار تھے جنہوں نے فوری طور پر ڈرون کی تجرباتی پروازوں کی حمایت کی۔

    ڈرون کی افغانستان کے اوپر پندرہ میں سے دس پروازوں کو کامیاب قرار دیا گیا۔ ڈرون کی کم از کم دو پروازوں میں قندہار کے قریب ترناک کے فارمز پر سفید لباس میں ملبوس ایک طویل قامت شخص جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اسامہ بن لادن تھے دیکھا گیا۔

    اُس سال اکتوبر کے مہینے میں موسم سرد ہو جانے کے ساتھ ازبکستان سے ڈرون کی پروازیں کرنا ممکن نہیں رہا۔

    چار ستمبر دو ہزار ایک کو بش انتظامیہ کی طرف سے القاعدہ اور طالبان کے خلاف کارروائی کی منظوری دینے کے بعد سی آئی اے کے چیف جان ٹینٹ نے ڈرون کی پروازوں کی اجازت دی۔ اسوقت تک ڈرون سے میزائل داغنے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی تھی لیکن ازبکستان کی حکومت کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے ڈرون پر میزائل نصب نہیں کیئے گئے۔

    گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے فوری طور پر ڈرون کے لیے ہیل فائر میزائل روانہ کر دیے اور سولہ ستمبر تک یہ ازبکستان میں امریکی اڈوں پر پہنچ گئے تھے۔اٹھارہ ستمبر دو ہزار ایک کو کابل اور قندہار کے اوپر پہلی مرتبہ ڈرون جہازوں نے پروازیں کیں لیکن اس وقت ان پر میزائل نصب نہیں تھے۔

    بشکریہ
    http://ur.wikipedia.org
     
  16. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    برادرم نعیم بھإئی :
    بغیر پإئلٹ طیارہ ہے ، اس میں سامنے کی طرف (فرنٹ میں ڈوم جیسی جگہ) ایک بڑا سا کیمرہ لگا ہوا ہے اور وہ کیمرہ بھی متحرک ہے ، اس کے مواصلاتی نظام سے ہر دم تازہ ترین تصاویر کنٹرول سنٹر میں دکھإٕئی دیتی ہیں، اور اس کے دونوں پروں کے نیچے میزإئل لگے ہوتے ہیں ، کنٹرول سینٹر جہاں مرضی ہو بنایا جا سکتا ہے ، اس طیارہ کو مرکز سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے ، اس کو ان علاقوں میں جاسوسی کے لیے بھیجا جاتا ہے ،جہاں پاءلٹ کی جان کو خطرہ ہو ، اس لیے بغیر پائلٹ ریموٹ کنٹرول طیارے کے ذریعے تصاویر لی جا سکتی ہیں اور موقع کی مناسبت سے میزائل حملہ بھی کیا جا سکتا ہے ، پاکستان میں حملے کرنے کا فیصلہ امریکا کے پینٹاگون میں موجود آفیسر کرتے ہیں ، یہ کیمرے دن اور رات اورہر موسم میں بھی کام کرتے رہتے ہیں ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ایران نے اسرائیل تک پہینچنے والا ڈرون بنا لیا
    ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی "فارس" نے نائب وزیر دفاع احمدی واحدی کے حوالے سے بتایا کہ ہے کہ ایران نے بغیر پائلٹ کے اڑنے والا ایک جاسوس طیارہ بنا لیا ہے جو 950 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ دعویٰ درست ہے تو اسرائیل اس کی زد میں آ جائے گا۔

    واضح رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ایران نے ڈرون طیارہ بنانے کا دعویٰ کیا ہو۔ تاہم ایرانی عہدے داروں نے اس سے پہلے کبھی بھی کسی ایسے طیارے کی رینج کے بارے میں کوئی بات نہیں کی

    لندن میں مقیم بین الاقوامی شہرت کے حامل سلامتی امور کے ماہر بوب آئرز کا خیال ہے کہ "ڈرون طیارہ بنا لینا اس وقت تک کوئی بڑی بات نہیں ہے، جب تک کہ اس میں اعلی تکنیکی آلات نصب نہ ہوں۔ "

    بوب آئرز کا کہنا ہے کہ "بغیر پائلٹ کے اڑنے والے جہاز یوں سمجھیں جیسے کہ چھوٹے طیارے ہوتے ہیں اورانہیں عام طور پر ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاتا ہے۔ یہ طیارے بڑے بھی ہو سکتے ہیں، تاہم اس قسم کے چھوٹے طیارے بنانا زیادہ آسان ہوتا ہے، اور انہیں کنٹرول کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے طیارے گذشتہ چالیس برس سے لوگ مشغلے کے طور پر اڑا رہے ہیں۔"

    "کسی بھی ڈرون طیارے کو قابل قدر بنانے میں سب سے زیادہ اہمیت ان الیکٹرانک آلات کی ہوتی ہے جو اس میں نصب کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کیا اس میں کیمرہ ہے؟ کیا اس کیمرے سے تصویر کھینچ کر بعد میں ان کی فلم بنانی پڑتی ہے؟ کیا تصویروں کو براہ راست اپنے کنٹرول سینٹر کو بھیجا جا سکتا ہے، وغیرہ۔ تو ڈرون کی از خود کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی ۔ اس میں اس پر نصب آلات اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کا تعین کرتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔
    وکیپیڈیا سے مضمون راشد احمد صاحب نے ڈرون طیاروں کے بارے لگا دیا ہے ،باقی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے ، پاکستان میں البتہ 90 سے زیادہ ڈرون حملے ہو چکے ہیں ، جس میں کافی بے گناہ مارے یا شہید ہوٕئے ، ہمارے ملک کی سب سے بڑی خامی ہے کہ اس جگہ جہاں حملہ ہوتا ہے ، کوئی سرکاری عہدہداران ،یا پریس بالکل نہیں جاتے ،کہ امریکا کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کریں ،کہ کیا واقعی وہاں دہشت گرد مارے گئے ، ہم امریکا کی اطلاعات کو ہی حقیقت سمجھ لیتے ہیں ، حالانکہ امریکا سے بڑا جھوٹا شاید ہی کوٕی ملک ہو، اس کے جھوٹے ہونے کی مثال عراق پر تباہ کن ہتھیاروں کا الزام لگا کر اس اسلامی ملک کو تباہ و برباد کر دیا ہے ،
    ،
     
  17. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    شکریہ بے باک بھائی

    بہت اچھی انفارمیشن ہے

    کیا پاکستان کے پاس ڈرون طیاروں سے نبٹنے کا کوئی حل نہیں؟
     
  18. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جناب راشد صاحب : شکریہ ۔ آپ کے سوال کا جواب حاضر ہے :
    یہ طیارہ تباہ کرنا دوسرے طیاروں کی نسبت بہت آسان ہے ، اس کی رفتار اتنی تیز بالکل نہیں ہوتی ، یہ بھی ایک سیمی فائیٹر کم وزن والا طیارہ سمجھیے جس کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاتا ہے ، اینٹی ایر کرافٹ گنز اور سٹنگر میزائل ،، فائیٹر طیارے سے فائرنگ ، اور میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے ، قبائلی علاقوں میں کئی ڈرون طیارے تباہ کیے گئے ،جن کو صرف اینٹی ایر کرافٹ گنز سے گرایا گیا ہے ، پاکستان کی فضائیہ نے اس بارے ایک نہایت کامیاب تجربہ کیا اور ہمارے وزیر دفاع کے اس بیان کو غلط ثابت کیا کہ ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ ہم ان طیاروں کو تباہ کر سکیں ،
    محترم : ہمارا ملک امریکا سے جنگ نہیں چاہتا، اس جنگ سے بچنے کے لیے ہم مختلف تاویلیں‌ پیش کر رہے ہیں ۔اور یا دوسرے لفظوں میں ہماری حکومت اور پینٹاگون میں ایگریمنٹ طے پایا ہے بقول امریکا کے دفاعی ماہرین ۔ ہماری ایس آئی ایس میں کچھ کالی بھیڑیں ہیں جو ان معلومات سے طالبان کو حملے سے پہلے خبردار کر دیتے ہیں ، اس لیے طالبان حملے سے بچ جاتے ہیں ، اس لیے اب ان معلومات کو پاکستان سے شییر بالکل نہیں کیا جائے گا، اور امریکا حملہ کرنے کے بعد ایک پریس نوٹ جاری کرتا ہے کہ ایک ڈرون حملہ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں اتنے دھشت گرد مارے گئے اور اتنے غیر ملکی مرنے والوں میں تھے ،
    ہماری حکومت تو وہاں جانے کی بھی زحمت بالکل نہیں کرتی ، اور نہ ہی پریس کو وہاں جانے دیا جاتا ہے ، کہ امریکا کی باتوں کی تصدیق کی جا سکے ، ہم اسی بیان کو ایک معمولی سی اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے اخبارات میں جاری کر دیتے ہیں‌، دوسرے لفظوں میں ہمیں‌ڈالر اسی تابعداری کے لیے مل رہے ہیں ۔
     
  19. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وہ خلا میں سیارہ بھیجنے کی اجازت چاہتے ہیں ، اور پورے ملک کو نیوکلر پاور پلانٹ لگا کرفری بجلی کا نظام دینا چاہتے ہیں ، مگر بقول ڈاکٹر صاحب کے ان کو ایک ایف اے پاس ڈکٹیٹر آمر نے اس بات کی اجازت نہیں دی ان کی مراد پرویز مشرف کی طرف تھی ۔ کہ امریکا ناراض ہو جائے گا، اور ہماری امداد بند ہو جائے گی، حیرت در حیرت یہ ہے کہ اب موجودہ حکومت صرف اور صرف امداد کے لیے بجلی مہنگی کر رہی ہے بلکہ بہت سارے مفید اور کار آمد سیکٹر نجکاری کے بہانے ان کو اونے پونے داموں بیچنا چاہتی ہے ، جن میں قادر آباد گیس فیڈ ، پاکستان سٹیل مل ، ریلوے ، واپڈا ، پی آئی اے ، اور دیگر صنعتی پلانٹ شامل ہیں ، یاد رہے کہ بجلی کی بندش صرف اسی لیے کی جاتی ہے کہ ان اداروں کو غیر منفعت بخش ثابت کیا جائےتاکہ ان کو فروخت کیا جا سکے ، ان اداروں کو سفید ھاتھی قرار دیا جائے،، آئی ایم ایف سے کڑی اور کڑوی شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے جس میں بجلی ۲۵ فیصد مہنگی کرنا شامل ہے ، اور نجکاری کے ذریعے سے صنعتی یونٹ فروخت کیے جائیں ،
    مکاری اور فراڈ کی کیا کیا مثالیں دیں ، بجلی کے کٹوتی شدہ بل دوبارہ شامل کر دیے گئے ، ٹی وی کے نام سے ہر گھر سے پچاس روپیہ ماہانہ کے حساب سےسالانہ چھ سو روپیہ ٹی وی رکھنے کے جرم میں لیا جاتا ہے اور صارف کو علم بھی نہیں ہوتا ،
    ایک اور بات آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں ۔ ہماری حکومت ہر ماہ کئی بلین روپیہ پٹرول کی مد میں منافع کما رہی ہے ، اور اس پر تیل کی سپلائی الیکٹرک کمپنیوں کو نہیں دی جا رہی اور نہ ہی ان کو جو نرخ طے کیے ہیں وہ ادا کیے جا رہے ہیں ، اس لیے وہ بجلی پیدا کرنے والے یونٹ بند کرنے پر مجبور ہیں ، ہر ادارہ دوسرے ادارے پر ذمہ داری ڈال دیتا ہے ، پاکستان کے سرکاری اداروں کے ذمہ کئی بلین روپے الیکٹرک کمپنیوں کے واجب الادا ہیں ،
    مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق ہمارے وزیر خزانہ شوکت ترین ( وہ بدترین ثابت ہو رہے ہیں) نے سعودی عرب سے اس معائدے پر ادھار تیل لینا طے کیا ہے کہ جو پاکستانی سعودی عرب میں مقیم ہیں وہ اس کی ادائیگی کریں گے ،وہ یہ رقم بذریعہ بینک اپنے گھر بھیجیں گے تو وہ رقم روک لی جائے اور صرف سٹیٹ بینک کو وہ اعداد و شمار بتا دیے جائیں تو حکومت پاکستان وہ رقم ان پردیسیوں کے گھروں میں ترسیل کرے گی ، یعنی ہمیں لاعلمی میں آنے والے پانچ سال کے لیے فروخت کر دیا گیا ہے ، :hathora: یعنی ہماری حکومت منافع بھی کمائے گی اور اصل رقم بھی ادا نہیں کرے گی،۔اسے کہتے ہیں چوروں اور ٹھگوں کی حکومت ،
     
  20. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    پاکستانی آئی ایس آئی کے طالبان سے روابط ہیں:جنرل پیٹرئیس
    امریکا کا پاکستان پر طالبان اور القاعدہ کی حمایت کا الزام
    پہنچی وہیں پہ خاک ،جہاں کا خمیر تھا
    واشنگٹن.ایجنسیاں

    امریکا کے صدربراک اوباما کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے بارے میں نئی حکمت عملی میں دونوں ممالک کی سرحد پر واقع قبائیلی علاقوں میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کا اعلان ہوتے ہی امریکی حکام کی جانب سے میڈیا میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف نئی مہم شروع کردی گئی ہے اور دو سنئیر امریکی جرنیلوں نے پاک فوج کی انٹیلی جنس ایجنسی پر الزام عاید کیا ہے کہ وہ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر طالبان اور القاعدہ جنگجوٶں کی حمایت کررہی ہے.

    امریکا کے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف بحریہ ایڈمرل مائیک مولن نے الزام عاید کیا ہے کہ''پاکستان کی انٹرسروسزانٹیلی جنس (آئی ایس آئی )کے افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد اور بھارت کے ساتھ مشرقی سرحد پرالقاعدہ اور طالبان جنگجوٶں کے ساتھ روابط ہیں''.

    ایڈمرل مائیک مولن سی این این کے ایک پروگرام میں جمعہ کورات دیر گئے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ کیا پاکستان کی خفیہ ایجنسی القاعدہ نیٹ ورک اور اس کے طالبان اتحادیوں کی حمایت کررہی ہے.ان کا کہنا تھا کہ ''اس سلسلہ میں مضبوط اشارے موجود ہیں''.

    ایڈمرل مولن اور امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ آرمی جنرل ڈیوڈ پیٹرئیس کا کہنا ہے کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کو ایسی سرگرمیاں ختم کردینی چاہئیں.ایڈمرل مولن نے یہ تجویزپیش کی ہے کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کو مہیا کی جانے والی امداد کو اس کی جنگجوٶں کے خلاف جنگ سے مشروط کردیا جائے.ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کو دی جانے والی مالی امداد کی شرائط کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے.

    انہوں نے کہا کہ ''بنیادی طورپرآئی ایس آئی کی حکمت عملی تبدیل کی جانی چاہئے اور اسے دونوں سرحدوں پر جنگجوٶں کی حمایت سے دستبردار ہوجانا چاہئے''.واضح رہے کہ پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر یہ الزام عاید کیا جاتا رہا ہے کہ اس کے سردجنگ کے زمانے سے افغانستان کے جنگجو گروپوں سے تعلقات چلے آرہے ہیں لیکن پاکستان متعدد مرتبہ یہ کہہ چکا ہے کہ اس کے ان جنگجوٶں کے ساتھ ماضی کی طرح کے تعلقات نہیں رہے اور اس نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا کی جانب سے افغانستان پراکتوبر2001ء میں حملوں کے بعد طالبان سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے تھے.

    پاکستانی سکیورٹی اداروں نے ماضی میں ملک کے مختلف علاقوں سے القاعدہ اور طالبان کے سیکڑوں جنگجوٶں کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا ہے اور اس نے افغان سرحد کے قریب واقع اپنے شمال مغربی پہاڑی علاقوں میں جنگجوٶں کے خلاف متعدد کارروائیاں کی ہیں جس کے دوران ڈیڑھ ہزار کے قریب پاک فوج کے جوان شہید ہوچکے ہیں اور اس وقت بھی افغان سرحد کے قریب پہاڑی علاقوں میں پاک فوج کی کارروائیاں جاری ہیں .لیکن اس سب کے باوجود بھی پاکستان پر الزامات عاید کئے جارہے ہیں.

    تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایڈمرل مائیک مولن نے پاکستانی آئی ایس ایس پر یہ بالکل بے تکا الزام عاید کیا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ سرحد پر بھی طالبان جنگجوٶں کی مدد کررہی ہے حالانکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام سرحدی علاقہ میدانی ہے اور وہاں طالبان اور القاعدہ جنگجوٶں کی موجودگی اور آئی ایس آئی کی جانب سے اس کی حمایت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہی صورت حال مغربی سرحدوں کی ہے جہاں پاک فوج کے جوان اور پیراملٹری فورسزکے اہلکار جنگجوٶں سے نبردآزما ہے.

    امریکی جنرل پیٹرئیس نے پی بی ایس ٹیلی ویژن کے پروگرام''نیوزآور'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ''آئی ایس آئی نے اسی کے عشرے میں امریکا کی مالی مدد سے بعض جنگجوگروپ قائم کئے تھے جن کا بڑا مقصد افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف جنگ لڑنا تھا''.

    امریکی جنرل نے اپنا اندازہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ''یہ روابط بہت مضبوط تھے اور میرے خیال میں یہ آج بھی موجود ہیں.لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ تعلقات اب کس سطح پراستوار ہیں''.جنرل پیٹرئیس کا مزید کہنا تھا کہ ماضی قریب میں آئی ایس آئی کی جانب سے جنگجوٶں کو خبردارکرنے کے اشارے بھی ملے ہیں کہ ان کے ٹھکانوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے.ان کا کہنا تھا کہ '' ہماری انٹیلی جنس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگجو گروپ پاکستان کے لئے بھی خطرہ ہیں''.
     
  21. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    Zardari in secret talks with Holbrook
    Dubai Pakistan President Asif Ali Zardari held a secret meeting with Richard Holbrooke, US Envoy to Pakistan and Afghanistan, reportedly to regain American trust and to discuss issues endangering his government in the country.


    By Ashfaq Ahmed Chief Reporter :
    ۲۸ مارچ ۲۰۰۹ ۔۔۔ گلف نیوز
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ۔گلف نیوز دبئی کے صفحہ اول پر خبر شائع ہوئی ہے ، کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے خفیہ ملاقات ،امریکہ کے سفیر برائے افغانستان اور پاکستان سے کی ،اور اس ملاقات میں امریکا میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی بھی شامل تھے ، یہ اسی طرز کی ملاقاتیں ہیں جس طرز کی ملاقاتیں اس سے پہلے پرویز مشرف اور بے نظیر اور کولنڈا رائز سابقہ امریکن وزیر خارجہ کے درمیاں ہوتی رہیں ، یہ ملاقاتیں دبئی میں ہی کیوں کی جاتی ہیں جب کہ البروک کا ایک دن بعد پاکستان میں دورے کا پروگرام تھا ، وہ کیا مقصد تھا کہ صدر آصف علی زرداری نےپارلیمنٹ سے خطاب سے پہلے دبئی میں ملنا ضروری سمجھا،یہاں ملاقاتیں اسی صورت میں کی جاتی ہیں کہ امریکنوں کو خطرہ ہے کہ پاکستان میں ایسی ملاقاتیں پاکستانی کی خفیہ ایجنسیاں سن گن لے سکتی ہیں ،اور ان حالات میں دبئی محفوظ جگہ ہے ،

    پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کے سوداگر کیا خود انٹرنیشنل ہارس بنے ہوئے ہیں ، اللہ ہمیں شعور و عقل سلیم عطا فرمائے ، جن کندھوں پر چڑھ کر آپ اس اعلی عہدے پر پہنچے ہو، ان کو جھٹکنا بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ ان حالات میں وہی آپ کی سلامتی کے محافظ اور ہدایت کار ہیں۔
     
  22. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    مرحوم آغا شورش کشمیری کا ایک شعر
    میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
    گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم بےباک بھائی ۔
    اتنی نئی، مفید معلومات، اور حیران کن خبریں بتا کر مجھ کم علم کے علم میں اضافہ کرنے پر بہت شکریہ ۔
    اللہ تعالی آپکو جزائے خیر دے۔ آمین
     
  24. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    روزنامہ جنگ 2 اپریل2009

    دیکھیں ادھار کھانے کے اور مانگ کر کھانے کے کیا نتإئج کیا رنگ لاتے ہیں ،
    بقول غالب:
    مفت کی پیتے تھے اور کہتے تھے کہ ہاں ،
    رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
     
  25. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    موجودہ حالات کے تناظر میں یہی صورت حال ہے
     
  26. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  27. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
  28. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    [​IMG]

    روزنامہ ایکسپریس 2 اپریل 2009
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔

    اسکا مطلب "ڈرون حملے" والے منصوبے پر عمل در آمد شروع ہوگیا ؟
     
  30. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    ڈرون حملے پہلے سے شروع ہیں اب ان کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ، اور ہماری حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے ،
    :yes:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں