1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏21 نومبر 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت خوب منظر کشی ہے۔ محبوب خان بھائی شئرنگ کے لیے شکریہ ۔
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سونے کا پیڑ

    میرے گھر کے کچے آنگن میں سونے کا پیڑ
    پتّے خاص زمرّد جس کے اور سنہری پھول
    جگمگ جگمگ سارا آنگن اور آنگن کا روپ
    ساون دھو کر چمکا دیتا، جب پڑتی کچھ دُھول

    سونا کھانے آجاتے پیارے پیارے پنچھی
    بُلبل، مینا، طوطی، چڑیا، کوئل، کاگ، چُکور
    جاڑاآتا تو سونے کا پیڑ سیہ ہوجاتا
    پوس کے پالے سے بے بس کوکرناپڑتازور
    شام سے لیکر صبح تلک کُہرے میں جم جاتا
    ظالم اور بے درد وہ موسم لیتا اُس کو گھیر
    سرد ہوا کے جھونکوں کے جب زور تھپیڑے لگتے
    میرے گھر میں لگ جاتا پھر تُکلوں کا اک ڈھیر

    علی اکبر ناطق

    اضافہ: شاعر موصوف سے میں نے عرض کی کہ حضرت یہ اوپر سونے کا پیڑ پڑھ کے سمجھا نہیں یہ کس کے بارے ہے۔۔۔۔کہنے لگا کہ کیکرکے درخت کا ذکر ہے۔۔۔۔۔جب اس پر زرد رنگ کے پھول آجاتے ہیں۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    تجھ سے بچھڑ کر آنکھوں کو نم کس لئے کریں
    تجھ کو نہیں ملال تو ہم کس لئے کریں
    دنیا کی بے رُخی تونہیں ہے کوئی جواز
    اس شدتِ خلوص کو کم کس لئے کریں
    تا عمر قربتوں کو تو امکان ہی ناں تھا
    آنکھیں فراقِ یار کا غم کس لئے کریں
    اپنا جنوں داد و ستائش سے بے نیاز
    پھر بے خودی کا حال رقم کس لئے کریں
    جن کے لئے افق پہ چمکتے ہیں راستے
    مٹی پہ ثبت نقشِ قدم کس لئے کریں
    مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اپنے لوگ
    اب احتجاجِ صبحِ کرم کس لئے کریں
    ساجد کوئی نئی تو نہیں ہے یہ تیرگی
    آخر ملا لِ شامِ الم کس لئے کریں


    اعتبار ساجد​
     
  4. لاجواب
    آف لائن

    لاجواب ممبر

    شمولیت:
    ‏21 فروری 2011
    پیغامات:
    301
    موصول پسندیدگیاں:
    111
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    شئرنگ کے لیے شکریہ ۔
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
    اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

    بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
    پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

    ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
    ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

    دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
    تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے

    نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
    دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے

    کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار
    جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے

    جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
    اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے


    ابراھیم ذوق ​
     
  6. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت خوب نعیم بھائی داد قبول ہو۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    میری مٹی سے میرے خوابوں کے رشتے محکم کرنے کے لئے
    اک درد مسلسل جاگتا ہے دل و جاں کو بہم کرنے کے لئے

    جہاں وحشت کرنا سیکھا تھا جہاں جاں سے گزرنا سیکھا تھا
    میرے آہو مجھے بُلاتے ہیں اسی دشت میں رم کرنے کے لئے

    وہ جو اول عشق کی شدت تھی وہ تو مہر دو نیم کی نذر ہوئی
    اب پھر اک موسم آیا ہے مجھے مستحکم کرنے کے لئے

    یہ سارے ادب آداب ہنر یوں ہی تو نہیں آ جاتے ہیں
    عمریں تج دینی پڑتی ہیں اک حرف رقم کرنے کے لئے

    موت آئی اور دل کے دہلیز پہ بوسہ دے کر لوٹ گئی
    میرے مہمان آئے بیٹھے تھے تازہ دم کرنے کے لئے

    میرے مالک مجھ کو غنی کردے کہ شکست کے بعد میرا دشمن
    میری تیغ کا طالب ہے مجھ سے میرے ہات قلم کرنے کے لئے

    افتخار عارف
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    یہ سارے ادب آداب ہنر یوں ہی تو نہیں آ جاتے ہیں
    عمریں تج دینی پڑتی ہیں اک حرف رقم کرنے کے لئے

    میرے مالک مجھ کو غنی کردے کہ شکست کے بعد میرا دشمن
    میری تیغ کا طالب ہے مجھ سے میرے ہات قلم کرنے کے لئے


    واہ بہت خوب ۔ خوب انتخاب ہے۔
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ہاتھ چُھوٹے بھی تو رشتے نہیں چھوڑا کرتے
    وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

    جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
    ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے

    شہد جینے کا ملا کرتا ہے تھوڑا تھوڑا
    جانے والوں کے لیئے دل نہیں تھوڑا کرتے

    لگ کے ساحل سے جو بہتا ہے اُسے بہنے دو
    ایسے دریا کا کبھی رُخ نہیں موڑا جاتا
    وقت کی شاخ سے لمحے نہیں توڑا کرتے

    جس کی آواز میں سلوٹ ہو نگاہوں میں شکن
    ایسی تصویر کے ٹکڑے نہیں جوڑا کرتے
     
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سفیرِ لیلٰی یہی کھنڈر ہیں جہا ں سے آغازِ داستاں ہے
    ذرا سا بیٹھو تو میں سناؤں
    فصیلِ قریہ کے سُرخ پتھر اور اُن پہ اژ در نشاں صنوبر گواہ قریہ کی عظمتوں کے
    چہار جانب نخیلِ طُوبیٰ اور اُس میں بہتے فراواں چشمے
    بلند پیڑوں کے ٹھنڈے سائے تھے، شاخ زیتوں اِسی جگہ تھی
    یہی ستوں تھے جو دیکھتے ہو پڑے ہیں مردہ گدِھوں کے مانند
    اُٹھائے رکھتے تھے اِن کے شانے عظیم قصروں کی سنگیں سقفیں
    یہی وہ در ہیں سفیرِ لیلٰی کہ جن کے تختے اُڑا لیے ہیں دِنوں کی آوارہ صرصروں نے
    یہیں سے گذری تھیں سرخ اونٹوں کی وہ قطاریں
    کہ اُن کی پُشتیں صنوبروں کے سفید پالان لے کے چلتیں
    اُٹھائے پھرتیں جو ان پریوں کی محملوں کو
    یہ صحن قریہ ہے ،اس کے دامن میں سرخ خرما کی سبز شاخیں
    فلک سے تازہ پھلوں کے خوشے چُرا کے بھرتی تھیں پہلوؤں میں
    سفید پانی کے سو کنویں یوں بھرے ہوئے تھے
    کہ چَوڑی مَشکوں کو ہاتھ بھرکی ہی رسیاّں تھیں
    مضافِ قریہ میں سبزہ گاہیں اور اِن میں چرتی تھیں فربہ بھیڑیں
    شمالِ قریہ میں نیل گائیں منارِ مسجد سے دیکھتے تھے
    پرَے ہزاروں کبوتروں کے فصیلِ قریہ سے گنبدوں تک
    پرَوں کو زوروں سے پھڑپھڑاتے تھے اور صحنوں میں دَوڑتے تھے
    یہیں تھا سب کچھ سفیرِ لیلیٰ
    اِسی جگہ پر جہاں ببولوں کے خار پھرتے ہیں چوہیوں کی سواریوں پر
    جہاں پرندوں کو ہَول آتے ہیں راکھ اُڑتی ہے ہڈّیوں کی
    یہی وہ وحشت سرَ ا ہے جس میں دلوں کی آنکھیں لرز رہی ہیں
    سفیرِ لیلیٰ تم آج آئے ہو تو بتاؤں
    ترے مسافر یہاں سے نکلے اُفق کے پربت سے اس طرف کو
    وہ ایسے نکلے کہ پھر نہ آئے
    ہزار کہنہ دعائیں ہر دم بزرگ ہونٹوں سے اُٹھ کے بامِ فلک پہ پہنچیں
    مگر نہ آئے
    اور اب یہاں پر نہ کوئی موسم ،نہ بادلوں کے شفیق سائے
    نہ سورجوں کے سفید پرتو
    فقط سزائیں ہیں،اُونگھ بھرتی کر یہہ چہروں کی دیویاں ہیں
    سفیرِ لیلیٰ
    یہاں جو دن ہیں وہ دن نہیں ہیں
    یہاں کی راتیں ہیں بے ستارہ
    سحر میں کوئی نمی نہیں ہے

    شاعر: علی اکبر ناطق
     
  11. خوشی محمد
    آف لائن

    خوشی محمد معاون

    شمولیت:
    ‏24 اگست 2012
    پیغامات:
    15
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    واہ زبردست
    بہت خوب
    ترکِ تعلقات پر گر گئی برقِ التفات
    راہ گزر میں مل گئے، راہ گزر کو کیا کروں
    واہ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
     
  12. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سفیرِ لیلیٰ:۲
    نظراٹھاؤ سفیرِ لیلیٰ، بُرے تماشوں کا شہر دیکھو
    یہ میرا قریہ، یہ وحشتوں کا امین قریہ
    تمہیں دکھاؤں
    یہ صحنِ مسجد ،یہاں پہ آیت فروش بیٹھے دعائیں خلقت کو بیچتے تھے
    یہاں عدالت تھی اور قاضی امان دیتے تھے رہزنوں کو
    اور اس جگہ پر وہ خانقاہیں تھیں، آب و آتش کی منڈیاں تھیں
    جہاں پہ امرد پرست بیٹھے صفَائے دل کی نمازیں پڑھ کر
    خیالِ دنیاسے جاں ہٹاتے
    سفیرِ لیلیٰ میں کیا بتاؤں کہ اب تو صدیاں گزر چکی ہیں
    مگر سنو اے غریب سائے کہ تم شریفوں کے راز داں ہو
    یہی وہ دن تھے ، میں بھول جاؤں تو مجھ پہ لعنت
    یہی وہ دن تھے سفیرِ لیلیٰ، ہماری بستی میں شش جہت سے فریب اُترے
    دروں سے آگے ، گھروں کے اندر پھر اُس سے چولہوں کی ہانڈیوں میں
    جوان و پیرو زنانِ قریہ خوشی سے رقصاں
    تمام رقصاں
    ہجومِ طِفلاں تھا یا تماشے تھے بوزنوں کے
    کہ کوئی دیوار و در نہ چھوڑا
    وہ اُن پہ چڑھ کر شریف چہروں کی گردنوں کو پھلانگتے تھے
    درازقامت، لحیم، بونے
    رضائے باہم سے کولہوؤں میں جُتے ہوئے تھے
    جو پیستے تھے وہ زرد غلّہ تو اُس کے پِسنے سے خون بہتا تھا پتھروں سے
    مگر نہ آنکھیں کہ دیکھ پائیں نہ اُن کی ناکیں کہ سُونگھتے وہ
    فقط وہ بَیلوں کی چکّیاں تھیں سَروں سے خالی
    فریب کھاتے تھے، خون پیتے تھے اور نیندیں تھیں بِجو ؤں کی
    سفیرِ لیلیٰ یہ داستاں ہے اِسی کھنڈر کی
    اِسی کھنڈر کے تماش بینوں، فریب خوردوں کی داستاں ہے
    مگر سنو اجنبی شناسا
    کبھی نہ کہنا کہ مَیں نے قَرنوں کے فاصلوں کو نہیں سمیٹا
    فصیلِ قریہ کے سَر پہڈالی ہوئی کمندیں نہیں اُتاریں
    تمہیں دکھاؤں تباہ بستی کے ایک جانب بلند ٹیلا
    بلند ٹیلے پہ بیٹھے بیٹھے ہَوَنّقوں سا
    کبھی تو روتا تھا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر کبھی مسلسل مَیں اُونگھتا تھا
    مَیں اُونگھتا تھا کہ سانس لے لُوں
    مگروہ چولہوں پہ ہانڈیوں میں فریب پکتے
    سیاہ سانپوں کی ایسی کایا کلپ ہوئے تھے کہ میری آنکھوں پہ جم گئے تھے
    یہاں پہ بیٹھا مَیں آنے والے دھُویں کی تلخی بتا رہا تھا
    خبر کے آنسو بہا رہا تھا
    مگر میں تنہا سفیرِ لیلیٰ
    فقط خیالوں کی بادشاہی مری وراثت
    تمام قریے کا ایک شاعر، تمام قریے کا اک لعیں تھا
    یہی سبب ہے سفیرِ لیلیٰ، میں یاں سے نکلا تو کیسے گُھٹنوں کے بل اُٹھا تھا
    نصیب ہجرت کو دیکھتا تھا
    سفر کی سختی کو جانتا تھا
    یہ سبز قریوں سے صدیوں پیچھے کی منزلوں کا سفر تھا مجھ کو
    جو گردِ صحرا میں لپٹے خاروں کی تیز نُوکوں پہ جلد کرنا تھا اور
    وہ ایسا سفر نہیں تھا جہاں پہ سائے کا رزق ہوتا
    جہاں ہواؤں کا لمس ملتا
    فرشتے آوازِ الااماں میں مرے لیے ہی
    اجل کی رحمت کو مانگتے تھے
    یہی وہ لمحے تھے جب شفق کے طویل ٹیلوں پہ چلتے چلتے
    میں دل کے زخموں کو ساتھ لے کر
    سفر کے پربت سے پار اُترا

    شاعر: علی اکبر ناطق
     
  13. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ٔیونہی شاید
    وہ منزل ہم کو مل جائے
    یونہی شاید
    زمیں کے بے کراں دشت رواں پر
    چلتے چلتے ہم ٹھہر جائیں
    یونہی شاید
    وہ منزل ، جس کو ہم پیچھے، بہت پیچھے کہیں
    اس خاک وحشت ناک کے چکر میں
    اپنے پاؤں کے اڑتے بگولوں میں سسکتا چھوڑ آئے ہیں
    ہوا چلتی رہے تو شاید
    اس منزل کا لمس عنبریں ہم تک پہنچ جائے
    ہوا چلتی ہے، چلنے دو
    سفر کی دھول اڑتی ہے تو اڑنے دو
    سفر کی دھول اڑتی ہے تو کتنے ان کہے شاداب موسم
    آنکھ کی دہلیز پرآ کر ٹھہرتے ہیں
    ہوا چلتی ہے تو کتنے پرانے منظروں کی یاد
    خواب آثار رخساروں پہ گرتی ہے
    سر شام سفر ڈھلتے ہوئے خورشید کے رنگیں کٹورے سے
    سنہری دھوپ دیواروں پہ گرتی ہے
    سفر تو پھر سفر ہے
    اور اس کی وحشتیں بڑھتی ہی رہتی ہیں
    کہاں جائیں، کہاں ٹھہریں
    ہمیں چلنا تو ہے لیکن، کہیں آخر ٹھہرنا ہے
    ٹھہرنے سے ذرا پہلے
    حد آفاق تک اک خواب کا منظر اترنے دو
    سفر کی دھول اڑنے دو
    ہوا چلتی ہے، چلنے دو
    ہوا زنجیر مت کرنا
    ہوا زنجیر ہو جائے تو پھر کچھ بھی نہیں رہتا

    خالد علیم
     
  14. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    گرم سورج کی تپش آئی گھٹا سے مجھ کو
    ڈر لگا آج ہر اک موج ہوا سے مجھ کو

    ہر گرہ دل کی کھلی غنچہ نو رس کی طرح
    وہ مہک آئی تیرے بند قبا سے مجھ کو

    میں تو محرومِ ازل تھا ہی مگر قسمت سے
    دشت غربت کئی مل گئے پیاسے مجھ کو

    سانولے رنگ کی اک موہنی صورت محسن
    ڈس گئی اپنے تکلم کی ادا سے مجھ کو
    نوٹ: ٹینا ثانی نے یہ غزل بہت خوبصورت انداز میں گائی ہے اور میں اکثر سنتا ہوں۔ غزل شاید محسن نقوی کی ہے۔ نیٹ پر تلاش کرنے پر نہیں ملی تو لکھ کر پوسٹ کر دی ہے۔
     
  15. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صُبحوں کے حوالے کرنا ہے
    کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے

    شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
    ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے

    یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
    مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے

    اِک شہرِ وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں
    کب قافلہ ہائے خندۂ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے

    اس نیلی دھند میں کتنے بجھتے زمانے راکھ بکھیر گئے
    اک پل کی پلک پر دنیا ہے، کیا جینا ہے کیا مرنا ہے

    رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے، اک منزلِ غم تک شام ہوئی
    اے ہمسفرو ! کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے کہ ٹہرنا ہے

    ہر حال میں اک شوریدگیِ افسونِ تمّنا باقی ہے
    خوابوں کے بھنور میں بہہ کربھی خوابوں کے گھاٹ اُترنا ہے

    مجید امجد
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    گزشتہ موسموں کی ایک تازہ نظم

    وہ دن بھی یاد ہیں تجھ کو
    کہ جب سورج کی کرنوں نے ترے چہرے کی قوسوں پر
    ہوا کے گنگناتے زاویوں سے چمپئی رنگوں کی تحریریں لکھی تھیں
    اور مری خواہش کے پیرائے میں کتنے لفظ
    تیرے دل نشیں ہونٹوں کی جنبش میں تھرکتے تھے
    تری سانسوں کی حدت سے پگھلتے تھے
    تو تیری شبنمیں آنکھوں کی چھاگل سے چھلکتے تھے
    وہ تیرے کاکل شب رنگ
    تیرے ہاتھ کے لمس تمازت سے مہکتے تھے
    وہ دن کیا یاد ہوں گے تجھ کو
    جب مجھ کو گھنے پیڑوں کی ٹھنڈی چھاؤں سے
    سیراب ہوتے موسموں کی چاہتوں نے
    اور ترے چہرے کی شادابی کو مہکاتے ہوئے لمحوں نے
    اک ہجر جنوں آمیز کا موسم دیا تھا
    اور اک شام شفق آثار میں
    جلتے ہوئے سورج کو میری سوچ کی ننگی ہتھیلی پر رکھا تھا
    تجھ کو کیا یاد آئیں گے وہ دن
    کہ جب تیرے فراق جاں گسل نے
    میرے حصے میں فقط فصل شب غم کاشت کی
    اور میری فردوس تمنا میں سلگتی وحشتیں،
    احساس کے جلتے الاؤ بھر دیے تھے
    میری شب آثار تنہائی وہ جاں افشار یکتائی
    تجھے کیا یاد آئے گی
    کہ تو اس لمحۂ جانسوز میں مجھ سے کہیں دور
    اپنی خوشیوں کی ردائے بے حسی اوڑھے
    کسی ناآشنائے درد کے کاخ ہمالہ بام میں خوابوں کی آرائش تھی
    اور میرے دل صد لخت کی ہر بوند میں
    بھیگا ہوا پیراہن گل رنگ تیرا
    میری عمر بے سحر میں
    کتنی ناآسودہ راتوں کی علامت بن گیا تھا
    اور اب
    جب وقت کے سیل رواں میں
    کتنے ہی سالوں کی پونجی بہہ چکی ہے
    میری جاں یہ کیا؟
    ترے چہرے پہ یہ پرچھائیاں سی کیا ہیں
    آنکھوں میں یہ کیسی وحشتیں ہیں
    اور تیرے کاکل شب رنگ میں
    کن موسموں کی دھوپ اتری ہے
    یہ پلکوں پر اداسی کیا ہے
    کیسے رتجگوں نے تیری آنکھوں کی چمک کو ماند کر کے
    تیرے چہرے کی تمازت
    اور ترے ہونٹوں کی سرخی چھین لی ہے
    تیرے اس ڈھلتے ہوئے چہرے کی قوسوں پر
    سسکتی بے رخی کیا ہے
    چلو مانا
    کہ ہم مٹھی سے تتلی کی طرح نکلے ہوئے لمحوں کو
    اس گزرے ہوئے کل میں مقید کر نہ سکتے تھے
    نہ اب گزرے ہوئے موسم (دوبارہ) اپنی جھولی میں گریں گے
    ہاں مگر جاناں !
    شکستہ چاہتوں کے درمیاں
    تیرے دل آزردہ کے افسردہ گوشوں میں
    گزشتہ موسموں کی کچھ حسیں یادیں ابھی محفوظ تو ہوں گی؟
    وہ دن بھی یاد ہیں تجھ کو؟
    کہ جب سورج کی کرنوں نے ترے چہرے کی قوسوں پر
    ہوا کے گنگناتے زاویوں سے چمپئی رنگوں کی تحریریں لکھی تھیں

    خالد علیم
     
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سفیرِ لیلیٰ۔۳
    سفیرِلیلیٰ یہ کیا ہوا ہے
    شَبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں
    دِلوں کے دھاگے اُکھڑ گئے ہیں
    شفیق آنسو نہیں بچے ہیں، غموں کے لہجے بدل گئے ہیں
    تمھی بتاؤ کہ اس کھنڈر میں، جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں
    جہاں سمندر ہوں تیرگی کے
    سیاہ جالوں کے بادباں ہوں
    جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں، باتیں کرتی ہوں مُردہ روحیں
    سفیرِ لیلیٰ تُمھی بتاؤ جہاں اکیلا ہو داستاں گو
    وہ داستاں گو، جسے کہانی کے سب زمانوں پہ دسترس ہو
    شبِ رفاقت میں طُولِ قصہ چراغ جلنے تلک سنائے
    جِسے زبانِ ہنر کا سودا ہو زندگی کو سوال سمجھے
    وہی اکیلا ہو اور خموشی ہزار صدیوں کی سانس روکے
    وہ چُپ لگی ہو کہ موت بامِ فلک پہ بیٹھی زمیں کے سائے سے کانپتی ہو
    سفیرِ لیلیٰ تمھی بتاؤ وہ ایسے دوزخ سے کیسے نپٹے
    دیارِ لیلیٰ سے آ ئے نامے کی نَو عبارت کو کیسے پڑھ لے
    پُرانے لفظوں کے استعاروں میں گُم محبت کو کیونکہ سمجھے
    سفیرِلیلیٰ ابھی ملامت کا وقت آئے گا، دیکھ لینا
    اگر مُصر ہو تو آؤ دیکھو
    یہاں پہ بیٹھو، یہ نامے رکھ دو
    یہیں پہ رکھ دو، انہی سِلوں پر
    کہ اس جگہ پرہماری قربت کے دن ملے تھے
    وہ دن یہیں پر جُدا ہوئے تھے انہی سِلوں پر
    اور اب ذرا تم نظر اُٹھاؤ، مجھے بتاؤ تمہارا ناقہ کہاں گیا ہے
    بلند ٹخنوں سے زرد ریتی پہ چلنے والا صبیح ناقہ
    وہ سُرخ ناقہ، سوار ہو کر تم آئے جس پر بُری سرا میں
    وہی، کہ جس کی مہار باندھی تھی تم نے بوسیدہ اُستخواں سے
    وہ اسپِ تازی کے اُستخواں تھے
    مجھے بتاؤ سفیرِ لیلیٰ کدھر گیا وہ؟
    اُدھر تو دیکھو وہ ہڈیوں کا ہجوم دیکھو
    وہی تمہارا عزیز ساتھی سفرکا مونس
    پہ اب نہیں ہے
    اور اب اُٹھاؤ سِلوں سے نامے
    پڑھو عبارت جو پڑھ سکو تو
    کیا ڈر گئے ہو؟ کہ سطح کاغذ پہ جُز سیاسی کے کچھ نہیں ہے
    خجل ہو اس پر کہ کیوں عبارت غبار ہو کر نظر سے بھاگی
    سفیرِ لیلیٰ یہ سب کرشمے اِسی کھنڈر نے مری جبیں پر لکھے ہوئے ہیں
    یہی عجائب ہیں جن کے صدقے یہاں پرندے نہ دیکھو پاؤ گے
    اور صدیوں تلک نہ اُترے گی یاں سواری
    نہ چوبِ خیمہ گڑے گی یاں پر
    سفیرِ لیلیٰ یہ میرے دن ہیں
    سفیرِ لیلیٰ یہ میری راتیں
    اور اب بتاؤ کہ اس اذیت میں کس محبت کے خواب دیکھوں
    میں کن خداؤں سے نور مانگوں
    مگر یہ سب کچھ پرانے قصے، پرائی بستی کے مردہ قضیے
    تمھیں فسانوں سے کیا لگاؤ
    تمھیں تو مطلب ہے اپنے ناقہ سے اور نامے کی اُس عبارت سے
    سطح کاغذ سے جو اُڑی ہے
    سفیرِ لیلیٰ تمہارا ناقہ!
    میں اُس کے مرنے پر غم زدہ ہوں
    تمہارے رنج و الم سے واقف ،بڑے خساروں کو دیکھتا ہوں
    سو آؤ اُس کی تلافی کر دوں،یہ میرے شانے ہیں بیٹھ جاؤ
    تمھیں خرابے کی کارگہہ سے نکال آؤں
    دیارِ لیلیٰ کو جانے والی حبیب راہوں پہ چھوڑ آؤں

    علی اکبر ناطق
     
  18. سین
    آف لائن

    سین ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2011
    پیغامات:
    5,529
    موصول پسندیدگیاں:
    5,790
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اُٹھا کے راکھ سے ذرّہ، ستارہ کر کے دیکھیں گے
    فلک، دریائے حیرت کا کنارہ کر کے دیکھیں گے

    کسی دن، آگ کے شعلے سے بادل کو بنائیں گے
    کسی دن، برف گالے کو شرارہ کر کے دیکھیں گے

    کوئی پل، خواب جگنو روک لیں گے اپنی مٹھی میں
    کوئی پل، روشنی کو استعارہ کر کے دیکھیں گے

    کبھی، خاموش لمحوں میں کریں گے گفتگو جذبے
    کبھی، گویا رُتوں میں حرف اشارہ کر کے دیکھیں گے

    تمہارے نام ، کچھ پل کر کے صدیوں کا سکوں پایا
    تمہارے نام، جیون اب تو سارا کر کے دیکھیں گے

    سنو! ہم کر چکے بیعت، جنوں کو کر چکے مرشد
    سنو! کس نے کہا ہم، استخارہ کر کے دیکھیں گے

    ترے احساس، میں ضم ہو گیا احساس عاشی کا
    ترے احساس کو خوشبو کا دھارا کر کے دیکھیں گے
    •--------------------------------------------------•

    شاعرہ : عائشہ بیگ
     
  19. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت خوب :222:
     
  20. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اسے اپنے کل ہی کی فکر تھی وہ جو میرا واقفِ حال تھا
    وہ جو اسکی صبحِ عروج تھی وہ میرا وقتِ زوال تھا

    مرا درد کیسے وہ جانتا مری بات کیسے وہ مانتا
    وہ تو خود فنا ہی کے ساتھ تھا اسے روکنا بھی محال تھا

    وہ جو اسکے سامنے آگیا کسی روشنی میں نہا گیا
    عجب اسکی ہیبتِ حسن تھی عجب اسکا رنگِ جمال تھا

    دمِ واپسیں اسے کیا ہوا نہ وہ روشنی نہ وہ تازگی
    وہ ستارہ کیسے بکھر گیا وہ جو اپنی آپ مثال تھا

    وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلا نہ تھا
    اسے میری چپ نے رُلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا

    میرے ساتھ لگ کے وہ رودیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا
    جسے جانتا تھا میں زندگی وہ تو صرف وہم و خیال تھا

    احمد ندیم قاسمی
     
  21. شعیب۔امین
    آف لائن

    شعیب۔امین ممبر

    شمولیت:
    ‏4 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    148
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات


    السلام علیکم

    بہت دنوں بعد پوسٹ کرنے کا اتفاق ہو رہا، امید ہے تمام دوست بخیریت ہونگے

    ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہہ لیا کرو
    یارو سکوت ہی کو صدا کہہ لیا کرو

    خود کو فریب دو کہ نہ ہو تلخ زندگی
    ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہہ لیا کرو

    گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
    جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہہ لیا کرو

    یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
    آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو

    انسان کا اگر قدوقامت نہ بڑھ سکے
    تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو

    اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
    ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو

    لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
    جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو

    قتیل شفائی
     
  22. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    وعلیکم السلام
    خوش آمدید اس کے ساتھ یہ امید بھی کہ اب باقاعدگی سے حاضری دیتے رہیں گے۔

    بہت خوب :222:
     
  23. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    [​IMG]
     
  24. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    دشمنِ جاں کوئی مہمان بناتی ہوں میں
    آج فرزانہ کو نادان بناتی ہوں میں

    بخش دیتی ہوں مناظر کو رو پہلا ریشم
    جسم کو چاندنی کا تھان بناتی ہوں میں

    جان رکھ دیتی ہوں طوطے کے بدن میں اپنی
    اور طوطے کو بھی بے جان بناتی ہوں میں

    رشتہ طے کرتی ہوں گڑیا کا پڑوسن کے گھر
    سارا شادی کا بھی سامان بناتی ہوں میں

    شام ڈھلنے سے مجھے دیکھ سحر ہونے تک
    کیسے امید کو ارمان بناتی ہوں میں

    جانے کس دھن میں سجا کر یہ کرن سا پیکر
    خود کو آئینے سے انجان بناتی ہوں میں
     
  25. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    خوبصورت کی طرح کوبصورت غزلیں
    شکریہ خوبصورت بیٹا جی
     
  26. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    ادھوری ہوں مکمل ذات کر سکتی نہیں میں
    کبھی کھل کر بھی تم سے بات کر سکتی نہیں میں

    قفس اچھے نہیں لگتے زیادہ دیر لیکن
    ہوا میں تو بسر اوقات کر سکتی نہیں میں

    یہ جذبہ دل میں ہے اس کی امانت
    محبت کی کبھی خیرات کر سکتی نہیں میں

    مجھے آواز دیتا ہے کو ئی مہتاب لیکن
    اکیلی گھر سے باہر رات کر سکتی نہیں میں

    کسی بھی مرد کی کو ئی زباں ہوتی نہیں ہے
    محبت بھی کسی کے ساتھ کر سکتی نہیں میں

    جو اک نکھرے ہوئے دن کی طرح ہو ساتھ نیناؔں
    تو ایسی دھوپ کو برسات کر سکتی نہیں میں
     
  27. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    میں چھوٹی سی لڑکی بہت ہی بڑی ہوں
    کہ ہر جنگ اپنی ا کیلی لڑی ہوں

    بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
    کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں

    ہوا کے ورق پر لکھی اک غزل تھی
    خزاں آئی تو شاخ سے گر پڑی ہوں

    ملی ہیں مجھے لحظہ لحظہ کی خبریں
    کسی کی کلا ئی کی شاید گھڑی ہوں

    ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
    میں کتبے کی صورت گلی میں گڑی ہوں

    خلا سے مجھے آ رہی ہیں صدائیں
    مگر میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں

    میں اک گوشۂ عافیت سے نکل کر
    وہ پگلی ہوں، دنیا سے پھر لڑ پڑی ہوں

    وہ کرتا ہے نیناں میں بسنے کی باتیں
    مگر میں تو اپنی ہی ضد میں پڑی ہوں
     
    محسن وقار علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    بہت خوب، خوبصورت جی!
    ----------------

    راہِ دشوار کو آسان بنا کر چلیے
    شوق منزل ہے ، تو پھر ہوش میں آ کر چلیے

    ہجر کی راہ میں یہ فرض ادا کر چلیے
    اپنی پلکوں پہ چراغوں کو سجا کر چلیے

    روشنی ہو تو چمک اٹھتی ہے ہر راہِ سیاہ
    دو قدم چلیے ، مگر شمع جلا کر چلیے

    خار ہی خار زمانے میں نظر آتے ہیں
    اپنے دامن کو برائی سے بچا کر چلیے

    آپ کی سست روی آپ کو لے ڈوبے گی
    دور منزل ہے، ذرا پاوں اٹھا کر چلیے

    بندشیں توڑتے چلیے ، کہ سفر آساں ہو
    سامنے آئے جو دیوار ، گرا کر چلیے

    غم کے ماروں کا تو اللہ نگہباں ہے مگر
    اب جو آپ آہی گئے ہیں ، تو دعا کر چلیے

    جادہ شوق میں لغزش سے ہے بچنا لازم
    دل مچلتا ہو ، مگر پاوں جما کر چلیے

    دشمن و دوست کی پہچان ضروری ہے نصیرؔ
    ایسوں ویسوں سے ذرا خود کو بچا کر چلیے

    (سید نصیر الدین نصیر شاہ)​
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. کنورخالد
    آف لائن

    کنورخالد ممبر

    شمولیت:
    ‏17 مئی 2010
    پیغامات:
    648
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    سنو وطن کے جوانوں سنو
    ایک فسانہ سنو ایک حقیقت سنو
    حشر پرپا ھے اور ہم خاموش ہیں
    کتنے مجبور ہیں کتنے معذور ہیں
    کشمیری جوانوں کا سرخ خوں
    جنت کی گلیوں میں بہتارہا
    اور
    جنت کی حوروں کی پاکیزگی
    وحشی بنیوں کی دھلیز پے لٹ گئی
    کتنی ماوں کے معصوم لخت جگر
    ہنو مان کے چرنوں پے وارے گئے
    گائے کے گوبر کی تہذیب نے
    بابری مسجد کو مندر بنایا مگر
    تم تو مجبور ہو تم تو معذور ہو
    اور
    سنو میرے دل کی ۤواز کو
    تو نہ مجبور ہے تو نہ معزور ھے
    تیرے اندر صداقت کا جذ بہ نہیں
    تیرے اندر شہادت کا جذ بہ نہیں
    تیرے اندر صداوں کا فقدان ھے
    تیرے اندر وفاوں کا فقدان ھے
    تمہیں کشمیر کے اجڑے گھروںکی قسم
    بہنوں کے ننگے سروں کی قسم
    ماں کے بہتے ہوے آنسوں کی قسم
    سر سے باندھو کفن اور چلو کھیلنے
    فتح یا شہادت کا نعرہ لیے
    ہندو نیتاوں کو اب یہ احساس ہو
    گراں خواب پاکی سنبھلنے لگے
    ان کی راتوں میں پھر خوف کے خواب ہوں
    ان کی آنکھوں میں اب موت کے خواب ہوں
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. روشنی 6655
    آف لائن

    روشنی 6655 ممبر

    شمولیت:
    ‏27 جنوری 2012
    پیغامات:
    658
    موصول پسندیدگیاں:
    13
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پسندیدہ غزلیات، نظمیات

    اجڑے ھولوگوں سے

    اجڑے ھوۓ لوگوں

    سے گریزاں نہ ھواکر

    حالات کی قبروں کے
    یہ کتبے بھی پڑھاکر

    کیاجانیئے کیوں تیزھواسوچ میں گم ھیں؟

    خوابیدہ پرندوں کودرختوں سے اڑاکر

    اس شخص کےتم سے بھی مراسم ھیں تو ھونگے

    وہ جھوٹ نہ بولے گامیرے سامنے آکر

    اب دستکیں دےگا توکہاں اے غم احباب

    میں نے توکہاتھاکہ مرے دل ‏‎ ‎میں رھاکر

    ھر وقت کاھنسناتجھے بربادنہ کردے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی روبھی لیاکر

    وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ھے


    ڈھونڈاتھاجسے وقت کی دیوار گراکر
     

اس صفحے کو مشتہر کریں