1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یادوں کی پٹاری پارٹ 1

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏25 جنوری 2007۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    صدر کینٹ بازار سے نکلے تو پشاور روڈ پر ھماری کار نے رخ اختیار کیا اور اسی موڑ پر میں نے اپنے بچپن کے کینٹ پبلک اسکول کو دیکھا اور اپنے بچپن کی یادوں میں کھو گیا، ابھ ان یادوں میں ھی کھویا ھوا تھا کہ سیدھے ھاتھ کی طرف ریس کورس گراونڈ کو گزرتے ھوئے دیکھ رھا تھا اور بائیں ھاتھ کی طرف قاسم مارکیٹ کا علاقہ تھا جہاں میرا پچپن کھیل کود میں گزرا تھا وہ دن یاد آگئے جب ھمارے والد ھم دونوں بہن بھائی کی انگلی پکڑ کر ھر شام کو پیدل گھر سے ریس کورس گراونڈ میں گھمانے لے جاتے تھے، ساتھ ساتھ میں سب کو اپنی بچپن کی یادوں کے بارے میں بتاتا بھی جارھا تھا، آگے بائیں ھاتھ پر ریڈیو پاکستان کو دیکھا اور اس سے پہلے ایک سڑک جس کا نام چیرنگ کراس تھا، اس کو دائیں طرف گزرتے ھوئے دیکھا جو ویسٹریج کے علاقے کی طرف جاتی تھی، کچھ اور آگے بڑھے تو میرا پہلے کا دفتر نظر آیا جو تین منزلہ تھا اور رھائیش بھی ساتھ ھی تھی، جہاں شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کے وقت کی خوبصورت اور خوشگوار یادوں کا سامنا ھو گیا جو چوھڑ کا علاقہ کہلاتا تھا، وھاں کچھ دیر کیلئے رکے اور چند اس وقت کے ملنے والے خاندان سے ملے جو بہت ھی شفیق اور مہربان لوگ تھے، بہت مشکل سے انہوں نے اجازت دی، انہوں نےچائے اور کچھ ناشتہ کا بندو بست کیا ھوا تھا، اس مختصر وقت کی ملاقات کیلئے وہ لوگ بہت ناراض ھوئے، واپسی پر تفصیلی ملاقات کا وعدہ کیا اور وھاں سے نکل پڑے،!!!!!


    آگے جیسے ھی بڑھے تو ھمارے بائیں طرف کوہ نور ٹیکسٹائل ملز کو گزرتے ھوئے دیکھا، بہت ھی پرانی یہ تیکسٹائل ملز ھے، جو سہگل برادران سے تعلق رکھتی ھے، ھمارے اس طرح کے تاجر برادری جنہوں نے اپنی خدمات پاکستان کی معاشی حالات کو سدھارنے کے لئے وقف کی ھیں، اگر ان سب کو اور اچھے بہتر وسائل اور سہولتیں حکومت کی طرف سے اور عوام کو تعاون حاصل رھے تو ھمارے ملک کی فلاح بہبود اور ترقی کے لئے یہ ھماری تاجر برادری بہت کچھ کرسکتے ھیں، ورنہ تو یہ بھی غیر قانونی وسائل کو استعمال میں لاکر ملک کی سلامتی کو نقصان بھی پہنچاسکتے ھیں،!!!!!

    پشاور روڈ پر ھماری کار دوڑی چلی جارھی تھی اور راستے میں ھم تمام آس پاس کے گزرنے والے مناظروں سے لطف اندوز بھی ھورھے تھے، خوب گب شپ اور ھنسی مذاق بھی چل رھا تھا، ترنول کے موڑ کے ساتھ ساتھ گولڑا شریف کا موڑ بھی ھم نے اپنی نظروں کے سامنے گزرتے ھوئے دیکھا، یہ ساری جگہوں کی معلومات وقفہ وقفہ سے جناب ڈرائیور صاحب ھمیں بتاتے جارھے تھے، بہت ھی تیک اور شریف انسان تھے ایک ھماری اپنی فیملی کی طرح ھی ھمارے ساتھ تھے، اور ھر جگہ اور ھر اس علاقے سے منسلک تمام معلومات ھمیں پہنچا رھے تھے، ان کو کمپنی نے پٹرول اور راستہ کیلئے گاڑی کے اخراجات بھی دیئے تھے، میں نے کئی دفعہ انہیں پیسے دینا چاھے، لیکن انہوں نے انکار کردیا، جواباً یہی کہا کہ آپ ھمارے بڑے سینئر اسٹاف ھییں اور کراچی سے آئیں ھیں، آپ ھمارے مہمان ھیں، اور کمپنی مجھے آپ کی خدمت کے لئے تنخواہ اور اس کے علاؤہ خاص مراعات باھر کے دورے کیلئے روز کے حساب سے الگ الاونس بھی دیتی ھے، اور کار کے اخراجات کے لئے الگ سے، اس کے علاوہ ھر ھوٹل میں جہاں گیسٹ کو لاتے ھیں کھانے پینے کے علاوہ مفت رہائیش کا انتظام لازمی بھی ھوتا ھے،!!!! مجھے ان کی ایمانداری اور اس ظرح کی مخلصانہ مہمانداری پر بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی، کھانا تو جہاں وہ ھمارے ساتھ ھوتے ھم سب مل جل کر کھانا کھاتے، حالانکہ انہوں نے منع بھی کیا، لیکن وہ ایک طرح کے اپنی فیملی ممبر کی طرح تھے، ھمارے اسرار پر انہوں نے ھمارے ساتھ کھانا شروع کیا لیکن کئی جگہوں پر انہوں نے ھمارے منع کرنے کے باوجود بھی اپنے پاس سے خرچہ بھی کیا، انکا آزاد کشمیر سے تعلق تھا اور پنڈی میں مستقل رھائیش پزیر تھے اور ھماری کمپنی میں عرصہ 5 سال سے ڈرائیور اور اسپشل گائیڈ کے فرائض انجام دے رھے تھے، اور وہ اس کمپنی میں بہت ھی خوش تھے،!!!!!!!

    خوب ساتھ باتیں کرتے ھوئے، ھم حسن ابدال پہنچے، وھاں پر کچھ شاید کھانے پینے کیلئے رکے تھے، وہاں سے ایک طرف واہ فیکٹری کے علاقے کی طرف جاتا ھے، اور اس سے پہلے ٹیکسلا کی طرف سڑک رواں دواں تھی، حسن ابدال میں سکھوں کے مقدس مقامات تھے، اور ٹیکسلا میں میں پرانے بدھ مذہب کے کھنڈرات اور ایک بڑا میوزیم تھا، جسے ھم پہلے بھی دیکھ چکے ھیں، اس کے علاوہ واہ فیکٹری کے علاقے میں ہیوی میکینیکل کمپلیکس فیکٹری اور بڑی چھاونی بھی ھے اور مغل بادشاھوں کے زمانے کی اثار قدیمہ کی تعمیرات نادر نمونے موجود ھیں، وھاں پر ایک مغلوں کے زمانے کا مغل واہ گارڈن بھی ھے، وہاں سے ھوتے ھوئے مختلف علاقوں سے گذرتے ھوئے، ھم نوسہرہ کے اٹک کے پل پر پہنچے جو ایک پرانا اور تاریخی پل ھے وہاں کچھ دیر رکے اور پھر مردان کی طرف ھماری کار نے رخ کیا، مردان پہنچ کر کچھ دیر کیلئے وہاں پر کھانے کیلئے رکے، وہاں کا کڑھائی گوشت اور چپل کباب سے لطف اندوز ھوئے، بہت ھی ذائقہ دار پکا ھو تھا، آپکو زیادہ تر کڑھائی گوشت اور چپلی کباب کے پکوان بہت ھی ذائقہ دار سرحد کے علاقوں میں ھی ملیں گے، اس کے علاوہ یہاں کی پشاوری چائے جو کیتلیوں میں ملتی ھے، وہ بہت ھی مزیدار اور پینے کا ایک الگ ھی لطف آتا ھے،!!!!!!

    مردان کے علاقے سے نکلے تو ھم سوات کی حسین وادیوں میں پہنچ گئے، شام ھونے والی تھی سردی کچھ بڑھتی جارھی تھی، فوراً ھی ھم نے بچوں کو گرم کپڑے پہنائے، اور خود بھی پہن لئے، ڈرائیور ھمیں ایک جگہ جس کا نام مرغزار تھا وھاں لے گئے وہاں پر والئے سوات کا سفید محل دیکھا جو اب ایک ھوٹل میں تبدیل ھوچا تھا، وھاں پر ھی ھمارے ٹہرنے کا انتظام تھا، معمول کے مطابق وہان پر دو کمروں میں ھم لوگ اپہلے ھی کی ترتیب سے پہنچ گئے، بہت ھی گرم خوبصورت کمرے انگیٹھیاں لگی ھوئی، یہاں پہنچ کربہت تھک چکے تھے، اس لئے سب کمبلوں میں گھس گئے، اور ایسے سوئے کہ صبح ھوئی تو ھی آنکھ کھلی،!!!!!!
    -----------------------------

    مردان کے علاقے سے نکلے تو ھم سوات کی حسین وادیوں میں پہنچ گئے، شام ھونے والی تھی سردی کچھ بڑھتی جارھی تھی، فوراً ھی ھم نے بچوں کو گرم کپڑے پہنائے، اور خود بھی پہن لئے، ڈرائیور ھمیں ایک جگہ جس کا نام مرغزار تھا وھاں لے گئے وہاں پر والئے سوات کا سفید محل دیکھا جو اب ایک ھوٹل میں تبدیل ھوچا تھا، وھاں پر ھی ھمارے ٹہرنے کا انتظام تھا، معمول کے مطابق وہان پر دو کمروں میں ھم لوگ اپہلے ھی کی ترتیب سے پہنچ گئے، بہت ھی گرم خوبصورت کمرے انگیٹھیاں لگی ھوئی، یہاں پہنچ کربہت تھک چکے تھے، اس لئے سب کمبلوں میں گھس گئے، اور ایسے سوئے کہ صبح ھوئی تو ھی آنکھ کھلی،!!!!!!

    ناشتہ سے فارغ ھو کر ادھر ادھر پہاڑوں میں چہل قدمی کی، مرغزار کے اس علاقے میں سفید محل کے آس پاس کی خوبصورت وادیوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے ھم کسی طلسماتی جگہ پر آگئے ھیں، یہ میرے لئے تو پہلا موقعہ تھا، صبح صبح وادیوں میں پرندوں کی چہچہانے کی آوازیں کانوں میں ایک سریلی میٹھی سر بکھیر رھی تھیں اور ایک سحر انگیز منظر اور رومان پرور کا سا سماں چاروں طرف پھیلا ھوا تھا، دل چاھتا تھا کہ انہی حسین وادیوں میں کھو جائیں، دل تو نہیں چاھتا تھا کہ وہاں سے واپس جائیں، لیکن مجبوری تھی کیونکہ ابھی ایک لمبا سفر باقی تھا، اور بھی حسین اور خوبصورت مناظروں کو دیکھنے کی دل میں ہل چل مچی ھوئی تھی اور خوب سے خوب تر کی تلاش تھی،!!!!!

    مرغزار سے نکلے تو سیدھا سوات کے مین بازار میں پہنچے، وھاں کچھ دیر کیلئے گھومے کچھ وھاں کی ھاتھ کی بنی ھوئی چیزیں دستکاری کے خوبصورت نمونے اورخوبصورت تراشے ھوئے ھیرے بھی دیکھے، ھمارے سالے صاحب کو ان قیمتی پتھروں سے کچھ زیادہ ھی لگاؤ تھا، اور کچھ خریداری بھی کی، وھاں سے ھوتے ھم “میاں دم“ کے علاقے میں پہنچے اور وھاں کہ پاکستان ٹورزم کے ھوٹل میں کچھ دیر رک کر چائے کا آرڈر دیا اور وھاں سے تمام سوات کے علاقوں کی خوبصورتی کو اپنی انکھوں میں سماتے رھے، کیا حسین مناظر تھے، ھر جگہ کا اپنا ھی ایک حسن تھا، وہاں سے نکلے تو سیدو شریف میں کچھ دیر گھوم کر مینگورہ کے ساتھ دریائے سوات کے کنارے ھم کچھ دیر کیلئے گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور دریا کے کنارے آس پاس کی خوبصورت وادیوں کے حسن میں کھوئے رھے، نہ جانے پھر کب ھمیں قسمت لے کر آئے، مینگورہ میں کافی دیر تک ٹھرے، اور کھانا وغیرہ کھایا، اس کے بعد کالام جانے کیلئے ڈرائیور ھمیں لے کر چل پڑے، راستہ میں خواجہ خیلہ سے ھوتے ھوئے مدین اور بحرین کی وادیوں کے پاس تھوڑی دیر کیلئے رکے، وہاں بھی شور مچاتے ھوئے دریاؤں اور ان پر لٹکے ھوئے رسیوں کے جھولتے ھوئے پلوں کو دیکھا، بہت ھی خوبصورت مناظر کی عکاسی کررھے تھے،!!!!!!

    مدین اور بحرین میں وہاں کے دریاؤں کی تازہ مچھلی بھی کھائی، کچھ اچھی خاصی ٹھنڈ بھی تھی، اور گرما گرم تلی ھوئی مچھلی مھا شیر اور ٹراونٹ مچھلی کے ذائقے نے تو اور بھی ماحول کو گرما دیا تھا،!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مدین اور بحرین میں وہاں کے دریاؤں کی تازہ مچھلی بھی کھائی، کچھ اچھی خاصی ٹھنڈ بھی تھی، اور گرما گرم تلی ھوئی مچھلی مھا شیر اور ٹراونٹ مچھلی کے ذائقے نے تو اور بھی ماحول کو گرما دیا تھا،!!!!!

    وھاں کچھ دیر رکے اور پھر کالام کیلئے روانہ ھوگئے، ھم چاھتے تھے کہ شام سے پہلے وہاں پہنچ جائیں، لیکن افسوس تو یہ ھوا کہ آگے جانے کے راستے بارش کی وجہ سے مٹی کے تودے گرنے کے باعث بند ھوچکے تھے، وھان سے ھم نے اپنا سفر مختصر کیا اور مایوسی کی حالت میں وہیں سے واپسی ھوئی، اور مینگورہ سے ھوتے ھوئے ھم شارع ریشم کی طرف نکل پڑے، اونچے اونچے پہاڑوں کے ساتھ ساتھ سلک روڈ اور ساتھ ھی دریائے سوات بھی ایک خوبصورت مناظر پیش کررھا تھا، اب ھمارا رخ ایبٹ آباد کی طرف تھا، شام ھوچکی تھی “بیشام‘ کے پاکستان ٹوریزم کے ایک چھوٹے سے مرکز میں کچھ منہ ھاتھ دھو کر تروتازہ ھوئے اور وہان سے ھم ایبٹ آباد کیلئے روانہ ھوگئے، رات ھوچکی تھی ھم سب بہت تھک چکے تھے صبح صبح کے نکلے ھوئے، کہیں بھی آرام نہیں کیا، رات گئے تک ھم آیبٹ اباد پہنچ چکے تھے جہاں ھمارے جاننے والے رھتے تھے، تھوڑی سی تلاش کے بعد ان کا گھر مل گیا، وہ لوگ تو بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، اور رات کے کھانے کا خاص طور سے بندوبست کیا، کھا پی کر عورتیں اور بچے تو الگ ھی آپس میں مصروف گفتگو رھیں، اور ھم دونوں بھی سب کے ساتھ بیٹھک میں گپ شپ کرتے رھے،اور وہیں پر ھم نے رات بسر کی تھکے ھوئے تھے نیند کا غلبہ تھے خوب سوئے، صبح کافی دیر میں اٹھے،!!!!!

    یہ سب لوگ ھماری سسرال کے پڑوسی تھے جو کراچی میں رھتے تھے، اور ان سے بہت اچھے تعلقات تھے، اب بھی کراچی میں آنا جانا رھتا ھے، اور اب تو ھمارے ایک اور سالے صاحب کی شادی ایبٹ آباد کی ھی ایک فیملی میں ھوئی ھے، جو ھندکو زبان اچھی طرح بولتے ھیں، !!!! دوسے دن دوپہر کے کھانے سے فارغ ھوکر انہوں نے ھمیں ایبٹ آباد کی سیر کرائی، ایبٹ اباد بھی پہاڑوں میں گھرا ھوا خوبصورت علاقہ ھے، مری اور سوات کی طرح خوبصورت وادیاں ھیں، اس وقت بھی اچھی خاصی ٹھنڈ تھی، پھر اس دن تو ویسے ھی گھومتے پھرتے شام ھوگئی تھی تو دوسرے دن ایبٹ آباد سے ھم نے نتھیا گلی جانے کا پروگرام بنایا، اور وہاں سے مری کے علاقے بھوربن اور جھیکا گلی کی طرف رخ کرنا تھا، کیونکہ جھیکاگلی میں بھی ھمارے پرانے جاننے والے رھتے تھے، اور شام تک ان کے گھر پہنچنا چاھتے تھے، ھمارے ڈرائیور صاحب بھی ماشااللٌہ بہت ھی پہاڑوں میں گاڑی چلانے کے ماھر تھے، اور ان تمام پہاڑی علاقوں کی کافی معلومات تھیں، اور انہیں کی وجہ سے ھم سب نے اس یادگار سفر سے خوب اچھی طرح لطف آٹھایا، !!!!!!!!!!
    ---------------------------------
    دوسرے دن ایبٹ آباد سے ھم نے نتھیا گلی جانے کا پروگرام بنایا، اور وہاں سے مری کے علاقے بھوربن اور جھیکا گلی کی طرف رخ کرنا تھا، کیونکہ جھیکاگلی میں بھی ھمارے پرانے جاننے والے رھتے تھے، اور شام تک ان کے گھر پہنچنا چاھتے تھے، ھمارے ڈرائیور صاحب بھی ماشااللٌہ بہت ھی پہاڑوں میں گاڑی چلانے کے ماھر تھے، اور ان تمام پہاڑی علاقوں کی کافی معلومات تھیں، اور انہیں کی وجہ سے ھم سب نے اس یادگار سفر سے خوب اچھی طرح لطف آٹھایا، !!!!!!!!!!

    یہ ضلع ہزارہ کے اطراف کے علاقے تھے، خوبصورت پہاڑوں اور لمبے لمبے چیڑ کے درختوں سے گھرے ھوئے، ان کے ساتھ ساتھ چلتی ھوئی شاراہیں بہت ھی ایک جادوئی طلسماتی منظر پیش کرتی ھیں، اللٌہ تعالیٰ نے ھمارے ملک میں ھر جگہ اتنا حسن اور خوبصورتی عطا فرمائی ھے، لیکن ھمیں اپنے ملک کی کوئی قدر نہیں ھے، انہیں خوبصورت مقامات سے ھوتی ھوئی، ھماری گاڑی بہت احتیاط سے بل کھاتی ھوئی سڑکوں پر چل رھی تھی، اور ھم سب انھی خوبصورت مناظروں سے لطف اندوز ھو رھے تھے، اگلا مقام ایوبیہ تھا، جسے نتھیا گلی بھی کہتے ھیں، وہاں پہنچتے پہنچتے ٹھنڈ تو اور زیادہ ھی بڑھ گئی،!!!!

    وہاں پر کیبل لفٹ چئیرز کا انتظام تھا، سب لوگ باری باری لفٹوں میں بیٹھے، کیا بات تھی اتنی اونچائی کے مقام پر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جانے والی یہ لفٹ چیر جب بادلوں میں سے گزرتی تھی، تو بہت ھی زیادہ لطف آتا تھا، اب تو یہ لفٹیں مری میں گھوڑا گلی کے مقام پر بھی لگ چکی ھیں اور آج کل کیبل چیر کے لئے یہاں آنے کی ضرورت بھی نہیں ھے، لیکن ایوبیہ نتھیا گلی کا اپنا ایک الگ ھی حسن ھے، ایک تو سب سے اونچی جگہ پر ھے، اور اگر آپ کو کہیں بھی برف جمی ھوئی نہ ملے، تو یہاں ضرور ھی برف سفید چادر کی طرح جمی ھوئی نظر آئے گی، یہاں ھم کچھ زیادہ دیر تک نہیں رکے اور مری کی طرف نکل گئے، کیونکہ ھم چاھتے تھے کہ شام سے پہلے پہلے مری پہنچ جائیں، کیونکہ وہاں ھم نے کسی کے یہاں قیام کرنا تھا یہ بھی ھمارے بہت پرانے جاننے والے تھے، ھم اکثر ان کے یہاں ھی کچھ دن ضرور قیام کرتے تھے، ان کا گھر جھیکا گلی کے علاقے میں پہاڑوں کے درمیان ایک چھوٹے سے گاؤں “سانٹھی“ میں تھا، ان کے گھر کے سامنے دوسرے پہاڑ پر پیرموڑہ شریف کا مزار ایک چاند کی طرح چمکتا ھوا صاف نظر آتا تھا، اور رات کو سالانہ عرس کے موقع پر وہاں خوب رونق ھوتی تھی،!!!!!

    جھیکا گلی کے علاقے پر پہنچتے ھی روڈ کے کنارے سے ایک چھوٹی سی پگڈنڈی “سانٹھی“ نام کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرف جاتی تھی، اور یہ راستہ کچھ خطرناک بھی تھا، اگر کسی کا پیر پھسل گیا تو بس سونچ لیں کہ نیچے ہزاروں فٹ کی کھائی تھی، وہاں پر اس وقت کوئی ٹیلفون کی سہولت نہیں تھی، ورنہ ھم پہلے ھی آنے کی اطلاع دے دیتے، بہرحال سب ویسے ھی بہت تھکے ھوئے تھے، مزید پہاڑ کے نیچے اترنا تو ایک بہت بڑا کٹھن مرحلہ تھا، ھم سب کچھ دیر کیلئے سڑک کے کنارے ھی پگڈنڈی کے موڑ پر ھی چادر بچھا کر بیٹھ گئے، دونوں لیڈیز تو لیٹ گئیں، اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ نیچے اترا جائے یا اوپر ھی مری کے کسی ھوٹل میں ٹہرا جائے،!!!!!!

    اتفاق سے اسی گاؤں کی طرف جانے والے مل گئے، جو انہیں بھی جانتے تھے، انہوں نے ھمیں وہاں تک کی راہنمائی کی پیش کش کی، اور پھر ھم تیار ھوگئے، لیکن نوبیاہتا جوڑا نیچے اترنے سے گھبرا رھا تھا، اسلئے انہوں نے واپس اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرلیا، اور دوسرے دن کے آنے کا وعدہ کرکے اسی کار میں واپس چلے گئے اور اسی وقت ھم اور ھمارے بچے اپنے آپ کو سنبھالتے ھوئے پہاڑ کے نیچے اترنے کی کوشش کررھے تھے،!!!!!!!!
    ------------------------

    تفاق سے اسی گاؤں کی طرف جانے والے مل گئے، جو انہیں بھی جانتے تھے، انہوں نے ھمیں وہاں تک کی راہنمائی کی پیش کش کی، اور پھر ھم تیار ھوگئے، لیکن نوبیاہتا جوڑا نیچے اترنے سے گھبرا رھا تھا، اسلئے انہوں نے واپس اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرلیا، اور دوسرے دن کے آنے کا وعدہ کرکے اسی کار میں واپس چلے گئے اور اسی وقت ھم اور ھمارے بچے اپنے آپ کو سنبھالتے ھوئے پہاڑ کے نیچے اترنے کی کوشش کررھے تھے،!!!!!!!!

    بچے تو گود میں آنے کو تیار ھی نہیں تھے، ساتھ راہنمائی کرنے والوں نے ھمارے ھاتھ کا سامان اٹھا رکھا تھا، اور ایک نے ھماری چھوٹی گود کی بچی کو اٹھایا ھوا تھا، بڑے بیٹا اور بیٹی جو 8 اور 6 سال کے تھے وہ تو خود ھی تفریح کرتے ھوئے اتر رھے تھے، ان کے بعد کا ایک بیٹا جو تقریباً اس وقت 4 سال کا تھا، وہ میری گود میں نیچے اترنے کے لئے مچل رھا تھا، آج میں یہ سوچتا ھوں کہ یہ چاروں بچے اب بڑے ھو چکے ھیں دو کی تو اب شادیاں بھی ھو چکی ھیں، لگتا ھے کہ یہ سب کل کی سی بات ھو، وقت کیسے اتنی جلدی گزر گیا کہ کچھ پتہ ھی نہیں چلا، کل تک جب میرے بچے میری انگلی پکڑ کر چلتے تھے، پچھلے دنوں وہ میری بیماری کے دوران وہ مجھے سہارا دے کر سیڑھیوں پر چڑھا رھے تھے، اور وہ دونوں میرے بیٹے آج قد میں مجھ سے بھی بڑے ھیں، کیا شان ھے میرے رب کی، سبحان اللٌہ !!!!!!

    دونوں بڑے بچوں کو بھی ایک تفریح مل گئی تھی، جگہ جگہ وہ ٹہر جاتے اور پھولوں ‌پر بیٹھی ھوئی تتلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے، :titli: اور میں ڈرتا رھتا کہ ان کا پیر سلپ نہ ھوجائے، مگر انہیں کسی بات کی فکر ھی نہیں تھی، کیونکہ وہ چھوٹی سی پگڈنڈی آگے چل کر تو بہت ھی خطرناک ڈھلان کی شکل اختیار کر چکی تھی، میں تو بس پیچھے پیچھے دونوں بچوں کو ڈانٹتا ھوا جا رھا تھا، اور ھماری بیگم بھی بہت محتاط ھوکر چل رھی تھیں، مگر کچھ غصہ میں بھی نظر آرھی تھیں، اور میں تیسرے نمبر کے بیٹے کو گود میں اٹھائے ھوئے ھانپتا ھوا پہاڑوں کی ڈھلان کی طرف آہستہ آہستہ اتر رھا تھا شکر تھا کہ ابھی کچھ شام کی ھلکی سی روشنی باقی تھی اور سورج کی آخری کرنیں جدا ھوتی ھوئی نظر آرھی تھیں،!!!!!

    بالآخر ھانپتے کانپتے ھم اپنے مطلوبہ مقام “سانٹھی“ تک پہنچ گئے، وہاں پر بھی وہ سب اپنے گھر سے باھر آگئے اور ھمیں پہچاننے کی کوشش کرنے لگے، جیسے ھی انہوں نے پہچانا ایک شور مچ گیا، اپنی پہاڑی زبان میں “چھوٹے شاہ جی کراچی سے آگئے“ سارے خوش ھوگئے، سردی تو بہت تھی کپکپی لگی ھوئی تھی، فوراً انھوں نے مہمانوں کا کمرہ کھولا انگیٹھی پہلے ھی سے جل رھی تھی، کمرے کے بیچوں بیچ انگیٹھی تھی اور چاروں طرف پلنگ رضائیوں سے لدے ھوئے، میں اور دو بچے میں ایک بستر میں گھس گئے اور ھماری بیگم دوسرے پلنگ پر باقی دونوں چھوٹے بچوں کے ساتھ رضائی کو چاروں طرف سے لپیٹ لیا، تیسرے پلنگ پر میزبان فیملی تھی اور سب خیر خیریت معلوم کررھے تھے،!!!!!

    کیونکہ کافی عرصہ بعد ملاقات ھوئی تھی، اس لئے سب کو بہت ھی خوشی ھورھی تھی، بجلی تو تھی، کمرے میں ایک بلب اور ایک ٹیوب لائٹ جل رھی تھی، سب لوگ خاطر مدارات میں لگ گئے، کوئی تو انہی کے باغات کے پھل سیب، بگو گوشہ، ناشپاتیاں لارھا تھا کوئی خشک میوہ جات، ھمارے بچے بھی ان کے بچوں کے ساتھ ھی کمرے میں ایک دوسرے سے باتیں کررھے تھے، مگر ھمارے بچے ان کی زبان سمجھ نہیں پارھے تھے، بار بار میرے پاس آتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رھے، شاید کھانا پکانے کی تیاری بھی ھورھی تھی، دروازہ کھلتا تو سامنے تندور جلتا ھوا نظر آرھا تھا اور ساتھ ھی ایک کھلا باورچی خانہ دکھائی دے رھا تھا، جہاں دو عورتیں لکڑی کے چولہے پر ایک بڑی مٹی کی ھانڈی میں کچھ پکاتی ھوئی نظر آرھی تھیں، بھوک بھی شدید لگی ھوئی تھی، اور باھر سے پکتے ھوئے کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو نے تو اور بھوک میں چار چاند لگا دئے تھے، !!
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    شاید کھانا پکانے کی تیاری بھی ھورھی تھی، دروازہ کھلتا تو سامنے تندور جلتا ھوا نظر آرھا تھا اور ساتھ ھی ایک کھلا باورچی خانہ دکھائی دے رھا تھا، جہاں دو عورتیں لکڑی کے چولہے پر ایک بڑی مٹی کی ھانڈی میں کچھ پکاتی ھوئی نظر آرھی تھیں، بھوک بھی شدید لگی ھوئی تھی، اور باھر سے پکتے ھوئے کھانوں کی سوندھی سوندھی خوشبو نے تو اور بھوک میں چار چاند لگا دئے تھے، !!!!

    یہاں کے سیدھے سادے پرخلوص لوگ کتنے مہمان نواز ھوتے ھیں، گھر پر کوئی بھی آتا ھے تو اس کے آگے پیچھےخاطر مدارات میں لگ جاتے ھیں، کاش ھم سب کے دلوں میں بھی یہی محبت جذبہ خلوص ھو، اسی کمرے میں نیچے دستر خوان بچھا کر کھانا لگایا گیا، گرم گرم کھانوں سے بھاپ نکل رھی تھی، ایک طرف سبزی شاید پکی تھی اور ایک پلیٹ میں مرغی نظر آرھی تھی، اور سلاد کے ساتھ پودینہ کی چٹنی، اور پھر گھر کے تندور کی تازہ تازہ گرم گرم روٹیاں سوندھی اپنی ایک روائتی مہک کے ساتھ، کیا خوشگوار ماحول تھا، کتنے ھی مزیدار ذائقےدار کھانے کسی شاھی دسترخوان کے اعلیٰ ذائقوں سے کم نہیں تھے،!!!!!!

    کھانے سے فارغ ھوئے تو ذرا دروازہ کھول کر اھر جھانکنا چاھا تو سرد ھوا کے جھونکے نے واپس اندر آنے کیلئےمجبور کردیا، اندر کمرہ گرم تھا، میں نے فوراً ھی اپنی جیکٹ پہنی کانوں پر پشاوری ٹوپی ڈالی اور ایک گرم مفلر لپیٹ کر پھر سے قدم باہر نکالا، اب کچھ غنیمت تھا، لیکن پھر بھی سردی پیروں کی طرف سے لگ رھی تھی، مگر میں تو باھر کے مناظر کو دیکھتے ھی سردی کو تو بھول ھی گیا،رات ھوچکی تھی تمام آس پاس کے پہاڑون پر ایسا لگتا تھا کہ ساری کائنات کے ستارے ان پہاڑوں میں جگمگا رھے ھیں، ھر گھر کی کھڑکیوں دروازوں سے روشنیاں چھن چھن کے باھر کے فضا کو چمکدار بنائے ھوئے تھیں، دوسرے پہاڑ کی جانب پیر موڑہ شریف کی درگاہ بھی روشنیوں سے جگمگا رھی تھی اور پہاڑوں میں ‌وہاں سے سریلی مست قوالیوں کی گونج چاروں طرف گونج رھی تھی، دل یہی چاہ رھا تھا، بس اس طلسماتی منظر سے کبھی بھی دور نہ رھوں،!!!!!!!

    اندر کمرے سے آوازیں آرھی تھیں، شاید مجھے بلارھے تھے کیونکہ اندر کی انگیٹھی پر رکھی ھوئی کیتلی میں‌ چائے پک چکی تھی، اور پھر کھانے کے بعد ان سرد علاقوں میں گرم گرم چائے کا اپنا ایک الگ ھی مزا ھے، یہاں آکر تو میں سب دفتر کی ٹینشن، شہر کے بے ہنگام شور کو بھول چکا تھا، میں تو بس یہی چاھتا تھا کہ کہ یہاں کے ھر ایک یادگار لمحہ کو اپنی آنکھوں میں سما لوں، نہ جانے پھر کب یہاں آنے کا موقع ملے گا، !!!! باتیں کرتے کرتے کافی رات ھوگئی، اور اسی طرح پتہ ھی نہیں چلا کہ کب سب اپنے اپنے بستروں میں لحافوں میں گھس کر خوب گہری نیند سوگئے، صبح صبح کھڑکی کی درازوں سے سورج کی کرنیں پھوٹتی نظر آئیں تو میری آنکھ کھل گئی، باھر پرندوں کی آوازیں اور بھی مجھے باہر جانے کیلئے بےچین کررھی تھیں،!!!!

    دروازے کو آہستہ سے کھولا، سورج نکلا ھوا تھا، ٹھنڈ ابھی تک زیادہ تھی لیکن دھوپ کی وجہ سے کچھ شدت میں کمی تھی، کیا خوبصورت منظر تھا، پہاڑوں کے بیچوں بیچ کھڑا ھوا چاروں طرف ان خوبصورت مناظروں سے میں لطف اندوز ھورھا تھا، تمام پہاڑ ھرے بھرے لمبے لبے طویل چیڑ کے درخت بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھے تھے اور میرے سامنے چاروں طرف مختلف پھلوں کے درخت لگے ھوئے تھے، ناشتہ سے فارغ ھوکر ھم سب مل کر اور مزید نیچے کی طرف نکلے وھاں پر پانی کے جھرنے اور چشمے بہہ رھے تھے کیا حسین مناظر تھے، یہ ستمبر کا مہینہ تھا اور یہ سب کچھ تیں مہینے بعد سفید برف کی چادروں میں چھپ جانے والا تھا، قدرت بھی اس پیاری دھرتی پر کیا کیا رنگ بکھیرتی ھے، سبحان اللٌہ!!!!!!!!!

    ابھی اوپر مین روڈ بھی جانا تھا کیونکہ دوپہر کو ھمارے سالے صاحب اور انکی نوبیہاتا دلہن سے جو وعدہ کیا تھا کہ وہ لوگ دوسرے دن ھمارا جھیکاگلی کے اس موڑ پر انتظار کریں گے، اور میں نے یہ سوچا بھی تھا کہ کچھ پکانے کیلئے تازہ گوشت اور قیمہ وغیرہ بھی اوپر سے خرید لائیں گے، اور ساتھ ھی کچھ چاول اور مصالہ جات بریانی وغیرہ بنوانے کیلئے، اور کچھ میزبان کے بچوں کیلئے کچھ تحفے تحائف بھی خریدنے تھے، پھر اسی طرح اوپر چڑھنے لگے ساتھ میں وھاں کے بس ایک دو بندے ساتھ وھاں کے چند بچے بھی تھے اور میرا بڑا بیٹا ساتھ تھا جو تقریبا 8 سال کا تھا، اسے بھی میری طرح خوب گھومنے پھرنے کا شوق تھا، اوپر چڑھنا تو واقعی بہت مشکل مرحلہ تھا، لیکن وہان کے مقامی بچے تو اچھلتے اچھلتے تیزی سے چڑھتے جارھے تھے، اور میرا بیٹا بھی انہی کے جیسے چھلانگیں مارتا ھو جارھا تھا، اور میں پیچھے سے چیختا ھی جارھا تھا اور اسے تو کوئی فکر ھی نہیں تھی، وہ اپنے ھم عمر بچوں کے ساتھ خوب خوش خوش پہاڑ پر چڑھتا جارھا تھا،!!!!!

    اوپر جیسے ھی ھم پہنچے تو واقعی وہ دونوں بمعہ کار کے ھمارا انتظار کررھے تھے، میں نے تو ان کو بچوں کے ساتھ نیچے بھیج دیا، اور میں ڈرائیور کے ساتھ مری کے میں بازار چلا گیا، میرے ساتھ وہاں کے ایک میزبان کے بھی ساتھ ھی تھے، وھاں سے تازہ گوشت قیمہ اور ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور پھر واپس جھیکاگلی کی طرف آگئے مری سے تقریباً چار یا پانچ کلومیٹر کا فاصلہ ھی ھوگا، وہاں پر نیچے جانے کے موڑ پر ھی اتر گئے کار کا روکنا بھی صحیح نہیں تھا، کیونکہ پارکنگ کا مسئلہ تھا، اس لئے ڈرائیور کو کل دوپہر کا آنے کا کہہ کر انہیں رخصت کردیا، سامان تو دوسرے نے اٹھایا ھوا تھا، میں تو بس جھاڑیاں پکڑ پکڑ کر نیچے اتر رھا تھا، کبھی کبھی میں جگہ جگہ رک کر تھوڑا آرام بھی کرلیتا تھا، آخر ایک گھنٹے بعد ھے گھر تک پہنچ ھی گئے، اور بس صحن میں چارپائی پر دھوپ سیکنے بیٹھ گیا اور قدرتی نظاروں میں پھر گم ھوگیا، ساتھ ھی میرے سالے صاحب بھی، وہ تو میرا دوست بھی تھا، نئی نئی شادی کراکر میرے ساتھ ھی آگئے تھے، اور انہوں نے بھی خوب لطف اٹھایا،!!!!!!

    ھم خوب باتیں کرتے رھے، ھماری بیگمات وہاں کی عورتوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف اور ساتھ ھی دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی کررھی تھیں، اس صحن کے نیچے بھی جانوروں اور ذخیرہ گندم اور چارے کے اسٹور اور کمرے بنے ھوئے تھے جہاں انہوں نے بھینسیں بکریاں رکھی ھوئی تھی اس کے علاوہ مرغیاں تو کافی ادھر چلتی پھرتی نظر آرھی تھیں، کچھ تو اپنے چوزوں کے ساتھ دانہ چگ رھی تھیں، اور کبھی کبھی بادل بھی ھمارے ساتھ آس پاس ھی گھوم رھے ھوتے تھے جس سے کچھ نمی کا احساس ھوتا تھا، کھانا بن رھا تھا شہری اور گاؤں کی عورتیں دونوں مل کر کھانے پکانے میں مصروف تھیں، اور بچے اپنے ھم عمر دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے پھر رھے تھے،مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ اپنے بچے کہیں ادھر ادھر پھسل کر نیچے نہ گر جائیں، مگر ان کو کوئی پرواہ بھی نہیں تھی!!!!!!
    ----------------------------

    ھم خوب باتیں کرتے رھے، ھماری بیگمات وہاں کی عورتوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف اور ساتھ ھی دوپہر کے کھانے کی تیاری بھی کررھی تھیں، اس صحن کے نیچے بھی جانوروں اور ذخیرہ گندم اور چارے کے اسٹور اور کمرے بنے ھوئے تھے جہاں انہوں نے بھینسیں بکریاں رکھی ھوئی تھی اس کے علاوہ مرغیاں تو کافی ادھر چلتی پھرتی نظر آرھی تھیں، کچھ تو اپنے چوزوں کے ساتھ دانہ چگ رھی تھیں، اور کبھی کبھی بادل بھی ھمارے ساتھ آس پاس ھی گھوم رھے ھوتے تھے جس سے کچھ نمی کا احساس ھوتا تھا، کھانا بن رھا تھا شہری اور گاؤں کی عورتیں دونوں مل کر کھانے پکانے میں مصروف تھیں، اور بچے اپنے ھم عمر دوستوں کے ساتھ ادھر ادھر گھومتے پھر رھے تھے،مجھے ڈر بھی لگ رھا تھا کہ اپنے بچے کہیں ادھر ادھر پھسل کر نیچے نہ گر جائیں، مگر ان کو کوئی پرواہ بھی نہیں تھی!!!!!!

    نوبہاتا جوڑے نے بھی خوب پہلی مرتبہ ان خوبصورت پہاڑوں کے حسین طلسماتی نظاروں کا لطف اٹھایا، وھاں کے زیر زمین پانی کے چشموں کی اور اوپر سے چھنا چھن شور میں گرتے ھوئے جھرنوں اور چھوٹے آبشاروں کی خوبصورتی اور حسن کا زندگی میں پہلی بار نزدیک جاکر جائزہ لیا، اس کے علاؤہ وہاں کے خوبصورت مناظر میں اور بھی خوب لطف آتا جب ھلکی ھلکی پھوار پڑنا شروع ھوجاتی، اور عورتیں اور بچے تو سردی کی پرواہ کئیے بغیر ھی بارش میں خوب تفریح لیتے تھے، یہ تمام وادیاں سردیوں میں مکمل طور سے برف میں ڈھک جاتی ھیں، اور یہ مقامی لوگ ان دنوں محفوظ مقامات پر نقل مکانی پر مجبور ھوجاتے ھیں، مگر صرف اپنے ھی خرچے پر، یہ لوگ ھمارے ملک کے لئے کتنی محنت کرتے ھیں، لیکن ان کی پریشانیوں کا حال کوئی ان کے گھر جاکر کوئی ان سے پوچھے کہ موسموں کی ھر تکلیف سہنے کے باوجود یہ اپنے ملک کی قوم کیلئے پھل فروٹ اور دنیا کی نعمتیں ھم تک پہنچانے کے لئے ھر سال ان موسموں کی ناقابل برداشت صورت حال میں بھی کتنی خدمت کرتے ھیں، لیکن ان کو اس کا معاوضہ انہیں نہ ھونے کے برابر ملتا ھے، منڈی کے بڑے بڑے ٹھیکیدار یہاں آکر اپنی مرضی کی بہت ھی چند گنے چنے نوٹوں کے عوض زبردستی تمام باغوں کے مالک بن بیٹھتے ھیں اور پھل پکنے کے بعد سب کچھ توڑ کر لے جاتے ھیں، یہ لوگ بس دیکھتے ھی رہ جاتے ھیں، اگر یہ لوگ خود منڈی تک جائیں تو ان کو ان کا اپنا مال بیچنے کی اجازت نہیں ملتی، بلکہ ان سے غنڈوں کے ذریعے مال کو لوٹ ھی لیتے ھیں، یہی حال دوسرے کسانوں کا بھی ھوتا ھے،!!!!

    اتنا دکھ ھوتا ھے ان سب کی روداد سن کر ان کے بچوں کے لئے اچھی تعلیم اور صحت کیلئے کوئی بھی اچھے مراکز نہیں ھیں، جو بھی فلاح و بہبود کے ادارے ھیں ان لوگوں کی آڑ میں پیسہ بٹور رھے ھیں، اور وہ صرف اپنے ھی مفاد کیلئے اپنی ھی جیبیں بھر رھے ھیں،!!!! ھم نے وھاں پر اتنے لذیذ اور خوش ذائقہ سیب، بگوگوشہ،ناشپاتی کے علاوہ املوک اور دوسرے پھل بھی دیکھے اور کھائے بھی، جو انھوں نے خاص طور سے پہلے سے ھی اپنے ذخیرہ اسٹور میں رکھے ھوئے تھے جو میں نے اپنی زندگی میں شہروں میں کسی بھی فروٹ مارکیٹ میں نہیں دیکھے، نہ جانے یہ ٹھیکیدار لوگ ان سے ان کی محنت سے حفاظت کئے ھوئے پھلوں کو کہاں بیچ آتے ھیں جو قوم کو کھانے کو میسر نہیں ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان کو ان ظالم ٹھیکیداروں سے بچائے، آمین،!!!!!

    دوسرے دن جب ھم ان سے جدا ھورھے تھے تو میزبان کے تمام گھر والے آنسوؤں سے رو رھے تھے، اور ھمیں بھی ان سے بچھڑ کے بہت دکھ ھورھا تھا، ان کی میزبانی میں کوئی شک نہیں اپنوں سے بھی بڑھ کر ھماری جس خلوص دل سے خاطر مدارات کیں، اس کا صلہ کوئی بھی نہیں دے سکتا سوائے اللٌہ تعالیٰ کے،!!!! وہ ھمیں دعائیں دے رھے تھے، اور ھم سب ان کا شکریہ ادا کرتے ھوئے وداع ھورھے تھے، اوپر ھانپتے کانپتے پہنچے تو وہاں فوراً ھی سرد ھواؤں کے جھکڑ شروع ھوگئے، ھم سب اوپر کانپ رھے تھے حالانکہ سب نے گرم کپڑے اور شالیں لپیٹ رکھی تھیں اور ابھی تک ڈرائیور گاڑی لے کر نہیں پہنچا تھا، ھمارے ساتھ آئے ھوئے میزبان جو ھمارا سامان بھی اٹھا کر لائے اور ساتھ کافی پھل فروٹ بھی باندھ کر تحفے میں دئیے، اس خوش دل میزبانی کو میں اپنی زندگی میں کبھی بھول نہیں سکتا،!!!!

    کچھ ھی دیر میں گاڑی بھی آگئی سامان وغیرہ کار کی ڈگی میں رکھا اور وہاں سب کو الوداع کہتے ھوئے روانہ ھوگئے، پہلے تو کچھ دیر کے لئے بھور بن کے جنگلات کی طرف نکلے اور کار میں رھتے ھوئے ھی باھر سے ھی دیکھا، کیونکہ ٹھنڈی ھوائیں چل رھی تھیں، باھر نکلنے کی ھمت کسی میں بھی نہیں تھی، وھاں سے واپس اسلام آباد کیلئے روانہ ھوئے بیگمات کے اصرار پر مری کے سنر میں اپر مال اور لوئر مال روڈ کی سیر کرائی، مگر سرد ھواؤں اور جھکڑ کی وجہ سے زیادہ رکنا محال ھورھا تھا، اس لئے فوراً ھی وھاں سے جانے میں ھی بہتری سمجھی، ورنہ تو شاید سب کی قلفی جم جاتی، مری سے نکلے تو گھوڑا گلی کے پاس کچھ دیر کیلئے چائے پینے کیلئے رکے، دوپہر کا کھانا اور ناشتہ بھی ایک ساتھ ھی ھم لوگ کھا پی کر ھی گھر سے نکلے تھے، اس لئے صرف چائے پر ھی اکتفا کیا، اس سے کچھ جسم میں حرارت محسوس ھوئی، ورنہ تو منہ پر ناک بھی غائب نظر آتی تھی، اور ھاتھ پاؤں بھی سن ھوچکے تھے،!!!!!

    وہاں سے آگے نکلے تو پھر ھلکی ھلکی پھوار شروع ھوگئی تھی، اور ھمارے ڈرائیور صاحب بھی بل کھاتی ھوئی سڑک ہر بہت ھی محتاط ھو کر آہستہ آھستہ گاڑی چلارھے تھے، جیسے جیسے ھم پہاڑوں سے نیچے آرھے تھے، سردی کی شدت میں کمی ھوتی جارھی تھی، جب “چھتر“ کا علاقہ آیا تو کچھ دھوپ کے آثار دکھائی دئیے تو جان میں جان آئی، کچھ دیر کے لئے وہاں کے موسم کا بھی لطف اٹھایا، دھوپ کا مزا لیا اور ساتھ ھی وہاں کی ایک ندی کے پاس بیٹھ کر آس پاس کی حسین وادیوں کو آخری بار للچائی ھوئی نظروں سے جائزہ لیتے رھے، یہ علاقہ بالکل پہاڑوں کی آخری ڈھلان کا حصہ تھا، وہاں سے پہاڑوں کی اونچی اونچی چوٹیاں نظر آرھی تھیں،!!!!!

    وہاں سے بھی بالآخر روانہ ھوگئے، موسم بہت ھی خوشگوار ھوچکا تھا، سیدھا ھم اسلام آباد کے اپنے گیسٹ ھاؤس میں پہنچے، بہت ھی زیادہ تھک چکے تھے شام ھو چکی تھی، سامان وغیرہ کار سے نکالا اور کمروں میں رکھ دیا، اور ڈرائیور بھائی صاحب کا بہت ھی شکریہ ادا کیا، انہوں نے جس طرح ھمیں اپنی فیملی سے زیادہ خیال کیا اور اپنا سمجھ کر ھمیں ھمارے ملک کے خوبصورت اور حسین تر علاقوں کی سیر کرائی، جس کا احسان ھم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، آج بھی جب ھم وھاں کی تصویروں کو دیکھتے ھیں، تو ساری یادیں تازہ ھوجاتی ھیں، اور ھم اپنے ان بھائی کو اور ھمارے تمام میزبانوں کو دل سے ھمیشہ یاد کرتے ھیں اور بہت دعائیں دیتے ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو صدا خوش رکھے اور جائز خواھشات کی تکمیل کرے،!!!!!!
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]
    چھلے سال 14 اگست 2007 یوم آزادی کے موقعہ پر لی گئ ایک تصویر جس میں اس یوم آزادی کی پروقار تقریب کی مناسبت سے میں اپنے خیالات کا اظہار کررھا ھوں، میرے ساتھ ھماری کمپنی کے مدیراعلیٰ جن کا تعلق مصر سے ھے، اور ساتھ ھماری کمپنی میں کام کرنے والے ھمارے پاکستانی بھائی بھی نظر آرھے ھیں!!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    [​IMG]
    چھلے سال 14 اگست 2007 یوم آزادی کے موقعہ پر لی گئ ایک تصویر جس میں اس یوم آزادی کی پروقار تقریب کی مناسبت سے میں اپنے خیالات کا اظہار کررھا ھوں، میرے ساتھ ھماری کمپنی کے مدیراعلیٰ جن کا تعلق مصر سے ھے، اور ساتھ ھماری کمپنی میں کام کرنے والے ھمارے پاکستانی بھائی بھی نظر آرھے ھیں!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    وہاں سے بھی بالآخر روانہ ھوگئے، موسم بہت ھی خوشگوار ھوچکا تھا، سیدھا ھم اسلام آباد کے اپنے گیسٹ ھاؤس میں پہنچے، بہت ھی زیادہ تھک چکے تھے شام ھو چکی تھی، سامان وغیرہ کار سے نکالا اور کمروں میں رکھ دیا، اور ڈرائیور بھائی صاحب کا بہت ھی شکریہ ادا کیا، انہوں نے جس طرح ھمیں اپنی فیملی سے زیادہ خیال کیا اور اپنا سمجھ کر ھمیں ھمارے ملک کے خوبصورت اور حسین تر علاقوں کی سیر کرائی، جس کا احسان ھم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، آج بھی جب ھم وھاں کی تصویروں کو دیکھتے ھیں، تو ساری یادیں تازہ ھوجاتی ھیں، اور ھم اپنے ان بھائی کو اور ھمارے تمام میزبانوں کو دل سے ھمیشہ یاد کرتے ھیں اور بہت دعائیں دیتے ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو صدا خوش رکھے اور جائز خواھشات کی تکمیل کرے،!!!!!!

    میں اپنا یہ سفر اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا، کیونکہ یہ سفر میری زندگی کا طویل ترین سفر تھا، ساتھ میری چھوٹی سی فیملی بھی تھی، اور پہلی بار مجھے پاکستان کے خوبصورت علاقوں کا دیدار نصیب ھوا، جو کہ میں اپنے خوابوں میں بھی تصور نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

    ھمارا ملک پاکستان کتنا خوبصورت ھے، دنیا میں سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ھیں، اور ھم اس کے بارے میں کیا سوچتے ھیں،؟؟؟؟ محبت تو بہت کرتے ھیں لیکن عملی طور پر بے قدری کررھے ھیں،!!!!!

    کیا کیا کہیں کس کس پر روئیں، صرف اگر ھم اپنے بچوں پر ھی ایک سنجیدگی سے نظر ڈالیں تو خود بخود معلوم ھوجائے گا کہ ھم اپنے بچوں کو کن غلط راستوں پر ڈال رھیں ھیں،!!!!!

