1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شفا خانہ حیوانات

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف حسین, ‏18 جون 2012۔

  1. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بنگلہ دیش کے پولٹری فارمر فضلہ جات کو توانائی میں تبدیل کر رہے ہیں
    [​IMG]

    کیا بائیو گیس کا استعمال بنگلہ دیش میں توانائی کی دائمی قلت کا ایک حل ہو سکتا ہے؟

    کے۔ آر۔ چوہدری، برائے خبر ساؤتھ‍ ایشیا، ڈھاکہ – 12/07/02
    فروری 06, 2012

    کئی سالوں تک، بنگلہ دیش میں پولٹری فارمنگ اپنی بدبو کی وجہ سے علاقے کے رہائشیوں کی شکایات کا باعث بنی رہی تھی۔


    پولٹری فارم کی مزدور خواتین ، ہزاری باغ، ڈھاکہ میں چمڑے کی فیکٹری کی باقیات سے تیار کردہ خوراک کو خشک کر رہی ہیں۔ ابتدائی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرغیوں کے فضلہ جات کو ایندھن میں تبدیل کرنے سے بنگلہ دیش میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ [رائٹرز]

    آج منور حسین جیسے پولٹری فارمر مرغی کے فضلہ جات کو – جنہیں کبھی باعث آزار سمجھا جاتا تھا – ایندھن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس طرح، نہ صرف علاقے کے لوگوں کی شکایات کا ازالہ ہوا ہے، بلکہ یہ طریقہ کار بنگہ دیش میں بجلی کی دائمی قلت کم کرنے میں ممد ثابت ہو سکتا ہے۔

    نروان بائیوگیس اور بجلی کے منصوبہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر حسین نے خبر ساؤتھ‍ ایشیا سے بات کرتے ہوئے بتایا، " ہمیں رہائشیوں کی جانب سے مخالفت کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ مرغی کے فارم سے آنے والی بدبو کی وجہ سے مقامی لوگوں کا جینا محال ہو گیا تھا۔"

    انھوں نے مزید کہا، " اب، مرغیوں کے وہی فضلہ جات کوئی بدبو بھی نہیں پھیلاتے اور مقامی لوگوں کے لیے توانائی کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔"

    کئی پولٹری فارم بجلی کی تقسیم کے ملکی نیٹ ورک سے باہر واقع علاقوں میں بائیوگیس، بجلی اور کھاد تیار کر رہے ہیں۔ اس طرح سے بیدا ہونے والی توانائی قابل تجدید ہوتی ہے – جو ایک ایسے ملک کے لیے انتہائی قیمتی اثاثہ ہے جو کاربن کے استعمال میں دنیا بھرمیں سب سے پیچھے ہے۔ جبکہ اسے ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ خطرہ درپیش ہے۔

    دس سال سےقائم شدہ ڈھاکہ سے سومیل دور، میمن سنگھ‍ کے ضلع مکتا گاچا میں واقع حسین کا یہ فارم بغیرکسی لاگت کے 50 مقامی خاندانوں کو میتھین گیس اور بجلی فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے قریبا" ایک سال پہلے یہ بائیوگیس پلانٹ قائم کیا جو قارم کے فضلہ جات کے بندوبست کا ایک حصہ تھا۔ اس فاضل مادے کو جلا کر نہ صرف ٹربائینز چلانے کے لیے توانائی پیدا کی جاتی ہے بلکہ میتھین جیسی بائیوگیس بھی تیار کی جاتی ہے۔

    حسین مختلف تجربات کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ فارم سے پیدا ہونے والی بائیوگیس کو جنریٹرز چلانے -- اور اپنی بچت میں اضافے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

    حسین نے بتایا کہ" اب میں ہرماہ 30،000 ٹکا (390 ڈالرز) تک بچا سکتا ہوں جو اس سے پہلے ڈیزل پر خرچ ہوتے تھے۔" ان کا فارم فی گھنٹہ 25 کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتا ہے۔

    بنگلہ دیشی روزانہ بجلی کی تکلیف دہ بندش کے عادی ہو چلے ہیں، جسے مقا سے می طور پرلوڈ شیڈنگ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا دورانیہ کئی کئی گھنٹے تک ہو سکتا ہے۔ عالمی بنک کے مطابق، 2009 میں15 کروڑ آبادی کے اس ملک میں روزانہ بجلی کی فی کس کھپت صرف 252 کلوواٹ فی گھنٹہ تھی۔"

    ماسنوائے نیپال کے(91 کلوواٹ فی گھنٹہ)، بنگلہ دیش میں بجلی کی کھپت کے اعدادوشمارہمسایہ ممالک جیسے بھارت ( 597 کلوواٹ فی گھنٹہ)، سری لنکا (408 کلوواٹ فی گھنٹہ) اور تھا‏ئی لینڈ 2,045) کلوواٹ فی گھنٹہ) کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ بائیوگیس کے استعمال سے اس صورتحال کو بدلنے میں کیسے اثرات مرتب ہوں گے۔

    بنگلہ دیش کی انجنیئرنگ اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی (بی یو ای ٹی) کے پروفیسر ڈاکٹر ایم۔ نورالاسلام نے خبر ساؤتھ‍ ایشیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے

    "بعض کمپنیاں پولٹری فارم سے حاصل ہونے والے فاضل مادوں سے بائیو گیس اور بجلی تیار کر رہی ہیں"، اسلام نے کہا۔ " میں [مزید] تحقیق کے بغیر بنگلہ دیش کے لیے اس کے امکانات کے بارے میں کچھ‍ کہہ نہیں سکتا۔"

    تاہم، 2010-2009 میں انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی)، اورعالمی بنک کے نجی سیکٹر کی شاخ کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے مثبت نتائج کی امید پیدا ہوئی ہے۔ آئی ایف سی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ 150،000 پولٹری فارمز پر دو ارب مرغیوں کے فضلہ جات سے روزانہ 1،000 میگا واٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

    قومی وزارتِ بجلی کے مطابق، توانائی کی ملکی وزارت کے مطابق، گزشتہ تین سالوں میں ملک میں بجلی کی یومیہ پیداوار 4،900 میگاواٹ سے بڑھی نہیں ہے۔

    بنگلہ دیش بنک نے توانائی کے قابل تجدید وسائل کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی حمایت فراہم کی ہے۔ حال ہی میں،اس نے اس مقصد کے لیے 200 کروڑ ٹکا (2 کروڑ 30 لاکھ‍ ڈالرز) مختص کیے ہیں۔

    مرکزی بنک کے گورنر، اطیع الرحمان نے خبر ساؤتھ‍ ایشیا سے بات چیت کے دوران کہا، "ہم اس رقم کا خاصا بڑا حصہ مرغی کے فضلہ جات سے پیدا کی جانے والی بائیوگیس کی مدد سے تیار ہونے والی بجلی کی تیاری پر خرچ کریں گے۔"

    انھوں نے 6 حنوری کو کاکس بازار کے تفریحی شہر میں بائیو گیس کے منصوبے کا افتتاح کیا۔ انھوں نے کہا کہ ملک بھرمیں پولٹری فارمز کے مالکان نے بنک نے ایسے منصوبوں کے لیے بینک سے مالی امداد طلب کی ہے۔

    "یہ کاربن کے اخراج میں کمی کرنے اور زمین کی زرخیزی برقرار رکھنے کا بہت عمدہ طریقہ ہے"، رحمان نے کہا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر تمام اہل پولٹری فارم اس منصوبے میں حصہ لیں تو اس سے تفریبا" پانچ لاکھ‍ نئی نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بہت اچھے جی
     
  3. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    ہمارے ادارے اس طرح کے منصوبوں کی حوصلہ شکنی کیوں کرتے ہیں؟
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    کمیشن نہیں ملتا
     
  5. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    خدا غارت کرے اس کمیشن مافیا کو جس نے ہمارے دیس کی جڑیں کوکھلی کر دی ہیں
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    آمین -
     
  7. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    پولٹری نے ٹیکسٹائل جیسی اہمیت حاصل کر لی
    [​IMG]
    بعض حقائق بہت دلچسپ ہوتے ہیں جیسے مرغی کے بارے میں بحث بہت ہوتی ہے کہ انڈا پہلے آیا تھا یا مرغی لیکن اس کا حتمی جواب کسی کے پاس نہیں لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آپ مرغی کو پیدا ہونے سے پہلے انڈے کی شکل میں کھا سکتے ہیں۔
    لاہور ایکسپو سنٹر جوہر ٹاﺅن میں پولٹری انڈسٹری نے اپنا تین روزہ میلہ لگایا جس کا افتتاح گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کیا اور اپنی تقریر میں پولٹری کی ترقی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اب پولٹری انڈسٹری ٹیکسٹائل کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پولٹری میں زبردست سرمایہ کاری کی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے دیہی علاقوں میں وافر روز گار بھی مل رہا ہے۔ ورنہ پاکستان کے سنگین معاشی مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی شامل ہے کہ دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں آبادی کی نقل مکانی کو کیسے کنٹرول کیا جائے کیونکہ صرف اس وجہ سے شہروں پر آبادی کا دباﺅ بڑھ گیا ہے اور وسائل محدود ہو گئے ہیں اور بے روز گاری ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں پولٹری انڈسٹری پر سب سے بڑے بحران کے دنوں میں عبدالباسط نے ایک حیران کن کردار ادا کیا تھا۔ اس زمانے میں وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر تھے۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب مرغی کا گوشت تیس روپے کلو ہو گیا تھا اور لوگوں نے مزیدچوزہ خریدنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس زمانے میں پولٹری انڈسٹری کو بحران سے نکالنے میں عبدالباسط نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ جب پولٹری کی موجودہ صورتحال پر گفتگو ہوئی تو عبدالباسط نے بتایا ”اس وقت پولٹری انڈسٹری کی پوزیشن مستحکم ہے۔ پاکستانی عوام کی خوش قسمتی ہفے کہ یہاں پولٹری کی شکل میں انہیں سستا گوشت ملر ہا ہے جس کی وجہ سے ان کی پروٹینز کی ضروریات پوری ہو ریہ ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹا گوشت چھ سو روپے کلو اور بڑا گوشت ساڑھے تین سو روپے کلو ہونے کی وجہ سے غریبوں کی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ دالوں سبزیوں کی قیمتوں کا جائزہ لیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت مرغی کی قیمت دالوں سے بھی کم ہے۔ ایک روز پہلے مونگ کی دال ایک سو ساٹھ روپے کلو فروخت ہو رہی تھی جبکہ مرغی کا ریٹ صرف ایک سو پچیس روپے کلو تھا اور اگر سال بھر میں مرغی کی قیمت کا جائزہ لیا جائے تو گیارہ مہینے قیمت تقریباً اسی کے آس پاس رہتی ہے لیکن کسی بیماری کا حملہ ہونے کی صورت میں کبھی کبھی مرغی کا گوشت دو سو روپے سے بھی اوپر چلا جاتا ہے لیکن یہ تھوڑے دنوں کے لئے جاتا ہے ورنہ عام طور پر سال بھر مرغی کی قیمت غریب کی جیب کے مطابق رہی ہے۔
    اس وقت پاکستان میں مرغی صرف زندہ یا حلال کر کے ہی فروخت نہیں کی جاتی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چکن انڈسٹری ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بہت سی ایسی پروڈکٹس بھی میدان میں آ گئی ہیں جن کی وجہ سے چکن سے بنی ہوئی مصنوعات کی بیرون پاکستان ڈیمانڈ پیدا ہو چکی ہے۔ اب تو امریکہ میں چکن کے علاوہ پاکستان کے بنے ہوئے پراٹھے بھی فروخت ہو رہے ہیں۔ اس وقت پندرہ لاکھ افراد سے زیادہ کا روز گار چکن انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ موجودہ نمائش میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مشینری بنانیوالوں نے بھی شرکت کی ہے۔ خود میرے مہمان بھی آئے حالانکہ باہر پروپیگنڈ کیا جاتا ہے کہ پاکستان سفر کرنے کےلئے محفوظ ملک نہیں ہے لیکن جتنے بھی غیر ملکی چکن ایکسپو میں شرکت کےلئے آئے سب نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان تو انتہائی پر امن اور خوبصورت ملک ہے خصوصاً لاہور کی خوبصورتی کی انہوں نے بہت تعریف کی۔ اب حکومت کو چاہئے کہ چکن انڈسٹری کو مزید مراعات دیں تاکہ دیہی علاقوں میں روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہو سکیں۔
     
  8. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    شکریہ اچھا مضمون ہے
     
  9. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    پاکستان میں پولٹری کی صنعت تباہی کے دہانے پر
    By Sayyed Paras Ali at September 23, 2012
    تحریر: عبدالباسط

    مہنگائی نے عوام کا جینا محال کردیا ہے۔دنیا بھر میں اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ہمیشہ کم و بیش ایک ہی سطح پر رہتی ہیں، لیکن ہمارے یہاں آئے روز اشیاء خور دونوش کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ موجودہ وقت میں، کہ جب دنیا ایک گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کرچکی ہے، ڈبلیو ٹی او پر دستخط کرنے کے بعد ہر ملک دوسرے ممالک کے ذرائع پر اتنا اختیار رکھنے کے قابل ہوگیا ہے جتنا کہ وہاں کے مقامی لوگوں کو اختیار حاصل ہے۔ دیگر دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو چیز جہاں پیدا ہورہی ہے، اب وہ باآسانی اس جگہ پہنچ جاتی ہے جہاں اس کی صحیح قیمت مل سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی پاکستانی کی اشیاء زیادہ قیمتیں ملنے کی وجہ سے دیگر ممالک میں پہنچ جاتی ہیں تو پاکستانی میں ان کی شدید قلت پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس مشکل سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہر ملک اپنے عوام کی قوت خرید میں اضافہ کرے۔ یعنی دنیا بھر میں کم از کم اجرت اتنی ہونی چاہئے کہ ہر شخص کم از کم اپنی خوراک خریدنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
    اس سلسلے میں دنیا کے امیر ممالک کا کردار انتہائی اہم ہے، ورنہ جرائم اور دہشتگردی میں اضافے سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ وطن عزیز میں گزشتہ ۱۰ سال کے دوران حکومت کی زیادہ تر کوشش گندم کی پیداوار بڑھانے اور اس کی قیمت پر قابو پانے میں صرف ہوئی۔ اس کے علاوہ بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمتوں کو مناسب سطح تک لانے کیلئے بھی اقدامات کئے جاتے رہے لیکن پولٹری سے متعلق اشیاء کی قیمتوں کو فری مارکیٹ مکینزم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس حوالے سے عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور حکومت کو پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں مداخلت کرنے سے باز رکھا۔ اس پس منظر میں اگر پولٹری سے متعلق اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کا پولٹری کی قیمتوں میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ ہی ایک درست اقدام تھا جو اکنامک سروے آف پاکستان کے اعداد و شمار سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
    سال ۲۰۰۰۔۲۰۰۱ء میں گندم کی قیمت ۸ روپے ۶۷ پیسے فی کلوگرام، گائے کے گوشت کی قیمت ۵۶ روپے، بکرے کے گوشت کی قیمت ۱۱۰ روپے، جبکہ مرغی کی قیمت ۵۰ روپے ۶۵ پیسے فی کلوگرام تھی۔ مالی سال ۲۰۰۸۔۲۰۰۹ء میں گندم کی قیمت ۲۳ روپے ۸۵ پیسے فی کلوگرام، جبکہ گائے کے گوشت کی قیمت ۱۴۲ روپے، بکرے کے گوشت کی قیمت ۲۵۸ روپے اور مرغی کے گوشت کی قیمت ۱۰۳ روپے فی کلوگرام تک پہنچ چکی تھی۔ یعنی ۸ سال کے عرصے میں گندم کی قیمت میں ۱۷۵ فیصد، گائے کے گوشت کی قیمت میں تقریباً ۱۵۳ فیصد، بکرے کے گوشت کی قیمت میں ۱۳۶ فیصد، جبکہ مرغی کی قیمت میں ۱۰۳ فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح اگر ایک سال پہلے کی کی بات کریں تو جولائی ۲۰۱۱ء میں گندم کی قیمت ۲۵ روپے ۴۰ پیسے فی کلوگرام، گائے کے گوشت کی قیمت ۲۴۰ روپے، بکرے کے گوشت کی قیمت ۴۶۰ روپے جبکہ مرغی کی قیمت تقریبا ۱۰۶ روپے فی کلوگرام ریکارڈ کی گئی، جبکہ انڈوں کی قیمت ۷۹ روپے فی درجن تھی۔
    موجودہ سال اپریل ۲۰۱۲ء میں گندم کی قیمت میں ۷ اعشاریہ ۹ فیصد، بڑے گوشت کی قیمت میں ۱۱ اعشاریہ ۷ فیصد، چھوٹے گوشت کی قیمت میں ۱۰ اعشاریہ ۸ جبکہ مرغی کی قیمت میں ۳ اعشاریہ ۵ فیصد اضافہ ہوا۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سب سے کم اضافہ پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں ہوا، جس سے یہ بات واضع ہے کہ اگر حکومت تمام اشیاء کی قیمتوں کی پالیسی تشکیل دیتے وقت پولٹری کی قیمتوں کے طریقہ کار کو رول ماڈل بنائے تو عوام کو بہتر ریلیف مل سکے گا۔ دوسری جانب حکومت اگر انتظامیہ کے اہلکاروں کو پولٹری کی قیمتوں کے مکینزم میں مداخلت سے باز رہنے کی بھی تلقین کرے تو اس کا بھی انجام گندم اور دیگر اشیائے خورد و نوش جیسا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔
    پولٹری مصنوعا ت کی قیمتوں میں کمی ہم سب کی توجہ ایک انتہائی خطرناک اشارے کی طرف مبذول کروارہی ہے، کہ پولٹری کی صنعت میں پیداواری لاگت دیگر تمام چیزوں کی طرح مستقل بڑھ رہی ہے، لیکن ان مصنوعات کی قیمت فروخت مستقل طور پر کم ہورہی ہے۔ گزشتہ ۱۰ سال میں گندم کی قیمت میں سب سے زیادہ یعنی ۱۷۵ فیصداضافہ دیکھنے میں آیا، حالانکہ حکومت کی زیادہ تر توجہ گندم کی پیداوار میں اضافے اور اس کی قیمت کو کنٹرول کرنے پر مبذول رہی۔ یوں تو حکومت نے گائے اور بکرے کے گوشت کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے کی بھی کوشش کی ہے، لیکن ملک میں بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔
    افراط زر اشیاء خورد و نوش کے علاوہ تمام اشیائے ضرورت پر ایک ہی طرح سے اثر انداز ہورہا ہے، لیکن سال ۲۰۰۱ء سے اب تک پولٹری مصنوعات کی قیمتوں میں سب سے کم اضافہ ہوا، یعنی ۱۰۳ فیصد۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے جس سے پولٹری فارمرز کو شدید نقصان کا سامنا ہے، کیونکہ پولٹری مصنوعات کی پیداواری لاگت میں دیگر صنعتوں کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا، لیکن اس کے باوجود اس نسبت سے اسکی قیمت فروخت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آسکا۔
    پولٹری مصنوعات کی قیمت فروخت کا تعین فارمر کے کنٹرول میں بالکل نہیں ہوتا بلکہ صرف طلب و رسد کے تحت ہوتا ہے، اسلئے اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ہمارے یہاں مرغی اور انڈے کی پیداوار کا عمل تقریباً رک جائے گا، جس کے نتیجے میں عوام کو مقامی طور پر پروٹین کا بہترین ذریعہ میسر نہیں آسکے گا، جو حکومت اور عوام دونوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
    ایسی صورتحال میں حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ انتظامیہ کے اہلکاروں کو پولٹری مصنوعات کے مارکیٹ کے عمل میں مداخلت سے باز رکھے اور امریکہ کی طرح ’’ڈو مور‘‘ کی رٹ میں ایک سستے پروٹین کے ذریعے کو تباہ کرنے کی سازش نہ کرے۔
    پاکستان میں قیمتیں مزید کم کرنے کیلئے زیادہ تر پولٹری والوں پر ہی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال کو سامنے آئی، جب مرغی کی قیمت ۱۸۲ روپے فی کلو تھی۔ اس وقت پولٹری ایسوسی ایشن کو مجبور کیا گیا کہ ان قیمتوں میں ۱۵ روپے سبسڈی دی جائے، حالانکہ سبسڈی دینا ایسوسی ایشن کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے باوجود حکومت کے اصرار پر ایسوسی ایشن کے ممبران نے رمضان بازاروں میں ۱۵ روپے کلو کم پر مرغی بیچی۔ چند روز بعد مرغی کی قیمت ۱۴۵ روپے فی کلو ہوگئی لیکن اس کے باوجود انتظامیہ کا اصرار تھا کہ اس سے بھی ۱۵ روپے فی کلو کم پر مرغی بیچی جائے۔
    اوپر دیئے گئے اعداد و شمار سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ انتظامیہ کی بے جا مداخلت سے پولٹری کا کاروبار شدید متاثر ہورہا ہے، جس کے بند ہونے کی صورت میں کسی بھی چیز کی قیمت انتظامیہ کے کنٹرول میں نہیں رہے گی
     
  10. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    پولٹری کی صنعت اور خدشات
    May 29, 2012
    تحریر: منصور مہدی
    پولٹری کی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت جنوبی ایشیا کے ممالک میں دیگر ممالک کی نسبت تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں شمار ہوتی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی صنعت پولٹری کی ہے جس میں اب تک ۰۰۳ ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری سے ۸۲ ہزار سے زائد پولٹری فارم بن چکے ہیں کہ جہاں ۲۳ لاکھ سے زائد مرغیاں پالی جاتی ہیں۔ ۳۲ لاکھ افراد کا براہ راست روزگار پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ہے۔ جبکہ درجنوں نئے پراجیکٹ شروع کیے جا رہے ہیں۔
    پاکستان میں مرغی کا استعمال فی کس سالانہ ۶ کلو جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ۱۴ کلو اور دیگر ممالک میں ۷۱ کلو ہے۔ ۳۵۹۱ءمیں جب پاکستان میں پٹرول پندرہ پیسے فی لیٹر تھا اس وقت بکرے کا گوشت سوا روپے کلو اور دیسی مرغی کا گوشت چار روپے کلو تھا۔ اس زمانے میں مرغی کھانا امیروں کی شان سمجھی جاتی تھی لیکن ولایتی مرغی نے پروٹین سے بھرپور مرغی کا گوشت سستا ترین کر دیا۔
    پولٹری انڈسٹری سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولٹری انڈسٹری کا مستقبل بہت روشن ہے۔ دنیا میں اس وقت حلال مصنوعات کا سالانہ کاروبار ۲۳۶ ارب ڈالر ہے جس میں سے اگر پاکستان ایک فیصد بھی حاصل کر لے تو اس کی سالانہ برآمد چھ ارب ڈالر سے بھی زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں آسٹریلیا کی مصنوعات کی جگہ پاکستانی پولٹری کی مصنوعات زیادہ پسند کی جا رہی ہیں۔ حکومت حوصلہ افزائی کرے تو برآمدات میں کافی اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن آئین میں اٹھارویں ترمیم سے قبل پولٹری کے لیے درآمد کی جانے والی مشینری سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی سے مستثنیٰ تھی لیکن جب صوبوں کو محکمے منتقل کیے گئے تو اس رعایت کا خاتمہ کر دیا گیا اور پولٹری کی مشینری پر بھی سولہ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی گئی جس کی وجہ سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی پولٹری انڈسٹری کو دھچکا لگا ہے۔
    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے بگڑتے ہوئے تعلقات سے بھی پولٹری کی صنعت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کیونکہ پاکستان کی کل پولٹری صنعت کا ۰۸ فیصد انحصار امریکہ سے درآمد شدہ چکن فلوکس پر ہے۔ جبکہ انڈسٹری سے متعلقہ مشینری اور ویکسین بھی امریکہ سے ہی درآمد کی جاتی ہے۔
    امریکہ سے درآمد شدہ چکن بے بی ۸۳ سے ۰۴ دنوں میں جوان ہو کر کھانے کے قابل ہو جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں تیار کردہ چکن (دیسی مرغی) بے بی کی قسم ایک سال میں تیار ہوتی ہے۔ اگرچہ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ۰۰۶۱ ایکٹر رقبے پر پھیلے ”نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل (نارک) سنٹر میںاپنا پیرنٹ فلوک بنانے کے تجربات ہو رہے ہیں مگر وہ امریکی فلوک سے بہت پیچھے ہیں۔
    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس انڈسٹری میں ابھی مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کے ساتھ نجی شعبہ کے افراد اور ادارے بھی تحقیقی سنٹر کے قیام میں سرمایہ کاری کریں تو پاکستانی سائنسدان بھی پیرنٹ فلوک تیار کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ویکسین کی مقامی تیاری کے لیے بھی پاکستان میں کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ نجی شعبہ کی ان دو شعبات میں شمولیت سے پاکستان کی پولٹری کی صنعت میں انقلاب آسکتا ہے۔ اور یورپی یونین میں پولٹری مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہ آسانی سے برآمد ہو سکتی ہیں اور پاکستان بڑی مقدار میں زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ ویسے بھی یورپی یونین پولٹری پر اعشاریہ پینتیس فیصد رعایت بھی دیتی ہے۔
    پاکستان میں جدید پولٹری کی صنعت کا آغاز ۳۶۹۱ءمیں ہوا تھا۔ پی آئی اے نے اس صنعت میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ۵۶۹۱ءمیں کراچی میں پہلا جدید ہیچری یونٹ لگایا۔ لیکن اب یہی صنعت ملک کے چوبیس اعشاریہ سات فیصد گوشت کی طلب پوری کر رہی ہے۔ پاکستان میں ۰۰۳ ارب کی سرمایہ کاری میں سے ۰۰۲ ارب روپے کی سرمایہ کاری صرف پنجاب میں کی گئی ہے۔
    اینیمل ہسبنڈری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سرورکا کہنا ہے کہ جدید تحقیق سے استفادہ کرکے پولٹری کی صنعت کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گوشت کے استعمال کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے اور تقریباً ۶ کلوگرام گوشت فی کس سالانہ استعمال کیا جاتا ہے، پولٹری کی صنعت میں سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں اور اس صنعت میں سرمایہ کاری سے قابل ذکر منافع کمایا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک میں کھلے پولٹری فارمز کے بجائے کنٹرولڈ فارمز کے فروغ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پنجاب میں تقریباً ۶ ہزار ۰۰۵ سے زائد کنٹرولڈ فارمز کام کر رہے ہیں۔
    پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے کنوینئر شاہنواز جنجوعہ کا پاکستان میں پولٹری کی صنعت کے فروغ کے حوالے سے کہنا ہے کہ حال ہی میں ہونے والی ایکسپو سینٹر کراچی میں لائیواسٹاک نمائش میں جہاں متعدد جانوروںکی نمائش کی گئی وہاں اس نمائش کے انعقاد کا مقصد لائیواسٹاک، ڈیری، فشریز اور پولٹری کے شعبے کوفروغ دینا بھی تھا جس کی مدد سے ملک میں لائیواسٹاک اور پولٹری کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوئی اور ۵۲ سرمایہ کار ایک ارب روپے سے زائد کی فوری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی آب و ہوا مرغ بانی کے علاوہ شتر مرغ کی افزائش کے لیے بھی انتہائی موزوں ہے۔
    پولٹری صنعت میں ہول سیلرز کی یونین کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں اگرچہ پولٹری کی صنعت میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی لیکن اس کاروبار میں چند بڑے سرمایہ کاروں نے بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے اس صنعت پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے، جو مرغی کی کل پیداوار سے لے کر اس کی ویکسین اور گوشت کی قیمت کو مقرر کرتے ہیں، جس سے پولٹری انڈسٹری بھی چند ہاتھوں میںسمٹتی جا رہی ہے۔ کیونکہ کپڑے کے بعد یہی پاکستان کی سب سے بڑی اور منفعت بخش صنعت ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے پولٹری صنعت میں بحران پیدا ہو رہا ہے۔ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ حکومت نے کبھی بھی اس شعبے پر توجہ نہ دی۔ نہ ہی کسی حکومت نے انڈسٹری کی بہتری کے لیے کوئی نمایاں اقدامات کیے اور نہ ہی پولٹری پالیسی کا اعلان کیا جاسکا ہے۔ ہول سیلرز کا کہنا ہے کہ پولٹری وہ واحد سیکٹر ہے جس کی قیمت میں اگر اضافہ ہوتا ہے تو کمی بھی کی جاتی ہے جبکہ گائے اور بکرے کے گوشت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کی قیمتیں کم نہیں ہوتیں۔
    اینیمل ہسبنڈری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سرورکا کہنا ہے کہ پولٹری کی صنعت کو ویکسین اور اپنا پیرنٹ فلوک تیار کرنے کے لیے ایک بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پولٹری انڈسٹری کے غیر ممالک پر 80 فیصد انحصار کو ختم کرنا ہوگا۔
     
  11. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بہت خوب جی اچھا جارہے ہیں
     
  12. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    شکریہ جی حوصلہ افزائی کا
     
  13. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    پولٹری فارمر آج بھی خسارے میں ہے کہ جو چکن 110 روپے کلو میں تیار ہوتا ہے وہ اسے 95 روپے کلو میں یعنی اپنی پیداواری لاگت سے بھی کم پر فروخت کرتا ہے۔ یاد رہے کی فارم ریٹ اور مارکیٹ ریٹ میں 10 سے 20 روپے تک کا فرق ہروا ہے
     
  14. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    ایسا کیوں‌ہورہا ہے ان کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالیں
     
  15. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    مرغی کی کھپت، اور سپلائی کا فرق کہ کھپت کم اور سپلائی زیادہ کہ پہلے ہماری مرغی افغانستان جاتی تھی جس سے یہ فرق برابری کی سطع پر ہوتا تھا اور اب عدالت نے افغانستان سپلائی پر پابندی لگا دی اور فارمر شدید نقصانات کا شکار ہے
    اب اگر آپ یہ کہیں کہ افغانستان سپلائی پر پابندی سے مرغی 220 روپے کلو سے 100 روپے کلو پر آ گئی ہے تو عرض کروں کہ 220 روپے کے ریٹ کی وجہ افغانستان کی سپلائی نہیں بلکہ رانی کھیت کا مرض تھا جس کی وجہ سے اس وقت مرغیوں کےفارم پر شرح اموات کی زیادتی تھی
     
  16. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    یک عمر رسیدہ غیر شادی شدہ خاتون نےتنہائی سے اکتا کر مرغبانی کا پروگرام بنایا۔
    چنانچہ وہ ایک پولٹری فارم تشریف لے گئیں اور اس کے مینجر سے کہا
    مجھے دو سو مرغیاں اور دو سو مرغ درکار ہیں۔ میں مرغبانی کرنا چاہتی ہوں۔
    مینجر بولا۔ محترمہ دو سو مرغیوں کے لئے پچیس مرغ کافی ہونگے۔
    نہیں خاتون نے ٹھنڈی سانس بھری۔ مرغ دو سو ہی دیجئے آپ نہیں جانتے کہ تنہائی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    آصف بھائی ۔ آپ کی آخری پوسٹ بہت معلومات افزاء ہے :87:
     
  18. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    یہ معلومات میرے لیے بھی بلکل نوی نکور ہے :84:
     
  19. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    شکریہ اگر آپ کے دل کو لگی یہ بات
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    کاش یہاں‌مرغیاں پالنے کی اجازت ہوتی تو میں اپنی مرغیوں کو یہ لطیفہ ضرور سناتا ۔ :p_aaa:
     
  21. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    گوانڈیوں کی مرغیوں کو سنا لیں
     
  22. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بہت زبردست جی شکریہ
     
  23. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    کیااچھا لگا
     
  24. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    گل گھوٹو پر بارانی یونیورسٹی کے پروفیسر کی تحقیق
    By Technology Times at September 30, 2012
    لاہور (نیوز رپورٹ) بارانی یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنے حالیہ تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ مویشیوں میں پائی جانے والی گل گھوٹو کی مہلک بیماری کیلئے تیار کردہ ویکسین میں پایا جانے والا جرثومہ اور بیمار جانوروں میں بیماری کا سبب بننے والا جرثومہ ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔
    بارانی یونیورسٹی خوشاب کیمپس کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران نے پروفیسر منصور الدین احمد کی سربراہی میں اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کی تکمیل کے سلسلے میں سرگودھا ڈویژن کے ۴ اضلاع سے بیمار اور صحتمند جانوروں سے حاصل شدہ مختلف نمونوں کا تجزیہ کیا۔ ان میں سے ’’پاسٹوریلا ملٹوسیڈا نامی بیکٹیریا کی مختلف تجربات کی مدد سے تصدیق کی گئی اور اس کا حفاظتی ٹیکوں میں پائے جانے والے جرثومے کے مقابلے میں جائزہ لیا گیا۔
    اس دوران مختلف تجربات سے یہ معلوم ہوا کہ فیلڈ میں استعمال ہونے والی ویکسین میں وہی جرثومہ موجود ہے جبکہ ویکسین ناکام ہونے کی چند دیگر وجوہات تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جن میں ویکسین کے استعمال کا طریقہ کار، اسٹوریج، مقدار اور روٹ میں فرق وغیرہ شامل ہیں۔
     
  25. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بھینسوں کی جسمانی کیفیت کی درجہ بندی پر تحقیق
    پاکستان میں دودھ کی پیداوارکے لحاظ سے نیلی راوی نسل کی بھینس ایک اہم ترین جانور ہے۔ جو کہ دودھ میں زیادہ چکنائی ہونے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں بے حد مقبول ہے۔بھینسوں کی تعداد تین کروڑ ہونے کے باوجود ان کی روزانہ اوسط پیداوار انتہائی کم ہے چنانچہ اس جانور کی پیداواری صلاحیت کوبڑھانے کی شدید ضرورت ہے۔
    بھینسوں کے غذائی اور تولیدی مسائل جیسا کہ دیر سے بالغ ہونا،ویگ کی علامات ظاہر نہ کرنا، حمل ٹھہرنے کی کم شرح،نئے دودھ ہونے کا زیادہ دورانیہ اور مخصوص موسم میں ویگ کی علامات کا ظاہر نہ ہونا شامل ہیں۔ جسمانی کیفیت کی درجہ بندی جانور کی صحت کی نشاندہی کرنے کا ایک اہم پیمانہ ہے جس سے ڈیری فارمرز کیلئے جانوروں کا بروقت علاج یا ان کو تلف کرنے کا فیصلہ کرنے میں مددملتی ہے۔مزید براںاس سے جانوروں کے مختلف پیداواری اور تولیدی مراحل کے معیارکو جانچا جا سکتا ہے۔بھینسوں کی جسمانی کیفیت کی درجہ بندی کے لئے ایسا کوئی نظام پہلے سے موجود نہیںہے۔
    اس صورتحال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اے ایس ایل پی ڈیری پراجیکٹ نے بھینسوں کی جسمانی کیفیت کی درجہ بندی اوران کی با رآوری کے باہمی تعلق پر تحقیق کا ایک منصوبہ تشکیل دیا۔یہ تجربہ لائیوسٹاک پروڈکشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ بہادرنگر, اوکاڑہ کے ساتھ ساتھ پراجیکٹ سے منسلک مخصوص دیہاتوں میں کیا گیا۔ اس بات کی اُمید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں اس تجربے کی روشنی میں بھینسوںکی جسمانی کیفیت کی درجہ بندی کے پیداواری اور بارآوری پر بہترین لائحہ عمل ترتیب دینے میں مدد ملے گی۔
     
  26. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    شکریہ ڈاکٹر صاحب
     
  27. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    شکریہ ڈاکٹر صاحب
     
  28. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    سر جی کوئی اور مفت معلومات
     
  29. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بہت شکریہ ڈاکٹر صاحب
     
  30. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شفا خانہ حیوانات

    بھینسوں کو متوازن خوراک کیلئے کسانوں کی تربیت کرنا ہوگی
    ایشین بفلیو ایسوسی ایشن کے صدر ڈین فیکلٹی لائیوسٹاک بزنس مینجمنٹ پروفیسر ڈاکٹر طلعت پاشا نے کہا ہے کہ ایشیاء میں 97 فیصددودھ بھینسوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔مگر عالمی سطح پر دودھ کی پیداوار میں اضافہ کیلئے جتنی تحقیق بھیڑوں وگائے پر کی جاتی ہے۔اتنی تحقیق ایشیاء میں نہیں ہوتی۔ پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ ، بھارت اور چین سمیت متعدد ایشیائی ممالک نے خطہ میں دودھ کی پیداوار کے ہدف حاصل کرنے کیلئے بفیلو ایسوسی ایشن قائم کی۔جس کے بعد بھینسوں کے دودھ کی مطلوبہ پیداوار حاصل کرنے میں کافی مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھینسوں کے ذریعے دودھ کی پیداوار بڑھانے کیلئے بریڈنگ اور جینٹکس کے طریق کار میں تبدیلی لانا ہوگی۔ انہوں نے کہا بھینسوں کو متوازن خوراک دینے کیلئے فارمز کی مناسب تربیت کرنا ہو گی۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں بہتر پیداوار کیلئے کو ششیں کرنے کی بجائے خطرناک وجان لیوا کیمیکلز استعمال کر کے دودھ کی مقدار کو بڑ ھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔ دودھ کی پیداوار بڑھانے کیلئے بھینسوں کو خطرناک انجیکشنز لگائے جاتے ہیں۔اور گاڑھا کر نے کیلئے خطر ناک قسم کے کیمیکلز بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔جو مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہیں۔مذکورہ کیمیکلز اور انجیکشن نا صرف جانوروں کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ انسانوں میں گردے، معدے اور دل کی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔یہ کیمیکلز حاملہ خواتین کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں