1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اقتباسات

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏30 اکتوبر 2011۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    کیا وجود انسانی اتنا ارزاں ہے کہ اس کو یوںہی ضائع ہونے دیا جائے ... جب انسان کا وجود تخلیق ہوتا ہے تو کن کن پردوں میں اور کہاں کہاں خدا اس کی حفاظت کرتا ہے... ہر جگہ اس کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے.

    کہاں سے خوراک اور کہاں سے سانسیں اس کو بہم پہنچاتا ہے...اور جب انسان باشعور ہوتا ہے تو خود ہی اپنے آپ کو مارنے کے درپے ہو جاتا ہے اس وقت خدا کیا کرے..

    وہ تو یہی سوچتا ہے کہ جب تم میرے پر انحصار کرتے تھے تو میں نے کس طرح تمہیں حفاظت سے رکھا. اب اپنی سوچوں اور خواہشات پر انحصار کرتے ہو تو کہاں بھٹکے چلے جاتے ہو...تم کیا بن گئے ہو ؟

    میں تو صرف یہی کہوں گی ..کہیں نہ دیکھو ... کسی کے بارے میں نہ سوچو..صرف اپنے اندر جھانکنے کی کوشش کرو... اگر نظر صحیح ہو گی اور زاویہ درست ہو گا تو اک جہاں نظر آے گا پوری طرح روشن اس خاکی جہاں سے ماوری...

    ویسا ہی جیسی تمہاری سوچ ہو گی...ایسا جیسا تم سمجھو گی سب سے مختلف..پھر پرت پے پرت کھلتا جائے گا...اسرار ظاہر ہوتے جائیں گے...یہاں تک کہ وجود ختم ہو جائے گا...

    ہر اک کی زندگی میں ایک بار دستک ضرور ہوتی ہے.... کبھی یونہی چلتے چلتے... کبھی ٹھوکر لگنے پر...کبھی کوئی بازی ہار کر..کبھی منہ کے بل گر کر اور کبھی سارا کچھ ہار کر..

    صرف اس دستک کو سمجھنے کی بات ہے...اس کے بعد ایسا سفر شروع ہو جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا...

    حاصل اور لا حاصل کے درمیان جنگ ختم ہو جاتی ہے... بس اک چپ سی لگ جاتی ہے... ایسی چپ جس میں نہ کوئی افسوس ہوتا ہے ، نہ پچھتاوا نہ دکھ ، بس اک شانتی سی ہوتی ہے....اقرار سا ہوتا ہے اور سکون بھی.."

    از قیصرہ حیات، ذات کا سفر، صفحہ نمبر 222
     
  2. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے۔ ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے۔ کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں۔ کھانے لگتے تو دروازہ بجتا۔

    ‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے۔ میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا؟

    کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے؟ پھر؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے۔ ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے. عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے۔ عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے۔ بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔

    اقتباس :ممتاز مفتی کی کتاب "تلاش" سے
     
  3. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    محبت سے دیکھو تو گلاب میں رنگ ملے گا ، خوشبو ملے گی -
    نفرت سے دیکھو تو خار آنکھوں میں کھٹکیں گے -

    از واصف علی واصف کرن کرن سورج صفحہ ٥٨
     
  4. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    جنت میں بھی یہ لوگ فساد مچائیں گے کہ یا اللہ وہ شخص جنت میں کیسے آیا ہے؟ اللہ کہے گا تیرے پاس آیا ہے۔ تو وہ کہے گا کہ ہم ایسی جنت میں نہیں رہیں گے۔ تو اللہ نے کہنا ہے کہ تُو دوزخ میں چلا جا۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں تو اُس سے راضی ہوں لیکن انسان نے ناراض ہو جانا ہے۔ کوئی شخص جو کسی انسان کے ساتھ رنجش رکھتا ہے وہ برباد ہو گیا۔ جنت کس کو کہتے ہیں؟ کسی انسان کے ساتھ عناد نہ رکھنا ہی جنت ہے۔ ہر ایک پر راضی رہنا، وہ جو چوری کرکے لے گیا اُس پر بھی راضی رہنا، جو مال لے گیا اُس پر بھی راضی رہنا۔ آپ جس سے نفرت رکھتے ہو ہو سکتا ہے وہ آدمی وہاں پر پہلے بیٹھا ہو تو پھر آپ کی جنت رہ جائے گی۔ آپ نے اللہ کریم سے کہنا ہے کہ اسے نکال تو اُس نے نکالنا نہیں ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ راضی رہنے کی کیفیت میں آجائیں اور جنت اسی کیفیت کا نام ہے اور جھگڑے کا نام دوزخ ہے۔ جو لوگ گھروں میں جھگڑے کرتے ہیں وہ توبہ کریں۔ میں کہتا ہوں نہ لڑا کرو، تو پھر پتہ ہے کیا کرتے ہیں؟ نفرت کی لڑائی کرتے ہیں۔ اور نفرت غصہ وغیرہ تو جنت والی کیفیت نہیں ہے۔ جنت کا معانی ہے معاف کرنا، معافی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    واصف علی واصف
     
  5. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے ، اور جس کو دانائی ملی بے شک اس کو بڑی نعمت ملی -

    اس نعمت کے کئی نام ہیں - اہل شہادت کو حکمت ملی تو جنوں کہلائی -

    اہل احسان کو ملی تو خیر کثیر کہلائی -

    اہل جمال تک پہنچی تو حسن بن گئی -

    یہ تینوں گروہ اس نقطے پر آ کر مل جاتے ہیں اور پھر یہ پہچان دشوار ہو جاتی ہے کہ کون کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے -

    اس منزل پر پہنچ کر تخصیص کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، کیونکہ صفت سب کی ایک ہی ہوتی ہے اگرچہ اظہار کی صورت مختلف ہوتی ہے -

    اس صفت کو صوفی نے تجلی کہا -

    اور شاعر نے عکس رخ یار -

    یہ عکس حضرت لوط کے حکم و علم اور طالوت کے علم و جسم میں نظر آتا ہے -

    یہ عکس حضرت داؤد اور حضرت سلیمان پر اس وقت پڑا جب وہ ایک کھیتی کا مقدمہ فیصل کرنے لگے -

    ترجمہ : ( اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے )

    یہی عکس بیت الرضوان کے وقت اس طرح جلوہ گر ہوا

    ترجمہ : ( خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھ پر ہے )

    خدا کا ہاتھ ، ہاتھ میں آجائے تو انسان اپنی ذات کے درجہ کمال تک پہنچ جاتا ہے - اس درجے تک پہنچے ہوئے لوگ مومن ہوتے ہیں -

    اور ان کا بیان اقبال نے یوں کیا ہے

    ہاتھ ہے الله کا ، بندہ مومن کا ہاتھ

    از مختار مسعود آواز دوست صفحہ ٥١
     
  6. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    دیے اور دل میں ایک قدر مشترک ہے .............. بجھ بھی جائیں تو دیر تک دھواں دیتے ہیں -

    ایسا آغاز اور کیسا انجام .................. اڑنے بھی نہ پائے کہ پکڑے گئے -

    وہ اندر ہی اندر ٹکرے ہو کر رہ گئی تھی -

    پہلی پہلی نفرت اور پہلا پہلا پیار بڑا ستاتے اور تنگ کرتے ہیں -

    از بابا یحییٰ خان کاجل کوٹھا صفحہ ٣٤
     
  7. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    مہا راجہ رنجیت سنگھ

    مہا راجہ رنجیت سنگھ پنجاب کے مہا راجہ تھے - اور ان کا نام رنجیت سنگھ تھا - اس لیے انھیں مہا راجہ رنجیت سنگھ کہتے ہیں -

    مہا راجہ رنجیت سنگھ کا انصاف مشہور ہے ، ویسے تو ہندوستان کے سبھی راجاؤں کا انصاف مشہور ہے لیکن یہ واقعی سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے -
    سزا دینے میں مجرم اور غیر مجرم کی تخصیص نہ برتتے تھے -

    جو شخص کوئی جرم نہ کرے وہ بھی پکڑا جاتا تھا - فرماتے تھے علاج سے پرہیز بہتر ہے -
    اس وقت اس شخص کو سزا نہ ملتی تو آگے چل کر ضرور کوئی جرم کرتا -

    بعد کے حکمرانوں نے انہی کی تقلید میں جرم نہ کرنے والے کو حفظ ما تقدم کے طور پر سزا دینے اور جیل بھجوانے کا اصول اختیار کیا -

    کبھی مجرم کو بھی سزا دیتے ہیں اگر وہ ہاتھ آجائے اور اس کا وکیل اچھا نہ ہو -

    از ابن انشاء (اردو کی آخری کتاب )
     
  8. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    بچوں کی کہانیوں میں مجھے جرأت اور قربانی کا نشان ملا -

    اور لڑکوں کی کتابوں سے مجھے حکمت اور خدمت کا پتا چلا -

    پہلے گروہ کے لوگ شہید کہلاتے ہیں اور اس دوسرے گروہ میں جو لوگ شامل ہیں انھیں محسنین کہا جاتا ہے -

    اہل شہادت اور اور اہل احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ شہید دوسروں کے لیے جان دیتا ہے - اور محسن دوسروں کے لیے زندہ رہتا ہے -

    ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی -

    ایک سے ممکن وجود میں آتا ہے اور دوسرے سے اس وجود کو توانائی ملتی ہے -

    ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ہے جو اس توانا وجود کو تابندگی بخشتا ہے -

    جو لوگ اس آخری گروہ میں شامل ہوتے ہیں انھیں اہل جمال کہتے ہیں -

    اہل جمال لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ یہ لوگ مسجد قرطبہ تعمیر بھی کرتے ہیں اور تحریر بھی -

    یہ الحکم کی طرح بادشاہ بھی ہو سکتے ہیں اور اقبال کی طرح درویش بھی -

    انھیں تخلیق حسن پر مامور کیا جاتا ہے -

    نثر ہو کہ شعر ، نقش ہو کہ نغمہ ، رنگ ہو کہ خشت و سنگ یہ خون جگر سے اسے یوں تمام کرتے ہیں کہ جو نظر ان کی تخلیق پر پڑتی ہے وہ روشن ہو جاتی ہے -

    ان کی اپنی ذات میں بھی ایک حسن ہوتا ہے جسے حسن سیرت کہتے ہیں -

    زندگی کو ایک گروہ نے ممکن بنایا دوسرے نے توانا اور تیسرے نے تابندہ -

    جہاں یہ تینوں گروہ موجود ہوں وہاں زندگی موت کی دسترس سے محفوظ ہو جاتی ہے ، اور جس ملک یا عہد کو یہ گروہ میسر نہ آئیں اسے موت سے پہلے بھی کئی بار مرنا پڑتا ہے -

    جس سرحد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ہے -

    جس آبادی میں اہل احسان نہ ہوں اسے خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے -

    جس تمدن کو اہل جمال کی خدمات حاصل نہ ہوں وہ خوشنما اور دیرپا نہیں ہوتا -

    از مختار مسعود آواز دوست صفحہ ٤٩
     
  9. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    جب وہ رشتے داروں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی آیتیں پڑھ کر تڑپ گئی تھی اور پوچھا تھا کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں،ان کے لئے کیا سزا بتائی گئی ہے؟
    " یتیموں سے پہلے قرابت داروں کا ذکر ہے محمل !"
    " میں اور میری ماں ان قرابت داروں کی جیسے خدمت کرتے ہیں، آپ سوچ بھی نہیں سکتیں."
    "تو اس خدمت کا کبھی ان کو احساس بھی دلایا؟"
    "اماں تو ہر وقت جتی رہتی ہیں،مگر میں ادھار رکھنے کی قائل نہیں ہوں. وہ ایک کہیں تو دس سناتی ہوں،ایک ایک آئٹم گنواتی ہوں جو بناؤں."
    اس نے فخر سے کہا اور پھر فرشتے کا سنجیدہ چہرہ دیکھا تو لگا کچھ غلط کہہ دیا ہے.
    "یعنی سب کیا کرایا ملیا میٹ کر دیتی ہو، یہ تو ان پے ظلم ہے."
    "ظلم؟.... میں ظلم کرتی ہوں ان پہ؟" وہ شاکڈ رہ گئی.

    "ظلم کی تعریف کیا ہوتی ہے؟ کسی کے حق میں کمی کرنا. ایک کی ایک سنانا برابر کا بدلہ ہے،مگر نو اوپر سنانا زیادتی ہے، اس کے حق میں کمی ہے."
    "وہ مجھے جو بول دیں اور میں آگے سے چپ کر جاؤں؟ ایک بھی نہ سناؤں؟" اس کا سر خود با خود نفی میں ہل گیا.

    " اس کو دکھ نہ دینا جس نے آپ کو دکھ دیا ہو، ان کو ان کے رویے کا احساس تک نہ دلانا. کچھ نہ بتانا. یہ معاف کرنا ہوتا ہے. تم معاف کر دیا کرو، صبر کیا کرو."
    " ساری زندگی صبر ہی تو کیا ہے میں نے."

    " وہ صبر نہیں ہوتا جو تم کرتی ہو. صبر وہ ہوتا ہے کہ اگر سر پہ بھاری پتھر بھی لگ جائے تو لبوں سے اف تک نہ نکلے. صبر وہ ہوتا ہے جو تمہاری ماں کرتی ہے."

    "اور احسان؟"
    "صبر اور معاف کرنے کے بعد ان کے برے رویے کے جواب میں بہت اچھا رویہ دو."

    "میں کیوں کروں یہ سب؟ وہ کیوں نہیں کرتے؟ رشتے داروں کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھنا چاہیے جیسا وہ ہمارے ساتھ رکھتے ہوں."

    "مگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم تو کہا کرتے تھے کہ بدلے کی صلہ رحمی کرنے والا صلح رحمی نہیں کرتا. محمل ! اس پہ تو آپ کو اجر ہی نہیں ملے گا. اجر تو تب ملے گا جب آپ برے کے جواب میں اچھا کریں. تم انھیں معاف کرو اور اپنا حق الله سے مانگو."

    از نمرہ احمد، مصحف، صفحہ نمبر 157
     
  10. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    بابا جی کہا کرتے تھے کہ دیکھ کیمرہ اپنے کیس میں زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ سارنگی یا ساز جو ہے وہ اپنی تھیلی یا غلاف میں زیادہ محفوظ ہوتی ہے۔ تلوار اپنی میان میں زیادہ بہتر ہے۔ اگر یہ چیزیں باہر آجائیں گی تو خدشہ اور خطرہ ہے کہ ان پر اس فضا کا اثر پڑے گا جس میں آپ نے انہیں کھول کر رکھا ہوا ہے۔ جونہی آپ کے اوپر ایسی کیفیت وارد ہو۔ ٹھیک ہے کنٹرول کرنا مشکل ہے میں کنٹرول کرنے کے لیے نہیں کہتا لیکن آپ کو یہ ضرور پتا لگنا چاہیے کہ یہ میرا case تھا اور میں اس سے اب باہر نکل چکا ہوں یا نکل چکی ہوں اور میرا اپنے وجود کے اندر رہنا بہت ضروری ہے۔

    بجلی کے تار جب تک اپنے خول میں رہتے ہیں اچھے ہوتے ہیں۔ خدمت کرتے ہیں، پنکھے چلاتے ہیں، ہوا دیتے ہیں، روشنی کرتے ہیں لیکن جب باہر ہوتے ہیں تو جان کا نقصان کرتے ہیں خرابی ہمیشہ پیدا ہوتی ہے جب انسان کو اپنی ذات پر اختیار نہیں رہتا اور وہ اپنے قلبوت سے باہر آجاتا ہے۔ جو شخص اپنی بے چینی کی کیفیت میں اپنے اوپر تھوڑا سا اختیار مضبوط رکھتا ہے، وہ زندگی میں ضرور کامیاب رہتا ہے اور اس کا مشکل وقت چلا جاتا ہے۔

    (از اشفاق احمد زاویہ 3)
     
  11. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    شاہ اورنگزیب عالمگیر بہت لائق بادشاہ تھا - دین اور دنیا دونوں پر نظر رکھتا تھا -

    اس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی ، اور نہ کسی بھائی کو زندہ چھوڑا -

    بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں موخرالذکر بات پر -

    حالانکہ یہ ضروری تھا ، اس کے سب بھائی نالائق تھے جیسے کہ ہر بادشاہ کے ہوتے ہیں -

    نالائق نہ ہوں تو خود پہل کر کے بادشاہ کو قتل نہ کر دیں -

    عالمگیر کی نیک نفسی کے ثبوت میں اتنا لکھنا کافی ہے کہ مغلوں میں یہ واحد بادشاہ ہے جو رحمتہ الله علیہ کہلاتا ہے -

    جتنی کتابیں اس کی صفائی میں لکھی گئیں ہیں کسی اور بادشاہ کی صفائی میں نہیں لکھی گئیں -

    شراب نہ پیتا تھا نہ پینے دیتے تھا -

    گانا نہ سنتا تھا نہ سننے دیتا تھا -

    تاریخوں میں آیا ہے کہ لوگوں نے ایک جنازہ تیار کیا اور لے چلے ، بادشاہ نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے ، لوگوں نے کہا موسیقی کا -

    عالمگیر رحمتہ الله علیہ نے کہا ، اس کو اتنا گہرا دفن کرنا کہ پھر نہ نکل سکے -

    کبھی کبھی پکا گانا سنتے ہوئے یا فلمی موسیقی پر سر دھنتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ کاش لوگوں نے اس دانشمند بادشاہ کی اس بات پر عمل کیا ہوتا یعنی ذرا زیادہ گہرا دفن کیا ہوتا -

    از ابن انشاء اردو کی آخری کتاب صفحہ ٣٤
     
  12. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سامنے اگر تاریکی ہو تو انسان پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے اور اگر پیچھے راستہ بند ملے تو دائیں طرف -
    اور اگر دائیں طرف کچھ نظر نہ آے تو بائیں طرف

    اور اگر چاروں طرف نظر نہ آئے تو پھر قدموں تلے دیکھو...

    زمین تو ہے ہی جس پر کھڑے ہو..

    اگر اس کو نا کافی پاؤ تو اوپر دیکھو آسمان کھلا پڑا ہے..

    راستے ہی راستے ہیں..

    اور پھر ہر لمحے رحمان کی نا شکری نہیں کرتے..

    زندگی کا مفہوم فنا میں نہیں بقا میں ہے..

    اگر سوچو غور کرو تو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اس نے نا حق ابلیس سے انسان کے لئے جنگ کیوں کی تھی اور اس کی برسوں کی عبادت، رفاقت اور قربت کو صرف ایک لمحے میں پس پشت کیوں ڈال دیا تھا...

    صرف اور صرف انسان کے لئے..

    کیوں کہ خدا نے انسان کو رفعت اور وہ عالی مرتبہ عطا کرنا تھا جس پر ابلیس صدیوں کی عبادت کے باوجود نہ پہنچ سکا تھا کیونکہ اس کی ذات کا وہ خاصہ نہیں تھا...

    اور انسان کی ذات کو اس نے جس شاہکارانہ طریقے سے تخلیق کیا ہے. اگر انسان سوچنے بیٹھے تو ساری زندگی سجدے سے جبیں نہ اٹھائے..

    اس کی بیشمار رعنایئوں اور نعمتوں کا صلہ ہم بار بار یہ کہہ کر لوٹا رہے ہیں کہ ہمیں یہ زندگی ،
    یہ عنایت یہ تحفہ نہیں چاہیے.

    کیوں کہ ہم اتنے کم ظرف .ناتواں اور کمزور ہیں.

    کیا ہم اس کی عنایتوں کے شکر ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں.

    ہم میں کس چیز کی کمی ہے...ا

    گر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے حوصلہ اور مثبت سوچ ...

    اقبال نے بڑے خوبصورت انداز میں فرمایا ہے.

    "مثل حیواں، کھانے اور سونے سے آخر فائدہ
    زندگی کیا، جب نہ ہو جینے کا محکم قاعدہ
    آج بھی روز خودی سے خود کو اگر محکم کرے
    قوت تسخیر سے تو کل جہاں برہم کرے
    اگر فنا چاہیے تو اپنی ذات سے آزاد ہو
    اگر بقا چاہیے تو اپنی ذات میں آباد ہو "

    از قیصرہ حیات، ذات کا سفر، صفحہ نمبر 89
     
  13. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں ، کیا فتنہ گر قد و گیسو تھی !

    پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہ انیشیٹو ہمارے ہاتھ سے نکل کر فریق مخالف کے پاس چلا گیا ہے - یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر ہے سے آیا !

    " تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر ؟ "
    اب اس شوخ سوال کا جواب تو یہ تھا کہ تو آپ ہیں ہماری نئی نویلی شاگرد ؟

    لیکن سچی بات ہے حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لیے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بیجان سا جواب نکلا :
    " جی ہاں ، نیا تو ہوں ، ٹیوٹر نہیں ہوں - مولوی صاحب کی جگہ آیا ہوں - "

    اس سے آپ کی ٹیوٹری پر کیا فرق پڑتا ہے ؟
    یہی کہ عارضی ہوں -

    تو عارضی ٹیوٹر صاحب - ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلا دیں -
    رضیہ کا اشارہ دیوان غالب کی طرف تھا - میں نے کسی قدر متعجب ہو کر پوچھا :

    " آپ دیوان غالب کو مصیبت کہتی ہیں ؟ "
    " جی ہاں ، اور خود غالب کو بھی -"

    " میں پوچھ سکتا ہوں غالب پر یہ عتاب کیوں ؟"
    " آپ ذرا آسان اردو بولیے - عتاب کسے کہتے ہیں ؟ "
    " عتاب غصے کو کہتے ہیں - "

    " غصہ ؟ ہاں غصہ اس لئے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے -
    پھر خدا جانے ، پورا دیوان کیوں لکھ مارا -
    " اس لئے کہ لوگ پڑھ کر لذت و سرور حاصل کریں - "

    " نہیں جناب ، اس لئے کہ ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں - "

    بیٹا رضیہ - آپ کی پڑھائی کا وقت ختم ہوا اب آؤ باہر چلیں -

    ہم دوسرے روز کپڑے بدل کر پڑھانے گئے - سبق تو دوسرے شعر سے بہت آگے نہ بڑھا لیکن باہمی مفاہمت میں خاصی پیش رفت ہوئی -
    تیسرے روز مولوی صاحب آ گئے اور ہمیں دوستوں نے آ گھیرا کہ دو روزہ ٹیوشن کی روداد سناؤ -
    ہم نے روداد سنائی تو دوست ہماری خوبیء قسمت پر جھوم اٹھے -

    میں روداد سنا چکا تو ہمارے دوست لطیف نے کہا

    " میرا ستاروں کا علم کہتا ہے کہ اگلے سال ہمارے اس خوش نصیب ہم جماعت کی شادی ہو جائے گی - ذرا بتاؤ تو سہی ، اس کی دلہن کا کیا نام ہوگا ؟ "
    ساری جماعت نے یک زبان ہو کر کہا

    " رضیہ "

    اس پر بے پناہ تالیاں بجیں - لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور اودھم مچایا -

    قارئیں - کیا آپ کو بھی میری ہم جماعتوں سے اتفاق ہے ؟ سنیے اگلے سال رضیہ سچ مچ دلہن تو بنی ، لیکن ! ہماری نہیں مولوی عبدالرحمان کی -

    حادثہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کی بعد مولوی عبد الرحمان اور ہم سی ایس پی کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور مولوی صاحب یہاں بھی ہمیں دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے -

    اس کامیابی کے بعد ان کے لئے رضیہ سے شادی میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور مولانا نے یہ رکاوٹ برضا و رغبت ، نائی کے ہاتھوں دور کرا دی -

    برضا و رغبت اس لئے کہ بقول مولوی صاحب ، ایک دن انھوں نے کانی آنکھ سے رضیہ کو دیکھ لیا تھا اور پھر دل میں عہد کر لیا تھا کہ یہ داڑھی کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے ہیں -

    ادھر بیرسٹر صاحب تو مولوی عبدالرحمان کے نام کے ساتھ کے ایس پی دیکھ کر داڑھی کی قربانی پر بھی مصر نہ تھے -

    رہے ہم تو جونہی مولوی صاحب اپنی دلہن کو لے کر ہنی مون پر روانہ ہوئے ، ہم دیوان غالب کھول کر ایک لاجواب غزل الاپنے لگے :

    یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

    از محمد خان (بزم آرائیاں )
     
  14. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سفارت کاری کے فن میں چینیوں کا اپنا ہی ایک خاص اور نرالا انداز ہے -

    وہ اپنے دوستوں پر بھی اپنی رائے یا مشورہ یا نصیحت خواہ مخواہ یا برملا ٹھونسنے کے عادی نہیں -

    لیکن اشاروں کنایوں میں اپنا عندیہ نہایت خوش اسلوبی سے واشگاف طور پر ظاہر کر دینے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں -

    میرا اندازہ ہے کہ رات کے ڈھائی بجے مجھے جگا کر غالباً وہ اپنے مخصوص انداز میں یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ جنگ کے یہی ابتدائی گھنٹے انتہائی اہم ہیں ،
    ہندوستانی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے ہیں ، اور چینیوں کے خوف سے سر پر پاؤں رکھ کر ہر محاظ سے بھاگ رہی ہے -

    اگر پاکستان اس موقع سے کوئی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ، تو ہر گز وقت ضائع نہ کریں -

    میں نے فوراً لباس تبدیل کیا اور اپنی کار نکال کر تیز رفتاری سے ایوان صدر جا پہنچا -
    اس وقت کوئی تین بجے کا عمل تھا -

    کسی قدر تگ و دو کے بعد مجھے صدر ایوب کی خواب گاہ تک رسائی ہو گئی -

    میں نے انہین چینی کےساتھ اپنی گفتگو تفصیلاً سنائی ، تو انہوں نے بے ساختہ کہا -

    " یہ کوئی غیر متوقعہ خبر ہر گز نہیں - لیکن اتنی رات گئے تمھیں صرف یہ خبر سنانے کے لیے آنے سے اس کا اصلی مقصد کیا تھا ؟ "

    میں نے اپنا قیاس بیان کیا شاید اس کا مقصد یہ ہو کہ ہم ان لمحات کو اپنے مقصد کے لیے کسی فائدہ مندی کے لیے استعمال میں لے آئیں -

    " مصلاً ؟ " صدر ایوب نے پوچھا

    " مصلاً " میں نے اناڑیوں کی طرح تجویز پیش کی -

    اسی لمحے اگر ہماری افواج کی نقل و حرکت بھی مقبوضہ کشمیر کی سرحدوں کے خاص خاص مقامات کی جانب شروع ہو جائے ، تو .......................

    صدر ایوب نے تند و تیز لہجے میں میری بات کاٹ کر کہا -

    " تم سویلین لوگ فوجی نقل و حرکت کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہو - جاؤ اب تم بھی جا کر آرام کرو - مجھے بھی نیند آ رہی ہے - "

    آج تک میرا یہی خیال ہے کہ اس رات صدر ایوب نے اپنی زندگی اور صدارت کا ایک اہم ترین سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا -

    اگر ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر نیند کا غبارنہ چھایا ہوتا - اور ان کے کردار میں شیوہ دیوانگی اور شیوہ مردانگی کا کچھ امتزاج بھی موجزاں ہوتا ، تو غالباً اس روز ہماری تاریخ کا دھارا ایک نیا رخ اختیار کر سکتا تھا -

    از قدرت الله شہاب ( شہاب نامہ ) صفحہ ٧٨٤
     
  15. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    آپ نے کبھی کیلا دیکھا ہے - کھایا ہے - کھایا نہیں تو کبھی اس پر پھسلے ضرور ہونگے -

    پھسلتا بھی آدمی اچھی چیز پر ہے -

    ہماری مثال لیجئے -

    جہاں اچھی صورت دیکھی ، بری طرح اس پر پھسل گئے -

    جو اچھی صورت پر نہیں پھسلتے ، وہ پیسے پر پھسل جاتے ہیں -

    ظاہر ہے پیسہ بھی اچھی چیز ہے ،

    بلکہ انصاف یہ ہے کہ اچھی صورت سے زیادہ اچھی چیز ہے -

    کیونکہ پیسہ ہے تو اچھی صورت بھی اس سے حاصل کر سکتے ہیں جب کہ اچھی صورت بعض اوقات پیسے کے نقصان کی وجہ بن جاتی ہے -

    از ابن انشاء کیلے دکیلے کا خدا حافظ
     
  16. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    "سر کیا آپ Darwin کی Theory of Evolution سے متفق ہیں؟

    اگر ایسا ہے تو انسان کے پھر اسی شکل میں لوٹنے کے چانسز ہیں کیوں کہ ہر چیز تو اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے."

    کلاس میں ایک نیا سٹوڈنٹ حسن آیا تھا . اس نے سوال کیا.

    "یہ کچھ سائنس دانوں کے خیالات ہیں.

    کیوں کہ ان کےنزدیک روح ارتقائی ماہیت جماداتی ، نباتاتی اور حیوانی مراحل سے گزرتی ہوئی بلآخر انسان کے شعور ،جذبے اور خواہش میں اپنا ظہور کرتی ہے اور ارتقا کی یہ منزل ختم نہیں ہوتی بلکہ چلتی رہتی ہے. یہ عمل انسان تک آ کر رک نہیں جاتا بلکہ اس سے آگے اعلیٰ تر مخلوق کا امکان موجود رہتا ہے.

    نفس بشری ترقی کی منزل طے کرتا ہوا ملائکہ کی صف میں جگہ پاتا ہے.

    لکن ہمارا اصل موضوع کہ واقعی انسان بندر تھا.

    میں بذات خود اس سے متفق نہیں. صرف اس بنا پر کہ انسان اور بندر میں ظاہراً کچھ مشاہبت پائی جاتی ہے.

    اس کا ماضی بندر سے جوڑنا درست نہیں.

    اگر دونوں پیدائش سے لے کر ترقی کی منازل تک کے تمام مراحل کا بغور جائزہ لیا جائے تو فرق خود ہی سامنے آجاتا ہے.

    پیدائش کے وقت انسان بہت ہی کمزور و نحیف ہوتا ہے کہ نہ بیٹھ سکتا ہے نہ کھڑا ہو سکتا ہے نہ اس کو خوراک کی تمیز ہوتی ہے.

    نہ آگ ، ہوا، پانی .... کسی چیز میں وہ امتیاز نہیں کر سکتا نہ اس کو نفع کا پتا ہوتا ہے اور نہ ہی نقصان کا.

    اور بعد میں جیسے جیسے شعور اور ادراک کی منازل طے کرتا ہے تو اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.

    اور وہ ہر وقت کائنات کو تسخیر کرنا چاہتا ہے.

    اس کے برعکس بندرکا بچہ دوسرے حیوانات کے بچوں کی طرح ایک مخصوص قوت سے پیدا ہوتا ہے.

    جس کی وجہ سے وہ کافی حرکت کرنے پر قادر ہوتا ہے.

    وہ ماں کی خوراک میں بھی مدد کرتا ہے.

    نفع و نقصان سے بھی با خبر ہوتا ہے.

    اور جب کہ انسان کا بچہ ابھی بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے، بندر کا بچہ اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑیں لگاتا ہے.

    اگر دونوں کا اصل ایک ہی ہے تو انسان کا بچہ پیدائش کے وقت عقل اور قوت میں اس سے کم تر کیوں ہے.

    اور پھر انسان ترقی کر کے اتنے عروج پر پھنچ گیا مگر بندر وہیں کا وہیں رہ گیا.

    اور پھر قرآن کا دعوا ہے کہ " ہم نے انسان کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا اور ہم نے آدم کو عزت و تکریم دی"
    اس مفروضے کو غلط ثابت کرتا ہے.

    اور دوسرا یہ کہ اس کا بلڈ گروپ انسان کے بلڈ گروپ سے کسی بھی دور میں میچ نہیں کیا.

    اب صرف ظاہری مماثلت کی بنا پر دونوں کو ایک دوسرے کی بنیاد قرار دینا انتہائی غلط ہے.

    یہ دنیا تو عجائب خانہ ہے ہر دم حیران کرنے والی چیزیں ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.

    اب کئی ایسے درخت ہیں.

    کسی پر روٹی کی صورت میں پھل لگتا ہے ،کسی میں سے دودھ نکلتا ہے کسی سے لیموں کا رس.

    ہند اور افریقہ میں ایسا درخت ہے کہ اس کے پھل کے اندر کا گودا قوم اور ذائقے میں بلکل بالائی کی طرح ہوتا ہے.

    دریائے گنگا کے کنارے ایک ایسی گھاس دیکھی گئی ہے جس کی پتیاں اسی طرح ہر منٹ میں ساٹھ مرتبہ حرکت کرتی ہیں جیسے کہ نہ بند ہونے والی گھڑی ہو.

    اب کس کو کس کی بنیاد کہا جائے اور کس کو کس سے منسوب کیا جائے."

    از قیصرا حیات. ذات کا سفر، صفحہ نمبر 51
     
  17. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    ایک ساس نے اپنے خاوند سے شرط لگائی کہ اس کے تینوں داماد اس سے بہت پیار کرتے ہیں.
    تجربے کے طور پر اس نے ایک روز بڑے داماد کی موجودگی میں نیند کی گولیاں کھا لیں داماد نے فوری طور پر ساس کو ہسپتال پہنچایا اور وہ بچ گئی.
    ساس نے خوش ہو کر داماد کو ایک لاکھ روپے انعام دیا.
    اگلی بار دوسرے داماد کی موجودگی میں گولیاں کھا لیں. اس نے فوری طور پر ساس کو ہسپتال پہنچا کر بچا لیا. ساس نے خوش ہو کر اسے بھی ایک لاکھ روپے انعام دیا.
    تیسرے اور چھوٹے داماد کی باری ائی تو ساس نے پھر گولیاں کھائیں اور فرش پر گر کر تڑپنے لگی.
    داماد نے ساس کو اٹھانے کی بجاے ٹی وی آن کر لیا اور اطیمنان سے چیو نگم چباتا رہا .
    نتیجہ یہ نکلا کہ دس پندرہ منٹ تڑپنے کے بعد ساس دم توڑ گئی...

    اس داماد کو سسر صاحب نے دو لاکھ روپے انعام دیا...!!

    از گل نوخیز اختر، کتاب: شرارتی، صفحہ نمبر 40
     
  18. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    صدر ایوب کی والدہ محترمہ کو ان سے تین شکایات تھیں -

    اک شکایت یہ تھی پریذیڈنٹ ہاؤس کی موٹر کاریں جب کسی کام پر گاؤں میں آتی ہیں تو یہاں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر وہ بڑی تیز رفتاری سے چلتی ہیں جے سے لوگوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوتا ہے -

    دوسری شکایت یہ تھی کہ گاؤں کے کئی لڑکے کالج کی تعلیم ختم کر کے گھروں میں بیکار بیٹھے ہیں -

    ان کو نوکری کیوں نہیں ملتی ؟

    اگر نوکری نہیں ملنی تھی تو کالجوں میں پڑھایا کیوں گیا ؟

    بڑی بی کو تیسری شکایت یہ تھی کہ میری زمین کا پٹواری ہر فصل کے موقع پر پچاس روپے فصلانہ وصول کر کے خوش رہا کرتا تھا ، اب وہ زبردستی سو روپے مانگتا ہے ؛

    کیونکہ وہ کہتا ہے کہ تمہارا بیٹا اب پاکستان کا حکمران ہو گیا ہے -

    اس لیے پچاس روپے کا نذرانہ میرے لیے بہت کم ہے -

    بڑی بی کو گلہ تھا کہ ایوب خان کی حکومت میں رشوت کا ریٹ ڈبل کیوں ہو گیا ہے ؟

    از قدرت الله شہاب شہاب نامہ صفحہ ٧٧٨
     
  19. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    تیرے عشق نچایا
    کر کے تھیا تھیا
    چھیتی آویں وے طبیبا
    چھیتی مڑآویں وے طبیبا
    نیئں تاں میں مر گی آں

    "عشق انسان کو کائنات کے کسی دوسرے حصے میں لے جاتا یے, زمین پر رہنے نہیں دتیا اور عشق لاحاصل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    لوگ کہتے ہیں انسان عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تب سفر کرتا یے جب عشق لاحاصل رہتا ھے۔

    جب انسان جھولی بھر بھر محبت کرے اور خالی دل اور ہاتھ لے کر پھرے۔

    ہوتا ہوگا لوگوں کے ساتھ ایسا۔

    گزرے ہوں گے لوگ عشق لاحاصل کی منزل سے اور طے کرتے ہوں گے مجازی سے حقیقی تک کے فاصلے.

    مگر میری سمت الٹی ہو گئی تھی۔

    میں نے عشق حقیقی سے عشق مجازی کا فاصلہ طے کیا تھا۔

    مجازی کو نہ پاکر حقیقی تک نہیں گئی تھی حقیقی کو پاکر بھی مجازی تک آگئی تھی اور اب در بہ در پھر رہی تھی۔

    اقتباس: عُمیرہ احمد کے ناول "دربار دل" سے
     
  20. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    پرانے زمانے میں جب انسان جنگی دور میں تھا ۔۔ تو غصہ ایک اندھا جزبہ ہوا کرتا تھا ۔۔ ہوتا یوں تھا کہ اگر آپ پر کسی نے پتھر پھینکا اور پھر بھاگ گیا ' اس پر آپ کو غصہ آجاتا ۔۔۔آپ اپنا تیر کمان اٹھا لیتے اور گھر سے نکل جاتے ۔ باہر کوئی بھی چلتا پھرتا نظر آتا ۔۔چاہے وہ انسان ہو یا پرندہ یا پڑوسی کی بھینس آپ اس پر تیر چلادیتے ۔۔ اور پھر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بعد جھونپڑے میں داخل ہوکر آرام سے اپنے کام کاج میں مصروف ہوجاتے ۔۔ اس زمانے میں بدلے یا انتقام کاسوال نہ تھا ۔۔ صرف دل ٹھنڈا کرنے کی بات تھی ۔۔اس کے بعد انسان آہستہ آہستہ مہزب ہوتا گیا ،،اور اس کی سمجھ میں آگیا کہ غصّہ نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ غصّہ دلانے والے کو سزا دی جائے ۔۔۔
    آج کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم پھر سے جنگلی دور میں جا داخل ہوئے ہیں۔۔ جب بھی ہم غصّے میں آتے ہیں تو جوش میں باہر نکلتے ہیں۔۔ سڑک پر چلتی بسوں کو روک کر انہیں آگ لگا دیتے ہیں ۔۔ چلتی گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں ۔۔ چار ایک نعرے لگاتے ہیں منہ سے جھاگ نکالتے ہیں ۔۔ اور یوں دل ٹھنڈا کرنے کے بعد اپنے کارنامے پر نازاں خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں ۔۔ سمجھ میں نہیں آتا دورِ جدید کے لوگ ہر وقت غصے میں کیسے رہتے ہیں ؟
    بھئی غصّہ تو آنی جانی چیز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اسے قائم کرلینا یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔۔۔
    سیانوں کا کہنا ہے ۔۔
    " غصہ پہاڑ کی برفیلی چوٹی کی طرح ہے ۔۔ آپ چوٹی پر جاسکتے ہیں ' وہاں قیام نہیں کرسکتے ۔۔"

    رام دین

    از

    ممتاز مفتی
     
  21. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    میں نے سن رکھا تھا جو شخص حرم شریف میں داخل ہوتا ہے ، وہ اپنا جوتا ، اپنے گناہوں کی گٹھڑی ، یا اس کی فضیلت کی دستار اور اپنی بزرگی کا عمامہ دروازے کے باہر چھوڑ جاتا ہے -

    اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ جب وہ باہر آئیگا تو اس کا جوتا ، یا اس کی گناہوں کی گٹھڑی ، یا اس کی فضیلت کی دستار ، یا اس کی بزرگی کا عمامہ اس کو واپس بھی ملے گا یا نہیں -

    بعض لوگوں کے جوتے گم ہو جاتے ہیں -

    بعض لوگوں کی گناہوں کی گٹھڑیاں غائب ہو جاتی ہیں -

    بعض لوگ اپنی فضیلت و بزرگی سے محروم ہو جاتے ہیں -

    میرے پاس حرم شریف کے باہر چھوڑنے کے لیے اپنے پاؤں میں ربڑ کے چپل اور سر پر گناہوں کی گٹھڑی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا -

    میں نے دل و جان سے دونوں کو اٹھا کر باہر پھینک مارا ، اور باب الاسلام کے راستے حرم شریف میں داخل ہو گیا -

    اندر قدم رکھتے ہی دم بھر کے لیے بجلی سی کوندی ، اور زمین کی کشش ثقل گویا ختم ہو گئی -

    مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے گاڑی کو مضبوط بریک لگا کر میرے وجود کو پنکچر شدہ ٹائر کی طرح جیک لگا کر ہوا میں معلق کر دیا گیا ہو -
    جیسے میری پنڈلیوں کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہو رہا ہو -

    میرے جسم کے اعضاء کا ایک دوسرے سے رابطہ ٹوٹ سا گیا -

    ہاتھ بے لوچ ہو کر لٹک سے گئے ، اور سر بھنور میں پھنسے ہوئی خس و خاشاک کی طرح بے بسی سے چکر کاٹنے لگا -

    اس طرح اپاہج سا ہو کر میں طواف کے لیے آگے بڑھنے کے بجائے بے ساختہ لڑکھڑا کر وہیں بیٹھ گیا -

    از قدرت اللہ شہاب شہاب نامہ صفحہ ٥٨٤
     
  22. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    "یہی کہ انسان اس دنیا میں کس قدر بے بس ہے ... قدرت نے اس کو وسیع دائرے کے اندر کھڑا کر دیا ہے اور وہ دیوانہ وار دائرے کے اندر بھاگتا رہتا ہے اور دائرے کے اندر دوڑ کو کبھی اپنی محنت کا نام دیتا ہے کبھی اپنی کوشش کا اور جب کبھی دائرے کے اندر اوپر ٹیلوں پر چڑھتا ہے تو اسے اپنی خوش قسمتی کا نام دیتا ہے اور اس خوش بختی کے نشے میں وہ بار بار اس دائرے کو پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے مگر منہ کے بل گرایا جاتا ہے اور اس کو بتایا جاتا ہے کہ یہ تمہاری قسمت کی باؤ نڈری لائن ہے جس کو تم کبھی بھی پار نہیں کر سکو گے....بس یہی ہے انسان... یہی ہیں اس کے اختیارات ..

    اور جب وہ قسمت کے ہاتھوں بار بار گرایا جاتا ہے تو اس کی وقعت اس کی حقیقت خود اس پر عیاں ہوتی ہے کہ وہ کیا ہے...محض ایک زرہ.... ایک بے حقیقت وجود جس کو چاہے تو قدرت اس طرف لے جائے چاہے تو اس طرف...چاہے اس پر باد نسیم چھوڑ دے چاہے آگ کے بگولے... چاہے اس پر موسلا دھار مینہ برسایے چاہے پھوہار یا پھر بجلی کی کڑک... وہ کچھ بھی نہیں .....محض پانی کا بلبلا...."
    وہ افسردگی سے بولا.

    از قیصرہ حیات، ذات کا سفر، صفحہ نمبر 174
     
  23. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں - اور اس کا بغور مطالعہ کریں -

    غور کریں کہ آپ کے بیوی بچے ، ماں باپ ، بہن بھائی ، عزیز و اقارب ، یار دوست ، آپ کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں -

    لوگ آپ کے سامنے آپ کو کیا کہتے ہیں -

    آپ کی عدم موجودگی میں آپ کا تذکرہ کس انداز میں کرتے ہیں -

    کبھی کبھی ، خاموشی سے اپنے گھر کے سامنے سے اجنبی ہوکر گزر جائیں -

    اور سوچیں کہ اس گھر میں آپ کب تک ہیں -

    وہ وقت دور نہیں جب یہ گھر تو ہوگا آپ نہیں ہونگے -

    اس وقت اس گھر میں کیا ہوگا ؟

    اور آپ کا تذکرہ کس انداز میں ہوگا ؟

    از واصف علی واصف کرن کرن سورج ٦٩
     
  24. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات


    اکثر نصیحت کرتے کہ بے ضرورت سانس نہ لو -
    سانس بچاؤ -
    کل کام آئیگا -

    جتنے سانس کم لو گے ، اتنے ہی عدد سانسوں سے عمر بڑھ جائے گی -
    ان کے اس عمل سے دفتر میں آکسیجن کی کافی بچت ہوتی تھی -

    نہار منھ دو گلاس نمک کا پانی پی کر قے کرتے -

    پھر نتھنے میں سوت کی ڈوری کا فتیلہ چڑھاتے ، یہاں تک کہ اس کا سرا حلق سے بر آمد ہوتا -

    پھر اسے ہولے ہولے کھینچ کر نکال لیتے -

    اس عمل کو دہرا کر دونوں نالیں صاف کرتے -

    یہ انہی سے معلوم ہوا کہ اس سے دماغ روشن اور روح بالیدہ ہوتی ہے -
    ورنہ ہم تو اب تک اسی مغالطے میں تھے کہ ناک صاف کرنے سے صرف ناک ہی صاف ہوتی ہے -

    از مشتاق احمد یوسفی " زر گزشت " صفحہ ٨٩
     
  25. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    "میرا ایک کوئسچن ہے سر!" ایک نو عمر،لمبا سا لڑکا مائیک پہ آیا.
    " میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہو کر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا.مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی. دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا. میں قرآن پڑھتا ہوں تو میرا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے."

    تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا." آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے؟"

    "جی؟" وہ بھونچکا رہ گیا .

    ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے."

    بات کرتے ہوئے تیمور ہمایوں کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ایک کرب ابھرا تھا.اس نے صوفے کی پشت پہ ہاتھ رکھے.

    فرشتے ساکت کھڑی تھی.اس کے پیچھے دیوار میں شیلف بنا تھا. ایک طرف میز تھی .میز پہ تازہ تہہ کی ہوئی جائے نماز ابھی ابھی رکھی گئی تھی.

    ساتھ شیلف کے سب سے اوپر والے خانے میں احتیاط سے غلاف میں لپٹی ایک کتاب رکھی تھی. اس کا غلاف بہت خوبصورت تھا. سرخ ویلویٹ کے اوپر سلور ستارے. مگر گذرتے وقت نے غلاف کے اوپر گرد کی ایک تہہ جما دی تھی اور وہ شیلف اتنا اونچا تھا کہ اس تک اسٹول پہ چڑھے بغیر ہاتھ نہیں جاتا تھا.

    "جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے." اسکرین پہ وہ روشن چہرے والا شخص کہ رہا تھا.

    " ہم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل اور گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے. لیکن ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں. وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاس داری کرتے تھے. جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں.
    اور رہی بات صداقت کی تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پہ حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو.

    اسی لئے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لئے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دے گئے ہیں، کیوںکہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں بھلے وہ کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی."

    از نمرہ احمد، مصحف ، صفحہ نمبر 427
     
  26. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سوامی رام تیرتھ روانی کیساتھ انگریزی بولتے تھے - وہ دھرم کے پرچار کے لیے ١٩٠٣ میں امریکا گئے -

    ان کا جہاز سان فرانسسکو کے سمندری ساحل پر لنگر انداز ہوا -

    وہ اترے تو ایک امریکی از راہ تعارف ان کے قریب آیا اس کے بعد جو گفتگو ہوئی وہ یہ تھی -

    آپ کا سامان کہاں ہے ؟ امریکی نے پوچھا
    میرا سامان بس یہی ہے - سوامی تیرتھ ناتھ نے جواب دیا -

    اپنا روپیہ پیسہ آپ کہاں رکھتے ہیں ؟
    میرے پاس روپیہ پیسہ ہے ہی نہیں -

    پھر آپ کا کام کیسے چلتا ہے
    میں سب سے پیار کرتا ہوں بس اسی سے میرا کام چل جاتا ہے -

    تو امریکا میں آپ کا کوئی دوست ضرور ہوگا ؟
    ہاں ایک دوست ہے اور وہ دوست یہ ہے -

    سوامی تیرتھ رام نے یہ کہا اور اپنے دونوں بازو امریکی شخص کے گلے میں ڈال دیے -

    امریکی ان کی اس بات سے بہت متاثر ہوا اس کے بعد وہ امریکی ان کا اتنا گہرا دوست بن گیا کہ وہ انھیں اپنے گھر لے گیا ، اور سوامی تیرتھ رام جب تک امریکا میں رہے وہ برابر ان کے ساتھ رہا -

    اور ان کی خدمت کرتا رہا حتہ کہ ان کا شاگرد بن گیا -

    اس دنیا میں محبّت سب سے بڑی طاقت ہے

    محبّت کے ذریعے آپ اپنے مخالف کو جھکا سکتے ہیں -

    اور ایک اجنبی شخص کو اپنا بنا سکتے ہیں -

    بشرطیکہ آپ کی محبّت سچی محبّت ہو وہ دکھاوے اور نمائش کے لیے نہ ہو -

    از مولانا وحیدالدین خان کتاب زندگی صفحہ ٢٥٨
     
  27. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    میں پھر مدینے میں تھا..
    اور مدینے میں ہونا کیسا ہوتا ہے..

    جیسے قصر الحمرا کے حصار کی ایک شکستہ دیوار پر میکسیکو کے شاعر اکازا کے یہ مصرے کندہ دکھائی دیتے ہیں جو اس نے غرناطہ میں ایک اندھے گداگر کو دیکھ کر لکھے تھے..

    "اے عورت، اس گداگر کو بھیک دو
    کہ غرناطہ جیسے شہر میں ہونا..
    اور آنکھوں سے محروم ہونا..
    زندگی میں اس سے بڑی اذیت اور کوئی نہیں."

    تو وہ غرناطہ تو محض ایک کونپل تھی..
    تو محض ایک کونپل کی اس شجر گل ریز سے کیا نسبت جس کی شاخوں سے ایسی.. غرناطہ جیسی ہزاروں کونپلیں پھوٹی تھیں...
    ایک غرناطہ ...ایک کونپل اگر ایسی تھی تو جس شجر ... مدینہ سے وہ پھوٹی تھی وہ کیسا ہوگا..

    مدینے ایسے شہر میں تو انسان بے شک اندھا ہو تو بھی یہ اس کی سب سے بڑی خوش قسمتی ہوگی..

    مدینے میں ہونا ایسا ہوتا ہے...

    از مستنصر حسین تارڑ، غار حرا میں ایک رات، صفحہ نمبر 7
     
  28. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    سسي - پنهو

    سسي، شاہ صاحب کو بے حد عزیز ہے. 'شاہ جو رسالو' کے تیس سروں (راگ - باب) میں سے پانچ سر - سسي ابري، ماذوري، دیسی، كوهياري اور حسینی، سسي پنهو کے لئے ہیں -

    ان سروں سے منتخب ہوئے بیت آپ پڑھواتي رہوں گی. سسي کے محبت اور درد کو جیسے شاہ صاحب نے لكھا ہے، وہ لاجواب ہے. سسي - پنهو کی کہانی مختصر -


    براهم خاندان میں پیدا ہونے والی ایک پیاری بچی کے والد کو جب معلوم ہوتا ہے کہ بڑی ہونے پر اسکی شادی ایک مسلمان سے لکھی ہے تو وہ اسے ایک صندوقچي میں بند کر کے دریا میں بہا دیتا ہے. یہ صندوقچي شہر بھنبھور کے محمد دھوبی کو ملتی ہے جو اس پیاری سی بچی کو خدا کا دیا ہوا تحفہ سمجھ کر اپنی بیٹی قبول کرتا ہے. بچی کی خوبصورتی دیکھ اس کا نام رکھا جاتا ہے، 'سسي' یعنی 'ششی' یعنی 'چاند'.
    كیچ مكران سے آئے عطر، خوشبو کے نوجوان تاجر پنهو کی محبت -
    کستوری کا جادو سسي کے دل میں رچ بس جاتا ہے.

    سسي کو پانے کے لئے پنهو خود کو دھوبی بھی ثابت کرتا ہے اور اس طرح سسي اور پنهو کی شادی ہوتی ہے. پر یہ خبر جب پنهو کے والد عاری جام تک پہنچتی ہے تو وہ اپنے دیگر تین بیٹوں کو بھنبھور روانہ کرتا ہے تاکہ وہ پنهو کو واپس لے آئیں.
    بھنبھور پہنچنے پر ان کا دھام دھوم سے استقبال ہوتا ہے. مجلس سجتي ہے اور اسی رات جشن میں مگن پنهو کو اس کے بھائی اونٹ پر بٹھاکر لے جاتے ہیں.
    صبح نیند سے جاگی سسي کے پاس جدائی اور درد کے سوا کچھ نہیں ہوتا.
    اپنے سجن پنهو کو پھر سے حاصل کرنے کے لئے سسي گھر سے اکیلی ننگے پاؤں نکل پڑتی ہے.
    بیابان جنگل، پربت بھٹكتي سسي کے جذبات اور پنهو کو پانے کی تڑپ کو شاہ لطیف نے بہت ہی مارمك اظہار دی ہے.
    جب ایک چرواها سسي پر بری نظر ڈالتا ہے تو سسي کی عزت بچانے کے لئے، زمین اسے اپنی گود میں سما لیتی ہے. یہ دیکھ وہ چرواها بہت پچھتاتا ہے اور سسي کی قبر بنا کر، خود اس کا مجاور بن جاتا ہے.

    اپنے والد اور بھائیوں سے لڑ - جھگڑكر پنهو بھی سسي کی طرف ہی چلا آ رہا تھا.راستے میں جب اس قبر کے پاس ركتا ہے اور مجاور سے سارے واقعات جانتا ہے تو وہ بھی سسي سے ملنے کے لئے منت کرتا ہے. کہتے ہیں کہ وہی قبر پنهو کو بھی خود میں سما لیتی ہے اور اس طرح سسي اور پنهو کا ملن ہوتا ہے.

    پنهو کو پانے کے لئے روتی، بھٹكتي سسي سے شاہ صاحب کہتے ہیں -

    هوت تهجے هج میں، پچھي كوه پهي؟
    وفي انفسكم، افلاتبسرون، سوجھے كر صحیح
    كڈه کان وہی، هوت گول ہٹ تے.

    اردو ترجمہ:
    محبوب تیرے پہلو میں ہیں،
    تیرے اندر ہیں،
    اور تو ان کا راستہ پوچھتی ہے!
    ان کی علامتیں تو تجھ میں ہی سمائی ہیں.
    ذرا اپنے دل میں تو جھانک!
    دیوانی! بھلا اپنے عزیز کو تلاش کرنے کوئی هاٹ جاتا ہے کیا؟

    - پانچویں داستان، سر سسي ابري، شاہ جو رسال

    سندھی صوفی شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی (1689-1752)

    (ترجمہ: وممي سدارگاني)
     
  29. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    جہاں سے ہدایت اور فیض ملنے ہوتے ہیں وہیں سے مل کر رہتے ہیں -
    لاکھ انسان نمازیں پڑھے ، مکے مدینے جائے ، ملتا تب ہے جب حکم ربی ہوتا ہے -

    وہ جو چاہے کرتا ہے ، وہ بے نیاز ہے -

    وہی پرانی بات کہ اچھوں سے برے اور بروں سے اچھے پیدا ہوتے رہتے ہیں -
    یعنی ایک چکر جو چلتا ہی رہتا ہے -

    جہاں دن ہوتا ہے وہاں سے رات پھر ابھرتی ہے -

    اندھیرے کو اجالے نگل لیتے ہیں - اور ضروری نہیں کہ ایک برا ہمیشہ برا رہے اور ایک اچھا ہمیشہ اچھا -

    یہ تو سمے ، امر ، من بھاون پی مناون، دکھ سناون ، کبھی آون کبھی جاون نصیبوں کے کھیل ہیں -

    آگ لینے جائیں پیغمبری لے آئیں ، دان لینے جائیں سکندری لے آئیں ، برتن لینے جائیں دلبری لے آئیں ، پہاڑ پہ چڑھے تو سروری لے آئیں -

    اور کوئی وہ جو دار پہ کھال اتروادے تو کوئی سجدے میں گردن کٹوا دے -

    کوئی نیزے پہ چڑھ کے قرآن سنا دے ، تو کوئی بند مٹھی میں کلمہ پڑھا دے -

    کوئی اپنے سارے دانت نکلوا دے تو کوئی دہکتی آگ میں بے خطر کود پڑے -

    کوئی رگ رگ پہ چھری چلا دے ، اور کوئی غم پسر میں آنکھیں گنوا دے -
    اپنے جسم پہ کوئی آرا چلوا دے اور کوئی نعرہ انا الحق لگا دے -

    یہ سارے اسی من موہن کے روپ سروپ ہیں -

    کوئی رذالت سے نکل کر اصیل ہوگیا ، تو کوئی تونگری سے ٹوٹ کر فقیری پہ آ لگا -

    کہیں ہیرا کسی کی پیڑا پہ آ ٹکا ، اور کوئی پھول گجرے میں بندہ گیا تو کوئی گور پہ آ گرا -

    کوئی محمل سوار ہوا تو کوئی خار مغیلاں میں خوار ہوا -

    یہ سب اپنے اپنے نصیب اور مقسوم ہیں -

    از بابا محمد یحییٰ خان پیا رنگ کالا صفحہ ٦٠٤
     
  30. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اقتباسات

    ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں - ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستے میں گھس جاتا ہے -

    اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں -

    کپڑا پھٹ جاتا ہے -

    اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے -

    اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے -

    اب وہ آدمی کیا کریگا - کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کریگا -

    کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کریگا -

    وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کریگا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کر دیا جائے -

    تا کہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلے سے دو چار نہ ہو -

    کوئی سنجیدہ اور با ہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا اس کے بر عکس وہ صرف یہ کریگا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کریگا -

    وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں ، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے -

    تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے -

    اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی -

    الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی -

    تا کہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے -

    مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا -
    خدا کو اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا -

    آج کی دنیا میں آپ کو بیشمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں -

    اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں ، تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں -

    وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں -

    ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہونگے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے -

    اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے -

    اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں -

    از مولانا وحید الدین کتاب زندگی صفحہ ١٤
     

اس صفحے کو مشتہر کریں