    کل ھی میں اپنے پیارے وطن سے واپس آیا ھوں، اور سوچتا ھوں کہ ھم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا دے رھے ھیں، اب تو ھم اتنی ترقی کرگئے ھیں، کہ بچے بچے کے پاس موبائل فون ھے، اور وہ اس کے ذریئے دن رات فضول باتوں اور مختلف بے کار اسکیموں میں sms کرکے اپنی زندگی کا قیمتی وقت برباد کررھے ھیں، اور ھر بچہ روزانہ تقریباً ایک ایک سو روپے کے کارڈ استعمال کرکے اپنے والدین کی محنت کی کمائی پر پانی پھیر رھا ھے، اور جہاں سے اسے رقم کی طلب میں دقت پیش آتی ھے تو ناجائز طور سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، اور ھم والدین خاموش تماشائی بنے ھوئے ھیں اور اپنے ھاتھوں سے ھی اپنی اولاد کو اپنے سامنے تباہ و برباد ھوتے ھوئے دیکھ رھیں ھیں،!!!!
    ------------------------------------------------

    تیزگام اپنے سفر کے اختتام پر تھی، اور اپنی منزل کو پانے کیلئے بہت تیز دوڑی چلی جارھی تھی، سب کچھ ایک خواب کی طرح محسوس ھو رھا تھا، کہاں کہاں گھومے پھرے، 15 دن کا وہ سفر میں کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گا، گھر پہنچ کر ایک شدید تھکن محسوس ھورھی تھی، مزید ایک دن اور آرام کرنے کے بعد دفتر کی راہ لی، وہاں پر فضا کچھ بدلی بدلی سی نظر آئی، کچھ لوگ میری اس تفریح سے ناخوش نظر آرھے تھے، کیونکہ دوبارہ پھر میری وجہ سے ان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ھونے کا امکان تھا، حالانکہ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میں کسی کے کام میں مداخلت نہیں کروں گا، چاھے وہ کتنی ھی غلطی ھی کیوں نہ کریں،!!!!

    مگر مجھے افسوس ھی رھا کہ ان چند لوگوں نے اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی نہ لائی، وہ ھمیشہ میرے خلاف منصوبے بناتے رھے اور مجھے وھاں سے فارغ ھونے کے لئے اپنی کوششوں کو مزید تقویت بخشی، آخرکار وہ دن آھی گیا کہ ان کو اس مقصد میں کامیابی ھوئی، جسکی تفصیل میں جانا نہیں چاھتا اور مجبوراً ایک دباؤ کے تحت مجھے وہ نوکری چھوڑنی ھی پڑی،اس کمپنی کے مالکان کو میرے بارے میں جھوٹے ثبوتوں کی بنیاد پر غلط رنگ دیا گیا، اللٌہ بڑا کارساز ھے، ایک در بند ھوتا ھے تو دوسرا در کھول دیتا ھے، اسی مہینے میں ھی مجھے میرے استاد کی طرف سے جوکہ سعودی عرب میں 1978 سے لے کر 1983 میرے ساتھ رھے تھے، ان کا پیغام مجھے میرے ایک دوست کی طرف سے ملا، کہ اگر میں سعودی عرب آنا چاھتا ھوں تو ویزے کا بندوبست کیا جائے، میں نے فوراً ھی حامی بھر لی، اور انہوں نے ویزا بھیج دیا، لیکن ویزا کچھ تاخیر سے پہنچا، ویزا تو لگ گیا لیکن پروٹیکٹر کے اجازت نامہ کیلئے کچھ پریشانی اٹھانی پڑی، جس کا ذکر میں نے شاید پہلے بھی ایک جگہ کیا تھا، جسے میں ڈھونڈ کر دھراتا ھوں،!!!!!

    ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب مجھے اسی اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر لیٹر ملا اور میں نے اسے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر کرتا رھا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ھوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ھی قسمت آزمائی کی جائے، فوراً ھی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ھی تھی،
    دوسرے دن ھی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ھوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ھوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ھوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!

    چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ھے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ھوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ھی بستر لگائے ھوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو اس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ھوا ھے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ھے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ھونا چاھئے،

    ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر میں کام جلدی کروانا چاھتے ھیں تو میں کرادونگا، وھی صاحب میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ھوئے بولے، !!!!!!
    کیا ھوا بھائی کام نہیں ھوا،؟؟؟؟؟؟

    میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
    نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ھے،!!!!!!

    اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
    ھاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!

    میرا سارا دن وہیں پر ضائع ھو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ھی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ھی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ھی لکھا ھوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ھونا چاھئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں ‌اٹھایا تھا، میں نے وھاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات کی کہ یہ مسئلہ ھے، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ھمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ھی ویزے ھیں، مجبوری ھے!!!!!

    مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ھوں اور مجھے وھاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ھی تقرری ھی لکھی ھوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ھوسکتا ھے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ھونا چاھئے،!!!!

    میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ھے ھم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ھی وھی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ھوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ھے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ھو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ھی دام بھی ھوگا!!!!

    مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ھی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، شادی شدہ بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ھی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ھونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ھی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ھاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور فارم لئے اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ھوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے ساتھ، !!!!!!

    کمال ھے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ھوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ھیں، سارے چور ھیں اور ھم سے پیسہ لے کر کام کرتے ھیں، اور ھم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ھیں، اگر کوئی بھی کام ھوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ھوں،!!!!!!

    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ھوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ھو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ھے، میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ‌ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ھوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ھوئے انکار کردیا، !!!!!

    جیسے وھاں سے مایوس ھوکر باھر نکلا وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ھاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاھئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!

    اس نے فوراً کہا،!!!
    دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارا کام ھوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ھی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ھو،!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    کیسے ھوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!

    اس نے جواب دیا کہ،!!!
    بس صرف پانچ ہزار روپے ھدیہ دینا ھوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ھونگے،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ھے، !!!!!

    اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
    ھاں دوسری تجویز بھی ھے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ھوگا، وھاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ‌ھے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!

    میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ھے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رھا، لیکن میں اسکی ھاں میں ھاں ملاتا ھوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرھا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ھی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ھی لگ رھا تھا،!!!!!!

    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ھوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ھوئے بھی دو مہینے ھو چکے تھے، ایک ھمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!

    بہرحال میں کچھ مایوس ھو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ھوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ھوچکا تھا،!!!!!

    وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، انہکو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ھوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ھوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ھے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ھوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ھے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!

    اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ھر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ھوجاتی ھے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وھاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ھی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ھوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ھی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ھی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ھونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا، اب تو میں ھمت ھار چکا تھا،!!!!!

    اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ھونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!

    خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ھیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ھوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ھم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ھیں !!!!!!!

    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکوں سا محسوس ھوا، اسی دوران میں وھاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ھوتے ھی وعدے کے مظابق خالد صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ھوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ھوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خوجہ خالدصاحب کا پتہ ھے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ھی ھارٹ اٹیک کے سبب انتقال ھوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ھے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ھیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ھی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ھوگی،!!!!

    یہ سنتے ھی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں‌ نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ھی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میرے بہت ھی مہربان انجارج رھے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ھی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ھی اچھا ساتھ رھا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رھے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ھونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ھی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ھے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“

    میں وھاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی ھزاروں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رھے تھے، انکے بھائی سے میری اچانک ملاقات ھوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ھی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ھوئی تھی، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ھوئے کہہ رھے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ھوئی ھے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رورھے تھے،!!!!!

    مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ھی نہیں آرھا تھا کہ انکا انتقال ھو گیا ھے، ان کا چہرہ بالکل ھشاش بشاش لگ رھا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ھی لیا تھا،!!!!!!

    خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ھوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ھوئے میں اجازت لے رھا تو ایک انکے ھی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،

    وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہون نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ھے اس کا کام ھونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ھی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ھوجائے گا، اپ کوئی فکر ھی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!

    مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ھی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رھا تھا، اور مجھے یہ یقین ھی نہیں
    ‌آرھا تھا کہ میرا کام ھوگیا ھے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ھوگیا،!!!!!!

    پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رھی تھی،!!!!!!!!
    انشااللہ تعالیٰ میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    وہاں سے بھی بالآخر روانہ ھوگئے، موسم بہت ھی خوشگوار ھوچکا تھا، سیدھا ھم اسلام آباد کے اپنے گیسٹ ھاؤس میں پہنچے، بہت ھی زیادہ تھک چکے تھے شام ھو چکی تھی، سامان وغیرہ کار سے نکالا اور کمروں میں رکھ دیا، اور ڈرائیور بھائی صاحب کا بہت ھی شکریہ ادا کیا، انہوں نے جس طرح ھمیں اپنی فیملی سے زیادہ خیال کیا اور اپنا سمجھ کر ھمیں ھمارے ملک کے خوبصورت اور حسین تر علاقوں کی سیر کرائی، جس کا احسان ھم زندگی بھر نہیں بھول سکتے، آج بھی جب ھم وھاں کی تصویروں کو دیکھتے ھیں، تو ساری یادیں تازہ ھوجاتی ھیں، اور ھم اپنے ان بھائی کو اور ھمارے تمام میزبانوں کو دل سے ھمیشہ یاد کرتے ھیں اور بہت دعائیں دیتے ھیں، اللٌہ تعالیٰ ان سب کو صدا خوش رکھے اور جائز خواھشات کی تکمیل کرے،!!!!!!

    میں اپنا یہ سفر اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا، کیونکہ یہ سفر میری زندگی کا طویل ترین سفر تھا، ساتھ میری چھوٹی سی فیملی بھی تھی، اور پہلی بار مجھے پاکستان کے خوبصورت علاقوں کا دیدار نصیب ھوا، جو کہ میں اپنے خوابوں میں بھی تصور نہیں کرسکتا تھا،!!!!!

    ھمارا ملک پاکستان کتنا خوبصورت ھے، دنیا میں سیاحت سے دلچسپی رکھنے والے اس کے حسن اور خوبصورتی کی تعریفیں کرتے ھیں، اور ھم اس کے بارے میں کیا سوچتے ھیں،؟؟؟؟ محبت تو بہت کرتے ھیں لیکن عملی طور پر بے قدری کررھے ھیں،!!!!!

    کیا کیا کہیں کس کس پر روئیں، صرف اگر ھم اپنے بچوں پر ھی ایک سنجیدگی سے نظر ڈالیں تو خود بخود معلوم ھوجائے گا کہ ھم اپنے بچوں کو کن غلط راستوں پر ڈال رھیں ھیں،!!!!!

    کل ھی میں اپنے پیارے وطن سے واپس آیا ھوں، اور سوچتا ھوں کہ ھم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا دے رھے ھیں، اب تو ھم اتنی ترقی کرگئے ھیں، کہ بچے بچے کے پاس موبائل فون ھے، اور وہ اس کے ذریئے دن رات فضول باتوں اور مختلف بے کار اسکیموں میں sms کرکے اپنی زندگی کا قیمتی وقت برباد کررھے ھیں، اور ھر بچہ روزانہ تقریباً ایک ایک سو روپے کے کارڈ استعمال کرکے اپنے والدین کی محنت کی کمائی پر پانی پھیر رھا ھے، اور جہاں سے اسے رقم کی طلب میں دقت پیش آتی ھے تو ناجائز طور سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ھے، اور ھم والدین خاموش تماشائی بنے ھوئے ھیں اور اپنے ھاتھوں سے ھی اپنی اولاد کو اپنے سامنے تباہ و برباد ھوتے ھوئے دیکھ رھیں ھیں،!!!!
    ------------------------------------------------

    تیزگام اپنے سفر کے اختتام پر تھی، اور اپنی منزل کو پانے کیلئے بہت تیز دوڑی چلی جارھی تھی، سب کچھ ایک خواب کی طرح محسوس ھو رھا تھا، کہاں کہاں گھومے پھرے، 15 دن کا وہ سفر میں کبھی بھی بھول نہیں پاؤں گا، گھر پہنچ کر ایک شدید تھکن محسوس ھورھی تھی، مزید ایک دن اور آرام کرنے کے بعد دفتر کی راہ لی، وہاں پر فضا کچھ بدلی بدلی سی نظر آئی، کچھ لوگ میری اس تفریح سے ناخوش نظر آرھے تھے، کیونکہ دوبارہ پھر میری وجہ سے ان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ھونے کا امکان تھا، حالانکہ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اب میں کسی کے کام میں مداخلت نہیں کروں گا، چاھے وہ کتنی ھی غلطی ھی کیوں نہ کریں،!!!!

    مگر مجھے افسوس ھی رھا کہ ان چند لوگوں نے اپنے رویہ میں کوئی تبدیلی نہ لائی، وہ ھمیشہ میرے خلاف منصوبے بناتے رھے اور مجھے وھاں سے فارغ ھونے کے لئے اپنی کوششوں کو مزید تقویت بخشی، آخرکار وہ دن آھی گیا کہ ان کو اس مقصد میں کامیابی ھوئی، جسکی تفصیل میں جانا نہیں چاھتا اور مجبوراً ایک دباؤ کے تحت مجھے وہ نوکری چھوڑنی ھی پڑی،اس کمپنی کے مالکان کو میرے بارے میں جھوٹے ثبوتوں کی بنیاد پر غلط رنگ دیا گیا، اللٌہ بڑا کارساز ھے، ایک در بند ھوتا ھے تو دوسرا در کھول دیتا ھے، اسی مہینے میں ھی مجھے میرے استاد کی طرف سے جوکہ سعودی عرب میں 1978 سے لے کر 1983 میرے ساتھ رھے تھے، ان کا پیغام مجھے میرے ایک دوست کی طرف سے ملا، کہ اگر میں سعودی عرب آنا چاھتا ھوں تو ویزے کا بندوبست کیا جائے، میں نے فوراً ھی حامی بھر لی، اور انہوں نے ویزا بھیج دیا، لیکن ویزا کچھ تاخیر سے پہنچا، ویزا تو لگ گیا لیکن پروٹیکٹر کے اجازت نامہ کیلئے کچھ پریشانی اٹھانی پڑی، جس کا ذکر میں نے شاید پہلے بھی ایک جگہ کیا تھا، جسے میں ڈھونڈ کر دھراتا ھوں،!!!!!

    ایک دفعہ شاید سنمبر 1989 میں جب مجھے اسی اسپتال کے لئے اکاؤنٹنٹ کی ملازمت کے سلسلے میں ایک آفر لیٹر ملا اور میں نے اسے قبول کرکے اپنے دستخط کئے اور واپس بھیج کر ویزے کا انتظآر کرتا رھا، مگر افسوس کہ ویزا لیٹ ھوگیا کیونکہ یہاں پاکستان میں تمام ویزے میڈیکل فیلڈ کے تھے، تو اکتوبر 1989کے آخیر میں میرے نام پر ھی ویزا بھیجا گیا، کسی ایجنٹ کے نام پر نہیں تھا، اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نہ خود ھی قسمت آزمائی کی جائے، فوراً ھی میں سعودی سفارت خانہ پہنچا، وہاں پہلے ویزا کنفرم کیا، اور فارم کے ساتھ پاسپورٹ جمع کرادیا، لیکن ویزے کی قسم “میل نرس“ کی ھی تھی،
    دوسرے دن ھی مجھے پاسپورٹ بمعہ ویزا اسٹمپ ھوئے مل گیا، مجھے خود حیرانگی ھوئی، کہ کوئی بھی پریشانی آٹھائے ھوئے میرے پاسپورٹ پر ویزا لگ گیا جبکہ پہلے پاسپورٹ کی تجدید کے لئے کافی پریشانی اٹھانی پڑی تھی،!!!!!!

    چلئے خیر اب ھم پہنچے پروٹیکٹر آفس جہاں پر نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کی اسٹمپ لگتی ھے اور ساتھ ھی انشورینس بھی کرانی پڑتی ھے، پہلے دن تو کچھ تاخیر سے پہنچا تو لائن میں لگ کر جب کھڑکی تک پہنچا تو کھڑکی بند اور پھر دوسرے دن صبح صبح پہنچ گیا اس وقت بھی بہت بڑی لمبی لائن لگی ھوئی تھی، ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے یہیں پر ھی بستر لگائے ھوئے تھے، بہرحال جب نمبر آیا تو فارم پاسپورٹ کے ساتھ دیا، تو اس نے یہ کہہ کر واپس کردیا کہ پاسپورٹ پر اپنا پیشہ بدلواؤ، میں نے کہا کہ بھئی پاسپورٹ پر تو پرائویٹ سروس لکھا ھوا ھے، کھڑکی سے اس نے غصہ میں جواب دیا کہ تمھیں نظر نہیں اتا، کہ ویزے پر پیشہ تو “میل نرس“ کا ھے، پاسپورٹ پر بھی یہی پیشہ ھونا چاھئے،

    ٌلائن میں لگنے سے پہلے مجھے ایک صاحب ملے تھے اور کہا بھی تھا کہ اگر میں کام جلدی کروانا چاھتے ھیں تو میں کرادونگا، وھی صاحب میرے پاس آئے اور اپنی ٹوپی سیدھی کرتے ھوئے بولے، !!!!!!
    کیا ھوا بھائی کام نہیں ھوا،؟؟؟؟؟؟

    میں نے مایوسی کی حالت میں کہا کہ،!!!
    نہیں اس نے پاسپورٹ پر پیشہ بدلوانے کو کہا ھے،!!!!!!

    اس آدمی نے میرا پاسپورٹ لیا اور دیکھنے لگا، اور کچھ دیکھ کر کہا!!!!
    ھاں بھئی پاسپورٹ آفس جاؤ اور وہاں سے اپنا پیشہ بدلوا کر لاؤ، اور باقی کام میں کرادوں گا،!!!!!

    میرا سارا دن وہیں پر ضائع ھو گیا ، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ویزا “میل نرس“ کا ھی تھا، کیونکہ یہاں پاکستان میں اس اسپتال کے سارے ویزے میڈیکل فیلڈ سے ھی تعلق رکھتے تھے، اور میرے پاسپورٹ پر صرف “پرائویٹ سروس“ ھی لکھا ھوا تھا، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس پر کوئی اعتراص تو نہیں ھونا چاھئے تھا، کیونکہ سعودی ایمبیسی نے کوئی بھی اعتراض نہیں ‌اٹھایا تھا، میں نے وھاں سعودی عرب میں اسی اسپتال میں ٹیلیفوں پر بات کی کہ یہ مسئلہ ھے، وھاں سے جواب ملا کہ آپ کا پیشہ یہاں آئیں گے تو بدل دیا جائے گا، لیکن اس وقت ھمارے پاس پاکستان کیلئے صرف میڈیکل پیشے سے تعلق رکھنے والے ھی ویزے ھیں، مجبوری ھے!!!!!

    مجبوراً میں وہاں پاسپوٹ آفس پہنچا، کافی پریشانی اٹھائی لیکن سیدھے طریقے سے میرا پیشہ بدل نہیں سکا، جبکہ میں نے ساری صورت حال انہیں بتائی کہ میں تو ایک اکاؤنٹنٹ ھوں اور مجھے وھاں سے ایک آفر لیٹر میں بھی دکھایا جس میں اکاونٹٹ کی ھی تقرری ھی لکھی ھوئی تھی، لیکن وہاں کے کسی بھی انچارج کو میں قائل نہ کرسکا، انہوں نے کہ یہ اسی صورت ھوسکتا ھے کہ آپ “میل نرس“ کا سرٹیفیکیٹ یہاں کے مقامی اسپتال سے لے آئیں اور وہ “میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ ھونا چاھئے،!!!!

    میں پاسپورٹ آفس کے مین گیٹ سے مایوسی کے عالم میں باھر نکلا تو کافی لوگ میری حالت دیکھ کر چپک گئے، بھائی صاحب آپ بتائے آپ کا کام کیا ھے ھم فوراً ابھی اسی وقت آپکا کام کرادیں گے، مجھے سامنے ھی وھی آدمی نظر آیا جس نے میرے پاسپورٹ کی تجدید کرائی تھی، وہ میرے پاس آیا اور سب لوگوں کو یہ کہہ کر بھگا دیا کہ یہ میرے گاھک ھیں،!!!، میں بھی انکی ٹیبل کے سامنے ایک اسٹول پر جاکر بیٹھ گیا، اور ساری روداد سنادی، انہوں نے کہا کہ جب میں یہاں آپکا خادم باھر میز لگا کر بیٹھا ھوں تو آپ کو اِدھر اُدھر بھٹکنے کی کیا ضرورت ھے،پہلے بھی آپکو پاسپورٹ تجدید کرانے میں کتنی مشکل پیش آئی تھی اور میں نے آپکا کام ایک گھنٹے میں کروادیا تھا، اب جب بھی کوئی بھی پاسپورٹ کے علاوہ بھی کوئی اور کسی بھی گورنمنٹ کے کھاتے کا کام ھو میرے پاس تشریف لائیں، میں یقین کے ساتھ کہتا ھوں کہ آپکا کام فوراً سے پیشتر کروادوں گا، مگر جیسا کام ویسا ھی دام بھی ھوگا!!!!

    مجبوری تھی کیونکہ اس ویزے کے آتے ھی میں یہاں ایک اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، شادی شدہ بال بچوں کے ساتھ تھا اور والدین بہن بھائی سب تھے ساتھ ھی گھر کا میں بڑا بیٹا بھی تھا، کیا کرتا مجبوراً میں نے اس سے پوچھا اسکے کتنے دام ھونگے،اس نے 500 روپے کا نسخہ بتایا اور 300 روپے گورنمنٹ کی فیس اس کے علاؤہ تھی جوکہ میں پہلے ھی بنک میں جمع کراچکا تھا، میں نے بھی کچھ رقم اسی سلسلے کے لئے ایک دوست سے ادھار لی ھوئی تھی، اسی وقت اسے اس کی مطلوبہ رقم اس کے ھاتھ میں رکھی، اور اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور فارم لئے اندر چلا گیا، اور صرف آدھے گھنٹے کے اندر اندر وہ باھر آگیا، میں سمجھا کہ شاید میرا کام نہیں ھوا، لیکن اس نے مجھے پاسپورٹ دے دیا، کھول کر دیکھا تو میرے پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور ایک صفحہ پر تصدیق شدہ مہر کے ساتھ اور متعلقہ انچارج کے ساتھ، !!!!!!

    کمال ھے میں نے اس سے پوچھا بھئی یہ کیسے ھوگیا، اس نے جواب دیا کہ جتنے بھی اندر بیٹھے ھیں، سارے چور ھیں اور ھم سے پیسہ لے کر کام کرتے ھیں، اور ھم بھی یہاں پر کچھ ان کی بدولت کچھ نہ کچھ کما لیتے ھیں، اگر کوئی بھی کام ھوا کرے میرے پاس بلاجھجک چلے آنا، میں تمھارے لئے کچھ نہ کچھ رعائت کردونگا، میری شکل پہچان لو، یہیں میں گیٹ کے سامنے بیٹھتا ھوں،!!!!!!

    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، اور دوسرے دن صبح صبح پروٹیکٹر آفس پہنچا اور میں جاکر سیدھا لائن میں لگ گیا، میں نہیں چاھتا تھا کہ اس آدمی سے ملوں اور پھر کوئی دوسرا غلط طریقہ اختیار کروں، اب تو کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا اور پاسپورٹ پر پیشہ “میل نرس“ کا تبدیل ھوچکا تھا، مجھے اس وقت مکمل امید تھی کہ اب کوئی اعتراض نہیں اٹھے گا، جب میرا نمبر آیا تو انھوں نے میرا نرسنگ کا سرٹیفکیٹ مانگا جو کہ “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے تصدیق شدہ بھی ھو، اور اس کے علاوہ انہوں نے ایک اور مسئلہ کھڑا کردیا کہ بھئی آج کل تو میڈیکل اسٹاف کو باھر جانے کیلئے وزارتِ صحت“ یعنی “منسٹری آف ھیلتھ“ سے اجازت نامہ یعنی “نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ“ لینا ضروری ھے، میں نے ان کو پھر نئے سرے سے پھر اپنے اکاونٹنٹ‌ کی سروس کا لیٹر دکھاتے ھوئے ساری روداد سنائی، مگر انہوں نے اپنی مجبوری ظاھر کرتے ھوئے انکار کردیا، !!!!!

    جیسے وھاں سے مایوس ھوکر باھر نکلا وہی آدمی پھر مل گیا، اور کہا،!!!! ھاں بھائی سناؤ تمھارا کام بنا یا نہیں،!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ!!!! نہیں انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں وزارتِ صحت سے اجازت نامہ چاھئے، اب یہ میں کہاں سے لاؤں،!!!!!!

    اس نے فوراً کہا،!!!
    دیکھو اس چکر میں نہ پڑو، اگر تم چاھتے ھو کہ تمھارا کام ھوجائے، تو مجھے کہو میں تمھارا آج ھی اور اسی وقت تمھارا کام کرادیتا ھو،!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    کیسے ھوگا یہ کام بھائی صاحب،!!!!

    اس نے جواب دیا کہ،!!!
    بس صرف پانچ ہزار روپے ھدیہ دینا ھوگا اور باقی گورنمنٹ کی فیس اور انشورینس وغیرہ الگ سے ادا کرنے ھونگے،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!
    اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ھے، !!!!!

    اس نے تنزیہ انداز میں کہا کہ،!!!
    ھاں دوسری تجویز بھی ھے، یہاں سے تمھیں اسلام آباد جانا ھوگا، وھاں پر وزارت صحت کے دفتر پہنچو، اور اپنی درخوست دو تو شاید وہ کچھ تمھاری فریاد پر غور کریں اور تمھیں باھر جانے کا اجازت نامہ دے دیں، مگر یہ اتنا آسان نہین ‌ھے بھائی، مجھے 5000 روپے دو اور فوراً اپنا کام ابھی اور اسی وقت کرالو،!!!!

    میرا دل نہیں مانا میں تو یہ سمجھا کہ شاید یہ مجھ سے بس روہے اینٹھنا چاھتا ھے، میں نے اس سے کل کے آنے کا بہانہ کرکے اس سے جان چھڑائی اور وہ شخص مجھے آخری وقت تک قائل کرنے کی کوشش کرتا رھا، لیکن میں اسکی ھاں میں ھاں ملاتا ھوا بس اسٹاپ تک پہنچا، وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلا آرھا تھا، شاید آج اس کے پاس کوئی مرغا نہیں پھنسا تھا اور آخرکار مجھے اسکو چائے پلا کر ھی فارغ کرنا پڑا، مجھے تو وہ کوئی فراڈ ھی لگ رھا تھا،!!!!!!

    تھک ھار کر میں گھر پر آگیا اور مجھے بہت ھی دکھ ھو رھا تھا، اسی چکر میں اچھی خاصی نوکری چھوڑ بیٹھا تھا، اور ادھار پر ادھار لئے جارھا تھا، ویزا تو لگ چکا تھا، پاسپورٹ پر بھی پیشہ تبدیل ھوچکا تھا، اور اسی دوران ویزے کو لگے ھوئے بھی ایک مہینہ گزر چکا تھا، ویزے کی معیاد شاید تین مہینے کی تھی، نومبر1989 کا آخری ھفتہ چل رھا تھا، نوکری چھوڑے ھوئے بھی دو مہینے ھو چکے تھے، ایک ھمارے جاننے والوں کے پاس پارٹ ٹائم ایک جاب کرنے لگا، جہاں سے وہ مجھے گزارے کیلئے ھر ھفتے کچھ نہ کچھ گزارے کیلئے میرے ھاتھ میں رقم رکھ دیتے تھے، میں ان کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا کہ انہوں نے میری اس مشکل کے دنوں میں مدد کی،!!!!

    بہرحال میں کچھ مایوس ھو چکا تھا، ھر کوئی مجھے ایک نیا مشورہ دے رھا تھا، والد صاحب مجھ سے الگ ناراض تھے، کہ نوکری چھوڑ کر ویزے کے چکر میں دو مہینے ضائع کرچکا تھا، جبکہ انہیں تمام کہانی سنا بھی دی لیکن انہیں سمجھ نہ آئی، خیر میں دوسرے دن ھی صرف اپنی بیگم کو اور امی کو بتا کر اسلام آباد روانہ ھوگیا، تاکہ وہاں سے وزارت صحت سے میرے باھر جانے کا اجازت نامہ لے لوں، شناختی کارڈ پاسپورٹ اور تمام ضروری دستاویزات، اسکول کالج سب اصل سرٹیفکیٹ اور ڈگری لئے اسلام آباد پہنچ گیا، دسمبر 1989 کا مہینہ شروع ھوچکا تھا،!!!!!

    وہاں اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں پہنچا انہیں اپنی تمام کہانی شروع سے سنائی، اور وہ مجھے انکے دوست کے پاس لے گئے، انہکو پھر نئے سرے سے ساری کہانی سنادی، انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرکے دیکھتا ھوں، دوسرے دن ان صاحب سے بات ھوئی تو انہوں نے کہا کہ بہت مشکل ھے اس کے لئے تو سب سے نرسنگ کا سرٹیفکیٹ بنوانا پڑے گا پھر اسے “پاکستان میڈیکل کونسل آف نرسنگ“ سے رجسٹر کروا کر باقائدہ تصدیق کرانا ھوگا، اور پھر اس تمام پروسس کے بعد آپ باھر جانے کیلئے وزارت صحت کو اجازت نامہ کیلئے درخواست دینی ھوگی، اب ان کی مرضی ھے کہ اجازت دیں یا نہ دیں،!!!!

    اس تمام کاروائی کیلئے ایک صاحب نے کہا کہ وہ یہ سارے کام کروادیں گے لیکن اس پر 45000 روپے تک کا خرچہ آئے گا، میں تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا، ھر دفعہ کوئی نئی مشکل کھڑی ھوجاتی ھے، پھر میں نے ایک کوشش اور ایک اور دوست جو میرے ساتھ پہلے 1978 سے 1983 تک سعودی عرب میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ساتھ کام کرچکے تھے، ان کے پاس پہنچا، وہ مجھے ایک کسی حکومت وقت کے ایک سیاسی کارکن کے پاس لے گئے، وہ مجھے فوراً ساتھ لے کر راولپنڈی کے پروٹیکٹر آف امیگریشن کے آفس لے گئے اور وھاں وہ مجھے سیدھا ایک ڈائریکٹر کتے پاس لے گئے، انہوں نے کہا کہ فارم وغیرہ بھر دو، اور کھڑکی پر جمع کرادو، فارم پہلے ھی سے میرے پاس پہلے کا بھرا ھوا رکھا تھا اس فارم پر انہوں نے دستخط کئے، اور میں نے کاونٹر پر جمع کرادیا، اور جو میرے ساتھ آئے تھے وہ واپس چلے گئے، خیر مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا کچھ ھی دیر میں ایک صاحب نے مجھے کاونٹر سے ھی پاسپورٹ بغیر پروٹیکٹر اسٹیمپ کے واپس کردیا، میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے کاغذات مکمل نہ ھونے کا بہانہ کیا، دو تین دفعہ اسی طرح سفارش سے کام کرانے کی کوشش کی لیکن ناکام رھا، اب تو میں ھمت ھار چکا تھا،!!!!!

    اسی طرح مجھے وہاں پر تقریباً 20 دن گزر چکے تھے، سخت سردیوں کے دن تھے میں نے اپنا ارادہ باھر جانے کا ترک کیا، اور راولپنڈی میں اپنی پرانی کنسٹرکشن کمپنی کے ھیڈ آفس پہنچ گیا اور وھاں اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی، ایک میرے پرانے باس جناب خواجہ خالد محمود صاحب کے پاس کافی دیر تک بیٹھا، اور اپنے سارے دکھ درد ان سے کہہ ڈالے، اور کہا کہ مجھے اب دوبارا یہیں پر آپ مجھے نوکری دلوادیں کیونکہ میں واپس خالی ھاتھ اسی طرح نہیں جاسکتا، کیونکہ والد صاحب بہت غصہ ھونگے، میں تو ان سے پوچھے بغیر یہاں آیا تھا،!!!!

    خواجہ خالد محمود صاحب نے مجھے کافی حوصلہ دلایا، اور کہا کہ،!!!! ایک کوشش اور کرکے دیکھتے ھیں، ایک میرے ڈاکٹر دوست ایک اسپتال میں کام کرتے ھیں، گھبراؤ نہیں، اگر کہیں کچھ نہ ھوسکا تو اسی کمپنی میں تمھارے لئے ضرور کوشش کریں گے، اور انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    وہ پھر مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے اور وہاں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، اور بعد میں میں نے ان سے اجازت لی، انہوں نے مجھے تاکید کی کہ شام کو یہیں میرے گھر پر آجانا تو ھم دونوں مل کر ساتھ اسپتال ایک دوست کے پاس چلیں گے اور تمھارے نرسنگ کے سرٹیفکیٹ کے بارے میں معلومات کریں گے، اسکے وزارت ھیلتھ میں بھی کافی تعلقات ھیں !!!!!!!

    مجھے ایک اور امید کی کرن نظر آئی، اور کچھ دل میں ایک سکوں سا محسوس ھوا، اسی دوران میں وھاں سے وقت گزارنے کیلئے ایک دوست کے پاس چلا گیا، اور شام ھوتے ھی وعدے کے مظابق خالد صاحب کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ ان کے گھر پر تالا لگا ھوا تھا، میں نے وہاں کھڑے ھوئے چند لوگوں سے پوچھا کہ خوجہ خالدصاحب کا پتہ ھے کہاں چلے گئے، ان میں سے ایک نے جواب دیا کہ ان کا کچھ دیر پہلے ھی ھارٹ اٹیک کے سبب انتقال ھوچکا ھے ان کی میت اس وقت ان کے والد صاحب کے گھر پر ھے، جو کوہ نور ملز میں کام کرتے ھیں،اور وہیں انکے بنگلے سے ھی رات کو عشاء کے بعد ان کی تدفین نزدیکی قبرستان میں ھوگی،!!!!

    یہ سنتے ھی میرے پیروں کے تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے چکر سے آنے لگے اور میں ‌وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے،!!!!!!

    اپنی زندگی میں ایسی ٹریجڈی میں‌ نے کبھی نہیں دیکھی تھی، کچھ وقت پہلے ھی میں نے ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا، وہ میرے بہت ھی مہربان انجارج رھے تھے، جب میں اسی شہر راولپنڈی میں ھی اس کمپنی میں 1983 سے 1985 تک میرا ان کا بہت ھی اچھا ساتھ رھا تھا، اور وہ ھمیشہ سب کے ساتھ بغیر کسی عذر کے خدمت کرتے رھے، اور آج شاید میری ان سے آخری ملاقات ھونی تھی، اس لئے میں ان سے کسی کام کے سلسلے میں مدد کیلئے آیا تھا، لیکن وہ میری مدد کئے بغیر ھی چلے گئے، مگر ان کی دعاء آج تک مجھے یاد ھے کہ “ انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گے“،!!!!!“

    میں وھاں سے سیدھا خواجہ خالد محمود صاحب کے گھر کوہ نور ملز کے رھائشی بنگلوز میں پہنچا، اور وہاں پر کافی ھزاروں کی تعداد میں لوگ ان کا آخری دیدار کرنے آئے تھے، ان میں سے کافی میرے بھی جاننے والے تھے اور سب کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ تو دھاڑیں مار کر رو رھے تھے، انکے بھائی سے میری اچانک ملاقات ھوئی، ان سے میری ملاقات ان کے مرحوم بھائی کے گھر پر ھی دوپہر میں کھانے پر ملاقات ھوئی تھی، وہ مجھ سے لپٹ گئے اور روتے ھوئے کہہ رھے تھے کہ آج آپکے ساتھ وہ دوپہر میں کھانے پر بالکل صحیح سلامت تھے ، اور اس وقت دیکھو ان کی میت رکھی ھوئی ھے،!!!! انکے والد صاحب بھی بہت رورھے تھے،!!!!!

    مجھے وہ اپنے ساتھ اندر لے گئے اور آخری دیدار کرایا، مجھے یقیں ھی نہیں آرھا تھا کہ انکا انتقال ھو گیا ھے، ان کا چہرہ بالکل ھشاش بشاش لگ رھا تھا، لگتا تھا کہ وہ ابھی اٹھیں گے اور کہیں گے چلو سید بھائی اور میرے ساتھ میرے کام کے لئے چل دیں گے، ان کے اس حادثہ کے بعد تو میں نے اپنا باھر جانے کا اردہ بدل ھی لیا تھا،!!!!!!

    خواجہ صاحب کی تدفین کے بعد سب سے رخصت لیتا ھوا، میں سیدھا اپنے دوست کے پاس آیا اور دوسرے دن اسی اپنی پرانی کمپنی میں دوستوں سے ملنے کیلئے گیا، اس دن اس کمپنی میں بالکل سوگ کا عالم تھا، سب سے ملتے ھوئے میں اجازت لے رھا تو ایک انکے ھی دوست جناب حاجی نسیم صاحب نے مجھ سے کہا کہ تمھارا کام اب میں کراونگا اس وقت میرے ساتھ چلو، وہ میرے والد صاحب کے دوستوں میں سے بھی تھے، مگر میں بے دلی سے صرف انکا دل رکھنے کیلئے ان کے ساتھ چل دیا،

    وہ مجھے ان کے دوست کی ایک ٹریول ایجنسی پر لے گئے، اور وہاں انہون نے کہا کہ یہ میرے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ھے اس کا کام ھونا چاھئے، ساری کہانی پھر سے میں نے سنائی، انہوں نے کہا کہ،!!!! کوئی مسئلہ ھی نہیں حاجی صاحب کل اسکا کام ھوجائے گا، اپ کوئی فکر ھی نہ کریں میں نے انہیں سارے دستاویزات دکھائے، انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاھئے آپ بس مجھے پاسپورٹ دے دیں اور کل آکر کسی بھی وقت لے جائیں، !!!!!!

    مجھے امید تو بالکل نہیں تھی لیکن مجھے مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی ایک دعاء پھر یاد آرھی تھی،!!!!!

    انشااللہ تعالی میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!

    دوسرے دن میں اسی ٹریول ایجنسی پر پہنچا اور وھاں پر انہوں نے مجھے کچھ انتظار کرنے کو کہا اور کسی کو ٹیلیفون کیا پھر کچھ ھی دیر میں ایک صاحب داخل ھوئے انہوں نے ان صاحب کو میرا پاسپورٹ دیا، انہوں نے پاسپورٹ کو چیک کیا اور مجھے تھما دیا کہ جاؤ بیٹا خوش رھو تمھارا کام ھوگیا، بس مجھے صرف 219 روپے انہیں دینے پڑے، مجھے تو یہ حیرت انگیز ھی دکھائی دے رھا تھا، اور مجھے یہ یقین ھی نہیں
    ‌آرھا تھا کہ میرا کام ھوگیا ھے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ھوگیا،!!!!!!

    پرواز کے دوران میرے کانوں میں مرحوم خواجہ خالد محمود صاحب کی یہ دعاء گونجتی رھی تھی،!!!!!!!!
    انشااللہ تعالیٰ میری دعاء یہی ھے کہ تم خالی ھاتھ واپس نہیں جاؤ گئے،!!!!!
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مجھے یہ یقین ھی نہیں ‌آرھا تھا کہ میرا کام ھوگیا ھے اور وہ بھی صرف 219 روپے میں،!!!!!!!! اور میں 31 دسمبر 1989 کو کراچی ائرپورٹ سے جدہ کیلئے ایک سعودیہ کی پرواز سے روانہ ھوگیا،!!!!!!!!!!!!!!

    میں ایک بار پھر تقریباً 5 سال کے وقفہ کے بعد کراچی سے سعودیہ کی طرف ھوائی سفر کررھا تھا، پہلے 1978 سے 1983 تک سعودیہ میں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں سروس پر معمور رھا تھا، اور اب دسمبر 1989 ایک اسپتال میں سروس کی آفر ھوئی تھی، یہ ایک اتفاق ھی تھا کہ اس اسپتال کو اسی کنسٹرکشن کمپنی نے تعمیر کا ذمہ لیا تھا، اور اس اسپتال کے اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کے انچارج جنہوں نے مجھے بلایا کیا تھا وہ بھی میرے اس پچھلے دور کے استاد بھی رہ چکے تھے،!!!!

    اس لئے مجھے کام کو سنبھالنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی، مگر مجھے ایک گہرے صدمے سے دوچار ھونا پڑا، کیونکہ میرے وہاں پہنچنے کے 12 دن بعد یعنی 12 جنوری 1990 کو میرے ھر دل عزیز والد صاحب اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے اور میں اتنا مجبور تھا کہ میں وہاں سے واپس پاکستان نہیں جاسکتا تھا، کیونکہ میرا پاسپورٹ مستقل اقامہ کیلئے جاچکا تھا، میں تقریباً مزید ایک مہینے تک اس شدید رنج و الم کی کیفیت کا شکار رھا، دل بالکل نہیں لگ رھا تھا، مجھے ھر وقت میرے والد کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے رھتا تھا اور ان کے الفاظ میرے کانوں میں گونجتے رھتے تھے، جو انہوں نے آخری بار ائرپورٹ پر مجھے رخصت کرتے ھوئے کہے تھے، کہ،!!!!
    “ بیٹا لگتا ھے کہ اب شاید تم سے میری ملاقات نہ ھو، اس لئے تم خاص طور سے اپنا خیال رھنا اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لینا کیونکہ میرے بعد کوئی بھی یہاں پر دیکھنے والا نہیں ھے سوائے اللٌۃ تعالیٰ کے“

    مجھے تو یہ سن کر ھی ائرپورٹ پر سکتہ طاری ھوگیا تھا اور میں نے روتے ھوئے اپنے والد سے کہا تھا کہ،!!!!
    “ آپ یہ کیا کہ رھے ھیں،!!! میں تو اپنے بچوں کو آپ کے بھروسے یہاں پر چھوڑے جا رھا ھوں، آپ ایسی باتیں نہ کریں آپ کا سایہ ھمارے سروں پر اللٌہ تعالیٰ ھمیشہ قائم رکھے،“

    مجھے کیا پتہ تھا کہ اچانک میرے جاتے ھی والد صاحب کا ساتھ اس طرح ھمیشہ کیلئے چھوٹ جائے گا، ورنہ میں تو کبھی بھی اس طرح ان کو چھوڑ کر نہیں جاتا، مجھے زندگی بھر اس کا افسوس ھی رھے گا کہ میں آخری وقت میں ان کو کاندھا بھی نہ دے سکا،!!!!
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مجھے کیا پتہ تھا کہ اچانک میرے جاتے ھی والد صاحب کا ساتھ اس طرح ھمیشہ کیلئے چھوٹ جائے گا، ورنہ میں تو کبھی بھی اس طرح ان کو چھوڑ کر نہیں جاتا، مجھے زندگی بھر اس کا افسوس ھی رھے گا کہ میں آخری وقت میں ان کو کاندھا بھی نہ دے سکا،!!!!

    اسی دکھ کے ساتھ میں نے اپنے وقت کو گزارتا رھا، میرے وھاں کے چند دوستوں اور ساتھیوں نے میرے اس مشکل وقت میں میرا بہت ساتھ دیا،اور اس ناقابل برداشت دکھ میں مجھے کافی بہلاتے رھے، اور ساتھ ساتھ دفتری کام کے دوران بھی میری بہت مدد کی، میرے پاس صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، آہستہ آہستہ کچھ دکھ کے زخم ھلکے ھوئے اور ایک سال بھی گزر گیا والدہ کے پاس میرے تین چھوٹے بھائی بھی تھے، جن میں سے ایک کی شادی ھوچکی تھی اور وہ سب میرے بچوں کا خاص خیال رکھتے تھے، مگر پھر بھی میرا دل ھمیشہ اس پردیس میں وہیں پاکستان میں ھی رھا، دل چاھتا تھا کہ جلد ھی میں پاکستان پہنچوں، اور والد صاحب کی قبر کی زیارت کروں، سب کو گلے سے لگاؤں، اور دلاسہ دوں، اور والدہ کو بھی جو اب شاید اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ھونگی، انکو بھی تسلی دوں ان کے گلے لگ کر خوب روؤں،!!!!!!

    عمرہ ادا کرتے ھوئے بھی خانہ کعبہ میں طواف کے دوران خوب رو رو کر دعائیں مانگتا تھا، مدینہ منورہ کی زیارت کے وقت روضہ اقدس (ص) :saw: کی جالیوں کے پاس جاکر حاضری دیتا اور وھیں پیارے نبی :saw: کی خدمت میں سلام اور درود شریف پڑھتا اور اللٌہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگتا رھا، اور اس طرح‌ مجھے کافی راحت اور سکون ملا، اس وقت میں جدہ میں تھا اور وہاں سے مکہ مکرمہ ڈیڑھ گھنٹہ کے میں پہنچ جاتے تھے اور مدینہ منورہ جانے کیلئے تقریباً چار پانچ گھنٹے لگتے تھے،!!!!!

    1991 کے آخیر یا 1992 کے شروع کا شاید کوئی مہینہ تھا جب وہ دن بھی آگیا کہ مجھے پاکستان سالانہ چھٹی پر جانا تھا، کچھ سامان والدہ اور بہن بھائیوں کیلئے اور بیوی بچوں کیلئے بھی لئے اور کچھ دوستوں اور رشتہ داروں کی فرمائش پر بھی تھوڑی بہت چیزیں لیں، اس دفعہ تو اپنے ساتھ ایک غم لئےجارھا تھا کہ وہاں پہنچوں گا تو اپنے والد کو نہیں پاؤں گا یہ سوچ سوچ کر میری انکھیں اشکبار ھوجاتی تھیں،!!!!!!
    ------------------------------------------

    اس دفعہ تو اپنے ساتھ ایک غم لئےجارھا تھا کہ وہاں پہنچوں گا تو اپنے والد کو نہیں پاؤں گا یہ سوچ سوچ کر میری انکھیں اشکبار ھوجاتی تھیں،!!!!!!

    ھر ایک انسان کو اس دنیا میں ھر نشیب فراز سے گزرنا پڑتا ھے، کبھی خوشیوں کو لئے فضا میں مست جھوم رھا ھوتا ھے تو کبھی رنج و علم کے پہاڑ جیسے بوجھ سر پر اُٹھائے مارا مارا پھرتا رھتا ھے، اسی کا نام دنیا ھے اور یہی ھمارے امتحان بھی ھیں،!!!!!!

    والد صاحب کے ھم سے بچھڑ جانے کے بعد گھر پر بڑا بھائی اور بڑا بیٹا ھونے کے ناطے مجھ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی تھی، ھم سب آٹھ بہن بھائی جن میں سے ھم چار بہن بھائیوں کی شادی والد صاحب کی زیرنگرانی میں ھی ھوئی تھیں، جن میں سے دو بہنیں اپنے اپنے گھروں کی ھوچکیں تھیں اور باقی دو بہنیں اور دو بھائیوں کی ابھی شادی ھونا ابھی باقی تھی، گھر میں دو بہووں کا اضافہ الگ سے تھا،!!!

    یہ اللٌہ تعالیٰ کا شکر تھا کہ ھم چاروں بھائی برسر روزگار تھے، والد صاحب جب تک حیات تھے ھمارا گھر ایک مضبوط چاردیواری کے مانند تھا،
    انکے جاتے ھی حالات نے ایک دم کروٹ لی، اور آھستہ آھستہ گھر کے ماحول نے نئی رنجشیوں کو جنم لیا، شادی شدہ بھائی بہنوں میں اختلافات پیدا ھونے شروع ھوگئے اور آپس میں ذرا ذرا سی بات پر ٹکراؤ ھونے لگا، میں نے بہت کوشش کی کہ ان اختلافات اور آپس کی رنجشوں ‌کو ختم کیا جائے لیکن افسوس کہ میری ساری محنت پر پانی پھر گیا، سب سے بڑی وجہ کہ میں تو باھر سعودی عرب میں تھا اور والد صاحب طرح مجھ میں وہ شعور نہیں تھا جس کے سہارے میں ایک اپنے گھر کو اکھٹا کر کے چل سکتا،!!!!!!

    میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ھوں کہ والد صاحب کے جانے کے بعد مجھ میں ڈر اور خوف کچھ بذدلی سی کیفیت طاری ھوگئی تھی، جس کا فائدہ میرے خاندان کے لوگوں نے اٹھایا اور ھم سب بہن بھائیوں کے دلوں میں رنجشیوں کا تال میل شروع ھوگیا، والدہ ھماری بالکل سیدھی سادی تھیں جو بھی ان کے کانوں میں کہتا وہ اسے صحیح مان لیتی تھیں، اسی آپس کی ناراضگیوں کی وجہ سے میں بہت پریشان ھوگیا، ھر میری مثبت کوشش میرے ھی خلاف دشمن بن کر میرے سامنے کھڑی ھوگئی، اور میں بگڑے ھوئے معاملات کو مفاھمت کے ذریعے سنبھالنے میں مکمل طور سے ناکام رھا،!!!!!!!

    اس وقت 1992 کے درمیان کا سال تھا اور میرے چار چھوٹے بچے تھے دو بیٹے اور دو بیٹیاں، بڑا بیٹا تقریبا“ 10 سال کا تھا اسکے بعد بیٹی 8 سال کی پھر ایک بیٹا 6 سال کا اور چھوٹی بیٹی تقریباً 4 سال کے لگ بھگ ھوگی، دونوں بڑے بچے کراچی کے ایک پرائویٹ اسکول میں پرائمری تعلیم حاصل کررھے تھے، ھماری بیگم اکیلی اس سب حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھیں اور میرے بغیر بھی کسی بھی ھمارے گھریلو معاملات میں مداخلت کرنے سے ڈرتی تھیں، ویسے بھی انہیں ھی ھر واقعہ کا مورد الزام ٹہرایا جاتا تھا، اور وہ انھی حالات کی وجہ سے بہت ھی زیادہ پریشان تھیں،

    خیر کیا کرسکتے تھے حالات کچھ زیادہ ھی بگڑ رھے تھے، میری کوئی بات سننے کو تیار ھی نہیں تھا اور میں مجبوراً، یہی کہہ سکتا ھوں کہ حالات سے ڈر کر فرار کا راستہ اختیار کرتے ھوئے اپنی بیوی اور بچوں کو عمرہ کے ویزے پر اپنے ساتھ یہاں جدہ لے آیا، اور وہاں پر ھمارے ایک رشتہ دار سے درخواست کرکے انکے گھر پر ایک کمرے میں پناہ لی، اور ھر مہینے کچھ رقم ھمارے اخراجات کے لئے انکو دینے لگا، اور مل جل کر رھنے لگے، اس طرح ذھنی کوفت کچھ کم ھوئی، دونوں بیٹوں کو فی الحال مسجد کے مدرسے میں داخل کرادیا جہاں وہ قران شریف حفظ کرنے لگے، عمرہ کا ویزہ ایک مہینہ کا تھا اس لئے ایک مہینے میں جتنا بھی ھوسکتا تھا سب نے کئی بار عمرے کی سعادت حاصل کی اور مدینہ منورہ میں جاکر مسجدنبوی (ص) میں روضہ مبارک :saw: کی زیارتیں کیں،!!!!!!

    والدہ سے خط و کتابت جاری تھی، انکے ساتھ دو بھائی اور دو بہنیں تھیں، اور حالات پہلے سے کچھ بہتر ھوگئے تھے، تقریباً سات یا آٹھ مہینہ تک ھی بچوں کو اپنے ساتھ رکھ سکا کیونکہ ایک تو عمرہ کے ویزے کی معیاد بھی ختم ھو چکی تھی، اتنی تنخواہ نہیں ملتی تھی کہ وہاں پر بچوں کو ساتھ رکھا جا سکے، اور انکی تعلیم پر بھی بہت اثر پڑ رھا تھا، لیکن ساتھ اس بات کی خوشی بھی تھی کہ دو بچوں نے کسی حد تک قران شریف صحیح تلفظ کے ساتھ چند پارے حفظ بھی کرلئے تھے، اس کے علاؤہ ایک اور ننھے مہمان کے آنے کی امید بھی ھو چکی تھی،!!!!!

    اس طرح پھر سے میں یہاں اکیلا رہ گیا، سات آٹھ مہینے پتہ ھی نہیں چلا کہ اتنی جلدی گزر گئے اور بیگم اور بچے واپس پاکستان چلے گئے، ائرپورٹ پر بہت ھی مشکل سے بچوں کو رخصت کیا، کچھ دنوں تک بالکل دل ھی نہیں لگا، لیکن آھستہ آھستہ اپنے آپ کو تسٌلی دے کر اپنے آپ کو روز مرہ کی معمولات کی طرف لے آیا، بعد میں پاکستان سے بیٹی کی پیدائیش کی خوشخبری ملی، اس کے دنیا میں آتے ھی کچھ میری قسمت بھی چمک پڑی میری ترقی ھوگئی تنخواہ میں کچھ اضافہ بھی کردیا گیا، اور اس کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے میرے کام کو بہت سراھا گیا ساتھ ھی مجھے بہترین خطابات سے نوازا بھی گیا،!!!!!!!

    1994 کا دور چل رھا تھا دفتری معاملات بھی بہت ھی اچھی طرح چل رھے تھے، نومولود بیٹی ایک سال کی ھونے والی تھی، میں نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا، صرف تصویروں سے ھی دل بہلاتا تھا، میرا دل بھی بہت چاہ رہا تھا اسے دیکھنے کیلئے، میرا دوسرا کنٹریکٹ ایگریمنٹ ختم ھونے والا تھا، اگلے دو سال کیلئے مزید بچوں کے بغیر اب یہاں ٹھرنا بہت مشکل لگ رھا تھا، میں نے نیا ایگریمنٹ کو تجدید کرنے سے انکار کردیا تھا، جس سے میرے استاد کو بہت ھی زیادہ افسوس ھوا، اور انہوں نے مینیجمنٹ سے بات کی کہ اگر میرے رتبہ کو مزید بڑھا کر تنخواہ میں ایک اچھا اضافہ کردیا جائے اور فیملی کے مراعت اور رھائیش کی سہولت دے دی جائے تو شاید میں نئے ایگریمنٹ کو تجدید کرانے کے حق میں ھو سکتا ھوں، لیکن مینیجمنٹ اتنی جلدی اپنے اصولوں کے خلاف نہیں جاسکتی تھی، مگر وہ مجھے چھوڑنا بھی نہیں چاھتے تھے،!!!!!!
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    1994 کا دور چل رھا تھا دفتری معاملات بھی بہت ھی اچھی طرح چل رھے تھے، نومولود بیٹی ایک سال کی ھونے والی تھی، میں نے ابھی تک اسے نہیں دیکھا تھا، صرف تصویروں سے ھی دل بہلاتا تھا، میرا دل بھی بہت چاہ رہا تھا اسے دیکھنے کیلئے، میرا دوسرا کنٹریکٹ ایگریمنٹ ختم ھونے والا تھا، اگلے دو سال کیلئے مزید بچوں کے بغیر اب یہاں ٹھرنا بہت مشکل لگ رھا تھا، میں نے نیا ایگریمنٹ کو تجدید کرنے سے انکار کردیا تھا، جس سے میرے استاد کو بہت ھی زیادہ افسوس ھوا، اور انہوں نے مینیجمنٹ سے بات کی کہ اگر میرے رتبہ کو مزید بڑھا کر تنخواہ میں ایک اچھا اضافہ کردیا جائے اور فیملی کے مراعت اور رھائیش کی سہولت دے دی جائے تو شاید میں نئے ایگریمنٹ کو تجدید کرانے کے حق میں ھو سکتا ھوں، لیکن مینیجمنٹ اتنی جلدی اپنے اصولوں کے خلاف نہیں جاسکتی تھی، مگر وہ مجھے چھوڑنا بھی نہیں چاھتے تھے،!!!!!!

    میرے واپس جانے کے آخری فیصلہ کے بعد انتظامیہ نے مجھے تمام مراعت کے ساتھ تنخواہ میں دگنا اضافہ دینے میں رضامندی ظاھر کردی لیکن میں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، کیونک مجھے پاکستان میں دو تین کمپنیوں سے اچھی پیکشش کی امید تھی، اس لئے تمام واجبات میں نے وصول کئے، انتظامیہ نے مجھے ایک موقعہ سوچنے کا دیا اور واپسی کا 6 مہینے کا ویزا لگا دیا ساتھ ھی واپسی تک کا ھوائی جہاز کا ٹکٹ بھی دیا، اور انہوں نے امید ظاھر کی کہ میں اپنے فیصلے پر نظرثانی ضرور کروں، اس وعدہ کے ساتھ کہ میں پاکستان جاکر اپنے خاندان والوں سے مشورہ کرونگا، میں وھاں سے رخصت ھوگیا،!!!!

    مجھے اپنے وطن واپس آکر بہت خوشی ھورھی تھی، ایک بہن کی شادی بھی ھونے والی تھی، جس کی تیاری کیلئے بھی مجھے کچھ وقت مل گیا تھا، لیکن میں چاھتا تھا کہ اس سے پہلے جہاں جہاں سے مجھے امید تھی وہاں کا ایک جائزہ بھی لے لوں، کراچی میں بھی اسی سلسلے میں دو تین کمپنیوں سے بات ھوئی جو لوگ مجھے جانتے تھے ان سے نوکری کے سلسلے میں ملاقات کی، اس کے علاؤہ میری سابقہ کمپنی کے اعلیٰ افسران سے بھی ملاقات ھوئی، اسی رابظہ سے میں نے ایک پروگرام لاھور اور راولپنڈی جانے کا بنایا، لاھور میں ایک اسپتال جو نیا نیا ھی تعمیر ھوا تھا، اس کی تعمیراتی کمپنی کے مالکان جو میری پرانی کمپنی کے ڈائریکٹران میں سے تھے، انہوں نے میری بہت آو بھگت کی اور ملازمت کی پیشکش بھی کی،اس کے علاوہ راولپنڈی میں بھی مجھے اچھی مراعت کی پیشکش کی گئی، اسکی وجہ یہی تھی کہ میں ان سب کے ساتھ سابقہ کمپنیوں میں کام کرچکا تھا، اور وہ میرے کام کرنے کے طریقہ کار کا بہت سرھاتے بھی تھے، یہ سب میرے آقا کا بہت بڑا کرم تھا،!!!!

    میں ان تمام مراعات کی پیشکش کو لے کر واپس آگیا، اور بہن کی شادی سے فارغ ھوکر سب گھر والوں ‌سے مشورہ بھی کیا کہ مجھے کونسی نوکری کو منتخب کرنا چاھئے، زیادہ تر لوگوں کی خواھش تھی کہ میں واپس سعودی عرب چلاجاؤں، کیونکہ وہاں کی آفر اچھی خاصی تھی اور اب تو انہوں نے فیملی کیلئے بھی ایک فلیٹ کے ساتھ تمام مراعت دینے کا وعدہ بھی کیا تھا، پاکستان میں بھی اس وقت کے لحاظ سے بہت اچھی اچھی آفر تھیں، میں کچھ فیصلہ نہیں کرپارھا تھا، کہ میرے لئے کیا بہتر ھوگا، لکن باقی سب لوگ مجھے جدہ واپس بھیجنے کے لئے بضد تھے، جس میں میری بیگم بھی شامل تھی،کیونکہ اب تو وہاں فیملی کی تمام سہولتیں بھی حاصل تھیں،!!!!!!!

    میرے استاد محترم جو وہیں جدہ میں موجود تھے، ان کا مجھے پیغام بار بار ملتا رھا کہ اس سے اچھا موقعہ دوبارہ نہیں ملے گا، اور یہ کہ اللٌہ تعالیٰ کا کرم ھے کہ ابھی اس وقت تمھاری ان کو ضرورت بھی ھے، نیا نیا اسپتال ھے تم ان کے تمام نظام کو جانتے ھو اور اسے مزید بہتر بنانے میں مجھے بھی تمھاری ضرورت ھے، اس لئے جلدی سے فیصلہ کرو ورنہ مجھے پاکستان سے دوسروں کو تمھاری جگہ پر بلانا پڑے گا، اور پاکستان میں بھی سب لوگ اسی حق میں تھے کہ لگی لگائی روزی اور رزق کو ٹھوکر نہیں مارنی چاھئے، اللٌہ تعالیٰ کو برا لگتا ھے کہیں ایسا نہ ھو کہ بعد میں پچھتانا پڑے، خیر اب ھر طرف سے مجبور ھوچکا تھا سب سے زیادہ بیگم بھی یہی چاھتی تھیں،!!!!

    آخرکار وہی ھوا جو اللٌہ کو منظور تھا، جب ویزا ختم ھونے میں ایک ھفتہ باقی رہ گیا تھا تو میں نے واپس جانے کی ٹھان ھی لی، سب لوگ میرے اس فیصلے پر بہت خوش ھوئے اور وھاں سعودی عرب میں میرے استاد کے ساتھ ساتھ تمام دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی، میرے جاتے ھی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدہ داروں نے مجھ سے رابطہ کیا اور میری واپسی پر اطمنان اور خوشی کا اظہار کیا، اور مجھے نئے ایگریمنٹ کے مطابق تمام مراعت بھی دے دی گئیں ساتھ ھی ایک چھوٹا مگر دو کمروں کا بہترین فلیٹ بھی دے دیا، میں تو خوشی سے پھولا نہیں سما رھا تھا، کیونکہ اب اس فلیٹ میں میرے ساتھ میرے بچے بھی ھونگے، اس طرح کی مراعت میں بہت ھی کم کسی کے نصیب میں آتی ھیں، میں اس قابل تو نہیں تھا صرف اور صرف اللٌہ کا کرم تھا، جس نے میری محنت کا صلہ دیا تھا،!!!!!

    یہاں آتے ھی آفس میں روزمرہ کے معمول دوبارہ شروع ھوگئے، اور میں نے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے اپنے آفس کے باقی ادھورے پروجیکٹس پر بہت محنت سے کام شروع کردیا اور ساتھ ھی فیملی ویزے کے لئے ضروری دستاویزات بھی داخل کرادیئے،!!!!!
    -----------------------------------------

    یہاں آتے ھی آفس میں روزمرہ کے معمول دوبارہ شروع ھوگئے، اور میں نے دوسرے ساتھیوں کی مدد سے اپنے آفس کے باقی ادھورے پروجیکٹس پر بہت محنت سے کام شروع کردیا اور ساتھ ھی فیملی ویزے کے لئے ضروری دستاویزات بھی داخل کرادیئے،!!!!!

    ایک ھفتہ کے بعد ھی مجھے بیگم اور بچوں کا مستقل رھائشی ویزا بھی مل گیا، جب اللٌہ مہربان ھوتا ھے تو سارے کام بھی جلدی جلدی ھونے لگتے ھیں، اس کے علاؤہ جس کام میں بھی ھاتھ ڈالتا تھا، وہ فوراً ھی وقت سے پہلے ختم ھوجاتا تھا، مجھے خود حیرانگی تھی، بہت سے دفتری معاملات کے ادھورے کام جو رہ گئے تھے، وہ بخوبی اچھی طرح اپنے انجام کو پہنچ گئے، جس سے میری بہت واہ واہ ھوئی، اور انتظامیہ بھی کافی مہربان تھی، اور وہ یہ بھی سوچ رھے ھونگے کہ انہوں نے مجھے دوبارہ بلا کر کوئی غلطی نہیں کی، میرے چند ایک کاموں کی وجہ سے انعامات اور اچھی کارکردگی کے سرٹیفکیٹ بھی دیئے گئے، اور کئی دفعہ “مہینہ کا بہترین اسٹاف“ بورڈ اف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں بھی چنا گیا،!!!!!!!

    1994 کا سال میرے لئے بہت سی خوشیاں لے کر آیا، تنخواہ میں اضافہ، فیملی کا ویزا، آفس میں کام کے سلسلے میں بہترین کارکردگی پر انعامات اور سرٹیفکیٹ، کہاں میں اس سال نوکری چھوڑکر جارھا تھا اور کایا ایسی پلٹی کہ مجھے واپس ھی آنا پڑا، یہ سب اللٌہ کا ھی کرم تھا کہ سنبھل گئے، اسے ایک معجزہ بھی کہہ سکتے ھیں، اگر میں ‌اپنی ضد پر اڑا رھتا تو شاید کوئی اور ھی بگڑی ھوئی صورت حال ھوتی، شکر ھے کہ وقت پر ھی اللٌہ کی مہربانی ھوگئی،!!!!!
     
  11. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    1994 کا سال میرے لئے بہت سی خوشیاں لے کر آیا، تنخواہ میں اضافہ، فیملی کا ویزا، آفس میں کام کے سلسلے میں بہترین کارکردگی پر انعامات اور سرٹیفکیٹ، کہاں میں اس سال نوکری چھوڑکر جارھا تھا اور کایا ایسی پلٹی کہ مجھے واپس ھی آنا پڑا، یہ سب اللٌہ کا ھی کرم تھا کہ سنبھل گئے، اسے ایک معجزہ بھی کہہ سکتے ھیں، اگر میں ‌اپنی ضد پر اڑا رھتا تو شاید کوئی اور ھی بگڑی ھوئی صورت حال ھوتی، شکر ھے کہ وقت پر ھی اللٌہ کی مہربانی ھوگئی،!!!!!

    اتنی خوشیاں میری حیثیت کے مطابق شاید میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھی ھونگی، اس وقت میں اپنے اس فلیٹ میں منتقل ھو چکا تھا جو مجھے کمپنی کی طرف سے ملا تھا،اور بار بار اسے خوب روزانہ آتے جاتے دیکھتا کہ کہیں کسی چیز کی کمی تو نہیں رہ گئی، ویزے کے پاکستان پہنچنے کے ایک ھفتہ بعد ھی بیگم بمعہ پانچوں بچوں کے پاسپورٹ پر ویزا اسٹمپ ھو چکے تھے، اور بس ھوئی جہاز کی سیٹوں کی بکنگ کا ھی انتظار تھا، ادھر مجھے بہت ھی زیادہ بےچینی ھورھی تھی،!!!!!

    فلیٹ کوئی زیادہ بڑا نہیں تھا بس دو چھوٹے کمروں کے ساتھ چھوٹا سا امریکن کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل تھا، اس کے علاؤہ ایک بہت ھی خوبصورت واش بیسن بہت بڑے آئینے کے ساتھ آویزاں تھا جو کچن اور باتھ روم کے درمیان تھا اور اس کے ساتھ ھی ایک خودکار واشنگ مشین بھی رکھی ھوئی تھی، دونوں کمروں میں سے ایک کمرہ بچوں کے لئے مخصوص کردیا تھا، جس میں دونوں سائیڈ پر دو دو بیڈ اوپر تلے لگے ھوئے تھے، اور دوسرا کمرہ اپنے لئے رکھا ھوا تھا جو دن میں تو ڈرائینگ روم کے طور پر استعمال ھوتا تھا مگر رات کو بیڈروم بنا لیتے تھے، جہاں ایک طرف کیبنٹ میں ایک چھوٹا ٹیلیویژن اور میوزک سسٹم قرینے سے سجا ھوا رکھا تھا، گنجائش کے لحاظ سے تو چھوٹا فلیٹ تھا لیکن بچے ابھی چھوٹے تھے تو گزارا ممکن ھوسکتا تھا!!!!!

    آخر وہ دن بھی آگیا جس دن میں جدہ ائرپورٹ پر کھڑا بےچینی سے اپنے بچوں کو لاؤنج سے باھر نکلنے کا انتظار کررھا تھا، فلائٹ کی زمین پر لینڈ کرنے کی اطلاع بورڈ پر نظر آرھی تھی، لیکن کافی دیر بعد بچے اور بیگم اپنے سامان کی ٹرالیوں سمیت باھر آگئے، اور چاروں بچے مجھ سے لپٹ گئے، میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو بھر آئے، بیگم کے گود میں چھوٹی بیٹی تھی، جسے دیکھتے ھی میرا مزید خوشی سے برا حال ھوگیا تھا،!!!!!
    ------------------------------------
    آخر وہ دن بھی آگیا جس دن میں جدہ ائرپورٹ پر کھڑا بےچینی سے اپنے بچوں کو لاؤنج سے باھر نکلنے کا انتظار کررھا تھا، فلائٹ کی زمین پر لینڈ کرنے کی اطلاع بورڈ پر نظر آرھی تھی، لیکن کافی دیر بعد بچے اور بیگم اپنے سامان کی ٹرالیوں سمیت باھر آگئے، اور چاروں بچے مجھ سے لپٹ گئے، میری آنکھوں میں خوشی سے آنسو بھر آئے، بیگم کے گود میں چھوٹی بیٹی تھی، جسے دیکھتے ھی میرا مزید خوشی سے برا حال ھوگیا تھا،!!!!!

    آج پھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ائرپورٹ سے گھر کی طرف کمپنی کی ڈبل کیبن پک اپ میں گھر کی طرف واپس آرھا تھا، سامان زیادہ تھا لیکن پیچھے سامان رکھنے کی اچھی خاصی گنجائش تھی، سارا سامان آرام سے آگیا تھا، آدھے گھنٹے میں ھم کمپنی کے رھائشی کمپاؤنڈ میں تھے، چند دوستوں کی مدد سے سارا سامان اپنے فلیٹ میں منتقل کیا، بچوں نے بھی چھوٹے چھوٹے بیگیج جو وہ ھاتھ میں لائے تھے، فلیٹ میں لے جاکر کچھ تھوڑی بہت مدد بھی کی،!!!!!

    سیڑھیوں سے پہلی منزل میں داخل ھوتے ھی سامنے اپنے ھی فلیٹ کا دروازہ نظر آتا تھا، بچے بہت خوش تھے، گھر میں ضرورت کا سامان میں پہلے ھی لاچکا تھا، کچن میں رکھا ھوا ریفریجریٹر تقریباً اوپر نیچے سب بھرا ھوا تھا، اور کچن کے ھر کیبنٹ میں کھانے پکانے کا ضروری ضروری سامان بمعہ مصالہ جات، دال، چاول، چینی، چائے، وغیرہ جو بھی میری سمجھ میں آسکا، دو دن پہلے ھی لے آیا تھا،!!!!!

    آج پہلے دن کی وجہ سے کھانے کا انتظام باھر سے کیا تھا، کچھ پکا پکایا ھی لے آیا تھا، اس کے علاوہ دوستوں کے گھر سے بھی چند کھانے پینے کی چیزیں بھی آچکی تھیں، سب نے مل کر ھلکا پھلکا کچھ کھا پی لیا اور شام کو چہل قدمی کے لئے باھر نکل گئے، !!!!!!!!!
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آج پہلے دن کی وجہ سے کھانے کا انتظام باھر سے کیا تھا، کچھ پکا پکایا ھی لے آیا تھا، اس کے علاوہ دوستوں کے گھر سے بھی چند کھانے پینے کی چیزیں بھی آچکی تھیں، سب نے مل کر ھلکا پھلکا کچھ کھا پی لیا اور شام کو چہل قدمی کے لئے باھر نکل گئے، !!!!!!!!!

    ویسے بھی اب جس طرف میری کہانی کا رخ ھے، اس وقت ھماری زندگی ھموار سطح پر چل رھی تھی اور بہت ھی پر سکون سی ھو گئی تھی، کیونکہ اس وقت بچوں کا ساتھ تھا، اس کے علاؤہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کی ادائیگی اور زیارت مدینہ شریف میں روضہ مبارک (ص) کے دیدار کی سعادت حاصل کرنے کیلئے جدہ سے ھمیں کافی مواقع اللٌہ تعالیٰ نے ھماری جھولی میں ڈالے، ھر مہینے ھمیں مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ جانے کی سعادت نصیب ھوتی رھی، کبھی کبھی تو ھر جمعرات کی رات کو خاص طور سے رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اس سعادت سے اللٌہ تعالیٰ نے ھمارے گناھوں کی بخشش کیلئے سنہرے موقعہ عطا کئے، ایک دفعہ سب بچوں کے ساتھ حج کی ادائیگی کی سعادت بھی نصیب ھوئی، جس میں ھمارے ساتھ بچوں کے نانا اور نانی بھی ساتھ تھے اور انکی خدمت کرنے کا بھی موقعہ ملا، آج وہ ھمارے درمیان نہیں ھیں، لیکن دلوں میں ان کی ساری یادیں اب تک تازہ دم ھیں، وہ بھی میرے والدین کی طرح میرے بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے، ھماری والدہ صاحبہ صرف عمرہ کی ھی سعادت حاصل کرسکیں، اور اب حج کرنے کا ارادہ ھے، والد صاحب تو پہلے ھی سے یہاں اپنی ملازمت کے دوران 1967 میں حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے!!!!

    اللٌہ تعالیٰ تمام مسلمان بھائیوں بہنوں کو ان مقدس مقامات کے دیدار اور حج و عمرہ کی ادائیگی کی دلی خواھش کی تکمیل فرمائے،آمین،!!!!!!

    وہاں پر شروع میں تو کچھ دنوں تک پاکستان ایمبیسی اسکول کے چکر لگاتے رھے اور اپنے چار بچوں کا داخلہ مختلف جماعتوں میں کرایا جو کہ بہت ھی مشکل کام تھا، کیونکہ ایک تو جدہ اور مکہ کے اطراف میں ایک ھی واحد پاکستانی اسکول تھا، اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بچے زیر تعلیم تھے، جہاں بچوں کے لئے تقریباً 100 منی بسیں تھیں جو مختلف علاقوں سے بچوں کو انکے گھروں سے اسکول لاتی اور واپس گھر چھوڑتی تھیں، اسکول کی عمارت بہت ھی خوبصورت، اور عزیزیہ کے علاقے میں واقع تھی، پڑھائی کا بہت اچھا انتظام تھا اور اس وقت کے ٹیچر بھی اپنی تعلیمی ماھرانہ صلاحیت کی وجہ سے مشہور تھے، اسکول کی انتظامیہ بھی بہت ھی منظم طریقے سے اسکول کو چلا رھی تھی،!!!!!

    میرا بڑا بیٹا جو اس وقت 1994 میں 12 سال کا ھوگا اسے پانچویں جماعت میں، اسکے بعد 10 سالہ بڑی بیٹی کو چوتھی جماعت میں، اس کے بعد چھوٹا بیٹا اس وقت 8 سال کا تھا دوسری جماعت میں اور سب سے چھوٹی بیٹی سے بڑی بیٹی جو اسوقت 6 سال کے لگ بھگ ھوگی اسے پہلی جماعت میں داخلہ دلادیا، سب سے چھوٹی بیٹی اس وقت تقریباً ڈیڑھ سال کی ھوگی، وہ تو بس سب کی آنکھ کا تارہ تھی، قصہ مختصر کہ میں نے جدہ میں اللٌہ کے فضل و کرم سے پانچوں بچوں، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو ساتھ لئے بمعہ اپنی بیگم کے بہت ھی خوشگوار زندگی کا آغاز کردیا تھا، اور یہ میری زندگی کے بہت ھی سنہرے دور کے پہلے باب کی شروعات تھی،!!!!!
    ؂؂----------------------------------------------

    قصہ مختصر کہ میں نے جدہ میں اللٌہ کے فضل و کرم سے پانچوں بچوں، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو ساتھ لئے بمعہ اپنی بیگم کے بہت ھی خوشگوار زندگی کا آغاز کردیا تھا، اور یہ میری زندگی کے بہت ھی سنہرے دور کے پہلے باب کی شروعات تھی،!!!!!

    اب تو روزانہ ایک اور ذمہ داری، پابندی کے ساتھ سر پر آگئی تھی، بچوں کو اپنے رھائشی کمپاؤنڈ کے صدر دروازے تک لے کر جانا اور اسکول بس کے آنے تک انتظار کرنا وہ بھی مختلف اوقات میں، پاکستان میں تو یہ سب ذمہ داریاں ھماری بیگم ھی نباہ لیتی تھیں، گھر کے روزمرہ کا سودا ھو، بچوں کے اسکول کا مسئلہ ھو، بجلی گیس کے بل کے علاؤہ بہت سارے باھر کے کام بھی بیگم ھی سنبھال لیتی تھیں، لیکن یہاں عورتوں کا اکیلے باھر نکلنا بہت ھی معیوب سمجھا جاتا ھے، اس کے علاوہ بھی اکیلی عورت بغیر محرم کے باھر نہیں جاسکتی ھے، اور بغیر حجاب یعنی کالے برقعہ کے نکلنا بھی قانوناً پابندی ھے، اور یہاں ویسے بھی اچھا نہیں لگتا، اسلئے مرد حضرات ھی باھر کے کام نبٹاتے تھے، یا اپنے ساتھ ھی عورتوں اور بچوں کو باھر لے جاتے ھیں،!!!!!

    صبح صبح بڑی بیٹی کے لئے اسکول کی بس ساڑے چھ بجے آتی تھی، اور پھر سات بجے کے وقت بڑے بیٹے کی بس پہنچتی تھی، اور باقی دونوں چھوٹے بچوں کے اسکول کا وقت دوپہر کو تھا، جو تقریباً دوپہر کے ایک بجے، جو بس بڑی بیٹی کو اسکول سے واپس چھوڑنے کے لئے گھر آتی تھی، وھی بس ساتھ ھی چھوٹے بچوں کو وہیں سے لے جاتی تھی، بڑے بیٹا تقریباً دو بجے تک اسکول کی دوسری بس سے واپس آجاتا تھا اور چھوٹے بچوں کی واپسی شام کو ساڑے چھ بجے تک ھوتی تھی، اس طرح بچوں کے اسکول کی فکر بھی دور ھوگئی تھی، صرف مین گیٹ تک بڑی بیٹی اور چھوٹے بچوں کو چھوڑنے اور واپس لانے کی میری ھی ذمہ داری ھوتی تھی، لیکن کبھی کبھی اسکول سے واپسی پر بچے خودبخود ھی جیسے ھی بس کمپاؤنڈ پر اتارتی تھی، فوراً ھی بھاگتے ھوئے اپنے فلیٹ میں پہنچ جاتے، ویسے بھی کوئی فکر کی بات نہیں تھی کیونکہ وہاں سیکورٹی کا خاص انتظام تھا، کمپاونڈ کے گیٹ کے ساتھ ھی سیکورٹی گارڈ کا کمرہ تھا، جہاں سے اندر اور باھر آنے جانے والوں پر خاص نظر رکھی جاتی تھی،!!!!!

    میں اکثر گیٹ پر بچوں کو گیٹ پر اسکول کی بس میں بٹھانے اور واپسی پر، بس کے آنے سے 5 منٹ پہلے ھی پہنچ جاتا تھا، اور مجھے بہت ھی زیادہ خوشی ھوتی تھی جب میں پاکستان ایمبیسی اسکول کی بس کو وہاں آتے جاتے دیکھتا تھا، اس پر عربی میں بڑے بڑے حروف سے یہ لکھا ھوتا تھا، “ مدرسہ سفارہ الباکستانیہ“ جسے پڑھ کر میرے دل و دماغ میں میرے پاک وطن کی مٹی کی سوندھی سی خوشبو بس جاتی تھی، لڑکیوں کے یونیفارم بھی ھمرے وطن کے سبز ھلالی پرچم کی طرح سبز اور سفید رنگ کے تھے، لڑکوں کے یونیفارم خاکی اور سفید رنگ کے تھے، ویسے بھی یہاں پر جہاں بھی میں سبز ہلالی پرچم یا پاکستان کا نام لکھا ھوا دیکھتا ھوں، تو میرا دل اسے سلیوٹ کرنے کو چاھتا ھے اور خوشی سے میری آنکھیں بھر آتی ھیں، اور حقیقتاً کئی دفعہ قدرتی میرے ھاتھوں نے پاکستانی پرچم کو دیکھ کر سلیوٹ بھی کیا ھے!!!!!!
    ----------------------------------------------

    ویسے بھی یہاں پر جہاں بھی میں سبز ہلالی پرچم یا پاکستان کا نام لکھا ھوا دیکھتا ھوں، تو میرا دل اسے سلیوٹ کرنے کو چاھتا ھے اور خوشی سے میری آنکھیں بھر آتی ھیں، اور حقیقتاً کئی دفعہ قدرتی میرے ھاتھوں نے پاکستانی پرچم کو دیکھ کر سلیوٹ بھی کیا ھے!!!!!!

    کچھ تو ھے میرے وطن کی مٹی کی خوشبو میں،چاھے کیسے بھی حالات کیوں نہ ھوں، ھمیشہ دل یہی چاھتا ھے کہ اڑ کر اپنے وطن پہنچ جاؤں، کسی بھی شہر میں ھی کیوں نہ ھو ھمارے پیارے وطن کا ھر شہر اپنا لگتا ھے، ھر جگہ ھمارے وطن میں تمام لوگ ایک دوسرے سے بہت ھی اخلاق و محبت سے ملتے ھیں، اپنے وطن میں کسی بھی شہر، گاؤں یا کسی بھی جگہ جائیں، کبھی بھی اجنبیت محسوس ھی نہیں ھوتی، جس طرح کہ پردیس میں ھوتی ھے، ھمارے یہاں صرف چند سماج دشمن عناصر ھیں جو صرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے ایک دوسرے کے دلوں میں کسی نہ کسی طرح نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رھتے ھیں،!!!!

    یہاں اُس وقت بھی اور اب بھی میرے ساتھ تمام پاکستانی ھیں جن کا تعلق پاکستان کے ھر علاقے سے ھے، اور سب ایک دوسرے کے ساتھ بہت ھی خلوص کے ساتھ پیش آتے ھیں، ساتھ مل جل کر ایک دوسرے کی کام میں مدد بھی کرتے ھیں، کبھی کبھی کوئی آپس میں کسی غلط فہمی کی بناء پر اگر کوئی ناراضگی بھی ھو جاتی ھے تو ایک دوسرے کو سب مل کر گلے سے لگا کر کسی بھی قسم کی ناراضگی کو فوراً ختم بھی کردیتے ھیں،،!!!!!

    اس کے علاوہ یہاں پر تمام پاکستانی فیملیاں مختلف قسم کی تقریبات بھی منعقد کرتی رھتی ھیں، جس میں پاکستانی فیملیز کے علاوہ انڈین، اور دوسری فیملیز کو بھی شریک کی دعوت دیتے ھیں، جس کی وجہ سے ھم سب پاکستانیوں کو دوسری قوموں ‌میں بھی بہت ھی زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے، اور اسی طرح وہ سب بھی ھم پاکستانیوں کو اپنی ھر تقریب میں بلاتے ھیں، پردیس میں رھتے ھوئے اپنے وطن کی بہت یاد آتی ھے، اسی لئے شاید ایک دوسرے سے مل کر اپنے غموں اور دکھوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو اپنی اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ھیں،!!!!

    کاش کہ ھمارے حکمران اور تمام سیاسی جماعتیں ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کیلئے سوچیں، ایک دوسرے کے اختلافات کو بھلادیں اور آپس میں مل کر خلوص دل سے تمام لوگوں میں اخوت اور یکجہتی کی فضا پیدا کریں،!!!!!
     
  13. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    آج پہلے دن کی وجہ سے کھانے کا انتظام باھر سے کیا تھا، کچھ پکا پکایا ھی لے آیا تھا، اس کے علاوہ دوستوں کے گھر سے بھی چند کھانے پینے کی چیزیں بھی آچکی تھیں، سب نے مل کر ھلکا پھلکا کچھ کھا پی لیا اور شام کو چہل قدمی کے لئے باھر نکل گئے، !!!!!!!!!

    ویسے بھی اب جس طرف میری کہانی کا رخ ھے، اس وقت ھماری زندگی ھموار سطح پر چل رھی تھی اور بہت ھی پر سکون سی ھو گئی تھی، کیونکہ اس وقت بچوں کا ساتھ تھا، اس کے علاؤہ مکہ مکرمہ میں عمرہ کی ادائیگی اور زیارت مدینہ شریف میں روضہ مبارک (ص) کے دیدار کی سعادت حاصل کرنے کیلئے جدہ سے ھمیں کافی مواقع اللٌہ تعالیٰ نے ھماری جھولی میں ڈالے، ھر مہینے ھمیں مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ جانے کی سعادت نصیب ھوتی رھی، کبھی کبھی تو ھر جمعرات کی رات کو خاص طور سے رمضان کے بابرکت مہینے میں بھی اس سعادت سے اللٌہ تعالیٰ نے ھمارے گناھوں کی بخشش کیلئے سنہرے موقعہ عطا کئے، ایک دفعہ سب بچوں کے ساتھ حج کی ادائیگی کی سعادت بھی نصیب ھوئی، جس میں ھمارے ساتھ بچوں کے نانا اور نانی بھی ساتھ تھے اور انکی خدمت کرنے کا بھی موقعہ ملا، آج وہ ھمارے درمیان نہیں ھیں، لیکن دلوں میں ان کی ساری یادیں اب تک تازہ دم ھیں، وہ بھی میرے والدین کی طرح میرے بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے، ھماری والدہ صاحبہ صرف عمرہ کی ھی سعادت حاصل کرسکیں، اور اب حج کرنے کا ارادہ ھے، والد صاحب تو پہلے ھی سے یہاں اپنی ملازمت کے دوران 1967 میں حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کرچکے تھے!!!!

    اللٌہ تعالیٰ تمام مسلمان بھائیوں بہنوں کو ان مقدس مقامات کے دیدار اور حج و عمرہ کی ادائیگی کی دلی خواھش کی تکمیل فرمائے،آمین،!!!!!!

    وہاں پر شروع میں تو کچھ دنوں تک پاکستان ایمبیسی اسکول کے چکر لگاتے رھے اور اپنے چار بچوں کا داخلہ مختلف جماعتوں میں کرایا جو کہ بہت ھی مشکل کام تھا، کیونکہ ایک تو جدہ اور مکہ کے اطراف میں ایک ھی واحد پاکستانی اسکول تھا، اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بچے زیر تعلیم تھے، جہاں بچوں کے لئے تقریباً 100 منی بسیں تھیں جو مختلف علاقوں سے بچوں کو انکے گھروں سے اسکول لاتی اور واپس گھر چھوڑتی تھیں، اسکول کی عمارت بہت ھی خوبصورت، اور عزیزیہ کے علاقے میں واقع تھی، پڑھائی کا بہت اچھا انتظام تھا اور اس وقت کے ٹیچر بھی اپنی تعلیمی ماھرانہ صلاحیت کی وجہ سے مشہور تھے، اسکول کی انتظامیہ بھی بہت ھی منظم طریقے سے اسکول کو چلا رھی تھی،!!!!!

    میرا بڑا بیٹا جو اس وقت 1994 میں 12 سال کا ھوگا اسے پانچویں جماعت میں، اسکے بعد 10 سالہ بڑی بیٹی کو چوتھی جماعت میں، اس کے بعد چھوٹا بیٹا اس وقت 8 سال کا تھا دوسری جماعت میں اور سب سے چھوٹی بیٹی سے بڑی بیٹی جو اسوقت 6 سال کے لگ بھگ ھوگی اسے پہلی جماعت میں داخلہ دلادیا، سب سے چھوٹی بیٹی اس وقت تقریباً ڈیڑھ سال کی ھوگی، وہ تو بس سب کی آنکھ کا تارہ تھی، قصہ مختصر کہ میں نے جدہ میں اللٌہ کے فضل و کرم سے پانچوں بچوں، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو ساتھ لئے بمعہ اپنی بیگم کے بہت ھی خوشگوار زندگی کا آغاز کردیا تھا، اور یہ میری زندگی کے بہت ھی سنہرے دور کے پہلے باب کی شروعات تھی،!!!!!
    ؂؂----------------------------------------------

    قصہ مختصر کہ میں نے جدہ میں اللٌہ کے فضل و کرم سے پانچوں بچوں، تین بیٹیوں اور دو بیٹوں کو ساتھ لئے بمعہ اپنی بیگم کے بہت ھی خوشگوار زندگی کا آغاز کردیا تھا، اور یہ میری زندگی کے بہت ھی سنہرے دور کے پہلے باب کی شروعات تھی،!!!!!

    اب تو روزانہ ایک اور ذمہ داری، پابندی کے ساتھ سر پر آگئی تھی، بچوں کو اپنے رھائشی کمپاؤنڈ کے صدر دروازے تک لے کر جانا اور اسکول بس کے آنے تک انتظار کرنا وہ بھی مختلف اوقات میں، پاکستان میں تو یہ سب ذمہ داریاں ھماری بیگم ھی نباہ لیتی تھیں، گھر کے روزمرہ کا سودا ھو، بچوں کے اسکول کا مسئلہ ھو، بجلی گیس کے بل کے علاؤہ بہت سارے باھر کے کام بھی بیگم ھی سنبھال لیتی تھیں، لیکن یہاں عورتوں کا اکیلے باھر نکلنا بہت ھی معیوب سمجھا جاتا ھے، اس کے علاوہ بھی اکیلی عورت بغیر محرم کے باھر نہیں جاسکتی ھے، اور بغیر حجاب یعنی کالے برقعہ کے نکلنا بھی قانوناً پابندی ھے، اور یہاں ویسے بھی اچھا نہیں لگتا، اسلئے مرد حضرات ھی باھر کے کام نبٹاتے تھے، یا اپنے ساتھ ھی عورتوں اور بچوں کو باھر لے جاتے ھیں،!!!!!

    صبح صبح بڑی بیٹی کے لئے اسکول کی بس ساڑے چھ بجے آتی تھی، اور پھر سات بجے کے وقت بڑے بیٹے کی بس پہنچتی تھی، اور باقی دونوں چھوٹے بچوں کے اسکول کا وقت دوپہر کو تھا، جو تقریباً دوپہر کے ایک بجے، جو بس بڑی بیٹی کو اسکول سے واپس چھوڑنے کے لئے گھر آتی تھی، وھی بس ساتھ ھی چھوٹے بچوں کو وہیں سے لے جاتی تھی، بڑے بیٹا تقریباً دو بجے تک اسکول کی دوسری بس سے واپس آجاتا تھا اور چھوٹے بچوں کی واپسی شام کو ساڑے چھ بجے تک ھوتی تھی، اس طرح بچوں کے اسکول کی فکر بھی دور ھوگئی تھی، صرف مین گیٹ تک بڑی بیٹی اور چھوٹے بچوں کو چھوڑنے اور واپس لانے کی میری ھی ذمہ داری ھوتی تھی، لیکن کبھی کبھی اسکول سے واپسی پر بچے خودبخود ھی جیسے ھی بس کمپاؤنڈ پر اتارتی تھی، فوراً ھی بھاگتے ھوئے اپنے فلیٹ میں پہنچ جاتے، ویسے بھی کوئی فکر کی بات نہیں تھی کیونکہ وہاں سیکورٹی کا خاص انتظام تھا، کمپاونڈ کے گیٹ کے ساتھ ھی سیکورٹی گارڈ کا کمرہ تھا، جہاں سے اندر اور باھر آنے جانے والوں پر خاص نظر رکھی جاتی تھی،!!!!!

    میں اکثر گیٹ پر بچوں کو گیٹ پر اسکول کی بس میں بٹھانے اور واپسی پر، بس کے آنے سے 5 منٹ پہلے ھی پہنچ جاتا تھا، اور مجھے بہت ھی زیادہ خوشی ھوتی تھی جب میں پاکستان ایمبیسی اسکول کی بس کو وہاں آتے جاتے دیکھتا تھا، اس پر عربی میں بڑے بڑے حروف سے یہ لکھا ھوتا تھا، “ مدرسہ سفارہ الباکستانیہ“ جسے پڑھ کر میرے دل و دماغ میں میرے پاک وطن کی مٹی کی سوندھی سی خوشبو بس جاتی تھی، لڑکیوں کے یونیفارم بھی ھمرے وطن کے سبز ھلالی پرچم کی طرح سبز اور سفید رنگ کے تھے، لڑکوں کے یونیفارم خاکی اور سفید رنگ کے تھے، ویسے بھی یہاں پر جہاں بھی میں سبز ہلالی پرچم یا پاکستان کا نام لکھا ھوا دیکھتا ھوں، تو میرا دل اسے سلیوٹ کرنے کو چاھتا ھے اور خوشی سے میری آنکھیں بھر آتی ھیں، اور حقیقتاً کئی دفعہ قدرتی میرے ھاتھوں نے پاکستانی پرچم کو دیکھ کر سلیوٹ بھی کیا ھے!!!!!!
    ----------------------------------------------

    ویسے بھی یہاں پر جہاں بھی میں سبز ہلالی پرچم یا پاکستان کا نام لکھا ھوا دیکھتا ھوں، تو میرا دل اسے سلیوٹ کرنے کو چاھتا ھے اور خوشی سے میری آنکھیں بھر آتی ھیں، اور حقیقتاً کئی دفعہ قدرتی میرے ھاتھوں نے پاکستانی پرچم کو دیکھ کر سلیوٹ بھی کیا ھے!!!!!!

    کچھ تو ھے میرے وطن کی مٹی کی خوشبو میں،چاھے کیسے بھی حالات کیوں نہ ھوں، ھمیشہ دل یہی چاھتا ھے کہ اڑ کر اپنے وطن پہنچ جاؤں، کسی بھی شہر میں ھی کیوں نہ ھو ھمارے پیارے وطن کا ھر شہر اپنا لگتا ھے، ھر جگہ ھمارے وطن میں تمام لوگ ایک دوسرے سے بہت ھی اخلاق و محبت سے ملتے ھیں، اپنے وطن میں کسی بھی شہر، گاؤں یا کسی بھی جگہ جائیں، کبھی بھی اجنبیت محسوس ھی نہیں ھوتی، جس طرح کہ پردیس میں ھوتی ھے، ھمارے یہاں صرف چند سماج دشمن عناصر ھیں جو صرف اپنی سیاست چمکانے کیلئے ایک دوسرے کے دلوں میں کسی نہ کسی طرح نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رھتے ھیں،!!!!

    یہاں اُس وقت بھی اور اب بھی میرے ساتھ تمام پاکستانی ھیں جن کا تعلق پاکستان کے ھر علاقے سے ھے، اور سب ایک دوسرے کے ساتھ بہت ھی خلوص کے ساتھ پیش آتے ھیں، ساتھ مل جل کر ایک دوسرے کی کام میں مدد بھی کرتے ھیں، کبھی کبھی کوئی آپس میں کسی غلط فہمی کی بناء پر اگر کوئی ناراضگی بھی ھو جاتی ھے تو ایک دوسرے کو سب مل کر گلے سے لگا کر کسی بھی قسم کی ناراضگی کو فوراً ختم بھی کردیتے ھیں،،!!!!!

    اس کے علاوہ یہاں پر تمام پاکستانی فیملیاں مختلف قسم کی تقریبات بھی منعقد کرتی رھتی ھیں، جس میں پاکستانی فیملیز کے علاوہ انڈین، اور دوسری فیملیز کو بھی شریک کی دعوت دیتے ھیں، جس کی وجہ سے ھم سب پاکستانیوں کو دوسری قوموں ‌میں بھی بہت ھی زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ھے، اور اسی طرح وہ سب بھی ھم پاکستانیوں کو اپنی ھر تقریب میں بلاتے ھیں، پردیس میں رھتے ھوئے اپنے وطن کی بہت یاد آتی ھے، اسی لئے شاید ایک دوسرے سے مل کر اپنے غموں اور دکھوں کو بھلا کر ایک دوسرے کو اپنی اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ھیں،!!!!

    کاش کہ ھمارے حکمران اور تمام سیاسی جماعتیں ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کیلئے سوچیں، ایک دوسرے کے اختلافات کو بھلادیں اور آپس میں مل کر خلوص دل سے تمام لوگوں میں اخوت اور یکجہتی کی فضا پیدا کریں،!!!!!
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کاش کہ ھمارے حکمران اور تمام سیاسی جماعتیں ایک جگہ مل کر بیٹھیں اور اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کیلئے سوچیں، ایک دوسرے کے اختلافات کو بھلادیں اور آپس میں مل کر خلوص دل سے تمام لوگوں میں اخوت اور یکجہتی کی فضا پیدا کریں،!!!!!

    مجھے امید ھے کہ ایک دن وہ ضرور آئے گا، کہ جس دن ھمارے ملک میں خوشحالی کا دور ھوگا، محبت کا گہوارہ ھوگا اور ھم سب پاکستانی مل کر اپنے ھی ملک میں اپنی ماھرانہ کاوشوں سے اپنے ملک کو ترقی کے اس مقام پر کھڑا کردیں گے جس کو تمام دنیا دیکھے گی اور ھم سب فخر سے اپنا سر بلند کرکے ایک شان سے خوب جشن منا رھے ھونگے،!!!!!

    انشااللٌہ وہ دن ضرور آئے گا،!!!!!!

    1995 کا دور چل رھا تھا، میں اپنی بیگم اور بچوں سمیت پردیس میں اپنے دیس کو یاد کرتا ھوا زندگی کے دنوں کو بہت تیزی سے گزرتا ھوا دیکھ رھا تھا، اور اپنے بچوں کو اپنے سامنے انکی عمروں کی بہاروں کو آگے بڑھتا ھوا دیکھ کر خوش ھورھا تھا، اسکول میں بھی چاروں بچوں کی پڑھائی بہت ھی بہترین جارھی تھی، سب اپنی اپنی جماعتوں میں اچھی کارکردگی دکھا رھے تھے، اور ھر سال سالانہ امتحانات میں اچھی پوزیشن سے کامیاب بھی ھوتے رھے، اس طرح تیزی سے تین سال گزر گئے کہ بالکل ھی پتہ نہیں چلا، اور 1997 کے آخیر تک پہنچ گئے، بیچ میں ایک دفعہ پاکستان بھی گئے تھے، اور معمول کے مطابق چھٹی گزار کر آگئے تھے، وہاں پر کئی لوگ خوش تھے تو کچھ لوگوں کا ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ھوئےدیکھا گیا، بعض تو ھمارے رشتہ دار بلکہ اکثریت نے حسد کا رویہ اختیار کرتے ھوئے ھمیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جس کا ھمیں بہت ھی دکھ ھوا تھا،!!!!

    1997 کا سال میرے لئے کچھ بہتر ثابت ھوتا ھوا دکھائی نہیں دے رھا تھا، کیونکہ میرا ایک اور کنٹریکٹ ختم ھو چکا تھا، انتظامیہ کی کچھ پالیسیاں بھی اب تبدیل ھوتی نظر آرھی تھیں، اور وہ اپنے اخراجات کو کم سے کم کرنے پر تلے ھوئے تھے، کام بہت ھی اچھا چل رھا تھا، انکی آمدنی بھی اچھی خاصی تھی، مگر اب وہ تنخواھوں میں پہلے کی طرح اضافہ نہیں کررھے تھے، آفس میں اب اسٹاف کی تعداد بڑھ چکی تھی، اور زیادہ تر ھمارے بھائی پاکستانی ھی تھے، مجھے نئے معاھدے کیلئے کوئی اچھی پیشکش نہیں کی گئی، جس کا مجھے بہت ھی افسوس ھوا اتنی محنت کے بعد جب سارا جدید نظام بخیر و خوبی حرکت میں آگیا اور کوئی مشکل پیش نہیں آرھی تھی، تو انہوں نے شاید یہی سوچا کہ اب تو کافی اسٹاف آچکا ھے، اور کام بھی کسی رکاوٹ کے بغیر سکون سے چل رھا ھے، تو جو زیادہ تنخواہ لے رھے ھیں، انہیں یا تو فارغ کردیا جائے یا انکی تنخواھوں میں مزید کوئی اضافہ کئے بغیر نئے معاھدے کی مدت کی تجدید کیلئے منوا لیا جائے،!!!!!

    ان بدلے بدلے حالات کو دیکھتے ھوئے، میں نے کچھ دور اندیشی سے کام لیا، اور اپنے بیوی بچوں کو واپس پاکستاں بھیجنے کیلئے تیاری کرنے لگا اور سب کے پاسپورٹ پر چھ مہینے کا خروج دخول کا ویزا لگا کر اپنے ساتھ ھی پاکستان لے گیا، ساتھ ھی یہاں کے ایمبیسی اسکول سے اسکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹ بھی نکلوالئے تھے، بیگم اور بچے میرے اس رویہ سے حیران بھی تھے کہ واپسی کا بھی ویزا لگا ھوا ھے اور ساتھ ھی یہاں کے اسکول سے بالکل قطع تعلق بھی کرلیا ھے، لیکن میں نے بعد میں اپنی بیگم کو تمام حالات بتا کر اپنا ھم خیال بنا لیا تھا، کیونکہ بچوں کو ساتھ رکھ کر یہاں پر انتظامیہ سے اپنے مرضی کے شرائط نہیں منوا سکتا تھا، اور میرا تیسرا ایگریمنٹ بھی ختم ھو چکا تھا، میں نے سب سے پہلے پاکستان جا کر اپنے چاروں بچوں کو اچھے اور معیاری انگلش اسکول میں داخلہ بھی دلادیا، اور اسکول کے نذدیک ھی ایک مکان کرایہ پر لے لیا تھا تاکہ بچوں کو کوئی زیادہ مشکل پیش نہ آئے، کیونکہ ھمارے آبائی گھر کے پاس دور دور تک کوئی اچھا اسکول نہیں تھا علاؤہ گورنمنٹ اسکول کے جہان کی پڑھائی کا اسٹینڈرڈ کسی طرح بھی بچوں کو قابل قبول نہ تھا،!!!!!!

    اپنی یہ تمام کاروائی بالکل خفیہ رکھی، پاکستان سے واپس چھٹی گزار کر آیا اور آنے والے حالات کا جائزہ لینے لگا کیونکہ یہاں پر میرے ساتھ کچھ ایسا ھی مسئلہ ھونے والا تھا جس کا کہ مجھے پہلے سے ھی اندیشہ تھا، میں اور میرا ایک ساتھی جنہوں نے اس اسپتال کے شروع میں اپنی انتھک محنت سے تمام جدید نظام کو یکجہتی اور خلوص کے جذبے کے تحت پروان چڑھایا تھا، آج ھم دونوں ھی انتظامیہ کیلئے ایک کانٹا ثابت ھورھے تھے، کیونکہ ھم دونوں ایک تو پرانے تھے، اور اس وقت کے لحاظ سےسب سے بہتر تنخواہ اور تمام فیملی کی مراعات بھی لے رھے تھے، نہ جانے کس طرف سے کیا سازش ابھری کہ انتظامیہ ھم دونوں میں سے ایک کو نکالنے کے منصوبے بنانے لگی، میرے دوست کو الگ بلا کر مالکان میں سے ایک نے نہ جانے کیا کہا، کہ وہ کچھ پریشان ھوگیا، مگر اس نے مجھے نہیں بتایا اور بس سنجیدہ سا لگ رھا تھا،!!!!

    پھر مجھے میرے باس جو میرے استاد بھی تھے انہوں نے مجھے اپنے کمرے میں بلاکر انتظامیہ کے رویہ کے بارے میں صاف صاف بتادیا کہ وہ مجھے اور میرے سینئر ساتھی میں سے ایک کو فارغ کرنا چاھتی ھے، اور اس میں سے صرف ایک ھی کی تنخواہ میں خواھش کے مطابق اضافہ کرے گی، میں نے ان سے اس کا مطلب پوچھا کہ ایسا انتظامیہ کیوں کرنا چاھتی ھے جبکہ سب کو یہ پتہ ھے کہ ھم دونوں نے یہاں بہت محنت کی تھی، جس سے انتظامیہ بہت خوش بھی تھی، انہوں نے مجھے صرف یہ کہا کہ میں صرف یہی کہوں گا، کہ آپ دونوں میرے لئے بہت عزیز ھو لیکن انتظامیہ صرف اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے ایسے بہت سارے اقدامات کررھی ھے، آپ دونوں میں سے کسی ایک کو یہاں سے جانا ھی ھوگا، مجھے یہ سن کر بہت دکھ ھوا،!!!!!!!

    پھر دوسرے دن مجھے مالکان کے وہی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیدار چیرمین نے مجھے ٹیلیفون کیا اور ایک پیغام دیا کہ میں اپنے اسی ساتھی کو فارغ کرکے اس کا سارہ کام سنبھال لوں، میں نے فوراً ھی ناراصگی کا اظہار کرتے ھوئے اس حکم نامہ کو بجا لانے سے انکار کردیا، اور میں نے ان سے یہی کہا کہ وہ مجھ سے بہتر اور بہت محنتی شخص ھے، اس طرح تو آپ ایک اچھے باصلاحیت اور محنتی انسان کو کھو دیں گے، انہوں نے مجھے سختی سے جواب دیا کہ یہ ھمارا مسئلہ ھے، جو ھم اپنے لئے بہتر سمجھتے ھیں وہی ھم کریں گے، آپکو ھمای طرف سے یہی حکم دیا جاتا ھے کہ فوراً ھی اس پر عمل کریں، کسی بھی مشورے یا تجویز دینے کی ضرورت نہیں ھے، مجھے تو بہت ھی ناگوار گزرا، میرے ضمیر نے مجھے اسی وقت جھنجھوڑا اور دل نے اس بات کو قبول نہیں کیا، اور جذباتی ھوتے ھوئے میں نے ان کو اسی وقت انکار کردیا کہ میں اس طرح کے رویہ سے آپ کی بات نہیں مان سکتا، اور انہوں نے یہ میرے انکار کا سنتے ھی غصہ میں ٹیلیفون بند کردیا،!!!!!!!!

    اب کیا تھا انتظامیہ کی ساری مشنری حرکت میں آگئی، اور میرے انکار نے ھر طرف تہلکہ مچا دیا، انتظامیہ نے کئی بااثر اعلیٰ عہدہ داروں کو میرے پاس سمجھانے کیلئے بھیجا تاکہ میں اپنیے فیصلے پر نظر ثانی کروں، اس کے علاوہ میرے اسی ساتھی دوست نے بھی زور دیتے ھوئے کہا کہ،!!!!! کیوں تم نے انکار کیا مجھے جانے دو مجھے کوئی اعتراض نہیں ھے، میں واپس چلا جاتا ھوں اور تم سارے کام کو اچھی طرح سنبھال سکتے ھو،،،،،،، لیکن میں نے جواب دیا کہ،!!!! یہ کسی صورت میں نہیں ھو سکتا، اور میں ان حالات میں اس انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ھوں،!!!!!! میرے اس آخری فیصلے کے بعد فوراً ھی انتظامیہ نے مجھے فارغ کرنے کے احکامات جاری کردیئے،!!!!!!

    ------------------------------

    اب کیا تھا انتظامیہ کی ساری مشنری حرکت میں آگئی، اور میرے انکار نے ھر طرف تہلکہ مچا دیا، انتظامیہ نے کئی بااثر اعلیٰ عہدہ داروں کو میرے پاس سمجھانے کیلئے بھیجا تاکہ میں اپنیے فیصلے پر نظر ثانی کروں، اس کے علاوہ میرے اسی ساتھی دوست نے بھی زور دیتے ھوئے کہا کہ،!!!!! کیوں تم نے انکار کیا مجھے جانے دو مجھے کوئی اعتراض نہیں ھے، میں واپس چلا جاتا ھوں اور تم سارے کام کو اچھی طرح سنبھال سکتے ھو،،،،،،، لیکن میں نے جواب دیا کہ،!!!! یہ کسی صورت میں نہیں ھو سکتا، اور میں ان حالات میں اس انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے سے قاصر ھوں،!!!!!! میرے اس آخری فیصلے کے بعد فوراً ھی انتظامیہ نے مجھے فارغ کرنے کے احکامات جاری کردیئے،!!!!!!

    یہ تو بہت ھی اچھا ھوا کہ میں نے یہ ماجرا ھونے سے پہلے ھی پاکستان چھٹی گیا اور بچوں کو کراچی کے ایک اچھے علاقے میں مکان کرائے پر لے کر ساتھ ھی گھر میں تمام فرنیچر اور تمام ضرورت کے ساز و سامان سے گھر کو مکمل طور پر نئے سرے سے سجا بھی دیا تھا، اس کے علاؤہ گھر کے نزدیک ھی بچوں کو ایک اچھے پرائیویٹ اسکول میں داخلہ بھی کرادیا تھا جس کے لئے مجھے ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرنی پڑی تھی، ایک کام اور بھی بیگم کی خواھش کے مطابق، کہ ایک اچھے علاقے میں 4 کمروں کے فلیٹ کی بھی 5000 روپے ٹوکن کے طور پر ادا کرکے بکنگ کرادی تھی، یہ سب اس لئے کیا تھا کہ ایک تو بچوں کی تعلیم اپنے معاشرے میں رھتے ھوئے ھوتی رھے اور پاکستان میں بچوں کے رھنے سے کچھ بچت بھی ھوجائے گی اور کچھ پیسے بچا کر فلیٹ کی قسط بھی ھر ماہ ادا کرتے رھیں گے، کم سے کم اس کے لئے 5 سال مزید درکار تھے،!!!!

    اور مجھے واپس سعودیہ جانے سے پہلے یہ مکمل امید تھی کہ میرے نئے ایگریمنٹ میں انتظامیہ مجھے ایک اچھی تنخواہ پر ھی تجدید کرے گی، اور بچوں کو پاکستان واپس بھیجنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں میں اکیلا رہ کر انتظامیہ سے بحث و تکرار کرکے اپنی تنخواہ میں اپنی حیثیت کے مطابق ایک اچھا اضافہ کراسکتا تھا، مگر فیملی کے ساتھ رہ کر یہ ممکن اس لئے نہیں تھا کیونکہ فیملی کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر انتظامیہ اپنا فائدہ دیکھتے ھوئے توقعات سے بہت کم ھی اضافہ کرتی، مگر افسوس کہ ساری بازی الٹ ھوگئی اور یہاں آکر بہت ھی زیادہ مایوسی ھوئی، جیساکہ میں نے پہلے تفصیل سے ذکر کیا تھا، اب تو فیصلہ ھو چکا تھا کہ مجھے واپس جانا ھی ھے، اور میں بھی اس کے لئے بخوشی تیار تھا،!!!!!

    -----------------------------------

    مگر افسوس کہ ساری بازی الٹ ھوگئی اور یہاں آکر بہت ھی زیادہ مایوسی ھوئی، جیساکہ میں نے پہلے تفصیل سے ذکر کیا تھا، اب تو فیصلہ ھو چکا تھا کہ مجھے واپس جانا ھی ھے، اور میں بھی اس کے لئے بخوشی تیار تھا،!!!!!

    میں نے بہت سے مستقبل کے منصوبے بنا رکھے تھے، بچوں کو بھیج کر میں نے کچھ اس طرح بھی سوچ رکھا تھا کہ کچھ قربانیاں دے کر اپنے بچوں کیلئے کوئی ایک چھوٹا سا گھر یا فلیٹ لے لیا جائے، اور کچھ بچت بھی ساتھ ساتھ کرلی جائے، یہ ایک اچھا موقعہ تھا کیونکہ یہاں فیملی کے ساتھ رہ کر کچھ بچانا بہت مشکل ھے، فلیٹ بھی بک کرادیا تھا، اور بنک اکاونٹ پہلے سے کھلا ھوا تھا، نہ جانے کیا کیا حسین خواب دیکھ رھا تھا، لیکن نہ جانے قدرت کو کیا منظور تھا، سارے خواب چکنا چور ھو کر رہ گئے تھے،!!!!!!

    1998 اور جنوری کا مہینہ تھا، سردی بھی تھوڑی بہت تھی، کیونکہ دوسرے شہروں کی بنسبت جدہ میں سردی کم ھی پڑتی تھی، اور رمضان کا بابرکت مہینہ تھا، مجھے جانے کا پروانہ مل چکا تھا، میں نے اپنا تمام کام پہلے ھی اپنے ساتھی کے حوالے کردیا تھا، اور اب بالکل اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ھوچکا تھا بس واپسی کیلئے اپنے پاسپورٹ اور ٹکٹ کا انتظار کررھا تھا، اسی دوران میں دفتر ضرور جاتا تھا اور کام کے بارے میں تمام ساتھیوں کو سمجھا بھی رھا تھا تاکہ میرے جانے کے بعد انہیں کوئی پریشانی نہ ھو، میرے تمام ساتھی میرے واپس جانے کی وجہ سے افسردہ تھے، لیکن کیا ھوسکتا تھا، یہ قدرت کا فیصلہ تھا، میرا دانہ پانی وہاں سے اٹھنے والا تھا، رمضان کے دن تھے اور ھم سب دوست میرے ھی فلیٹ پر روزہ کھولتے تھے، اور سحری بھی ساتھ ھی کرتے تھے، اور میں خود کیونکہ فارغ ھی تھا اس لئے میں اپنے ھاتھ سے ھی سب کیلئے افطار اور سحری کا انتظام کیا کرتا تھا، اور دوست بھی مدد کیلئے آجاتے تھے،!!!!!!!

    میرے جانے سے ایک ھفتے پہلے ایک انتظامیہ کے اعلٰی عہدیدار نے مجھے اپنے آفس میں بلوایا اور خلاف توقع بہت ھی احترام سے مجھے اپنے کمرے میں بیٹھنے کو کہا، پھر انہوں نے میرے کام کو سرھاتے ھوئے مجھے کہا کہ،!!!!!! “ھم آپ جیسے محنتی انسان کو کھونا نہیں چاھتے اور مجھے مالکان کی طرف سے ایک گزارش کی گئی ھے کہ میں آپکو یہاں رکنے کیلئے انہیں شرائط پر رضامند کرلوں، اور میری تنخواہ اور دوسری مراعات جیسا آپ چاھتے ھیں ویسے ھی ھوگی،!!!!! میں نے جواباً یہی کہا کہ،!!!!! میں آپکی ھر شرط ماننے کو تیار ھوں لیکن میں کسی اپنے ساتھی کو فارغ کرکے اس کی جگہ پر نہیں بیٹھ سکتا، کیونکہ ھم دونوں نے مل کر اس اسپتال کے آغاز میں سارے جدید نظام کو اپنے استاد کی مدد سے مالکان کے بھروسے کے مطابق مکمل طور پر چلایا تھا،،!!!!!،
    انہوں مجھ سے افسوس کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!تمھارے جذبات اور خیالات کی میں قدر کرتا ھوں، لیکن اس طرح کسی کی خاطر اپنی ملازمت کو داؤ پر لگانا ٹھیک نہیں ھے، میں بھی مجبور ھوں کیونکہ یہ مالکان کی طرف سے آپ کے لئے یہ پیغام تھا، اب فیصلہ آپ کے ھاتھ میں ھے،!!!!!

    میں نے اپنی طرف سے معزوری طاھر کرتے ھوئے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لیتا ھوا کمرے سے باھر نکل گیا،!!!!!!!!
     
  15. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    انہوں مجھ سے افسوس کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!تمھارے جذبات اور خیالات کی میں قدر کرتا ھوں، لیکن اس طرح کسی کی خاطر اپنی ملازمت کو داؤ پر لگانا ٹھیک نہیں ھے، میں بھی مجبور ھوں کیونکہ یہ مالکان کی طرف سے آپ کے لئے یہ پیغام تھا، اب فیصلہ آپ کے ھاتھ میں ھے،!!!!!

    میں نے اپنی طرف سے معزوری طاھر کرتے ھوئے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور ان سے اجازت لیتا ھوا کمرے سے باھر نکل گیا،!!!!!!!!

    میرے اسی ساتھی نے پوچھا کہ کیا بات چیت ھوئی، میں نے ساری روداد سنا دی، وہ بھی نہیں چاھتا تھا کہ میں یہ نوکری چھوڑ دوں، اس نے مجھے بار بار یہی کہا کہ “مجھے جانے دو اور تم یہیں پر رک جاؤ، کیوں میری خاطر اچھی خاصی نوکری کو چھوڑ رھے ھو،!!!! میں نے جواب دیا کہ،!!!! “میں کبھی بھی کسی غلط فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتا ھوں، اللٌہ تعالیٰ رزق دینے والا ھے، تم اپنی سروس کو جاری رکھو، اور اپنے نئے ایگریمنٹ کی تجدید کرالو مجھے امید ھے کہ میرے جانے کے بعد یہ لوگ تمہیں تمھاری مرضی کا آفر دیں گے، اور تم یہاں پر مجھ سے سینئر ھو، تمھارا حق پہلے بنتا ھے، ھم دونوں میں سے کسی ایک کو تو یہاں پر رکنا ھے، اور جو ھم نے محنت کی ھے اسے جاری رھنا چاھئے“،!!!!!!

    میں نے اپنے ساتھی کو بہت مشکل سے راضی کیا کہ وہ یہیں رھے اور مجھے جانے دے، اور بھی تمام لڑکے اور سب پاکستانی ھی تھے جو ھمارے ساتھ ھی کام کرتے تھے، وہ بھی میرے یہاں جانے سے خوش نہیں تھے، کیونکہ ھم دونوں نے ان سب لڑکوں کو ان کی اپنی اپنی فیلڈ میں کچھ نہ کچھ سکھایا تھا اور وہ سب بھی بہت ھی محنت سے کام کررھے تھے، ھمارے سب کے باس اور استاد بھی میرے جانے سے افسردہ تھے، جبکہ انہوں نے بھی کافی کوشش کی مجھے روکنے کی، انہوں نے میرے لئے انتظامیہ سے کافی بحث بھی کی، شاید انتظامیہ ان کی بات مان بھی جاتی لیکن میرے سخت رویہ کی وجہ سے انہوں نے میرے خلاف اس فیصلے کو واپس لینے سے انکار کردیا تھا، اور پھر میں بھی اس وقت بالکل اپنی ضد پر اڑا ھوا تھا، اور کسی کی کوئی بات ماننے کو تیار ھی نہیں تھا، اور نہ ھی اپنے سخت رویہ کیلئے انتظامیہ سے معافی مانگنے پر راضی تھا، جبکہ کئی لوگوں نے مجھے کافی سمجھانے اور منانے کی کوشش بھی کی لیکن سب کو میری طرف سے مایوسی ھی ھوئی،!!!!!!!

    میں بھی واقعی کبھی کبھی جب اپنی ضد پر اڑ جاتا تھا، تو بہت ھی مشکل تھا کہ واپس اپنی ضد چھوڑ دوں، جسکی وجہ سے میں نے کئی دفعہ نقصانات بھی اٹھائے ھیں، اور تین چار دفعہ نوکری چھوڑ دی تھی، ویسے بھی میں کسی غلط بات پر ضد نہیں کرتا تھا، میری یہ ایک بہت بڑی کمزوری یا خامی تھی کہ چاھے کچھ بھی ھو جائے، قیامت آجائے اپنا کیا ھوا کوئی بھی فیصلہ جذباتی طور پر واپس نہیں لیتا تھا، اپنی بے عزتی سمجھتا تھا، اب تو میں نے آپ کو بھت سنبھال لیا ھے، اور اب کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے چاروں طرف بھی دیکھ لیتا ھوں اور کافی سوچ بچار کرتا ھوں،!!!!!

    اس وقت اب کافی مستقل مزاجی بھی آگئی ھے، وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ان نقصانات کو دیکھتے ھوئے مجھ میں کافی تبدیلیاں بھی آچکی ھیں، وقت نے مجھے صبر اور تحمل کا بھی سبق سکھا دیا ھے، اس وقت گزرے ھوئے پانچ سالوں میں اپنے اندر ایک خاموش پرسکون انسان محسوس کرتا ھوں، شاید یہی وجہ ھے کہ اللٌہ تعالیٰ نے مجھے اس دفعہ بہت سی خوشیوں ‌سے بھی نوازا، دو بچوں کی شادیاں اور اس کے ساتھ مجھے اسی اسپتال کی انتظامیہ نے تمام بورڈ کے ممبران کی رائے شماری میں مجھے یہاں کا ایک خاص اعزاز پچھلے سال کے بہترین کارکردگی پر “سال 2007 کا بہترین ایڈمن اسٹاف“ چنا گیا اور ساتھ ھی ایک تقریب میں ایک بہت ھی خوبصورت شیلڈ بھی دی گئی، جسکا کہ میں اللٌہ تعالیٰ کا بہت ھی شکر گزار ھوں،!!!!!!!
    ----------------------------------

    اس وقت اب کافی مستقل مزاجی بھی آگئی ھے، وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ان نقصانات کو دیکھتے ھوئے مجھ میں کافی تبدیلیاں بھی آچکی ھیں، وقت نے مجھے صبر اور تحمل کا بھی سبق سکھا دیا ھے، اس وقت گزرے ھوئے پانچ سالوں میں اپنے اندر ایک خاموش پرسکون انسان محسوس کرتا ھوں، شاید یہی وجہ ھے کہ اللٌہ تعالیٰ نے مجھے اس دفعہ بہت سی خوشیوں ‌سے بھی نوازا، دو بچوں کی شادیاں اور اس کے ساتھ مجھے اسی اسپتال کی انتظامیہ نے تمام بورڈ کے ممبران کی رائے شماری میں مجھے یہاں کا ایک خاص اعزاز پچھلے سال کے بہترین کارکردگی پر “سال 2007 کا بہترین ایڈمن اسٹاف“ چنا گیا اور ساتھ ھی ایک تقریب میں ایک بہت ھی خوبصورت شیلڈ بھی دی گئی، جسکا کہ میں اللٌہ تعالیٰ کا بہت ھی شکر گزار ھوں،!!!!!!!

    ھاں تو میں جنوری 1998 کی بات کررھا تھا، رمضان کا مہینہ بھی تھا، اپنی ملازمت سے فارغ ھو چکا تھا، اور بس انتظار کررھا تھا پاسپورٹ اور واپسی کے ٹکٹ کا، جبکہ سب کچھ پرسنل ڈپارٹمنٹ میں تیار تھا اور رمضان کے آخری عشرے میں ھی مجھے واپس جانا تھا آخری دفعہ عمرہ اور الوداعی طواف کی ادائیگی بھی ھو چکی تھی، مجھے اس بات کا دکھ بھی تھا کہ نہ جانے اب کب یہ سعادتیں نصیب ھوتی ھیں، مجھے اپنے دوستوں اور دفتر کے تمام ساتھیوں سے جدا ھوتے ھوئے بھی افسوس ھو رھا تھا،!!!!!!

    پاکستان میں جاکر اب لوگوں کے سوالوں کے جواب بھی دینے کے لئے پریشان تھا، ھر کوئی یہی پوچھے گا کہ،!!!! اچھی ملازمت تھی کیوں چھوڑی،؟؟؟ اب یہاں کیا کروگے،؟؟؟ پہلے کسی نوکری کا بندوبست تو کرلیتے،؟؟؟ کچھ سوچتے سمجھتے نہیں ھو؟؟؟ اور ھر بار نوکری چھوڑ کر آجاتے ھو، وغیرہ وغیرہ،!!!! میں وہاں جاکر لوگوں کو کیا جواب دوں گا، میں ویسے تو ھمیشہ یہی کہہ دیتا تھا کہ اللٌہ رازق ھے، وھی سب کچھ بندوبست کرے گا، اور واقعی مجھے اس پر ھمیشہ سے یہ یقین ھے اور رھے گا،!!!!

    آخرکار وہ دن آھی گیا اور جس دن رات کو میری فلائٹ تھی، مجھے پہلے ھی تمام حساب کتاب جو بھی تنخواہ، گریجیوٹی اور چھٹی کے پیسے مل چکے تھے، کچھ ادھار بھی چکانا تھا، اور ایک کمیٹی کے بھی کچھ قسطیں باقی تھیں، اسے بھی فارغ کردیا تھا، بس کچھ تھوڑے بہت گزارے کے لئے پیسے باقی تھے، چلو ایک آدھ مہینہ تو خیر خیریت سے گزر جائے گا، اور باقی اللٌہ مالک ھے، یہی سوچ کر دل کو بہلالیا تھا، میرے لئے انتظامیہ کی طرفسے ایک بہت بہترین الوداعی پارٹی منعقد کی گئی، اور کئی بڑے بڑے لوگوں نے میری خدمات کو بہت سراھا، اور تعریفی کلمات کہے، بہت ساری تالیوں میں پارٹی کا اختتام ھوا، اور سب لوگوں سے گلے مل کر اسی رات کو میں بمعہ ساز و سامان کے پاکستان جانے کیلئے ائرپورٹ روانہ ھو گیا، کچھ دوست بھی ساتھ ائرپورٹ چھوڑنے آئے تھے،!!!!!!

    تمام کاروائی مکمل ھونے کے بعد میں کچھ ھی دیر میں ائرپورٹ کے لاؤنج میں ایک کنارے کی آرام دہ نشست پر بیٹھ گیا، ابھی ایک گھنٹے کے قریب وقت باقی تھا میں کچھ گزرے ھوئے وقت کے بارے میں سوچ رھا تھا، کہ اس اسپتال میں کتنی انتھک محنت ایک اچھے معیار کے مطابق نوکری کی تھی اور جب کمپنی کا سسٹم روانی سے چل پڑا تو فارغ ھوگئے، ھوسکتا ھے کہ اللٌہ کی اسی میں کوئی بہتری ھو، اب پھر سے کسی اور نوکری کے سلسلے میں کچھ ھاتھ پیر مارنے ھوں گے،!!!!!

    مگر مجھے بہت شرم آتی ھے کسی جگہ بھی نوکری کی درخواست لے جاتے ھوئے اور انٹرویو دیتے ھوئے، نہ جانے کیوں مجھے خود ابھی تک نہیں پتہ چلا،؟؟؟، اب تک جس جگہ بھی ملازمت کی کسی نہ کسی کی توسط سے ھی نوکری ملی اور انٹرویو کی نوبت ھی نہیں آئی، سب سے پہلے مجھے یاد ھے کہ جب میں 19 سال کا تھا تو والد صاحب نے ھی مجھے 1969 میں اپنی کمپنی میں ھی اکاونٹس سیکشن میں نوکری دلوائی تھی، جہاں پر میں نے لگاتار 1985 تک اپنی خدمات بہت ھی احسن طریقے سے انجام دی تھیں، بعد میں ایک دوست کے ذریعے ایک رینٹ اے کار میں 1985 سے 1989 تک نوکری کی، وہاں بھی نوکری چھوڑتے ھی مجھے میرے استاد جو میری پہلے والی کمپنی میں میرے ساتھ دھران، سعودی عرب میں تھے، بعد میں انہوں نے اس اسپتال کو جوائن کر لیا تھا، انہوں نے مجھے اس اسپتال کیلئے اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کیلئے ویزا بھیج دیا تھا، جہاں میں نے 1989 سے لے کر 1998 جنوری تک اپنی خدمات کو بہترین طریقے سے نبھاتا رھا، اور اسی طرح بغیر انٹرویو کے اب تک مجھے تمام ملازمت کسی نہ کسی بہانے سے ملتی رھیں،!!!!!!

    کہنے کا مقصد یہی ھے کہ اللٌہ تعالیٰ بہت بڑا کارساز ھے، جہاں ایک در بند ھوتا ھے تو وہ دوسرا دروازہ کھول دیتا ھے، مجھے پوری امید تھی کہ پاکستان جاتے ھی کوئی نہ کوئی بندوبست اللٌہ میاں کر ھی دیں گے، مجھے نوکری کی اتنی فکر نہیں تھی جتنی کہ لوگوں کا سامنا کرنے کی تھی،، !!!!

    فلائٹ کے جانے کا جیسے ھی اعلان ھوا میں نے اپنا دستی بیگ اٹھایا اور سیدھا جہاز میں جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، تمام سفر کے دوران مختلف خیالات دماغ میں گونجتے رھے، اب تو لگتا تھا کہ شاید یہ ھوائی جہاز کا آخری سفر ھو، لیکن مجھے اندر سے اپنے دل کی آواز آرھی تھی کہ نہیں ابھی تو اور بھی سفر باقی ھیں، نہ جانے کیا کیا سوچتا رھا اور دل ھی دل میں اپنے آپ سے باتیں ھی کرتا رھا، یہاں بھی وقت کا اتنا احساس ھی نہیں ھوا اور مجھے اس وقت حیرانگی ھوئی کہ جب جہاز میں یہ اعلان ھوا کہ کچھ ھی دیر میں کراچی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر جہاز لینڈ کرنے والا ھے، ایک طرف دل تو بہت خوش تھا اور دوسری طرف چند میری سوچوں نے پریشان کیا ھوا تھا،!!!!!!
     
  16. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    فلائٹ کے جانے کا جیسے ھی اعلان ھوا میں نے اپنا دستی بیگ اٹھایا اور سیدھا جہاز میں جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، تمام سفر کے دوران مختلف خیالات دماغ میں گونجتے رھے، اب تو لگتا تھا کہ شاید یہ ھوائی جہاز کا آخری سفر ھو، لیکن مجھے اندر سے اپنے دل کی آواز آرھی تھی کہ نہیں ابھی تو اور بھی سفر باقی ھیں، نہ جانے کیا کیا سوچتا رھا اور دل ھی دل میں اپنے آپ سے باتیں ھی کرتا رھا، یہاں بھی وقت کا اتنا احساس ھی نہیں ھوا اور مجھے اس وقت حیرانگی ھوئی کہ جب جہاز میں یہ اعلان ھوا کہ کچھ ھی دیر میں کراچی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر جہاز لینڈ کرنے والا ھے، ایک طرف دل تو بہت خوش تھا اور دوسری طرف چند میری سوچوں نے پریشان کیا ھوا تھا،!!!!!!


    سب کے ساتھ ائرپورٹ سے گھر تو پہنچ گئے، بس کچھ سنجیدگی سی خاموشی اختیار کررکھی تھی، تاکہ کسی قسم کی وضاحت نہ دینی پڑجائے، لوگ بھی مل جل کر خاموشی سے واپس چلے گئے اور کسی نے بھی کوئی سوال کرنے کی جسارت نہیں کی، جو بھی پیسے وہاں سے لایا تھا وہ میں نے بیگم کو پکڑا دئے، کہ اس سے اب گزارا کرو باقی اللٌہ مالک ھے، بیگم بھی اندرونی طور سے پریشان ھی تھیں، وہ اس دن تو خاموش رھیں، لیکن دوسرے دن سے انہوں نے میری کلاس لے ڈالی، اور خوب ناراض بھی ھوگئی، کہ میں ھمیشہ ھی جذبات میں نوکری چھوڑ کر آجاتا ھوں
    بچوں کا ساتھ ھے، ایک لمبا سا لیکچر جھاڑ دیا، وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں، اور میں بھی غلط نہیں تھا، مگر میری سنے گا کون،؟؟؟؟؟

    اب رشتہ داروں نے بھی گھر پر آکر ظعنے دینا شروع کردئے، والدہ کو تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا، بس وہ یہی کہتیں کہ اللٌہ بہتر کرے گا، میں بھی یہ سب سن سن کر پریشان ھو گیا تھا، اور بس یہ کہہ کر چپ ھوجاتا کہ اللٌہ رازق ھے، وہ جو کرے گا بہتر ھی ھوگا، کبھی کبھی تو میں یونہی دکھانے کیلئے ایک فائل بغل میں دبائے باھر نکل جاتا اور دوستوں کے پاس جاکر مل کر کچھ وقت گزار کر واپس آجاتا، گھر پر یہی سمجھتے کہ میں کسی نوکری کے سلسلے میں باھر گیا ھوں، میں دوستوں کے پاس بھی جاتا تو اپنے بے روزگار ھونے کا ذکر کبھی نہیں کرتا تھا، اور نہ ھی میں اخبارات میں ضرورت ھے کے کالم میں روزگار تلاش کرتا تھا، بس مجھے یہ پتہ نہیں کیوں قدرتی یہ امید رھتی تھی کہ جب مجھے کوئی نوکری ملنی ھوگی تو اللٌہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سبب ضرور بنادے گا،!!!!

    سرٹیفیکیٹ تو سب میں نے ایک فائل میں رکھے تھے لیکن کوئی نوکری کیلئے درخواست ٹائپ کرکے نہیں رکھی تھی، اور نہ ھی کسی سے کوئی ذکر کیا تھا، ھر دوسرے تیسرے روز باھر نکل جاتا، اور گھوم پھر کر تھکا ھارا واپس آجاتا، اور ایسے ظاھر کرتا جیسے نوکری کی تلاش خوب مارا مارا پھر کر آرھا ھوں، کچھ دنوں بعد سعودی عرب سے میرے دوست کا پیام ملا کہ وہ بھی اپنا ایگریمنٹ تجدید نہیں کررھا ھے اور وہ بھی واپس آنا چاھتا ھے، میں نے فوراً ھی اسے پیغام بھجوایا کہ وہ ایسا نہ کرے، میں نے اگر نقصان اٹھایا ھے تو وہ کیوں اپنا نقصان کررھا ھے، بہت ھی تکرار کے بعد اس نے میری بات مانی، جب وہ چھٹی آیا تھا تو میں نے اسے مزید سمجھایا، کہ میری فکر نہ کرو مجھے جلد ھی کوئی نہ کوئی نوکری مل جائے گی لیکن تم اپنا چانس بیکار نہ کرو،،!!!! آخرکار اس نے میری بات مان لی اور اس نے نئی تنخواہ کے پیکیج پر نیا ایگریمنٹ تجدید کرالیا،!!!!!

    دو مہینہے اور گزر گئے، جو پیسے میں لایا تھا، وہ بھی ختم ھونے والے تھے، ایک دن بیگم نے مجھے 50 روپے کا نوٹ دکھاتے ھوئے کہا کہ اب یہ آخری نوٹ بچا ھوا ھے، اور اب کچھ بھی نہیں ھے، گھر کا سودا بھی اب ختم ھونے کو ھے، میں نے یہی کہا کہ اللٌہ مالک ھے، میں نے بھی کچھ سوچنا شروع کیا کہ اب کہان سے پیسوں کا انتطام کروں، تیار ھو کر گھر سے باھر نکلنے والا ھی تھا، کہ دروازے کی گھنٹی بجی، دروازے پر جاکر دیکھا تو میرے سعودی عرب کے ساتھی دوست کے چھوٹے بھائی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ بھائی نے یہ 700 ریال بھیجے ھیں، شاید کچھ میرے جو کچھ بقایا جات وہان پر تھے، اسی کا حساب کتاب ھے، اور وہ رقم دے کر واپس چلے گئے، میں نے فوراً یہ رقم بیگم کے حوالے کئے،!!!! کہ لو تمھارے گھر کے خرچ کیلئے اللٌہ میاں نے بندوبست کردیا ھے، کل بنک سے اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرا لانا اور ساتھ ھی گھر کا سودا بھی لے ھی آنا،!!!!!!
    ------------------------------------

    دو مہینہے اور گزر گئے، جو پیسے میں لایا تھا، وہ بھی ختم ھونے والے تھے، ایک دن بیگم نے مجھے 50 روپے کا نوٹ دکھاتے ھوئے کہا کہ اب یہ آخری نوٹ بچا ھوا ھے، اور اب کچھ بھی نہیں ھے، گھر کا سودا بھی اب ختم ھونے کو ھے، میں نے یہی کہا کہ اللٌہ مالک ھے، میں نے بھی کچھ سوچنا شروع کیا کہ اب کہان سے پیسوں کا انتطام کروں، تیار ھو کر گھر سے باھر نکلنے والا ھی تھا، کہ دروازے کی گھنٹی بجی، دروازے پر جاکر دیکھا تو میرے سعودی عرب کے ساتھی دوست کے چھوٹے بھائی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ بھائی نے یہ 700 ریال بھیجے ھیں، شاید کچھ میرے جو کچھ بقایا جات وہان پر تھے، اسی کا حساب کتاب ھے، اور وہ رقم دے کر واپس چلے گئے، میں نے فوراً یہ رقم بیگم کے حوالے کئے،!!!! کہ لو تمھارے گھر کے خرچ کیلئے اللٌہ میاں نے بندوبست کردیا ھے، کل بنک سے اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرا لانا اور ساتھ ھی گھر کا سودا بھی لے ھی آنا،!!!!!!

    اپریل 1998 کے شروع کے دن تھے اور مجھے گھر بیٹھے ھوئے دو مہینے بھی گزر چکے تھے، بچے تو اپنے آپ میں مگن تھے اور باقاعدگی سے اسکول جارھے تھے، بس میری بڑی بیٹی جو 14 سال کی ھوچکی تھی، اور ساتویں جماعت میں تھی کچھ زیادہ حساس تھی اور اب شادی کے بعد بھی ویسی ھی ھے، وہ سمجھتی تھی کہ آج کل ابو اور امی کے ساتھ ملازمت کے سلسلے میں کچھ مسائل چل رھے ھیں،!!!!!

    بڑا بیٹا 16 سال کے لگ بھگ تھا، وہ نویں جماعت میں زیر تعلیم تھا، لیکن وہ تو بس اپنے دوستوں میں اور کرکٹ میں زیادہ تر مگن رھتا تھا، باقی دوسرا بیٹا 12 سال کا تھا، اور چھٹی کلاس میں تھا اس کے بعد ایک بیٹی غالباً 10 سال کی تھی جو شاید پانچویں جماعت میں ھوگی، اور چھوٹی بیٹی کا وقفہ کچھ لمبا ھی تھا وہ تقریباً 5 سال کی ھوگی، وہ بھی کے،جی 1 میں داخلہ لے چکی تھی،!!!!!

    جب تک بچوں نے پاکستان میں پڑھا، ان میں سے صرف لڑکیاں ھی اس وقت اپنی اپنی کلاسوں میں اوٌل پوزیشن لے رھی تھیں، اس کی وجہ ان کی والدہ کی تربیت اور خاص دیکھ بھال ھی تھی، لڑکوں پر ان کا اتنا رعب نہیں چلتا تھا، اور نہ ھی وہ اپنی والدہ کی کسی بات پر کان دھرتے تھے، کیونکہ پاکستان جاکر تو وہ دونوں بالکل آزاد ھوچکے تھے ایک وجہ کہ میں بھی ان کے ساتھ وھاں نہیں تھا، چھوٹا بیٹا بھی بس اے ون گریڈ میں پاس ھو تو جاتا تھا لیکن کوئی خاص پوزیشن نہیں آتی تھی، کلاس میں ساتویں یا آٹھویں پوزیشن پر رھتا تھا، اور بڑا بیٹا تو کلاس میں پاس ھو جائے تو بھی بڑی بات تھی، مگر پھر بھی چھوٹا بیٹا بڑے سے کچھ بہتر تھا، جو گھر کے سارے باھر کے کام میں اپنی والدہ کا ھاتھ بٹاتا تھا،!!!!

    خیر بات ھورھی تھی کہ سعودیہ سے مجھے آئے ھوئے دو مہینے سے زیادہ ھو چکے تھے، اور گھر اللٌہ کے آسرے پر چل رھا تھا، بیگم کچھ زیادہ ھی فکرمند تھیں، شکر ھے کہ سب بچوں کی اسکولوں کی ماہانہ فیس بھر چکے تھے، اور اگلے مہینے کی پریشانی تھی کہ اگر یہی حالت رھی تو کیا ھوگا،؟؟؟ وہ جو پیسے میرے دوست کا بھائی دے گیا تھا، وہ بھی گھر کا سودہ سلف جو اکھٹا مہینے کا راشن آتا تھا، اسی میں زیادہ تر ختم ھوگئے تھے، اور باقی تھوڑے بہت روزمرہ کے خرچ میں لگ چکے تھے، ایک ہفتہ بعد بھر بیگم نے اپنے دربار میں حاضری کے لئے بلوالیا، اور پہلے کی طرح پھر انہوں نے مجھے اعلان سنادیا کہ اب تو 50 کا نوٹ بھی نہیں ھے، میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، اللۃ مالک ھے، میرے اس جملے کے نکلتے ھی بس وہ غصہ میں بپھر جاتی تھیں، پھر وہ رونے بھی لگ جاتیں، پھر تو واقعی مجھے بہت ترس آتا تھا،!!!!!

    میں اس دفعہ بھی خاموش تھا، اب تو شاید گھر میں 10 روپے ھی ھونگے، بیگم کے شکوئے کے فوراً بعد ھی مجھے افسوس تو ھوا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا، اللٌہ سے ھی امید باندھے بیٹھا تھا، اور مجھے بالکل امید تھی کہ کچھ نہ کچھ بندوبست ھوجائے گا، یہی میں بیگم سے بھی کہتا تھا، لیکن وہ یہی جوب دیتیں کہ گھر میں بیٹھ کر اللٌہ تعالیٰ کچھ نہیں دے گا جبتکہ کچھ ھاتھ پیر نہ ھلائیں، میں بھی مذاقاً کرسی پر بیٹھے بیٹھے پیر ہلانے لگتا، اور کہتا کہ دیکھ ھلا تو رھا ھوں، دل ھی دل میں سوچ بھی رھا تھا کہ اس دفعہ تو اللٌہ میاں نے کچھ دیر کردی ھے، یہی سوچتے ھوئے رات بھی گزار دی اور بیگم بھی ناراض تھیں، دوسرے دن صبح صبح ایک گھنٹی بجی میں فوراً میں گیٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک اسکوٹر پر ایک صاحب نظر آئے، انہوں نے میرا نام پوچھا اور ایک لیٹر تھماتے ھوئے کہا کہ،!!!! آپ کا فلیٹ قسطیں نہ جمع کرانے کے سبب منسوخ ھو چکا ھے، اس لئے برائے مہربانی اپ ھمارے دفتر پہنچ کے اپنے ٹوکن کی رقم واپس لے لیں،!!!!!!!

    میں دل میں بہت ھی خوش ھو گیا، مجھے تو اپنا فلیٹ اپنے چکروں میں یاد ھی نہیں رھا تھا، یہ بندہ تو میرے لئے اس وقت فرشتہ بن کر آیا تھا، اور کمپنی بھی کتنی اچھی تھی ورنہ ایسی رقم تو اکثر ڈوب ھی جاتی تھی، میں نے اللٌہ کا شکر ادا کیا فوراً ھی کپڑے وغیرہ تبدیل کئے اور بیگم کو دیکھا تو وہ تو غصہ میں منہ پھلائی بیٹھی تھیں، میں چاھتا تھا کہ ان کو تفصیل بتا کر انہیں خوش کردوں، مگر ان کا موڈ دیکھ کر ہمت ھی نہیں پڑی، اب اس بلڈر کے پاس جانے کے لئے بس کا کرایہ تو چاھئے، وہ کس طرح مانگوں، مگر میں کچھ کہے سنے بغیر گھر سے باھر نکل گیا، اس محلے میں میری اتنی جان پہچان نہیں تھی کہ کسی سے دو چار روپے ادھار ھی لے لیتا، بچے سارے تو اسکول گئے ھوئے تھے، اور ان کے آنے میں ابھی بہت دیر تھی ورنہ ان سے سفارش کروا کر ان کی اماں سے پیسے منگوا لیتا، اور دوستوں کے یہاں جانے کیلئے بھی تو بس کا کرایہ چاھئے تھا، یہ سوچتے ھوئے میں نے بلڈرز کی فائل گھر سے لے کر بس اسٹاپ کی طرف آھستہ آھستہ چل دیا ،!!!!

    بس اسٹاپ پہنچنے سے پہلے ھی جیب پر نظر گئی تو احساس ھوا کہ جیب میں کچھ ھے، فوراً ھی ھاتھ ڈالا تو دس کا نوٹ ھاتھ میں آگیا، شاید میری بیگم نے میرے کپڑے بدلنے سے پہلے ھی میری قمیض‌ کی جیب میں دس روپے کا نوٹ ڈال دیا ھو گا، مجھے اپنی بیگم پر بہت رحم آیا، بس کیا تھا فوراً ھی بلڈر کے دفتر پہنچا اور وھاں کے اسی انچارج کے پاس گیا جس کو میں نے شاید چھ مہینے پہلے قبل 5000 روپے ٹوکن کے طور پر جمع کرائے تھے، اس نے مجھے پہچان تو لیا لیکن اس نے مجبوری ظاھر کی کہ آج نقد رقم نہیں ھے کل آکر لے جانا، میں نے عاجزانہ طور سے گزارش کرتے ھوئے اسے اپنے حالات بتائے یہ سنتے ھی اس نے اپنے کیشیئر سے بلا کر پوچھا کہ اس وقت کتنی رقم ھے اس نے کہا کہ ابھی تو میرے پاس دو ہزار کے قریب ھونگے، اس انچارج نے مجھے کیشئیر سے 2000 روپے لے کر دیئے اور کہا کہ باقی کل شام کو آکر لے جانا،!!!!!!

    میں نے اسی کو غنیمت جانا اور فوراً ھی گھر واپس الٹے پیر پہنچا، بیگم کو دیکھا وہ تو بدستور ھی بگڑی ھوئی تھیں، میں نے اپنے ایک بچے کے ذریئے اپنی بیگم کے ھاتھ میں 2000 روپے رکھوا دیئے، اور شکر ھے کہ انہوں نے قبول کرلئے،!!!!!
     
  17. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    فلائٹ کے جانے کا جیسے ھی اعلان ھوا میں نے اپنا دستی بیگ اٹھایا اور سیدھا جہاز میں جاکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا، تمام سفر کے دوران مختلف خیالات دماغ میں گونجتے رھے، اب تو لگتا تھا کہ شاید یہ ھوائی جہاز کا آخری سفر ھو، لیکن مجھے اندر سے اپنے دل کی آواز آرھی تھی کہ نہیں ابھی تو اور بھی سفر باقی ھیں، نہ جانے کیا کیا سوچتا رھا اور دل ھی دل میں اپنے آپ سے باتیں ھی کرتا رھا، یہاں بھی وقت کا اتنا احساس ھی نہیں ھوا اور مجھے اس وقت حیرانگی ھوئی کہ جب جہاز میں یہ اعلان ھوا کہ کچھ ھی دیر میں کراچی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر جہاز لینڈ کرنے والا ھے، ایک طرف دل تو بہت خوش تھا اور دوسری طرف چند میری سوچوں نے پریشان کیا ھوا تھا،!!!!!!


    سب کے ساتھ ائرپورٹ سے گھر تو پہنچ گئے، بس کچھ سنجیدگی سی خاموشی اختیار کررکھی تھی، تاکہ کسی قسم کی وضاحت نہ دینی پڑجائے، لوگ بھی مل جل کر خاموشی سے واپس چلے گئے اور کسی نے بھی کوئی سوال کرنے کی جسارت نہیں کی، جو بھی پیسے وہاں سے لایا تھا وہ میں نے بیگم کو پکڑا دئے، کہ اس سے اب گزارا کرو باقی اللٌہ مالک ھے، بیگم بھی اندرونی طور سے پریشان ھی تھیں، وہ اس دن تو خاموش رھیں، لیکن دوسرے دن سے انہوں نے میری کلاس لے ڈالی، اور خوب ناراض بھی ھوگئی، کہ میں ھمیشہ ھی جذبات میں نوکری چھوڑ کر آجاتا ھوں
    بچوں کا ساتھ ھے، ایک لمبا سا لیکچر جھاڑ دیا، وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں، اور میں بھی غلط نہیں تھا، مگر میری سنے گا کون،؟؟؟؟؟

    اب رشتہ داروں نے بھی گھر پر آکر ظعنے دینا شروع کردئے، والدہ کو تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا، بس وہ یہی کہتیں کہ اللٌہ بہتر کرے گا، میں بھی یہ سب سن سن کر پریشان ھو گیا تھا، اور بس یہ کہہ کر چپ ھوجاتا کہ اللٌہ رازق ھے، وہ جو کرے گا بہتر ھی ھوگا، کبھی کبھی تو میں یونہی دکھانے کیلئے ایک فائل بغل میں دبائے باھر نکل جاتا اور دوستوں کے پاس جاکر مل کر کچھ وقت گزار کر واپس آجاتا، گھر پر یہی سمجھتے کہ میں کسی نوکری کے سلسلے میں باھر گیا ھوں، میں دوستوں کے پاس بھی جاتا تو اپنے بے روزگار ھونے کا ذکر کبھی نہیں کرتا تھا، اور نہ ھی میں اخبارات میں ضرورت ھے کے کالم میں روزگار تلاش کرتا تھا، بس مجھے یہ پتہ نہیں کیوں قدرتی یہ امید رھتی تھی کہ جب مجھے کوئی نوکری ملنی ھوگی تو اللٌہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی سبب ضرور بنادے گا،!!!!

    سرٹیفیکیٹ تو سب میں نے ایک فائل میں رکھے تھے لیکن کوئی نوکری کیلئے درخواست ٹائپ کرکے نہیں رکھی تھی، اور نہ ھی کسی سے کوئی ذکر کیا تھا، ھر دوسرے تیسرے روز باھر نکل جاتا، اور گھوم پھر کر تھکا ھارا واپس آجاتا، اور ایسے ظاھر کرتا جیسے نوکری کی تلاش خوب مارا مارا پھر کر آرھا ھوں، کچھ دنوں بعد سعودی عرب سے میرے دوست کا پیام ملا کہ وہ بھی اپنا ایگریمنٹ تجدید نہیں کررھا ھے اور وہ بھی واپس آنا چاھتا ھے، میں نے فوراً ھی اسے پیغام بھجوایا کہ وہ ایسا نہ کرے، میں نے اگر نقصان اٹھایا ھے تو وہ کیوں اپنا نقصان کررھا ھے، بہت ھی تکرار کے بعد اس نے میری بات مانی، جب وہ چھٹی آیا تھا تو میں نے اسے مزید سمجھایا، کہ میری فکر نہ کرو مجھے جلد ھی کوئی نہ کوئی نوکری مل جائے گی لیکن تم اپنا چانس بیکار نہ کرو،،!!!! آخرکار اس نے میری بات مان لی اور اس نے نئی تنخواہ کے پیکیج پر نیا ایگریمنٹ تجدید کرالیا،!!!!!

    دو مہینہے اور گزر گئے، جو پیسے میں لایا تھا، وہ بھی ختم ھونے والے تھے، ایک دن بیگم نے مجھے 50 روپے کا نوٹ دکھاتے ھوئے کہا کہ اب یہ آخری نوٹ بچا ھوا ھے، اور اب کچھ بھی نہیں ھے، گھر کا سودا بھی اب ختم ھونے کو ھے، میں نے یہی کہا کہ اللٌہ مالک ھے، میں نے بھی کچھ سوچنا شروع کیا کہ اب کہان سے پیسوں کا انتطام کروں، تیار ھو کر گھر سے باھر نکلنے والا ھی تھا، کہ دروازے کی گھنٹی بجی، دروازے پر جاکر دیکھا تو میرے سعودی عرب کے ساتھی دوست کے چھوٹے بھائی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ بھائی نے یہ 700 ریال بھیجے ھیں، شاید کچھ میرے جو کچھ بقایا جات وہان پر تھے، اسی کا حساب کتاب ھے، اور وہ رقم دے کر واپس چلے گئے، میں نے فوراً یہ رقم بیگم کے حوالے کئے،!!!! کہ لو تمھارے گھر کے خرچ کیلئے اللٌہ میاں نے بندوبست کردیا ھے، کل بنک سے اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرا لانا اور ساتھ ھی گھر کا سودا بھی لے ھی آنا،!!!!!!
    ------------------------------------

    دو مہینہے اور گزر گئے، جو پیسے میں لایا تھا، وہ بھی ختم ھونے والے تھے، ایک دن بیگم نے مجھے 50 روپے کا نوٹ دکھاتے ھوئے کہا کہ اب یہ آخری نوٹ بچا ھوا ھے، اور اب کچھ بھی نہیں ھے، گھر کا سودا بھی اب ختم ھونے کو ھے، میں نے یہی کہا کہ اللٌہ مالک ھے، میں نے بھی کچھ سوچنا شروع کیا کہ اب کہان سے پیسوں کا انتطام کروں، تیار ھو کر گھر سے باھر نکلنے والا ھی تھا، کہ دروازے کی گھنٹی بجی، دروازے پر جاکر دیکھا تو میرے سعودی عرب کے ساتھی دوست کے چھوٹے بھائی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ بھائی نے یہ 700 ریال بھیجے ھیں، شاید کچھ میرے جو کچھ بقایا جات وہان پر تھے، اسی کا حساب کتاب ھے، اور وہ رقم دے کر واپس چلے گئے، میں نے فوراً یہ رقم بیگم کے حوالے کئے،!!!! کہ لو تمھارے گھر کے خرچ کیلئے اللٌہ میاں نے بندوبست کردیا ھے، کل بنک سے اسے پاکستانی کرنسی میں تبدیل کرا لانا اور ساتھ ھی گھر کا سودا بھی لے ھی آنا،!!!!!!

    اپریل 1998 کے شروع کے دن تھے اور مجھے گھر بیٹھے ھوئے دو مہینے بھی گزر چکے تھے، بچے تو اپنے آپ میں مگن تھے اور باقاعدگی سے اسکول جارھے تھے، بس میری بڑی بیٹی جو 14 سال کی ھوچکی تھی، اور ساتویں جماعت میں تھی کچھ زیادہ حساس تھی اور اب شادی کے بعد بھی ویسی ھی ھے، وہ سمجھتی تھی کہ آج کل ابو اور امی کے ساتھ ملازمت کے سلسلے میں کچھ مسائل چل رھے ھیں،!!!!!

    بڑا بیٹا 16 سال کے لگ بھگ تھا، وہ نویں جماعت میں زیر تعلیم تھا، لیکن وہ تو بس اپنے دوستوں میں اور کرکٹ میں زیادہ تر مگن رھتا تھا، باقی دوسرا بیٹا 12 سال کا تھا، اور چھٹی کلاس میں تھا اس کے بعد ایک بیٹی غالباً 10 سال کی تھی جو شاید پانچویں جماعت میں ھوگی، اور چھوٹی بیٹی کا وقفہ کچھ لمبا ھی تھا وہ تقریباً 5 سال کی ھوگی، وہ بھی کے،جی 1 میں داخلہ لے چکی تھی،!!!!!

    جب تک بچوں نے پاکستان میں پڑھا، ان میں سے صرف لڑکیاں ھی اس وقت اپنی اپنی کلاسوں میں اوٌل پوزیشن لے رھی تھیں، اس کی وجہ ان کی والدہ کی تربیت اور خاص دیکھ بھال ھی تھی، لڑکوں پر ان کا اتنا رعب نہیں چلتا تھا، اور نہ ھی وہ اپنی والدہ کی کسی بات پر کان دھرتے تھے، کیونکہ پاکستان جاکر تو وہ دونوں بالکل آزاد ھوچکے تھے ایک وجہ کہ میں بھی ان کے ساتھ وھاں نہیں تھا، چھوٹا بیٹا بھی بس اے ون گریڈ میں پاس ھو تو جاتا تھا لیکن کوئی خاص پوزیشن نہیں آتی تھی، کلاس میں ساتویں یا آٹھویں پوزیشن پر رھتا تھا، اور بڑا بیٹا تو کلاس میں پاس ھو جائے تو بھی بڑی بات تھی، مگر پھر بھی چھوٹا بیٹا بڑے سے کچھ بہتر تھا، جو گھر کے سارے باھر کے کام میں اپنی والدہ کا ھاتھ بٹاتا تھا،!!!!

    خیر بات ھورھی تھی کہ سعودیہ سے مجھے آئے ھوئے دو مہینے سے زیادہ ھو چکے تھے، اور گھر اللٌہ کے آسرے پر چل رھا تھا، بیگم کچھ زیادہ ھی فکرمند تھیں، شکر ھے کہ سب بچوں کی اسکولوں کی ماہانہ فیس بھر چکے تھے، اور اگلے مہینے کی پریشانی تھی کہ اگر یہی حالت رھی تو کیا ھوگا،؟؟؟ وہ جو پیسے میرے دوست کا بھائی دے گیا تھا، وہ بھی گھر کا سودہ سلف جو اکھٹا مہینے کا راشن آتا تھا، اسی میں زیادہ تر ختم ھوگئے تھے، اور باقی تھوڑے بہت روزمرہ کے خرچ میں لگ چکے تھے، ایک ہفتہ بعد بھر بیگم نے اپنے دربار میں حاضری کے لئے بلوالیا، اور پہلے کی طرح پھر انہوں نے مجھے اعلان سنادیا کہ اب تو 50 کا نوٹ بھی نہیں ھے، میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، اللۃ مالک ھے، میرے اس جملے کے نکلتے ھی بس وہ غصہ میں بپھر جاتی تھیں، پھر وہ رونے بھی لگ جاتیں، پھر تو واقعی مجھے بہت ترس آتا تھا،!!!!!

    میں اس دفعہ بھی خاموش تھا، اب تو شاید گھر میں 10 روپے ھی ھونگے، بیگم کے شکوئے کے فوراً بعد ھی مجھے افسوس تو ھوا، لیکن میں کیا کر سکتا تھا، اللٌہ سے ھی امید باندھے بیٹھا تھا، اور مجھے بالکل امید تھی کہ کچھ نہ کچھ بندوبست ھوجائے گا، یہی میں بیگم سے بھی کہتا تھا، لیکن وہ یہی جوب دیتیں کہ گھر میں بیٹھ کر اللٌہ تعالیٰ کچھ نہیں دے گا جبتکہ کچھ ھاتھ پیر نہ ھلائیں، میں بھی مذاقاً کرسی پر بیٹھے بیٹھے پیر ہلانے لگتا، اور کہتا کہ دیکھ ھلا تو رھا ھوں، دل ھی دل میں سوچ بھی رھا تھا کہ اس دفعہ تو اللٌہ میاں نے کچھ دیر کردی ھے، یہی سوچتے ھوئے رات بھی گزار دی اور بیگم بھی ناراض تھیں، دوسرے دن صبح صبح ایک گھنٹی بجی میں فوراً میں گیٹ پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک اسکوٹر پر ایک صاحب نظر آئے، انہوں نے میرا نام پوچھا اور ایک لیٹر تھماتے ھوئے کہا کہ،!!!! آپ کا فلیٹ قسطیں نہ جمع کرانے کے سبب منسوخ ھو چکا ھے، اس لئے برائے مہربانی اپ ھمارے دفتر پہنچ کے اپنے ٹوکن کی رقم واپس لے لیں،!!!!!!!

    میں دل میں بہت ھی خوش ھو گیا، مجھے تو اپنا فلیٹ اپنے چکروں میں یاد ھی نہیں رھا تھا، یہ بندہ تو میرے لئے اس وقت فرشتہ بن کر آیا تھا، اور کمپنی بھی کتنی اچھی تھی ورنہ ایسی رقم تو اکثر ڈوب ھی جاتی تھی، میں نے اللٌہ کا شکر ادا کیا فوراً ھی کپڑے وغیرہ تبدیل کئے اور بیگم کو دیکھا تو وہ تو غصہ میں منہ پھلائی بیٹھی تھیں، میں چاھتا تھا کہ ان کو تفصیل بتا کر انہیں خوش کردوں، مگر ان کا موڈ دیکھ کر ہمت ھی نہیں پڑی، اب اس بلڈر کے پاس جانے کے لئے بس کا کرایہ تو چاھئے، وہ کس طرح مانگوں، مگر میں کچھ کہے سنے بغیر گھر سے باھر نکل گیا، اس محلے میں میری اتنی جان پہچان نہیں تھی کہ کسی سے دو چار روپے ادھار ھی لے لیتا، بچے سارے تو اسکول گئے ھوئے تھے، اور ان کے آنے میں ابھی بہت دیر تھی ورنہ ان سے سفارش کروا کر ان کی اماں سے پیسے منگوا لیتا، اور دوستوں کے یہاں جانے کیلئے بھی تو بس کا کرایہ چاھئے تھا، یہ سوچتے ھوئے میں نے بلڈرز کی فائل گھر سے لے کر بس اسٹاپ کی طرف آھستہ آھستہ چل دیا ،!!!!

    بس اسٹاپ پہنچنے سے پہلے ھی جیب پر نظر گئی تو احساس ھوا کہ جیب میں کچھ ھے، فوراً ھی ھاتھ ڈالا تو دس کا نوٹ ھاتھ میں آگیا، شاید میری بیگم نے میرے کپڑے بدلنے سے پہلے ھی میری قمیض‌ کی جیب میں دس روپے کا نوٹ ڈال دیا ھو گا، مجھے اپنی بیگم پر بہت رحم آیا، بس کیا تھا فوراً ھی بلڈر کے دفتر پہنچا اور وھاں کے اسی انچارج کے پاس گیا جس کو میں نے شاید چھ مہینے پہلے قبل 5000 روپے ٹوکن کے طور پر جمع کرائے تھے، اس نے مجھے پہچان تو لیا لیکن اس نے مجبوری ظاھر کی کہ آج نقد رقم نہیں ھے کل آکر لے جانا، میں نے عاجزانہ طور سے گزارش کرتے ھوئے اسے اپنے حالات بتائے یہ سنتے ھی اس نے اپنے کیشیئر سے بلا کر پوچھا کہ اس وقت کتنی رقم ھے اس نے کہا کہ ابھی تو میرے پاس دو ہزار کے قریب ھونگے، اس انچارج نے مجھے کیشئیر سے 2000 روپے لے کر دیئے اور کہا کہ باقی کل شام کو آکر لے جانا،!!!!!!

    میں نے اسی کو غنیمت جانا اور فوراً ھی گھر واپس الٹے پیر پہنچا، بیگم کو دیکھا وہ تو بدستور ھی بگڑی ھوئی تھیں، میں نے اپنے ایک بچے کے ذریئے اپنی بیگم کے ھاتھ میں 2000 روپے رکھوا دیئے، اور شکر ھے کہ انہوں نے قبول کرلئے،!!!!!
     
  18. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے اسی کو غنیمت جانا اور فوراً ھی گھر واپس الٹے پیر پہنچا، بیگم کو دیکھا وہ تو بدستور ھی بگڑی ھوئی تھیں، میں نے اپنے ایک بچے کے ذریئے اپنی بیگم کے ھاتھ میں 2000 روپے رکھوا دیئے، اور شکر ھے کہ انہوں نے قبول کرلئے،!!!!!

    دوسرے دن بھی بلڈر کے آفس جاکر باقی کے 3000 روپے لے آیا، اور جب تک تو بیگم کا موڈ قدرے بہتر ھو چکا تھا، اور پھر سے گھر کی گاڑی پٹری پر چل پڑی، آھستہ آھستہ مگر چل تو رھی تھی، اب کیا کیا جائے میں نے پھر کچھ ھمت پکڑی اور کچھ دوستوں کے آفس جاکر سروس کے بارے میں معلومات حاصل کیں، لیکن ھر جگہ کی تنخواہ اور وہاں کا ماحول دیکھ کر ھمت نہیں پڑی، کھڑکیاں کھلی ھوئی پنکھے چل رھے ھیں جہاں ائرکنڈیشنڈ ھیں وہ کام ھی نہیں کرتے اگر ھیں بھی تو منیجر اور ڈائریکٹران صاحبان کے کمروں میں لگے ھوئے ھیں اور روزانہ بسوں میں لٹک کر جانا کر جانا اور دو گھنٹے پہلے گھر سے نکلنا، بہت ھی مشکل نظر آتا تھا،!!!!!!

    یہاں ھم لوگوں نے اپنی عادتیں بہت ھی زیادہ بگاڑ لی ھیں، گھروں میں ائرکنڈیشنڈ، دفتروں‌ میں ائرکنڈیشنڈ اسکے علاؤہ گاڑیوں میں بھی ائرکنڈیشنڈ کی وجہ سے اپنی عادتوں کو اس قدر خراب کر لیا ھے، کہ اگر ذرا سی بھی تکلیف اٹھانی پڑ جائے تو بہت مشکل ھے اپنے آپ کو سنبھالنا، اور ذرا سے گرمی پر جائے تو مشکل اوپر سے لوڈشیڈنگ اور بھی پریشانیوں میں اضافہ کردیتی ھے، نہ جانے ھم لوگوں کا کیا ھوگا، ھم نہ اِدھر کے رھے نہ اُدھر کے، نہ گھر کے نہ گھاٹ کے،!!!!

    اب تو مجھے آئے ھوئے بھی ڈھائی مہینے ھورھے تھے، اپریل کا آخری ھفتہ گزر رھا تھا، اور اب ڈر بھی لگ رھا تھا کہ بیگم نے کسی دن بھی پھر سے پیسے ختم ھونے کا اعلان کردینا ھے، اس لئے دل کو بار بار اس گھبراہٹ سے دوچار ھونا پڑتا تھا کہ نہ جانے کس وقت ھنگامی حالات کا اعلان ھوجائے، خیر اپریل 1998 کا آخری دن ھی تھا کہ بیگم نے نوٹس نکال ھی دیا مگر اس دفعہ شکر ھے کہ ھنستے ھوئے کہا کہ،!!!!! جناب اب کچھ اور کہیں سے بندوبست کرلیجئے، وہ پیسے بھی ختم ھونے کو ھیں، اب تو بچوں کی اسکول کی فیسیں اگلے مہینے کی 10 تاریخ سے پہلے ادا کرنی ھے، اور گھر کا سودا سلف بھی ختم ھورھا ھے، بجلی، گیس کا بل بھی آچکا ھے، اب تو کوئی صورت نظر نہیں آتی، کہیں اور کا تو آسرا بھی نہیں ھے، اب تو رشتہ دار بھی اپنے گھر کا راستہ بھول چکے ھیں،!!!!!

    دوسرے دن اس سے پہلے کہ بیگم کوئی نیا پیغام سناتیں، میں نے سب سے کہا کہ سب تیار ھوجاؤ آج ھم سب دادی کے پاس چل رھے ھیں، بیگم نے کہا کہ،!!! میرے پاس اب یہ صرف 200 روپے بچے ھیں اور ٹیکسی والا کم از کم 150 روپے وہاں تک تو ضرور لے گا، کیونکہ آپ کو تو بس میں سارے کنبہ کو لے جاتے ھوئے شرم بھی آتی ھے نا، پھر واپسی کا کیا ھو گا بچوں کو اگلے دن اسکول بھی جانا ھے،!!!! میں نے پھر وہی اپنا جملہ دہرا دیا کہ اللٌہ مالک ھے،!!!!! اس دن بچوں کی چھٹی بھی تھی، بچے بھی خوش ھوگئے اور پھر ٹیکسی کے ذریئے ھم سب اپنی اماں جان کے گھر روانہ ھو گئے، گھر سے نکلتے نکلتے دیر ھوگئی تھی شام تک ھی پہنچے تھے میں تو سلام دعاء کے بعد فوراً ھی بیٹھک میں ایک بڑے صوفے پر نیم دراز ھو گیا،!!!!!!

    ایک تو گرمی تھی اور اوپر سے پنکھا بھی گرم ھوا دے رھا تھا، میں تو پنکھے کو ھی کوس رھا کہ بجلی ھی چلی گئی، لو یہ کیا ھوا اس پنکھے کی ھوا سے بھی گئے، پھر کیا کرتے چھت پر ھی نکل گئے سب کے ہاتھوں میں ہاتھ کے پنکھے تھے اور جھلتے وقت سب باتیں کرتے ھوئے آسمان کو ھی تک رھے تھے، شاید اللٌہ میاں سے شکوہ کررھے ھونگے، مجھے تو میرے بچے پنکھا جھل رھے تھے اور میں ایک دری پر لیٹا ھوا عورتوں کی گپ شپ سن رھا تھا، اور بیگم تو میری بے روزگاری کی درد بھری داستان اپنی ساس کو سنارھی تھیں، ساتھ میری شکایت بھی کررھی تھیں، اماں ھماری بیچاری بس افسوس ھی کررھی تھیں اور ھماری بیگم کو دلاسہ بھی دے رھی تھیں، کہ بیٹا اللٌہ بہت کار ساز ھے، وہ جلد ھی بہت بہتر کرے گا،!!!! میری چھوٹی بہنیں بھی اپنے اپنے سسرال سے آئی ھوئی تھیں، اور خوب گپ شپ میں اپنے سسرال والوں کو لپیٹے میں لیا ھوا تھا، !!!!!!

    رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، اور بجلی آنے کا نام ھی نہیں لے رھی تھی، موم بتی کی روشنی میں کیا دکھائی دیتا ھر ایک کے مدھم سے چہرے نظر آرھے تھے، ھماری اماں بھی اسی اندھیرے میں کھانے پینے کا انتظام کررھی تھی اور ساتھ ھماری بیگم اور ایک بہن بھی مدد کررھی تھیں، مجھے واپس بھی جانا تھا اور جیب میں صرف ایک پچاس روپے کا نوٹ بچا ھوا تھا، میں نے بھی سوچا کہ چلو اس دفعہ واپس بس میں ھی چلیں گے، کھانے سے پہلے ھی میں واپس بیٹھک میں ایک صوفے پر لیٹ کر آنکھیں بند کئے ھوئے کسی سوچ میں گم تھا، کہ مجھے کچھ ایسا محسوس ھوا کہ کسی نے میری قمیض کے جیب میں کچھ ڈالا ھے، میں نے آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ ھماری اماں جاتی ھوئی نظر آئیں، میں نے دیکھا کے کچھ نوٹ لپٹے ھوئے جیب میں رکھے ھوئے ھیں، میں سمجھ گیا کہ یہ تو میری اماں نے ھی جیب میں رکھے ھونگے، مگر انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا، بعد میں میں نے اکیلے میں موم بتی کی روشنی میں دیکھا وہ تو 5000 روپے تھے،!!!! اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے،!!!!!!!

    -------------------------

    کھانے سے پہلے ھی میں واپس بیٹھک میں ایک صوفے پر لیٹ کر آنکھیں بند کئے ھوئے کسی سوچ میں گم تھا، کہ مجھے کچھ ایسا محسوس ھوا کہ کسی نے میری قمیض کے جیب میں کچھ ڈالا ھے، میں نے آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ ھماری اماں جاتی ھوئی نظر آئیں، میں نے دیکھا کے کچھ نوٹ لپٹے ھوئے جیب میں رکھے ھوئے ھیں، میں سمجھ گیا کہ یہ تو میری اماں نے ھی جیب میں رکھے ھونگے، مگر انہوں نے مجھے کچھ بھی نہیں کہا، بعد میں میں نے اکیلے میں موم بتی کی روشنی میں دیکھا وہ تو 5000 روپے تھے،!!!! اس وقت میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے،!!!! !!!

    کھانے سے فارغ ھوکر واپسی کی تیاری کرنے لگے، بجلی آچکی تھی، چھوٹا بھائی ٹیکسی بھی لے آیا، بیگم فوراً پریشان ھوگئیں، مجھ سے آھستہ سے کان میں کہا کہ !!!! کیا جیب میں پیسے ھیں جو ٹیکسی منگوالی،!!!! میں نے اپنی گردن ھلادی، بیگم نے چہرے کے تاثرات سے تعجب کا اظہار کیا،!!! وہ شاید حیران اس بات سے تھیں کہ میرے پاس پیسے آئے کہاں سے، وہ راستے بھر کریدنے کی کوشش کرتی ھی رھیں، لیکن میں نے کوئی جواب نہیں دیا،!!!!!

    گھر پہنچتے ھی انہوں نے کہا کہ اب تو بتادو کہ پیسے کہاں سے آئے اور کس نے دیئے،؟؟؟؟ میں نے مسکراتے ھوئے جواب دیا کہ اماں نے دیئے ھیں اور یہ کہتے ھوئے میں نے انکے ھاتھ میں ساری رقم رکھ دی،!!!! بیگم نے فوراً ھی کہا کہ آپ کو اماں سے پیسے لیتے ھوئے ذرا سی بھی شرم نہ آئی،!!!! میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، اور یہ پیسے میں نے خود تو نہیں مانگے، وہ ھماری ماں ھماری بزرگ ھیں اور جو بھی وہ دیں لینے سے انکار کرنا بری بات ھے، تم پریشان نہ ھو، بس دعاء کرو کہ حالات بہتر ھوجائیں،!!!!!!

    گھر بیٹھے ھوئے تین مہینے ھوچکے تھے، والدہ کے دیئے ھوئے پیسوں سے شاید ھماری بیگم نے گھر کا سودا اور بجلی گیس کے بل فارغ کئے اور بچوں کے اسکول کی فیسیں وغیرہ بھر کر وہ بھی تمام پیسے ختم کردیئے، پھر ایک ہفتے بعد انہوں نے ھری جھنڈی دکھا دی کہ وہ پیسے بھی ختم ھوگئے ھیں، ابھی کچھ یہی تکرار ھوھی رھی تھی کہ ھمارے سسر صاحب اور ساس صاحبہ آگئے،!!!!!
    میں نے جیسے ھی انکی آواز گھر کے سامنے والے دروازے سے سنی، بچے شور مچاتے نانا نانی کے پاس بھاگے، میں پچھلی گلی کے دروازے سے باھر نکل گیا، مجھے اب روز روز ھر کسی کا سامنا کرنے سے شرمندگی ھورھی تھی، جبکہ وہ بھی میرے بزرگوں میں سے تھے،!!!!!

    جیسے ھی میں باھر نکلا اور ابھی کچھ ھی دور گیا ھوں گا، کہ میرا چھوٹا بیٹا بھاگا بھاگا میرے پیچھے آگیا اور ھانپتے ھوئے بولا کہ ابو ،!!!!! نانا بلا رھے، ھیں، جلدی چلو ،!!!!! میں سمجھا کہ نہ جانے کیا ایمرجنسی لگ گئی ھے، کہ خاص طور سے بچے کو میرے پیچھے دوڑایا ھے، میں واپس گھر کی طرف ھولیا، اور دیکھا کہ ھمارے سسر جی گھر کے مین دروازے پر تھے، انہوں نے کہا کہ،!!!! تمھارے دوست دلاور خان نے فوراً تمھیں بلایا ھے،!!!! میں نے وجہ پوچھی تو انہوں کہا کہ معلوم نہیں،!!!! مجھے بھی کسی سے پتہ چلا ھے وہ کئی دنوں سے تمھاری تلاش میں ھے،!!!!! انہوں نے اس طرح کہا جیسا کہ میں نے اسکا قرضہ ادا کرنا ھے،!!!!

    یہ میرا دوست میرے ساتھ پہلے کی کنسٹرکشن کمپنی میں یہاں پاکستان اور سعودی عرب میں ملازمت کر چکا تھا اور آج کل وہ کسی اور کنسٹرکشن کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز تھا، میں بھی جب سے پاکستان آیا تھا اس سے ملاقات ھی نہیں کرسکا، میں نے سوچا چلو آج گھر میں بیٹھنے سے بہتر ھے کہ اس دوست کے پاس ھو آتے ھیں، گھر پر ھونگا تو خامخواہ ھی بدمزگی ھوگی، جیب میں ھاتھ ڈالا تو گزارے کیلئے کچھ پیسے نکل آئے، میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی امی سے کہدینا کہ میں ذرا باھر اپنے دوست سے ملنے جارھا ھوں اور شام تک آجاونگا،!!!!!!

    وہاں سے فوراً دو بسیں بدل کر میں اسی دوست کے آفس جا پہنچا، وہاں لنچ کا وقت ھوچکا تھا، میرا دوست پہلے تو بڑی گرم جوشی سے ملا، اور خیر خیریت پوچھنے لگا، میں بھی رسماً جواب دیا کافی دنوں بعد ھم دونوں ملے تھے، خوب گپ شپ ھوئی، باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ ھماری کمپنی ترکمانستاں کے شہر اشک آباد میں سرمایہ کاری کررھی ھے، اور وھاں کی ترقیاتی کاموں میں وھاں کی سرکار کی مدد بھی کریگی، اگر تم جانا چاھتے ھو تو میں اپنے مالکان سے بات کروں، کیونکہ انہیں ایک چیف اکاونٹنٹ کی ضرورت ھے، اور انہوں نے مجھے کہا ھے کہ کوئی بھروسے کے قابل کوئی بندہ ڈھونڈ کر لاؤ، تو میں نے تمھارا سوچا تھا، اورکئی دنوں سے میں تمھاری تلاش میں بھی تھا، اور سب جگہ میں نے تمھارے لئے یہ پیغام بھجوایا تھا، اب تو کافی انٹرویو ھو چکے ھیں اور بس سیلیکشن ھونا باقی ھے، اگر تمھارا ارادہ ھے تو بتاؤ میں آگے کچھ بات کروں،!!!!!

    میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ کتنی تنخواہ ھے، !!!! اس نے جواب دیا کہ ویسے تو سب ملا کر فی الحال 800 ڈالر ھیں لیکن میں تمھارے لئے 1000 ڈالر کیلئے منواسکتا ھوں، مین نے کہا کہ اس سے زیادہ تو میں سعودی عرب میں لے رھا تھا ھاں اگر 1500 ڈالر کیلئے میں رضامند ھوسکتا ھوں،!!!! اس نے جواب دیا کہ میں کوشش کرتا ھوں اور یہ کہتے ھوئے اپنے کمرے سے باھر نکلا، شاید اپنی کمپنی کے ڈائرئکٹر کے کمرے میں گیا ھوگا، !!!!! میں نے اسے یہ نہیں کہا تھا کہ میں نوکری چھوڑ کر آیا ھوں، بلکہ یہ ضرور باتوں باتوں میں کہا تھا کہ کنٹریکٹ ختم کرکے آیا ھوں، اور سوچ رھا ھوں کہ اب دوبارہ اگلا کنٹریکٹ کروں یا نہیں،!!!!!!

    کچھ ھی دیر میں ان کے چپراسی نے اندر داخل ھوتے ھوئے مجھے کہا، کہ آپکو بڑے صاحب بلارھے ھیں، میں نے بھی اللٌہ کا نام لیتے ھوئے، ان بڑے صاحب کے کمرے میں داخل ھو گیا، کیا خوبصورت سجا ھوا ائرکنڈیشنڈ آفس تھا، بہت ھی پروقار شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے کھڑے ھوکر بڑے خلوص کے ساتھ مجھے بیٹھنے کیلئے کہا اور تین چائے کا آرڈر بھی دے دیا، پھر انہوں نے مجھ سے مخاطب ھوتے ھوئے کہا کہ!!!!! آپ کے دوست نے آپکے بارے میں بتایا ھے اور آپکے وسیع تجربے کا سن کر ھمیں بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی ھے، اور ھمیں آپ جیسے کی ھی تلاش تھی، آپ کے دوست جانتے ھیں کہ ھمارے سارے ساتھی جو ھمارے ساتھ کام کرتے ھیں وہ سب ھمارے نذدیک ایک ھی فیملی کی طرح ھیں، اگر آپ ھماری فیملی مین شامل ھونا چاھتے ھیں، تو ھمارے لئے بہت ھی مسرت کا مقام ھوگا، تنخواہ کیلئے فی الحال ھم آپکو 500 ڈالر یہاں کراچی میں جہاں آپ کہیں گے پہنچادیں گے، اور باقی کے 500 ڈالر وہاں پر ادا کریں گے کھانے پینے اور رھائیش کی سہولت کمپنی ک ذمہ داری ھوگی، مگر ھم یہ وعدہ کرتے ھیں جیسے جیسے ھمارے کام میں ترقی ھوگی ھم ضرور آپکی تنخواہ میں مزید بہتری لے آئیں گے، دعاء کریں،!!!! میں نے انکی سحر انگیز باتوں سے مرعوب ھو کر ھامی بھر لی اور اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا، !!!!!!!!!!

    میں تو دل ھی دل میں خوش تھا، کہ چلو اللٌہ نے ھماری سن تو لی اس سے بہتر اور کیا ھوسکتا تھا،
    مین نے اپنے دوست سے کہا کہ!!!! یار تھاری خاطر میں یہ قبول کر لیتا ھوں اور سعودی عرب واپس دوسرا کٹریکٹ کرنے نہیں جاتا، کیونکہ مجھے تمھاری کمپنی کا ماحول اچھا لگا ھے،!!!! اس نے جواب دیا مجھے بھی اس کمپنی میں بہت فائدے ھوئے ھیں اور اس کمپنی میں کام کرتے ھوئے 10 سال ھوگئے ھیں، اور آج میں ایڈمن آفیسر ھوں اور اب تنخواہ 30،0000 روپے ھے، اور امید ھے کہ مزید بہتر ھوگی، تم اگر محنت سے ان کے ساتھ بھروسے اور اعتماد کے ساتھ کام کروگے تو تم دیکھنا کہ یہ لوگ تمھیں کہاں سے کہاں تک پہنچا دیں گے، ابھی بھی تمھیں چیف اکاونٹنٹ کا عہدہ دے رھے ھیں اس کے علاوہ تمھارے پاس اس وقت وھاں پر مزید اسٹاف ممبر بھی ھونگے، اور اس کے ساتھ بہترین گھر نوکر کے ساتھ، اس کے علاوہ تمھیں ایک کار بھی ملے گی، اور تمھیں کیا چاھئے،!!!!!

    میں تو یہ سن کر تو دل میں لڈو پھوٹ رھے تھے، اس نے کہا کہَ!!!!!! جلدی سے گھر جاؤ اور فوراً ھی اپنا پاسپورٹ لے آؤ، تاکہ میں آج ھی تمھارا پاسپورٹ کوریئر کے ذریعے اسلام آباد اپنے ھیڈ آفس بھجوا دیتا ھوں، آج ہفتہ کا دل ھے اور مجھ امید ھے کہ وہاں سے بروز منگل کو تمھارا پاسپورٹ ویزا لگ کر یہاں پہنچ جائے گا، اور اسی منگل کی رات کو تم ترکمانستان کے شہر اشک آباد روانہ ھو جاؤگے،!!!!

    میں تو مزید حیران ھو گیا کہ اتنی جلدی اور کسی بھی دستاویزات کے لکھے پڑھے اور دستخط کئے بغیر یہ کیسے ممکن ھے، میں نے اس سے پوچھا کہ،!!!!! یہ سب کیا ھے بھئی کہیں کسی چکر میں پھنسوا نہیں دینا، تین دن میں کیسے روانہ ھو سکتا ھوں،!!!! اس نے فوراً کہا کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی کمپنی نہیں ھے، یہ ھم پر چھوڑ دو اور ابھی میں ڈرائیور کو تمھارے ساتھ بھیجتا ھوں، ابھی جاؤ اور پاسپورٹ لے آو تاکہ میں اسے بھجوادوں، اور مزید تمھاری تسلی کیلئے میں بعد میں بات کرتا ھوں، ایسا موقع پھر ھاتھ نہیں آئے گا تمھیں پتہ ھے کہ اس پوسٹ کیلئے پہلے کافی انٹرویو ھو بھی چکے ھیں،!!!!!

    میں اسی کمپنی کے ایک باوردی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر گھر واپس پہنچا اور بیگم سے خاموشی میں کہا کہ ذرا مجھے جلدی سے پاسپورٹ دو، بیگم نے مزید پوچھ گچھ شروع کردی، میں نے کہا،!!!! میں بعد میں تمہیں آکر تفصیل سے بتاتا ھوں ابھی تو یہ سمجھ لو کہ تمھاری اللٌہ تعالیٰ نے سن لی ھے، بیگم تو حیران بھی ھوئیں اور خوش بھی نظر آرھی ھیں، فوراً ھی میں نے پاسپورٹ لیا اور سیدھا اسی کار میں واپس چلا گیا، آفس میں وہ میرا دوست پاسپورٹ کو بھیجنے کے انتظامات کررھا تھا، کیونکہ میں دیکھا کہ کورئیر کا بندہ اسی کے پاس بیٹھا تھا، اور میرے پاسپورٹ کے علاؤہ اور بھی کئی پاسپورٹ نظر آئے جو وہ ھر ایک کے پاسپورٹ کے ساتھ ایک فارم بھر کر وہ میرا دوست خود ھی بھیجنے کی تیاری کررھا تھا اور ساتھ ھی اسلام آباد میں ان کے آفس میں کسی سے پاسپورٹ کی تفصیل بتا رھا تھا اور یہ بھی میں نے کہتے ھوئے سنا کہ پیر کے دن صبح صبح ان تمام پاسپورٹ پر ارجنٹ ویزے لگوا کر فوراً کورئیر کے ذریعئے واپس کردینا، کیونکہ ان سب کی منگل کی سیٹیں بک ھیں،!!!!!

    وہاں پر میرے دوست نے مجھے تمام کام کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا، ویسے بھی مجھے اس کمپنی کے بارے میں پہلے سے علم تھا، یہ ایک ھمارے ملک کی بہت بڑی مشہور کنسٹرکشن کمنی تھی، اب تک بہت بڑے بڑے پروجیکٹس پر کام کیا ھوا تھا، اور اکثر میں جب بھی سعودی عرب سے آتا اپنے اسی دوست سے اس کے دفتر میں جاکر ضرور ملتا تھا، کاش کہ اس دفعہ بھی میں اس سے تین مہینے پہلے ملا ھوتا تو اب تک میں ترکمانستان میں بیٹھا کام بھی کررھا ھوتا، اور ان تیں مہینوں سے جو مشکلات درپیش تھے، ان سے بچت بھی ھو جاتی، لیکن جو اللٌہ کو منظور ھو، وھی ھوتا ھے، اور مجھے ان تجربات اور امتحانات سے بھی تو گزرنا تھا،!!!!!

    میں نے گھر پر جاکر تمام تفصیل بتائی، اور کہا کہ شاید مجھے اس منگل کے روز جانا پڑ جائے، بیگم تو بہت خوش ھوگیئں اور اگلے دن اتوار کو انہوں نے جو چھپر میں پیسے چھپائے ھوئے تھے، اور شاید انکے والدین بھی کچھ ھاتھ میں رکھ گئے ھونگے، جیساکہ وہ اکثر بیگم اور بچوں کے ھاتھ میں رکھ جاتے تھے، اس کے علاوہ بچوں کے ماموں بھی آتے تھے کچھ نہ کچھ اپنی بہن اور بھانجے بھانجیوں کو ھمیشہ دیتے رھتے تھے اور ھماری بیگم سب رقم کو ایک جگہ کرکے چھپر میں رکھتی جاتی ھیں، بیگم نے سارے پیسے اکھٹے کئے اور اپنے پرس میں ڈال کر بچوں کے ساتھ شاپنگ کیلئے چل دیں، مجھے یہ تو معلوم ھی تھا کہ ھماری بیگم ھمیشہ کچھ نہ کچھ تھوڑے بہت پیسے ایک طرف رکھتی جاتی تھیں، میں نے کبھی بھی ان پیسوں کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا، اور نہ ھی کبھی میں نے ان سے جو پیسے میں بھیجتا تھا ان پیسوں کا حساب کتاب لیا تھا، مجھے یہ یقین تھا کہ وہ مکمل طور سے بھروسے اعتماد اور کفائت کے ساتھ ایک ایک پیسہ خرچ کرتی تھیں، اور ایک کاپی میں لکھتی بھی رھتی تھیں اور کبھی خدانخواستہ کسی وقت اگر کچھ ارجنٹ پیسوں کی ضرورت پڑ جائے تو انکی چھپر کی پٹاری ھی کام آتی تھی،!!!!!

    میری کچھ ضرورت کی چیزیں انہوں نے اپنی مرضی سے خریدیں، دو تین میرے لئے جوڑے خریدے ساتھ ھی گرم کپڑے اور اچھے قسم کے جوتے بھی لئے اور کچھ جو بھی اس وقت انہیں یاد تھا، میری باھر جانے کی تیاری کیلئے انہوں نے ایک اچھی خاصی رقم خرچ کردی، مجھے افسوس بھی تھا کہ انہوں نے اپنی ساری اس دفعہ کی بچت مجھ پر ھی خرچ کر ڈالی، مجھے ان پر اس بات کا فخر تھا کہ وہ گھر کے تمام انتظامی امور کو بخوبی بہت اچھی طرح چلاتی تھیں، اور کبھی مشکل پیش آجائے تو بخیر وخوبی کسی نہ کسی طرح مسائل کا حل تلاش بھی کرلیتیں تھیں، مجھے اسی لئے گھر کی طرف سے کبھی کوئی فکر لاحق نہیں ھوئی، اور یہ سب ھم دونوں کے آپس کی خود اعتمادی اور پکے بھروسے کی بات تھی،!!! کبھی کبھی وہ جعلی رعب بھی مجھ پر ڈالتی تھیں، تاکہ میں اپنی فضول خرچی سے کہیں اِدھر اُدھر بھٹک نہ جاؤں،میری جیب میں کبھی بھی کوئی پیسہ نہیں رھتا تھا، اس لئے سارے پیسے اپنی بیگم کے ھاتھ میں رکھ دیتا تھا، کیونکہ مجھے معلوم ھے کہ وہ اس کی تقسیم اور خرچ منصفانہ طریقے سے کرتیں ھیں،،!!! اگر میں اپنے ھاتھ سے خرچ کروں تو مجھے یہ علم ھے کہ میرے ھاتھ میں آدھے پیسے تو میرے ھی ذاتی اخراجات کی نذر ھوجائیں گے، اس لئے اس ذمہ داری کا بوجھ بھی بیگم کو ھی سنبھالنا پڑتا ھے، اور میں بالکل سکون سے اپنی نوکری کی فکر کرتا ھوں، مگر اس میں بھی مجھ سے کبھی کبھی اونچ نیچ ھو ھی جاتی ھے، !!!!!!

    منگل کا دن بھی آگیا تھا، بیگم اور بچے مل کر میرے سوٹ کیس کی پیکنگ کررھے تھے، اور میں اپنے دوست کے دفتر چلا گیا تاکہ وہاں سے پاسپورٹ اور ٹکٹ لے سکوں، جیساکہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا، جانے سے پہلے میں نے ان سے ٹیلیفون کردیا تھا، انہوں نے جواب دیا کہ فوراً یہاں آجاؤ، اور اپنا پاسپورٹ اور ٹکٹ لے لو، جیسے ھی دفتر پہنچا میرے دوست نے پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ساتھ وہاں کے لئے ضرورت کی اسٹیشنری اور دیگر ضروری وھاں سے متعلق کاغذات دیئے کہ میں وہاں پہنچنے پر وہاں کے افس میں ایڈمن سیکریٹری کو دے دوں، اچھا خاصہ بھاری سامان تھا، اور ساتھ کچھ پیسے بھی دئے تاکہ ائرپورٹ پر اگر وزن زیادہ ھوجائے تو میں اس کی ادائیگی کر سکوں، اور یہ بھی کہا کہ وھاں پر تمھیں وھاں کے افسران تمھیں خود لینے آئیں گے، میں نے اجازت لینے سے پہلے اپنے دوست سے کہا کہ یار اگر کچھ پیسے ایڈوانس میں مل جاتے تو میں گھر پر دے دیتا تاکہ میرے جانے کے بعد انہیں کوئی مشکل پیش نہ آیا، وہ میرا دوست زور سے ھنسا اور کہا کہ!!!! یار دنیا تو کافی پیسے دے کر باھر جاتی ھے تم شاید ایک واحد شخص ھوگے، جو جانے سے پہلے الٹا پیسے مانگ رھے ھو،!!!! میں نے کہا کہ یار کچھ مجبوری ھے ورنہ میں نہیں مانگتا،!!! کیر اس نے وہاں کے اکاؤنٹس ڈپارٹمنٹ سے 10،000 روپے ایک رسید پر دستخط کراکر مجھے دلوا ھی دیئے، گھر کیلئے آفس کی کار ھی مجھے چھوڑنے گئی، گھر پہنچ کر وہ پیسے میں نے بیگم کے ھاتھ میں رکھ دیئے!!!!!

    جلدی میں بہت کم لوگوں کو اطلاع سکا، جن جن لوگوں کو پتہ چلا وہ رات کو ھی گھر پر ملاقات کے لئے آگئے اور باقی ائر پورٹ پہنچ گئے، اور سب لوگ بہت حیران بھی تھے کہ یہ اچانک کیسے میرا باھر جانے کا کام ھو گیا وہ بھی روس کی ایک سابقہ ریاست میں جو اب ایک ازاد اسلامی سلطنت ھے، میں تو کیونکہ ھوائی سفر کا عادی تھا، ائرپورٹ پر مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، سب سے مل ملا کر اور تمام سامان کو لگیج کروا کر ائرپورٹ کے لاؤنج میں پہنچ گیا،!!!! لاؤنج میں پہنچ کر ایک نشست پر فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گیا، اور وہاں اللٌہ کی قدرت اور اس کے کرشمے کے بارے میں سوچ رھا تھا، جو میرے ساتھ یہ اچانک تیں مہینے کے مشکل دور کے بعد ھوا جو کہ میرے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا،!!!!!!!!
     
  19. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جلدی میں بہت کم لوگوں کو اطلاع سکا، جن جن لوگوں کو پتہ چلا وہ رات کو ھی گھر پر ملاقات کے لئے آگئے اور باقی ائر پورٹ پہنچ گئے، اور سب لوگ بہت حیران بھی تھے کہ یہ اچانک کیسے میرا باھر جانے کا کام ھو گیا وہ بھی روس کی ایک سابقہ ریاست میں جو اب ایک ازاد اسلامی سلطنت ھے، میں تو کیونکہ ھوائی سفر کا عادی تھا، ائرپورٹ پر مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، سب سے مل ملا کر اور تمام سامان کو لگیج کروا کر ائرپورٹ کے لاؤنج میں پہنچ گیا،!!!! لاؤنج میں پہنچ کر ایک نشست پر فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گیا، اور وہاں اللٌہ کی قدرت اور اس کے کرشمے کے بارے میں سوچ رھا تھا، جو میرے ساتھ یہ اچانک تیں مہینے کے مشکل دور کے بعد ھوا جو کہ میرے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا،!!!!!!!!

    جیسے ھی فلائٹ کے اندر جانے کا اعلان ھوا، میں بھی ساتھ اٹھ کھڑا ھوا، اور کچھ ھی دیر میں جہاز کے اندر اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ گیا، کھڑی کے ساتھ ھی قدرتی سیٹ ملی تھی، حالانکہ میں نے کاونٹر پر اس خواھش کا اظہار نہیں کیا تھا، آدھی رات سے بھی زیادہ کا وقت تھا، سب گھر والوں کی یاد آرھی تھی، بچوں کو ائر پورٹ پر ھی روتا ھوا چھوڑ کر چلا آیا تھا، نوکری بھی کیا ایک ایسی ضرورت ھے، کہ مجبوری میں اپنے پیاروں سے بھی کبھی کبھی بچھڑنا پڑتا ھے، تین مہینے بچوں کے ساتھ رھنے کے بعد کچھ عجیب سا محسوس ھورھا تھا، جہاز میں کچھ کھانے کے لئے دیا گیا لیکن دل بالکل ھی نہیں چاہ رھا تھا، بس ایک کافی کے کپ سے ھی کام چلا لیا، کافی کے چند گھونٹ بڑی مشکل سے اتارے، اور سیٹ پیچھے کرکے کچھ سونے کی کوشش کی مگر نیند کا کوسوں دور تک پتہ نہیں تھا، میں راستے بھر آہندہ کا لائحہ عمل تیار کر رھا تھا، اور ساتھ فکر مند بھی تھا، کہ نہ جانے کیسی جگہ ھوگی کیسے لوگ ھونگے، کام کا نظام کیسا ھوگا، مجھے ویسے بھی کام کے بارے میں اتنی پریشانی نہیں کیونکہ میں پہلے بھی ایک کنسٹرکشن کمپنی میں اپنی زندگی کے تقریباً 17 سال سے زیادہ گزار چکا تھا، اور خاصہ اکاونٹس کی فیلڈ میں تجربہ بھی تھا،!!!!!

    تین یا شاید ساڑے تین گھنٹے کے بعد تقریباً جہاز میں اعلان ھوا کہ اشک آباد کے ائرپورٹ پر اترنے والے ھیں، کھڑکی سے دیکھنے میں ابھی اس وقت اندھیرا ھی تھا، لیکن کسی وقت بھی صبح کی روشنی ھونے والی تھی، جہاز کے اترتے ھی سب لوگ اپنے اپنے دستی سامان کیلئے اوپر کیبنٹ کی طرف لپکے، جیسے کوئی ان کا سامان لے کر نہ بھاگ جائے، حالانکہ ائرھوسٹس سب کو بیٹھنے کی ھدائت کر رھی تھی، لیکن لوگ کہاں مانتے ھیں، مجھے اس فلائٹ میں کافی پاکستانی بھی نظر آئے، اور تھوڑے بہت وھاں کے مقامی لوگ بھی تھے، جہاز میں کچھ زیادہ لوگ سفر نہیں کررھے تھے، جیسے ھی جہاز کا دروازہ کھلا سب لوگ باری باری ایک لائن میں ھوتے ھوئے سیڑھی سے نیچے اترنے لگے، میں بھی سنبھل سنبھل کر اتر رھا تھا، نیچے اترتے ھی میں نے دو تین لیڈیز یونیفارم میں ھاتھ میں تختی اٹھائے ھوئے دیکھیں، اس پر کچھ نام لکھے ھوئے شاید وہ خاص سرکاری مہمانوں کے لئے ھوں، میری نظریں ایک میڈم کے ھاتھ میں ایک تختی پر جاکر حیرانگی سے ٹک گئیں، جہاں پر میرا نام اور ساتھ کمپنی کام لکھا ھوا تھا، پہلے تو میں چونکا کہ شاید میرے نام کا اور بھی کوئی مسافر ھو گا، لیکن نام کہ آگے کمپنی کا نام دیکھ کر میں نے کچھ ھمت پکڑتے ھوئے اسے اشارہ کیا، وہ فوراً مسکرائی اور خوش آمدید کہتے ھوئے مجھ سے میرا دستی سامان لے لیا، اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارا کیا، اور کچھ دور ایک خوبصورت سی کالے رنگ کی مرسیڈیز ٹائپ کی کار کی طرف لپکی، وہاں پر کار کے ساتھ کھڑے ھوئے ڈرائیور نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہا، لڑکی نے دستی سامان کو کار کی ڈگی میں ڈالا اور کار کے ڈرائیور کے برابر سیٹ پر بیٹھ گئی، میں تو پیچھے بیٹھے ھوئے اس حیران کن اور خلاف توقع استقبالیہ کاروائی کو دیکھ کر پریشان سا ھو رھا تھا،!!!!!
    --------------------

    وہ فوراً مسکرائی اور خوش آمدید کہتے ھوئے مجھ سے میرا دستی سامان لے لیا، اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارا کیا، اور کچھ دور ایک خوبصورت سی کالے رنگ کی مرسیڈیز ٹائپ کی کار کی طرف لپکی، وہاں پر کار کے ساتھ کھڑے ھوئے ڈرائیور نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہا، لڑکی نے دستی سامان کو کار کی ڈگی میں ڈالا اور کار کے ڈرائیور کے برابر سیٹ پر بیٹھ گئی، میں تو پیچھے بیٹھے ھوئے اس حیران کن اور خلاف توقع استقبالیہ کاروائی کو دیکھ کر پریشان سا ھو رھا تھا،!!!!!

    کار خاص مہمانوں کے استقبالیہ کمرے کے سامنے رکی اور میرا دروازہ ڈرائیور نے کھولا، میرا دستی سامان وہی لڑکی اپنے ھاتھ میں لئے میرے آگے آگے چل رھی تھی، اندر جاکر اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور بیگیج ٹکٹ لے لیا، شاید ایمگریشن کیلئے لے گئی، اس سے پہلے مجھے ایک مہمانوں کے استقبالیہ کمرے میں بٹھا کر چلی گئی، وھاں پر بھی چند لوگ دیکھے جو کہ واقعی کمپنی کے بڑے بڑے افسران تھے دو تین پاکستانی بھی دکھائی دئیے، میں بھی اتفاق سے ایک ڈارک نیوی بلیو رنگ کے نفیس سوٹ میں ملبوس تھا، میرے ساتھ بھی ایک پاکستانی موجود تھے انکا نام میں بھول گیا ھوں، وہاں انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے کچھ آپس میں مختصر سا تعارف بھی ھوگیا، وہ بھی کسی کمپنی میں کسی اچھی پوسٹ پر کام کررھے تھے،!!!!!

    اسی دوران وہی لڑکی مجھے پاسپورٹ دیتے ھوئے انگلش میں کہا کہ،!!!! اب آپ جاسکتے ھیں اور ھم آپ کو ھمارے ملک میں خوش آمدید کہتے ھیں امید ھے کہ ھمارے ملک میں آکر بہت ھی خوشی ھوگی، اور اس نے میرے سامان کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا،!!!! وہ آپکا سامان پڑا ھے، اسے احتیاط سے چیک کرلیں اگر اور کسی مدد کی ضرورت ھو تو ھمارے اگلے کاونٹر سے رابطہ کرسکتے ھیں، یہاں سے میں آپ کو الوداع کہتی ھوں،!!!!! وہاں سے میں نے اپنا سامان جو بہت ھی قرینہ سے ایک ٹرالی پر رکھا ھوا تھا جس پر ایک بڑا سوٹ کیس اور باقی دستی سامان تھا، میں نے بھی اسکا بہت شکریہ ادا کیا اور اپنی قسمت پر رشک کرتے ھوئے ٹرالی کو لئے ائرپورٹ کی عمارت سے باھر نکل آیا، اس وقت صبح کی روشنی ھو چکی تھی،!!!!

    وہاں پر کئی ٹیکسی والے میرے پیچھے پڑ گئے اور وہ زیادہ تر روسی زبان میں بات کررھے تھے، میں تو اس زبان سے ناواقف تھا، بڑی مشکل میں تھا، انتظار کررھا تھا کہ شاید کوئی مجھے لینے آیا ھو، اندر تو بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور باھر تو کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو بھی مسافر تھے آھستہ آھستہ ٹیکسیوں سے یا اپنے دوستوں کے ساتھ انکی گاڑیوں میں واپس جارھے تھے، اور میں وھاں پر پریشان کھڑا تھا میرے جیسے اور بھی کئی لوگ وھاں پر موجود تھے، کہ اچانک ایک صاحب جو پاکستانی ھی لگ رھے تھے، اپنی پیجارو ٹائپ کی گاڑی میں آئے اور میرے پاس گاڑی کھڑی کرتے ھوئے میرا نام پوچھا اور کمپنی کا نام دریافت کیا، میرا جواب سنتے ھی مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا، اور کہا کہ ،!!!!! میں تو آپکو کافی دیر سے تلاش کررھا ھوں،!!!! پیچھے بھی دو آدمی بیٹھے ھوئے تھے ، وہ بھی شاید اسی فلائٹ سے آئے تھے، ان سے بھی میرا تعارف کرایا ایک تو انجینیر تھے اور دوسرے شاید اسٹور کیپر کے عہدہ پر آئے تھے، میرے ساماں کو انہوں نے کسی اور کے حوالے کیا جس نے میرا ساماں ایک پک اپ میں رکھا تھا جو ھمارے پیچھے پیچھے تعاقب کرتی ھوئی آرھی تھی،!!!!!!!
     
  20. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جلدی میں بہت کم لوگوں کو اطلاع سکا، جن جن لوگوں کو پتہ چلا وہ رات کو ھی گھر پر ملاقات کے لئے آگئے اور باقی ائر پورٹ پہنچ گئے، اور سب لوگ بہت حیران بھی تھے کہ یہ اچانک کیسے میرا باھر جانے کا کام ھو گیا وہ بھی روس کی ایک سابقہ ریاست میں جو اب ایک ازاد اسلامی سلطنت ھے، میں تو کیونکہ ھوائی سفر کا عادی تھا، ائرپورٹ پر مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آئی، سب سے مل ملا کر اور تمام سامان کو لگیج کروا کر ائرپورٹ کے لاؤنج میں پہنچ گیا،!!!! لاؤنج میں پہنچ کر ایک نشست پر فلائٹ کے انتظار میں بیٹھ گیا، اور وہاں اللٌہ کی قدرت اور اس کے کرشمے کے بارے میں سوچ رھا تھا، جو میرے ساتھ یہ اچانک تیں مہینے کے مشکل دور کے بعد ھوا جو کہ میرے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا،!!!!!!!!

    جیسے ھی فلائٹ کے اندر جانے کا اعلان ھوا، میں بھی ساتھ اٹھ کھڑا ھوا، اور کچھ ھی دیر میں جہاز کے اندر اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ گیا، کھڑی کے ساتھ ھی قدرتی سیٹ ملی تھی، حالانکہ میں نے کاونٹر پر اس خواھش کا اظہار نہیں کیا تھا، آدھی رات سے بھی زیادہ کا وقت تھا، سب گھر والوں کی یاد آرھی تھی، بچوں کو ائر پورٹ پر ھی روتا ھوا چھوڑ کر چلا آیا تھا، نوکری بھی کیا ایک ایسی ضرورت ھے، کہ مجبوری میں اپنے پیاروں سے بھی کبھی کبھی بچھڑنا پڑتا ھے، تین مہینے بچوں کے ساتھ رھنے کے بعد کچھ عجیب سا محسوس ھورھا تھا، جہاز میں کچھ کھانے کے لئے دیا گیا لیکن دل بالکل ھی نہیں چاہ رھا تھا، بس ایک کافی کے کپ سے ھی کام چلا لیا، کافی کے چند گھونٹ بڑی مشکل سے اتارے، اور سیٹ پیچھے کرکے کچھ سونے کی کوشش کی مگر نیند کا کوسوں دور تک پتہ نہیں تھا، میں راستے بھر آہندہ کا لائحہ عمل تیار کر رھا تھا، اور ساتھ فکر مند بھی تھا، کہ نہ جانے کیسی جگہ ھوگی کیسے لوگ ھونگے، کام کا نظام کیسا ھوگا، مجھے ویسے بھی کام کے بارے میں اتنی پریشانی نہیں کیونکہ میں پہلے بھی ایک کنسٹرکشن کمپنی میں اپنی زندگی کے تقریباً 17 سال سے زیادہ گزار چکا تھا، اور خاصہ اکاونٹس کی فیلڈ میں تجربہ بھی تھا،!!!!!

    تین یا شاید ساڑے تین گھنٹے کے بعد تقریباً جہاز میں اعلان ھوا کہ اشک آباد کے ائرپورٹ پر اترنے والے ھیں، کھڑکی سے دیکھنے میں ابھی اس وقت اندھیرا ھی تھا، لیکن کسی وقت بھی صبح کی روشنی ھونے والی تھی، جہاز کے اترتے ھی سب لوگ اپنے اپنے دستی سامان کیلئے اوپر کیبنٹ کی طرف لپکے، جیسے کوئی ان کا سامان لے کر نہ بھاگ جائے، حالانکہ ائرھوسٹس سب کو بیٹھنے کی ھدائت کر رھی تھی، لیکن لوگ کہاں مانتے ھیں، مجھے اس فلائٹ میں کافی پاکستانی بھی نظر آئے، اور تھوڑے بہت وھاں کے مقامی لوگ بھی تھے، جہاز میں کچھ زیادہ لوگ سفر نہیں کررھے تھے، جیسے ھی جہاز کا دروازہ کھلا سب لوگ باری باری ایک لائن میں ھوتے ھوئے سیڑھی سے نیچے اترنے لگے، میں بھی سنبھل سنبھل کر اتر رھا تھا، نیچے اترتے ھی میں نے دو تین لیڈیز یونیفارم میں ھاتھ میں تختی اٹھائے ھوئے دیکھیں، اس پر کچھ نام لکھے ھوئے شاید وہ خاص سرکاری مہمانوں کے لئے ھوں، میری نظریں ایک میڈم کے ھاتھ میں ایک تختی پر جاکر حیرانگی سے ٹک گئیں، جہاں پر میرا نام اور ساتھ کمپنی کام لکھا ھوا تھا، پہلے تو میں چونکا کہ شاید میرے نام کا اور بھی کوئی مسافر ھو گا، لیکن نام کہ آگے کمپنی کا نام دیکھ کر میں نے کچھ ھمت پکڑتے ھوئے اسے اشارہ کیا، وہ فوراً مسکرائی اور خوش آمدید کہتے ھوئے مجھ سے میرا دستی سامان لے لیا، اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارا کیا، اور کچھ دور ایک خوبصورت سی کالے رنگ کی مرسیڈیز ٹائپ کی کار کی طرف لپکی، وہاں پر کار کے ساتھ کھڑے ھوئے ڈرائیور نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہا، لڑکی نے دستی سامان کو کار کی ڈگی میں ڈالا اور کار کے ڈرائیور کے برابر سیٹ پر بیٹھ گئی، میں تو پیچھے بیٹھے ھوئے اس حیران کن اور خلاف توقع استقبالیہ کاروائی کو دیکھ کر پریشان سا ھو رھا تھا،!!!!!
    --------------------

    وہ فوراً مسکرائی اور خوش آمدید کہتے ھوئے مجھ سے میرا دستی سامان لے لیا، اور مجھے ساتھ چلنے کا اشارا کیا، اور کچھ دور ایک خوبصورت سی کالے رنگ کی مرسیڈیز ٹائپ کی کار کی طرف لپکی، وہاں پر کار کے ساتھ کھڑے ھوئے ڈرائیور نے کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور مجھے اشارے سے بیٹھنے کیلئے کہا، لڑکی نے دستی سامان کو کار کی ڈگی میں ڈالا اور کار کے ڈرائیور کے برابر سیٹ پر بیٹھ گئی، میں تو پیچھے بیٹھے ھوئے اس حیران کن اور خلاف توقع استقبالیہ کاروائی کو دیکھ کر پریشان سا ھو رھا تھا،!!!!!

    کار خاص مہمانوں کے استقبالیہ کمرے کے سامنے رکی اور میرا دروازہ ڈرائیور نے کھولا، میرا دستی سامان وہی لڑکی اپنے ھاتھ میں لئے میرے آگے آگے چل رھی تھی، اندر جاکر اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور بیگیج ٹکٹ لے لیا، شاید ایمگریشن کیلئے لے گئی، اس سے پہلے مجھے ایک مہمانوں کے استقبالیہ کمرے میں بٹھا کر چلی گئی، وھاں پر بھی چند لوگ دیکھے جو کہ واقعی کمپنی کے بڑے بڑے افسران تھے دو تین پاکستانی بھی دکھائی دئیے، میں بھی اتفاق سے ایک ڈارک نیوی بلیو رنگ کے نفیس سوٹ میں ملبوس تھا، میرے ساتھ بھی ایک پاکستانی موجود تھے انکا نام میں بھول گیا ھوں، وہاں انتظار گاہ میں بیٹھے بیٹھے کچھ آپس میں مختصر سا تعارف بھی ھوگیا، وہ بھی کسی کمپنی میں کسی اچھی پوسٹ پر کام کررھے تھے،!!!!!

    اسی دوران وہی لڑکی مجھے پاسپورٹ دیتے ھوئے انگلش میں کہا کہ،!!!! اب آپ جاسکتے ھیں اور ھم آپ کو ھمارے ملک میں خوش آمدید کہتے ھیں امید ھے کہ ھمارے ملک میں آکر بہت ھی خوشی ھوگی، اور اس نے میرے سامان کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا،!!!! وہ آپکا سامان پڑا ھے، اسے احتیاط سے چیک کرلیں اگر اور کسی مدد کی ضرورت ھو تو ھمارے اگلے کاونٹر سے رابطہ کرسکتے ھیں، یہاں سے میں آپ کو الوداع کہتی ھوں،!!!!! وہاں سے میں نے اپنا سامان جو بہت ھی قرینہ سے ایک ٹرالی پر رکھا ھوا تھا جس پر ایک بڑا سوٹ کیس اور باقی دستی سامان تھا، میں نے بھی اسکا بہت شکریہ ادا کیا اور اپنی قسمت پر رشک کرتے ھوئے ٹرالی کو لئے ائرپورٹ کی عمارت سے باھر نکل آیا، اس وقت صبح کی روشنی ھو چکی تھی،!!!!

    وہاں پر کئی ٹیکسی والے میرے پیچھے پڑ گئے اور وہ زیادہ تر روسی زبان میں بات کررھے تھے، میں تو اس زبان سے ناواقف تھا، بڑی مشکل میں تھا، انتظار کررھا تھا کہ شاید کوئی مجھے لینے آیا ھو، اندر تو بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا گیا اور باھر تو کوئی پرسان حال نہیں تھا، جو بھی مسافر تھے آھستہ آھستہ ٹیکسیوں سے یا اپنے دوستوں کے ساتھ انکی گاڑیوں میں واپس جارھے تھے، اور میں وھاں پر پریشان کھڑا تھا میرے جیسے اور بھی کئی لوگ وھاں پر موجود تھے، کہ اچانک ایک صاحب جو پاکستانی ھی لگ رھے تھے، اپنی پیجارو ٹائپ کی گاڑی میں آئے اور میرے پاس گاڑی کھڑی کرتے ھوئے میرا نام پوچھا اور کمپنی کا نام دریافت کیا، میرا جواب سنتے ھی مجھے اپنے ساتھ بٹھا لیا، اور کہا کہ ،!!!!! میں تو آپکو کافی دیر سے تلاش کررھا ھوں،!!!! پیچھے بھی دو آدمی بیٹھے ھوئے تھے ، وہ بھی شاید اسی فلائٹ سے آئے تھے، ان سے بھی میرا تعارف کرایا ایک تو انجینیر تھے اور دوسرے شاید اسٹور کیپر کے عہدہ پر آئے تھے، میرے ساماں کو انہوں نے کسی اور کے حوالے کیا جس نے میرا ساماں ایک پک اپ میں رکھا تھا جو ھمارے پیچھے پیچھے تعاقب کرتی ھوئی آرھی تھی،!!!!!!!
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    پیچھے بھی دو آدمی بیٹھے ھوئے تھے ، وہ بھی شاید اسی فلائٹ سے آئے تھے، ان سے بھی میرا تعارف کرایا ایک تو انجینیر تھے اور دوسرے شاید اسٹور کیپر کے عہدہ پر آئے تھے، میرے ساماں کو انہوں نے کسی اور کے حوالے کیا جس نے میرا ساماں ایک پک اپ میں رکھا تھا جو ھمارے پیچھے پیچھے تعاقب کرتی ھوئی آرھی تھی،!!!!!!!

    باھر سے بھی اشک آبار کے ائرپورٹ کی عمارت دیکھنے میں بہت ھی شاندار تھی، جیسے ھی ھم ائرپورٹ سے ھوتے ھوئے شہر کی طرف نکلے، چاروں طرف سر سبز درخت اور خوبصورت باغیچے نطر آئے، انہیں دیکھ کر طبعیت خوش ھوگئی، مجھے بعد میں پتہ چلا کہ جو صاحب گاڑی چلا رھے تھے وہ اس کمپنی کے مالکان میں سے ایک تھے، وہ سارے راستے اپنے یہاں کے پروجیکٹس اور پلانگ کے بارے میں تفصیل سے سمجھا رھے تھے، اور میں زیادہ تر باھر کے خوبصرت مناظر کو دیکھنے میں گم تھا، پہلے تو وہ اپنی رھائیش گاہ پر لے گئے، اور کچھ ناشتہ وغیرہ سے فارغ ھوکر انہوں نے پوچھا کہ،!!!!!! اگر آپ لوگ آرام کرنا چاھیں تو گیسٹ ھاؤس میں آرام کر سکتے ھیں، دوپہر کے لنچ پر آپ سب سے ملاقات ھوگی،!!!!!

    وہ ایک بہت ھی خوبصورت بنگلہ تھا، ساتھ ھی ایک وسیع لان تھا، یہ شاید اس کمپنی کے مالکان کے استعمال کے لئے ھی تھا، فی الوقت تو ھم سب اپنے اپنے کمروں میں وہاں کے ملازم کی راہ نمائی میں چلے گئے، واقعی ھم سب بہت تھکے ھوئے تھے اور رات کی نیند کا غلبہ ابھی تک چھایا ھوا تھا، بہت ھی خوبصورت سجا ھوا ڈرائنگ روم تھا، ائرکولرز لگے ھوئے تھے، بہت ھی گہری نیند آئی،!!! باھر کا موسم خاصہ گرم تھا کیونکہ مئی کا مہینہ تھا اور یہاں کا موسم گرمیوں میں معتدل رھتا تھا لیکن کبھی کبھی سخت گرم بھی ھو جاتا تھا، اور سردیوں میں سخت سردی وہ بھی برف کے ساتھ پڑتی تھی، اس کے ساتھ بارشیں بھی بہت ھوتی تھیں، ابھی سورج نکلا ھوا ھے اور ایک دم بادل آجاتے تھے اور بارش اپنی زوروں پر شروّع ھو جاتی تھی، ھر جگہ ھر گھر میں انگور کی بیلیں اور انار کے درخت بہت دیکھے گئے، جگہ جگہ شہتوت کے درخت سڑکوں کے اطراف میں بھی لگے ھوئے تھے،!!!!!!1

    یہاں کے لوگ اُس وقت بہت ھی زیادہ غریب نظر آتے تھے، عورتیں بھی کام کرتی تھیں اور ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھی، زیادہ تر مسلمان ھی تھے لیکن انہیں اسلام کے بارے بہت ھی کم معلومات تھیں، اُس وقت پورے شہر بھر میں ایک ھی بہت خوبصورت مسجد نظرآئی، جسے ترکی کی حکومت نے بنوائی تھی، جہاں پر لوگ پورے شہر سے جمعہ کے دں ھی کثیر تعداد میں جمع ھوتے تھے، باقی دنوں میں بہت کم نمازی آتے تھے، ایک دو مسجد اور بھی تھیں لیکن بہت پرانی تھیں جو کھنڈرات میں تبدیل ھوتی نظر آتی تھیں، جو شہر سے باھر ھی تھیں، سبزی گوشت کی مارکیٹیں کئی جگہوں پر کھلی کھلی اور بہت بڑے بڑے میدانوں میں کئی چھپروں پر مشتمل قائم تھیں، اور ھر خورد و نوش کی چیزیں مل جاتی تھی، وھاں پر ڈسکو کلب بہت سارے نظر آئے اسکے علاؤہ شراب الکوحل کی دکانیں عام تھیں، مسلم ملک ھونے کے باوجود وھاں پر الکوحل پر پابندی نہیں تھی، مگر شراب پی کر گاڑی چلانے پر پابندی تھی، اس وقت ھر جگہ کئی یورپ کی کمپنیاں بھی بڑی بڑی عمارتیں اور خوبصورت سڑکیں بنارھی تھیں کافی ترقیاتی کام ھو رھا تھا، کیونکہ اس سے پہلے یہ ریاست روس کے زیر اثر تھی، اور ازاد ھونے کے بعد کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ھوا تھا،!!!!!

    وھاں کی کرنسی کی قوت خرید فروخت مارکیٹ میں بہت ھی نیچے گرچکی تھی زیادہ تر لوگ باھر اوپن مارکیٹ میں چوری سے غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرتے تھے، کیونکہ بنک کے منظور شدہ قیمت صرف 5000 منات کا ایک ڈالر تھا لیکن بلیک مارکیٹ میں ایک ڈالر کے اس وقت وہاں کے 20،000 بیس ھزار منات ملتے تھے، اس وقت ھمارے ملک کے 50 روپے کا ایک ڈالر اور ایک روپے کے 400 منات سمجھ لیجئے، وہاں کی کرنسی کا نام منات ھے، ایک اچھی س برانڈ کے سگریٹ کے پیکٹ کی قیمت کم سے کم 5000 منات اور پاکستانی تقریباً 12 روپے تھی، ایک بڑی تندور کی روٹی کی قیمت ایک ہزار منات سے سے کم نہیں تھی جو ھمارے ڈھائی روپے کی تھی ، ھمارے حساب سے سبزی وغیرہ سستی ھی تھیں یعنی فی کلو دس ہزار 10000 منات یعنی 25 روپے کے لگ بھگ رھتی تھی، اور چھوٹا بڑا گوشت بھی فی کلو 15000 سے 20000 منات میں مل جاتا تھی یعنی40 سے 50 روپے کلو، تقریباً اور ٹیکسی والا بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے کم سے کم 20،000 منات یعنی 50 روپے لیتا تھا، اس وقت مئی 1998 میں میری تنخواہ 1000 ڈالر تھی جو پاکستانی 50،000 روپے اور اگر وھاں کے 20 ملین منات، بہرحال ھم تو زیادہ تر ڈآلر میں ھی حساب کتاب کرتے تھے، لیکن وہاں کی مارکیٹ سے سامان خریدنے کیلئے بلیک میں وہاں کی کرنسی سے ھی سامان خریدتے تھے، وہاں کی عام تنخواھیں 50 ڈالر سے لیکر 150 ڈالر ماہانہ تک یعنی کم سے کم 10 لاکھ منات ماہانہ تھی، اور اسکا ڈبل کریں‌ تو وہاں کے افسران کی تنخواہ تھی، ھماری تنخواہوں کا سن کر وہاں کے لوگ بہت حیران ھوتے تھے،!!!!!

    خیر یہ میں کیا حساب کتاب لے کر آپ سب کو بور کرنے لگ گیا معاف کیجئے گا، بات ھورھی تھی کہ ھم آرام کرنے گیسٹ ھاؤس میں اپنے اپنے کمروں میں سوگئے، مجھے تو شروع میں نیند نہیں آرھی تھی لیکن بعد میں بہت ھی اچھی نیند آئی کیونکہ گذشتہ دو راتوں سے سویا نہیں اور کافی تھکا ھوا بھی تھا، شام ھونے کو آئی تھی، اور کسی نے اُٹھایا بھی نہیں تھا، میری اچانک آنکھ کھل گئی اور کچھ لمحات کیلئے میں شش و پنج میں سکتے کی حالت میں تھا کہ میں حیران پریشان سوچ رھا تھا کہ میں کہاں ھوں، لیکن جب حواس باختہ ھوئے تو ھوش آیا، پھر کچھ جان میں جان آئی، باتھ روم میں جاکر کچھ تروتازہ ھوا، اور اپنے آپ کو بہتر محسوس کر رھا تھا، باھر آیا تو وھاں کے ملازم نے دوپہر کا کھانا لگا دیا، وہ بھی پاکستانی تھا، اور وہ گھر کے سارے کام کے علاوہ بہترین کھانے پکانے جانتا تھا، میرے ساتھ جو آئے تھے وہ پہلے ھی کھانے سے فارغ ھو کر سیٹھ صاحب کے ساتھ جا چکے تھے، میں کیونکہ سورھا تھا، اس لئے مجھے اٹھایا نہیں‌ گیا، بعد میں ایک اور گاڑی کسی کام سے گھر پر آئی تو اس کے ڈرائیور سے جو وہاں کا مقامی تھا اس سے درخوست کی کہ مجھے دفتر تک پہنچا دے، وہ اپنے ضرور کام سے فارغ ھوکر مجھے اپنے ساتھ بٹھا کر دفتر کی طرف چروکی جیپ کو لے کر چل دیا،!!!!!

    راستے بھر اس سے میں انگلش میں بات کرتا رھا وہ اچھی خاصی انگلش جانتا تھا، اور ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بول لیتا تھا، کیونکہ وہاں اس کمپنی میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی، اور شاید وہ ان سے خوب گپ شپ کرتا رھتا ھوگا، ویسے وہاں بہت کم لوگ ھی انگلش جانتے تھے، کیونکہ زیادہ تر وہاں کے لوگ روسی زبان اور وہاں کی مقامی ترکمانی زبان ھی بولتے تھے،!!!!!!!!!!!
     
  22. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    راستے بھر اس سے میں انگلش میں بات کرتا رھا وہ اچھی خاصی انگلش جانتا تھا، اور ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بول لیتا تھا، کیونکہ وہاں اس کمپنی میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی، اور شاید وہ ان سے خوب گپ شپ کرتا رھتا ھوگا، ویسے وہاں بہت کم لوگ ھی انگلش جانتے تھے، کیونکہ زیادہ تر وہاں کے لوگ روسی زبان اور وہاں کی مقامی ترکمانی زبان ھی بولتے تھے،!!!!!!!!!!!

    وہ ڈرائیور ھی نہیں بلکہ وہ دوستوں کا دوست اور واقعی بہت ھی اچھا ملنسار پر خلوص انسان بھی تھا، اور ھماری کمپنی کا وہاں کی زبان میں راجہ کہلاتا تھا، اس نے ھی مجھے زیادہ تر ترکمانستان کے اس شہر اشک آباد کے ھر کونے سے متعارف کرایا، اور وہ مالکان کا بھی بہت چہیتا ملازم تھا، ھوسکتا ھے کہ وہ میرے ساتھ اس لئے زیادہ اچھے تعلقات بنا کر رکھنا چاھتا ھو تاکہ وقت بے وقت ایڈوانس لینے میں دشواری نہ ھو، اس کی وجہ سے مجھے کافی حوصلہ اور مدد بھی حاصل رھی، کیونکہ شروع سروع میں وہاں پر مجھے باھر جاتے ھوئے جھجک محسوس ھوتی تھی، جس کی وجہ وہاں کی زبان سے نا واقف تھا، اس کے علاؤہ وہاں کے لوگ ھم جیسے باھر سے آئے ھوئے لوگوں کو ایک عجیب نظروں سے دیکھتے تھے، اول تو وہ زیادہ تر میرے ساتھ رھتا تھا اگر وہ دور بھی ھو تو میں اس سے موبائیل فون کے ذریعے رابطہ کر لیتا تھا اور موقع پر پہنچ کر میری ھر مشکل کو سنبھال لیتا تھا، اس شہر میں اس کا اپنا ایک رعب تھا، وہاں کے ھر چھوٹے بڑے سے اس کے اچھے تعلقات تھے، اس کے علاوہ وہاں کا ھر دوسرا شخص اسے جانتا تھا، چاھے کیسا بھی کام کیوں نہ ھو، وہ چٹکی بجاتے ھی پورا کردیتا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ ھمارے مالکن کے خاص کارکنوں میں سے ایک تھا ساتھ ھی ان کا باڈی گارڈ بھی تھا، ایک چروکی جیپ ھمیشہ اسی کے پاس رھتی تھی، اور میرا تو ھمیشہ بہت خیال کرتا تھا، اس کی بہت سی بری عادتوں کے باوجود وہ دل کا بہت ھی اچھا انسان تھا، بری عادتوں میں اس کا شراب پینا، ڈسکو کلب کا دیوانہ تھا اس کے علاوہ ھر علاقے میں اسکی لڑکیوں سے بہت دوستی تھی، اور وہ کمپنی کی جیپ سے کافی فائدہ بھی اٹھاتا رھا، اسے ھمیشہ وھاں کے لحاظ سے بہترین لباس میں ھی دیکھا گیا!!!!!!!

    اس کے بہترین لباس اور لچک دار دل لبھانے والے انداز، اور لچھے دار باتوں کی وجہ سے ھی وہ ھر ایک کا دل موہ لیتا تھا، اس کا نام تو گوانچ تھا، لیکن میں یہاں اسے راجہ کے نام سے ھی مخاطب رکھوں گا، کیونکہ وہ واقعی دل کا راجہ تھا، ایک تو وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا تھا اس کے علاوہ ھر ایک کو اس نے اپنا مرید بنا کر رکھ ھوا تھا، مگر اس میں ایک بات تھی کہ اس نے کسی سے کوئی بھی بلاجواز بحث نہیں کی اور نہ ھی کسی کے ساتھ کوئی بلاوجہ زیادتی کی، بعد میں جب مجھ سے اس کی دوستی ھوگئی تو میرے اپنے رویہ سے اس نے مجھے اپنا گروہ مان لیا، میری ھر بات پر ھر حکم پر وہ اپنا سر جھکا دیتا تھا، دفتر میں سب اس سے گھبراتے بھی تھے، اور کبھی اگر کسی کو اس سے شکایت ھوتی بھی تھی، تو مجھ سے اپنا مقدمہ بیان کرتا اور میں راجہ کو بلا کر کوشش کرتا کہ معاملے کو سدھار دوں، وہ ھمیشہ میری بات کی لاج رکھتا اور میرا کہنا مان لیتا تھا، اور ایک وجہ یہ بھی ھے کہ میں آج تک اسے بھولا نہیں ھوں،!!!!!!

    جب اس سے میری پہلی ملاقات ھوئی، وہ اس دن مجھے دفتر لے کر جارھا تھا، پہلے تو وہ بہت سنجیدگی سے مجھ سے بات کرکے مجھے مرعوب کرتا رھا، اس کا انگلش بولنے کا انداز بہت ھی اچھا تھا، راستے بھر وہ لمبی لمبی ھانکتا رھا، اور میں اسکی ھر بات پر مسکرا کر اس کی ھاں میں ھاں ملاتا رھا، راستے میں ھی اسے یہ معلوم ھوچکا تھا کہ میں اس کمپنی کا اکاونٹنٹ ھوں، اس لئے اس کی تمام راستے کی گفتگو کے بعد اسی کے ھی پوچھنے پر جیسے ھی میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ ایک دم سنبھل گیا، اس کی باتوں کے اندر اچانک ایک تبدیلی سے ھی مجھے پتہ چل گیا کہ اب اس کی تمام اکڑخوں ختم ھوگئی، میں نے بھی تمام راستے اس کے ساتھ اپنا رویہ بہت ھی دوستانہ رکھا ھوا تھا، نہ جانے کیا وجہ تھی کہ اسے میرا عہدہ پتہ چلتے ھی بالکل کچھ اس کی گھبراھٹ سی کیفیت اس کے چہرے پر میں نے محسوس کی، میں نے اس کے کردار اور اس کی حیثیت کا اندازہ اس کے ساتھ دفتر پہنچتنے سے پہلے ھی کر لیا تھا، مجھے بھی اپنی زندگی کے طویل عمری کی مشاھدات سے کم از کم اتنا تو چہرہ شناسی کا تھوڑا بہت تجربہ ھو گیا تھا، کہ سامنے والے کی باتوں سے کچھ نہ کچھ اس کے اندر کی کیفیت جان لیتا تھا،!!!!!!

    راجہ نے ایک فائیو اسٹار ھوٹل کے مرکزی دروازے پر اپنی جیپ کو روکا اور جلدی سے اترتے ھوئے اس نے میرے طرف کا دروازہ کھولا، اور بڑے احترام اور ادب سے سلام کرتا ھوا، مجھ سے کہا کہ!!!!! آپ اس ھوٹل کے کمرشل بزنس سنٹر کی تیسری منزل پر چلے جائیں، وہاں پر لفٹ کے سیدھے ھاتھ کی جانب ھی آپ ھمارے آفس کے مین دروازے کو اس پر لگی ھوئی تختی سے ھی پہچان جائیں گے، جب تک آپ وہاں پہنچیں، میں گاڑی پارک کرکے آپ سے آفس میں ملتا ھوں،!!! جیسے ھی میں گیٹ پر پہنچا وہاں کے محافظ نے شیشہ کا ایک خوبصورت دروازہ کھولتے ھوئے مجھے سلیوٹ کیا اور میں نے بھی جواب دیتے ھوئے میں سیدھا ھوٹل کی لابی سے ھوتا ھوا مختلف سائن کے اشاروں کو دیکھتا ھوا، ان خودکار لفٹوں کے پاس بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا جو کہ میری مطلوبہ جگہ پر جاتی تھیں، اپنے آفس کے مین دروازے سے اندر داخل ھوتے ھی بہت ھی خوبصورت، ترتیب اور قرینے سے سجا ھوا ایک ڈرائنگ روم جیسا تاثر ملا جہاں ایک اضافے کے ساتھ ایک خوبصورت لیڈی سیکریٹری کو دیکھا جو اپنی میز پر بیٹھی کمپیوٹر کے ٹرمینل پر کچھ کام کرھی تھی، جیسے ھی میں‌اندر داخل ھوا اس نے مجھے دروازہ کھولتے ھی دیکھ بڑے ادب سے کہا کہ،!!!!!کیا میں کی کوئی مدد کر سکتی ھوں،!!!! وہ مجھے روسی خاتوں لگ رھی تھیں عمر اسکی شاید 30 سال کے لگ بھگ ھوگی لیکن اسکے خدوخال کو دیکھتے ھوئے کم عمر کی لگتی تھی،!!!!!!!

    بہت ھی خوش لباس اور ایک دلکش انداز سے مخاطب ھونے ولی سیکریٹری کا نام مرینہ تھا، اور وہ روسی نژاد تھی، ایک بات واضع کردوں کہ وہاں پر دو قسم کے لوگ تھے ایک غیر مذہب جن کا رشتہ روس سے رھا تھا، پہلے روس کے زیراثر یہ ریاست تھی، اور بعد میں دوسری مسلمان ریاستوں کی طرح یہ ترکمانستان کی ریاست بھی آزاد ھوگئی تھی، اور دوسرا طبقہ مسلمان تھے جو وھاں کے مقامی تھے، لیکن اکژیت اسلامی طور طریقوں اور مذھبی روایتوں سے بالکل ناواقف تھے، اب شاید کچھ بہتری آگئی ھو تو کچھ نہیں کہہ سکتا،!!!!!!

    پھر بات کو کہاں سے کہاں لے گیا، مرینہ نے مجھے بہہت ھی ادب سے اپنے سامنے کی ایک کرسی پر بٹھایا اور میرے بارے میں جاننے کیلئے اپنی ساری توجہ میری طرف کردی، اس سے پہلے ایک چائے کیلئے آرڈر بھی کرچکی تھی، تمام حالات سے واقفیت کے بعد اس نے کہا کہ!!!!!!! مجھے آپکے آنے کا علم تھا اس لئے وہ سامنے آپ کے کمرے کو میں نے پہلے ھی سلیقے سے تیار کردیا تھا، چائے پینے کے بعد میں آپ کو اس کمرے میں لئے چلتی ھوں، میں نے مڑ کر دیکھا کہ سامنے ھی مالکان کے کمرے کے ساتھ ھی ایک کمرہ جسکے دروازے پر چیف اکاونٹنٹ کی تختی لگی ھوئی تھی، پہلے اس پر میری نظر نہیں گئی تھی، ابھی اپنی نظر اپنے کمرے کی طرف ھی تھی کہ ایک آواز نے مجھے چونکا دیا ایک اور لڑکی جو چائے کی ٹرے میرے لئے لائی اور میرے لئے چائے بنانے لگی، اس نے چینی کیلئے مجھ سے پوچھا اور دو چمچ چینی ڈال کر چمچ کے ساتھ میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ اس ٹرے میں دودھ بھی ھے اگر آپ چاھیں تو اپنی پسند کے مطابق لے سکتے ھیں، کیونکہ میں جانتی ھوں کہ زیادہ تر پاکستانی ھمیشہ دودھ والی چائے شوق سے پیتے ھیں، جبکہ وہاں کے لوگ بغیر دودھ کے کالی چائے یا سبز چائے پینے کا شوق رکھتے تھے، وہ بھی بہت ھی خوبصورت کم عمر تھی اور آفس کے تمام لوگوں کی خدمت پر مامور تھی، جیسے ھمارے یہاں ھم چپراسی یا آفس بوائے کو رکھتے ھیں، مجھے تو ھر قدم پرحیرت کردینے والے ماحول سے ھی واسطہ پڑ رھا تھا،!!!!!!!!!
    --------------------------------------
     
  23. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    راستے بھر اس سے میں انگلش میں بات کرتا رھا وہ اچھی خاصی انگلش جانتا تھا، اور ساتھ ٹوٹی پھوٹی اردو بھی بول لیتا تھا، کیونکہ وہاں اس کمپنی میں پاکستانیوں کی تعداد زیادہ تھی، اور شاید وہ ان سے خوب گپ شپ کرتا رھتا ھوگا، ویسے وہاں بہت کم لوگ ھی انگلش جانتے تھے، کیونکہ زیادہ تر وہاں کے لوگ روسی زبان اور وہاں کی مقامی ترکمانی زبان ھی بولتے تھے،!!!!!!!!!!!

    وہ ڈرائیور ھی نہیں بلکہ وہ دوستوں کا دوست اور واقعی بہت ھی اچھا ملنسار پر خلوص انسان بھی تھا، اور ھماری کمپنی کا وہاں کی زبان میں راجہ کہلاتا تھا، اس نے ھی مجھے زیادہ تر ترکمانستان کے اس شہر اشک آباد کے ھر کونے سے متعارف کرایا، اور وہ مالکان کا بھی بہت چہیتا ملازم تھا، ھوسکتا ھے کہ وہ میرے ساتھ اس لئے زیادہ اچھے تعلقات بنا کر رکھنا چاھتا ھو تاکہ وقت بے وقت ایڈوانس لینے میں دشواری نہ ھو، اس کی وجہ سے مجھے کافی حوصلہ اور مدد بھی حاصل رھی، کیونکہ شروع سروع میں وہاں پر مجھے باھر جاتے ھوئے جھجک محسوس ھوتی تھی، جس کی وجہ وہاں کی زبان سے نا واقف تھا، اس کے علاؤہ وہاں کے لوگ ھم جیسے باھر سے آئے ھوئے لوگوں کو ایک عجیب نظروں سے دیکھتے تھے، اول تو وہ زیادہ تر میرے ساتھ رھتا تھا اگر وہ دور بھی ھو تو میں اس سے موبائیل فون کے ذریعے رابطہ کر لیتا تھا اور موقع پر پہنچ کر میری ھر مشکل کو سنبھال لیتا تھا، اس شہر میں اس کا اپنا ایک رعب تھا، وہاں کے ھر چھوٹے بڑے سے اس کے اچھے تعلقات تھے، اس کے علاوہ وہاں کا ھر دوسرا شخص اسے جانتا تھا، چاھے کیسا بھی کام کیوں نہ ھو، وہ چٹکی بجاتے ھی پورا کردیتا تھا، اور یہی وجہ تھی کہ وہ ھمارے مالکن کے خاص کارکنوں میں سے ایک تھا ساتھ ھی ان کا باڈی گارڈ بھی تھا، ایک چروکی جیپ ھمیشہ اسی کے پاس رھتی تھی، اور میرا تو ھمیشہ بہت خیال کرتا تھا، اس کی بہت سی بری عادتوں کے باوجود وہ دل کا بہت ھی اچھا انسان تھا، بری عادتوں میں اس کا شراب پینا، ڈسکو کلب کا دیوانہ تھا اس کے علاوہ ھر علاقے میں اسکی لڑکیوں سے بہت دوستی تھی، اور وہ کمپنی کی جیپ سے کافی فائدہ بھی اٹھاتا رھا، اسے ھمیشہ وھاں کے لحاظ سے بہترین لباس میں ھی دیکھا گیا!!!!!!!

    اس کے بہترین لباس اور لچک دار دل لبھانے والے انداز، اور لچھے دار باتوں کی وجہ سے ھی وہ ھر ایک کا دل موہ لیتا تھا، اس کا نام تو گوانچ تھا، لیکن میں یہاں اسے راجہ کے نام سے ھی مخاطب رکھوں گا، کیونکہ وہ واقعی دل کا راجہ تھا، ایک تو وہ کسی سے بھی نہیں ڈرتا تھا اس کے علاوہ ھر ایک کو اس نے اپنا مرید بنا کر رکھ ھوا تھا، مگر اس میں ایک بات تھی کہ اس نے کسی سے کوئی بھی بلاجواز بحث نہیں کی اور نہ ھی کسی کے ساتھ کوئی بلاوجہ زیادتی کی، بعد میں جب مجھ سے اس کی دوستی ھوگئی تو میرے اپنے رویہ سے اس نے مجھے اپنا گروہ مان لیا، میری ھر بات پر ھر حکم پر وہ اپنا سر جھکا دیتا تھا، دفتر میں سب اس سے گھبراتے بھی تھے، اور کبھی اگر کسی کو اس سے شکایت ھوتی بھی تھی، تو مجھ سے اپنا مقدمہ بیان کرتا اور میں راجہ کو بلا کر کوشش کرتا کہ معاملے کو سدھار دوں، وہ ھمیشہ میری بات کی لاج رکھتا اور میرا کہنا مان لیتا تھا، اور ایک وجہ یہ بھی ھے کہ میں آج تک اسے بھولا نہیں ھوں،!!!!!!

    جب اس سے میری پہلی ملاقات ھوئی، وہ اس دن مجھے دفتر لے کر جارھا تھا، پہلے تو وہ بہت سنجیدگی سے مجھ سے بات کرکے مجھے مرعوب کرتا رھا، اس کا انگلش بولنے کا انداز بہت ھی اچھا تھا، راستے بھر وہ لمبی لمبی ھانکتا رھا، اور میں اسکی ھر بات پر مسکرا کر اس کی ھاں میں ھاں ملاتا رھا، راستے میں ھی اسے یہ معلوم ھوچکا تھا کہ میں اس کمپنی کا اکاونٹنٹ ھوں، اس لئے اس کی تمام راستے کی گفتگو کے بعد اسی کے ھی پوچھنے پر جیسے ھی میں نے اپنا تعارف کرایا تو وہ ایک دم سنبھل گیا، اس کی باتوں کے اندر اچانک ایک تبدیلی سے ھی مجھے پتہ چل گیا کہ اب اس کی تمام اکڑخوں ختم ھوگئی، میں نے بھی تمام راستے اس کے ساتھ اپنا رویہ بہت ھی دوستانہ رکھا ھوا تھا، نہ جانے کیا وجہ تھی کہ اسے میرا عہدہ پتہ چلتے ھی بالکل کچھ اس کی گھبراھٹ سی کیفیت اس کے چہرے پر میں نے محسوس کی، میں نے اس کے کردار اور اس کی حیثیت کا اندازہ اس کے ساتھ دفتر پہنچتنے سے پہلے ھی کر لیا تھا، مجھے بھی اپنی زندگی کے طویل عمری کی مشاھدات سے کم از کم اتنا تو چہرہ شناسی کا تھوڑا بہت تجربہ ھو گیا تھا، کہ سامنے والے کی باتوں سے کچھ نہ کچھ اس کے اندر کی کیفیت جان لیتا تھا،!!!!!!

    راجہ نے ایک فائیو اسٹار ھوٹل کے مرکزی دروازے پر اپنی جیپ کو روکا اور جلدی سے اترتے ھوئے اس نے میرے طرف کا دروازہ کھولا، اور بڑے احترام اور ادب سے سلام کرتا ھوا، مجھ سے کہا کہ!!!!! آپ اس ھوٹل کے کمرشل بزنس سنٹر کی تیسری منزل پر چلے جائیں، وہاں پر لفٹ کے سیدھے ھاتھ کی جانب ھی آپ ھمارے آفس کے مین دروازے کو اس پر لگی ھوئی تختی سے ھی پہچان جائیں گے، جب تک آپ وہاں پہنچیں، میں گاڑی پارک کرکے آپ سے آفس میں ملتا ھوں،!!! جیسے ھی میں گیٹ پر پہنچا وہاں کے محافظ نے شیشہ کا ایک خوبصورت دروازہ کھولتے ھوئے مجھے سلیوٹ کیا اور میں نے بھی جواب دیتے ھوئے میں سیدھا ھوٹل کی لابی سے ھوتا ھوا مختلف سائن کے اشاروں کو دیکھتا ھوا، ان خودکار لفٹوں کے پاس بغیر کسی دقت کے پہنچ گیا جو کہ میری مطلوبہ جگہ پر جاتی تھیں، اپنے آفس کے مین دروازے سے اندر داخل ھوتے ھی بہت ھی خوبصورت، ترتیب اور قرینے سے سجا ھوا ایک ڈرائنگ روم جیسا تاثر ملا جہاں ایک اضافے کے ساتھ ایک خوبصورت لیڈی سیکریٹری کو دیکھا جو اپنی میز پر بیٹھی کمپیوٹر کے ٹرمینل پر کچھ کام کرھی تھی، جیسے ھی میں‌اندر داخل ھوا اس نے مجھے دروازہ کھولتے ھی دیکھ بڑے ادب سے کہا کہ،!!!!!کیا میں کی کوئی مدد کر سکتی ھوں،!!!! وہ مجھے روسی خاتوں لگ رھی تھیں عمر اسکی شاید 30 سال کے لگ بھگ ھوگی لیکن اسکے خدوخال کو دیکھتے ھوئے کم عمر کی لگتی تھی،!!!!!!!

    بہت ھی خوش لباس اور ایک دلکش انداز سے مخاطب ھونے ولی سیکریٹری کا نام مرینہ تھا، اور وہ روسی نژاد تھی، ایک بات واضع کردوں کہ وہاں پر دو قسم کے لوگ تھے ایک غیر مذہب جن کا رشتہ روس سے رھا تھا، پہلے روس کے زیراثر یہ ریاست تھی، اور بعد میں دوسری مسلمان ریاستوں کی طرح یہ ترکمانستان کی ریاست بھی آزاد ھوگئی تھی، اور دوسرا طبقہ مسلمان تھے جو وھاں کے مقامی تھے، لیکن اکژیت اسلامی طور طریقوں اور مذھبی روایتوں سے بالکل ناواقف تھے، اب شاید کچھ بہتری آگئی ھو تو کچھ نہیں کہہ سکتا،!!!!!!

    پھر بات کو کہاں سے کہاں لے گیا، مرینہ نے مجھے بہہت ھی ادب سے اپنے سامنے کی ایک کرسی پر بٹھایا اور میرے بارے میں جاننے کیلئے اپنی ساری توجہ میری طرف کردی، اس سے پہلے ایک چائے کیلئے آرڈر بھی کرچکی تھی، تمام حالات سے واقفیت کے بعد اس نے کہا کہ!!!!!!! مجھے آپکے آنے کا علم تھا اس لئے وہ سامنے آپ کے کمرے کو میں نے پہلے ھی سلیقے سے تیار کردیا تھا، چائے پینے کے بعد میں آپ کو اس کمرے میں لئے چلتی ھوں، میں نے مڑ کر دیکھا کہ سامنے ھی مالکان کے کمرے کے ساتھ ھی ایک کمرہ جسکے دروازے پر چیف اکاونٹنٹ کی تختی لگی ھوئی تھی، پہلے اس پر میری نظر نہیں گئی تھی، ابھی اپنی نظر اپنے کمرے کی طرف ھی تھی کہ ایک آواز نے مجھے چونکا دیا ایک اور لڑکی جو چائے کی ٹرے میرے لئے لائی اور میرے لئے چائے بنانے لگی، اس نے چینی کیلئے مجھ سے پوچھا اور دو چمچ چینی ڈال کر چمچ کے ساتھ میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ اس ٹرے میں دودھ بھی ھے اگر آپ چاھیں تو اپنی پسند کے مطابق لے سکتے ھیں، کیونکہ میں جانتی ھوں کہ زیادہ تر پاکستانی ھمیشہ دودھ والی چائے شوق سے پیتے ھیں، جبکہ وہاں کے لوگ بغیر دودھ کے کالی چائے یا سبز چائے پینے کا شوق رکھتے تھے، وہ بھی بہت ھی خوبصورت کم عمر تھی اور آفس کے تمام لوگوں کی خدمت پر مامور تھی، جیسے ھمارے یہاں ھم چپراسی یا آفس بوائے کو رکھتے ھیں، مجھے تو ھر قدم پرحیرت کردینے والے ماحول سے ھی واسطہ پڑ رھا تھا،!!!!!!!!!
    --------------------------------------
     
  24. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے مڑ کر دیکھا کہ سامنے ھی مالکان کے کمرے کے ساتھ ھی ایک کمرہ جسکے دروازے پر چیف اکاونٹنٹ کی تختی لگی ھوئی تھی، پہلے اس پر میری نظر نہیں گئی تھی، ابھی اپنی نظر اپنے کمرے کی طرف ھی تھی کہ ایک آواز نے مجھے چونکا دیا ایک اور لڑکی جو چائے کی ٹرے میرے لئے لائی اور میرے لئے چائے بنانے لگی، اس نے چینی کیلئے مجھ سے پوچھا اور دو چمچ چینی ڈال کر چمچ کے ساتھ میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ اس ٹرے میں دودھ بھی ھے اگر آپ چاھیں تو اپنی پسند کے مطابق لے سکتے ھیں، کیونکہ میں جانتی ھوں کہ زیادہ تر پاکستانی ھمیشہ دودھ والی چائے شوق سے پیتے ھیں، جبکہ وہاں کے لوگ بغیر دودھ کے کالی چائے یا سبز چائے پینے کا شوق رکھتے تھے، وہ بھی بہت ھی خوبصورت کم عمر تھی اور آفس کے تمام لوگوں کی خدمت پر مامور تھی، جیسے ھمارے یہاں ھم چپراسی یا آفس بوائے کو رکھتے ھیں، مجھے تو ھر قدم پرحیرت کردینے والے ماحول سے ھی واسطہ پڑ رھا تھا،!!!!!!!!!

    میں نے چائے کی پیالی اٹھائی اور سوچنے لگا کہ جب چائے لانے والی انہوں نے اتنی اسمارٹ اور خوبصورت رکھی ھے، تو باقی اس کمپنی کا اسٹینڈرڈ کیسا ھوگا، اور جس کا آفس وہاں کے اس سب سےخوبصورت ھوٹل میں ھو، جہاں کے فرش پر چلتے وقت ھی خود بخود چال بدل جاتی تھی، کیونکہ وہاں کا فرش بھی اتنا خوبصورت اور چمکدار تھا، کہ ڈر لگتا تھا کہ کہیں پھسل نہ جائیں، مگر وہاں اس فرش پر اونچی اونچی اور باریک ھیل کی جوتیاں پہن کر خواتین کو چلتے ھوئے دیکھ کر حیرانگی ھوتی تھی کہ وہ ٹک ٹک ٹک کرتے ھوئے کیسے آرام سے نکل جاتی تھیں، میں تو شروع میں کئی دفعہ گرتے گرتے بچا اور کافی شرمندگی بھی ھوئی، لیکن بعد میں آہستہ آھستہ کچھ عادت سی ھی ھوگئی تھی، اور چھ مہینے کے اندر اندر روسی زبان پر تھوڑا بہت عبور بھی حاصل ھو گیا تھا، جس سے کچھ ایک دوسرے سے بات کرتے ھوئے گزارا بھی ھو جاتا تھا، کیونکہ دفتر میں زیادہ تر انہی لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا، اس سلسلے میں میرے ساتھی راجہ نے بہت ھی زیادہ مدد کی، وہ اکثر میرے ساتھ ھی باھر ڈیوٹی پر ھوتا تھا، اور زیادہ تر میری دوڑ بینک تک ھی ھوتی تھی، !!!!!

    مرینہ جو وہاں کے مالکان کی سیکریٹری تھی، اس نے چابی سے میرا کمرہ کھولا اور مجھے چابی دیتے ھوئے مبارکباد دی اور کہا کہ،!!!!! ھم آپکو اپنے آفس میں خیر مقدم کرتے ھیں یہاں پر ھم سب آپ کی خدمت کیلئے حاضر ھیں صرف میز کی سائڈ پر لگی ھوئی گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھ کر اپنے ھاتھ کو تکلیف دینی ھوگی،!!!!! وہ ھمیشہ سے اسی طرح انگلش میں بہت ھی رکھ رکھاؤ والی انگلش بولا کرتی تھی، میں ‌نے بھی وہاں پر ھی اپنی انگلش بولنے کی جھجک کو ختم کیا تھا، اس سے پہلے میں روانی سے انگلش بول نہیں سکتا تھا، کچھ شرم سی آتی تھی، مگر جو لوگ ھماری زبان سے نا واقف ھیں ان سے مجبوراً انگلش بولنا پڑتا تھا، اور اسی مجبوری نے مجھے انگلش بولنے میں ھچکھچاھٹ کو دور کیا،!!!!!

    میرے کمرے کے ساتھ ھی مالکان کا ایک بہت بڑا کمرہ تھا، جس میں مختلف اوقات میں تینوں بھائیوں میں سے کوئی نہ کوئی ایک ضرور موجود ھوتے تھے، بعض اوقات میں تینوں کو ایک ساتھ بھی دیکھا گیا تھا، ان کے کمرے ساتھ دروازے سے لگی ھوئی سیکریٹری کی ایک بڑی میز پر کمپوٹر اور اس پاس کے شیشے کی خوبصورت کیبنٹس قرینے سے رکھی ھوئی تھیں اور سامنے ایک چھوٹا سے مہمانوں کی انتظار گاہ میں خوبصورت صوفے اور سنٹرل ٹیبل کے ساتھ موجود تھے، اور چاروں طرف چھوٹے بڑے گلدانوں میں تازہ تازہ اصلی خوشبودار پھولوں سے لدے ھوتے تھے، آفس کی ھر دیوار پر خوبصورت پینٹنگز بہت ھی خوشنما لگ رھی تھیں، آفس کی خوبصورت آرائش ھمیشہ سیکریٹری ھی کرتی تھی، وہ ھمیشہ صبح صبح جلدی آیا کرتی اور تمام آفس کی صفائی ستھرائی ھوٹل کی ھاؤس کیپر سے کراتی اور اپنی ایک آفس کی ایک مددگار سے مل کر آفس کے اوقات سے پہلے ھی بہت زبردست چمکا دمکا دیتی تھی، گلدانوں کے پھولوں کو بھی تروتازہ پھولوں سے بدل دیتی تھی جو خود روزانہ آتے ھوئے ھوٹل کی انتظامیہ سے لے کر آتی تھی، اور ھر کمرے کی چابی اس کے پاس بھی تھی، کمروں کی صفائی اور سجوٹ بھی اپنی ھی نگرانی میں کراتی تھی،!!!!!

    ایک آفس ھمارا انکے زیر تعمیر پروجیکٹ پر تھا، وہ بھی خاصہ خوبصورت تھا، وہاں کیلئے الگ اسٹاف تھا جو وہاں کی انتظامیہ کو سنبھالتا تھا، ھوٹل میں ھمارا ھیڈ آفس ھی تھا، جہاں پر مالکان کے اور میرے دفتر الگ الگ کمروں پر مشتمل تھا، اور ساتھ ھی انتظار گاہ میں سیکریٹری تمام مہمانوں کے استقبال کیلئے ھر وقت چاق و چوبند موجود رھتی تھی،ایک ساتھ ھی چھوٹا سا کمرہ بھی تھا جو کچن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، جہاں مہمانوں کیلئے چائے اور بسکٹ کا اھتمام ھوتا تھا، اور ڈرائیورز اور دوسرے پروجیکٹ کا اسٹاف بھی آکر ڈیرہ ڈال لیتے تھے، مگر صرف مالکان کی غیر موجودگی میں ھی ورنہ وہاں پرکسی کو بھی بغیر کام کے آفس میں داخل ھونے کی اجازت نہیں تھی،!!!!!!!

    میں اپنے کمرے میں ایک اچھی خوبصورت درمیانی میز کے ساتھ ایک بہترین خوبصورت سی گھومنے والی کرسی پر بیٹھا اپنے کام میں مصروف رھتا، ساتھ ھی ایک درمانی سی تجوری بھی تھی، اکثر رقم کی ادائیگی اور حساب کیلئے برابر میں مالکان کے بلانے پر چلا جاتا تھا، کبھی کبھی وہ خود میرے ھی کمرے میں آکر حساب کتانب کی تفصیل بتارھے ھوتے تھے، بہت ھی بہترین اخلاق کے مالک تھے اور پاکستانی ھونے کی وجہ سے وہ مجھ سے اردو میں ھی گفتگو کرتے تھے، ان میں سے ایک کو وہاں کی روسی اور مقامی زبان پر بہتریں ‌عبور تھا، وہ سب میں چھوٹے بھائی تھے اور بعد میں وہ میرے ایک اچھے دوست بھی بن گئے، دفتر میں مرینہ نے میری ھر کام میں بہت مدد کی، ایک اور اسٹاف تھیں جو وہاں کی اکاونٹنٹ تھی اس کا کام تمام دستاویزات اور اکاونٹس کو وہاں کی مقامی زبان میں ترجمہ کرکے سرکاری دفاتر میں ضرورت کے مطابق پیش کرنا تھا،!!!!!

    وھاں پر کچھ دور ھی ھمارے ملک کی نیشنل بنک کی برانچ بھی تھی، وہاں پر میرا ھر دوسرے تیسرے روز رقم لکالنے اور جمع کرانے جانا رھتا تھا، وہاں کے اسٹاف سے بھی اچھی خاصی سلام دعاء ھوگئی تھی، اور خاص طور سے وہاں کے ایک منیجر شمیم صاحب تو میرے ایک بہترین دوست بھی بن چکے تھے اور اکثر گھر پر آنا جا بھی رھتا تھا، وہ بھی بہت ھی اچھے کردار کے مالک تھے اس کے علاؤہ میرے ھم عمر بھی تھے، وہاں شروع شروع کام کے سلسلے میں کچھ مسئلے بھی پیش آئے، لیکن دفتر کے تمام ساتھیوں کی مدد سے مجھے تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات بھی ملی اور آہستہ آہستہ میں وہاں کے تمام حالات اور نظام سے واقف ھوتا چلا گیا،!!!!!!!!!!!!!!!
    ------------------------------------
    وھاں پر کچھ دور ھی ھمارے ملک کی نیشنل بنک کی برانچ بھی تھی، وہاں پر میرا ھر دوسرے تیسرے روز رقم لکالنے اور جمع کرانے جانا رھتا تھا، وہاں کے اسٹاف سے بھی اچھی خاصی سلام دعاء ھوگئی تھی، اور خاص طور سے وہاں کے ایک منیجر شمیم صاحب تو میرے ایک بہترین دوست بھی بن چکے تھے اور اکثر گھر پر آنا جا بھی رھتا تھا، وہ بھی بہت ھی اچھے کردار کے مالک تھے اس کے علاؤہ میرے ھم عمر بھی تھے، وہاں شروع شروع کام کے سلسلے میں کچھ مسئلے بھی پیش آئے، لیکن دفتر کے تمام ساتھیوں کی مدد سے مجھے تمام مشکلات اور پریشانیوں سے نجات بھی ملی اور آہستہ آہستہ میں وہاں کے تمام حالات اور نظام سے واقف ھوتا چلا گیا،!!!!!!!!!!!!!!!

    میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ وہاں کی زبان تھی، انگلش بولنے والوں کی تعداد وہاں پر بہت ھی کم تھی، زیادہ تر لوگ وہاں کی مقامی زبان ھی بولتے تھے، اور روسی زبان پر بھی سب کو بہترین عبور حاصل تھا، ھمارے آفس میں میرے علاؤہ تمام روسی زبان کو ھی زیادہ تر استعمال میں لاتے تھے، مجھے شروع شروع میں کچھ دقت ھوئی لیکن آھستہ آھستہ ان سب کی صحبت میں رہ کر روسی زبان گزارے کیلئے سیکھتا چلا گیا، کیونکہ یہ بھی میری ایک ضرورت تھی،!!!!!

    شروع کے دنوں میں تو میں بہت جھجکا اور کچھ وہاں کے ماحول کو دیکھ کر شرماتا بھی تھا، خاموشی سے اپنے کمرے میں بیٹھا کام میں مگن رھتا، وہاں کی لڑکیوں کے لباس اور رکھ رکھاؤ سے مجھے اچھا نہیں لگتا تھا، اور وہ میرا مذاق بھی اپنی زبان میں اڑاتی رھتی تھیں، جبکہ مرینہ اس معاملے میں بہت ھی مدد کرتی تھی، ان لڑکیوں کو بہت سمجھاتی اور ڈانٹتی رھتی تھیں، ھمارے آفس میں تین لڑکیوں کا مزید اضافہ ھو گیا تھا جو کام کم اور اپنے گپ شپ اور میک اپ کی طرف دھیاں زیادہ دیتی تھیں، وہاں پڑھے لکھوں میں صرف خواتین کی تعداد بہت زیادہ تھی جو خاص طور سے انگلش بھی بہت اچھی طرح جانتی تھیں، !!!!!

    میرا زیادہ تر کام بنک سے متعلق تھا، اور کبھی کبھی آفس کی ضروری خریداری کیلئے بھی مجھے ھی بھیجا جاتا تھا، تاکہ ایک ھی چکر میں تمام کام واپسی میں ممکن ھوسکیں، خریداری کی ذمہ داری دو تیں صاحبان پر تھی لیکن وہ زیادہ تر ھماری کمپنی کے زیر تعمیر پروجیکٹس پر ھی رھتے تھے، اور وہ بھی پاکستانی ھی تھے، شام کے وقت میں زیادہ تر وقت آفس میں ھی گزارتا تھا، لیکن مجھے وہاں پر ان تمام لڑکیوں کی دھمال چوکڑی کو برداشت کرنا پڑتا تھا، اور جب ڈرائیور یا دوسرے اسسٹنٹ کسی کام کے سلسلے میں وھاں آفس میں آتے تھے تو مزید شیطانیاں بڑھ جاتیں، اگر مالکان میں سے اگر کوئی نہ ھو تو پھر ایک قیامت ھی برپا رھتی تھی،!!!!!!

    کچھ تو سفارشی بھی ھمارے مالکان نے بھرتی کئے ھوئے تھے، کیونکہ ان کی وجہ سے بہت سارے دفتر کے کام بھی جن کا تعلق بڑے سرکاری محکموں سے ھوتا تھا، بغیر کسی حیل و حجت اور کسی اعتراض کے بخوبی انجام پا جاتے تھے، وہاں بھی رشوت بڑے پیمانے پر پھل پھول رھی تھی، میں نے تو شروع میں ھی سوچا کہ یہاں رھنا اپنے آپ کو برباد کرنا ھے، جتنا جلدی ممکن ھو مجھے یہاں سے چلا جانا چاھئے، لیکن نہ جانے اوپر والے کو کیا منظور تھا، وہاں سے جاتے جاتے بھی مجھے ایک سال کا عرصہ لگ گیا، اور اسی دوران بہت سارے اچھے برے معاملات سے بھی دوچار ھونا پڑا، لیکن شکر ھے کہ عزت سے وہاں سے واپس آگئے،!!!!!

    مجھ سے روزانہ ان لڑکیوں کا مذاق برداشت نہیں ھوتا تھا، لیکن جب سے وہاں کے مالکان کے چھوٹے بھائی سے ملاقات ھوئی، تو کچھ ان کی دوستی میں رہ کر آہستہ آھستہ اپنے آپ کو سنبھال لیا، انہوں نے پہلے تو یہ کہا کہ یہاں کا ماحول تمھارے لئے اجنبی ھے، لیکن اگر تم ان سب کے ساتھ مقابلہ کرکے نہیں چلو گئے تو یہ سب تمہیں جینے نہیں دیں گے، سب سے پہلے انکی روسی زبان سیکھو اور ان سب پر بھاری پڑجاؤ، ان کو زیادہ لفٹ بھی مت دو اور نہ ھی ان سے دور بھاگو،!!!!! میری بھی کچھ مجبوریاں تھیں کہ مجھے اس وقت تک یہاں سب کچھ جھیلنا پڑ رھا تھا جب تک کہ مجھے کوئی اور اچھی نوکری نہیں مل جاتی،!!!!!!

    میں نے پھر آھستہ آآھستہ پہلے تو ان سب سے بہتر تعلقات بنانے شروع کئے ساتھ ان سے ٹوٹی پھوٹی روسی زبان میں بات کرنا شروع کی، کچھ ھی دنوں میں روسی زبان سے اتنی واقفیت ھوگئی تھی کہ بازار میں جاتے ھوئے کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں ھوئی، سب سے پہلے تو میں نے وہاں کے سلام دعاء کے اداب انکی روسی زبان میں سیکھے، اسکے بعد گنتی سیکھی،!!!!

    صبح کے سلام کو وہ روسی زبان میں "doobra-e-dain" شام کے سلام کو "doobra-e-veacher" کہتے ھیں، اور حال چال پوچھنے کیلئے "kakdilah" جس کا مطلب ھے کہ کیا حال ھیں اور اسی کا جواب "kharashoo normal" جس کے معنی بالکل خیریت ھے، اسی طرح Yaa کا مطلب میں یعنی بذات خود اور اسی طرح تم کو یا تجھے Teebay کہا جاتا ھے، !!!!!!
    وہاں پر روسی زبان لکھنے بھی لگا تھا، قدرتی بات ھے کہ جب تک کہ کسی زبان سے واسطہ نہیں پڑتا وہ بہت مشکل لگتی ھے، جہاں پر مجبوری ھوجاتی ھے وھاں پر انسان خود بخود ھی وہاں کی زبان سمجھنے لگتا ھے،!!!!!! اب تو کافی بیچ میں 9 سال کا وقفہ آگیا ھے، اور اب تو میں بہت کچھ بھول چکا ھوں، !!!!!!

    کچھ ھی دنوں بعد میں ان پر بھاری پڑنے لگا کیونکہ میں نے بھی انکی ھی زبان میں انھی لوگوں کے ساتھ مذاق کرنا شروع کردیا تھا،!!!!!!!
     
  25. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کچھ ھی دنوں بعد میں ان پر بھاری پڑنے لگا کیونکہ میں نے بھی انکی ھی زبان میں انھی لوگوں کے ساتھ مذاق کرنا شروع کردیا تھا،!!!!!!!

    میں خود بھی اپنے آپ کو بدلتے ھوئے دیکھ رھا تھا اور حیران تھا یہ اچانک جو تبدیلی ھو رھی ھے یہ میری ذات کیلئے ٹھیک نہیں ھے، جس پر میرا اپنا کوئی کنٹرول بھی نہیں تھا اور میں ان کے ماحول میں ڈھلتا جارھا تھا، یہاں پاکستان میں میری بیگم کے علاؤہ سب لوگ بہت خوش تھے، اب ھر مہینے ایک اچھی رقم پاکستان میں ھیڈ آفس سے میرا بڑا بیٹا آکر لے جاتا تھا، جو گھر کے خرچے کیلئے کافی تھے، لیکن ھماری بیگم کو میرا یہاں پر آنا اچھا نہیں لگا تھا، کیونکہ انہیں بھی یہاں کے بارے میں پتہ چل چکا تھا کہ اس ملک کا ماحول صحیح نہیں ھے،!!!!!!

    مجھے تو شروع میں ایک ھوٹل میں ٹھرایا گیا، جہاں مجھے بہت ھی مشکل پیش آئی کیونکہ اس وقت تو میں انکی زبان سے بالکل ناواقف تھا، اور اس شہر کے راستوں سے بھی بالکل انجان تھا، پہلے دن ھی راجہ مجھے بڑے صاحب سے پوچھ کر ایک نزدیک ھی کے ھوٹل میں چھوڑ آیا، جہاں پر اس نے میرے کمرے کیلئے کچھ پیسے جمع کرائے اور مجھے بھی کچھ وہاں کی کچھ کرنسی بھی دے دی، میرا سامان اور سوٹ کیس اس کی گاڑی میں ھی پڑا ھوا تھا، میرے کمرے تک میرا سامان بھی ایک پورٹر کی مدد سے پہنچا بھی دیا تھا، اور دوسرے دن صبح 9 بجے کے وقت آنے کا وعدہ کرکے چلا گیا،!!!!

    وہ ایک درمیانے درجے کا خوبصورت ھوٹل تھا، اور کمرے بھی بہت ھی شاندار تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کوئی بھی وہاں پر انگلش نہیں بولتا تھا، دوسرے دن صبح صبح میں تیار ھوکر کمرے کو بند کیا اور نیچے کے فلور پر ایک وہاں کے ھی ریسٹورانٹ میں آکر ایک میز کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا، اب ایک ویٹر آیا اس نے مجھے ایک مینو پکڑا دیا، جو کہ سارے کا سارا روسی زبان میں لکھا ھوا تھا، میں تو وھیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا، میں تھا اور وہ ویٹر ساتھ وہ مجھے اپنی ھی زبان میں مینو کارڈ میں لکھے ھوئے ناشتے کے بارے میں بتا رھا تھا، اور میں اسے تکے جارھا تھا، میں نے اشاروں کی زبان سے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی جیسے مجھے ڈبل روٹی سلائیس مکھن لگا کر چاھئے ساتھ چائے بھی،!!!! لیکن وہ بے چارہ میرے اشاروں سے پریشان ھو گیا، اب کرتا نہ کیا کرتا اسکے ساتھ ھوٹل کے کچن میں چلا گیا وہاں بھی کچھ عجیب سا ھی بن رھا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں ایا، اور اسی طرح بغیر کچھ کھائے بغیر ھی ھوٹل سے باھر آگیا ،!!!!!!!

    باھر آکر میں نے ھوٹل کے گیٹ کے سامنے سے ھی اِدھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن ایک بہت ھی مصروف شاہراہ پر دھوآں دار ھارن بجاتا ھوا ٹریفک ھی دیکھ پایا، صبح صبح کا وقت لوگوں کا ایک ھجوم بھی جلدی جلدی ادھر ادھر فٹ پاتھ پرآتے جاتے، ٹکراتے ھوئے دیکھ رھا تھا، جس میں زیادہ تر خواتین ھی تھیں، وہ سب مجھے بہت ھی عجیب نطروں سے دیکھتے اور کچھ کہتے ھوئے گزر رھے تھے، رات کو بھی میں کچھ کھا نہیں سکا تھا اور ھوٹل کے کمرے میں پہنچتے ھی سو گیا، صبح اٹھتے ھی تیار ھو کر ناشتے کی فکر میں ادھر ادھر بھٹک رھا تھا، بھوک بھی بہت شدید لگی ھوئی تھی، اب وہ راجہ بھی ابھی تک نہیں پہنچا تھا جبکہ 9 تو کب کے بج چکے تھے، رات آفس سے واپسی پر وہاں کے ٹیلیفون نمبر لینا بھول گیا تھا، اور جو کراچی سے یہاں کیکے رابطہ کے ٹیلیفون نمبر لایا تھا وہ تو ھینڈ بیگ میں تھے، اب واپس اوپر ھوٹل میں جانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ یہ امید تھی کہ راجہ اپنی گاڑی لیکر شاید ابھی گیٹ پر ھی پہنچ جائے، اس نے جاتے ھوئے یہ بھی کہا تھا کہ پارکنگ کی یہاں پر مشکل ھے اس لئے میں گیٹ تک ٹھیک 9 بجے پہنچ جاؤں، لیکن راجہ تو راجہ تھے، مجھے یہاں مشکل میں چھوڑ کر غائب ھوگئے،!!!!!!

    10 بجنے والے تھے اور سامنے دنیا بھر کی گاڑیاں آ جا رھی تھیں لیکن صرف راجہ کا ھی پتہ نہیں تھا، میں نے ایک دو بندوں سے اپنے آفس کا راستہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ میری بات سمجھ نہ سکے، مجھے ایک مشکل یہ تھی کہ بہت زور کی بھوک لگ رھی تھی، میرے پاس پیسے بھی تھے، لیکن صرف ایک زبان کی وجہ سے مجھے بھوک کو برداشت کرنا پڑرھا تھا، اس وقت گرمیوں کے دن تھے، دھوپ میں کافی شدت تھی، اور مجھے بھوک کے ساتھ ساتھ باھر کھڑے ھوکر گرمی کو بھی سہنا پڑرھا تھا، دل ھی دل میں راجہ کو خوب گالیاں بھی دے رھا تھا،!!!!!

    بجلی کی بسیں بھی وھاں پہلی بار دیکھیں، وہ بھی بغیر پٹری کے ، نیچے تو ٹائر تھے اور اوپر ایک راڈ بس کے اوپر سے بجلی کے تار کو چھو رھی تھی، جس سے بس چللتی تھی، اگر ڈرائیور کی ذرا سی بے احتیاطی سے اگر اسٹئرنگ کچھ زیادہ گھوم جائے تو وہ راڈ بجل کے تار کو چھوڑ دیتی تھی اور بس جہاں کھڑی ھے وھیں کھڑی ھوجاتی تھی، جب تک کہ اس راڈ کو دوبارہ اس تار سے چپکایا نہیں جاتا، اس کا وہاں سے ھلنا مشکل ھی ھوتا تھا، اور ایسی ھی مشکل کے لئے ایک مددگار گاڑی بھی گھومتی رھتی تھی، ایسا ھی سلسلہ میرے سامنے بھی ھو گیا بس ھوٹل کے گیٹ کے سامنے ھی آکر رک گئی وجہ وہی راڈ کے بجلی کے کنکشن سے ھٹ جانے سے میرے سامنے ھی آکر کیا کھڑی ھوئی، کہ اب تو میرے لئے ایک اور مشکل کھڑی ھوگئی اور پیچھے تمام ٹریفک جام ھو گیا، نہ تو آنے والی گاڑی ھل رھی تھی نہ جانے والی، اب ایک اور مصیبت کا سامنا کھڑے کھڑے جھیل رھا تھا،!!!!!!!

    کچھ دیر اور ھوتی تو شاید میں بے ھوش ھی ھوجاتا، لوگ بھی مجھے ایک الگ ھی نطروں سے دیکھ رھے تھے اور جس طرح پاکستان میں ھم کسی گورے کو دیکھ کر تعجب کی نظروں سے دیکھتے ھیں وہاں پر اسی طرح ھی وہ لوگ ھمیں دیکھتے ھیں اور وہاں پر ویسے بھی ھم لوگوں کی تعداد بس نہ ھونے کے برابر تھی اسی لئے ھم انکو ایک عجوبہ ھی لگتے ھونگے، وہ جو بھی میرے سامنے سے گزرتا مجھے اپنی زبان میں سلام کرتا ھوا نکل جاتا تھا اور میں منہ سے کچھ کہہ تو نہیں سکتا تھا لیکن اپنی گردن کو ھلا دیتا تھا، کچھ جو عمر رسیدہ تھے مجھے اپنا ھیٹ اتار کر احترام سے گردن جھکا کر سلام کرتے، میرے سر پر ھیٹ تو نہیں تھا، بس اپنی گردن ھلا کر ھی سلانم کا جواب دے رھا تھا، کئی لوگوں نے تو رک کر مجھ سے کچھ پوچھ گچھ بھی کی، لیکن میں تو بس گونگا بن کر اپنی گردن کبھی ھاں میں اور کبھی نا میں ھلا کر، کبھی مسکرا کر کبھی سنجیدہ ھو کر اشاروں میں ان ھی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اشاروں ھی اشاروں میں کام چلا رھا تھا، لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آرھا تھا کہ وہ لوگ مجھ سے کیا کہہ رھے ھیں اور میں کیا جواب دے رھا ھوں جس میں زیادہ تر خواتیں ھی تھیں، انہیں مجھ سے ایسا لگتا تھا کہ بہت ھمدردی تھی، کئی لوگوں نے دعوت بھی دی اپنے ساتھ لے جانے کیلئے مگر میں نے انکا اشاروں میں ھی شکریہ ادا کیا،!!!!!!!

    کافی دیر بعد اس مشکل مرحلے سے گزرتے میں نے راجہ کو دیکھا کہ وہ پیدل ھی بھاگا ھوا چلا آرھا ھے، اور آتے ھی معذرت کرنے لگا کہ ٹریفک جام ھونے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی یہاں نہ لا سکا میں نے بھی اپنے غصے کو برداشت کرتے ھوئے اس سے درخواست کی کہ راجہ جی مجھے کچھ ناشتہ تو کرادو اس نے جواب دیا کہ یہاں آپکے مظلب کا ناشتہ نہیں ملے گا آپ واپس چلئے میں آفس میں ھی آپکے ناشتے کا بندوبست کرتا ھوں، وہ مجھے پیدل ھی وہاں سے لے گیا، اور وہاں سے میرے ھوٹل کے پیچھے ھی وہی فائو اسٹار ھوٹل کی بلڈنگ مجھے نطر آئی جہاں ھمارا آفس تھا، کاش کہ مجھے پتہ ھوتا تو میں پیدل ھی چلا جاتا کیونکہ وہاں پہنچنے میں مجھے صرف 20 منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے،!!!!!!!
     
  26. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کافی دیر بعد اس مشکل مرحلے سے گزرتے میں نے راجہ کو دیکھا کہ وہ پیدل ھی بھاگا ھوا چلا آرھا ھے، اور آتے ھی معذرت کرنے لگا کہ ٹریفک جام ھونے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی یہاں نہ لا سکا میں نے بھی اپنے غصے کو برداشت کرتے ھوئے اس سے درخواست کی کہ راجہ جی مجھے کچھ ناشتہ تو کرادو اس نے جواب دیا کہ یہاں آپکے مظلب کا ناشتہ نہیں ملے گا آپ واپس چلئے میں آفس میں ھی آپکے ناشتے کا بندوبست کرتا ھوں، وہ مجھے پیدل ھی وہاں سے لے گیا، اور وہاں سے میرے ھوٹل کے پیچھے ھی وہی فائو اسٹار ھوٹل کی بلڈنگ مجھے نطر آئی جہاں ھمارا آفس تھا، کاش کہ مجھے پتہ ھوتا تو میں پیدل ھی چلا جاتا کیونکہ وہاں پہنچنے میں مجھے صرف 20 منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے،!!!!!!!

    مجھے یہاں اشک آباد آئے ھوئے دوسرا دن تھا اور لگتا تھا کہ ابھی تک میں حیرت انگیز دنیا میں ھوں کیونکہ میں نے کبھی بھی ایسے ماحول کو نہیں دیکھا تھا علاؤہ انگلش فلموں کے، میں ان کے بیچ ایک الگ ھی نسل کا نظر آتا تھا، کچھ ایسے بھی وہاں کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ھوئے مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ھوا ھے، خوبصورت سی جھیلیں پہاڑوں کے ساتھ آنکھوں کو بھلی لگتی تھیں، ھر طرف ھریالی ھی ھریالی، اناروں کے درخت انگور کی بیلیں، اور اس کے علاوہ ھر طرف شہتوت کے درخت لگے ھوئے اور وہاں کے لوگوں کا قدرتی حسن تو ایک جادوئی طلسم کا شاھکار لگتا تھا، جس علاقے سے بھی گزروں ایک سحرائی کیفیت سی طاری ھو جاتی تھی، اکثر میری راہنمائی کے لئے میرے ساتھ راجہ ھی ھوتا تھا، مجھے ویسے بھی اکیلے جاتے ھوئے کچھ جھجک محسوس ھوتی تھی، میری وجہ سے راجہ کو بھی کافی اپنا وقت مجھے دینا پڑتا تھا، وہاں پر قدم قدم پر بہت ھی خوبصورت گارڈن تھے، اور لوگوں کی وہاں چہل قدمی اور بھی وہاں کے حسن میں اضافہ کردیتی تھی،!!!!!!!!!!

    مجھے خاموش اور سنجیدہ دیکھتے ھوئے آفس کے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ شاید میرے ساتھ کوئی لڑکی میری دوست نہیں ھے، اس لئے میں میں سنجیدہ اور اداس رہتا ھوں، اور شروع شروع میں تو اکثر لڑکیاں میرا بہت مزاق اڑاتی رھیں، لیکن آہستہ آہستہ میں نے اپنے آپ کی عادتوں کو تبدیل کرتا رھا، جس کی وجہ وہ لوگ سمجھ گئے یہ بندہ زیادہ ھی استاد ھے، میں بھی اپنے پاکستانی رنگ میں آگیا، میں اس وقت 1998 میں 48 سال کا ھونے والا تھا شادی کو بھی 19 یا 20 سال ھونے والے تھے، کیونکہ میری شادی 9 جون 1979 کو ھوئی تھی، اور میں اس وقت اتنی عمر کا لگتا بھی نہیں تھا، اب ان سب کو یہ پریشانی ھو گئی کہ میرے ساتھ میری کوئی دوست کیوں نہیں ھے، میرے لئے اب ایک اور مسئلہ پیدا ھوگیا کہ وہاں کی آفس کی لڑکیاں جو ھر وقت میرے ھی فراق میں رھتی تھیں، اور مجھ سے کہتی کہ تم کسی کو دوست کیوں نہیں بناتے، میں اکثر ان سے کترا تا تھا اور میں نے ان سے کہا بھی کہ بھئی میں شادی شدہ ھوں اور ھمارے یہاں لڑکیوں سے دوستی کو بہت ھی برا سمجھا جاتا ھے، لیکن ان سب نے تو میرا ناک میں دم کیا ھوا تھا، ھمارے آفس میں تین لڑکیاں میرے جانے کے بعد مزید بھرتی ھوگئی تھی جوکہ سفارشی تھیں،!!!!!!

    میں ھوٹل میں ایک ھفتہ ھی رھا تھا، اور مالکان کی ھدایت پر روز شام کو راجہ مجھے کرایہ پر مکان لینے کیلئے مختلف علاقوں میں لے جاتا تھا، کہ میں کوئی اپنے لئے مکان پسند کرلوں، میں چاھتا تھا کہ جہاں یہ راجہ رھتا ھے وہیں مکان لے لوں مگر بقول راجہ وہ بہت دور رھتا ھے، اور دفتر کے نذدیک کوئی اچھا مکان مل کر نہیں دے رھا تھا، یا تو بہت بڑا مکان ملتا تھا، یا بالکل ھی چھوٹا، مجھے دو کمروں کے مکان کیلئے کہا گیا تھا، پھر بڑی مشکل سے ھی ایک مکان دفتر کے نذدیک ھی 250 ڈالر مہینہ کا مل گیا، اسی دن ھی میں ھوٹل سے فوراً ھی اس مکان میں شفٹ ھو گیا، وہ مکان فلیٹ نما پہلی منزل پر تھا، اور وہی آخری منزل بھی تھی، میرے سامے ھی مکان مالک سے راجہ نے وہاں کی مقامی زبان میں بات کی، اور سب کچھ طے ھو گیا مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا، راجہ نے مجھے کہا کہ آپ کو یہ مکان پسند ھے، میں نے کہاں ھاں یہ سب سے بہتر ھے، پھر اس نے کہا کہ اس کا کرایہ 250 ڈالر ماہانہ ھے اور گھر کو نوکرانی کیلئے 50 ڈالر الگ سے ھونگے جس کام گھر کی صفائی کپڑے دھونا استری کرنا اس کے علاوہ اس کی ذمہ داری میں کھانا پکانا بھی ھے، میں نے کہا کہ اس کے پیسے کون ادا کرے گا، اس نے کہا کہ یہ سب کمپنی کی ذمہ داری ھے اس کے علاوہ کھانے پینے کا جو بھی ماھانہ خرچہ ھو اس کا بل ھر مہینے آپ آفس سے لے سکتے ھیں،!!!!!!

    مکان بہت ھی اچھا تھا اس میں دو بیڈروم خوبصورت پردوں سے آراستہ، مختلف پینٹنگ دیواروں پر سجی ھوئی، اور کپڑوں کی الماریاں، دونوں بیڈ رومز کے ساتھ ایک کشادہ ڈرائنگ روم تھا جس میں خوبصورت صوفہ سیٹ، ایک بڑا سا ٹی وی، وی سی آر اور علیحدہ سے دش ریسور بھی ایک کینبنٹ میں سجے رکھے تھے، اس میں بھی خوبصورت پردے قالین اور فرنیچر کے رنگ سے ملتے جلتے ایک قرینے سے آراستہ کئے ھوئے تھے، ساتھ ھی ڈائننگ ٹیبل بھی چھ کرسیوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی، جس کتے بیچ میں ایک گلدستہ تازے پھولوں کا بھی رکھا ھوا تھا، ایک اور کمرہ دیکھا جو شاید موسیقی کیلئے تھا کیونکہ اس میں ایک خوبصورت پیانو رکھا ھوا تھا، اس سے تو میں بالکل ھی ناآشنا تھا، مگر راجہ نے اس پر اپنی انگلیاں اس پر پھیر کر بہت ھی خوبصورت کوئی وہاں کی ھی دھن بجائی، ایک چھوٹی سی لائبریری تھی جہاں روسی زبان کی کتابوں سے مختلف رنگ برنگی کتابوں سے سجی ھوئی تھی یہ بھی ھمارے کام کی نہیں تھی، ایک ساتھ ھی بہترین کچن تھا ایک بڑاے ریفریجریٹر کے ساتھ اون جس میں چارے چولہے تھے اور سارے کیبنٹس میں کچن کا سارا ضرورت کا سامان موجود تھا، چھری کانٹوں اور کراکری سے لیکر کھانے پکانے کے تمام پتیلے فرائی پین ھر چیز موجود تھی، ایک لمبی چوڑی سی بالکونی بھی تھی، اسکے ساتھ ایک اسٹور جہاں استری اسٹینڈ اور ایک استری کے ساتھ رکھا ھوا تھا، سامنے خوبصورت پارک اور اس کے ساتھ مشغول شاہراہ صاف نظر آتی تھی، جہاں ٹریفک اور گارڈن کا نظارہ بھی کر سکتے تھے، ھر کمرے میں ائر کنڈیشنڈ کے علاوہ کمرے گرم کرنے کیلئے ایک خاص سسٹم تھا جہاں پر مختلف پائپ دائرے کی شکل میں تھے جن میں سردیوں کے موسم میں ایک بڑے بوائلر کے ذریعے گرم پانی گرارا جاتا تھا، جس کی وجہ سے کمرے گرم رھتے ھونگے، ایک بڑا خوبصورت صاف ستھرا باتھ روم اور شفاف ٹائلز سے آراستہ غرض کہ ھر چیز بالکل فائیو اسٹار ھوٹلوں کی طرح سجی سجائی تھی، بس اپ اپنے کپڑوں کا سوٹ کیس لے جائیں اور رھنا شروع کردیں،!!!!!!!!!

    پہلے دن تو مجھے وہاں نیند نہیں آئی، ڈرائینگ روم میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رھا، جو انہیں کی زبانوں کے چینل تھے، بس متحرک تصاویر سے ھی دل بہلاتا رھا، رات کا کھانا راجہ باھر سے ھی لے آیا تھا، کچھ ابلے ھوئے چاول اور فرائڈ چکن تھی اور سلاد تھی، جو کہ پھیکی پھیکی اور مزیدا نہیں تھی، اب تو ایک ھفتہ سے یہی چیزیں کھاتے کھاتے کچھ عادت سی ھوگئی تھی، رات کو راجہ کچھ گپ شپ کرنے کے بعد مجھے الوداع کرتے ھوئے یہ کہہ گیا کہ صبح سویرے یہاں کی نوکرانی آئے گی، اور صبح کا ناشتہ تیار کرے گی اس کے علاوہ اپنے میلے کپڑے اگر ھوں تو اسے دے دینا اور دھلے ھوں تو استری کیلئے بھی، میں آپکو لینے صبح 8 بجے آونگا اور ساتھ آپکے ناشتہ بھی کرونگا، میں نے تو آج تک ایسی سہولتیں کسی بھی کمپنی میں نہیں دیکھیں، جو کہ اپنے اسٹاف کا اتنا خیال رکھتے ھوں، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ کس وقت ٹی وی دیکھتے دیکھتے صوفے پر ھی سوگیا، !!!!!!!

    صبح صبح دروازے کی گھنٹی کی آواز سے فوراً ھی آنکھ کھل گئی، دروازے پر جاکر دیکھا تو نوکرانی دروازے پر کھڑی اندر آنے کیلئے میری اجازت کی منتظر تھی، اس نے کچھ اپنی زبان میں کچھ کہا اور میں کچھ بھی سمجھ نہیں سکا، اور وہ ایک اچھی خاصی ادھیڑ عمر کی عورت تھی، میں نے اسے راستہ دیا اور گنگناتی ھوئی اندر داخل ھو گی، اور کچن کی طرف جاتے ھوئے اس نے کچھ پوچھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، شاید ناشتے کے بارے میں پوچھ رھی ھو گی، میں نے اسے تمام چیزیں دکھادیں جو رات کو یہاں شفٹ ھوتے ھوئے راجہ نے بازار سے ناشتے اور کھانے پینے کیلئے خرید کر دیں تھیں، وہ سب سامان ویسے ھی بکھرا ھوا رکھا تھا، نوکرانی نے اس میں سے انڈے اور ڈبل روٹی علیحدہ کی مکھن اور جام وغیرہ کو میں فرج میں رکھنا بھول گیا تھا، جتنی دیر میں میں نھا دھو کر تیار ھوا، وہ ناشتہ تیار کرکے ڈائننگ ٹیبل پر سجا چکی تھی، جہاں میں نے دیکھا ایک انڈا ھاف فرائی اور کچھ آلو کے قتلے فرائی ھوئے اور کچھ دلیہ ٹائپ کی چیز اور ایک کیتلی میں شاید چائے اور ساتھ ھی ڈبل روٹی، مکھن اور جام بھی نظر آرھا تھا، میں ابھی ناشتہ کررھی رھا تھا کہ دروازے کی گھنٹی ایک بار پھر بجی، نوکرانی نے جا کر دروازہ کھولا اور جیسے ھی واپسی کیلئے مڑی اسکے پیچھے راجہ چلا آرھا تھا، راجہ کے ٹیبل پر بیٹھتے ھی ایک انڈا مزید فرائی کرکے لے آئی، ددونوں نے ملکر ناشتہ کیا اور اسی دوران راجہ اسکو دوپہر کے کھانے کے بارے میں ھدایت دے رھا تھا،!!!!!!!!
    ------------------------------------------------

    دروازے کی گھنٹی ایک بار پھر بجی، نوکرانی نے جا کر دروازہ کھولا اور جیسے ھی واپسی کیلئے مڑی اسکے پیچھے راجہ چلا آرھا تھا، راجہ کے ٹیبل پر بیٹھتے ھی ایک انڈا مزید فرائی کرکے لے آئی، ددونوں نے ملکر ناشتہ کیا اور اسی دوران راجہ اسکو دوپہر کے کھانے کے بارے میں ھدایت دے رھا تھا،!!!!!!!!

    مجھے تو یہ سب ایک عجیب سا اور حیران کن ھی لگ رھا تھا کیونکہ اس طرح کا رھن سہن میں اپنی زندگی میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ھمارے گھروں میں گھر کی عورتیں ھی گھر کا سارا کام کرتی ھیں، بس کبھی کبھی کسی باھر کی تقریبات میں چلے گئے تو شاید اس طرح کی آؤ بھگت ھوتی تھی، لیکن ھمارے گھروں میں اب تک کوئی نوکر، نوکرانیوں یا کوئی ذاتی ملازم کا تصور تک نہیں تھا شاید اس لئے کہ ھم ایک متوسط گھرانے سے تھے، اتنے امیر خاندان سے تعلق بھی نہیں تھا،!!!!

    ناشتہ سے فارغ ھوکر ھم دونوں سیدھا آفس پہنچے، پھر میں نے دوسرے دن سے ھی تمام چارج سنبھال لیا تھا، سارا حساب کتاب پہلے ھماری اس کمپنی کے چیرمین کے پاس تھا، انہوں نے میرے آتے ھی سب کچھ حساب کتاب میرے حوالے کردیا اور سکون کا سانس لیا، ان کے ساتھ ھی بیٹھ کر کافی دیر تک شروع سے اب تک کا حساب کتاب کرتا رھا، انہوں نے اپنے بریف کیس سے بہت سے خرچ کی رسیدیں نکالیں اور زیادہ تر روسی زبان میں ھی تھیں، مجھے بہت مشکل ھورھی تھی لیکن ان کی سیکریٹری مرینہ نے اس سلسلےمیں میری بہت مدد کی، میں نے اسکی مدد سے ھر ایک چیز کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے بعد سب کچھ رجسٹروں پر چڑھایا، پھر باقائدگی سے اپنا کام شروع کردیا،!!!!

    یہاں کے چیرمین بہت ھی اچھے انسان تھے، میرا بہت ھی اچھا خیال رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے دوسروں کی بنسبت مجھے بہت اچھی سہولیات فراھم کی ھوئی تھین، مگر میں اس گھر میں اکیلا رھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، اس لئے پروجیکٹس کے ایک خریداری کے ذمہ دار جو پاکستانی ھی تھے اور ساتھ ھی وہ اسٹور کے بھی انچارج تھے، ان سے بھی شروع میں ھی ملاقات ھوگئی تھی، میں چاھتا تھا کہ وہ میرے ھی ساتھ رھیں جبکہ وہ پہلے کسی اور جگہ دوسرے پروجیکٹ کے اسٹاف کے ساتھ رھتے تھے، میں نے انہیں اپنے ساتھ رھنے کیلئے راضی کرلیا، اور اپنے چیرمین سے بھی اجازت لے لی، مجھے میرا ایک ساتھی مل چکا تھا، سب سے بڑی بات کہ وہ پاکستانی تھا، جب پردیس میں کوئی ھم زبان مل جائے تو آدھی پریشانیاں ویسے ھی دور ھوجاتی ھیں، اس طرح ھم دونوں ایک ساتھ ھی ایک گھر میں رھنے لگے، ایک دوسرا بیڈروم اس کے لئے وقف تھا، وہ کافی ھنس مکھ تھا اور میرے ساتھ وہ آخیر تک رھا، ھمارے آپس کے تعلقات بہت ھی اچھے اور دوستانہ بھی رھے،!!!!!!

    اب تو گھر میں ھم نے اپنی نوکرانی کو پاکستانی اسٹائل کے کھانے پکانا بھی سکھا دیئے تھے، وہ ھمارے گھر کا بہت خیال ھی زیادہ رکھتی تھی، ھمارے اٹھنے سے پہلے ھی گھر پہنچ جاتی تھی، ایک مین دروازے کی چابی بھی ھم نے اسے دی ھوئی تھی، باقی کمرے ھم نے کبھی بھی بند نہیں کئے اور وہ گھر کے تمام کام سے فارغ ھوکر رات کا کھانا پکا کر واپس چلی جاتی تھی، دفتر سے جو اسے تنخواہ 50 ڈالر ملتی تھی اس کے علاوہ بھی ھم دونوں اس کی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رھتے تھے، وہ صبح صبح ھم دونوں کے ناشتے کا بہترین انتظام ھمارے دفتر جانے سے پہلے میز پر لگا دیتی تھی، ھمارے دفتر جانے کے بعد وہ سارے گھر کو بہترین طریقے سے صفائی کرتی، اسکے بعد تمام میلے کپڑے چادریں وغیرہ بھی دھوتی تھی، بعد میں دوپہر کے کھانے کی تیاری دوپہر میں ھم لنچ بریک میں آتے تھے، اور کھانا ھمیں پہلے سے ھی تیار ملتا تھا، کھا بی کر رات کے کھانے کی تفصیل اسے سمجھا کر واپس چلے جاتے تھے، میرا دوست ھی زیادہ تر اس نوکرانی سے تمام معاملات پر بات کرتا تھا کیونکہ اسے وہاں کی زبان پر اچھا خاصہ عبور تھا، سارا روز کے گھر کے کھانے پینے روزمرہ کی استعمال کی چیزیں وہ خود ھی لاکر دیتا تھا اور اسکا بل کمپنی سے وصول کرلیتا تھا جو کہ ھمارے لئے کمپنی کی طرفسے اجازت ھی،، کھانے پینے کی چیزیں وہ بہت ھی اچھی خرید کر لاتا رھا، اس کے علاؤہ پھل فروٹ کی کافی مقدار ریفریجریٹر میں ھمییشہ بھر کر رکھتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے وہاں کے تمام بازاروں کا علم تھا، مجھے بھی کبھی کبھی وہ اپنے ساتھ لے جاتا لیکن جس طرح وہ وہاں کے لوگوں سے بات کرتا تھا میں تو اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بالکل گونگا ھی سمجھتا تھا، !!!!!

    رات کو جب ھم واپس آتے تو نوکرانی واپس جاچکی ھوتی تھی، مگر گھر بالکل صاف ستھرا چمکا کر جاتی تھی اس کے علاوہ ھمارے کپڑے دھلے دھلائے باقائدہ استری کئے ھوئے اپنی اپنی الماریوں میں لٹکے ھوئے دیکھ کر ھمیں بہت ھی خوشی ھوتی تھی، وہ عورت ادھیڑ عمر کی مسلمان عورت تھی، وہاں کے حساب سے تو وہ بہت اچھی تنخواہ لے رھی تھی، اس کے علاوہ ھم دونوں بھی اسکی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رھتے تھے، وہ بہت ھی ایماندار تھی، اور کبھی بھی اسے جھوٹ بولتے ھوئے نہیں پایا، گھر کی دیوریں دروازے کھڑکیاں، غرض کہ‌ تمام کمروں کی صفائی ستھرائی اپنے دل سے کرتی تھی، ھم نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ھم ان تمام گھر کے کاموں سے بچ جائیں گے، ھمیں اب گھر واپسی پر کافی وقت مل جاتا تھا، رات کو جب گھر آتے تو پھر دونوں خود ھی کھانا نکال کر کھاتے اور ساتھ مل کر باھر گھومنے بھی چلے جاتے تھے، شروع شروع میں تو اس اجنبی شہر میں باہر نکلنے سے جھجک محسوس ھوئی لیکن میرے دوست کے آنے سے کچھ ھمت آگئی تھی، وہ دوست بہت تیز تھا اور یہاں کی زبان بھی اچھی خاصی بول بھی لیتا تھا،!!!!!!

    اکثر شام کو ھم گارڈن وغیرہ کی سیر کرتے رھے، اور بہت سی خرافات بھی وہاں تھی،ھوٹلوں میں رقص وسرور کی محفلیں، اس کے علاوہ پورے شہر میں ایک یا دو مسجد تھی اور سو سے زیادہ ڈسکو کلب اور کیسینو اپنے زور و شور سے چل رھے تھے، وہاں بھی جانے کا اتفاق ھوا تھا، لیکن بہت سی خرافات کے چکروں میں جانے سے قدرتی ھی بچے رھے، اکثر پاکستان سے یہاں کے دورے پر آنے والوں کو گھمانا پھرانا بھی بعض اوقات ھمارے ھی ذمہ لگا دیا جاتا تھا، تو اس سلسلے میں ان خرافات کی جگہوں پر بھی جانا پڑتا تھا اور بڑے ھوٹلوں کی زیارت اور لنچ ڈنر کیلئے بھی انہیں مدعو کیا جاتا تھا، بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے شوق تھے، ھم تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے، اکثر تو 20 سے 50 ہزار ڈالر ایک ھی بیٹھک میں جوئے میں ھار جاتے تھے اور کبھی کبھی اسی طرح جیت بھی جاتے، مگر دونوں صورتوں میں ان لوگوں کے ماتھے پر بل نہیں دیکھا، بس وہ اسے اپنا شوق ھی سمجھتے تھے،!!!!!!!

    ھماری کمپنی وھاں پر بزنس سینٹر اور رھائشی منصوبوں پر کام کررھی تھی، اس کے علاوہ کاٹن کی امپورٹ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، میرے پاس وہاں کے اخراجات کا حساب کتاب رکھنا ھوتا تھا، کہ کس کس پروجیکٹ پر کتنا خرچہ آیا، میں تو اپنے کام سے کام رکھتا تھا، اور ھر ھفتے ایک رپورٹ بنا کر چیرمین کے حوالے کردیتا تھا، ابھی تو شروعات تھی اس لئے انتا کام کا زور نہیں تھا، باقی بھی جو پارٹنر تھے انہیں اس حساب کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ان سب کا رویہ میرے ساتھ بہت ھی اچھا تھا، اور میں بھی ان کے ھر کام کیلئے ھر وقت حاضر رھتا تھا، وہ سب مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے، بعض ‌وقت انکے گھریلو کام بھی کرنے پڑتے تھے، گھر سے بھی مجھے گاڑی بھیج کر بلوا لیتے تھے، کیونکہ سارے پارٹنرز کا ذاتی حساب کتاب بھی میں ھی رکھتا تھا تو مجھ سے ھی ھر ایک کاواسطہ رھتا تھا، میں ھر ایک کے ذاتی حساب کتاب کو بالکل ایمانداری سے ھی رکھتا تھا، مگر اس ایمانداری کی وجہ سے مجھ پر ذمہ داریوں کا بوجھ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا، اور پھر انہوں نے مجھے ایک وہاں کا ایک مقامی بندہ میری مدد کیلئے دے دیا، جو بہت ھی قابل تھا اور گریجویشن کے آخری سال میں تھا، وہ مسلمان اور اس کا نام مراد تھا، اچھے گھرانے سے اس کا تعلق بھی تھا وہ بس اعلیٰ تعلیم اور مستقل ملازمت کے سلسلے کیلئے امریکہ جانا اس کی ایک بہت بڑی خواھش تھی، اور اس کے لئے وہاں کی حکومت اپنے نوجوانوں کو ھر سہولت فراھم بھی کرتی تھی، مجھ سے اکاؤنٹس کا کام سیکھنا چاھتا تھا اسی لئے وہ میرے پاس بہت محنت سے کام کررھا تھا، وہ تمام رپورٹس تیار کرتا تھا اور جب کبھی ترجمان کی ضرورت پڑتی تو ھمارے لئے بہت کارآمد ثابت ھوتا، اسے وہاں کی زبانوں کے علاوہ انگلش پر بہت ھی زیادہ روانی تھی، بالکل امریکن لگتا تھا !!!!!!

    مراد کے آنے سے میرے کام میں بہت مدد ملنے لگی اور باھر کی ذمہ داریوں سے بھی مجھے نجات مل گئی تھی، کمپیوٹر کا ماسٹر تھا، میرے ھر کام کی رپورٹس وہ ھی بہت احسن طریقے سے اب تیار کرنے لگا تھا، وہ مجھے اپنا استاد سمجھتا تھا اور میری بہت عزت کرتا تھا، اس نے کئی دفعہ مجھے اپنے گھر پر دعوت بھی دی اس کی فیملی نھی ترک خاندان سے تعلق رکھتی تھی، بہت ھی ملنسار اور خلوص سے پیش آنے والی فیملی تھی، انکے والدین اور بہن بھائی میری بہت ھی زیادہ خاطر مدارات کرتے اور میں اکثر انکی کسی نہ کسی تقریب میں مدعو ضرور رھتا تھا، وہ مجھے اپنے بیٹے کے استاد کی حیثیت سے بھی ایک باعزت شخص کا درجہ دیتے تھے،!!!!!!

    ایک بڑے پروجیکٹ کے ساتھ ھمارے دفتر اب تیار ھوچکے تھے، اس لئے ھوٹل کے خوامخواہ اخراجات کو کم کرنے کیلئے بھی انہوں نے بہت ھی اچھے اور بڑے دفتر تیار کئے اور بہت جلد ھی ھم سب وہاں پر اپنے اپنے ساز و سامان کے ساتھ منتقل ھوگئے، ھمارے مالکان کا رویہ سب کے ساتھ بہت اچھا تھا، اور مہینے میں ایک دفعہ وہ سب کو ساتھ لے کے مختلف گاڑیوں میں پکنک منانے بہت جاتے تھے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ وہاں پر بہت ھی خوبصورت جھیلیں اور سرسبز پہاڑی سلسلے اور ابشار اور چھوٹی چھوٹی نہریں بھی تھیں جن کی وجہ سے پکنک کا مزا دوبالا ھو جاتا تھا، وہیں پر سب مل کر کھانا پکاتے، اس وقت تک تو ھم بھی وہاں کے پھیکے کھانوں کو بھی پسند کرنے لگے تھے، لڑکے لڑکیاں ساتھ تو ھوتے تھے لیکن کبھی کوئی بدتمیزی یا کوئی برا سلوک ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ مذاق ضرور کرتے تھے مگر ساتھ ھی سب ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے،!!!!!!
     
  27. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کافی دیر بعد اس مشکل مرحلے سے گزرتے میں نے راجہ کو دیکھا کہ وہ پیدل ھی بھاگا ھوا چلا آرھا ھے، اور آتے ھی معذرت کرنے لگا کہ ٹریفک جام ھونے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی یہاں نہ لا سکا میں نے بھی اپنے غصے کو برداشت کرتے ھوئے اس سے درخواست کی کہ راجہ جی مجھے کچھ ناشتہ تو کرادو اس نے جواب دیا کہ یہاں آپکے مظلب کا ناشتہ نہیں ملے گا آپ واپس چلئے میں آفس میں ھی آپکے ناشتے کا بندوبست کرتا ھوں، وہ مجھے پیدل ھی وہاں سے لے گیا، اور وہاں سے میرے ھوٹل کے پیچھے ھی وہی فائو اسٹار ھوٹل کی بلڈنگ مجھے نطر آئی جہاں ھمارا آفس تھا، کاش کہ مجھے پتہ ھوتا تو میں پیدل ھی چلا جاتا کیونکہ وہاں پہنچنے میں مجھے صرف 20 منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے،!!!!!!!

    مجھے یہاں اشک آباد آئے ھوئے دوسرا دن تھا اور لگتا تھا کہ ابھی تک میں حیرت انگیز دنیا میں ھوں کیونکہ میں نے کبھی بھی ایسے ماحول کو نہیں دیکھا تھا علاؤہ انگلش فلموں کے، میں ان کے بیچ ایک الگ ھی نسل کا نظر آتا تھا، کچھ ایسے بھی وہاں کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتے ھوئے مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ھوا ھے، خوبصورت سی جھیلیں پہاڑوں کے ساتھ آنکھوں کو بھلی لگتی تھیں، ھر طرف ھریالی ھی ھریالی، اناروں کے درخت انگور کی بیلیں، اور اس کے علاوہ ھر طرف شہتوت کے درخت لگے ھوئے اور وہاں کے لوگوں کا قدرتی حسن تو ایک جادوئی طلسم کا شاھکار لگتا تھا، جس علاقے سے بھی گزروں ایک سحرائی کیفیت سی طاری ھو جاتی تھی، اکثر میری راہنمائی کے لئے میرے ساتھ راجہ ھی ھوتا تھا، مجھے ویسے بھی اکیلے جاتے ھوئے کچھ جھجک محسوس ھوتی تھی، میری وجہ سے راجہ کو بھی کافی اپنا وقت مجھے دینا پڑتا تھا، وہاں پر قدم قدم پر بہت ھی خوبصورت گارڈن تھے، اور لوگوں کی وہاں چہل قدمی اور بھی وہاں کے حسن میں اضافہ کردیتی تھی،!!!!!!!!!!

    مجھے خاموش اور سنجیدہ دیکھتے ھوئے آفس کے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ شاید میرے ساتھ کوئی لڑکی میری دوست نہیں ھے، اس لئے میں میں سنجیدہ اور اداس رہتا ھوں، اور شروع شروع میں تو اکثر لڑکیاں میرا بہت مزاق اڑاتی رھیں، لیکن آہستہ آہستہ میں نے اپنے آپ کی عادتوں کو تبدیل کرتا رھا، جس کی وجہ وہ لوگ سمجھ گئے یہ بندہ زیادہ ھی استاد ھے، میں بھی اپنے پاکستانی رنگ میں آگیا، میں اس وقت 1998 میں 48 سال کا ھونے والا تھا شادی کو بھی 19 یا 20 سال ھونے والے تھے، کیونکہ میری شادی 9 جون 1979 کو ھوئی تھی، اور میں اس وقت اتنی عمر کا لگتا بھی نہیں تھا، اب ان سب کو یہ پریشانی ھو گئی کہ میرے ساتھ میری کوئی دوست کیوں نہیں ھے، میرے لئے اب ایک اور مسئلہ پیدا ھوگیا کہ وہاں کی آفس کی لڑکیاں جو ھر وقت میرے ھی فراق میں رھتی تھیں، اور مجھ سے کہتی کہ تم کسی کو دوست کیوں نہیں بناتے، میں اکثر ان سے کترا تا تھا اور میں نے ان سے کہا بھی کہ بھئی میں شادی شدہ ھوں اور ھمارے یہاں لڑکیوں سے دوستی کو بہت ھی برا سمجھا جاتا ھے، لیکن ان سب نے تو میرا ناک میں دم کیا ھوا تھا، ھمارے آفس میں تین لڑکیاں میرے جانے کے بعد مزید بھرتی ھوگئی تھی جوکہ سفارشی تھیں،!!!!!!

    میں ھوٹل میں ایک ھفتہ ھی رھا تھا، اور مالکان کی ھدایت پر روز شام کو راجہ مجھے کرایہ پر مکان لینے کیلئے مختلف علاقوں میں لے جاتا تھا، کہ میں کوئی اپنے لئے مکان پسند کرلوں، میں چاھتا تھا کہ جہاں یہ راجہ رھتا ھے وہیں مکان لے لوں مگر بقول راجہ وہ بہت دور رھتا ھے، اور دفتر کے نذدیک کوئی اچھا مکان مل کر نہیں دے رھا تھا، یا تو بہت بڑا مکان ملتا تھا، یا بالکل ھی چھوٹا، مجھے دو کمروں کے مکان کیلئے کہا گیا تھا، پھر بڑی مشکل سے ھی ایک مکان دفتر کے نذدیک ھی 250 ڈالر مہینہ کا مل گیا، اسی دن ھی میں ھوٹل سے فوراً ھی اس مکان میں شفٹ ھو گیا، وہ مکان فلیٹ نما پہلی منزل پر تھا، اور وہی آخری منزل بھی تھی، میرے سامے ھی مکان مالک سے راجہ نے وہاں کی مقامی زبان میں بات کی، اور سب کچھ طے ھو گیا مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا، راجہ نے مجھے کہا کہ آپ کو یہ مکان پسند ھے، میں نے کہاں ھاں یہ سب سے بہتر ھے، پھر اس نے کہا کہ اس کا کرایہ 250 ڈالر ماہانہ ھے اور گھر کو نوکرانی کیلئے 50 ڈالر الگ سے ھونگے جس کام گھر کی صفائی کپڑے دھونا استری کرنا اس کے علاوہ اس کی ذمہ داری میں کھانا پکانا بھی ھے، میں نے کہا کہ اس کے پیسے کون ادا کرے گا، اس نے کہا کہ یہ سب کمپنی کی ذمہ داری ھے اس کے علاوہ کھانے پینے کا جو بھی ماھانہ خرچہ ھو اس کا بل ھر مہینے آپ آفس سے لے سکتے ھیں،!!!!!!

    مکان بہت ھی اچھا تھا اس میں دو بیڈروم خوبصورت پردوں سے آراستہ، مختلف پینٹنگ دیواروں پر سجی ھوئی، اور کپڑوں کی الماریاں، دونوں بیڈ رومز کے ساتھ ایک کشادہ ڈرائنگ روم تھا جس میں خوبصورت صوفہ سیٹ، ایک بڑا سا ٹی وی، وی سی آر اور علیحدہ سے دش ریسور بھی ایک کینبنٹ میں سجے رکھے تھے، اس میں بھی خوبصورت پردے قالین اور فرنیچر کے رنگ سے ملتے جلتے ایک قرینے سے آراستہ کئے ھوئے تھے، ساتھ ھی ڈائننگ ٹیبل بھی چھ کرسیوں کے ساتھ لگی ھوئی تھی، جس کتے بیچ میں ایک گلدستہ تازے پھولوں کا بھی رکھا ھوا تھا، ایک اور کمرہ دیکھا جو شاید موسیقی کیلئے تھا کیونکہ اس میں ایک خوبصورت پیانو رکھا ھوا تھا، اس سے تو میں بالکل ھی ناآشنا تھا، مگر راجہ نے اس پر اپنی انگلیاں اس پر پھیر کر بہت ھی خوبصورت کوئی وہاں کی ھی دھن بجائی، ایک چھوٹی سی لائبریری تھی جہاں روسی زبان کی کتابوں سے مختلف رنگ برنگی کتابوں سے سجی ھوئی تھی یہ بھی ھمارے کام کی نہیں تھی، ایک ساتھ ھی بہترین کچن تھا ایک بڑاے ریفریجریٹر کے ساتھ اون جس میں چارے چولہے تھے اور سارے کیبنٹس میں کچن کا سارا ضرورت کا سامان موجود تھا، چھری کانٹوں اور کراکری سے لیکر کھانے پکانے کے تمام پتیلے فرائی پین ھر چیز موجود تھی، ایک لمبی چوڑی سی بالکونی بھی تھی، اسکے ساتھ ایک اسٹور جہاں استری اسٹینڈ اور ایک استری کے ساتھ رکھا ھوا تھا، سامنے خوبصورت پارک اور اس کے ساتھ مشغول شاہراہ صاف نظر آتی تھی، جہاں ٹریفک اور گارڈن کا نظارہ بھی کر سکتے تھے، ھر کمرے میں ائر کنڈیشنڈ کے علاوہ کمرے گرم کرنے کیلئے ایک خاص سسٹم تھا جہاں پر مختلف پائپ دائرے کی شکل میں تھے جن میں سردیوں کے موسم میں ایک بڑے بوائلر کے ذریعے گرم پانی گرارا جاتا تھا، جس کی وجہ سے کمرے گرم رھتے ھونگے، ایک بڑا خوبصورت صاف ستھرا باتھ روم اور شفاف ٹائلز سے آراستہ غرض کہ ھر چیز بالکل فائیو اسٹار ھوٹلوں کی طرح سجی سجائی تھی، بس اپ اپنے کپڑوں کا سوٹ کیس لے جائیں اور رھنا شروع کردیں،!!!!!!!!!

    پہلے دن تو مجھے وہاں نیند نہیں آئی، ڈرائینگ روم میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رھا، جو انہیں کی زبانوں کے چینل تھے، بس متحرک تصاویر سے ھی دل بہلاتا رھا، رات کا کھانا راجہ باھر سے ھی لے آیا تھا، کچھ ابلے ھوئے چاول اور فرائڈ چکن تھی اور سلاد تھی، جو کہ پھیکی پھیکی اور مزیدا نہیں تھی، اب تو ایک ھفتہ سے یہی چیزیں کھاتے کھاتے کچھ عادت سی ھوگئی تھی، رات کو راجہ کچھ گپ شپ کرنے کے بعد مجھے الوداع کرتے ھوئے یہ کہہ گیا کہ صبح سویرے یہاں کی نوکرانی آئے گی، اور صبح کا ناشتہ تیار کرے گی اس کے علاوہ اپنے میلے کپڑے اگر ھوں تو اسے دے دینا اور دھلے ھوں تو استری کیلئے بھی، میں آپکو لینے صبح 8 بجے آونگا اور ساتھ آپکے ناشتہ بھی کرونگا، میں نے تو آج تک ایسی سہولتیں کسی بھی کمپنی میں نہیں دیکھیں، جو کہ اپنے اسٹاف کا اتنا خیال رکھتے ھوں، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ کس وقت ٹی وی دیکھتے دیکھتے صوفے پر ھی سوگیا، !!!!!!!

    صبح صبح دروازے کی گھنٹی کی آواز سے فوراً ھی آنکھ کھل گئی، دروازے پر جاکر دیکھا تو نوکرانی دروازے پر کھڑی اندر آنے کیلئے میری اجازت کی منتظر تھی، اس نے کچھ اپنی زبان میں کچھ کہا اور میں کچھ بھی سمجھ نہیں سکا، اور وہ ایک اچھی خاصی ادھیڑ عمر کی عورت تھی، میں نے اسے راستہ دیا اور گنگناتی ھوئی اندر داخل ھو گی، اور کچن کی طرف جاتے ھوئے اس نے کچھ پوچھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا، شاید ناشتے کے بارے میں پوچھ رھی ھو گی، میں نے اسے تمام چیزیں دکھادیں جو رات کو یہاں شفٹ ھوتے ھوئے راجہ نے بازار سے ناشتے اور کھانے پینے کیلئے خرید کر دیں تھیں، وہ سب سامان ویسے ھی بکھرا ھوا رکھا تھا، نوکرانی نے اس میں سے انڈے اور ڈبل روٹی علیحدہ کی مکھن اور جام وغیرہ کو میں فرج میں رکھنا بھول گیا تھا، جتنی دیر میں میں نھا دھو کر تیار ھوا، وہ ناشتہ تیار کرکے ڈائننگ ٹیبل پر سجا چکی تھی، جہاں میں نے دیکھا ایک انڈا ھاف فرائی اور کچھ آلو کے قتلے فرائی ھوئے اور کچھ دلیہ ٹائپ کی چیز اور ایک کیتلی میں شاید چائے اور ساتھ ھی ڈبل روٹی، مکھن اور جام بھی نظر آرھا تھا، میں ابھی ناشتہ کررھی رھا تھا کہ دروازے کی گھنٹی ایک بار پھر بجی، نوکرانی نے جا کر دروازہ کھولا اور جیسے ھی واپسی کیلئے مڑی اسکے پیچھے راجہ چلا آرھا تھا، راجہ کے ٹیبل پر بیٹھتے ھی ایک انڈا مزید فرائی کرکے لے آئی، ددونوں نے ملکر ناشتہ کیا اور اسی دوران راجہ اسکو دوپہر کے کھانے کے بارے میں ھدایت دے رھا تھا،!!!!!!!!
    ------------------------------------------------

    دروازے کی گھنٹی ایک بار پھر بجی، نوکرانی نے جا کر دروازہ کھولا اور جیسے ھی واپسی کیلئے مڑی اسکے پیچھے راجہ چلا آرھا تھا، راجہ کے ٹیبل پر بیٹھتے ھی ایک انڈا مزید فرائی کرکے لے آئی، ددونوں نے ملکر ناشتہ کیا اور اسی دوران راجہ اسکو دوپہر کے کھانے کے بارے میں ھدایت دے رھا تھا،!!!!!!!!

    مجھے تو یہ سب ایک عجیب سا اور حیران کن ھی لگ رھا تھا کیونکہ اس طرح کا رھن سہن میں اپنی زندگی میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، ھمارے گھروں میں گھر کی عورتیں ھی گھر کا سارا کام کرتی ھیں، بس کبھی کبھی کسی باھر کی تقریبات میں چلے گئے تو شاید اس طرح کی آؤ بھگت ھوتی تھی، لیکن ھمارے گھروں میں اب تک کوئی نوکر، نوکرانیوں یا کوئی ذاتی ملازم کا تصور تک نہیں تھا شاید اس لئے کہ ھم ایک متوسط گھرانے سے تھے، اتنے امیر خاندان سے تعلق بھی نہیں تھا،!!!!

    ناشتہ سے فارغ ھوکر ھم دونوں سیدھا آفس پہنچے، پھر میں نے دوسرے دن سے ھی تمام چارج سنبھال لیا تھا، سارا حساب کتاب پہلے ھماری اس کمپنی کے چیرمین کے پاس تھا، انہوں نے میرے آتے ھی سب کچھ حساب کتاب میرے حوالے کردیا اور سکون کا سانس لیا، ان کے ساتھ ھی بیٹھ کر کافی دیر تک شروع سے اب تک کا حساب کتاب کرتا رھا، انہوں نے اپنے بریف کیس سے بہت سے خرچ کی رسیدیں نکالیں اور زیادہ تر روسی زبان میں ھی تھیں، مجھے بہت مشکل ھورھی تھی لیکن ان کی سیکریٹری مرینہ نے اس سلسلےمیں میری بہت مدد کی، میں نے اسکی مدد سے ھر ایک چیز کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور اس کے بعد سب کچھ رجسٹروں پر چڑھایا، پھر باقائدگی سے اپنا کام شروع کردیا،!!!!

    یہاں کے چیرمین بہت ھی اچھے انسان تھے، میرا بہت ھی اچھا خیال رکھتے تھے، اور اسی وجہ سے انہوں نے دوسروں کی بنسبت مجھے بہت اچھی سہولیات فراھم کی ھوئی تھین، مگر میں اس گھر میں اکیلا رھنا مناسب نہیں سمجھتا تھا، اس لئے پروجیکٹس کے ایک خریداری کے ذمہ دار جو پاکستانی ھی تھے اور ساتھ ھی وہ اسٹور کے بھی انچارج تھے، ان سے بھی شروع میں ھی ملاقات ھوگئی تھی، میں چاھتا تھا کہ وہ میرے ھی ساتھ رھیں جبکہ وہ پہلے کسی اور جگہ دوسرے پروجیکٹ کے اسٹاف کے ساتھ رھتے تھے، میں نے انہیں اپنے ساتھ رھنے کیلئے راضی کرلیا، اور اپنے چیرمین سے بھی اجازت لے لی، مجھے میرا ایک ساتھی مل چکا تھا، سب سے بڑی بات کہ وہ پاکستانی تھا، جب پردیس میں کوئی ھم زبان مل جائے تو آدھی پریشانیاں ویسے ھی دور ھوجاتی ھیں، اس طرح ھم دونوں ایک ساتھ ھی ایک گھر میں رھنے لگے، ایک دوسرا بیڈروم اس کے لئے وقف تھا، وہ کافی ھنس مکھ تھا اور میرے ساتھ وہ آخیر تک رھا، ھمارے آپس کے تعلقات بہت ھی اچھے اور دوستانہ بھی رھے،!!!!!!

    اب تو گھر میں ھم نے اپنی نوکرانی کو پاکستانی اسٹائل کے کھانے پکانا بھی سکھا دیئے تھے، وہ ھمارے گھر کا بہت خیال ھی زیادہ رکھتی تھی، ھمارے اٹھنے سے پہلے ھی گھر پہنچ جاتی تھی، ایک مین دروازے کی چابی بھی ھم نے اسے دی ھوئی تھی، باقی کمرے ھم نے کبھی بھی بند نہیں کئے اور وہ گھر کے تمام کام سے فارغ ھوکر رات کا کھانا پکا کر واپس چلی جاتی تھی، دفتر سے جو اسے تنخواہ 50 ڈالر ملتی تھی اس کے علاوہ بھی ھم دونوں اس کی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رھتے تھے، وہ صبح صبح ھم دونوں کے ناشتے کا بہترین انتظام ھمارے دفتر جانے سے پہلے میز پر لگا دیتی تھی، ھمارے دفتر جانے کے بعد وہ سارے گھر کو بہترین طریقے سے صفائی کرتی، اسکے بعد تمام میلے کپڑے چادریں وغیرہ بھی دھوتی تھی، بعد میں دوپہر کے کھانے کی تیاری دوپہر میں ھم لنچ بریک میں آتے تھے، اور کھانا ھمیں پہلے سے ھی تیار ملتا تھا، کھا بی کر رات کے کھانے کی تفصیل اسے سمجھا کر واپس چلے جاتے تھے، میرا دوست ھی زیادہ تر اس نوکرانی سے تمام معاملات پر بات کرتا تھا کیونکہ اسے وہاں کی زبان پر اچھا خاصہ عبور تھا، سارا روز کے گھر کے کھانے پینے روزمرہ کی استعمال کی چیزیں وہ خود ھی لاکر دیتا تھا اور اسکا بل کمپنی سے وصول کرلیتا تھا جو کہ ھمارے لئے کمپنی کی طرفسے اجازت ھی،، کھانے پینے کی چیزیں وہ بہت ھی اچھی خرید کر لاتا رھا، اس کے علاؤہ پھل فروٹ کی کافی مقدار ریفریجریٹر میں ھمییشہ بھر کر رکھتا تھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے وہاں کے تمام بازاروں کا علم تھا، مجھے بھی کبھی کبھی وہ اپنے ساتھ لے جاتا لیکن جس طرح وہ وہاں کے لوگوں سے بات کرتا تھا میں تو اس کے مقابلے میں اپنے آپ کو بالکل گونگا ھی سمجھتا تھا، !!!!!

    رات کو جب ھم واپس آتے تو نوکرانی واپس جاچکی ھوتی تھی، مگر گھر بالکل صاف ستھرا چمکا کر جاتی تھی اس کے علاوہ ھمارے کپڑے دھلے دھلائے باقائدہ استری کئے ھوئے اپنی اپنی الماریوں میں لٹکے ھوئے دیکھ کر ھمیں بہت ھی خوشی ھوتی تھی، وہ عورت ادھیڑ عمر کی مسلمان عورت تھی، وہاں کے حساب سے تو وہ بہت اچھی تنخواہ لے رھی تھی، اس کے علاوہ ھم دونوں بھی اسکی کچھ نہ کچھ مدد کرتے رھتے تھے، وہ بہت ھی ایماندار تھی، اور کبھی بھی اسے جھوٹ بولتے ھوئے نہیں پایا، گھر کی دیوریں دروازے کھڑکیاں، غرض کہ‌ تمام کمروں کی صفائی ستھرائی اپنے دل سے کرتی تھی، ھم نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ھم ان تمام گھر کے کاموں سے بچ جائیں گے، ھمیں اب گھر واپسی پر کافی وقت مل جاتا تھا، رات کو جب گھر آتے تو پھر دونوں خود ھی کھانا نکال کر کھاتے اور ساتھ مل کر باھر گھومنے بھی چلے جاتے تھے، شروع شروع میں تو اس اجنبی شہر میں باہر نکلنے سے جھجک محسوس ھوئی لیکن میرے دوست کے آنے سے کچھ ھمت آگئی تھی، وہ دوست بہت تیز تھا اور یہاں کی زبان بھی اچھی خاصی بول بھی لیتا تھا،!!!!!!

    اکثر شام کو ھم گارڈن وغیرہ کی سیر کرتے رھے، اور بہت سی خرافات بھی وہاں تھی،ھوٹلوں میں رقص وسرور کی محفلیں، اس کے علاوہ پورے شہر میں ایک یا دو مسجد تھی اور سو سے زیادہ ڈسکو کلب اور کیسینو اپنے زور و شور سے چل رھے تھے، وہاں بھی جانے کا اتفاق ھوا تھا، لیکن بہت سی خرافات کے چکروں میں جانے سے قدرتی ھی بچے رھے، اکثر پاکستان سے یہاں کے دورے پر آنے والوں کو گھمانا پھرانا بھی بعض اوقات ھمارے ھی ذمہ لگا دیا جاتا تھا، تو اس سلسلے میں ان خرافات کی جگہوں پر بھی جانا پڑتا تھا اور بڑے ھوٹلوں کی زیارت اور لنچ ڈنر کیلئے بھی انہیں مدعو کیا جاتا تھا، بڑے بڑے لوگوں کے بڑے بڑے شوق تھے، ھم تو ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھے، اکثر تو 20 سے 50 ہزار ڈالر ایک ھی بیٹھک میں جوئے میں ھار جاتے تھے اور کبھی کبھی اسی طرح جیت بھی جاتے، مگر دونوں صورتوں میں ان لوگوں کے ماتھے پر بل نہیں دیکھا، بس وہ اسے اپنا شوق ھی سمجھتے تھے،!!!!!!!

    ھماری کمپنی وھاں پر بزنس سینٹر اور رھائشی منصوبوں پر کام کررھی تھی، اس کے علاوہ کاٹن کی امپورٹ ایکسپورٹ بھی کرتے تھے، میرے پاس وہاں کے اخراجات کا حساب کتاب رکھنا ھوتا تھا، کہ کس کس پروجیکٹ پر کتنا خرچہ آیا، میں تو اپنے کام سے کام رکھتا تھا، اور ھر ھفتے ایک رپورٹ بنا کر چیرمین کے حوالے کردیتا تھا، ابھی تو شروعات تھی اس لئے انتا کام کا زور نہیں تھا، باقی بھی جو پارٹنر تھے انہیں اس حساب کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ان سب کا رویہ میرے ساتھ بہت ھی اچھا تھا، اور میں بھی ان کے ھر کام کیلئے ھر وقت حاضر رھتا تھا، وہ سب مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے، بعض ‌وقت انکے گھریلو کام بھی کرنے پڑتے تھے، گھر سے بھی مجھے گاڑی بھیج کر بلوا لیتے تھے، کیونکہ سارے پارٹنرز کا ذاتی حساب کتاب بھی میں ھی رکھتا تھا تو مجھ سے ھی ھر ایک کاواسطہ رھتا تھا، میں ھر ایک کے ذاتی حساب کتاب کو بالکل ایمانداری سے ھی رکھتا تھا، مگر اس ایمانداری کی وجہ سے مجھ پر ذمہ داریوں کا بوجھ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا، اور پھر انہوں نے مجھے ایک وہاں کا ایک مقامی بندہ میری مدد کیلئے دے دیا، جو بہت ھی قابل تھا اور گریجویشن کے آخری سال میں تھا، وہ مسلمان اور اس کا نام مراد تھا، اچھے گھرانے سے اس کا تعلق بھی تھا وہ بس اعلیٰ تعلیم اور مستقل ملازمت کے سلسلے کیلئے امریکہ جانا اس کی ایک بہت بڑی خواھش تھی، اور اس کے لئے وہاں کی حکومت اپنے نوجوانوں کو ھر سہولت فراھم بھی کرتی تھی، مجھ سے اکاؤنٹس کا کام سیکھنا چاھتا تھا اسی لئے وہ میرے پاس بہت محنت سے کام کررھا تھا، وہ تمام رپورٹس تیار کرتا تھا اور جب کبھی ترجمان کی ضرورت پڑتی تو ھمارے لئے بہت کارآمد ثابت ھوتا، اسے وہاں کی زبانوں کے علاوہ انگلش پر بہت ھی زیادہ روانی تھی، بالکل امریکن لگتا تھا !!!!!!

    مراد کے آنے سے میرے کام میں بہت مدد ملنے لگی اور باھر کی ذمہ داریوں سے بھی مجھے نجات مل گئی تھی، کمپیوٹر کا ماسٹر تھا، میرے ھر کام کی رپورٹس وہ ھی بہت احسن طریقے سے اب تیار کرنے لگا تھا، وہ مجھے اپنا استاد سمجھتا تھا اور میری بہت عزت کرتا تھا، اس نے کئی دفعہ مجھے اپنے گھر پر دعوت بھی دی اس کی فیملی نھی ترک خاندان سے تعلق رکھتی تھی، بہت ھی ملنسار اور خلوص سے پیش آنے والی فیملی تھی، انکے والدین اور بہن بھائی میری بہت ھی زیادہ خاطر مدارات کرتے اور میں اکثر انکی کسی نہ کسی تقریب میں مدعو ضرور رھتا تھا، وہ مجھے اپنے بیٹے کے استاد کی حیثیت سے بھی ایک باعزت شخص کا درجہ دیتے تھے،!!!!!!

    ایک بڑے پروجیکٹ کے ساتھ ھمارے دفتر اب تیار ھوچکے تھے، اس لئے ھوٹل کے خوامخواہ اخراجات کو کم کرنے کیلئے بھی انہوں نے بہت ھی اچھے اور بڑے دفتر تیار کئے اور بہت جلد ھی ھم سب وہاں پر اپنے اپنے ساز و سامان کے ساتھ منتقل ھوگئے، ھمارے مالکان کا رویہ سب کے ساتھ بہت اچھا تھا، اور مہینے میں ایک دفعہ وہ سب کو ساتھ لے کے مختلف گاڑیوں میں پکنک منانے بہت جاتے تھے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ وہاں پر بہت ھی خوبصورت جھیلیں اور سرسبز پہاڑی سلسلے اور ابشار اور چھوٹی چھوٹی نہریں بھی تھیں جن کی وجہ سے پکنک کا مزا دوبالا ھو جاتا تھا، وہیں پر سب مل کر کھانا پکاتے، اس وقت تک تو ھم بھی وہاں کے پھیکے کھانوں کو بھی پسند کرنے لگے تھے، لڑکے لڑکیاں ساتھ تو ھوتے تھے لیکن کبھی کوئی بدتمیزی یا کوئی برا سلوک ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ مذاق ضرور کرتے تھے مگر ساتھ ھی سب ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے،!!!!!!
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    ایک بڑے پروجیکٹ کے ساتھ ھمارے دفتر اب تیار ھوچکے تھے، اس لئے ھوٹل کے خوامخواہ اخراجات کو کم کرنے کیلئے بھی انہوں نے بہت ھی اچھے اور بڑے دفتر تیار کئے اور بہت جلد ھی ھم سب وہاں پر اپنے اپنے ساز و سامان کے ساتھ منتقل ھوگئے، ھمارے مالکان کا رویہ سب کے ساتھ بہت اچھا تھا، اور مہینے میں ایک دفعہ وہ سب کو ساتھ لے کے مختلف گاڑیوں میں پکنک منانے بہت جاتے تھے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ وہاں پر بہت ھی خوبصورت جھیلیں اور سرسبز پہاڑی سلسلے اور ابشار اور چھوٹی چھوٹی نہریں بھی تھیں جن کی وجہ سے پکنک کا مزا دوبالا ھو جاتا تھا، وہیں پر سب مل کر کھانا پکاتے، اس وقت تک تو ھم بھی وہاں کے پھیکے کھانوں کو بھی پسند کرنے لگے تھے، لڑکے لڑکیاں ساتھ تو ھوتے تھے لیکن کبھی کوئی بدتمیزی یا کوئی برا سلوک ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ مذاق ضرور کرتے تھے مگر ساتھ ھی سب ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے،!!!!!!

    وہاں تو لڑکیوں کے شرمانے اور اور نسوانیت کا احساس نظر ھی نہیں آتا تھا، وہ تو لڑکوں سے بھی زیادہ تیز و طرار تھیں، جن سے کچھ خوف سا بھی لگتا تھا، کیونکہ ھمارے معاشرے میں ایسا کچھ نہیں تھا، لیکن ایک نئے ماحول کو دیکھ کر ھر ایک کا دل بھی چاھتا ھے مزید تجسس کو توڑا جائے اور لوگوں تک اپنی نئی معلومات کو پہنچاتے رھیں، کچھ تو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کرتے ھیں، اور سننے والے بھی بہت مزے لے کر سنتے ھیں، لیکن میں کوشش کرونگا کہ حقیقت سے قریب تک لیکن انسانیت کے حدود کے دائرے میں رھتے ھوئے کہانی کو آگے لے کر چلوں گا، جس سے کوئی ھماری اردو کی اس پیاری محفل میں کوئی بے ادبی نہ ھو،!!!!!!

    ایک نیا ماحول جو میرے لئے بالکل ایک اجنبیت کا احساس رکھتا تھا، جبکہ ان تمام ماحول کو میں پہلے بھی فلموں اور ٹیلیویژن کے پروگراموں میں دیکھ چکا تھا، اور ایک دل میں تمنا ضرور تھی کہ میں ایسے یورپ کے ترقی یافتہ مملک کی سیر کروں، اور شاید یہی وجہ تھی کہ وہاں پر جب میں کسی بھی جگہ جاتا تھا تو مجھے بالکل ایک جانی پہچانی سی لگتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ میں نے یہ جگہ پہلے بھی کہیں دیکھی ھوئی ھے،جسکا کہ مجھے حقیقت میں بہت تعجب ھوتا تھا، لیکن میں اس خیال کے آتے ھی اپنے ذہن کو ایک اپنا وہم سمجھ کرجھٹک دیتا تھا، کبھی کبھی مجھے یہ سب کچھ ایک خواب کی طرح بھی لگا اور مجھے یہ ماحول نا پسندیدہ ھونے کے باوجود بھی ایک خوف کے ساتھ کچھ جاننے کی تجسس کے ساتھ اچھا بھی لگتا تھا، ھمارے ملک میں بھی 1971 سے پہلے یہ سب خرافات پر کوئی بھی پابندی نہیں تھی، لیکن دیکھنے کا اتفاق کبھی نہیں ھوا، کیونکہ ایک ڈر اور خوف ھمیشہ رھتا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے، یہاں تو کسی کے دیکھنے کا سوال ھی پیدا نہیں ھوتا تھا، یہاں پر جو بھی ھمارے ملک سے تعلق رکھتے تھے، ان میں سے کسی کا بھی اپنے خاندان سے دور دور تک تعلق نہیں تھا، اور اس حقیقت کو ھم جھٹلا نہیں سکتے کہ اکثریت میں ھم لوگ خدا سے کم اور بندوں سے زیادہ ڈرتے ھیں،!!!!!

    ھمارا مین آفس بھی اب نئی جگہ منتقل ھوچکا تھا جہاں پر انکا ایک بڑا اور نیا پروجیکٹ چل رھا تھا، اور ھر ایک کے بہت ھی اچھے اور کشادہ آفس تھے، ایک کامن روم بھی تھا جہاں پر آئے دن کوئی نہ کوئی تقریب تمام خرافات کے ساتھ منعقد ھوتی رھتی تھی، جو رات گئے تک جاری رھتی تھیں، میں بھی مجبوری کے تحت اور اپنے افسران اور دوستوں کے دباؤ میں اکر شرکت ضرور کرتا تھا، لیکن وہاں سے جلد سے جلد بھاگنے میں ھی اپنی عافیت سمجھتا تھا، جس میں میرا دوست بھی میری مدد کرتا تھا، اسکا بھی اس طرف لگاؤ نہیں تھا، وہاں کے لوگوں میں ایک بے چینی تھی کہ میرے ساتھ میری کوئی لڑکی خاص دوست کیوں نہیں ھے، جو کہ وہاں پر ایک رواج بھی ھے، اور جس کے ساتھ کوئی خاص دوست ھو تو پھر کوئی دوسری لڑکی اس کی طرف توجہ نہیں دیتی تھی، اور اگر آپ اکیلے ھیں تو وہاں ایک جان عذاب میں رھتی تھی، شروع شروع میں تو اپنے پرانے آفس میں مجھے بہت تنگ کیا گیا، باھر سے یا اپنے دفتر سے ھی کوئی نہ کوئی اپنے ساتھ کسی نہ کسی لڑکی کو ساتھ لئے اپنا تعارف کرانے میرے پاس چلی آئے، اور مجھے مجبور کرے کہ بھئی اس سے دوستی کرو، میں اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرتا لیکن ان پر کوئی اثر ھی نہیں ھوتا تھا،!!!!!

    میں نے اپنے پرانے آفس میں یہ ایک دن ان سے جان چھڑانے کے لئے کہہ ھی دیا کہ بھئی میری ایک دوست پہلے سے ھی موجود ھے، مجھے مزید کوئی اور دوستی نہیں کرنی ھے، یہ کہتے ھی وہاں سب نے سوالات شروع کردئے جو میرے لئے کئی اور مسئلے پیدا ھو گیے کہ وہ کہاں ھے اس کا نام کیا ھے ،کیا وہ مسلمان ھے، اب ان کا میں کیا جواب دوں، اور میں کہاں سے اس خاص دوست لڑکی کو پیدا کروں، اب تو روزانہ سب مجھ سے کہتیں کہ کہاں ھے تمھاری دوست آج کیوں نہیں آئی، میں ان سب سے یہی کہتا کہ کسی نہ کسی روز وہ یہاں دفتر میں ضرور آئیگی، آجکل کسی اور شہر گئی ھوئی ھے، اس طرح روز بروز اب ان سب کی بے چینی میں اضافہ ھوتا چلا گیا، وہ سب بھی بہت زیادہ ضدی تھیں، اور میرے لئے بھی روز بروز مشکلات پیدا ھوتی جارھی تھیں، وہاں بھی میرے دوست اور ساتھی یہی کہتے رھے کہ بھئی تمھیں تو کوئی نہ کوئی دوست پیدا کرنی تو پڑے گی ورنہ یہ سب تمھاری جان نہیں چھوڑیں گی،!!!!!!

    مجھے اب ایک فکر لاحق ھوگئی کہ اب میں کہاں سے اس تقلیقی کردار دوست کو پیدا کروں، اب تو گھر پر اور آفس میں ٹیلیفون پر بھی مجھے تنگ کیا جانے لگا، میں نے اتنی ھمت تو کرلی تھی کہ ان کے مذاق اور باتوں کا اسی طرح مذاق میں جواب دینے لگا تھا، مجھے بھی اب یہ یقین ھوچلا تھا، کہ یہاں بغیر کسی لڑکی کو اپنی خاص دوست بنائے بغیر گزارا نہیں ھے،!!!!!!
    -------------------------------------------

    مجھے اب ایک فکر لاحق ھوگئی کہ اب میں کہاں سے اس تخلیقی کردار دوست کو پیدا کروں، اب تو گھر پر اور آفس میں ٹیلیفون پر بھی مجھے تنگ کیا جانے لگا، میں نے اتنی ھمت تو کرلی تھی کہ ان کے مذاق اور باتوں کا اسی طرح مذاق میں جواب دینے لگا تھا، مجھے بھی اب یہ یقین ھوچلا تھا، کہ یہاں بغیر کسی لڑکی کو اپنی خاص دوست بنائے بغیر گزارا نہیں ھے،!!!!!!

    اب تو ایک مشکل آن پڑی تھی، اس ھنگامہ آرائی سے بچنے کیلئے ایک محترمہ کو پیدا کرنا یعنی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا تھا، شرم حضوری میں وہاں رھنا بھی ایک وبال جان تھا، میں یہ کس مشکل میں پھنس گیا تھا، مجھے کبھی اس طرح کی صورت حال سے واسطہ نہیں پڑا تھا، اب تو میں کہہ چکا تھا کہ میری ایک دوست ھے، اور وہ سب میری جان کے پیچھے پڑے ھوئے تھے کہ اسے دکھاؤ، اب میں کہاں سے لے کر آؤں،!!!!! ایک دن لنچ کے وقت میں گھر پہنچا، دروازے کو کھولا اور اندرداخل ھوتے ھی مجھے بالکل سناٹا سا لگ رھا تھا، لگتا تھا کہ نوکرانی بھی نہیں ھے، سیدھا میں کچن کی طرف گیا کھانا تو پکا ھوا تیار ھی تھا، شاید نوکرانی باھر سے کچھ خریدنے گئی ھوگی، میں نے سوچا چلو ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ٹی وی سے کچھ دل بہلاتے ھیں، جیسے ھی وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ھوں کہ ایک خوبصورت دوشیزہ ایک بڑے صوفے پر بےخبر گہری نیند میں ڈوبی ھوئی سو رھی ھے، اس سے پہلے تو میں نے اسے یہاں کبھی نہیں دیکھا تھا، میری تو جان ھی نکل گئی کہ یہ کہاں سے آن ٹپکی، میرے دوست کے آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، میں بھی خاموشی سے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر اس خوبصورت سی لڑکی کو دیکھنے لگا، میں اسے اس وقت ڈسٹرب کرنا نہیں چاھتا تھا، ویسے بھی مجھے خود اپنا ھوش نہیں تھا، ایک انجانی سی کیفیت تھی، کچھ گھبراھٹ پریشانی کے عالم میں بھی تھا،!!!!!

    کچھ ھی لمحات کے بعد دروازے کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا، اور ساتھ ھی اس دوشیزہ کی آنکھ بھی کھل گئی، وہ گھبرا کر مجھے دیکھتے ھی روسی زبان میں پوچھا کہ میں کون ھوں،!!!!! میں نے بھی ٹوٹی پھوٹی روسی زبان میں ھکلاتے ھوئے ڈرتے ڈرتے کہا کہ میں یہاں رھتا ھوں، تم بتاو کہ تم کون ھو،!!!!!! اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، میرے حواس درست ھونے سے پہلے ھی نوکرانی اندر آچکی تھی، اس نے مجھے دیکھتے ھوئے کہا کہ یہ میری بھانجی ھے، اور ابھی کالج سے واپس آئی ھے، میں نے اس کے ساتھ بازار جانا تھا تو میں نے اسے یہاں بلوا لیا تھا، تاکہ یہاں سے فارغ ھوکر ھم دونوں بازار ھوتے ھوئے گھر چلے جائیں گے،!!!!!

    اس نے کھانا ٹیبل پر لگاتے ھوئے اس لڑکی کا تعارف کرانے لگی، بس کچھ کچھ سمجھ میں آرھا تھا، کہ اس کا نام زرین گل ھے، اس کے گھر کے پاس ھی رھتی ھے، اسکی شادی ھوئی تھی لیکن ایک سال کے اندر اندر یہ شادی کو نبھا نہیں سکی پھر اس نے عدالت سے طلاق حاصل کرلی ھے اور اب یہ اپنی پڑھائی مکمل کررھی ھے،!!!! مجھے اتنا ھی سمجھ میں آیا، وہ بہت کچھ کہہ رھی تھی، لیکن میں زیادہ سمجھ نہیں سکا، وہ دونوں مسلمان تو تھیں، لیکن نماز روزے کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا، بہر حال جب وہ دونوں آپس میں بات کرتیں تو وہاں کی مقامی ترکمانی زبان بولتی تھیں، اور ھم سے روسی زبان میں لگی رھی، اسی دوران میرا دوست بھی اپنے کام سے فارغ ھوکر آگیا اور میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر اپنی پلیٹ میں سالن ڈالنے لگا، وہاں کھانے کی ٹیبل پر ھمارے ساتھ وہ دونوں بھی بیٹھی کھانا کھا رھی تھیں، میرے دوست نے پوچھا کہ یہ لڑکی کون ھے،!!!! میں نے کہا کہ اس کی بھانجی ھے، باقی اس سے پوچھ لو اسے تو روسی زبان بہت اچھی طرح آتی تھی، اس نے ان دونوں سے تمام معلومات حاصل کرلیں تھی،!!!!!!

    کھانا کھا کر فارغ ھوئے تو صوفے پر ھم دونوں بیٹھ کر ٹی وی کو دیکھنے لگے، وہاں پر میرے دوست نے کمپنی کے ھی کھاتے میں ڈش اور رسیور لگا لیا تھا، دنیا کے تقریباً تمام چینل دکھائی دیتے تھے،
    آج تو ھم دونوں کو ایک نیا موضوع مل گیا تھا، وہ دونوں تو کچن میں لگی ھوئی تھیں، کچھ ھی وقفہ کے بعد وہ لڑکی بمعہ چائے کی ٹرے کے ساتھ وارد ھوئی، اور ھمارے سامنے والی چھوٹی ٹیبل پر رکھ دی اس کے پیچھے پیچھے وہ ھماری نوکرانی بھی چلی آئی، میں تو اکثر لنچ کے وقفے میں کھانے کے بعد وہیں صوفے پر ھی نیم دراز ھوجاتا تھا، لیکن آج کچھ مجبوری تھی، وہ دونوں بھی سامنے بیٹھی تھیں، اور میرا دوست انکے ساتھ خوب گپ ھانک رھا تھا، میں تو بس ھوں ھاں میں ھی جواب دے رھا تھا، مجھے اپنے دوست سے کچھ حسد سی محسوس ھورھی تھی، میرے دوست نے ھی مجھ سے کہا کہ بات سنو تمہیں ایک لڑکی دوستی کے لئے چاھئے تھی، اسے وقتی طور سے اپنی دوست بنالو، اگر تم راضی ھو تو میں اس سے بات کروں،!!!!!!

    میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار ایسا نہ ھو کہ یہ چپک ھی نہ جائے،!!!! اس نے کہا کہ فکر ھی نہیں کرو، پھر اس نے اس سے بات کی کہ کچھ دنوں تک ایک دوست کا ڈرامہ کرنا ھے، میرے دوست کی ایک مشکل ھے، اسے ذرا سلجھا دو، وہ پہلے تو ذرا گھبرائی لیکن بعد میں اپنی خالہ کے سمجھانے پر مان گئی، اور میں نے اسے کہا کہ آج شام کو میرے دفتر آجانا اور وہاں پر بس یہی ظاھر کرنا کہ تم میری دوست ھو،!!!!!
     
  29. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یار ایسا نہ ھو کہ یہ چپک ھی نہ جائے،!!!! اس نے کہا کہ فکر ھی نہیں کرو، پھر اس نے اس سے بات کی کہ کچھ دنوں تک ایک دوست کا ڈرامہ کرنا ھے، میرے دوست کی ایک مشکل ھے، اسے ذرا سلجھا دو، وہ پہلے تو ذرا گھبرائی لیکن بعد میں اپنی خالہ کے سمجھانے پر مان گئی، اور میں نے اسے کہا کہ آج شام کو میرے دفتر آجانا اور وہاں پر بس یہی ظاھر کرنا کہ تم میری دوست ھو،!!!!!

    شاید جولائی،1998، کا مہینہ ھوگا، میں آفس میں اپنے کمرے میں بیٹھا کام میں مصروف تھا، ایک آہٹ پر میں چونک گیا، گردن کو اٹھا کر جو دیکھا تو دنگ رہ گیا وہی لڑکی زرین ایک بہترین ماڈرن لباس زیب تن کئے ھوئے میرے کمرے کے دروازے پر کھڑی، اندر آنے کی اجازت مانگ رھی تھی، میں نے بھی روسی زبان میں اسے "دوبرائے ویچر" شام کا سلام کہا اور اندر آنے کا اشارا کیا، جہاں روسی زبان نہیں آتی تھی، وہاں میں اشاروں سے کام چلا لیتا تھا، وہ مسکراتی ھوئی فوراً ھی میری میز کے سامنے کرسی کھینچ کر اطمنان سے بیٹھ گئی، اور وہ روسی زبان میں اس طرح شروع ھوگئی جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتی ھو، مجھے بس کچھ کچھ سمجھ میں آرھا تھا باقی سب الفاظ سر کے اوپر سے گزررھے تھے، اور میں بس "دا، دا" یا "نیت، نیت" یعنی "ھاں ھاں" یا "نہیں نہیں" کررھا تھا، مشکل تو یہ تھی کہ اسے انگریزی بالکل بھی نہیں آتی تھی، مگر ایک بات ھے کہ وہ بہت ھی خوبصورت تھی، اور ویسے بھی ترکمانستان کی عورتیں اپنی خوبصورتی کی ایک مثال ھیں، یہاں کے علاقے کو کچھ لوگ کافرستان سے بھی مشابہت دیتے تھے،!!!!!

    میں تو بوکھلاھٹ میں اس سے نہ جانے کیا کیا روسی اور انگریزی زبان میں جوڑ توڑ کر بات کرتا رھا، اور سامنے دروازے پر آفس میں جو کام کرتی تھیں، باری باری آکر میری مفروضہ دوست کو دیکھتی جارھی تھیں اور اندر آکر اپنی مقامی ترکمانی زبان میں ایک دوسرے کا تعارف حاصل کررھی تھیں، اور مجھے بھی اشارے سے کہہ رھی تھیں کہ تمھاری دوست تو بہت ھی اچھی ھے، ایک لڑکی فوراً ھی چائے اور کچھ بسکٹ وغیرہ لے آئی، اور وہ بھی ساتھ ھی بیٹھ گئی، وہ انگلش جانتی تھی اس کا نام "انارا" تھا، وہ سمجھ گئی کہ اس میری دوست کو انگلش نہیں آتی ھے، وہ وہاں بیٹھی میرے ترجمان کا کام کررھی تھی، وہ دونوں کافی بے تکلف ھوگئے اور اسی وقت اچانک ھمارے چیرمیں کے چھوٹے بھائی آگئے، فوراً ھی میرے کمرے کے سامنے کھڑے ھوئے مذاقاً کہنے لگے کہ یہ دفتر میں کیا رنگین محفل سجائی ھوئی ھے، میں نے کھڑے ھوکر سلام کیا اور کہا سر میری ایک مہمان آئی ھوئی ھے، تو ذرا گفت شنید کررھا تھا،!!!! انہوں نے کہا کہ ھم بھی تو دیکھیں کونسی مہمان ھے، !!!! فوراً ھی وہ بھی بے تکلف ھوگئے اور اس لڑکی سے ھاتھ ملایا، اوراپنی اردو زبان میں یہ کہتے ھوئے اپنے کمرے کی طرف نکل گئے کہ' بیٹا ابھی تمھیں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ھوئے اور یہاں کی ھوا تمھیں بھی لگ گئی،!!!!

    بہرحال میرا مقصد اسے یہاں بلوانے کا تو یہ تھا کہ دوسری لڑکیوں سے جان چھوٹ جائے، مجھے فوراً ھی انہوں نے اپنے کمرے میں بلا لیا، اور کچھ حساب کتاب کا لین دین کرنے لگے، اور ساتھ ھی اس لڑکی کے بارے میں‌ پوچھنے لگے کہ یہ تمھیں کہاں سے مل گئی، بہت ھی خوبصورت ھے، مگر خیال رکھنا کہیں یہ لوٹنے والی نہ ھو، اور بعد میں پاکستان میں تمھاری فیملی کو پریشانی اٹھانی نہ پڑے،!!!! میں نے کہا کہ سر یہ تو جانتے ھیں کہ میں اس ٹائپ کا نہیں ھو، !!!!
    انہوں نے کہا کہ، اسی لئے تو میں تمہیں کہہ رھا ھوں،،، بس ذرا بچ کے رھنا،!!!!!!

    اور پھر وہاں پر جو لڑکے کام کرتے تھے انہیں پریشانی لاحق ھوگئی کہ مجھے یہ لڑکی کہاں سے مل گئی، اور ایک نے جس کا بام "بیرام" تھا اس نے اردو میں کہا کہ یہ انصاف نہیں ھے، !!!!! میں اس کا مظلب نہیں سمجھا، وہ تھوڑی بہت اردو جانتا تھا، کیونکہ وہ ھماری کمپنی کے سارے مالکان کو ساتھ رھتا تھا، کیونکہ وہ سب پاکستانی ھی تھے،!!!!!

    میں نے بھی سکون کا سانس لیا، جب یہ میرا یہاں کا یہ ڈرامہ ختم ھوا، کیونکہ وہ سب سے اجازت لے کر جاچکی تھی، ایک اور لڑکی جو "رشین تھی وہ میرے کمرے میں آئی جس کانام "نتاشا" تھا، اور سامنے بیٹھ کر اس لڑکی کی تعریف کرنے لگی، کہ وہ بہت ھی سلجھی ھوئی پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتی ھے، اور مظلوم بھی ھے کہ اس کے شوھر سے اس نے بڑی مشکل سے چھٹکارا حاصل کیا ھے، وہ بہت ظالم تھا، کیا اسے پتہ ھے کہ تم شادی شدہ ھو اور تمھارے 5 بچے بھی ھیں،!!!!! میں نے کہا کہ ھاں اسے معلوم ھے، اور وہ میری دوست ھے بس اور کوئی ایسا ویسا میرا کوئی رشتہ نہیں ھے،!!!!!!

    شام کو اپنی ڈیوٹی ختم کرکے واپس اپنے گھر پہنچا وہاں وہ نوکرانی سارے کام ختم کرکے اپنے گھر جاچکی تھی، گھر کو واقعی وہ بہت ھی چمکا کر رکھتی، اس کے علاوہ وہ ناشتہ کے علاوہ کھانا پکاتی اور روزانہ کپڑوں کو دھو کر استری کرکے الماری میں ایک قرینے سے لگا کر جاتی تھی، بہت ھی مہنتی اور خوش اخلاق تھی، میرا دوست بھی اس سے بہت خوش تھا، کیونکہ اس کا بھی سارا کام ساتھ ھی ھو جاتا تھا، میں نے خود ھی حسب معمول کچن سے کھانا نکالا اور ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا شروع کیا میرا دوست کچھ دیر سے آتا تھا، کبھی اگر مجھے بھی دیر ھوجاتی تو ساتھ ھی کھانا کھاتے تھے، کبھی کبھی اگر بھوک محسوس نہیں ھوتی تو میں اس کا انتظار بھی کرلیتا تھا، ھماری نوکرانی کے ھاتھ کے پکے ھوئے کھانے اب بہت ھی لزیز ھوتے تھے،!!!!!!

    دوست کے آنے کے بعد کچھ گپ شپ کرتے رھے اور باہر ٹہلنے چلے گئے،!!!! راستے میں اج کی داستان اسے سناتے ھوئے کہا کہ اب ان تمام لڑکیوں سے جان چھوٹ گئی جو ھر وقت دوستی کے چکر میں رھتی تھیں، !!!!! میرے دوست نے کہا کہ اب تو سمجھو بیٹا، کہ یہ لڑکی اب تمھاری جان نہیں چھوڑے گی،!!!! میں نے کہا کہ نہیں نہین ایسا نہیں ھو سکتا، میں نے تو تم سے پہلے بھی پوچھا تھا، میں تو کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، میری اپنی ایک خوش باش فیملی ھے، میں اسے تباہ و برباد نہیں کرسکتا، اس نے فوراً مچلتے ھوئے کہا کہ بیٹا دیکھتے ھیں یہاں تو بڑے بڑے سورما بھی اسی چکر میں غرق ھوگئے،!!!!میں نے کہا کہ میں ان سورماؤں میں سے نہیں ھوں،!!!! میں اسکی آنکھوں میں ایک حسد کی سی کیفیت دیکھ رھا تھا، ھوسکتا ھے کہ میرا خیال درست نہ ھو،!!!!!
     
  30. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دوست کے آنے کے بعد کچھ گپ شپ کرتے رھے اور باہر ٹہلنے چلے گئے،!!!! راستے میں آج کی داستان اسے سناتے ھوئے کہا کہ اب ان تمام لڑکیوں سے جان چھوٹ گئی جو ھر وقت دوستی کے چکر میں رھتی تھیں، !!!!! میرے دوست نے کہا کہ اب تو سمجھو بیٹا، کہ یہ لڑکی اب تمھاری جان نہیں چھوڑے گی،!!!! میں نے کہا کہ نہیں نہین ایسا نہیں ھو سکتا، میں نے تو تم سے پہلے بھی پوچھا تھا، میں تو کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، میری اپنی ایک خوش باش فیملی ھے، میں اسے تباہ و برباد نہیں کرسکتا، اس نے فوراً مچلتے ھوئے کہا کہ بیٹا دیکھتے ھیں یہاں تو بڑے بڑے سورما بھی اسی چکر میں غرق ھوگئے،!!!!میں نے کہا کہ میں ان سورماؤں میں سے نہیں ھوں،!!!! میں اسکی آنکھوں میں ایک حسد کی سی کیفیت دیکھ رھا تھا، ھوسکتا ھے کہ میرا خیال درست نہ ھو،!!!!!

    اس رات کو مجھے نیند نہیں آئی، نہ جانے کیا عجیب عجیب سے ذہن میں خیالات آرھے تھے، ڈرامے تو پہلے میں نے بہت کئے تھے، لیکن اپنے ساتھ یہ جو میں نے ڈرامہ کھیلا تھا، اسے کبھی بھی بھول نہیں سکتا، صبح اٹھتے اٹھتے مجھے دیر ھوگئی، اور صرف چائے پی کر ھی دفتر کیلئے روانہ ھوگیا، جاتے جاتے میں گھر کی ملازمہ سے میں نے کچھ کہنا چاھا، لیکن مجھے اتنی روسی زبان پر اس وقت عبور نہیں تھا، اس لئے کہتے کہتے رک گیا، میرا دوست پہلے ھی جاچکا تھا، ورنہ اس سے کہہ کر اپنے الفاظوں کی ترجمانی کرا لیتا، لیکن بس میں اسے ھاتھ ھلا کر خدا حافظ کہا اور باھر نکل گیا،!!!! گھر کی ملازمہ کو جسے میں سسٹر کہتا تھا، اور اسے اپنی بہن کاھی درجہ دیا ھوا تھا، کیونکہ جس طرح وہ ھمارا اور ھمارے گھر کا خیال رکھتی تھی، شاید ھی کوئی بہن اپنے بھائی کا کرتی ھوگی، اگر اسے انگریزی آتی تو شاید میں اسکا شکریہ صحیح طرح سے ادا کر سکتا، بگر وہ مجھے سمجھتی تھی، اور اسی مناسبت سے میری تو بہت زیادہ عزت بھی کرتی تھی،!!!!!!

    آفس کی لڑکیاں بھی میرے انکے ساتھ برتاؤ سے بہت ھی متاثر تھیں، کیونکہ میں ھمیشہ ان سے خوش اسلوبی سے پیش آتا تھا اور کبھی بھی دوسرے لڑکوں کی طرح خرافات اور بیہودہ مزاق نہیں کرتا تھا، وہ لڑکیاں بھی آھستہ آھستہ میرے مزاج کو سمجھتی جارھی تھیں، حالانکہ وہ دوسروں سے کم نہیں تھیں،!!!! مگر وہ اس بات سے ضرور حیران تھیں کہ مجھ جیسا بھی کسی لڑکی سے دوستی رکھ سکتا ھے، بہرحال اس دن جب میں آفس پہنچا تو بہت ھی اپنے آپ کو تھکا ھوا محسوس کررھا تھا، اور نیند کے غلبہ کی وجہ سے میری آنکھیں سرخ ھورہی تھیں، اور بس کل کے واقعہ کی وجہ سے بھی میں وہاں کی لڑکیوں سے بات کرتے ھوئے کچھ جھجک بھی رھا تھا، اور آفس کی لڑکیاں بھی ایک عجیب نظروں سے دیکھتی ھوئی کچھ مذاقیہ پن کا رویہ اختیار کئے ھوئے تھیں،!!!!!!

    ان میں سے ایک لڑکی جو ان سب کی لیڈر تھی، میرے پاس آئی اور مجھ سے مخاطب ھوتے ھوئے انگریزی میں مجھ سے بولی،کہ،!!!! لگتا ھے کہ رات بھر تم نہیں سوئے،!!!! ہاں تمہاری بات بالکل ٹھیک ھے، رات بھر صحیح ظرح نہیں سو سکا،!!!!! میں نے بھی کچھ غنودگی میں جواب دیا، اور کرسی کو پیچھے کرکے اس پر اپنا سر ٹکا دیا، وہ لڑکی بھی بہت تیز تھی اور ھر قسم کے مذاق کرنے کا تو اسے موقعہ ملنا چاھئے،!!! فوراً ھی اس نے مذاقاً ھنستے ھوئے کہا کہ لگتا ھے کہ وہ تمھاری دوست تمھارے ساتھ رات بھر گھر پر رھی، اور تمھی سونے نہیں دیا،!!!!! مجھے تو بس یہ سن کر غصہ آگیا، اور میں نے اسے نہ جانے کیا کچھ کہہ دیا، باقی لڑکیاں بھی اندر آگئیں اور اسے میرے کمرے سے باھر لے گئیں، اور معاملے کو رفع دفع کیا،!!!!! آفس کا ماحول بالکل افسردہ سا ھو گیا تھا، کیونکہ وھاں پر میں نے پہلی مرتبہ اتنے غصے سے پیش آیا تھا، جس کے لئے مجھے بہت ھی افسوس ھورھا تھا، میں یہ بات اس لڑکی سے بہت پیار سے بھی سنجھا سکتا تھا، وہاں پر غصہ یا لڑائی جھگڑے کو تو بہت ھی برا سمجھا جاتا ھے، میں نے کچھ ھی دیر میں سب سے اس سلسلے میں معذرت کرلی، اور بس سیکریٹری سے کہہ کر خاموشی سے آفس سے گھر چلا آیا، مالکان حضرات تو شہر سے باھر کسی دورے پر گئے ھوئے تھے، میں نے بھی موقعہ سے فائدہ اٹھایا،!!!!!!

    گھر پہنچا تو دیکھا، ملازمہ کپڑے دھورھی تھی، اس نے مجھے اتنی جلدی گھر آنے کی وجہ پوچھی، میں نے یہ اسکی باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا، میں نے اشارے سے اپنے ماتھے پر ھاتھ رکھ کر اپنی ظبعیت خراب ھونے کی اطلاع دے دی،!!!! میں نے اسی طرح اسے اشاروں میں ھی کہہ دیا کہ میں اب سونے جارھا ھوں مجھے بالکل نہیں اٹھانا، !!!! اس نے بھی اسی طرح مجھ سے کہا، کہ چائے پیو گئے،!!!! میں نے اسے گردن کو کچھ ادھر ادھر جنبش دیتے ھوئے انکار کردیا اور سونے چلا گیا،!!!!! دوپہر کے کھانے کے وقت ٹیبل پر برتنوں کی کھنکنے کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی، شاید کھانا لگ رھا تھا، مجھے ساتھ کسی اور لڑکی کی بھی آواز آئی جو ملازمہ سے بات کررھی تھی، مجھے کچھ شک سا ھوا کہ کہیں یہ وہی میری مفروضہ دوست تو نہیں،؟؟؟؟؟ میرا شک صحیح ثابت ھوا، جب میں نے باتھ روم جاتے ھوئے ایک نظر ڈایئنگ ٹیبل پر ڈالی،!!!!! اس نے مجھے دیکھتے ھی روسی زبان میں سلام کیا میں نے بھی مسکراتے ھوئے اسے روسی زبان میں میں خوش آمدید کہا اور خیریت معلوم کی،!!!! تازہ دم ھو کر واپس ڈرائنگ روم میں آیا تو دیکھا کہ وہ ھماری ملازمہ کے ساتھ کھانا لگانے میں مدد کررھی تھی،!!!!!!

    اتنے میں میرا دوست بھی آگیا، اور اس لڑکی کو دیکھتے ھوئے مجھ سے بولا، !!! یہ کیا یہ تو آج بھی چلی آئی، میں نے بھی یہی کہا کہ پتہ نہیں کیوں،؟؟؟ میرے دوست کے کہنے پر ملازمہ نے کہا کہ وہ کالج کے بعد اپنے گھر بہت بور ھوتی ھے، اس لئے اس نے فیصلہ کیا ھے شام کے وقت وہ میرے ساتھ رہ کر میرے کام میں بھی ھاتھ بٹائے گی، اور آپلوگوں سے کچھ انگریزی بھی سیکھے گی، وہاں کے کالج میں روسی زبان اور مقامی زبان میں پڑھائی ھوتی ھےلیکن انگلش کا بھی ایک مضمون ضرور ھوتا ھے، جسے وہاں کے لوگ بہت مشکل سمجھتے ھیں، وہاں کی سرکاری بھی اس وقت زباں روسی ھی تھی، اور اب مقامی ترکمانی زبان کو بھی سرکاری دفتروں میں روشناس کیا جارھا تھا، !!!!!

    میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسے سمجھاؤ کہ اس کا یہاں روز روز آنا ٹھیک نہیں ھے، دفتر کے ساتھی بھی یہاں آتے جاتے رھتے ھیں، وہ لوگ بھی اس کا غلط مطلب نکالیں گے، ویسے بھی دفتر میں آج اسکی وجہ سے ھی کافی بدمزگی رھی،!!!! ابھی میں یہ باتیں کرھی رھا تھا کہ سارے دفتر کے ساتھی میری طبیعیت پوچھنے میرے گھر پہنچ گئے، اور اس وقت ھم چاروں نے ایک ھی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانا شروع ھی کیا تھا، اس لڑکی کو دیکھ کر وہ سب اور بھی حیران ھوئے، جس کی وجہ سے آج صبح دفتر میں کچھ ناراضگی ھوگئی تھی، اب تو لگتا تھا کہ انکا شک و شبہ اور بھی پختہ ھو گیا ھوگا، وہ سب تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، ھم نے کھانے کیلئے انہیں پوچھا بھی لیکن انہوں نے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا کہ وہ سب کھانا کھا کر آئے ھیں،!!!!

    یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ وہاں کی ایک روایت مجھے بہت پسند آئی کہ میں نے یہ ھر جگہ ھر گھر میں یہ دیکھا ھے کہ ملازم ھو یا کوئی اور سب ایک ساتھ مل کر ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ھیں، اور کھانا کھانے سے پہلے اپنی زبان میں دعاء ضرور کرتے ھیں، اور کھانا سے فارغ ھوکر بھی شاید اپنی ھی زبان میں کچھ پڑھتے ھوئے شکر ادا کرتے ھیں، چاھے وہ مسلمان ھو یا کوئی اور، مگر افسوس کی بات یہ ھے کہ ھم میں سے تو اکثر کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللٌہ بھی نہیں پڑھتے، شکر ادا کرنا تو دور کی بات ھے، اور اپنے گھر کے ملازموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے ھیں وہ تو ھم سب جانتے ھی ھیں،!!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں