1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از محبوب خان, ‏13 ستمبر 2012۔

  1. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    صدر اوبامہ نے اقوام متحدہ ميں اپنی تقرير ميں جس بات کو واضح کيا وہ امريکی معاشرے ميں رائج قوانين اور آزادی راۓ کے اظہار کا وہ بنيادی آئينی حق ہے جو بغير کسی تفريق کے ہر فرد کو حاصل ہے۔

    امريکی حکومت کسی مخصوص گروہ کے خلاف دانستہ تشدد کی ترغيب کے سوا آزادی راۓ پر کوئ پابندی نہيں لگاتی۔

    امريکہ ميں ايسا کوئ قانون موجود نہيں ہے جو کسی بھی شخص کے خلاف کسی مخصوص مذہب، فرقے يا سياسی نظريے کے خلاف بولنے کی پاداش ميں قانونی مقدمے کا سبب بنے۔

    مختلف فورمز پر راۓ دہندگان جو اس بات پر بضد ہيں کہ اسلام اور مسلمان امريکی حکومت کے ايما پر دانستہ نشانہ بناۓ جا رہے ہيں، وہ اپنی دليل کے دفاع ميں ايسی مثالیں بھی ديتے ہيں جو اکثر غير متعلقہ اور تناظر سے ہٹ کر غلط پيراۓ میں بيان کی جاتی ہيں۔

    حقيقت ميں اس دعوے ميں کوئ سچائ نہيں ہے ۔

    اس سوچ کی بنيادی اساس اور نظريہ ہی تضادات پر مبنی ہے۔ ايک جانب تو راۓ دہنگان يہ تاثر ديتے ہيں کہ امريکی حکومت اتنی فعال اور وسائل سے مالا مال ہے کہ ہم نے تمام سوشل اور ميڈيا نيٹ ورکس کو اس حد تک اپنے زير اثر اور کنٹرول ميں کيا ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں اور اسلام کی اہم اور مقدس شخصيات کے بارے ميں مواد پھيلا سکتے ہيں۔ ليکن زمينی حقائق اور سوشل ميڈيا کے سرسری جائزے سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ امريکی مخالف مواد خود امريکہ کے اندر بھی نا صرف يہ کہ باآسانی دستياب ہے بلکہ اس کی کھلم کھلا تشہير بھی جاتی ہے۔

    جہاں تک أنور العولقي کی ويڈيوز کا يو ٹيوب سے ہٹايا جانا اورايسی ہی ديگر مثاليں ہيں جن کا راۓ دہندگان بار بار حوالہ دے کر امريکی حکومت کی مبينہ دوغلی پاليسی کا ذکر کرتے ہيں، تو اس ضمن ميں يہ سمجھنا ضروری ہے کہ امريکی حکومت کا سوشل ميڈيا پليٹ فارمز کی پاليسيوں، رائج قواعد و ضوابط اور انتظاميہ کے صوابديدی اختيارات پر کوئ کنٹرول نہيں ہے۔ يہ ان ويب سائٹس کی انتظامیہ پر منحصر ہے کہ کس مواد کوپوسٹ کرنے کی اجازت دی جاۓ اور کون سے مواد ان کی جانب سے ممبران کے ليے وضع کردہ قوانين کی حدود سے باہر ہے۔ امريکی حکومت کا اس سارے عمل پر کوئ اختيار يا کنٹرول نہيں ہے۔ اس بات کے ثبوت کے ليے انھی ويب سائٹس پر ايسی ہزاروں ويڈيوز آپ ديکھ سکتے ہيں جن ميں خود ہماری اپنی حکومت پر تنقيد کے ساتھ ساتھ امريکی صدر کو بھی تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
     
     
  2. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
  3. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    شاباش! احمدؐ کے غلام

    محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ:: روزنامہ ایکسپریس کالم نگار

    وہ تین بھائی ہیں اور سب کے سب سیاست دان۔ بڑے لبرل اور سیکولر۔ الیاس، بشیر اور احمد۔
    ان میں سے ایک وفاقی وزیر ہیں۔ ان وزیر صاحب نے ایک زوردار دھماکا کردیا ہے۔ سچ مچ کا نہیں بلکہ ایک بیان دے کر۔ انھوں نے ایسی بات کہی کہ حکومتِ پاکستان بھی پریشان ہوگئی ہے تو امریکا بہادر ناراض ہوگیا ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور نے کہا کہ ’’جو شخص رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخانہ فلم بنانے والے کو قتل کرے گا وہ انھیں ایک لاکھ ڈالر دیں گے۔‘‘
    یہ بیان زوردار اس لیے ہے کہ یہ ایک سیکولر پارٹی کے اہم لیڈر کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ پہلے ہم پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے انداز دیکھیں گے اور پھر عشق رسولؐ کی بات کریں گے اور آخر میں اندازہ لگائیں گے کہ سیکولر ازم کے غبارے سے ہوا کون سی چنگاری نکالتی ہے؟
    اسلام، مذہبی پارٹیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ مسلم لیگیں اسے زندگی کا اہم حصّہ تو سیکولر پارٹیاں مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ سمجھتی ہیں۔ ایسی پارٹیوں میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی شامل ہیں۔ اب اسفندیار ولی کا ساتھی، ولی خان کا پرستار اور باچا خان کو سیاسی رہنما ماننے والی پارٹی کا اہم لیڈر ایسا بیان دے تو اسے دھماکا خیز ہی کہنا چاہیے۔ اگر جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام کے کسی رہنما نے ایسا بیان دیا ہوتا تو کوئی خاص بات نہ ہوتی۔ اگر کسی مسلم لیگ کے لیڈر نے انعام دینے کا اعلان کیا ہوتا تو یہ قابلِ ذکر بیان نہ ہوتا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ الفاظ ایسے لیڈر کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جو مذہبی معاملات میں بچ بچا کر چلتے ہیں۔
    عشقِ رسولؐ کی چنگاری ہر مسلمان کے دل میں سلگتی رہتی ہے، چاہے مسلمان کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو، چاہے وہ شرابی ہو یا زانی، جب احمدِ مجتبیٰؐ کی شان میں گستاخی سامنے آئے گی تو وہ اپنے گناہوں کے ٹوکرے کو ایک طرف رکھ کر شاتمِ رسول کو جہنم واصل کرنے کی طرف چل پڑتا ہے۔ مسلمان چاہے نماز روزے کا پابند نہ ہو لیکن جب اس کے علم میں آتا ہے کہ اس کے آقا کو، اس کے ہادی کو برا بھلا کہا جا رہا ہے تو پھر وہ اپنی حرارت جانچنے والوں کو بتا دیتا ہے کہ ابھی آتشِ عشق بجھی نہیں۔ اس دبی دبی سی چنگاری میں شعلہ ہے جو بھڑک جانے میں کبھی دیر نہیں لگاتا۔ یہی کچھ احمدؐ کے غلام اور وفاقی وزیر غلام احمد بلور نے کیا۔
    وفاقی وزیر سے ریلوے کو نہ سدھارنے کی شکایتیں تھیں۔ ایک رعایت یہ تھی کہ ان سے قبل کے ریلوے کے وزیروں نے خوب کرپشن کی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ بھارت کے لالو پرشاد نے اسی وزارت کو سنبھال کر بھارتی ریلوے کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا تھا۔ ان اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان اور انسانی خوبیوں اور خامیوں کو ساتھ لیے یہ ساڑھے پانچ چھ فٹ کا آدمی کبھی کچھ کہہ جاتا ہے۔ ہم آپ میں سے کوئی کہتا کہ ’’ٹیری جونز کو قتل کرنے والے کو انعام دیں گے‘‘ تو اس کی اہمیت نہ ہوتی۔ ایک وفاقی وزیر اور وہ بھی سیکولر پارٹی اور عدم تشدد کی بات کرنے والے کے بیان کی بڑی اہمیت ہے۔
    غلام احمد بلور کے اس بیان نے پاکستان کی کابینہ میں لرزہ اور اے این پی میں زلزلے کا سا سماں پیدا کردیا ہے۔ جب اسفندیار ولی کی صدارت میں باچا خان کے پیروکار اس مسئلے پر گفتگو کریں گے تو سیکولر ازم منہ تکتا رہ جائے گا۔ جب عشقِ رسولؐ حاوی آجائے گا تو لبرل ازم کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ جب امریکا اس وزیر سے بیان واپس لینے یا استعفیٰ لینے کی بات کرے تو دیکھا جائے گا کہ احمدؐ کا غلام یہ بازی جیتتا ہے یا امریکا کی غلامی میں بازی لے جانے والے کامیاب ہوتے ہیں۔ بلور نے وہ بات کہی ہے کہ وہ جیت گئے تو کیا کہنا اور ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔
    سیکولر ازم کا غبارہ ہو یا لبرل ازم کی فٹ بال، ہوا بھر کر انھیں بڑا کرنے والوں نے مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ریاست کا فرد کے مذہبی معاملات سے کوئی واسطہ نہیں۔ مغرب نے آزادیٔ رائے کے نام پر رسول اکرمؐ کی شان میں گستاخیوں کی سیریز شروع کردی۔ قرآن پاک کو جلانے کی جسارت کرکے مسلمانوں کے ٹمپریچر کو آزمانا چاہا۔ انھیں پتہ چلا کہ مسلمانوں میں عشقِ رسولؐ کی حرارت کی شدّت اتنی ہے جو ناپی نہیں جاسکتی۔ اس کو کسی ہندسے یا وزن کے کسی پیمانے سے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔ باہر والے بار بار گستاخی کرکے چاہتے ہیں کہ مسلمان اسے روز کا معمول سمجھ کر خاموش ہوجائیں یا اسے روٹین کی ایک چیز سمجھ کر بے حس ہوجائیں۔ غلامی رسول کے نام پر امریکا کے غلام مطلب خیز اور ذومعنی الفاظ میں تھپتھپی دے کر سلانے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن کیا کریں کہ ان کے اپنے اندر کا آدمی جو ابھی تک غلام احمد نظر آرہا تھا اس نے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ ایسی بات کہہ دی کہ پاکستان کا ایوانِ صدر اور امریکا کا وائٹ ہائوس آج سر پکڑ کر بیٹھے ہیں کہ شاید کل سرجوڑ کر بیٹھ جائیں۔
    غلام احمد بلور نے اپنا بیان واپس لینے سے انکار کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مسلمان، پاکستانی اور پختون ہوتے ہوئے یہ بیان واپس نہیں لے سکتے۔ یہ تین الفاظ کی ترتیب ہے جو ہماری ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ پہلے مسلمان، پھر پاکستانی اور پھر کچھ اور۔ جب اے این پی کے ایک لیڈر کے بیان، سیاسی پارٹیوں کی قسموں، سیکولر ازم و لبرل ازم کے غبارے اور سب سے بڑھ کر عشقِ رسولؐ کی بات ہورہی ہے تو اس مرحلے پر ایک غلط فہمی دور ہوجائے۔ کہا جاتا ہے کہ ہم چودہ سو سال سے مسلمان، ساٹھ ستر سال سے پاکستانی اور چار پانچ ہزار سال سے سندھی، پٹھان اور بلوچ ہیں۔ اسلام، حضرت آدمؑ کے دور سے ہے۔ حضورؐ آخری نبی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ و عیسیٰؑ کے بعد ان کے حواریوں نے اپنے مذاہب کو یہودیت و عیسائیت کا نام دیا۔ تمام پیغمبروں نے اسلام کی دعوت دی ہے ۔
    لہٰذا کوئی قومیت اسلام سے قدیم نہیں، کوئی دین محمد عربیؐ کے دین سے جدید نہیں اور کسی مسلمان کا دل عشقِ رسول سے خالی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی رسولؐ کی حرمت پر آنچ آئی، بظاہر اچھے نظر آنے والے مسلمان دیکھتے رہ گئے اور اکثر ترکھانوں کے بیٹے ہی بازی لے گئے ہیں۔ آج بھی سیکولر، عدم تشدد اور لبرل ازم کے غبارے کو عشقِ رسول کی چنگاری نے پھاڑ دیا ہے۔ گالی دینے والے کو تھپڑ مارنا کوئی تشدد نہیں۔ توہینِ رسالتؐ پر منافقت کو مذہبی رواداری کے پردے میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ ویل ڈن غلام احمد بلور۔ شاباش احمدؐ کے غلام۔

    بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    سامراج اور مسلم دنیا

    زمرد نقوی :: روزنامہ ایکسپریس کالم نگار

    مسلمان سربراہ مملکت نے اقوام متحدہ سے امریکی صدر کے خطاب کے جواب میں مذاہب کی توہین کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
    انھوں نے کہا کہ مغربی ملکوں کو اسلام فوبیا کو ختم کرنا چاہیے جو گستاخانہ فلم سے پیدا ہونے والے طوفان کے بعد شروع ہوا ہے۔ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ یہ فلم مذہبی ہتک کا بدنما چہرہ ہے۔ ہر کسی کو اخلاقیات اور نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے۔ آزادی اظہار لامحدود نہیں ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی دستاویز بنائی جائے جو مذہبی عقائد کی بنیاد پر تشدد اور مخالفت اکسانے کو مؤثر طور پر روک سکے۔ اردن کے شاہ نے فلم اور اس کے نتیجے میں تشدد کی مخالفت کی۔ افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا کہ اسلام فوبیا ایک تشویشناک عمل ہے جو امن اور بقائے باہمی کو کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
    مصر کے صدر محمد مرسی نے کہا کہ قاہرہ میں امریکی مخالف مظاہروں کے باوجود امریکا کی طرف سے عرب ممالک میں انقلاب کی حمایت سے ایک دوسرے کے احترام کا موقعہ مل سکتا ہے۔ نیویارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصر کے صدر نے کہا کہ مصر میں غیر مسلموں اور خواتین کے حقوق محفوظ ہیں۔ مصر کے ایک نئے جمہوری ملک کے طور پر ایک سیکولر ریاست کی شکل میں برقرار رہے گا۔
    پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے پر زور انداز میں بین الاقوامی برادری سے کہا ہے کہ وہ آزادی اظہار کو مجرمانہ شکل دیے جانے پر خاموش تماشائی نہ بنے رہیں جس نے پوری دنیا کی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ گستاخانہ فلم بنانے والے اقوام کو تقسیم کرکے اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں جب کہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقوام عالم پر مخصوص طرز زندگی مسلط کیا جارہا ہے۔
    سرمایہ دارانہ نظام بہت جلد دم توڑ دے گا۔ دنیا کی معیشت کو منصفانہ خطوط پر استوار ہونا چاہیے۔ سپرپاورز کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ موجودہ ورلڈ آرڈر نے دنیا کو مشکلات سے دوچار کررکھا ہے۔ دنیا کا نظام ناانصافی پر مبنی ہے۔ ایران کو اسرائیل سے مسلسل خطرہ ہے۔ غیر تہذیب یافتہ صہیونی عظیم ایرانی قوم کے خلاف فوج کشی چاہتے ہیں۔ مسلمان عیسائیوں، یہودیوں کو ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہیں۔ عالمی حکمران اشرافیہ مذاہب کے مابین اختلافات کو ہوا دیتی ہے۔ دنیا بھر کے انسانوں کو ’’حکمران اقلیت‘‘ کے خلاف متحد ہوجانا چاہیے۔ ایرانی صدر کی تقریر کے موقعے پر امریکا اور اسرائیل کے وفود اقوام متحدہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرگئے۔
    احمدی نژاد نے کہا کہ عالمی برادری امریکی غنڈہ گردی سے تنگ آچکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا میں دہشت گردی کرانے میں مغربی ممالک کا ہاتھ ہے جن کی سرپرستی امریکا کر رہا ہے۔ نائن الیون ایک ڈراما تھا کیونکہ اصل حقائق سامنے نہیں لائے گئے۔ ایران نائن الیون کے پس پردہ حقائق سامنے لائے گا۔ دنیا کو نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے۔ ایٹمی مسئلہ نان ایشو ہے۔ اسے عالمی طاقت نے انا کا مسئلہ بنالیا ہے۔ بہت جلد دنیا کو عالمی شہنشاہ کے احکامات سے نجات ملے گی۔ امریکا کی عالمی برادری کے خلاف جارحیت ہو یا ایٹمی معاملہ ان پر حال ہی میں تہران میں منعقد ہونے والی ناوابستہ ممالک کی کانفرنس ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنائی نے تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
    دنیا خاص طور پر مسلم دنیا میں امریکا نے ایران کے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈا اور غلط فہمیاں پھیلائی ہیں اس کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی نظام اور امریکا کے حوالے سے ان قابل قدر خیالات کا گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے۔ اپنے خطاب میں وہ کہتے ہیں کہ دنیا کے کنٹرول روم کا اختیار چند مغربی ممالک کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے۔ امریکا اور اس کے ہمنوا انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب مغربی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ بات کرتے ہیں ڈیموکریسی کی لیکن اس کی جگہ مختلف ملکوں میں اپنی فوجی مداخلت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ وہ بات کرتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی لیکن شہروں اوہر قصبوں میں آباد نہتے عوام پر بموں کی بارش کردیتے ہیں۔ ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق ایشیا افریقہ اور لاطینی امریکا کے انسانوں کی جانیں بے قیمت اور امریکا اور مغربی یورپ میں بسنے والے انسانوں کی جانیں بہت قیمتی قرار دی جاتی ہیں۔
    وہ اپنے مفادات کو بین الاقوامی قوانین کا نام دے کر اپنی غیرقانونی باتوں کو عالمی برادری کے مطالبے کا نام دے کر قوموں پر مسلط کردیتے ہیں۔ اپنی اجارہ داری والے منظم میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے وہ اپنے جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتے ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی کیمیائی اور اسی طرح کے دیگر ہتھیاروں کے استعمال کو ناقابل معافی اور عظیم گناہ سمجھتا ہے۔ ہم نے جوہری ہتھیار سے پاک مشرق وسطیٰ کا نعرہ بلند کیا ہے اور اس کی پابندی بھی کررہے ہیں لیکن عالمی قوانین کی رو سے ایٹمی توانائی اور ایٹمی ایندھن کی پیداوار کا پر امن استعمال ہمارا حق ہے لیکن چند مغربی ممالک جوہری ایندھن کی پیداوار پر بھی اپنی ’’اجارہ داری‘‘ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
    طرف تماشا یہ ہے کہ امریکا جس کے پاس سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہیں ایک طرف اگر ایٹمی عدم پھیلائو کا علم بردار بنا ہوا ہے تو دوسری طرف اس نے غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرکے اسے اس حساس علاقے کے لیے بہت بڑے خطرے میں تبدیل کردیا ہے۔ یہ مغربی ممالک کے مؤثر میڈیا نیٹ ورک کا کمال ہی ہے کہ اس کا دن رات کا مسلسل پروپیگنڈا مسلمانوں کے ذہن کو برین واش کرتے ہوئے جھوٹ کو سچ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال شام کا بحران ہے۔ مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے شام کے حوالے سے جو بھی خبر آتی ہے ہمارے اخبارات اسے چھاپنے کے لیے ’’مجبور‘‘ ہیں۔ کوئی آزاد ذریعہ نہیں جس سے حقیقت کا پتہ چل سکے۔ شام کے حوالے سے خبریں اس انداز سے مسلم دنیا میں پھیلائی جارہی ہیں جس سے امریکا اور اسرائیل کے مؤقف کی تائید ہوکہ شامی حکومت اپنے عوام پر ظلم کررہی ہے۔
    عراق پر قبضہ کرنے اور دنیا کو ہمنوا بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ یہی کچھ آج کل سامراجی میڈیا شام میں کررہا ہے۔ شام پر امریکی قبضہ کرانے کے لیے اگر ایک طرف ترکی قطر اور عرب بادشاہتیں سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف افغانستان اور پاکستان کے جہادی بھی اسی ’’نیک کام‘‘ میں شام کے محاذ پر مصروف عمل ہیں۔ اس کا توڑ یہی ہے کہ مسلمانوںکو بھی چاہیے کہ مغربی میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ہر خبر پر ایمان نہ لائیں۔ اور اس قول کی تفسیر بنیں کہ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ یعنی اسے کوئی دھوکا نہیں دے سکتا……’’نہ اپنے نہ پرائے‘‘۔
    امریکا کی عالمی چوہدراہٹ ختم ہونے والی ہے۔ دنیا میں طاقت کے نئے مراکز 2015 سے 2018کے درمیان وجود میں آجائیں گے۔

    بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    يہ وضاحت ضروری ہے کہ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے بھی اور امريکی حکومت کے نمايندے کی حيثيت سے بھی ميں نے کسی بھی موقع پر نا تو فلم ميکر کے فعل کا دفاع، تائيد، سپورٹ يا اس کی توجيہہ پيش کی ہے اور نا ہی اس کے اقدام کو بے ضرر قرار ديا ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس موضوع کے حوالے سے ميری تمام پوسٹنگز کا اگر آپ سرسری جائزہ ليں تو آپ پر واضح ہو گا کہ ميں نے امريکی صدر اوبامہ اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن کے کے بيانات سميت اس معاملے کے حوالے سے مذمتی ردعمل کو ہی اجاگر کيا ہے۔

    جہاں تک امريکہ ميں آزادی راۓ کے حوالے سے راۓ ہے تو ميں اس حد تک آپ سے متفق بھی ہوں اور اس غم و غصے کو بھی سمجھ سکتا ہوں جس کی وجہ سے فورمز پر بحث کی جا رہی ہے۔ ميں اس تجزيے کو بھی درست سمجھتا ہوں کہ اس معاملے ميں کچھ افراد نے جانتے بوجھتے ہوۓ اپنے حقوق اور قوانين کا استعمال کر کے دانستہ نا صرف يہ کہ امريکی مسلمانوں بلکہ دنيا بھر ميں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کيا ہے۔

    ليکن مہذب معاشروں ميں جو قانونی فريم ورک اور آئينی حدود مرتب کی جاتی ہيں انھيں ان چند افراد کے فعل اور خواہشات کے تابع يا يرغمال نہيں بنايا جا سکتا جو بہرکيف دنيا ميں فتنہ پھيلانے کے متمنی رہتے ہيں۔ معاشرے کی عمومی بہتری اور اکثريت کا مفاد ان اصولوں پر منحصر ہوتا ہے جو صديوں سے ہمارے ملک کی بنيادی اساس کا حصہ رہے ہيں۔

    افراد کے اظہار راۓ کی آزادی اور ان آئينی حقوق کو سلب کرنا، ان پر قدغن لگانا اور پابندياں عائد کرنا جو امريکی معاشرے ميں ہر فرد کو حاصل ہيں نا صرف يہ کہ ہمارے اپنے قوانين اور آئين کی شکنی ہو گی بلکہ ان غير مقبول گروہوں کے ليے بھی فتح کی نويد ہو گی۔ اور اس کا خميازہ امريکی مسلمانوں سميت آبادی کی اس اکثريت کو بھی بھگتنا ہو گا جو انھی قوانين اور حقوق کو استعمال کر کے معاشرے کی بہتری کے ليے بيش بہا کام اور جدوجہد کر رہے ہيں۔

    يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ معاشرے کے مختلف طبقوں کے ليے مختلف پيمانے اور امتيازی برتاؤ روا رکھے۔ ہم اس بنياد پر افراد اور گروہوں کے خلاف قانونی چارہ جوہی نہيں کر سکتے کہ انھوں نے دانستہ معاشرے کے ديگر طبقوں کی دل آزاری کے ليے اپنے خيالات کا پرچار کيا ہے، چاہے وہ خيالات کتنے ہی قابل مذمت، غير اخلاقی يا قابل نفرت کيوں نہ ہوں۔

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
     
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    اچھی بات ہے کہ آپ نے کھل کے اظہار کیا۔۔۔۔۔کہ
    "افراد کے اظہار رائے کی آزادی اور ان آئينی حقوق کو سلب کرنا، ان پر قدغن لگانا اور پابندياں عائد کرنا جو امريکی معاشرے ميں ہر فرد کو حاصل ہيں نا صرف يہ کہ ہمارے اپنے قوانين اور آئين کی شکنی ہو گی"

    کہ آپ لوگ کچھ نہیں‌کرسکتے ۔۔۔۔۔ کیونکہ آپ لوگوں کے قانوں چنگیز خان اور ہلاکو خان نے اپنے قبروں سے نکل کر بنائے ہیں۔۔۔۔اور اگر اس وقت ضرورت کے مطابق ان میں کوئی تبدیلی کرنے کی کوشش کریں گے تو ممکن ہے کہ دونوں‌بلا آگے پیچھے آنے کے بجائے ایک ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوں۔۔۔۔اور آپ لوگوں کو تباہ کردیں جیسے کہ انھوں نے اپنے وقت کے مسلمانوں کو کیا تھا۔

    آپ اپنی قوم کو بتائیں کہ قانون انسان اپنی سہولت کے لیے بناتا ہے۔۔۔۔ناکہ دوسروں کو اور اپنے آپ کو تنگ کرنے کے لیے۔۔۔۔۔فواد صاحب۔۔۔۔۔آپ ایلکس ہیلے کا ناول "روٹس" پڑھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔آپ کو امریکی قوم کے بنیادی خدوخال کا معلوم ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔۔یہ لکھا بھی ایک امریکی نے۔۔۔۔۔۔اور لکھا بھی امریکیوں کے بارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ ابراہم لنکن کے پیروکار امریکی قوم کے آج کے مختلف نفرت انگیز کاموں سے روکنے کی کوشش ضرور کریں گے۔

    آپ نے کہا کہ
    "يہ وضاحت ضروری ہے کہ ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے بھی اور امريکی حکومت کے نمايندے کی حيثيت سے بھی ميں نے کسی بھی موقع پر نا تو فلم ميکر کے فعل کا دفاع، تائيد، سپورٹ يا اس کی توجيہہ پيش کی ہے اور نا ہی اس کے اقدام کو بے ضرر قرار ديا ہے۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس موضوع کے حوالے سے ميری تمام پوسٹنگز کا اگر آپ سرسری جائزہ ليں تو آپ پر واضح ہو گا کہ ميں نے امريکی صدر اوبامہ اور وزير خارجہ ہيلری کلنٹن کے کے بيانات سميت اس معاملے کے حوالے سے مذمتی ردعمل کو ہی اجاگر کيا ہے۔"

    ہم یہاں آپ کی ذاتی حیثیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور آپ کی سرکاری موجودگی کو بھی قابل تعریف سمجھتے ہیں۔۔۔۔آپ سے جو گفتگو ہوتی ہے وہ اس لیے ہوتی ہے کہ آپ اپنے پالیسی بنانے والوں کو ہمارے تبصرے اور جو حقائق ہیں اور جو لوگوں کے اصل خیالات ہیں ان سے آگاہ کریں۔۔۔۔۔تاکہ بطور قوم آپ لوگ اچھے فیصلے کرسکیں۔۔۔۔۔۔۔ہم اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ ایک ترقی یافتہ قوم ہیں۔۔۔۔۔۔مگر اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ دوسروں کی بھی قدر کریں۔۔۔۔۔۔سوا ارب مسلمانوں کے ایمان کے افضل پہلو پر کوئی وار کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچیں کہ اس کے نتائج کس قدر بھیانک ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔آزادی اظہار اور ہر قسم کی آزادی اپنے آپ سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتی ہے جہاں کسی اور کی آزادی شروع ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔اس لیے اظہار آزادی کے نام پر اپنے کیے ہوئے غلط اقدامات کی دفاع کی بجائے اپنے کیے پر غور کریں۔۔۔۔۔۔اگر اصلاح نصیب میں ہوگی تو بہتر۔۔۔۔ورنہ تاریخ‌نے اپنا فیصلہ تو ہمیشہ کرنا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔اپنے کیے پر رجوع کی گنجائش ضرور ہوتی ہے مگر تاریخ کے فیصلوں‌پر رجوع کی کوئی گنجائش نہیں‌ہوتی۔۔۔۔اس لیے ڈریں اس وقت سے ۔۔۔۔۔ جب فیصلے ہورہے ہوں۔۔۔۔۔اور آپ چاہتے ہوئے بھی رجوع نہ کرسکیں۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    حیدرآباد: گستاخانہ فلم کے خلاف حیدرآباد میں صحافیوںنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
    حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس نے گستاخانہ فلم کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ مظاہرین میں صحافیوں، فوٹو گرافرز اور کیمرا مینوں کے ساتھ سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنمائوں و کارکنان کی بڑی تعداد بھی شریک تھی۔ رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گستاخانہ فلم بنا کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیاگیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

    سعد اللہ جان برق جمعرات 4 اکتوبر 2012 :: روزنامہ ایکسپریں کالم نگار

    اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ اس پورے نقار خانے میں اب تک جو یہ بڑے بڑے ’’نقارے‘‘ ڈم ڈما رہے تھے۔
    وہ سارے کے سارے جھوٹے اور ڈھول کا پول تھے اور سچی آواز صرف اس طوطی کی تھی جس کا نام غلام احمد بلور ہے جس نے اپنے نام کا بھی حق ادا کر دیا ۔۔۔ ماں باپ نے اس کا نام غلام احمد رکھا تھا جو اسم بامسمی ثابت ہوا اور بلور کی طرح شفاف بھی نکلا، اس نے جو کچھ کہا ہے اور لوگوں نے جو کچھ سنا ہے وہ سیاسی سفارتی اور منافقانہ آئین و دستور میں کچھ بھی ہو لیکن کروڑوں لوگوں کے دلوں کی آواز تھی، اب کوئی کچھ بھی کہے یا کرے لیکن ہم تو یہی کہیں گے کہ
    جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
    صحرا مگر بہ تنگی چشم حسود تھا
    صحرا میں ’’چشم حسود‘‘ نے جس تنگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی آپ نے دیکھ اور سن لیا ہو گا کہ ’’یہاں‘‘ اور ’’وہاں‘‘ دونوں جگہوں سے محترم بلور صاحب سے ’’جواب طلبی‘‘ ہو رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس جواب طلبی کا منبع و سر چشمہ کہاں سے پھوٹتا ہے، اصولی طور پر درست بھی ہے ڈالر کھلانے والے جواب طلبی کا حق بھی رکھتے ہیں کہ بھئی ہم نے تم کو اتنا ’’کھلایا پلایا‘‘ اور ہم ہی سے ’’میاؤں‘‘ ۔۔۔ ہمارے ایک بے ’’مثل سپوت‘‘ اور قابل فخر ’’فرزند‘‘ کے خلاف اتنی اشتعال انگیزی؟ اب اس سلسلے میں بہت ساری بین الاقوامی سفارتی سیاسی اور عالمی قسم کی موشگافیاں سامنے آئیں گی بہت سی کاغذی اور کتابی اصلاحات اور عالمی امن کی دہائیاں دی جائیں گی۔
    اس ’’شاتم رسول ‘‘ کے ڈھیر سارے ’’انسانی حقوق‘‘ آڑے آئیں گے، ’’آزادی اظہار‘‘ کے شگوفے چھوڑے جائیں گے اور ہر وہ طریقہ اپنایا جائے گا جس سے ’’شاتم رسول ‘‘ کی جان مال اور آن بان کا تحفظ مقصود ہو گا ۔ ہم بھی امن کے داعی اور تشدد کے مخالف ہیں وہ سب کچھ ہمیں تسلیم ہے جو آزادی اظہار اور انسانی انفرادی آزادی کے ذیل میں آتا ہے ۔ یہاں وہی اصول لاگو ہوتا ہے کہ آپ کو بے شک اپنے ہاتھ پھیلانے کی آزادی حاصل ہے لیکن صرف وہاں تک جہاں سے دوسرے کی ناک یا آنکھ کی سرحد شروع ہوتی ہے۔
    اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق سب کے سب اپنی جگہ درست ہیں لیکن ان کے لیے انسان ہونا بھی ضروری ہوتا ہے ایک شخص کی صرف شکل و صورت انسان کی ہو اور کام شیطان کا ہو تو اسے ’’انسانی حقوق‘‘ نہیں دیے جا سکتے۔ اس نے تو اسی وقت اپنے انسانی حقوق کھو دیے جب اس نے انسانی حقوق کی سرحد پھلانگ کر شیطانی دائرے میں قدم رکھ دیا۔ اس ایک ابلیس کی اس شیطانی حرکت نے جو صورت حال پیدا کی اس میں انسانی جانیں بھی گئی ہیں۔
    کیا وہ انسان نہیں تھے اگر وہ انسان تھے تو انسانوں کے قاتل کی کیا سزا ہو سکتی ۔۔۔ جو لوگ مرے وہ کیوں مرے ۔۔۔ اس لیے کہ اس ایک فرد نے ایک ابلیسی چنگاری جلائی ایک ایسی حرکت کی جس کے نتیجے میں انسانی جانیں تلف ہوئیں۔ مالی نقصان کو تو ایک طرف کر دیجیے لیکن انسانوں کا اصل قاتل کون ہے، اسامہ نے بھی تو اپنے ہاتھ سے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، صدام حسین نے بھی کسی کو خود نہیں مارا تھا، قذافی، حسنی مبارک اور ایسے بہت سارے لوگ ’’بالواسطہ‘‘ طور پر مجرم ٹھہرائے گئے تھے تو کیا یہ جو ابلیسی حرکت کرنے والا ہے۔
    جس کی چنگاری سے یہ آگ لگی، جس نے پورے ڈیڑھ ارب دلوں کا خون کیا ہے جو مذاہب کے درمیان نفرت کی دیواریں بنانے کا مرتکب ہوا ہے وہ ایک بین الاقوامی مجرم ہے اور بالواسطہ طور پر ان تمام نقصانات کا ذمے دار نہیں ہے؟ دنیا اور خود انھی ممالک کے قوانین جن کی دہائیاں دی جاتی ہیں اس معاملے میں کیا کہتی ہیں، بے شک انسانی قتل جرم ہے تشدد غیر قانونی ہے اور کسی کو آزار پہنچانا درست نہیں ہے تو پھر یہ حکومتیں لوگوں کو پھانسیاں، گیس چیمبر اور زہریلے انجکشن یا قید و بند کی سزائیں کیوں دیتی ہیں۔ اسی امریکا نے عراق اور افغانستان میں کتنوں کو مار دیا ہے جو اپنے قوانین کے مطابق درست تھے۔
    کیا عجیب و غریب منطق ہے کہ اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑنے والا تو مجرم ہے اس کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں لیکن ایسے ابلیسوں کے ڈھیروں ڈھیر انسانی حقوق ہوتے ہیں جو ایک جہان کو وقف اضطراب کر دیتے ہیں اس سے زیادہ نرالی منطق اور کیا ہو سکتی ہے کہ کسی ملک کے معمولی قوانین کی خلاف ورزی تو جرم ہے لیکن ایک پوری مسلم قوم کے خلاف اشتعال انگیز اور ابلیسی حرکت ’’اظہار آزادی‘‘ ہے۔
    بات تو صرف ’’جرم‘‘ کی ہونی چاہیے اگر امریکا یک طرفہ طور پر اسامہ، ملا عمر، صدام حسین اور قذافی کو اپنے ہی ملک میں قتل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ایمل کانسی اور عافیہ صدیقی کو مجرم ٹھہرا سکتا ہے تو ایک پوری مسلم قوم کے خلاف جرم کرنے والا مجرم کیوں نہیں ہے۔ کوئی ہمیں یہ تو سمجھائے کہ سانپوں، بچھوؤں اور دوسرے زہریلے جانوروں اور درندوں کو کیوں مارا جاتا ہے اس لیے کہ وہ انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں چنانچہ انسان یہ بھی نہیں دیکھتا کہ اس کے سامنے جو زہریلا جانور یا درندہ ہے اس نے کسی کو مارا ہے بھی یا نہیں۔
    ہو سکتا ہے کہ اس مخصوص بے چارے جانور نے کسی کو خود نہ بھی مارا ہو لیکن انسان دیکھتے ہی اسے مار ڈالتا ہے کیوں؟ اس لیے کہ کہیں آیندہ چل کر یہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے کیوں کہ اس کی ذات اور نسل ہی ایک دفعہ واجب القتل قرار دی جا چکی ہے، اور یہاں تو اس زہریلے انسان نما جانور کو کھلم کھلا انسانوں کو اپنی شیطنت سے آپس میں مروایا ہے۔ یہ شخص واجب القتل ہے اور رہے گا، ڈیڑھ ارب انسانوں کو خون کے آنسو رلانے والا کسی بھی طرح رحم کا مستحق نہیں ہے اور اگر کوئی حکومت کوئی قانون اور کوئی انسان اسے کسی بھی بہانے سے تحفظ دیتا ہے تو وہ برابر اس کا شریک ہے۔
    اگر کسی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قوانین کا تحفظ کرنے کے لیے سب کچھ کرے تو غلام احمد بلور کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وسائل کا استعمال ان محرکات کی حفاظت کے لیے کرے جو اس کا دین و ایمان ہے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسے اپنی محرکات و مقدسات کا تحفظ کرنے کی کسی کوشش سے روکے۔

    بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. فواد -
    آف لائن

    فواد - ممبر

    شمولیت:
    ‏16 فروری 2008
    پیغامات:
    613
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


    مختلف فورمز اور بلاگز پر يہ سوال اٹھايا گيا ہے کہ اگر امريکی حکومت يو ٹيوب، فيس بک اور گوگل مينجمنٹ کی پاليسيوں اور ان کے اقدامات کو سپورٹ نہيں کرتی تو پھر حکومت ان اداروں اور افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئ کيوں نہيں کرتی جو قابل اعتراض مواد کی تشہير کے ذمہ دار ہيں؟

    امريکی آئين اور قانونی نظام ميں جو قواعد و ضوابط متعين کر ديے گۓ ہیں ان کی روشنی ميں امريکی حکومت کسی بھی نجی ادارے يا فرد کو اس بات پر مجبور نہيں کر سکتی کہ وہ کسی مخصوص نقطہ نظر کی پاسداری کريں يا کسی مذہب يا سياسی نظريے اور ان کے تحت متعين کردہ حدود کی پابندی کو ملحوظ رکھيں۔ اس ضمن ميں امريکی حکومت کی حدود کو سمجھنے کے ليے آپ کو سال 2010 کی ايک خبر کا حوالہ دينا چاہوں گا جب امريکی سينيٹرز کے ايک گروپ نے فيس بک کو ايک خط لکھا تھا جس ميں پرائيويسی کے حوالے سے فيس بک انتظاميہ کے قوانين اور متعلقہ کنٹرولز سے متعلق خدشات اور تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔

    http://www.politico.com/news/stories/0410/36406.html

    يہ طريقہ کار اور اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے آگاہی پيدا کرنے کی کوشش اس رائج نظام اور قوانين کے عين مطابق ہے جس ميں ہر شخص کو اپنے نقطہ نظر کے اظہار کی آزادی حاصل ہے۔ ليکن امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں کی جا سکتی کہ وہ ايک ايسے ميڈيم پر اپنے خيالات کے پرچار کی پاداش ميں افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئ کرے جس کا بنيادی خيال ہی يہ ہے کہ مختلف مذاہب، ثقافت اور سوچ کے حامل افراد اپنی راۓ کا اظہار کريں۔

    کيا پاکستان ميں مختلف ميڈيا پر جس مواد کی تشہير کی جاتی ہے کيا وہ حکومتی پاليسی کے عين مطابق ہے؟ يا پاکستان کے مختلف مذہبی گروہوں اور فرقوں کی مذہبی اور سياسی سوچ سے مکمل ہم آہنگ ہے؟

    ايک آزاد اور جمہوری معاشرے ميں ہم ايسے خيالات، نظريات، خبروں اور رپورٹس کو سنتے ہيں جو حکومتی سوچ کے برخلاف ہوتی ہيں اور افراد کی انفرادی سوچ کی آئينہ دار ہوتی ہيں۔

    آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ ايرانی صدر اور مختلف عرب ليڈروں نے ہالوکاسٹ کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار امريکی فورمز پر ميڈيا کے سامنے کئ بار کيا۔ ان خيالات کو بغير کسی سنسرشپ کے عوام کے سامنے پيش کيا گيا۔ اس موقع پر بھی کسی بھی ميڈيا کے ادارے کے خلاف امريکی حکومت نے ان نظريات کی تشہير کی پاداش ميں کوئ قانونی کاروائ نہيں کی تھی باوجود اس کے کہ امريکی معاشرے کے مختلف طبقوں نے اس بات پر احتجاج کيا تھا کہ ان نظريات سے ان کے جذبات کو ٹھيس پہنچی ہے۔

    آزادی راۓ کے حوالے سے قانونی تحفظ امريکی آئين ميں موجود ہے۔


    "Congress shall make no law respecting an establishment of religion, or prohibiting the free exercise thereof; or abridging the freedom of speech, or of the press; or the right of the people peaceably to assemble, and to petition the Government for a redress
    of grievances
    ."
    “First Amendment freedoms are most in danger when the government seeks to control thought or to justify its laws for that impermissible end. The right to think is the beginning of freedom, and speech must be protected from the government because speech is the beginning of thought.”—Supreme Court Justice Anthony M. Kennedy, Ashcroft V. Free Speech Coalition


    فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
    digitaloutreach@state.gov
    www.state.gov
    http://www.facebook.com/USDOTUrdu
     
     
  11. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    نیویارک پولیس نے مسلمانوں‌کی جو جاسوسی کی ہے اور ابھی تک کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ان کے علم میں‌لائے بغیر۔۔۔۔۔کیا وہ بھی امریکی آئین میں موجود ہے؟

    عملی باتیں کریں۔۔۔۔۔کتابیں ہم بھی پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور یقین کریں۔۔۔۔۔۔اپنی کم مائیگی کا احساس لیے شاید آپ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ عملیت پسندی کے بھی قائل ہیں۔ کچھ شعبوں میں۔۔۔۔۔آپ کے ہاں‌ایک ناقابل برداشت کام ہوا ہے۔۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔۔ہمارا احتجاج جاری رہے جب تک ان ملعونوں کو کوئی سزا نہیں‌ہوگی۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    محترم محبوب خان بھائی کے جذبات قابلِ قدر ہیں۔ اللہ پاک آپکے جزبہ ایمانی میں اضافہ فرمائے۔ آمین
     
  13. آصف حسین
    آف لائن

    آصف حسین ممبر

    شمولیت:
    ‏23 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    1,739
    موصول پسندیدگیاں:
    786
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    محبوب بھائی امریکہ کے نزدیک جمہوریت کا مطلب ہے "جس کی لاٹھی اس کی بھینس"
     
  14. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    آصف بھائی نہ صرف یہ مطلب ہے بلکہ اس پر سب سے زیادہ عمل بھی کررہے ہیں۔۔۔۔اور یہ افسوس کا مقام ہے۔
     
  15. اذان
    آف لائن

    اذان ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جولائی 2011
    پیغامات:
    679
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    [​IMG]
     
  16. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    لاس اینجلس:گستاخانہ فلم بنانے والا نیکو لا بیسلے عدالت میں پیش


    لاس اینجلس…گستاخانہ فلم بنانے والے نیکولا بیسلے کو پروبیشن کی خلاف ورزی کے کیس میں عدالت میں پیش کردیا گیا ۔ ملزم نے اس بات سے انکار کیا کہ اْس نے پروبیشن کی شرائط کی کوئی خلاف ورزی کی ہے۔گستاخانہ فلم بناکر دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے والے نیکولا بیسلے کو لاس اینجلس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے پروبیشن کی شرائط کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔عدالت نے ملزم کو بدستور جیل میں رکھنے کا حکم دے کر سماعت 9 نومبر تک ملتوی کردی۔ نیکولا بیسلے نے گذشتہ سماعت پر عدالت کو بتایا تھا کہ اس نے اپنا نام بدل کو مارک بیسلے یوسف رکھ لیا ہے اور آج اسے اسی نام سے عدالت میں پیش کیا گیا۔ اسے گذشتہ سال بینک فراڈ کے جرم سزا ہوئی تھی۔ عدالت نے اسے پروبیشن پر رہا کیا تھا جس کی شرائط میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ کوئی دوسرا نام اختیار نہیں کرے گا اور نہ ہی پانچ سال تک انٹرنیٹ استعمال کرے گا۔

    بشکریہ جیو ٹی وی
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: پیغمبر اسلام کیخلاف فلم

    سب کچھ کیوں‌برداشت کریں؟۔۔۔ہم کسی کے غلام ہیں؟ اس لیے ایمان کے افضل پہلو سے لے کر کوئی بھی زیادتی ناقابل برداشت ہے۔

    اور پھر یہ معاملہ ہے۔ آپ نے جو تصویر ارسال کی ہے۔۔۔۔۔اس میں‌یہ لفظ درست نہیں‌ہے۔۔۔ویسے اس قدر متن کو آپ ٹائپ کرکے ہی لکھتے تو زیادہ سودمند ہوتا۔۔۔۔بہرحال کم از کم درست ہجے والے لفظ ہی ہوتے تو اچھا تھا۔۔۔۔۔مگر آپ کا پیغام پہنچ گیا۔۔۔۔سو شکریہ۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں