1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏21 نومبر 2006۔

  1. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اس وقت تو یُوں لگتا ہے

    اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
    مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
    آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
    اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
    ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
    گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
    شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
    اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
    اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
    تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
    مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
    لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
    ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے

    میو ہسپتال، لاہور
    4، مارچ 82ء

    فیض
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. حریم خان
    آف لائن

    حریم خان مدیر جریدہ

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2009
    پیغامات:
    20,724
    موصول پسندیدگیاں:
    1,297
    ملک کا جھنڈا:
    پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
    دکھ عبارت تو نہیں ،جو تجھے لکھ کر بھیجیں
    یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو
    نہ کوئی بات ہی ایسی کہ بتائیں تجھ کو
    زخم ہو تو تیرے ناخن کے حوالے کر دیں
    آئینہ بھی تو نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
    تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو
    یہ کوئی راز نہیں جس کو چھپائیں تو وہ راز
    کبھی چہرے کبھی آنکھوں سے چھلک جاتا ہے
    جیسے آنچل کو سنبھالے کوئی اور تیز ہوا
    جب بھی چلتی ہے تو شانوں سے ڈھلک جاتا ہے
    اب تجھے کیسے بتائیں کہ ہمیں کیا دکھ ہے
    جسم میں رینگتی رہتی ہے مسافت کی تھکن
    پھر بھی کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے حالات کا بوجھ
    اپنے قدموں سے ہٹاتے ہوئے سائے اپنے
    جس کو بھی دیکھیئے چپ چاپ چلا جاتا ہے
    کبھی خود سے کبھی رستوں سے الجھتا ہے مگر
    جانے والا کسی آواز پہ رکتا ہی نہی
    ڈھونڈنا ہے نیا پیرائے اظہار ہمیں
    استعاروں کی زباں کوئی سمجھتا ہی نہیں
    دل گرفتہ ہیں طلسماتِ غمِ ہستی سے
    سانس لینے سے فسوں قریاں جاں ٹوٹتی ہے
    اک تغیر پس ہر شے ہے مگر ظلم کی ڈور
    ابھی معلوم نہیں ہے کہ کہاں ٹوٹتی ہے
    تو سمجھتا ہے کہ خوشبو سے معطر ہے حیات
    تو نے چکھا ہی نہیں زہر کسی موسم کا
    تجھ پہ گزرا ہی نہیں رقص جنوں کا عالم
    ایسا عالم جہاں صدیوں کے تحیر کا نشہ
    ہر بچھڑی ہوئی ساعت سے گلے ملتا ہے
    اس تماشے کا بظاہر تو نہیں کوئی سبب
    صرف محسوس کرو گے تو پتا چلتا ہے
    ایک دھن ہے جو سنائی نہیں دیتی پھر بھی
    لے بہ لے بڑھتا چلا جاتا ہے ہنگامِ ستم
    کو بہ کو پھیلتا جاتا ہےغبار ِمن وتو
    روح سے خالی ہوے جاتے ہے جسموں کے حرم
    وقت بے رحم ہے,ہم رقص برہنہ ہیں سبھی
    اب تو پابند سلاسل نہیں کوئی پھر بھی
    دشت مژ گاں میں بھٹکتا ہوا تاروں کا ہجوم
    صفحہ لب پہ سسسکتی ہوئی آواز کی لو
    دیکھ تو کیسے رہائی کی خبر کرتی ہے
    روزن وقت سے آغاز سفر کرتی ہے
    بے خبر رہنا کسی بات سے اچھا ہی نہیں
    تو کبھی وقت کی دہلیز پہ ٹہرا ہی نہیں
    تو نے دیکھے ہی نہیں حلق امروز کے رنگ
    گرمی وعدہ فردا سے پگھلتے ہوے لوگ
    اپنے ہی خواب کی تعبیر مے جلتے ہوئےلوگ
    بھوک اور پیاس کی مری ہوئی فصلوں کی طرح
    پرعزم کی لکیروں سے ابھرتے ہوے لوگ
    امن کے نام پر بارود بھری دنیا میں
    خاص خشک کی مانند بکھرتے ہوے لوگ
    روز جیتے ہوئےاور روز ہی مرتے ہوئے لوگ
    زندگی فلم نہیں ہے کہ دکھائیں تجھ کو
    تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
    کوئی محفوظ نہیں اہل تحفظ سے یہاں
    رات بھاری ہے کہیں اور کہیں دن بھاری
    ساری دنیا کوئی میدان سا لگتی ہے ہمیں
    جس میں اک معرکہ سود و زیاں جاری ہے
    پاؤں رکھے ہوے بارود پر سب لوگ جہاں
    اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوے پروانہ شب
    آستینوں میں چھپائے ہوے مہتاب کوئی
    اپنی گردن میں لیے اپنے گریبان کا طوق
    نیند میں چلتے ہوے دیکھتے ہے خواب کوئی
    اور یہ سوچتے رہتے ہے کہ دیواروں سے
    شب کے آثار ڈھلے,صبح کا سورج ابھرا
    دور افق پار پہاڑوں پہ چمکتی ہوئی برف
    نئے سورج کی تمازت سے پگھل جائے گی
    اور کسی وقفہ امکان سحر میں اب کہ
    روشنی سارے اندھیروں کو نگل جائے گی
    دیکھئے کیسے پہنچتی ہے ٹھکانے پہ کہیں
    دور اک فاختہ اڑتی ہے نشانے پہ کہیں
    آ کے یہ منظر خون بستہ دکھائیں تجھ کو
    تو نے پوچھا ہے مگر کیسےبتائیں تجھ کو
    کوئی گاہک ہی نہیں جوہر آئندہ کا
    چشم کھولے ہوے بیٹھی ہے دکان گریہ
    اور اسی منظر خون بستہ کے گوشے میں کہیں
    سر پہ ڈالے ہوے اک لمحہ موجود کی دھول
    تیرے عشاق بہت خاک بسر پھرتے ہیں
    وقت کب کھینچ لے مقتل میں گواہی کے لیے
    دست خالی میں لیے کاسہ سر پھرتے ہیں
    پوچھنے والے تجھے کیسے بتائیں آخر
    دکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں
    دکھ تو محسوس ہوا کرتا ہے
    چاہے تیرا ہو یا میرا دکھ ہو
    آدمی وہ ہے جسے جیتے جی
    صرف اپنا نہیں سب کا دکھ ہو
    چاک ہو جائے جو اک بار حوس کے ہاتھوں
    جامہ عشق دوبارہ تو نہیں سلتا ہے
    آسمان میری زمینوں پر جھکا ہے لیکن
    تیرا اور میرا ستارہ ہی نہیں ملتا ہے

    سلیم کوثر
     
    نعیم، کاکا سپاہی، ملک بلال اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    سنا ہے شہر میں
    ٭٭٭٭
    آج صبح نئی نئی سی ہے
    ایسا لگتا ہے کہیں پاس ہے وہ
    اسکی خوشبو میں بسے سرد ہوا کے جھونکے
    کہہ رہے ہیں کہ یہیں پاس ہے وہ
    بے بسی کر رہی ہے من بوجھل
    دل اسے دیکھنے کو ہے بے کل
    سونی گلکیوں کو تکے جا رہے ہیں
    مانتے کیوں نہیں نینا پاگل
    جانتے ہیں اسے معلوم نہیں ہجر کا غم
    درد کا ذائقہ بھی اسنے کہاں چکھا ہے
    پھر بھی راہوں میں بچھے جا رہے ہیں
    سنا ہے شہر میں آج اسنے قدم رکھا ہے
    نیلم سہیل
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. شاہدندیم
    آف لائن

    شاہدندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏1 فروری 2013
    پیغامات:
    4,145
    موصول پسندیدگیاں:
    338
    ملک کا جھنڈا:
    اسے اپنے فردا کی فکر تھی، جو میرا واقفِ حال تھا
    وہ جو اس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
    میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
    وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا، اُسے روکنا بھی محال تھا
    کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
    وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا
    وہ جو اس کے سامنے آگیا، وہی روشنی میں نہا گیا
    عجب اس کی ہیبتِ حسن تھی، عجب اس کا رنگِ جمال تھا
    دمِ واپسی اسے کیا ہوا، نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
    وہ ستارہ کیسے بکھر گیا، وہ تو آپ اپنی مثال تھا
    وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی، میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
    اُسے میری چپ نے رلا دیا، جسے گفتگو میں کمال تھا
    میرے ساتھ لگ کے وہ رو دیا، اور مجھے فقط اتنا وہ کہہ سکا
    جسے جانتا تھا میں زندگی، وہ تو صرف وہم و خیال تھا
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    واہ واہ ۔۔۔۔بہت خوب
     
    ملک بلال اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. محسن وقار علی
    آف لائن

    محسن وقار علی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مارچ 2013
    پیغامات:
    133
    موصول پسندیدگیاں:
    168
    ملک کا جھنڈا:
    جوہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
    ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

    یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
    یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

    بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
    یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

    یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
    یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

    ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
    گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

    یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
    یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

    شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
    یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے
    (شکیل جعفری)
     
    ملک بلال، نعیم اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محمد الیاس
    آف لائن

    محمد الیاس ممبر

    شمولیت:
    ‏22 اپریل 2013
    پیغامات:
    34
    موصول پسندیدگیاں:
    59
    ملک کا جھنڈا:
    جب ہم نے اپنا اپنا قبیلہ الگ کیا
    رستے الگ بنا لیے، دریا الگ کیا
    ۔
    وہ ریت دوسروں کے مقدر کی ریت تھی
    سو ہم نے اپنے نام کا صحرا الگ کیا
    ۔
    اس پار بود وباش رہی ہم سے مختلف
    ہم نے بھی زندگی کا قرینہ الگ کیا
    ۔
    جب بھی کہیں حساب کیا زندگی کا دوست
    پہلے تمہارے نام کا حصہ الگ کیا
    ۔
    پھر یوں ہوا کہ بھول گئے اس کا نام تک
    جتنا قریب تھا اسے اتنا الگ کیا
    ۔
    خوابوں کا اک ہجوم تھا آنکھوں کے آس پاس
    مشکل سے اپنے خواب کا چہرہ الگ کیا۔
    ۔
    احمد مری شناخت ہی مٹی میں مل گئی
    مٹی نے ایک روز مجھے کیا الگ کیا
    احمد رضوان
     
    کاکا سپاہی، ملک بلال اور آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
    نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
    ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
    ایک ہی طولِ المناکی ہے
    ایک ہی رُوح جو بے حال ہے زندانوں میں
    ایک ہی قید تمنا کی ہے

    عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
    اور کچھ واہمے آئندہ کے
    پھر بھی اندیشہ وہ آئنہ ہے جس میں گویا
    مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
    کچھ نہیں دیکھتے ہیں
    محورِ عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
    اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا
    اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا
    اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!

    “دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی
    ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت”
    “مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
    آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے”
    “چاند کے آنے پہ سائے آئے
    سائے ہلتے ہوئے، گھُلتے ہوئے، کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں”۔۔۔ ۔
    (مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
    اپنی ہی ذات کی غربال میں چھَن جاتے ہیں!)
    دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
    آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے
    چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
    ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی

    مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
    آج جاں اِک نئے ہنگامے میں در آئی ہے
    ماہِ بے سایہ کی دارائی ہے
    یاد وہ عشرتِ خوں ناب کِسے؟
    فرصتِ خواب کسے؟

    شاعر ٭ ن م راشد ٭
     
    ملک بلال، آصف احمد بھٹی اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد
    کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد
    اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں لاعلم
    چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد
    میں نے ایسے ہی گناہ تیری جدائی میں کیے
    جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد
    شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا
    تھے جس کے ہاتھ میں ٹوٹے ہوئے پرشام کے بعد
    رات بیتی تو گنے آبلے پھر یاد آیا
    کون تھا باعثِ آغازِ سفرشام کے بعد
    تو ہے سورج ، تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
    تو کسی روز میرے گھر میں اترشام کے بعد
    لوٹ آئے نہ کسی روز وہ آوارہ مزاج
    کھول رکھے ہیں اسی آس پہ درشام کے بعد
    فرحت عباس شاہ
     
    کاکا سپاہی، محمد الیاس، محبوب خان اور 3 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    کاش ہم سمجھ لیتے
    منزلوں کی چاہت میں
    راستہ بدلنے سے
    فاصلہ نہیں گھٹتا
    دو گھڑی کی قربت میں...
    چار پل کی چاہت میں
    لوگ لوگ رہتے ہیں
    قافلہ نہیں بنتا
    ہاتھ میں دیا لے کر
    ہونٹ پہ دعا لے کر
    منزلوں کی جانب کو
    چل بھی دیں تو کیا ہو گا?
    خواہشوں کے جنگل میں
    اتنی بھیڑ ہو تی ہے
    کہ
    عمر کی مسافت میں
    راستہ نہیں ملتا
    ہمسفر نہیں ملتا
    شاید
    کچھ نہیں ملتا​
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    1. زندگی خاک نہ تھی، بس خاک اڑاتے گذری
      تجھ سے کیا کہتے، ترے پاس جو آتے گذری

      دن جو گذرا تو کسی یاد کی رو میں گذرا
      شام آئی تو کوئی خواب دِکھاتے گذری

      اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں
      وقت ایسے تھا کہ بس ناز اٹھاتے گذری

      زندگی جس کے مقدر میں ہوں خوشیاں تیری
      اس کو آتا ہے نبھانا ، سو نبھاتے گذری

      زندگی نام اُدھر ہے کسی سرشاری کا
      اور اِدھر، دور سے اک آس لگاتے گذری

      رات کیا آئی کہ تنہائی کی سرگوشی میں
      ہو کا عالم تھا مگر سنتے سناتے گذری

      بارہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی
      کسی کی آواز تھی یہ، کس کو بلاتے گذری​
     
    احتشام محمود صدیقی، ملک بلال اور کاکا سپاہی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    میرے ہمسفر میرے ہم نشین

    میں نے رب سے مانگا تو کچھ نہیں
    پر جب بھی مانگی کوئی دعا
    نہیں مانگا کچھ بھی تیرے سوا
    یہ طلب کیا کہ میرے خدا
    نئے عہد کی سبھی راحتیں، سبھی چاہتیں
    وہ عطا کرے تجھے منزلیں
    یہ طلب کیا کہ میرے خدا
    تجھے بخت دے
    تجھے تاج دے تجھے تخت دے
    میرے ہمسفر میرے چارہ گر
    یہ ہے محبت کا کٹھن سفر
    میرے ساتھ چلنا ذرا سوچ کر
    میرے پاس زر نہ کوئی ہنر
    پھر بھی دیکھ تو میرا حوصلہ
    میرے پاس جو کچھ سبھی تیرا
    نہیں اور کچھ بھی تیرے سوا
    میری دوستی میری زندگی
    میری خاموشی میری بے بسی
    میری صبح بھی میری شام بھی
    میرا علم بھی میرا نام بھی
    کہ جو مل سکیں میرے دام بھی
    وہ سبھی کچھ تجھ کو عطا کرے
    میرے چارہ گر تو یقین تو کر
    مجھے مانگنا تو نہ آسکا
    میں نے پھر بھی مانگی یہ ہی دعا
    کہ گواہی دے گا میرا خدا
    میں نے جب بھی اس سے طلب کیا
    نہیں مانگا کچھ بھی تیرے سوا۔
     
    ملک بلال اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
    پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا
    اک حشر بپا ہے گھر گھر میں ، دم گُھٹتا ہے گنبدِ بے دَر میں
    اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
    اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا...
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

    یہ اہلِ چشم یہ دارا و جَم سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
    مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب ، اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم
    ہو جاں کا زیاں، پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

    لوگوں ہی پہ ہم نے جاں واری ، کی ہم نے انہی کی غم خواری
    ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم ، شاعر نہ بنیں گے درباری
    ابلیس نُما انسانوں کی اے دوست ثنا کیا لکھنا
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

    حق بات پہ کوڑے اور زنداں ، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
    انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں ، خونخوار درندے ہیں رقصاں
    اس ظلم و ستم کو لطف و کرم ، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

    ہر شام یہاں شامِ ویراں ، آسیب زدہ رستے گلیاں
    جس شہر کی دُھن میں نکلے تھے ، وہ شہر دلِ برباد کہاں
    صحرا کو چمن، بَن کو گلشن ، بادل کو رِدا کیا لکھنا
    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

    اے میرے وطن کے فنکارو! ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
    یہ محل سراؤں کے باسی ، قاتل ہیں سبھی اپنے یارو
    ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملِا ، اس غم کو نیا کیا لکھنا

    ظلمت کو ضیاء، صَر صَر کو صبا ، بندے کو خدا کیا لکھنا
     
    پاکستانی55، ملک بلال اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جب کبھی تیرا نام لیتے ہیں
    دل سے ہم انتقام لیتے ہیں

    میری بربادیوں کے افسانے
    میرے یاروں کے نام لیتے ہیں

    بس یہی ایک جرم ہے اپنا
    ہم محبت سے کام لیتے ہیں

    ہر قدم پر گرے مگر سیکھا
    کیسے گرتوں کو تھام لیتے ہیں

    ہم بھٹک کر جنوں کی راہوں میں
    عقل سے انتقام لیتے ہیں

    +-+-+-+-+-+-+-+-+-+-+-+
     
    پاکستانی55، نعیم اور کاکا سپاہی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہر قدم پر گرے مگر سیکھا
    کیسے گرتوں کو تھام لیتے ہیں

    واہ ۔۔ بہت خوب جناب
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
    یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
    ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
    ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
    شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
    شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
    کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
    کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
    اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
    اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
    میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
    میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو
    شاعر : صوفی تبسم






     
    احتشام محمود صدیقی اور ملک بلال .نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
    ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت

    سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
    اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت

    جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
    ہے اس کے سوا کیا تیرے دیدار کی صورت

    پہچان لیا تجھ کو تیری شیشہ گری سے
    آتی ہے نظر فن ہی سے فنکار کی صورت

    اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِتمنا
    ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت

    اس خاک میں پوشیدہ ہیں ہر رنگ کے خاکے
    مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت

    دل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئ ہے جو خریدے؟
    دیکھوں تو زرا میں بھی خریدار کی صورت

    صورت میری آنکھوں میں سمائے گی نہ کوئی
    نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت

    واصف کو سرِدار پکارا ہے کسی نے
    انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت

    (حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
     
    پاکستانی55، احتشام محمود صدیقی اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِتمنا
    ہم سوچ رہے تھے ابھی اظہار کی صورت


    کیا کہنے۔۔ واہ بہت خوب ۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
    حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا

    نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
    نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا

    نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے
    میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا

    غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان
    مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا

    شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!
    خزاں سرشتِ بہار آگئی تو کیا ہوگا

    یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں
    تیری خودی کو بھی موت آگئی تو کیا ہوگا

    خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
    جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا


    شاعر: احسان دانش
     
    کاکا سپاہی, پاکستانی55, الکرم اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    واہ بہت اعلیٰ @نعیم بھائی!
    ایک ایک شعر لاجواب ہے۔
     
    پاکستانی55 اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
    کیسی سنسان فضا ہوتی ہے

    ہم نے دیکھے ہیں وہ سناٹے بھی
    جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے

    دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
    جیسے ویران سرا ہوتی ہے

    رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
    اس میں توہین وفا ہوتی ہے

    غم کی بے نور گزر گاہوں میں
    اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے

    غمگسار سفرِ راہِ وفا
    مژۂ آبلہ پا ہوتی ہے

    گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
    شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے

    جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم
    منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے

    حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
    بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے

    اک نیا دور جنم لیتا ہے
    ایک تہذیب فنا ہوتی ہے

    جب کوئی غم نہیں‌ہوتا ناصر
    بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے

     
    ملک بلال اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    ہم ایسے اس لیے بھی داستاں والے نہیں ہوتے
    ہمیں جو زخم ملتے ہیں نشاں والے نہیں ہوتے

    فقط وہ دیکھنے اور سننے والوں میں سے ہوتے ہیں
    تمہاری بزم میں اکثر زباں والے نہیں ہوتے

    ہمارا رقص شاید اس لیے ہے دیکھنے والا
    ہمارے رقص میں شامل جہاں والے نہیں ہوتے

    کسی کا نام لے لے کر اٹھا لے جاؤ جو چاہو
    جو اہل عشق ہوتے ہیں، دکاں والے نہیں ہوتے

    خدا ہی چھین لیتا ہے سنبھلنا ان کی قسمت سے
    جو ٹھوکر کھا کے گر جائیں، وہ ماں والے نہیں ہوتے

    ہمارے حال کی ان کو خبر یوں بھی نہیں ہوتی
    وہاں جو لوگ ہوتے ہیں، یہاں والے نہیں ہوتے

    ہمارے عشق کو شہزاد گمنامی پسند آئی
    کہ سب کے عشق بھی تو رازداں والے نہیں ہوتے

    شہزاد راؤ، میلسی
     
    ملک بلال اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. احتشام محمود صدیقی
    آف لائن

    احتشام محمود صدیقی مشیر

    شمولیت:
    ‏1 اپریل 2011
    پیغامات:
    4,538
    موصول پسندیدگیاں:
    2,739
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    اس کعبہِ دل کو کبھی ویران نہیں دیکھا
    اُس بت کو کب اللہ کا مہماں نہیں دیکھا
    کیا ہم نے عذابِ شبِ ہِجراں نہیں دیکھا
    تُم کو نہ یقیں آئے تو ہاں ہاں نہیں دیکھا
    کیا تو نے میرا حال پریشاں نہیں دیکھا
    اس طرح سے دیکھا کہ میری جاں نہیں دیکھا
    جب پڑا وصل میں شوخی سے کسی کا
    پھر ہم نے گریباں کو گریباں نہیں دیکھا
    ہم جیسے ہیں،ایسا کوئی دانا نہیں پایا
    تم جیسے ہو،ایساکوئی ناداں نہیں دیکھا
    راحت کے طلبگا رہزاروں نظر آئے
    محشر میں کوئی حور کا خواہاں نہیں دیکھا
    نظروں میں سمایا ہوا ساماں نہیں دیکھا
    لیلی نے کبھی قیس کو عریاں نہیں دیکھا
    اُس بُت کی محبت میں قیامت کا مزہ ہے
    کافر کو دوزخ میں پشیماں نہیں دیکھا
    کہتے ہو کہ بس دیکھ لیا ہم نے ترا دل
    دل دیکھ لیا اورپھر ارماں نہیں دیکھا
    کیا ذوق ہے کیا شوق ہے سو مرتبہ دیکھوں
    پھر بھی یہ کہوں جلوہ جاناں نہیں دیکھا
    محشر میں وہ نادم ہوں خُدا یہ نہ دِکھائے
    آنکھوں سے کبھی اُس کو پشیماں نہیں دیکھا
    جو دیکھتے ہیں دیکھنے والے تِرے انداز
    تو نے وہ تماشا ہی میری جاں ہی نہیں دیکھا
    ہر چند تیرے ظلم کی کُچھ حد نہیں ظالم
    پر ہم نے کسی شخص کو نالاں نہیں دیکھا
    گو نزع کی حالت ہے مگر پھر یہ کہوں گا
    کُچھ تمُ نے مرِا حالِ پریشاں نہیں دیکھا
    تُم غیر کی تعریف کروقہر خدُا ہے
    معشوق کو یوں بندہ احساں نہیں دیکھا
    کیا جذب محبت ہے کہ جب سینہ سے کھینچا
    سفاک تیرے تیر میں پیکاں نہیں دیکھا
    ملتا نہیں ہمکو دل گمُ گشتہ ہمارا
    تو نے تو کہیں اے غم جاناں نہیں دیکھا
    جو دن مجھے تقدیر کی گردش نے دِکھایا
    تو نے بھی وہ اے گردِشِ دوراں نہیں دیکھا
    کیا داد ملے اُسے پریشانیِ دل کی
    جس بتُ نے کبھی خوابِ پریشاں نہیں دیکھا
    میں نے اُسے دیکھا،مرے دل نے اُسے دیکھا
    تو نے اُسے اے دیدہ حیراں نہیں دیکھا
    تُمکو مرے مرنے کی یہ حسرت یہ تمنا
    اچھوں کو بُری بات کا ارماں نہیں دیکھا
    لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کے مجھکو
    جو حال سنا تھا وہ پریشاں نہیں دیکھا
    تم منہ سے کہے جاؤ کہ دیکھا ہے زمانہ
    آنکھیں تو یہ کہتی ہیں ہاں ہاں نہیں دیکھا
    کیا عیش سے معمور تھی وہ انجمنِ ناز
    ہم نے تو وہاں شمع کو گرِیاں نہیں دیکھا
    کہتی ہے مری قبر پہ رو رو کے محبت
    یوں خاک میں ملتے ہوئے ارماں نہیں دیکھا
    کیوں پوچھتے ہو کون ہے یہ کسکی ہے شہرت
    کیا تم نے کبھی داغؔ کا دیوان نہیں دیکھ​
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے اسے دیکھا، دل نے اسے دیکھا
    تو نے اے دیدہء حیراں ۔۔ نہیں دیکھا؟

    واہ واہ ۔۔ کیا انداز ہے۔ واہ ۔
     
    کاکا سپاہی اور احتشام محمود صدیقی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:

    کبھی اس نگر تجھے ڈھونڈنا کبھی اُس نگر تجھے ڈھونڈنا
    کبھی رات بھر تجھے سوچنا کبھی رات بھر تجھے ڈھونڈنا

    مجھے جا بجا تیری جستجو تجھے ڈھونڈتا ہوں میں کوبہ کو
    کہاں کھُل سکا تیرے روبرو میرا اس قدر تجھے ڈھونڈنا


    میرا خواب تھا کہ خیال تھا وہ عروج تھا یا زوال تھا
    کبھی عرش پر تجھے ڈھونڈنا کبھی فرش پر تجھے ڈھونڈنا


    یہاں ہر کسی سے ہی بیر ہے تیرا شہر قرئیہ غیر ہے
    یہاں سہل بھی تو نہیں کوئی میرے بےخبر تجھے ڈھونڈنا


    تیری یاد آئی تو رودیا تو جو مل دیا تجھے کھو دیا
    میرے سلسلے بھی عجیب ہیں تجھے چھوڑ کر تجھے ڈھونڈنا


    یہ میری نظر کا کمال ہے کہ تیری نظر کا جمال ہے
    تجھے شعر شعر میں سوچنا سرِ بام و در تجھے ڈھونڈنا

     
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بارہا تجھ سے کہا تھا مجھے اپنا نہ بنا
    اب مجھے چھوڑ کے دنیا میں تماشا نہ بنا

    نہ دکھا پائے گا تُو خواب میری آنکھوں کے
    اب بھی کہتا ہوں مصور! میرا چہرہ نہ بنا

    اک یہی غم میرے مرنے کیلئے کافی ہے
    جیسا تُو چاہتا تھا مجھ کو میں ویسا نہ بنا

    ایک بات اور پتے کی میں بتاؤں تجھ کو
    آخرت بنتی چلی جائے گی، دنیا نہ بنا

    یہ خدا بن کے رعایت نہیں کرتے ہیں وصیؔ
    حسن والوں کو کبھی قبلہ و کعبہ نہ بنا

    وصی شاہ​
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    روکتا ہے ______غم ِ اظہار سے پندار مجھے
    میرے اشکوں سےچھُپا لے مرے رُخسار مجھے

    دیکھ اے دشتِ جنوں____بھید نہ کھُلنے پائے
    ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مجھے

    سِی دیئے ہونٹ ___اُس شخص کی مجبوری نے
    جس کی قربت نے کیا___مِحرمِ اسرار مجھے

    میری آنکھوں کی طرف___دیکھ رہے ہیں اَنجُم
    جیسے پہچان گئی ہو ___شب ِ بیدار مجھے

    جِنسِ ویرانیِ صحرا _____میری دوکان میں ہے
    کیا خریدے گا____ترے شہر کا بازار مجھے

    جَرس ِ گُل نے____کئ بار بلایا لیکن
    لے گئی راہ سے زنجیر کی جھنکار مجھے

    نَاوک ِ ظلم اُٹھا _____دَشنہ ِ اَندوہ سنبھال
    لُطف کے خنجر ِ بے نام سے مت مار مجھے

    ساری دنیا میں_____گھنی رات کا سناٹا تھا
    صحنِ رنداں میں ملے صبح کے اثار مجھے..

    مصطفے زیدی​
     
    احتشام محمود صدیقی نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ہم اپنی صورتوں سے مماثل نہیں رہے
    ایک عمر آئینے کے مقابل نہیں رہے

    مجبوریاں کچھ اور ہی لاحق رہی ہمیں
    دل سے ترے خلاف تو اے دل ،نہیں رہے


    اب وقت نے پڑھائے تو پڑھنے پڑے تمام
    اسباق جو نصاب میں شامل نہیں رہے


    بے چہرگی کا دکھ بھی بہت ہے مگر یہ رنج!
    ہم تیری اک نگاہ کے قابل نہیں رہے


    عمرِرواں کے موڑ پہ کچھ خواب،میرے خواب
    کھوگئے ہیں ایسے کہ اب مِل نہیں رہے


    اپنے لیے ہمیں کبھی فرصت نہ مِل سکی
    اس کو گلہ کہ ہم اسے حاصل نہیں رہے


    کیا رات تھی کہ شہر کی صورت بدل گئی
    ہم اعتبارِ صبح کے قابل نہیں رہے


    ثــــمــیـنـہ راجــــہ مرحومہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں