1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏5 مئی 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    دل بھی بُجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
    مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں

    آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
    یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں

    ہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا
    کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں

    دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
    بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں

    پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فراز
    دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    شعار اپنا ہی جس کا بہانہ سازی تھا
    وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا

    تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے
    بلا سے عشق حقیقی نہ تھا مجازی تھا

    یہ دو دلوں کی قرابت بڑی گواہی ہے
    سو کیا ہوا کوئی شاہد نہ قاضی تھا

    نہ طنز کر کہ کئی بار کہہ چکا تجھ سے
    وہ میری پہلی محبت تو میرا ماضی تھا

    نہ دوست یار، نہ ناصح، نہ نامہ بر، نہ رقیب
    بلا کشانِ محبت سے کون راضی تھا

    یہ گل شدہ سی جو شمعیں دکھائی دیتی ہیں
    ہنر ان آنکھوں کا آگے ستارہ سازی تھا

    عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا
    کوئی فراز سا کافر نہیں تھا غازی تھا
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    شعلہ سا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو
    میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو

    جو زہر پی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا
    اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو

    یہ بھی بڑا کرم ہے سلامت ہے جسم ابھی
    اے خسروان شہر ، قبائیں مجھے نہ دو

    ایسا نہ ہو کبھی کہ پلٹ کر نہ آ سکوں
    ہر بار دور جا کے صدائیں مجھے نہ دو

    کب مجھ کو اعتراف محبت نہ تھا فراز
    کب میں نے یہ کہا تھا سزائیں مجھے نہ دو
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    شہرِ محبت ، ہجر کا موسم، عہد وفا اور میں
    تو تو اس بستی سے خوش خوش چلا گیا، اور میں؟

    تو جو نہ ہو تو جیسے سب کو چپ لگ جاتی ہے
    آپس میں کیا باتیں کرتے رات، دیا اور میں

    سیرِ چمن عادت تھی پہلے اب مجبوری ہے
    تیری تلاش میں‌چل پڑتے ہیں‌ بادِ صبا اور میں

    جس کو دیکھو تیری خو میں پاگل پھرتا ہے
    ورنہ ہم مشرب تو نہیں‌تھے خلقِ خدا اور میں

    ایک تو وہ ہمراز مرا ہے ، پھر تیرا مداح
    بس تیرا ہی ذکر کیا کرتے ہیں‌ضیا اور میں

    ایک زمانے بعد فراز یہ شعر کہے میں‌نے
    اک مدت سے ملے نہیں‌ہیں‌یار مرا اور میں
     
    جان شاہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    صنم تراش پر آدابِ پر آدابِ کافرانہ سمجھ
    ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ

    میں تجھ کو مانگ رہا ہوں قبول کر کہ نہ کر
    یہ بات تیری مری ہے اسے دعا نہ سمجھ

    پلٹ کے آئے گا وہ بھی گئی رتوں کیطرح
    جو تجھ سے روٹھ گیا ہے اسے جدا نہ سمجھ

    رہِ وفا میں کوئی آخری مقام نہیں
    شکستِ دل کو محبت کی انتہا نہ سمجھ

    ہر ایک صاحبِ منزل کو با مراد نہ جان
    ہر ایک راہ نشیں کو شکستہ پا نہ سمجھ

    فراز آج کی دنیا مرے وجود میں ہے
    مرے سخن کو فقط میرا تذکرہ نہ سمجھ
     
  6. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    عجیب رت تھی کہ ہر چند پاس تھا وہ بھی
    بہت ملول تھا میں بھی، اداس تھا وہ بھی

    کسی کے شہر میں کی گفتگو ہواؤں سے
    یہ سوچ کر کہ کہیں آس پاس تھا وہ بھی

    ہم اپنے زعم میں خوش تھے کہ اس کو بھول چکے
    مگر گمان تھا یہ بھی، قیاس تھا وہ بھی

    کہاں ہے اب غم دنیا، کہاں ہے اب غم جاں
    وہ دن بھی تھے کہ ہمیں یہ بھی راس تھا وہ بھی

    فراز تیرے گریباں پہ کل جو ہنستا تھا
    اسے ملے تو دریدہ لباس تھا وہ بھی
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے
    یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے

    جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے
    ایک سایہ نہ دروں ہے ، نہ بروں ہے ، یوں ہے

    تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
    عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے ، یوں ہے

    اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
    اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے

    تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
    نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے ، یوں ہے

    ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
    روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے ، یوں ہے

    شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
    یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے ، یوں ہے
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    غزل سُن کر پریشاں ہوگئے کیا
    کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا

    یہ بیگانہ روی پہلی نہیں تھی
    کہو تم بھی کسی کے ہو گئے کیا

    نہ پرسش کو نہ سمجھانے کو آئے
    ہمارے یار ہم کو رو گئے کیا

    ابھی کچھ دیر پہلے تک یہیں تھے
    زمانہ ہو گیا تم کو گئے کیا

    کسی تازہ رفاقت کی جھلک ہے
    پرانے زخم اچھے ہو گئے کیا

    پلٹ کر چارہ گر کیوں آ گئے ہیں
    شبِ فرقت کے مارے سو گئے کیا

    فراز اتنا نہو اترا حوصلے پر
    اسے بھولے زمانے ہو گئے کیا
     
  9. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
    مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں

    لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
    مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہہ سکوں بھی نہیں

    مری زبان کی لکنت سے بدگمان نہ ہو
    جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملوں بھی نہیں

    فراز جیسے دیا تربتِ ہوا چاہے
    تو پاس آۓ تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    فقط ہنر ہی نہیں عیب بھی کمال کے رکھ
    سو دوسروں کے لئے تجربے مثال کے رکھ

    نہیں ہے تاب تو پھر عاشقی کی راہ نہ چل
    یہ کارزار جنوں ہے جگر نکال کے رکھ

    سبھی کے ہاتھ دلوں پر نگاہ تجھ پر ہے
    قدح بدست ہے ساقی قدم سنبھال کے رکھ

    فراز بھول بھی جا سانحے محبت کے
    ہتھیلیوں پہ نہ اِن آبلوں کو پال کے رکھ
     
  11. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کٹھن ہے راہ گزر، تھوڑی دور ساتھ چلو
    بہت بڑا ہے سفر، تھوڑی دور ساتھ چلو

    تمام عمر کہاں کوئی ساتھ دیتا ہے
    میں جانتا ہوں مگر تھوڑی دور ساتھ چلو

    نشے میں چور ہوں میں بھی، تمہیں بھی ہوش نہیں
    بڑا مزا ہو اگر تھوڑی دور ساتھ چلو

    یہ ایک شب کی ملاقات بھی غنیمت ہے
    کسے ہے کل کی خبر تھوڑی دور ساتھ چلو

    ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
    ابھی ہے دور سحر، تھوڑی دور ساتھ چلو

    طوافِ منزلِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
    فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
     
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کچھ نہ کسی سے بولیں گے
    تنہائی میں رو لیں گے

    ہم بے راہ رووں کا کیا
    ساتھ کسی کے ہو لیں گے

    خود تو ہوئے رسوا لیکن
    تیرے بھید نہ کھولیں گے

    جیون زہر بھرا ساگر
    کب تک امرت گھولیں گے

    ہجر کی شب سونے والے
    حشر کو آنکھیں کھولیں گے

    پھر کوئی آندھی اُٹھے گی
    پنچھی جب پر تولیں گے

    نیند تو کیا آئے گی فراز
    موت آئی تو سو لیں گے
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کروں نہ یاد اگر کس طرح بھلاؤں اسے
    غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

    وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
    میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے

    یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں سے
    میں کیسے بات کروں اور کہاں سے لاؤں اسے

    مگر وہ زود فراموش زود رنج بھی ہے
    کہ روٹھ جائے اگر یاد کچھ دلاؤں اسے

    وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
    تمہاری بات پہ اے ناصحو گنواؤں اسے

    جو ہم سفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فراز
    عجب نہیں کہ اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
     
  14. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی
    وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی

    ہر اک سے کون محبت نباہ سکتا ہے
    سو ہم نے دوستی یاری تو کی ، وفا نہیں کی

    شکستگی میں بھی پندارِ دل سلامت ہے
    کہ اس کے در پہ تو پہنچے مگر صدا نہیں کی

    شکایت اس کی نہیں ہے کہ اس نے ظلم کیا
    گلہ تو یہ ہے کہ ظالم نے انتہا نہیں کی

    وہ نا دہند اگر تھا تو پھر تقاضا کیا
    کہ دل تو لے گیا قیمت مگر ادا نہیں کی

    عجیب آگ ہے چاہت کی آگ بھی کہ فراز
    کہیں جلا نہیں کی اور کہیں بجھا نہیں کی
     
  15. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    کل پرسش احوال جو کی یار نے میرے
    کس رشک سے دیکھا مجھے غم خوار نے میرے

    بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
    کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے

    یا گرمیِ بازار تھی یا خوف زباں تھا
    پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے

    ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
    شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے

    جب شاعری پردہ ہے فراز اپنے جنوں کا
    پھر کیوں مجھے رسوا کیا اشعار نے میرے
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سو صلیبیں تھیں ہر اک حرف جنوں سے پہلے
    کیا کہوں اب میں’ کہوں یا نہ کہوں‘ سے پہلے

    اس کو فرصت ہی نہیں دوسرے لوگوں کی طرح
    جس کو نسبت تھی مرے حال زبوں سے پہلے

    کوئی اسم ایسا کہ اس شخص کا جادو اترے
    کوئی اعجاز مگر اس کے فسوں سے پہلے

    بے طلب اس کی عنایت ہے تو حیران ہوں میں
    ہاتھ مانوس نہ تھے شاخ نگوں سے پہلے

    حرف دل آیا کہ آیا میرے ہونٹوں پہ اب
    بڑھ گئی بات بہت سوز دروں سے پہلے

    تشنگی نے نگہ یار کی شرمندہ کیا
    دل کی اوقات نہ تھی قطرۂ خوں سے پہلے

    خوش ہو آشوب محبت سے کہ زندہ ہو فراز
    ورنہ کچھ بھی تو نہیں دل کے سکوں سے پہلے
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
    تو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی

    دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
    ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی

    یوں دل لرز اٹھا ہے کسی کو پکار کر
    میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی

    برگ خزاں جو شاخ سے ٹوٹا وہ خاک تھا
    اس جاں سپردگی کے تو قابل ہوا نہ تھی

    جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اٹھی
    اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
     
  18. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سنگ دل ہے وہ تو کیوں اس کا گلہ میں نے کیا
    جبکہ خود پتھر کو بت، بت کو خدا میں نے کیا

    کیسے نامانوس لفظوں کی کہانی تھا وہ شخص
    اس کو کتنی مشکلوں سے ترجمہ میں نے کیا

    وہ مری پہلی محبت وہ مری پہلی شکست
    پھر تو پیمان وفا سو مرتبہ میں نے کیا

    ہوں سزاوار سزا کیوں جب مقدر میں مرے
    جو بھی اس جانِ جہاں نے لکھ دیا میں نے کیا
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    تو اس کے شہر میں‌کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
    سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
    سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے حشر ہیں‌اس کی غزال سی آنکھیں
    سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں‌کاکلیں اس کی
    سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
    سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
    مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
    کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
    سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
    جو سادہ دل ہیں‌اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
    پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں

    وہ سرو قد ہے مگر بے گل مراد نہیں
    کہ اس شجر پہ شگوفے ثمر کے دیکھتے ہیں

    بس اک نگاہ سے لوٹا ہے قافلہ دل کا
    سو رہ روان تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
    مکیں‌ اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں

    کسے نصیب کہ بے پیرہن اسے دیکھے
    کبھی کبھی در و دیوار گھر کے دیکھتے ہیں

    رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
    چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    کہانیاں ہی سہی ، سب مبالغے ہی سہی
    اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

    اب اس کے شہر میں‌ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
    فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں‌
     
  20. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

    شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں‌بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

    اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
     
  21. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سکوتِ شامِ خزاں ہے قریب آ جاؤ
    بڑا اداس سماں ہے قریب آ جاؤ

    نہ تم کو خود پہ بھروسا نہ ہم کو زعمِ وفا
    نہ اعتبارِ جہاں ہے قریب آ جاؤ

    رہِ طلب میں کسی کو کسی کا دھیان نہیں
    ہجومِ ہم سفراں ہے قریب آ جاؤ

    جو دشتِ عشق میں بچھڑے وہ عمر بھر نہ ملے
    یہاں دھواں ہی دھواں ہے قریب آ جاؤ

    یہ آندھیاں ہیں تو شہرِ وفا کی خیر نہیں
    زمانہ خاک فشاں ہے قریب آ جاؤ

    فقیہِ شہر کی مجلس نہیں کہ دور رہو
    یہ بزمِ پیرِ مغاں ہے قریب آ جاؤ

    فراز دور کے سورج غروب سمجھے گئے
    یہ دورِ کم نظراں ہے قریب آ جاؤ
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    سکوت بن کے جو نغمے دلوں میں پلتے ہیں
    وہ زخمۂ رگِ جاں توڑ کر نکلتے ہیں

    حضور آپ شب آرائیاں کریں لیکن
    فقط نمودِ سحر تک چراغ جلتے ہیں

    اگر فضا ہے مخالف تو زلف لہراؤ
    کہ بادبان ہواؤں کا رُخ بدلتے ہیں

    کوئی بھی فیصلہ دینا ابھی درست نہیں
    کہ واقعات ابھی کروٹیں بدلتے ہیں

    یہ پاسِ پیر مغاں ہے کہ ضعفِ تشنہ لبی
    نشہ نہیں ہے مگر لڑکھڑا کے چلتے ہیں

    خدا کا نام جہاں بیچتے ہیں لوگ فراز
    بصد وثوق وہاں کاروبار چلتے ہیں
     
  23. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    گئے دنوں میں محبت مزاج اس کا تھا
    مگر کچھ اور ہی انداز آج اس کا تھا

    وہ شہر یار جب اقلیم حرف میں آیا
    تو میرا دست نگر تخت و تاج اس کا تھا

    میں کیا بتاؤں کہ کیوں اس نے بے وفائی کی
    مگر یہی کہ کچھ ایسا مزاج اس کا تھا

    لہو لہان تھا میں اور عدل کی میزان
    جھکی تھی جانبِ قاتل کہ راج اس کا تھا

    تجھے گلہ ہے کہ دنیا نے پھیر لیں‌ آنکھیں
    فراز یہ تو سدا سے رواج اس کا تھا
     
  24. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
    مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

    دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
    اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

    ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
    آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

    باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
    شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

    کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
    تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

    ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
    کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

    اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
    اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

    میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
    تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا
     
  25. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    گُل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے
    کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے

    یہ میرا حُسنِ نظر ہے تو دکھا دے کوئی
    قامت و گیسو و رُخسار و دہن تم جیسے

    اب تو قاصد سے بھی ہر بات جھجک کر کہنا
    لے گئے ہو میرا بے ساختہ پن تم جیسے

    اب تو نایاب ہوئے دشمنِ دیرینہ تک
    اب کہاں اے میرے یارانِ کہن، تم جیسے؟

    کبھی ہم پر بھی ہو احسان کہ بنا دیتے ہو
    اپنی آمد سے بیاباں کو چمن تم جیسے

    کبھی ان لالہ قباؤں کو بھی دیکھا ہے فراز
    پہنے پھرتے ہیں جو خوابوں کے کفن تم جیسے
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    مزاج ہم سے زیادہ جدا نہ تھا اس کا
    جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا

    وہ اپنے زعم میں تھا، بے خبر رہا مجھ سے
    اسے گماں بھی نہیں میں نہیں رہا اس کا

    وہ برق رو تھا مگر رہ گیا کہاں جانے
    اب انتظار کریں گے شکستہ پا اس کا

    چلو یہ سیل بلا خیز ہی بنے اپنا
    سفینہ اس کا، خدا اس کا، ناخدا اس کا

    یہ اہل درد بھی کس کی دہائی دیتے ہیں
    وہ چپ بھی ہو تو زمانہ ہے ہمنوا اس کا

    ہمیں نے ترک تعلق میں پہل کی کہ فراز
    وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اس کا
     
  27. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
    کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں

    وطن سے دُور بھی آزادیاں نصیب کسے
    قدم کہیں بھی ہوں زنجیر گھر کی دیکھتے ہیں

    اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
    یہ سادہ لوح کی تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں

    کوئی تو زخم اسے بھولنے نہیں دیتا
    کوئی تو یاد عناں گیر، گھر کی دیکھتے ہیں

    ہم ایسے خانہ بر انداز، کنج غربت میں
    جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

    بنائے دل ہے کسی خوابگاہ زلزلہ پر
    سو اپنی آنکھوں سے تقدیر گھر کی دیکھتے ہیں

    فراز جب کوئی نامہ وطن سے آتا ہے
    تو حرف حرف میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
     
  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
    بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا

    رات کیا سویا کہ باقی عم کی نیند اڑ گئی
    خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

    جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
    میں نے وہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا

    کس طرح پایا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
    مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا

    عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
    جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا

    جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فراز
    سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
     
  29. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
    مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں

    کوئی مقاصد ہو کہ ناصح، کوئی عاشق کہ عدو
    سب کی اُس شوخ سے وابستگیاں ایک سی ہیں

    دشتِ مجنوں میں نہ سہی تیشۂ فرہاد سہی
    سفرِ عشق میں واماندگیاں ایک سی ہیں

    یہ الگ بات کہ احساس جُدا ہوں ورنہ
    راحتیں ایک سی، افسردگیاں ایک سی ہیں

    صوفی و رند کے مسلک میں سہی لاکھ تضاد
    مستیاں ایک سی، وارفتگیاں ایک سی ہیں

    وصل ہو، ہجر ہو، قربت ہو کہ دُوری ہو فراز
    ساری کیفیتیں، سب تشنگیاں ایک سی ہیں
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا
    قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا

    تھا جنہیں ز عم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
    میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا

    میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
    جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا

    شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر
    میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں