1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پسندیدہ غزلیات، نظمیات

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏21 نومبر 2006۔

  1. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    صحرا میں پِھر رہا ہوں میں انجان کی طرح
    دَر دَر بھٹک رہا ہوں میں نادان کی طرح

    جن کو نہ تھا کبھی بھی محبت پہ اعتبار
    چاہت کے مندروں میں ہیں بھگوان کی طرح

    وعدے کئے تھے جس نے نبھاؤں گا ساتھ میں
    رستہ بدل گیا ہے وہ انجان کی طرح

    میرے صنم نے ساتھ نبھایا کچھ اِس طرح
    رگ رگ میں بس گیا ہے وہ سرطان کی طرح

    اب سوچتے ہیں ترکِ محبت ہی کیجیئے
    محلوں سا دل ہُوا ہے بیابان کی طرح​
     
  2. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بھیگے موتی

    بھیگے موتی
    تمہاری یاد کے آنسو
    میری پلکوں پہ ٹِکے تھے
    پھرمیں نے
    انہیں
    اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
    جذب کر لیا
    کہ شائد
    تمہاری یاد کے یہ
    بھیگے موتی
    میرے مقدر کی لکیروں کو
    چمکا دیں
    اور
    میں
    تمہیں پا لوں​
     
  3. نادیہ خان
    آف لائن

    نادیہ خان ممبر

    شمولیت:
    ‏26 جون 2006
    پیغامات:
    827
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    سموکر صاحب بہت خوب!
    آپ کا انتخاب بہت ہی اچھا لگا
     
  4. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    جس دن سے جدا وہ ہم سے ہوئے

    واہ سموکر جی، بہت خوبصورت انتخاب، ایک غزل، شاید ممتاز راشد کی ہے، کچھ اشعار یاد ہیں

    جس دن سے جدا وہ ہم سے ہوئے
    اس دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا
    ہے چاند کا منہ اترا اترا
    تاروں نے چمکنا چھوڑ دیا

    وہ پاس ہمارے رہتے تھے
    بے رت بھی بہار آ جاتی تھی
    اب پھول کھلیں زخموں کے کیا
    آنکھوں نے برسنا چھوڑ دیا

    ہم نے یہ دعا جب بھی مانگی
    تقدیر بدل دے اے مالک
    آواز یہ آئی کے اب ہم نے
    تقدیر بدلنا چھوڑ دیا​
    ا
     
  5. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    Re: جس دن سے جدا وہ ہم سے ہوئے

    میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا، میں جسے چاہتاہوں وہ مجھ کو ملے
    جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا، اب خداہی نہ چاہے تو میں کیا کروں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محبت ایسا نغمہ ہے
    ذرا بھی جھول ہے لَے میں
    تو سُر قائم نہیں ہو تا

    محبت ایسا شعلہ ہے
    ہوا جیسی بھی چلتی ہو
    کبھی مدھم نہیں ہوتا

    محبت ایسا رشتہ ہے
    کہ جس میں بندھنے والوں کے
    دلوں میں غم نہیں ہوتا

    محبت ایسا پودا ہے
    جو تب بھی سبز رہتا ہے
    کہ جب موسم نہیں ہوتا

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا

    (امجد اسلام امجد)​
     
  7. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
    غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں

    پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
    سنتے ہیں‌کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

    جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
    دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

    اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
    جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

    تاروں کی بہاروں میں‌بھی قمر تم افسردہ سے رہتے ہو
    پھولوں کو تو دیکھو کانٹوں پہ ہنس ہنس کے گزارہ کرتے ہیں

    (قمر جلالوی)​
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب واصف بھائی !
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    میری پسند کی ایک غزل

    اک خطا ہم ازرہِ سادہ دلی کرتے رہے
    ہر تبسم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے

    ایسے لوگوں سے بھی ہم ملتے رہے دل کھول کر
    جو وفا کے نام پہ سوداگری کرتے رہے

    خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
    دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے

    اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کئے
    زندہ رہنے کے لیے ہم خود کشی کرتے رہے


    اس طرح اقبال گزری ہے ہماری زندگی
    زہرِ غم پیتے رہے اور شاعری کرتے رہے

    (پروفیسر اقبال عظیم)​
     
  10. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ندیم علوی
    ایسے اشعار کیا بارگاہ الہیہ میں گستاخی نہیں بنتے ؟
     
  11. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    نعیم کا انتکاب
    بہت خوب۔
     
  12. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    زاہرا جی ہمارا نام ندیم علی ہے علوی نہیں، ہماری ناقص رائے میں اس شعر میں تو گستاخی کا پہلو نہیں مگر یہ سچ ہے کہ ایسے بہت سے گیت اور اشعار ہمارے ہاں بھی رواج پا گئے ہیں، ناظمین سے گزارش ہے کہ یہ پوسٹ اریز کردیں، زاہرا آپ کا بہت شکریہ، ہم محتاط رہیں گے
     
  13. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    عجیب مانوس اجنبی تھا

    ناصر کی ایک بہت خوبصورت غزل، ہمارے خیال میں یہ ان کی بہترین غزلوں میں سے ہے اور ہماری چند پسندیدہ غزلوں‌میں سے، آپ کا کیا خیال ہے

    گئے دنوں کا سراغ لیکر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
    عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

    خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
    وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ

    وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
    نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہیں گھر گیا وہ

    کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی، بدل چلا رنگ آسماں بھی
    جو رات بھاری تھی ڈھل گئی ہے، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

    شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
    جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ

    بس اک منزل ہے بوالہوس کی، ہزار رستے ہیں اہل دل کے
    یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں، گزر کیا میں ٹھہر گیا وہ

    وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تونے منزلوں کا
    تیری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

    وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہمنفس ہمسخن ہمارا
    سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ

    بس ایک موتی سی چھب دیکھا کر، بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
    ستارا شام بن کے آیا، برنگ خواب سحر گیا وہ

    نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
    یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

    وہ رات کا بے نوا مسافر، وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
    تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ​
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ندیم بھائی ۔ بہت خوب انتخاب ہے
     
  15. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    اچھا انتخاب ہے۔
     
  16. نوید سلیم
    آف لائن

    نوید سلیم ممبر

    شمولیت:
    ‏10 نومبر 2006
    پیغامات:
    60
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ندیم صاحب اچھی غزل پوسٹ کی آپ نے
    اور آپ کے دستخط میں درود شریف دیکھ کر مجھے دلی خوشی ہوئی
     
  17. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    شکریہ

    نویدسلیم آپ کو ناصر کی غزل اچھی لگی بہت شکریہ، اور یہ درود پاک ہم نے گوشئہ درود کی سائیٹ سے لیا ہے
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ندیم بھائی ۔ یہ گوشہء درود کیا ہے؟ کچھ روشنی ڈالیں گے پلیز؟
     
  19. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    آنکھوں سے دور ہو گیا جو جھوٹ بول کے
    میں راہ دیکھتی رہی دروازہ کھول کے

    اب سوچتی ہوں میں کہ یہی میری بھول تھی
    دیکھا نہیں جو اس کو ترازو میں تول کے

    وہ جلد باز اس طرح واپس ہوا کہ ہم
    مفہوم بھی سمجھ نہ سکے میل جول کے

    اس بےوفا کے واسطے خود کو کروں تباہ
    پاگل تو میں نہیں کہ پیوں زہر گھول کے

    چاروں طرف ہے ایک اندھیرا سا اے انا
    اس کے بغیر لگتے ہیں دن تارکول کے
    (انا دہلوی)​
     
  20. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب! زاہرا جی! بہت پیاری غزل لکھی آپ نے۔

    میری ایک پسندیدہ غزل حاضر ہے۔

    میں آئینہ ہوں وہ میرا خیال رکھتی تھی
    میں ٹوٹتا تھا تو چُن کر سنبھال رکھتی تھی

    ہر ایک مسئلے کا حل نکال رکھتی تھی
    ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی

    میں جب بھی ترکِ تعلق کی بات کرتا تھا
    وہ روکتی تھی مجھے کل پہ ٹال رکھتی تھی

    وہ میرے درد کو چُنتی تھی اپنی پوروں سے
    وہ میرے واسطے خُود کا نِڈھال رکھتی تھی

    وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دُکھ کے دریا میں
    میرے وجود کی ناؤ اُچھال رکھتی تھی

    دُعائیں اُس کی بَلاؤں کو روک لیتی تھیں
    وہ میرے چار سُو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی

    اِک ایسی دُھن کہ نہیں پھر کبھی سُنی میں نے
    وہ مُنفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی

    اُسے ندامتیں میری کہاں گوارہ تھیں
    وہ میرے واسطے آساں سوال رکھتی تھی

    بچھڑ کے اُس سے میں دُنیا کی ٹھوکروں میں ہوں
    وہ پاس تھی تو مجھے لازاوال رکھتی تھی

    وہ مُنتظر مِری رہتی تھی دھوپ میں شاہد
    میں لوٹتا تھا تو چھاؤں نکال رکھتی تھی​
     
    فهیم علی نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت ہی کمال کر دیا آپ نے عبدالجبار بھائی ۔

    ان اشعار کے آخر میں اگر “تھی“ کی جگہ “ہے“ لگا دیا جائے تو ساری نظم میری پیاری ماں پر مطابقت کرتی ہے۔
     
  22. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    گوشہء درود

    نعیم بھائی گوشہءدرود کے لیے یہ لنک دیکھیئے http://www.minhaj.org/org/index.php?con ... 40&lang=ur
     
  23. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی

    ظفرگورکھپوری کی ایک بہت ہی خوبصورت غزل، اسے اشوک کھوسلا نے گایا بھی ہے، ایک اور غزل ہے راہی مصوم رضا کی، سب نے سنی ہوگی مگر شاعر کا نام شاید نہیں معلوم ہوگا، اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہے، اسے بھی پہلے اشوک کھوسلا نے ہی گایا تھا اور سلمان علوی سے بہت اچھا گایا تھا، میرے پاس اس کی آڈیو ہے نہیں ورنہ ضرور آپ سے شیئر کرتے، یہ غزل جو یہاں لکھ رہا ہوں آپ نے سنی ہے، اگر نہیں سنی تو سنیئے گا۔

    ملے کسی سے نظر تو سمجھو غزل ہوئی
    رہے نہ اپنی خبر تو سمجھوں غزل ہوئی

    ملا کے نظروں کو والہانہ حیا سے پھر
    جھکالے کوئی نظر تو سمجھو غزل ہوئی

    اِدھر مچل کر انہیں پکارے جنوں میرا
    دھڑک اٹھے دل اُدھر تو سمجھو غزل ہوئی

    اداس بستر کی سلوٹیں جب تمہیں چبھیں
    نہ سو سکو رات بھر تو سمجھو غزل ہوئی

    وہ بدگماں ہوں تو شعر سُوجھے نہ شاعری
    وہ مہرباں ہوں ظفر تو سمجھو غزل ہوئی
     
  24. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب! ندیم بھائی!

    بہت پیاری غزل ہے۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ندیم بھائی ظفر گورکھپوری کی بہت عمدہ غزل ہے۔

    اب ایک غزل ہماری پسند کی بھی عرض ہے۔

    یہ دشتِ ہجر، یہ وحشت یہ شام کے سائے
    خدا یہ وقت تری آنکھ کو نہ دکھلائے

    اسی کے نام سے لفظوں میں چاند اترے ہیں
    وہ ایک شخص کہ دیکھوں تو آنکھ بھر آئے

    کلی سے میں نے گلِ تر جسے بنایا تھا
    رتیں بدلتی ہیں کیسے، مجھے ہی سمجھائے

    جو بے چراغ گھروں کو چراغ دیتا ہے
    اس کہو کہ مرے شہر کی طرف آئے

    یہ اضطرابِ مسلسل عذاب ہے امجد
    مرا نہیں تو کسی اور ہی کا ہو جائے​
     
  26. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    نعیم صاحب بہت اچھی غزل ہے
    اس کے اوپر ندیم صاحب کی بھی اچھی ہے
    اور عبدالجبار صاحب کی غزل بھی کمال ہے
    میں بھی اگلی بار کوئی اچھی سی غزل لکھوں گی انشااللہ
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ لاحاصل جی !
    ویسے آپ کیا خود بھی کلام لکھتی ہیں ؟؟
    کیونکہ آپ نے لکھا ہے “لکھوں گی“ ؟؟ یا پھر آپ کی مراد صرف ٹائپ کرنا ہے؟
     
  28. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اجنبی شہر کے اجنبی راستے

    بہت شکریہ لاحاصل جی، ہمیں انتظار رہے گا آپ کی غزل کا، راہی مصوم رضا کی ایک غزل کا ذکر کیا تھا، بہت وقت ہوا اسے پڑھے یا سنے ہوئے، ترتیب سے اشعار یاد نہیں، جیسے یاد ہیں ویسے لکھ دیتے ہیں

    اجبنی شہر کے اجنبی راستے میرے تنہائی پر مسکراتے رہے
    میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا تم بہت دیر تک یاد آتے رہے

    زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا زندگی کی طرف اک دریچہ کھلا
    ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں چوٹ کھاتے رہے گنگناتے رہے

    زہر ملتا رہا زہر پیتے رہے روز مرتے رہے روز جیتے رہے
    زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی اور ہم بھی اسے آزماتے رہے

    سخت حالات کے تیز طوفان میں گھر گیا تھا ہمارا جنوں وفا
    ہم چراغ تمنا جلاتے رہے وہ چراغ تمنا بجھاتے رہے

    کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا اس لیے سن کے بھی ان سنی کر گیا
    کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں دل کے زخموں کے در کھٹکھاتے رہے​
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    واہ ندیم بھائی ! یہ شعر تو بہت ہی اچھا لگا۔
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لتا جی سے سنی ایک غزل سے چند شعر حاضر ہیں۔

    آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
    وقت کا کیا ہے گذرتا ہے گذر جائے گا

    زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
    تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا

    ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
    میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

    اتنا مانوس نہ ہو خلوتِ غم سے اپنی
    تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں