1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

یادوں کی پٹاری پارٹ 1

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏25 جنوری 2007۔

  1. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسے سمجھاؤ کہ اس کا یہاں روز روز آنا ٹھیک نہیں ھے، دفتر کے ساتھی بھی یہاں آتے جاتے رھتے ھیں، وہ لوگ بھی اس کا غلط مطلب نکالیں گے، ویسے بھی دفتر میں آج اسکی وجہ سے ھی کافی بدمزگی رھی،!!!! ابھی میں یہ باتیں کرھی رھا تھا کہ سارے دفتر کے ساتھی میری طبیعیت پوچھنے میرے گھر پہنچ گئے، اور اس وقت ھم چاروں نے ایک ھی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانا شروع ھی کیا تھا، اس لڑکی کو دیکھ کر وہ سب اور بھی حیران ھوئے، جس کی وجہ سے آج صبح دفتر میں کچھ ناراضگی ھوگئی تھی، اب تو لگتا تھا کہ انکا شک و شبہ اور بھی پختہ ھو گیا ھوگا، وہ سب تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، ھم نے کھانے کیلئے انہیں پوچھا بھی لیکن انہوں نے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا کہ وہ سب کھانا کھا کر آئے ھیں،!!!!

    یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ وہاں کی ایک روایت مجھے بہت پسند آئی کہ میں نے یہ ھر جگہ ھر گھر میں یہ دیکھا ھے کہ ملازم ھو یا کوئی اور سب ایک ساتھ مل کر ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ھیں، اور کھانا کھانے سے پہلے اپنی زبان میں دعاء ضرور کرتے ھیں، اور کھانا سے فارغ ھوکر بھی شاید اپنی ھی زبان میں کچھ پڑھتے ھوئے شکر ادا کرتے ھیں، چاھے وہ مسلمان ھو یا کوئی اور، مگر افسوس کی بات یہ ھے کہ ھم میں سے تو اکثر کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللٌہ بھی نہیں پڑھتے، شکر ادا کرنا تو دور کی بات ھے، اور اپنے گھر کے ملازموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے ھیں وہ تو ھم سب جانتے ھی ھیں،!!!!!!!

    اب تو اس لڑکی گل زرین نے تقریباً روزانہ ھی آنا شروع کردیا تھا، وہ چونکہ ھمارے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کی رشتہ دار تھی، اور اسی کے کام میں وہ اسکا ھاتھ بھی بٹاتی تھی جس کی وجہ سے میں اس کے یہاں آنے پر میں کوئی اعتراض نہیں کرسکتا تھا، وہ یہاں کے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹڈی بھی جاری رکھتی تھی، اس کی عمر شاید میرے حساب سے 28 سال کے لگ بھگ ھوگی، اور میں 48 سال کا ھونے جارھا تھا، اور اس حساب سے اس کی عمر میں اور مجھ میں تقریباً 20 سال کا فرق تھا، اور جس طرح دوسرے لوگ سوچ رھے تھے، وہ کچھ مناسب بھی نہیں لگتا تھا، اس کے علاوہ میں بھی کبھی کچھ غلط نہیں سوچ سکتا تھا کیونکہ میری ایک محبت اور خلوص سے بھر پور ھنست بستی فیملی تھی، میں اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ وہ زمانے کی ستائی ھوئی لڑکی تھی، اور اب کچھ سکون کے تلاش کے لئے اس نے ھمارے ماحول کو اپنانے کا شاید فیصلہ کیا ھو گا، اس کے خیالات کے مطابق اسے سب سے پہلے تو دنیا کے تمام مردوں سے سخت نفرت کرتی تھی، کیونکہ اس نے اپنے باپ کو اسکی ماں کے ساتھ ظلم کرتے ھوئے دیکھا، اس کے علاؤہ اسکے شوھر جو اسکا رشتہ دار بھی تھا، اس کے ساتھ بھی اس نے بہت زیادتیاں کی تھی، جس کی وجہ سے اس نے اپنے شوھر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی،!!!!!!

    جب سے گل زرین ھمارے گھر میں آنے لگی تھی، بقول اسکے کہ یہاں اپنی رشتہ دار کے کہنے پر سکون کی تلاش میں یہاں آئی تھی، وجہ یہ تھی کہ ھماری خادمہ نے اسے ھمارے بارے میں کچھ بڑھا چڑھا کر تعریفیں کی تھیں، گل چاھتی تھی کہ وہ اچھے ماحول میں رہ کر اپنی تعلیم کو آگے جاری رکھ سکے جو اسکی شادی کے بعد ادھوری رہ گئی تھی ساتھ ھی وہ انگش زبان بھی سیکھنا چاھتی تھی، وہ چونکہ مسلمان تھی اسلئے وہ بھی چاھتی تھی کہ اسے اپنے مذہب اسلام کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات حاصل ھوجائے، وہ اپنے نام سے بھی زیادہ حسین تھی، اکثر لوگ ویسے بھی وہاں ترکمانستان کی خوبصورت حوروں کی سرزمین کی مثال دیتے ھیں، اسے ھم پاکستانیوں پر اپنے لوگوں سے زیادہ بھرپور اعتماد تھا، اس کے علاؤہ وہ اپنے آپ کو ھمارے بیچ محفوظ سمجھتی تھی، وہ ھر دوسرے تیسرے روز اپنے کالج سے فارغ ھوکر دوپہر میں آجاتی تھی اور شام ھونے تک اپنا مصروف ترین گھر کے کام میں ھماری خادمہ کا ھاتھ بٹاتی اور اس کے ساتھ ھی شام کو کو ھمارے واپس آنے سے پہلے ھی خادمہ کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی، ویسے دوپہر کا کھانا ھمارے ساتھ ھی کھاتی تھی، جہاں پر گپ شپ کے ساتھ وہ کچھ مجھ سے انگلش کے الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی، اور ساتھ ھی مجھے بھی اس سے روسی زبان سیکھنے میں مدد مل رھی تھی،!!!!!!!!
    --------------------------------------------
    اسے ھم پاکستانیوں پر اپنے لوگوں سے زیادہ بھرپور اعتماد تھا، اس کے علاؤہ وہ اپنے آپ کو ھمارے بیچ محفوظ سمجھتی تھی، وہ ھر دوسرے تیسرے روز اپنے کالج سے فارغ ھوکر دوپہر میں آجاتی تھی اور شام ھونے تک اپنا مصروف ترین گھر کے کام میں ھماری خادمہ کا ھاتھ بٹاتی اور اس کے ساتھ ھی شام کو کو ھمارے واپس آنے سے پہلے ھی خادمہ کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی، ویسے دوپہر کا کھانا ھمارے ساتھ ھی کھاتی تھی، جہاں پر گپ شپ کے ساتھ وہ کچھ مجھ سے انگلش کے الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی، اور ساتھ ھی مجھے بھی اس سے روسی زبان سیکھنے میں مدد مل رھی تھی،!!!!!!!!

    وہاں پر آفس کی طرف سے اکثر کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ھوتی رھتی تھی، کبھی کسی کی سالگرہ ھے تو کبھی کوئی شادی کی تقریب ھے یا کبھی وہاں کی کوئی تہوار کی خوشی منائی جارھی ھے، وہاں کے لوگ ھر تقریب کو بہت ھی جوش وخروش سے مناتے تھے، سب سے زیادہ رونق تو میں نے وہاں کے صدر کی سالگرہ، نئے سال اور کرسمس کے موقع پر دیکھی، اس کے علاوہ مہینے میں ایک دو دفعہ ھماری کمپنی کے مالکان سیر تفریح کے غرض سے کہیں نہ کہیں کسی اچھے پکنک پوائنٹ پر لے جاتے تھے، مجھے بھی انہوں نے ایک کار بمعہ ڈرائیور کے دی ھوئی تھی، وہ ڈرائیور بھی ایک دوستوں کی طرح ھی میرے ساتھ رھتا تھا، دفتری کام کے علاوہ بھی ھر کسی تقریب میں میرے ساتھ ھی رھتا اور خود بھی کافی انجوئے کرتا تھا، اسی طرح ان ھی ھنگاموں میں شیطان کو بھی خوب موقعہ مل جاتا ھے ھم جیسے کمزور لوگوں کو بہکانے میں اسے کچھ زیادہ ھی آسانی رھتی ھے، آھستہ آھستہ میں بھی انہی ھنگاموں میں گم ھوتا جارھا تھا، اور اپنے گھر کی طرف سے بھی دھیان ھٹتا جارھا تھا، ایک بات کی مجھے فکر تو نہیں تھی کہ ھر مہینے ایک مقرر کردہ رقم میرے گھر کے اخراجات کیلئے کراچی کے آفس میں پہنچ جاتی تھی، جہاں سے میرا بڑا بیٹا جاکر وہ پیسے لے آتا اور اپنی والدہ کے حوالے کر دیتا تھا،!!!!!!

    شروع شروع میں تو میں نے اپنی بیگم اور بچوں سے ٹیلفون پر رابطہ رکھا، لیکن آھستہ آھستہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس ٹیلیفونی رابطے میں کمی آتی گئی، جبکہ مجھے یہ ٹیلفون کی سہولت آفس کی طرف سے ایک مقررہ وقت محدودہ کیلئے بالکل بلامعاوضہ تھی، کبھی کبھی اس مقررہ وقت سے بھی میں تجاوز کر جاتا تھا، لیکن جب ٹیلیفونی رابطہ میں کمی ھوتی چلی گئی تو قدرتی طور پر میری بیگم کو کچھ شک سا ھوا اسکے علاوہ پاکستان میں ھمارے گھر پر ایک استانی جی جو مذھبی معلمہ تھیں، بچوں کو قران پڑھانے آتی تھیں، انہوں نے ھماری بیگم کے شک و شباہت کو مزید تقویت بخشی، اکثر وہ جب بھی آتیں سب سے پہلے میری بیگم سے یہ سوال ضرور کرتیں کہ،!!!!!!! ارے بیٹی،!!! کیا تمھارے میاں سے کوئی بات چیت ھوئی ھے؟ کیا لگتا ھے کہ اس میں تمہیں کوئی تبدیلی محسوس ھوئی ھے یا نہیں،؟؟؟؟ تم تو بالکل بھولی ھو، اس طرح اپنے شوھر کو کھلا چھوڑ نہیں دینا چاھئے، اور ایسے شہر میں جہاں دنیا بھر کی عیاشیاں ھوں، اور سنو میری ایک بات دھیاں سے کہ مرد کو ایسی جگہ رنگ بدلتے ھوئے بالکل بھی دیر نہیں لگتی،!!! چاھے وہ کتنا ھی شریف کیوں نہ ھو، فوراً انکو واپس بلوا لو ورنہ تم تو اپنے شوھر سے ھاتھ دھو بیٹھو گی،!!!!!!!
    میری بیگم کو انکی باتوں سے ڈر بھی لگتا تھا لیکن وہ اپنی تسلی کیلئے وہ کہہ دیتیں کہ!!!!! نہیں خالہ جان ایسا ممکن نہیں ھے میرے میاں ایسے نہیں ھیں، مجھے ان پر مکمل اعتماد ھے،!!!!! وہ اپنی اپنے آپ کو اس طرح بہلاتی رھتیں، لیکن جب ٹیلیفون کم آنے لگے، اور باتوں کا دورانیہ بھی کم ھونے لگا تو انہیں بہت سے شک و شباہت نے گھیر لیا، اور وہ اندر ھی اندر اسی غم میں گھلتی چلی گئیں، اور میں اس سے بالکل بے خبر تھا، ایک دن وہ ٹیلفون پر مجھ سے بات کرتے ھوئے رونے لگیں، میرے لاکھ سمجھانے پر بھی انکا یہ رونا بند نہ ھوا، تو میں نے ٹیلیفوں بند کردیا، اس وقت بچے چھوٹے تھے اور پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھے،!!!!!!

    مجھے کچھ تھوڑا سا دل میں ایک احساس ھوا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادتی کررھا ھوں، شاید عید کے دن نزدیک تھے، میں نے اپنے چیرمین سے بات کی کہ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے کیلئے پاکستان جانے کی اجازت دے دی جائے، انہوں نے بغیر کسی عذر کے اجازت دے دی، وہ بھی عید کی چھٹیوں میں پاکستان جا رھے تھے مجھے اپنے ساتھ ھی لے گئے، اور میرا آنے جانے کا ٹکٹ بھی انہوں نے ھی ادا کیا، اشک آباد سے کراچی ائرپورٹ پر جیسے ھی پہنچا، وہاں سب کے ساتھ اپنے تمام بچوں کو بھی بمعہ بیگم کے ساتھ ائرپورٹ پر منتظر پایا، کافی وقت گزرنے کے بعد جب میں سب سے ملا تو سب بھیگی ھوئی غم زدہ آنکھوں سے ملے اور میری آنکھیں بھی پرنم ھوگئیں،!!!!! ھماری بیگم بہت ھی کمزور نظر آرھی تھیں، بچے تو خوب خوش باش تھے، گھر جاکر سب کو ان کے لائے ھوئے تحفے تحائف دئے، وہ تو ان میں ھی مگن ھوگئے، لیکن ھماری بیگم مجھ سے کچھ خفا خفا سی لگتی تھیں، میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ بضد تھیں کہ میں یہ نوکری چھوڑ دوں، میں نے کہا کہ،!!!!!! جب تک مجھے کوئی اچھی ملازمت مل نہیں جاتی، میں کس طرح بغیر سوچے سمجھے یہ نوکری چھوڑ دوں، میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے تمام شکوک و شباہات کا ذکر خیر کردیا اور ساتھ ھی استانی جی کی کہی ھوئی گزارشات بھی سنادیں،!!!!!

    میں نے انہیں ھر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میرے کسی بھی بیان بازی سے متفق نہیں ھوئیں، میں نے پھر ان سے وعدہ کیا کہ اب کی بار جب واپس آؤں گا، تو نوکری چھوڑ کر ھی آؤنگا، ایک ھفتہ گزارنے کے بعد بہت مشکل سے اپنی بیگم کو راضی کیا اور پھر واپس وہیں اشک آباد پہنچ گیا، اور اسی وی آئی پی پروٹوکول کے طریقہ کار سے باھر آگیا جہاں ڈرائیور میرا انتظار کررھا تھا، سوٹ کیس کو کار کی ڈگی میں رکھتے ھوئے ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھا اور کار اسٹارٹ کردی، راستے بھر گپ شپ کرتے ھوئے گھر پہنچ گئے، اس وقت میں اچھی خاصی روسی زبان بول لیتا تھا اور سمجھنے میں بھی کوئی دقت نہیں ھوتی تھی، اس دفعہ نہ جانے کیا بات تھی کہ مجھے اپنا گھر چھوڑتے ھوئے دکھ نہیں ھو رھا تھا، اور جلد سے جلد اشک آباد پہنچنا چاھتا تھا!!!!!!!!
     
  2. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسے سمجھاؤ کہ اس کا یہاں روز روز آنا ٹھیک نہیں ھے، دفتر کے ساتھی بھی یہاں آتے جاتے رھتے ھیں، وہ لوگ بھی اس کا غلط مطلب نکالیں گے، ویسے بھی دفتر میں آج اسکی وجہ سے ھی کافی بدمزگی رھی،!!!! ابھی میں یہ باتیں کرھی رھا تھا کہ سارے دفتر کے ساتھی میری طبیعیت پوچھنے میرے گھر پہنچ گئے، اور اس وقت ھم چاروں نے ایک ھی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانا شروع ھی کیا تھا، اس لڑکی کو دیکھ کر وہ سب اور بھی حیران ھوئے، جس کی وجہ سے آج صبح دفتر میں کچھ ناراضگی ھوگئی تھی، اب تو لگتا تھا کہ انکا شک و شبہ اور بھی پختہ ھو گیا ھوگا، وہ سب تو ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، ھم نے کھانے کیلئے انہیں پوچھا بھی لیکن انہوں نے شکریہ ادا کرتے ھوئے کہا کہ وہ سب کھانا کھا کر آئے ھیں،!!!!

    یہاں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ وہاں کی ایک روایت مجھے بہت پسند آئی کہ میں نے یہ ھر جگہ ھر گھر میں یہ دیکھا ھے کہ ملازم ھو یا کوئی اور سب ایک ساتھ مل کر ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے ھیں، اور کھانا کھانے سے پہلے اپنی زبان میں دعاء ضرور کرتے ھیں، اور کھانا سے فارغ ھوکر بھی شاید اپنی ھی زبان میں کچھ پڑھتے ھوئے شکر ادا کرتے ھیں، چاھے وہ مسلمان ھو یا کوئی اور، مگر افسوس کی بات یہ ھے کہ ھم میں سے تو اکثر کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم اللٌہ بھی نہیں پڑھتے، شکر ادا کرنا تو دور کی بات ھے، اور اپنے گھر کے ملازموں کے ساتھ جو سلوک روا رکھتے ھیں وہ تو ھم سب جانتے ھی ھیں،!!!!!!!

    اب تو اس لڑکی گل زرین نے تقریباً روزانہ ھی آنا شروع کردیا تھا، وہ چونکہ ھمارے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کی رشتہ دار تھی، اور اسی کے کام میں وہ اسکا ھاتھ بھی بٹاتی تھی جس کی وجہ سے میں اس کے یہاں آنے پر میں کوئی اعتراض نہیں کرسکتا تھا، وہ یہاں کے کام کے ساتھ ساتھ اپنی اسٹڈی بھی جاری رکھتی تھی، اس کی عمر شاید میرے حساب سے 28 سال کے لگ بھگ ھوگی، اور میں 48 سال کا ھونے جارھا تھا، اور اس حساب سے اس کی عمر میں اور مجھ میں تقریباً 20 سال کا فرق تھا، اور جس طرح دوسرے لوگ سوچ رھے تھے، وہ کچھ مناسب بھی نہیں لگتا تھا، اس کے علاوہ میں بھی کبھی کچھ غلط نہیں سوچ سکتا تھا کیونکہ میری ایک محبت اور خلوص سے بھر پور ھنست بستی فیملی تھی، میں اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ وہ زمانے کی ستائی ھوئی لڑکی تھی، اور اب کچھ سکون کے تلاش کے لئے اس نے ھمارے ماحول کو اپنانے کا شاید فیصلہ کیا ھو گا، اس کے خیالات کے مطابق اسے سب سے پہلے تو دنیا کے تمام مردوں سے سخت نفرت کرتی تھی، کیونکہ اس نے اپنے باپ کو اسکی ماں کے ساتھ ظلم کرتے ھوئے دیکھا، اس کے علاؤہ اسکے شوھر جو اسکا رشتہ دار بھی تھا، اس کے ساتھ بھی اس نے بہت زیادتیاں کی تھی، جس کی وجہ سے اس نے اپنے شوھر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی،!!!!!!

    جب سے گل زرین ھمارے گھر میں آنے لگی تھی، بقول اسکے کہ یہاں اپنی رشتہ دار کے کہنے پر سکون کی تلاش میں یہاں آئی تھی، وجہ یہ تھی کہ ھماری خادمہ نے اسے ھمارے بارے میں کچھ بڑھا چڑھا کر تعریفیں کی تھیں، گل چاھتی تھی کہ وہ اچھے ماحول میں رہ کر اپنی تعلیم کو آگے جاری رکھ سکے جو اسکی شادی کے بعد ادھوری رہ گئی تھی ساتھ ھی وہ انگش زبان بھی سیکھنا چاھتی تھی، وہ چونکہ مسلمان تھی اسلئے وہ بھی چاھتی تھی کہ اسے اپنے مذہب اسلام کے بارے میں بھی کچھ بنیادی معلومات حاصل ھوجائے، وہ اپنے نام سے بھی زیادہ حسین تھی، اکثر لوگ ویسے بھی وہاں ترکمانستان کی خوبصورت حوروں کی سرزمین کی مثال دیتے ھیں، اسے ھم پاکستانیوں پر اپنے لوگوں سے زیادہ بھرپور اعتماد تھا، اس کے علاؤہ وہ اپنے آپ کو ھمارے بیچ محفوظ سمجھتی تھی، وہ ھر دوسرے تیسرے روز اپنے کالج سے فارغ ھوکر دوپہر میں آجاتی تھی اور شام ھونے تک اپنا مصروف ترین گھر کے کام میں ھماری خادمہ کا ھاتھ بٹاتی اور اس کے ساتھ ھی شام کو کو ھمارے واپس آنے سے پہلے ھی خادمہ کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی، ویسے دوپہر کا کھانا ھمارے ساتھ ھی کھاتی تھی، جہاں پر گپ شپ کے ساتھ وہ کچھ مجھ سے انگلش کے الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی، اور ساتھ ھی مجھے بھی اس سے روسی زبان سیکھنے میں مدد مل رھی تھی،!!!!!!!!
    --------------------------------------------
    اسے ھم پاکستانیوں پر اپنے لوگوں سے زیادہ بھرپور اعتماد تھا، اس کے علاؤہ وہ اپنے آپ کو ھمارے بیچ محفوظ سمجھتی تھی، وہ ھر دوسرے تیسرے روز اپنے کالج سے فارغ ھوکر دوپہر میں آجاتی تھی اور شام ھونے تک اپنا مصروف ترین گھر کے کام میں ھماری خادمہ کا ھاتھ بٹاتی اور اس کے ساتھ ھی شام کو کو ھمارے واپس آنے سے پہلے ھی خادمہ کے ساتھ واپس چلی جاتی تھی، ویسے دوپہر کا کھانا ھمارے ساتھ ھی کھاتی تھی، جہاں پر گپ شپ کے ساتھ وہ کچھ مجھ سے انگلش کے الفاظ سمجھنے کی کوشش کرتی، اور ساتھ ھی مجھے بھی اس سے روسی زبان سیکھنے میں مدد مل رھی تھی،!!!!!!!!

    وہاں پر آفس کی طرف سے اکثر کوئی نہ کوئی تقریب منعقد ھوتی رھتی تھی، کبھی کسی کی سالگرہ ھے تو کبھی کوئی شادی کی تقریب ھے یا کبھی وہاں کی کوئی تہوار کی خوشی منائی جارھی ھے، وہاں کے لوگ ھر تقریب کو بہت ھی جوش وخروش سے مناتے تھے، سب سے زیادہ رونق تو میں نے وہاں کے صدر کی سالگرہ، نئے سال اور کرسمس کے موقع پر دیکھی، اس کے علاوہ مہینے میں ایک دو دفعہ ھماری کمپنی کے مالکان سیر تفریح کے غرض سے کہیں نہ کہیں کسی اچھے پکنک پوائنٹ پر لے جاتے تھے، مجھے بھی انہوں نے ایک کار بمعہ ڈرائیور کے دی ھوئی تھی، وہ ڈرائیور بھی ایک دوستوں کی طرح ھی میرے ساتھ رھتا تھا، دفتری کام کے علاوہ بھی ھر کسی تقریب میں میرے ساتھ ھی رھتا اور خود بھی کافی انجوئے کرتا تھا، اسی طرح ان ھی ھنگاموں میں شیطان کو بھی خوب موقعہ مل جاتا ھے ھم جیسے کمزور لوگوں کو بہکانے میں اسے کچھ زیادہ ھی آسانی رھتی ھے، آھستہ آھستہ میں بھی انہی ھنگاموں میں گم ھوتا جارھا تھا، اور اپنے گھر کی طرف سے بھی دھیان ھٹتا جارھا تھا، ایک بات کی مجھے فکر تو نہیں تھی کہ ھر مہینے ایک مقرر کردہ رقم میرے گھر کے اخراجات کیلئے کراچی کے آفس میں پہنچ جاتی تھی، جہاں سے میرا بڑا بیٹا جاکر وہ پیسے لے آتا اور اپنی والدہ کے حوالے کر دیتا تھا،!!!!!!

    شروع شروع میں تو میں نے اپنی بیگم اور بچوں سے ٹیلفون پر رابطہ رکھا، لیکن آھستہ آھستہ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اس ٹیلیفونی رابطے میں کمی آتی گئی، جبکہ مجھے یہ ٹیلفون کی سہولت آفس کی طرف سے ایک مقررہ وقت محدودہ کیلئے بالکل بلامعاوضہ تھی، کبھی کبھی اس مقررہ وقت سے بھی میں تجاوز کر جاتا تھا، لیکن جب ٹیلیفونی رابطہ میں کمی ھوتی چلی گئی تو قدرتی طور پر میری بیگم کو کچھ شک سا ھوا اسکے علاوہ پاکستان میں ھمارے گھر پر ایک استانی جی جو مذھبی معلمہ تھیں، بچوں کو قران پڑھانے آتی تھیں، انہوں نے ھماری بیگم کے شک و شباہت کو مزید تقویت بخشی، اکثر وہ جب بھی آتیں سب سے پہلے میری بیگم سے یہ سوال ضرور کرتیں کہ،!!!!!!! ارے بیٹی،!!! کیا تمھارے میاں سے کوئی بات چیت ھوئی ھے؟ کیا لگتا ھے کہ اس میں تمہیں کوئی تبدیلی محسوس ھوئی ھے یا نہیں،؟؟؟؟ تم تو بالکل بھولی ھو، اس طرح اپنے شوھر کو کھلا چھوڑ نہیں دینا چاھئے، اور ایسے شہر میں جہاں دنیا بھر کی عیاشیاں ھوں، اور سنو میری ایک بات دھیاں سے کہ مرد کو ایسی جگہ رنگ بدلتے ھوئے بالکل بھی دیر نہیں لگتی،!!! چاھے وہ کتنا ھی شریف کیوں نہ ھو، فوراً انکو واپس بلوا لو ورنہ تم تو اپنے شوھر سے ھاتھ دھو بیٹھو گی،!!!!!!!
    میری بیگم کو انکی باتوں سے ڈر بھی لگتا تھا لیکن وہ اپنی تسلی کیلئے وہ کہہ دیتیں کہ!!!!! نہیں خالہ جان ایسا ممکن نہیں ھے میرے میاں ایسے نہیں ھیں، مجھے ان پر مکمل اعتماد ھے،!!!!! وہ اپنی اپنے آپ کو اس طرح بہلاتی رھتیں، لیکن جب ٹیلیفون کم آنے لگے، اور باتوں کا دورانیہ بھی کم ھونے لگا تو انہیں بہت سے شک و شباہت نے گھیر لیا، اور وہ اندر ھی اندر اسی غم میں گھلتی چلی گئیں، اور میں اس سے بالکل بے خبر تھا، ایک دن وہ ٹیلفون پر مجھ سے بات کرتے ھوئے رونے لگیں، میرے لاکھ سمجھانے پر بھی انکا یہ رونا بند نہ ھوا، تو میں نے ٹیلیفوں بند کردیا، اس وقت بچے چھوٹے تھے اور پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھے،!!!!!!

    مجھے کچھ تھوڑا سا دل میں ایک احساس ھوا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ زیادتی کررھا ھوں، شاید عید کے دن نزدیک تھے، میں نے اپنے چیرمین سے بات کی کہ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ عید منانے کیلئے پاکستان جانے کی اجازت دے دی جائے، انہوں نے بغیر کسی عذر کے اجازت دے دی، وہ بھی عید کی چھٹیوں میں پاکستان جا رھے تھے مجھے اپنے ساتھ ھی لے گئے، اور میرا آنے جانے کا ٹکٹ بھی انہوں نے ھی ادا کیا، اشک آباد سے کراچی ائرپورٹ پر جیسے ھی پہنچا، وہاں سب کے ساتھ اپنے تمام بچوں کو بھی بمعہ بیگم کے ساتھ ائرپورٹ پر منتظر پایا، کافی وقت گزرنے کے بعد جب میں سب سے ملا تو سب بھیگی ھوئی غم زدہ آنکھوں سے ملے اور میری آنکھیں بھی پرنم ھوگئیں،!!!!! ھماری بیگم بہت ھی کمزور نظر آرھی تھیں، بچے تو خوب خوش باش تھے، گھر جاکر سب کو ان کے لائے ھوئے تحفے تحائف دئے، وہ تو ان میں ھی مگن ھوگئے، لیکن ھماری بیگم مجھ سے کچھ خفا خفا سی لگتی تھیں، میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ بضد تھیں کہ میں یہ نوکری چھوڑ دوں، میں نے کہا کہ،!!!!!! جب تک مجھے کوئی اچھی ملازمت مل نہیں جاتی، میں کس طرح بغیر سوچے سمجھے یہ نوکری چھوڑ دوں، میں نے وجہ جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے اپنے تمام شکوک و شباہات کا ذکر خیر کردیا اور ساتھ ھی استانی جی کی کہی ھوئی گزارشات بھی سنادیں،!!!!!

    میں نے انہیں ھر طرح سے مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن وہ میرے کسی بھی بیان بازی سے متفق نہیں ھوئیں، میں نے پھر ان سے وعدہ کیا کہ اب کی بار جب واپس آؤں گا، تو نوکری چھوڑ کر ھی آؤنگا، ایک ھفتہ گزارنے کے بعد بہت مشکل سے اپنی بیگم کو راضی کیا اور پھر واپس وہیں اشک آباد پہنچ گیا، اور اسی وی آئی پی پروٹوکول کے طریقہ کار سے باھر آگیا جہاں ڈرائیور میرا انتظار کررھا تھا، سوٹ کیس کو کار کی ڈگی میں رکھتے ھوئے ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھا اور کار اسٹارٹ کردی، راستے بھر گپ شپ کرتے ھوئے گھر پہنچ گئے، اس وقت میں اچھی خاصی روسی زبان بول لیتا تھا اور سمجھنے میں بھی کوئی دقت نہیں ھوتی تھی، اس دفعہ نہ جانے کیا بات تھی کہ مجھے اپنا گھر چھوڑتے ھوئے دکھ نہیں ھو رھا تھا، اور جلد سے جلد اشک آباد پہنچنا چاھتا تھا!!!!!!!!
     
  3. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میرے لئے بھی یہ ایک مشکل تھی کہ اس کے سامنے کسی بھی ایسی محفلوں میں جانے سے پرہیز کروں، وہاں پر میرے اس بھانجے کے پہنچتے ھی مجھے کچھ محتاط ھونا پڑا، وہ ایک 21- 22 سال کا جوان اور اسمارٹ لڑکا تھا، وہان کی لڑکیاں تو اسکی دیوانی ھوگیں، مگر وہ مجھے دیکھ کر شروع شروع میں بچتا رھا اسکے علاوہ بھی اسے وھاں کی زبان سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انگلش بولنے میں بھی کچھ کمزور تھا، لیکن بعد میں وہ بھی آھستہ آھستہ انگلش اور روسی زبان پر مجھ سے کچھ زیادہ ھی حاوی ھو گیا تھا،!!!!!!

    وہ مجھ سے بچ رھا تھا اور میں بھی کچھ اس کے سامنے اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا، اور ساتھ ھی اس کی بہت ھی خاطر مدارات میں بھی کرتا، اسے میں اپنے ساتھ ھی انتظامیہ سے اجازت لے کر اپنے ھی گھر میں لے آیا اور اسے اپنے برابر والے گیسٹ روم میں ٹھرا دیا تھا، ویسے تو وہ چھوٹا سا کمرہ تھا لیکن اس سے تو بہتر تھا جہاں اسے پہلے جونئر اسٹاف کی رھائش گاہ میں رکھا گیا تھا، وہاں پر ایک کمرے میں کم سے کم چار لوگ رھتے تھے، وہ میرے پاس آجانے سے بہت خوش تھا، اور میرا شکر گزار بھی تھا کہ میں نے اسے وہاں سے بلوا لیا، اب مجھے بھی یقین ھو چلا تھا کہ شاید اب وہ میری جاسوسی کرنے کے بجائے میرے بارے میں کوئی غلط تاثر قائم نہیں کرے گا، اور نہ ھی کسی بھی قسم کی رپورٹ پاکستان میں بھیجے گا، جیسا کہ وہ ھماری بیگم یعنی اسکی مامی سے پاکستان میں وعدہ کرکے آیا تھا، اسکے آنے سے مجھے بھی کافی فائدہ ھوا کیونکہ اب باھر کے گھریلو کام وغیرہ خود ھی بغیر کہے ھی نبٹا لیتا تھا، گھر کا اب سارا سودا اور ضرورت کی چیزیں خود ھی لے آتا، شروع کے دنوں میں تو میں خود ھی اس کے ساتھ تمام جگہوں کی جان پہچان کرانے میں خود ھی اسکے ساتھ جاتا رھا، لیکن بعد میں اس نے خود ھی ساری ذمہ داری سنبھال لی تھی، اور دفتر میں بھی میرے اسسٹنٹ جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اس کے ساتھ ھی کام کررھا تھا اور دونوں کو میں نے مختلف کاموں کی ذمہ داری بھی دے دی تھی، دونوں ویسے بھی ھم عمر تھے جو بعد میں بہترین دوست اور آپس میں ایک دوسرے کے رازدار بھی بن گئے تھے، ایک ساتھ دفتر میں کام کرنا باھر بھی دونوں ملکر گھومنے پھرنے بھی جاتے تھے، اور اسی کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ وہاں کے ماحول میں رھتے ھوئے وہاں کی روسی زبان اور انگلش بولنے میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی تھی کہ شاید میں بھی اتنی روانی سے بول نہیں سکتا تھا،!!!!!!!

    بہرحال شکر ھے کہ میرے بھانجے کا وہاں پر دل لگ گیا تھا، وہاں ھفتہ اور اتوار کی چھٹی ھوتی تھی، وہاں پر تو جمعہ کی رات سے ھی اس کا ویک اینڈ شروع ھوجاتا تھا، وہ مجھ سے اجازت لے کر میرے اسسٹنٹ کے ساتھ چلا جاتا اور اتوار کی شام کو ھی لوٹتا تھا، وہ بہت ھی خوش تھا اور اسکی صحت اور بھی مزید بہت ھی بہتر ھوگئی تھی، وہ بھی وہاں کی رنگ برنگی محفلوں اور تقریبات میں شرکت کرکے بہت خوش ھوتا تھا، مجھے بھی ایک طرف سے اطمنان تھا کیونکہ اس کی ماں یعنی میری بہن بھی پاکستان میں اسکی وجہ سے سکون میں تھی، کہ وہ میرے پاس ھے، شاید وہ سوچتی ھوگی کہ میرے پاس رہ کر وہ کسی غلط صحبتوں اور عادتوں سے بچا رھے گا، ویسے تو کوئی اس میں بری عادت تو نہیں تھی، اسکے اخلاق میں وہاں کے لوگوں کی نظروں میں بہتر درجہ کا معیار پایا جاتا تھا، وہ ھر ایک کے ساتھ بہت جلدی ھی گھل مل جاتا تھا، اور وہاں پر ھر کوئی اس سے دوستی کرنے میں ایک فخر بھی محسوس کرتا، اس کے علاوہ وہاں کے مالکان کی نظروں میں بھی وہ ایک محنتی اور بااخلاق کارکن تھا، مجھے بھی اسکی اس مقبولیت کی وجہ سے اپنے آپ کے اندر ایک فخریہ خوشی محسوس ھو رھی تھی،!!!!!!!

    اب اسکی وجہ سے مجھے دفتر میں بھی بہت آرام ھو گیا تھا، سارے باھر کے زیادہ تر بینک کے کاموں میں بھی مجھے کافی سہولت ھو گئی تھی، مجھے بھی اب اس پر مکمل اعتماد ھوتا جارھا تھا، وہ بھی مجھ سے آھستہ آھستہ فری ھوتا جارھا تھا، اور اس نے باتوں ھی باتوں میں مجھے اس بات کا احساس دلادیا تھا کہ میں اس سے کسی قسم کی جاسوسی کی توقع نہ کروں، میں بھی اب بے فکر تھا کہ وہ پاکستان میں میرے بارے میں کوئی غلط تاثر نہیں دے گا،!!!!!!

    دفتر کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مگن رھتا اور میں اپنے ھم عمر ساتھیوں کی محفلوں میں شریک رھتا تھا، جو زیادہ تر پاکستانی انجینئرز ھی تھے، سب بہت اچھے اخلاق اور ھمدرد تھے، بہت ھی اچھا رنگین وقت گزر رھا تھا، لیکن خوش رنگ محفلوں کی وجہ سے وہاں پر کافی عیاشیوں کی وجہ سے لوگ پیسہ بچا نہیں پا رھے تھے، اور انڈین پاکستایوں کی تعداد اس وقت اتنی زیادہ تو نہیں تھی، لیکن یورپئین اور امریکن کی تعداد کچھ زیادہ تھی، اس کے علاوہ ترکی باشندے بھی وھاں ایک اچھی خاصی تعداد میں اپنا کاروبار کررھے تھے، کہتے ھیں کہ وہاں کی مقامی زبان ترکیوں کی زبان سے بہت ملتی جلتی ھے، اور ان کے آپس کا کلچر میں بھی کافی یکسانیت پائی جاتی ھے،!!!!!

    جہاں اس قسم کی رنگین محفلیں اور عیاشی کا سامان موجود ھو تو لوگوں کو بھٹکنے میں دیر نہیں لگتی، اکثر لوگوں نے وہاں پر شادیاں بھی کرلیں تھی، اور ان میں سے اکثر لوگوں کی پاکستان کی گھریلو زندگی برباد ھوچکی تھیں، مجھ پر تو شاید کہ اوپر والے کا کرم تھا، اور شاید بزرگوں کی دعائیں ھی تھی جو اس دلدل میں غرق ھونے سے بال بال بچ گیا، جس کا سہرا صرف اور صرف گل زرین کو ھی جاتا تھا، جس نے مجھے ھر قدم پر ھر برائی سے بچانے کی ھر ممکن کوشش کی، ھر تقریب میں ھر محفل میں ھوٹلوں کلب وغیرہ پر اسکی نظر مجھ پر ھی رھتی تھی، اور جہاں ھی میرے قدم ذرا ڈگمگائے، وہ نہ جانے کس طرح قدرتی طور پر میرے سامنے ڈھال بن کر آجاتی تھی، وہ ھمیشہ مجھے ان سب رنگین خرافات سے بچنے کی تلقین کرتی رھتی، اور مجھے میری فیملی کے بارے میں انکی اچھی پرورش اور بہترین تعلقات کے بگڑ جانے کے خوف سے ڈراتی بھی رھتی تھی، اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے میرے بچوں اور بیگم سے غائبانہ کافی دلی لگاؤ بھی تھا،!!!!!!!
    -----------------------------------
    جہاں اس قسم کی رنگین محفلیں اور عیاشی کا سامان موجود ھو تو لوگوں کو بھٹکنے میں دیر نہیں لگتی، اکثر لوگوں نے وہاں پر شادیاں بھی کرلیں تھی، اور ان میں سے اکثر لوگوں کی پاکستان کی گھریلو زندگی برباد ھوچکی تھیں، مجھ پر تو شاید کہ اوپر والے کا کرم تھا، اور شاید بزرگوں کی دعائیں ھی تھی جو اس دلدل میں غرق ھونے سے بال بال بچ گیا، جس کا سہرا صرف اور صرف گل زرین کو ھی جاتا تھا، جس نے مجھے ھر قدم پر ھر برائی سے بچانے کی ھر ممکن کوشش کی، ھر تقریب میں ھر محفل میں ھوٹلوں کلب وغیرہ پر اسکی نظر مجھ پر ھی رھتی تھی، اور جہاں ھی میرے قدم ذرا ڈگمگائے، وہ نہ جانے کس طرح قدرتی طور پر میرے سامنے ڈھال بن کر آجاتی تھی، وہ ھمیشہ مجھے ان سب رنگین خرافات سے بچنے کی تلقین کرتی رھتی، اور مجھے میری فیملی کے بارے میں انکی اچھی پرورش اور بہترین تعلقات کے بگڑ جانے کے خوف سے ڈراتی بھی رھتی تھی، اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے میرے بچوں اور بیگم سے غائبانہ کافی دلی لگاؤ بھی تھا،!!!!!!!

    اشک آباد میں رھتے ھوئے مجھے چھ مہینے سے زیادہ ھوچکے تھے، وہاں کے ماحول اور کلچر سے کافی حد تک واقف بھی ھو گیا تھا، زبان کا بھی اب کوئی مسئلہ نہیں رھا تھا سمجھنے اور سمجھانے تک تو عبور حاصل ھو ھی گیا تھا، اب تو میرے ساتھ میرا بھانجا بھی تھا، اس نے یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی ایک الگ دنیا بنائی ھوئی تھی، وہ بھی یہاں پر بہت خوش تھا، تنخواہ اتنی زیادہ تو نہیں تھی، لیکن جو بھی ملتی تھی وہ اپنی والدہ کو پاکستان بھیج دیتا تھا، باقی کے اخراجات یہاں پر میرے کھاتے سے ھی پورے ھوتے تھے، کھانا پینا رھنے سہنے کے اخراجات تو کمپنی ھی برداشت کرتی تھی، اور باقی کچھ جیب خرچ میں بھی دے دیتا تھا، اسکے آنے سے میں بھی کچھ مطمئن ھوگیا تھا، کیونکہ بیگم بھی اس کے اجانے سے پرسکون تھیں، ایک اعتماد اور بھروسہ تو پہلے ھی تھا اور بھانجے کے آنے سے مزید وہ بے فکر ھوگئی تھیں،!!!!!!!

    ھماری خادمہ تو کچھ عرصہ تک تو بہت خوش تھیں، کیونکہ اسے کمپنی کی طرف سے معاوضہ کے ساتھ ساتھ ھماری طرفسے بھی کچھ نہ کچھ اوپر سے بخشش کا بھی آسرا ھوگیا تھا، مگر کچھ دنوں سے میں محسوس کررھا تھا کہ اس کی ضرورتوں میں اضافہ ھوتا چلا گیا، وہ گھر سے بھی کھانے پینے کی چیزیں اپنے گھر لے جانے لگی تھی، مگر ایک بات تھی کہ وہ پہلے پوچھ لیتی تھی، اور ھم بھی انکار نہیں کرتے تھے، کہ وہ ھماری اتنی خدمت کرتی ھے کوئی بات نہیں، لیکن پریشانی اس بات کی تھی کہ روز بروز گھر کا خرچ اب بڑھتا ھی چلا جارھا تھا، ایک دن ھمارے چیرمین صاحب نے مجھ سے پوچھ ھی لیا کہ،!!!! دوسروں کی بنسبت اب تمھارے گھر کا خرچ کچھ زیادہ ھی ھوتا جارھا ھے،!!!!!! مجھے اس وقت کچھ زیادہ ھی شرمندگی ھوئی، کہ انہوں نے اب تک تو ایسا سوال کبھی نہیں کیا تھا، بلکہ جو بھی میں ماھانہ گھر کا خرچ بنا کر انکے سامنے رکھتا تھا، اسے وہ منظور کرلیتے تھے، شروع شروع میں تو گھر کے کرائے اور خادمہ کی تنخواہ کے علاوہ، ھم تین کے کھانے پینے کا خرچ 200 ڈالر سے زیادہ نہیں آتا تھا، لیکن آھستہ آھستہ خرچ کچھ بڑھتا ھی چلا گیا، دو تین مہینے بعد 300 ڈالر تک خرچہ پہنچ چکا تھا، مگر اس وقت تک کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا، اسی وجہ سے میں نے بھی گھر کے خرچ پر کوئی پابندی نہیں کی، کھلا ھی خرچ کرتا رھا، یہان تک کہ اسی گھر کے خرچہ میں گھر پر چھوٹی موٹی دعوتیں بھی ھونے لگی تھیں، اس طرح صرف گھر کا خرچ اب 450 ڈالر تک پہنچ گیا تھا،!!!!!!

    مجھے بھی ھمارے چیرمین کے پوچھنے پر خیال آیا کہ ھم ان کی شرافت سے کچھ زیادہ ھی ناجائز فائدہ اٹھا رھے تھے، میں ان سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کچھ فضول خرچیوں کا بھی ذکر خیر آیا تو میں نے جواباً کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ آئندہ آپکو کسی شکائت کا موقع نہیں دوں، انہوں نے میری بات پر ھی مجھے شرمندگی سے بچانے کیلئے کہا کہ،!!!!! میں نہیں چاھتا کہ آپ لوگوں کو پردیس میں کوئی تکلیف ھو میں ھر طرح کا آرام اورسہولتیں سب کو ان کے اختیارات کی مناسبت سے دینا چاھتا ھوں، لیکن میں بھی آگے بھی کمپنی کے ڈائریکٹران کے سامنے جوابدہ ھوں،
    ،!!!! انہوں نے تو یہ کہہ کر مجھے ایک شرمندگی میں ڈال دیا تھا، اور میں بھی زیادتی پر زیادتی کئے جارھا تھا، جو بھی خرچہ ھو رھا تھا سارے کا سارا کمپنی کے کھاتے میں ڈالتا جارھا تھا، میں نے اسکے بعد سب سے پہلے تمام دعوتوں پر پابندی لگائی، اور تمام اخراجات کو خود بھی چیک کرنے لگا، کبھی میرا دوست خرچہ کرتا تھا، تو کبھی ڈرائیور کے ھاتھوں کچھ نہ کچھ منگا لیتے تھے، اور اکثر تو ھمارے گھر کی خادمہ ھی گھر کا سودا لاتی تھی، اور وہ سب لوگ جو بھی مجھے خرچہ لکھاتے تھے وہی میں لکھ کر گھر کے کھاتے میں چڑھا لیتا تھا،!!!!!!!

    اس دن کے بعد سے میں نے سب کو منع کردیا کہ گھر کا سودا صرف میری نگرانی میں آئے گا، اور اگر کسی نے کسی بھی چیز کا حساب لینا ھو تو بھی وہ ھر ایک چیز کا الگ الگ حساب دے گا، بعد میں خود ھی ڈرائیور کے ساتھ ھی بازار جاکر گھر کا سودا لانے لگا بعض اوقات جب کبھی کچھ اکھٹا گھر کے لئے سودا لانا ھو تو اپنے بھانجے اور دوست کو بھی مدد کے لئے ساتھ لے لیتا تھا، اور خادمہ سے تو منگانا بھی چھوڑ دیا تھا، اس سے کہہ دیا تھا کہ پکا ھوا کھانا گھر لے جاسکتی ھے مگر اس کے علاوہ اور کسی چیز کو لے جانے کی ضرورت نہیں ھے، کیونکہ ھم پر اب پابندی لگ چکی ھے،!!!!! اس طرح احتیاط کرنے سے اس مہینے خرچہ 300 ڈالر تک ھوا، تو مجھے کچھ سکون حاصل ھوا، اسکے بعد سے ھمارے کیا سب کے اخراجات کو ان کے عہدہ کو دیکھتے ھوئے ایک حد تک مقرر کردیا گیا، اور ھمارے گھر کے مہینے کا خرچ 300 ڈالر کردیا گیا، جس میں کم سے کم تین افراد کا مجموعی خرچہ شامل تھا، گھر کے کرایہ اور خادمہ کی تنخواہ کے علاوہ، اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ھماری خادمہ کچھ ناراض اور خاموش سی رھنے لگی، اسکے علاوہ گھر کے کاموں میں اسکی دلچسپی کم ھوگئی تھی، کھانا بھی وہ اب کچھ صحیح دھیان لگا کر نہیں پکا رھی تھی، اور پھر اس نے زرین گل پر بھی اس گھر میں آنے پر پابندی لگا دی تھی، جو مجھے ایک دن شام کو گل کی ھی زبانی معلوم ھوا، جب وہ کچھ دنوں تک غائب رھنے کے بعد دفتر میں ملنے کیلئے آئی تھی، اس نے یہ بھی کہا کہ،!!!!!! اس کو آپکی ان پابندیوں سے دکھ پہنچا ھے وہ سمجھتی ھے کہ آپ نے اس پر شک کیا ھے کہ وہ گھر کے خرچہ میں سے کچھ بچاتی ھے، اس لئے اس نے مجھ پر بھی گھر آنے سے پابندی لگا دی ھے، مجھے یہ سن کر بہت ھی دکھ ھوا، کیونکہ ھم نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، بلکہ اخراجات کم کرنے کیلئے یہ سب کچھ اقدامات اٹھائے تھے،!!!!!!
     
  4. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میرے لئے بھی یہ ایک مشکل تھی کہ اس کے سامنے کسی بھی ایسی محفلوں میں جانے سے پرہیز کروں، وہاں پر میرے اس بھانجے کے پہنچتے ھی مجھے کچھ محتاط ھونا پڑا، وہ ایک 21- 22 سال کا جوان اور اسمارٹ لڑکا تھا، وہان کی لڑکیاں تو اسکی دیوانی ھوگیں، مگر وہ مجھے دیکھ کر شروع شروع میں بچتا رھا اسکے علاوہ بھی اسے وھاں کی زبان سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انگلش بولنے میں بھی کچھ کمزور تھا، لیکن بعد میں وہ بھی آھستہ آھستہ انگلش اور روسی زبان پر مجھ سے کچھ زیادہ ھی حاوی ھو گیا تھا،!!!!!!

    وہ مجھ سے بچ رھا تھا اور میں بھی کچھ اس کے سامنے اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ھوا تھا، اور ساتھ ھی اس کی بہت ھی خاطر مدارات میں بھی کرتا، اسے میں اپنے ساتھ ھی انتظامیہ سے اجازت لے کر اپنے ھی گھر میں لے آیا اور اسے اپنے برابر والے گیسٹ روم میں ٹھرا دیا تھا، ویسے تو وہ چھوٹا سا کمرہ تھا لیکن اس سے تو بہتر تھا جہاں اسے پہلے جونئر اسٹاف کی رھائش گاہ میں رکھا گیا تھا، وہاں پر ایک کمرے میں کم سے کم چار لوگ رھتے تھے، وہ میرے پاس آجانے سے بہت خوش تھا، اور میرا شکر گزار بھی تھا کہ میں نے اسے وہاں سے بلوا لیا، اب مجھے بھی یقین ھو چلا تھا کہ شاید اب وہ میری جاسوسی کرنے کے بجائے میرے بارے میں کوئی غلط تاثر قائم نہیں کرے گا، اور نہ ھی کسی بھی قسم کی رپورٹ پاکستان میں بھیجے گا، جیسا کہ وہ ھماری بیگم یعنی اسکی مامی سے پاکستان میں وعدہ کرکے آیا تھا، اسکے آنے سے مجھے بھی کافی فائدہ ھوا کیونکہ اب باھر کے گھریلو کام وغیرہ خود ھی بغیر کہے ھی نبٹا لیتا تھا، گھر کا اب سارا سودا اور ضرورت کی چیزیں خود ھی لے آتا، شروع کے دنوں میں تو میں خود ھی اس کے ساتھ تمام جگہوں کی جان پہچان کرانے میں خود ھی اسکے ساتھ جاتا رھا، لیکن بعد میں اس نے خود ھی ساری ذمہ داری سنبھال لی تھی، اور دفتر میں بھی میرے اسسٹنٹ جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اس کے ساتھ ھی کام کررھا تھا اور دونوں کو میں نے مختلف کاموں کی ذمہ داری بھی دے دی تھی، دونوں ویسے بھی ھم عمر تھے جو بعد میں بہترین دوست اور آپس میں ایک دوسرے کے رازدار بھی بن گئے تھے، ایک ساتھ دفتر میں کام کرنا باھر بھی دونوں ملکر گھومنے پھرنے بھی جاتے تھے، اور اسی کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ وہاں کے ماحول میں رھتے ھوئے وہاں کی روسی زبان اور انگلش بولنے میں اچھی خاصی مہارت حاصل کرلی تھی کہ شاید میں بھی اتنی روانی سے بول نہیں سکتا تھا،!!!!!!!

    بہرحال شکر ھے کہ میرے بھانجے کا وہاں پر دل لگ گیا تھا، وہاں ھفتہ اور اتوار کی چھٹی ھوتی تھی، وہاں پر تو جمعہ کی رات سے ھی اس کا ویک اینڈ شروع ھوجاتا تھا، وہ مجھ سے اجازت لے کر میرے اسسٹنٹ کے ساتھ چلا جاتا اور اتوار کی شام کو ھی لوٹتا تھا، وہ بہت ھی خوش تھا اور اسکی صحت اور بھی مزید بہت ھی بہتر ھوگئی تھی، وہ بھی وہاں کی رنگ برنگی محفلوں اور تقریبات میں شرکت کرکے بہت خوش ھوتا تھا، مجھے بھی ایک طرف سے اطمنان تھا کیونکہ اس کی ماں یعنی میری بہن بھی پاکستان میں اسکی وجہ سے سکون میں تھی، کہ وہ میرے پاس ھے، شاید وہ سوچتی ھوگی کہ میرے پاس رہ کر وہ کسی غلط صحبتوں اور عادتوں سے بچا رھے گا، ویسے تو کوئی اس میں بری عادت تو نہیں تھی، اسکے اخلاق میں وہاں کے لوگوں کی نظروں میں بہتر درجہ کا معیار پایا جاتا تھا، وہ ھر ایک کے ساتھ بہت جلدی ھی گھل مل جاتا تھا، اور وہاں پر ھر کوئی اس سے دوستی کرنے میں ایک فخر بھی محسوس کرتا، اس کے علاوہ وہاں کے مالکان کی نظروں میں بھی وہ ایک محنتی اور بااخلاق کارکن تھا، مجھے بھی اسکی اس مقبولیت کی وجہ سے اپنے آپ کے اندر ایک فخریہ خوشی محسوس ھو رھی تھی،!!!!!!!

    اب اسکی وجہ سے مجھے دفتر میں بھی بہت آرام ھو گیا تھا، سارے باھر کے زیادہ تر بینک کے کاموں میں بھی مجھے کافی سہولت ھو گئی تھی، مجھے بھی اب اس پر مکمل اعتماد ھوتا جارھا تھا، وہ بھی مجھ سے آھستہ آھستہ فری ھوتا جارھا تھا، اور اس نے باتوں ھی باتوں میں مجھے اس بات کا احساس دلادیا تھا کہ میں اس سے کسی قسم کی جاسوسی کی توقع نہ کروں، میں بھی اب بے فکر تھا کہ وہ پاکستان میں میرے بارے میں کوئی غلط تاثر نہیں دے گا،!!!!!!

    دفتر کے بعد وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مگن رھتا اور میں اپنے ھم عمر ساتھیوں کی محفلوں میں شریک رھتا تھا، جو زیادہ تر پاکستانی انجینئرز ھی تھے، سب بہت اچھے اخلاق اور ھمدرد تھے، بہت ھی اچھا رنگین وقت گزر رھا تھا، لیکن خوش رنگ محفلوں کی وجہ سے وہاں پر کافی عیاشیوں کی وجہ سے لوگ پیسہ بچا نہیں پا رھے تھے، اور انڈین پاکستایوں کی تعداد اس وقت اتنی زیادہ تو نہیں تھی، لیکن یورپئین اور امریکن کی تعداد کچھ زیادہ تھی، اس کے علاوہ ترکی باشندے بھی وھاں ایک اچھی خاصی تعداد میں اپنا کاروبار کررھے تھے، کہتے ھیں کہ وہاں کی مقامی زبان ترکیوں کی زبان سے بہت ملتی جلتی ھے، اور ان کے آپس کا کلچر میں بھی کافی یکسانیت پائی جاتی ھے،!!!!!

    جہاں اس قسم کی رنگین محفلیں اور عیاشی کا سامان موجود ھو تو لوگوں کو بھٹکنے میں دیر نہیں لگتی، اکثر لوگوں نے وہاں پر شادیاں بھی کرلیں تھی، اور ان میں سے اکثر لوگوں کی پاکستان کی گھریلو زندگی برباد ھوچکی تھیں، مجھ پر تو شاید کہ اوپر والے کا کرم تھا، اور شاید بزرگوں کی دعائیں ھی تھی جو اس دلدل میں غرق ھونے سے بال بال بچ گیا، جس کا سہرا صرف اور صرف گل زرین کو ھی جاتا تھا، جس نے مجھے ھر قدم پر ھر برائی سے بچانے کی ھر ممکن کوشش کی، ھر تقریب میں ھر محفل میں ھوٹلوں کلب وغیرہ پر اسکی نظر مجھ پر ھی رھتی تھی، اور جہاں ھی میرے قدم ذرا ڈگمگائے، وہ نہ جانے کس طرح قدرتی طور پر میرے سامنے ڈھال بن کر آجاتی تھی، وہ ھمیشہ مجھے ان سب رنگین خرافات سے بچنے کی تلقین کرتی رھتی، اور مجھے میری فیملی کے بارے میں انکی اچھی پرورش اور بہترین تعلقات کے بگڑ جانے کے خوف سے ڈراتی بھی رھتی تھی، اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے میرے بچوں اور بیگم سے غائبانہ کافی دلی لگاؤ بھی تھا،!!!!!!!
    -----------------------------------
    جہاں اس قسم کی رنگین محفلیں اور عیاشی کا سامان موجود ھو تو لوگوں کو بھٹکنے میں دیر نہیں لگتی، اکثر لوگوں نے وہاں پر شادیاں بھی کرلیں تھی، اور ان میں سے اکثر لوگوں کی پاکستان کی گھریلو زندگی برباد ھوچکی تھیں، مجھ پر تو شاید کہ اوپر والے کا کرم تھا، اور شاید بزرگوں کی دعائیں ھی تھی جو اس دلدل میں غرق ھونے سے بال بال بچ گیا، جس کا سہرا صرف اور صرف گل زرین کو ھی جاتا تھا، جس نے مجھے ھر قدم پر ھر برائی سے بچانے کی ھر ممکن کوشش کی، ھر تقریب میں ھر محفل میں ھوٹلوں کلب وغیرہ پر اسکی نظر مجھ پر ھی رھتی تھی، اور جہاں ھی میرے قدم ذرا ڈگمگائے، وہ نہ جانے کس طرح قدرتی طور پر میرے سامنے ڈھال بن کر آجاتی تھی، وہ ھمیشہ مجھے ان سب رنگین خرافات سے بچنے کی تلقین کرتی رھتی، اور مجھے میری فیملی کے بارے میں انکی اچھی پرورش اور بہترین تعلقات کے بگڑ جانے کے خوف سے ڈراتی بھی رھتی تھی، اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے میرے بچوں اور بیگم سے غائبانہ کافی دلی لگاؤ بھی تھا،!!!!!!!

    اشک آباد میں رھتے ھوئے مجھے چھ مہینے سے زیادہ ھوچکے تھے، وہاں کے ماحول اور کلچر سے کافی حد تک واقف بھی ھو گیا تھا، زبان کا بھی اب کوئی مسئلہ نہیں رھا تھا سمجھنے اور سمجھانے تک تو عبور حاصل ھو ھی گیا تھا، اب تو میرے ساتھ میرا بھانجا بھی تھا، اس نے یہاں اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی ایک الگ دنیا بنائی ھوئی تھی، وہ بھی یہاں پر بہت خوش تھا، تنخواہ اتنی زیادہ تو نہیں تھی، لیکن جو بھی ملتی تھی وہ اپنی والدہ کو پاکستان بھیج دیتا تھا، باقی کے اخراجات یہاں پر میرے کھاتے سے ھی پورے ھوتے تھے، کھانا پینا رھنے سہنے کے اخراجات تو کمپنی ھی برداشت کرتی تھی، اور باقی کچھ جیب خرچ میں بھی دے دیتا تھا، اسکے آنے سے میں بھی کچھ مطمئن ھوگیا تھا، کیونکہ بیگم بھی اس کے اجانے سے پرسکون تھیں، ایک اعتماد اور بھروسہ تو پہلے ھی تھا اور بھانجے کے آنے سے مزید وہ بے فکر ھوگئی تھیں،!!!!!!!

    ھماری خادمہ تو کچھ عرصہ تک تو بہت خوش تھیں، کیونکہ اسے کمپنی کی طرف سے معاوضہ کے ساتھ ساتھ ھماری طرفسے بھی کچھ نہ کچھ اوپر سے بخشش کا بھی آسرا ھوگیا تھا، مگر کچھ دنوں سے میں محسوس کررھا تھا کہ اس کی ضرورتوں میں اضافہ ھوتا چلا گیا، وہ گھر سے بھی کھانے پینے کی چیزیں اپنے گھر لے جانے لگی تھی، مگر ایک بات تھی کہ وہ پہلے پوچھ لیتی تھی، اور ھم بھی انکار نہیں کرتے تھے، کہ وہ ھماری اتنی خدمت کرتی ھے کوئی بات نہیں، لیکن پریشانی اس بات کی تھی کہ روز بروز گھر کا خرچ اب بڑھتا ھی چلا جارھا تھا، ایک دن ھمارے چیرمین صاحب نے مجھ سے پوچھ ھی لیا کہ،!!!! دوسروں کی بنسبت اب تمھارے گھر کا خرچ کچھ زیادہ ھی ھوتا جارھا ھے،!!!!!! مجھے اس وقت کچھ زیادہ ھی شرمندگی ھوئی، کہ انہوں نے اب تک تو ایسا سوال کبھی نہیں کیا تھا، بلکہ جو بھی میں ماھانہ گھر کا خرچ بنا کر انکے سامنے رکھتا تھا، اسے وہ منظور کرلیتے تھے، شروع شروع میں تو گھر کے کرائے اور خادمہ کی تنخواہ کے علاوہ، ھم تین کے کھانے پینے کا خرچ 200 ڈالر سے زیادہ نہیں آتا تھا، لیکن آھستہ آھستہ خرچ کچھ بڑھتا ھی چلا گیا، دو تین مہینے بعد 300 ڈالر تک خرچہ پہنچ چکا تھا، مگر اس وقت تک کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا، اسی وجہ سے میں نے بھی گھر کے خرچ پر کوئی پابندی نہیں کی، کھلا ھی خرچ کرتا رھا، یہان تک کہ اسی گھر کے خرچہ میں گھر پر چھوٹی موٹی دعوتیں بھی ھونے لگی تھیں، اس طرح صرف گھر کا خرچ اب 450 ڈالر تک پہنچ گیا تھا،!!!!!!

    مجھے بھی ھمارے چیرمین کے پوچھنے پر خیال آیا کہ ھم ان کی شرافت سے کچھ زیادہ ھی ناجائز فائدہ اٹھا رھے تھے، میں ان سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کچھ فضول خرچیوں کا بھی ذکر خیر آیا تو میں نے جواباً کہا کہ میں کوشش کروں گا کہ آئندہ آپکو کسی شکائت کا موقع نہیں دوں، انہوں نے میری بات پر ھی مجھے شرمندگی سے بچانے کیلئے کہا کہ،!!!!! میں نہیں چاھتا کہ آپ لوگوں کو پردیس میں کوئی تکلیف ھو میں ھر طرح کا آرام اورسہولتیں سب کو ان کے اختیارات کی مناسبت سے دینا چاھتا ھوں، لیکن میں بھی آگے بھی کمپنی کے ڈائریکٹران کے سامنے جوابدہ ھوں،
    ،!!!! انہوں نے تو یہ کہہ کر مجھے ایک شرمندگی میں ڈال دیا تھا، اور میں بھی زیادتی پر زیادتی کئے جارھا تھا، جو بھی خرچہ ھو رھا تھا سارے کا سارا کمپنی کے کھاتے میں ڈالتا جارھا تھا، میں نے اسکے بعد سب سے پہلے تمام دعوتوں پر پابندی لگائی، اور تمام اخراجات کو خود بھی چیک کرنے لگا، کبھی میرا دوست خرچہ کرتا تھا، تو کبھی ڈرائیور کے ھاتھوں کچھ نہ کچھ منگا لیتے تھے، اور اکثر تو ھمارے گھر کی خادمہ ھی گھر کا سودا لاتی تھی، اور وہ سب لوگ جو بھی مجھے خرچہ لکھاتے تھے وہی میں لکھ کر گھر کے کھاتے میں چڑھا لیتا تھا،!!!!!!!

    اس دن کے بعد سے میں نے سب کو منع کردیا کہ گھر کا سودا صرف میری نگرانی میں آئے گا، اور اگر کسی نے کسی بھی چیز کا حساب لینا ھو تو بھی وہ ھر ایک چیز کا الگ الگ حساب دے گا، بعد میں خود ھی ڈرائیور کے ساتھ ھی بازار جاکر گھر کا سودا لانے لگا بعض اوقات جب کبھی کچھ اکھٹا گھر کے لئے سودا لانا ھو تو اپنے بھانجے اور دوست کو بھی مدد کے لئے ساتھ لے لیتا تھا، اور خادمہ سے تو منگانا بھی چھوڑ دیا تھا، اس سے کہہ دیا تھا کہ پکا ھوا کھانا گھر لے جاسکتی ھے مگر اس کے علاوہ اور کسی چیز کو لے جانے کی ضرورت نہیں ھے، کیونکہ ھم پر اب پابندی لگ چکی ھے،!!!!! اس طرح احتیاط کرنے سے اس مہینے خرچہ 300 ڈالر تک ھوا، تو مجھے کچھ سکون حاصل ھوا، اسکے بعد سے ھمارے کیا سب کے اخراجات کو ان کے عہدہ کو دیکھتے ھوئے ایک حد تک مقرر کردیا گیا، اور ھمارے گھر کے مہینے کا خرچ 300 ڈالر کردیا گیا، جس میں کم سے کم تین افراد کا مجموعی خرچہ شامل تھا، گھر کے کرایہ اور خادمہ کی تنخواہ کے علاوہ، اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ھماری خادمہ کچھ ناراض اور خاموش سی رھنے لگی، اسکے علاوہ گھر کے کاموں میں اسکی دلچسپی کم ھوگئی تھی، کھانا بھی وہ اب کچھ صحیح دھیان لگا کر نہیں پکا رھی تھی، اور پھر اس نے زرین گل پر بھی اس گھر میں آنے پر پابندی لگا دی تھی، جو مجھے ایک دن شام کو گل کی ھی زبانی معلوم ھوا، جب وہ کچھ دنوں تک غائب رھنے کے بعد دفتر میں ملنے کیلئے آئی تھی، اس نے یہ بھی کہا کہ،!!!!!! اس کو آپکی ان پابندیوں سے دکھ پہنچا ھے وہ سمجھتی ھے کہ آپ نے اس پر شک کیا ھے کہ وہ گھر کے خرچہ میں سے کچھ بچاتی ھے، اس لئے اس نے مجھ پر بھی گھر آنے سے پابندی لگا دی ھے، مجھے یہ سن کر بہت ھی دکھ ھوا، کیونکہ ھم نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، بلکہ اخراجات کم کرنے کیلئے یہ سب کچھ اقدامات اٹھائے تھے،!!!!!!
     
  5. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ھماری خادمہ کچھ ناراض اور خاموش سی رھنے لگی، اسکے علاوہ گھر کے کاموں میں اسکی دلچسپی کم ھوگئی تھی، کھانا بھی وہ اب کچھ صحیح دھیان لگا کر نہیں پکا رھی تھی، اور پھر اس نے زرین گل پر بھی اس گھر میں آنے پر پابندی لگا دی تھی، جو مجھے ایک دن شام کو گل کی ھی زبانی معلوم ھوا، جب وہ کچھ دنوں تک غائب رھنے کے بعد دفتر میں ملنے کیلئے آئی تھی، اس نے یہ بھی کہا کہ،!!!!!! اس کو آپکی ان پابندیوں سے دکھ پہنچا ھے وہ سمجھتی ھے کہ آپ نے اس پر شک کیا ھے کہ وہ گھر کے خرچہ میں سے کچھ بچاتی ھے، اس لئے اس نے مجھ پر بھی گھر آنے سے پابندی لگا دی ھے، مجھے یہ سن کر بہت ھی دکھ ھوا، کیونکہ ھم نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، بلکہ اخراجات کم کرنے کیلئے یہ سب کچھ اقدامات اٹھائے تھے،!!!!!!

    اس کے علاؤہ کچھ دنوں سے میں یہ محسوس کررھا تھا کہ ھماری خادمہ نے ھمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھارھی تھی، اور نہ ھی واپسی پر وہ اپنے ساتھ کھانا لے کر جا رھی تھی،!!! گل نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا تھا، میں بھی زبان کی وجہ میں اسے سمجھا نہیں پا رھا تھا کہ ھمیں اس پر کوئی شک نہیں ھے، بلکہ ھماری کمپنی کی پابندیوں کی وجہ سے ھم نے اپنے اخراجات کم کرنے کیلئے یہ اقدامات اٹھائے ھیں، میں نے اپنے ڈرائیور کی مدد سے اور دفتر کے دوسرے ساتھیوں سے بھی کوشش کی کہ اس کی غلط فہمی دور ھوجائے، لیکن ساری محنت بیکار ھی گئی، اب کیا کرسکتے تھے، میرا دوست جو میرے ساتھ ھی تھا، اس نے بھی کوشش کی، لیکن اسکی خاموشی میں کوئی فرق نہیں آیا، اس کے علاوہ ھم نے اس دفعہ اپنی جیب سے اسے تنخواہ کے علاوہ مزید کچھ دینا چاھا، وہ بھی اس نے لینے سے انکار کردیا، اس ماحول میں اچھا نہیں لگ رھا تھا کہ ھم گھرآئیں اور اس طرح اسکی بے دلی سے خدمات کا سامنا کریں، میں نے اس صورت حال کو دیکھ کر گھر پر لنچ کرنا چھوڑ دیا اور اپنے بھانجے کے ساتھ دفتر میں ھی باھر سے کچھ منگا کرکھانا شروع کردیا، میرے دوست نے بھی دفتر میں دوپہر میں آنا چھوڑ دیا وہ بھی باھر سے ھی دوپہر کے کھانے کا انتظام کرلیا تھا، ساتھ ھی خادمہ کو بھی دوپہر کے کھانے کی تیاری کے لئے منع کردیا، اسے شاید یا تو کوئی باھر کسی اور جگہ کوئی نوکری اچھی مل گئی تھی، یا پھر کچھ اس میں خودداری ایسی تھی کہ اس نے اس غلط فہمی کو اپنے دل سے لگا کر بیٹھ گئی تھی،!!!

    ھمیں بھی اس طرح اس گھر میں اچھا نہیں لگ رھا تھا، اسی اثنا میں ھمارے دفتر کو شفٹ کرنے کی تیاریاں ھونے لگیں، کیونکہ اس بڑے ھوٹل کے اندر رھتے ھوئے ایک اچھی خاصی رقم کرایہ میں ھی چلی جاتی تھی، دوسرے یہ کہ ھمارے پروجیکٹ بھی کافی فاصلے پر تھے، انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ کسی بڑے پروجیکٹ کے ساتھ ھی آفس کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے، اس لئے وہاں پر انہوں نے ھر ایک سیکشن کیلئے مختلف سائز کے دفاتر بنادیئے، جو ھماری رھائیش سے کافی فاصلے پر تھے، اسی وجہ کی بناء پر ھمیں اپنے مکان کو چھوڑنا پڑا، اور ساتھ ھی ھم نے اپنی خادمہ کو بھی اطلاع دے دی کہ ھم اپنا مکان بدل رھے ھیں، کیا وہ اسی تنخواہ میں اپنی خدمات دوسرے مکان میں انجام دینے کو تیار ھے، اس نے جواباً کہا کہ اس کے لئے بہت دور پڑے گا اس لئے اس کا حساب کردیا جائے، اس کا حساب کتاب تو دفتر سے ھو گیا، لیکن ھم ایک بہترین خادمہ سے ھاتھ دھو بیٹھے، دوسرے علاقے میں ھمیں جو مکان ملا وہ پہلے مکان جیسا تو نہیں تھا لیکن بس گزارے کے قابل تھا، وہاں پر مکان مالک نے ھی ھمیں خادمہ فراھم کی تھی، جو انکے گھر پر کام کرتی تھی، مگر اس نے کھانا پکانے سے منع کردیا تھا، صرف گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونے تک کی ذمہ داری ھی قبول کی تھی، ھم نے بھی حامی بھر لی، کیونکہ ایک تو مالک مکان کی ذمہ داری تھی، دوسرے مکان کے کرایہ میں ھی اس خادمہ کی تنخواہ بھی شامل تھی،!!!!!!!

    نئے گھر کے ساتھ بازار کچھ زیادہ ھی نذدیک تھے، علاقہ تو اچھا ھی تھا، اکثر ھم لوگ باھر سے ھی کھانا کھانے لگے، کبھی کبھی خود بھی گھر پر کھانا بنالیتے تھے، جس میں اپنے بھانجے کی مدد کچھ زیادہ ھی رھتی تھی، اب تو یہاں ھم دفتر سے دوپہر میں تو بالکل نہیں آتے تھے، کیونکہ کمپنی نے ھم تمام اسٹاف کیلئے دفتر پر ھی کھانے کا انتظام کرلیا تھا، جس کے لئے انہوں نے پاکستان سے ھی ایک ماھر کھانا بنانے والے کو بلوایا تھا، ھمارے مالکان نے اس کیلئے ھمارے دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ھی ڈائیننگ ھال اور ساتھ ھی کچن کا بھی بہترین انتظام کر دیا تھا، میرا آفس بھی بہت ھی کشادہ اور پہلے سے خوبصورت تھا، عین خاص سردیوں کے دنوں کا موسم میں ھم لوگ شفٹ ھوئے تھے، وہاں پر سردی بھی بہت زیادہ پڑتی تھی اور اسکے ساتھ برف باری بھی اچھی خاصی ھوتی تھی، دفتر میں ھیٹر چلنے کے باوجوڈ بھی سردی پر قابو پانا مشکل ھو جاتا تھا، وہاں پر ھر گھر پرکمرے گرم رکھنے کے لئے بڑے بڑے بوائلر کے ذریئے ھر کمرے میں گرم پانی کو ایک ایسے ھیٹر نما آلات میں سے گزارا جاتا تھا جس کی وجہ سے کمرے خاصے گرم رھتے تھے، اسر دوران اس نئے مکان کو بھی تبدیل کرنا پڑا کیونکہ اس سے بہترین ایک اور ھمیں مکان مل چکا تھا، اب اس مکان میں ھمیں بہت ھی اچھا محسوس ھورھا تھا، کیونکہ ایک تو بہترین ڈیکوریشن کے ساتھ آراستہ سجے ھوئے کمرے اور چار بیڈ رومز ڈرائنگ روم اور ڈائینگ روم بھی خوبصورت فرنیچر سے مزین تھے، مگر ھاں اس کا کرایہ کچھ زیادہ تھا، جسکی منظوری کمپنی نے دے دی تھی مگر ایک اور دوست کے اضافے کے ساتھ، جو کہ ایڈمن سیکشن میں ایک نیا اضافہ بھی تھا اور پاکستانی بھی تھا، اب ھم یہاں اس نئے گھر میں چار افراد رہ رھے تھے، یہاں بھی خادمہ کا انتظام گھر کے مالک نے ھی کردیا تھا، جو واقعی پہلے سے بہت اچھی تھی، گھر کے سارے کام کے علاوہ کھانا پکانے میں خاص عبور حاصل تھا، کچھ دنوں تک روسی کھانے کا ذائقہ چکھنا پڑا مگر کچھ دنوں بعد اسے ھمارے چوتھے دوست نے اسے پاکستانی کھانے بنانے میں بھی ماھر کردیا !!!!!!

    سردیوں کے موسم میں گھر سے باھر نکلنا محال ھوجاتا تھا، اس لئے زیادہ تر وقت گھر پر ھی گزارتے تھے، بس کبھی کبھار کسی پارٹی وغیرہ میں چلے جاتے تھے، لیکن بہت کم، مگر گل کی کمی بہت محسوس ھوتی تھی، ایک دن اتفاق سے وہ ھمارا نیا دفتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے آفس کو تلاش کرتی ھوئی میرے کمرے کے دروازے سامنے کھڑی ھو کر مجھے تکتی رھی،!!! میں نے کوئی دھیان نہیں دیا کیونکہ میں کچھ زیادہ ھی کام کی مصروفیت میں گم تھا اور جیسے ھی میں نے کچھ محسوس کرتے ھوئے کہ مجھے کوئی دیکھ رھا ھے، میں نے اپنی گردن کو اوپر اٹھایا تو میرے حیرت کی انتہا ھی نہیں رھی، سامنے میں نے اسے کھڑا پایا، جس کی کمی میں کئی دنوں سے محسوس کررھا تھا،!!!!!!!!
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ ھماری خادمہ کچھ ناراض اور خاموش سی رھنے لگی، اسکے علاوہ گھر کے کاموں میں اسکی دلچسپی کم ھوگئی تھی، کھانا بھی وہ اب کچھ صحیح دھیان لگا کر نہیں پکا رھی تھی، اور پھر اس نے زرین گل پر بھی اس گھر میں آنے پر پابندی لگا دی تھی، جو مجھے ایک دن شام کو گل کی ھی زبانی معلوم ھوا، جب وہ کچھ دنوں تک غائب رھنے کے بعد دفتر میں ملنے کیلئے آئی تھی، اس نے یہ بھی کہا کہ،!!!!!! اس کو آپکی ان پابندیوں سے دکھ پہنچا ھے وہ سمجھتی ھے کہ آپ نے اس پر شک کیا ھے کہ وہ گھر کے خرچہ میں سے کچھ بچاتی ھے، اس لئے اس نے مجھ پر بھی گھر آنے سے پابندی لگا دی ھے، مجھے یہ سن کر بہت ھی دکھ ھوا، کیونکہ ھم نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، بلکہ اخراجات کم کرنے کیلئے یہ سب کچھ اقدامات اٹھائے تھے،!!!!!!

    اس کے علاؤہ کچھ دنوں سے میں یہ محسوس کررھا تھا کہ ھماری خادمہ نے ھمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی نہیں کھارھی تھی، اور نہ ھی واپسی پر وہ اپنے ساتھ کھانا لے کر جا رھی تھی،!!! گل نے بھی گھر آنا چھوڑ دیا تھا، میں بھی زبان کی وجہ میں اسے سمجھا نہیں پا رھا تھا کہ ھمیں اس پر کوئی شک نہیں ھے، بلکہ ھماری کمپنی کی پابندیوں کی وجہ سے ھم نے اپنے اخراجات کم کرنے کیلئے یہ اقدامات اٹھائے ھیں، میں نے اپنے ڈرائیور کی مدد سے اور دفتر کے دوسرے ساتھیوں سے بھی کوشش کی کہ اس کی غلط فہمی دور ھوجائے، لیکن ساری محنت بیکار ھی گئی، اب کیا کرسکتے تھے، میرا دوست جو میرے ساتھ ھی تھا، اس نے بھی کوشش کی، لیکن اسکی خاموشی میں کوئی فرق نہیں آیا، اس کے علاوہ ھم نے اس دفعہ اپنی جیب سے اسے تنخواہ کے علاوہ مزید کچھ دینا چاھا، وہ بھی اس نے لینے سے انکار کردیا، اس ماحول میں اچھا نہیں لگ رھا تھا کہ ھم گھرآئیں اور اس طرح اسکی بے دلی سے خدمات کا سامنا کریں، میں نے اس صورت حال کو دیکھ کر گھر پر لنچ کرنا چھوڑ دیا اور اپنے بھانجے کے ساتھ دفتر میں ھی باھر سے کچھ منگا کرکھانا شروع کردیا، میرے دوست نے بھی دفتر میں دوپہر میں آنا چھوڑ دیا وہ بھی باھر سے ھی دوپہر کے کھانے کا انتظام کرلیا تھا، ساتھ ھی خادمہ کو بھی دوپہر کے کھانے کی تیاری کے لئے منع کردیا، اسے شاید یا تو کوئی باھر کسی اور جگہ کوئی نوکری اچھی مل گئی تھی، یا پھر کچھ اس میں خودداری ایسی تھی کہ اس نے اس غلط فہمی کو اپنے دل سے لگا کر بیٹھ گئی تھی،!!!

    ھمیں بھی اس طرح اس گھر میں اچھا نہیں لگ رھا تھا، اسی اثنا میں ھمارے دفتر کو شفٹ کرنے کی تیاریاں ھونے لگیں، کیونکہ اس بڑے ھوٹل کے اندر رھتے ھوئے ایک اچھی خاصی رقم کرایہ میں ھی چلی جاتی تھی، دوسرے یہ کہ ھمارے پروجیکٹ بھی کافی فاصلے پر تھے، انہوں نے یہی بہتر سمجھا کہ کسی بڑے پروجیکٹ کے ساتھ ھی آفس کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے، اس لئے وہاں پر انہوں نے ھر ایک سیکشن کیلئے مختلف سائز کے دفاتر بنادیئے، جو ھماری رھائیش سے کافی فاصلے پر تھے، اسی وجہ کی بناء پر ھمیں اپنے مکان کو چھوڑنا پڑا، اور ساتھ ھی ھم نے اپنی خادمہ کو بھی اطلاع دے دی کہ ھم اپنا مکان بدل رھے ھیں، کیا وہ اسی تنخواہ میں اپنی خدمات دوسرے مکان میں انجام دینے کو تیار ھے، اس نے جواباً کہا کہ اس کے لئے بہت دور پڑے گا اس لئے اس کا حساب کردیا جائے، اس کا حساب کتاب تو دفتر سے ھو گیا، لیکن ھم ایک بہترین خادمہ سے ھاتھ دھو بیٹھے، دوسرے علاقے میں ھمیں جو مکان ملا وہ پہلے مکان جیسا تو نہیں تھا لیکن بس گزارے کے قابل تھا، وہاں پر مکان مالک نے ھی ھمیں خادمہ فراھم کی تھی، جو انکے گھر پر کام کرتی تھی، مگر اس نے کھانا پکانے سے منع کردیا تھا، صرف گھر کی صفائی ستھرائی اور کپڑے دھونے تک کی ذمہ داری ھی قبول کی تھی، ھم نے بھی حامی بھر لی، کیونکہ ایک تو مالک مکان کی ذمہ داری تھی، دوسرے مکان کے کرایہ میں ھی اس خادمہ کی تنخواہ بھی شامل تھی،!!!!!!!

    نئے گھر کے ساتھ بازار کچھ زیادہ ھی نذدیک تھے، علاقہ تو اچھا ھی تھا، اکثر ھم لوگ باھر سے ھی کھانا کھانے لگے، کبھی کبھی خود بھی گھر پر کھانا بنالیتے تھے، جس میں اپنے بھانجے کی مدد کچھ زیادہ ھی رھتی تھی، اب تو یہاں ھم دفتر سے دوپہر میں تو بالکل نہیں آتے تھے، کیونکہ کمپنی نے ھم تمام اسٹاف کیلئے دفتر پر ھی کھانے کا انتظام کرلیا تھا، جس کے لئے انہوں نے پاکستان سے ھی ایک ماھر کھانا بنانے والے کو بلوایا تھا، ھمارے مالکان نے اس کیلئے ھمارے دفتر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں ھی ڈائیننگ ھال اور ساتھ ھی کچن کا بھی بہترین انتظام کر دیا تھا، میرا آفس بھی بہت ھی کشادہ اور پہلے سے خوبصورت تھا، عین خاص سردیوں کے دنوں کا موسم میں ھم لوگ شفٹ ھوئے تھے، وہاں پر سردی بھی بہت زیادہ پڑتی تھی اور اسکے ساتھ برف باری بھی اچھی خاصی ھوتی تھی، دفتر میں ھیٹر چلنے کے باوجوڈ بھی سردی پر قابو پانا مشکل ھو جاتا تھا، وہاں پر ھر گھر پرکمرے گرم رکھنے کے لئے بڑے بڑے بوائلر کے ذریئے ھر کمرے میں گرم پانی کو ایک ایسے ھیٹر نما آلات میں سے گزارا جاتا تھا جس کی وجہ سے کمرے خاصے گرم رھتے تھے، اسر دوران اس نئے مکان کو بھی تبدیل کرنا پڑا کیونکہ اس سے بہترین ایک اور ھمیں مکان مل چکا تھا، اب اس مکان میں ھمیں بہت ھی اچھا محسوس ھورھا تھا، کیونکہ ایک تو بہترین ڈیکوریشن کے ساتھ آراستہ سجے ھوئے کمرے اور چار بیڈ رومز ڈرائنگ روم اور ڈائینگ روم بھی خوبصورت فرنیچر سے مزین تھے، مگر ھاں اس کا کرایہ کچھ زیادہ تھا، جسکی منظوری کمپنی نے دے دی تھی مگر ایک اور دوست کے اضافے کے ساتھ، جو کہ ایڈمن سیکشن میں ایک نیا اضافہ بھی تھا اور پاکستانی بھی تھا، اب ھم یہاں اس نئے گھر میں چار افراد رہ رھے تھے، یہاں بھی خادمہ کا انتظام گھر کے مالک نے ھی کردیا تھا، جو واقعی پہلے سے بہت اچھی تھی، گھر کے سارے کام کے علاوہ کھانا پکانے میں خاص عبور حاصل تھا، کچھ دنوں تک روسی کھانے کا ذائقہ چکھنا پڑا مگر کچھ دنوں بعد اسے ھمارے چوتھے دوست نے اسے پاکستانی کھانے بنانے میں بھی ماھر کردیا !!!!!!

    سردیوں کے موسم میں گھر سے باھر نکلنا محال ھوجاتا تھا، اس لئے زیادہ تر وقت گھر پر ھی گزارتے تھے، بس کبھی کبھار کسی پارٹی وغیرہ میں چلے جاتے تھے، لیکن بہت کم، مگر گل کی کمی بہت محسوس ھوتی تھی، ایک دن اتفاق سے وہ ھمارا نیا دفتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے آفس کو تلاش کرتی ھوئی میرے کمرے کے دروازے سامنے کھڑی ھو کر مجھے تکتی رھی،!!! میں نے کوئی دھیان نہیں دیا کیونکہ میں کچھ زیادہ ھی کام کی مصروفیت میں گم تھا اور جیسے ھی میں نے کچھ محسوس کرتے ھوئے کہ مجھے کوئی دیکھ رھا ھے، میں نے اپنی گردن کو اوپر اٹھایا تو میرے حیرت کی انتہا ھی نہیں رھی، سامنے میں نے اسے کھڑا پایا، جس کی کمی میں کئی دنوں سے محسوس کررھا تھا،!!!!!!!!
     
  7. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سردیوں کے موسم میں گھر سے باھر نکلنا محال ھوجاتا تھا، اس لئے زیادہ تر وقت گھر پر ھی گزارتے تھے، بس کبھی کبھار کسی پارٹی وغیرہ میں چلے جاتے تھے، لیکن بہت کم، مگر گل کی کمی بہت محسوس ھوتی تھی، ایک دن اتفاق سے وہ ھمارا نیا دفتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے آفس کو تلاش کرتی ھوئی میرے کمرے کے دروازے سامنے کھڑی ھو کر مجھے تکتی رھی،!!! میں نے کوئی دھیان نہیں دیا کیونکہ میں کچھ زیادہ ھی کام کی مصروفیت میں گم تھا اور جیسے ھی میں نے کچھ محسوس کرتے ھوئے کہ مجھے کوئی دیکھ رھا ھے، میں نے اپنی گردن کو اوپر اٹھایا تو میرے حیرت کی انتہا ھی نہیں رھی، سامنے میں نے اسے کھڑا پایا، جس کی کمی میں کئی دنوں سے محسوس کررھا تھا،!!!!!!!!

    میرے سامنے میرا اسسٹنٹ مراد بیٹھا ھوا تھا، اس نے بھی جب اسے دیکھا تو اٹھ کھڑا ھوا اور گل کو بیٹھنے کی دعوت دی، مراد تو اٹھ کر چلا گیا ، اور گل اسکی جگہ میرے سامنے آکر بیٹھ گئی، اس نے بیٹھتے ھی غصہ سے مجھ پر روسی زبان میں برسنا شروع کردیا، میں روسی زبان جانتا تو تھا، لیکن ایک حد تک، اس کے بعد میرا دماغ سمجھنے سے قاصر ھوجاتا تھا، لیکن جو وہ کہہ رھی تھی میں اسکے چہرے کے تاثرات سے سمجھ بھی رھا تھا، لیکن وہ مجھے بالکل صفائی کا موقع نہیں دے رھی تھی، سارے دفتر کے ساتھی اسے اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے میرے پاس میری مدد کیلئے کوئی بھی نہیں آیا لیکن سب لوگوں نے شاید پہلی مرتبہ اسکے غصہ کا یہ انداز دیکھا ھو گا، اس لئے سب اپنے اپنے کیبن میں بیٹھے اس کی اس انداز سے کہی ھوئی باتیں سن بھی رھے تھے، کچھ خاموش تھے اور کچھ ایک دوسرے سے آھستہ آہستہ اسی کے متعلق باتیں بھی کررھے تھے، مجھے بھی شرمندگی ھورھی تھی، جیسے ھی اسکا غصہ کچھ کم ھوا تو ٹیبل پر اپنا سر رکھ کر رونے لگی، آفس کی چند دو لڑکیاں آئیں اور اسے اپنے کمرے میں لے گئیں،!!! مجھے بھی کچھ سکون سا حاصل ھوا، اس وقت قدرتی طور پر ھمارے ڈائریکٹران میں سے کوئی بھی نہیں تھا، ورنہ تو ایک اور مشکل ھوجاتی، وہ شاید کسی سرکاری میٹنگ میں گئے ھوئے تھے، اور ویسے بھی کچھ دیر بعد چھٹی ھونے والی تھی،!!!!!

    اس دن اسکے غصہ میں آنا بھی ایک فطری عمل تھا، کیونکہ اسے بالکل ھی پتہ نہیں چل سکا تھا کہ ھم نے اپنا مکان دو دفعہ تبدیل کردیا تھا اور اسی دوران ھمارے دفاتر بھی ھمارے پروجیکٹ کے ساتھ ھی شفٹ ھوچکے تھے، مجھ سے وہ یہی شکوہ کررھی تھی جو میری سمجھ میں آیا کہ اسے میں نے کیوں نہیں بتایا،؟؟؟؟ اسکے دماغ میں نہ جانے بہت سارے کیسے کیسے سوال ابھر رھے تھے، اس کے علاوہ کہ شاید میں اس سے اکتا گیا تھا اور میں اس سے ملنا نہیں چاھتا تھا، وغیرہ وغیرہ،!!!!! مگر ان سب باتوں کے علاؤہ میں نے اس کے اندر ایک اپنایت ایک انجانی سی محبت بھی محسوس کی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا ھوں، چند ھی لمحات کے توقف کے بعد ھمارے باس کی ایک سییکریٹری مرینہ اسے لے کر میرے سامنے آئی اور دونوں میری میز کے سامنے بیٹھ گئیں، وہ دونوں پہلے ھی سے ایک دوسرے کو جانتی تھیں، کیونکہ پرانے دفتر میں گل اکثر شام کو ھمارے پرانے آفس میں آتی جاتی رھتی تھی، اور اسی طرح اس کی واقفیت وہاں کے تمام اسٹاف سے بھی ھوگئی تھی، خیر مرینہ نے مجھے اس کے سامنے اسکے غصہ میں آجانے کی وھی وجوھات بتائیں جو میں پہلے ھی جان چکا تھا، میں نے معذرت کی اور اسے مرینہ کے ذریعے یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ھماری خادمہ کے کہنے پر گل نے ھی گھر آنا چھوڑ دیا تھا، اس کے علاوہ اس نے مجھ سے دفتر میں بھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ھی گھر پر ٹیلیفون کیا، مجھے بھی گل نے بھی اپنے رابطہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا، علاوہ ھماری خادمہ کے جوکہ ھمیں چھوڑ کر جاکی تھی، وہ بھی نہیں چاھتی تھی کہ مجھے گل کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ھوں،!!!!

    بہرحال مرہنہ نے اسکا غصہ کچھ ٹھنڈے جوس وغیرہ کا اھتمام کرکے ختم کیا اور مجھ سے ناراضگی بھی دور کی، اور وہاں سے میں اسے ساتھ لے کر اپنے اسسٹنٹ مراد کے ساتھ اسکی ھی کار میں ایک اچھے سے ترکش ریسٹورانٹ میں جانے کا فیصلہ کیا، مراد میرے اسسٹنٹ ھونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دوست بھی تھا، وہ اپنی وہاں کی مقامی زبان اور روسی زبان کے علاوہ فرنچ، ترکش، اور بہترین انگلش بولتا اور لکھتا بھی تھا، مجھ سے اور میرے بھانجے سے اب اردو زبان بھی سیکھ رھا تھا، مجھے جب بھی کہیں باھر کسی تقریب، کسی ھوٹل یا ریسٹورانٹ کی پارٹیوں میں جانا ھوتا تھا تو میں مراد کو اپنے ساتھ ضرور رکھتا تھا، تاکہ مجھے کوئی اجنبیت مسوس نہ ھو، اور ترجمان کے طور پر بھی اگر میں کوئی بات کسی کی سمجھ نہ سکا یا سمجھانے میں کوئی دقت ھو تو مراد اس سلسلے میں میری کافی مدد کرتا تھا، اسکے علاوہ بھی وہ ایک معزز فیملی سے تعلق رکھتا تھا جس کےاس ملک میں سب اثر و رسوق رکھنے والوں سے بہترین تعلقات تھے، اسی اثر رسوق کی بناء پر ھی وہ ھماری کمپنی میں ملازمت کررھا تھا، بہت ھی محنتی اور پرخلوص لڑکا تھا وہ گریجیویٹ بھی تھا، اس کا مقصد صرف اکاونٹس میں کچھ تجربہ حاصل کرنا تھا، اور اس کے ساتھ ھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے امریکہ بھی جانا چاھتا تھا، اسی لئے وہ مجھے ھر وقت ھر خدمت دینے کیلئے حاضر رھتا تھا اور کام بھی بہت ھی دل لگا کر کرتا تھا، جس سے مجھے کافی سہولت ھوگئی تھی، اور میں بھی انکے گھر کی ھر تقریب ایک خصوصی مہمان کی طرح شرکت کرتا بھی رھا تھا، انکے والدین سمجھتے تھے کہ میں انکے لڑکے کو کام سکھا کر کوئی احسان کررھا ھوں، یہ بھی ایک وجہ تھی کہ انکے والدین خاص طور پر مجھے ھر تقریب میں ضرور بلواتے تھے، اور ھر تقریب میں اپنے مہمانوں سے میرا تعارف بڑے مودبانہ انداز میں کراتے تھے، ان سب کی یہ محبتیں اور خلوص میں کبھی بھی زندگی بھر بھول نہیں سکتا، کئی تقریبات میں گل بھی میرے ساتھ شریک رھی تھی،!!!!!!

    اسی ترکش ریسٹورانٹ میں مراد نے اپنی منگیتر کو بھی وہاں بلوالیا، ھمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ھی ھم نے اسے ھال کے اندر ایک میز پر منتظر پایا، ھم بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے، اس کی منگیتر جو کہ ھمیں پہلے سے جانتی تھی، اس لئے تعارف کی محتاجی پیش نہیں آئی،
    سردیوں کے دن تھے، باھر کھڑکی کے شیشوں سے ھلکی ھلکی برف باری بھی ھوتی ھوئی نظر آرھی تھی، جو کہ بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھی تھی، ھلکے ھلکے روئی کی دھنکے ھوئے ٹکڑوں کی طرح ھوا میں اڑتے بہت ھی حسین لگ رھے تھے، اکثر لوگ چھتریاں لئے ھوئے فٹ پاتھ پر گزررھے تھے، ویسے بھی وہاں ھر کوئی ھر موسم میں اپنے ساتھ چھتری لئے ضرور چلتا تھا، کیونکہ وہاں کے موسم کا کوئی پتہ نہیں تھا، کبھی دھوپ نکل آتی تھی تو کبھی اچانک ھی بارش شروع ھوجاتی، اور سردیوں کے موسم میں تو برف باری کے نظارے ھر وقت مل جاتے تھے، مجھے تو برف باری بہت ھی اچھی لگتی ھے، جب میں راولپنڈی میں تھا تو اکثر سردیوں میں برف باری دیکھنے کا شوق مجھے مری اور نتھیا گلی لے جاتا تھا، ھمارے ان خوبصورت شمالی پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں کی کیا بات ھے، جوکہ کسی بھی باھر کے ممالک کے پہاڑی علاقوں سے کم نہیں ھیں،!!!!!!!!!!
    -------------------------------------------
    سردیوں کے دن تھے، باھر کھڑکی کے شیشوں سے ھلکی ھلکی برف باری بھی ھوتی ھوئی نظر آرھی تھی، جو کہ بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھی تھی، ھلکے ھلکے روئی کی دھنکے ھوئے ٹکڑوں کی طرح ھوا میں اڑتے بہت ھی حسین لگ رھے تھے، اکثر لوگ چھتریاں لئے ھوئے فٹ پاتھ پر گزررھے تھے، ویسے بھی وہاں ھر کوئی ھر موسم میں اپنے ساتھ چھتری لئے ضرور چلتا تھا، کیونکہ وہاں کے موسم کا کوئی پتہ نہیں تھا، کبھی دھوپ نکل آتی تھی تو کبھی اچانک ھی بارش شروع ھوجاتی، اور سردیوں کے موسم میں تو برف باری کے نظارے ھر وقت مل جاتے تھے، مجھے تو برف باری بہت ھی اچھی لگتی ھے، جب میں راولپنڈی میں تھا تو اکثر سردیوں میں برف باری دیکھنے کا شوق مجھے مری اور نتھیا گلی لے جاتا تھا، ھمارے ان خوبصورت شمالی پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں کی کیا بات ھے، جوکہ کسی بھی باھر کے ممالک کے پہاڑی علاقوں سے کم نہیں ھیں،!!!!!!!!!!

    میں بھی اس دن شام کے اس ریسٹورانٹ میں بیٹھا ھوا اپنے ملک کو یاد کررھا تھا، اور ان تینوں کو بھی اپنے ملک کے پہاڑی علاقوں اور وہاں کی حسین وادیوں کی خوبصورتی کے بارے میں بتا رھا تھا، اور مراد روسی زبان میں اسکا ساتھ ساتھ ترجمہ بھی کرتا جارھا تھا، کیونکہ وہ دونوں انگلش نہیں جانتی تھیں، میں بھی بیچ بیچ میں روسی زبان کے دوچار لفظ ڈال کر انہیں سمجھانے میں کچھ مدد کردیتا لیکن وہ کافی نہیں تھا، مراد تو ھمیشہ مجھ سے دفتر میں ھو یا کہیں باھر ھر وقت مجھ سے پاکستان کے بارے میں پوچھتا رھتا تھا، اسے تو دنیا کے ھر ملک کے بارے میں جاننے کا جنون کی حد تک شوق تھا، وہ ھمیشہ یہی کہتا تھا کہ ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ باھر کے ملکوں کی سیر ضرور کرے گا، بقول اسکے اس وقت وہ شاید فلوریڈا یا نیو جرسی میں ھوگا، بہت ھی سمارٹ تھا اور بولتے وقت تو وہ بالکل ولائیتی لگتا تھا، ھماری گفتگو کے دوران ھی چند ھی لمحات کے بعد ھم سب کی پسندیدہ کھانوں سے بہترین سلیقہ سے میز سج چکی تھی، بہت ھی اچھی خوشبو آرھی تھی اور بھاپ کے نکلنے سے، ان کھانوں کے گرم گرم ھونے کے احساس کے ساتھ پیٹ میں بھوک کی چمک بھی اٹھ رھی تھی،!!!!

    وہاں کے کھانے سے فارغ ھوتے ھی میرے منع کرنے کے باوجود بھی مراد نے ھی ریسٹورانٹ کا بل ادا کیا، وہ ھمیشہ زبردستی، ھر جگہ کوئی بھی موقع ھو اگر وہ میرے ساتھ ھے تو مجھے کوئی بھی بل ادا کرنے نہیں دیتا تھا، مجھے اس طرح اس کے بل دینے پر بہت شرمندگی ھوتی تھی، وہ ھمیشہ یہ کہہ کر بری ذمہ ھوجاتا تھا، کہ آپ میرے استاد ھیں، آپکی خدمت کرنا میرا اولیں فرض ھے، کبھی کبھی میرا بھانجا بھی میرے ساتھ ان محفلوں اور دعوتوں میں شریک رھتا تھا، وہ بھی مراد کا ایک اچھا دوست بن چکا تھا، بہرحال اس دن اتفاق سے وہ ھمارے ساتھ نہیں تھا، وہاں سے ھم سب سیدھا میرے ھی گھر پر پہنچے وہاں پر ان لڑکیوں نے مل کر چائے بنائی، کیونکہ اس وقت تک ھماری خادمہ جاچکی تھی، کچھ ھی دیر میں یہاں پر میرے ساتھ رھنے والے دونوں ساتھی بھی میرے بھانجے کے ساتھ پہنچ گئے، ھم سب ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے، لیکن اس گھر میں پہلی مرتبہ ھی ان سے ملاقات ھورھی تھی، چائے کچھ زیادہ ھی بنی ھوئی تھی، وہ بھی ھمارے ساتھ ھی چائے پیتے ھوئے خوش گپیوں میں مصروف ھوگئے، چائے پینے کے بعد مراد نے اجازت چاھی، اور مراد نے اپنی منگیتر اور گل کو ساتھ لئے وہاں سے رخصت ھوتے ھوئے کہا کہ میں گل کو اس کے گھر چھوڑتا ھوا چلا جاؤں گا،!!!!!

    ان کے جانے کے بعد میرے ساتھیوں میں سے ایک نے مجھ سے کچھ ناراضگی کے موڈ سے کہا کہ اس گل کو یہاں کون لے کر آیا ھے،!!!! میں نے جواب دیا کہ میں ھی اسے یہاں لے کر آیا ھوں، کیوں کیا آپکو کوئی اعتراض ھے،!!!
    اس نے کہا،!!!! مجھے کوئی اعتراض تو نہیں لیکن اس طرح کسی ایک ھی لڑکی کو اپنے ساتھ چپکا کر رکھنا ایک وبال جان ھے، وہ آپ کے لئے کسی نہ کسی مصیبت کا باعث بھی بن سکتی ھے، آپ ان لڑکیوں کو نہیں جانتے، کبھی بھی کسی لڑکی سے دوستی مستقل نہ رکھو اسی میں بھلائی ھے آگے آپکی مرضی،!!!! مجھے اس وقت اس پر غصہ تو بہت آیا لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ھوئے خاموشی اختیار کرلی، بس اتنا ھی کہا کہ،!!! یہ لڑکی گل دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ھے،!!!! جواباً مجھے اس نے کہا کہ کچھ دنوں بعد آپکو خود ھی معلوم ھوجائے گا،،!!! یہ کہتے ھوئے دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے، میرے پاس میرا بھانجا ھی بیٹھا ھوا تھا، اس نے مجھے تسلی دیتے ھوئے کہا کہ،!!!! بھائی،!!! آپ ان لوگوں کی باتوں ‌کا کوئی اثر نہ لیں، میں جانتا ھوں کہ کہ گل کیسی لڑکی ھے، اور آپکے ساتھ اس کے کیسے تعلقات ھیں، ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں، اس لئے انکا اس طرح سوچنا یہاں کے ماحول کو دیکھتے ھوئے، ان کی نظر جو دیکھتی اور سمجھتی ھے وہ غلط نہیں ھے، کیونکہ وہ لوگ آپکی عادتوں سے واقف نہیں ھیں،!!!! میرا بھانجا مجھے ھمیشہ "بھائی" کہہ کر ھی مخاطب ھوتا تھا،!!! میں نے بھی اپنے جذبات کو قابو میں کیا، اور ٹی وی دیکھنے میں محو ھو گیا لیکن دماغ کہیں اور ھی تھا، کیونکہ میرے ان دوستوں نے مجھ سے گل کے بارے اس طرح پہلی مرتبہ ھی اپنی زبان کھولی تھی، اور میں نے کبھی بھی یہ نہیں چاھا تھا کہ کسی کی وجہ سے میرے اور ان دوستوں کے درمیان کوئی تعلقات میں فرق آئے،!!!!!!!!!!!

    ------------------------------------

    یہ کہتے ھوئے دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے، میرے پاس میرا بھانجا ھی بیٹھا ھوا تھا، اس نے مجھے تسلی دیتے ھوئے کہا کہ،!!!! بھائی،!!! آپ ان لوگوں کی باتوں ‌کا کوئی اثر نہ لیں، میں جانتا ھوں کہ کہ گل کیسی لڑکی ھے، اور آپکے ساتھ اس کے کیسے تعلقات ھیں، ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں، اس لئے انکا اس طرح سوچنا یہاں کے ماحول کو دیکھتے ھوئے، ان کی نظر جو دیکھتی اور سمجھتی ھے وہ غلط نہیں ھے، کیونکہ وہ لوگ آپکی عادتوں سے واقف نہیں ھیں،!!!! میرا بھانجا مجھے ھمیشہ "بھائی" کہہ کر ھی مخاطب ھوتا تھا،!!! میں نے بھی اپنے جذبات کو قابو میں کیا، اور ٹی وی دیکھنے میں محو ھو گیا لیکن دماغ کہیں اور ھی تھا، کیونکہ میرے ان دوستوں نے مجھ سے گل کے بارے اس طرح پہلی مرتبہ ھی اپنی زبان کھولی تھی، اور میں نے کبھی بھی یہ نہیں چاھا تھا کہ کسی کی وجہ سے میرے اور ان دوستوں کے درمیان کوئی تعلقات میں فرق آئے،!!!!!!!!!!!

    میری ھمیشہ سے یہ کوشش رھی ھے کہ کسی ایک کو بھی میری ذات سے کوئی تکلیف یا رنج نہ پہنچے، جب میں دو پارٹیوں کے بیچ پھنس جاتا ھوں، تو مجھے پھر سوچنا پڑتا ھے، کس طرح میں کوئی درمیانی راہ نکالوں، کہ دونوں پارٹیاں مجھ سے راضی ھوجائیں، ایسے موقعوں پر میں بہت مشکل میں پھنس جاتا ھوں،،!!!!! خیر صبح دیکھا جائے گا ویسے بھی یہاں کی سخت سردیوں میں دماغ بھی شل ھو جاتا ھے،!!!! سن 1998 اور مہینہ دسمبر کے آخری دن چل رھے تھے، وہاں پر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کیلئے بہت زبردست جشن منانے کی تیاریاں ھورھی تھیں، پورے شہر کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جارھا تھا، باھر کی طرف میں اپنے گھر کی بالکونی سے ابھی سے اس شہر کو جھل مل ستاروں کی طرح چمکتا ھوا دیکھ رھا تھا، بالکونی کی شیشے کی کھڑکیوں کے ساتھ لٹکے ھوئے ایک پردے کو ھٹا کر یہ خوبصورت منظر کو دیکھنے لگا، شدید سردی کی وجہ سے شیشے سے دھندلا دھندلا نظر آرھا تھا، باھر کا سماں رنگ برنگی روشنیوں کے جلنے بجھنے کے علاوہ بہت ھی پر سکون اور خاموش تھا، سردی کی لہر میں کافی شدت تھی، کھڑکیوں کے بند ھونے کے باوجود میرے ھاتھ پیر میں سردی میں شدت کی وجہ سے ٹھنڈ بیٹھتی چلی جارھی تھی، یہ بھی مجھے کافی دیر بعد احساس ھوا، جب میرے بھانجے نے مجھے آواز دی،!!!! بھائی،!!!! آپ ابھی تک سوئے نہیں سردی بہت سخت ھے، کمرے میں آجائیے،!!!!!

    جیسے ھی شدید ٹھنڈ کے احساس نے مجھے جگایا، میں فوراً ھی اپنے کمرے میں پہنچ کر کمبل میں گھس گیا، سردی کی وجہ سے میرے دانت بج رھے تھے اور بدن بھی کانپ رھا تھا، جبکہ کمرہ اچھا خاصہ گرم تھا، کچھ دیر بعد ھی سکون حاصل ھوا، پھر چند لمحات کے گزرنے کے بعد پتہ ھی نہیں چلا کہ میں کب سو گیا،!!! دوسرے دن آنکھ کھلی تو طبعیت میں سکون محسوس ھوا، نہا دھو کر تازہ دم ھوا، لباس زیب تن کیا اور ناشتے کیلئے ڈائننگ ٹیبل کے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا، میرے دونوں ساتھیوں سے ھمیشہ روز صبح ناشتے کرتے ھوئے ملاقات ھوتی تھی لیکن مجھے خادمہ سے ھی پتہ چلا کہ وہ کچھ ھی دیر پہلے ناشتہ سے فارغ ھو کر جاچکے ھیں، میں اکیلا اس وقت میز پر تھا، میرا بھانجا ابھی تیار ھورھا تھا، میں ناشتے میں دو سلائس اور ھاف فرائی انڈا لیتا تھا جبکہ ھمارے بھانجے صاحب کو ناشتے میں جام مکھن کے ساتھ دو سلائس اور آملیٹ پسند تھا، ھماری خادمہ بھی ھم سب کی پسند سے اچھی طرح واقفیت ھوچکی تھی، اس لئے کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، جیسے ھی کوئی ٹیبل پر آکر بیٹھتا وہ فوراً ھی اسکی پسند کا ناشتہ دو تین منٹ میں بہت ھی قرینے کے ساتھ لگا دیتی تھی، ڈبل روٹی کو سلائس کرکے اور مکھن جام تو پہلے ھی سے ٹیبل پر سجا دیتی، نمک اور کالی مرچ کی شیشیاں بھی ایک ساتھ ایک چھوٹی سی ٹرے میں ایک تازہ پھولوں کے خوبصورت گلدان کے ساتھ رکھی ھوتی تھیں، ھماری یہ خادمہ بھی بہت ھی صفائی پسند تھی، اور سب کا خاص خیال رکھتی تھی، کبھی بھی اسکے ماتھے پر کوئی شکن تک میں نے نہیں دیکھی، جبکہ اکثر ھمارے ڈرائیور حضرات بھی ھمارے ساتھ ناشتہ کررھے ھوتے تھے، وہ بھی اس سے اپنی مرضی کا ناشتہ بے تکلف ھوکر بنواتے تھے،!!!!!!!!!

    صبح صبح وہ اپنے ساتھ نہ جانے کہاں سے تازہ مختلف اقسام کے پھولوں کو اکھٹا کرکے لاتی تھی، اور تمام گلدانوں کے پھولوں کو بدل دیتی تھی، اس میں یہ بھی ایک عادت دیکھی کہ خاص کر ناشتہ کے وقت وہ سب سے آخیر میں سب کو ناشتہ یا کھانا دینے کے بعد خود بھی میز پر ناشتہ کرتی تھی، اور ساتھ ھی جو بھی ناشتے کی میز پر ھوتا، اس سے دوپہر اور رات کے کھانے کیلئے ھدائتیں لیتی، اور پھر اسکے بعد وہ اپنا کام شروع کردیتی اور ھم سب اسے روسی زبان میں الوداعی سلام دا سودانیہ،!!!!!!! کہتے ھوئے دفتر جانے کیلئے رخصت ھوجاتے، اسے ھم اپنے گھر کی ایک ھی فیملی کی طرح سمجھتے بھی تھے، جیسا کہ وہاں کا ایک دستور بھی ھے کہ مالک ھو یا نوکر ایک دوسرے میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا، سب ایک ھی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ھیں، وھاں کا خادم ھو یا خادمہ سب کو دیکھا گیا گیا ھے کہ وہ ھمیشہ صفائی کا سب سے پہلے خیال رکھتے ھیں، بہت ھی سلیقے سے اور بہترین لباس پہن کر آتے ھیں کچن میں مصروفیت کے وقت اور دوسرے گھر کے کام اور کمروں کی صفائی ستھرائی کپڑے دھوتے وقت خاص طور سے گلے میں اپنے لباس کو بچانے کیلئے ایپرن اور ھاتھوں میں دستانے وغیرہ پہن کر رکھتے ھیں، اس حساب سے دیکھا جائے تو انکی تنخواہ بہت ھی کم تھی اور 50 سے 100 ڈالر سے زیادہ نہیں تھی، وہاں مردوں کی بنسبت عورتوں کی آبادی زیادہ تھی، اسی وجہ سے ھر دوکان، ھر بازار اور گوشت سبزیوں کی دکانوں پر بھی زیادہ تر میں نے عورتوں کو ھی کام کرتے ھوئے دیکھا، اس کے علاوہ شہر کی صاف صفائی اور دوسرے سرکاری دفاتر میں بھی زیادہ تر عورتوں کو ھی کام کرتے ھوئے دیکھا گیا ھے، مگر فوج اور پولیس میں مردوں کی تعداد زیادہ نظر آتی تھی،!!!!!!!!!!!

    اس دن دفتر سے واپسی پر دوپہر کے کھانے میز پر سب موجود تھے، اور گزشتہ رات کے موضوع پر کوئی بات نہیں ھوئی، مگر دوسری عام باتیں حسب معمول صحیح طرح ھورھی تھیں، کوئی بھی مجھ سے ناراض نہیں لگ رھا تھا، مجھے بھی اس وقت خوشی ھوئی، انہون نے اظہار تو نہیں کیا لیکن چہرے سے وہ دونوں رات کی بات پر شرمندہ سے لگ رھے تھے، ھوسکتا ھے ایک وجہ یہ بھی رھی ھو کہ ایڈوانس لینے کیلئے انہیں مجھ سے کچھ رقم کی ضرورت پیش آرھی ھو، کیونکہ اس وقت مہینے کے آخری دن تھے اور نئے سال کا جشن بھی دو تین دن کے بعد ھونا تھا، اور ویسے بھی اکثر مہینے کے آخیر میں انہیں کچھ ضرورت پڑتی ھی رھتی تھی، اور میں اپنی ذمہ داری پر بغیر کسی افسران کی منظوری کے ایڈوانس دے دیتا تھا کیونکہ ھفتے کے اندر اندر تنخواہ دیتے وقت میں انکی تنخواہ سے واپس مل ھی جاتے تھے، اس لئے مجھے بھی کوئی پریشانی نہیں تھی، میری چھٹی حس نے پہلے ھی سے یہ بو سونگ لی تھی، کہ اصل میں خاموشی کی وجہ کیا ھے، اور اسی رات کو دونوں نے باتوں باتوں میں معذرت کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ،!!! ھمارا مطلب تمھارا دل دکھانا نہیں تھا، بس ایسے ھی تمھیں سمجھا رھے تھے، کیونکہ آج کل کی لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب اور کس وقت کوئی نقصان پہنچا دیں، اگر آپ سمجھتے ھیں کہ یہ ویسی لڑکی نہیں ھے، تو کوئی بات نہیں،!!!!! میں نے بھی ان سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا،!!!!!!

    دوسرے دن حسب توقع صبح دفتر جانے سے پہلے دونوں نے اپنی خواھش کا اظہار کر ھی دیا کہ شام کو کچھ پیسے بطور ایڈوانس لے آنا، کچھ ضرورت ھے اور میں نے ھامی بھر لی، بعض اوقات ضرورت انسان کو اتنا مجبور بنادیتی ھے کہ جس سے سخت سے سخت آدمی کو بھی اپنی خودی اور انا کو مجروح کرنا پڑتا ھے، جو بہت مشکل کام ھے، میں تو اس بات کا قائل ھوں کہ اگر کوئی کسی مشکل میں ھو یا کسی کو کسی مدد کی ضرورت ھے تو فوراً ھی اگر آپ اس قابل ھیں تو اس کی اس مسکل میں اسکی مدد ضرور کریں چاھے وہ آپکے کتنے ھی خلاف کیوں ھی نہ ھوں، اسی طرح ھم اپنے خلاف جانے والوں یا کسی بھی رنجش کی وجہ سے نفرت کرتے ھوں وہ آپکی بار بار نظر کرم اور مہربانیوں کی وجہ سے اپنے اندر کی پلنے والی رنجشوں کو بھلا دیں گے اور آپ سے خود ھی آکر گلے لگ کر معافی بھی مانگیں گے، یہ میرا اپنا ذاتی مشاھدہ بھی ھے،!!!!!!!!
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سردیوں کے موسم میں گھر سے باھر نکلنا محال ھوجاتا تھا، اس لئے زیادہ تر وقت گھر پر ھی گزارتے تھے، بس کبھی کبھار کسی پارٹی وغیرہ میں چلے جاتے تھے، لیکن بہت کم، مگر گل کی کمی بہت محسوس ھوتی تھی، ایک دن اتفاق سے وہ ھمارا نیا دفتر ڈھونڈتے ڈھونڈتے میرے آفس کو تلاش کرتی ھوئی میرے کمرے کے دروازے سامنے کھڑی ھو کر مجھے تکتی رھی،!!! میں نے کوئی دھیان نہیں دیا کیونکہ میں کچھ زیادہ ھی کام کی مصروفیت میں گم تھا اور جیسے ھی میں نے کچھ محسوس کرتے ھوئے کہ مجھے کوئی دیکھ رھا ھے، میں نے اپنی گردن کو اوپر اٹھایا تو میرے حیرت کی انتہا ھی نہیں رھی، سامنے میں نے اسے کھڑا پایا، جس کی کمی میں کئی دنوں سے محسوس کررھا تھا،!!!!!!!!

    میرے سامنے میرا اسسٹنٹ مراد بیٹھا ھوا تھا، اس نے بھی جب اسے دیکھا تو اٹھ کھڑا ھوا اور گل کو بیٹھنے کی دعوت دی، مراد تو اٹھ کر چلا گیا ، اور گل اسکی جگہ میرے سامنے آکر بیٹھ گئی، اس نے بیٹھتے ھی غصہ سے مجھ پر روسی زبان میں برسنا شروع کردیا، میں روسی زبان جانتا تو تھا، لیکن ایک حد تک، اس کے بعد میرا دماغ سمجھنے سے قاصر ھوجاتا تھا، لیکن جو وہ کہہ رھی تھی میں اسکے چہرے کے تاثرات سے سمجھ بھی رھا تھا، لیکن وہ مجھے بالکل صفائی کا موقع نہیں دے رھی تھی، سارے دفتر کے ساتھی اسے اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے میرے پاس میری مدد کیلئے کوئی بھی نہیں آیا لیکن سب لوگوں نے شاید پہلی مرتبہ اسکے غصہ کا یہ انداز دیکھا ھو گا، اس لئے سب اپنے اپنے کیبن میں بیٹھے اس کی اس انداز سے کہی ھوئی باتیں سن بھی رھے تھے، کچھ خاموش تھے اور کچھ ایک دوسرے سے آھستہ آہستہ اسی کے متعلق باتیں بھی کررھے تھے، مجھے بھی شرمندگی ھورھی تھی، جیسے ھی اسکا غصہ کچھ کم ھوا تو ٹیبل پر اپنا سر رکھ کر رونے لگی، آفس کی چند دو لڑکیاں آئیں اور اسے اپنے کمرے میں لے گئیں،!!! مجھے بھی کچھ سکون سا حاصل ھوا، اس وقت قدرتی طور پر ھمارے ڈائریکٹران میں سے کوئی بھی نہیں تھا، ورنہ تو ایک اور مشکل ھوجاتی، وہ شاید کسی سرکاری میٹنگ میں گئے ھوئے تھے، اور ویسے بھی کچھ دیر بعد چھٹی ھونے والی تھی،!!!!!

    اس دن اسکے غصہ میں آنا بھی ایک فطری عمل تھا، کیونکہ اسے بالکل ھی پتہ نہیں چل سکا تھا کہ ھم نے اپنا مکان دو دفعہ تبدیل کردیا تھا اور اسی دوران ھمارے دفاتر بھی ھمارے پروجیکٹ کے ساتھ ھی شفٹ ھوچکے تھے، مجھ سے وہ یہی شکوہ کررھی تھی جو میری سمجھ میں آیا کہ اسے میں نے کیوں نہیں بتایا،؟؟؟؟ اسکے دماغ میں نہ جانے بہت سارے کیسے کیسے سوال ابھر رھے تھے، اس کے علاوہ کہ شاید میں اس سے اکتا گیا تھا اور میں اس سے ملنا نہیں چاھتا تھا، وغیرہ وغیرہ،!!!!! مگر ان سب باتوں کے علاؤہ میں نے اس کے اندر ایک اپنایت ایک انجانی سی محبت بھی محسوس کی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا ھوں، چند ھی لمحات کے توقف کے بعد ھمارے باس کی ایک سییکریٹری مرینہ اسے لے کر میرے سامنے آئی اور دونوں میری میز کے سامنے بیٹھ گئیں، وہ دونوں پہلے ھی سے ایک دوسرے کو جانتی تھیں، کیونکہ پرانے دفتر میں گل اکثر شام کو ھمارے پرانے آفس میں آتی جاتی رھتی تھی، اور اسی طرح اس کی واقفیت وہاں کے تمام اسٹاف سے بھی ھوگئی تھی، خیر مرینہ نے مجھے اس کے سامنے اسکے غصہ میں آجانے کی وھی وجوھات بتائیں جو میں پہلے ھی جان چکا تھا، میں نے معذرت کی اور اسے مرینہ کے ذریعے یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ھماری خادمہ کے کہنے پر گل نے ھی گھر آنا چھوڑ دیا تھا، اس کے علاوہ اس نے مجھ سے دفتر میں بھی کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ھی گھر پر ٹیلیفون کیا، مجھے بھی گل نے بھی اپنے رابطہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا، علاوہ ھماری خادمہ کے جوکہ ھمیں چھوڑ کر جاکی تھی، وہ بھی نہیں چاھتی تھی کہ مجھے گل کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ھوں،!!!!

    بہرحال مرہنہ نے اسکا غصہ کچھ ٹھنڈے جوس وغیرہ کا اھتمام کرکے ختم کیا اور مجھ سے ناراضگی بھی دور کی، اور وہاں سے میں اسے ساتھ لے کر اپنے اسسٹنٹ مراد کے ساتھ اسکی ھی کار میں ایک اچھے سے ترکش ریسٹورانٹ میں جانے کا فیصلہ کیا، مراد میرے اسسٹنٹ ھونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین دوست بھی تھا، وہ اپنی وہاں کی مقامی زبان اور روسی زبان کے علاوہ فرنچ، ترکش، اور بہترین انگلش بولتا اور لکھتا بھی تھا، مجھ سے اور میرے بھانجے سے اب اردو زبان بھی سیکھ رھا تھا، مجھے جب بھی کہیں باھر کسی تقریب، کسی ھوٹل یا ریسٹورانٹ کی پارٹیوں میں جانا ھوتا تھا تو میں مراد کو اپنے ساتھ ضرور رکھتا تھا، تاکہ مجھے کوئی اجنبیت مسوس نہ ھو، اور ترجمان کے طور پر بھی اگر میں کوئی بات کسی کی سمجھ نہ سکا یا سمجھانے میں کوئی دقت ھو تو مراد اس سلسلے میں میری کافی مدد کرتا تھا، اسکے علاوہ بھی وہ ایک معزز فیملی سے تعلق رکھتا تھا جس کےاس ملک میں سب اثر و رسوق رکھنے والوں سے بہترین تعلقات تھے، اسی اثر رسوق کی بناء پر ھی وہ ھماری کمپنی میں ملازمت کررھا تھا، بہت ھی محنتی اور پرخلوص لڑکا تھا وہ گریجیویٹ بھی تھا، اس کا مقصد صرف اکاونٹس میں کچھ تجربہ حاصل کرنا تھا، اور اس کے ساتھ ھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے امریکہ بھی جانا چاھتا تھا، اسی لئے وہ مجھے ھر وقت ھر خدمت دینے کیلئے حاضر رھتا تھا اور کام بھی بہت ھی دل لگا کر کرتا تھا، جس سے مجھے کافی سہولت ھوگئی تھی، اور میں بھی انکے گھر کی ھر تقریب ایک خصوصی مہمان کی طرح شرکت کرتا بھی رھا تھا، انکے والدین سمجھتے تھے کہ میں انکے لڑکے کو کام سکھا کر کوئی احسان کررھا ھوں، یہ بھی ایک وجہ تھی کہ انکے والدین خاص طور پر مجھے ھر تقریب میں ضرور بلواتے تھے، اور ھر تقریب میں اپنے مہمانوں سے میرا تعارف بڑے مودبانہ انداز میں کراتے تھے، ان سب کی یہ محبتیں اور خلوص میں کبھی بھی زندگی بھر بھول نہیں سکتا، کئی تقریبات میں گل بھی میرے ساتھ شریک رھی تھی،!!!!!!

    اسی ترکش ریسٹورانٹ میں مراد نے اپنی منگیتر کو بھی وہاں بلوالیا، ھمارے وہاں پہنچنے سے پہلے ھی ھم نے اسے ھال کے اندر ایک میز پر منتظر پایا، ھم بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے، اس کی منگیتر جو کہ ھمیں پہلے سے جانتی تھی، اس لئے تعارف کی محتاجی پیش نہیں آئی،
    سردیوں کے دن تھے، باھر کھڑکی کے شیشوں سے ھلکی ھلکی برف باری بھی ھوتی ھوئی نظر آرھی تھی، جو کہ بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھی تھی، ھلکے ھلکے روئی کی دھنکے ھوئے ٹکڑوں کی طرح ھوا میں اڑتے بہت ھی حسین لگ رھے تھے، اکثر لوگ چھتریاں لئے ھوئے فٹ پاتھ پر گزررھے تھے، ویسے بھی وہاں ھر کوئی ھر موسم میں اپنے ساتھ چھتری لئے ضرور چلتا تھا، کیونکہ وہاں کے موسم کا کوئی پتہ نہیں تھا، کبھی دھوپ نکل آتی تھی تو کبھی اچانک ھی بارش شروع ھوجاتی، اور سردیوں کے موسم میں تو برف باری کے نظارے ھر وقت مل جاتے تھے، مجھے تو برف باری بہت ھی اچھی لگتی ھے، جب میں راولپنڈی میں تھا تو اکثر سردیوں میں برف باری دیکھنے کا شوق مجھے مری اور نتھیا گلی لے جاتا تھا، ھمارے ان خوبصورت شمالی پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں کی کیا بات ھے، جوکہ کسی بھی باھر کے ممالک کے پہاڑی علاقوں سے کم نہیں ھیں،!!!!!!!!!!
    -------------------------------------------
    سردیوں کے دن تھے، باھر کھڑکی کے شیشوں سے ھلکی ھلکی برف باری بھی ھوتی ھوئی نظر آرھی تھی، جو کہ بہت ھی خوبصورت منظر پیش کررھی تھی، ھلکے ھلکے روئی کی دھنکے ھوئے ٹکڑوں کی طرح ھوا میں اڑتے بہت ھی حسین لگ رھے تھے، اکثر لوگ چھتریاں لئے ھوئے فٹ پاتھ پر گزررھے تھے، ویسے بھی وہاں ھر کوئی ھر موسم میں اپنے ساتھ چھتری لئے ضرور چلتا تھا، کیونکہ وہاں کے موسم کا کوئی پتہ نہیں تھا، کبھی دھوپ نکل آتی تھی تو کبھی اچانک ھی بارش شروع ھوجاتی، اور سردیوں کے موسم میں تو برف باری کے نظارے ھر وقت مل جاتے تھے، مجھے تو برف باری بہت ھی اچھی لگتی ھے، جب میں راولپنڈی میں تھا تو اکثر سردیوں میں برف باری دیکھنے کا شوق مجھے مری اور نتھیا گلی لے جاتا تھا، ھمارے ان خوبصورت شمالی پہاڑوں کی خوبصورت وادیوں کی کیا بات ھے، جوکہ کسی بھی باھر کے ممالک کے پہاڑی علاقوں سے کم نہیں ھیں،!!!!!!!!!!

    میں بھی اس دن شام کے اس ریسٹورانٹ میں بیٹھا ھوا اپنے ملک کو یاد کررھا تھا، اور ان تینوں کو بھی اپنے ملک کے پہاڑی علاقوں اور وہاں کی حسین وادیوں کی خوبصورتی کے بارے میں بتا رھا تھا، اور مراد روسی زبان میں اسکا ساتھ ساتھ ترجمہ بھی کرتا جارھا تھا، کیونکہ وہ دونوں انگلش نہیں جانتی تھیں، میں بھی بیچ بیچ میں روسی زبان کے دوچار لفظ ڈال کر انہیں سمجھانے میں کچھ مدد کردیتا لیکن وہ کافی نہیں تھا، مراد تو ھمیشہ مجھ سے دفتر میں ھو یا کہیں باھر ھر وقت مجھ سے پاکستان کے بارے میں پوچھتا رھتا تھا، اسے تو دنیا کے ھر ملک کے بارے میں جاننے کا جنون کی حد تک شوق تھا، وہ ھمیشہ یہی کہتا تھا کہ ماسٹر ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ باھر کے ملکوں کی سیر ضرور کرے گا، بقول اسکے اس وقت وہ شاید فلوریڈا یا نیو جرسی میں ھوگا، بہت ھی سمارٹ تھا اور بولتے وقت تو وہ بالکل ولائیتی لگتا تھا، ھماری گفتگو کے دوران ھی چند ھی لمحات کے بعد ھم سب کی پسندیدہ کھانوں سے بہترین سلیقہ سے میز سج چکی تھی، بہت ھی اچھی خوشبو آرھی تھی اور بھاپ کے نکلنے سے، ان کھانوں کے گرم گرم ھونے کے احساس کے ساتھ پیٹ میں بھوک کی چمک بھی اٹھ رھی تھی،!!!!

    وہاں کے کھانے سے فارغ ھوتے ھی میرے منع کرنے کے باوجود بھی مراد نے ھی ریسٹورانٹ کا بل ادا کیا، وہ ھمیشہ زبردستی، ھر جگہ کوئی بھی موقع ھو اگر وہ میرے ساتھ ھے تو مجھے کوئی بھی بل ادا کرنے نہیں دیتا تھا، مجھے اس طرح اس کے بل دینے پر بہت شرمندگی ھوتی تھی، وہ ھمیشہ یہ کہہ کر بری ذمہ ھوجاتا تھا، کہ آپ میرے استاد ھیں، آپکی خدمت کرنا میرا اولیں فرض ھے، کبھی کبھی میرا بھانجا بھی میرے ساتھ ان محفلوں اور دعوتوں میں شریک رھتا تھا، وہ بھی مراد کا ایک اچھا دوست بن چکا تھا، بہرحال اس دن اتفاق سے وہ ھمارے ساتھ نہیں تھا، وہاں سے ھم سب سیدھا میرے ھی گھر پر پہنچے وہاں پر ان لڑکیوں نے مل کر چائے بنائی، کیونکہ اس وقت تک ھماری خادمہ جاچکی تھی، کچھ ھی دیر میں یہاں پر میرے ساتھ رھنے والے دونوں ساتھی بھی میرے بھانجے کے ساتھ پہنچ گئے، ھم سب ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے تھے، لیکن اس گھر میں پہلی مرتبہ ھی ان سے ملاقات ھورھی تھی، چائے کچھ زیادہ ھی بنی ھوئی تھی، وہ بھی ھمارے ساتھ ھی چائے پیتے ھوئے خوش گپیوں میں مصروف ھوگئے، چائے پینے کے بعد مراد نے اجازت چاھی، اور مراد نے اپنی منگیتر اور گل کو ساتھ لئے وہاں سے رخصت ھوتے ھوئے کہا کہ میں گل کو اس کے گھر چھوڑتا ھوا چلا جاؤں گا،!!!!!

    ان کے جانے کے بعد میرے ساتھیوں میں سے ایک نے مجھ سے کچھ ناراضگی کے موڈ سے کہا کہ اس گل کو یہاں کون لے کر آیا ھے،!!!! میں نے جواب دیا کہ میں ھی اسے یہاں لے کر آیا ھوں، کیوں کیا آپکو کوئی اعتراض ھے،!!!
    اس نے کہا،!!!! مجھے کوئی اعتراض تو نہیں لیکن اس طرح کسی ایک ھی لڑکی کو اپنے ساتھ چپکا کر رکھنا ایک وبال جان ھے، وہ آپ کے لئے کسی نہ کسی مصیبت کا باعث بھی بن سکتی ھے، آپ ان لڑکیوں کو نہیں جانتے، کبھی بھی کسی لڑکی سے دوستی مستقل نہ رکھو اسی میں بھلائی ھے آگے آپکی مرضی،!!!! مجھے اس وقت اس پر غصہ تو بہت آیا لیکن موقع کی نزاکت کو دیکھتے ھوئے خاموشی اختیار کرلی، بس اتنا ھی کہا کہ،!!! یہ لڑکی گل دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ھے،!!!! جواباً مجھے اس نے کہا کہ کچھ دنوں بعد آپکو خود ھی معلوم ھوجائے گا،،!!! یہ کہتے ھوئے دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے، میرے پاس میرا بھانجا ھی بیٹھا ھوا تھا، اس نے مجھے تسلی دیتے ھوئے کہا کہ،!!!! بھائی،!!! آپ ان لوگوں کی باتوں ‌کا کوئی اثر نہ لیں، میں جانتا ھوں کہ کہ گل کیسی لڑکی ھے، اور آپکے ساتھ اس کے کیسے تعلقات ھیں، ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں، اس لئے انکا اس طرح سوچنا یہاں کے ماحول کو دیکھتے ھوئے، ان کی نظر جو دیکھتی اور سمجھتی ھے وہ غلط نہیں ھے، کیونکہ وہ لوگ آپکی عادتوں سے واقف نہیں ھیں،!!!! میرا بھانجا مجھے ھمیشہ "بھائی" کہہ کر ھی مخاطب ھوتا تھا،!!! میں نے بھی اپنے جذبات کو قابو میں کیا، اور ٹی وی دیکھنے میں محو ھو گیا لیکن دماغ کہیں اور ھی تھا، کیونکہ میرے ان دوستوں نے مجھ سے گل کے بارے اس طرح پہلی مرتبہ ھی اپنی زبان کھولی تھی، اور میں نے کبھی بھی یہ نہیں چاھا تھا کہ کسی کی وجہ سے میرے اور ان دوستوں کے درمیان کوئی تعلقات میں فرق آئے،!!!!!!!!!!!

    ------------------------------------

    یہ کہتے ھوئے دونوں اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے، میرے پاس میرا بھانجا ھی بیٹھا ھوا تھا، اس نے مجھے تسلی دیتے ھوئے کہا کہ،!!!! بھائی،!!! آپ ان لوگوں کی باتوں ‌کا کوئی اثر نہ لیں، میں جانتا ھوں کہ کہ گل کیسی لڑکی ھے، اور آپکے ساتھ اس کے کیسے تعلقات ھیں، ان لوگوں کو اس بات کا علم نہیں، اس لئے انکا اس طرح سوچنا یہاں کے ماحول کو دیکھتے ھوئے، ان کی نظر جو دیکھتی اور سمجھتی ھے وہ غلط نہیں ھے، کیونکہ وہ لوگ آپکی عادتوں سے واقف نہیں ھیں،!!!! میرا بھانجا مجھے ھمیشہ "بھائی" کہہ کر ھی مخاطب ھوتا تھا،!!! میں نے بھی اپنے جذبات کو قابو میں کیا، اور ٹی وی دیکھنے میں محو ھو گیا لیکن دماغ کہیں اور ھی تھا، کیونکہ میرے ان دوستوں نے مجھ سے گل کے بارے اس طرح پہلی مرتبہ ھی اپنی زبان کھولی تھی، اور میں نے کبھی بھی یہ نہیں چاھا تھا کہ کسی کی وجہ سے میرے اور ان دوستوں کے درمیان کوئی تعلقات میں فرق آئے،!!!!!!!!!!!

    میری ھمیشہ سے یہ کوشش رھی ھے کہ کسی ایک کو بھی میری ذات سے کوئی تکلیف یا رنج نہ پہنچے، جب میں دو پارٹیوں کے بیچ پھنس جاتا ھوں، تو مجھے پھر سوچنا پڑتا ھے، کس طرح میں کوئی درمیانی راہ نکالوں، کہ دونوں پارٹیاں مجھ سے راضی ھوجائیں، ایسے موقعوں پر میں بہت مشکل میں پھنس جاتا ھوں،،!!!!! خیر صبح دیکھا جائے گا ویسے بھی یہاں کی سخت سردیوں میں دماغ بھی شل ھو جاتا ھے،!!!! سن 1998 اور مہینہ دسمبر کے آخری دن چل رھے تھے، وہاں پر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کیلئے بہت زبردست جشن منانے کی تیاریاں ھورھی تھیں، پورے شہر کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا جارھا تھا، باھر کی طرف میں اپنے گھر کی بالکونی سے ابھی سے اس شہر کو جھل مل ستاروں کی طرح چمکتا ھوا دیکھ رھا تھا، بالکونی کی شیشے کی کھڑکیوں کے ساتھ لٹکے ھوئے ایک پردے کو ھٹا کر یہ خوبصورت منظر کو دیکھنے لگا، شدید سردی کی وجہ سے شیشے سے دھندلا دھندلا نظر آرھا تھا، باھر کا سماں رنگ برنگی روشنیوں کے جلنے بجھنے کے علاوہ بہت ھی پر سکون اور خاموش تھا، سردی کی لہر میں کافی شدت تھی، کھڑکیوں کے بند ھونے کے باوجود میرے ھاتھ پیر میں سردی میں شدت کی وجہ سے ٹھنڈ بیٹھتی چلی جارھی تھی، یہ بھی مجھے کافی دیر بعد احساس ھوا، جب میرے بھانجے نے مجھے آواز دی،!!!! بھائی،!!!! آپ ابھی تک سوئے نہیں سردی بہت سخت ھے، کمرے میں آجائیے،!!!!!

    جیسے ھی شدید ٹھنڈ کے احساس نے مجھے جگایا، میں فوراً ھی اپنے کمرے میں پہنچ کر کمبل میں گھس گیا، سردی کی وجہ سے میرے دانت بج رھے تھے اور بدن بھی کانپ رھا تھا، جبکہ کمرہ اچھا خاصہ گرم تھا، کچھ دیر بعد ھی سکون حاصل ھوا، پھر چند لمحات کے گزرنے کے بعد پتہ ھی نہیں چلا کہ میں کب سو گیا،!!! دوسرے دن آنکھ کھلی تو طبعیت میں سکون محسوس ھوا، نہا دھو کر تازہ دم ھوا، لباس زیب تن کیا اور ناشتے کیلئے ڈائننگ ٹیبل کے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا، میرے دونوں ساتھیوں سے ھمیشہ روز صبح ناشتے کرتے ھوئے ملاقات ھوتی تھی لیکن مجھے خادمہ سے ھی پتہ چلا کہ وہ کچھ ھی دیر پہلے ناشتہ سے فارغ ھو کر جاچکے ھیں، میں اکیلا اس وقت میز پر تھا، میرا بھانجا ابھی تیار ھورھا تھا، میں ناشتے میں دو سلائس اور ھاف فرائی انڈا لیتا تھا جبکہ ھمارے بھانجے صاحب کو ناشتے میں جام مکھن کے ساتھ دو سلائس اور آملیٹ پسند تھا، ھماری خادمہ بھی ھم سب کی پسند سے اچھی طرح واقفیت ھوچکی تھی، اس لئے کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی، جیسے ھی کوئی ٹیبل پر آکر بیٹھتا وہ فوراً ھی اسکی پسند کا ناشتہ دو تین منٹ میں بہت ھی قرینے کے ساتھ لگا دیتی تھی، ڈبل روٹی کو سلائس کرکے اور مکھن جام تو پہلے ھی سے ٹیبل پر سجا دیتی، نمک اور کالی مرچ کی شیشیاں بھی ایک ساتھ ایک چھوٹی سی ٹرے میں ایک تازہ پھولوں کے خوبصورت گلدان کے ساتھ رکھی ھوتی تھیں، ھماری یہ خادمہ بھی بہت ھی صفائی پسند تھی، اور سب کا خاص خیال رکھتی تھی، کبھی بھی اسکے ماتھے پر کوئی شکن تک میں نے نہیں دیکھی، جبکہ اکثر ھمارے ڈرائیور حضرات بھی ھمارے ساتھ ناشتہ کررھے ھوتے تھے، وہ بھی اس سے اپنی مرضی کا ناشتہ بے تکلف ھوکر بنواتے تھے،!!!!!!!!!

    صبح صبح وہ اپنے ساتھ نہ جانے کہاں سے تازہ مختلف اقسام کے پھولوں کو اکھٹا کرکے لاتی تھی، اور تمام گلدانوں کے پھولوں کو بدل دیتی تھی، اس میں یہ بھی ایک عادت دیکھی کہ خاص کر ناشتہ کے وقت وہ سب سے آخیر میں سب کو ناشتہ یا کھانا دینے کے بعد خود بھی میز پر ناشتہ کرتی تھی، اور ساتھ ھی جو بھی ناشتے کی میز پر ھوتا، اس سے دوپہر اور رات کے کھانے کیلئے ھدائتیں لیتی، اور پھر اسکے بعد وہ اپنا کام شروع کردیتی اور ھم سب اسے روسی زبان میں الوداعی سلام دا سودانیہ،!!!!!!! کہتے ھوئے دفتر جانے کیلئے رخصت ھوجاتے، اسے ھم اپنے گھر کی ایک ھی فیملی کی طرح سمجھتے بھی تھے، جیسا کہ وہاں کا ایک دستور بھی ھے کہ مالک ھو یا نوکر ایک دوسرے میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا، سب ایک ھی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ھیں، وھاں کا خادم ھو یا خادمہ سب کو دیکھا گیا گیا ھے کہ وہ ھمیشہ صفائی کا سب سے پہلے خیال رکھتے ھیں، بہت ھی سلیقے سے اور بہترین لباس پہن کر آتے ھیں کچن میں مصروفیت کے وقت اور دوسرے گھر کے کام اور کمروں کی صفائی ستھرائی کپڑے دھوتے وقت خاص طور سے گلے میں اپنے لباس کو بچانے کیلئے ایپرن اور ھاتھوں میں دستانے وغیرہ پہن کر رکھتے ھیں، اس حساب سے دیکھا جائے تو انکی تنخواہ بہت ھی کم تھی اور 50 سے 100 ڈالر سے زیادہ نہیں تھی، وہاں مردوں کی بنسبت عورتوں کی آبادی زیادہ تھی، اسی وجہ سے ھر دوکان، ھر بازار اور گوشت سبزیوں کی دکانوں پر بھی زیادہ تر میں نے عورتوں کو ھی کام کرتے ھوئے دیکھا، اس کے علاوہ شہر کی صاف صفائی اور دوسرے سرکاری دفاتر میں بھی زیادہ تر عورتوں کو ھی کام کرتے ھوئے دیکھا گیا ھے، مگر فوج اور پولیس میں مردوں کی تعداد زیادہ نظر آتی تھی،!!!!!!!!!!!

    اس دن دفتر سے واپسی پر دوپہر کے کھانے میز پر سب موجود تھے، اور گزشتہ رات کے موضوع پر کوئی بات نہیں ھوئی، مگر دوسری عام باتیں حسب معمول صحیح طرح ھورھی تھیں، کوئی بھی مجھ سے ناراض نہیں لگ رھا تھا، مجھے بھی اس وقت خوشی ھوئی، انہون نے اظہار تو نہیں کیا لیکن چہرے سے وہ دونوں رات کی بات پر شرمندہ سے لگ رھے تھے، ھوسکتا ھے ایک وجہ یہ بھی رھی ھو کہ ایڈوانس لینے کیلئے انہیں مجھ سے کچھ رقم کی ضرورت پیش آرھی ھو، کیونکہ اس وقت مہینے کے آخری دن تھے اور نئے سال کا جشن بھی دو تین دن کے بعد ھونا تھا، اور ویسے بھی اکثر مہینے کے آخیر میں انہیں کچھ ضرورت پڑتی ھی رھتی تھی، اور میں اپنی ذمہ داری پر بغیر کسی افسران کی منظوری کے ایڈوانس دے دیتا تھا کیونکہ ھفتے کے اندر اندر تنخواہ دیتے وقت میں انکی تنخواہ سے واپس مل ھی جاتے تھے، اس لئے مجھے بھی کوئی پریشانی نہیں تھی، میری چھٹی حس نے پہلے ھی سے یہ بو سونگ لی تھی، کہ اصل میں خاموشی کی وجہ کیا ھے، اور اسی رات کو دونوں نے باتوں باتوں میں معذرت کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ،!!! ھمارا مطلب تمھارا دل دکھانا نہیں تھا، بس ایسے ھی تمھیں سمجھا رھے تھے، کیونکہ آج کل کی لڑکیوں کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کب اور کس وقت کوئی نقصان پہنچا دیں، اگر آپ سمجھتے ھیں کہ یہ ویسی لڑکی نہیں ھے، تو کوئی بات نہیں،!!!!! میں نے بھی ان سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا،!!!!!!

    دوسرے دن حسب توقع صبح دفتر جانے سے پہلے دونوں نے اپنی خواھش کا اظہار کر ھی دیا کہ شام کو کچھ پیسے بطور ایڈوانس لے آنا، کچھ ضرورت ھے اور میں نے ھامی بھر لی، بعض اوقات ضرورت انسان کو اتنا مجبور بنادیتی ھے کہ جس سے سخت سے سخت آدمی کو بھی اپنی خودی اور انا کو مجروح کرنا پڑتا ھے، جو بہت مشکل کام ھے، میں تو اس بات کا قائل ھوں کہ اگر کوئی کسی مشکل میں ھو یا کسی کو کسی مدد کی ضرورت ھے تو فوراً ھی اگر آپ اس قابل ھیں تو اس کی اس مسکل میں اسکی مدد ضرور کریں چاھے وہ آپکے کتنے ھی خلاف کیوں ھی نہ ھوں، اسی طرح ھم اپنے خلاف جانے والوں یا کسی بھی رنجش کی وجہ سے نفرت کرتے ھوں وہ آپکی بار بار نظر کرم اور مہربانیوں کی وجہ سے اپنے اندر کی پلنے والی رنجشوں کو بھلا دیں گے اور آپ سے خود ھی آکر گلے لگ کر معافی بھی مانگیں گے، یہ میرا اپنا ذاتی مشاھدہ بھی ھے،!!!!!!!!
     
  9. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دوسرے دن حسب توقع صبح دفتر جانے سے پہلے دونوں نے اپنی خواھش کا اظہار کر ھی دیا کہ شام کو کچھ پیسے بطور ایڈوانس لے آنا، کچھ ضرورت ھے اور میں نے ھامی بھر لی، بعض اوقات ضرورت انسان کو اتنا مجبور بنادیتی ھے کہ جس سے سخت سے سخت آدمی کو بھی اپنی خودی اور انا کو مجروح کرنا پڑتا ھے، جو بہت مشکل کام ھے، میں تو اس بات کا قائل ھوں کہ اگر کوئی کسی مشکل میں ھو یا کسی کو کسی مدد کی ضرورت ھے تو فوراً ھی اگر آپ اس قابل ھیں تو اس کی اس مسکل میں اسکی مدد ضرور کریں چاھے وہ آپکے کتنے ھی خلاف کیوں ھی نہ ھوں، اسی طرح ھم اپنے خلاف جانے والوں یا کسی بھی رنجش کی وجہ سے نفرت کرتے ھوں وہ آپکی بار بار نظر کرم اور مہربانیوں کی وجہ سے اپنے اندر کی پلنے والی رنجشوں کو بھلا دیں گے اور آپ سے خود ھی آکر گلے لگ کر معافی بھی مانگیں گے، یہ میرا اپنا ذاتی مشاھدہ بھی ھے،!!!!!!!!

    میں تو اپنے جانتے میں اپنے آپ کو وہاں کے ماحول میں رھتے ھوئے ھرخرافات سے ھر ممکن بچنے کی کوشش کرتا رھا، جس میں گل نے بھی میری بہت مدد کی، اگر وہ نہ ھوتی تو شاید میں بھٹک ھی جاتا، مگر لوگوں نے تو میرا پیچھا ھی لے لیا، اور شاید گل کے ھمارے گھر آنے جانے سے مجھے غلط سمجھتے رھے، بہرحال میں بھی نہیں چاھتا تھا کہ لوگ میرے بارے میں کوئی غلط فہمی اختیار کرلیں اور ادھر ھماری بیگم بھی پاکستان میں پریشان تھیں، وہ بھی نہیں چاھتی تھیں کہ میں یہاں رھوں، بعض رشتہ داروں نے وھاں پر انہیں کافی سے بھی زیادہ میرے متعلق ان کے دل میں غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں، اور یہاں بھی گل نے مجھے یہی مشورہ دیا تھا کہ میں یہاں سے جتنا جلدی ممکن ھوسکےچلا جاؤں،!!!!!

    سعودیہ میں میرے پرانی کمپنی کے دوستوں سے بھی رابطہ رھا، انہی میرے دوستوں کی خواھش پر میرے وھاں کے استاد محترم مجھے دوبارہ بلانے کی کوشش کرتے رھے، مگر میں نے شروع شروع میں تو انکار کیا، لیکن اب یہاں مجھے ایک سال ھونے والا تھا، اور میرا کنٹریکٹ بھی ایک سال کا ھی تھا میں اب گھریلو حالات کی وجہ سے بھی یہاں سے واپس جانا چاھتا تھا، میں نہیں چاھتا تھا کہ میرے ھنستے بستے گھر میں رنجشوں کی دراڑیں پڑجائیں، میں نے فوراً ھی اپنے استاد محترم سے سعودیہ میں واپس جانے کی حامی بھرلی، سعودیہ میں میرے تمام دوست میری واپسی کا سن کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، اور یہاں پر میرے تمام ساتھی بہت ھی غم زدہ ھو گئے، یہاں میں نے استعفیٰ اپنے چیرمیں کے سامنے رکھ دیا، یہاں کی کمپنی کے مالکان بھی بہت ھی ناراض ھوئے اور انہوں نے سعودیہ سے بھی زیادہ کی تنخواہ کی پیش کش کردی، لیکن میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ھوئے اپنے گھریلو حالات سے آگاہ کیا اور معذرت طلب کی، بہت ھی مشکل سے انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دی اور فرداً فرداً بھی میں نے تمام اپنے ساتھیوں سے معذرت طلب کرلی، اور انہیں بھی کسی نہ کسی طرح راضی کر ھی لیا، اور میرے وھاں سے جانے سے پہلے سب نے مل کر میرے لئے ایک بہت ھی زبردست الوداعی پارٹی کا اھتمام کیا، اس پارٹی میں مجھے پھولوں کے گلدستوں کے علاوہ تحفہ تحائف بھی دیئے گئے، ان میں سے ایک تحفہ میرے ھاتھ میں آج بھی ان دوستوں کی دی ھوئی خوبصورت گھڑی بھی اب تک بندھی ھوئی جو وہاں کی خوبصورت یادوں اور پرخلوص محبتوں کی یاد دلاتی رھتی ھے،!!!!!

    جون کے شروع کا مہینہ اور 1999 کا سال تھا، اس دن کی ایک خوبصورت سہانی شام تھی، اس پارٹی میں تمام دوست احباب، کمپنی کے مالکان اور دوسری کمپنیوں کے اعلیٰ عہدےداران بھی کمپنی کے دیئے گے اس تقریب میں شامل تھے، جن سے میری بھی اچھی خاصی واقفیت تھی، ایسی بہت ساری تقریبیں میری نظر سے گزری تھیں، لیکن ایسی تقریب جو مجھے الوداع کہنے کیلئے منائی جارھی تھی، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی پروقار تقریب نہیں دیکھی تھی، میرے ساتھ اس تقریب میں گل بھی شریک تھی، وہاں کے لوگوں کی یہی تو ایک خاص بات ھے کہ ھر آنے والوں کا والہانہ استقبال کرتے ھیں اور رخصت ھونے والوں اعزاز میں بھی خوبصورت الوداعی تقریبات کا تحفے تحائف کے ساتھ اھتمام بھی کرتے ھیں، یہ ان کی روایات میں شامل ھیں، ان سب کی پرخلوص محبتیں اور عنائتیں میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا، ان سب سے مجھے بھی جدا ھوتے ھوئے دکھ ھو رھا تھا، میں نے ان سب کے ساتھ ایک بہترین فیملی کی طرح پورا ایک سال کا دورانیہ گزارا تھا،!!!!!!

    اس دن رات کی فلائٹ تھی، میں نے اپنا سوٹ کیس پہلے سے ھی پیک کر لیا تھا، اس کے علاوہ ایک ھینڈ بیگ تھا، جس میں زیادہ تر دوستوں کے تحفے تحائف رکھے ھوئے تھے، گھر پر بہت ھی رونق لگی ھوئی تھی، میرے ساتھ رھنے والے دوستوں نے یہاں پر ایک دعوت کا اھتمام کیا ھوا تھا، دوستوں کا کافی رش تھا، دفتر کے تمام ساتھی بھی موجود تھے، خوب خوش گپیاں اور مذاق بھی ساتھ ساتھ ھورھا تھا، ایک فیملی کا جیسا ماحول تھا، گل بھی میرے ساتھ ھی بیٹھی تھی، اور وہ ھی زیادہ تر مذاق کا نشانہ بنی ھوئی تھی کہ میں اسے چھوڑ کر جارھا ھوں، مگر اس نے تمام لوگوں سے بہت ھی شائستہ اور خلوص انداز سے ھر ایک کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی، باتوں باتوں اس نے روسی زبان میں کہا کہ،!!!! "میں نے ھمیشہ سید کو ایک سچے دوست کی طرح دیکھا ھے، اگر کوئی ایسی ویسی بات ھوتی تو میں آج اس طرح آپ سب کی اس دعوت میں شریک نہیں ھوتی، میں سید کی قدر کرتی ھوں کیونکہ انہوں نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سب سے بڑی بات کہ پہلے دن سے ھی انہوں نے مجھ سے اپنی فیملی کا غائبانہ تعارف کرایا، مجھے خوشی ھے کہ سید صاحب اپنی فیملی کو دل و جان سے چاھتے ھیں، اور میں کبھی یہ نہیں چاھوں گی کہ ان کے آپس کے تعلقات خراب ھوں، !!!!!!!

    میرا بھانجا بھی وہیں موجود تھا، لیکن میرے جانے کی وجہ سے وہ بہت افسردہ افسردہ سا تھا، جبکہ اس کا دل یہاں پر لگ چکا تھا، اور بہت خوش بھی تھا، اس کے لئے میں نے کمپنی کے مالکان سے بھی اس کی تنخواہ میں اضافے کیلئے انہیں راضی کرلیا تھا، بہت سے لوگوں کا اس شام کو آنا جانا لگا رھا، کئی گاڑیاں نیچے مجھے ائرپورٹ تک رخصت کرنے کیلئے کھڑی ھوئی تھیں، کمپنی کے مالکان بھی گھر پر آئے اور مجھ سے مل کر چلے گئے، ان میں سے ایک میرے ساتھ آخیر تک رھے، میں سب سے رخصت ھوتا ھوا اپنے فلیٹ سے نیچے اترنے لگا، گل میرے ساتھ تھی، وہ شاید آخری لمحے تک میرے ساتھ رھنا چاھتی تھی، نیچے پہنچتے ھی میں نے دیکھا کہ کئی کاریں اور جیپ ایک ساتھ لائن سے کھڑی ھیں اور ھر ایک یہ چاہ رھا تھا کہ میں اسکی گاڑی میں بیٹھوں، یہ ایک اور میرے لئے آزمائیش کا موقع تھا، کہ کس طرح ھر ایک کی خواھش کو میں پورا کروں، سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کا دروازہ کھولے کھڑے میری طرف متوجہ تھے، کہ میرے قدم کس گاڑی کی طرف بڑھتے ھیں، ان پرخلوص محبتوں کا یہ انداز دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے،!!!!!!

    میں بھی وہاں پر دوسری طرف ساکت ھی کھڑا ھو کرسب کے اشاروں کو دیکھ رھا تھا، سب میرے لئے قابل احترام تھے، میں کسی کو بھی انکار کرنے کی جرت نہیں کرسکتا تھا، آخرکار ھماری کمپنی کے چیرمین کے چھوٹے بھائی جو میرے دوست بھی تھے، ان کی عزت سب لوگ کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ھمارے سامنے کبھی بھی مالکان کی طرح پیش نہیں کیا ھمیشہ دوستوں سے بھی زیادہ مخلصانہ برتاؤ رکھا، وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے، !!!! مجھے معلوم ھے کہ یہ سب تمام دوست تمھارے جگری ھیں، کس طرح تمھاری محبت میں اپنی اپنی گاڑیوں کے دروازے کھول کر کھڑے ھیں، دیکھو تم کتنے بے وفا ھو کہ ان سب کی محبتیں خلوص اور پیار چھوڑ کر جارھے ھو،،!!!! میں اس وقت کیا جواب دیتا بس اپنی آنکھوں کو پرنم کئے ھوئے تھا، انہوں نے سب سے کہا کہ جو میں فیصلہ کروں گا، اس کی گاڑی مین سید بیٹھے گا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کس کے ساتھ جانا پسند کروگے، میری نظریں تمام دوستوں کی طرف سے ھوتی ھوئی اس میرے پرانے دوست ڈرائیور جس کا نام گوانچ تھا، اور میں اسے ھمیشہ راجہ کہا کرتا تھا، اسکے اوپر جاکر میری نظریں ٹہر گئی، اور میں نے اسکی طرف اشارہ کردیا، اس کا ساتھ میرا ایک واقعی جگری دوست کی طرح ھی تھا، میرا اسکا ساتھ دفتری کام کے علاوہ باھر کے کام سے بھی بہت رھا اور ھر قدم پر اس نے میرا بہت ساتھ دیا تھا، اس کے علاوہ سب ساتھیوں نے بھی میرے ساتھ بہت ھی اچھا پرخلوص برتاؤ رکھا، !!!!!!

    میرا اشارا پاتے ھی وہ بہت خوش ھوا، اسے مجھ سے ویسے امید نہیں تھی، کیونکہ اس کے پاس وہی ایک سال پرانی چروکی جیپ تھی، جس میں، میں نے اس کے ساتھ کافی سفر بھی کیا تھا، وہ سمجھ رھا تھا کہ شاید میں نئی ماڈرن گاڑیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں گا، کیونکہ ھمارے مالکان کے ایک نئی مرسیڈیز بھی سامنے کھڑی تھی، کمپنی کی تمام اچھی گاڑیاں بھی وہاں موجود تھیں، اس کے علاوہ ھر قسم کی نئی خوبصورت کاروں میں میرے تمام ساتھی بھی وہاں پر مجھے رخصت کرنے کے آئے ھوئے تھے، میرا اسسٹنٹ مراد بھی میرے بھانجے کے ساتھ اپنی کار کے پاس کھڑا ھوا مجھے اشارے کررھا تھا، لیکن مجھے جب میری مرضی کا اختیار دیا گیا تو سب لوگ خاموش ھوگئے اور میرے فیصلے کو ھنسی خوشی قبول کر ھی لیا، اسی اثناء میں راجہ میری طرف مسکراتا ھو بڑھا اور میرے گلے لگ گیا، اسکی آنکھوں میں بھی میں نے افسردگی کے تاثرات دیکھے اور وہ روسی زبان میں میرا شکریہ ادا کررھا تھا، کہ میں نے اسے اس قابل سمجھا کہ میں اسکے ساتھ سفر کروں، اور اس فیصلے سے سب کو بہت ھی خوشی ھوئی، کیونکہ گوانچ راجہ سب کا ھی مہربان دوست تھا، اس نے فوراً ھی مجھ سے میرا ھینڈبیگ لیا، اور سوٹ کیس تو شاید میرے بھانجے نے میرے اسسٹنٹ مراد کی گاڑی کی ڈگی میں پہلے سے ھی ڈال دیا تھا، مجھے بھی اس الوداعی سفر میں گوانچ راجہ کا ساتھ بہت اچھا لگ رھا تھا،!!!!!

    راجہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا، میں نے انکار بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ آج مجھے خوشی ھوگی کہ آپ میرے پیچھے اپنی دوست گل زرین کے ساتھ بیٹھیں، اور میرے لئے یہ کیا کم ھے کہ آپ نے میرے ساتھ جانے کی خواھش کی ھے، اور نہ جانے وہ جذباتی انداز میں کیا کچھ کہتا رھا،!!!! میں اور گل پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے، گاڑی میں راجہ نے بہت ھی زبردست قسم کا پرفیوم چھڑکا ھوا تھا، جس سے گاڑی خوب مہکی ھوئی تھی، راجہ کے گاڑی اسٹارٹ کرتے ھی دوسروں نے بھی اپنی اپنی گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور ایک دوسرے کے پیچھے روانہ ھوگئے، راسے بھر سب نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے خوب ھنگامہ کیا ھوا تھا، ایک دوسرے سے گاڑیوں کی ریس لگانے میں مشغول تھے، اشک آباد کا ائرپورٹ کافی فاصلے پر تھا، میں تو بالکل خاموش اپنی یہاں کی خوبصورت یادوں کو لئے نہ جانے کہاں کھویا ھوا تھا، اور مجھے گل میری بیوی اور بچوں کیلئے اپنی طرف سے دیئے ھوئے تحفوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رھی تھی، اسکے علاوہ اس نے میری جیب میں شاید کچھ ڈالر کے نوٹ بھی ڈالے تھے، کہ میں اپنے بچوں کو انکی پسند سے بھی پاکستان میں خریداری کرادوں، میں تو بس خاموش اسے دیکھ رھا تھا، اور سوچ رھا تھا کہ کچھ رشتے نہ ھوتے بھی اسکی آنکھوں میں پیار اور محبت کی پر خلوص رشتے کی ایسی جھلک نظر آرھی تھی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا تھا،!!!!!!!
    --------------------------------

    راجہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا، میں نے انکار بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ آج مجھے خوشی ھوگی کہ آپ میرے پیچھے اپنی دوست گل زرین کے ساتھ بیٹھیں، اور میرے لئے یہ کیا کم ھے کہ آپ نے میرے ساتھ جانے کی خواھش کی ھے، اور نہ جانے وہ جذباتی انداز میں کیا کچھ کہتا رھا،!!!! میں اور گل پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے، گاڑی میں راجہ نے بہت ھی زبردست قسم کا پرفیوم چھڑکا ھوا تھا، جس سے گاڑی خوب مہکی ھوئی تھی، راجہ کے گاڑی اسٹارٹ کرتے ھی دوسروں نے بھی اپنی اپنی گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور ایک دوسرے کے پیچھے روانہ ھوگئے، راسے بھر سب نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے خوب ھنگامہ کیا ھوا تھا، ایک دوسرے سے گاڑیوں کی ریس لگانے میں مشغول تھے، اشک آباد کا ائرپورٹ کافی فاصلے پر تھا، میں تو بالکل خاموش اپنی یہاں کی خوبصورت یادوں کو لئے نہ جانے کہاں کھویا ھوا تھا، اور مجھے گل میری بیوی اور بچوں کیلئے اپنی طرف سے دیئے ھوئے تحفوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رھی تھی، اسکے علاوہ اس نے میری جیب میں شاید کچھ ڈالر کے نوٹ بھی ڈالے تھے، کہ میں اپنے بچوں کو انکی پسند سے بھی پاکستان میں خریداری کرادوں، میں تو بس خاموش اسے دیکھ رھا تھا، اور سوچ رھا تھا کہ کچھ رشتے نہ ھوتے بھی اسکی آنکھوں میں پیار اور محبت کی پر خلوص رشتے کی ایسی جھلک نظر آرھی تھی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا تھا،!!!!!!!

    جون کا مہینہ اور سال 1999 آج میں پورے ایک سال بعد اپنی یہاں اشک آباد کی خوبصورت یادوں کے ساتھ لئے پاکستان واپس جارھا تھا، ایک طرف تو اپنے مخلص دوستوں ساتھیوں سے بچھڑنے کا دکھ تھا اور دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اپنی پاک سرزمین پر اپنے بچوں اور بیگم کی تڑپ، بے چینی اور ان کی محبت کی وجہ سے جارھا تھا، جیسے ھی ھم سب مختلف گاڑیوں سے ائرپورٹ پہنچے تو کچھ لوگ مجھ سے باری باری الوداع ھوئے، آنکھیں ان سب کی اشکبار تھیں، اشک آباد میں اشکبار آنکھوں کو دیکھ کر میری آنکھیں بھی پرنم ھو گئیں، تین چار میرے ھم وطن تھے اور باقی زیادہ تر وہیں کے مقامی دوست احباب تھے، ان میں سے چند دوستوں نے اندر جانے کے لئے اجازت نامے لئے ھوئے تھے، وی آئی پی کے دروازے سے ھم سب داخل ھوئے، وہاں پر یہ اللٌہ کا کرم ھوا کہ اس کمپنی نے مجھے ھمیشہ وی آئی پی کے راستے ھی اجازت نامہ حاصل کرکے ایک پروٹوکول کے ذریعے ھی بلایا اور بھیجا بھی، اور اس ایک سال کے عرصے میں دو دفعہ مجھے پاکستان جانے اور واپسی کی اجازت بھی دی، وہاں اندر وی آئی پی لاونج میں مجھے سامان کا لگیج ٹکٹ اور پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس مل گیا، ابھی کچھ وقت باقی تھا، اس لئے جن لوگوں نے پاس بنوائے ھوئے تھے، وہ میرے ساتھ رھے، گل زرین میرا اسسٹنٹ مراد اور بھانجا بھی وہیں پر میرے ساتھ موجود تھے اس کے علاوہ راجہ اور دفتر کے تمام ساتھی اور ایک ھمارے مالکان کے چھوٹے بھائی بھی موجود تھے، وہاں ائرپورٹ کے لوگ بھی حیران تھے کہ ایک بندے کے لئے اتنے سارے لوگ الوداع کہنے کے لئے آئے ھوئے ھیں، !!!!!!!

    میرے بھانجا بھی بہت اداس تھا، لیکن میرے اسسٹنٹ مراد اور دوسرے ساتھیوں نے اسے بہت دلاسہ دیا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ھے ، ھم سب تمھارا خیال رکھیں گے، مجھے ویسے بھی اطمنان ھی تھا کیونکہ اس کے بھی کافی دوست بن گئے تھے، اس کا دل بھی وھاں پر لگا ھوا تھا، کچھ دیر بعد جہاز کی روانگی کا اعلان ھوا اور مجھ سے سب لوگ ملنے لگے، آخیر میں گل زرین کو دیکھا وہ بھی میرے قریب آئی اور رونے لگی، میری آنکھیں بھی آنسوں سے بھری تھی، میں نے اس سے ھاتھ ملایا اور نہ جانے وہ اپنی روسی زبان میں مجھے کیا کیا نصیحتیں کرتی رھی، میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا، آخر کار مجھے وہاں کے سیکورٹی گارڈ نے خبردار بھی کیا کہ اب آپ کے پاس وقت نہیں ھے، مجبوراً سب کو الوداع کہتا ھوا، اور ھاتھ ھلاتا ھوا لاونج کے ساتھ والے دروازے سے باہر نکلا جہاں ایک کار کھڑی تھی، مجھے ڈرائیور نے دروازہ کھول کر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اپنا ھینڈ بیگ اپنے ساتھ ھی پچھلی سیٹ پر رکھا اور شیشوں سے میں سب کو دیکھ رھا تھا، جو مجھے ھاتھ ھلا کر رخصت کررھے تھے، جیسے جیسے میری کار جہاز کی طرف بڑھ رھی تھی، ویسے ھی آھستہ آھستہ سب میری نظروں سے اوجھل ھوتے جارھے تھے،!!!!!!ا!!!!!

    جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھتے ھوئے دروازے کے پاس پہنچنے سے پہلے میں نے آخری بار مڑ کر اشک آباد کو دیکھا رات کاوقت تھا اور سارا ائر پورٹ روشنیوں سے جگمگا رھا تھا لیکن اس میں بھی ایک افسردی سی جھلک رھی تھی، یہ روشنیاں بھی لگتا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ خفا خفا سی لگ رھی تھیں، جہاز کے اندر داخل ھوتے ھی مجھے میری مطلوبہ سیٹ کی نشاندھی پر میں نے وہاں کے اوپر کے کیبنٹ میں اپنا ھینڈ بیگ رکھا، اور سیٹ پر بیٹھ گیا جو کہ کھڑکی کے ساتھ ھی تھی، اور میں وہیں پر بیٹھا اشک آباد کے ائرپورٹ کا جائزہ لے رھا تھا، اور سوچ کچھ اور ھی رھا تھا، وہاں کے لوگوں کی پرخلوص روایتی مہمانداریاں، ھر ایک کے بارے میں باری باری خیال آرھے تھے، وھاں کا گزارا ھوا ھر ایک لمحہ کوئی طلسماتی سحر انگیز کسی جادونگری سے کم نہیں تھا، میں تو وھاں کے لوگوں کی خوبصورت یاداشتوں کو لئے جارھا تھا، اگر میری فیملی کی مجبوری نہیں ھوتی تو میں وھاں سے کبھی بھی واپس نہیں آتا،!!!!!!!!

    میں اپنی یادوں میں ھی اتنا گم تھا کہ مجھے اس وقت ھوش آیا جس وقت جہاز رن وے پر آڑان کیلئے دوڑنے لگا، میں واقعی بہت ھی مہربان دوستوں سے محروم ھو رھا تھا، جیسے جیسے جہاز فضا میں بلند ھو رھا تھا ویسے ویسے پھر مجھے وہاں کی ھر ایک بات ان لوگوں کے عادت اطوار، رھن سہن وہاں کی ثقافت روایت بہت ھی خوبصورت اور دلوں میں گھر کرنے والے پرخلوص میزبان لوگ مجھے یاد آرھے تھے، جو کہ میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھے، ان میں چند برائیاں بھی تھیں لیکن میں تو ھمیشہ دوسروں میں انکی خوبیاں تلاش کرتا ھوں، کچھ چند ایک ان کی اچھائیاں میں پیش کرنا چاھوں گا، میں یہ کہہ سکتا ھوں کہ جو ھم میں حقوق العباد کی تمام خوبیاں ھونی چاھئیں، وہ میں نے ان لوگوں میں کثرت سے پائیں، چاھے وہ مسلمان ھو یا کوئی غیر مسلم ھو،!!!!!!

    سب سے پہلے وہاں کی اکثریت جھوٹ کو ایک گالی سمجھتی ھے اور جھوٹ بولنے والے کو سب سے برا شخص سمجھتے ھیں، وہ لوگ جو وعدہ کرتے ھیں اسے وقت مقررہ سے پہلے ھی پورا کرتے ھیں، ورنہ معذرت طلب کرلیتے ھیں، اس کے ساتھ ان کا حسن اخلاق میں نے بہت ھی عمدہ اور نفیس پایا، لڑائی جھگڑے سے بالکل پرھیز کرتے ھیں، ایک دوسرے سے ملتے وقت اپنی زبان میں سلام دعاء کرتے ھیں، چاھے کوئی بھی ھو ادب اور احترام سے پیش آتے ھیں، قانون کا احترام بھی بہت کرتے ھیں، رشوت اور کرپشن بھی وہاں کے محکموں میں پائی جاتی ھے، لیکن بہت کم دیکھنے میں آئی، بہت چوری چھپے کیونکہ وہاں کا قانوں بہت سخت ھے، !!!!!!

    سب سے اچھی بات جو میں نے وہاں دیکھی کہ وہ اپنے خاص کر گھر کے ملازموں کے ساتھ بہت ھی اچھا سلوک روا رکھتے ھیں، انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھاتے ھیں، جب تک وہ سارے ٹیبل پر کھانا نہ لگادے اور وہ خود نہ بیٹھ جائے کوئی بھی کھانا شروع نہیں کرتا ھے، اور میں نے سب کو وہاں پر کھانا کھانے سے پہلے انکی اپنی زبان میں دعا مانگتے دیکھا، اور کھانے کے اختتام پر شکر ادا کرتے ھوئے سنا، ملازمیں بھی اپنے گھر کو اور اپنے آپکو ھمیشہ صاف ستھرا رکھتے ھوئے دیکھا، کھانا پکانے میں بھی بہت ھی زیادہ صفائی کا خیال رکھتے ھیں، لگتا ھی نہیں کہ وہ اس گھر کے ملازمین ھیں، وہ لوگ بازار انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ھیں اپنی پسند کے ساتھ انکی پسند کی چیزیں بھی انہیں خرید کر دیتے ھیں، اس کے علاوہ ملازموں کے بچوں میں اور اپنے بچوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے ھیں، میں نے تمام بچوں کو ساتھ کھیلتے ھوئے بھی دیکھا،!!!

    ان کا یہی خیال ھے کہ آپ کو اگر اپنا گھر صاف ستھرا اور کھانا اور دوسری چیزوں میں نفیس سجاوٹ اور صفائی کیلئے گھر کے اگر ملازم خود صاف ستھرے نہ ھوں گے تو یہ سب کس طرح ممکن ھے کہ آپ کو ھر چیز صاف ستھری ملے، ان کے لباس اور کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی صفائی اگر اچھی ھوگی تو آپ کو بھی ھر چیز حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ملیں گی، اسی لئے وہ اپنے ملازموں کے ساتھ ایک تو بہت ھی خوش اخلاقی سے پیش آتے ھیں، اس کے علاوہ ان کے لباس بھی بہترین جو اپنے لئے پسند کرتے ھیں وہی چیز ان کو بھی لا کر دیتے ھیں، یا علیحدہ سے پیسے دیتے ھیں، جو جو جس قابل ھوتا ھے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ھے، ان کا کہنا ھے کہ جب آپ نے اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ خیرات یا کسی کی مدد کرنا ھے تو پہلے اپنے گھر سے کیوں نہ شروع کریں، پھر اگر گھر کے ملازم جیسے چوکیدار، صفائی کرنے والے، یا دوسرے اپنی حیثیت کے مطابق جو نوکر رکھتے ھیں، وہاں کے لوگ سب سے پہلے ان میں اپنے خرچ سے بچا کر ھر مہینے انکی کسی نہ کسی طرح مدد کرتے رھتے ھیں، اسکے بعد وہاں کے تمام اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھتے ھیں، اگر کوئی کم حیثیت کا ھو تو اسکی مدد بھی کرتے ھیں،!!!!!!!!!

    اس کے علاوہ میں نے ھر گھر میں ایک لائبریری ضرور دیکھی، جہاں پر ھر موضوعات پر شیلف میں سجی ھوئی روسی زبان میں دیکھیں، جہاں آپکو ھر مذھب کی کتابیں بہترین اسکالرز کی لکھی ھوئی، یہاں تک کہ میں نے قران شریف کو بھی ان کی شیلف میں دیکھا اور اسکے ساتھ اسکی تفسیر اور آحادیث بھی دیکھیں جو کہ سب کی سب روسی زبان میں تھیں، میں نے ان لوگوں میں مطالعہ کا بہت شوق بھی دیکھا، کھیلوں اور تفریحات میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ھیں، یہاں کے لوگوں کو عورتیں ھوں یا مرد یا بچے اکثر ورزش کیلئے صبح صبح دوڑتے ھوئے اور بڑے بوڑھوں کو پارک میں ٹہلتے ھوئے بھی پایا،،!!!!!!

    اس کے علاوہ یہاں کے تمام باشندے چاھے وہ مسلمان ھوں یا غیر مسلم سب اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ھیں، غربت بھی بہت ھے، لیکن وہاں کے لوگوں کی اکثریت اپنے ملک کی سرزمین کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ھیں، بہت کم لوگ ایسے ھیں جو کہ اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے باھر کے ملکوں میں بھیجتے ھیں، تعلیم وہاں پر سیکنڈری اسکول تک مفت ھے، اور وہاں کے اسکولوں کا اسٹینڈرڈ بہت ھی اعلیٰ ھے، مگر صرف ان کی اپنی قومی زبان میں، ایک وہاں کی مقامی زبان اور دوسرے روسی زبان میں بھی تعلیم کا رواج ھے، لیکن اب وہ ھر جگہ اپنی مقامی زبان کو زیادہ ترقی دے رھے ھیں، انگلش کی تعلیم عام نہیں ھے، دفتروں میں بھی مقامی زبان میں کام ھورھا ھے،!!!!!!!!!!!

    میں تو وہاں کی ان تمام باتوں اور ان کی اچھائیوں کے خیالات کو ذہن میں لئے اشک آباد سے کراچی کا سفر کررھا تھا، اور تقریباً تین گھنٹے کے بعد کراچی میں جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، مجھے بہت ھی خوشی ھورھی تھی کہ میں اب چند ھی لمحات میں اپنے پاک وطن کی سرزمیں دیکھ سکوں گا، ایسے وقت میں آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ھیں، ابھی صبح نہیں ھوئی تھی، رات کا اندھیرا چھٹنے میں بھی کچھ دیر باقی تھی، فوراً ھی ایک جھٹکے کے ساتھ جہاز کے پہیوں کے کھلنے کی آواز آئی، میں کھڑکی سے باھر دیکھنے کی کوشش کررھا تھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرھا تھا، کچھ ھی دیر میں کراچی شہر کی روشنیاں نظر آنے لگیں، جہاز نیچے ھوتا گیا اور چند لمحات میں ھی ایک جھٹکے کے ساتھ ھی پہیئے زمیں کو چھوتے ھوئے رن وے پر دوڑ رھے تھے، اور میرا خوشی کے مارے برا حال تھا،!!!!!!!!!!!
     
  10. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دوسرے دن حسب توقع صبح دفتر جانے سے پہلے دونوں نے اپنی خواھش کا اظہار کر ھی دیا کہ شام کو کچھ پیسے بطور ایڈوانس لے آنا، کچھ ضرورت ھے اور میں نے ھامی بھر لی، بعض اوقات ضرورت انسان کو اتنا مجبور بنادیتی ھے کہ جس سے سخت سے سخت آدمی کو بھی اپنی خودی اور انا کو مجروح کرنا پڑتا ھے، جو بہت مشکل کام ھے، میں تو اس بات کا قائل ھوں کہ اگر کوئی کسی مشکل میں ھو یا کسی کو کسی مدد کی ضرورت ھے تو فوراً ھی اگر آپ اس قابل ھیں تو اس کی اس مسکل میں اسکی مدد ضرور کریں چاھے وہ آپکے کتنے ھی خلاف کیوں ھی نہ ھوں، اسی طرح ھم اپنے خلاف جانے والوں یا کسی بھی رنجش کی وجہ سے نفرت کرتے ھوں وہ آپکی بار بار نظر کرم اور مہربانیوں کی وجہ سے اپنے اندر کی پلنے والی رنجشوں کو بھلا دیں گے اور آپ سے خود ھی آکر گلے لگ کر معافی بھی مانگیں گے، یہ میرا اپنا ذاتی مشاھدہ بھی ھے،!!!!!!!!

    میں تو اپنے جانتے میں اپنے آپ کو وہاں کے ماحول میں رھتے ھوئے ھرخرافات سے ھر ممکن بچنے کی کوشش کرتا رھا، جس میں گل نے بھی میری بہت مدد کی، اگر وہ نہ ھوتی تو شاید میں بھٹک ھی جاتا، مگر لوگوں نے تو میرا پیچھا ھی لے لیا، اور شاید گل کے ھمارے گھر آنے جانے سے مجھے غلط سمجھتے رھے، بہرحال میں بھی نہیں چاھتا تھا کہ لوگ میرے بارے میں کوئی غلط فہمی اختیار کرلیں اور ادھر ھماری بیگم بھی پاکستان میں پریشان تھیں، وہ بھی نہیں چاھتی تھیں کہ میں یہاں رھوں، بعض رشتہ داروں نے وھاں پر انہیں کافی سے بھی زیادہ میرے متعلق ان کے دل میں غلط فہمیاں پیدا کردی تھیں، اور یہاں بھی گل نے مجھے یہی مشورہ دیا تھا کہ میں یہاں سے جتنا جلدی ممکن ھوسکےچلا جاؤں،!!!!!

    سعودیہ میں میرے پرانی کمپنی کے دوستوں سے بھی رابطہ رھا، انہی میرے دوستوں کی خواھش پر میرے وھاں کے استاد محترم مجھے دوبارہ بلانے کی کوشش کرتے رھے، مگر میں نے شروع شروع میں تو انکار کیا، لیکن اب یہاں مجھے ایک سال ھونے والا تھا، اور میرا کنٹریکٹ بھی ایک سال کا ھی تھا میں اب گھریلو حالات کی وجہ سے بھی یہاں سے واپس جانا چاھتا تھا، میں نہیں چاھتا تھا کہ میرے ھنستے بستے گھر میں رنجشوں کی دراڑیں پڑجائیں، میں نے فوراً ھی اپنے استاد محترم سے سعودیہ میں واپس جانے کی حامی بھرلی، سعودیہ میں میرے تمام دوست میری واپسی کا سن کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، اور یہاں پر میرے تمام ساتھی بہت ھی غم زدہ ھو گئے، یہاں میں نے استعفیٰ اپنے چیرمیں کے سامنے رکھ دیا، یہاں کی کمپنی کے مالکان بھی بہت ھی ناراض ھوئے اور انہوں نے سعودیہ سے بھی زیادہ کی تنخواہ کی پیش کش کردی، لیکن میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ھوئے اپنے گھریلو حالات سے آگاہ کیا اور معذرت طلب کی، بہت ھی مشکل سے انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دی اور فرداً فرداً بھی میں نے تمام اپنے ساتھیوں سے معذرت طلب کرلی، اور انہیں بھی کسی نہ کسی طرح راضی کر ھی لیا، اور میرے وھاں سے جانے سے پہلے سب نے مل کر میرے لئے ایک بہت ھی زبردست الوداعی پارٹی کا اھتمام کیا، اس پارٹی میں مجھے پھولوں کے گلدستوں کے علاوہ تحفہ تحائف بھی دیئے گئے، ان میں سے ایک تحفہ میرے ھاتھ میں آج بھی ان دوستوں کی دی ھوئی خوبصورت گھڑی بھی اب تک بندھی ھوئی جو وہاں کی خوبصورت یادوں اور پرخلوص محبتوں کی یاد دلاتی رھتی ھے،!!!!!

    جون کے شروع کا مہینہ اور 1999 کا سال تھا، اس دن کی ایک خوبصورت سہانی شام تھی، اس پارٹی میں تمام دوست احباب، کمپنی کے مالکان اور دوسری کمپنیوں کے اعلیٰ عہدےداران بھی کمپنی کے دیئے گے اس تقریب میں شامل تھے، جن سے میری بھی اچھی خاصی واقفیت تھی، ایسی بہت ساری تقریبیں میری نظر سے گزری تھیں، لیکن ایسی تقریب جو مجھے الوداع کہنے کیلئے منائی جارھی تھی، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی پروقار تقریب نہیں دیکھی تھی، میرے ساتھ اس تقریب میں گل بھی شریک تھی، وہاں کے لوگوں کی یہی تو ایک خاص بات ھے کہ ھر آنے والوں کا والہانہ استقبال کرتے ھیں اور رخصت ھونے والوں اعزاز میں بھی خوبصورت الوداعی تقریبات کا تحفے تحائف کے ساتھ اھتمام بھی کرتے ھیں، یہ ان کی روایات میں شامل ھیں، ان سب کی پرخلوص محبتیں اور عنائتیں میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا، ان سب سے مجھے بھی جدا ھوتے ھوئے دکھ ھو رھا تھا، میں نے ان سب کے ساتھ ایک بہترین فیملی کی طرح پورا ایک سال کا دورانیہ گزارا تھا،!!!!!!

    اس دن رات کی فلائٹ تھی، میں نے اپنا سوٹ کیس پہلے سے ھی پیک کر لیا تھا، اس کے علاوہ ایک ھینڈ بیگ تھا، جس میں زیادہ تر دوستوں کے تحفے تحائف رکھے ھوئے تھے، گھر پر بہت ھی رونق لگی ھوئی تھی، میرے ساتھ رھنے والے دوستوں نے یہاں پر ایک دعوت کا اھتمام کیا ھوا تھا، دوستوں کا کافی رش تھا، دفتر کے تمام ساتھی بھی موجود تھے، خوب خوش گپیاں اور مذاق بھی ساتھ ساتھ ھورھا تھا، ایک فیملی کا جیسا ماحول تھا، گل بھی میرے ساتھ ھی بیٹھی تھی، اور وہ ھی زیادہ تر مذاق کا نشانہ بنی ھوئی تھی کہ میں اسے چھوڑ کر جارھا ھوں، مگر اس نے تمام لوگوں سے بہت ھی شائستہ اور خلوص انداز سے ھر ایک کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی، باتوں باتوں اس نے روسی زبان میں کہا کہ،!!!! "میں نے ھمیشہ سید کو ایک سچے دوست کی طرح دیکھا ھے، اگر کوئی ایسی ویسی بات ھوتی تو میں آج اس طرح آپ سب کی اس دعوت میں شریک نہیں ھوتی، میں سید کی قدر کرتی ھوں کیونکہ انہوں نے مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، سب سے بڑی بات کہ پہلے دن سے ھی انہوں نے مجھ سے اپنی فیملی کا غائبانہ تعارف کرایا، مجھے خوشی ھے کہ سید صاحب اپنی فیملی کو دل و جان سے چاھتے ھیں، اور میں کبھی یہ نہیں چاھوں گی کہ ان کے آپس کے تعلقات خراب ھوں، !!!!!!!

    میرا بھانجا بھی وہیں موجود تھا، لیکن میرے جانے کی وجہ سے وہ بہت افسردہ افسردہ سا تھا، جبکہ اس کا دل یہاں پر لگ چکا تھا، اور بہت خوش بھی تھا، اس کے لئے میں نے کمپنی کے مالکان سے بھی اس کی تنخواہ میں اضافے کیلئے انہیں راضی کرلیا تھا، بہت سے لوگوں کا اس شام کو آنا جانا لگا رھا، کئی گاڑیاں نیچے مجھے ائرپورٹ تک رخصت کرنے کیلئے کھڑی ھوئی تھیں، کمپنی کے مالکان بھی گھر پر آئے اور مجھ سے مل کر چلے گئے، ان میں سے ایک میرے ساتھ آخیر تک رھے، میں سب سے رخصت ھوتا ھوا اپنے فلیٹ سے نیچے اترنے لگا، گل میرے ساتھ تھی، وہ شاید آخری لمحے تک میرے ساتھ رھنا چاھتی تھی، نیچے پہنچتے ھی میں نے دیکھا کہ کئی کاریں اور جیپ ایک ساتھ لائن سے کھڑی ھیں اور ھر ایک یہ چاہ رھا تھا کہ میں اسکی گاڑی میں بیٹھوں، یہ ایک اور میرے لئے آزمائیش کا موقع تھا، کہ کس طرح ھر ایک کی خواھش کو میں پورا کروں، سب لوگ اپنی اپنی گاڑیوں کا دروازہ کھولے کھڑے میری طرف متوجہ تھے، کہ میرے قدم کس گاڑی کی طرف بڑھتے ھیں، ان پرخلوص محبتوں کا یہ انداز دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے،!!!!!!

    میں بھی وہاں پر دوسری طرف ساکت ھی کھڑا ھو کرسب کے اشاروں کو دیکھ رھا تھا، سب میرے لئے قابل احترام تھے، میں کسی کو بھی انکار کرنے کی جرت نہیں کرسکتا تھا، آخرکار ھماری کمپنی کے چیرمین کے چھوٹے بھائی جو میرے دوست بھی تھے، ان کی عزت سب لوگ کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ھمارے سامنے کبھی بھی مالکان کی طرح پیش نہیں کیا ھمیشہ دوستوں سے بھی زیادہ مخلصانہ برتاؤ رکھا، وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے، !!!! مجھے معلوم ھے کہ یہ سب تمام دوست تمھارے جگری ھیں، کس طرح تمھاری محبت میں اپنی اپنی گاڑیوں کے دروازے کھول کر کھڑے ھیں، دیکھو تم کتنے بے وفا ھو کہ ان سب کی محبتیں خلوص اور پیار چھوڑ کر جارھے ھو،،!!!! میں اس وقت کیا جواب دیتا بس اپنی آنکھوں کو پرنم کئے ھوئے تھا، انہوں نے سب سے کہا کہ جو میں فیصلہ کروں گا، اس کی گاڑی مین سید بیٹھے گا، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کس کے ساتھ جانا پسند کروگے، میری نظریں تمام دوستوں کی طرف سے ھوتی ھوئی اس میرے پرانے دوست ڈرائیور جس کا نام گوانچ تھا، اور میں اسے ھمیشہ راجہ کہا کرتا تھا، اسکے اوپر جاکر میری نظریں ٹہر گئی، اور میں نے اسکی طرف اشارہ کردیا، اس کا ساتھ میرا ایک واقعی جگری دوست کی طرح ھی تھا، میرا اسکا ساتھ دفتری کام کے علاوہ باھر کے کام سے بھی بہت رھا اور ھر قدم پر اس نے میرا بہت ساتھ دیا تھا، اس کے علاوہ سب ساتھیوں نے بھی میرے ساتھ بہت ھی اچھا پرخلوص برتاؤ رکھا، !!!!!!

    میرا اشارا پاتے ھی وہ بہت خوش ھوا، اسے مجھ سے ویسے امید نہیں تھی، کیونکہ اس کے پاس وہی ایک سال پرانی چروکی جیپ تھی، جس میں، میں نے اس کے ساتھ کافی سفر بھی کیا تھا، وہ سمجھ رھا تھا کہ شاید میں نئی ماڈرن گاڑیوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں گا، کیونکہ ھمارے مالکان کے ایک نئی مرسیڈیز بھی سامنے کھڑی تھی، کمپنی کی تمام اچھی گاڑیاں بھی وہاں موجود تھیں، اس کے علاوہ ھر قسم کی نئی خوبصورت کاروں میں میرے تمام ساتھی بھی وہاں پر مجھے رخصت کرنے کے آئے ھوئے تھے، میرا اسسٹنٹ مراد بھی میرے بھانجے کے ساتھ اپنی کار کے پاس کھڑا ھوا مجھے اشارے کررھا تھا، لیکن مجھے جب میری مرضی کا اختیار دیا گیا تو سب لوگ خاموش ھوگئے اور میرے فیصلے کو ھنسی خوشی قبول کر ھی لیا، اسی اثناء میں راجہ میری طرف مسکراتا ھو بڑھا اور میرے گلے لگ گیا، اسکی آنکھوں میں بھی میں نے افسردگی کے تاثرات دیکھے اور وہ روسی زبان میں میرا شکریہ ادا کررھا تھا، کہ میں نے اسے اس قابل سمجھا کہ میں اسکے ساتھ سفر کروں، اور اس فیصلے سے سب کو بہت ھی خوشی ھوئی، کیونکہ گوانچ راجہ سب کا ھی مہربان دوست تھا، اس نے فوراً ھی مجھ سے میرا ھینڈبیگ لیا، اور سوٹ کیس تو شاید میرے بھانجے نے میرے اسسٹنٹ مراد کی گاڑی کی ڈگی میں پہلے سے ھی ڈال دیا تھا، مجھے بھی اس الوداعی سفر میں گوانچ راجہ کا ساتھ بہت اچھا لگ رھا تھا،!!!!!

    راجہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا، میں نے انکار بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ آج مجھے خوشی ھوگی کہ آپ میرے پیچھے اپنی دوست گل زرین کے ساتھ بیٹھیں، اور میرے لئے یہ کیا کم ھے کہ آپ نے میرے ساتھ جانے کی خواھش کی ھے، اور نہ جانے وہ جذباتی انداز میں کیا کچھ کہتا رھا،!!!! میں اور گل پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے، گاڑی میں راجہ نے بہت ھی زبردست قسم کا پرفیوم چھڑکا ھوا تھا، جس سے گاڑی خوب مہکی ھوئی تھی، راجہ کے گاڑی اسٹارٹ کرتے ھی دوسروں نے بھی اپنی اپنی گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور ایک دوسرے کے پیچھے روانہ ھوگئے، راسے بھر سب نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے خوب ھنگامہ کیا ھوا تھا، ایک دوسرے سے گاڑیوں کی ریس لگانے میں مشغول تھے، اشک آباد کا ائرپورٹ کافی فاصلے پر تھا، میں تو بالکل خاموش اپنی یہاں کی خوبصورت یادوں کو لئے نہ جانے کہاں کھویا ھوا تھا، اور مجھے گل میری بیوی اور بچوں کیلئے اپنی طرف سے دیئے ھوئے تحفوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رھی تھی، اسکے علاوہ اس نے میری جیب میں شاید کچھ ڈالر کے نوٹ بھی ڈالے تھے، کہ میں اپنے بچوں کو انکی پسند سے بھی پاکستان میں خریداری کرادوں، میں تو بس خاموش اسے دیکھ رھا تھا، اور سوچ رھا تھا کہ کچھ رشتے نہ ھوتے بھی اسکی آنکھوں میں پیار اور محبت کی پر خلوص رشتے کی ایسی جھلک نظر آرھی تھی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا تھا،!!!!!!!
    --------------------------------

    راجہ نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کیلئے کہا، میں نے انکار بھی کیا لیکن اس نے کہا کہ آج مجھے خوشی ھوگی کہ آپ میرے پیچھے اپنی دوست گل زرین کے ساتھ بیٹھیں، اور میرے لئے یہ کیا کم ھے کہ آپ نے میرے ساتھ جانے کی خواھش کی ھے، اور نہ جانے وہ جذباتی انداز میں کیا کچھ کہتا رھا،!!!! میں اور گل پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے، گاڑی میں راجہ نے بہت ھی زبردست قسم کا پرفیوم چھڑکا ھوا تھا، جس سے گاڑی خوب مہکی ھوئی تھی، راجہ کے گاڑی اسٹارٹ کرتے ھی دوسروں نے بھی اپنی اپنی گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور ایک دوسرے کے پیچھے روانہ ھوگئے، راسے بھر سب نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے خوب ھنگامہ کیا ھوا تھا، ایک دوسرے سے گاڑیوں کی ریس لگانے میں مشغول تھے، اشک آباد کا ائرپورٹ کافی فاصلے پر تھا، میں تو بالکل خاموش اپنی یہاں کی خوبصورت یادوں کو لئے نہ جانے کہاں کھویا ھوا تھا، اور مجھے گل میری بیوی اور بچوں کیلئے اپنی طرف سے دیئے ھوئے تحفوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رھی تھی، اسکے علاوہ اس نے میری جیب میں شاید کچھ ڈالر کے نوٹ بھی ڈالے تھے، کہ میں اپنے بچوں کو انکی پسند سے بھی پاکستان میں خریداری کرادوں، میں تو بس خاموش اسے دیکھ رھا تھا، اور سوچ رھا تھا کہ کچھ رشتے نہ ھوتے بھی اسکی آنکھوں میں پیار اور محبت کی پر خلوص رشتے کی ایسی جھلک نظر آرھی تھی، جس کا کہ میں کوئی نام نہیں دے سکتا تھا،!!!!!!!

    جون کا مہینہ اور سال 1999 آج میں پورے ایک سال بعد اپنی یہاں اشک آباد کی خوبصورت یادوں کے ساتھ لئے پاکستان واپس جارھا تھا، ایک طرف تو اپنے مخلص دوستوں ساتھیوں سے بچھڑنے کا دکھ تھا اور دوسری طرف اس بات کی خوشی بھی تھی کہ اپنی پاک سرزمین پر اپنے بچوں اور بیگم کی تڑپ، بے چینی اور ان کی محبت کی وجہ سے جارھا تھا، جیسے ھی ھم سب مختلف گاڑیوں سے ائرپورٹ پہنچے تو کچھ لوگ مجھ سے باری باری الوداع ھوئے، آنکھیں ان سب کی اشکبار تھیں، اشک آباد میں اشکبار آنکھوں کو دیکھ کر میری آنکھیں بھی پرنم ھو گئیں، تین چار میرے ھم وطن تھے اور باقی زیادہ تر وہیں کے مقامی دوست احباب تھے، ان میں سے چند دوستوں نے اندر جانے کے لئے اجازت نامے لئے ھوئے تھے، وی آئی پی کے دروازے سے ھم سب داخل ھوئے، وہاں پر یہ اللٌہ کا کرم ھوا کہ اس کمپنی نے مجھے ھمیشہ وی آئی پی کے راستے ھی اجازت نامہ حاصل کرکے ایک پروٹوکول کے ذریعے ھی بلایا اور بھیجا بھی، اور اس ایک سال کے عرصے میں دو دفعہ مجھے پاکستان جانے اور واپسی کی اجازت بھی دی، وہاں اندر وی آئی پی لاونج میں مجھے سامان کا لگیج ٹکٹ اور پاسپورٹ اور بورڈنگ پاس مل گیا، ابھی کچھ وقت باقی تھا، اس لئے جن لوگوں نے پاس بنوائے ھوئے تھے، وہ میرے ساتھ رھے، گل زرین میرا اسسٹنٹ مراد اور بھانجا بھی وہیں پر میرے ساتھ موجود تھے اس کے علاوہ راجہ اور دفتر کے تمام ساتھی اور ایک ھمارے مالکان کے چھوٹے بھائی بھی موجود تھے، وہاں ائرپورٹ کے لوگ بھی حیران تھے کہ ایک بندے کے لئے اتنے سارے لوگ الوداع کہنے کے لئے آئے ھوئے ھیں، !!!!!!!

    میرے بھانجا بھی بہت اداس تھا، لیکن میرے اسسٹنٹ مراد اور دوسرے ساتھیوں نے اسے بہت دلاسہ دیا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ھے ، ھم سب تمھارا خیال رکھیں گے، مجھے ویسے بھی اطمنان ھی تھا کیونکہ اس کے بھی کافی دوست بن گئے تھے، اس کا دل بھی وھاں پر لگا ھوا تھا، کچھ دیر بعد جہاز کی روانگی کا اعلان ھوا اور مجھ سے سب لوگ ملنے لگے، آخیر میں گل زرین کو دیکھا وہ بھی میرے قریب آئی اور رونے لگی، میری آنکھیں بھی آنسوں سے بھری تھی، میں نے اس سے ھاتھ ملایا اور نہ جانے وہ اپنی روسی زبان میں مجھے کیا کیا نصیحتیں کرتی رھی، میں کچھ بھی سمجھ نہ پایا، آخر کار مجھے وہاں کے سیکورٹی گارڈ نے خبردار بھی کیا کہ اب آپ کے پاس وقت نہیں ھے، مجبوراً سب کو الوداع کہتا ھوا، اور ھاتھ ھلاتا ھوا لاونج کے ساتھ والے دروازے سے باہر نکلا جہاں ایک کار کھڑی تھی، مجھے ڈرائیور نے دروازہ کھول کر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اپنا ھینڈ بیگ اپنے ساتھ ھی پچھلی سیٹ پر رکھا اور شیشوں سے میں سب کو دیکھ رھا تھا، جو مجھے ھاتھ ھلا کر رخصت کررھے تھے، جیسے جیسے میری کار جہاز کی طرف بڑھ رھی تھی، ویسے ھی آھستہ آھستہ سب میری نظروں سے اوجھل ھوتے جارھے تھے،!!!!!!ا!!!!!

    جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھتے ھوئے دروازے کے پاس پہنچنے سے پہلے میں نے آخری بار مڑ کر اشک آباد کو دیکھا رات کاوقت تھا اور سارا ائر پورٹ روشنیوں سے جگمگا رھا تھا لیکن اس میں بھی ایک افسردی سی جھلک رھی تھی، یہ روشنیاں بھی لگتا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ خفا خفا سی لگ رھی تھیں، جہاز کے اندر داخل ھوتے ھی مجھے میری مطلوبہ سیٹ کی نشاندھی پر میں نے وہاں کے اوپر کے کیبنٹ میں اپنا ھینڈ بیگ رکھا، اور سیٹ پر بیٹھ گیا جو کہ کھڑکی کے ساتھ ھی تھی، اور میں وہیں پر بیٹھا اشک آباد کے ائرپورٹ کا جائزہ لے رھا تھا، اور سوچ کچھ اور ھی رھا تھا، وہاں کے لوگوں کی پرخلوص روایتی مہمانداریاں، ھر ایک کے بارے میں باری باری خیال آرھے تھے، وھاں کا گزارا ھوا ھر ایک لمحہ کوئی طلسماتی سحر انگیز کسی جادونگری سے کم نہیں تھا، میں تو وھاں کے لوگوں کی خوبصورت یاداشتوں کو لئے جارھا تھا، اگر میری فیملی کی مجبوری نہیں ھوتی تو میں وھاں سے کبھی بھی واپس نہیں آتا،!!!!!!!!

    میں اپنی یادوں میں ھی اتنا گم تھا کہ مجھے اس وقت ھوش آیا جس وقت جہاز رن وے پر آڑان کیلئے دوڑنے لگا، میں واقعی بہت ھی مہربان دوستوں سے محروم ھو رھا تھا، جیسے جیسے جہاز فضا میں بلند ھو رھا تھا ویسے ویسے پھر مجھے وہاں کی ھر ایک بات ان لوگوں کے عادت اطوار، رھن سہن وہاں کی ثقافت روایت بہت ھی خوبصورت اور دلوں میں گھر کرنے والے پرخلوص میزبان لوگ مجھے یاد آرھے تھے، جو کہ میں نے آج تک کہیں نہیں دیکھے، ان میں چند برائیاں بھی تھیں لیکن میں تو ھمیشہ دوسروں میں انکی خوبیاں تلاش کرتا ھوں، کچھ چند ایک ان کی اچھائیاں میں پیش کرنا چاھوں گا، میں یہ کہہ سکتا ھوں کہ جو ھم میں حقوق العباد کی تمام خوبیاں ھونی چاھئیں، وہ میں نے ان لوگوں میں کثرت سے پائیں، چاھے وہ مسلمان ھو یا کوئی غیر مسلم ھو،!!!!!!

    سب سے پہلے وہاں کی اکثریت جھوٹ کو ایک گالی سمجھتی ھے اور جھوٹ بولنے والے کو سب سے برا شخص سمجھتے ھیں، وہ لوگ جو وعدہ کرتے ھیں اسے وقت مقررہ سے پہلے ھی پورا کرتے ھیں، ورنہ معذرت طلب کرلیتے ھیں، اس کے ساتھ ان کا حسن اخلاق میں نے بہت ھی عمدہ اور نفیس پایا، لڑائی جھگڑے سے بالکل پرھیز کرتے ھیں، ایک دوسرے سے ملتے وقت اپنی زبان میں سلام دعاء کرتے ھیں، چاھے کوئی بھی ھو ادب اور احترام سے پیش آتے ھیں، قانون کا احترام بھی بہت کرتے ھیں، رشوت اور کرپشن بھی وہاں کے محکموں میں پائی جاتی ھے، لیکن بہت کم دیکھنے میں آئی، بہت چوری چھپے کیونکہ وہاں کا قانوں بہت سخت ھے، !!!!!!

    سب سے اچھی بات جو میں نے وہاں دیکھی کہ وہ اپنے خاص کر گھر کے ملازموں کے ساتھ بہت ھی اچھا سلوک روا رکھتے ھیں، انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھاتے ھیں، جب تک وہ سارے ٹیبل پر کھانا نہ لگادے اور وہ خود نہ بیٹھ جائے کوئی بھی کھانا شروع نہیں کرتا ھے، اور میں نے سب کو وہاں پر کھانا کھانے سے پہلے انکی اپنی زبان میں دعا مانگتے دیکھا، اور کھانے کے اختتام پر شکر ادا کرتے ھوئے سنا، ملازمیں بھی اپنے گھر کو اور اپنے آپکو ھمیشہ صاف ستھرا رکھتے ھوئے دیکھا، کھانا پکانے میں بھی بہت ھی زیادہ صفائی کا خیال رکھتے ھیں، لگتا ھی نہیں کہ وہ اس گھر کے ملازمین ھیں، وہ لوگ بازار انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ھیں اپنی پسند کے ساتھ انکی پسند کی چیزیں بھی انہیں خرید کر دیتے ھیں، اس کے علاوہ ملازموں کے بچوں میں اور اپنے بچوں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے ھیں، میں نے تمام بچوں کو ساتھ کھیلتے ھوئے بھی دیکھا،!!!

    ان کا یہی خیال ھے کہ آپ کو اگر اپنا گھر صاف ستھرا اور کھانا اور دوسری چیزوں میں نفیس سجاوٹ اور صفائی کیلئے گھر کے اگر ملازم خود صاف ستھرے نہ ھوں گے تو یہ سب کس طرح ممکن ھے کہ آپ کو ھر چیز صاف ستھری ملے، ان کے لباس اور کھانا پکانے اور کھانے کے برتنوں کی صفائی اگر اچھی ھوگی تو آپ کو بھی ھر چیز حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق ملیں گی، اسی لئے وہ اپنے ملازموں کے ساتھ ایک تو بہت ھی خوش اخلاقی سے پیش آتے ھیں، اس کے علاوہ ان کے لباس بھی بہترین جو اپنے لئے پسند کرتے ھیں وہی چیز ان کو بھی لا کر دیتے ھیں، یا علیحدہ سے پیسے دیتے ھیں، جو جو جس قابل ھوتا ھے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ھے، ان کا کہنا ھے کہ جب آپ نے اپنی کمائی میں سے کچھ حصہ خیرات یا کسی کی مدد کرنا ھے تو پہلے اپنے گھر سے کیوں نہ شروع کریں، پھر اگر گھر کے ملازم جیسے چوکیدار، صفائی کرنے والے، یا دوسرے اپنی حیثیت کے مطابق جو نوکر رکھتے ھیں، وہاں کے لوگ سب سے پہلے ان میں اپنے خرچ سے بچا کر ھر مہینے انکی کسی نہ کسی طرح مدد کرتے رھتے ھیں، اسکے بعد وہاں کے تمام اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھتے ھیں، اگر کوئی کم حیثیت کا ھو تو اسکی مدد بھی کرتے ھیں،!!!!!!!!!

    اس کے علاوہ میں نے ھر گھر میں ایک لائبریری ضرور دیکھی، جہاں پر ھر موضوعات پر شیلف میں سجی ھوئی روسی زبان میں دیکھیں، جہاں آپکو ھر مذھب کی کتابیں بہترین اسکالرز کی لکھی ھوئی، یہاں تک کہ میں نے قران شریف کو بھی ان کی شیلف میں دیکھا اور اسکے ساتھ اسکی تفسیر اور آحادیث بھی دیکھیں جو کہ سب کی سب روسی زبان میں تھیں، میں نے ان لوگوں میں مطالعہ کا بہت شوق بھی دیکھا، کھیلوں اور تفریحات میں بھی کافی دلچسپی رکھتے ھیں، یہاں کے لوگوں کو عورتیں ھوں یا مرد یا بچے اکثر ورزش کیلئے صبح صبح دوڑتے ھوئے اور بڑے بوڑھوں کو پارک میں ٹہلتے ھوئے بھی پایا،،!!!!!!

    اس کے علاوہ یہاں کے تمام باشندے چاھے وہ مسلمان ھوں یا غیر مسلم سب اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ھیں، غربت بھی بہت ھے، لیکن وہاں کے لوگوں کی اکثریت اپنے ملک کی سرزمین کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ھیں، بہت کم لوگ ایسے ھیں جو کہ اپنے بچوں کو تعلیم کیلئے باھر کے ملکوں میں بھیجتے ھیں، تعلیم وہاں پر سیکنڈری اسکول تک مفت ھے، اور وہاں کے اسکولوں کا اسٹینڈرڈ بہت ھی اعلیٰ ھے، مگر صرف ان کی اپنی قومی زبان میں، ایک وہاں کی مقامی زبان اور دوسرے روسی زبان میں بھی تعلیم کا رواج ھے، لیکن اب وہ ھر جگہ اپنی مقامی زبان کو زیادہ ترقی دے رھے ھیں، انگلش کی تعلیم عام نہیں ھے، دفتروں میں بھی مقامی زبان میں کام ھورھا ھے،!!!!!!!!!!!

    میں تو وہاں کی ان تمام باتوں اور ان کی اچھائیوں کے خیالات کو ذہن میں لئے اشک آباد سے کراچی کا سفر کررھا تھا، اور تقریباً تین گھنٹے کے بعد کراچی میں جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، مجھے بہت ھی خوشی ھورھی تھی کہ میں اب چند ھی لمحات میں اپنے پاک وطن کی سرزمیں دیکھ سکوں گا، ایسے وقت میں آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ھیں، ابھی صبح نہیں ھوئی تھی، رات کا اندھیرا چھٹنے میں بھی کچھ دیر باقی تھی، فوراً ھی ایک جھٹکے کے ساتھ جہاز کے پہیوں کے کھلنے کی آواز آئی، میں کھڑکی سے باھر دیکھنے کی کوشش کررھا تھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرھا تھا، کچھ ھی دیر میں کراچی شہر کی روشنیاں نظر آنے لگیں، جہاز نیچے ھوتا گیا اور چند لمحات میں ھی ایک جھٹکے کے ساتھ ھی پہیئے زمیں کو چھوتے ھوئے رن وے پر دوڑ رھے تھے، اور میرا خوشی کے مارے برا حال تھا،!!!!!!!!!!!
     
  11. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں تو وہاں کی ان تمام باتوں اور ان کی اچھائیوں کے خیالات کو ذہن میں لئے اشک آباد سے کراچی کا سفر کررھا تھا، اور تقریباً تین گھنٹے کے بعد کراچی میں جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، مجھے بہت ھی خوشی ھورھی تھی کہ میں اب چند ھی لمحات میں اپنے پاک وطن کی سرزمیں دیکھ سکوں گا، ایسے وقت میں آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ھیں، ابھی صبح نہیں ھوئی تھی، رات کا اندھیرا چھٹنے میں بھی کچھ دیر باقی تھی، فوراً ھی ایک جھٹکے کے ساتھ جہاز کے پہیوں کے کھلنے کی آواز آئی، میں کھڑکی سے باھر دیکھنے کی کوشش کررھا تھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرھا تھا، کچھ ھی دیر میں کراچی شہر کی روشنیاں نظر آنے لگیں، جہاز نیچے ھوتا گیا اور چند لمحات میں ھی ایک جھٹکے کے ساتھ ھی پہیئے زمیں کو چھوتے ھوئے رن وے پر دوڑ رھے تھے، اور میرا خوشی کے مارے برا حال تھا،!!!!!!!!!!!

    ائرپورٹ پر مجھے تو ایسا لگ رھا تھا کہ میں ابھی ابھی خواب سے جاگا ھوں، میں بہت جلد جلد قدم بڑھاتا ھوا ایمیگریشن کاونٹر کی طرف بڑھ رھا تھا، کافی رش تھا لگتا تھا کہ پہلے سے ھی تین فلائٹس کے مسافر ابھی تک فارغ نہیں ھوئے ھیں، مجھے بہت ھی دکھ ھوتا ھے کہ ابھی تک ھمارے کسی بھی محکمے کا نظام ٹھیک نہیں ھوا ھے، اس وقت بھی کئی کاونٹر تھے، لیکن ایک ایک مسافر کو فارغ ھونے کیلئے کافی دیر ھورھی تھی، میں چاھتا تھا کہ جلد سے جلد ائرپورٹ کے باھر چلا جاؤں لیکن مجبوری تھی، کافی دیر بعد میرا نمبر آیا، کچھ سوال جواب وہ صاحب ایسے کررھے تھے کہ میں ان کے جواب بہت ھی مجبوری سے اور غصہ کو دبائے ھوئے دے رھا تھا،!!!!!

    کہاں سے آرھے ھو،!!!!!!! اس نے اپنی گردن اکڑاتے ھوئے پوچھا،!!!!
    اشک آباد سے،!!!! میں نے بڑی شائستگی سے جواب دیا،!!!!!
    یہ کہاں پر ھے،!!!!! وہ شاید مجھ سے مذاق کررھا تھا،!!!!!!
    جہاں سے یہ فلائٹ آئی ھے،!!! میں نے بھی بے چینی کے انداز میں جوب دیا،!!!!
    مین نے پوچھا ھے کہ کس ملک میں سے آرھے ھو، بھئی،!!!! اس نے اپنے تفتیشی انداز میں پوچھا،!!!!
    ترکمانستان اس ملک کا نام ھے، آپکو تو پہلے ھی معلوم ھونا چاھئے،!!!! مین نے کچھ غصہ کے انداز میں جواب دیا،!!!!!
    وہاں کیا کرنے گئے تھے،!!!!!! یہ ایک اور اس نے بےتکا سا سوال کردیا،!!!
    میں تو وھاں ملازمت کرتا ھوں،!!!!! میں نے جواب دیا،!!!!!!

    یہاں پر تو وزٹ ویزا لگا ھوا ھے، آپ بغیر اجازت پروٹیکٹر ایمگریشن کے کیسے ملازمت کیلئے چلے گئے، پاسپورٹ پر تو اجازت نامہ کی مہر تو لگی ھوئی نہیں ھے،،!!!! اب اس نے سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی،!!!!

    واقعی میرے پاسپورٹ پر ویزٹ ویزا ھی لگا ھوا تھا جو کمپنی ھر تیسرے مہینے بعد اسکی تجدید کراتی تھی، اور کوئی ورک پرمٹ نہیں تھا، میں تو پریشان ھو گیا، کہ اب اس نے ایک جواز پکڑ لیا ھے، اور مجھے تنگ کرے گا، میں بھی آتے جاتے اب کافی تجربہ کار ھو گیا تھا، کیونکہ ھمیشہ یہ لوگ مسافروں کو اکثر کچھ مال گھسیٹنے کی چکر میں لگے رھتے ھیں،!!!!!

    مجھے بھی اپنی اوقات میں آنا پڑا اور شرافت کی زبان چھوڑ دی،!!!!!
    میں نے بھی ذرا تنزیہ انداز میں اور غصہ کے لہجے میں اس سے کہا،!!!!!
    بات سنو کیا تم یہاں پہلی مرتبہ بیٹھے ھو، تم نے کیا مجھے بے وقوف سمجھا ھے، !!!!!

    میں نے مزید اپنی آواز کو اونچا کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!
    دیکھو میں یہاں ھر دوسرے تیسرے مہینے آتا جاتا ھوں، ذرا پاسپورٹ پر نظر تو دوڑاؤ تمھاری عمر سے زیادہ اس پر آنے جانے کی مہریں لگی ھوئی ھے، لاؤ مجھے پاسپورٹ دکھاؤ میں تمھیں بتاتا ھوں کہ اجازت نامہ کہاں لگا ھوا ھے،!!!!!!

    میں نے بھی اس سے پاسپورٹ لے کر اس میں پرانا سعودی عرب جانے کا اجازت نامہ اسے دکھا دیا اور کہا کہ اسے دیکھو اور اگر پڑھنا نہیں آتا تو کسی اور سے پڑھوا لو،!!!!!!

    اس نے اسے بڑی گھبراھٹ میں دیکھا، اور کچھ شرمندہ سا ھوگیا، وہ سمجھ ھی نہیں سکا کہ میں نے اسے پرانا اجازت نامہ دکھا دیا، فوراً ھی اس نے معذرت کرتے ھوئے انٹری کی مہر لگا دی، اسی اثناء میں وہاں کے سپروائزر صاحب بھی ٹہلتے ھوئے آگئے اور مجھ سے پاسپورٹ لے کر وہ بھی معذرت کرنے لگے، اور ایسے ھی پاسپورٹ کو اسکے ورقے پلٹ کر مجھے واپس کردیا،!!!!!

    یہ تو حالت ھے ھمارے ان سرکاری عہدہ داروں کی، جو ھر شریف آدمی کو خوامخواہ ھی تنگ کرتے ھیں، اور جو واقعی ناجائز طور پر سفر کررھے ھوتے ھیں انہیں کچھ نہیں کہتے کیونکہ ان کے ساتھ پہلے سے ھی لین دین کا سودا طے ھو چکا ھوتا ھے، بلکہ ان کا اپنا آدمی انہیں سامان سمیت باھر تک چھوڑ کر آتا ھے، بغیر کسی پوچھ گچھ کے، کسٹم والے بھی کچھ نہیں کر سکتے،!!!!!

    ابھی تو گرین چینل سے لوگ چلے جاتے ھیں پہلے تو ایسا ھوتا تھا کہ یہاں امیگریشن سے نکلو تو کسٹم کی لائن میں کھڑے ھوجاؤ اور وہ لوگ تو بغیر کچھ لئے دیئے چھوڑتے ھی نہیں تھے، اس وقت اگر اپ نے ان کے ھاتھ میں پانچ سو کا نوٹ پکڑا دیا تو ٹھیک ورنہ تو وہ آپکا سارا ساماں کھلوا لیتے تھے، اور سب پر کسٹم لگانا شروع کردیتے تھے، اب تو خیر ایسا نہیں ھے، اور مسافر بھی ھوشیار ھوگئے ھیں، لیکن پھر بھی اب وہ لوگ کسی نہ کسی مسافر کو اپنی جیب گرم کرنے کیلئے گھیر ھی لیتے ھیں،!!!!!

    اسی چکر میں سامان سمیٹتے ھوئے مجھے ائر پورٹ کے باھر نکلتے نکلتے دو گھنٹے لگ گئے، گرمی کے دن تھے اور میں تو پسینے میں شرابو تھا اوپر سے سوٹ بھی پہنا ھوا تھا، سامان کی ٹرالی گھسیٹتے ھوئے بہت مشکل سے چل رھا تھا کیونکہ اس ٹرالی کا ایک پہیہ کام نہیں کررھا تھا، بڑی مشکل سے یہ ایک ٹرالی ملی تھی، وہاں کے پورٹر بھی اچھی اچھی ٹرالیوں کو اپنے قبضے میں کرلیتے تھے، اور مسافروں کا سامان ذبردستی اپنی ٹرالی پر لے کر باھر نکل جاتے اور ان سے باھر جاکر اپنی مزدوری کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ھیں، پاکستان کے کسی بھی انٹرنیشنل ائر پورٹ سے باھر کے کسی بھی ملک میں آنا جانا بھی ایک بہت بڑا مشکل مرحلہ ھوتا ھے، مسافر تو خامخواہ ھی ٹینشن میں آجاتا ھے، جہاز سے اتر کر اور ائرپورٹ کے باھر آنے تک یا ائر پورٹ سے جہاز تک پہچنے کیلئے بھی ایک بہت بڑا حوصلہ چاھئے، باھر کے کسی بھی ملک میں مسافروں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک نہیں کیا جاتا، ایک قلی سے لے کر ھمری قومی ائر لائن کے سامان کے کاونٹر اور پھر ھمارے امیگریشن سے فارغ ھونے تک جن مشکل مرحلوں سے گزرنا ھوتا ھے جو کہ برداشت سے باھر ھوتا ھے، ان کے رویہ سے ایسا لگتا ھے کہ جیسے ھم کوئی مجرم ھیں، اور جو اصل مجرم ھیں ان کو تو وہ بالکل ھی سکون کے ساتھ وہاں کے کارندے گھر تک چھوڑ کر آتے ھیں، اور جانے والوں کو جہاز تک،!!!!!!

    خیر اب کیا کیا جاسکتا ھے، اب مجبوری ھے کہ اسی ماحول میں رھتے ھوئے اپنے آپ کو چلانا بھی ھے، ھم بھی اسی سسٹم کا حصہ ھیں، اگر ھم خود اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو کبھی بھی ھم اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، کہنے کو تو بہت کچھ ھے لیکن جب تک ھم اپنے اعمال کو بہتر نہیں کریں گے، اس پورے معاشرے کو سدھارنا بہت مشکل ھو گا، ابھی بھی وقت ھے کہ ھم کچھ سوچ لیں، مگر پیسے کی ھوس، لالچ، حرص، خودغرضی، اور ایک ھی رات میں امیر بننے کے خوب کی وجہ سے ھم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ھے، اور مزید خوب سے خوب تر بےایمانی اور دھوکے بازی کی تلاش میں ھم اپنے پیارے عظیم ملک کو خود ھی تباھی کے دھانے کی طرف لے کر جارھے ھیں، !!!!!!!

    باقی پھر آئندہ کی نشست میں،!!!!!!!!
    --------------------------------

    خیر اب کیا کیا جاسکتا ھے، اب مجبوری ھے کہ اسی ماحول میں رھتے ھوئے اپنے آپ کو چلانا بھی ھے، ھم بھی اسی سسٹم کا حصہ ھیں، اگر ھم خود اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو کبھی بھی ھم اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، کہنے کو تو بہت کچھ ھے لیکن جب تک ھم اپنے اعمال کو بہتر نہیں کریں گے، اس پورے معاشرے کو سدھارنا بہت مشکل ھو گا، ابھی بھی وقت ھے کہ ھم کچھ سوچ لیں، مگر پیسے کی ھوس، لالچ، حرص، خودغرضی، اور ایک ھی رات میں امیر بننے کے خوب کی وجہ سے ھم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ھے، اور مزید خوب سے خوب تر بےایمانی اور دھوکے بازی کی تلاش میں ھم اپنے پیارے عظیم ملک کو خود ھی تباھی کے دھانے کی طرف لے کر جارھے ھیں، !!!!!!!

    1999 کا سال اور گرمیوں کا موسم تھا، ائرپورٹ سے باھر نکلتے ھی مزید شدت کی گرمی کا احساس بھی ھورھا تھا، جبکہ ابھی تک سورج کی شعاعیں بیدار بھی نہیں ھوئی تھیں، پریشانی کا عالم رات بھر کی تھکن اور ائرپورٹ کے اندر کی خواری نے تو مزید پریشان کن حالت میں ڈال دیا تھا، سب گھر کے لوگ پہنچے ھوئے تھے، سب سے ملاقات ھوئی اور ایک پک اپ میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ھوئے، راستہ بھر سفر کے متعلق اور ائرپورٹ پر جو گزری تھی، اسی پر بحث ھوتی رھی، راستے میں ایک جگہ ھماری پک اپ کو پولیس کی ایک کھڑی وین کے ساتھ روک لیا، اب ایک نئی مصیبت اور سامنے نظر آرھی تھی، ائرپورٹ کی پریشانی ابھی نظروں کے سامنے تھی، کہ ایک نئی مشکل آن پڑی، اگر ھم سب ایک ماڈرن کار میں ھوتے تو شاید یہ پولیس والے ھمیں نہیں روکتے بس کیا کیا جائے گھر والوں نے بھی ایک خستہ حالت کی سوزوکی پک اپ کرایہ پر لے کر ائر پورٹ پہنچے تھے،!!!!

    ایک پولیس والے نے ڈرائور کو گھیراڈال کر اس سے سوال جواب شروع کردئے اور دوسرا پولیس والا ھماری پک اپ کے پیچھے بندوق گلے میں لٹکائے آکر سولات کی بوچھاڑ شروع کردی،!!!!!!

    ھاں بھئی کہاں سے آرھے ھو صبح صبح،!!!!!!

    ائرپورٹ سے آرھے ھیں، !!!!!!! میرے کزن نے جوب دیا،!!!!!

    کس لئے گئے تھے،!!!!!!

    ھمارے بھائی کو لینے،!!!!

    پاسپورٹ دکھاؤ،!!!!! خامخواہ ھی سوالات کئے جارھا تھا، میں فوراً ھی نیچے اتر آیا اور پوچھا کہ،!!!!
    بھائی صاحب آپ کیا چاھتے ھو، کیوں پریشان کررھے ھو، یہ پاسپورٹ لو کیا دیکھنا چاہ رھے ھو،!!!!!

    صبح صبح کا وقت تھا اور شاید چھٹی کادن بھی تھا، اس لئے بس اکا دکا گاڑی ھی نظر ارھی تھی، اس پولیس والے نے پاسپورٹ لے کر اس کے ورقے پلٹنے شروع کردئے،!!!!!!

    اس میں تو ائر پورٹ کی اسٹیمپ نطر ھی نہیں آرھی ھے، !!!!! اس نے رعب جماتے ھوئے کہا،!!!!

    میں نے اس سے پاسپورٹ لے کر وہ مہر دکھائی اور کہا،!!!!! یہ دیکھو اور آج کی تاریخ بھی دیکھ لو،!!!!! میں نے تھوڑا غصے سے کہا،!!!!!

    اچھا اچھا ٹھیک ھے،!!!!!! او باؤ جی،!!!!! زیادہ غصہ نہ دکھا، ذرا سامان کی تلاشی کراؤ، او سارے نیچے اتر آؤ،!!!!!! اس نے اپنی اکڑ دکھاتے ھوئے کہا،!!!!!!

    میرے کزن کو تو غصہ ھی آگیا، اس نے کہا کہ کوئی بھی نیچے نہیں اترے گا، اس نے اپنا موبائیل نکالا، اس وقت پاکستان میں موبائیل فون کا نیا نیا دور تھا، اور میرے دوست کے پاس کمپنی کا موبائیل تھا، اس نے ان پولیس والوں کے سامنے ھی موبائل پر کچھ نمبر دبائے اور پتہ نہیں وہ کس بھائی جان سے بات کرنے لگا،!!!!!

    ارے بھائی جان،!!!! یہ کیا مصیبت ھے، آپ ھی کے محکمے کے چند ذمہ دار لوگ ھماری جان کو اٹکے ھوئے ھیں، خدارا ان کو سمجھاؤ کہ اس طرح شریفوں کو پریشان نہیں کیا کرتے، بھابھی بھی گاڑی میں بیٹھی ھیں اور بہت غصہ میں ھیں،!!!!!!!

    کذن نے بات کرتے ھوئے ھی اس پولیس والے سے اسکا نام اور تھانہ کے علاقے کا نام پوچھا، فوراً ھی اس کی نظر پولیس والے کی وین پر لکھے ھوئے علاقے کے نام پر گئی، اس نے تھانے کے علاقے کا نام بتا دیا، باتوں باتوں میں ھی اس نے موبائل پر کہا کہ !!!! بھائی جان کیا فائدہ آپکی ڈپٹی کمشنری کا اس شہر میں تو شریف آدمیوں کا جینا بھی حرام ھو گیا ھے،!!!!!!!

    یہ سنتے ھی دونوں پولیس والوں نے اپنی وین کی طرف رخ کیا اور وہاں وین میں بیٹھے ھوئے صاحب سے کچھ مخاطب ھوئے، اور میرا کزن تو موبائل پر ھی نہ جانے کس بھائی جان سے خوب ھنس ھنس کر باتیں کررھا تھا، وہ دونوں پولیس والے فوراً میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ،!!!!! یہ کس سے بات کررھا ھے،!!!!!!

    میں نے بھی بے پرکی آڑا دی کہ،!!!!!!! وہ شاید اپنے بڑے بھائی سے بات کررھا ھے جو پولیس ھیڈ آفس میں بیٹھتے ھیں،!!!!! میں نے بھی بہت سکون اور اطمنان سے جواب دیا، اور کہا کہ آپ کیا چاھتے ھو سامان چیک کرنا ھے تو بتاؤ یا کچھ اور چاھئے،!!!!!!

    پولیس والے کے چہرے پر اب کچھ گھبراھٹ کے تاثرات دیکھ رھا تھا، میرا کزن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ!!!! کوئی ضرورت نہیں ھے سامان کھولنے کی، وہ بھائی جان یہاں ھی آرھے ھیں، ان سب کو بھی دیکھ لیں گے،!!!!!! وہ بہت ھی غصہ میں بڑ بڑا رھا تھا، !!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!! کوئی بات نہیں بھئی ان کی ڈیوٹی ھے، سامان چیک کرنے دو ھم نے کوئی چوری تو نہیں کی، جو ھم ان سے ڈریں، تم بھائی جان کو کو صبح صبح کیوں تکلیف دے رھے ھو، انہیں آرام کرنے دو، خوامخواہ ھی انہیں پریشانی ھوگی،!!!!!!
    میں نے بھی یوں ھی بہت ھی یقین کے ساتھ کہہ دیا،!!!!!!

    پولیس والے نے فوراً ھی بیچ میں مداخلت کرتے ھوئے بڑی ندامت محسوس کرتے ھوئے کہا کہ،!!! بھائی صاحب کیوں خومخواہ ان کو تکلیف دیتے ھو، ھم بھی کیا کریں ھمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ھیں، بس کیا کریں کچھ مجبوریاں ھیں، آپ لوگ ھماری مدد نہیں کروگے تو کون کرے گا،!!!!!! بس کچھ چائے پانی کے لئے پیسے مل جاتے تو مہر بانی ھوگی،!!!!!!

    میرے کزن نے غصہ میں جواب دیا کہ،!!!! کوئی ضرورت نہیں ھے، وہ آپ کے بڑے بھائی ھی آپ کو چائے پانی پلائیں گے، تھوڑا انتظار کرو،!!!!!

    مجھ سے پولیس والے نے کان میں کہا کہ،!!!!! بھائی اپنے بھائی صاحب کو سمجھاؤ ایسا نہ کریں، آپ بس جو کچھ ھمارے بچوں کے لئے دے سکتے ھیں تو دے دیں، عید کے دن بھی قریب ھیں ان کی عید اچھی ھوجائے گی کوئی زبردستی نہیں ھے، ورنہ ھم جاتے ھیں،!!!!

    میں نے بھی اپنی جان چھڑانے کیلئے جیب میں ھاتھ ڈالا تو 20 ڈالر کا نوٹ ھاتھ آیا، میں نے خاموشی سے اسکے ھاتھ میں نوٹ تھما دیا، اس نے دیکھ کر خاموشی سے کہا کہ،!!!!!! بھائی صاحب یہ تو بہت کم ھیں ھم تو تین آدمی ھیں اس سے کیا ھو گا،!!!!!!!!!

    میرے کزن نے شاید اسکی یہ حرکت دیکھ لی، فوراً اس نے سڑک پر نظر دوڑائی دور سے کسی کار کو آتا دیکھ کر فوراً ھی زور سے بولا، !!!!! وہ دیکھو بھائی جان اس نیلی مرسیڈیس میں آرھے ھیں،!!!!!

    میں نے سڑک پر نظر دوڑائی مگر مجھے تو کوئی بھی نیلی مرسیڈیس نظر آئی، اسی لمحے میں اپنے کزن سے سے کوئی سوال کرتا، اس پولیس نے بغیر سڑک پر دیکھے 20 ڈالر کے نوٹ کو ھی غنیمت جان کر وہاں سے بھاگا، اور اسکے وین میں جاکر بیٹھتے ھی وین کا پتہ ھی نہیں چلا کہ کس طرف نکل گئی،!!!!!

    میں نے اپنے کزن سے پوچھا،!!! کہ بھئی یہ کیا ماجرا ھے، وہ تمھارے بھائی جان کی مرسیڈیس کہاں ھے مجھے تو کہیں نظر نہیں آرھی ھے، اور یہ تمھارے بھائی جان، کب سے ڈپٹی کمشنر ھوگئے،!!!!

    میرے کزن نے جوب دیا کہ،!!!! یہ تو سب میں مذاق کررھا تھا، کوئی نہیں ھے،!!!!!

    میں نے پھر اپنی پک اپ میں بیٹھتے ھوئے پوچھا،!!!! تو یہ جو تم موبائل پر بات کس سے کررھے تھے، !!!!!

    کزن نے ایک قہقہہ لگاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! وہ موبائل تو بند ھی تھا، میں تو ایسے ھی ذرا پولیس والے پر رعب جما رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!!

    سب بہت زور زور سے ھنسنے لگے اور اس طرح ھماری پک اپ دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ھوگئی،!!!!!!!!!!!!!!
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں تو وہاں کی ان تمام باتوں اور ان کی اچھائیوں کے خیالات کو ذہن میں لئے اشک آباد سے کراچی کا سفر کررھا تھا، اور تقریباً تین گھنٹے کے بعد کراچی میں جہاز کے اترنے کا اعلان ھوا، مجھے بہت ھی خوشی ھورھی تھی کہ میں اب چند ھی لمحات میں اپنے پاک وطن کی سرزمیں دیکھ سکوں گا، ایسے وقت میں آنکھوں میں خوشی کے آنسو آجاتے ھیں، ابھی صبح نہیں ھوئی تھی، رات کا اندھیرا چھٹنے میں بھی کچھ دیر باقی تھی، فوراً ھی ایک جھٹکے کے ساتھ جہاز کے پہیوں کے کھلنے کی آواز آئی، میں کھڑکی سے باھر دیکھنے کی کوشش کررھا تھا، لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آرھا تھا، کچھ ھی دیر میں کراچی شہر کی روشنیاں نظر آنے لگیں، جہاز نیچے ھوتا گیا اور چند لمحات میں ھی ایک جھٹکے کے ساتھ ھی پہیئے زمیں کو چھوتے ھوئے رن وے پر دوڑ رھے تھے، اور میرا خوشی کے مارے برا حال تھا،!!!!!!!!!!!

    ائرپورٹ پر مجھے تو ایسا لگ رھا تھا کہ میں ابھی ابھی خواب سے جاگا ھوں، میں بہت جلد جلد قدم بڑھاتا ھوا ایمیگریشن کاونٹر کی طرف بڑھ رھا تھا، کافی رش تھا لگتا تھا کہ پہلے سے ھی تین فلائٹس کے مسافر ابھی تک فارغ نہیں ھوئے ھیں، مجھے بہت ھی دکھ ھوتا ھے کہ ابھی تک ھمارے کسی بھی محکمے کا نظام ٹھیک نہیں ھوا ھے، اس وقت بھی کئی کاونٹر تھے، لیکن ایک ایک مسافر کو فارغ ھونے کیلئے کافی دیر ھورھی تھی، میں چاھتا تھا کہ جلد سے جلد ائرپورٹ کے باھر چلا جاؤں لیکن مجبوری تھی، کافی دیر بعد میرا نمبر آیا، کچھ سوال جواب وہ صاحب ایسے کررھے تھے کہ میں ان کے جواب بہت ھی مجبوری سے اور غصہ کو دبائے ھوئے دے رھا تھا،!!!!!

    کہاں سے آرھے ھو،!!!!!!! اس نے اپنی گردن اکڑاتے ھوئے پوچھا،!!!!
    اشک آباد سے،!!!! میں نے بڑی شائستگی سے جواب دیا،!!!!!
    یہ کہاں پر ھے،!!!!! وہ شاید مجھ سے مذاق کررھا تھا،!!!!!!
    جہاں سے یہ فلائٹ آئی ھے،!!! میں نے بھی بے چینی کے انداز میں جوب دیا،!!!!
    مین نے پوچھا ھے کہ کس ملک میں سے آرھے ھو، بھئی،!!!! اس نے اپنے تفتیشی انداز میں پوچھا،!!!!
    ترکمانستان اس ملک کا نام ھے، آپکو تو پہلے ھی معلوم ھونا چاھئے،!!!! مین نے کچھ غصہ کے انداز میں جواب دیا،!!!!!
    وہاں کیا کرنے گئے تھے،!!!!!! یہ ایک اور اس نے بےتکا سا سوال کردیا،!!!
    میں تو وھاں ملازمت کرتا ھوں،!!!!! میں نے جواب دیا،!!!!!!

    یہاں پر تو وزٹ ویزا لگا ھوا ھے، آپ بغیر اجازت پروٹیکٹر ایمگریشن کے کیسے ملازمت کیلئے چلے گئے، پاسپورٹ پر تو اجازت نامہ کی مہر تو لگی ھوئی نہیں ھے،،!!!! اب اس نے سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی،!!!!

    واقعی میرے پاسپورٹ پر ویزٹ ویزا ھی لگا ھوا تھا جو کمپنی ھر تیسرے مہینے بعد اسکی تجدید کراتی تھی، اور کوئی ورک پرمٹ نہیں تھا، میں تو پریشان ھو گیا، کہ اب اس نے ایک جواز پکڑ لیا ھے، اور مجھے تنگ کرے گا، میں بھی آتے جاتے اب کافی تجربہ کار ھو گیا تھا، کیونکہ ھمیشہ یہ لوگ مسافروں کو اکثر کچھ مال گھسیٹنے کی چکر میں لگے رھتے ھیں،!!!!!

    مجھے بھی اپنی اوقات میں آنا پڑا اور شرافت کی زبان چھوڑ دی،!!!!!
    میں نے بھی ذرا تنزیہ انداز میں اور غصہ کے لہجے میں اس سے کہا،!!!!!
    بات سنو کیا تم یہاں پہلی مرتبہ بیٹھے ھو، تم نے کیا مجھے بے وقوف سمجھا ھے، !!!!!

    میں نے مزید اپنی آواز کو اونچا کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!
    دیکھو میں یہاں ھر دوسرے تیسرے مہینے آتا جاتا ھوں، ذرا پاسپورٹ پر نظر تو دوڑاؤ تمھاری عمر سے زیادہ اس پر آنے جانے کی مہریں لگی ھوئی ھے، لاؤ مجھے پاسپورٹ دکھاؤ میں تمھیں بتاتا ھوں کہ اجازت نامہ کہاں لگا ھوا ھے،!!!!!!

    میں نے بھی اس سے پاسپورٹ لے کر اس میں پرانا سعودی عرب جانے کا اجازت نامہ اسے دکھا دیا اور کہا کہ اسے دیکھو اور اگر پڑھنا نہیں آتا تو کسی اور سے پڑھوا لو،!!!!!!

    اس نے اسے بڑی گھبراھٹ میں دیکھا، اور کچھ شرمندہ سا ھوگیا، وہ سمجھ ھی نہیں سکا کہ میں نے اسے پرانا اجازت نامہ دکھا دیا، فوراً ھی اس نے معذرت کرتے ھوئے انٹری کی مہر لگا دی، اسی اثناء میں وہاں کے سپروائزر صاحب بھی ٹہلتے ھوئے آگئے اور مجھ سے پاسپورٹ لے کر وہ بھی معذرت کرنے لگے، اور ایسے ھی پاسپورٹ کو اسکے ورقے پلٹ کر مجھے واپس کردیا،!!!!!

    یہ تو حالت ھے ھمارے ان سرکاری عہدہ داروں کی، جو ھر شریف آدمی کو خوامخواہ ھی تنگ کرتے ھیں، اور جو واقعی ناجائز طور پر سفر کررھے ھوتے ھیں انہیں کچھ نہیں کہتے کیونکہ ان کے ساتھ پہلے سے ھی لین دین کا سودا طے ھو چکا ھوتا ھے، بلکہ ان کا اپنا آدمی انہیں سامان سمیت باھر تک چھوڑ کر آتا ھے، بغیر کسی پوچھ گچھ کے، کسٹم والے بھی کچھ نہیں کر سکتے،!!!!!

    ابھی تو گرین چینل سے لوگ چلے جاتے ھیں پہلے تو ایسا ھوتا تھا کہ یہاں امیگریشن سے نکلو تو کسٹم کی لائن میں کھڑے ھوجاؤ اور وہ لوگ تو بغیر کچھ لئے دیئے چھوڑتے ھی نہیں تھے، اس وقت اگر اپ نے ان کے ھاتھ میں پانچ سو کا نوٹ پکڑا دیا تو ٹھیک ورنہ تو وہ آپکا سارا ساماں کھلوا لیتے تھے، اور سب پر کسٹم لگانا شروع کردیتے تھے، اب تو خیر ایسا نہیں ھے، اور مسافر بھی ھوشیار ھوگئے ھیں، لیکن پھر بھی اب وہ لوگ کسی نہ کسی مسافر کو اپنی جیب گرم کرنے کیلئے گھیر ھی لیتے ھیں،!!!!!

    اسی چکر میں سامان سمیٹتے ھوئے مجھے ائر پورٹ کے باھر نکلتے نکلتے دو گھنٹے لگ گئے، گرمی کے دن تھے اور میں تو پسینے میں شرابو تھا اوپر سے سوٹ بھی پہنا ھوا تھا، سامان کی ٹرالی گھسیٹتے ھوئے بہت مشکل سے چل رھا تھا کیونکہ اس ٹرالی کا ایک پہیہ کام نہیں کررھا تھا، بڑی مشکل سے یہ ایک ٹرالی ملی تھی، وہاں کے پورٹر بھی اچھی اچھی ٹرالیوں کو اپنے قبضے میں کرلیتے تھے، اور مسافروں کا سامان ذبردستی اپنی ٹرالی پر لے کر باھر نکل جاتے اور ان سے باھر جاکر اپنی مزدوری کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ھیں، پاکستان کے کسی بھی انٹرنیشنل ائر پورٹ سے باھر کے کسی بھی ملک میں آنا جانا بھی ایک بہت بڑا مشکل مرحلہ ھوتا ھے، مسافر تو خامخواہ ھی ٹینشن میں آجاتا ھے، جہاز سے اتر کر اور ائرپورٹ کے باھر آنے تک یا ائر پورٹ سے جہاز تک پہچنے کیلئے بھی ایک بہت بڑا حوصلہ چاھئے، باھر کے کسی بھی ملک میں مسافروں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک نہیں کیا جاتا، ایک قلی سے لے کر ھمری قومی ائر لائن کے سامان کے کاونٹر اور پھر ھمارے امیگریشن سے فارغ ھونے تک جن مشکل مرحلوں سے گزرنا ھوتا ھے جو کہ برداشت سے باھر ھوتا ھے، ان کے رویہ سے ایسا لگتا ھے کہ جیسے ھم کوئی مجرم ھیں، اور جو اصل مجرم ھیں ان کو تو وہ بالکل ھی سکون کے ساتھ وہاں کے کارندے گھر تک چھوڑ کر آتے ھیں، اور جانے والوں کو جہاز تک،!!!!!!

    خیر اب کیا کیا جاسکتا ھے، اب مجبوری ھے کہ اسی ماحول میں رھتے ھوئے اپنے آپ کو چلانا بھی ھے، ھم بھی اسی سسٹم کا حصہ ھیں، اگر ھم خود اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو کبھی بھی ھم اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، کہنے کو تو بہت کچھ ھے لیکن جب تک ھم اپنے اعمال کو بہتر نہیں کریں گے، اس پورے معاشرے کو سدھارنا بہت مشکل ھو گا، ابھی بھی وقت ھے کہ ھم کچھ سوچ لیں، مگر پیسے کی ھوس، لالچ، حرص، خودغرضی، اور ایک ھی رات میں امیر بننے کے خوب کی وجہ سے ھم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ھے، اور مزید خوب سے خوب تر بےایمانی اور دھوکے بازی کی تلاش میں ھم اپنے پیارے عظیم ملک کو خود ھی تباھی کے دھانے کی طرف لے کر جارھے ھیں، !!!!!!!

    باقی پھر آئندہ کی نشست میں،!!!!!!!!
    --------------------------------

    خیر اب کیا کیا جاسکتا ھے، اب مجبوری ھے کہ اسی ماحول میں رھتے ھوئے اپنے آپ کو چلانا بھی ھے، ھم بھی اسی سسٹم کا حصہ ھیں، اگر ھم خود اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو کبھی بھی ھم اپنے ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچ سکتے، کہنے کو تو بہت کچھ ھے لیکن جب تک ھم اپنے اعمال کو بہتر نہیں کریں گے، اس پورے معاشرے کو سدھارنا بہت مشکل ھو گا، ابھی بھی وقت ھے کہ ھم کچھ سوچ لیں، مگر پیسے کی ھوس، لالچ، حرص، خودغرضی، اور ایک ھی رات میں امیر بننے کے خوب کی وجہ سے ھم نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ھے، اور مزید خوب سے خوب تر بےایمانی اور دھوکے بازی کی تلاش میں ھم اپنے پیارے عظیم ملک کو خود ھی تباھی کے دھانے کی طرف لے کر جارھے ھیں، !!!!!!!

    1999 کا سال اور گرمیوں کا موسم تھا، ائرپورٹ سے باھر نکلتے ھی مزید شدت کی گرمی کا احساس بھی ھورھا تھا، جبکہ ابھی تک سورج کی شعاعیں بیدار بھی نہیں ھوئی تھیں، پریشانی کا عالم رات بھر کی تھکن اور ائرپورٹ کے اندر کی خواری نے تو مزید پریشان کن حالت میں ڈال دیا تھا، سب گھر کے لوگ پہنچے ھوئے تھے، سب سے ملاقات ھوئی اور ایک پک اپ میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ھوئے، راستہ بھر سفر کے متعلق اور ائرپورٹ پر جو گزری تھی، اسی پر بحث ھوتی رھی، راستے میں ایک جگہ ھماری پک اپ کو پولیس کی ایک کھڑی وین کے ساتھ روک لیا، اب ایک نئی مصیبت اور سامنے نظر آرھی تھی، ائرپورٹ کی پریشانی ابھی نظروں کے سامنے تھی، کہ ایک نئی مشکل آن پڑی، اگر ھم سب ایک ماڈرن کار میں ھوتے تو شاید یہ پولیس والے ھمیں نہیں روکتے بس کیا کیا جائے گھر والوں نے بھی ایک خستہ حالت کی سوزوکی پک اپ کرایہ پر لے کر ائر پورٹ پہنچے تھے،!!!!

    ایک پولیس والے نے ڈرائور کو گھیراڈال کر اس سے سوال جواب شروع کردئے اور دوسرا پولیس والا ھماری پک اپ کے پیچھے بندوق گلے میں لٹکائے آکر سولات کی بوچھاڑ شروع کردی،!!!!!!

    ھاں بھئی کہاں سے آرھے ھو صبح صبح،!!!!!!

    ائرپورٹ سے آرھے ھیں، !!!!!!! میرے کزن نے جوب دیا،!!!!!

    کس لئے گئے تھے،!!!!!!

    ھمارے بھائی کو لینے،!!!!

    پاسپورٹ دکھاؤ،!!!!! خامخواہ ھی سوالات کئے جارھا تھا، میں فوراً ھی نیچے اتر آیا اور پوچھا کہ،!!!!
    بھائی صاحب آپ کیا چاھتے ھو، کیوں پریشان کررھے ھو، یہ پاسپورٹ لو کیا دیکھنا چاہ رھے ھو،!!!!!

    صبح صبح کا وقت تھا اور شاید چھٹی کادن بھی تھا، اس لئے بس اکا دکا گاڑی ھی نظر ارھی تھی، اس پولیس والے نے پاسپورٹ لے کر اس کے ورقے پلٹنے شروع کردئے،!!!!!!

    اس میں تو ائر پورٹ کی اسٹیمپ نطر ھی نہیں آرھی ھے، !!!!! اس نے رعب جماتے ھوئے کہا،!!!!

    میں نے اس سے پاسپورٹ لے کر وہ مہر دکھائی اور کہا،!!!!! یہ دیکھو اور آج کی تاریخ بھی دیکھ لو،!!!!! میں نے تھوڑا غصے سے کہا،!!!!!

    اچھا اچھا ٹھیک ھے،!!!!!! او باؤ جی،!!!!! زیادہ غصہ نہ دکھا، ذرا سامان کی تلاشی کراؤ، او سارے نیچے اتر آؤ،!!!!!! اس نے اپنی اکڑ دکھاتے ھوئے کہا،!!!!!!

    میرے کزن کو تو غصہ ھی آگیا، اس نے کہا کہ کوئی بھی نیچے نہیں اترے گا، اس نے اپنا موبائیل نکالا، اس وقت پاکستان میں موبائیل فون کا نیا نیا دور تھا، اور میرے دوست کے پاس کمپنی کا موبائیل تھا، اس نے ان پولیس والوں کے سامنے ھی موبائل پر کچھ نمبر دبائے اور پتہ نہیں وہ کس بھائی جان سے بات کرنے لگا،!!!!!

    ارے بھائی جان،!!!! یہ کیا مصیبت ھے، آپ ھی کے محکمے کے چند ذمہ دار لوگ ھماری جان کو اٹکے ھوئے ھیں، خدارا ان کو سمجھاؤ کہ اس طرح شریفوں کو پریشان نہیں کیا کرتے، بھابھی بھی گاڑی میں بیٹھی ھیں اور بہت غصہ میں ھیں،!!!!!!!

    کذن نے بات کرتے ھوئے ھی اس پولیس والے سے اسکا نام اور تھانہ کے علاقے کا نام پوچھا، فوراً ھی اس کی نظر پولیس والے کی وین پر لکھے ھوئے علاقے کے نام پر گئی، اس نے تھانے کے علاقے کا نام بتا دیا، باتوں باتوں میں ھی اس نے موبائل پر کہا کہ !!!! بھائی جان کیا فائدہ آپکی ڈپٹی کمشنری کا اس شہر میں تو شریف آدمیوں کا جینا بھی حرام ھو گیا ھے،!!!!!!!

    یہ سنتے ھی دونوں پولیس والوں نے اپنی وین کی طرف رخ کیا اور وہاں وین میں بیٹھے ھوئے صاحب سے کچھ مخاطب ھوئے، اور میرا کزن تو موبائل پر ھی نہ جانے کس بھائی جان سے خوب ھنس ھنس کر باتیں کررھا تھا، وہ دونوں پولیس والے فوراً میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ،!!!!! یہ کس سے بات کررھا ھے،!!!!!!

    میں نے بھی بے پرکی آڑا دی کہ،!!!!!!! وہ شاید اپنے بڑے بھائی سے بات کررھا ھے جو پولیس ھیڈ آفس میں بیٹھتے ھیں،!!!!! میں نے بھی بہت سکون اور اطمنان سے جواب دیا، اور کہا کہ آپ کیا چاھتے ھو سامان چیک کرنا ھے تو بتاؤ یا کچھ اور چاھئے،!!!!!!

    پولیس والے کے چہرے پر اب کچھ گھبراھٹ کے تاثرات دیکھ رھا تھا، میرا کزن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ!!!! کوئی ضرورت نہیں ھے سامان کھولنے کی، وہ بھائی جان یہاں ھی آرھے ھیں، ان سب کو بھی دیکھ لیں گے،!!!!!! وہ بہت ھی غصہ میں بڑ بڑا رھا تھا، !!!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!! کوئی بات نہیں بھئی ان کی ڈیوٹی ھے، سامان چیک کرنے دو ھم نے کوئی چوری تو نہیں کی، جو ھم ان سے ڈریں، تم بھائی جان کو کو صبح صبح کیوں تکلیف دے رھے ھو، انہیں آرام کرنے دو، خوامخواہ ھی انہیں پریشانی ھوگی،!!!!!!
    میں نے بھی یوں ھی بہت ھی یقین کے ساتھ کہہ دیا،!!!!!!

    پولیس والے نے فوراً ھی بیچ میں مداخلت کرتے ھوئے بڑی ندامت محسوس کرتے ھوئے کہا کہ،!!! بھائی صاحب کیوں خومخواہ ان کو تکلیف دیتے ھو، ھم بھی کیا کریں ھمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ھیں، بس کیا کریں کچھ مجبوریاں ھیں، آپ لوگ ھماری مدد نہیں کروگے تو کون کرے گا،!!!!!! بس کچھ چائے پانی کے لئے پیسے مل جاتے تو مہر بانی ھوگی،!!!!!!

    میرے کزن نے غصہ میں جواب دیا کہ،!!!! کوئی ضرورت نہیں ھے، وہ آپ کے بڑے بھائی ھی آپ کو چائے پانی پلائیں گے، تھوڑا انتظار کرو،!!!!!

    مجھ سے پولیس والے نے کان میں کہا کہ،!!!!! بھائی اپنے بھائی صاحب کو سمجھاؤ ایسا نہ کریں، آپ بس جو کچھ ھمارے بچوں کے لئے دے سکتے ھیں تو دے دیں، عید کے دن بھی قریب ھیں ان کی عید اچھی ھوجائے گی کوئی زبردستی نہیں ھے، ورنہ ھم جاتے ھیں،!!!!

    میں نے بھی اپنی جان چھڑانے کیلئے جیب میں ھاتھ ڈالا تو 20 ڈالر کا نوٹ ھاتھ آیا، میں نے خاموشی سے اسکے ھاتھ میں نوٹ تھما دیا، اس نے دیکھ کر خاموشی سے کہا کہ،!!!!!! بھائی صاحب یہ تو بہت کم ھیں ھم تو تین آدمی ھیں اس سے کیا ھو گا،!!!!!!!!!

    میرے کزن نے شاید اسکی یہ حرکت دیکھ لی، فوراً اس نے سڑک پر نظر دوڑائی دور سے کسی کار کو آتا دیکھ کر فوراً ھی زور سے بولا، !!!!! وہ دیکھو بھائی جان اس نیلی مرسیڈیس میں آرھے ھیں،!!!!!

    میں نے سڑک پر نظر دوڑائی مگر مجھے تو کوئی بھی نیلی مرسیڈیس نظر آئی، اسی لمحے میں اپنے کزن سے سے کوئی سوال کرتا، اس پولیس نے بغیر سڑک پر دیکھے 20 ڈالر کے نوٹ کو ھی غنیمت جان کر وہاں سے بھاگا، اور اسکے وین میں جاکر بیٹھتے ھی وین کا پتہ ھی نہیں چلا کہ کس طرف نکل گئی،!!!!!

    میں نے اپنے کزن سے پوچھا،!!! کہ بھئی یہ کیا ماجرا ھے، وہ تمھارے بھائی جان کی مرسیڈیس کہاں ھے مجھے تو کہیں نظر نہیں آرھی ھے، اور یہ تمھارے بھائی جان، کب سے ڈپٹی کمشنر ھوگئے،!!!!

    میرے کزن نے جوب دیا کہ،!!!! یہ تو سب میں مذاق کررھا تھا، کوئی نہیں ھے،!!!!!

    میں نے پھر اپنی پک اپ میں بیٹھتے ھوئے پوچھا،!!!! تو یہ جو تم موبائل پر بات کس سے کررھے تھے، !!!!!

    کزن نے ایک قہقہہ لگاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! وہ موبائل تو بند ھی تھا، میں تو ایسے ھی ذرا پولیس والے پر رعب جما رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!!

    سب بہت زور زور سے ھنسنے لگے اور اس طرح ھماری پک اپ دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ھوگئی،!!!!!!!!!!!!!!
     
  13. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کزن نے ایک قہقہہ لگاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! وہ موبائل تو بند ھی تھا، میں تو ایسے ھی ذرا پولیس والے پر رعب جما رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!!

    سب بہت زور زور سے ھنسنے لگے اور اس طرح ھماری پک اپ دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ھوگئی،!!!!!!!!!!!!!!

    گھر پہنچتے ھی ھم سب نے سکون کا سانس لیا، ایسے واقعات تو روزمرہ کے معمول بن چکے ھیں، اور شریف شرفاء لوگ بھی اپنی عزت کو بچانے کیلئے ان لوگوں کے ھاتھ گرم کرکے اپنی جان چھڑاتے ھوئے اپنا کام نکالتے ھیں، کیا کریں مجبوری ھے،!!!!!!

    گھر پر سب لوگ بہت خوش تھے، بیگم تو کچھ زیادہ خوش تھیں، کہ ان کو جو خدشات تھے، ان سے اب بے فکر ھوگئی تھیں، میں نے پھر سعودی عرب میں اپنے استاد محترم سے رابطہ کیا، کہ میں ترکمانستان سے واپس آگیا ھوں، میرے لئے اب کیا حکم ھے، انہوں نے جوباً عرض کیا کہ ابھی کچھ دن انتظار کرو، نئے ویزے پاکستان کیلئے ملنے والے ھیں جو بہت جلدکراچی اور اسلام آباد پہنچ جائیں گے، جب تک آپ ھمارے ایجنٹ سے بات کرلو اور اپنا پاسپورٹ میڈیکل چیک اپ کراکے ابھی سے ان کے پاس جمع کرادو تاکہ ویزے کے پہنچتے ھی پہلی فرصت میں وہ تمھارا کام کرادیں، میں نے بھی یہ سنتے ھی فوراً اپنے ایجنٹ کے پاس پہنچا، اور اپنا پاسپورٹ انکے حوالے کردیا، انہوں مجھے میڈیکل کرانے کیلئے کہا، میں نے اپنے ھی خرچ پر میڈیکل بھی کروا کر اسکی رپورٹ انکے حوالے کردی اور دوسرے جو بھی کاغذات سرٹیفکیٹ، سندات کی تصدیق وغیرہ انکے کہنے کے مطابق جمع کرادیں، اور بے فکر ھوکر گھر آگیا، انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ جیسے ھی ھمیں ویزے ملیں گے آپکو اطلاع کردیں گے اور آپکو فوراً ھی تقریباً 40،000 روپے جمع کرانے ھونگے، جس میں ھوئی جہاز کا ٹکٹ بھی شامل تھا، میں نے اس سے پہلے تو کبھی بھی باھر جانے کیلئے کوئی اتنا زیادہ روپیہ خرچ نہیں کیا تھا، لیکن میری مجبوری تھی اب کوئی اور دوسرا راستہ نہیں تھا، اس لئے ان کی بات کو خوشی سے قبول کرلیا،!!!!!!

    گھر بیٹھے بیٹھے بھی مجھے دو مہینے گزر گئے، اور ویزے کا اتا پتہ نہیں تھا، کئی دفعہ اپنے ایجنٹ سے اور سعودی عرب میں اپنے استاد محترم سے رابطہ بھی کیا لیکن وہ یہی کہتے کہ بس کچھ ھی دنوں میں ویزے پہنچ جائیں گے، گھر پر بیٹھے بیٹھے بھی آکر کب تک جمع پونجی چلتی، ایک دن وہ بھی آگیا کہ سارے پیسے جو میں اپنی سروس کے بقایا جات لایا تھا اور گھر میں جو بیگم نے کچھ جوڑ کر رکھے تھے، سب کے سب ختم ھوچکے تھے، اور اب قرضے پر قرضہ لے کر گزارا کرنا پڑ رھا تھا، لوگ بھی کچھ زیادہ ھی مہربان تھے، قرضہ تو دے دیتے تھے، لیکن شرط ساتھ ضرور لگا دیتے تھے، کہ میں وہاں جاتے ھی انکے بیٹوں یا انکے داماد یا سالے صاحبان کے لئے کوئی ویزا بھجوا دوں، جبکہ میں خود ابھی اپنے ویزے کے چکر میں پھنسا ھوا تھا،!!!!!!!

    اب جہاں بھی جاؤ، جس کے بھی گھر جاؤ، بہت آؤ بھگت ھوتی تھی، کیونکہ ان سب کو یہ یقین تھا کہ میں بہت جلد سعودی عرب چلاجاؤں گا، مگر ھر گھر میں مجھے مجبوراً کسی نہ کسی کا انٹرویو لینا ھی پڑتا تھا، جیسے میں سعودی عرب کا کوئی شیخ ھوں،!!!!!!

    ارے بیٹا،!!!! اب دیکھو نا گزارا نہیں ھوتا، اگر تم ھمارے بیٹے کو بھی وہاں بلوا لو تو مہربانی ھوگی، پیسوں کی فکر نہ کرنا، جو بھی خرچہ ھو گا یہ وہاں ھی تمہیں اپنی تنخواہ سے ادا کرتا رھے گا، اور تم بھی وہاں ھوگے تو مجھے کوئی فکر نہیں ھوگی،!!!!
    اکثر اوقات مجھے کچھ اسی طرح کے جملے کچھ رسمی بات چیت کے بعد ضرور سننے کو ملتے تھے،------

    میں بھی مجبوراً حامی بھر لیتا، کیونکہ رشتہ داری تو تھی اس کے علاوہ کچھ ضرورتیں بھی ایسی تھیں کہ میں انہیں انکار نہیں کرسکتا تھا، ویسے بھی مجھ میں اب کافی چالاکی آچکی تھی کہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ھوئے، مختلف حالات میں کس طرح سے معاملات کو قابو میں رکھا جائے،!!!!!

    " ارے خالہ جان کوئی فکر کی بات نہیں ھے، بس آپ دعاء کریں کہ میں بخیریت وہاں پہنچ جاوں اور پھر جیسے ھی موقع ملے گا، اپ کے بیٹے کو بلوا لوں گا"،!!!!!!

    بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ھی کچھ ھی دیر میں دعوت کا اھتمام ھوجاتا، بہترین بہتریں ذائقہ دار خوشبودار کھانوں سے دستر خوان بھر جاتا، اور مجھے اور ساتھ آئے ھوئے جو بھی ھوں ان کے مزے آجاتے، اور اگر میں کسی کے یہاں کوئی مجبوری ظاھر کروں کہ ابھی بہت مشکل ھے اور میں وھاں جانے کے بعد سوچوں گا، تو وہاں چائے تو دور کی بات ھے پانی کو بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا،!!!!!1

    کبھی کبھی تو مجھے ان کے امیدوار سے انٹرویو بھی لینا پڑجاتا تھا،!!!!!1
    ھاں بھئی فرزند ارجمند کیا کرتے ھو، کیا تعلیم ھے،!!!!!!

    کبھی کبھی تو ایسا جھٹکا لگتا تھا، کہ سوال کسی سے کرو تو جواب کہیں اور سے ملتا تھا،!!!!!
    ارے بیٹا،!!!! اس سال تو میٹرک کا امتحان پاس کیا ھے، کام کا تو کوئی تجربہ نہیں ھے، لیکن جب تمھارے ساتھ رھے گا تو سیکھ ھی جائے گا،!!!!!!

    کچھ تو یہی کہتے تھے کہ،!!!!!1 ارے بیٹا اسے اپنے بھانجے کے پاس ھی ترکمانستان بھیج دو، کیونکہ یہ تمھارے بھانجے کا بہت اچھا دوست بھی ھے، دونوں دوست مل کر کام کرھی لیں گے،!!!!!!
    میں دل میں کہتا کہ،!!!! واہ کیا بات ھے مجھے تو یہ اس طرح کہہ رھے ھیں کہ جیسے میں وہاں ڈائریکٹر یا کوئی چیرمین لگا ھوا ھو،!!!!!!

    اب ھمارے بھانجے کی سنئے جیسے ھی میں وہاں سے واپس آیا، وہ پریشان ھو گئے وہاں پر انکا دل نہیں لگا، ادھر ھماری بہن نے میرا پیچھا لے لیا، اور بار بار مجھے غصہ کرنے لگتیں کہ،!!!!!!
    "تم نے میرے بیٹے کو لاوارث سمجھ کر وھاں چھوڑ آئے ھو، خود تو واپس آگئے اور اسے اکیلا مشکلات میں چھوڑ آئے،!!!!!
    ماں کی مامتا ھے کیا کیا جائے، اور یہ تو میری بہنوں میں سب سے بڑی بہن تھی اور میں اسے بہت چاھتا بھی تھا، وہ اپنے بیٹے کی محبت سے مجبور تھی، وہ چاھتی تھیں کہ میں اسے اپنے ساتھ رکھوں، اب یہ کیسے ممکن ھے، میں نے اسے وہاں پر کام سکھایا، اور جب تک میں وہاں تھا وہ بہت محنت سے کام کررھا تھا، وہاں کی انتظامیہ بھی خوش تھی اور کچھ ھی دنوں میں اسکی تنخواہ بھی بڑھنے والی تھی، مگر ھر طرح سے سمجھانے کے باوجود میری بہن نہیں مانی بس اس کا اصرار یہی تھا کہ اس کے بیٹے کو میں جلد سے جلد واپس بلوا لوں،!!!!!

    کیا کرتا اب یہ بھی ایک مجبوری تھی آخر میری بہن تھی، اسکی بات ماننا بھی میری ذمہ داری تھی، والد صاحب تو تھے نہیں، میں ھی اب ان سب بہن بھائیوں کے والد کی جگہ بھی تھا، مجبور ھو کر میں انکے آفس پہنچا اور اپنے دوست سے درخوست کی میرے بھانجے کو واپس بلوادو، وہ بھی میری بات سے بہت ناراض ھوئے کہ ایک تو میں وہاں سے کام چھوڑ کر آگیا ھوں، اور دوسرے جس کو میں نے اپنی جگہ پر لگوا کر آیا تھا، اسے بھی میں واپس بلوانے کی درخواست کررھا ھوں، میں نے اپنی بہن کی مجبوری ظاھر کی، خیر وہ میرا دوست بھی تھا اس نے میری ذمہ داری کو اپنی ھی ذمہ داری سمجھتے ھوئے اپنے چیرمین سے بات کی اور انہیں بہت مشکل سے راضی کرکے میرے بھانجے کو واپس بلوانے پر رضامند کروا ھی لیا، مجھے بہت خوشی ھوئی کہ اس نے میری بات کی لاج رکھ لی،!!!!!!!!جیسے ھی وہ واپس آیا، اسے میرے چھوٹے بھائی نے اپنی ھی کمپنی میں مناسب تنخواہ پر لگا دیا، میری بھی جان چھوٹ گئی،!!!!!!!!
    ------------------------

    خیر وہ میرا دوست بھی تھا اس نے میری ذمہ داری کو اپنی ھی ذمہ داری سمجھتے ھوئے اپنے چیرمین سے بات کی اور انہیں بہت مشکل سے راضی کرکے میرے بھانجے کو واپس بلوانے پر رضامند کروا ھی لیا، مجھے بہت خوشی ھوئی کہ اس نے میری بات کی لاج رکھ لی،!!!!!!!!جیسے ھی وہ واپس آیا، اسے میرے چھوٹے بھائی نے اپنی ھی کمپنی میں مناسب تنخواہ پر لگا دیا، میری بھی جان چھوٹ گئی،!!!!!!!!

    اب پھر سے گھر میں بیٹھے ھوئے کافی دن ھوگئے، بیگم ھماری پھر سے ناراض،!!!!! میں نے کہا کہ،!!!!!
    کیا کریں مجبوری ھے، اب تمھاری وجہ سے ھی واپس آگیا ھوں اور اب سعودی عرب سے ویزا آنے میں کچھ تاخیر ھوگئی ھے، اب اللٌہ کی جو مرضی، !!!!!

    جب بھی گھر میں پیسے ختم ھوجاتے، میری بیگم کے چہرے سے ھی ظاھر ھوجاتا تھا، بیگم کا بھی کوئی قصور نہیں تھا، کیونکہ میں نے بھی سارے گھر کو چلانے کی مکمل ذمہ داری ان ھی پر ڈال دی تھی، ویسے تو وہ بہت کفایت سعاری سے کام لیتی تھیں اس کے علاوہ وہ کچھ رقم ھر مہینے بچا کر ایک طرف جمع بھی کرتی رھتی تھیں، جو ھمیشہ انہوں نے اپنے برے وقتوں کے لئے نکالے، جب بھی کوئی ایسی مشکل گھڑی آتی تو وہ مجبوراً اپنی بچت کی ٹوکری نکال لیتی تھیں لیتی تھیں، اور اس سے گزارا چلاتی رھتیں، انہیں بہت ھی دکھ ھوتا تھا کہ ان کی جو بچائی ھوئی رقم بھی ٹھکانے لگ گئی، اور پھر مجھ سے ناراضگی اور برھمی کا اظہار بھی کرتی رھتیں،!!!!!!

    سردیوں کے دن بھی شروع ھوگئے، بچوں کے پرانے گرم کپڑے ھماری بیگم نے ایک بڑے ٹرنک سے نکالے اور ان کو استری کرکے الماری میں تہہ کرکے رکھنے لگیں، ان کا اس سال ارادہ تھا کہ بچوں کے لئے نئے گرم کپڑے خریدیں گے، لیکن ان کی یہ خواھش پوری نہ ھوسکی، کیونکہ سب انکے بچائے ھوئے پیسے بھی ختم ھوگئے تھے، بس میں ھی کچھ ادھر ادھر سے ادھار لے کر انہیں دے دیتا، وہ بھی اپنی بڑی بیٹی کے ھاتھ میں تھما دیتا، کہ یہ امی کو دے دو، اپنے ابائی گھر سے ھم تو پہلے ھی الگ ھو چکے تھے، پھر بھی ھفتہ میں دو تین دفعہ سب کو والدہ کے پاس چلا جاتا تھا جہاں وہ چھوٹے بھائی کے پاس رھتی تھیں، وہاں ساتھ ھی بڑی بہن بھی رہائش پزیر تھیں جن کا بیٹا میرے ساتھ ترکمانستان میں تھا،!!!!!

    آخر کار جب بہت ھی پریشانی کے دن گزرنے لگے تو اللٌہ تعالیٰ نے ھماری سن ھی لی، میرا ویزا ھمارے ایجنٹ کے پاس پہنچ چکا تھا، اب مسئلہ یہ تھا کہ کہاں سے چالیس ھزار روپئے کا انتظام کیا جائے، ادھار ویسے بھی بہت ھو چکا تھا، اور مزید کسی سے اتنی بڑی رقم مانگتے ھوئے شرم بھی آتی تھی، بیگم تو پہلے سے ھی گھر کے خرچے کیلئے پریشان تھیں، انہیں بھی میری پریشانی کا احساس تھا، انہیں کچھ مجھ پر ترس آیا وہ فوراً اپنے بچے کھچے زیورات لے کر سنار کی دکان پر بیچ آئیں، اور میرے ھاتھ میں پچاس ہزار روپئے رکھ دیئے، اس سے پہلے بھی دو دفعہ اپنے زیور کا کچھ حصہ بیچ چکی تھیں، مجھے پہلے کی طرح بہت ھی دکھ ھوا کہ ھمیشہ جب بھی کوئی پریشانی دکھ تکلیف آتی ھے، تو ان کے بچے کھچے زیور ھی کام میں آجاتے ھیں، ایسے وقت میں میں ان سے آنکھیں بھی ملا نہیں سکتا تھا، شرم بھی آتی تھی، لیکن نہ جانے اللٌہ کو کیا منظور تھا، جب بھی کچھ پیسے جمع ھوتے، یا بیگم کے پاس جو بھی زیور کا اضافہ ھوتا وہ سب مشکل وقت میں سب برابر ھوجاتا،!!!!

    ان پیسوں میں سے 10 ہزار واپس کردیئے، اور میں 40 ہزار لے کر اپنے ایجنٹ کے پاس پہنچ کر پورے اسکےحوالے کردیئے، اس نے کہا کہ دس یا پندرہ دن میں ویزا لگ جائے کی امید ھے، 1999 کے سال کا آخری دسمبر کا مہینہ چل رھا تھا، اور کچھ روز بعد ھی میرے وہاں جاکر پوچھنے پر ایجنٹ نے کہا کہ تمھارا پاسپورٹ بمعہ ویزا اور ٹکٹ بالکل تیار ھے فوراً اکر لے جائیں، اور اسی مہینے کی 11 یا 12 تاریخ کو میری روانگی کی اطلاع بھی دی، اب میرے پاس صرف تین چار دن ھی تھے، میں کچھ بھی تیاری نہیں کرسکا تھا، اس دفعہ میں واپس اپنی پرانی ھی کمپنی میں جا تو رھا تھا لیکن میں بہت اداس بھی تھا، ایک دفعہ نوکری چھوڑ کر دوبارا اسی جگہ اسی کمپنی میں جانا بھی مجھے اچھا نہیں لگ رھا تھا، ترکمانستان سے واپس آکر بھی چار مہینے گزر چکے تھے، اور افسوس کہ باھر جانے کے چکر میں کہیں بھی کسی نوکری کی تلاش میں نہیں گیا، ھوسکتا تھا کہ اگر ادھر ادھر ھاتھ پیر مارتا تو شاید کوئی چھوٹی موٹی نوکری تو مل ھی جاتی، گھر کا تھوڑا بہت خرچہ بھی چل جاتا، اور ھماری بیگم کو کم از کم زیور تو نہ بیچنے پڑتے،!!!!!!!!!!!!!

    چلو بھئی وہ دن بھی آگیا جس دن میری فلائٹ تھی، میں دو دن پہلے ھی سب رشتہ داروں سے باری باری مل کر آچکا تھا، کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے گھر پر ھی ملاقات ھوگئی، گھر میں مہمانوں کا تانتا سا بندھ گیا، اور آخری دن میں اپنی والدہ کے پاس ھی تھا ان سے ھی دعائیں لے کر میں ائرپورٹ کیلئے روانہ ھوا، میرے بچے، بہن بھائی، سالے سالیاں اور بیگم بھی اپنے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ائر پورٹ مجھے الوداع کرنے آئے تھے، میں آج ایک بار پھر اپنے خاندان بیوی بچوں اور والدہ بہن بھائیوں سے ایک بار پھر جدا ھورھا تھا، اور سب کو اداس چھوڑ کر سعودی عرب کے شہر جدہ جارھا تھا،!!!!!!!!
     
  14. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    کزن نے ایک قہقہہ لگاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! وہ موبائل تو بند ھی تھا، میں تو ایسے ھی ذرا پولیس والے پر رعب جما رھا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!!!

    سب بہت زور زور سے ھنسنے لگے اور اس طرح ھماری پک اپ دوبارہ اپنی منزل کی طرف روانہ ھوگئی،!!!!!!!!!!!!!!

    گھر پہنچتے ھی ھم سب نے سکون کا سانس لیا، ایسے واقعات تو روزمرہ کے معمول بن چکے ھیں، اور شریف شرفاء لوگ بھی اپنی عزت کو بچانے کیلئے ان لوگوں کے ھاتھ گرم کرکے اپنی جان چھڑاتے ھوئے اپنا کام نکالتے ھیں، کیا کریں مجبوری ھے،!!!!!!

    گھر پر سب لوگ بہت خوش تھے، بیگم تو کچھ زیادہ خوش تھیں، کہ ان کو جو خدشات تھے، ان سے اب بے فکر ھوگئی تھیں، میں نے پھر سعودی عرب میں اپنے استاد محترم سے رابطہ کیا، کہ میں ترکمانستان سے واپس آگیا ھوں، میرے لئے اب کیا حکم ھے، انہوں نے جوباً عرض کیا کہ ابھی کچھ دن انتظار کرو، نئے ویزے پاکستان کیلئے ملنے والے ھیں جو بہت جلدکراچی اور اسلام آباد پہنچ جائیں گے، جب تک آپ ھمارے ایجنٹ سے بات کرلو اور اپنا پاسپورٹ میڈیکل چیک اپ کراکے ابھی سے ان کے پاس جمع کرادو تاکہ ویزے کے پہنچتے ھی پہلی فرصت میں وہ تمھارا کام کرادیں، میں نے بھی یہ سنتے ھی فوراً اپنے ایجنٹ کے پاس پہنچا، اور اپنا پاسپورٹ انکے حوالے کردیا، انہوں مجھے میڈیکل کرانے کیلئے کہا، میں نے اپنے ھی خرچ پر میڈیکل بھی کروا کر اسکی رپورٹ انکے حوالے کردی اور دوسرے جو بھی کاغذات سرٹیفکیٹ، سندات کی تصدیق وغیرہ انکے کہنے کے مطابق جمع کرادیں، اور بے فکر ھوکر گھر آگیا، انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ جیسے ھی ھمیں ویزے ملیں گے آپکو اطلاع کردیں گے اور آپکو فوراً ھی تقریباً 40،000 روپے جمع کرانے ھونگے، جس میں ھوئی جہاز کا ٹکٹ بھی شامل تھا، میں نے اس سے پہلے تو کبھی بھی باھر جانے کیلئے کوئی اتنا زیادہ روپیہ خرچ نہیں کیا تھا، لیکن میری مجبوری تھی اب کوئی اور دوسرا راستہ نہیں تھا، اس لئے ان کی بات کو خوشی سے قبول کرلیا،!!!!!!

    گھر بیٹھے بیٹھے بھی مجھے دو مہینے گزر گئے، اور ویزے کا اتا پتہ نہیں تھا، کئی دفعہ اپنے ایجنٹ سے اور سعودی عرب میں اپنے استاد محترم سے رابطہ بھی کیا لیکن وہ یہی کہتے کہ بس کچھ ھی دنوں میں ویزے پہنچ جائیں گے، گھر پر بیٹھے بیٹھے بھی آکر کب تک جمع پونجی چلتی، ایک دن وہ بھی آگیا کہ سارے پیسے جو میں اپنی سروس کے بقایا جات لایا تھا اور گھر میں جو بیگم نے کچھ جوڑ کر رکھے تھے، سب کے سب ختم ھوچکے تھے، اور اب قرضے پر قرضہ لے کر گزارا کرنا پڑ رھا تھا، لوگ بھی کچھ زیادہ ھی مہربان تھے، قرضہ تو دے دیتے تھے، لیکن شرط ساتھ ضرور لگا دیتے تھے، کہ میں وہاں جاتے ھی انکے بیٹوں یا انکے داماد یا سالے صاحبان کے لئے کوئی ویزا بھجوا دوں، جبکہ میں خود ابھی اپنے ویزے کے چکر میں پھنسا ھوا تھا،!!!!!!!

    اب جہاں بھی جاؤ، جس کے بھی گھر جاؤ، بہت آؤ بھگت ھوتی تھی، کیونکہ ان سب کو یہ یقین تھا کہ میں بہت جلد سعودی عرب چلاجاؤں گا، مگر ھر گھر میں مجھے مجبوراً کسی نہ کسی کا انٹرویو لینا ھی پڑتا تھا، جیسے میں سعودی عرب کا کوئی شیخ ھوں،!!!!!!

    ارے بیٹا،!!!! اب دیکھو نا گزارا نہیں ھوتا، اگر تم ھمارے بیٹے کو بھی وہاں بلوا لو تو مہربانی ھوگی، پیسوں کی فکر نہ کرنا، جو بھی خرچہ ھو گا یہ وہاں ھی تمہیں اپنی تنخواہ سے ادا کرتا رھے گا، اور تم بھی وہاں ھوگے تو مجھے کوئی فکر نہیں ھوگی،!!!!
    اکثر اوقات مجھے کچھ اسی طرح کے جملے کچھ رسمی بات چیت کے بعد ضرور سننے کو ملتے تھے،------

    میں بھی مجبوراً حامی بھر لیتا، کیونکہ رشتہ داری تو تھی اس کے علاوہ کچھ ضرورتیں بھی ایسی تھیں کہ میں انہیں انکار نہیں کرسکتا تھا، ویسے بھی مجھ میں اب کافی چالاکی آچکی تھی کہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ھوئے، مختلف حالات میں کس طرح سے معاملات کو قابو میں رکھا جائے،!!!!!

    " ارے خالہ جان کوئی فکر کی بات نہیں ھے، بس آپ دعاء کریں کہ میں بخیریت وہاں پہنچ جاوں اور پھر جیسے ھی موقع ملے گا، اپ کے بیٹے کو بلوا لوں گا"،!!!!!!

    بس پھر کیا تھا اتنا سنتے ھی کچھ ھی دیر میں دعوت کا اھتمام ھوجاتا، بہترین بہتریں ذائقہ دار خوشبودار کھانوں سے دستر خوان بھر جاتا، اور مجھے اور ساتھ آئے ھوئے جو بھی ھوں ان کے مزے آجاتے، اور اگر میں کسی کے یہاں کوئی مجبوری ظاھر کروں کہ ابھی بہت مشکل ھے اور میں وھاں جانے کے بعد سوچوں گا، تو وہاں چائے تو دور کی بات ھے پانی کو بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا،!!!!!1

    کبھی کبھی تو مجھے ان کے امیدوار سے انٹرویو بھی لینا پڑجاتا تھا،!!!!!1
    ھاں بھئی فرزند ارجمند کیا کرتے ھو، کیا تعلیم ھے،!!!!!!

    کبھی کبھی تو ایسا جھٹکا لگتا تھا، کہ سوال کسی سے کرو تو جواب کہیں اور سے ملتا تھا،!!!!!
    ارے بیٹا،!!!! اس سال تو میٹرک کا امتحان پاس کیا ھے، کام کا تو کوئی تجربہ نہیں ھے، لیکن جب تمھارے ساتھ رھے گا تو سیکھ ھی جائے گا،!!!!!!

    کچھ تو یہی کہتے تھے کہ،!!!!!1 ارے بیٹا اسے اپنے بھانجے کے پاس ھی ترکمانستان بھیج دو، کیونکہ یہ تمھارے بھانجے کا بہت اچھا دوست بھی ھے، دونوں دوست مل کر کام کرھی لیں گے،!!!!!!
    میں دل میں کہتا کہ،!!!! واہ کیا بات ھے مجھے تو یہ اس طرح کہہ رھے ھیں کہ جیسے میں وہاں ڈائریکٹر یا کوئی چیرمین لگا ھوا ھو،!!!!!!

    اب ھمارے بھانجے کی سنئے جیسے ھی میں وہاں سے واپس آیا، وہ پریشان ھو گئے وہاں پر انکا دل نہیں لگا، ادھر ھماری بہن نے میرا پیچھا لے لیا، اور بار بار مجھے غصہ کرنے لگتیں کہ،!!!!!!
    "تم نے میرے بیٹے کو لاوارث سمجھ کر وھاں چھوڑ آئے ھو، خود تو واپس آگئے اور اسے اکیلا مشکلات میں چھوڑ آئے،!!!!!
    ماں کی مامتا ھے کیا کیا جائے، اور یہ تو میری بہنوں میں سب سے بڑی بہن تھی اور میں اسے بہت چاھتا بھی تھا، وہ اپنے بیٹے کی محبت سے مجبور تھی، وہ چاھتی تھیں کہ میں اسے اپنے ساتھ رکھوں، اب یہ کیسے ممکن ھے، میں نے اسے وہاں پر کام سکھایا، اور جب تک میں وہاں تھا وہ بہت محنت سے کام کررھا تھا، وہاں کی انتظامیہ بھی خوش تھی اور کچھ ھی دنوں میں اسکی تنخواہ بھی بڑھنے والی تھی، مگر ھر طرح سے سمجھانے کے باوجود میری بہن نہیں مانی بس اس کا اصرار یہی تھا کہ اس کے بیٹے کو میں جلد سے جلد واپس بلوا لوں،!!!!!

    کیا کرتا اب یہ بھی ایک مجبوری تھی آخر میری بہن تھی، اسکی بات ماننا بھی میری ذمہ داری تھی، والد صاحب تو تھے نہیں، میں ھی اب ان سب بہن بھائیوں کے والد کی جگہ بھی تھا، مجبور ھو کر میں انکے آفس پہنچا اور اپنے دوست سے درخوست کی میرے بھانجے کو واپس بلوادو، وہ بھی میری بات سے بہت ناراض ھوئے کہ ایک تو میں وہاں سے کام چھوڑ کر آگیا ھوں، اور دوسرے جس کو میں نے اپنی جگہ پر لگوا کر آیا تھا، اسے بھی میں واپس بلوانے کی درخواست کررھا ھوں، میں نے اپنی بہن کی مجبوری ظاھر کی، خیر وہ میرا دوست بھی تھا اس نے میری ذمہ داری کو اپنی ھی ذمہ داری سمجھتے ھوئے اپنے چیرمین سے بات کی اور انہیں بہت مشکل سے راضی کرکے میرے بھانجے کو واپس بلوانے پر رضامند کروا ھی لیا، مجھے بہت خوشی ھوئی کہ اس نے میری بات کی لاج رکھ لی،!!!!!!!!جیسے ھی وہ واپس آیا، اسے میرے چھوٹے بھائی نے اپنی ھی کمپنی میں مناسب تنخواہ پر لگا دیا، میری بھی جان چھوٹ گئی،!!!!!!!!
    ------------------------

    خیر وہ میرا دوست بھی تھا اس نے میری ذمہ داری کو اپنی ھی ذمہ داری سمجھتے ھوئے اپنے چیرمین سے بات کی اور انہیں بہت مشکل سے راضی کرکے میرے بھانجے کو واپس بلوانے پر رضامند کروا ھی لیا، مجھے بہت خوشی ھوئی کہ اس نے میری بات کی لاج رکھ لی،!!!!!!!!جیسے ھی وہ واپس آیا، اسے میرے چھوٹے بھائی نے اپنی ھی کمپنی میں مناسب تنخواہ پر لگا دیا، میری بھی جان چھوٹ گئی،!!!!!!!!

    اب پھر سے گھر میں بیٹھے ھوئے کافی دن ھوگئے، بیگم ھماری پھر سے ناراض،!!!!! میں نے کہا کہ،!!!!!
    کیا کریں مجبوری ھے، اب تمھاری وجہ سے ھی واپس آگیا ھوں اور اب سعودی عرب سے ویزا آنے میں کچھ تاخیر ھوگئی ھے، اب اللٌہ کی جو مرضی، !!!!!

    جب بھی گھر میں پیسے ختم ھوجاتے، میری بیگم کے چہرے سے ھی ظاھر ھوجاتا تھا، بیگم کا بھی کوئی قصور نہیں تھا، کیونکہ میں نے بھی سارے گھر کو چلانے کی مکمل ذمہ داری ان ھی پر ڈال دی تھی، ویسے تو وہ بہت کفایت سعاری سے کام لیتی تھیں اس کے علاوہ وہ کچھ رقم ھر مہینے بچا کر ایک طرف جمع بھی کرتی رھتی تھیں، جو ھمیشہ انہوں نے اپنے برے وقتوں کے لئے نکالے، جب بھی کوئی ایسی مشکل گھڑی آتی تو وہ مجبوراً اپنی بچت کی ٹوکری نکال لیتی تھیں لیتی تھیں، اور اس سے گزارا چلاتی رھتیں، انہیں بہت ھی دکھ ھوتا تھا کہ ان کی جو بچائی ھوئی رقم بھی ٹھکانے لگ گئی، اور پھر مجھ سے ناراضگی اور برھمی کا اظہار بھی کرتی رھتیں،!!!!!!

    سردیوں کے دن بھی شروع ھوگئے، بچوں کے پرانے گرم کپڑے ھماری بیگم نے ایک بڑے ٹرنک سے نکالے اور ان کو استری کرکے الماری میں تہہ کرکے رکھنے لگیں، ان کا اس سال ارادہ تھا کہ بچوں کے لئے نئے گرم کپڑے خریدیں گے، لیکن ان کی یہ خواھش پوری نہ ھوسکی، کیونکہ سب انکے بچائے ھوئے پیسے بھی ختم ھوگئے تھے، بس میں ھی کچھ ادھر ادھر سے ادھار لے کر انہیں دے دیتا، وہ بھی اپنی بڑی بیٹی کے ھاتھ میں تھما دیتا، کہ یہ امی کو دے دو، اپنے ابائی گھر سے ھم تو پہلے ھی الگ ھو چکے تھے، پھر بھی ھفتہ میں دو تین دفعہ سب کو والدہ کے پاس چلا جاتا تھا جہاں وہ چھوٹے بھائی کے پاس رھتی تھیں، وہاں ساتھ ھی بڑی بہن بھی رہائش پزیر تھیں جن کا بیٹا میرے ساتھ ترکمانستان میں تھا،!!!!!

    آخر کار جب بہت ھی پریشانی کے دن گزرنے لگے تو اللٌہ تعالیٰ نے ھماری سن ھی لی، میرا ویزا ھمارے ایجنٹ کے پاس پہنچ چکا تھا، اب مسئلہ یہ تھا کہ کہاں سے چالیس ھزار روپئے کا انتظام کیا جائے، ادھار ویسے بھی بہت ھو چکا تھا، اور مزید کسی سے اتنی بڑی رقم مانگتے ھوئے شرم بھی آتی تھی، بیگم تو پہلے سے ھی گھر کے خرچے کیلئے پریشان تھیں، انہیں بھی میری پریشانی کا احساس تھا، انہیں کچھ مجھ پر ترس آیا وہ فوراً اپنے بچے کھچے زیورات لے کر سنار کی دکان پر بیچ آئیں، اور میرے ھاتھ میں پچاس ہزار روپئے رکھ دیئے، اس سے پہلے بھی دو دفعہ اپنے زیور کا کچھ حصہ بیچ چکی تھیں، مجھے پہلے کی طرح بہت ھی دکھ ھوا کہ ھمیشہ جب بھی کوئی پریشانی دکھ تکلیف آتی ھے، تو ان کے بچے کھچے زیور ھی کام میں آجاتے ھیں، ایسے وقت میں میں ان سے آنکھیں بھی ملا نہیں سکتا تھا، شرم بھی آتی تھی، لیکن نہ جانے اللٌہ کو کیا منظور تھا، جب بھی کچھ پیسے جمع ھوتے، یا بیگم کے پاس جو بھی زیور کا اضافہ ھوتا وہ سب مشکل وقت میں سب برابر ھوجاتا،!!!!

    ان پیسوں میں سے 10 ہزار واپس کردیئے، اور میں 40 ہزار لے کر اپنے ایجنٹ کے پاس پہنچ کر پورے اسکےحوالے کردیئے، اس نے کہا کہ دس یا پندرہ دن میں ویزا لگ جائے کی امید ھے، 1999 کے سال کا آخری دسمبر کا مہینہ چل رھا تھا، اور کچھ روز بعد ھی میرے وہاں جاکر پوچھنے پر ایجنٹ نے کہا کہ تمھارا پاسپورٹ بمعہ ویزا اور ٹکٹ بالکل تیار ھے فوراً اکر لے جائیں، اور اسی مہینے کی 11 یا 12 تاریخ کو میری روانگی کی اطلاع بھی دی، اب میرے پاس صرف تین چار دن ھی تھے، میں کچھ بھی تیاری نہیں کرسکا تھا، اس دفعہ میں واپس اپنی پرانی ھی کمپنی میں جا تو رھا تھا لیکن میں بہت اداس بھی تھا، ایک دفعہ نوکری چھوڑ کر دوبارا اسی جگہ اسی کمپنی میں جانا بھی مجھے اچھا نہیں لگ رھا تھا، ترکمانستان سے واپس آکر بھی چار مہینے گزر چکے تھے، اور افسوس کہ باھر جانے کے چکر میں کہیں بھی کسی نوکری کی تلاش میں نہیں گیا، ھوسکتا تھا کہ اگر ادھر ادھر ھاتھ پیر مارتا تو شاید کوئی چھوٹی موٹی نوکری تو مل ھی جاتی، گھر کا تھوڑا بہت خرچہ بھی چل جاتا، اور ھماری بیگم کو کم از کم زیور تو نہ بیچنے پڑتے،!!!!!!!!!!!!!

    چلو بھئی وہ دن بھی آگیا جس دن میری فلائٹ تھی، میں دو دن پہلے ھی سب رشتہ داروں سے باری باری مل کر آچکا تھا، کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے گھر پر ھی ملاقات ھوگئی، گھر میں مہمانوں کا تانتا سا بندھ گیا، اور آخری دن میں اپنی والدہ کے پاس ھی تھا ان سے ھی دعائیں لے کر میں ائرپورٹ کیلئے روانہ ھوا، میرے بچے، بہن بھائی، سالے سالیاں اور بیگم بھی اپنے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ائر پورٹ مجھے الوداع کرنے آئے تھے، میں آج ایک بار پھر اپنے خاندان بیوی بچوں اور والدہ بہن بھائیوں سے ایک بار پھر جدا ھورھا تھا، اور سب کو اداس چھوڑ کر سعودی عرب کے شہر جدہ جارھا تھا،!!!!!!!!
     
  15. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    چلو بھئی وہ دن بھی آگیا جس دن میری فلائٹ تھی، میں دو دن پہلے ھی سب رشتہ داروں سے باری باری مل کر آچکا تھا، کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے گھر پر ھی ملاقات ھوگئی، گھر میں مہمانوں کا تانتا سا بندھ گیا، اور آخری دن میں اپنی والدہ کے پاس ھی تھا ان سے ھی دعائیں لے کر میں ائرپورٹ کیلئے روانہ ھوا، میرے بچے، بہن بھائی، سالے سالیاں اور بیگم بھی اپنے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ائر پورٹ مجھے الوداع کرنے آئے تھے، میں آج ایک بار پھر اپنے خاندان بیوی بچوں اور والدہ بہن بھائیوں سے ایک بار پھر جدا ھورھا تھا، اور سب کو اداس چھوڑ کر سعودی عرب کے شہر جدہ جارھا تھا،!!!!!!!!

    اس دفعہ بھی بیگم نے پہلے سے ھی ایک شرط لگادی تھی، کہ میں انہیں اور بچوں کو بہت جلد بلوالوں، کیونکہ وہ لڑکیوں کو تو گھر میں رہ کر سنبھال سکتی ھیں مگر دونوں لڑکوں کا خیال رکھنا بہت ھی مشکل ھے، کیونکہ میری غیرحاضری میں دونوں لڑکے زیادہ تر باھر ھی کھیل کود میں وقت خراب کرتے ھیں، مجھے بھی اپنے دونوں لڑکوں کی طرف سے تشویش تھی، میں نے یہاں رہ کر محسوس کیا تھا، کہ لڑکوں کے دوستوں کا ماحول کچھ صحیح نہیں تھا، بڑا لڑکا تو اکثر ھی گھر سے غائب رہتا تھا، اس کی عمر تقریباً 20 سال سال کے لگ بھگ تو ھوگی، انٹر میں پڑھائی تو کررھا تھا، لیکن پارٹ تائم وہ رات کو شادی کی مووی بنانے نکل جاتا تھا، اور صبح ھی واپس آتا تھا، میں نے اسے کئی بار منع بھی کیا کہ یہ شوق اچھا نہیں ھے لیکن وہ مجھے بھی کوئی صحیح جواب نہیں دیتا تھا، چھوٹا بیٹا جو 16 سال کا تھا آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا، لیکن بس اسکول کے بعد وہ کرکٹ اور فٹ بال کے کھیل میں مگن رھتا، لیکن وہ اپنے بڑے بھائی سے کچھ بہتر ھی تھا کیونکہ وہ پھر بھی شام ڈھلنے سے پہلے گھر ضرور آجاتا تھا، اور گھر کا بہت خیال رکھتا، سودا سلف لانے میں اپنی والدہ کی بہت مدد کرتا تھا، بلکہ وہ تو سارے محلے کا کام کرتا تھا، ھر گھر سے اسی کو بلانے کی آواز سنائی دیتی رھتی تھی،!!!!!!

    اس دفعہ مگر مجھے دونوں کی فکر بہت زیادہ تھی، کیونکہ دونوں بڑے ھوتے جارھے تھے، اور ایسی عمر میں خاص کر لڑکے باپ کی عدم موجودگی میں باھر کے غلط ماحول کو بہت جلد اپنا لیتے ھیں، لڑکیاں تو بیچاری زیادہ تر اپنی والدہ کے ساتھ ھی گزارتی تھیں، چھوٹی بچی تو شاید ابھی دوسری جماعت میں تھی، اور بڑی بیٹی ساتویں جماعت اور اس سے چھوٹی چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھیں، اور میری تینوں بیٹیاں اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتی رھی تھیں، مگر دونوں بیٹے بس جماعت میں پاس ھی ھو جائیں تو شاید انکے لئے بڑی بات تھی، اس سے پہلے 1994 سے 1997 تک جدہ جب چاروں بچے پڑھ رھے تھے تو بہت ھی اچھی پوزیشن لا رھے تھے مگر یہاں آکر لڑکے تو پوزیشن نہ لا سکے مگر لڑکیوں کی اپنی انی کلاسوں میں پوزیشن اور بھی مزید بہتر ھوگئی، سب سے چھوٹی تو اس وقت بہت ھی چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھی،!!!!!!!

    میں یہاں جدہ پہنچ تو گیا لیکن اپنے گھر کی فکر زیادہ کھائے جارھی تھی، میں نہیں چاھتا تھا کہ بیگم اور بچے بہت ھی زیادہ مایوسی کا شکار ھو جائیں، خاص کر لڑکوں کی پریشانی کہ کہیں وہ غلط ماحول کا اثر نہ لے لیں، کیونکہ میں نے تو اکثر دیکھا ھے کہ جن کے والد باھر ھوتے ھیں ان کے لڑکے غلظ ماحول کو بہت جلد اپنا لیتے ھیں، اور پھر بعد میں ان کی اس ماحول سے واپسی بہت ھی ناممکن ھو جاتی ھے، اور ھم جیسے جب ایک دفعہ باھر نکل جاتے ھیں، تو وہاں سے واسی پر کہیں بھی پاکستاں میں اپنے آپ کو کسی بھی سروس کے قابل نہیں چھؤڑتے، یہاں پر ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھومتے ھوئے، دفتر میں بھی ائرکنڈیشنڈ اس کے علاوہ گھروں‌ میں بھی ائرکنڈیشنڈ کے بغیر گزارہ نہیں ھوتا، اسکے علاوہ یہاں کی بلند و بالا عمارتیں خوبصورت سجے سجائے شاپنگ سینٹر اور بازار، بہترین پارک اور اچھی اچھی گھومنے کی جگہائیں لوگوں کو دیوانہ بنادیتی ھیں اور اولاد بھی یہاں‌ کی تعشیات کی عادتوں کو اپنا لیتی ھیں، جن کا کہ بعد میں اگر دیر ھوجائے تو پاکستان میں جاتے تو بہت ھی خوشی سے ھیں لیکن چند ھی دنوں میں وہاں پریشان ھوجاتے ھیں،!!!!!!

    اب بچوں کی بھی فرمائیش تھی کہ میں دوبارہ سب کو سعودی عرب بلوا لوں، وہاں پر تنخواہ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ تو نہیں ھوا تھا، لیکن دفتر کی طرفسے مجھے باھر رھنے کیلئے مکان کا کرایہ ضرور مل رھا تھا، میں نے2000 کے شروع کے چھ مہینے میں پھر سے باھر رھتے ھوئے ایک اچھے مکاں کو کرایہ پر لیا اور سارے گھر کے لوازمات کو اکھٹا کرکے ڈراینگ روم سے لے کر دو بیڈ روم تک کے تمام فرنیچر کا بندوبست کیا اسکے علاوہ نئی واشنگ مشین، ریفریجریٹر، اور سارے کچن کا ضروری کوکنگ کا سامان بمعہ کوکنگ رینج ساتھ ھی تین سیکنڈ ھینڈ مگر اچھی حالت میں ائرکنڈیشنڈ خریدے، آدھے مکان کا حصہ پہلے سے ھی نصف کرایہ پر اپنے دوست کو دے دیا تھا، جس کے ساتھ فیملی بھی تھی اس گھر کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے دو باتھ روم تھے اور کچن کو میں نے دو حصوں میں پارٹیشن لگا کر بانٹ دیا تھا، جس سے کچھ تھوڑی بہت بچت ھو گئی تھی، اور اکثر اپنے دوست کی وجہ سے گھر کا کھانا بھی مل جاتا تھا، مگر میں ساتھ ھی اپنی فیملی کے ویزے کیلئے بندوبست بھی کررھا تھا، لیکن بہت ھی مشکل پیش آرھی تھی، کیونکہ میرے پاسپورٹ پر ویزے میں کارپینٹر کا پیشہ درج تھا، پہلے تو مجھے اپنا پیشہ بدلوانا تھا، اس کیلئے بھی تمام کاغذات اور سندات کی تصدیق پاکستان سے کروانی تھی، جو میں نے پہلے ھی بھجوا دیئے تھے، جب وہ سب تصدیق تو ھو کر آگئے، لیکن جب بھی یہاں پر کچھ قانونی مشکلات پیش آرھی تھیں، جس کی وجہ سے اور مزید تاخیر پر تاخیر ھوتی جارھی تھی، میں نے پہلے اپنی والدہ اور انکے ساتھ بھانجے کو عمرے کے ویزے پر بلوالیا تھا، انہوں نے وہاں پر عمرے کی سعادت اور نبی اکرم (ص) :saw: کے روضہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور تمام مقدس مقامات کی زیارتوں سے بھی فیضیاب ھوئی، حج کے لئے میں انہیں روکنا چاھتا تھا لیکن وہ چاھتی تھیں کہ میری آخری چھوٹی بہن کی شادی ھو جائے، اسکے بعد وہ حج کیلئے آسکتی ھیں، اس سے پہلے نہیں،!!!!!!!!!

    اسی دوران بچوں کا مستقل ویزا نہیں لگ سکا مگر والدہ کے واپس جانے کے بعد میں نے بھی یہی سوچا کہ کیوں نا میں عمرے کے ویزے پر ھی بچوں کو بلوا لوں، میں نے والدہ کے جاتے ھی اپنی بیگم کو ٹیلیفون پر کہا کہ عمرہ کا ویزا لگوا لیں، آخر کار انکے ھی بھائیوں کی مدد سے وہ اپنا اور بچوں کے پاسپورٹ پر عمرے کا ویزا لگوانے میں کامیاب ھوگئیں، میرے بہن بھائیوں سے کچھ ناراضگی بھی ھوئی لیکن والدہ کی اجازت سے اور ان کی دعاؤں سے بیگم اور بچے اپنے اسکولوں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں جدہ پہنچ گئے، اسی دوران اس سے پہلے والدہ اور میرے بھانجے بھی عمرہ کی سعادت حاصل کرکے جاچکے تھے، دکھ اس بات کا ھوا کہ کاش وہ سب والدہ کے ساتھ عمرے پر آجاتے تو کتنا ھی اچھا ھوتا، بہرحال جو اللٌہ تعالیٰ کی مرضی، !!!!!

    بچوں کو یہاں رھتے ھوئے تین مہینے سے بھی زیادہ ھو چکے تھے، اب تو بچوں اور بیگم کے عمرے کی معیاد بھی ختم ھو چکی تھی، اسکولوں کی چھٹیاں بھی ختم، مگر بیگم اور بچے بھی واپس پاکستاں جانے کو تیار نہیں تھے، اس دوراں انہوں نے بھی کئی دفعہ عمرے کی سعادت اور مدینہ منورہ میں روضہ مبارک مسجد نبوی (ص) :saw: کی زیارت سے فیضیاب بھی ھوئے، یہاں کے ماحول میں وہ سب اتنے گھل مل گئے تھے، کہ ان کا واپسی کا ارادہ نہیں لگ رھا تھا، ان کے اس واسی کا ٹکٹ بھی تھا، لیکن آخر کار وہ کتنے دن تک غیرقانونی طور پر رہ سکتے تھے، اور 2001 کا سال بھی شروع ھوگیا، تقریباً سات مہینے بعد ھی انہیں مجبوراً مجھے بھیجنا ھی پڑا، انکے ٹکٹوں کی معیاد میں نے پہلے سے ھی بڑھوا لی تھی، اور کسی کی سفارش کرواکر ان سب کے پاسپورٹ پر خروج کی مہر ائرپورٹ پر ھی لگوادی اور اس طرح اسی رات ان سب کی واپسی پاکستان ھوگئی، مگر جب میں ان سب کو چھوڑ کر گھر واپس آیا تو میرا دل بالکل نہیں لگ رھا تھا، ھر طرف مجھے بچوں کی آوازیں سنائی دے رھی تھیں، ااور کئی راتیں میں نے اب سب کی یاد میں جاگ کر گزاریں، دفتر میں بھی کام میں بالکل دل نہیں لگ رھا تھا، فوراً ھی میں نے وہ مکان تبدیل کیا اور ایک اور نیا مکان کرایہ پر لے لیا کہ شاید مجھے وہاں بچوں کی کمی محسوس نہ ھو، لیکن وہاں بھی میرا وہی برا حال تھا،!!!!!!!!!!
    ---------------------------------------------
    اور 2001 کا سال بھی شروع ھوگیا، تقریباً سات مہینے بعد ھی انہیں مجبوراً مجھے بھیجنا ھی پڑا، انکے ٹکٹوں کی معیاد میں نے پہلے سے ھی بڑھوا لی تھی، اور کسی کی سفارش کرواکر ان سب کے پاسپورٹ پر خروج کی مہر ائرپورٹ پر ھی لگوادی اور اس طرح اسی رات ان سب کی واپسی پاکستان ھوگئی، مگر جب میں ان سب کو چھوڑ کر گھر واپس آیا تو میرا دل بالکل نہیں لگ رھا تھا، ھر طرف مجھے بچوں کی آوازیں سنائی دے رھی تھیں، ااور کئی راتیں میں نے اب سب کی یاد میں جاگ کر گزاریں، دفتر میں بھی کام میں بالکل دل نہیں لگ رھا تھا، فوراً ھی میں نے وہ مکان تبدیل کیا اور ایک اور نیا مکان کرایہ پر لے لیا کہ شاید مجھے وہاں بچوں کی کمی محسوس نہ ھو، لیکن وہاں بھی میرا وہی برا حال تھا،!!!!!!!!!!

    یہ تو حقیقت ھے ھم روزی روٹی کمانے کے چکر میں کتنی کتنی تکلیفیں اٹھاتے ھیں، لیکن دوسری طرف بچوں کی تربیت سے غافل ھوجاتے ھیں، اور ساتھ ھی خاص کر ھم باھر رھتے ھوئے اپنے گھر کے اسٹینڈرڈ کو مزید بڑھا لیتے ھیں اور فیملی کے ممبران بھی یہ نہیں سوچتے کہ باھر سے جو پیسہ اپنا بندہ کما کر بھیج رھا ھے، وہ وہاں کتنی تکلیف اٹھا کر بھیج رھا ھے، بہن کی شادی کرنی ھے، تو لوگوں کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ وہ اپنی بہن کی کتنے شان و شوکت سے شادی بیاہ رچائے گا، ھر کسی کی نظر باھر ملکوں میں کمانے والے پر نظر ھوتی ھے، جیسے کہ وہ درختوں سے وہاں پر روپوں کو توڑ رھا ھے،!!!!!

    میری چھوٹی بہن کی شادی ابھی ھونی باقی تھی اور ساتھ ھی میرے بچے بھی بڑے ھوتے جارھے تھے، میرے دو بچوں کے تو رشتے بھی آنے شروع ھوگئے تھے، جبکہ ان کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں، لوگ چاھتے تھے کہ پہلے سے ھی منگنی وغیرہ کرلیں بعد میں شادی ھوتی رھے گی، کیونکہ ابھی میں تو میں باھر ھوں شادی کے وقت تک اپنے بچوں کیلئے کافی کچھ جمع کرلوں گا، میں چاھتا تھا کہ میں پہلے میری چھوٹی بہن کی شادی سے فارغ ھوجاؤں اسکے بعد اپنے بچوں کا سوچوں گا، کیونکہ بہن کی عمر زیادہ ھوتی جارھی تھی، اور کوئی اچھا رشتہ مل نہیں رھا تھا، اس سے پہلے سات بہن بھائیوں کی شادیاں ھو چکی تھیں، والدہ میری اس چھوٹی بہن کیلئے بہت فکرمند تھیں،اور وہ مجھے ھمیشہ اس کے بارے یاد دلاتی رھتی ھیں،

    میں یہ کہتا تھا،!!!!! کہ پہلے اس کے اچھے رشتے کی تلاش ھوجائے، تو پھر اس کا بھی سب کی طرح اللٌہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی بندبست کردے گا،!!!!!

    وہ مجھے اس کے جواب میں کہتیں کہ،!!!!! تو بھی تو باھر وہاں دیکھ،!!! کیا تجھے کوئی رشتہ نہیں ملتا،؟؟؟ سب کی شادیاں تو ھوگئیں ھیں یس میری اس آخری بیٹی کا تو کچھ سوچ،!!! اس کی عمر نکلتی جارھی ھے،!!!!!

    میں ھمیشہ اس موضوع پر اپنی اماں سے کافی بحث اسی طرح کرتا رھتا کہ،!!!!!!!

    میں کیا کروں اماں،!!!!! آپ بھی تو تمام رشتہ داروں میں بہت کم آتی جاتی ھیںَ!!!! اگر آپ سب کے ساتھ مل کر آنا جانا رکھیں گی، تو کوئی نہ کوئی مناسب رشتہ مل ھی جائے گا، اور جو بھی رشتے آتے ھیں آپ کسی نہ کسی کہ کہنے میں آکر کوئی نہ کوئی نقص نکال ھی دیتی ھیں، یا پھر کوئی ایسے رشتے بھی آتے ھیں جو تم سے سودا کرتے ھیں کہ اپنے بیٹے سے کہو کہ اسے باھر بلوا لے تو ھم آپکی بیٹی سے رشتہ کرنے کو تیار ھیں، یا پھر کچھ لوگ کہتے کہ جہیز تو ایک لعنت ھے، ھمیں جہیز نہیں چاھئے، بس کوئی انکے بیٹے کو کاروبار کرادیں، ایسے لالچی لوگ تو مجھے قطعی پسند نہیں ھیں،!!!!!!
    اور جو باھر جانے کے خواھش مند ھیں، ان کے لئے میں یہی کہتا کہ،!!!!!!!
    اب اماں بتاؤ باھر ایک تو نوکری ملنا مشکل ھے، اگر مل بھی گئی تو وہاں ایک تو تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ھوتی اور بہت زیادہ محنت مشقت کرنی پڑتی ھیں،!!!! اور میں یہ بھولے سے بھی اپنی بہن یا اپنی بیٹی کا رشتہ باھر کے کسی بندے کو دینا پسند نہیں کروں گا، کیونکہ میری حالت تو دیکھ لو نہ میں یہاں کا رھا اور نہ ھی وھاں کا، اور میرے پاس اب تک کوئی بھی جمع پونجی نہیں ھے، اور نہ ھی میں نے اپنے لئے کوئی ایک مکان تک نہیں بنوایا،!!!!!!!!!

    میں والدہ کو یہی مشورہ دیتا کہ،!!!!!
    اب آپ ھی یہاں اپنی تینوں بہوؤں اور بہنوں کے ساتھ لے کر ھر ملنے جلنے والوں کے یہاں جاتی رھو اور کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو کچھ تحقیقات کرکے ھاں کردو، اور مجھے اطلاع کردو، میں پھر شادی کیلئے انتظامات کی تیاریاں شروع کردوں گا، کچھ نہ کچھ بندوبست ھو ھی جائے گا،!!!!!!
     
  16. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    چلو بھئی وہ دن بھی آگیا جس دن میری فلائٹ تھی، میں دو دن پہلے ھی سب رشتہ داروں سے باری باری مل کر آچکا تھا، کچھ دوستوں اور رشتہ داروں سے گھر پر ھی ملاقات ھوگئی، گھر میں مہمانوں کا تانتا سا بندھ گیا، اور آخری دن میں اپنی والدہ کے پاس ھی تھا ان سے ھی دعائیں لے کر میں ائرپورٹ کیلئے روانہ ھوا، میرے بچے، بہن بھائی، سالے سالیاں اور بیگم بھی اپنے اشکبار آنکھوں کے ساتھ ائر پورٹ مجھے الوداع کرنے آئے تھے، میں آج ایک بار پھر اپنے خاندان بیوی بچوں اور والدہ بہن بھائیوں سے ایک بار پھر جدا ھورھا تھا، اور سب کو اداس چھوڑ کر سعودی عرب کے شہر جدہ جارھا تھا،!!!!!!!!

    اس دفعہ بھی بیگم نے پہلے سے ھی ایک شرط لگادی تھی، کہ میں انہیں اور بچوں کو بہت جلد بلوالوں، کیونکہ وہ لڑکیوں کو تو گھر میں رہ کر سنبھال سکتی ھیں مگر دونوں لڑکوں کا خیال رکھنا بہت ھی مشکل ھے، کیونکہ میری غیرحاضری میں دونوں لڑکے زیادہ تر باھر ھی کھیل کود میں وقت خراب کرتے ھیں، مجھے بھی اپنے دونوں لڑکوں کی طرف سے تشویش تھی، میں نے یہاں رہ کر محسوس کیا تھا، کہ لڑکوں کے دوستوں کا ماحول کچھ صحیح نہیں تھا، بڑا لڑکا تو اکثر ھی گھر سے غائب رہتا تھا، اس کی عمر تقریباً 20 سال سال کے لگ بھگ تو ھوگی، انٹر میں پڑھائی تو کررھا تھا، لیکن پارٹ تائم وہ رات کو شادی کی مووی بنانے نکل جاتا تھا، اور صبح ھی واپس آتا تھا، میں نے اسے کئی بار منع بھی کیا کہ یہ شوق اچھا نہیں ھے لیکن وہ مجھے بھی کوئی صحیح جواب نہیں دیتا تھا، چھوٹا بیٹا جو 16 سال کا تھا آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا، لیکن بس اسکول کے بعد وہ کرکٹ اور فٹ بال کے کھیل میں مگن رھتا، لیکن وہ اپنے بڑے بھائی سے کچھ بہتر ھی تھا کیونکہ وہ پھر بھی شام ڈھلنے سے پہلے گھر ضرور آجاتا تھا، اور گھر کا بہت خیال رکھتا، سودا سلف لانے میں اپنی والدہ کی بہت مدد کرتا تھا، بلکہ وہ تو سارے محلے کا کام کرتا تھا، ھر گھر سے اسی کو بلانے کی آواز سنائی دیتی رھتی تھی،!!!!!!

    اس دفعہ مگر مجھے دونوں کی فکر بہت زیادہ تھی، کیونکہ دونوں بڑے ھوتے جارھے تھے، اور ایسی عمر میں خاص کر لڑکے باپ کی عدم موجودگی میں باھر کے غلط ماحول کو بہت جلد اپنا لیتے ھیں، لڑکیاں تو بیچاری زیادہ تر اپنی والدہ کے ساتھ ھی گزارتی تھیں، چھوٹی بچی تو شاید ابھی دوسری جماعت میں تھی، اور بڑی بیٹی ساتویں جماعت اور اس سے چھوٹی چھٹی جماعت میں زیر تعلیم تھیں، اور میری تینوں بیٹیاں اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن حاصل کرتی رھی تھیں، مگر دونوں بیٹے بس جماعت میں پاس ھی ھو جائیں تو شاید انکے لئے بڑی بات تھی، اس سے پہلے 1994 سے 1997 تک جدہ جب چاروں بچے پڑھ رھے تھے تو بہت ھی اچھی پوزیشن لا رھے تھے مگر یہاں آکر لڑکے تو پوزیشن نہ لا سکے مگر لڑکیوں کی اپنی انی کلاسوں میں پوزیشن اور بھی مزید بہتر ھوگئی، سب سے چھوٹی تو اس وقت بہت ھی چھوٹی اور سب کی لاڈلی تھی،!!!!!!!

    میں یہاں جدہ پہنچ تو گیا لیکن اپنے گھر کی فکر زیادہ کھائے جارھی تھی، میں نہیں چاھتا تھا کہ بیگم اور بچے بہت ھی زیادہ مایوسی کا شکار ھو جائیں، خاص کر لڑکوں کی پریشانی کہ کہیں وہ غلط ماحول کا اثر نہ لے لیں، کیونکہ میں نے تو اکثر دیکھا ھے کہ جن کے والد باھر ھوتے ھیں ان کے لڑکے غلظ ماحول کو بہت جلد اپنا لیتے ھیں، اور پھر بعد میں ان کی اس ماحول سے واپسی بہت ھی ناممکن ھو جاتی ھے، اور ھم جیسے جب ایک دفعہ باھر نکل جاتے ھیں، تو وہاں سے واسی پر کہیں بھی پاکستاں میں اپنے آپ کو کسی بھی سروس کے قابل نہیں چھؤڑتے، یہاں پر ائرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں گھومتے ھوئے، دفتر میں بھی ائرکنڈیشنڈ اس کے علاوہ گھروں‌ میں بھی ائرکنڈیشنڈ کے بغیر گزارہ نہیں ھوتا، اسکے علاوہ یہاں کی بلند و بالا عمارتیں خوبصورت سجے سجائے شاپنگ سینٹر اور بازار، بہترین پارک اور اچھی اچھی گھومنے کی جگہائیں لوگوں کو دیوانہ بنادیتی ھیں اور اولاد بھی یہاں‌ کی تعشیات کی عادتوں کو اپنا لیتی ھیں، جن کا کہ بعد میں اگر دیر ھوجائے تو پاکستان میں جاتے تو بہت ھی خوشی سے ھیں لیکن چند ھی دنوں میں وہاں پریشان ھوجاتے ھیں،!!!!!!

    اب بچوں کی بھی فرمائیش تھی کہ میں دوبارہ سب کو سعودی عرب بلوا لوں، وہاں پر تنخواہ میں کوئی خاطرخواہ اضافہ تو نہیں ھوا تھا، لیکن دفتر کی طرفسے مجھے باھر رھنے کیلئے مکان کا کرایہ ضرور مل رھا تھا، میں نے2000 کے شروع کے چھ مہینے میں پھر سے باھر رھتے ھوئے ایک اچھے مکاں کو کرایہ پر لیا اور سارے گھر کے لوازمات کو اکھٹا کرکے ڈراینگ روم سے لے کر دو بیڈ روم تک کے تمام فرنیچر کا بندوبست کیا اسکے علاوہ نئی واشنگ مشین، ریفریجریٹر، اور سارے کچن کا ضروری کوکنگ کا سامان بمعہ کوکنگ رینج ساتھ ھی تین سیکنڈ ھینڈ مگر اچھی حالت میں ائرکنڈیشنڈ خریدے، آدھے مکان کا حصہ پہلے سے ھی نصف کرایہ پر اپنے دوست کو دے دیا تھا، جس کے ساتھ فیملی بھی تھی اس گھر کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے دو باتھ روم تھے اور کچن کو میں نے دو حصوں میں پارٹیشن لگا کر بانٹ دیا تھا، جس سے کچھ تھوڑی بہت بچت ھو گئی تھی، اور اکثر اپنے دوست کی وجہ سے گھر کا کھانا بھی مل جاتا تھا، مگر میں ساتھ ھی اپنی فیملی کے ویزے کیلئے بندوبست بھی کررھا تھا، لیکن بہت ھی مشکل پیش آرھی تھی، کیونکہ میرے پاسپورٹ پر ویزے میں کارپینٹر کا پیشہ درج تھا، پہلے تو مجھے اپنا پیشہ بدلوانا تھا، اس کیلئے بھی تمام کاغذات اور سندات کی تصدیق پاکستان سے کروانی تھی، جو میں نے پہلے ھی بھجوا دیئے تھے، جب وہ سب تصدیق تو ھو کر آگئے، لیکن جب بھی یہاں پر کچھ قانونی مشکلات پیش آرھی تھیں، جس کی وجہ سے اور مزید تاخیر پر تاخیر ھوتی جارھی تھی، میں نے پہلے اپنی والدہ اور انکے ساتھ بھانجے کو عمرے کے ویزے پر بلوالیا تھا، انہوں نے وہاں پر عمرے کی سعادت اور نبی اکرم (ص) :saw: کے روضہ مبارک کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور تمام مقدس مقامات کی زیارتوں سے بھی فیضیاب ھوئی، حج کے لئے میں انہیں روکنا چاھتا تھا لیکن وہ چاھتی تھیں کہ میری آخری چھوٹی بہن کی شادی ھو جائے، اسکے بعد وہ حج کیلئے آسکتی ھیں، اس سے پہلے نہیں،!!!!!!!!!

    اسی دوران بچوں کا مستقل ویزا نہیں لگ سکا مگر والدہ کے واپس جانے کے بعد میں نے بھی یہی سوچا کہ کیوں نا میں عمرے کے ویزے پر ھی بچوں کو بلوا لوں، میں نے والدہ کے جاتے ھی اپنی بیگم کو ٹیلیفون پر کہا کہ عمرہ کا ویزا لگوا لیں، آخر کار انکے ھی بھائیوں کی مدد سے وہ اپنا اور بچوں کے پاسپورٹ پر عمرے کا ویزا لگوانے میں کامیاب ھوگئیں، میرے بہن بھائیوں سے کچھ ناراضگی بھی ھوئی لیکن والدہ کی اجازت سے اور ان کی دعاؤں سے بیگم اور بچے اپنے اسکولوں کی گرمیوں کی چھٹیوں میں جدہ پہنچ گئے، اسی دوران اس سے پہلے والدہ اور میرے بھانجے بھی عمرہ کی سعادت حاصل کرکے جاچکے تھے، دکھ اس بات کا ھوا کہ کاش وہ سب والدہ کے ساتھ عمرے پر آجاتے تو کتنا ھی اچھا ھوتا، بہرحال جو اللٌہ تعالیٰ کی مرضی، !!!!!

    بچوں کو یہاں رھتے ھوئے تین مہینے سے بھی زیادہ ھو چکے تھے، اب تو بچوں اور بیگم کے عمرے کی معیاد بھی ختم ھو چکی تھی، اسکولوں کی چھٹیاں بھی ختم، مگر بیگم اور بچے بھی واپس پاکستاں جانے کو تیار نہیں تھے، اس دوراں انہوں نے بھی کئی دفعہ عمرے کی سعادت اور مدینہ منورہ میں روضہ مبارک مسجد نبوی (ص) :saw: کی زیارت سے فیضیاب بھی ھوئے، یہاں کے ماحول میں وہ سب اتنے گھل مل گئے تھے، کہ ان کا واپسی کا ارادہ نہیں لگ رھا تھا، ان کے اس واسی کا ٹکٹ بھی تھا، لیکن آخر کار وہ کتنے دن تک غیرقانونی طور پر رہ سکتے تھے، اور 2001 کا سال بھی شروع ھوگیا، تقریباً سات مہینے بعد ھی انہیں مجبوراً مجھے بھیجنا ھی پڑا، انکے ٹکٹوں کی معیاد میں نے پہلے سے ھی بڑھوا لی تھی، اور کسی کی سفارش کرواکر ان سب کے پاسپورٹ پر خروج کی مہر ائرپورٹ پر ھی لگوادی اور اس طرح اسی رات ان سب کی واپسی پاکستان ھوگئی، مگر جب میں ان سب کو چھوڑ کر گھر واپس آیا تو میرا دل بالکل نہیں لگ رھا تھا، ھر طرف مجھے بچوں کی آوازیں سنائی دے رھی تھیں، ااور کئی راتیں میں نے اب سب کی یاد میں جاگ کر گزاریں، دفتر میں بھی کام میں بالکل دل نہیں لگ رھا تھا، فوراً ھی میں نے وہ مکان تبدیل کیا اور ایک اور نیا مکان کرایہ پر لے لیا کہ شاید مجھے وہاں بچوں کی کمی محسوس نہ ھو، لیکن وہاں بھی میرا وہی برا حال تھا،!!!!!!!!!!
    ---------------------------------------------
    اور 2001 کا سال بھی شروع ھوگیا، تقریباً سات مہینے بعد ھی انہیں مجبوراً مجھے بھیجنا ھی پڑا، انکے ٹکٹوں کی معیاد میں نے پہلے سے ھی بڑھوا لی تھی، اور کسی کی سفارش کرواکر ان سب کے پاسپورٹ پر خروج کی مہر ائرپورٹ پر ھی لگوادی اور اس طرح اسی رات ان سب کی واپسی پاکستان ھوگئی، مگر جب میں ان سب کو چھوڑ کر گھر واپس آیا تو میرا دل بالکل نہیں لگ رھا تھا، ھر طرف مجھے بچوں کی آوازیں سنائی دے رھی تھیں، ااور کئی راتیں میں نے اب سب کی یاد میں جاگ کر گزاریں، دفتر میں بھی کام میں بالکل دل نہیں لگ رھا تھا، فوراً ھی میں نے وہ مکان تبدیل کیا اور ایک اور نیا مکان کرایہ پر لے لیا کہ شاید مجھے وہاں بچوں کی کمی محسوس نہ ھو، لیکن وہاں بھی میرا وہی برا حال تھا،!!!!!!!!!!

    یہ تو حقیقت ھے ھم روزی روٹی کمانے کے چکر میں کتنی کتنی تکلیفیں اٹھاتے ھیں، لیکن دوسری طرف بچوں کی تربیت سے غافل ھوجاتے ھیں، اور ساتھ ھی خاص کر ھم باھر رھتے ھوئے اپنے گھر کے اسٹینڈرڈ کو مزید بڑھا لیتے ھیں اور فیملی کے ممبران بھی یہ نہیں سوچتے کہ باھر سے جو پیسہ اپنا بندہ کما کر بھیج رھا ھے، وہ وہاں کتنی تکلیف اٹھا کر بھیج رھا ھے، بہن کی شادی کرنی ھے، تو لوگوں کو یہ معلوم ھونا چاھئے کہ وہ اپنی بہن کی کتنے شان و شوکت سے شادی بیاہ رچائے گا، ھر کسی کی نظر باھر ملکوں میں کمانے والے پر نظر ھوتی ھے، جیسے کہ وہ درختوں سے وہاں پر روپوں کو توڑ رھا ھے،!!!!!

    میری چھوٹی بہن کی شادی ابھی ھونی باقی تھی اور ساتھ ھی میرے بچے بھی بڑے ھوتے جارھے تھے، میرے دو بچوں کے تو رشتے بھی آنے شروع ھوگئے تھے، جبکہ ان کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان تھیں، لوگ چاھتے تھے کہ پہلے سے ھی منگنی وغیرہ کرلیں بعد میں شادی ھوتی رھے گی، کیونکہ ابھی میں تو میں باھر ھوں شادی کے وقت تک اپنے بچوں کیلئے کافی کچھ جمع کرلوں گا، میں چاھتا تھا کہ میں پہلے میری چھوٹی بہن کی شادی سے فارغ ھوجاؤں اسکے بعد اپنے بچوں کا سوچوں گا، کیونکہ بہن کی عمر زیادہ ھوتی جارھی تھی، اور کوئی اچھا رشتہ مل نہیں رھا تھا، اس سے پہلے سات بہن بھائیوں کی شادیاں ھو چکی تھیں، والدہ میری اس چھوٹی بہن کیلئے بہت فکرمند تھیں،اور وہ مجھے ھمیشہ اس کے بارے یاد دلاتی رھتی ھیں،

    میں یہ کہتا تھا،!!!!! کہ پہلے اس کے اچھے رشتے کی تلاش ھوجائے، تو پھر اس کا بھی سب کی طرح اللٌہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی بندبست کردے گا،!!!!!

    وہ مجھے اس کے جواب میں کہتیں کہ،!!!!! تو بھی تو باھر وہاں دیکھ،!!! کیا تجھے کوئی رشتہ نہیں ملتا،؟؟؟ سب کی شادیاں تو ھوگئیں ھیں یس میری اس آخری بیٹی کا تو کچھ سوچ،!!! اس کی عمر نکلتی جارھی ھے،!!!!!

    میں ھمیشہ اس موضوع پر اپنی اماں سے کافی بحث اسی طرح کرتا رھتا کہ،!!!!!!!

    میں کیا کروں اماں،!!!!! آپ بھی تو تمام رشتہ داروں میں بہت کم آتی جاتی ھیںَ!!!! اگر آپ سب کے ساتھ مل کر آنا جانا رکھیں گی، تو کوئی نہ کوئی مناسب رشتہ مل ھی جائے گا، اور جو بھی رشتے آتے ھیں آپ کسی نہ کسی کہ کہنے میں آکر کوئی نہ کوئی نقص نکال ھی دیتی ھیں، یا پھر کوئی ایسے رشتے بھی آتے ھیں جو تم سے سودا کرتے ھیں کہ اپنے بیٹے سے کہو کہ اسے باھر بلوا لے تو ھم آپکی بیٹی سے رشتہ کرنے کو تیار ھیں، یا پھر کچھ لوگ کہتے کہ جہیز تو ایک لعنت ھے، ھمیں جہیز نہیں چاھئے، بس کوئی انکے بیٹے کو کاروبار کرادیں، ایسے لالچی لوگ تو مجھے قطعی پسند نہیں ھیں،!!!!!!
    اور جو باھر جانے کے خواھش مند ھیں، ان کے لئے میں یہی کہتا کہ،!!!!!!!
    اب اماں بتاؤ باھر ایک تو نوکری ملنا مشکل ھے، اگر مل بھی گئی تو وہاں ایک تو تنخواہ اتنی زیادہ نہیں ھوتی اور بہت زیادہ محنت مشقت کرنی پڑتی ھیں،!!!! اور میں یہ بھولے سے بھی اپنی بہن یا اپنی بیٹی کا رشتہ باھر کے کسی بندے کو دینا پسند نہیں کروں گا، کیونکہ میری حالت تو دیکھ لو نہ میں یہاں کا رھا اور نہ ھی وھاں کا، اور میرے پاس اب تک کوئی بھی جمع پونجی نہیں ھے، اور نہ ھی میں نے اپنے لئے کوئی ایک مکان تک نہیں بنوایا،!!!!!!!!!

    میں والدہ کو یہی مشورہ دیتا کہ،!!!!!
    اب آپ ھی یہاں اپنی تینوں بہوؤں اور بہنوں کے ساتھ لے کر ھر ملنے جلنے والوں کے یہاں جاتی رھو اور کوئی مناسب رشتہ مل جائے تو کچھ تحقیقات کرکے ھاں کردو، اور مجھے اطلاع کردو، میں پھر شادی کیلئے انتظامات کی تیاریاں شروع کردوں گا، کچھ نہ کچھ بندوبست ھو ھی جائے گا،!!!!!!
     
  17. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں بھی اسی طرح اپنی اماں سے بحث مباحثہ کرکے باھر چلاجاتا تھا، یا وہاں رھتے ھوئے بھی اماں کو یہی مشورہ دیتا رھتا کیونکہ یہ عورتوں کا ھی شعبہ تھا، اور وہی اپنی بیٹی کیلئے کوئی اچھا رشتہ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر تلاش کر سکتی تھیں، جیساکہ انہوں نے باقی بیٹیوں کیلئے بھی کیا تھا،!!!!!!

    ویسے بھی میں رشتہ ڈھونڈنے اور کسی سے رشتے کی بات کرنے سے بھی بہت ھی گھبراتا ھوں، ڈر اس بات کا ھوتا تھا کہ اگر رشتہ کامیاب ھو گیا تو سب اللٌہ کا شکر ادا کرتے ھیں، لیکن اگر کچھ بات بگڑ جائے تو اسے ذمہ دار ٹھراتے ھیں جس نے رشتہ کرایا تھا، ایک دو دفعہ تو میں گواہ بن کر ابھی تک پچھتا رھا ھوں، کیونکہ کوئی بھی دولہا دلہن میں کوئی نا اتفاقی ھو جاتی ھے تو دونوں پارٹیاں میرے پاس پہنچ جاتی ھیں، اور ایک مقدمہ قائم ھوجاتا ھے، مجھے یہاں بھی ٹیلیفون پر ایک دوسرے کے شکوے شکائت بھی موصول ھوتے رھتے ھیں اور میرے لئے بہت مشکل ھوجاتا ھے دونوں پارٹیوں کا آپس میں صلح کرانا، لیکن ایک بات ھے کہ آخیر میں دونوں پارٹیوں کی صلح بھی ھوجاتی ھے، مجھےاس بات سے بھی خوشی ھے کہ میرے دوست احباب اور رشتہ دار میرا بہت ھی زیادہ احترام کرتے ھیں اور میرے کسی بھی فیصلہ کو رد نہیں کرتے،!!!!!!!

    لیکن مجھے ایک میاں بیوی کا بہت ھی افسوس ھوا، جو کہ میرے پڑوسی تھے، جن کی اب آپس میں علیحدگی ھوچکی ھے، کافی کوششوں کے باوجود بھی صلح کرانے میں ناکامیاب رھا، جبکہ اس علیحدگی کی وجہ کو مجھے ھی قصوروار ٹہرایا جاتا ھے، میں اس کی وجہ کا اصلی سبب اپنی اس کہانی کی توسط سے یہاں اس لئے تحریر کرنا چاھتا ھوں، کہ اگر اس میں میری کوئی غلطی ھوئی ھو تو پڑھنے والے مجھے مورد الزام ٹہرا سکتے ھیں، مجھے اس کا اتنا دکھ ھوا ھے کہ میں بتا نہیں سکتا،!!!!!!

    میرے یہاں اس وقت آنے سے پہلے جب میں پاکستان میں ترکمانستان سے نوکری چھوڑ کر آیا تھا، تو ھمارے سامنے کے پڑوسی جو ھمیشہ میری غیر حاضری میں میرے بیوی بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے، کہ شاید ھی کوئی اپنے خاص ‌رشتہ داروں کا خیال رکھتا ھوگا، آج بھی میرے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ھیں، 1997 سے لیکر 2002 تک میرے بچے اسی مکان میں رھے، اور سامنے رھنے والے پڑوسی جو ابھی تک وھیں مقیم ھیں ان کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ھوں، یہ 5 سالہ وہ دور تھا، جب میرے خاص اپنوں نے میرا اور میرے بچوں کا ساتھ چھوڑدیا تھا، جس دوران میں نے1997 کے آخیر میں اپنے بیوی اور بچوں کو پاکستان میں مستقل طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت اسی علاقے میں ایک مکان کرایہ پر لیکر بچوں کو نذدیکی اسکولوں میں داخلہ بھی دلادیا تھا، لیکن افسوس کہ مجھے 1998 کے شروع میں جنوری کے مہینے میں اپنی سعودی عرب کی نوکری کو مجبوراً اپنی ھی غلطی کی وجہ سے چھوڑنا پڑا، جسے ہٹ دھرمی بھی کہہ سکتے ھیں، میرے نذدیک میں صحیح تھا اور انتظامیہ اپنے فیصلہ پر اپنی جگہ ٹھیک تھی، جس کا ذکر پہلے بھی ھو چکا ھے بار بار دہرانے سے کیا فائدہ،!!!!!!!

    رذق دینے والا اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، اس کے فیصلوں میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے، ایک در بند ھوتا ھے تو وہ دوسرا در کھول دیتا ھے، میں چند مہینے ھی بغیر نوکری کے گھر بیٹھا رھا، لیکن اللٌہ تعالیٰ نے اس دوران کسی چیز کی کمی نہیں ھونے دی، گھر کا خرچہ چلتا رھا، کچھ لوگ تو بہت ھی خوش ھوئے جنہیں اللٌہ تعالیٰ خوش رکھے، لیکن اللٌہ تعالیٰ نے میرے بچوں کی معصومیت کو دیکھتے ھوئے مجھ پر مہربانی کی اور مجھے ترکمانستان میں ایک اچھے روزگار کا بندوبست کردیا تھا جہاں ایک سال کے واپسی کے بعد قدرت نے دوبارہ سعودی عرب بھیجنے کے انتظامات بھی کردیئے، جس کا میں جتنا بھی اسکا شکر بجا لاؤں کم ھے، ھر مشکل وقت میں اس اللٌہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ص)‌ :saw: کے صدقے میری مدد کی ھے،!!!!!!

    ھاں تو میں ذکر کر رھا تھا کہ میرے اس وقت سعودی عرب جانے سے پہلے میرے پڑوسیوں کی عنائتوں اور مہربانیوں کا، اس گلی میں تو ماشااللٌہ سب ھی مہربان اور پرخلوص لوگ تھے، لیکن میرے گھر کے سامنے کے پڑوسی جو کہ خاص طور سے میرے گھر والوں کا بہت ھی خیال رکھتے تھے،
    میرے بچے اور ان سب کے بچے بھی ساتھ ھی اسکول جاتے اور ساتھ ھی کھیلتے بھی تھے، ھمارے گھر والوں کی اس عرصے میں وہاں بہت ھی اچھی جان پہچان ھو گئی، میرے سعودی عرب جانے سے پہلے ھی میری بھی ان سامنے والے پڑوسی کافی دعوتیں بھی ھوئیں، ان کی ایک بیٹی میری بڑی بیٹی کی خاص سہیلی بھی تھی، ان دنوں شاید اس لڑکی کی ان کے ھی رشتہ داروں میں کسی ایک لڑکے سے منگنی ھوچکی تھی، لیکن میرا ان سے کوئی تعارف نہیں تھا، اور اب میرے سعودی عرب جانے سے چند دن پہلے اچانک اس لڑکے سے ملاقات بھی ھوگئی اچھا پڑھا لکھا میرے ھی شعبہ سے تعلق، کامرس گریجویٹ تھا اور بہت ھی پرخلوص نظر آتا تھا، اس کا تعارف ھمارے سامنے والے پڑوسیون نے ھی کرایا تھا، وہ باھر سعودی عرب جانے کا خواھش مند بھی تھا،!!!!!

    میری بیگم نے مجھ سے باتوں باتوں میں کہا کہ !!!!!!!
    " جیسا کہ آپ جانتے ھیں، کہ سامنے والوں کے ھم پر بہت احسانات ھیں، کہ ھر وقت انہوں نے آپکی غیر حاضری میں ھمارا اپنوں سے بڑھ کر خیال رکھا ھے، انکی بیٹی کی منگنی انکے رشتہ داروں میں جس لڑکے سے ھوئی ھے، اسکی یہاں پر نوکری تو ھے لیکن تنخواہ بہت کم ھے، اگر آپ اسے کوشش کرکے اپنے پاس وہاں بلو لو تو بہت ھی اچھا ھو گا، اور ان کی شادی بھی اچھے طریقے سے ھوجائے گی،!!!!!!!!!!

    میں نے بیگم کو جواب دیا کہ،!!!!!! دیکھو ابھی تو تمھارے بہنوئی اور میرا بھانجا بھی لائن میں ھیں، میری بہن بھی میرے پیچھے پڑی ھوئی ھے کہ اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤ، اب میں کیا کروں نوکریاں وہاں کوئی درختوں پر تو نہیں لگی ھوئی ھیں، ھماری کمپنی کا بھی ایک بھرتی کرنے کا طریقہ کار ھے، اور ابھی تو میں وہاں دوبارہ سے جارھا ھوں اور نہ جانے کیا حالات ھوتے ھیں، میں پہلے اپنے بھانجے اور تمھارے بہنوئی کے لئے کچھ کوشش کرتا ھوں پھر اگر موقعہ ملا تو اس لڑکے کے لئے بھی کوشش کروں گا، مگر ان سب کو پہلے انتظامیہ کہ مقرر کردہ لوگوں کی ٹیم کے سامنے انٹرویو دینا ھوگا، بہرحال پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا،!!!!!

    اب تو بیگم نے کہا کہ،!!!!!! میرے بہنوئی اور اپنے بھانجے کیلئے بعد میں سوچنا، پہلے اس لڑکے کا کام کردو کیونکہ یہ ھمارے پڑوسی نے پہلی مرتبہ اس کام کے لئے مجھ سے کہا ھے، اور یہ کام کسی قیمت پر کرنا ھے، اور یہ سوچ کر کرنا ھے کہ پڑوسیوں کا پہلے حق ھوتا ھے،!!!!!!

    اسی تکرار کے دوران میری بیٹی اور اسکی سہیلی میرے سامنے آگئیں، جس کی اس لڑکے سے منگنی ھوچکی تھی، اب ان دونوں نے بھی مجھ سے اس لڑکے کیلئے بہت سی سفارشات کردی اور مجھے بالکل مجبور کردیا اس سے پہلے میں بیگم کے کہنے سے نیم راضی تو ھو گیا تھا،!!!!!
    میں نے ان دونوں سے یہی کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا لیکن میں اپنی پوری کوشش کرونگا کہ پہلی فرصت میں اس لڑکے کی سفارش ضرور کرونگا، کیونکہ یہ بھرتی کرنا میرے ھاتھ میں نہیں ھے، آپ سب دعاء کریں،!!!!!

    اور آخیر میں، میں نے اس لڑکی سے کہا کہ،!!!!! میں چاھوں گا کہ آپکے منگیتر صاحب سے کہیں کہ مجھ سے ایک دفعہ آکر اپنی نوکری کی درخواست بمعہ تجربہ کے سرٹیفکیٹس اور تمام اسناد کی کاپیوں‌ کے مجھ سے ضرور مل لے، !!!!!

    وہ تو اتنی خوش ھوگئی کہ خوشی سے پاگل نظر آنے لگی، جبکہ میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا لیکن کوشش ضرور کروں گا،!!!!! دوسرے دن وہ صاحب زادے میرے گھر بن ٹھن کر آگئے، دوسے کمرے میں شاید اس کی منگیتر اور انکے گھر والے بھی بیٹھے ھوئے تھے،!!!!!

    میں نے اس سے کہا کہ،!!!!!!!
    بھئی دیکھو باھر کام کرنا اور یہاں پاکستان میں کام کرنا بہت بڑا فرق ھے، وہاں پر سمجھ لو بہت ساری قومیت کے لوگوں کے ساتھ بہت ھی مشکل ماحول میں کام کرنا پڑتا ھے، ھوسکتا ھے کہ تمھیں سولہ سولہ گھنٹے بھی کام کرنا پڑ جائے، وہاں گھر کے کھانے کو بھولنا ھوگا، اگر کام سے ذرا بھی جی چراؤ گے، تو فوراً ھی واپس بھیج دیئے جاؤ گئے، میری بدنامی الگ ھوگی اور ساتھ ھی جو بھی پیسہ خرچ کرکے جاؤ گئے وہ سب ضائع بھی ھو جائے گاَ!!!!!

    اس نے فوراً مچلتے ھوئے کہا،!!!!
    کہ آپ دیکھئے گا میں وہاں میں دن رات ایک کردوں گا، اور آپکو یا کسی کو بھی شکایت کا موقعہ نہیں دوں گا، آپ جیسا بھی کہیں گے میں ویسا ھی کرونگا، میں جانتا ھوں کہ وہاں پر بہت مشکل ھوتی ھے، میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ھوں، بس مجھے ایک بار کسی طرح سے بھی بلوالیں پھر آپ مجھے دیکھئے گا کہ آپ کا نام کیسے روشن کرتا ھوں،!!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ ،!!!!!
    " دیکھو میرا نام وہاں پر روشن کرنے کی ضرورت نہیں ھے، بس اپنا ھی کام ایمانداری اور محنت سے کرو اللۃ تعالیٰ ھی آپکو اس کا صلہ دے گا"،!!!!!!

    میں نے کام سے متعلق اس سے کچھ پوچھا مجھے تو لگا کہ یہ کام کرلے گا، اس کا شوق اور جذبہ سے بھی یہی ظاھر ھورھا تھا،،!!!!!!!

    میں نے 1999 میں سعودی عرب پہنچ کر ھی سب سے پہلے اپنے کام کو بہت سلیقے سے سنبھالا سنبھالا اور تین درخواستیں ان کے سامنے رکھ دیں کیونکہ اس وقت وہاں پر اسٹاف کی ضرورت بھی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ فی الوقت میں ایک لڑکے کی سفارش انتطامیہ سے کرسکتا ھوں، تو میں نے اسی لڑکے جو ھمارے پڑوسی کی بیٹی کا منگیتر تھا اس کی درخواست سامنے رکھ دی انہوں نے فوراً ھی اس درخوست کو بڑی مشکل سے انتظامیہ سے منظور کرالیا اور اس کا ویزا پاکستان بھی بھیج دیا گیا، مجھے بھی خوشی حاصل ھوئی کہ دیکھو قدرتی یہ کام ھو گیا، اور اس طرح وہ دن بھی آیا کہ وہ یہاں سعودی عرب پہنچ گیا، میرے استاد محترم نے اس لڑکے کو میرے پاس ھی لگادیا گیا، اسی دوران میری والدہ اور بھانجا بھی عمرے کے لئے آئے اور اسکے بعد میرے بچے اور بیگم بھی عمرے کے ویزے پر آکر سات مہینے بعد رہ کر واپس بھی چلے گئے، کیو نکہ مستقل ویزے کا بندوبست نہیں ھو سکا تھا،!!!!!!!

    اور 2001 کا سال چل رھا تھا، اس لڑکے کی داستان میں آئندہ کی نشست میں تحریر کروں گا،!!!!!!!!
    ------------------------------------------------
    میں نے 1999 میں سعودی عرب پہنچ کر ھی سب سے پہلے اپنے کام کو بہت سلیقے سے سنبھالا سنبھالا اور تین درخواستیں ان کے سامنے رکھ دیں کیونکہ اس وقت وہاں پر اسٹاف کی ضرورت بھی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ فی الوقت میں ایک لڑکے کی سفارش انتطامیہ سے کرسکتا ھوں، تو میں نے اسی لڑکے جو ھمارے پڑوسی کی بیٹی کا منگیتر تھا اس کی درخواست سامنے رکھ دی انہوں نے فوراً ھی اس درخواست کو بڑی مشکل سے انتظامیہ سے منظور کرالیا اور اس کا ویزا پاکستان بھی بھیج دیا گیا، مجھے بھی خوشی حاصل ھوئی کہ دیکھو قدرتی یہ کام ھو گیا، اور اس طرح وہ دن بھی آیا کہ وہ یہاں سعودی عرب پہنچ گیا، میرے استاد محترم نے اس لڑکے کو میرے پاس ھی لگادیا گیا، اسی دوران میری والدہ اور بھانجا بھی عمرے کے لئے آئے اور اسکے بعد میرے بچے اور بیگم بھی عمرے کے ویزے پر آکر سات مہینے بعد رہ کر واپس بھی چلے گئے، کیو نکہ مستقل ویزے کا بندوبست نہیں ھو سکا تھا،!!!!!!!

    شروع شروع میں تو ان صاحبزادے نے میرے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا، اور کام بھی اچھی طرح سیکھ رھا تھا، چونکہ میری فیملی پاکستان واپس جاکی تھی، اور اب تک مستقل فیملی ویزے کا بندوبست بھی نہ ھوسکا تھا تو میں نے ان صاحب زادے کو کمپنی کی رھائش کے بجائے اپنے ساتھ ھی اپنے گھر پر رکھ لیا، جہاں گھر پر بھی کافی گھر کا کاموں میں مدد بھی کرتا رھا، اور ساتھ ھم دونوں مل کر کھانا گھر پر ھی پکاتے کھاتے تھے، کیونکہ کمپنی کی رھائش جہاں ان صاحب زادے کو جانا تھا، وہاں ایک ایک کمرے میں چار اور چھ چھ لوگوں کو کمرے کی گنجائش کے مطابق رکھا جاتا تھا، جہاں اوپر تلے بنک بیڈ لگے ھوئے تھے، باتھ روم کیلئے صبح صبح اٹھ کر تولیہ کندھے پر لٹکائے منہ میں ٹوتھ برش لگائے لائن میں لگنا پڑتا تھا تو جاکر جلدی نمبر آتا تھا، اگر ذرا سی بھی دیر ھوگئی تو سمجھ لیجئے بغیر منہ دھوئے دفتر جانا پڑتا،!!!!!!!

    اور اب تک یہاں ایسی ھی رھائش ھمارے ھر اسپتال میں جونئیر اسٹاف کے لئے ھر کمرے میں گنجائش کے مطابق چار یا چھ الماریاں بھی ایک دیوار کے ساتھ لگی ھوئی ھیں، اس کے علاوہ ھر فلور پر آٹھ دس کمروں کے درمیان ایک بڑا سا ڈرائینگ روم بھی فرنچر کے ساتھ سیٹ کیا ھوا ھے اور ٹی وی کے ساتھ ایک ایک وی سی آر اور ڈش ریسیور بھی دیا ھوا ھے ، جہاں لوگ ڈیوٹی کے بعد آکر پروگرام دیکھتے رھتے ھیں، جنہیں اپنی مرضی سے پروگرام کو دیکھنا ھوتا ھے، انہوں نے اپنے کمرے میں آپس میں مل کر ٹی وی سیٹ لگا لیتے ھیں، جہاں گنجائش تو کم ھے لیکن اوپر تلے بنک بیڈ میں لوگ لیٹ کر ھی یا تو سوتے ھیں یا پھر وہیں لیٹے لیٹے گپ شپ مارتے ھیں، کچھ تو اوپر ھی اپنے اپنے بستروں میں خط بھی لکھ رھے ھوتے ھیں، یا پھر اخبار یا کوئی رسالے ڈائجسٹ سے ھی دل بہلا رھے ھوتے ھیں،!!!!!!

    یہاں صرف سینئر اسٹاف اور ڈاکٹرز کے لئے بہت ھی اچھے انکے رتبے کے حساب سے خوبصورت اپارٹنمٹ الگ سے موجود ھے جہاں سومنگ پولز، اور کھیل کود کے لئے گراونڈ کی سہولت بھی موجود ھے،!!!!!!!

    یہاں اس اسپتال میں سنگل اور جونئیر اسٹاف کیلئے تینوں وقت کا کھانا، یعنی ناشتہ، لنچ اور ڈنر اسپتال کے کیفیٹیریا میں مفت فراھم کیا جاتا ھے، باقی سینئیر اسٹاف بھی وہاں کھانا کھاتے ھیں لیکن ان سے ھر کھانے کے چارجز بذریعہ تنخواہ کٹوتی ھوتی ھے، جس کے لئے ھر ایک کو کیفیٹیریا کے اندر داخل ھونے سے پہلے اپنے شناختی کارڈ کو ایک مشین میں پنچ کرنا پڑتا ھے، جہاں سے اس کے اکاؤنٹ میں خودکار کمپیوٹر کے نظام کے تحت چارج ھونے والوں کے کھاتے میں پہنچ جاتا ھے، اور جن کو فری آفر ھے ان کے فری فوڈ الاؤنس کے کھاتے میں ڈاٹا پہنچ جاتا ھے، یہاں کے کیفیٹیریا میں عربی ، فلپائینی، اور ایشین (پاکستانی، انڈین، سری لنکن اور بنگلہ دیش) کے لئے کھانا الگ الگ کھانا تیار کیا جاتا ھے، لیکن ناشتہ سب کے لئے ایک جیسا ھی ھوتا ھے، جس میں ڈبل روٹی کے سلائس یا لمبی سی سمولی، اور ساتھ اھر ایک کو انڈا املیٹ یا فرائی انڈے کے ساتھ ایک ایک چھوٹی مکھن اور جام کی کی ٹکیہ بھی ملتی ھے، چائے کیلئے ایک بہت بڑی الیکٹرک کی مشین لگی ھوتی ھے، جس میں چائے پانی اور چائے کی پتی کے ساتھ ابل رھی ھوتی ھے، اور ساتھ ھی کپ بھی رکھے ھوتے ھیں جہاں‌ سے ھر شخص ضرورت کے مظابق اس مشین سے چائے نکالتا اور ساتھ ھی رکھی ھوئی چینی اور دودھ کے چھوٹے ٹن سے حسب ضرورت اپنی چائے کو ذائقہ دار بناتا ھوئے اپنے ناشتئے کی ٹرے کے ساتھ کسی بھی ٹیبل کے پاس بیٹھ جاتا ھے،!!!!!

    اکثر منچلے لوگ یہی چاھتے ھیں کہ کسی لڑکی کے پاس بیٹھ کر ناشتہ یا کھانا کھائیں اور ساتھ گپ شپ بھی ھوجائے، کیونکہ یہاں پر لڑکیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ھے، اور ایسے ان سے ملنے گپ شپ کرنے کے مواقع اسی کیفیٹیریا میں ھی ملتے ھیں، وہ تو شکر ھے کہ یہاں کے کھانے اور ناشتے کے اوقات کی پابندی ھے ورنہ تو شاید یہ سارا دن یہیں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رھتے، اسپتال سے باھر ان لڑکوں اور لڑکیوں کی رھائش بالکل الگ الگ ھے، لیکن کمپنی کی بسوں میں ساتھ ھی بیٹھ کر آتے ھیں، لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی تو ھے لیکن یہ تو ایک اسپتال ھے، جہاں شاید اجازت ھو، پھرجہاں لڑکے لڑکیاں ساتھ مل کر کام کرتے ھوں، تو گب شپ، یاری دوستی تو ھو ھی جاتی ھے، ایسی جگہوں پر تو بہت بچ بچا کر چلنا پڑتا ھے،!!!!!!!!!!!

    میں نے اوپر کچھ تھوڑا بہت یہاں کے ماحول کے بارے میں اسلئے بیان کردیا ھے، کیونکہ ان صاحب زادے کا بھی اسی اسپتال میں ھی کسی لڑکی سے دوستانہ ھو گیا تھا، اور پھر اس نے مجھ سے بہت پوشیدہ رکھا لیکن کہیں بھلا عشق اور مشک کی خوشبو چھپ سکتی ھے،!!!!!!!
     
  18. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    میں بھی اسی طرح اپنی اماں سے بحث مباحثہ کرکے باھر چلاجاتا تھا، یا وہاں رھتے ھوئے بھی اماں کو یہی مشورہ دیتا رھتا کیونکہ یہ عورتوں کا ھی شعبہ تھا، اور وہی اپنی بیٹی کیلئے کوئی اچھا رشتہ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر تلاش کر سکتی تھیں، جیساکہ انہوں نے باقی بیٹیوں کیلئے بھی کیا تھا،!!!!!!

    ویسے بھی میں رشتہ ڈھونڈنے اور کسی سے رشتے کی بات کرنے سے بھی بہت ھی گھبراتا ھوں، ڈر اس بات کا ھوتا تھا کہ اگر رشتہ کامیاب ھو گیا تو سب اللٌہ کا شکر ادا کرتے ھیں، لیکن اگر کچھ بات بگڑ جائے تو اسے ذمہ دار ٹھراتے ھیں جس نے رشتہ کرایا تھا، ایک دو دفعہ تو میں گواہ بن کر ابھی تک پچھتا رھا ھوں، کیونکہ کوئی بھی دولہا دلہن میں کوئی نا اتفاقی ھو جاتی ھے تو دونوں پارٹیاں میرے پاس پہنچ جاتی ھیں، اور ایک مقدمہ قائم ھوجاتا ھے، مجھے یہاں بھی ٹیلیفون پر ایک دوسرے کے شکوے شکائت بھی موصول ھوتے رھتے ھیں اور میرے لئے بہت مشکل ھوجاتا ھے دونوں پارٹیوں کا آپس میں صلح کرانا، لیکن ایک بات ھے کہ آخیر میں دونوں پارٹیوں کی صلح بھی ھوجاتی ھے، مجھےاس بات سے بھی خوشی ھے کہ میرے دوست احباب اور رشتہ دار میرا بہت ھی زیادہ احترام کرتے ھیں اور میرے کسی بھی فیصلہ کو رد نہیں کرتے،!!!!!!!

    لیکن مجھے ایک میاں بیوی کا بہت ھی افسوس ھوا، جو کہ میرے پڑوسی تھے، جن کی اب آپس میں علیحدگی ھوچکی ھے، کافی کوششوں کے باوجود بھی صلح کرانے میں ناکامیاب رھا، جبکہ اس علیحدگی کی وجہ کو مجھے ھی قصوروار ٹہرایا جاتا ھے، میں اس کی وجہ کا اصلی سبب اپنی اس کہانی کی توسط سے یہاں اس لئے تحریر کرنا چاھتا ھوں، کہ اگر اس میں میری کوئی غلطی ھوئی ھو تو پڑھنے والے مجھے مورد الزام ٹہرا سکتے ھیں، مجھے اس کا اتنا دکھ ھوا ھے کہ میں بتا نہیں سکتا،!!!!!!

    میرے یہاں اس وقت آنے سے پہلے جب میں پاکستان میں ترکمانستان سے نوکری چھوڑ کر آیا تھا، تو ھمارے سامنے کے پڑوسی جو ھمیشہ میری غیر حاضری میں میرے بیوی بچوں کا بہت خیال رکھتے تھے، کہ شاید ھی کوئی اپنے خاص ‌رشتہ داروں کا خیال رکھتا ھوگا، آج بھی میرے دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ھیں، 1997 سے لیکر 2002 تک میرے بچے اسی مکان میں رھے، اور سامنے رھنے والے پڑوسی جو ابھی تک وھیں مقیم ھیں ان کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا ھوں، یہ 5 سالہ وہ دور تھا، جب میرے خاص اپنوں نے میرا اور میرے بچوں کا ساتھ چھوڑدیا تھا، جس دوران میں نے1997 کے آخیر میں اپنے بیوی اور بچوں کو پاکستان میں مستقل طور پر رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت اسی علاقے میں ایک مکان کرایہ پر لیکر بچوں کو نذدیکی اسکولوں میں داخلہ بھی دلادیا تھا، لیکن افسوس کہ مجھے 1998 کے شروع میں جنوری کے مہینے میں اپنی سعودی عرب کی نوکری کو مجبوراً اپنی ھی غلطی کی وجہ سے چھوڑنا پڑا، جسے ہٹ دھرمی بھی کہہ سکتے ھیں، میرے نذدیک میں صحیح تھا اور انتظامیہ اپنے فیصلہ پر اپنی جگہ ٹھیک تھی، جس کا ذکر پہلے بھی ھو چکا ھے بار بار دہرانے سے کیا فائدہ،!!!!!!!

    رذق دینے والا اللٌہ تعالیٰ ھی ھے، اس کے فیصلوں میں بھی کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے، ایک در بند ھوتا ھے تو وہ دوسرا در کھول دیتا ھے، میں چند مہینے ھی بغیر نوکری کے گھر بیٹھا رھا، لیکن اللٌہ تعالیٰ نے اس دوران کسی چیز کی کمی نہیں ھونے دی، گھر کا خرچہ چلتا رھا، کچھ لوگ تو بہت ھی خوش ھوئے جنہیں اللٌہ تعالیٰ خوش رکھے، لیکن اللٌہ تعالیٰ نے میرے بچوں کی معصومیت کو دیکھتے ھوئے مجھ پر مہربانی کی اور مجھے ترکمانستان میں ایک اچھے روزگار کا بندوبست کردیا تھا جہاں ایک سال کے واپسی کے بعد قدرت نے دوبارہ سعودی عرب بھیجنے کے انتظامات بھی کردیئے، جس کا میں جتنا بھی اسکا شکر بجا لاؤں کم ھے، ھر مشکل وقت میں اس اللٌہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب (ص)‌ :saw: کے صدقے میری مدد کی ھے،!!!!!!

    ھاں تو میں ذکر کر رھا تھا کہ میرے اس وقت سعودی عرب جانے سے پہلے میرے پڑوسیوں کی عنائتوں اور مہربانیوں کا، اس گلی میں تو ماشااللٌہ سب ھی مہربان اور پرخلوص لوگ تھے، لیکن میرے گھر کے سامنے کے پڑوسی جو کہ خاص طور سے میرے گھر والوں کا بہت ھی خیال رکھتے تھے،
    میرے بچے اور ان سب کے بچے بھی ساتھ ھی اسکول جاتے اور ساتھ ھی کھیلتے بھی تھے، ھمارے گھر والوں کی اس عرصے میں وہاں بہت ھی اچھی جان پہچان ھو گئی، میرے سعودی عرب جانے سے پہلے ھی میری بھی ان سامنے والے پڑوسی کافی دعوتیں بھی ھوئیں، ان کی ایک بیٹی میری بڑی بیٹی کی خاص سہیلی بھی تھی، ان دنوں شاید اس لڑکی کی ان کے ھی رشتہ داروں میں کسی ایک لڑکے سے منگنی ھوچکی تھی، لیکن میرا ان سے کوئی تعارف نہیں تھا، اور اب میرے سعودی عرب جانے سے چند دن پہلے اچانک اس لڑکے سے ملاقات بھی ھوگئی اچھا پڑھا لکھا میرے ھی شعبہ سے تعلق، کامرس گریجویٹ تھا اور بہت ھی پرخلوص نظر آتا تھا، اس کا تعارف ھمارے سامنے والے پڑوسیون نے ھی کرایا تھا، وہ باھر سعودی عرب جانے کا خواھش مند بھی تھا،!!!!!

    میری بیگم نے مجھ سے باتوں باتوں میں کہا کہ !!!!!!!
    " جیسا کہ آپ جانتے ھیں، کہ سامنے والوں کے ھم پر بہت احسانات ھیں، کہ ھر وقت انہوں نے آپکی غیر حاضری میں ھمارا اپنوں سے بڑھ کر خیال رکھا ھے، انکی بیٹی کی منگنی انکے رشتہ داروں میں جس لڑکے سے ھوئی ھے، اسکی یہاں پر نوکری تو ھے لیکن تنخواہ بہت کم ھے، اگر آپ اسے کوشش کرکے اپنے پاس وہاں بلو لو تو بہت ھی اچھا ھو گا، اور ان کی شادی بھی اچھے طریقے سے ھوجائے گی،!!!!!!!!!!

    میں نے بیگم کو جواب دیا کہ،!!!!!! دیکھو ابھی تو تمھارے بہنوئی اور میرا بھانجا بھی لائن میں ھیں، میری بہن بھی میرے پیچھے پڑی ھوئی ھے کہ اسے اپنے ساتھ لے کر جاؤ، اب میں کیا کروں نوکریاں وہاں کوئی درختوں پر تو نہیں لگی ھوئی ھیں، ھماری کمپنی کا بھی ایک بھرتی کرنے کا طریقہ کار ھے، اور ابھی تو میں وہاں دوبارہ سے جارھا ھوں اور نہ جانے کیا حالات ھوتے ھیں، میں پہلے اپنے بھانجے اور تمھارے بہنوئی کے لئے کچھ کوشش کرتا ھوں پھر اگر موقعہ ملا تو اس لڑکے کے لئے بھی کوشش کروں گا، مگر ان سب کو پہلے انتظامیہ کہ مقرر کردہ لوگوں کی ٹیم کے سامنے انٹرویو دینا ھوگا، بہرحال پھر بھی میں کوشش ضرور کروں گا،!!!!!

    اب تو بیگم نے کہا کہ،!!!!!! میرے بہنوئی اور اپنے بھانجے کیلئے بعد میں سوچنا، پہلے اس لڑکے کا کام کردو کیونکہ یہ ھمارے پڑوسی نے پہلی مرتبہ اس کام کے لئے مجھ سے کہا ھے، اور یہ کام کسی قیمت پر کرنا ھے، اور یہ سوچ کر کرنا ھے کہ پڑوسیوں کا پہلے حق ھوتا ھے،!!!!!!

    اسی تکرار کے دوران میری بیٹی اور اسکی سہیلی میرے سامنے آگئیں، جس کی اس لڑکے سے منگنی ھوچکی تھی، اب ان دونوں نے بھی مجھ سے اس لڑکے کیلئے بہت سی سفارشات کردی اور مجھے بالکل مجبور کردیا اس سے پہلے میں بیگم کے کہنے سے نیم راضی تو ھو گیا تھا،!!!!!
    میں نے ان دونوں سے یہی کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا لیکن میں اپنی پوری کوشش کرونگا کہ پہلی فرصت میں اس لڑکے کی سفارش ضرور کرونگا، کیونکہ یہ بھرتی کرنا میرے ھاتھ میں نہیں ھے، آپ سب دعاء کریں،!!!!!

    اور آخیر میں، میں نے اس لڑکی سے کہا کہ،!!!!! میں چاھوں گا کہ آپکے منگیتر صاحب سے کہیں کہ مجھ سے ایک دفعہ آکر اپنی نوکری کی درخواست بمعہ تجربہ کے سرٹیفکیٹس اور تمام اسناد کی کاپیوں‌ کے مجھ سے ضرور مل لے، !!!!!

    وہ تو اتنی خوش ھوگئی کہ خوشی سے پاگل نظر آنے لگی، جبکہ میں نے اس سے یہ بھی کہا کہ میں وعدہ نہیں کرتا لیکن کوشش ضرور کروں گا،!!!!! دوسرے دن وہ صاحب زادے میرے گھر بن ٹھن کر آگئے، دوسے کمرے میں شاید اس کی منگیتر اور انکے گھر والے بھی بیٹھے ھوئے تھے،!!!!!

    میں نے اس سے کہا کہ،!!!!!!!
    بھئی دیکھو باھر کام کرنا اور یہاں پاکستان میں کام کرنا بہت بڑا فرق ھے، وہاں پر سمجھ لو بہت ساری قومیت کے لوگوں کے ساتھ بہت ھی مشکل ماحول میں کام کرنا پڑتا ھے، ھوسکتا ھے کہ تمھیں سولہ سولہ گھنٹے بھی کام کرنا پڑ جائے، وہاں گھر کے کھانے کو بھولنا ھوگا، اگر کام سے ذرا بھی جی چراؤ گے، تو فوراً ھی واپس بھیج دیئے جاؤ گئے، میری بدنامی الگ ھوگی اور ساتھ ھی جو بھی پیسہ خرچ کرکے جاؤ گئے وہ سب ضائع بھی ھو جائے گاَ!!!!!

    اس نے فوراً مچلتے ھوئے کہا،!!!!
    کہ آپ دیکھئے گا میں وہاں میں دن رات ایک کردوں گا، اور آپکو یا کسی کو بھی شکایت کا موقعہ نہیں دوں گا، آپ جیسا بھی کہیں گے میں ویسا ھی کرونگا، میں جانتا ھوں کہ وہاں پر بہت مشکل ھوتی ھے، میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ھوں، بس مجھے ایک بار کسی طرح سے بھی بلوالیں پھر آپ مجھے دیکھئے گا کہ آپ کا نام کیسے روشن کرتا ھوں،!!!!!!

    میں نے جواب دیا کہ ،!!!!!
    " دیکھو میرا نام وہاں پر روشن کرنے کی ضرورت نہیں ھے، بس اپنا ھی کام ایمانداری اور محنت سے کرو اللۃ تعالیٰ ھی آپکو اس کا صلہ دے گا"،!!!!!!

    میں نے کام سے متعلق اس سے کچھ پوچھا مجھے تو لگا کہ یہ کام کرلے گا، اس کا شوق اور جذبہ سے بھی یہی ظاھر ھورھا تھا،،!!!!!!!

    میں نے 1999 میں سعودی عرب پہنچ کر ھی سب سے پہلے اپنے کام کو بہت سلیقے سے سنبھالا سنبھالا اور تین درخواستیں ان کے سامنے رکھ دیں کیونکہ اس وقت وہاں پر اسٹاف کی ضرورت بھی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ فی الوقت میں ایک لڑکے کی سفارش انتطامیہ سے کرسکتا ھوں، تو میں نے اسی لڑکے جو ھمارے پڑوسی کی بیٹی کا منگیتر تھا اس کی درخواست سامنے رکھ دی انہوں نے فوراً ھی اس درخوست کو بڑی مشکل سے انتظامیہ سے منظور کرالیا اور اس کا ویزا پاکستان بھی بھیج دیا گیا، مجھے بھی خوشی حاصل ھوئی کہ دیکھو قدرتی یہ کام ھو گیا، اور اس طرح وہ دن بھی آیا کہ وہ یہاں سعودی عرب پہنچ گیا، میرے استاد محترم نے اس لڑکے کو میرے پاس ھی لگادیا گیا، اسی دوران میری والدہ اور بھانجا بھی عمرے کے لئے آئے اور اسکے بعد میرے بچے اور بیگم بھی عمرے کے ویزے پر آکر سات مہینے بعد رہ کر واپس بھی چلے گئے، کیو نکہ مستقل ویزے کا بندوبست نہیں ھو سکا تھا،!!!!!!!

    اور 2001 کا سال چل رھا تھا، اس لڑکے کی داستان میں آئندہ کی نشست میں تحریر کروں گا،!!!!!!!!
    ------------------------------------------------
    میں نے 1999 میں سعودی عرب پہنچ کر ھی سب سے پہلے اپنے کام کو بہت سلیقے سے سنبھالا سنبھالا اور تین درخواستیں ان کے سامنے رکھ دیں کیونکہ اس وقت وہاں پر اسٹاف کی ضرورت بھی تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ فی الوقت میں ایک لڑکے کی سفارش انتطامیہ سے کرسکتا ھوں، تو میں نے اسی لڑکے جو ھمارے پڑوسی کی بیٹی کا منگیتر تھا اس کی درخواست سامنے رکھ دی انہوں نے فوراً ھی اس درخواست کو بڑی مشکل سے انتظامیہ سے منظور کرالیا اور اس کا ویزا پاکستان بھی بھیج دیا گیا، مجھے بھی خوشی حاصل ھوئی کہ دیکھو قدرتی یہ کام ھو گیا، اور اس طرح وہ دن بھی آیا کہ وہ یہاں سعودی عرب پہنچ گیا، میرے استاد محترم نے اس لڑکے کو میرے پاس ھی لگادیا گیا، اسی دوران میری والدہ اور بھانجا بھی عمرے کے لئے آئے اور اسکے بعد میرے بچے اور بیگم بھی عمرے کے ویزے پر آکر سات مہینے بعد رہ کر واپس بھی چلے گئے، کیو نکہ مستقل ویزے کا بندوبست نہیں ھو سکا تھا،!!!!!!!

    شروع شروع میں تو ان صاحبزادے نے میرے ساتھ بہت اچھا رویہ رکھا، اور کام بھی اچھی طرح سیکھ رھا تھا، چونکہ میری فیملی پاکستان واپس جاکی تھی، اور اب تک مستقل فیملی ویزے کا بندوبست بھی نہ ھوسکا تھا تو میں نے ان صاحب زادے کو کمپنی کی رھائش کے بجائے اپنے ساتھ ھی اپنے گھر پر رکھ لیا، جہاں گھر پر بھی کافی گھر کا کاموں میں مدد بھی کرتا رھا، اور ساتھ ھم دونوں مل کر کھانا گھر پر ھی پکاتے کھاتے تھے، کیونکہ کمپنی کی رھائش جہاں ان صاحب زادے کو جانا تھا، وہاں ایک ایک کمرے میں چار اور چھ چھ لوگوں کو کمرے کی گنجائش کے مطابق رکھا جاتا تھا، جہاں اوپر تلے بنک بیڈ لگے ھوئے تھے، باتھ روم کیلئے صبح صبح اٹھ کر تولیہ کندھے پر لٹکائے منہ میں ٹوتھ برش لگائے لائن میں لگنا پڑتا تھا تو جاکر جلدی نمبر آتا تھا، اگر ذرا سی بھی دیر ھوگئی تو سمجھ لیجئے بغیر منہ دھوئے دفتر جانا پڑتا،!!!!!!!

    اور اب تک یہاں ایسی ھی رھائش ھمارے ھر اسپتال میں جونئیر اسٹاف کے لئے ھر کمرے میں گنجائش کے مطابق چار یا چھ الماریاں بھی ایک دیوار کے ساتھ لگی ھوئی ھیں، اس کے علاوہ ھر فلور پر آٹھ دس کمروں کے درمیان ایک بڑا سا ڈرائینگ روم بھی فرنچر کے ساتھ سیٹ کیا ھوا ھے اور ٹی وی کے ساتھ ایک ایک وی سی آر اور ڈش ریسیور بھی دیا ھوا ھے ، جہاں لوگ ڈیوٹی کے بعد آکر پروگرام دیکھتے رھتے ھیں، جنہیں اپنی مرضی سے پروگرام کو دیکھنا ھوتا ھے، انہوں نے اپنے کمرے میں آپس میں مل کر ٹی وی سیٹ لگا لیتے ھیں، جہاں گنجائش تو کم ھے لیکن اوپر تلے بنک بیڈ میں لوگ لیٹ کر ھی یا تو سوتے ھیں یا پھر وہیں لیٹے لیٹے گپ شپ مارتے ھیں، کچھ تو اوپر ھی اپنے اپنے بستروں میں خط بھی لکھ رھے ھوتے ھیں، یا پھر اخبار یا کوئی رسالے ڈائجسٹ سے ھی دل بہلا رھے ھوتے ھیں،!!!!!!

    یہاں صرف سینئر اسٹاف اور ڈاکٹرز کے لئے بہت ھی اچھے انکے رتبے کے حساب سے خوبصورت اپارٹنمٹ الگ سے موجود ھے جہاں سومنگ پولز، اور کھیل کود کے لئے گراونڈ کی سہولت بھی موجود ھے،!!!!!!!

    یہاں اس اسپتال میں سنگل اور جونئیر اسٹاف کیلئے تینوں وقت کا کھانا، یعنی ناشتہ، لنچ اور ڈنر اسپتال کے کیفیٹیریا میں مفت فراھم کیا جاتا ھے، باقی سینئیر اسٹاف بھی وہاں کھانا کھاتے ھیں لیکن ان سے ھر کھانے کے چارجز بذریعہ تنخواہ کٹوتی ھوتی ھے، جس کے لئے ھر ایک کو کیفیٹیریا کے اندر داخل ھونے سے پہلے اپنے شناختی کارڈ کو ایک مشین میں پنچ کرنا پڑتا ھے، جہاں سے اس کے اکاؤنٹ میں خودکار کمپیوٹر کے نظام کے تحت چارج ھونے والوں کے کھاتے میں پہنچ جاتا ھے، اور جن کو فری آفر ھے ان کے فری فوڈ الاؤنس کے کھاتے میں ڈاٹا پہنچ جاتا ھے، یہاں کے کیفیٹیریا میں عربی ، فلپائینی، اور ایشین (پاکستانی، انڈین، سری لنکن اور بنگلہ دیش) کے لئے کھانا الگ الگ کھانا تیار کیا جاتا ھے، لیکن ناشتہ سب کے لئے ایک جیسا ھی ھوتا ھے، جس میں ڈبل روٹی کے سلائس یا لمبی سی سمولی، اور ساتھ اھر ایک کو انڈا املیٹ یا فرائی انڈے کے ساتھ ایک ایک چھوٹی مکھن اور جام کی کی ٹکیہ بھی ملتی ھے، چائے کیلئے ایک بہت بڑی الیکٹرک کی مشین لگی ھوتی ھے، جس میں چائے پانی اور چائے کی پتی کے ساتھ ابل رھی ھوتی ھے، اور ساتھ ھی کپ بھی رکھے ھوتے ھیں جہاں‌ سے ھر شخص ضرورت کے مظابق اس مشین سے چائے نکالتا اور ساتھ ھی رکھی ھوئی چینی اور دودھ کے چھوٹے ٹن سے حسب ضرورت اپنی چائے کو ذائقہ دار بناتا ھوئے اپنے ناشتئے کی ٹرے کے ساتھ کسی بھی ٹیبل کے پاس بیٹھ جاتا ھے،!!!!!

    اکثر منچلے لوگ یہی چاھتے ھیں کہ کسی لڑکی کے پاس بیٹھ کر ناشتہ یا کھانا کھائیں اور ساتھ گپ شپ بھی ھوجائے، کیونکہ یہاں پر لڑکیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ھے، اور ایسے ان سے ملنے گپ شپ کرنے کے مواقع اسی کیفیٹیریا میں ھی ملتے ھیں، وہ تو شکر ھے کہ یہاں کے کھانے اور ناشتے کے اوقات کی پابندی ھے ورنہ تو شاید یہ سارا دن یہیں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف رھتے، اسپتال سے باھر ان لڑکوں اور لڑکیوں کی رھائش بالکل الگ الگ ھے، لیکن کمپنی کی بسوں میں ساتھ ھی بیٹھ کر آتے ھیں، لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے پر پابندی تو ھے لیکن یہ تو ایک اسپتال ھے، جہاں شاید اجازت ھو، پھرجہاں لڑکے لڑکیاں ساتھ مل کر کام کرتے ھوں، تو گب شپ، یاری دوستی تو ھو ھی جاتی ھے، ایسی جگہوں پر تو بہت بچ بچا کر چلنا پڑتا ھے،!!!!!!!!!!!

    میں نے اوپر کچھ تھوڑا بہت یہاں کے ماحول کے بارے میں اسلئے بیان کردیا ھے، کیونکہ ان صاحب زادے کا بھی اسی اسپتال میں ھی کسی لڑکی سے دوستانہ ھو گیا تھا، اور پھر اس نے مجھ سے بہت پوشیدہ رکھا لیکن کہیں بھلا عشق اور مشک کی خوشبو چھپ سکتی ھے،!!!!!!!
     
  19. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مجھے اداس دیکھ کر میرے ساتھی نے کہا کہ،!!!! " میں نے مانا کہ آپ ھی اسکو یہاں ‌لے کر آئیں ھیں اس سے آپکا پاکستان میں جو بھی رشتہ ھو، لیکن یہ لڑکا اس قابل نہیں‌ ھے کہ آپ کے ساتھ رہ سکے، اس کی حرکتوں کو میں ھی جانتا ھوں، آپ کی وجہ سے میں خاموش ھوں، ورنہ میں اسے اچھی طرح سمجھا دیتا"،!!!!!!

    یہ تو حقیقت ھے کہ پردیس میں آنے کے بعد ھی پتہ چلتا ھے کہ یہاں پر کن کن مشکلات سے دوچار ھونا پڑتا ھے، وہ صاحبزادے کام میں تو بہت اچھے تھے، لیکن یہاں آنے کے بعد انہیں کچھ ایسے دوست مل گئے، کہ اسے بہکانا شروع کردیا، کہ کہاں پھنس گئے، اور اسے کام کے بجائے دوسری رنگ رنگیلیوں کی طرف دھکیلنے لگے، جس سے مجھے روز بروز تشویش ھونے لگی، اب تو میں نے اسے کمپنی کی رہائش میں جگہ دلوادی تھی، جسکی وجہ سے وہ اب مجھ سے مزید خفا رھنے لگا، جسکی وجہ سے میرے دو تین اور ساتھی بھی آفس کے کام میں میری مدد کیلئے پیچھے ھٹنے لگے جسکی وجہ سے میرے سیکشن میں کام کا معیار دھیرے دھیرے گرنے لگا، مجھے میرے استاد جو باس بھی تھے، انہوں نے مجھ سے شکایت کی اور بہت غصہ بھی ھوئے، وہ جانتے تھے کہ کام کی تاخیر اور خرابی کے اسباب کیا ھیں، لیکن وہ مجھ سے ھی سننا چاھتے تھے، میں یہ نہیں چاھتا تھا کہ میں اس صاحبزادے کا نام لوں، میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور سیکشن میں بھیج دیں اور کسی اور سیکشن سے اچھے سینیئر کو یہاں میری جگہ بلوالیں،!!!!!!

    میرے استاد یہ نہیں چاھتے تھے، لیکن میرے مجبور کرنے پر کہ،!!!! دیکھیں آپکو کام چاھئے اور اگر اسی طرح یہاں اس سیکشن میں میرے ساتھ یہ لوگ رھے، تو میں کام کی بہتری کی ضمانت نہیں دے سکوں گا، میں چاھتا ھوں کے ھر جگہ ایسے آدمی رکھیں جو ایک دوسرے کی دل سے عزت کریں اور کام بھی دل جوئی سے انجام دیں،!!!!! میرے استاد جی نے شاید اسی میں بہتری سمجھی اور مجھے دوسرے سیکشن میں بھیج دیا، جو میرا پسندیدہ سیکشن تو نہیں تھا لیکن وھاں کے لڑکے میری بہت عزت کرتے تھے، میرے لئے یہی کافی تھا، یہ سن کر وہ صاحب زادے تو بہت خوش ھوئے، ان کے انچارج بہت اچھے اور محنتی تھے، ان کی ترقی ھوگئی، اور میں دوسرے سیکشن میں اپنے کام کو سکون سے انجام دے رھا تھا، کہ مجھے گھر سے ٹیلیفوں پر اطلاع ملی کہ کیا وجہ ھے مجھے اپنے عہدے سے ھٹا کر اس سے نیچے کی پوسٹ دے دی گئی ھے،!!!!! میں حیران پریشان تھا کہ یہ ادھر سے ادھر کی تبادلے کی اطلاع وہاں کیسے پہنچ گئی، وہاں میرے گھر والے پریشان تھے، حالانکہ دونوں‌ عہدہ اپنی اپنی جگہ پر ایک جیسے ھی تھے، بس سیکشن الگ الگ تھے،!!!!!!

    میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب اس صاحبزادے کی کارستانی ھی لگتی ھے، میں خاموش رھا اور اپنے گھروالوں کو سمجھا دیا کہ،!!!!! کسی کی باتوں پر یقین مت کریں، اور نہ ھی کسی سے کچھ بحث نہ کریں اس صاحبزادے کی شادی ھوجانے دیں، جہاں بھی میں کام کروں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میری عزت بس میرے اپنے کام سے ھے، اور اللٌہ تعالیٰ بہت بڑا کارساز ھے، مجھے اس پر یقین ھے اور وہ جو کرتا اس میں کچھ نہ کچھ مصلحت ھی ھوتی ھے،!!!!! مجھے بہت دکھ ھورھا تھا کہ یہ صاحبزادے مجھے بدنام کرنے پر تلے ھوئے ھیں، کچھ میرے ساتھیؤں نے اسے شرم بھی دلائی کہ انہوں نے تمہیں بلایا اور تم ان کی ھی برائی کررھے ھو تو یہ صاحبزادے جواب میں کہتے کہ،!!! معاف کرنا،!!! میں تو اپنی قابلیت کی بناء پر ھی یہاں بھرتی ھوا ھوں، اس میں ان کا کوئی کمال نہیں ھے،!!!!! وہ لوگ مجھے اس کے بارے میں یہ سب کچھ بتاتے لیکن میں ان سے یہی کہتا کہ،!!!! کوئی بات نہیں مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ھے، اور آپلوگ بھی اس کے ساتھ اچھی طرح تعاون کرو کیونکہ میرے پڑوسیوں کا ھونے والا داماد ھے، میں نہیں چاھتا کہ وہ یہاں پر وہ ناکام ھوجائے،!!!!!!!

    بہرحال اس لڑکے نے اپنی پوری کوشش کرلی کہ میں یہاں پر کام نہ کرسکوں حتیٰ کہ اس نے میرے استاد سے بھی غلط فہمی پیدا کرکے ناراضگی کا بیج بو ھی دیا، اب روزانہ ھی میرے باس سے کسی نہ کسی مسئلہ پر کام کی موضوع پرھی مڈبھیڑ ھونے لگی اور کسی نہ کسی بات کو لے کر وہ بہت زیادہ ھی برھم ھوجاتے تھے، میں نے تو برداشت بہت کیا لیکن ایک دن جب بات حد سے زیادہ تجاوز کرگئی تو میں نے ان سے معذرت کرلی کہ،!!!!! اب یہاں آپ کے پاس میں کام کرنے سے مجبور ھوں، بہتر ھوگا کہ مجھے یہاں سے مکمل ھی فارغ کرادیں، کیونکہ میں آپکو مزید دکھ میں نہیں رکھنا چاھتا،!!!!!! جبکہ میں دوسری جگہ پر بہت محنت سے کام کررھا تھا، بلکہ اس کمپنی کے مالکان اور انتظامیہ کے خاص بڑے عہدیداران بھی میری تعریف کرنے لگے تھے، اور میرے کام سے مطمئین اور میری کارکردگی سے بہت خوش تھے، لیکن میں اپنے استاد کو ناراض دیکھنا نہیں چاھتا تھا، کیونکہ جو کچھ بھی آج میں اس قابل ھوا تھا سب انہیں کے بدولت تھا، میں نے ان کے ساتھ پچھلی کمپنی میں 5 سال اور اس کمپنی میں بھی مجھے 10 سال تک کام کیا تھا اور ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا اور ان کی میں بہت عزت کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں مجھے اسی کمپنی میں ترکمانستان سے دوبارہ بلوالیا تھا،!!!!!!!!

    میری چھٹی منظور ھوچکی تھی، شائد 2001 کے اوائل کا دور تھا، میں نے اپنے استاد سے پہلے ھی کہ دیا تھا کہ،!!!!! میں چھٹی تو جارھا ھوں لیکن مجھ سے آپ واپسی کی امید نہیں رکھئے گا،!!!!! ان صاحبزادے کی ان دنوں ھمارے استاد سے بہت ھی زیادہ بن رھی تھی، مجھے ایک طرف سے خوشی بھی تھی، کہ چلو کم از کم میں اپنے پڑوسی کے سامنے تو گناہگار تو نہیں ھوں گا، وہ صاحبزادے اپنے بھائی کو بھی بلانے کیلئے ھمارے استاد کے آگے پیچھے گھوم رھے تھے، کیونکہ ریاض کی برانچ کا افتتاح بس اس سال کے دو تین مہینے بعد ھی ھونے والا تھا، اور اس کیلئے ابھی سے وہاں پر نئے ملازمین کو بھرتی کی تیاریاں ھورھی تھیں، اور ھمارے اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کی سلیکشن بھی ھمارے استاد کی ھی ذمہ داری تھی، مگر وہ پہلے مجھے اپنے ساتھ ھی یہیں جدہ میں رکھنے کے خواھشمند تھے، لیکن جب سے ھم دونوں کے بیچ میں کچھ کام کے سلسلہ میں غلط فہمیاں شروع ھوئی تھی، انہوں نے میرے لئے مزید کچھ سوچا ھی نہیں، اور میں بھی مزید یہ نہیں چاھتا تھا کہ میرے استاد کو میری ذات سے کوئی تکلیف پہنچے،!!!!!!!

    چھٹی جانے والے دن میں پہلے میں اپنے تمام ساتھیوں دوستوں سے ملا اور آخیر میں اپنے استاد محترم کے کمرے میں الوداعی اجازت لینے پہنچا لیکن انہوں نے میری طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیا، اور بالکل بےدلی سے ہاتھ ملایا اور دوسرے کام کی طرف جان بوجھ کر رخ کرلیا، مجھے بہت دکھ ھوا، لیکن میں بھی انہیں دیکھ رھا تھا، کیونکہ ان چہرے سے صاف ظاھر ھورھا تھا کہ وہ میرے لئے بہت فکرمند تھے، میں نے جاتے جاتے ان سے معذرت طلب کی، کہ،!!!! اگر مجھے سے کوئی غلطی یا دکھ پہنچا ھو تو میں آپ سے معافی مانگتا ھوں،!!!! اور میرے یہ کہتے ھی میری آنکھوں میں قدرتی آنسو آگئے، میں فوراً ھی انکے کمرے سے نکل آیا، اور اپنی رھائش کی طرف چل دیا جو کہ کوئی خاص دور نہیں تھی، مجھے ابھی سامان کی پیکنگ بھی کرنی تھی رات کے وقت فلائٹ کی رونگی تھی، میں نے اپنا چارج مکمل طور سے کسی اور کو اس طرح دے دیا تھا کہ میرے واپس نہ آنے کی صورت میں کام پر کوئی اثر نہ پڑے، ویسے بھی ان دنوں فیملی کے ویزے کیلئے کچھ مشکلات درپیش تھیں، میرا دل تو اب بالکل یہاں کے ماحول سے اٹھ چکا تھا، ھمارے ساتھیوں میں بھی سیاست چمک اٹھی تھی، بحث و مباحثہ کے شکار ھو چکے تھے، اسکے علاوہ گروپ بندی کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس سے مجھے سخت نفرت تھی،!!!!!!!
    --------------------------------------------

    چھٹی جانے والے دن میں پہلے میں اپنے تمام ساتھیوں دوستوں سے ملا اور آخیر میں اپنے استاد محترم کے کمرے میں الوداعی اجازت لینے پہنچا لیکن انہوں نے میری طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیا، اور بالکل بےدلی سے ہاتھ ملایا اور دوسرے کام کی طرف جان بوجھ کر رخ کرلیا، مجھے بہت دکھ ھوا، لیکن میں بھی انہیں دیکھ رھا تھا، کیونکہ ان چہرے سے صاف ظاھر ھورھا تھا کہ وہ میرے لئے بہت فکرمند تھے، میں نے جاتے جاتے ان سے معذرت طلب کی، کہ،!!!! اگر مجھے سے کوئی غلطی یا دکھ پہنچا ھو تو میں آپ سے معافی مانگتا ھوں،!!!! اور میرے یہ کہتے ھی میری آنکھوں میں قدرتی آنسو آگئے، میں فوراً ھی انکے کمرے سے نکل آیا، اور اپنی رھائش کی طرف چل دیا جو کہ کوئی خاص دور نہیں تھی، مجھے ابھی سامان کی پیکنگ بھی کرنی تھی رات کے وقت فلائٹ کی رونگی تھی، میں نے اپنا چارج مکمل طور سے کسی اور کو اس طرح دے دیا تھا کہ میرے واپس نہ آنے کی صورت میں کام پر کوئی اثر نہ پڑے، ویسے بھی ان دنوں فیملی کے ویزے کیلئے کچھ مشکلات درپیش تھیں، میرا دل تو اب بالکل یہاں کے ماحول سے اٹھ چکا تھا، ھمارے ساتھیوں میں بھی سیاست چمک اٹھی تھی، بحث و مباحثہ کے شکار ھو چکے تھے، اسکے علاوہ گروپ بندی کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس سے مجھے سخت نفرت تھی،!!!!!!!

    تیاری مکمل تھی، بس ایک دوست کا انتظار تھا، جس نے مجھے ائرپورٹ تک چھوڑ کر آنا تھا، ابھی اسی انتظار میں ھی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی میں سمجھا کہ میرا دوست مجھے لینے کیلئے آگیا ھے، فوراً ھی میں اپنا ایک سوٹ کیس کو پیہوں کے بل کھینچتا ھوا مین دروازے تک پہنچا اور جیسے ھی دروازہ کھولا، تو میں حیران پریشان اپنے استاد محترم کو وہاں دیکھ رھا تھا، میں نے سوٹ کیس وہیں دروازے کے پاس چھوڑتے ھوئے انہیں اندر آنے کیلئے کہا، جیسے ھی وہ اندر آئے مجھے گلے سے لگا لیا اور ذرا بھرائی ھوئی آواز میں کہا کہ،!!!!! " بیٹا میری باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا، میں تم سے دفتر میں پریشانی کے عالم میں کچھ زیادہ ھی بول گیا"،،!!!!!! میں نے جواباً کہا کہ،!!!!!" آپ کیسی بات کررھے ھیں، آپ میرے استاد ھیں، اور آپ مجھے ڈانٹ کے ساتھ مار بھی سکتے ھیں، یہ آپکا حق بنتا ھے،"!!!!!
    انہوں نے دفتر کے حالات پر تبصرہ کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!!!" مجھے تم سے بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں کہ تم ھمیشہ مجھے ھی اسسٹ کرو گے، کیونکہ تمھارا کام کرنے کا انداز بہت پسند ھے، لیکن تم نے اس دفعہ اپنی ذمہ داریوں سے ھاتھ اٹھا لیا، جبکہ تمھیں اپنے بندے کو یہاں بلانے کیلئے بھی میں نے کوشش کرکے منظوری بھی لے لی تھی، اور اسی نے تمھاے خلاف ایک اپنا الگ محاذ بنا لیا، وجہ کچھ بھی رھی ھو، مجھے اب کوئی شکایت نہیں ھے، جو تم چاھو گے وھی ھوگا لیکن تم واپس ضرور آؤ گے، کیونکہ مجھے اس کمپنی کے نئے پروجیکٹ کیلئے تمھیں ھی بھیجنا ھے، "!!!!!!

    میں نے بھی ان کے رویہ کو مدنظر رکھتے ھوئے، کوئی ان سے شکائت نہیں کی، بس یہی کہا کہ،!!!!"وہ صاحبزادے میرے پڑوسی کے ھونے والے داماد ھیں، اس کا آپ خیال رکھیں گے، کیونکہ میری عزت کا سوال ھے، وہ جو کچھ بھی کہتا ھے یا میرے خلاف کچھ بھی پروپگنڈہ کرتا ھو، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں اسے لے کر آیا ھوں تو اب میری ھی ذمہ داری ھے کہ جب تک یہاں ھے اسکی سب لوگ یہاں پر مدد کریں تاکہ مجھے میرے پڑوسی کے سامنے کسی بات کیلئے شرمندہ نہ ھونا پڑے، بس میری آپ سے یہی درخواست ھے، مگر ایک بات کا ضرور خیال رکھئے گا کہ اسکی ڈیوٹی میرے ساتھ کبھی بھی نہیں لگائیں،"!!!!!!!!

    انہوں نے میری اس بات کو مان لیا مگر اس شرط پر کہ میں واپس ضرور آونگا، میں نے بھی حامی بھر لی، اسی وقت میرا دوست بھی کمپنی کی گاڑی لئے آن پہنچا، اور وہ بھی میرے استاد محترم کو دیکھ کر حیران ھو گیا، اور دوسرے دوست بھی ملاقات کے لئے آئے ھوئے تھے، لیکن وہ صاحبزادے نہیں آئے اور نہ ھی اس نے مجھے کوئی سامان یا خط وغیرہ تک نہیں پہنچایا، مجھے افسوس تو بہت ھوا، کہ وہاں پر اسکے گھر والے مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں گا،!!!!!!

    ائرپورٹ پر پہنچ کر میرے دوست نے ھی سارا سامان لگیج کیلئے کاونٹر تک پہنچایا اس کے بعد مجھے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ ٹکٹ ھاتھ میں دیا اور پھر مجھ سے گلے ملا، کیونکہ اسے آفس بھی ضروری پہنچنا تھا، مجھ سے اجازت لیتا ھوا رخصت ھوگیا، اور میں اپنے ھاتھ میں بریف کیس اور ایک چھوٹا سا تھیلا لئے امگریشن کاونٹر کی طرف بڑھ گیا، وہاں سے خروج کی مہر لگواتے ھوئے لاونج میں ایک کنارے کی آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا، ابھی جہاز کی روانگی میں کافی وقت تھا، سامنے ھی ایک کیفیٹیریا سے چائے کا ایک کپ لیا اور آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لیتا رھا، کیونکہ بہت گرم تھی، اور بس تمام وہاں کے ماحول سے بےخبر اپنی ھی دنیا میں گم تھا،!!!!!!

    کئی فلائٹس کے بارے میں اعلان ھورھا تھا، لیکن میری فلائٹ کے بارے میں ابھی تک کوئی اعلان نہیں ھوا تھا، میں اپنی دنیا میں مگن بھی تھا لیکن ھر اعلان کو غور سے بھی سنتا ضرور تھا، کیونکہ وہاں مختلف دروازوں پر ھر اعلان کے بعد لائنیں لگنا شروع ھوجاتی تھیں، میں بھی اللٌہ تعالیٰ کی کرم نوازیوں پر ھی بیٹھا سوچ رھا تھا، کہ وہ ھماری پلاننگ میں کتنی ردوبدل کرتا ھے، ھم کیا چاھتے ھیں اور ھو کچھ اور ھی جاتا ھے، لیکن بعد میں احساس ھو جاتا ھے کہ جو کچھ بھی ھوتا اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے، اور اسی میں ھی بہتری بھی ھوتی ھے، اچانک ھی میری توجہ میری ھی فلائٹ کے اعلان پر ھی وقف ھوگئی، میں نے فوراً اپنا دستی ساماں اٹھایا، اور گیٹ کی طرف چل دیا، اور بس میں بیٹھ کر جہاز کے نزدیک پہنچا، جہاز کی سیڑھیوں کی طرف چڑھتے ھوئے بورڈنگ پاس کو اپنی جیب سے نکالتے ھوئے ایک جھلک جو پڑی تو دیکھا کہ اتفاق سے کھڑکی کے پاس کی سیٹ کا ھی نمبر تھا،!!!!!

    جدہ سے ھمیشہ تقریباً 4 گھنٹے کی ھی پرواز کا دورانیہ ھوتا ھے، مگر پھر بھی وقت گزارنا میرے لئے مشکل ھو رھا تھا ھر ایک لمحہ گزارنا بھی میرے لئے ایک مشکل گھڑی ثابت ھورھا تھا، میں چاھتا تھاکہ جلد سےجلد گھر بہنچوں اور ساری چھٹیاں آرام اور سکون سے اپنے بچوں کے ساتھ گھوم پھر کر گزاروں، آخر کار بہت ھی مشکل سے تمام کاروائیوں کے بعد کراچی ائرپورٹ سے سامان ایک ٹرالی میں ڈال کر باھر نکلا، جیسے ھی دروازے سے باھر آیا بڑی بیٹی اچانک دوڑتی ھوئی مجھ سے لپٹ لپٹ کر رونے لگی، میری ٹرالی تو نہ جانے کسی نے مجھ سے لے لی، میں اپنی بیٹی جو میرا سب سے زیادہ فکر اور خیال رکھتی ھے، اسکو چپ کرانا مشکل ھو رھا تھا، بعد میں دیکھا کہ میری ٹرالی بڑے بیٹے کے پاس ھی تھی، اور سب لوگ مجھ سے باری باری مل رھے تھے، لیکن میری پیٹی تو ساتھ ھی چپکی ھوئی تھی، ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میں اسے دوبارہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا، سب سے چھوٹی بیٹی جو 8 سال کی ھوگی، مجھے دیکھ کر شرمارھی تھی، باقی منجھلی بیٹی اور اس سے بڑا بیٹا بھی بھی آکر بھی میرے ساتھ آکر لپٹ گئے، اور بیگم کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھ رھا تھا، باقی بہن بھائی بھائی اور دوسرے رشتہ دار بھی موجود تھے سب سے باری باری ملتے ھوئے پارکنگ کی طرف روانہ ھوئے، سب لوگ وہاں سے ھی مل کر چلے گئے، پھر سیدھے میں اور بچے ایک ھی گاڑی میں سب سے پہلے والدہ سے ملنے پہنچے، ان سے حسب دستور انکی گود میں اپنا سر رکھ کر ان سے دعائیں لیں، وہ بھی رونے لگئیں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا بھی تھا، !!!!!

    وہاں کچھ آرام کیا اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر پہنچے، وہاں وہی سامنے والے پڑوسی فوراً ھی گھر میں مجھ سے ملنے آگئے، اور خیر خیریت دریافت کرنے لگے، سب موجود تھے لیکن کسی نے اپنے داماد کے بارے کوئی خاص بات نہیں کی کہ وہ کیسا ھے، اس لڑکی نے البتہ بہت ھی سنجیدگی سے پوچھا کہ،!!!!" وہ کیسے ھیں"،!!!!! میں نے جواباً یہی کہا کہ،!!!!" بالکل ٹھیک ھیں، آپ فکر نہ کریں، "!!!!"شادی کب کرنے کا ارادہ ھے،" !!!! میں نے انکی والدہ سے پوچھا، انہوں نے بس عام سے لہجے میں ھی کہا کہ،!!!! ھاں ابھی تو کچھ وقت لگے گا، تیاریاں بس کررھے ھیں،!!!!!!!

    مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ھے، لڑکی کا تو بالکل جلد سے جلد ارادہ لگتا تھا، لیکن ان کے والدیں شاید ابھی اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاھتے تھے، حالانکہ یہ آپس میں خاص رشتہ دار تھے، مجھے یہ بھی محسوس ھوا کہ ان کے بیچ کوئی ناراضگی چل رھی تھی، مجھے ویسے بھی اشارتاً میری بیگم نے راستے میں بتا دیا تھا، جب میں نے تفصیل میں جانے کی کوشش کی تو پتہ لگا کہ لڑکا ابھی شادی کے لئے بالکل تیار نہیں ھے، پہلے وہ اپنا ذاتی مکان بنوائے گا، اسکے بعد شادی کے بارے میں سوچے گا،،!!!!!

    میں نے اس لڑکی کو بلوا کر صحیح حقیقت جاننے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھ سے یہی کہا کہ،!!!!‌" اس نے آپ کے ساتھ جو بدتمیزی کی ھے، اسکے لئے ھم سب معذرت خواہ ھیں، اور میں آپ سے اس کے لئے معافی چاھتی ھوں، اسکا مجھے علم ھوچکا تھا، اور اسے ھم نے بہت اچھی طرح سمجھایا بھی لیکن اس نے کوئی خاص جواب نہیں دیا،"، جب وہ دو سال بعد چھٹی سے واپس آئے گا، تو کچھ شادی کے بارے میں فیصلہ کرے گا، اور ھمارے گھر والوں اور ان کے گھر والوں میں آج کل کچھ ناراضگی بھی چل رھی ھے،"!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!!!" یہ تو آپکے اپنی رشتہ داری کا مسئلہ ھے، میں پھر بھی اس سلسلے میں کوئی راضی نامہ کرانے کی لئے میری خدمات کی ضرورت ھو تو میں حاضر ھوں، آپ ان کے گھر والوں کو میرے گھر بلاؤ تو صحیح،!!!! میں خود کچھ ان سے بات کرتا ھوں،!!!!! لیکن انہوں نے یہی کہا کہ،!!!!‌" وہ آج کل ھم سے ملنے نہیں آتے ھیں،!!!!! میں نے کہا کہ،!!!! " انہیں مجھ سے اپنے بیٹے کی خیر خیریت تو معلوم کرنے تو آنا چاھئے،"،!!!!! کئی دن گزر گئے لیکن اس صاحبزادے کے گھر والوں کی طرف سے کوئی بھی ملنے نہیں آیا، مجھے بہت ھی تعجب اور افسوس ھورھا تھا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس نے ھی اپنے گھر والوں کو مجھ سے ملنے کیلئے قطعاً منع کیا ھوا تھا، میں نے سوچا کہ شاید اس کی وجہ یہی رھی ھو کہ میں اس کے متعلق سب کچھ نہ بتادوں، لیکن میرا اس وقت ایسا کچھ بھی ارادہ نہیں تھا، میں تو بس یہ چاھتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح خوش اسلوبی سے ان کی شادی انجام پا جائے،!!!!!!!!!

    میں نے اپنی چھٹی کچھ بڑھا لی تھی، اور اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ ملنے ملانے کا سلسلہ جاری رکھا اور چھوٹے بھائی کی شادی کے لئے تیاریاں کرنے لگے جو کہ یہاں القصیم میں سروس کررھا تھا، لیکن جہاں وہ چاھتا تھا وہاں پر ھمارے رشتہ دار اور بہن بھائی شاید صحیح طرح بات نہیں کرپارھے تھے، یا نہ جانے کیا بات تھی، لڑکی والوں کو تو مکمل گارنٹی بھی چاھئے ھوتی ھے، کیونکہ جو باھر سروس کرتا ھے اس کے ساتھ رشتہ کرنے میں لڑکی والے تو خاص اپنی بیٹی کا تحفظ چاھتے ھی ھیں، میں ان شادی کے رشتوں میں کبھی بھی نہیں پڑا، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مجھے اپنے بھائی کی شادی کے مسئلے میں خود کو ڈال رھا تھا، وہ سب سےچھوٹا بھائی تھا اور اسکے بعد ایک بہن بھی تھی، جسکی بھی بات چیت چل ھی رھی تھی، اور باقی سب کی شادیاں ھوچکی تھیں،!!!!

    پہلی مرتبہ میں اپنے چھوٹے بھائی کیلئے رشتہ کی بات کرنے اپنی والدہ اور بیگم کے ساتھ ان کے گھر پہنچا میرے ساتھ میرے باقی دونوں شادی شدہ بھائی بھی تھے، یہ سب پہلے بھی رشتہ مانگنے پہلے بھی جا چکے تھے، لیکن بات نہیں بن پارھی تھی، اسکی وجہ مجھے بالکل معلوم نہیں تھی، لیکن میں نے سوچا کہ چھوٹے بھائی نے اتنا مجھ سے اصرار کیا ھے، اور میں نے اس سے حامی بھی بھر لی تھی کہ میں تیرا رشتہ ضرور پکا کرا کے رھوں گا، جبکہ مجھے اسکا کوئی تجربہ نہیں تھا، سارے رشتے پہلے تو والد صاحب کی نگرانی میں ھوتے تھے، صرف ایک بہن کی شادی ان کے انتقال کے بعد ھوچکی تھی، اب تو میری ھی ذمہ داری بن جاتی ھے کہ مجھے والد کے بعد گھر کے تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے انجام دوں، لیکن میں اپنے گھر کی ذمہ داری کو نبھانے سے بہت ڈرتا بھی تھا، کیونکہ ھم سب آٹھ بہن بھائی تھے اور ھر ایک کا ھر معاملے میں رائے بالکل مختلف ھوتی تھی، میں اپنی ایک الگ رائے رکھتا تھا، لیکن بہت مشکل سے ھی کوئی قبول کرتا تھا، اور ویسے بھی مجھے اتنی زیادہ چالاکی اور سوجھ بوجھ نہیں تھی، اس کی خاص وجہ میں زیادہ تر باھر ھی رھا تھا، اور اپنی سوشل زندگی اور اپنے معاشرے سے بالکل الگ تھلگ ھوچکا تھا،!!!!!!!!

    میں نے بھی ھمت باندھ کر اپنے چھوٹے بھائی کے رشتے کیلئے لڑکی والوں کے گھر سب کو ساتھ لے کرپہنچ گیا، انکا گھر ھمارے آبائی گھر سے بس دو منٹ کا راستہ بھی نہیں تھا، اندر سے میرا دل زور زور سے دھڑک رھا تھا، ایک تو یہ ڈر کہ شاید ھمیں دیکھ کر وہ ملنے سے منع ھی نہ کردیں، اور دوسری بات یہ کہ مجھ میں خود اعتمادی بالکل ختم ھوتی نظر آرھی تھی، ویسے میں نے کوشش تو بہت کی کہ کسی کو میری حالت کا پتہ نہیں چلے، پہلے تو میں نے خود ھی مین گیٹ پر لگی ھوئی گھنٹی کو دبا ھی دیا، دو منزلہ اچھا خوبصورت گھر تھا، اندر سے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے کسی نے جھانکا اور دیکھ کر واپس چلا گیا تھوڑی ھی دیر میں اس گھر کے بڑے صاحب باھر نکلے، وہ کافی بزرگ تھے اور لڑکی کے والد ھی تھے، مگر میں انہیں نہیں جانتا تھا، انہوں نے ذرا رعب دار آواز میں کہا کہ،!!!!! " کیا کام ھے،" !!!!!! میری تو جان ھی نکل گئی، میں نے پیچھے جو مڑ کر دیکھا تو سب الگ ھی گیٹ سے ھٹ کر ایک کونے میں نظر آئے،!!!!!! مجھے بہت ھی غصہ آیا کہ مجھے آگے کر کے یہ سب پیچھے ھٹ گئے، کیونکہ ان سب کو پتہ تھا کہ لڑکی کے والد اپنی ضعیفی کی وجہ سے کچھ یاداشت کی کمزوری بھی تھی اور کچھ رعب سے بھی بات کرتے تھے، اور مجھے ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا،!!!!!!!!!
     
  20. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    مجھے اداس دیکھ کر میرے ساتھی نے کہا کہ،!!!! " میں نے مانا کہ آپ ھی اسکو یہاں ‌لے کر آئیں ھیں اس سے آپکا پاکستان میں جو بھی رشتہ ھو، لیکن یہ لڑکا اس قابل نہیں‌ ھے کہ آپ کے ساتھ رہ سکے، اس کی حرکتوں کو میں ھی جانتا ھوں، آپ کی وجہ سے میں خاموش ھوں، ورنہ میں اسے اچھی طرح سمجھا دیتا"،!!!!!!

    یہ تو حقیقت ھے کہ پردیس میں آنے کے بعد ھی پتہ چلتا ھے کہ یہاں پر کن کن مشکلات سے دوچار ھونا پڑتا ھے، وہ صاحبزادے کام میں تو بہت اچھے تھے، لیکن یہاں آنے کے بعد انہیں کچھ ایسے دوست مل گئے، کہ اسے بہکانا شروع کردیا، کہ کہاں پھنس گئے، اور اسے کام کے بجائے دوسری رنگ رنگیلیوں کی طرف دھکیلنے لگے، جس سے مجھے روز بروز تشویش ھونے لگی، اب تو میں نے اسے کمپنی کی رہائش میں جگہ دلوادی تھی، جسکی وجہ سے وہ اب مجھ سے مزید خفا رھنے لگا، جسکی وجہ سے میرے دو تین اور ساتھی بھی آفس کے کام میں میری مدد کیلئے پیچھے ھٹنے لگے جسکی وجہ سے میرے سیکشن میں کام کا معیار دھیرے دھیرے گرنے لگا، مجھے میرے استاد جو باس بھی تھے، انہوں نے مجھ سے شکایت کی اور بہت غصہ بھی ھوئے، وہ جانتے تھے کہ کام کی تاخیر اور خرابی کے اسباب کیا ھیں، لیکن وہ مجھ سے ھی سننا چاھتے تھے، میں یہ نہیں چاھتا تھا کہ میں اس صاحبزادے کا نام لوں، میں نے ان سے درخواست کی کہ مجھے کسی اور سیکشن میں بھیج دیں اور کسی اور سیکشن سے اچھے سینیئر کو یہاں میری جگہ بلوالیں،!!!!!!

    میرے استاد یہ نہیں چاھتے تھے، لیکن میرے مجبور کرنے پر کہ،!!!! دیکھیں آپکو کام چاھئے اور اگر اسی طرح یہاں اس سیکشن میں میرے ساتھ یہ لوگ رھے، تو میں کام کی بہتری کی ضمانت نہیں دے سکوں گا، میں چاھتا ھوں کے ھر جگہ ایسے آدمی رکھیں جو ایک دوسرے کی دل سے عزت کریں اور کام بھی دل جوئی سے انجام دیں،!!!!! میرے استاد جی نے شاید اسی میں بہتری سمجھی اور مجھے دوسرے سیکشن میں بھیج دیا، جو میرا پسندیدہ سیکشن تو نہیں تھا لیکن وھاں کے لڑکے میری بہت عزت کرتے تھے، میرے لئے یہی کافی تھا، یہ سن کر وہ صاحب زادے تو بہت خوش ھوئے، ان کے انچارج بہت اچھے اور محنتی تھے، ان کی ترقی ھوگئی، اور میں دوسرے سیکشن میں اپنے کام کو سکون سے انجام دے رھا تھا، کہ مجھے گھر سے ٹیلیفوں پر اطلاع ملی کہ کیا وجہ ھے مجھے اپنے عہدے سے ھٹا کر اس سے نیچے کی پوسٹ دے دی گئی ھے،!!!!! میں حیران پریشان تھا کہ یہ ادھر سے ادھر کی تبادلے کی اطلاع وہاں کیسے پہنچ گئی، وہاں میرے گھر والے پریشان تھے، حالانکہ دونوں‌ عہدہ اپنی اپنی جگہ پر ایک جیسے ھی تھے، بس سیکشن الگ الگ تھے،!!!!!!

    میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب اس صاحبزادے کی کارستانی ھی لگتی ھے، میں خاموش رھا اور اپنے گھروالوں کو سمجھا دیا کہ،!!!!! کسی کی باتوں پر یقین مت کریں، اور نہ ھی کسی سے کچھ بحث نہ کریں اس صاحبزادے کی شادی ھوجانے دیں، جہاں بھی میں کام کروں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا میری عزت بس میرے اپنے کام سے ھے، اور اللٌہ تعالیٰ بہت بڑا کارساز ھے، مجھے اس پر یقین ھے اور وہ جو کرتا اس میں کچھ نہ کچھ مصلحت ھی ھوتی ھے،!!!!! مجھے بہت دکھ ھورھا تھا کہ یہ صاحبزادے مجھے بدنام کرنے پر تلے ھوئے ھیں، کچھ میرے ساتھیؤں نے اسے شرم بھی دلائی کہ انہوں نے تمہیں بلایا اور تم ان کی ھی برائی کررھے ھو تو یہ صاحبزادے جواب میں کہتے کہ،!!! معاف کرنا،!!! میں تو اپنی قابلیت کی بناء پر ھی یہاں بھرتی ھوا ھوں، اس میں ان کا کوئی کمال نہیں ھے،!!!!! وہ لوگ مجھے اس کے بارے میں یہ سب کچھ بتاتے لیکن میں ان سے یہی کہتا کہ،!!!! کوئی بات نہیں مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں ھے، اور آپلوگ بھی اس کے ساتھ اچھی طرح تعاون کرو کیونکہ میرے پڑوسیوں کا ھونے والا داماد ھے، میں نہیں چاھتا کہ وہ یہاں پر وہ ناکام ھوجائے،!!!!!!!

    بہرحال اس لڑکے نے اپنی پوری کوشش کرلی کہ میں یہاں پر کام نہ کرسکوں حتیٰ کہ اس نے میرے استاد سے بھی غلط فہمی پیدا کرکے ناراضگی کا بیج بو ھی دیا، اب روزانہ ھی میرے باس سے کسی نہ کسی مسئلہ پر کام کی موضوع پرھی مڈبھیڑ ھونے لگی اور کسی نہ کسی بات کو لے کر وہ بہت زیادہ ھی برھم ھوجاتے تھے، میں نے تو برداشت بہت کیا لیکن ایک دن جب بات حد سے زیادہ تجاوز کرگئی تو میں نے ان سے معذرت کرلی کہ،!!!!! اب یہاں آپ کے پاس میں کام کرنے سے مجبور ھوں، بہتر ھوگا کہ مجھے یہاں سے مکمل ھی فارغ کرادیں، کیونکہ میں آپکو مزید دکھ میں نہیں رکھنا چاھتا،!!!!!! جبکہ میں دوسری جگہ پر بہت محنت سے کام کررھا تھا، بلکہ اس کمپنی کے مالکان اور انتظامیہ کے خاص بڑے عہدیداران بھی میری تعریف کرنے لگے تھے، اور میرے کام سے مطمئین اور میری کارکردگی سے بہت خوش تھے، لیکن میں اپنے استاد کو ناراض دیکھنا نہیں چاھتا تھا، کیونکہ جو کچھ بھی آج میں اس قابل ھوا تھا سب انہیں کے بدولت تھا، میں نے ان کے ساتھ پچھلی کمپنی میں 5 سال اور اس کمپنی میں بھی مجھے 10 سال تک کام کیا تھا اور ان سے میں نے بہت کچھ سیکھا تھا اور ان کی میں بہت عزت کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ انہوں مجھے اسی کمپنی میں ترکمانستان سے دوبارہ بلوالیا تھا،!!!!!!!!

    میری چھٹی منظور ھوچکی تھی، شائد 2001 کے اوائل کا دور تھا، میں نے اپنے استاد سے پہلے ھی کہ دیا تھا کہ،!!!!! میں چھٹی تو جارھا ھوں لیکن مجھ سے آپ واپسی کی امید نہیں رکھئے گا،!!!!! ان صاحبزادے کی ان دنوں ھمارے استاد سے بہت ھی زیادہ بن رھی تھی، مجھے ایک طرف سے خوشی بھی تھی، کہ چلو کم از کم میں اپنے پڑوسی کے سامنے تو گناہگار تو نہیں ھوں گا، وہ صاحبزادے اپنے بھائی کو بھی بلانے کیلئے ھمارے استاد کے آگے پیچھے گھوم رھے تھے، کیونکہ ریاض کی برانچ کا افتتاح بس اس سال کے دو تین مہینے بعد ھی ھونے والا تھا، اور اس کیلئے ابھی سے وہاں پر نئے ملازمین کو بھرتی کی تیاریاں ھورھی تھیں، اور ھمارے اکاونٹس ڈپارٹمنٹ کی سلیکشن بھی ھمارے استاد کی ھی ذمہ داری تھی، مگر وہ پہلے مجھے اپنے ساتھ ھی یہیں جدہ میں رکھنے کے خواھشمند تھے، لیکن جب سے ھم دونوں کے بیچ میں کچھ کام کے سلسلہ میں غلط فہمیاں شروع ھوئی تھی، انہوں نے میرے لئے مزید کچھ سوچا ھی نہیں، اور میں بھی مزید یہ نہیں چاھتا تھا کہ میرے استاد کو میری ذات سے کوئی تکلیف پہنچے،!!!!!!!

    چھٹی جانے والے دن میں پہلے میں اپنے تمام ساتھیوں دوستوں سے ملا اور آخیر میں اپنے استاد محترم کے کمرے میں الوداعی اجازت لینے پہنچا لیکن انہوں نے میری طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیا، اور بالکل بےدلی سے ہاتھ ملایا اور دوسرے کام کی طرف جان بوجھ کر رخ کرلیا، مجھے بہت دکھ ھوا، لیکن میں بھی انہیں دیکھ رھا تھا، کیونکہ ان چہرے سے صاف ظاھر ھورھا تھا کہ وہ میرے لئے بہت فکرمند تھے، میں نے جاتے جاتے ان سے معذرت طلب کی، کہ،!!!! اگر مجھے سے کوئی غلطی یا دکھ پہنچا ھو تو میں آپ سے معافی مانگتا ھوں،!!!! اور میرے یہ کہتے ھی میری آنکھوں میں قدرتی آنسو آگئے، میں فوراً ھی انکے کمرے سے نکل آیا، اور اپنی رھائش کی طرف چل دیا جو کہ کوئی خاص دور نہیں تھی، مجھے ابھی سامان کی پیکنگ بھی کرنی تھی رات کے وقت فلائٹ کی رونگی تھی، میں نے اپنا چارج مکمل طور سے کسی اور کو اس طرح دے دیا تھا کہ میرے واپس نہ آنے کی صورت میں کام پر کوئی اثر نہ پڑے، ویسے بھی ان دنوں فیملی کے ویزے کیلئے کچھ مشکلات درپیش تھیں، میرا دل تو اب بالکل یہاں کے ماحول سے اٹھ چکا تھا، ھمارے ساتھیوں میں بھی سیاست چمک اٹھی تھی، بحث و مباحثہ کے شکار ھو چکے تھے، اسکے علاوہ گروپ بندی کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس سے مجھے سخت نفرت تھی،!!!!!!!
    --------------------------------------------

    چھٹی جانے والے دن میں پہلے میں اپنے تمام ساتھیوں دوستوں سے ملا اور آخیر میں اپنے استاد محترم کے کمرے میں الوداعی اجازت لینے پہنچا لیکن انہوں نے میری طرف کچھ خاص دھیان نہیں دیا، اور بالکل بےدلی سے ہاتھ ملایا اور دوسرے کام کی طرف جان بوجھ کر رخ کرلیا، مجھے بہت دکھ ھوا، لیکن میں بھی انہیں دیکھ رھا تھا، کیونکہ ان چہرے سے صاف ظاھر ھورھا تھا کہ وہ میرے لئے بہت فکرمند تھے، میں نے جاتے جاتے ان سے معذرت طلب کی، کہ،!!!! اگر مجھے سے کوئی غلطی یا دکھ پہنچا ھو تو میں آپ سے معافی مانگتا ھوں،!!!! اور میرے یہ کہتے ھی میری آنکھوں میں قدرتی آنسو آگئے، میں فوراً ھی انکے کمرے سے نکل آیا، اور اپنی رھائش کی طرف چل دیا جو کہ کوئی خاص دور نہیں تھی، مجھے ابھی سامان کی پیکنگ بھی کرنی تھی رات کے وقت فلائٹ کی رونگی تھی، میں نے اپنا چارج مکمل طور سے کسی اور کو اس طرح دے دیا تھا کہ میرے واپس نہ آنے کی صورت میں کام پر کوئی اثر نہ پڑے، ویسے بھی ان دنوں فیملی کے ویزے کیلئے کچھ مشکلات درپیش تھیں، میرا دل تو اب بالکل یہاں کے ماحول سے اٹھ چکا تھا، ھمارے ساتھیوں میں بھی سیاست چمک اٹھی تھی، بحث و مباحثہ کے شکار ھو چکے تھے، اسکے علاوہ گروپ بندی کے آثار دکھائی دے رھے تھے، جس سے مجھے سخت نفرت تھی،!!!!!!!

    تیاری مکمل تھی، بس ایک دوست کا انتظار تھا، جس نے مجھے ائرپورٹ تک چھوڑ کر آنا تھا، ابھی اسی انتظار میں ھی تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی میں سمجھا کہ میرا دوست مجھے لینے کیلئے آگیا ھے، فوراً ھی میں اپنا ایک سوٹ کیس کو پیہوں کے بل کھینچتا ھوا مین دروازے تک پہنچا اور جیسے ھی دروازہ کھولا، تو میں حیران پریشان اپنے استاد محترم کو وہاں دیکھ رھا تھا، میں نے سوٹ کیس وہیں دروازے کے پاس چھوڑتے ھوئے انہیں اندر آنے کیلئے کہا، جیسے ھی وہ اندر آئے مجھے گلے سے لگا لیا اور ذرا بھرائی ھوئی آواز میں کہا کہ،!!!!! " بیٹا میری باتوں کا کچھ خیال نہ کرنا، میں تم سے دفتر میں پریشانی کے عالم میں کچھ زیادہ ھی بول گیا"،،!!!!!! میں نے جواباً کہا کہ،!!!!!" آپ کیسی بات کررھے ھیں، آپ میرے استاد ھیں، اور آپ مجھے ڈانٹ کے ساتھ مار بھی سکتے ھیں، یہ آپکا حق بنتا ھے،"!!!!!
    انہوں نے دفتر کے حالات پر تبصرہ کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!!!" مجھے تم سے بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں کہ تم ھمیشہ مجھے ھی اسسٹ کرو گے، کیونکہ تمھارا کام کرنے کا انداز بہت پسند ھے، لیکن تم نے اس دفعہ اپنی ذمہ داریوں سے ھاتھ اٹھا لیا، جبکہ تمھیں اپنے بندے کو یہاں بلانے کیلئے بھی میں نے کوشش کرکے منظوری بھی لے لی تھی، اور اسی نے تمھاے خلاف ایک اپنا الگ محاذ بنا لیا، وجہ کچھ بھی رھی ھو، مجھے اب کوئی شکایت نہیں ھے، جو تم چاھو گے وھی ھوگا لیکن تم واپس ضرور آؤ گے، کیونکہ مجھے اس کمپنی کے نئے پروجیکٹ کیلئے تمھیں ھی بھیجنا ھے، "!!!!!!

    میں نے بھی ان کے رویہ کو مدنظر رکھتے ھوئے، کوئی ان سے شکائت نہیں کی، بس یہی کہا کہ،!!!!"وہ صاحبزادے میرے پڑوسی کے ھونے والے داماد ھیں، اس کا آپ خیال رکھیں گے، کیونکہ میری عزت کا سوال ھے، وہ جو کچھ بھی کہتا ھے یا میرے خلاف کچھ بھی پروپگنڈہ کرتا ھو، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں اسے لے کر آیا ھوں تو اب میری ھی ذمہ داری ھے کہ جب تک یہاں ھے اسکی سب لوگ یہاں پر مدد کریں تاکہ مجھے میرے پڑوسی کے سامنے کسی بات کیلئے شرمندہ نہ ھونا پڑے، بس میری آپ سے یہی درخواست ھے، مگر ایک بات کا ضرور خیال رکھئے گا کہ اسکی ڈیوٹی میرے ساتھ کبھی بھی نہیں لگائیں،"!!!!!!!!

    انہوں نے میری اس بات کو مان لیا مگر اس شرط پر کہ میں واپس ضرور آونگا، میں نے بھی حامی بھر لی، اسی وقت میرا دوست بھی کمپنی کی گاڑی لئے آن پہنچا، اور وہ بھی میرے استاد محترم کو دیکھ کر حیران ھو گیا، اور دوسرے دوست بھی ملاقات کے لئے آئے ھوئے تھے، لیکن وہ صاحبزادے نہیں آئے اور نہ ھی اس نے مجھے کوئی سامان یا خط وغیرہ تک نہیں پہنچایا، مجھے افسوس تو بہت ھوا، کہ وہاں پر اسکے گھر والے مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا جواب دوں گا،!!!!!!

    ائرپورٹ پر پہنچ کر میرے دوست نے ھی سارا سامان لگیج کیلئے کاونٹر تک پہنچایا اس کے بعد مجھے بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ ٹکٹ ھاتھ میں دیا اور پھر مجھ سے گلے ملا، کیونکہ اسے آفس بھی ضروری پہنچنا تھا، مجھ سے اجازت لیتا ھوا رخصت ھوگیا، اور میں اپنے ھاتھ میں بریف کیس اور ایک چھوٹا سا تھیلا لئے امگریشن کاونٹر کی طرف بڑھ گیا، وہاں سے خروج کی مہر لگواتے ھوئے لاونج میں ایک کنارے کی آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا، ابھی جہاز کی روانگی میں کافی وقت تھا، سامنے ھی ایک کیفیٹیریا سے چائے کا ایک کپ لیا اور آہستہ آہستہ چائے کی چسکیاں لیتا رھا، کیونکہ بہت گرم تھی، اور بس تمام وہاں کے ماحول سے بےخبر اپنی ھی دنیا میں گم تھا،!!!!!!

    کئی فلائٹس کے بارے میں اعلان ھورھا تھا، لیکن میری فلائٹ کے بارے میں ابھی تک کوئی اعلان نہیں ھوا تھا، میں اپنی دنیا میں مگن بھی تھا لیکن ھر اعلان کو غور سے بھی سنتا ضرور تھا، کیونکہ وہاں مختلف دروازوں پر ھر اعلان کے بعد لائنیں لگنا شروع ھوجاتی تھیں، میں بھی اللٌہ تعالیٰ کی کرم نوازیوں پر ھی بیٹھا سوچ رھا تھا، کہ وہ ھماری پلاننگ میں کتنی ردوبدل کرتا ھے، ھم کیا چاھتے ھیں اور ھو کچھ اور ھی جاتا ھے، لیکن بعد میں احساس ھو جاتا ھے کہ جو کچھ بھی ھوتا اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ھوتی ھے، اور اسی میں ھی بہتری بھی ھوتی ھے، اچانک ھی میری توجہ میری ھی فلائٹ کے اعلان پر ھی وقف ھوگئی، میں نے فوراً اپنا دستی ساماں اٹھایا، اور گیٹ کی طرف چل دیا، اور بس میں بیٹھ کر جہاز کے نزدیک پہنچا، جہاز کی سیڑھیوں کی طرف چڑھتے ھوئے بورڈنگ پاس کو اپنی جیب سے نکالتے ھوئے ایک جھلک جو پڑی تو دیکھا کہ اتفاق سے کھڑکی کے پاس کی سیٹ کا ھی نمبر تھا،!!!!!

    جدہ سے ھمیشہ تقریباً 4 گھنٹے کی ھی پرواز کا دورانیہ ھوتا ھے، مگر پھر بھی وقت گزارنا میرے لئے مشکل ھو رھا تھا ھر ایک لمحہ گزارنا بھی میرے لئے ایک مشکل گھڑی ثابت ھورھا تھا، میں چاھتا تھاکہ جلد سےجلد گھر بہنچوں اور ساری چھٹیاں آرام اور سکون سے اپنے بچوں کے ساتھ گھوم پھر کر گزاروں، آخر کار بہت ھی مشکل سے تمام کاروائیوں کے بعد کراچی ائرپورٹ سے سامان ایک ٹرالی میں ڈال کر باھر نکلا، جیسے ھی دروازے سے باھر آیا بڑی بیٹی اچانک دوڑتی ھوئی مجھ سے لپٹ لپٹ کر رونے لگی، میری ٹرالی تو نہ جانے کسی نے مجھ سے لے لی، میں اپنی بیٹی جو میرا سب سے زیادہ فکر اور خیال رکھتی ھے، اسکو چپ کرانا مشکل ھو رھا تھا، بعد میں دیکھا کہ میری ٹرالی بڑے بیٹے کے پاس ھی تھی، اور سب لوگ مجھ سے باری باری مل رھے تھے، لیکن میری پیٹی تو ساتھ ھی چپکی ھوئی تھی، ایسا لگ رھا تھا کہ جیسے میں اسے دوبارہ چھوڑ کر چلا جاؤں گا، سب سے چھوٹی بیٹی جو 8 سال کی ھوگی، مجھے دیکھ کر شرمارھی تھی، باقی منجھلی بیٹی اور اس سے بڑا بیٹا بھی بھی آکر بھی میرے ساتھ آکر لپٹ گئے، اور بیگم کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھ رھا تھا، باقی بہن بھائی بھائی اور دوسرے رشتہ دار بھی موجود تھے سب سے باری باری ملتے ھوئے پارکنگ کی طرف روانہ ھوئے، سب لوگ وہاں سے ھی مل کر چلے گئے، پھر سیدھے میں اور بچے ایک ھی گاڑی میں سب سے پہلے والدہ سے ملنے پہنچے، ان سے حسب دستور انکی گود میں اپنا سر رکھ کر ان سے دعائیں لیں، وہ بھی رونے لگئیں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا بھی تھا، !!!!!

    وہاں کچھ آرام کیا اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر پہنچے، وہاں وہی سامنے والے پڑوسی فوراً ھی گھر میں مجھ سے ملنے آگئے، اور خیر خیریت دریافت کرنے لگے، سب موجود تھے لیکن کسی نے اپنے داماد کے بارے کوئی خاص بات نہیں کی کہ وہ کیسا ھے، اس لڑکی نے البتہ بہت ھی سنجیدگی سے پوچھا کہ،!!!!" وہ کیسے ھیں"،!!!!! میں نے جواباً یہی کہا کہ،!!!!" بالکل ٹھیک ھیں، آپ فکر نہ کریں، "!!!!"شادی کب کرنے کا ارادہ ھے،" !!!! میں نے انکی والدہ سے پوچھا، انہوں نے بس عام سے لہجے میں ھی کہا کہ،!!!! ھاں ابھی تو کچھ وقت لگے گا، تیاریاں بس کررھے ھیں،!!!!!!!

    مجھے لگا کہ کچھ گڑبڑ ھے، لڑکی کا تو بالکل جلد سے جلد ارادہ لگتا تھا، لیکن ان کے والدیں شاید ابھی اتنی جلدی شادی نہیں کرنا چاھتے تھے، حالانکہ یہ آپس میں خاص رشتہ دار تھے، مجھے یہ بھی محسوس ھوا کہ ان کے بیچ کوئی ناراضگی چل رھی تھی، مجھے ویسے بھی اشارتاً میری بیگم نے راستے میں بتا دیا تھا، جب میں نے تفصیل میں جانے کی کوشش کی تو پتہ لگا کہ لڑکا ابھی شادی کے لئے بالکل تیار نہیں ھے، پہلے وہ اپنا ذاتی مکان بنوائے گا، اسکے بعد شادی کے بارے میں سوچے گا،،!!!!!

    میں نے اس لڑکی کو بلوا کر صحیح حقیقت جاننے کی کوشش کی لیکن اس نے مجھ سے یہی کہا کہ،!!!!‌" اس نے آپ کے ساتھ جو بدتمیزی کی ھے، اسکے لئے ھم سب معذرت خواہ ھیں، اور میں آپ سے اس کے لئے معافی چاھتی ھوں، اسکا مجھے علم ھوچکا تھا، اور اسے ھم نے بہت اچھی طرح سمجھایا بھی لیکن اس نے کوئی خاص جواب نہیں دیا،"، جب وہ دو سال بعد چھٹی سے واپس آئے گا، تو کچھ شادی کے بارے میں فیصلہ کرے گا، اور ھمارے گھر والوں اور ان کے گھر والوں میں آج کل کچھ ناراضگی بھی چل رھی ھے،"!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!!!" یہ تو آپکے اپنی رشتہ داری کا مسئلہ ھے، میں پھر بھی اس سلسلے میں کوئی راضی نامہ کرانے کی لئے میری خدمات کی ضرورت ھو تو میں حاضر ھوں، آپ ان کے گھر والوں کو میرے گھر بلاؤ تو صحیح،!!!! میں خود کچھ ان سے بات کرتا ھوں،!!!!! لیکن انہوں نے یہی کہا کہ،!!!!‌" وہ آج کل ھم سے ملنے نہیں آتے ھیں،!!!!! میں نے کہا کہ،!!!! " انہیں مجھ سے اپنے بیٹے کی خیر خیریت تو معلوم کرنے تو آنا چاھئے،"،!!!!! کئی دن گزر گئے لیکن اس صاحبزادے کے گھر والوں کی طرف سے کوئی بھی ملنے نہیں آیا، مجھے بہت ھی تعجب اور افسوس ھورھا تھا، بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس نے ھی اپنے گھر والوں کو مجھ سے ملنے کیلئے قطعاً منع کیا ھوا تھا، میں نے سوچا کہ شاید اس کی وجہ یہی رھی ھو کہ میں اس کے متعلق سب کچھ نہ بتادوں، لیکن میرا اس وقت ایسا کچھ بھی ارادہ نہیں تھا، میں تو بس یہ چاھتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح خوش اسلوبی سے ان کی شادی انجام پا جائے،!!!!!!!!!

    میں نے اپنی چھٹی کچھ بڑھا لی تھی، اور اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ ملنے ملانے کا سلسلہ جاری رکھا اور چھوٹے بھائی کی شادی کے لئے تیاریاں کرنے لگے جو کہ یہاں القصیم میں سروس کررھا تھا، لیکن جہاں وہ چاھتا تھا وہاں پر ھمارے رشتہ دار اور بہن بھائی شاید صحیح طرح بات نہیں کرپارھے تھے، یا نہ جانے کیا بات تھی، لڑکی والوں کو تو مکمل گارنٹی بھی چاھئے ھوتی ھے، کیونکہ جو باھر سروس کرتا ھے اس کے ساتھ رشتہ کرنے میں لڑکی والے تو خاص اپنی بیٹی کا تحفظ چاھتے ھی ھیں، میں ان شادی کے رشتوں میں کبھی بھی نہیں پڑا، یہ پہلی مرتبہ تھا کہ مجھے اپنے بھائی کی شادی کے مسئلے میں خود کو ڈال رھا تھا، وہ سب سےچھوٹا بھائی تھا اور اسکے بعد ایک بہن بھی تھی، جسکی بھی بات چیت چل ھی رھی تھی، اور باقی سب کی شادیاں ھوچکی تھیں،!!!!

    پہلی مرتبہ میں اپنے چھوٹے بھائی کیلئے رشتہ کی بات کرنے اپنی والدہ اور بیگم کے ساتھ ان کے گھر پہنچا میرے ساتھ میرے باقی دونوں شادی شدہ بھائی بھی تھے، یہ سب پہلے بھی رشتہ مانگنے پہلے بھی جا چکے تھے، لیکن بات نہیں بن پارھی تھی، اسکی وجہ مجھے بالکل معلوم نہیں تھی، لیکن میں نے سوچا کہ چھوٹے بھائی نے اتنا مجھ سے اصرار کیا ھے، اور میں نے اس سے حامی بھی بھر لی تھی کہ میں تیرا رشتہ ضرور پکا کرا کے رھوں گا، جبکہ مجھے اسکا کوئی تجربہ نہیں تھا، سارے رشتے پہلے تو والد صاحب کی نگرانی میں ھوتے تھے، صرف ایک بہن کی شادی ان کے انتقال کے بعد ھوچکی تھی، اب تو میری ھی ذمہ داری بن جاتی ھے کہ مجھے والد کے بعد گھر کے تمام مسائل کو خوش اسلوبی سے انجام دوں، لیکن میں اپنے گھر کی ذمہ داری کو نبھانے سے بہت ڈرتا بھی تھا، کیونکہ ھم سب آٹھ بہن بھائی تھے اور ھر ایک کا ھر معاملے میں رائے بالکل مختلف ھوتی تھی، میں اپنی ایک الگ رائے رکھتا تھا، لیکن بہت مشکل سے ھی کوئی قبول کرتا تھا، اور ویسے بھی مجھے اتنی زیادہ چالاکی اور سوجھ بوجھ نہیں تھی، اس کی خاص وجہ میں زیادہ تر باھر ھی رھا تھا، اور اپنی سوشل زندگی اور اپنے معاشرے سے بالکل الگ تھلگ ھوچکا تھا،!!!!!!!!

    میں نے بھی ھمت باندھ کر اپنے چھوٹے بھائی کے رشتے کیلئے لڑکی والوں کے گھر سب کو ساتھ لے کرپہنچ گیا، انکا گھر ھمارے آبائی گھر سے بس دو منٹ کا راستہ بھی نہیں تھا، اندر سے میرا دل زور زور سے دھڑک رھا تھا، ایک تو یہ ڈر کہ شاید ھمیں دیکھ کر وہ ملنے سے منع ھی نہ کردیں، اور دوسری بات یہ کہ مجھ میں خود اعتمادی بالکل ختم ھوتی نظر آرھی تھی، ویسے میں نے کوشش تو بہت کی کہ کسی کو میری حالت کا پتہ نہیں چلے، پہلے تو میں نے خود ھی مین گیٹ پر لگی ھوئی گھنٹی کو دبا ھی دیا، دو منزلہ اچھا خوبصورت گھر تھا، اندر سے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے کسی نے جھانکا اور دیکھ کر واپس چلا گیا تھوڑی ھی دیر میں اس گھر کے بڑے صاحب باھر نکلے، وہ کافی بزرگ تھے اور لڑکی کے والد ھی تھے، مگر میں انہیں نہیں جانتا تھا، انہوں نے ذرا رعب دار آواز میں کہا کہ،!!!!! " کیا کام ھے،" !!!!!! میری تو جان ھی نکل گئی، میں نے پیچھے جو مڑ کر دیکھا تو سب الگ ھی گیٹ سے ھٹ کر ایک کونے میں نظر آئے،!!!!!! مجھے بہت ھی غصہ آیا کہ مجھے آگے کر کے یہ سب پیچھے ھٹ گئے، کیونکہ ان سب کو پتہ تھا کہ لڑکی کے والد اپنی ضعیفی کی وجہ سے کچھ یاداشت کی کمزوری بھی تھی اور کچھ رعب سے بھی بات کرتے تھے، اور مجھے ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا،!!!!!!!!!
     
  21. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دو منزلہ اچھا خوبصورت گھر تھا، اندر سے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے کسی نے جھانکا اور دیکھ کر واپس چلا گیا تھوڑی ھی دیر میں اس گھر کے بڑے صاحب باھر نکلے، وہ کافی بزرگ تھے اور لڑکی کے والد ھی تھے، مگر میں انہیں نہیں جانتا تھا، انہوں نے ذرا رعب دار آواز میں کہا کہ،!!!!! " کیا کام ھے،" !!!!!! میری تو جان ھی نکل گئی، میں نے پیچھے جو مڑ کر دیکھا تو سب الگ ھی گیٹ سے ھٹ کر ایک کونے میں نظر آئے،!!!!!! مجھے بہت ھی غصہ آیا کہ مجھے آگے کر کے یہ سب پیچھے ھٹ گئے، کیونکہ ان سب کو پتہ تھا کہ لڑکی کے والد اپنی ضعیفی کی وجہ سے کچھ یاداشت کی کمزوری بھی تھی اور کچھ رعب سے بھی بات کرتے تھے، اور مجھے ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا،!!!!!!!!!

    میری تو لڑکی کے والد سے پہلی دفعہ ملاقات ھورھی تھی، وہ تو شکر ھے کہ ان کا بیٹا کہیں باھر سے آن پہنچا، ورنہ تو مجھے بہت مشکل ھوجاتی جو انکے والد صاحب کے سوال جواب کا سامنا کرنا پڑتا، انکے بیٹے نے ھمارا تعارف کرایا، تو پھر وہ بڑی گرم جوشی سے ملے، اور ھمیں بڑی عزت سے اندر لے گئے، اور ایک چھوٹا سا لیکن خوبصورت سی بیٹھک میں بٹھا دیا گیا، لڑکی کے والد صاحب میرے بغل میں ھی بیٹھے تھے، میری والدہ بہن اور بیگم سامنے کے صوفوں پر بیٹھی تھیں، میرے ساتھ میرے دونوں بھائی بیٹھے تھے، اب گفتگو کا آغاز کیسے کیا جائے، یہ کسی کو سمجھ میں نہیں آرھا تھا، سامنے لڑکی کی والدہ اور انکے بیٹے بھی آکر بیٹھ گئے، ان کے والدین بھی ھماری طرح ھی سیدھے سادھے لوگ تھے، انکے دونوں بیٹے انکے والد کے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے، اب میرے خیال میں مزید کسی اور کے بیٹھنے کی گنجائیش نہیں تھی، رسماًً گفتگو کا آغاز ھو چکا تھا، جیسے ھی اصل موضوع پر آئے، تو گفتگو کا انداز بالکل بدل گیا اور انہوں نے سنجیدگی اختیا ر کرلی،!!!!!!!

    مجھ سے چھوٹے بھائی نے میرا تعارف کراتے ھوئے کہا کہ،!!!!!" یہ میرے بڑے بھائی ھیں اور سعودیہ میں ھی مقیم ھیں اور ھمارا چھوٹا بھائی بھی سعودیہ میں ان کے قریب ھی ایک دوسرے شہر میں کام کرتا ھے، جسے آپ لوگ بھی اچھی طرح جانتے ھو، اسی کے رشتے کے سلسلے میں مزید آپ سے بات کرنے کیلئے حاضر ھوئے ھیں"،!!!!!

    انکے والد صاحب نے فوراً جوب دیا کہ،!!!" دیکھیں آپکے چھوٹے بھائی کو تو ھم بچپن سے ھی جانتے ھیں اور آپکے گھر والوں کو بھی، لیکن اس رشتے کے سلسلے میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت ھوئی نہیں ھے، آپکے گھر والے بھی ھم سب کو جانتے ھیں، اور اس سلسلے میں کئی دفعہ آئے بھی ھیں مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، ھمیں آپکا چھوٹا بھائی بہت پسند ھے اس کے چال چلن پر بھی ھمیں کوئی شبہ نہیں ھے، بہت ھی اچھے اخلاق کا مالک ھے، اب شادی کے معاملے میں تو ھمیں کچھ سوچ بچار کرنے کیلئے کچھ وقت چاھئے"،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!!! " دیکھیں ھم سب کو بھی آپکے گھر والے بہت ھی اچھے لگتے ھیں، کیونکہ ھم یہاں آپ سب کو شروع سے جانتے ھیں، میں چونکہ زیادہ تر گھر سے باھر رھا ھوں اس لئے زیادہ ملاقات نہیں رھی، ویسے اکثر آپ سب کا غائبانہ تعارف تو تھا ھی، میرا یہاں آنے کا مقصد صرف اپنے چھوٹے بھائی کے رشتے سے تھا، اور میں سمجھتا ھوں کہ آپ کے گھرانے سے اگر یہ رشتہ قائم ھوجائے تو میرے لئے بہت ھی خوشی کا باعث ھو گا،"!!!!

    ان کے والد محترم نے فوراً اپنے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا اور اپنی بیگم کی طرف بھی ایک نظر گھمائی، اور ان سے بھی کسی جواب کے انتظار میں کچھ لمحات کیلئے ان کی طرف شاید آنکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسرے سے رابطہ کیا، کیونکہ ابھی تک وہ سب گھر والے اس فیصلے کیلئے پہلے سے تیار نہیں تھے، اس لئے انہوں نے بات کو اپنے بڑے بیٹے کی غیر حاضری پر ٹال دی،!!! اور ان کے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ،!!!!" دیکھیں ابھی ھمارے بڑے بھائی گھر پر نہیں ھیں جیسے ھی وہ آتے ھیں ان سے ھم آپس میں مل بیٹھ کر اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ھیں،!!!!!!

    میں نے کہا،!!! ٹھیک ھے کیونکہ آج مجھے کہیں اور بھی جانا ھے، میں شام تک امید کرتا ھوں کہ اگر کوئی مثبت جواب مل جائے تو بات کو آگے بڑھاتے ھیں، اور میں دل سے چاھتا ھوں کہ اس گھر میں ھی میرے بھائی کا رشتہ ھو،"!!!!!!

    کچھ چائے اور اسکے ساتھ مٹھائی اور دوسرے کھانے پینے کے لوازمات بھی سامنے میز پر رکھ دیئے گئے، وہ سب مجھے بھی کچھ گفت و شنید کے بعد اس رشتے سے خوش ھی نظر آرھے تھے، وہ تین بھائی اور دو بہنیں تھیں، جس میں سے ایک بڑی بہن کی شادی ھوچکی تھی، اور منجھلے بھائی کا بھی رشتہ ھو چکا تھا، باقی دو بھائی اور چھوٹی بہن کا ابھی تک کوئی رشتہ پکا نہیں ھوا تھا، سب لوگ مجھے اخلاقی طور پر بہت پسند آئے تھے، میرے لئے بھی اس طرح رشتے کیلئے زندگی میں پہلی بار سامنا ھو رھا تھا، اسی دوران انکے بڑے بھائی بھی آگئے، جس سے انکی حاضری کی وجہ سے اسی وقت کچھ بات بڑھانے کی آسانی بھی ھوگئی تھی، ان سے میرا تعارف کرایا گیا، اور وہ بھی اس رشتے کے بارے میں جانتے تھے، لیکن ان کی زبانی معلوم ھوا کہ وہ سب اس رشتے سے بہت خوش ھیں کیونکہ ان سب نے میرے چھوٹے بھائی کو بچپن سے دیکھا ھے، اور اسکی عادتوں اور رکھ رکھاؤ سے واقف بھی تھے اور ان تینوں ‌بھائیوں کے ساتھ اسکی دوستی بھی رھی تھی،!!!!

    ان کے بڑے بھائی نے بہت ھی خوبصورتی سے بات کو اگے بڑھاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " چونکہ یہ رشتہ ھمارے خاندان سے باھر ھونے جارھا ھے، اس لئے ھمارے جو ماموں اور چچا ھیں وہ چاھتے ھیں کہ آپ سے مل کر ھی کوئی حتمی فیصلہ کریں گے، جہاں تک ھم سب کے آپس کی بات ھے، ھمیں اس رشتے سے بہت خوش ھیں، بس ایک دو دن میں ھمارے خاندان کے چند لوگ آپ سے ملنے آپ کے گھر آئیں گے اور سمجھئے کہ ان کی رضامندی کے بعد ھی ھم آپکو اس رشتے کیلئے اپنی مرضی ظاھر کرسکتے ھیں،، میں نے بھی یہ انکا فیصلہ خندہ پیشانی سے قبول کیا، اور ھم سب گھر آگئے، اب والدہ نے اس رشتے کی مکمل ذمہ داری مجھ پر ھی ڈال دی تھی،!!!!!

    تیسرے روز ھی شام کو انکے گھر والے اپنے دو تین رشتہ داروں کے ساتھ میرے گھر پہنچ گئے تھے، جس کی اطلاع ھمیں ایک دن پہلے ھی مل چکی تھی، اور ھم نے ان کے استقبال کی مکمل تیاری پہلے سے ھی کی ھوئی تھی، لڑکی کے ماموں اور شاید خالو کے ساتھ چچا بھی موجود تھے اور انکے گھر کی عورتیں بھی آئیں ھوئی تھیں، بہت ھی اچھے خوشگوار ماحول میں بات چیت ھوئی، وہ سب مجھ سے مل کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، میں نے آخیر میں ان سب کو اپنے بھائی کے متعلق ھر ذمہ داری کو لیتے ھوئے ان سب کو اس بات کی ضمانت دلائی کہ آپکی لڑکی میری بیٹی کی طرح ھے اور وہاں سعودی عرب میں میں اس کے لئے ھر معاملات میں کسی بھی اونچ نیچ کا ذمہ دار میں ھی ھونگا، میں یہی چاھتا ھوں کہ لڑکی شادی کے بعد یہاں کچھ دن قیام کے بعد سعودی عرب چلی جائے، اسکے لئے میں چاھتا ھوں کہ ابھی سے ان دونوں کا نکاح کردیا جائے، تاکہ اس نکاح نامہ کی مصدقہ نقل کی کاپی بمعہ عربی ترجمہ کے ساتھ سعودیہ میں ویزا کے محکمہ میں داخل کرکے پہلے سے ھی فیملی ویزا حاصل کرلیا جائے، تاکہ رخصتی کے بعد وہ سیدھا چھٹیاں گزار کر اپنے ساتھ ھی دلہن کو بھی سعودیہ لے جاسکے، اس بات سے سب متفق ھوگئے، اور ائندہ آنے والے جمعہ کو میں نے ان سب کو نکاح کے لئے راضی کرلیا،!!!!!!

    میں نے پہلے سے ھی اپنے چھوٹے بھائی کو ٹیلیفون کرکے بتا دیا تھا کہ اسی ھفتہ کسی طرح بھی یہاں پہنچنا ھوگا، وہ تو بہت ھی خوش ھوگیا کہ اس کی مرضی کے مطابق ھی میں نے یہ رشتہ پکا کرادیا ھے، جبکہ پہلے اسے مایوسی ھورھی تھی، اس نے بھی فوراً وہاں پر اپنی ایک ھفتہ کی چھٹی منظور کرالی تھی، اور بس سیٹ کی پرابلم ھورھی تھی، اس نے مجھے کہا کہ،!!!! میری ایک سیٹ چانس پر جمعرات کی رات کو ھے تو سہی، کوشش تو کرونگا کے اس سے پہلے کسی نہ کسی طرح پہنچ جاؤں،!!!!!! میں نے بھی جواب میں یہی کہا کہ،!!!!" دیکھو میں نے اپنا کام کردیا ھے اور اس آنے والے جمعہ کی شام کو تمھارا نکاح ھے، اس سے اگلے ھفتے میری بھی واپسی ھے، اگر تم نہیں پہنچے تو میری عزت دھری کی دھری رہ جائے گی،"!!!!!!! اس نے مجھے تو اپنے پہنچنے کا مکمل یقین تو دلا دیا لیکن میرے دل میں کھٹکا ھی لگا رھا،!!!!!!!

    اور سنئے ادھر ھمارے پڑوسی کے ھونے والے داماد کی کارستانیاں جو وہ میری غیر حاضری میں سعودیہ میں کیا کیا گل کھلا رھے تھے، مجھے بھی یہاں رھتے ھوئے ڈھائی مہینے ھو چکے تھے، کیونکہ میں نے اپنی مزید چھٹیاں بڑھا لی تھیں اور اب مزید چھٹیاں نہیں بڑھا سکتا تھا، اس دوران ان صاحبزادے کے اپنے گھر والوں نے میرے گھر آک رمیری خیریت اور اپنے بیٹے کی خیریت معلوم نہیں کی، میں نے بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور نہ ھی مجھے فرصت ملی کہ میں خود ھی ان کے گھر جاکر اس لڑکے کے گھر والوں کی خیریت معلوم کرسکوں، ایک تو بھائی کی شادی کا مسئلہ میرے جانے کے دنوں میں ھی ھونا تھا، اور میرے پاس بالکل وقت بھی نہیں تھا،!!!!!!!

    اچانک ھی اسی ھفتے کے دوران ھی ان صاحبزادے کے والدین اور انکا ایک بھائی اور بہن میرے گھر آگئے وہ بھی پورے ڈھائی مہینے کے بعد، ایک مٹھائی کا ڈبہ لئے ھوئے، مجھے بہت حیرانگی ھوئی اور ساتھ ھی بہت غصہ بھی آیا، میں نےشروع میں تو خاموشی ھی اختیار رکھی، لیکن ان کی باتوں سے خوشآمدگی اور شرمندگی کے آثار نظر آئے، مجھ سے بہت معذرت کررھے تھے کہ وہ پہلے کسی مجبوری کے تحت مجھ سے ملنے نہ آسکے، اور بہت سے بہانے کرنے لگے، میں نے بھی بس یہی کہا کہ کوئی بات نہیں، اور اسکے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا، مگر اس وقت مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رھا جب انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کی ملازمت کی درخواست مجھے دی اور اس صاحبزادے کی بڑی بہن نے کہا کہ،!!!!‌ " سنا ھے کہ آپ کا ٹرانسفر ریاض کے شہر کی نئی برانچ میں ھو گیا ھے، اور وہاں پر لازمی بات ھے آپکو نئے اسٹاف کی ضرورت بھی ھوگی، اس لئے میں گزارش کرونگی کہ آپ اس کو بھی وہاں پر بلوالیں، یہ آپ کے سامنے ھے اور اس سال ھی اس نے گریجیوشن مکمل کیا ھے آپ کے ھم بہت ھی شکرگزار ھونگے،"!!!!!!

    میں ان سب کی یہ خوشآمدی باتیں سنتا جارھا تھا اور ساتھ ھی میرا ٹمپریچر میرے دماغ کو گھماتا بھی جارھا تھا، جسے کنٹرول کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی، مجھے حیرانگی اس بات کی بھی تھی کہ مجھے بالکل خبر نہیں تھی کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا ھے، اور اس صاحبزادے کے گھر والوں کو مجھ سے پہلے ھی اطلاع پہنچ چکی تھی، مجھے اپنے غصہ پر قابو نہیں رھا اور میں اپنے سخت لہجہ میں نہ جانے کیا کیا کہہ گیا،!!!!!، مجھے سخت افسوس ھے کہ ان ڈھائی مہینوں میں آپ میں سے کسی نے میری خبر تک نہیں لی، اور جیسے ھی آپکو خبر ملی کہ میرا ٹرانسفر ریاض ھوگیا ھے، تو فوراً آپ سب مٹھائی کا ڈبہ لئے ایک مطلب کے ساتھ اپنے دوسرے بیٹے کی درخواست لئے پہنچ گئے، لیکن مجھے افسوس ھے کہ اول تو مجھے یہ بالکل خبر نہیں ملی کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا ھے اور دوسرے یہ کہ مجھے وہاں کے لئے بھرتی کرنے کا اختیار بھی نہیں ھے، اپنے صاحبزادے سے کہیں کہ وہ وہیں پر اپنے انچارج سے اس سلسلے میں بات کرے"،!!!!!!!!

    میرے یہ سنتے ھی ان کی بہن فوراً بولیں کہ،!!!! بھائی صاحب میرے بھائی نے تو بہت پہلے سے ھی یہ درخواست اپنے انچارج کو دے رکھی تھی اور ھم آپ پر یہ ایک اور ذمہ داری نہیں ڈالنا چاھتے تھے، اس لئے آپ سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا مگر جب یہ معلوم ھوا کہ آپ ھی وھاں جارھے ھیں تو ھمیں بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی اور ھم دوڑے دوڑے آپ کو مبارکباد دینے چلے آئے،!!! اور ساتھ اس کی درخواست بھی لے آئے اگر آپ کچھ مہربانی کرسکیں تو ھم پر آپکا ایک اور مزید احسان ھو گا اور ھم زندگی بھر دعائیں دیتے رھیں گے،!!!!!!!

    میں اب ان لوگوں سے کیا کہتا میں نے فوراً ھی جان چھڑانے کے لئے بہت برداشت کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " آپ کے بھائی نے جو وہاں پر مجھ پر مہربانیاں کی ھیں وہ ھی میرے لئے کافی ھیں، میں مزید مہربانیوں کے قابل نہیں ھوں، مجھے اس سلسلے میں معاف ھی رکھیں اور آپکے دوسرے بھائی کیلئے اسی سے کہیں، اسکے وہاں پر مجھ سے بہتر جاننے والے موجود ھیں، ان ھی سے وہ اس اپنے دوسرے بھائی کیلئے بات کرسکتا ھے، اسکا مجھے یقین ھے کہ کام ھوجائے گا،"!!!!!!!!

    لیکن انکے گھر والوں نے میرا پیچھا ھی لے لیا اور انکی بہن ھی زیادہ بولتی رھیں، انہوں نے اپنے بات کرنے کے انداز کو کچھ حقیقت کا روپ دینا شروع کردیا اور کہنے لگیں کہ،!!!!!! " مجھے معلوم ھے کہ آپ کو میرے بھائی سے بہت سی شکائتیں ھیں، اس نے وہاں پر آپکو بہت زیادہ تنگ کیا ھوگا، اسکی تو عادت ھی بہت بری ھے، ھم جانتے ھیں، لیکن میں آپ کو بھروسہ دلاتی ھوں کہ یہ میرا بھائی تو بالکل معصوم ھے، اس سے آپکو کوئی پریشانی نہیں ھوگی، آپ اسکا ٹیسٹ تو لے کر دیکھیں، یہ میرے بھائی سے کہیں زیادہ سمجھ دار ھے"،!!!!!!!!!

    اب تو مجھے مزید غصہ آگیا اور اسی غصہ میں انہیں ان صاحبزادے کیے تمام کرتوتوں کی داستان ایک ھی سانس میں سنا دیں اور مزید اضافہ کرتے ھوئے میں نے کہا کہ،!!!! "جب آپکو اسکی ان عادتوں کا پتہ تھا تو میرے سر یہ مصیبت کیوں ڈالی، اس وقت مجھے آپ اس کی ان خصلتوں سے واقف نہیں کراسکتی تھیں،" !!!!!!! انکی بہن نے معذرت کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " ھم سمجھے کہ شاید یہ وہاں جا کر کچھ سدھر جائے گا لیکن افسوس کہ اس نے ھماری عزت نہیں رکھی، بہرحال اس کےلئے ھم آپ سے یہی درخواست کرتے ھیں کہ آپ اسے معاف کردیں، اور اس کے بھائی کے لئے آپ کچھ نہ کریں لیکن ھم وعدہ کرتے ھیں کہ اب وہ کبھی بھی آپکو پریشان نہیں کرے گا،"!!!!!!!

    اسکے بعد میں نے بالکل خاموشی اختیار کرلی کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا اور انہوں نے بھی موقعہ کی نزاکت کو سمجھتے ھوئے میرے گھر سے راہ فرار اختیار کی اور خداحافظ کہتے ھوئے باھر نکل گئے، میں نے اور میرے گھر میں سب نے ان کے جاتے ھی شکر ادا کیا، میرے گھر والے بھی پریشان ھوگئے تھے، کہ کہیں کوئی لڑائی نہ ھوجائے، ھمارے پڑوسی بھی باھر دوسرے کمرے میں تماشہ دیکھتے رھے، لیکن بیچ میں آکر میری کوئی بھی مدد نہیں کی، مجھے اس بات کا بھی افسوس رھا،!!!!! ان کے جاتے ھی وہ ھمارے پڑوسی فوراً میرے پاس آئے اور انکے یہاں نہ آنے کی معذرت طلب کرنے لگے کہ،!!!!!! " آج کل ھمارے تعلقات ان لوگوں کے ساتھ کچھ بہتر نہیں ھیں اور ھمیں افسوس ھے کہ ان لوگوں کو ھم سے بات کرنی چاھئے تھی، وہ براہ راست آپ کے پاس بغیر ھم سے رابطہ کئے ھوئے پہنچ گئے، جب کہ ھماری وجہ سے آپنے ان کے بیٹے کو بھیجا، انہیں پہلے ھمارے پاس آنا چاھئے تھا،!!!!!!!!!

    میں نے بھی انکے احسانات کو دیکھتے ھوئے کوئی زیادہ بات نہیں کی، بس یہی کہا کہ،!!!!! " اگر آپ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی بیٹی کی شادی اس لڑکے کے ساتھ کرنا چاہ رھے ھیں، تو سمجھ لیں کہ آپکی بیٹی کے قابل وہ شخص نہیں ھے، آگے آپ کی مرضی، یہ آپ کے بھائی کا لڑکا ھے، میں اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ آپکی رشتہ داری کا معاملہ ھے"!!!!!!!

    انہوں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ،!!!!! ھم تو خود ھی نہیں چاھتے ھیں لیکن ھم اپنی بیٹی کی وجہ سے ھی مجبور ھیں کیونکہ یہ ضد پر اڑی ھوئی ھے، کہ شادی کرونگی تو اسی سے، کیونکہ ایک دفعہ جب منگنی ھوگئی ھے تو بس یہ ھی میرے لئے سب کچھ ھیں، آگے میری قسمت ھے، میں کوشش کرونگی کہ اس کے ساتھ اچھی طرح نباہ کرلوں، باقی اللٌہ کی مرضی،"!!!!!!

    اب تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ میں ان کے بیچ کوئی خوامخواہ ھی ٹانگ اڑاؤں، وہ لڑکی جو میری بیٹی کی سہیلی بھی تھی، اس نے میری بیٹی کے توسط سے کہلا بھیجا کہ میں شادی اسی لڑکے سے ھی کروں گی اور یہ ھمارا اپنا ذاتی مسئلہ ھے اور جو ان سے غلطیاں ھوئی ھیں میں اس کے لئے شرمندہ ھوں اور ویسے بھی امید رکھتی ھوں کہ وہ اب ائندہ آپکے ساتھ ایسا کچھ نہیں کریں گے، جس سے آپ کو کوئی دکھ یا تکلیف پہچے،!!!!! میں نے بھی اسے یقین دلادیا تھا کہ میں نے پہلے بھی اسکے لئے کچھ بھی برا نہیں سوچا اور آئندہ بھی اسکے لئے ھمیشہ بہتر ھی سوچ سکتا ھوں صرف آپلوگوں کی خاطر کہ ایک تو آپ سب ھمارے پڑوسی ھو اور پڑوسیوں کا ھر طرح سے خیال رکھنا میرا فرض ھے اور آپلوگوں نے میرے گھر والوں کا جتنا بھی میری غیر حاضری میں خیال رکھا ھے اسکا تو میں زندگی بھر احسان نہیں بھول سکتا، میں دعاء کرتا ھوں کہ شادی کے بعد اس لڑکے کے ساتھ آپ کی زندگی ھمیشہ خوش و خرم رھے،!!!!!!!!

    مجھے ویسے اس لڑکی کی باتوں پر رشک بھی آتا تھا کہ یہ اتنی اچھی لڑکی تھی کہ کبھی نہیں چاھتی تھی کہ ایک دفعہ جس سے رشتہ قائم ھوجائے وہ کبھی ختم نہ ھو، اور اس لڑکے کے بارے میں جانتے ھوئے بھی اسکے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنا چاھتی تھی،!!!!!!!

    ایک اب تو مجھے یہ پریشانی لگ گئی کہ میں اپنے بھائی کے رشتہ کے لئے بات تو پکی کرلی ھے، اور مجھے یہ وہم ھورھا تھا کہ اگر وہ وقت پر نہ پہنچا تو میری بے عزتی ھوجائے گی، اب صرف جمعہ کے آنے میں تین دن باقی تھے،،!!!!! دوسری پریشانی مجھے یہ لگ گئی کہ کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا اور مجھے اب تک کسی نے بھی اطلاع نہیں دی، کمال ھے، میں نے فوراً ھی اپنے اسی دوست سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا کہ یہ میرے بارے میں کیا غلط افواھیں پھیلا رھے ھو، یہ میں کیا سن رھا ھوں،!!!!!! اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ، !!!!! تو یہ اطلاع آپکو کہاں سے ملی،!!!!
    میں نے سارا ماجرا مختصراً سنا دیا، پھر اس نے کہا کہ،!!!! آپکو بہت بہت مبارک ھو آپکو ترقی دے کر ریاض بھیجا جارھا ھے، اس میں آپکے استاد محترم اور یہاں کے صدر کی خواھش پر ھی اپکو ریاض بھیجنے کی منظوری ھوئی ھے، ورنہ تو آپکو پتہ ھی ھے کہ اس عہدے کے لئے بہت سے امیدوار لائن میں تھے،"!!!!!!!! اس وقت تو میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ ھی نہیں رھا،!!!!!!!!!
    --------------------------------------
    ایک اب تو مجھے یہ پریشانی لگ گئی کہ میں اپنے بھائی کے رشتہ کے لئے بات تو پکی کرلی ھے، اور مجھے یہ وہم ھورھا تھا کہ اگر وہ وقت پر نہ پہنچا تو میری بے عزتی ھوجائے گی، اب صرف جمعہ کے آنے میں تین دن باقی تھے،،!!!!! دوسری پریشانی مجھے یہ لگ گئی کہ کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا اور مجھے اب تک کسی نے بھی اطلاع نہیں دی، کمال ھے، میں نے فوراً ھی اپنے اسی دوست سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا کہ یہ میرے بارے میں کیا غلط افواھیں پھیلا رھے ھو، یہ میں کیا سن رھا ھوں،!!!!!! اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ، !!!!! تو یہ اطلاع آپکو کہاں سے ملی،!!!!
    میں نے سارا ماجرا مختصراً سنا دیا، پھر اس نے کہا کہ،!!!! آپکو بہت بہت مبارک ھو آپکو ترقی دے کر ریاض بھیجا جارھا ھے، اس میں آپکے استاد محترم اور یہاں کے صدر کی خواھش پر ھی اپکو ریاض بھیجنے کی منظوری ھوئی ھے، ورنہ تو آپکو پتہ ھی ھے کہ اس عہدے کے لئے بہت سے امیدوار لائن میں تھے،"!!!!!!!! اس وقت تو میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ ھی نہیں رھا،!!!!!!!!!

    زندگی کے بعض اھم فیصلے جلد بازی میں نہیں کرنے چاھئے، بس نہ جانے مجھ میں کیا عادت ھے کہ میں ھر اھم فیصلے کو فوراً ھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ھوں، جیسے بھائی کے نکاح کی تاریخ کے سلسلے میں اس سے پوچھے بغیر جوش میں آکر اگلے آنے والے جمعہ کی تاریخ طے کردی، اب انتظار کے تین دن باقی تھے ،اس نے وہاں ایمرجنسی چھٹی تو لے لی لیکن جہاز کی سیٹ کے لالے پڑ گئے، میں اسے بار بار ٹیلیفون کرکے اسے تنگ کررھا تھا، وہ بھی پریشان ھوجاتا اور کہتا کہ،!!!!" بھائی آپ بھی کمال کرتے ھو اتنی جلدی تاریخ طے کردی اب مجھے آنے کیلئے کچھ وقت تو دیتے،!!!!!!
    میں بھی اسے سخت لہجے میں جواب دے نہیں سکتا تھا، کیونکہ وہ اگر آنے سے ھی انکار کردے تو اپنی عزت کا بکھیڑا کھڑا ھو جاتا، اس لئے میں نے بہت ھی عاجزی سے اسے کہا کہ، !!!!!!" دیکھ بھائی میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ اگلے ھفتے کو میری روانگی ھے اور مجھے فوراً ھی پہنچنا ھے، کیونکہ میرا ریاض تبادلہ ھو رھا ھے، اس جمعہ کے علاوہ اور کوئی بھی دن مجھے نہیں بھا رھا تھا، کیونکہ اس دن کیلئے تمھارے ھونے والے سسرال نے ھی کہا تھا، اور میں نے اسی وقت کوئی فیصلہ کرنا تھا ھوسکتا تھا کہ ان کی بھی کوئی مجبوری رھی ھو، اگر میں تاریخ آگے بڑھاتا تو میرا اتنے دن یہاں رکنا مشکل ھو جاتا، اس کے علاوہ تمھارے دوست جو میرے سالے کی شادی کی بھی انہی دنوں تقریبات ھیں، صرف اس جمعہ کو ھی کوئی تقریب نہیں ھے، !!!!!!

    لڑکی والوں نے میرے بھروسے اپنے سب رشتہ داروں کو جمعہ والے دن کے نکاح کا پیغام بھجوا دیا تھا، اور ادھر میں بھی اپنے تمام خاص خاص جاننے والوں کو پیغام بھجوا چکا تھا، جس پر لوگوں نے کافی اعتراض بھی کیا کہ یہ کس قسم کا نکاح ھے نہ کوئی مشورہ نہ کسی سے کوئی صلح لی، بس اپنی طرفسے سب بات چیت پکی کر آئے، ایک دو سے تو میں بھی خوامخواہ الجھ گیا، میں نے کہا کہ،!!!! میں نے ایک فیصلہ کردیا ھے، اب یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ھوا کہ کسی سے صلح اور مشورہ کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا،!!!! میں نے کئی بزرگوں سے معذرت بھی کی، لیکن رشتہ داروں میں کچھ آن بان والے بھی ھوتے ھیں، انہوں نے اس نکاح میں شرکت کرنے سے بالکل انکار بھی کردیا،!!!! میں نے بھی کوئی کسی کی پرواہ نہیں کی، بعض کو تو میں نے ٹیلیفون پر ھی اطلاع دے دی، وہ بھی ناراض کہ،!!! ایسی خاص نکاح کی دعوت تو سلیقے سے گھر پر آکر دی جاتی ھے، یہ کیا طریقہ ھے،!!! حالانکہ میں نے انہیں اپنی مجبوری بھی بتائی، لیکن بہت سے لوگ میری اس بات سے ناراض بھی ھوگئے،!!!!!!!

    اب میں یہاں پریشان دو دن رہ گئے تھے، چھوٹے بھائی کو سیٹ نہیں مل رھی تھی، پاسپورٹ پر تو شکر ھے اسکے آنے اور واپس جانے کے اجازت نامہ کی مہر لگ چکی تھی، اس جمعرات کی سیٹ ‌تو تھی لیکن وہ بھی چانس پر تھی،!!!!! دوسرا دن بھی گزر گیا پریشانی میں مزید اضافہ ھوتا جارھا تھا، لڑکی کے بھائی میرے پاس آئے انہیں بھی پریشانی لاحق تھی کہ اب تک دولہا میاں پہنچے نہیں تھے، اب صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا اور اگلے دن میرے بھائی کا نکاح ھونا تھا، میں نے ان سے کہا کہ آج کی رات کی اسکی سیٹ ھے اور اسے کسی بھی صورت میں اس نے یہاں صبح صبح پہنچنا ھی ھے، وہ مجھے پریشانی کی حالت میں دیکھ کر مجھے تسلی اور حوصلہ دینے لگے اور کہا کہ،!!!!!! آپ بالکل فکر نہ کریں ھم نے اس نکا ح کی تقریب گھر کے سامنے ھی رکھی ھے، صرف گھر کے خاص خاص لوگ ھی آئیں گے اور احتیاطاً شامیانے والے کو ابھی منع کردیا ھے کہ جس وقت ھم کہیں گے اس وقت ھی وہ شامیانہ اور روشنی کا انتظام کرے گا، اور کھانا بھی ھم نے اپنے مکان کی چھت پر انتظام کیا ھے، سارا کھانے پکانے کا سامان آچکا ھے، نکاح کے جوڑے کا اور دیگر ضرورت کی چیزوں کا بھی انتظام مکمل ھے، آپ بالکل فکر نہ کریں اگر آپ کے بھائی کے آنے میں اگر کوئی دیر سویر ھوجائے تو ھماری طرفسے پریشان مت ھوئے گا، ھم اپنے رشتہ داروں کو منا لیں گے، بس آپ اپنے رشتہ داروں کو سنبھال لیجئے گا،!!!!!!!

    بہت ھی اچھے لوگ تھے اس وقت انہوں نے میری آدھی پریشانی دور کردی، بس اب میرے رشتہ داروں کی بات تھی کہ وہ کس طرح کا رویہ میرے ساتھ رکھتے ھیں، ادھر ھماری بیگم بھی مجھ سے ناراض تھیں کہ میں انہیں وقت دے نہیں پا رھا تھا، اور انکے بھائی کی شادی بھی میرے بھائی کے نکاح کے تیسرے دن اتوار کے دن ھونا قرار پائی تھی، ھفتہ کے روز مہندی کی رسم بھی تھی اور وہ میرے بھائی کا دوست بھی تھا اور لازمی بات ھے کہ وہ میرے سالے صاحب تھے اور مجھے وہاں بھی اپنی بیگم ساتھ ھونا ضروری تھا،!!!!!!!
    اور یہی وجہ بھی تھی کہ میں نے اپنی چھٹی کو کچھ دنوں کے لئے بڑھا لی تھی، جس کا ذکر کرنا میں بھول گیا تھا میرے بچے بھی اپنے ماموں کی شادی میں خوب مگن تھے، وہ بھی اپنے گھر میں سب سے چھوٹا بھائی تھا، اور یہان یہ میرا بھائی بھی ھم سب سے چھوٹا تھا، آج جمعرات کی شام ھونے آئی، میں بھی مستقل اپنے بھائی سے موبائل پر رابطہ کئے ھوئے تھا، رات گئے تک وہ بھی ائرپورٹ پہنچا اور شکر ھے کہ اسے سیٹ مل گئی، مگر پھر بھی مجھے سکون نہیں ملا، رات بھر اسی چکر میں نیند نہیں آئی، صبح صبح اسکی فلائٹ کو آنا تھا، ایک گھنٹہ پہلے ھی ائرپورٹ سب کو لے کر پہنچ گیا، مجھے خوشی ھورھی تھی کہ اللٌہ تعالیٰ نے میری لاج رکھ لی تھی، جمعہ کا مبارک دن بھی تھا، فلائٹ کو بھی آنے میں کچھ تاخیر ھوگئی کافی دیر بعد پسینے میں شرابو میرا بھائی ایک ٹرالی لے کر باھر نکلا، اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی،!!!!!!

    سب کو ساتھ لئے ائرپورٹ سے گھر پہنچے، اور سب سے پہلا کام اپنے گھر مین داخل ھونے سے پہلے میں فوراً ھی لڑکی کے گھر کی طرف دوڑا جو بالکل دو منٹ کے فاصلے پر تھا، وہاں پہنچ کے مین گیٹ کی گھنٹی بجائی، اور جیسے ھی لڑکی کا بھائی نکلا، میں نے خوش خبری سنائی کہ دولہا میاں گھر میں پہنچ چکے ھیں، وہ بھی بہت ھی خوش ھوا اور جلدی سے جاکر گھر میں اطلاع دے دی، سب گھر پر ھی موجود تھے ایک ھنگامہ مچ گیا اور پھر کیا تھا، وہ سب تینوں بھائی اور انکے خاص خاص رشتہ دار جو اس وقت گھر مین موجود تھے، اپنی تیاریوں میں لگ گئے، میں بھی فوراً گھر پہنچا ھماری تو بالکل بھی تیاری نہیں ھوئی تھی، دولہے میاں کا جوڑا، شیروانی پگڑی اور تلے والی چمک دارجوتی تو بہت ھی لازمی خریدنی ھی تھی،!!!!!!!
     
  22. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    دو منزلہ اچھا خوبصورت گھر تھا، اندر سے گیٹ کے چھوٹے دروازے سے کسی نے جھانکا اور دیکھ کر واپس چلا گیا تھوڑی ھی دیر میں اس گھر کے بڑے صاحب باھر نکلے، وہ کافی بزرگ تھے اور لڑکی کے والد ھی تھے، مگر میں انہیں نہیں جانتا تھا، انہوں نے ذرا رعب دار آواز میں کہا کہ،!!!!! " کیا کام ھے،" !!!!!! میری تو جان ھی نکل گئی، میں نے پیچھے جو مڑ کر دیکھا تو سب الگ ھی گیٹ سے ھٹ کر ایک کونے میں نظر آئے،!!!!!! مجھے بہت ھی غصہ آیا کہ مجھے آگے کر کے یہ سب پیچھے ھٹ گئے، کیونکہ ان سب کو پتہ تھا کہ لڑکی کے والد اپنی ضعیفی کی وجہ سے کچھ یاداشت کی کمزوری بھی تھی اور کچھ رعب سے بھی بات کرتے تھے، اور مجھے ان کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں بتایا تھا،!!!!!!!!!

    میری تو لڑکی کے والد سے پہلی دفعہ ملاقات ھورھی تھی، وہ تو شکر ھے کہ ان کا بیٹا کہیں باھر سے آن پہنچا، ورنہ تو مجھے بہت مشکل ھوجاتی جو انکے والد صاحب کے سوال جواب کا سامنا کرنا پڑتا، انکے بیٹے نے ھمارا تعارف کرایا، تو پھر وہ بڑی گرم جوشی سے ملے، اور ھمیں بڑی عزت سے اندر لے گئے، اور ایک چھوٹا سا لیکن خوبصورت سی بیٹھک میں بٹھا دیا گیا، لڑکی کے والد صاحب میرے بغل میں ھی بیٹھے تھے، میری والدہ بہن اور بیگم سامنے کے صوفوں پر بیٹھی تھیں، میرے ساتھ میرے دونوں بھائی بیٹھے تھے، اب گفتگو کا آغاز کیسے کیا جائے، یہ کسی کو سمجھ میں نہیں آرھا تھا، سامنے لڑکی کی والدہ اور انکے بیٹے بھی آکر بیٹھ گئے، ان کے والدین بھی ھماری طرح ھی سیدھے سادھے لوگ تھے، انکے دونوں بیٹے انکے والد کے ساتھ بیٹھے ھوئے تھے، اب میرے خیال میں مزید کسی اور کے بیٹھنے کی گنجائیش نہیں تھی، رسماًً گفتگو کا آغاز ھو چکا تھا، جیسے ھی اصل موضوع پر آئے، تو گفتگو کا انداز بالکل بدل گیا اور انہوں نے سنجیدگی اختیا ر کرلی،!!!!!!!

    مجھ سے چھوٹے بھائی نے میرا تعارف کراتے ھوئے کہا کہ،!!!!!" یہ میرے بڑے بھائی ھیں اور سعودیہ میں ھی مقیم ھیں اور ھمارا چھوٹا بھائی بھی سعودیہ میں ان کے قریب ھی ایک دوسرے شہر میں کام کرتا ھے، جسے آپ لوگ بھی اچھی طرح جانتے ھو، اسی کے رشتے کے سلسلے میں مزید آپ سے بات کرنے کیلئے حاضر ھوئے ھیں"،!!!!!

    انکے والد صاحب نے فوراً جوب دیا کہ،!!!" دیکھیں آپکے چھوٹے بھائی کو تو ھم بچپن سے ھی جانتے ھیں اور آپکے گھر والوں کو بھی، لیکن اس رشتے کے سلسلے میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت ھوئی نہیں ھے، آپکے گھر والے بھی ھم سب کو جانتے ھیں، اور اس سلسلے میں کئی دفعہ آئے بھی ھیں مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا، ھمیں آپکا چھوٹا بھائی بہت پسند ھے اس کے چال چلن پر بھی ھمیں کوئی شبہ نہیں ھے، بہت ھی اچھے اخلاق کا مالک ھے، اب شادی کے معاملے میں تو ھمیں کچھ سوچ بچار کرنے کیلئے کچھ وقت چاھئے"،!!!!!

    میں نے کہا کہ،!!!!!! " دیکھیں ھم سب کو بھی آپکے گھر والے بہت ھی اچھے لگتے ھیں، کیونکہ ھم یہاں آپ سب کو شروع سے جانتے ھیں، میں چونکہ زیادہ تر گھر سے باھر رھا ھوں اس لئے زیادہ ملاقات نہیں رھی، ویسے اکثر آپ سب کا غائبانہ تعارف تو تھا ھی، میرا یہاں آنے کا مقصد صرف اپنے چھوٹے بھائی کے رشتے سے تھا، اور میں سمجھتا ھوں کہ آپ کے گھرانے سے اگر یہ رشتہ قائم ھوجائے تو میرے لئے بہت ھی خوشی کا باعث ھو گا،"!!!!

    ان کے والد محترم نے فوراً اپنے دونوں بیٹوں کی طرف دیکھا اور اپنی بیگم کی طرف بھی ایک نظر گھمائی، اور ان سے بھی کسی جواب کے انتظار میں کچھ لمحات کیلئے ان کی طرف شاید آنکھوں ھی آنکھوں میں ایک دوسرے سے رابطہ کیا، کیونکہ ابھی تک وہ سب گھر والے اس فیصلے کیلئے پہلے سے تیار نہیں تھے، اس لئے انہوں نے بات کو اپنے بڑے بیٹے کی غیر حاضری پر ٹال دی،!!! اور ان کے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ،!!!!" دیکھیں ابھی ھمارے بڑے بھائی گھر پر نہیں ھیں جیسے ھی وہ آتے ھیں ان سے ھم آپس میں مل بیٹھ کر اپنے فیصلے سے آگاہ کرتے ھیں،!!!!!!

    میں نے کہا،!!! ٹھیک ھے کیونکہ آج مجھے کہیں اور بھی جانا ھے، میں شام تک امید کرتا ھوں کہ اگر کوئی مثبت جواب مل جائے تو بات کو آگے بڑھاتے ھیں، اور میں دل سے چاھتا ھوں کہ اس گھر میں ھی میرے بھائی کا رشتہ ھو،"!!!!!!

    کچھ چائے اور اسکے ساتھ مٹھائی اور دوسرے کھانے پینے کے لوازمات بھی سامنے میز پر رکھ دیئے گئے، وہ سب مجھے بھی کچھ گفت و شنید کے بعد اس رشتے سے خوش ھی نظر آرھے تھے، وہ تین بھائی اور دو بہنیں تھیں، جس میں سے ایک بڑی بہن کی شادی ھوچکی تھی، اور منجھلے بھائی کا بھی رشتہ ھو چکا تھا، باقی دو بھائی اور چھوٹی بہن کا ابھی تک کوئی رشتہ پکا نہیں ھوا تھا، سب لوگ مجھے اخلاقی طور پر بہت پسند آئے تھے، میرے لئے بھی اس طرح رشتے کیلئے زندگی میں پہلی بار سامنا ھو رھا تھا، اسی دوران انکے بڑے بھائی بھی آگئے، جس سے انکی حاضری کی وجہ سے اسی وقت کچھ بات بڑھانے کی آسانی بھی ھوگئی تھی، ان سے میرا تعارف کرایا گیا، اور وہ بھی اس رشتے کے بارے میں جانتے تھے، لیکن ان کی زبانی معلوم ھوا کہ وہ سب اس رشتے سے بہت خوش ھیں کیونکہ ان سب نے میرے چھوٹے بھائی کو بچپن سے دیکھا ھے، اور اسکی عادتوں اور رکھ رکھاؤ سے واقف بھی تھے اور ان تینوں ‌بھائیوں کے ساتھ اسکی دوستی بھی رھی تھی،!!!!

    ان کے بڑے بھائی نے بہت ھی خوبصورتی سے بات کو اگے بڑھاتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " چونکہ یہ رشتہ ھمارے خاندان سے باھر ھونے جارھا ھے، اس لئے ھمارے جو ماموں اور چچا ھیں وہ چاھتے ھیں کہ آپ سے مل کر ھی کوئی حتمی فیصلہ کریں گے، جہاں تک ھم سب کے آپس کی بات ھے، ھمیں اس رشتے سے بہت خوش ھیں، بس ایک دو دن میں ھمارے خاندان کے چند لوگ آپ سے ملنے آپ کے گھر آئیں گے اور سمجھئے کہ ان کی رضامندی کے بعد ھی ھم آپکو اس رشتے کیلئے اپنی مرضی ظاھر کرسکتے ھیں،، میں نے بھی یہ انکا فیصلہ خندہ پیشانی سے قبول کیا، اور ھم سب گھر آگئے، اب والدہ نے اس رشتے کی مکمل ذمہ داری مجھ پر ھی ڈال دی تھی،!!!!!

    تیسرے روز ھی شام کو انکے گھر والے اپنے دو تین رشتہ داروں کے ساتھ میرے گھر پہنچ گئے تھے، جس کی اطلاع ھمیں ایک دن پہلے ھی مل چکی تھی، اور ھم نے ان کے استقبال کی مکمل تیاری پہلے سے ھی کی ھوئی تھی، لڑکی کے ماموں اور شاید خالو کے ساتھ چچا بھی موجود تھے اور انکے گھر کی عورتیں بھی آئیں ھوئی تھیں، بہت ھی اچھے خوشگوار ماحول میں بات چیت ھوئی، وہ سب مجھ سے مل کر بہت ھی زیادہ خوش ھوئے، میں نے آخیر میں ان سب کو اپنے بھائی کے متعلق ھر ذمہ داری کو لیتے ھوئے ان سب کو اس بات کی ضمانت دلائی کہ آپکی لڑکی میری بیٹی کی طرح ھے اور وہاں سعودی عرب میں میں اس کے لئے ھر معاملات میں کسی بھی اونچ نیچ کا ذمہ دار میں ھی ھونگا، میں یہی چاھتا ھوں کہ لڑکی شادی کے بعد یہاں کچھ دن قیام کے بعد سعودی عرب چلی جائے، اسکے لئے میں چاھتا ھوں کہ ابھی سے ان دونوں کا نکاح کردیا جائے، تاکہ اس نکاح نامہ کی مصدقہ نقل کی کاپی بمعہ عربی ترجمہ کے ساتھ سعودیہ میں ویزا کے محکمہ میں داخل کرکے پہلے سے ھی فیملی ویزا حاصل کرلیا جائے، تاکہ رخصتی کے بعد وہ سیدھا چھٹیاں گزار کر اپنے ساتھ ھی دلہن کو بھی سعودیہ لے جاسکے، اس بات سے سب متفق ھوگئے، اور ائندہ آنے والے جمعہ کو میں نے ان سب کو نکاح کے لئے راضی کرلیا،!!!!!!

    میں نے پہلے سے ھی اپنے چھوٹے بھائی کو ٹیلیفون کرکے بتا دیا تھا کہ اسی ھفتہ کسی طرح بھی یہاں پہنچنا ھوگا، وہ تو بہت ھی خوش ھوگیا کہ اس کی مرضی کے مطابق ھی میں نے یہ رشتہ پکا کرادیا ھے، جبکہ پہلے اسے مایوسی ھورھی تھی، اس نے بھی فوراً وہاں پر اپنی ایک ھفتہ کی چھٹی منظور کرالی تھی، اور بس سیٹ کی پرابلم ھورھی تھی، اس نے مجھے کہا کہ،!!!! میری ایک سیٹ چانس پر جمعرات کی رات کو ھے تو سہی، کوشش تو کرونگا کے اس سے پہلے کسی نہ کسی طرح پہنچ جاؤں،!!!!!! میں نے بھی جواب میں یہی کہا کہ،!!!!" دیکھو میں نے اپنا کام کردیا ھے اور اس آنے والے جمعہ کی شام کو تمھارا نکاح ھے، اس سے اگلے ھفتے میری بھی واپسی ھے، اگر تم نہیں پہنچے تو میری عزت دھری کی دھری رہ جائے گی،"!!!!!!! اس نے مجھے تو اپنے پہنچنے کا مکمل یقین تو دلا دیا لیکن میرے دل میں کھٹکا ھی لگا رھا،!!!!!!!

    اور سنئے ادھر ھمارے پڑوسی کے ھونے والے داماد کی کارستانیاں جو وہ میری غیر حاضری میں سعودیہ میں کیا کیا گل کھلا رھے تھے، مجھے بھی یہاں رھتے ھوئے ڈھائی مہینے ھو چکے تھے، کیونکہ میں نے اپنی مزید چھٹیاں بڑھا لی تھیں اور اب مزید چھٹیاں نہیں بڑھا سکتا تھا، اس دوران ان صاحبزادے کے اپنے گھر والوں نے میرے گھر آک رمیری خیریت اور اپنے بیٹے کی خیریت معلوم نہیں کی، میں نے بھی کوئی پرواہ نہیں کی اور نہ ھی مجھے فرصت ملی کہ میں خود ھی ان کے گھر جاکر اس لڑکے کے گھر والوں کی خیریت معلوم کرسکوں، ایک تو بھائی کی شادی کا مسئلہ میرے جانے کے دنوں میں ھی ھونا تھا، اور میرے پاس بالکل وقت بھی نہیں تھا،!!!!!!!

    اچانک ھی اسی ھفتے کے دوران ھی ان صاحبزادے کے والدین اور انکا ایک بھائی اور بہن میرے گھر آگئے وہ بھی پورے ڈھائی مہینے کے بعد، ایک مٹھائی کا ڈبہ لئے ھوئے، مجھے بہت حیرانگی ھوئی اور ساتھ ھی بہت غصہ بھی آیا، میں نےشروع میں تو خاموشی ھی اختیار رکھی، لیکن ان کی باتوں سے خوشآمدگی اور شرمندگی کے آثار نظر آئے، مجھ سے بہت معذرت کررھے تھے کہ وہ پہلے کسی مجبوری کے تحت مجھ سے ملنے نہ آسکے، اور بہت سے بہانے کرنے لگے، میں نے بھی بس یہی کہا کہ کوئی بات نہیں، اور اسکے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا، مگر اس وقت مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رھا جب انہوں نے اپنے دوسرے بیٹے کی ملازمت کی درخواست مجھے دی اور اس صاحبزادے کی بڑی بہن نے کہا کہ،!!!!‌ " سنا ھے کہ آپ کا ٹرانسفر ریاض کے شہر کی نئی برانچ میں ھو گیا ھے، اور وہاں پر لازمی بات ھے آپکو نئے اسٹاف کی ضرورت بھی ھوگی، اس لئے میں گزارش کرونگی کہ آپ اس کو بھی وہاں پر بلوالیں، یہ آپ کے سامنے ھے اور اس سال ھی اس نے گریجیوشن مکمل کیا ھے آپ کے ھم بہت ھی شکرگزار ھونگے،"!!!!!!

    میں ان سب کی یہ خوشآمدی باتیں سنتا جارھا تھا اور ساتھ ھی میرا ٹمپریچر میرے دماغ کو گھماتا بھی جارھا تھا، جسے کنٹرول کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی، مجھے حیرانگی اس بات کی بھی تھی کہ مجھے بالکل خبر نہیں تھی کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا ھے، اور اس صاحبزادے کے گھر والوں کو مجھ سے پہلے ھی اطلاع پہنچ چکی تھی، مجھے اپنے غصہ پر قابو نہیں رھا اور میں اپنے سخت لہجہ میں نہ جانے کیا کیا کہہ گیا،!!!!!، مجھے سخت افسوس ھے کہ ان ڈھائی مہینوں میں آپ میں سے کسی نے میری خبر تک نہیں لی، اور جیسے ھی آپکو خبر ملی کہ میرا ٹرانسفر ریاض ھوگیا ھے، تو فوراً آپ سب مٹھائی کا ڈبہ لئے ایک مطلب کے ساتھ اپنے دوسرے بیٹے کی درخواست لئے پہنچ گئے، لیکن مجھے افسوس ھے کہ اول تو مجھے یہ بالکل خبر نہیں ملی کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا ھے اور دوسرے یہ کہ مجھے وہاں کے لئے بھرتی کرنے کا اختیار بھی نہیں ھے، اپنے صاحبزادے سے کہیں کہ وہ وہیں پر اپنے انچارج سے اس سلسلے میں بات کرے"،!!!!!!!!

    میرے یہ سنتے ھی ان کی بہن فوراً بولیں کہ،!!!! بھائی صاحب میرے بھائی نے تو بہت پہلے سے ھی یہ درخواست اپنے انچارج کو دے رکھی تھی اور ھم آپ پر یہ ایک اور ذمہ داری نہیں ڈالنا چاھتے تھے، اس لئے آپ سے اس بارے میں کچھ نہیں کہا مگر جب یہ معلوم ھوا کہ آپ ھی وھاں جارھے ھیں تو ھمیں بہت ھی زیادہ خوشی ھوئی اور ھم دوڑے دوڑے آپ کو مبارکباد دینے چلے آئے،!!! اور ساتھ اس کی درخواست بھی لے آئے اگر آپ کچھ مہربانی کرسکیں تو ھم پر آپکا ایک اور مزید احسان ھو گا اور ھم زندگی بھر دعائیں دیتے رھیں گے،!!!!!!!

    میں اب ان لوگوں سے کیا کہتا میں نے فوراً ھی جان چھڑانے کے لئے بہت برداشت کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " آپ کے بھائی نے جو وہاں پر مجھ پر مہربانیاں کی ھیں وہ ھی میرے لئے کافی ھیں، میں مزید مہربانیوں کے قابل نہیں ھوں، مجھے اس سلسلے میں معاف ھی رکھیں اور آپکے دوسرے بھائی کیلئے اسی سے کہیں، اسکے وہاں پر مجھ سے بہتر جاننے والے موجود ھیں، ان ھی سے وہ اس اپنے دوسرے بھائی کیلئے بات کرسکتا ھے، اسکا مجھے یقین ھے کہ کام ھوجائے گا،"!!!!!!!!

    لیکن انکے گھر والوں نے میرا پیچھا ھی لے لیا اور انکی بہن ھی زیادہ بولتی رھیں، انہوں نے اپنے بات کرنے کے انداز کو کچھ حقیقت کا روپ دینا شروع کردیا اور کہنے لگیں کہ،!!!!!! " مجھے معلوم ھے کہ آپ کو میرے بھائی سے بہت سی شکائتیں ھیں، اس نے وہاں پر آپکو بہت زیادہ تنگ کیا ھوگا، اسکی تو عادت ھی بہت بری ھے، ھم جانتے ھیں، لیکن میں آپ کو بھروسہ دلاتی ھوں کہ یہ میرا بھائی تو بالکل معصوم ھے، اس سے آپکو کوئی پریشانی نہیں ھوگی، آپ اسکا ٹیسٹ تو لے کر دیکھیں، یہ میرے بھائی سے کہیں زیادہ سمجھ دار ھے"،!!!!!!!!!

    اب تو مجھے مزید غصہ آگیا اور اسی غصہ میں انہیں ان صاحبزادے کیے تمام کرتوتوں کی داستان ایک ھی سانس میں سنا دیں اور مزید اضافہ کرتے ھوئے میں نے کہا کہ،!!!! "جب آپکو اسکی ان عادتوں کا پتہ تھا تو میرے سر یہ مصیبت کیوں ڈالی، اس وقت مجھے آپ اس کی ان خصلتوں سے واقف نہیں کراسکتی تھیں،" !!!!!!! انکی بہن نے معذرت کرتے ھوئے کہا کہ،!!!!! " ھم سمجھے کہ شاید یہ وہاں جا کر کچھ سدھر جائے گا لیکن افسوس کہ اس نے ھماری عزت نہیں رکھی، بہرحال اس کےلئے ھم آپ سے یہی درخواست کرتے ھیں کہ آپ اسے معاف کردیں، اور اس کے بھائی کے لئے آپ کچھ نہ کریں لیکن ھم وعدہ کرتے ھیں کہ اب وہ کبھی بھی آپکو پریشان نہیں کرے گا،"!!!!!!!

    اسکے بعد میں نے بالکل خاموشی اختیار کرلی کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا اور انہوں نے بھی موقعہ کی نزاکت کو سمجھتے ھوئے میرے گھر سے راہ فرار اختیار کی اور خداحافظ کہتے ھوئے باھر نکل گئے، میں نے اور میرے گھر میں سب نے ان کے جاتے ھی شکر ادا کیا، میرے گھر والے بھی پریشان ھوگئے تھے، کہ کہیں کوئی لڑائی نہ ھوجائے، ھمارے پڑوسی بھی باھر دوسرے کمرے میں تماشہ دیکھتے رھے، لیکن بیچ میں آکر میری کوئی بھی مدد نہیں کی، مجھے اس بات کا بھی افسوس رھا،!!!!! ان کے جاتے ھی وہ ھمارے پڑوسی فوراً میرے پاس آئے اور انکے یہاں نہ آنے کی معذرت طلب کرنے لگے کہ،!!!!!! " آج کل ھمارے تعلقات ان لوگوں کے ساتھ کچھ بہتر نہیں ھیں اور ھمیں افسوس ھے کہ ان لوگوں کو ھم سے بات کرنی چاھئے تھی، وہ براہ راست آپ کے پاس بغیر ھم سے رابطہ کئے ھوئے پہنچ گئے، جب کہ ھماری وجہ سے آپنے ان کے بیٹے کو بھیجا، انہیں پہلے ھمارے پاس آنا چاھئے تھا،!!!!!!!!!

    میں نے بھی انکے احسانات کو دیکھتے ھوئے کوئی زیادہ بات نہیں کی، بس یہی کہا کہ،!!!!! " اگر آپ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی بیٹی کی شادی اس لڑکے کے ساتھ کرنا چاہ رھے ھیں، تو سمجھ لیں کہ آپکی بیٹی کے قابل وہ شخص نہیں ھے، آگے آپ کی مرضی، یہ آپ کے بھائی کا لڑکا ھے، میں اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ یہ آپکی رشتہ داری کا معاملہ ھے"!!!!!!!

    انہوں نے اس کے جواب میں یہی کہا کہ،!!!!! ھم تو خود ھی نہیں چاھتے ھیں لیکن ھم اپنی بیٹی کی وجہ سے ھی مجبور ھیں کیونکہ یہ ضد پر اڑی ھوئی ھے، کہ شادی کرونگی تو اسی سے، کیونکہ ایک دفعہ جب منگنی ھوگئی ھے تو بس یہ ھی میرے لئے سب کچھ ھیں، آگے میری قسمت ھے، میں کوشش کرونگی کہ اس کے ساتھ اچھی طرح نباہ کرلوں، باقی اللٌہ کی مرضی،"!!!!!!

    اب تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ میں ان کے بیچ کوئی خوامخواہ ھی ٹانگ اڑاؤں، وہ لڑکی جو میری بیٹی کی سہیلی بھی تھی، اس نے میری بیٹی کے توسط سے کہلا بھیجا کہ میں شادی اسی لڑکے سے ھی کروں گی اور یہ ھمارا اپنا ذاتی مسئلہ ھے اور جو ان سے غلطیاں ھوئی ھیں میں اس کے لئے شرمندہ ھوں اور ویسے بھی امید رکھتی ھوں کہ وہ اب ائندہ آپکے ساتھ ایسا کچھ نہیں کریں گے، جس سے آپ کو کوئی دکھ یا تکلیف پہچے،!!!!! میں نے بھی اسے یقین دلادیا تھا کہ میں نے پہلے بھی اسکے لئے کچھ بھی برا نہیں سوچا اور آئندہ بھی اسکے لئے ھمیشہ بہتر ھی سوچ سکتا ھوں صرف آپلوگوں کی خاطر کہ ایک تو آپ سب ھمارے پڑوسی ھو اور پڑوسیوں کا ھر طرح سے خیال رکھنا میرا فرض ھے اور آپلوگوں نے میرے گھر والوں کا جتنا بھی میری غیر حاضری میں خیال رکھا ھے اسکا تو میں زندگی بھر احسان نہیں بھول سکتا، میں دعاء کرتا ھوں کہ شادی کے بعد اس لڑکے کے ساتھ آپ کی زندگی ھمیشہ خوش و خرم رھے،!!!!!!!!

    مجھے ویسے اس لڑکی کی باتوں پر رشک بھی آتا تھا کہ یہ اتنی اچھی لڑکی تھی کہ کبھی نہیں چاھتی تھی کہ ایک دفعہ جس سے رشتہ قائم ھوجائے وہ کبھی ختم نہ ھو، اور اس لڑکے کے بارے میں جانتے ھوئے بھی اسکے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنا چاھتی تھی،!!!!!!!

    ایک اب تو مجھے یہ پریشانی لگ گئی کہ میں اپنے بھائی کے رشتہ کے لئے بات تو پکی کرلی ھے، اور مجھے یہ وہم ھورھا تھا کہ اگر وہ وقت پر نہ پہنچا تو میری بے عزتی ھوجائے گی، اب صرف جمعہ کے آنے میں تین دن باقی تھے،،!!!!! دوسری پریشانی مجھے یہ لگ گئی کہ کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا اور مجھے اب تک کسی نے بھی اطلاع نہیں دی، کمال ھے، میں نے فوراً ھی اپنے اسی دوست سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا کہ یہ میرے بارے میں کیا غلط افواھیں پھیلا رھے ھو، یہ میں کیا سن رھا ھوں،!!!!!! اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ، !!!!! تو یہ اطلاع آپکو کہاں سے ملی،!!!!
    میں نے سارا ماجرا مختصراً سنا دیا، پھر اس نے کہا کہ،!!!! آپکو بہت بہت مبارک ھو آپکو ترقی دے کر ریاض بھیجا جارھا ھے، اس میں آپکے استاد محترم اور یہاں کے صدر کی خواھش پر ھی اپکو ریاض بھیجنے کی منظوری ھوئی ھے، ورنہ تو آپکو پتہ ھی ھے کہ اس عہدے کے لئے بہت سے امیدوار لائن میں تھے،"!!!!!!!! اس وقت تو میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ ھی نہیں رھا،!!!!!!!!!
    --------------------------------------
    ایک اب تو مجھے یہ پریشانی لگ گئی کہ میں اپنے بھائی کے رشتہ کے لئے بات تو پکی کرلی ھے، اور مجھے یہ وہم ھورھا تھا کہ اگر وہ وقت پر نہ پہنچا تو میری بے عزتی ھوجائے گی، اب صرف جمعہ کے آنے میں تین دن باقی تھے،،!!!!! دوسری پریشانی مجھے یہ لگ گئی کہ کہ میرا تبادلہ ریاض ھوگیا اور مجھے اب تک کسی نے بھی اطلاع نہیں دی، کمال ھے، میں نے فوراً ھی اپنے اسی دوست سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا کہ یہ میرے بارے میں کیا غلط افواھیں پھیلا رھے ھو، یہ میں کیا سن رھا ھوں،!!!!!! اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ھوئے کہا کہ، !!!!! تو یہ اطلاع آپکو کہاں سے ملی،!!!!
    میں نے سارا ماجرا مختصراً سنا دیا، پھر اس نے کہا کہ،!!!! آپکو بہت بہت مبارک ھو آپکو ترقی دے کر ریاض بھیجا جارھا ھے، اس میں آپکے استاد محترم اور یہاں کے صدر کی خواھش پر ھی اپکو ریاض بھیجنے کی منظوری ھوئی ھے، ورنہ تو آپکو پتہ ھی ھے کہ اس عہدے کے لئے بہت سے امیدوار لائن میں تھے،"!!!!!!!! اس وقت تو میرا تو خوشی کے مارے کوئی ٹھکانہ ھی نہیں رھا،!!!!!!!!!

    زندگی کے بعض اھم فیصلے جلد بازی میں نہیں کرنے چاھئے، بس نہ جانے مجھ میں کیا عادت ھے کہ میں ھر اھم فیصلے کو فوراً ھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ھوں، جیسے بھائی کے نکاح کی تاریخ کے سلسلے میں اس سے پوچھے بغیر جوش میں آکر اگلے آنے والے جمعہ کی تاریخ طے کردی، اب انتظار کے تین دن باقی تھے ،اس نے وہاں ایمرجنسی چھٹی تو لے لی لیکن جہاز کی سیٹ کے لالے پڑ گئے، میں اسے بار بار ٹیلیفون کرکے اسے تنگ کررھا تھا، وہ بھی پریشان ھوجاتا اور کہتا کہ،!!!!" بھائی آپ بھی کمال کرتے ھو اتنی جلدی تاریخ طے کردی اب مجھے آنے کیلئے کچھ وقت تو دیتے،!!!!!!
    میں بھی اسے سخت لہجے میں جواب دے نہیں سکتا تھا، کیونکہ وہ اگر آنے سے ھی انکار کردے تو اپنی عزت کا بکھیڑا کھڑا ھو جاتا، اس لئے میں نے بہت ھی عاجزی سے اسے کہا کہ، !!!!!!" دیکھ بھائی میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا، کیونکہ اگلے ھفتے کو میری روانگی ھے اور مجھے فوراً ھی پہنچنا ھے، کیونکہ میرا ریاض تبادلہ ھو رھا ھے، اس جمعہ کے علاوہ اور کوئی بھی دن مجھے نہیں بھا رھا تھا، کیونکہ اس دن کیلئے تمھارے ھونے والے سسرال نے ھی کہا تھا، اور میں نے اسی وقت کوئی فیصلہ کرنا تھا ھوسکتا تھا کہ ان کی بھی کوئی مجبوری رھی ھو، اگر میں تاریخ آگے بڑھاتا تو میرا اتنے دن یہاں رکنا مشکل ھو جاتا، اس کے علاوہ تمھارے دوست جو میرے سالے کی شادی کی بھی انہی دنوں تقریبات ھیں، صرف اس جمعہ کو ھی کوئی تقریب نہیں ھے، !!!!!!

    لڑکی والوں نے میرے بھروسے اپنے سب رشتہ داروں کو جمعہ والے دن کے نکاح کا پیغام بھجوا دیا تھا، اور ادھر میں بھی اپنے تمام خاص خاص جاننے والوں کو پیغام بھجوا چکا تھا، جس پر لوگوں نے کافی اعتراض بھی کیا کہ یہ کس قسم کا نکاح ھے نہ کوئی مشورہ نہ کسی سے کوئی صلح لی، بس اپنی طرفسے سب بات چیت پکی کر آئے، ایک دو سے تو میں بھی خوامخواہ الجھ گیا، میں نے کہا کہ،!!!! میں نے ایک فیصلہ کردیا ھے، اب یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ھوا کہ کسی سے صلح اور مشورہ کے لئے میرے پاس وقت نہیں تھا،!!!! میں نے کئی بزرگوں سے معذرت بھی کی، لیکن رشتہ داروں میں کچھ آن بان والے بھی ھوتے ھیں، انہوں نے اس نکاح میں شرکت کرنے سے بالکل انکار بھی کردیا،!!!! میں نے بھی کوئی کسی کی پرواہ نہیں کی، بعض کو تو میں نے ٹیلیفون پر ھی اطلاع دے دی، وہ بھی ناراض کہ،!!! ایسی خاص نکاح کی دعوت تو سلیقے سے گھر پر آکر دی جاتی ھے، یہ کیا طریقہ ھے،!!! حالانکہ میں نے انہیں اپنی مجبوری بھی بتائی، لیکن بہت سے لوگ میری اس بات سے ناراض بھی ھوگئے،!!!!!!!

    اب میں یہاں پریشان دو دن رہ گئے تھے، چھوٹے بھائی کو سیٹ نہیں مل رھی تھی، پاسپورٹ پر تو شکر ھے اسکے آنے اور واپس جانے کے اجازت نامہ کی مہر لگ چکی تھی، اس جمعرات کی سیٹ ‌تو تھی لیکن وہ بھی چانس پر تھی،!!!!! دوسرا دن بھی گزر گیا پریشانی میں مزید اضافہ ھوتا جارھا تھا، لڑکی کے بھائی میرے پاس آئے انہیں بھی پریشانی لاحق تھی کہ اب تک دولہا میاں پہنچے نہیں تھے، اب صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا اور اگلے دن میرے بھائی کا نکاح ھونا تھا، میں نے ان سے کہا کہ آج کی رات کی اسکی سیٹ ھے اور اسے کسی بھی صورت میں اس نے یہاں صبح صبح پہنچنا ھی ھے، وہ مجھے پریشانی کی حالت میں دیکھ کر مجھے تسلی اور حوصلہ دینے لگے اور کہا کہ،!!!!!! آپ بالکل فکر نہ کریں ھم نے اس نکا ح کی تقریب گھر کے سامنے ھی رکھی ھے، صرف گھر کے خاص خاص لوگ ھی آئیں گے اور احتیاطاً شامیانے والے کو ابھی منع کردیا ھے کہ جس وقت ھم کہیں گے اس وقت ھی وہ شامیانہ اور روشنی کا انتظام کرے گا، اور کھانا بھی ھم نے اپنے مکان کی چھت پر انتظام کیا ھے، سارا کھانے پکانے کا سامان آچکا ھے، نکاح کے جوڑے کا اور دیگر ضرورت کی چیزوں کا بھی انتظام مکمل ھے، آپ بالکل فکر نہ کریں اگر آپ کے بھائی کے آنے میں اگر کوئی دیر سویر ھوجائے تو ھماری طرفسے پریشان مت ھوئے گا، ھم اپنے رشتہ داروں کو منا لیں گے، بس آپ اپنے رشتہ داروں کو سنبھال لیجئے گا،!!!!!!!

    بہت ھی اچھے لوگ تھے اس وقت انہوں نے میری آدھی پریشانی دور کردی، بس اب میرے رشتہ داروں کی بات تھی کہ وہ کس طرح کا رویہ میرے ساتھ رکھتے ھیں، ادھر ھماری بیگم بھی مجھ سے ناراض تھیں کہ میں انہیں وقت دے نہیں پا رھا تھا، اور انکے بھائی کی شادی بھی میرے بھائی کے نکاح کے تیسرے دن اتوار کے دن ھونا قرار پائی تھی، ھفتہ کے روز مہندی کی رسم بھی تھی اور وہ میرے بھائی کا دوست بھی تھا اور لازمی بات ھے کہ وہ میرے سالے صاحب تھے اور مجھے وہاں بھی اپنی بیگم ساتھ ھونا ضروری تھا،!!!!!!!
    اور یہی وجہ بھی تھی کہ میں نے اپنی چھٹی کو کچھ دنوں کے لئے بڑھا لی تھی، جس کا ذکر کرنا میں بھول گیا تھا میرے بچے بھی اپنے ماموں کی شادی میں خوب مگن تھے، وہ بھی اپنے گھر میں سب سے چھوٹا بھائی تھا، اور یہان یہ میرا بھائی بھی ھم سب سے چھوٹا تھا، آج جمعرات کی شام ھونے آئی، میں بھی مستقل اپنے بھائی سے موبائل پر رابطہ کئے ھوئے تھا، رات گئے تک وہ بھی ائرپورٹ پہنچا اور شکر ھے کہ اسے سیٹ مل گئی، مگر پھر بھی مجھے سکون نہیں ملا، رات بھر اسی چکر میں نیند نہیں آئی، صبح صبح اسکی فلائٹ کو آنا تھا، ایک گھنٹہ پہلے ھی ائرپورٹ سب کو لے کر پہنچ گیا، مجھے خوشی ھورھی تھی کہ اللٌہ تعالیٰ نے میری لاج رکھ لی تھی، جمعہ کا مبارک دن بھی تھا، فلائٹ کو بھی آنے میں کچھ تاخیر ھوگئی کافی دیر بعد پسینے میں شرابو میرا بھائی ایک ٹرالی لے کر باھر نکلا، اسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی،!!!!!!

    سب کو ساتھ لئے ائرپورٹ سے گھر پہنچے، اور سب سے پہلا کام اپنے گھر مین داخل ھونے سے پہلے میں فوراً ھی لڑکی کے گھر کی طرف دوڑا جو بالکل دو منٹ کے فاصلے پر تھا، وہاں پہنچ کے مین گیٹ کی گھنٹی بجائی، اور جیسے ھی لڑکی کا بھائی نکلا، میں نے خوش خبری سنائی کہ دولہا میاں گھر میں پہنچ چکے ھیں، وہ بھی بہت ھی خوش ھوا اور جلدی سے جاکر گھر میں اطلاع دے دی، سب گھر پر ھی موجود تھے ایک ھنگامہ مچ گیا اور پھر کیا تھا، وہ سب تینوں بھائی اور انکے خاص خاص رشتہ دار جو اس وقت گھر مین موجود تھے، اپنی تیاریوں میں لگ گئے، میں بھی فوراً گھر پہنچا ھماری تو بالکل بھی تیاری نہیں ھوئی تھی، دولہے میاں کا جوڑا، شیروانی پگڑی اور تلے والی چمک دارجوتی تو بہت ھی لازمی خریدنی ھی تھی،!!!!!!!
     
  23. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سب کو ساتھ لئے ائرپورٹ سے گھر پہنچے، اور سب سے پہلا کام اپنے گھر مین داخل ھونے سے پہلے میں فوراً ھی لڑکی کے گھر کی طرف دوڑا جو بالکل دو منٹ کے فاصلے پر تھا، وہاں پہنچ کے مین گیٹ کی گھنٹی بجائی، اور جیسے ھی لڑکی کا بھائی نکلا، میں نے خوش خبری سنائی کہ دولہا میاں گھر میں پہنچ چکے ھیں، وہ بھی بہت ھی خوش ھوا اور جلدی سے جاکر گھر میں اطلاع دے دی، سب گھر پر ھی موجود تھے ایک ھنگامہ مچ گیا اور پھر کیا تھا، وہ سب تینوں بھائی اور انکے خاص خاص رشتہ دار جو اس وقت گھر مین موجود تھے، اپنی تیاریوں میں لگ گئے، میں بھی فوراً گھر پہنچا ھماری تو بالکل بھی تیاری نہیں ھوئی تھی، دولہے میاں کا جوڑا، شیروانی پگڑی اور تلے والی چمک دارجوتی تو بہت ھی لازمی خریدنی ھی تھی،!!!!!!!

    مجھے تو لگتا تھا کہ میں نے کسی بڑی مہم کو سر کرنے کا ٹھیکہ لے لیا تھا، اب تو میری مدد کیلئے بھی میرے نذدیک کوئی نہیں آرھا تھا، یہ تو میں بہت ھی مشکل میں پڑ گیا، ایک تو رات بھر چھوٹے بھائی کے آنے کی فکر میں رات بھر سو نہیں سکا تھا، اور جب وہ پہنچا تو اس کے ناپ کی شیروانی جوتے ٹوپی وغیرہ کا انتظام کرنا تھا، اسے تو میں نے گھر میں آرام ھی نہیں کرنے دیا، اور فوراً اس سے جو صوفے پر ھی آنکھیں بند کئے ھوئے لیٹا تھا، میں نے اسے جنجھوڑتے ھوئے کہا، !!!!!! " چلو اٹھو چندا، !!!! بعد میں آنے کے بعد آرام کرلینا، ابھی بہت سے کام کرنے ھیں، پہلے اپنے ناپ کی شیروانی، جوتی اور پگڑی تو لے لو، باقی چیزیں پھر واپس آکر دیکھیں"،!!!!!!

    دولہے میاں نے بھی تھکی ھوئی آواز میں کہا،!!!!!!" بھائی ابھی بہت سخت نیند آرھی ھے، بعد میں بس شام کو جاکر لے لیں گے،!!!!!!

    میں تو تلملا گیا،!!!!!" ارے بھائی آج تیرا نکاح ھے، میرے ساتھ چل، بس تم آج صرف تھوڑی سی میرے ساتھ چل کر تکلیف اٹھا لو، نکاح کے بعد میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، اور آج کے بعد تو میری توبہ کسی کی شادی کی ذمہ داری بھی نہیں لوں گا، اور کل تمھارے دوست کی شادی بھی ھے، "!!!!!

    وہ تو بہت مشکل سے آنکھیں ملتا ھوا اسی حالت میں آٹھ کھڑا ھوا، بس منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ایک کپ چائے پی، اور گھر سے باھر نکلنے لگے تو دیکھا ھمارے پیچھے پیچھے اور بھی گھر سے نکلنے لگے،"میں نے پوچھا،!!!!! کہ آپ لوگ کس خوشی میں جارھے ھو،"!!!!!
    سب کہنے لگے کہ ھمیں بھی بازار سے بہت کچھ لینا ھے،!!!!!!
    ایک ٹیکسی میں اتنے سارے لوگ نہیں آسکتے اگر جانا ھے تو الگ ٹیکسی میں جاؤ،!!!!! میں نے جواب دیا،!!!!!
    ایک نے جواب دیا،!!!!! کہ پیسے کون دے گا،!!!!!!!!
    اماں کے پاس جاؤ، میرا مغز نہ کھاؤ، آج صرف نکاح ھے، جب رخصتی اور ولیمہ کا وقت آئے گا اس وقت سب کچھ بنوا لینا،!!!!!!!

    کچھ تو ناراض ھوگئے اور کچھ تو زبردستی کر ساتھ چل دئیے اور ایک ٹیکسی میں سارے جتنے بھی گھس سکتے تھے پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے، ٹیکسی والا بھی حیراں پریشان کہ یہ صبح صبح اتنی سواریاں کہاں نکل پڑیں،!!!!!!

    میں آگے بیٹھا ھوا تھا، پیچھے دولہا میاں کے ساتھ اور دو تین لیڈیز اور بچے بھی گھس کر بیٹھ گئے، بڑی مشکل سے ٹیکسی کا دروازہ بند ھوا، ٹیکسی والا بھی مجھے ایک سوالیہ نشان کی طرح دیکھ رھا تھا، میں نے اسے طے شدہ رقم سے کچھ زیادہ دینے کا وعدہ کیا، تو اس نے تیکسی اسٹارٹ کی، اب نہ جانے کیا پرابلم تھی، ٹیکسی اسٹارٹ ھونے کا نام نہیں لے رھی تھی، جب بھی کوئی جلدی ایمرجنسی کا کام ھوتا ھے، کچھ نہ کچھ گڑبڑ ھو ھی جاتی ھے، ایک تو صبح صبح ٹیکسی بھی ملی تو بالکل کھٹارا، !!!!!!! پیچھے سے لیڈیز بھی ھنسنا شروع ھوجاتی تھیں، جب ٹیکسی ڈرائیور اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا،،!!!!!ان کی ھنسی سن کر بھی مجھے غصہ آرھا تھا، لیکن میں خاموش ھی رھا، کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ دولہا میاں ھی بدک نہ جائیں،!!!!!!

    خدا خدا کرکے ٹیکسی اسٹارٹ ھوئی اور خراماں خراماں چل پڑی، مگر اس ٹیکسی کے سارے پرزے ھل جل رھے تھے، اور اسکے ساتھ ھی ھم سب بھی۔!!!! راستے میں اکثر سڑک پر جگہ جگہ گڈھے تھے، اور دولہا میاں اپنی شادی کی فکر کرنے کے بجائے سرکار کا برا بھلا کہہ رھے تھے، خیر بڑی مشکل سے ھلتی ھلاتی ٹیکسی نے ھمیں اپنی مطلوبہ دکان تک پہنچا ھی دیا، لیکن اب یہ مشکل کہ ابھی تک بازار کھلا ھی نہیں تھا، جہاں تمام شادی کے جوڑوں سے لے کر ھر قسم کے ملبوسات او جوتیاں سینڈلیں بھی دستاب تھیں، اس کے علاوہ شادی سے ھی متعلق دوسری چیزیں بھی موجود تھیں،!!!!!! اب اس بازار میں بند دکانوں کو دیکھ کر تو دولہا میاں اور بھی گرم ھوگئے،،!!!!!" میں نے کہا بھی تھا کہ بعد میں چلتے ھیں لیکن میری بات کوئی سنتا ھی نہیں،"!!!!! میں کیا جواب دیتا میری بھی ایک مجبوری تھی، خاموش ھی رھا، دولہا میاں بڑبڑاتے ھی رھے، اور میں ایک دکان کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ گیا، لیکن شکر ھے کچھ دیر بعد آھستہ آھستہ دکانیں کھلنا شروع ھوگئیں،!!!!!!!

    فوراً ھی ایک دو دکانوں سے دولہا کے لئے جلدی جلدی انکی پسند سے ھی شیروانی، کلاہ اور تلے والی جوتی اور دوسری ضرورت کی چیزیں لیں، اور دوسروں کو بھی انکی خواھش کے مطابق اسی بازار سے خریدیں، وقت نکلتا جارھا تھا، شام 8 بجے نکاح کا وقت مقرر تھا، اور یہاں بازار میں ھی دن کا ایک بج چکا تھا، جلدی جلدی فوراً ھی ایک بڑی ٹیکسی پکڑی، اس میں بھی سب پھنس کر ھی بیٹھے تھے، جبکہ سارا سامان ڈگی میں ھی رکھوایا تھا اور واپس گھر روانہ ھوگئے، گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ دلہن کے گھر کے سامنے شامیانے والے اپنا ساز و سامان لے کر پہنچ چکے تھے، اور شامیانہ لگانے کا انتطام کررھے تھے، مجھے بھی کچھ اطمنان ھوگیا، میں نے دولہا میں سے کھا کہ کھانا کھا کر کچھ آرام کرلے اور شام کو اٹھ کر فوراً تیار ھو جائے، اسکا دوست جو میرے سالے صاحب بھی تھے اور جنکی شادی کل تھی وہ گھر پر پہنچے ھوئے ھمارا ھی انتظار کررھے تھے، ھم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور دولہا میاں تو آرام کرنے چلے گئے اور ھمارے سالے صاحب اجازت لے کر یہ کہتے ھوئے روانہ ھوگئے کہ،!!!!! میں شام کو اپنی کار سجا کر لے آوں گا، اور انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ کم از کم میرا انتظار تو کیا ھوتا بازار میں آپ سب کو لے جاتا، خیر شام کو میں کار کو سجاتا ھوا اور اپنے گھر ولوں کو بٹھا کر پہنچتا ھو اور اگر کوئی کام ھو تو مجھے کال کرلینا،!!!!!
    -------------------------------------------

    ھم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور دولہا میاں تو آرام کرنے چلے گئے اور ھمارے سالے صاحب اجازت لے کر یہ کہتے ھوئے روانہ ھوگئے کہ،!!!!! میں شام کو اپنی کار سجا کر لے آوں گا، اور انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ کم از کم میرا انتظار تو کیا ھوتا بازار میں آپ سب کو لے جاتا، خیر شام کو میں کار کو سجاتا ھوا اور اپنے گھر ولوں کو بٹھا کر پہنچتا ھو اور اگر کوئی کام ھو تو مجھے کال کرلینا،!!!!!

    میں نے بھی سونے کی کوشش کی، ڈرائنگ روم میں ایک بڑے صوفے پر نیم دراز ھو گیا، لیکن نیند کا کوسوں دور تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا، بس اگلے آنے والے لمحات کے بارے میں سوچتا ھی رھا، مجھے تو حیرانگی ھوئی کہ گھر پر بالکل سناٹا محسوس ھو رھا تھا، صرف والدہ کو ھی گھر میں دیکھا اور شاید برابر میں بیڈروم سے دولہے میاں کی خراٹوں کی آوازیں آرھی تھی،!!!! دیکھو کیسا بےفکر سو رھا ھے،!!!! میں نے دل میں ھی کہا، آنکھیں میں نے بند کی ھوئی تھیں، کہ اچانک میری اماں کچھ بڑبڑاتی ھوئی آئیں اور میرا سر اٹھا کر میرے سرھانے تکیہ رکھ رھی تھیں، اور اوپر سے ایک چادر بھی ڈال دی تھی،،!!!! باقی لڑکیوں اور انکی اماؤں کا پتہ ھی نہیں تھا، دو دن سے سب بہن بھائیوں اور انکے سارے بچوں نے گھر میں ڈیرا ڈالا ھوا تھا، ایک ھنگامہ تھا، لیکن اس وقت بالکل خاموشی تھی ،!!!!!
    میں نے لیٹے ھوئے ھی اماں سے کہا کہ،!!!!" یہ سب کہاں گئے، کوئی نظر نہیں آرھا ھے،"!!!!

    اماں نے بھی تھوڑی جذباتی ھوکر بولیں،!!!! کیا بتاؤں بیٹا ان سب کی خریداری ھی نہیں ختم ھوتی، صرف نکاح ھی تو ھے، بالکل ایسا لگتا ھے کہ یہ سب آج ھی ساری خریداری کرلیں گی، ساری کی ساری اپنی اپنی خریداری کرنے الگ الگ بازاروں می گئی ھوئیں ھیں، اب واپس آئیں گی تو پھر دوبارہ ساری کی ساری بیؤٹی پارلر کی طرف نکل لیں گی، سبجھ میں نہیں آتا کہ کیا ھوگا ان سب کو گھر کی کوئی فکر نہیں ھے، سارا یہاں کا کام بکھرا پڑا ھے، سب کام ایک دوسرے پر ڈال دیتی ھیں اور ساری کی ساری باھر نکل جاتی ھیں اور بار بار کبھی کسی چیز کے لئے کبھی کسی اور ضرورت کیلئے، اور سب کو پیسے دینے کیلئے میں ھی رہ گئی ھوں کیا،!!!!!

    اماں کی یہ جذباتی تقریر سن کر میں بھی خاموش ھوگیا، عورتوں کے مسائل ھیں اور شادی کا موقع ھے، کچھ کہہ بھی تو نہیں سکتے،!!!!!!!

    میں بھی تھوڑی سی عورتوں کے بارے میں انکی نفسیاتی تقاضوں کی تھوڑی سی تفصیل میں جاکر کچھ وضاحت کردوں، میری بھی بیٹیاں ھیں اور میں بھی انہیں دل و جان سے چاھتا ھوں، اور ان کی اور ھماری بیگم کی ھر فرمائش کو پورا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ھوں، اتنا میں اپنے بیٹوں کیلئے نہیں کرتا، حالانکہ آج کل کے لڑکے کسی لڑیوں کے شوق سے کم شوق نہیں رکھتے، وہ بھی چوری چھپے آج کل لمبے بال رکھوا کراسٹریٹ بال اور سیٹنگ کے لئے مہنگے والے ھیر کٹنگ سالون میں جاتے ھیں، اور بعض اوقات تو پیچھے سے پونی بھی بندھوا لیتے ھیں، اس کے علاوہ عورتوں کی طرح چہرے پر تھریڈنگ اور فشل کرواتے بھی دیکھا ھے،!!!!!

    یہ تو واقعی بالکل صحیح ھے، کہ خواتین کے بناؤ سنگھار کی وجہ سے ھی ھر تقریب کی رونقوں میں اضافہ ھوجاتا ھے، اور ویسے بھی عورتوں خاص کر لڑکیوں کو تو موقعہ ملنا چاھئے، ایسی تقریب میں چاھے وہ کتنی ھی بیمار کیوں نہ ھو فوراً ھی اٹھ کھڑی ھوتی ھیں، اور بس ان کا بناؤ سنگھار شروع، نئے نئے ڈیزائنوں کے کپڑوں جوتیوں سینڈلوں کی فرمائش، اب تو ایک خرچہ بیوٹی پارلر کا بھی بڑھ گیا ھے، اپنی آسانیوں کے لئے بے چارے شوھر نامدار کی شامت آجاتی ھے، اور پھر انہیں اپنی بیگم کی لاج بھی تو رکھنی ھوتی ھے، اور والدین بھی اپنی بیٹیوں کے لئے مجبور ھوجاتے ھیں ایسے موقعوں پر تو انکی فرمائشوں کو رد نہیں کرسکتے کیونکہ بیٹیاں تو لاڈلی اور معصوم ھوتی ھیں، اور میری بیٹیاں بھی ھیں، جن کا میں کوشش کرتا ھوں کہ ان کا ھر طرح سے اپنے بیٹوں کی بنسبت بہت ھی زیادہ خیال رکھوں،!!!!!

    اور آج کل کچھ لڑکیوں میں تو چھوڑیں ان کی اماؤں میں میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ھے، کہ وہ کسی بھی تقریب میں جاتی ھیں تو کبھی بھی اپنے لباس کے اسٹائل اور کلر کے متعلق کسی کو نہیں بتاتیں بالکل خفیہ رکھنا چاھتی ھیں، لیکن دوسروں کے لباس کے اسٹائل اور کلر جاننے کیلئے پریشان رھتی ھیں،!!!!!

    اری رخسانہ،!!!! تم نادیہ کی شادی میں کیا بنا رھی ھو،!!!!!!
    عاشی،!!!!!!!! کیا بتاؤں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، کیا بناؤں،؟؟؟ تم بتاؤ، اس دفعہ تم کیا بنا رھی ھو اور کس کلر کا انتخاب کیا ھے،!!!!!!
    جبکہ ان دونوں نے پہلے سے ھی جوڑے بنا کر تیار کئے ھوئے ھوتے ھیں لیکن پھر بھی دوسروں کے جوڑوں کے راز اگلوانے کے چکر میں رھتی ھیں،!!!

    اب شام ھونے والی تھی، گھر کے خاص مہمان بھی آنا شروع ھوگئے تھے، سب اپنے اپنے چکروں میں تھے، دولہا میاں کو بڑی مشکل سے اٹھایا تاکہ وہ تیار ھو جائے، ادھر عورتیں بچیاں ادھر ادھر بھاگی پھر رھی تھیں، اور بیٹھک میں اپنے اپنے وسائل کے ذریعے یعنی اپنے گھر کے مرد حضرات سے جو ڈرائنگ روم میں بیٹھے ھوئے تھے، ان کی جیبیں خالی کرارھی تھیں اور ھر کوئی شرما حضوری میں ایک دوسرے کے سامنے کچھ انکار بھی تھوڑی کرسکتا ھے، اور پھر انکی عزت کا بھی تو معاملہ ھے، سب مرد حضرات بھی اپنی جیبوں میں بینکوں سے پہلے ھی نئے کرارے نوٹ لے کر آئے ھوئے تھے، اور اسی وجہ سے سب عورتیں بچے بچیاں بھی فائدہ اٹھا رھی تھیں،!!!!
     
  24. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    سب کو ساتھ لئے ائرپورٹ سے گھر پہنچے، اور سب سے پہلا کام اپنے گھر مین داخل ھونے سے پہلے میں فوراً ھی لڑکی کے گھر کی طرف دوڑا جو بالکل دو منٹ کے فاصلے پر تھا، وہاں پہنچ کے مین گیٹ کی گھنٹی بجائی، اور جیسے ھی لڑکی کا بھائی نکلا، میں نے خوش خبری سنائی کہ دولہا میاں گھر میں پہنچ چکے ھیں، وہ بھی بہت ھی خوش ھوا اور جلدی سے جاکر گھر میں اطلاع دے دی، سب گھر پر ھی موجود تھے ایک ھنگامہ مچ گیا اور پھر کیا تھا، وہ سب تینوں بھائی اور انکے خاص خاص رشتہ دار جو اس وقت گھر مین موجود تھے، اپنی تیاریوں میں لگ گئے، میں بھی فوراً گھر پہنچا ھماری تو بالکل بھی تیاری نہیں ھوئی تھی، دولہے میاں کا جوڑا، شیروانی پگڑی اور تلے والی چمک دارجوتی تو بہت ھی لازمی خریدنی ھی تھی،!!!!!!!

    مجھے تو لگتا تھا کہ میں نے کسی بڑی مہم کو سر کرنے کا ٹھیکہ لے لیا تھا، اب تو میری مدد کیلئے بھی میرے نذدیک کوئی نہیں آرھا تھا، یہ تو میں بہت ھی مشکل میں پڑ گیا، ایک تو رات بھر چھوٹے بھائی کے آنے کی فکر میں رات بھر سو نہیں سکا تھا، اور جب وہ پہنچا تو اس کے ناپ کی شیروانی جوتے ٹوپی وغیرہ کا انتظام کرنا تھا، اسے تو میں نے گھر میں آرام ھی نہیں کرنے دیا، اور فوراً اس سے جو صوفے پر ھی آنکھیں بند کئے ھوئے لیٹا تھا، میں نے اسے جنجھوڑتے ھوئے کہا، !!!!!! " چلو اٹھو چندا، !!!! بعد میں آنے کے بعد آرام کرلینا، ابھی بہت سے کام کرنے ھیں، پہلے اپنے ناپ کی شیروانی، جوتی اور پگڑی تو لے لو، باقی چیزیں پھر واپس آکر دیکھیں"،!!!!!!

    دولہے میاں نے بھی تھکی ھوئی آواز میں کہا،!!!!!!" بھائی ابھی بہت سخت نیند آرھی ھے، بعد میں بس شام کو جاکر لے لیں گے،!!!!!!

    میں تو تلملا گیا،!!!!!" ارے بھائی آج تیرا نکاح ھے، میرے ساتھ چل، بس تم آج صرف تھوڑی سی میرے ساتھ چل کر تکلیف اٹھا لو، نکاح کے بعد میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا، اور آج کے بعد تو میری توبہ کسی کی شادی کی ذمہ داری بھی نہیں لوں گا، اور کل تمھارے دوست کی شادی بھی ھے، "!!!!!

    وہ تو بہت مشکل سے آنکھیں ملتا ھوا اسی حالت میں آٹھ کھڑا ھوا، بس منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، ایک کپ چائے پی، اور گھر سے باھر نکلنے لگے تو دیکھا ھمارے پیچھے پیچھے اور بھی گھر سے نکلنے لگے،"میں نے پوچھا،!!!!! کہ آپ لوگ کس خوشی میں جارھے ھو،"!!!!!
    سب کہنے لگے کہ ھمیں بھی بازار سے بہت کچھ لینا ھے،!!!!!!
    ایک ٹیکسی میں اتنے سارے لوگ نہیں آسکتے اگر جانا ھے تو الگ ٹیکسی میں جاؤ،!!!!! میں نے جواب دیا،!!!!!
    ایک نے جواب دیا،!!!!! کہ پیسے کون دے گا،!!!!!!!!
    اماں کے پاس جاؤ، میرا مغز نہ کھاؤ، آج صرف نکاح ھے، جب رخصتی اور ولیمہ کا وقت آئے گا اس وقت سب کچھ بنوا لینا،!!!!!!!

    کچھ تو ناراض ھوگئے اور کچھ تو زبردستی کر ساتھ چل دئیے اور ایک ٹیکسی میں سارے جتنے بھی گھس سکتے تھے پھنس پھنسا کر بیٹھ گئے، ٹیکسی والا بھی حیراں پریشان کہ یہ صبح صبح اتنی سواریاں کہاں نکل پڑیں،!!!!!!

    میں آگے بیٹھا ھوا تھا، پیچھے دولہا میاں کے ساتھ اور دو تین لیڈیز اور بچے بھی گھس کر بیٹھ گئے، بڑی مشکل سے ٹیکسی کا دروازہ بند ھوا، ٹیکسی والا بھی مجھے ایک سوالیہ نشان کی طرح دیکھ رھا تھا، میں نے اسے طے شدہ رقم سے کچھ زیادہ دینے کا وعدہ کیا، تو اس نے تیکسی اسٹارٹ کی، اب نہ جانے کیا پرابلم تھی، ٹیکسی اسٹارٹ ھونے کا نام نہیں لے رھی تھی، جب بھی کوئی جلدی ایمرجنسی کا کام ھوتا ھے، کچھ نہ کچھ گڑبڑ ھو ھی جاتی ھے، ایک تو صبح صبح ٹیکسی بھی ملی تو بالکل کھٹارا، !!!!!!! پیچھے سے لیڈیز بھی ھنسنا شروع ھوجاتی تھیں، جب ٹیکسی ڈرائیور اسٹارٹ کرنے کی کوشش کرتا،،!!!!!ان کی ھنسی سن کر بھی مجھے غصہ آرھا تھا، لیکن میں خاموش ھی رھا، کہ کہیں ایسا نہ ھو کہ دولہا میاں ھی بدک نہ جائیں،!!!!!!

    خدا خدا کرکے ٹیکسی اسٹارٹ ھوئی اور خراماں خراماں چل پڑی، مگر اس ٹیکسی کے سارے پرزے ھل جل رھے تھے، اور اسکے ساتھ ھی ھم سب بھی۔!!!! راستے میں اکثر سڑک پر جگہ جگہ گڈھے تھے، اور دولہا میاں اپنی شادی کی فکر کرنے کے بجائے سرکار کا برا بھلا کہہ رھے تھے، خیر بڑی مشکل سے ھلتی ھلاتی ٹیکسی نے ھمیں اپنی مطلوبہ دکان تک پہنچا ھی دیا، لیکن اب یہ مشکل کہ ابھی تک بازار کھلا ھی نہیں تھا، جہاں تمام شادی کے جوڑوں سے لے کر ھر قسم کے ملبوسات او جوتیاں سینڈلیں بھی دستاب تھیں، اس کے علاوہ شادی سے ھی متعلق دوسری چیزیں بھی موجود تھیں،!!!!!! اب اس بازار میں بند دکانوں کو دیکھ کر تو دولہا میاں اور بھی گرم ھوگئے،،!!!!!" میں نے کہا بھی تھا کہ بعد میں چلتے ھیں لیکن میری بات کوئی سنتا ھی نہیں،"!!!!! میں کیا جواب دیتا میری بھی ایک مجبوری تھی، خاموش ھی رھا، دولہا میاں بڑبڑاتے ھی رھے، اور میں ایک دکان کے سامنے والے چبوترے پر بیٹھ گیا، لیکن شکر ھے کچھ دیر بعد آھستہ آھستہ دکانیں کھلنا شروع ھوگئیں،!!!!!!!

    فوراً ھی ایک دو دکانوں سے دولہا کے لئے جلدی جلدی انکی پسند سے ھی شیروانی، کلاہ اور تلے والی جوتی اور دوسری ضرورت کی چیزیں لیں، اور دوسروں کو بھی انکی خواھش کے مطابق اسی بازار سے خریدیں، وقت نکلتا جارھا تھا، شام 8 بجے نکاح کا وقت مقرر تھا، اور یہاں بازار میں ھی دن کا ایک بج چکا تھا، جلدی جلدی فوراً ھی ایک بڑی ٹیکسی پکڑی، اس میں بھی سب پھنس کر ھی بیٹھے تھے، جبکہ سارا سامان ڈگی میں ھی رکھوایا تھا اور واپس گھر روانہ ھوگئے، گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ دلہن کے گھر کے سامنے شامیانے والے اپنا ساز و سامان لے کر پہنچ چکے تھے، اور شامیانہ لگانے کا انتطام کررھے تھے، مجھے بھی کچھ اطمنان ھوگیا، میں نے دولہا میں سے کھا کہ کھانا کھا کر کچھ آرام کرلے اور شام کو اٹھ کر فوراً تیار ھو جائے، اسکا دوست جو میرے سالے صاحب بھی تھے اور جنکی شادی کل تھی وہ گھر پر پہنچے ھوئے ھمارا ھی انتظار کررھے تھے، ھم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور دولہا میاں تو آرام کرنے چلے گئے اور ھمارے سالے صاحب اجازت لے کر یہ کہتے ھوئے روانہ ھوگئے کہ،!!!!! میں شام کو اپنی کار سجا کر لے آوں گا، اور انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ کم از کم میرا انتظار تو کیا ھوتا بازار میں آپ سب کو لے جاتا، خیر شام کو میں کار کو سجاتا ھوا اور اپنے گھر ولوں کو بٹھا کر پہنچتا ھو اور اگر کوئی کام ھو تو مجھے کال کرلینا،!!!!!
    -------------------------------------------

    ھم سب نے مل کر کھانا کھایا، اور دولہا میاں تو آرام کرنے چلے گئے اور ھمارے سالے صاحب اجازت لے کر یہ کہتے ھوئے روانہ ھوگئے کہ،!!!!! میں شام کو اپنی کار سجا کر لے آوں گا، اور انہوں نے شکوہ بھی کیا کہ کم از کم میرا انتظار تو کیا ھوتا بازار میں آپ سب کو لے جاتا، خیر شام کو میں کار کو سجاتا ھوا اور اپنے گھر ولوں کو بٹھا کر پہنچتا ھو اور اگر کوئی کام ھو تو مجھے کال کرلینا،!!!!!

    میں نے بھی سونے کی کوشش کی، ڈرائنگ روم میں ایک بڑے صوفے پر نیم دراز ھو گیا، لیکن نیند کا کوسوں دور تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا، بس اگلے آنے والے لمحات کے بارے میں سوچتا ھی رھا، مجھے تو حیرانگی ھوئی کہ گھر پر بالکل سناٹا محسوس ھو رھا تھا، صرف والدہ کو ھی گھر میں دیکھا اور شاید برابر میں بیڈروم سے دولہے میاں کی خراٹوں کی آوازیں آرھی تھی،!!!! دیکھو کیسا بےفکر سو رھا ھے،!!!! میں نے دل میں ھی کہا، آنکھیں میں نے بند کی ھوئی تھیں، کہ اچانک میری اماں کچھ بڑبڑاتی ھوئی آئیں اور میرا سر اٹھا کر میرے سرھانے تکیہ رکھ رھی تھیں، اور اوپر سے ایک چادر بھی ڈال دی تھی،،!!!! باقی لڑکیوں اور انکی اماؤں کا پتہ ھی نہیں تھا، دو دن سے سب بہن بھائیوں اور انکے سارے بچوں نے گھر میں ڈیرا ڈالا ھوا تھا، ایک ھنگامہ تھا، لیکن اس وقت بالکل خاموشی تھی ،!!!!!
    میں نے لیٹے ھوئے ھی اماں سے کہا کہ،!!!!" یہ سب کہاں گئے، کوئی نظر نہیں آرھا ھے،"!!!!

    اماں نے بھی تھوڑی جذباتی ھوکر بولیں،!!!! کیا بتاؤں بیٹا ان سب کی خریداری ھی نہیں ختم ھوتی، صرف نکاح ھی تو ھے، بالکل ایسا لگتا ھے کہ یہ سب آج ھی ساری خریداری کرلیں گی، ساری کی ساری اپنی اپنی خریداری کرنے الگ الگ بازاروں می گئی ھوئیں ھیں، اب واپس آئیں گی تو پھر دوبارہ ساری کی ساری بیؤٹی پارلر کی طرف نکل لیں گی، سبجھ میں نہیں آتا کہ کیا ھوگا ان سب کو گھر کی کوئی فکر نہیں ھے، سارا یہاں کا کام بکھرا پڑا ھے، سب کام ایک دوسرے پر ڈال دیتی ھیں اور ساری کی ساری باھر نکل جاتی ھیں اور بار بار کبھی کسی چیز کے لئے کبھی کسی اور ضرورت کیلئے، اور سب کو پیسے دینے کیلئے میں ھی رہ گئی ھوں کیا،!!!!!

    اماں کی یہ جذباتی تقریر سن کر میں بھی خاموش ھوگیا، عورتوں کے مسائل ھیں اور شادی کا موقع ھے، کچھ کہہ بھی تو نہیں سکتے،!!!!!!!

    میں بھی تھوڑی سی عورتوں کے بارے میں انکی نفسیاتی تقاضوں کی تھوڑی سی تفصیل میں جاکر کچھ وضاحت کردوں، میری بھی بیٹیاں ھیں اور میں بھی انہیں دل و جان سے چاھتا ھوں، اور ان کی اور ھماری بیگم کی ھر فرمائش کو پورا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ھوں، اتنا میں اپنے بیٹوں کیلئے نہیں کرتا، حالانکہ آج کل کے لڑکے کسی لڑیوں کے شوق سے کم شوق نہیں رکھتے، وہ بھی چوری چھپے آج کل لمبے بال رکھوا کراسٹریٹ بال اور سیٹنگ کے لئے مہنگے والے ھیر کٹنگ سالون میں جاتے ھیں، اور بعض اوقات تو پیچھے سے پونی بھی بندھوا لیتے ھیں، اس کے علاوہ عورتوں کی طرح چہرے پر تھریڈنگ اور فشل کرواتے بھی دیکھا ھے،!!!!!

    یہ تو واقعی بالکل صحیح ھے، کہ خواتین کے بناؤ سنگھار کی وجہ سے ھی ھر تقریب کی رونقوں میں اضافہ ھوجاتا ھے، اور ویسے بھی عورتوں خاص کر لڑکیوں کو تو موقعہ ملنا چاھئے، ایسی تقریب میں چاھے وہ کتنی ھی بیمار کیوں نہ ھو فوراً ھی اٹھ کھڑی ھوتی ھیں، اور بس ان کا بناؤ سنگھار شروع، نئے نئے ڈیزائنوں کے کپڑوں جوتیوں سینڈلوں کی فرمائش، اب تو ایک خرچہ بیوٹی پارلر کا بھی بڑھ گیا ھے، اپنی آسانیوں کے لئے بے چارے شوھر نامدار کی شامت آجاتی ھے، اور پھر انہیں اپنی بیگم کی لاج بھی تو رکھنی ھوتی ھے، اور والدین بھی اپنی بیٹیوں کے لئے مجبور ھوجاتے ھیں ایسے موقعوں پر تو انکی فرمائشوں کو رد نہیں کرسکتے کیونکہ بیٹیاں تو لاڈلی اور معصوم ھوتی ھیں، اور میری بیٹیاں بھی ھیں، جن کا میں کوشش کرتا ھوں کہ ان کا ھر طرح سے اپنے بیٹوں کی بنسبت بہت ھی زیادہ خیال رکھوں،!!!!!

    اور آج کل کچھ لڑکیوں میں تو چھوڑیں ان کی اماؤں میں میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ھے، کہ وہ کسی بھی تقریب میں جاتی ھیں تو کبھی بھی اپنے لباس کے اسٹائل اور کلر کے متعلق کسی کو نہیں بتاتیں بالکل خفیہ رکھنا چاھتی ھیں، لیکن دوسروں کے لباس کے اسٹائل اور کلر جاننے کیلئے پریشان رھتی ھیں،!!!!!

    اری رخسانہ،!!!! تم نادیہ کی شادی میں کیا بنا رھی ھو،!!!!!!
    عاشی،!!!!!!!! کیا بتاؤں کچھ سمجھ میں نہیں آرھا، کیا بناؤں،؟؟؟ تم بتاؤ، اس دفعہ تم کیا بنا رھی ھو اور کس کلر کا انتخاب کیا ھے،!!!!!!
    جبکہ ان دونوں نے پہلے سے ھی جوڑے بنا کر تیار کئے ھوئے ھوتے ھیں لیکن پھر بھی دوسروں کے جوڑوں کے راز اگلوانے کے چکر میں رھتی ھیں،!!!

    اب شام ھونے والی تھی، گھر کے خاص مہمان بھی آنا شروع ھوگئے تھے، سب اپنے اپنے چکروں میں تھے، دولہا میاں کو بڑی مشکل سے اٹھایا تاکہ وہ تیار ھو جائے، ادھر عورتیں بچیاں ادھر ادھر بھاگی پھر رھی تھیں، اور بیٹھک میں اپنے اپنے وسائل کے ذریعے یعنی اپنے گھر کے مرد حضرات سے جو ڈرائنگ روم میں بیٹھے ھوئے تھے، ان کی جیبیں خالی کرارھی تھیں اور ھر کوئی شرما حضوری میں ایک دوسرے کے سامنے کچھ انکار بھی تھوڑی کرسکتا ھے، اور پھر انکی عزت کا بھی تو معاملہ ھے، سب مرد حضرات بھی اپنی جیبوں میں بینکوں سے پہلے ھی نئے کرارے نوٹ لے کر آئے ھوئے تھے، اور اسی وجہ سے سب عورتیں بچے بچیاں بھی فائدہ اٹھا رھی تھیں،!!!!
     
  25. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    اب شام ھونے والی تھی، گھر کے خاص مہمان بھی آنا شروع ھوگئے تھے، سب اپنے اپنے چکروں میں تھے، دولہا میاں کو بڑی مشکل سے اٹھایا تاکہ وہ تیار ھو جائے، ادھر عورتیں بچیاں ادھر ادھر بھاگی پھر رھی تھیں، اور بیٹھک میں اپنے اپنے وسائل کے ذریعے یعنی اپنے گھر کے مرد حضرات سے جو ڈرائنگ روم میں بیٹھے ھوئے تھے، ان کی جیبیں خالی کرارھی تھیں اور ھر کوئی شرما حضوری میں ایک دوسرے کے سامنے کچھ انکار بھی تھوڑی کرسکتا ھے، اور پھر انکی عزت کا بھی تو معاملہ ھے، سب مرد حضرات بھی اپنی جیبوں میں بینکوں سے پہلے ھی نئے کرارے نوٹ لے کر آئے ھوئے تھے، اور اسی وجہ سے سب عورتیں بچے بچیاں بھی فائدہ اٹھا رھی تھیں،!!!!

    میں نے بھی اپنے تمام بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور سالے سالیوں کی رونقیں خوب دیکھی ھیں، اپنی شادی کے ھنگامے بھی دیکھے، اب اپنے بچوں کی شادیاں دیکھ رھا ھوں، بچپن میں بھی والدین کے ساتھ شادیوں میں شرکت کرنے جاتے تھے، بچپن کے وقت کی شادیوں میں بھی خوب گھما گھمی ھوتی تھی، لیکن اگر اس وقت کا موازنہ آج کل کی شادیوں سے کرایا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر اتا ھے،!!!!!

    آج کل کی تقریبات میں رسومات کو ھم سب نے اتنا بڑھا دیا ھے، کہ غریب آدمی اور اوسط طبقے کے لوگوں کے لئے اتنے اخراجات کا بوجھ برداشت سے باھر ھے، مگر اسے تو اپنی بیٹی یا بہن کو کسی بھی حال میں رخصت کرنا ھی ھے، چاھے اسے اپنے آپ کو ھی کیوں نہ بیچنا پڑے، جہیز کی لعنت ابھی تک ختم نہیں ھوئی ھے اس کے علاوہ ھر رسومات کے لئے گھر میں سب کے لئے الگ الگ جوڑے چاھئے، ایک مایوں کا جوڑا، مہندیوں کے دو دو جوڑے، نکاح اور ولیمہ کیلئے اسپشل جوڑے، اور اوپر سے نت نئے فیشن نے اور ھی مشکل میں ڈال دیا ھے، بعض اوقات تو ایک ھی وقت کیلئے تین سے زیادہ جوڑے تیار ھونے لگے ھیں، اس کے ساتھ میچ کرنے والی جوتیاں چوڑیاں، گھر میں ھر خاتون ھر بچی کو چاھئے، اس کے علاوہ اب تو ھر علاقے، ھر محلے، ھر گلیوں میں بیوٹی پارلرز کھل گئے ھیں، اور مشہور بیوٹی پارلرز میں پہلے سے ھی بکنگ کرانی پڑتی ھے، اور اب تو شادی ھالوں کا بھی فخریہ طور سے مقابلہ ھوتا ھے، شادی کی تاریخ بھی ھال کی بکنگ کے مطابق رکھی جاتی ھے، اور کیٹرنگ میں آج کل 15 سے لے کر 20 قسم کے کھانوں کے لوازمات کے علاوہ 10 قسم کے کم سے کم سلاد کے مختلف ذائقے بھی جب تک نہ ھوں تو شادی میں لوگوں کو مزا نہیں آتا، اس کے ساتھ میٹھے میں مختلف 5 قسم کی ڈشیں الگ سے اور آیسکریم ، قلفی، چائے، ٹھنڈی بوتلیں اور ساتھ مختلف ذائقوں میں کتھا چونا لگے ھوئے میٹھے خوشبودار اور تمباکو کے پانوں کا ھونا بھی لازمی ھے، اور لوگ آج بھی بہت ھی فخریہ انداز میں یہ سب کچھ اھتمام بڑے جوش و خروش سے کرتے ھیں، ایک چیز تو میں بتانا بھول ھی گیا، اب تو بہت مہنگی مہنگی آتش بازی کا بھی بالخصوص انتطام کیا جاتا ھے، اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ ھم لوگ کس ڈگر کی طرف جارھے ھیں، اس مہنگائی کے عالم میں بھی یہی حال ھے، کوئی بھی شادی حال کی بکنگ کے لئے نزدیکی تاریخ بہت ھی مشکل سے ملتی ھے، اور ایک ھی ھال کے مختلف طریقوں سے سجانے کے مختلف مہنگے سے مہنگے ریٹ بھی ھیں،!!!!!!!!!!!!

    پہلے تو ھمارے وقت میں گھر کے سامنے ھی ایک ٹینٹ لگا دیا جاتا تھا، جس کے دوحصے قناتوں کے ذریعے کردئے جاتے تھے، اسکے اندر ھی ایک حصہ میں سامنے ایک دو تخت پر دریاں بچھا کر اسٹیج بنادیا جاتا تھا، سامنے کرسیاں مہمانوں کے لئے لگا دی جاتی تھیں، اور دوسرے حصہ کی طرف برابر میں ایک ٹینٹ کھانے کیلئے جو وہیں پر ساتھ ھی باورچیوں کو بلا کر تیار کرایا جاتا تھا ، اور اس وقت قورمہ، بریانی، روٹی یا تافتان کے ساتھ کوئی میٹھی ڈش زردہ یا کھیر ھوا کرتی تھی، میرے وقت میں تو اسٹیج پر صرف دریاں بچھا کر شاید اس پر ایک کارپٹ بچھا دیا تھا، بس اسی پر ھم دولہا بنے دوستوں کے ساتھ سہرا باندھے بیٹھے تھے،!!!!!!

    ھاں تو بات ھو رھی تھی اپنے بھائی کے نکاح کی تقریب کی، مارچ 2001 کے آخری تاریخوں میں سے جمعہ کا مبارک دن تھا، خوب گھر میں گھما گھمی لگی ھوئی تھی، شام کے 6 بج چکے تھے، اور ابھی تک دولہا میاں تیار بھی نہیں ھوئے تھے، اس کے علاوہ گھر کی مستورات نہ جانے ادھر ادھر کیوں بھاگتی دوڑتی پھر رھی تھی، لیکن ابھی تک مجھے کوئی بھی تیار نظر نہیں آرھا تھا، کچھ خواتین تو بیوٹی پارلرز کی طرف جاچکی تھیں، مجھے نہ جانے خوامخواہ ذہن پر ٹینشن کیوں سوار تھی، میں بار بار سب کو جلد تیار ھونے کی تلقین کررھا تھا، لکین کوئی اس شور شرابے میں میری آواز پر کان دھرتا ھی نہیں تھا،!!!!!!

    نکاح کا وقت دلہن والوں نے شام کے ساڑے سات بجے کا دیا تھا، اور اب رات کے 9 بجنے والے تھے، ادھر میں اس تاخیر کی وجہ سے پریشان تھا اور دوسری طرف دلہن کے ابا جان ھمارے گھر کے بار بار چکر لگا رھے تھے، کیونکہ دوسری گلی کے کونے پر انکا ھی گھر تھا اور اسکے سامنے ھی ایک اچھا خاصہ خوبصورت سجا ھوا شامیانہ رنگ برنگی لائیٹوں میں گھرا ھوا جگ مگا رھا تھا اور داخلے کیلئے خوبصورت گیٹ بھی تیار کیا ھوا تھا جہاں میں نے اپنے گھر کی دوسری منزل کی کھڑکی سے جھانک کر بھی دیکھا کہ لوگ باھر کھڑے بارات کا انتظار کررھے تھے، دولہے میاں کی کار بھی ھمارے گیٹ کے پاس سجی سجائی کھڑی تھی، میرے شور کرنے کے باوجود بھی دولہا میاں بہت مشکل سے تیار ھوئے، شیروانی اور کلاہ سر پر باندھے ھوئے تلے دار جوتی پیروں میں میرا بھائی کیا خوبصورت لگ رھا تھا، موسم تو خوشگوار ھی تھا، لیکن اسکے پسینے چھوٹ رھے تھے،!!!!!!!

    میں نے دیکھا کہ اب بھی عورتوں کی تیاری مکمل نہیں تھیں، میں نے والدہ اور بیگم سے کہا کہ،!!!!!! " بھئی جو جو بھی تیار ھچکا ھے وہ دولہے کے ساتھ فوراً لڑکی والوں کے گھر چلے اس سے زیادہ مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا، 10 بج چکے تھے، وہاں سے اب تو پیغامات بھی آنے شروع ھوگئے، قاضی صاحب تو تین دفعہ آکر واپس جاچکے تھے، میں نے دولہے میاں کو اشارہ کیا بس وہ فوراً ھی اپنی بہنوں کے ساتھ ایک دوپٹے کو جو ھماری بہنوں اور اسکی بھابھیوں نے چاروں طرف سے پکڑا ھوا تھا، اسکے سائے میں گھر سے باھر نکلے، اور کار میں بٹھا دیا، اس کا دوست ھی اسٹیرنگ پر ھی بیٹھا تھا، کچھ دولہا کے ساتھ بیٹھ گئے، بس دو قدم پر تو ھی جانا تھا، میں بھی کار کے پیچھے پیدل ھی چل دیا، جو جو تیار ھوگئے تھے کار کے ساتھ پیدل شامیانے کے گیٹ پر آخر پہنچ ھی گئے، گیٹ پر شاید دلہن کی بھائیوں نے دولہا میاں کو کار سے اترنے نہیں دیا، شاید کوئی رقم کا مطالبہ تھا جو ایک رسم ھوا کرتی تھی، مگر مجھے بہت ھی غصہ آرھا تھا، کیونکہ تاخیر پر تاخیر ھوتی چلی جارھی تھی،!!!!!

    بڑی مشکل سے دولہا میاں کار سے کچھ دے دلا کر اترے اور سب کی جھرمٹ میں شامیانے کے اندر داخل ھوئے وہاں پر دلہن والوں نے گلاب کی پتیاں نچھاور کرکے سب کا استقبال کیا، اور میں بھی دولہا کے پیچھے پیچھے اسٹیج تک پہنچ گیا،!!!! پھر تو قاضی صاحب کی ڈھنڈائی مچ گئی، انہیں نہ جانے کہاں سے وہ لوگ ڈھونڈ کر لے ھی آئے، انہوں نے اپنے رجسٹر میں رکھے ھوئے نکاح کے دستاویزات پر دولہا دلہن کے سارے کوائف پوچھ پوچھ کر لکھے اور پھر ان کاغذات کے ساتھ ھی دلہن کی طرف سے وکیل اور گواھان کو دلہن کے گھر کے اندر بھیج دیا تاکہ دلہن کی رضامندی لے سکیں،!!!!!

    کچھ دیر بعد ھی دلہن کی رضامندی کے بعد قاضی صاحب نے دوبارہ تمام نکاح کے فارم کی تصدیق کی، اسکے بعد نکاح پڑھانا شروع ھوگئے، اور پھر دولہا میاں سے اقرار کروایا، آخر میں دولہا میں کی قبولیت کے بعد دعاء پڑھی گئی، اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ھو گیا، سب ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دے رھے تھے، اور میں اللٌہ تعالٰی کا دل میں بہت شکر ادا کررھا تھا، کہ مجھے اس ذمہ داری سے بہت ھی خوش اسلوبی اور عزت سے فارغ کیا، اس شادی کیلئے مخالفین تو آخر تک کوشش میں لگے رھے کہ یہ نکاح کسی صورت میں نہ ھو، دلہن والوں کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور ھمارے گھر میں بھی اس نکاح کو رکوانے کیلئے حتی الامکان پوری کوشش کی گئ لیکن میرا ایمان ھے جس کام میں نیک نیتی اور خلوص شامل ھو اس کام میں اللٌہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ھے، اور اس پات کا بھی مکمل یقین ھے کہ جوڑے پہلے سے ھی اوپر بنا دیئے جاتے ھیں، اور ویسے بھی جب دولہا دلہن راضی تو کیا کرے گا قاضی،!!!!!!!!
    --------------------------------------------------------
    کچھ دیر بعد ھی دلہن کی رضامندی کے بعد قاضی صاحب نے دوبارہ تمام نکاح کے فارم کی تصدیق کی، اسکے بعد نکاح پڑھانا شروع ھوگئے، اور پھر دولہا میاں سے اقرار کروایا، آخر میں دولہا میں کی قبولیت کے بعد دعاء پڑھی گئی، اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ھو گیا، سب ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دے رھے تھے، اور میں اللٌہ تعالٰی کا دل میں بہت شکر ادا کررھا تھا، کہ مجھے اس ذمہ داری سے بہت ھی خوش اسلوبی اور عزت سے فارغ کیا، اس شادی کیلئے مخالفین تو آخر تک کوشش میں لگے رھے کہ یہ نکاح کسی صورت میں نہ ھو، دلہن والوں کو بھی بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور ھمارے گھر میں بھی اس نکاح کو رکوانے کیلئے حتی الامکان پوری کوشش کی گئ لیکن میرا ایمان ھے جس کام میں نیک نیتی اور خلوص شامل ھو اس کام میں اللٌہ تعالیٰ ضرور مدد کرتا ھے، اور اس پات کا بھی مکمل یقین ھے کہ جوڑے پہلے سے ھی اوپر بنا دیئے جاتے ھیں، اور ویسے بھی جب دولہا دلہن راضی تو کیا کرے گا قاضی،!!!!!!!!

    مبارکبادوں کے ساتھ ساتھ سب لوگوں میں چھوارے بھی بانٹے جارھے تھے، اور میں بھی انتظار کررھا تھا کہ میں بھی اپنے بھائی کو مبارکباد دے ھی دوں، کیونکہ یہ مہم بھی جو کہ بہت مشکل نظر آرھی تھی، وہ خدا خدا کرکے کامیاب ھو ھی گئی، کچھ حضرات کو یہ توقع ھی نہیں تھی کہ آج کہ آج ھی سب کچھ ھوجائے گا، بعد میں بہت شور اٹھا، کافی چہ میگوئیاں ھوئیں، لیکن اب کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، آخر تقریباً سب لوگ ھمارے بھیاء سے گلے مل کر فارغ ھوگئے، تو ھم جناب نے بھی اپنے بھائی کی طرف قدم بڑھایا اور خوب زور سے اسے گلے لگایا، اور مبارکباد دی، اس کی آنکھیں بھی پرنم تھیں اور شکریہ ادا کررھی تھیں،!!!!!

    اب کھانے کا دور شروع ھوا، چھت پر بہت ھی بہترین انتظام تھا مجھے بھوک تو نہین لگ رھی تھی، یہ نکاح ھوگیا تو اسی خوشی میں بھوک سمجھیں کہ ختم ھی ھو گئی تھی، چھت پر بھی میں سب سے مل رھا تھا، اور مبارکبادیں وصول کررھا تھا، دلہن والوں سے میری اتنی زیادہ واقفیت نہیں تھی، دلہن کے بھائی ھی میرا تعارف اپنے رشتہ داروں سے کرارھے تھے، دلہن کے والد بھی بار بار مجھے بھول ھی جاتے تھے، ایک تو شاید ضعیفی کی وجہ تھی اور وہ بہت ھی سیدھے سادھے انسان تھے، مجھ سے کئی دفعہ ان کا ٹکراؤ ھوا، پہچاننے کی کوشش کرتے اور پھر بھول جاتے، مجھے بھی شرمندگی ھوتی، وہ اپنے رشتہ داروں سے بھی پوچھتے رھتے کہ وہ صاحب کون ھیں، زیادہ تر لوگ مجھے جانتے نہیں تھے، جب وہ میرے پاس آتے تو میں خود ھی اپنا تعارف کرادیتا تھا، آخر کھانے سے فارغ ھونے کے بعد میری پھر ان سے ملاقات ھوگئی، میں نے کھانے اور سارے انتظامات کی بہت تعریف کی، تو انہوں نے مجھ سے پوچھا، !!!!!" میں نے آپ کو کہیں دیکھا ھے، میں آپ کا نام بھول سا گیا ھوں کیا آپ اپنا تعارف کرانا پسند کریں گے"،؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اب بھی اکثر کسی بھی تقریب میں ملتے ھیں تو وہ مجھے بھول جاتے ھیں، میں سمجھتا تھا کہ شاید میرے ساتھ ھی ایسا ھوتا ھے، لیکن اُن کی ضعیفی کی وجہ سے یاداشت بہت کمزور تھی، میں ان کی اب بھی بہت عزت کرتا ھوں، کسی بھی تقریب ملاقات ھوجاتی ھے، تو کافی ان سے گفت شنید ھوتی ھے، لکن آخر میں مجھے خود ھی اپنا تعارف کرانا پڑتا ھے، وہ بہت ھی سادہ لوح خوبصورت دل کے مالک ھیں، میرے والد بھی آخری دنوں میں عمر سے پہلے ھی کافی ضعیف ھوگئے تھے، اور کبھی کبھی بہکی بہکی باتیں بھی کرتے تھے، لیکن میں اپنی پوری کوشش کرتا تھا کہ میں انہیں کافی وقت دوں، وہ مجھے یاد ھے کہ اگر میں باھر ھوتا تھا، اور اگر رات زیادہ ھو جاتی تھی، تو مین گیٹ کے باھر ھی ایک چبوترے پر بیٹھے میرا انتظار کرتے ھے، اور کیونکہ میں ھی ان کی ساتھ ان کی ھر گفت و شنید میں حصہ لیتا تھا، اور ھمیشہ چاھتا تھا کہ چاھے انہوں نے مجھ سے میرے خلاف ھی کیوں نہ بات کی ھو میں انہیں اس طرح غلط لہجے میں کبھی بھی جواب نہیں دیتا تھا،!!!! یہ ھمارے بزرگ جو بھی ھوں والدین کے علاوہ بھی، ھمیں ان کے ساتھ ھمیشہ عزت، خلوص اخلاقی اور ادب آداب عاجزی اور انکساری سے پیش آنا چاھئے، ان بزرگوں کی دل سے نکلی ھوئی دعائیں ھی اللٌہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پہلے قبول ھوتی ھیں،!!!!!!!

    کھانے وغیرہ سے فارغ ھوئے تو پھر واپس سب لوگ پنڈال میں پہنچ گئے، اب وہاں پر رسومات شروع ھوگئے، سجی سجائی چمکیلے، زرق برق، لباس میں ملبوس دلہن کو دولہا کے ساتھ بٹھایا گیا، اور عورتوں نے ان دونوں کو گھیر کر اپنی رسومات کو شروع کردیا، پھر اس کے بعد گروپ تصویروں کا دور شروع ھوا، ساتھ ساتھ مووی بھی بن رھی تھی، جب سب تمام رسومات اور گروپ فوٹوں سے فارغ ھوئے تو اب سب سوچنے لگے کہ کیا کریں، رخصتی تو ھونی نہیں تھی، دلہن کو اسکے گھر والے پکڑ کر وہاں اسٹیج سے لے گئے، دولہا میاں تو شرم حضوری میں اسے دیکھ بھی نہیں سکے، سب لوگ دولہا میاں کا مذاق اڑانے لگے، لو بھائی دلہن تو تمھارے ھاتھ سے نکل گئی،!!!!! میں نے بی اپنے بھیاء دولہا میاں سے کہا کہ،!!!! "جناب آپ کی دلہن تو گئی، آپ بھی شرافت سے اسٹیج سے نیچے اتر آئیں، اب وہ واپس نہیں آتی آپ تو ایسے بیٹھے ھیں کہ جیسے دلہن کو گھر ھی لے کر جائیں گے، اب میرا کام تو پورا ھوگیا اب تمھیں جب فرصت ھو تو رخصتی کرواکر دلہن کو اپنے گھر لے جانا،!!!!!!!!

    بےچارے دولہا میاں اور کیا کرتے، شامیانے کی لائیٹیں اب آہستہ آہستہ بجھ رھی تھیں، لائیٹنگ اور شامیانے والے اپنا اپنا سامان سمیٹ رھے تھے، دولہے میاں کے دوست نے دولہے کا ھاتھ پکڑتے ھوئے اسٹیج سے اتارا اور اپنے گھر کی طرف پیدل پیدل، خراماں خراماں روانہ ھوگئے دو قدم پر تو گھر تھا، کار بھی سجی سجائی کھڑی تھی، اسکے دوست نے کہا کہ چلو تمہیں کار میں چھوڑ دوں، وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مذاق کررھے تھے، لگتا تھا کہ جیسے یہ نکاح وغیرہ کچھ بھی نہیں ھوا ھو، پگڑی تو پہلے ھی اتاردی تھی، اور گھر آتے ھی شیروانی بھی اتر چکی تھی بس اب دولہا میں ایک سفید کرتے شلوار میں ایک عام لڑکوں کی طرح نظر آرھے تھے، اور ایک نے پیچھے سے آواز لگائی،!!!!!!! بڑے شرمندہ ھو کر دولہا میاں بغیر دلہن کے گھر پہنچے،!!!!!!!!!!!!!!
     
  26. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    بےچارے دولہا میاں اور کیا کرتے، شامیانے کی لائیٹیں اب آہستہ آہستہ بجھ رھی تھیں، لائیٹنگ اور شامیانے والے اپنا اپنا سامان سمیٹ رھے تھے، دولہے میاں کے دوست نے دولہے کا ھاتھ پکڑتے ھوئے اسٹیج سے اتارا اور اپنے گھر کی طرف پیدل پیدل، خراماں خراماں روانہ ھوگئے دو قدم پر تو گھر تھا، کار بھی سجی سجائی کھڑی تھی، اسکے دوست نے کہا کہ چلو تمہیں کار میں چھوڑ دوں، وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مذاق کررھے تھے، لگتا تھا کہ جیسے یہ نکاح وغیرہ کچھ بھی نہیں ھوا ھو، پگڑی تو پہلے ھی اتاردی تھی، اور گھر آتے ھی شیروانی بھی اتر چکی تھی بس اب دولہا میں ایک سفید کرتے شلوار میں ایک عام لڑکوں کی طرح نظر آرھے تھے، اور ایک نے پیچھے سے آواز لگائی،!!!!!!! بڑے شرمندہ ھو کر دولہا میاں بغیر دلہن کے گھر پہنچے،!!!!!!!!!!!!!!

    میری چھٹیاں ختم ھونے کے قریب تھیں، میں بھی اپنے اس بھائی کی شادی کے خاص مہم کی ذمہ داری سے فارغ ھوچکا تھا، بس اب مجھے فکر تھی تو ان صاحبزادے کی تھی، جو وہاں پر بیٹھے میرے خلاف کیا کیا گل کھلا رھے تھے، جنہیں میں سعودیہ بلا کر اپنے لئے کئی مصیبتیں کھڑا کرچکا تھا، اب چونکہ جیسے ھی میں نے سنا کہ میرا ریاض تبادلہ ھونے والا ھے تو مجھے بہت خوشی ھوئی، کیونکہ وہاں میرا اس سے واسطہ ھی نہیں رھے گا، وہ جو چاھے مرضی کرے، وہ جانے اور میرے پڑوسی جانے، آپس میں ویسے بھی رشتہ دار تھے، قریباً تین مہینے بچوں کے ساتھ رھتے ھوئے پھر دوبارہ واپس جانے کو دل نہیں کررھا تھا، لیکن کیا کریں مجبوری تھی، سب جو پیسے جمع پونجی تھی آخر ختم ھو چکی تھی، کہیں اور ملازمت کو دل بھی نہیں چاہ رھا تھا، حالانکہ ایک دو جگہ مجھے کسی کے توسط سے چانس بھی ملا لیکن میں نے انکار کردیا تھا،!!!!!!

    آخر پھر وہی دن اگیا جس دن مجھے ائرپورٹ روانہ ھونا تھا، سب سے مل ملا کر ائرپورٹ کے اندر تمام ضروری کاروائی سے فارغ ھو کر انتظار گاہ میں پہنچے، اب تو ایک معمول کی ایک عادت سی بن گئی تھی، کچھ محسوس ھی نہیں ھوتا تھا، جدہ ائرپورٹ پر پہلے ھی میرا ایک وفادار شاگرد گاڑی لے کر پہنچا ھوا تھا، اس نے واقعی آخر تک ھمیشہ میرا ساتھ دیا، راستے بھر اس نے دفتر کی تمام صورت حال بتادی، اور مبارکباد بھی دی اور کہا کہ،!!!!!! آپ کو ریاض ترقی دے کر بھیجا جارھا ھے، لیکن آپ کے جانے سے کچھ لوگ خوش بھی نہیں ھیں، ویسے اکثریت میں ایسے بھی ھیں جو آپکے جانے سے بہت سے ساتھی دکھی اور غم زدہ ھیں، کیونکہ وہ آپ کے شاگرد بھی ھیں، لیکن آپ کی ترقی کی وجہ سے بہت خوش ھیں، ویسے بھی آبکا یہاں سے جانا بھی اپکے لئے بہتر ھو گا، وہاں پر بھی نئی جگہ پر نئے ساتھی ھونگے، وہاں پر بھی وہ آپکی تدریب اور کام سکھانے کیلئے سب آپ کی مدد کے منتظر ھونگے، جس طرح آپنے یہاں اپنے شاگرد بنائے ھیں، وہاں نئے شاگرد بنائیں گے، !!!!!!!!

    یہ کہتے ھوئے اس کی آواز بھرا گئی، اور آنکھیں بھی اشک بار ھوگئیں،!!!!! میں نے اس کو جواباً یہی کہا کہ،!!!!" دیکھو یہ تو میرا فرض ھے، جہاں کہیں بھی ھم ھوں، یہ ھمارا فرض بنتا ھے کہ بغیر کسی لالچ یا معاوضہ کہ اپنا علم دوسروں تک پہنچائیں، اور میں نے اپنا فرض پورا کیا ھے،!!!!!
    مگر استاد جی،!!!! کئی لوگ یہاں پر آپ سے ھی سیکھ کر آپکے خلاف مہم میں شریک بھی تو ھو جاتے ھیں،،!!!!!! میں نے کہا کہ، !!!!!!! مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاھے وہ میری عزت کریں یا نہ کریں، میں تو اپنا ایک مقصد لے کر چل رھا ھوں، کہ جو کچھ بھی میرے پاس علم ھے، میں دوسروں تک پہنچاؤں اور سکھاؤں، اگر کوئی صدق دل سے سیکھے گا تو اسی کا فائدہ ھوگا، اس میں میرا کوئی بھی عمل دخل نہیں ھے،، مجھے خوشی ھوگی کہ کوئی میرا شاگرد کسی اچھی پوسٹ پر بیٹھا ھوا ھے، اور بس یہی میرا انعام ھے،!!!!!!

    یہی ھم باتیں کرتے ھوئے اپنے گھر پہنچ گئے، شام ھوچکی تھی وہ بازار گیا اور ھم دونوں کے لئے کھانا لے آیا، دونوں نے مل کر کھانا کھایا، پھر کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد وہ چلا گیا، میں بھی بستر میں لیٹا کوشش کررھا تھا کہ کسی طرح نیند آجائے اور صبح صبح دفتر تروتازہ ھو کر پہنچ جاؤں، لیکن نیند تو کوسوں دور تھی، شاید کافی دیر بعد نیند آئی ھوگی، صبح اٹھا اور تیار ھو کر سیدھا دفتر کے لئے پیدل ھی نکل گیا، دفتر بھی نذدیک ھی تھا، وہاں پہنچتے ھی لوگوں نے مبارکبادیں دینا شروع کردیں اور اسی طرح سارا دن تو ملنے ملانے میں ھی نکل گیا، اسی دوران اپنے استاد محترم سے ملا، انہوں نے بھی مجھے گرم جوشی سے مبارکباد دی، اور یہی کہا کہ،!!!!! مجھے امید ھے کہ وہاں جاکر میرا نام روشن ضرور کروگے،!!!!!!، میں نے یہی جواب دیا کہ،!!!!! آج میں جو بھی ھو اور جس قابل ھوں یہ سب آپ کی وجہ سے ھی ھے، میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا ھے اس میں زیادہ تر آپ سے ھی سیکھا ھے، میرے اوپر اللٌہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم رھا ھے، کہ اب مجھے یہ موقع مل رھا ھے کہ میں آپ کی طرح ھی اپنے شاگردوں میں اضافہ کررھا ھوں،!!!!!!!!

    وہ صاحبزادے بھی جو ھمارے پڑوسی کے ھونے والے داماد ھیں، وہ بھی آئے اور ھاتھ ملا کر چل دئے کوئی خاص بات نہیں ھوئی اور نہ ھی میں اس سے کوئی مزید تفصیل میں جانے کی کوشش کی، اسے تو خود پتہ ھی تھا کہ اس نے کیا گل کھلائے تھے، اس لئے وہ شرمندگی کے مارے ھی شاید میرے پاس نہیں ٹھرا اور نہ ھی اپنے بھائی کو ریاض میں بھرتی کیلئے مجھ سے کوئی بات کی، اور ویسے بھی بھرتی کرنے کی ذمہ داری میری نہیں تھی، میں سفارش تو کرسکتا تھا، لیکن میں ایک کی ھی سفارش کرکے پچھتا رھا تھا، پھر اسی کے بھائی کیلئے میرے لئے تو بہت مشکل تھا، پاکستان تو میری بھانجے اور سالی نے اپنے شوھر کیلئے کافی دنوں سے کہہ رکھا ھوا تھا، لیکن ان کو بھی میں یہاں بلانے کے حق میں نہیں تھا، کیونکہ یہاں کی مشکات کو تو میں جانتا ھوں کہ شروع میں بہت ھی پریشانی ھوتی ھے، مگر لوگ نہیں سمجھتے تھے،!!!!!!!!

    پاکستان میں ریاض کی برانچ کیلئے بھرتی کرنے والی ٹیم پہنچی ھوئی تھی، اور پہلے سے ھی لوگوں کو ریاض کیلئے جو انٹرویو میں کامیاب ھوئے تھے، ان کا انتخاب کرلیا گیا تھا، اور یہ میرے لئے بہتر بھی تھا کہ بلا امتیاز ھر ایک ساتھ اپنا ایک بہترین پرخلوص برتاؤ اور سلوک رکھ سکتا تھا، چاھے وہ کسی بھی شہر یا علاقے کے ھی کیوں نہ ھوں، بس میرے لئے سب کا پاکستانی ھونا ھی فخر کی بات تھی،!!!!!!!!!!

    مجھے میرے ڈپارٹمنٹ کے انتخاب شدہ اسٹاف کی مکمل لسٹ بمعہ ان کی تعلیم اور تجربے کے ساتھ مل چکی تھی، تین مہینے کے اندر اندر تمام لوگوں کا اس ریاض کی برانچ میں پہنچنا ضروری تھا، کیونکہ اس کا باقائدہ افتتاح اگست یا ستمبر کے مہینے کے اندر اندر ھونا بھی تھا، جدہ میں ھی میرے ڈپارٹمنٹ کے دو انتخاب شدہ اسٹاف کو بلالیا گیا، اور یہاں جدہ میں جو میں ٹریننگ دے سکتا تھا، وہاں میں نے انہیں ان کے کام کے متعلق کام کی تفصیل سمجھا دی تھی، تاکہ وہاں پر انہیں دوسرے آنے والوں کو کام کے بارے میں متعارف کرانے میں کوئی پریشانی نہ ھو، میں‌نے اپنے ڈپارٹمنٹ کو دو حصوں میں بانٹ کر ان دونوں کو تلقین کردی تھی کہ یہ دونوں اپنے اپنے سیکشن کو آگے لے کر چلیں، باقی میں تو وہیں پر ھی ھو نگا اور ھمارے استاد محترم بھی وہاں پر چکر لگاتے رھیں گے،!!!!!!!

    آخر وہ دن بھی آن پہنچا، جولائی کے مہینے کی 26 تاریخ کو ھمیں ریاض کیلئے روانہ ھونا تھا، وہاں ھمارے پہنچنے سے پہلے ھی ھماری عارضی رھائش کا انتظام ھو چکا تھا، جدہ سے بھی بڑھ کر بہت ھی خوبصورت اسپتال کی ایک بلڈنگ کو دیکھ کر دل بہت خوش ھوا، اندر جاکر بھی دیکھا وہاں پر صفائی پر زور تھا، اور باقی کچھ تزین و آرائش کام کا بھی آخری دور چل رھا تھا، ھم نے بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی صفائی اور ستھرائی کرائی، وہاں پر اہستہ آہستہ تمام منتخب شدہ اسٹاف آنا شروع ھوگیا، شروع شروع کام کو ایک نئی جگہ جمانا بہت ھی مشکل ھوتا ھے، لیکن وقت کے ساتھ سب اس کے عادی ھوجاتے ھیں، میرے ساتھ بہت اچھی ٹیم اور خوشی کی بات تھی کہ سب پاکستانی بھی تھے، جبکہ دوسرے ڈپارٹمنٹز میں مختلف قومیت کے لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ تھی، جس میں مصری، فلیپائین انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لوگ نمایاں تھے،!!!!!!

    -------------------------

    آخر وہ دن بھی آن پہنچا، جولائی کے مہینے کی 26 تاریخ کو ھمیں ریاض کیلئے روانہ ھونا تھا، وہاں ھمارے پہنچنے سے پہلے ھی ھماری عارضی رھائش کا انتظام ھو چکا تھا، جدہ سے بھی بڑھ کر بہت ھی خوبصورت اسپتال کی ایک بلڈنگ کو دیکھ کر دل بہت خوش ھوا، اندر جاکر بھی دیکھا وہاں پر صفائی پر زور تھا، اور باقی کچھ تزین و آرائش کام کا بھی آخری دور چل رھا تھا، ھم نے بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی صفائی اور ستھرائی کرائی، وہاں پر اہستہ آہستہ تمام منتخب شدہ اسٹاف آنا شروع ھوگیا، شروع شروع کام کو ایک نئی جگہ جمانا بہت ھی مشکل ھوتا ھے، لیکن وقت کے ساتھ سب اس کے عادی ھوجاتے ھیں، میرے ساتھ بہت اچھی ٹیم اور خوشی کی بات تھی کہ سب پاکستانی بھی تھے، جبکہ دوسرے ڈپارٹمنٹز میں مختلف قومیت کے لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ تھی، جس میں مصری، فلیپائین انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لوگ نمایاں تھے،!!!!!!

    ریاص یہ وہی شہر ھے، جہاں میں سب سے پہلے 1978 مئی کے مہینے میں آیا تھا، جس وقت میری عمر تقریباً 28 برس کی ھوگی، اور شادی بھی نہیں ھوئی تھی، اب جولائی کا مہینہ سال 2001 میں دوبارہ 51 سال کی عمر میں اسی شہر میں موجود اپنی پرانی یادوں کو لئے ھوئے پہنچ گیا، یہ کیسی حیرانگی کی بات ھے کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ھوتا، یہی شہر ریاض‌، اس وقت 1978 میں بہت چھوٹا تھا، جہاں چھوٹی چھوٹی سڑکیں اور عام سے بازار ھوا کرتے تھے، جہاں پر اونٹ گاڑیاں اور خچر اور گھوڑا گاڑیاں نظر آتی تھیں، ھاں البتہ اس وقت کچھ بڑے ماڈرن بازار بھی تھے جہاں پر زیادہ تر پرنس اور شاھی خاندان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بازاروں میں رولس رائس ، مرسیڈیس، اور دوسری بڑی بڑی امریکن گاڑیاں بھی نظر آتی تھیں، اور اب تو بالکل ھی نقشہ ھی بدلا ھوا تھا، جہاں خوبصورت ترین بڑی بڑی شاندار بلڈنگوں، بڑے بڑے فلائی اوور، اور انڈرپاس پلوں کی ان گنت تعداد، بڑی بڑی سپر مارکیٹوں، خوبصورت تفریحی فیملی پارک، وسیع ترین شاراھیں اور ٹریفک کی بھر مار نظر آتی ھے، اب تو پارکنگ کا بھی مسئلہ رھتا ھے، اکثر شاھراھوں پر فری سگنل کے باوجود ٹریفک جام ھی رھتا ھے، کیونکہ ھر گھر میں جتنے افراد ھیں اتنی ھی گاڑیاں بھی موجود ھیں، یہ شہر یہاں کا دارالحکومت بھی ھے، بہت بڑا شہر ھے، اگر گرمی زیادہ نہ پڑے تو یورپ کے کسی بڑے شہر سے کم بھی نہیں ھے، یہاں سردی بھی بہت زیادہ ھوتی ھے، مگر بارش کبھی سال میں ایک بار اگر موڈ ھو تو ھو جاتی ھے ورنہ یہاں تو بارش کو دیکھنے کے لئے ترس جاتے ھیں،!!!!!!

    یہاں پر قانوناً ھر عورت اور جوان بچیوں کے لئے لازم ھے کہ وہ بازار میں ھوٹل گھر ریسٹورانٹ میں یا کہیں پر بھی صرف اپنے محرم کے ساتھ ھی آ جا سکتی ھے، نامحرم کے ساتھ سفر کرنے میں بھی پابندی ھے، اس کے علاوہ کالا برقع جسے ابایہ کہتے ھیں وہ ھر مسلم یا غیر مسلم خواتین کیلئے پہنا بھی قانونی طور پر بہت ضروری ھے، بعض چھوٹے شہروں میں تو چہرے کو ڈھکنا بھی لازمی ھے، اور کئی جگہوں پر تو اکثر عورتیں نقاب کے ساتھ ھاتھوں کالے دستانے بھی پہنتی ھیں، شروع شروع میں تو ھماری فیملیوں کیلئے مشکل ھوتی ھے، لیکن وہ آھستہ آھستہ یہاں کے ماحول کی عادی ھو جاتی ھیں، اور میں یہ سمجھتا ھوں کہ قانوں سخت ھو یا نہ ھو، ھماری خوتین کو ان اسلامی اصولوں کی پابندی ضرور کرنی چاھئے، خاص کرحجاب کرنا ان کے لئے بہت بہتر ھے،!!!!!!

    ھاں تو میں کہہ رھا تھا، کہ ھم یہاں ریاض میں خیرخیریت سے پہنچ گئے، اور اپنے کام کو اسٹارٹ کردیا، یہاں کے لئے امیدوار جن کا پہلے ھی انتخاب کرلیا گیا تھا، وہ بھی آھستہ اھستہ پہنچ ھی گئے، میں نے یہاں پہنچ کر پھر دوبارہ سے اپنی فیملی ویزے کے لئے کوششیں شروع کردیں، یہاں میں نے کمپنی کی رھائش کے بجائے ایک تین بیڈ روم کا اپارٹمنٹ باھر ھی لے لیا تھا، اسکے بدلے مجھے انتظامیہ نے گھر کرایہ کے الاؤنس کی منظوری بھی دے دی تھی، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن مجھے فیملی ویزا بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ مل گیا، میں نے فوراً ھی اپنی بیگم کو ویزے کی تفصیل بمعہ ویزے کی رسید کے بھجوا دی، انہوں نے وہاں پر اپنے بھائیوں کی مدد سے سعودی کونسلیٹ میں ویزے کیلئے فارم ھر ایک کے پاسپورٹ کے ساتھ داخل کرادیئے، اس میں پہلے کے بھی سعودی عرب کے ویزے لگے ھوئے تھے، اس لئے بھی کوئی مشکل نہیں ھوئی لیکن اس بات کا دکھ ھوا کہ ویزے سب کے لگ گئے علاوہ بڑے بیٹے کے جس کی عمر 18 سال سے زیادہ تجاوز کر چکی تھی، جس کی وجہ سے اس کے ویزے پر اعتراض کیا گیا جبکہ یہاں کی وزارت خارجیہ سے کوئی اعتراض نہیں اٹھا تھا، اور بھی مزید کوشش کی گئی، لیکن ناکامی ھوئی، ھماری بیگم کو لازمی بات ھے کہ بہت دکھ ھوا تھا، اور وہ اب تک کسی بھی اپنے بچے کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں رھی تھیں، آخر ماں کی ممتا تھی، وہ بہت ھی روئیں اور مجھے سے ٹیلیفون پر کہا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کے بغیر نہیں رہ سکتی، کسی طرح بھی اس کے ویزے کا بندوبست کریں،!!!!!!!

    میں نے بھی انہیں یقین دلایا کہ آپ پہلے چاروں بچوں کے ساتھ فی الحال آجائیں، اور بڑے بیٹے کو اسکی دادی کے پاس رھنے دیں، بعد میں کوشش کرکے اسے وزٹ ویزے پر بلوا لیں گے، وہ بہت مشکل سے مانیں، بڑے بیٹے نے بھی انہیں تسلی دلائی، کہ،!!!! میں کوئی چھوٹا بچہ تو نہیں ھوں جس کے لئے آپ پریشان ھورھی ھیں،!!!!!!! پھر وہ اپنا اداس چہرہ لئے اسی غمگین حالت میں ریاض پہنچ ھی گئیں، لیکن انکا دل اپنے بڑے بیٹے کی طرف ھی تھا، اس وقت اسکی عمر 21 سال کے لگ بھگ ھوگی، مجھے ان کی پریشانی دیکھی نہیں گئی، 2002 کے سال کا مارچ کا مہینہ گزر رھا تھا، میں نے بھی اپنے بیٹے کیلئے وزٹ ویزے کیلئے کوششیں شروع کردیں، میرا بیٹا وہاں اپنی دادی کے پاس بہت خوش تھا، کیونکہ وہاں اسے آزادی مل گئی تھی، مگر مجھے یہ بھی فکر تھی کہ وہ روزانہ پڑھائی پر دھیان کے بجائے، اپنے دوستوں میں وقت برباد کررھا ھوگا، کیونکہ یہاں سعودیہ آنے کی وجہ سے اپنے کالج میں بھی داخلہ نہیں لیا تھا، کہ سعودیہ جاکر ھی پرائیوٹ طور پر گریجویشن مکمل کرے گا، وہ انٹر کر چکا تھا، اور اس کے ساتھ اسے مووی بنانے کا بہت شوق تھا، جوکہ کسی مووی میکر کے ساتھ شادیوں میں جاکر کیمرے کو کاندھے پر رکھے رات رات بھر شادی کی مووی بنانے میں مصروف رھتا اور دن میں اس کی مکسنگ بھی کرتا تھا، جس کے لئے اسے کچھ وہاں سے جیب خرچ بھی مل جاتا تھا لیکن مجھے اس کے یہ شوق کی فضول مصروفیات بالکل پسند نہیں تھیں،!!!!! اور یہی وجہ تھی کہ میں اسے وھاں پر رھنے نہیں دینا چاھتا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!

    اپ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اسی پریشانی کو بھی ساتھ لئے میں چل رھا تھا، شروع شروع میں ھر مہینے جب میں اکیلا تھا ھر مہینے گھر کا کچھ نہ کچھ سامان خریدتا رھتا رھا، جدہ میں جو سامان تھا وھاں پر کچھ سامان تو بس بہت ھی کم قیمت پر نکال دی تھیں اور باقی کی چیزیں جو ضرورت مند تھے ان کے حوالے کردیی تھیں، مجھے سامان کو شفٹ کرنے میں ویسے بھی بہت پریشانی ھوتی ھے، جدہ سے ریاض کا فاصلہ 1100 کلومیٹر ھے اور سامان کے شفٹ ھونے میں بھی توڑ پھوڑ بہت زیادہ ھو جاتی، اس لئے میں نے اپنے جدہ والے گھر میں سارے سامان کو دوسروں کے حوالے کردیا تھا، جس میں ٹیلیویژن، وی سی آر، رسیور کے علاؤہ مکمل گھر کا فرنیچر، ریفریجریٹر، واشنگ مشین، چولہے، کچن کا سامان اور تین ائر کنڈیشنڈ بھی تھے، اور ساتھی ھی چادریں تکئے کمبل، اسکے علاوہ تمام ضروریات زندگی کا ساماں وغیرہ بھی لوگوں میں جو ضرورت مند تھے ان کے حوالے کردیا تھا، میں نے اس طرح کئی مرتبہ اپنی بنی بنائی گرھستی کو ختم کیا اور نئی جگہ پھر سے اپنے گھر کو نئے طریقے سے آرائش اور زیبائش سے آراستہ کیا، جس کی وجہ سے ھر دفعہ ایسا کرنے پر مجھے اپنی بیگم کا غصہ بھی برداشت کرنا پڑا،!!!!!!!

    وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں کہ ھم لوگ اس طرح کچھ بھی بچا نہیں رھے تھے، اور ھر جگہ بدلنے سے ھمارے بچوں کی تعلیم پر بھی بہت برا اثر پڑا تھا، اور اب وہ بچوں کا معیار نہیں تھا جو کہ پہلے ھوا کرتا تھا، مجھے اس کی بھی فکر تھی، لیکن شروع سے میں نے سوچا نہیں جب بچے بڑے ھونا شروع ھوئے تو اس بات کا خیال آیا، جس کا کہ مجھے اب تک افسوس ھے، یہاں پر بچوں کے پہنچتے ھی سب کو ان کے پاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں داخل کرادیا، اور کرایہ کی ایک گاڑی ان چاروں بچوں کو لانے لے جانے لئے لگادی، پہلے کی طرح اس دفعہ بھی بچوں کا ایک سال ضائع ھوگیا، اسی طرح ان کی تعلیم کا معیار بھی آہستہ آہستہ گرتا رھا، ھم اپنے آپ کو اب کیا کہیں کہ باھر رہ کر بہت کچھ اپنی زندگی میں کھوتے ھی ھیں، کچھ پانے کی امید بہت ھی کم ھوتی ھے،!!!!!!
     
  27. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    بےچارے دولہا میاں اور کیا کرتے، شامیانے کی لائیٹیں اب آہستہ آہستہ بجھ رھی تھیں، لائیٹنگ اور شامیانے والے اپنا اپنا سامان سمیٹ رھے تھے، دولہے میاں کے دوست نے دولہے کا ھاتھ پکڑتے ھوئے اسٹیج سے اتارا اور اپنے گھر کی طرف پیدل پیدل، خراماں خراماں روانہ ھوگئے دو قدم پر تو گھر تھا، کار بھی سجی سجائی کھڑی تھی، اسکے دوست نے کہا کہ چلو تمہیں کار میں چھوڑ دوں، وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مذاق کررھے تھے، لگتا تھا کہ جیسے یہ نکاح وغیرہ کچھ بھی نہیں ھوا ھو، پگڑی تو پہلے ھی اتاردی تھی، اور گھر آتے ھی شیروانی بھی اتر چکی تھی بس اب دولہا میں ایک سفید کرتے شلوار میں ایک عام لڑکوں کی طرح نظر آرھے تھے، اور ایک نے پیچھے سے آواز لگائی،!!!!!!! بڑے شرمندہ ھو کر دولہا میاں بغیر دلہن کے گھر پہنچے،!!!!!!!!!!!!!!

    میری چھٹیاں ختم ھونے کے قریب تھیں، میں بھی اپنے اس بھائی کی شادی کے خاص مہم کی ذمہ داری سے فارغ ھوچکا تھا، بس اب مجھے فکر تھی تو ان صاحبزادے کی تھی، جو وہاں پر بیٹھے میرے خلاف کیا کیا گل کھلا رھے تھے، جنہیں میں سعودیہ بلا کر اپنے لئے کئی مصیبتیں کھڑا کرچکا تھا، اب چونکہ جیسے ھی میں نے سنا کہ میرا ریاض تبادلہ ھونے والا ھے تو مجھے بہت خوشی ھوئی، کیونکہ وہاں میرا اس سے واسطہ ھی نہیں رھے گا، وہ جو چاھے مرضی کرے، وہ جانے اور میرے پڑوسی جانے، آپس میں ویسے بھی رشتہ دار تھے، قریباً تین مہینے بچوں کے ساتھ رھتے ھوئے پھر دوبارہ واپس جانے کو دل نہیں کررھا تھا، لیکن کیا کریں مجبوری تھی، سب جو پیسے جمع پونجی تھی آخر ختم ھو چکی تھی، کہیں اور ملازمت کو دل بھی نہیں چاہ رھا تھا، حالانکہ ایک دو جگہ مجھے کسی کے توسط سے چانس بھی ملا لیکن میں نے انکار کردیا تھا،!!!!!!

    آخر پھر وہی دن اگیا جس دن مجھے ائرپورٹ روانہ ھونا تھا، سب سے مل ملا کر ائرپورٹ کے اندر تمام ضروری کاروائی سے فارغ ھو کر انتظار گاہ میں پہنچے، اب تو ایک معمول کی ایک عادت سی بن گئی تھی، کچھ محسوس ھی نہیں ھوتا تھا، جدہ ائرپورٹ پر پہلے ھی میرا ایک وفادار شاگرد گاڑی لے کر پہنچا ھوا تھا، اس نے واقعی آخر تک ھمیشہ میرا ساتھ دیا، راستے بھر اس نے دفتر کی تمام صورت حال بتادی، اور مبارکباد بھی دی اور کہا کہ،!!!!!! آپ کو ریاض ترقی دے کر بھیجا جارھا ھے، لیکن آپ کے جانے سے کچھ لوگ خوش بھی نہیں ھیں، ویسے اکثریت میں ایسے بھی ھیں جو آپکے جانے سے بہت سے ساتھی دکھی اور غم زدہ ھیں، کیونکہ وہ آپ کے شاگرد بھی ھیں، لیکن آپ کی ترقی کی وجہ سے بہت خوش ھیں، ویسے بھی آبکا یہاں سے جانا بھی اپکے لئے بہتر ھو گا، وہاں پر بھی نئی جگہ پر نئے ساتھی ھونگے، وہاں پر بھی وہ آپکی تدریب اور کام سکھانے کیلئے سب آپ کی مدد کے منتظر ھونگے، جس طرح آپنے یہاں اپنے شاگرد بنائے ھیں، وہاں نئے شاگرد بنائیں گے، !!!!!!!!

    یہ کہتے ھوئے اس کی آواز بھرا گئی، اور آنکھیں بھی اشک بار ھوگئیں،!!!!! میں نے اس کو جواباً یہی کہا کہ،!!!!" دیکھو یہ تو میرا فرض ھے، جہاں کہیں بھی ھم ھوں، یہ ھمارا فرض بنتا ھے کہ بغیر کسی لالچ یا معاوضہ کہ اپنا علم دوسروں تک پہنچائیں، اور میں نے اپنا فرض پورا کیا ھے،!!!!!
    مگر استاد جی،!!!! کئی لوگ یہاں پر آپ سے ھی سیکھ کر آپکے خلاف مہم میں شریک بھی تو ھو جاتے ھیں،،!!!!!! میں نے کہا کہ، !!!!!!! مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا چاھے وہ میری عزت کریں یا نہ کریں، میں تو اپنا ایک مقصد لے کر چل رھا ھوں، کہ جو کچھ بھی میرے پاس علم ھے، میں دوسروں تک پہنچاؤں اور سکھاؤں، اگر کوئی صدق دل سے سیکھے گا تو اسی کا فائدہ ھوگا، اس میں میرا کوئی بھی عمل دخل نہیں ھے،، مجھے خوشی ھوگی کہ کوئی میرا شاگرد کسی اچھی پوسٹ پر بیٹھا ھوا ھے، اور بس یہی میرا انعام ھے،!!!!!!

    یہی ھم باتیں کرتے ھوئے اپنے گھر پہنچ گئے، شام ھوچکی تھی وہ بازار گیا اور ھم دونوں کے لئے کھانا لے آیا، دونوں نے مل کر کھانا کھایا، پھر کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد وہ چلا گیا، میں بھی بستر میں لیٹا کوشش کررھا تھا کہ کسی طرح نیند آجائے اور صبح صبح دفتر تروتازہ ھو کر پہنچ جاؤں، لیکن نیند تو کوسوں دور تھی، شاید کافی دیر بعد نیند آئی ھوگی، صبح اٹھا اور تیار ھو کر سیدھا دفتر کے لئے پیدل ھی نکل گیا، دفتر بھی نذدیک ھی تھا، وہاں پہنچتے ھی لوگوں نے مبارکبادیں دینا شروع کردیں اور اسی طرح سارا دن تو ملنے ملانے میں ھی نکل گیا، اسی دوران اپنے استاد محترم سے ملا، انہوں نے بھی مجھے گرم جوشی سے مبارکباد دی، اور یہی کہا کہ،!!!!! مجھے امید ھے کہ وہاں جاکر میرا نام روشن ضرور کروگے،!!!!!!، میں نے یہی جواب دیا کہ،!!!!! آج میں جو بھی ھو اور جس قابل ھوں یہ سب آپ کی وجہ سے ھی ھے، میں نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی سیکھا ھے اس میں زیادہ تر آپ سے ھی سیکھا ھے، میرے اوپر اللٌہ تعالیٰ کا بہت بڑا کرم رھا ھے، کہ اب مجھے یہ موقع مل رھا ھے کہ میں آپ کی طرح ھی اپنے شاگردوں میں اضافہ کررھا ھوں،!!!!!!!!

    وہ صاحبزادے بھی جو ھمارے پڑوسی کے ھونے والے داماد ھیں، وہ بھی آئے اور ھاتھ ملا کر چل دئے کوئی خاص بات نہیں ھوئی اور نہ ھی میں اس سے کوئی مزید تفصیل میں جانے کی کوشش کی، اسے تو خود پتہ ھی تھا کہ اس نے کیا گل کھلائے تھے، اس لئے وہ شرمندگی کے مارے ھی شاید میرے پاس نہیں ٹھرا اور نہ ھی اپنے بھائی کو ریاض میں بھرتی کیلئے مجھ سے کوئی بات کی، اور ویسے بھی بھرتی کرنے کی ذمہ داری میری نہیں تھی، میں سفارش تو کرسکتا تھا، لیکن میں ایک کی ھی سفارش کرکے پچھتا رھا تھا، پھر اسی کے بھائی کیلئے میرے لئے تو بہت مشکل تھا، پاکستان تو میری بھانجے اور سالی نے اپنے شوھر کیلئے کافی دنوں سے کہہ رکھا ھوا تھا، لیکن ان کو بھی میں یہاں بلانے کے حق میں نہیں تھا، کیونکہ یہاں کی مشکات کو تو میں جانتا ھوں کہ شروع میں بہت ھی پریشانی ھوتی ھے، مگر لوگ نہیں سمجھتے تھے،!!!!!!!!

    پاکستان میں ریاض کی برانچ کیلئے بھرتی کرنے والی ٹیم پہنچی ھوئی تھی، اور پہلے سے ھی لوگوں کو ریاض کیلئے جو انٹرویو میں کامیاب ھوئے تھے، ان کا انتخاب کرلیا گیا تھا، اور یہ میرے لئے بہتر بھی تھا کہ بلا امتیاز ھر ایک ساتھ اپنا ایک بہترین پرخلوص برتاؤ اور سلوک رکھ سکتا تھا، چاھے وہ کسی بھی شہر یا علاقے کے ھی کیوں نہ ھوں، بس میرے لئے سب کا پاکستانی ھونا ھی فخر کی بات تھی،!!!!!!!!!!

    مجھے میرے ڈپارٹمنٹ کے انتخاب شدہ اسٹاف کی مکمل لسٹ بمعہ ان کی تعلیم اور تجربے کے ساتھ مل چکی تھی، تین مہینے کے اندر اندر تمام لوگوں کا اس ریاض کی برانچ میں پہنچنا ضروری تھا، کیونکہ اس کا باقائدہ افتتاح اگست یا ستمبر کے مہینے کے اندر اندر ھونا بھی تھا، جدہ میں ھی میرے ڈپارٹمنٹ کے دو انتخاب شدہ اسٹاف کو بلالیا گیا، اور یہاں جدہ میں جو میں ٹریننگ دے سکتا تھا، وہاں میں نے انہیں ان کے کام کے متعلق کام کی تفصیل سمجھا دی تھی، تاکہ وہاں پر انہیں دوسرے آنے والوں کو کام کے بارے میں متعارف کرانے میں کوئی پریشانی نہ ھو، میں‌نے اپنے ڈپارٹمنٹ کو دو حصوں میں بانٹ کر ان دونوں کو تلقین کردی تھی کہ یہ دونوں اپنے اپنے سیکشن کو آگے لے کر چلیں، باقی میں تو وہیں پر ھی ھو نگا اور ھمارے استاد محترم بھی وہاں پر چکر لگاتے رھیں گے،!!!!!!!

    آخر وہ دن بھی آن پہنچا، جولائی کے مہینے کی 26 تاریخ کو ھمیں ریاض کیلئے روانہ ھونا تھا، وہاں ھمارے پہنچنے سے پہلے ھی ھماری عارضی رھائش کا انتظام ھو چکا تھا، جدہ سے بھی بڑھ کر بہت ھی خوبصورت اسپتال کی ایک بلڈنگ کو دیکھ کر دل بہت خوش ھوا، اندر جاکر بھی دیکھا وہاں پر صفائی پر زور تھا، اور باقی کچھ تزین و آرائش کام کا بھی آخری دور چل رھا تھا، ھم نے بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی صفائی اور ستھرائی کرائی، وہاں پر اہستہ آہستہ تمام منتخب شدہ اسٹاف آنا شروع ھوگیا، شروع شروع کام کو ایک نئی جگہ جمانا بہت ھی مشکل ھوتا ھے، لیکن وقت کے ساتھ سب اس کے عادی ھوجاتے ھیں، میرے ساتھ بہت اچھی ٹیم اور خوشی کی بات تھی کہ سب پاکستانی بھی تھے، جبکہ دوسرے ڈپارٹمنٹز میں مختلف قومیت کے لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ تھی، جس میں مصری، فلیپائین انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لوگ نمایاں تھے،!!!!!!

    -------------------------

    آخر وہ دن بھی آن پہنچا، جولائی کے مہینے کی 26 تاریخ کو ھمیں ریاض کیلئے روانہ ھونا تھا، وہاں ھمارے پہنچنے سے پہلے ھی ھماری عارضی رھائش کا انتظام ھو چکا تھا، جدہ سے بھی بڑھ کر بہت ھی خوبصورت اسپتال کی ایک بلڈنگ کو دیکھ کر دل بہت خوش ھوا، اندر جاکر بھی دیکھا وہاں پر صفائی پر زور تھا، اور باقی کچھ تزین و آرائش کام کا بھی آخری دور چل رھا تھا، ھم نے بھی اپنے ڈپارٹمنٹ کی صفائی اور ستھرائی کرائی، وہاں پر اہستہ آہستہ تمام منتخب شدہ اسٹاف آنا شروع ھوگیا، شروع شروع کام کو ایک نئی جگہ جمانا بہت ھی مشکل ھوتا ھے، لیکن وقت کے ساتھ سب اس کے عادی ھوجاتے ھیں، میرے ساتھ بہت اچھی ٹیم اور خوشی کی بات تھی کہ سب پاکستانی بھی تھے، جبکہ دوسرے ڈپارٹمنٹز میں مختلف قومیت کے لوگوں کی اکثریت بہت زیادہ تھی، جس میں مصری، فلیپائین انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے لوگ نمایاں تھے،!!!!!!

    ریاص یہ وہی شہر ھے، جہاں میں سب سے پہلے 1978 مئی کے مہینے میں آیا تھا، جس وقت میری عمر تقریباً 28 برس کی ھوگی، اور شادی بھی نہیں ھوئی تھی، اب جولائی کا مہینہ سال 2001 میں دوبارہ 51 سال کی عمر میں اسی شہر میں موجود اپنی پرانی یادوں کو لئے ھوئے پہنچ گیا، یہ کیسی حیرانگی کی بات ھے کہ وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ھوتا، یہی شہر ریاض‌، اس وقت 1978 میں بہت چھوٹا تھا، جہاں چھوٹی چھوٹی سڑکیں اور عام سے بازار ھوا کرتے تھے، جہاں پر اونٹ گاڑیاں اور خچر اور گھوڑا گاڑیاں نظر آتی تھیں، ھاں البتہ اس وقت کچھ بڑے ماڈرن بازار بھی تھے جہاں پر زیادہ تر پرنس اور شاھی خاندان کے لوگوں کے ساتھ ساتھ بازاروں میں رولس رائس ، مرسیڈیس، اور دوسری بڑی بڑی امریکن گاڑیاں بھی نظر آتی تھیں، اور اب تو بالکل ھی نقشہ ھی بدلا ھوا تھا، جہاں خوبصورت ترین بڑی بڑی شاندار بلڈنگوں، بڑے بڑے فلائی اوور، اور انڈرپاس پلوں کی ان گنت تعداد، بڑی بڑی سپر مارکیٹوں، خوبصورت تفریحی فیملی پارک، وسیع ترین شاراھیں اور ٹریفک کی بھر مار نظر آتی ھے، اب تو پارکنگ کا بھی مسئلہ رھتا ھے، اکثر شاھراھوں پر فری سگنل کے باوجود ٹریفک جام ھی رھتا ھے، کیونکہ ھر گھر میں جتنے افراد ھیں اتنی ھی گاڑیاں بھی موجود ھیں، یہ شہر یہاں کا دارالحکومت بھی ھے، بہت بڑا شہر ھے، اگر گرمی زیادہ نہ پڑے تو یورپ کے کسی بڑے شہر سے کم بھی نہیں ھے، یہاں سردی بھی بہت زیادہ ھوتی ھے، مگر بارش کبھی سال میں ایک بار اگر موڈ ھو تو ھو جاتی ھے ورنہ یہاں تو بارش کو دیکھنے کے لئے ترس جاتے ھیں،!!!!!!

    یہاں پر قانوناً ھر عورت اور جوان بچیوں کے لئے لازم ھے کہ وہ بازار میں ھوٹل گھر ریسٹورانٹ میں یا کہیں پر بھی صرف اپنے محرم کے ساتھ ھی آ جا سکتی ھے، نامحرم کے ساتھ سفر کرنے میں بھی پابندی ھے، اس کے علاوہ کالا برقع جسے ابایہ کہتے ھیں وہ ھر مسلم یا غیر مسلم خواتین کیلئے پہنا بھی قانونی طور پر بہت ضروری ھے، بعض چھوٹے شہروں میں تو چہرے کو ڈھکنا بھی لازمی ھے، اور کئی جگہوں پر تو اکثر عورتیں نقاب کے ساتھ ھاتھوں کالے دستانے بھی پہنتی ھیں، شروع شروع میں تو ھماری فیملیوں کیلئے مشکل ھوتی ھے، لیکن وہ آھستہ آھستہ یہاں کے ماحول کی عادی ھو جاتی ھیں، اور میں یہ سمجھتا ھوں کہ قانوں سخت ھو یا نہ ھو، ھماری خوتین کو ان اسلامی اصولوں کی پابندی ضرور کرنی چاھئے، خاص کرحجاب کرنا ان کے لئے بہت بہتر ھے،!!!!!!

    ھاں تو میں کہہ رھا تھا، کہ ھم یہاں ریاض میں خیرخیریت سے پہنچ گئے، اور اپنے کام کو اسٹارٹ کردیا، یہاں کے لئے امیدوار جن کا پہلے ھی انتخاب کرلیا گیا تھا، وہ بھی آھستہ اھستہ پہنچ ھی گئے، میں نے یہاں پہنچ کر پھر دوبارہ سے اپنی فیملی ویزے کے لئے کوششیں شروع کردیں، یہاں میں نے کمپنی کی رھائش کے بجائے ایک تین بیڈ روم کا اپارٹمنٹ باھر ھی لے لیا تھا، اسکے بدلے مجھے انتظامیہ نے گھر کرایہ کے الاؤنس کی منظوری بھی دے دی تھی، آخر وہ دن بھی آگیا جس دن مجھے فیملی ویزا بیوی اور پانچ بچوں کے ساتھ مل گیا، میں نے فوراً ھی اپنی بیگم کو ویزے کی تفصیل بمعہ ویزے کی رسید کے بھجوا دی، انہوں نے وہاں پر اپنے بھائیوں کی مدد سے سعودی کونسلیٹ میں ویزے کیلئے فارم ھر ایک کے پاسپورٹ کے ساتھ داخل کرادیئے، اس میں پہلے کے بھی سعودی عرب کے ویزے لگے ھوئے تھے، اس لئے بھی کوئی مشکل نہیں ھوئی لیکن اس بات کا دکھ ھوا کہ ویزے سب کے لگ گئے علاوہ بڑے بیٹے کے جس کی عمر 18 سال سے زیادہ تجاوز کر چکی تھی، جس کی وجہ سے اس کے ویزے پر اعتراض کیا گیا جبکہ یہاں کی وزارت خارجیہ سے کوئی اعتراض نہیں اٹھا تھا، اور بھی مزید کوشش کی گئی، لیکن ناکامی ھوئی، ھماری بیگم کو لازمی بات ھے کہ بہت دکھ ھوا تھا، اور وہ اب تک کسی بھی اپنے بچے کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں رھی تھیں، آخر ماں کی ممتا تھی، وہ بہت ھی روئیں اور مجھے سے ٹیلیفون پر کہا کہ میں اپنے بڑے بیٹے کے بغیر نہیں رہ سکتی، کسی طرح بھی اس کے ویزے کا بندوبست کریں،!!!!!!!

    میں نے بھی انہیں یقین دلایا کہ آپ پہلے چاروں بچوں کے ساتھ فی الحال آجائیں، اور بڑے بیٹے کو اسکی دادی کے پاس رھنے دیں، بعد میں کوشش کرکے اسے وزٹ ویزے پر بلوا لیں گے، وہ بہت مشکل سے مانیں، بڑے بیٹے نے بھی انہیں تسلی دلائی، کہ،!!!! میں کوئی چھوٹا بچہ تو نہیں ھوں جس کے لئے آپ پریشان ھورھی ھیں،!!!!!!! پھر وہ اپنا اداس چہرہ لئے اسی غمگین حالت میں ریاض پہنچ ھی گئیں، لیکن انکا دل اپنے بڑے بیٹے کی طرف ھی تھا، اس وقت اسکی عمر 21 سال کے لگ بھگ ھوگی، مجھے ان کی پریشانی دیکھی نہیں گئی، 2002 کے سال کا مارچ کا مہینہ گزر رھا تھا، میں نے بھی اپنے بیٹے کیلئے وزٹ ویزے کیلئے کوششیں شروع کردیں، میرا بیٹا وہاں اپنی دادی کے پاس بہت خوش تھا، کیونکہ وہاں اسے آزادی مل گئی تھی، مگر مجھے یہ بھی فکر تھی کہ وہ روزانہ پڑھائی پر دھیان کے بجائے، اپنے دوستوں میں وقت برباد کررھا ھوگا، کیونکہ یہاں سعودیہ آنے کی وجہ سے اپنے کالج میں بھی داخلہ نہیں لیا تھا، کہ سعودیہ جاکر ھی پرائیوٹ طور پر گریجویشن مکمل کرے گا، وہ انٹر کر چکا تھا، اور اس کے ساتھ اسے مووی بنانے کا بہت شوق تھا، جوکہ کسی مووی میکر کے ساتھ شادیوں میں جاکر کیمرے کو کاندھے پر رکھے رات رات بھر شادی کی مووی بنانے میں مصروف رھتا اور دن میں اس کی مکسنگ بھی کرتا تھا، جس کے لئے اسے کچھ وہاں سے جیب خرچ بھی مل جاتا تھا لیکن مجھے اس کے یہ شوق کی فضول مصروفیات بالکل پسند نہیں تھیں،!!!!! اور یہی وجہ تھی کہ میں اسے وھاں پر رھنے نہیں دینا چاھتا تھا،!!!!!!!!!!!!!!!

    اپ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اسی پریشانی کو بھی ساتھ لئے میں چل رھا تھا، شروع شروع میں ھر مہینے جب میں اکیلا تھا ھر مہینے گھر کا کچھ نہ کچھ سامان خریدتا رھتا رھا، جدہ میں جو سامان تھا وھاں پر کچھ سامان تو بس بہت ھی کم قیمت پر نکال دی تھیں اور باقی کی چیزیں جو ضرورت مند تھے ان کے حوالے کردیی تھیں، مجھے سامان کو شفٹ کرنے میں ویسے بھی بہت پریشانی ھوتی ھے، جدہ سے ریاض کا فاصلہ 1100 کلومیٹر ھے اور سامان کے شفٹ ھونے میں بھی توڑ پھوڑ بہت زیادہ ھو جاتی، اس لئے میں نے اپنے جدہ والے گھر میں سارے سامان کو دوسروں کے حوالے کردیا تھا، جس میں ٹیلیویژن، وی سی آر، رسیور کے علاؤہ مکمل گھر کا فرنیچر، ریفریجریٹر، واشنگ مشین، چولہے، کچن کا سامان اور تین ائر کنڈیشنڈ بھی تھے، اور ساتھی ھی چادریں تکئے کمبل، اسکے علاوہ تمام ضروریات زندگی کا ساماں وغیرہ بھی لوگوں میں جو ضرورت مند تھے ان کے حوالے کردیا تھا، میں نے اس طرح کئی مرتبہ اپنی بنی بنائی گرھستی کو ختم کیا اور نئی جگہ پھر سے اپنے گھر کو نئے طریقے سے آرائش اور زیبائش سے آراستہ کیا، جس کی وجہ سے ھر دفعہ ایسا کرنے پر مجھے اپنی بیگم کا غصہ بھی برداشت کرنا پڑا،!!!!!!!

    وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں کہ ھم لوگ اس طرح کچھ بھی بچا نہیں رھے تھے، اور ھر جگہ بدلنے سے ھمارے بچوں کی تعلیم پر بھی بہت برا اثر پڑا تھا، اور اب وہ بچوں کا معیار نہیں تھا جو کہ پہلے ھوا کرتا تھا، مجھے اس کی بھی فکر تھی، لیکن شروع سے میں نے سوچا نہیں جب بچے بڑے ھونا شروع ھوئے تو اس بات کا خیال آیا، جس کا کہ مجھے اب تک افسوس ھے، یہاں پر بچوں کے پہنچتے ھی سب کو ان کے پاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں داخل کرادیا، اور کرایہ کی ایک گاڑی ان چاروں بچوں کو لانے لے جانے لئے لگادی، پہلے کی طرح اس دفعہ بھی بچوں کا ایک سال ضائع ھوگیا، اسی طرح ان کی تعلیم کا معیار بھی آہستہ آہستہ گرتا رھا، ھم اپنے آپ کو اب کیا کہیں کہ باھر رہ کر بہت کچھ اپنی زندگی میں کھوتے ھی ھیں، کچھ پانے کی امید بہت ھی کم ھوتی ھے،!!!!!!
     
  28. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں کہ ھم لوگ اس طرح کچھ بھی بچا نہیں رھے تھے، اور ھر جگہ بدلنے سے ھمارے بچوں کی تعلیم پر بھی بہت برا اثر پڑا تھا، اور اب وہ بچوں کا معیار نہیں تھا جو کہ پہلے ھوا کرتا تھا، مجھے اس کی بھی فکر تھی، لیکن شروع سے میں نے سوچا نہیں جب بچے بڑے ھونا شروع ھوئے تو اس بات کا خیال آیا، جس کا کہ مجھے اب تک افسوس ھے، یہاں پر بچوں کے پہنچتے ھی سب کو ان کے پاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں داخل کرادیا، اور کرایہ کی ایک گاڑی ان چاروں بچوں کو لانے لے جانے لئے لگادی، پہلے کی طرح اس دفعہ بھی بچوں کا ایک سال ضائع ھوگیا، اسی طرح ان کی تعلیم کا معیار بھی آہستہ آہستہ گرتا رھا، ھم اپنے آپ کو اب کیا کہیں کہ باھر رہ کر بہت کچھ اپنی زندگی میں کھوتے ھی ھیں، کچھ پانے کی امید بہت ھی کم ھوتی ھے،!!!!!!

    جیسا کہ نعیم بھائی نے کہا کہ ھم یہاں صرف اس معاملے میں ھم بہت ھی خوش قسمت ھیں کہ اللٌہ تعالیٰ نے ھمیں یہاں پر حج اور عمرہ اور دیار نبی (ص)‌ :saw: کی زیارت کی سعادت سے نوازا، اس سے بڑھ کر ھمارے لئے اور کیا نعمت ھو سکتی ھے، جو کچھ ھم نے دنیاوی طور پر کھویا ھے، وہ ھم نے ان مقدس مقامات کی زیارت اور وہاں عبادات کرکے روحانی سکون ضرور پایا ھے،!!!!!

    اب ھماری کچھ زندگی کی گاڑی لائن پر آچکی تھی، بچے اسکول جانے لگے تھے، صرف بڑے بیٹے کی فکر تھی، جس کے لئے وزٹ ویزا داخل کیا ھوا تھا، امید تھی کہ مل ھی جائے گا، بیٹے کے آنے سے پہلے میرے بھانجے کا یہاں کے لئے انتخاب ھو چکا تھا، اور وہ بھی یہاں پہنچ چکا تھا، اگر میں اسے یہاں نہیں بلاتا تو میری بہن نے میرا برا حال کردینا تھا، اسی دوران 21 مئی 2002 کو مجھے پیٹ کی ایک سائڈ پر کافی درد سا محسوس ھونے لگا، صبح صبح کا وقت تھا دفتر جانے کی تیاری میں ھی تھا، ناشتہ بھی بہت مشکل سے کیا، مگر گھر پر کسی کو محسوس ھونے نہیں دیا، اس سے پہلے بھی مجھے کئی دفعہ یہ درد ھو چکا تھا لیکن بس درد کی دوائی سے ٹھیک ھو جاتا تھا، اس لئے کوئی زیادہ احتیاط بھی نہیں کی، دفتر میں جیسے ھی پہنچا وہاں مجھے درد بہت ھی شدت سے ھونے لگا، میں سیدھا اپنے اسپتال کے ھی ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچا، اس نے کچھ ایکسرے اور کچھ ٹیسٹ کرائے، پتہ چلا کہ "پتے" یعنی میرے "گال بلیڈر" میں کافی پتھریاں جمع ھو گئیں ھیں، اس لئے اسکا فوراً آپریشن بہت ضروری ھے، ورنہ اسکا پھٹنے کا خطرہ تھا، مجھ سے درد بالکل برداشت ھی نہیں ھو رھا تھا، سب لوگ وہاں پر جان پہچان کے تھے، سب نے مل کر تمام آپریشن کیلئے تمام کاغزی کاروائی مکمل کی، مجھ سے ایک پیپر پر بھی دستخط کرالئے، اور پھر مجھے فوراً ھی داخل کر لیا گیا، اور ڈرپ اور انجکشن وغیرہ لگا دئے گئے، تاکہ درد میں کچھ کمی ھو جائے،!!!!!!

    میں نے گھر پر بھی اطلاع پہنچادی کہ فوراً پہنچو میں میری طبعیت خراب ھے، اور شاید مجھے ابھی کچھ دیر میں آپریشن تھیٹر میں لے جائیں گے، لیکن افسوس کہ میری بیگم اور بچوں کے پہنچنے سے پہلے ھی مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا، لباس وغیرہ پہلے ھی تبدیل کردیا گیا تھا، جس وقت مجھے بیڈ پر لٹا کر تیزی تیزی سے آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جارھا تھا، اس وقت میری تکلیف انجکشن کی وجہ سے کچھ کم ھوگئی تھی، میری نگاھیں بار بار باھر کے دروازے پر لگی ھوئی تھیں، کہ شاید میرے بیگم اور بچے پہنچ جائیں، لیکن جیسے ھی باھر کا دروازہ میری نظروں سے اوجھل ھوا، اور آپریشن تھیٹر میں میرے بیڈ کے داخل ھوتے ھی دروازہ بند کردیا گیا، لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میرے اندر جاتے ھی میری بیگم اور بچے دوڑتے ھوئے اس آپریشن تھیٹر کے مین دروازے پر پہنچے ھی تھے کہ دروازہ بند ھو گیا اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، ان سب کی اس وقت کیا حالت ھوگی، اللٌہ جانے،!!!!!!!!!

    آپریشن تھیٹر کا ایک الگ ھی ماحول تھا، سب نے سبز رنگ کےکپڑے پہنے ھوئےتھے، اس میں پتہ ھی نہیں چلتا ھے کہ کون ڈاکٹر ھے اور کون سا دوسرا عملہ ھے، اور سب نے اپنے منہ کو بھی سبز ماسک سے ڈھکا ھوا تھا، اور ھاتھوں میں دستانے سر کو بھی سبز رنگ کی ٹوپیوں سے ڈھکے ھوئے تھے، ھالانکہ سب جان پہچان کے دوست تھے، مجھ سے اپنے کام کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کررھے تھے، اور تسلیاں بھی دے رھے تھے، مجھے بیڈ سے اپریشن ٹیبل پر منتقل کیا گیا، جہاں اوپر لائیٹس اور کیمرے لگے ھوئے تھے، اور میرے جسم کے مختلف حصوں پر وہاں کے ٹیکنیشن اور نرسس جانے کیا کیا تاروں کی لائنوں سے جوڑنے کی تیاری کررھے تھے، شاید بلڈپریشر اور دل کی دھڑکن کو مانیٹرنگ کرنے کیلئے آلات سے جوڑا جا رھا ھوگا، فوراً ھی سرجن سبز لباس پہنے ھوئے میرے قریب آئے اور انہوں نے مجھے مختصراً اس اپریشن کے بارے میں بتایا اور کہا کہ آپکو مکمل بےھوش کرکے ایک گھنٹے کے اندر اندر آپکو پتہ ھی نہیں چلے گا، اور ھم "لیپروس کوپی" کے سسٹم سے آپریشن کرکے آپ کے گال بلیڈر کو نکال دیں گے، آپکا بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکنیں بالکل معمول کے مطابق اس آپریشن کے قابل ھیں، آپکو کوئی پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ھے، اسی اثنا میں مجھے ایک نے میرے چہرے پر آکسیجن کا ماسک چڑھایا گیا اور پھر مجھے بالکل ھی ھوش نہیں رھا،!!!!!

    اس وقت دوپہر کے تقریباً دو بجے ھونگے، اس ھمارے دوست سرجن کو اس دن چھٹیوں پر جانا تھا، لیکن اس نے میری وجہ سے اپنی چھٹیوں کو آگے کی تاریخوں میں بڑھا دیں، میرے اس کے ساتھ بھی بہت اچھے مراسم تھے، اکثر کبھی کبھی میں اس سے مذاقاً کہتا بھی تھا کہ ایک دن میں آپ کے ھاتھوں سے ھی اپنا آپریشن کراؤں گا، وہ مجھ پر ناراض بھی ھوجاتا تھا، کہ ایسی باتیں کرنا بری بات ھے، اللٌہ نہ کرے کہ ایسا ھو،!!!! میں نے اس سرجن کے بارے میں سنا ھوا تھا، کہ اس کے آپریشن ھمیشہ کامیاب ھوتے ھیں، اس اسپتال میں ملازمت کرتے ھوئے مجھے کافی عرصہ ھوچکا تھا، تقریباً 12 سال کے عرصہ میں 1998-1999 کے درمیان میں مجھے دو سال کے لئے چھوڑنا پڑا، لیکن دوبارہ اسی اسپتال کو جوائن کرلیا، اس وقفہ میں ایک سال کیلئے مجھے ترکمانستان کا رخ کرنا پڑا تھا، جسکا کہ میں پہلے تفصیل سے ذکر کرچکا ھوں، وہ بھی ایک نہ بھولنے والی داستان ھے، اس سے پہلے بھی مجھے شاید 1986یا 1987 میں میرے گردے میں بہت تکلیف اٹھی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان کے ایک اسپتال میں داخل ھونا پڑا تھا، جہاں قدرتی طور پر بغیر آپریشن کے ھی تقریباً دس دن تک داخل رھنے کے بعد عین اس وقت گردے کی تکلیف ختم ھوگئی، جس دن سرجن نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ھے،!!!!! اور یہ اب میرا دوسرا موقعہ تھا کہ میرے آپریشن کی تیاریاں ھورھی تھیں، مگر میں نے اپنے آپ کو بالکل مطمئین اور پرسکون رکھا ھوا تھا،!!!!!

    ویسے میں ایک دل کی بات بتاؤں کہ مجھے بچپن سے ھی نہ جانے کیوں اسپتال میں داخل ھونا بہت ھی اچھا لگتا تھا، شاید اس کی وجہ یہی ھو کہ اکثریت میں لوگ ملنے آتے ھیں، اور پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ تحفے تحائف اور بہت ھی خوش اخلاقی انکساری کے ساتھ خیریت دریافت کرتے ھیں، اس کے علاوہ اسپتال میں جو خدمت ھوتی تھی ڈاکٹر صاحبان اور نرسس جس طرح دیکھ بھال کرتی ھیں، وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، سب سے اچھا مجھے اس وقت لگتا ھے، جب اسپتال کے کیٹرنگ کا عملہ ھر مریض کو کھانے کی ٹرے دے رھا ھوتا ھے، اور یہ میری خواھش بڑے ھونے کے بعد کئی دفعہ پوری ھوئی، شاید میں چھ سات مرتبہ کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے داخل ھو چکا ھوں، اور کافی تکلیف بھی اٹھائی مگر ساتھ ھی بہت لطف بھی اٹھایا ھے، اور جب اسپتال میں ھی ملازمت کررھے ھوں، تو پھر تو کیا بات ھے کیونکہ وہاں کا عملہ تو آپ سے جان پہچان کی وجہ سے پہلے ھی بہت مہربان ھوتا ھے،!!!!!!

    مجھے جب ھلکا ھلکا ھوش آیا تو میں نے اپنے آپکو ایک دوسرے کمرے مین پایا جہاں چاروں طرف ھرے رنگ کے ھی پردے لٹکے ھوئے تھے، وہاں پر میری شاید ڈریسنگ کررھے تھے اور لباس کو بھی تبدیل کررھے تھے، میرے ناک میں دو نالیاں بھی محسوس کررھا تھا، اس کے علاوہ کئی آس پاس تھیلیاں بھی لٹکتی ھوئی نظر آئیں، ایک میں تو شاید خون جمع ھورھا تھا، جسے دیکھ کر مجھے تھوڑی سی گھبراھٹ ضرور محسوس ھوئی تھی، میں اس وقت بس غنودگی کے عالم میں تھا، اور کوشش کررھا تھا کہ جاگ جاؤں، لیکن شاید کچھ بےھوشی کی دوائیوں کی وجہ سے مجھے مکمل ھوش نہیں آرھا تھا، مگر مجھے چاروں طرف سے آوازیں سنائی دے رھی تھیں، کچھ دوسوں کی بھی جو میری خیریت معلوم کررھے تھے اور کچھ مجھے تسلی دے رھے تھے کہ آپریشن بالکل ٹھیک ٹھاک ھو گیا ھے، لیکن میں اس وقت جواب دینے کے بالکل قابل نہیں تھا، وہ سب وہیں آپریشن تھیٹر کے عملے میں سے ھی تھے،!!!!!

    اسی وقت مجھے کچھ میرے بیڈ کی ھلنے کی حرکت سی محسوس ھوئی، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ مجھے بیڈ پر کب تبدیل کر دیا گیا، بہرحال مجھے محسوس ھو کہ مجھے اب یہاں سے لے جایا جارھا ھے، جیسے ھی آپریشن تھیٹر کے مین گیٹ سے مجھے بیڈ سمیت باھر لے گئے، گیٹ پر بہت سارے چہرے مجھے دھندلے دھندلے سے نظر آرھے تھے، جو یقیناً مجھے ھاتھ ھلا ھلا کر خیریت کے بارے میں پوچھ رھے ھونگے، جیسے ھی مجھے میرے کمرے میں پہچایا گیا تو وہاں پر میں نے اپنے بچوں اور بیگم کو پایا، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں ایک آنسوں کا سیلاب امڈ آیا، وہ بھی منہ چھپا کر رو رھے تھے، میں اس وقت بھی نیم بےھوشی کے عالم میں تھا، باقی لوگ جو وہاں موجود تھے، وہ سب میرے گھر والوں کو تسلی اور دلاسہ دے رھے تھے، لیکن میں کوشش کے باوجود بالکل بھی بول نہیں پارھا تھا،!!!!!!!!!!!!
    --------------------------------
    سی وقت مجھے کچھ میرے بیڈ کی ھلنے کی حرکت سی محسوس ھوئی، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ مجھے بیڈ پر کب تبدیل کر دیا گیا، بہرحال مجھے محسوس ھو کہ مجھے اب یہاں سے لے جایا جارھا ھے، جیسے ھی آپریشن تھیٹر کے مین گیٹ سے مجھے بیڈ سمیت باھر لے گئے، گیٹ پر بہت سارے چہرے مجھے دھندلے دھندلے سے نظر آرھے تھے، جو یقیناً مجھے ھاتھ ھلا ھلا کر خیریت کے بارے میں پوچھ رھے ھونگے، جیسے ھی مجھے میرے کمرے میں پہچایا گیا تو وہاں پر میں نے اپنے بچوں اور بیگم کو پایا، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں ایک آنسوں کا سیلاب امڈ آیا، وہ بھی منہ چھپا کر رو رھے تھے، میں اس وقت بھی نیم بےھوشی کے عالم میں تھا، باقی لوگ جو وہاں موجود تھے، وہ سب میرے گھر والوں کو تسلی اور دلاسہ دے رھے تھے، لیکن میں کوشش کے باوجود بالکل بھی بول نہیں پارھا تھا،!!!!!!!!!!!!

    مجھے وقت گزرنے کا تو احساس ھی نہیں رھا، آھستہ آھستہ غنودگی کی کیفیت کچھ کم ھوئی، میں یہ دیکھ رھا تھا کہ میرے آس پاس جو کچھ بھی باریک باریک ٹیوبس سی لگی ھوئی تھیں، انہیں سفید کپڑوں میں ملبوس نرسیں نکالنے میں مصروف تھیں، ایک میرے ھاتھ میں ڈرپ لگانے کے سوئی لگانے میں مصروف تھی،،!!!!!!! جیسے جیسے میری غنودگی کم ھو رھی تھی، ویسے ھی درد کا احساس بھی بڑھتا جارھا تھا، مجھے آئندہ 24 گھنتوں کے لئے کھانے پینے پر پابندی لگا دی تھی، ویسے بھی بھوک پیاس بالکل نہیں لگ رھی تھی، تھوڑی ھی دیر میں ھمارے سرجن صاحب پہنچ گئے، اور میرے پاس بیٹھ گئے، اب اس وقت تک کافی طبعیت سنبھل گئی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بلڈپریشر اور درجہ حرارت چیک کیا، اور پھر مجھے میرے آپریشن کی تفصیل بتانے لگے، مجھے بس کچھ تھوڑا بہت ھی سمجھ میں یہ آیا کہ،!!!!!! آپریشن کے وقت کچھ تھوڑی بہت مشکل پیش آئی تھی کیونکہ آپریشن کے بعد خون کا رسنا بند نہیں ھو رھا تھا، جس کے لئے مزید کچھ اور طریقہ کار کو انجام دینا پڑا جس کی وجہ سے حالات بہتر ھوگئے، اور خون بہنا بند ھو گیا، اسی لئے اپریشن کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے بڑھ کر ڈھائی گھنٹے کا ھو گیا تھا، کل سے میں واپس چھٹی جارھا ھوں اور اس کے بعد تمھیں دوسرے سرجن دیکھیں گے بس تمھیں یہاں مزید تین دن تک مزید بہتری کیلئے رھنا ھوگا، اسکے بعد آپ گھر پر 15 دن کے لئے گھر پر آرام کے لئے جاسکتے ھیں،!!!!!

    اس وقت شام کے 7 بج رھے تھے، مجھے یاد آیا کہ مجھے دوپہر کے دو بجے آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور شام کے 6 بجے تقریباً وھاں سے مجھے کمرے میں منتقل کیا گیا تھا، یہ سب میرے دوست نے بھی یاد دلایا جو میرے سامنے ھی کھڑے تھے جو اس سرجن سے میرے لئے مزید ھدائت لے رھے تھے، چاروں طرف سے پردہ کھینچا ھوا تھا، جیسے ھی سارا عملہ اور سرجن اور ایک ان کا اسسٹنٹ مجھے چیک کرکے واپس باھر نکلے، تو میرے اس دوست نے جو وارڈ کا چیف تھا، اس نے وہ پردہ میرے سامنے سے ھٹا دیا، میں نے دیکھا کہ میرے سامنے میرے بچے اور بیگم کھڑی تھیں، اور مجھے مسکراتا ھوا دیکھ کر ان سب کے چہروں پر بھی رونق آگئی، میری تینوں بیٹیاں اور ایک بیٹا میرے بستر کے ساتھ کھڑے چپکے ھوئے کھڑے میری طبعیت کے بارے میں پوچھ رھیں تھیں، سامنے ایک کرسی پر ھماری بیگم بیٹھی تھیں، ان کی انکھوں میں تو ابھی تک بار بار آنسو ھی نکل رھے تھے، ساتھ ساتھ اور بھی دوست احباب بھی ملنے کے لئے آرھے تھے، کمرے میں پھولوں کے گلدستے بھی مجھے چاروں طرف نطر آرھے تھے، جن پر صحت کے بہتر ھونے کی دعائیں تحریر تھیں، اس کے علاقہ چاکلیٹ اور مٹھایوں اور پھلوں کے تحائف بھی خوب جمع ھو رھے تھے، میری چھوٹی بیٹی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھورھی تھی، کہنے لگی ،!!!!!! "ابو یہاں تو بڑے مزے ھیں آپکے خوب مال جمع ھورھا ھے،!!!! بڑی بیٹی نے فوراً ھی اسے ڈانٹ دیا،!!!!!

    مجھے بہت دکھ تھا کہ میرا بڑا بیٹا یہاں موجود نہیں تھا اسکا وزٹ ویزا بھیج تو دیا تھا لیکن اسے شاید سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے تاخیر ھورھی تھی، میری وجہ سے ھی بچے آج اسکول نہیں جا سکے تھے، اسپتال کے جتنے بھی میرے ساتھی تھے باری باری گروپ کی شکل میں آتے مجھے مل کر طبیعیت پوچھ کر چلے جاتے رھے، کئی ڈاکٹر اور وہاں کے اعلیٰ عہد داران بھی وقفے وقفے سے ملنے آتے رھے، اس رات کو تو کافی دیر تک ملنے جلنے والوں کا تانتا بندھا رھا، میں تو بالکل ھل بھی نہیں سکتا تھا، بس سیدھے کمر کی طرفسے بستر کو کچھ تھوڑا سا اونچا کیا ھوا تھا، رات کے بارہ بجے تک بچے ساتھ تھے، چھوٹا بیٹا میری دیکھ بال کے لئے میرے پاس ھی رک گیا، ویسے تو کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن پھر بھی اس نے ضد کی کہ نہیں میں آپکے پاس ھی رھوں گا، اور باقی سب اجازت لے کر چلے گئے، میرا چھوٹا بیٹا ھی میرے سرھانے کچھ دیر تک بیٹھا رھا، اور میرے بار بار کہنے پر وہ سامنے رکھے ھوئے صوفے پرلیٹ گیا، میرا بھانجا بھی مجھے کئی بار دیکھنے آچکا تھا، !!!!!!!!!

    کہتے ھیں نا کہ کبھی کبھی کہی ھوئی بات بھی سچ ھوجاتی ھے، جو کہ ایک دفعہ میں نے اسی سرجن سے کھا تھا کہ میں ایک دن تم سے ھی آپریشن ضرور کراوں گا اور بات درست ھی ھوگئی، اسے میں نے یاد دلایا تو وہ بہت ھنسا، اور کہا کہ ایسی باتیں کرنا کوئی اچھی بات نہیں ھے،!!!!!
    کئی میرے اور بھی رشتہ دار اسی شہر میں تھے لیکن اطلاع ملنے پر بھی وہ مجھ سے ملنے نہیں آسکے تھے، مجھے کچھ افسوس بھی ھوا تھا، لیکن ھوسکتا ھے کہ کوئی مجبوری رہی ھے، حتیٰ کہ میرا چھوٹا بھائی بھی نہیں پہنچ سکا تھا، بس ٹیلیفون پر ھی رسمی سی گفتگو ھوئی اور خیر خیریت معلوم کی،، بعد میں اس نے مجھ سے کہا کہ،!!!! " بھائی،!!! میں تو سمجھا کہ کوئی ایسے ھی چھوٹا موٹا آپریشن ھوگا، ورنہ میں ضرور پہنچتا،!!!!!!

    مجھے کوئی کسی کے مزاج پرسی کے لئے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو ایک ھم سب کا فرض ھے کہ بیمار کی عیادت کے لئے ضرور جانا چاھئے اور جو آپکے قریب ھیں انہیں تو کسی بھی حالت میں پہچنا چاھئے، اگر اطلاع مل گئی ھو تو، میں نے پاکستان میں سب سے یہی کہلوادیا تھا کہ میری والدہ کو میرے اس آپریشن کے بارے میں نہ بتایا جائے، میں خود ویسے بھی پاکستان میں یہ اطلاع نہیں دینا چاھتا تھا لیکن میرے آپریشن کے دوران ھی پاکستان سے ٹیلیفون آیا اور ھماری بیگم سے رھا ھی نہیں گیا، اور بتا دیا وہاں تو جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی، خیر شکر ھے کہ والدہ کو کسی نے بھی نہیں خبر دی ورنہ تو بہت زیادہ پریشانی ھوجاتی، لیکن دیکھئے کہ قدرتی اسی دن وہ سب سے کہہ رھی تھیں کہ میرے بیٹے سے بات کراؤ، اس دن وہ بہت ھی پریشان رھیں، آخرکار دوسرے دن ھی میں نے ان سے بات کی تو انہیں تسلی ھوئی،!!!!!!!
     
  29. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھیں کہ ھم لوگ اس طرح کچھ بھی بچا نہیں رھے تھے، اور ھر جگہ بدلنے سے ھمارے بچوں کی تعلیم پر بھی بہت برا اثر پڑا تھا، اور اب وہ بچوں کا معیار نہیں تھا جو کہ پہلے ھوا کرتا تھا، مجھے اس کی بھی فکر تھی، لیکن شروع سے میں نے سوچا نہیں جب بچے بڑے ھونا شروع ھوئے تو اس بات کا خیال آیا، جس کا کہ مجھے اب تک افسوس ھے، یہاں پر بچوں کے پہنچتے ھی سب کو ان کے پاکستانی انٹر نیشنل اسکول میں داخل کرادیا، اور کرایہ کی ایک گاڑی ان چاروں بچوں کو لانے لے جانے لئے لگادی، پہلے کی طرح اس دفعہ بھی بچوں کا ایک سال ضائع ھوگیا، اسی طرح ان کی تعلیم کا معیار بھی آہستہ آہستہ گرتا رھا، ھم اپنے آپ کو اب کیا کہیں کہ باھر رہ کر بہت کچھ اپنی زندگی میں کھوتے ھی ھیں، کچھ پانے کی امید بہت ھی کم ھوتی ھے،!!!!!!

    جیسا کہ نعیم بھائی نے کہا کہ ھم یہاں صرف اس معاملے میں ھم بہت ھی خوش قسمت ھیں کہ اللٌہ تعالیٰ نے ھمیں یہاں پر حج اور عمرہ اور دیار نبی (ص)‌ :saw: کی زیارت کی سعادت سے نوازا، اس سے بڑھ کر ھمارے لئے اور کیا نعمت ھو سکتی ھے، جو کچھ ھم نے دنیاوی طور پر کھویا ھے، وہ ھم نے ان مقدس مقامات کی زیارت اور وہاں عبادات کرکے روحانی سکون ضرور پایا ھے،!!!!!

    اب ھماری کچھ زندگی کی گاڑی لائن پر آچکی تھی، بچے اسکول جانے لگے تھے، صرف بڑے بیٹے کی فکر تھی، جس کے لئے وزٹ ویزا داخل کیا ھوا تھا، امید تھی کہ مل ھی جائے گا، بیٹے کے آنے سے پہلے میرے بھانجے کا یہاں کے لئے انتخاب ھو چکا تھا، اور وہ بھی یہاں پہنچ چکا تھا، اگر میں اسے یہاں نہیں بلاتا تو میری بہن نے میرا برا حال کردینا تھا، اسی دوران 21 مئی 2002 کو مجھے پیٹ کی ایک سائڈ پر کافی درد سا محسوس ھونے لگا، صبح صبح کا وقت تھا دفتر جانے کی تیاری میں ھی تھا، ناشتہ بھی بہت مشکل سے کیا، مگر گھر پر کسی کو محسوس ھونے نہیں دیا، اس سے پہلے بھی مجھے کئی دفعہ یہ درد ھو چکا تھا لیکن بس درد کی دوائی سے ٹھیک ھو جاتا تھا، اس لئے کوئی زیادہ احتیاط بھی نہیں کی، دفتر میں جیسے ھی پہنچا وہاں مجھے درد بہت ھی شدت سے ھونے لگا، میں سیدھا اپنے اسپتال کے ھی ایک ڈاکٹر کے پاس پہنچا، اس نے کچھ ایکسرے اور کچھ ٹیسٹ کرائے، پتہ چلا کہ "پتے" یعنی میرے "گال بلیڈر" میں کافی پتھریاں جمع ھو گئیں ھیں، اس لئے اسکا فوراً آپریشن بہت ضروری ھے، ورنہ اسکا پھٹنے کا خطرہ تھا، مجھ سے درد بالکل برداشت ھی نہیں ھو رھا تھا، سب لوگ وہاں پر جان پہچان کے تھے، سب نے مل کر تمام آپریشن کیلئے تمام کاغزی کاروائی مکمل کی، مجھ سے ایک پیپر پر بھی دستخط کرالئے، اور پھر مجھے فوراً ھی داخل کر لیا گیا، اور ڈرپ اور انجکشن وغیرہ لگا دئے گئے، تاکہ درد میں کچھ کمی ھو جائے،!!!!!!

    میں نے گھر پر بھی اطلاع پہنچادی کہ فوراً پہنچو میں میری طبعیت خراب ھے، اور شاید مجھے ابھی کچھ دیر میں آپریشن تھیٹر میں لے جائیں گے، لیکن افسوس کہ میری بیگم اور بچوں کے پہنچنے سے پہلے ھی مجھے آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا گیا، لباس وغیرہ پہلے ھی تبدیل کردیا گیا تھا، جس وقت مجھے بیڈ پر لٹا کر تیزی تیزی سے آپریشن تھیٹر کی طرف لے جایا جارھا تھا، اس وقت میری تکلیف انجکشن کی وجہ سے کچھ کم ھوگئی تھی، میری نگاھیں بار بار باھر کے دروازے پر لگی ھوئی تھیں، کہ شاید میرے بیگم اور بچے پہنچ جائیں، لیکن جیسے ھی باھر کا دروازہ میری نظروں سے اوجھل ھوا، اور آپریشن تھیٹر میں میرے بیڈ کے داخل ھوتے ھی دروازہ بند کردیا گیا، لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ میرے اندر جاتے ھی میری بیگم اور بچے دوڑتے ھوئے اس آپریشن تھیٹر کے مین دروازے پر پہنچے ھی تھے کہ دروازہ بند ھو گیا اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، ان سب کی اس وقت کیا حالت ھوگی، اللٌہ جانے،!!!!!!!!!

    آپریشن تھیٹر کا ایک الگ ھی ماحول تھا، سب نے سبز رنگ کےکپڑے پہنے ھوئےتھے، اس میں پتہ ھی نہیں چلتا ھے کہ کون ڈاکٹر ھے اور کون سا دوسرا عملہ ھے، اور سب نے اپنے منہ کو بھی سبز ماسک سے ڈھکا ھوا تھا، اور ھاتھوں میں دستانے سر کو بھی سبز رنگ کی ٹوپیوں سے ڈھکے ھوئے تھے، ھالانکہ سب جان پہچان کے دوست تھے، مجھ سے اپنے کام کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کررھے تھے، اور تسلیاں بھی دے رھے تھے، مجھے بیڈ سے اپریشن ٹیبل پر منتقل کیا گیا، جہاں اوپر لائیٹس اور کیمرے لگے ھوئے تھے، اور میرے جسم کے مختلف حصوں پر وہاں کے ٹیکنیشن اور نرسس جانے کیا کیا تاروں کی لائنوں سے جوڑنے کی تیاری کررھے تھے، شاید بلڈپریشر اور دل کی دھڑکن کو مانیٹرنگ کرنے کیلئے آلات سے جوڑا جا رھا ھوگا، فوراً ھی سرجن سبز لباس پہنے ھوئے میرے قریب آئے اور انہوں نے مجھے مختصراً اس اپریشن کے بارے میں بتایا اور کہا کہ آپکو مکمل بےھوش کرکے ایک گھنٹے کے اندر اندر آپکو پتہ ھی نہیں چلے گا، اور ھم "لیپروس کوپی" کے سسٹم سے آپریشن کرکے آپ کے گال بلیڈر کو نکال دیں گے، آپکا بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکنیں بالکل معمول کے مطابق اس آپریشن کے قابل ھیں، آپکو کوئی پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ھے، اسی اثنا میں مجھے ایک نے میرے چہرے پر آکسیجن کا ماسک چڑھایا گیا اور پھر مجھے بالکل ھی ھوش نہیں رھا،!!!!!

    اس وقت دوپہر کے تقریباً دو بجے ھونگے، اس ھمارے دوست سرجن کو اس دن چھٹیوں پر جانا تھا، لیکن اس نے میری وجہ سے اپنی چھٹیوں کو آگے کی تاریخوں میں بڑھا دیں، میرے اس کے ساتھ بھی بہت اچھے مراسم تھے، اکثر کبھی کبھی میں اس سے مذاقاً کہتا بھی تھا کہ ایک دن میں آپ کے ھاتھوں سے ھی اپنا آپریشن کراؤں گا، وہ مجھ پر ناراض بھی ھوجاتا تھا، کہ ایسی باتیں کرنا بری بات ھے، اللٌہ نہ کرے کہ ایسا ھو،!!!! میں نے اس سرجن کے بارے میں سنا ھوا تھا، کہ اس کے آپریشن ھمیشہ کامیاب ھوتے ھیں، اس اسپتال میں ملازمت کرتے ھوئے مجھے کافی عرصہ ھوچکا تھا، تقریباً 12 سال کے عرصہ میں 1998-1999 کے درمیان میں مجھے دو سال کے لئے چھوڑنا پڑا، لیکن دوبارہ اسی اسپتال کو جوائن کرلیا، اس وقفہ میں ایک سال کیلئے مجھے ترکمانستان کا رخ کرنا پڑا تھا، جسکا کہ میں پہلے تفصیل سے ذکر کرچکا ھوں، وہ بھی ایک نہ بھولنے والی داستان ھے، اس سے پہلے بھی مجھے شاید 1986یا 1987 میں میرے گردے میں بہت تکلیف اٹھی تھی، جس کی وجہ سے پاکستان کے ایک اسپتال میں داخل ھونا پڑا تھا، جہاں قدرتی طور پر بغیر آپریشن کے ھی تقریباً دس دن تک داخل رھنے کے بعد عین اس وقت گردے کی تکلیف ختم ھوگئی، جس دن سرجن نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ اب آپریشن کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ھے،!!!!! اور یہ اب میرا دوسرا موقعہ تھا کہ میرے آپریشن کی تیاریاں ھورھی تھیں، مگر میں نے اپنے آپ کو بالکل مطمئین اور پرسکون رکھا ھوا تھا،!!!!!

    ویسے میں ایک دل کی بات بتاؤں کہ مجھے بچپن سے ھی نہ جانے کیوں اسپتال میں داخل ھونا بہت ھی اچھا لگتا تھا، شاید اس کی وجہ یہی ھو کہ اکثریت میں لوگ ملنے آتے ھیں، اور پھولوں کے گلدستوں کے ساتھ تحفے تحائف اور بہت ھی خوش اخلاقی انکساری کے ساتھ خیریت دریافت کرتے ھیں، اس کے علاوہ اسپتال میں جو خدمت ھوتی تھی ڈاکٹر صاحبان اور نرسس جس طرح دیکھ بھال کرتی ھیں، وہ مجھے بہت اچھا لگتا تھا، سب سے اچھا مجھے اس وقت لگتا ھے، جب اسپتال کے کیٹرنگ کا عملہ ھر مریض کو کھانے کی ٹرے دے رھا ھوتا ھے، اور یہ میری خواھش بڑے ھونے کے بعد کئی دفعہ پوری ھوئی، شاید میں چھ سات مرتبہ کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے داخل ھو چکا ھوں، اور کافی تکلیف بھی اٹھائی مگر ساتھ ھی بہت لطف بھی اٹھایا ھے، اور جب اسپتال میں ھی ملازمت کررھے ھوں، تو پھر تو کیا بات ھے کیونکہ وہاں کا عملہ تو آپ سے جان پہچان کی وجہ سے پہلے ھی بہت مہربان ھوتا ھے،!!!!!!

    مجھے جب ھلکا ھلکا ھوش آیا تو میں نے اپنے آپکو ایک دوسرے کمرے مین پایا جہاں چاروں طرف ھرے رنگ کے ھی پردے لٹکے ھوئے تھے، وہاں پر میری شاید ڈریسنگ کررھے تھے اور لباس کو بھی تبدیل کررھے تھے، میرے ناک میں دو نالیاں بھی محسوس کررھا تھا، اس کے علاوہ کئی آس پاس تھیلیاں بھی لٹکتی ھوئی نظر آئیں، ایک میں تو شاید خون جمع ھورھا تھا، جسے دیکھ کر مجھے تھوڑی سی گھبراھٹ ضرور محسوس ھوئی تھی، میں اس وقت بس غنودگی کے عالم میں تھا، اور کوشش کررھا تھا کہ جاگ جاؤں، لیکن شاید کچھ بےھوشی کی دوائیوں کی وجہ سے مجھے مکمل ھوش نہیں آرھا تھا، مگر مجھے چاروں طرف سے آوازیں سنائی دے رھی تھیں، کچھ دوسوں کی بھی جو میری خیریت معلوم کررھے تھے اور کچھ مجھے تسلی دے رھے تھے کہ آپریشن بالکل ٹھیک ٹھاک ھو گیا ھے، لیکن میں اس وقت جواب دینے کے بالکل قابل نہیں تھا، وہ سب وہیں آپریشن تھیٹر کے عملے میں سے ھی تھے،!!!!!

    اسی وقت مجھے کچھ میرے بیڈ کی ھلنے کی حرکت سی محسوس ھوئی، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ مجھے بیڈ پر کب تبدیل کر دیا گیا، بہرحال مجھے محسوس ھو کہ مجھے اب یہاں سے لے جایا جارھا ھے، جیسے ھی آپریشن تھیٹر کے مین گیٹ سے مجھے بیڈ سمیت باھر لے گئے، گیٹ پر بہت سارے چہرے مجھے دھندلے دھندلے سے نظر آرھے تھے، جو یقیناً مجھے ھاتھ ھلا ھلا کر خیریت کے بارے میں پوچھ رھے ھونگے، جیسے ھی مجھے میرے کمرے میں پہچایا گیا تو وہاں پر میں نے اپنے بچوں اور بیگم کو پایا، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں ایک آنسوں کا سیلاب امڈ آیا، وہ بھی منہ چھپا کر رو رھے تھے، میں اس وقت بھی نیم بےھوشی کے عالم میں تھا، باقی لوگ جو وہاں موجود تھے، وہ سب میرے گھر والوں کو تسلی اور دلاسہ دے رھے تھے، لیکن میں کوشش کے باوجود بالکل بھی بول نہیں پارھا تھا،!!!!!!!!!!!!
    --------------------------------
    سی وقت مجھے کچھ میرے بیڈ کی ھلنے کی حرکت سی محسوس ھوئی، مجھے پتہ ھی نہیں چلا کہ مجھے بیڈ پر کب تبدیل کر دیا گیا، بہرحال مجھے محسوس ھو کہ مجھے اب یہاں سے لے جایا جارھا ھے، جیسے ھی آپریشن تھیٹر کے مین گیٹ سے مجھے بیڈ سمیت باھر لے گئے، گیٹ پر بہت سارے چہرے مجھے دھندلے دھندلے سے نظر آرھے تھے، جو یقیناً مجھے ھاتھ ھلا ھلا کر خیریت کے بارے میں پوچھ رھے ھونگے، جیسے ھی مجھے میرے کمرے میں پہچایا گیا تو وہاں پر میں نے اپنے بچوں اور بیگم کو پایا، جنہیں دیکھ کر میری آنکھوں میں ایک آنسوں کا سیلاب امڈ آیا، وہ بھی منہ چھپا کر رو رھے تھے، میں اس وقت بھی نیم بےھوشی کے عالم میں تھا، باقی لوگ جو وہاں موجود تھے، وہ سب میرے گھر والوں کو تسلی اور دلاسہ دے رھے تھے، لیکن میں کوشش کے باوجود بالکل بھی بول نہیں پارھا تھا،!!!!!!!!!!!!

    مجھے وقت گزرنے کا تو احساس ھی نہیں رھا، آھستہ آھستہ غنودگی کی کیفیت کچھ کم ھوئی، میں یہ دیکھ رھا تھا کہ میرے آس پاس جو کچھ بھی باریک باریک ٹیوبس سی لگی ھوئی تھیں، انہیں سفید کپڑوں میں ملبوس نرسیں نکالنے میں مصروف تھیں، ایک میرے ھاتھ میں ڈرپ لگانے کے سوئی لگانے میں مصروف تھی،،!!!!!!! جیسے جیسے میری غنودگی کم ھو رھی تھی، ویسے ھی درد کا احساس بھی بڑھتا جارھا تھا، مجھے آئندہ 24 گھنتوں کے لئے کھانے پینے پر پابندی لگا دی تھی، ویسے بھی بھوک پیاس بالکل نہیں لگ رھی تھی، تھوڑی ھی دیر میں ھمارے سرجن صاحب پہنچ گئے، اور میرے پاس بیٹھ گئے، اب اس وقت تک کافی طبعیت سنبھل گئی تھی، ڈاکٹر صاحب نے بلڈپریشر اور درجہ حرارت چیک کیا، اور پھر مجھے میرے آپریشن کی تفصیل بتانے لگے، مجھے بس کچھ تھوڑا بہت ھی سمجھ میں یہ آیا کہ،!!!!!! آپریشن کے وقت کچھ تھوڑی بہت مشکل پیش آئی تھی کیونکہ آپریشن کے بعد خون کا رسنا بند نہیں ھو رھا تھا، جس کے لئے مزید کچھ اور طریقہ کار کو انجام دینا پڑا جس کی وجہ سے حالات بہتر ھوگئے، اور خون بہنا بند ھو گیا، اسی لئے اپریشن کا دورانیہ ایک گھنٹہ سے بڑھ کر ڈھائی گھنٹے کا ھو گیا تھا، کل سے میں واپس چھٹی جارھا ھوں اور اس کے بعد تمھیں دوسرے سرجن دیکھیں گے بس تمھیں یہاں مزید تین دن تک مزید بہتری کیلئے رھنا ھوگا، اسکے بعد آپ گھر پر 15 دن کے لئے گھر پر آرام کے لئے جاسکتے ھیں،!!!!!

    اس وقت شام کے 7 بج رھے تھے، مجھے یاد آیا کہ مجھے دوپہر کے دو بجے آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور شام کے 6 بجے تقریباً وھاں سے مجھے کمرے میں منتقل کیا گیا تھا، یہ سب میرے دوست نے بھی یاد دلایا جو میرے سامنے ھی کھڑے تھے جو اس سرجن سے میرے لئے مزید ھدائت لے رھے تھے، چاروں طرف سے پردہ کھینچا ھوا تھا، جیسے ھی سارا عملہ اور سرجن اور ایک ان کا اسسٹنٹ مجھے چیک کرکے واپس باھر نکلے، تو میرے اس دوست نے جو وارڈ کا چیف تھا، اس نے وہ پردہ میرے سامنے سے ھٹا دیا، میں نے دیکھا کہ میرے سامنے میرے بچے اور بیگم کھڑی تھیں، اور مجھے مسکراتا ھوا دیکھ کر ان سب کے چہروں پر بھی رونق آگئی، میری تینوں بیٹیاں اور ایک بیٹا میرے بستر کے ساتھ کھڑے چپکے ھوئے کھڑے میری طبعیت کے بارے میں پوچھ رھیں تھیں، سامنے ایک کرسی پر ھماری بیگم بیٹھی تھیں، ان کی انکھوں میں تو ابھی تک بار بار آنسو ھی نکل رھے تھے، ساتھ ساتھ اور بھی دوست احباب بھی ملنے کے لئے آرھے تھے، کمرے میں پھولوں کے گلدستے بھی مجھے چاروں طرف نطر آرھے تھے، جن پر صحت کے بہتر ھونے کی دعائیں تحریر تھیں، اس کے علاقہ چاکلیٹ اور مٹھایوں اور پھلوں کے تحائف بھی خوب جمع ھو رھے تھے، میری چھوٹی بیٹی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ھورھی تھی، کہنے لگی ،!!!!!! "ابو یہاں تو بڑے مزے ھیں آپکے خوب مال جمع ھورھا ھے،!!!! بڑی بیٹی نے فوراً ھی اسے ڈانٹ دیا،!!!!!

    مجھے بہت دکھ تھا کہ میرا بڑا بیٹا یہاں موجود نہیں تھا اسکا وزٹ ویزا بھیج تو دیا تھا لیکن اسے شاید سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے تاخیر ھورھی تھی، میری وجہ سے ھی بچے آج اسکول نہیں جا سکے تھے، اسپتال کے جتنے بھی میرے ساتھی تھے باری باری گروپ کی شکل میں آتے مجھے مل کر طبیعیت پوچھ کر چلے جاتے رھے، کئی ڈاکٹر اور وہاں کے اعلیٰ عہد داران بھی وقفے وقفے سے ملنے آتے رھے، اس رات کو تو کافی دیر تک ملنے جلنے والوں کا تانتا بندھا رھا، میں تو بالکل ھل بھی نہیں سکتا تھا، بس سیدھے کمر کی طرفسے بستر کو کچھ تھوڑا سا اونچا کیا ھوا تھا، رات کے بارہ بجے تک بچے ساتھ تھے، چھوٹا بیٹا میری دیکھ بال کے لئے میرے پاس ھی رک گیا، ویسے تو کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن پھر بھی اس نے ضد کی کہ نہیں میں آپکے پاس ھی رھوں گا، اور باقی سب اجازت لے کر چلے گئے، میرا چھوٹا بیٹا ھی میرے سرھانے کچھ دیر تک بیٹھا رھا، اور میرے بار بار کہنے پر وہ سامنے رکھے ھوئے صوفے پرلیٹ گیا، میرا بھانجا بھی مجھے کئی بار دیکھنے آچکا تھا، !!!!!!!!!

    کہتے ھیں نا کہ کبھی کبھی کہی ھوئی بات بھی سچ ھوجاتی ھے، جو کہ ایک دفعہ میں نے اسی سرجن سے کھا تھا کہ میں ایک دن تم سے ھی آپریشن ضرور کراوں گا اور بات درست ھی ھوگئی، اسے میں نے یاد دلایا تو وہ بہت ھنسا، اور کہا کہ ایسی باتیں کرنا کوئی اچھی بات نہیں ھے،!!!!!
    کئی میرے اور بھی رشتہ دار اسی شہر میں تھے لیکن اطلاع ملنے پر بھی وہ مجھ سے ملنے نہیں آسکے تھے، مجھے کچھ افسوس بھی ھوا تھا، لیکن ھوسکتا ھے کہ کوئی مجبوری رہی ھے، حتیٰ کہ میرا چھوٹا بھائی بھی نہیں پہنچ سکا تھا، بس ٹیلیفون پر ھی رسمی سی گفتگو ھوئی اور خیر خیریت معلوم کی،، بعد میں اس نے مجھ سے کہا کہ،!!!! " بھائی،!!! میں تو سمجھا کہ کوئی ایسے ھی چھوٹا موٹا آپریشن ھوگا، ورنہ میں ضرور پہنچتا،!!!!!!

    مجھے کوئی کسی کے مزاج پرسی کے لئے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو ایک ھم سب کا فرض ھے کہ بیمار کی عیادت کے لئے ضرور جانا چاھئے اور جو آپکے قریب ھیں انہیں تو کسی بھی حالت میں پہچنا چاھئے، اگر اطلاع مل گئی ھو تو، میں نے پاکستان میں سب سے یہی کہلوادیا تھا کہ میری والدہ کو میرے اس آپریشن کے بارے میں نہ بتایا جائے، میں خود ویسے بھی پاکستان میں یہ اطلاع نہیں دینا چاھتا تھا لیکن میرے آپریشن کے دوران ھی پاکستان سے ٹیلیفون آیا اور ھماری بیگم سے رھا ھی نہیں گیا، اور بتا دیا وہاں تو جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی، خیر شکر ھے کہ والدہ کو کسی نے بھی نہیں خبر دی ورنہ تو بہت زیادہ پریشانی ھوجاتی، لیکن دیکھئے کہ قدرتی اسی دن وہ سب سے کہہ رھی تھیں کہ میرے بیٹے سے بات کراؤ، اس دن وہ بہت ھی پریشان رھیں، آخرکار دوسرے دن ھی میں نے ان سے بات کی تو انہیں تسلی ھوئی،!!!!!!!
     
  30. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: یادوں کی پٹاری پارٹ 1

    جھے کوئی کسی کے مزاج پرسی کے لئے آنے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ تو ایک ھم سب کا فرض ھے کہ بیمار کی عیادت کے لئے ضرور جانا چاھئے اور جو آپکے قریب ھیں انہیں تو کسی بھی حالت میں پہچنا چاھئے، اگر اطلاع مل گئی ھو تو، میں نے پاکستان میں سب سے یہی کہلوادیا تھا کہ میری والدہ کو میرے اس آپریشن کے بارے میں نہ بتایا جائے، میں خود ویسے بھی پاکستان میں یہ اطلاع نہیں دینا چاھتا تھا لیکن میرے آپریشن کے دوران ھی پاکستان سے ٹیلیفون آیا اور ھماری بیگم سے رھا ھی نہیں گیا، اور بتا دیا وہاں تو جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی، خیر شکر ھے کہ والدہ کو کسی نے بھی نہیں خبر دی ورنہ تو بہت زیادہ پریشانی ھوجاتی، لیکن دیکھئے کہ قدرتی اسی دن وہ سب سے کہہ رھی تھیں کہ میرے بیٹے سے بات کراؤ، اس دن وہ بہت ھی پریشان رھیں، آخرکار دوسرے دن ھی میں نے ان سے بات کی تو انہیں تسلی ھوئی،!!!!!!!

    پردیس میں اللٌہ تعالیٰ کسی کو بیمار نہ کرے، ھر طرف سے پریشانی، محدود وسائل اور اپنوں سے دوری کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ھے، مجھے تو کوئی اتنی مشکل نہیں ھوئی کیونکہ ایک تو میری فیملی میرے ساتھ تھی دوسرے یہ کہ اسپتال میں ملازمت کرنے کی وجہ سے سب سے اچھی خاصی جان پہچان بھی تھی، اور سب لوگ ھی بہت خیال رکھتے تھے، دن رات ھر وقت لوگوں کا میرے کمرے میں آنا جانا رھتا تھا، گپ شپ بھی رھتی تھی، بیگم اور بچے بھی گھر سے ھر وقت چکر لاتے رھتے تھے، دفتر کا کافی کام بھی میں نے اپنے بیڈ پر رھتے ھوئے مکمل کرتا رھا، پانچویں دن ھی میری چھٹی ھوگئی تھی، ڈاکٹر نے 15 دن کی رخصت دی، تاکہ میں گھر پر آرام کرسکوں، کافی کچھ پرھیز کیلئے کہا گیا تھا، لیکن میں تو اسپتال کے پھیکے پھیکے کھانے کھا کھا کر تنگ آچکا تھا، میرا دل چاہ رھا تھا کہ خوب چٹ پٹے مصالے دار بھنا بھنایا، پکوان ملے اور کھاؤں، مگر میری بیگم نے بہت سختی کی اور مجھے کافی دنوں تک پرھیزی کھانا کھلایا، لیکن چوری چوری سے میری بیٹی کبھی کبھی گھر میں کچھ مزیدار مصالے دار چیز پکی ھو تو اپنی اماں سے چھپ چھپا کر مجھے چکھا دیتی تھی، بس تھوڑا سا ھی، کیونکہ وہ بھی اپنی اماں کی طرح ھی میرا بہت خیال رکھتی تھی دوائیں وقت پر دینا، سب کچھ یہ دونوں ھی لگی رھتی تھیں،!!!!!!!

    اسی دوران دفتر کا کام گھر پر بھی آجاتا تھا، میرا گھر بھی آدھا دفتر بن چکا تھا، جو کہ میری بیگم کو پسند نہیں تھا، وہ کہتی تھیں کہ جب گھر پر آرام کرنے کیلئے چھٹی ملی ھے، تو گھر کا دفتر کیوں بنالیا ھے، اور کئی دفتری کام کے معمولات کے لئے بار بار ٹیلیفوں پر بھی رابطہ کرنا پڑتا تھا، اور ٹیلفون بھی آتے رھتے تھے، ویسے اب میری حالت پہلے سے کافی بہتر تھی، بس ابھی زیادہ زور سے نہیں بول سکتا تھا، اور مرھم پٹی بھی جاری تھی، جس سے زخم بھی پہلے سے بہت بہتر ھوگئے تھے، زیادہ چل پھر بھی نہیں سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق روزانہ تھوڑا بہت چلنا بھرنا بھی ضروری تھا، گھر میں بھی بہت آؤ بھگت رھی، خوب خاطر تیمارداری میں سب ھی لگے رھے، اور بس بڑے بیٹے کی کمی بہت شدت سے محسوس ھوتی رھی، لیکن آخرکار وہ بھی انہی دنوں وزٹ ویزا لگنے کے فوراً بعد ھی پہنچ گیا، جس دن اسے آنا تھا، میں تو ائرپورٹ نہ جاسکا باقی سب گئے تھے میری بیگم کے علاوہ، !!!! ، جیسے ھی گھر پر وہ پہنچا میرے گلے کر بہت رویا، اور مجھ سے بھی برداشت نہ ھوسکا،!!!!!!

    اب میری فیملی کے سب افراد موجود تھے، والدہ اور باقی بہن بھائی، مجھ سے دور تھے لیکن ان سے بھی روزانہ تقریباً رابطہ رھتا تھا، اور چھوٹا بھائی جو کہ دوسرے شہر میں تھا، کام کی زیادتی کی وجہ سے ملنےنہ آسکا لیکن ٹیلفون پر وہ روزانہ دو تین بار خیریت معلوم کرتا رھتا تھا، اب میرے پاس دونوں بیٹے موجود تھے، مجھے کافی ڈھارس ملی، چھٹیوں کے ختم ھونے سے پہلے ھی عمرے ادا کرنے کا پروگرام بنایا، اور سب مل کر بذریعہ بس روانہ ھوئے، جہاں مجھے میرے چھوٹے بیٹے نے وھیل چیر پر عمرہ مکمل کرایا، کیونکہ میں ابھی بھی اتنا زیادہ چل پھرنے کے قابل نہیں تھا، واپسی بھی خیریت سے ھوگئی، عمرہ ادا کرنے کے بعد کافی سکون ملا، اب اس قابل ھوگیا تھا کہ میں دفتر جاسکوں، دفتر میں باقائدگی سے جانے لگا، اللٌہ تعالیٰ کا شکر تھا کہ وہ تکلیف ختم ھوچکی تھی، اور زندگی کی ریل گاڑی اب پھر سے اپنی پٹری پر رواں دواں ھوگئی،!!!!!!!!!

    زندگی کے ساتھ تو ھمیشہ مسائل اور مصائب لگے ھی رھتے ھیں اور اسی کا نام زندگی ھے، اور ان کے بیچ رہ کر ھی ان کا مقابلہ شعوری طریقہ سے کرنا ھی ہمت اور بہادری کی بات ھے، نہ کہ کسی جھگڑے فساد سے حل کرنا، بعض مسائل ایسے ھوتے ھیں جو کہ خوامخواہ ھی گلے پڑ جاتے ھیں، جیسے کسی کا بھلا کرو، تو الٹا اپنے ھی گلے وبال جان بن جاتا ھے، جیسے اپنے پڑوسی کے ھونے والے داماد صاحب کو نوکری کیا دلائی اپنے گلے میں ھی گھنٹی باندھ لی، اب مجھے پیغام ملا کہ جناب وہ صاحبزادے میرے جدہ سے نکلتے ھی کسی نرس کے عشق میں گرفتار ھوچکے ھیں، بہت دیر میں یہ بھید کھلا، اور انہوں نے اپنی منگیتر سے شادی کرنے سے انکار کردیا، اب پاکستان سے مجھے پیغامات آنا شروع ھوگئے کہ میں اس صاحبزادے کو سمجھاؤں اور کسی طرح بھی اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کروں،!!!!! اب میرے لئے ایک اور مسئلہ کھڑا ھو گیا، میں نے فوراً ھی جدہ کی برانچ میں اپنے دوستوں سے رابطہ کرکے حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کی، تو وہاں سے مجھے مثبت میں ھی جواب ملا کہ یہ بالکل صحیح ھے کہ صاحبزادے کسی کے عشق میں بری طرح سے گرفتار ھیں،!!!! میری تو اس سےکوئی بھی بات چیت نہیں تھی، اور نہ ھی اس نے مجھ سے کسی بھی سلسلے میں کوئی گفتگو کرنے کی کوشش کی،!!!!!!!!!!!

    بہرحال میں پھر مجبوراً ھمارے پڑوسی کی بیٹی کی وجہ سے اس کی زندگی میں آسانیاں اور سکون پیدا کرنے کیلئے حالات کو معمول پر لانے کیلئے اپنی پوری کوشش میں مصروف ھوگیا، کہ ان کے آپس کے تعلاقات بہتر ھوجائیں، میں نے اپنے ایک اچھے دوست سے اس صاحبزادے کی منگیتر کے بارے میں بتایا کہ،!!!!! اب اس صاحبزادے نے اس کی منگیتر سے شادی کرنے سے انکار کردیا ھے، اور وہ لڑکی بہت پریشان ھے،!!!! میں نے مزید اسے کہا کہ اس سے کہو کہ،!!!!! کہ آج کل تم جو کچھ بھی یہاں پر ملازمت کررھے ھو صرف اور صرف اس لڑکی کی وجہ سے ایک وسیلہ بنے ھو،اور اگر تم نے اپنی منگیتر سے شادی نہ کی، تو یہ تمھارے حق میں بہتر نہ ھوگا،!!!!!!!

    میرے دوست وعدہ کیا کہ وہ اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرے گا، ویسے بھی اسکے تعلقات اس صاحبزادے سے بہتر ھی تھے، اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ َ!!!!! اب یہ میرے اوپر چھوڑ دیں، میں ھر قیمت پر اسے ایک تو اس نرس کے عشق کے بھوت سے نجات دلواؤں گا اور دوسرے اسے اس بات پر راضی بھی کرلوں گا کہ وہ فوراً ھی اپنی منگیتر سے شادی کے لئے اقرار بھی کرے،!!!!!!

    میں نے اپنے دوست کا بہت شکریہ بھی ادا کیا، اور مجھے یہ معلوم بھی تھا، کہ وہ کسی نہ کسی طرح بھی اسے ھر قیمت پر راضی کرلے گا، ویسے بھی وہ بہت رعب دار شخصیت کا مالک تھا،!!!!
    میں بھی پھر خاموش ھوگیا، کچھ ھی دنوں بعد مجھے میرے دوست نے خود ھی اطلاع پہنچائی، آپکا کام ھو گیا اور وہ صاحبزادے راہ راست پر آگئے ھیں اور اب اپنی منگیتر سے شادی کے لئے راضی بھی ھوگئے ھیں،!!!!! میں نے اس سے پوچھا کہ یہ آناً فاناً یہ کایا کیسے پلٹ گئی،!!!!! اس نے جواب دیا کہ،!!!! بس اب چھوڑ دیں یہ میرے اپنے خفیہ راز ھیں، جو میں کھولنا نہیں چاھتا، بس اب آپ اس لڑکی کو بتا دیجئے کہ یہ صاحبزادے اب یہاں کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے، عشق تو دور کی بات ھے،!!!!!! میں تو بہت ھی زیادہ حیران ھوا کہ اور میں نے فوراً ھی پاکستان میں ھمارے پڑوسیوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ سب اب اسی صاحبزادے سے اپنی لڑکی کی شادی کی تیاری میں لگے ھوئے ھیں،!!!!!!!!!!!! اور ھمیں بتایا تک نہیں اور نہ ھی میرا کوئی شکریہ ادا کیا چلو خیر کوئی بات نہیں، ھمارا تو مقصد اس لڑکے کو راہ راست پر لانا تھا اور اسکی منگیتر سے اس کو شادی کے لئے رضا مند کرانا تھا، بس!!!!!!!!
    ---------------------------------------

    میں نے اپنے دوست کا بہت شکریہ بھی ادا کیا، اور مجھے یہ معلوم بھی تھا، کہ وہ کسی نہ کسی طرح بھی اسے ھر قیمت پر راضی کرلے گا، ویسے بھی وہ بہت رعب دار شخصیت کا مالک تھا،!!!!
    میں بھی پھر خاموش ھوگیا، کچھ ھی دنوں بعد مجھے میرے دوست نے خود ھی اطلاع پہنچائی، آپکا کام ھو گیا اور وہ صاحبزادے راہ راست پر آگئے ھیں اور اب اپنی منگیتر سے شادی کے لئے راضی بھی ھوگئے ھیں،!!!!! میں نے اس سے پوچھا کہ یہ آناً فاناً یہ کایا کیسے پلٹ گئی،!!!!! اس نے جواب دیا کہ،!!!! بس اب چھوڑ دیں یہ میرے اپنے خفیہ راز ھیں، جو میں کھولنا نہیں چاھتا، بس اب آپ اس لڑکی کو بتا دیجئے کہ یہ صاحبزادے اب یہاں کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے، عشق تو دور کی بات ھے،!!!!!! میں تو بہت ھی زیادہ حیران ھوا کہ اور میں نے فوراً ھی پاکستان میں ھمارے پڑوسیوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ سب اب اسی صاحبزادے سے اپنی لڑکی کی شادی کی تیاری میں لگے ھوئے ھیں،!!!!!!!!!!!! اور ھمیں بتایا تک نہیں اور نہ ھی میرا کوئی شکریہ ادا کیا چلو خیر کوئی بات نہیں، ھمارا تو مقصد اس لڑکے کو راہ راست پر لانا تھا اور اسکی منگیتر سے اس کو شادی کے لئے رضا مند کرانا تھا، بس!!!!!!!!

    بہت ھی اچھا ھوا کہ صاحبزادے اپنی منگیتر جو انکی رشتہ دار بھی تھیں، شادی کے لئے مان گئے، اور جس عشق کے چکر میں پڑے تھے، اس سے بھی انہوں نے جان چھڑا لی، چلئے جی ایک اور مسئلہ بھی حل ھوگیا، میں بھی خوش تھا کہ اس نے ھماری بات کا مان رکھ لیا، وہ صاحبزادے چھٹی گئے اور انکی شادی بہت ھی دھوم دھام سے ھمارے پڑوسی کی بیٹی سے شادی ھوگئی جو انکی رشتہ دار بھی تھی، ھم سب نے یہاں سے اپنے پڑوسیوں کو ٹیلیفون پر مبارکباد بھی دی، اور واقعی ھمیں بھی بہت ھی خوشی تھی کہ ایک اجڑتا ھوا گھر دوبارہ سے بس گیا، اور وہ صاحبزادے شادی کرکے اپنی چھٹی گزار کر واپس پہنچ بھی گئے، اور انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ بھی نہیں کیا، نہ ھی میں نے اس صاحبزادے سے کوئی گفتگو کرنے کی کوشش کی،!!!!!!

    کچھ ھی مہینوں بعد جب ھم لوگ سال 2003 کے شروع میں چھٹی پر گئے، تو وہاں ھم اپنے پڑوسیوں کے گھر بھی گئے، اب جبکہ ھم ان کے سامنے والا گھر جہاں میری فیملی رھتی تھی، اسے اب تو ھم چھوڑ چکے تھے، لیکن اپنے تمام ان سب مہربان عزیز و اقارب جو وہاں پر موجود تھے، سب سے ملاقات کی، لیکن جب ھم ان خاص پڑوسیوں کے گھر پہنچے جن کی بیٹی کی شادی اسی صاحبزادے سے ھوئی تھی، اور ان سے ملاقات ھوئی، تو ان سب کے چہرے مجھے بجھے بجھے سے نظر آئے، اور وہ لڑکی بھی وہیں موجود تھی، وہ بھی کچھ اداس اداس سی لگ رھی تھی، کافی دیر بعد بار بار پوچھنے پر انکی والدہ ماجدہ نے اپنے دکھوں کی پٹاری کھول ھی دی، اور آنکھوں میں نمی لئے ھوئے کہنے لگیں کہ،!!!!
    "ھماری بیٹی کی قسمت ھی خراب ھے، شادی تو ھوگئی لیکن اس لڑکے نے اس کا جینا حرام کردیا پہلے دن سے ھی اس نے ھم سب ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھا ھے،!!!!! لڑکی بھی خوش نہیں ھے، حالانکہ ان دونوں کی پسند سے ھی شادی ھوئی ھے، ھم تو پہلے ھی اس شادی سے خوش نہیں تھے لیکن اس لڑکی کی وجہ سے ھمیں اپنا سر جھکانا پڑا"،!!!!!! میں نے اور ھماری بیگم نے انہیں تسلی دی اور کافی سمجھایا بھی کہ ،!!!!!، "ایسے شادی کے بندھن کے ھر الجھن کو سلیقے سے سلجھائیں، نہ کہ اسے مزید الجھنوں کا شکار ھونے دیں اور ویسے بھی آپلوگ آپس میں بالکل خاص نزدیکی رشتہ دار ھیں اور مل بیٹھ کر اس مسئلے کا آسانی سے بہتر حل نکال سکتے ھیں ،!!!!

    اس کے ساتھ ھم نے لڑکی کو بھی سمجھایا، لیکن وہ تو بس اپنے آنکھوں میں آنسو ھی لئے رھی، بعد میں کچھ تفصیل کھلی تو بیگم نے مجھے بتایا کہ اس صاحبزادے نے اپنی عشق کی داستاں اپنی بیگم کو بھی سنادی تھی، جس کی وجہ سے انکے آپس میں کافی اختلافات بھی ھوگئے تھے، اور مزید خطرناک صورت حال اختیار کرتے جارھے ھیں، اب نہ جانے کون کس غلطی پر تھا، ان دونوں خاندان کو سوچنا چاھئے تھا لیکن دونوں خاندان بھی آپس میں بہت سخت ناراض ھوگئے، یہ دونوں خاندان بھی پہلے سے ھی اس شادی کے لئے ناخوش تھے، مگر لڑکی کی ضد کی وجہ سے انہیں راضی ھونا پڑا تھا، اور شروع میں‌ تو دونوں‌ ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے، اور اسی وجہ سے ھی والدین کی رضامندی سے ھی منگنی بھی ھوچکی تھی،!!!!!!!!!

    پھر ھم سب اپنی چھٹیاں بھی گزار کر آگئے، اور اس طرف کوئی دھیان بھی نہیں دیا کیونکہ ان کا آپس کا معاملہ تھا، وہ جو چاھیں جس طرح چاھیں اپنے مسائل کو بہتر سے بہتر طریقے سے حل کرسکتے تھے، کچھ ھی روز بعد اطلاع ملی کہ وہ صاحبزادے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر تلے ھوئے ھیں، مجھے یہ سن کر بہت دکھ ھوا، اور ان صاحبزادے نے مجھے ھی اس کا ذمہ دار ٹہرا دیا، کہ اس طلاق کی وجہ میں اور میری فیملی ھے، کہ انہوں نے وہاں جاکر کیا کچھ کہا جسکی وجہ سے طلاق تک کی نوبت پہنچ گئی، اب یہاں ھر کوئی مجھ سے سوال کررھا تھا کہ کہ کیا بات ھوئی تھی، میں کیا بتاتا مجھے تو بہت ھی ذہنی صدمہ پہنچا کیونکہ ھم تو اس معاملے کو سلجھانے گئے تھے، مگر یہ تو الٹا ھم پر ھی الزام آگیا، مجھے بعد میں اندازہ ھوا کہ مجھ سے اس صاحبزادے نے انتقام لینے کی غرض سے اپنی زندگی کی کہانی میں ایک موڑ لے کر آیا کہ میرے کہنے پر اسنے شادی کیلئے ھاں کردی، تاکہ وہ اس لڑکی اور اس کے خاندان کو ذلیل کرسکے اور شاید طلاق دینے کا بھی منصوبہ اس نے پہلے ھی بنایا ھو اور اس طلاق کا ذمہ دار بھی مجھ کو بنانے میں اس کا ایک پلان ھو، بہرحال میں نے بھی اپنے تمام دوستوں سے کوشش کرکے اسے اس سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن اس صاحبزادے نے ان سب کو نہ جانے کیا کہانی سنائی کہ مجھے اور میری فیملی کو اس کا ایک مہرہ بناکر بدنام کرنے کی اپنی ناکام کوشش کی،!!!!!!!!!!

    اسی دوران ھم نے وہاں لڑکی کے گھر والوں سے ٹیلیفون بات کی کہ اس آپکے داماد نے اس ھونے والی طلاق کا ذمہ دار ھمیں ٹھرا کر ھمیں بدنام کرنے کی کوشش کررھا ھے، اسے آپ لوگ سمجھائیں کہ ھمارے خلاف ایسی باتیں نہ کریں، وہ لوگ بھی حیران پریشان تھے، کہ وہ ایسا کیوں کررھا ھے انہوں نے کہا کہ،!!!!! یہ تو ھم سب کا یہاں پر آپس کا فیصلہ ھے کہ اس لڑکے کی زیادتیوں کی وجہ سے ھی ھم اپنی لڑکی کی مرضی سے ھی اس سے جان چھڑا رھے ھیں، اس میں آپکا کوئی عمل دخل نہیں ھے،جبکہ آپ لوگوں نے تو اس مسئلے کو ھر ممکن سلجھانے کی کوشش کی تھی،!!!! میں تو بہت زیادہ ھی پریشان ھوگیا تھا، میرے سارے دوست تو میری عادت کو سمجھتے تھے، اور اس کی حرکتوں کو بھی جانتے تھے، جب میں نے ان سب کو اصل حقیقت سے آگاہ کیا تو سب نے مل کر خوب اس پر لعن طعن کی، میں نے یہ پہلی غلطی کی تھی کہ کسی کو یہاں اپنے توسط سے بلوا کر اپنے آپ کو ذلیل کروایا، مجھے بہت ھی زیادہ دکھ ھوا، آخرکار نتیجہ صلح صفائی کا کچھ بھی نہیں نکلا، اور ان دونوں کی طلاق ھوگئی،!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں