1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتباسات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏30 اکتوبر 2011۔

  1. ہادیہ
    آف لائن

    ہادیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    17,730
    موصول پسندیدگیاں:
    136
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    اماں سردار بیگم

    اماں جی کو باسی کھانے ،پرانے ساگ،اترے ہوئے چاول اور ادھ کھائی روٹیاں بہت پسند تھیں۔دراصل وہ رزق کی قدردان تھیں ،شاہی دسترخوان کی بھوکی نہیں‌تھیں۔
    میری چھوٹی آپاکئی مرتبہ خوف زدہ ہوکر اونچی آواز میں‌چیخا کرتیں:
    "اماں حلیم نہ کھاؤ'پھول گیا ہے۔بلبلے اٹھ رہے ہیں‌"
    "یہ ٹکڑا پھینک دیں اماں سارا جلا ہوا ہے"
    "اس سالن کو مت کھائیں ،کھٹی بو آرہی ہے"
    "یہ امرود ہم نے پھینک دیئے تھے،ان میں سے کیڑا نکلا تھا"
    "لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں،اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں"
    "اس کٹورے میں نہ پئیں،باہر بھجوایا تھا"
    لیکن اماں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاروں کی پروا کئے بغیرمزے سے کھاتی جاتیں۔
    چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں‌تھیں‌ اس لئے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں،صرف خدا سے ڈرتی تھیں۔

    اقتباس "اماں سردار بیگم"
    صبحانے افسانے
    اشفاق احمد
     
  2. معصومہ
    آف لائن

    معصومہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏2 نومبر 2011
    پیغامات:
    15,314
    موصول پسندیدگیاں:
    167
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    گرم جوشی

    اگر آپ ہر شخص سے اچھی طرح پیش آئے ۔۔۔ ہاتھ دبا کر مصافحہ کیا۔۔۔۔ قریب بیٹھے اور۔۔۔ گرم جوشی سے باتیں کیں۔۔۔۔ تو نتائج نہایت پریشان کن ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔ وہ خوامخواہ متاثر ہوجائے گا۔۔۔۔ اور نہ صرف دوبارہ ملنا چاہے گابلکہ ۔۔۔ دوسروں سے تعارف کرادےگا۔۔۔ یہ تیسروں سے ملائیں گے ۔۔۔ اور وہ اوروں سے ۔۔۔۔ چنانچہ اتنے ملاقاتی اور۔۔۔۔ واقف کار اکھٹے ہوجائیں گے کہ ۔۔۔۔ آپ چھپتے پھریں گے ۔۔۔۔
    ممکن ہے کہ ۔۔۔ لوگ متاثر ہوکہ آپ کو بھی متاثر کرنا چاہیں۔۔۔۔ وہ بلا ضرورت بغل گیر ہوں گے ۔۔۔ ہاتھ دبائیں گے اور۔۔۔ قریب بیٹھنے کی کوشش کریں گے۔۔۔۔ لہٰذا کسی کو متاثر کررہے ہیں تو۔۔۔ خیال رکھئے کہ ۔۔۔ آپ اور اس شخص کے درمیان کم از کم تین گز کا فاصلہ ہو۔۔۔۔ ورنہ وہ متاثر ہوتے ہی۔۔۔۔ آپ سے بغل گیر ہونے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ ۔۔۔ کہیں آپ بھی اس سے متاثر ہوجائیں۔۔۔ زندگی پہلے ہی کافی پیچیدہ ہے ۔۔۔۔ کبھی مت کہئے گا کہ ۔۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔۔۔ بلکہ اس سے پوچھئے کہ ۔۔۔ کہیں وہ تو آپ سے مل کر خوش نہیں ہورہا۔۔۔اگر یہ بات ہے تو خبردار رہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



    شفیق الرحمان کی کتاب“ حماقتیں“ سے اقتباس
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    جو لوگ تلاش کے مقدّس سفر میں دل لے کر نکلتے ہیں‘ وہ حقیقت کو دلبری کے انداز میں پاتے ہیں۔ انہیں کائنات کا ہر ذرہ ایک تڑپتا ہوا دل محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت کی ادائے دلبری ایسے متلاشی کو اپنا ذاکر بناتی ہے۔ وہ حقیقت کا ذکر کرتا ہے ‘ حقیقت اس کا ذکر کرتی ہے۔ یہ عجیب سلسلے ہیں۔ دل والے متلاشی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں ‘ جہاں ذکر ‘ ذاکر اور مذکور باہم ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں چند ساعتیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔

    (حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ)
     
  4. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    تیرے عشق نچایا
    کر کے تھیا تھیا
    چھیتی آویں وے طبیبا
    چھیتی مڑآویں وے طبیبا
    نیئں تاں میں مر گی آں

    "عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا یے, زمین پر رہنے نہیں دتیا اور عشق لاحاصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا یے جب عشق لاحاصل رہتا ھے۔

    جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔

    ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا۔
    گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے.

    مگر میری سمت الٹی ہو گئی تھی۔ میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا۔ مجازی کو نہ پاکر حقیقی تک نہیں گئی تھی حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھر رہی تھی۔

    اقتباس: عُمیرہ احمد کے ناول "دربار دل" سے
     
  5. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے ، جب کشتی کنارے لگ جاۓ تو اپنے زور بازو کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔بہت کم انسان ایسے ہیں جو اپنے حاصل کو رحمت پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں۔
    واصف علی واصف
     
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سکھوں کا ایک فرقہ نانک پتھیوں کا ہے - یہ لوگ گرو سکھ کے نام سے مشہور ہیں - اور بتوں وغیرہ پر کسی قسم کا اعتقاد نہیں رکھتے -

    نانک کا تعلق بیدی فرقے سے ہے ، جو کھتریوں کی ایک جماعت ہے -

    نانک نے فردوس مکانی ظہیر الدین بابر کے زمانے میں شہرت پائی -

    بابر کے افغانوں پر تسلط سے پہلے نانک ، دولت خان لودھی کا جو ہندوستان کے شہنشاہ ابراہیم خان کے بہت بڑے امرا میں سے تھا کا مودی تھا -

    " مودی " اسے کہتے ہیں جن کے ہاتھ میں اناج غلے وغیرہ کا بندوبست ہو -

    کسی موقع پر کسی درویش نے نانک کے دل پر تصرف کر لیا جس کے نتیجے میں اس نے اپنی دوکان اور خان لودھی کا تمام اناج وغیرہ جو اس کی دوکان میں تھا ، لٹا دیا اور اہل و عیال سے قطع تعلق کر لیا -

    دولت خان یہ خبر سن کر بڑا حیران ہوا ، لیکن اس نے جب نانک میں درویشی کے آثار پائے تو اسے تکلیف دینے سے احتراز کیا -

    الغرض نانک نے بہت زیادہ ریاضت کی - سب سے پہلے اس نے اپنی غذا میں کمی کی - کچھ عرصے صرف گائے کے دودھ پر اکتفا کرتا رہا -

    بعد ازیں صرف تیل پینے ، پھر پانی پینے ، اور آخر میں ہوا کھانے پر گزارا کیا -

    ہندی زبان میں ایسے شخص کو جو ہوا پر گزارا کرے " پون اہاری " کہتے ہیں -
    آہستہ آہستہ کچھ لوگ اس کے پیروکار ہو گئے -

    نانک ، باری تعالیٰ کی وحدت کا قائل تھا ، اور جو امور شرع محمدی میں رائج ہیں ، ان پر بھی - اور مسئلہ تناسخ پر بھی ایمان رکھتا تھا -

    از محسن فانی دبستان مذہب
     
  7. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سابق پریذیڈنٹ کارٹر کی ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا تھا - بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے - پارٹی پرچم پر بھی یہی بنا ہوتا ہے -

    اس پرچم تلے پوری امریکن قوم ایران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے -
    ہمارا مطلب ہے بے حس و حرکت -

    مغرب کو گدھے میں قطعی کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی -

    فرانسیسی مفکر اور انشائیہ نگار مونیشن تو اس جانور کے اوصاف حمیدہ کا اس قدر معترف اور معرف تھا کہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ

    " روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پر اعتماد ، مستقل مزاج ، گھمبیر دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھگیاں اور دھن میں مگن رہنے والا اور کوئی ذی روح نہیں ملے گا - "

    ہم ایشیائی در اصل اس لئے گدھے کو ذلیل سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ

    اپنی سہار اور بساط سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے اور جتنا زیادہ پٹتا اور بھوکوں مرتا ہے ، اتنا ہی آقا کا مطیع ، فرمانبردار ، اور شکر گزار ہوتا ہے -

    از مشتاق احمد یوسفی آب گم
     
  8. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    متقی

    وہ اپنی داڑھی میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہ رہا تھا -

    " میں جانتا ہوں اسلم ساجد تمہارا اچھا دوست ہے - لیکن وہ مجھے ایک پل نہیں بھاتا - وہ نہایت بدتمیز جھوٹا ، مطلب پرست اور فریبی ہے -

    ہمیشہ دوسروں کی برائیاں گنواتا رہتا ہے - کیا وہ نہیں جانتا کسی کی پیٹھ پیچھے اس کی برائیاں بیان کرنا اپنے بھائی کا کچا گوشت کھانے کے مترادف ہے -

    مجھے دیکھو میں تو کسی کی برائی نہیں کرتا

    از ڈاکٹر اشفاق احمد ایک زخم اور سہی صفحہ ٢٥
     
  9. معصومہ
    آف لائن

    معصومہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏2 نومبر 2011
    پیغامات:
    15,314
    موصول پسندیدگیاں:
    167
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    عید گاہ

    رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد. . . آج عید آئی. . کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے. . . بچہ کی طرح پر تبسم درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے. . . کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ ۔ ۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے. . . آج کا آفتا ب دیکھ کتنا پیارا ہے . . . گویا دُنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد دے رہا ہے. . . گاؤں میں کتنی چہل پہل ہے۔ ۔ ۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ تو سوئی تاگا لینے دوڑے جا رہا ہے۔ ۔ ۔ کسی کے جوتے سخت ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کر رہا ہے۔ ۔ ۔ جلدی جلدی بیلوں کو سانی پانی دے دیں۔ ۔ ۔ عید گاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہو جائے گی۔ ۔ ۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر ۔ ۔ ۔ سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملنا ملانا۔ ۔ ۔ دوپہر سے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔ ۔ کسی نے ایک روزہ رکھا ، وہ بھی دوپہر تک ۔ ۔ ۔ کسی نے وہ بھی نہیں۔ ۔ ۔ لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصہ ہے۔ ۔ ۔ روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوں گے، بچوں کے لیے تو عید ہے۔ ۔ ۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آگئی۔ ۔ ۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے کہ عید گاہ کیوں نہیں چلتے۔ ۔ ۔ انہیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ۔ ۔ ۔ ؟ سویّوں کیلئے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں۔ ۔ ۔ یا نہیں۔ ۔ ۔ اس کی انہیں کیا فکر۔ ۔ ؟ وہ کیا جانیں ابا کیوں بدحواس گاؤں کے مہاجن چودھری قاسم علی۔ ۔ ۔ کے گھر دوڑے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ انکی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بار بار جیب سے خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ ۔ ۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ان ہی دو چار پیسوں میں دُنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ ۔ ۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا۔ ۔ ۔ سب سے زیادہ خوش ہے ‘حامد”۔ ۔ ۔ وہ چار سال کا غریب صورت بچہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ اور ماں نہ جانے کیوں زرد ہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔ ۔ کسی کو پتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟ کہتی کس سے۔ ۔ ۔ ؟ کون سننے والا تھا۔ ۔ ۔ ؟ دل پر جو گزرتی تھی۔ ۔ ۔ سہتی تھی۔ ۔ ۔ اور جب نہ سہا گیا تو۔ ۔ ۔ دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔ ۔ ۔ اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور اتنا ہی خوش ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ابا جان بڑی دُور روپے کمانے گئے تھے۔ ۔ ۔ اور بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ ۔ ۔ امی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے خاموش ہے۔ ۔ ۔ ۔ حامد کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سر پر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جس کا گوٹہ سیاہ ہو گیا ہے۔ ۔ ۔ پھر بھی وہ خوش ہے۔ ۔ ۔ جب اس کے ابّاجان تھیلیاں اور اماں جان نعمتیں لے کر آئیں گے۔ ۔ ۔ تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔ ۔ ۔ ۔ تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن آذر اور سمیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے۔ ۔ ۔ ۔ اس کی ایک نگاہِ معصوم اسے پامال کرنے کےلئے کافی ہے۔ ۔ ۔ ۔


    (منشی پریم چند کی تحریر سے اقتباس
     
  10. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    یہ ساری دنیا مرد کی ہے یہاں عورت ڈھور ڈنگر کی طرح ہے - ذرا پھن اٹھایا تو پتھر مار کر کچل دی جائے گی -

    ذرا خدمت گزاری سے کام نہ لیا ، اطاعت نہ کی ، نیک پروین بن کر نہ دکھایا تو تھڑی تھڑی ہو جائیگی -

    اسی میں عافیت ہے کہ کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر اندھیاریاں پہنے اسی ڈگر پر چکر لگاتے وقت گزر جائے -

    گاڑی والے کو علم نہ ہو کہ بیل اس گردش پیہم سے تھک گیا ہے - بیل کے اندر بھاگ جانے کا حوصلہ نہیں ............... اس میں کھلی فضاؤں میں اکیلے پھرنے کی سکت نہیں ورنہ وہ اس روں روں کی زندگی کو کبھی کا چھوڑ جاتا -

    از بانو قدسیہ شہر بے مثال
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    صبح کو وہ سو کر اٹھا تو کمرہ میں چڑیا کا انڈا ٹوٹا ہوا پڑا تھا۔ یہ گوریا کا انڈا تھا جس نے چھت کی لکڑی میں ایک گوشہ پاکر وہاں اپنا گھونسلا بنارکھا تھا۔ اس گھونسلے کی وجہ سے کمرہ میں ہر وقت چڑیوں کا شور رہتا۔ تنکے گرتے رہتے۔ آدمی نے فرش پر ٹوٹا ہوا انڈا دیکھا تو اس نے گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔

    اگلے دن پھر وہی ’’چوں چوں‘‘ کا شور تھا۔ چڑیاں دوبارہ چھت کی لکڑی میں تنکے جمع کررہی تھیں۔ شاید اجڑے ہوئے گھونسلے کو دوبارہ بنا بنایا دیکھنے کے جذبے نے ان کے اندر عمل کا شوق بڑھادیا تھا۔ دوسرا گھونسلا انھوں نے
    اس سے کم مدت میں بنالیا جتنی مدت میں انھوں نے پہلا گھونسلا بنایا تھا۔ چڑیوں کی اس جسارت پر اس کو غصہ آیا اور اس نے دوبارہ ان کا گھونسلا اجاڑ کر پھینک دیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ اس نے چڑیوں کے اوپر آخری طور پر فتح پالی ہے۔ مگر اگلے دن پھر گھونسلے کا مسئلہ اس کے سر پر موجود تھا۔ چڑیوں نے جب دیکھا کہ ان کا بنا بنایا گھونسلا اجاڑ دیا گیا ہے اور انڈے توڑے جاچکے ہیں تو انھوں نے رونے میں یا فریاد کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا۔ انھوں نے ایسا بھی نہیں کیا کہ باہر جاکر دوسری ہم جنس چڑیوں کو ڈھونڈیں اور ان کے ساتھ متحدہ محاذ بناکر گھر پر حملہ کریں۔ اس کے برعکس وہ خاموشی سے باہر نکل گئیں اور ایک ایک تنکا لاکر دوبارہ گھونسلا بنانا شروع کردیا۔

    اب یہی روزانہ کا قصہ ہوگیا۔ چڑیاں روزانہ گھونسلا بنانا شروع کرتیں اور آدمی روزانہ اس کو اجاڑ دیتا۔ اسی طرح ایک مہینہ گزر گیا۔ اس دوران میں کتنی ہی بار چڑیوں کی محنت ضائع ہوئی۔ ان کے چنے ہوئے تنکے بیکار ہوگئے۔ مگر چڑیاں ان چیزوں سے بے پروا ہوکر اپنا کام کئے جارہی تھیں۔ آدمی کی نفرت کا جواب چڑیوں کے پاس صرف خاموش عمل تھا۔ آدمی کی تخریب کا مقابلہ ہر بار وہ نئی تعمیر سے کرتی تھیں۔ چڑیوں کا دشمن طاقت ور تھا مگر طاقت ور دشمن کا توڑ انھوں نے اپنے لگاتار عمل میں ڈھونڈ لیا تھا۔

    آخر نفرت پر خاموش عمل غالب آیا۔ چڑیوں کی مسلسل تعمیر نے آدمی کی مسلسل تخریب پر فتح پائی۔ ایک مہینہ کے ناکام مقابلہ کے بعد آدمی تھک چکا تھا۔ اس نے چڑیوں کا گھونسلا اجاڑنا چھوڑدیا۔ اب گوریا نے اپنے گھونسلے کو مکمل کرکے پھر اس میں انڈے دے دیے ہیں۔ وہ ان کو سینے میں مشغول ہے تاکہ وہ اپنی اگلی نسل پیدا کرے اور پھر اپنا کام کرکے اڑجائے۔ جب یہ چڑیاں اپنے گھونسلے میں جمع ہوتی ہیں تو ان کا ’’چوں چوں‘‘ کا شور اب بھی کمرہ میں گونجتا ہے۔ مگر اب آدمی کو یہ شور برا نہیں لگتا۔ کیونکہ ’’چوں چوں‘‘ کی آواز میں اس کو یہ قیمتی پیغام سنائی دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اپنے دشمن سے نفرت نہ کرو۔ ہر حال میں اپنی تعمیری جدوجہد میں لگے رہو۔ تم کامیاب رہوگے۔
     
  12. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    الله کے محبوب کی محبّت ہی عطائے الٰہی ہے - حضور اقدس سے محبّت ایمان کی اصل ہے -

    دین کیا ہے عشق احمد کے سوا ........ دین کا بس یہی ایک معیار ہے -

    عشق مصطفیٰ میں فراق بھی عطا ہے اور وصال بھی -

    حضور سے محبّت کرنے والے حضور کی امت کے ہر فرد سے محبّت کرتے ہیں -

    امت کی فلاح کی دعائیں مانگتے ہیں -

    حضور کی کوچہ کی گدائی کو اپنے لئے تاج شاہی سمجھتے ہیں -

    حضور کے ارشاد کو حرف آخر سمجھتے ہیں -

    حضور کے طالب اس کائنات کو آئینہ جمال مصطفےٰ سمجھتے ہیں -

    اور جمال مصطفےٰ کو پرتو ، انوار کبریا سمجھتے ہیں -

    از واصف علی واصف کرن کرن سورج
     
  13. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    مرد کی ذات ایک سمندر سے مشابہ ہے - اس میں پرانے پانی بھی رستے بستے ہیں اور نئے دریا بھی آ کر گلے ملتے ہیں -

    سمندر سے پرانی وفا اور نیا پیار علیحدہ نہیں کیا جا سکتا - وہ ان دونوں کے لئے کٹ مرے گا -

    لیکن عورت اس جھیل کی مانند ہے جس کا ہر چشمہ اس کے اندر سے ہی نکلتا ہے - ایسے میں جب کہ جھیل کی زندگی اور ہے -

    اور سمندر اور طرح سے رہتا ہے -

    ان دونوں کا ہمیشہ یکجا رہنا کس قدر مشکل ہے -

    مچھلی اور ابابیل کے سنجوگ کی طرح -

    از بانو قدسیہ امر بیل صفحہ ٧
     
  14. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات



    مرد : میں نے آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے ؟
    عورت : ضرور دیکھا ہوگا ، میں پہلے پاگل خانے میں نرس تھی -

    مرد : میری آپ سے پہلے بھی کہیں ملاقات ہو چکی ہے ؟
    عورت : اس لئے اس دن سے میں نے وہاں جانا چھوڑ دیا ہے -

    مرد : کیا آپ کی برابر والی نشست خالی ہے ؟
    عورت : جی ہاں ، اور یہ بھی خالی ہو جائے گی اگر تم یہاں بیٹھ گئے -

    مرد : میں خود کو تمہارے سپرد کرنا چاہتا ہوں -
    عورت : معاف کیجئے ، میں سستی چیزیں پسند نہیں کرتی -

    مرد : میں کسی عورت کو کس طرح سے خوش کر سکتا ہوں ؟
    عورت : اسے اکیلا چھوڑ کر -

    مرد : تم کہو تو میں تمہاری خاطر دنیا کے آخری سرے تک جانے کو تیار ہوں -
    عورت : بالکل چلے جاؤ ، مگر شرط یہ ہے کہ وہاں سے پھر واپس مت آنا -
     
  15. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    میرا دوست " ف " کہتا ہے محبّت بڑا بے زبان جذبہ ہے ، یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں -

    " ف " کہتا ہے میں موٹر سائکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کیساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں -

    اگر موٹر سائیکل کے پیچی بیٹھی خاتون کے بجائے چلانے والے شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی " اہل خانہ " ہے -

    اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں " اہل کھانا " ہے -

    موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے - خواتین منہ ایک طرف کے کے یوں بیٹھتی ہیں کہ جیسے ابھی اترنے والی ہوں - بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں بٹھائی ہوئی لگتی ہیں -

    کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوئی ہوتی ہیں - لگتا ہے سفر نہیں " suffer " کر رہی ہیں -

    چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں -

    بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں - جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے ، پتا نہیں چلتا اس کا منہ کس طرف ہے ؟

    نئے نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہو -

    جبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انھیں خود پر اعتبار نہیں -

    جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھے دیکھتا ہوں جس نے اپنا جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میری منہ سے بد دعا نکلتی ہے -

    مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلانے والے پر اعتماد کے بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے -

    کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آرہی ہوتی ہے -

    از ڈاکٹر یونس بٹ شیطانیاں
     
  16. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    اب تو مینا بازار ہر ہفتے لگنے لگا - ملک کے مختلف حصوں سے خواتین آرائشی سامان خریدنے کے بہانے آتیں ، اپنی دختران وغیرہ کو بھی ساتھ لاتیں -

    نجانے کس نے یہ خبر اڑا دی تھی کہ خدانخواستہ ہم ایک اور شادی کرینگے - یا برخوردار علی قلی خان کی منگنی کرائینگے -
    لیکن ہم خواتین سے دور ہی رہتے - برخوردار علی قلی خان کو بھی دور دور رکھتے -

    ہم شادی برائے شادی کے ہر گز قائل نہیں ہیں -

    خواتین سے دور رہنے کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ ان کے قریب رہ کر ہمیں دیدے مٹکانے ، ہاتھ نچانے اور انگلی سے ناک چھو کر بات کرنے کی عادت پڑ گئی تھی -

    دوران گفتگو ہمارے منہ سے غیر شعوری طور پر اف ، اوئی الله ، توبہ ، ہائے ، نگوڑا جیسے کلمات بھی نکل جاتے ، جس سے بعد میں پشیمانی ہوتی -

    ہم زیورات ، کپڑوں ، اور ساس بہو کے قضیوں میں بھی دلچسپی لینے لگے تھے -
    ذرا ذرا سی بات پر جھنجھلا اٹھتے -
    بات بات پر لڑنے کو تیار ہو جاتے -

    چنانچہ جب کسی خاتون نے ہم سے مینا بازار میں حملہ آوری کی وجہ پوچھی تو ، ہم نے پہلے تو بھرے بازار میں اسے کوسنے دیے کہ اگر ہم نہ آتے تو کوئی اور آجاتا -

    از شفیق الرحمن مزید حماقتیں صفحہ 42
     
  17. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    ایک بچے کے پیدا ہونے اور پروان چڑھنے میں صدیوں کی محنت و تجربہ صرف ہوتا ہے -

    انسان کی زندگی قائم رکھنے کے لیے ، الله کریم نے چاند ، سورج ، ستارے ، ہوا ، مٹی ، اور پانی پیدا فرما رکھا ہے -

    چرند ، پرند ، نباتات و جمادات انسانی زندگی کی خدمت کے لیے منتظر رہتے ہیں -

    الله تعالیٰ کیسے کیسے ، دنیا کو رزق پہنچاتا ہے ، حیران ہو کر دیکھنے والی بات ہے -

    پتھر کے اندر چھپے ہوئی کیڑے کو بھی رزق مہیا کرتا ہے -

    اگر کوئی شخص مخلوق کی تباہی مانگے تو الله کو کیسے پسند ہو سکتا ہے - مخلوق کی بہتری مانگنے والے الله کو پسند ہیں -

    نوح علیہ السلام نے اپنی امت کے لیے پانی کا عذاب مانگا - ان کا اپنا بیٹا بھی اسی تباہی کی نذر کر دیا گیا -

    الله کریم کیسے پسند فرماتے کہ تباہی مانگنے والوں کو احساس ہی نہ ہو کہ دوسروں کے بیٹوں کے لیے تباہی کیسے مانگتے ہیں -

    از واصف علی واصف کرن کرن سورج صفحہ ١٢٩
     
  18. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    باز اور شکروں کی موجودگی میں چڑیا کے بچے پرورش پاتے رہتے ہیں - آندھیاں سب چراغ نہیں بجھا سکتیں -

    شیر دھاڑتے رہتے ہیں اور ہرن کے بچے کلیلیں بھرتے رہتے ہیں -

    یہ سب اسی مالک کے کام ہیں -

    اس کی پیدا کردہ مخلوق ، اپنے اپنے مقرر شدہ طرز عمل سے گزرتی ہی رہتی ہے -

    فرعون نے سب بچے ہلاک کر دیے ، مگر وہ بچہ بچ گیا ، یہ سب قدرت کے کھیل ہیں -

    زمانہ ترقی کر گیا ، مگر مکھی ، مچھر ، اور چوہے اب بھی پیدا ہوتے ہیں -

    جراثیم کش دوائیں نئے جراثیم پیدا کرتی ہیں -

    طب مشرق و مغرب میں بڑی ترقی ہوئی ہے ، بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے -

    انسان کل بھی دکھی تھا ، آج بھی سکھی نہیں ، علاج خالق کے قرب میں ہے لوگ کیوں نہیں سمجھتے -

    از واصف علی وصف کرن کرن سورج
     
  19. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    ایک دن ایک اداکارہ نے مجھ سے پوچھا " اس دنیا کی رنگا رنگی اور خوبصورتی کس کی وجود سے ہے ؟ "

    یہ سوال کر کے وہ جواب بن کر سامنے بیٹھ گئی ، لیکن جب میں نے کہا " شیطان کے دم قدم سے "

    تو اس نے سر سے لے کر پاؤں تک مجھے یوں دیکھا جیسے میں نے کہ دیا ہو " میری وجہ سے - "

    شیطان سے میرا پہلی بار باقاعدہ تعارف اس دن ہوا جب میری ملاقات اپنے گاؤں کے مولوی صاحب سے ہوئی ، میں نے ان کی کسی بات پر اختلاف کیا تو انھوں نے میرے والد صاحب سے کہا " آپ کا لڑکا بڑا شیطان ہوگیا ہے - "

    انھوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ اس دنیا میں پہلی بار اختلاف رائے شیطان ہی نے کیا - یوں وہ اس دنیا میں جمہوریت کا بانی ہے -

    شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں -

    ہر آدمی شیطان سے پناہ مانگتا ہے اور کئی لوگوں کو وہ پناہ دے بھی دیتا ہے -

    شیطان اور فرشتے میں یہ فرق ہے کہ شیطان بننے کے لئے پہلے فرشتہ ہونا ضروری ہے -

    جہاں تک شیطان کو آدم کو سجدہ نہ کرنے کا تعلق ہے ، وہ سب اس کا پبلسٹی سٹنٹ تھا ، جس کی وجہ سے اسے شہرت ملی ، کہ جہاں جہاں رحمان کا ذکر آتا ہے وہاں اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے -

    ورنہ اس آدم کو تو وہ سو سو سجدے کرنے کے لئے آج بھی تیار ہے -

    میں شیطان سے کبھی نہیں گھبرایا لیکن برا آدمی دیکھ کر ہی ڈر جاتا ہوں کیونکہ شیطان برا فرشتہ ہے برا انسان نہیں -

    از ڈاکٹر یونس بٹ شیطانیاں
     
  20. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    ہمارے ہاں چونکہ جیل میں چھوٹے لوگوں کو "صعوبتیں" اور بڑے لوگوں کو "سہولتیں" حاصل ہوتی ہیں، لہٰذا اکثر بڑے لوگوں کے لئے جیل "جسٹ فار اے چینج" اور چھوٹے لوگوں کے لئے "جسٹ فار اے چیلنج" کے مترادف ہوتی ہے۔ بڑے لوگ جب جیل میں ہوتے ہیں تو باقاعدہ سے وہ کام شروع کر دیتے ہیں، جنہیں کرنے کی انہیں جیل سے باہر فُرصت نہیں ملتی، مثلآ! داڑھی رکھ لینا، پانچ وقت نماز پڑھنا، تین وقتی مطالعہ اور ہمہ وقت کتاب لکھنا وغیرہ وغیرہ۔ بقول انکل سرگم! جیل ایک ایسی "بے ادب" جگہ ہے، جہاں بڑا بڑا ادب تخلیق ہوتا ہے۔ بڑے لوگ جیل سے باہر بڑے "بے ادب" ہو جاتے ہیں، جیل میں پہنچتے ہی "با ادب" ہو کر "ادب" تخلیق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بڑے لوگوں کو اکثر دوسری چیزوں کے بارے میں "لگ پتہ" جانے کے علاوہ اپنے ملک کے بڑے بڑے دانشوروں، شاعروں، ادیبوں کے بارے میں بھی پتہ چل جاتا ہے کہ "ہُو اِز ہُو" یعنی اِس جیل میں کون کون رہ چکا ہے؟. چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے لئے بہترین "درسگاہ" اور دانشوروں کے لئے بہترین "ادب گاہ" جیل ہی ہے۔ بقول انکل سرگم! معاشرتی بُرائی، طنز و مزاح کی جڑ ہے یعنی معاشرے میں جتنی گُھٹن ہو گی اُتنا ہی طنز و مزاح کے لئے مواد پیدا ہوتا ہے۔ فیض کی شاعری ہو، بھٹو کی آپ بیتی، جاوید ہاشمی یا احمد ندیم قاسمی کی "جیل بیتی" "جیلوی ادب" ہمیشہ معاشرے میں نہ صرف پاپولر رہا ہے بلکہ اس سے "مقیّد ادب" کو نکھار بھی ملتا ہے۔ بونگے کا اصرار ہے کہ جس طرح ایک اچھا ادب اور اچھا ٹی وی ڈرامہ تخلیق کرنے پر ادیب یا ٹی وی پروڈیوسر کا "ایوارڈ" دیا جاتا ہے، اسی طرح بُرا ادب اور گھٹیا ڈرامہ پروڈیوس کرنے پر ادیب یا پروڈیوسر کو "سزا" بھی ملنی چاہیے۔ ماسی مصیبتے کو ڈر ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو جیلوں میں ٹی وی پروڈیوسروں کے "دھرنے" کی جگہ بھی نہیں رہے گی۔

    فاروق قیصر کے کالم "پُتلی تماشہ" سے اقتباس
     
  21. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    زندگی میں جن چیزوں کو ایک عورت کبھی سمجھ نہیں پاتی اس میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مرد جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہو، آپ سے چاند ستارے توڑ لانے کے وعدے کرتا ہو، وہ اچانک کسی اور کی محبت میں گرفتار کیسے ہو جاتا ہے....... کیسے ہو سکتا ہے؟ اخلاقیات نام کے ڈھیر میں سے کوئی ایک بھی اس کے لیے رکاوٹ کیوں نہیں بنتی۔

    (اقتباس: عمیرہ احمد کے ناول "عکس" سے)
     
  22. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    اب لوگ فارغ وقت میں محبّت کرتے ہیں جیسے کوئی اداکار اسٹیج پر جانے سے پہلے ماسک پہن لیتا ہے

    اور اپنا کردار ادا کرنے کے بعد ڈریسسنگ روم میں آتے ہی ماسک اتار کر اپنے گھر کی راہ لیتا ہے-

    محبّت کے لئے غیر معمولی صورت حال میں ایک ہونا پڑتا ہے دوسرے کے اندر جگہ چاہیے ہوتی ہے مگر

    آجکل لوگ دنیا کی مصلحتوں اور دولت کے انبار سے اس قدر بھر گئے ہیں کے ان اندر محبّت کے لئے جگہ بچی ہی

    نہیں اور نہ ہی ان کے پاس وقت ہے-

    محبّت تو اجلی روح میں بےدھڑک رہتی ہے ایماندار دل کی دھڑکنوں میں، اونچی چھتوں والے خالی چرچ کی دیوار میں،

    سولی پے ٹنگی مسیحا کی شبیہ کے مقدس سناٹے میں مہکتی ہے - گھنگھور خاموشی میں پل پل بھیگتی ہے - بے ریا آنکھوں میں

    جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی ہے, شفاف سانسوں میں دریا کی طرح بہتی ہے-

    مظہر السلام کے ناول محبّت: مردہ پھولوں کی سمفنی سے اقتباس
     
  23. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل میں سوائے محبوب کے یعنی خیال باری تعالیٰ کے اور کوئی خیال نہ آئے -

    لیکن خیال آتا رہتا ہے -

    وہ پریشان ہوتا ہے -

    روتا ہے ، دعائیں مانگتا ہے ، اور پھر گھبرا جاتا ہے -

    لیکن اس کو یہ معلوم نہیں کہ قلب کی حالت شارع عام کی سی ہے ، اس پر سے بادشاہ بھی گزرتے ہیں اور چوہڑے چمار بھی -

    بلکہ بعض اوقات تو ایسے ہوتا ہے کہ کسی کم ذات اور میلے ٹھیلے کے گزرنے کی وجہ سے بادشاہ کی سواری روک لی جاتی ہے -

    اسی طرح قلب کی شاہراہ پر شاہی سواری کے ساتھ ساتھ ایرے غیرے بھی چلتے ہیں -

    ہجوم وساوس سے گھبرانا نہیں چاہئے ، بلکہ ذکر کو جاری رکھنا چاہیے -
    اس سے خیالات از خود رفع ہو جاتے ہیں -

    از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٦١١
     
  24. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    حضرت شیخ اکبر نے فرمایا ! نئے خیال کے لوگ اسباب پر کچھ اس طرح سے تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں کہ انھوں نے مسبب کو چھوڑ ہی دیا ہے -

    فزکس کے اصولوں اور آثار کو لازم سمجھ کر تصرفات حق تعالیٰ کے منکر ہو گئے ہیں -

    وہ کہتے ہیں کہ جب آگ کا کام جلانا ہے تو وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے کس طرح گلزار ہو سکتی تھی -

    اس کی مثال ایسے ہی ہے ، گاڑی روکنے کے لیے سرخ جھنڈی دکھلائی جاتی ہے -

    ایک نادان بار بار اس کو دیکھ کر اگر یہ سمجھنے لگے کہ اس جھنڈی میں ایسا کوئی کمال ہے ، جس سے گاڑی رک جاتی ہے تو اس سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہے -

    اس پگلے کو کون سمجھائے اصل روکنے والا ڈرائیور ہے ، سرخ جھنڈی نہیں -

    یہ جھنڈی تو محض علامت ہے - اس میں کوئی اثر ذاتی نہیں -

    از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٦٠٩
     
  25. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    حضرت شیخ اکبر کا ارشاد ہے کہ اعمال اور نوافل تو لوگ کثرت سے اختیار کر لیتے ہیں ، کیونکہ یہ ایک وجودی شے ہے -

    دوسرے لوگ بھی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں - اس لئے نفس کو اس میں بڑا مزہ ملتا ہے -

    اس میں طالب جاہ کے مواقع بھی ملتے ہیں -

    لیکن ایسے عمل جن میں گناہوں سے رک جانا ہوتا ہے وہ نفس پر بڑے گراں گزرتے ہیں -

    مثلاً جھوٹ ترک کرنا یا غیبت سے باز رہنا -

    چونکہ ایسے گناہوں کو ترک کرنے میں شہرت اور ناموری نہیں ہوتی اس لئے ان کی طرف کوئی التفات نہیں کرتا -

    احادیث میں اس کا اہتمام زیادہ آیا ہے اور اسے ورع کہتے ہیں -

    از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٦٠٨
     
  26. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    روحانی بیج صرف ان وجود میں نشو نما حاصل کر سکتے ہیں ، جو وجود آزاد ہوں -

    آزادی اور خودمختاری کے بغیر ان بیجوں کو قبول نہیں کیا جا سکتا -

    ہر شخص جو اپنی خواہشات اور اپنی ذات کا اسیر ہے ، ایک آزاد شخص نہیں ہے -

    جو آرزوؤں اور تمناؤں ، اور لذتوں اور راحتوں کے کشکول اٹھائے پھرتا ہے ، وہ بھکاری ہے بادشاہ نہیں ہے -

    آزاد نہیں قیدی ہے -

    اور قیدی کے وجود کے لئے جب بھی تیار ہوتا ہے قیدی کا لباس ہی ہوتا ہے - شاہی خلعت نہیں -

    اور محکوم اور مجبور آدمی ارفع لذت ( ہائر پلیزر ) سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا -

    از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٤٨٠
     
  27. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    ایک روز میں اور میرا ساتھی بہت بے چین ہوئے-

    اور ہمارے ساتھہ ایک ایسا واقعہ گزرا تھا، جو ھمارے ساتھہ نہیں گزرنا چاہیے تھا -

    کیوں کہ ہم اپنے "بھانویں" بہت اچھے آدمی تھے -

    لیکن ہم نے بابا جی سے پوچھا کہ سر یہ راز کھول کر ہمیں بتائیں ، ایسا کیوں ہوتا ہے ؟

    تو انہوں نے کہا ، دیکھو آپ لوگ جو ہیں ، الله کے حکم کے پابند ہیں - -

    احکام الہی کے پابند ہیں-

    آپ لوگوں نے ایک عجیب صورت حال اختیار کر لی ہے کہ آپ فعل الله پر تنقید کرنے لگ گئے ہیں-

    فعل الله کے ساتھہ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے -

    الله بادشاہوں کا بادشاہ ہے -

    شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے ، جو چاہے اس کی مرضی کرے -

    لیکن آپ صرف اس کے احکام تک رہیں اور فعل الله کے ساتھہ آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے

    زاویہ ١ احکام الہی ١٢٣ اشفاق احمد
     
  28. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    جب شاہ منصور کو سولی پر کھینچ دیا - جسم کو جلا دیا - خاکستر کو دریا ( دجلہ ) میں بہا دیا -

    تو دریا جوش میں آگیا -

    لوگوں نے امام محمد کو خبر دی -

    امام صاحب دجلہ کے کنارے آئے اور کہا !

    " منصور ہماری بات غور سے سن - ہم جانتے ہیں کہ تو طریقت میں سچا تھا ، لیکن ہمارا قلم بھی اگر خلاف شرع چلا ہو تو شہر غارت کر ورنہ تجھ سے کچھ نہ ہو سکے گا - "

    اسی وقت دریا کا جوش ٹھنڈا ہوگیا -

    از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٥٢٣
     
  29. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    رات پونم کی ہو یا اندھی اندھیری ..........
    لو حبس میں ہانپتی ہوئی . یا جاڑے خنکی میں کانپتی ہوئی -

    وہ شب فراق ہو یا شب وصال
    اماوس یا نو چندی کی ،
    شب زفاف ہو یا شب ماتم
    کہیں نہ کہیں کتے ضرور بھونکا کرتے ہیں -

    ان کی اپنی ایک لہر ہے
    دیکھنے والا سوچتا رہ جاتا ہے ..........
    کوئی آگے نہ کوئی پیچھے -

    چور نہ کوئی اجنبی ............. آخر انھیں تکلیف کیا ہے

    منہ اٹھائے ، سینے کا زور لگائے بھونکے ہی جا رہے ہیں .............

    یہ راز تو کوئی مخصوص کالا کتا ہی جانتا ہوگا ، یا کوئی کالے کتے ورگا کہ وو بالخصوص راتوں کو ہی کیوں بھوکتے ہیں ؟

    کیا دکھ دم ہے .............

    وہ کیا دیکھ یا سن رہے ہوتے ہیں
    بھونک بھونک کسی سے کیا کہ رہے ہیں ؟

    از بابا محمد یحییٰ خان کاجل کوٹھا صفحہ ٧٠
     
  30. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    مقصد کا حصول ۔۔۔ پروفیسر رفعت مظہر

    مقصد کا حصول

    آللّہ نے سوچنے سمجھنے کو دماغ دے کر نیکی اور بدی کے 2 راستے دکھا دئیے ۔

    ہاتھ پاؤں دئیے کام کاج کے لئے ، انسان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان نعمتوں کو بروئے کار لانے کی بجائے لنگڑا اور معزور بن کر نکموں کی طرح بیٹھا رہے کہ جو قسمت میں ہو گا مل جائے گا -

    اور بیٹھے بٹھائے آللّہ چھپڑ پھاڑ کر دے دے گا ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں :۔
    پائے داری چنوں کُی خود را تو لنگ
    دست داری چنوں کُی پنہاں تو چنگ
    خواجہ چوں بیلے بدستِ بندہ داد
    بے زباں معلوم شُد اُو را مراد

    ( تیرے پیر ہیں تو اپنے آپ کوتُو لنگڑا کیوں بناتا ہے ۔
    ؟تیرے ہاتھ ہیں پنجہ کو کیوں چھپاتا ہے۔؟
    آقا نے جب بیلچہ ہاتھ میں دے دیا
    اُس کا مقصد بغیر کہے معلوم ہو گیا )

    پس تو محنت کر کہ مقصد کا حصول بنا محنت کے حاصل نہیں ہوتا ۔ اُس کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی جَد و جُہد ضروری ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں