1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتباسات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏30 اکتوبر 2011۔

  1. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔
    شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
    لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
    شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
    مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
    شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
    "میں ہوں جنید بغدادی۔"
    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
    شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
    بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔"
    پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔
    انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
    پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔
    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن جنگل جا رہے تھے کہ اُنھوں نے ایک چرواہے کی آواز سنی.. وہ اونچی اونچی کہہ رہا تھا..’’اے میرے جان سے پیارے خدا.. تُو کہاں ہے..؟ میرے پاس آ.. میں تیرے سر میں کنگھی کروں ' جوئیں چنوں ' تیرا لباس میلا ہو گیا ہے تو دھوؤں ' تیرے موزے پھٹ گئے ہوں تو وہ بھی سیئوں ' تجھے تازہ تازہ دُودھ پلاؤں ' تو بیمار ہو جائے تو تیری تیمارداری کروں..اگر مجھے معلوم ہو کہ تیرا گھر کہاں ہے تو تمھارے لیے روز گھی اور دُودھ لایا کروں.. میری سب بکریاں تم پر قربان.. اَب تو آ جا.. "حضرت موسیٰ علیہ السلام اِس کے قریب گئے.. اور کہنے لگے.. " ارے احمق.. تُو یہ باتیں کس سے کر رہا ہے..؟ "چرواہے نے جواب دیا.. " اُس سے کر رہا ہوں جس نے تجھے اور مجھے پیدا کیا اور یہ زمین آسمان بنائے.. "یہ سن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر کہا.. " ارے بدبخت.. تُو اِس بیہودہ بکواس سے کہیں کا نہ رہا.. بجائے مومن کے تُو تو کافر ہو گیا.. خبردار ایسی بے معنی اور فضول بکواس بند کر.. تیرے اِس کفر کی بدبو ساری دُنیا میں پھیل گئی..ارے بے وقوف.. یہ دُودھ ' لسی ہم مخلوق کے لیے ہے ' کپڑوں کے محتاج ہم ہیں ' حق تعالیٰ ان حاجتوں سے بے نیاز ہے.. نہ وہ بیمار پڑتا ہے نہ اِسے تیمارداری کی ضرورت ہے نہ اِس کا کوئی رشتہ دار ہے.. توبہ کر اور اِس سے ڈر.. "حضرت موسیٰ علیہ السلام کے غیظ و غضب میں بھرے ہوئے یہ الفاظ سن کر چرواہے کے اوسان خطا ہو گئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا ' چہرہ زرد پڑ گیا اور بولا.. " اے خدا کے جلیل القدر نبی ! تُو نے ایسی بات کہی کہ میرا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور مارے ندامت کے میری جان ہلاکت میں پڑ گئی.. "یہ کہتے ہی چرواہے نے سرد آہ کھینچی ' اپنا گریبان تار تار کیا اور دیوانوں کی طرح اپنے سر پر خاک اُڑاتا ہوا غائب ہو گیا..حضرت موسیٰ علیہ السلام حق تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے کوہِ طور پر گئے تو خدا نے فرمایا.. " اے موسیٰ ! تو نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کیوں کیا..؟ تو دُنیا میں جدائی کے لیے آیا ہے یا ملاپ کے لیے..؟خبردار ! اِس کام میں احتیاط رکھ.. ہم نے اپنی مخلوق میں ہر شخص کی فطرت الگ بنائی ہے اور ہر فرد کو دوسروں سے جدا عقل بخشی ہے.. جو بات ایک کے حق میں اچھی ہے وہ دوسرے کے لیے بُری ہے.. ایک کے حق میں تریاق کا اثر رکھتی ہے وہی دوسرے کے لیے زہر ہے.. ایک کے حق میں نور اور دوسرے کے حق میں نار.. ہماری ذات پاکی و ناپاکی سے مبریٰ ہے..اے موسیٰ ! یہ مخلوق ہم نے اِس لیے پیدا نہیں فرمائی کہ اِس سے ہماری ذات کو کوئی فائدہ پہنچے.. اِسے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اِس پر ہم اپنے کمالات کی بارش کریں.. جو شخص جس زبان میں بھی ہماری حمد و ثناء کرتا ہے اِس سے ہماری ذات میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی.. مدح کرنے والا خود ہی پاک صاف ہوتا ہے.. ہم کسی کے قول اور ظاہر پر نگاہ نہیں رکھتے ہم تو باطن اور حال دیکھتے ہیں..اے موسیٰ ! خردمندوں کے آداب اور ہیں دل جلوں اور جان ہاروں کے آداب اور.. "حضرت موسیٰ نے جب خدا کا یہ عتاب آمیز خطاب سنا تو سخت پشیمان ہو ئے اور بارگاہِ الٰہی میں نہایت ندامت اور شرم ساری سے معافی مانگی.. پھر اِسی اضطراب اور بے چینی میں اِس چرواہے کو ڈھونڈنے جنگل میں گئے.. صحرا و بیابان کی خاک چھان ماری پر چروہے کا کہیں پتا نہ چلا.. اِس قدر چلے کہ پیروں میں چھالے پڑ گئے لیکن تلاش جاری رکھی آخر آپ اِسے پا لینے میں کامیاب ہوئے..چرواہے نے انھیں دیکھ کر کہا.. " اے موسیٰ ! اب مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ یہاں بھی آ پہنچے..؟ "حضرت موسیٰ نے جواب دیا.. " اے چرواہے ! میں تجھے مبارک دینے آیا ہوں.. تجھے حق تعالیٰ نے اپنا بندہ فرمایا اور اِجازت عطا کی کہ جو تیرے جی میں آئے ' بلا تکلف کہا کر.. تجھے کسی ادب و آداب ' قاعدے ضابطے کی ضرورت نہیں.. تیرا کفر اصل دین ہے اور دین نورِ جاں.. تجھے سب کچھ معاف ہے بلکہ تیرے صدقے میں تمام دُنیا کی حفاظت ہوتی ہے.. "چرواہے نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا.. " اے پیغمبر خدا ! اب میں اِن باتوں کے قابل ہی کہاں رہا ہوں کہ کچھ کہوں.. میرے دِل کا خون ہو چکا ہے.. اب میری منزل بہت آگے ہے.. تُو نے ایسی ضرب لگائی کہ ہزاروں ' لاکھوں سال کی راہ طے کر چکا ہوں.. میرا حال بیان کے قابل نہیں اور یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اِسے بھی میرا احوال مت جان.. "مولانا رومی اِس حکایت سے ما حاصل یہ نکالتے ہیں کہ " اے شخص جو تو حق تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے کیا سمجھتا ہے..؟ تُو تو ابتداء سے اِنتہا تک ناقص اور تیرا حال و قال بھی ناقص.. یہ محض اِس پروردگار رحمن و کریم کا کرم ہے کہ وہ تیرے ناقص اور گندے تحفے کو قبول فرماتا ہے

    رومی نے کیا خوب فرمایا ہے

    وحی آمد سوئےموسی از خدا
    بندهٔ ما را ز ما کردی جدا

    تو برای وصل کردن آمدی
    یا برای فصل کردن آمدی

    مثنوی۔
    موسی کی طرف وحی آئی۔"تو نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کیا۔کیا تجھے بندوں کو ہم سے ملانے کے لیے بھیجا ہے ؟ یا ہم سے جدا کرنے کے لیے بھیجا ہے
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جزاکم اللہ خیر ۔ ۔ ۔ بےشک ! بزرگوں کی ہر ہر بات میں ایک سبق ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ بس سمجھنے والی عقل اور عمل کرنے والا دل چاہیے ۔ ۔ ۔
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    سُن! آدمی کا وجود دودھ کی مثل ہے۔ دودھ میں لسی بھی ہوتی ہے،دہی اور مکھن بھی ہوتااور گھی بھی ہوتا ہے، اِسی طرح آدمی کے وجود میں نفس بھی ہوتا ہے،قلب بھی ہوتا ہے، روح بھی ہوتی ہے اور سربھی ہوتا ہے اور یہ چاروں ایک ہی جگہ جمع ہوتےہیں۔ مرشد کو اُس عورت کی طرح ہونا چاہیے جو دودھ میں مناسب مقدار میں لسی ڈال کر رکھ دیتی ہے، ساری رات دہی جمتا رہتا ہے۔
    صبح کو دہی بلوتی ہے تو مکھن نکل آتا ہے اور لسی الگ ہوجاتی ہے،
    پھر مکھن کو آگ پر چڑھاتی ہے تو مکھن سے کثافت دور ہوجاتی
    ہے اور گھی نکل آتا ہے ،مرشد کو عورت سے کمتر نہیں ہوناچاہیے
    کہ جیسے عورت دودھ کے کام کوانتہا تک پہنچاتی ہے اُسی طرح مرشد کا کام بھی یہ ہے کہ طالب کواُس کے وجود میں مقامِ نفس، مقامِ قلب ، مقامِ روح ،مقامِ سر ، مقامِ توفیقِ الہٰی ، مقامِ علمِ شریعت وطریقت وحقیقت ومعرفت اور مقامِ خناس وخرطوم وشیطان وحرص وحسد وکبر علیحدہ علیحدہ کرکے دکھائے۔
    حضرت سخی سلطان باھوؒ عین الفقرص
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    ایک روز میں نے قدرت للہ سے پوچھا "یہ جو الله والے لوگ ہوتے ہیں‘ یہ عورت سے کیوں گھبراتے ہیں۔"
    "زیادہ تر بزرگ تو عورتوں سے ملتے ہی نہیں۔ ان کے دربار میں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے."
    "یہ تو ہے." وہ بولے.
    "سر راہ چلتے ہوئے کوئی عورت نظر آجائے تو گھبرا کر سر جھکا لیتے ہیں. ان کی اس گھبراہٹ میں خوف کا عنصر نمایاں ہوتا ہے. وہ عورت سے کیوں ڈرتے ہیں؟"
    "شاید وہ اپنے آپ سے ڈرتے ہیں." قدرت نے کہا۔
    "لیکن وہ تو اپنے آپ پر قابو پا چکے ہوتے ہیں‘ اپنی میں کو فنا کر چکے ہوتے ہیں."
    "اپنے آپ پر جتنا زیادہ قابو پا لو اتنا ہی بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے."
    "آپ کا مطلب ہے شر کا عنصر کبھی پورے طور پر فنا نہیں ہوتا؟"
    "شر کا عنصر پورے طور پر فنا ہو جائے تو نیکی کا وجود ہی نہ رہے۔ چراغ کے جلنے کے لئے پس منظر میں اندھیرا ضروری ہے۔"
    "میں نہیں سمجھا. مجھے ان جملوں سے کتاب اور دانشوری کی بو آتی ہے۔"
    "انسان میں جوں جوں نیکی کی صلاحیت بڑھتی ہے توں توں ساتھ ساتھ شر کی ترغیب بڑھتی ہے. شر کی ترغیب نہ بڑھے تو نیکی کی صلاحیت بڑھ نہیں سکتی."
    "سیدھی بات کیوں نہیں کرتے آپ۔"
    قدرت میری طرف دیکھنے لگے.
    "کہ تمام قوت کا منبع شر ہے. نیکی میں قوت کا عنصر نہیں۔ الله کے بندوں کا کام ٹرانسفارمر جیسا ہے. شر کی قوت کا رخ نیکی کی طرف موڑ دو ."

    "لبیک" ممتاز مفتی
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں