1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از تانیہ, ‏5 مئی 2011۔

  1. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
    سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں

    ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
    غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

    ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
    ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

    جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
    شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

    اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
    اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

    ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
    ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

    ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
    جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں
     
  2. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
    زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون

    دیکھنا سب رقص بسمل میں مگن ہو جائیں گے
    جس طرف سے تیر آئے گا ادھر دیکھے گا کون

    زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
    تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

    وہ ہوس ہو یا وفا ہو بات محرومی کی ہے
    لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون

    ہم چراغ شب ہی جب ٹھہرے تو پھر کیا سوچنا
    رات تھی کس کا مقدر اور سحر دیکھے گا کون

    ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
    شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون
     
  3. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں اِمکاں جاناں
    یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں

    اوّل اوّل کی محبت کے نشے یاد تو کر
    بِن پیۓ ہی ترا چہرہ تھا گُلستاں جاناں

    آخر آخر تو یہ عالم تھا کہ اب یاد نہیں
    رگِ مِینا سُلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں

    یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
    کِس قدر جلد بدل جاتے ہیں اِنساں جاناں

    دل سمجھتا تھا کہ شاید ہو فسُردہ تُو بھی
    دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں

    مدّتوں سے یہی عالم ۔۔ نہ توقع، نہ اُمید
    دل پُکارے ہی چلا جاتا ہے جاناں جاناں

    زندگی تیری عطا تھی سو ترے نام کی ہے
    ہم نے جیسی بھی گزاری ترا احساں جاناں
     
  4. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
    جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں

    احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ
    گل بدست آتے ہیں اور پایہ رسن جاتے ہیں

    جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
    زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں

    ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
    بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں

    طعنۂ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
    شدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں

    ہر کڑی رات کے بعد ایسی قیامت گزری
    صبح کا ذکر بھی آئے تو لرز جاتے ہیں
     
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
    کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

    تو بھی ہیرے سے بن گیا تھا پتھر
    ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں

    تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
    ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں

    ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
    پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں

    ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
    منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں

    دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
    راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں

    اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
    ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں

    بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
    کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
     
  6. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    انکار نہ اقرار بڑی دیر سے چپ ہیں
    کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں

    آسان نہ کر دی ہو کہیں موت نے مشکل
    روتے ہوئے بیمار بڑی دیر سے چپ ہیں

    اب کوئی اشارہ ہے نہ پیغام نہ آہٹ
    بام و در و دیوار بڑی دیر سے چپ ہیں

    ساقی یہ خموشی بھی تو کچھ غور طلب ہے
    ساقی ترے میخوار بڑی دیر سے چپ ہیں

    یہ برق نشیمن پہ گری تھی کہ قفس پر
    مرغان گرفتار بڑی دیر سے چپ ہیں

    اس شہر میں ہر جنس بنی یوسف کنعاں
    بازار کے بازار بڑی دیر سے چپ ہیں

    پھر نعرۂ مستانہ فراز آؤ لگائیں
    اہل رسن و دار بڑی دیر سے چپ ہیں
     
  7. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے
    مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

    محبتوں میں تو ملنا ہے یا اجڑ جانا
    مزاجِ عشق میں کب اعتدال رکھا ہے

    ہوا میں نشہ ہی نشہ فضا میں رنگ ہی رنگ
    یہ کس نے پیرہن اپنا اچھال رکھا ہے

    بھلے دنوں کا بھروسا ہی کیا رہیں نہ رہیں
    سو میں نے رشتہ غم کو بحال رکھا ہے

    ہم ایسے سادہ دلوں کو وہ دوست ہو کہ خدا
    سبھی نے وعدہ فردا پہ ٹال رکھا ہے

    حسابِ لطفِ حریفاں کیا ہے جب تو کھلا
    کہ دوستوں نے زیادہ خیال رکھا ہے

    بھری بہار میں اک شاخ پر کھلا ہے گلاب
    کہ جیسے تو نے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے

    فراز عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
    یہ کس نے فتنہ ہجر و وصال رکھا ہے
     
  8. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
    ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا

    آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
    میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا

    دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
    میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا

    اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
    میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا

    شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی
    اس نے جو پھیر لی نظر میں‌نے بھی جام رکھ دیا

    اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
    کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا

    جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا
    اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا

    اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
    ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
     
  9. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اُس کی نوازشوں نے تو حیران کر دیا
    میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا

    اک نو بہار ناز کے ہلکے سے لمس نے
    میرے تو سارے جسم کو گلدان کر دیا

    کل اک نگار شہر سبا نے بہ لطف خاص
    مجھ سے فقیر کو بھی سلیمان کر دیا

    جینے سے اس قدر بھی لگاؤ نہ تھا مجھے
    تو نے تو زندگی کو، میری جان کر دیا

    نا آشنائے لُطف تصادم کو کیا خبر
    میں نے ہوا کی زد پہ رکھا جان کر دیا

    اتنے سکوں کے دن کبھی دیکھے نہ تھے فراز
    آسودگی سے مجھ کو پریشان کر دیا
     
  10. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اُس کو جُدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
    اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

    ڈھلتی نہ تھی کسی بھی جتن سے شبِ فراق
    اے مرگِ ناگہاں! تیرا آنا بہت ہوا

    ہم خُلد سے نکل تو گئے ہیں پر اے خدا
    اتنے سے واقعے کا فسانہ بہت ہوا

    اب ہم ہیں اور سارے زمانے کی دشمنی
    اُس سے ذرا سا ربط بڑھانا بہت ہوا

    اب کیوں نہ زندگی پہ محبت کو وار دیں
    اس عاشقی میں جان سے جانا بہت ہوا

    اب تک تو دل کا دل سے تعارف نہ ہو سکا
    مانا کہ اس سے ملنا ملانا بہت ہوا

    کیا کیا نہ ہم خراب ہوئے ہیں مگر یہ دل
    اے یادِ یار تیرا ٹھکانہ بہت ہوا

    کہتا تھا ناصحوں سے میرے منہ نہ آئیو
    پھر کیا تھا ایک ہُو کا بہانہ بہت ہوا

    لو پھر تیرے لبوں پہ اسی بے وفا کا ذکر
    احمد فراز! تجھ سے کہا نا، بہت ہوا
     
  11. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
    آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

    ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
    یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی

    تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
    آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی

    ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے
    تو نے کس گھڑی ظالم میری ہمنوائی کی

    ترک کر چکے قاصد کوئے نا مراداں کو
    کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی

    طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
    آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی

    پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد
    دیکھنا اڑا دیگا پھر خبر رہائی کی

    دکھ ہوا جب اس در پر کل فراز کو دیکھا
    لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی
     
  12. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اس دورِ بے جنوں کی کہانی کوئی لکھو
    جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو

    کوئی کہو کہ ہاتھ قلم کس طرح ہوئے
    کیوں رک گئی قلم کی روانی کوئی لکھو

    کیوں اہلِ شوق سر بہ گریباں ہیں دوستو
    کیوں خوں بہ دل ہے عہدِ جوانی کوئی لکھو

    کیوں سرمہ در گلو ہے ہر اک طائرِ سخن
    کیوں گلستاں قفس کا ہے ثانی، کوئی لکھو

    ہاں تازہ سانحوں کا کرے کون انتظار
    ہاں دل کی واردات پرانی کوئی لکھو
     
  13. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
    اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

    ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
    باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا

    الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
    بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا

    خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
    نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا

    پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
    وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا

    اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
    تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

    کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
    کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا

    پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
    پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا

    اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
    بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا

    تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
    وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا

    ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
    ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا

    ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
    اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا
     
  14. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    پھرے گا تو بھی یونہی کو بکو ہماری طرح
    دریدہ دامن و آشفتہ مو ہماری طرح

    کبھی تو سنگ سے پھوٹے گی آبجو غم کی
    کبھی تو ٹوٹ کے روئے گا تو ہماری طرح

    پلٹ کے تجھ کو بھی آنا ہے اس طرف لیکن
    لٹا کے قافلۂ رنگ و بو ہماری طرح

    یہ کیا کہ اہل ہوس بھی سجائے پھرتے ہیں
    دلوں پہ داغ جبیں پر لہو ہماری طرح

    وہ لاکھ دشمن جاں ہو مگر خدا نہ کرے
    کہ اس کا حال بھی ہو ہُو بہو ہماری طرح

    ہمی فراز سزاوار سنگ کیوں ٹھرے
    کہ اور بھی تو ہیں دیوانہ خو ہماری طرح
     
  15. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    بدن میں آگ سی چہرہ گلاب جیسا ہے
    کہ زہرِ غم کا نشہ بھی شراب جیسا ہے

    کہاں وہ قرب کہ اب تو یہ حال ہے جیسے
    ترے فراق کا عالم بھی خواب جیسا ہے

    مگر کبھی کوئی دیکھے کوئی پڑھے تو سہی
    دل آئینہ ہے تو چہرہ کتاب جیسا ہے

    وہ سامنے ہے مگر تشنگی نہیں جاتی
    یہ کیا ستم ہے کہ دریا سراب جیسا ہے

    فراز سنگ ملامت سے زخم زخم سہی
    ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے
     
  16. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی
    بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی

    بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
    مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی

    ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
    رہا ہے در پۓ آزار اب کہاں تو بھی

    ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
    مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی

    اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل
    رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تو بھی

    مری غزل میں کوئی اور کیسے در آۓ
    ستم تو یہ ہے کہ اے یار، اب کہاں تو بھی

    جو تجھ سے پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
    فراز ایسا گنہگار اب کہاں تو بھی
     
  17. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    باغباں ڈال رہا ہے گُل و گلزار پہ خاک
    اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک

    کیسے بے آبلہ پا بادیہ پیما ہیں کہ ہے
    قطرۂ خوں کے بجائے سر ہر خار پہ خاک

    سرِ دربار ستادہ ہیں پئے منصب و جاہ
    تُف بر اہلِ سخن و خلعت و دستار پہ خاک

    آ کے دیکھو تو سہی شہر مرا کیسا ہے
    سبزہ و گل کی جگہ ہے در و دیوار پہ خاک

    تا کسی پر نہ کھُلے اپنے جگر کا احوال
    مَل کے آ جاتے ہیں ہم دیدۂ خونبار پہ خاک

    بسکہ اک نانِ جویں رزقِ مشقت تھا فراز
    آ گیا ڈال کے میں درہم و دینار پہ خاک
     
  18. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
    اس کی آنکھوں‌کو مرے زخم کی گہرائی دے

    تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
    ان کو پتھر نہیں‌ دیتا ہے تو بینائی دے

    جس کی ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
    اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے

    یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
    یا مرے زخم کو بھر یا مجھے گویائی دے

    اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
    چشم گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے

    جن کو پیراہنِ توقیر و شرف بخشا ہے
    وہ برہنہ ہیں‌ انہیں‌ خلعتِ رسوائی دے

    کیا خبر تجھ کو کہ کس وضع کا بسمل ہے فراز
    وہ تو قاتل کو بھی الزامِ مسیحائی دے
     
  19. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ایک دیوانہ یہ کہتے ہوئے ہنستا جاتا
    کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا

    اے میرے ابر گریزاں مری آنکھوں کی طرح
    گر برسنا ہی تجھے تھا تو برستا جاتا

    آج تک یاد ہے اظہار محبت کا وہ پل
    کہ مری بات کی لکنت پہ وہ ہنستا جاتا

    اتنے محدود کرم سے تو تغافل بہتر
    گر ترستا ہی مجھے تھا تو ترستا جاتا
     
  20. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
    تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے

    اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
    راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے

    کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے
    یاد کرنے کے لیئے عمر پڑی ہو جیسے

    تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
    یہ گرہ اب کے مرے دل میں‌ پڑی ہو جیسے

    منزلیں دور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
    اپنے ہی پاؤں میں‌ زنجیر پڑی ہو جیسے

    آج دل کھول کے روئے ہیں‌ تو یوں‌ خوش ہیں‌ فراز
    چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
     
  21. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ
    پھر بھی اپنے عہد پر قائم ہم اپنی جگہ

    کیا کریں یہ دل کسی کی ناصحا سنتا نہیں
    آپ نے جو کچھ کہا اے محترم، اپنی جگہ

    ہم موحد ہیں بتوں کے پوجنے والے نہیں
    پر خدا لگتی کہیں تو وہ صنم اپنی جگہ

    یارِ بے پروا! کبھی ہم نے کوئی شکوہ کیا
    ہاں مگر ان ناسپاس آنکھوں کا نم اپنی جگہ

    محفلِ جاناں ہو، مقتل ہو کہ میخانہ فراز
    جس جگہ جائیں بنا لیتے ہیں ہم اپنی جگہ
     
  22. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
    تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا

    کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اک بوند
    دل میں اک لہر اٹھی، آنکھ سے دریا برسا

    کوئی غرقاب، کوئی ماہیِ بے آب ہوا
    ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا

    چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
    چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا

    طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
    یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا، یا برسا

    ابر و باراں کے خدا، جھومتا بادل نہ سہی
    آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنا برسا

    اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فراز
    اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
     
  23. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے
    کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے

    ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
    کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے

    وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
    وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے

    زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
    اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے

    فراز راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجے
    وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
     
  24. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
    اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں‌ دوستو

    کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
    آنکھیں‌تو دوشمنوں‌کی بھی پرنم ہیں دوستو

    اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
    اپنی تلاش میں تو ہم ہی ہم ہیں دوستو

    کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
    کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو

    اس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
    اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں‌دوستو

    سب کچھ سہی فراز پر اتنا ضرور ہے
    دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں‌دوستو
     
  25. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تشنگی آنکھوں میں اور دریا خیالوں میں رہے
    ہم نوا گر، خوش رہے جیسے بھی حالوں میں رہے

    دیکھنا اے رہ نوردِ شوق! کوئے یار تک
    کچھ نہ کچھ رنگِ حنا پاؤں کے چھالوں میں رہے

    ہم سے کیوں مانگے حسابِ جاں کوئی جب عمر بھر
    کون ہیں، کیا ہیں، کہاں ہیں؟ ان سوالوں میں رہے

    بدظنی ایسی کہ غیروں کی وفا بھی کھوٹ تھی
    سوئے ظن ایسا کہ ہم اپنوں کی چالوں میں رہے

    ایک دنیا کو میری دیوانگی خوش آ گئی
    یار مکتب کی کتابوں کے حوالوں میں رہے

    عشق میں دنیا گنوائی ہے نہ جاں دی ہے فراز
    پھر بھی ہم اہلِ محبت کی مثالوں میں رہے
     
  26. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
    پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے

    پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
    اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے

    کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
    اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے

    اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
    اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے

    سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
    پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے

    اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
    اب کے گئے تو کوئے ستم گرکے ہو گئے

    روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فراز تم
    دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے
     
  27. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    تجھ پر بھی نہ ہو گمان میرا
    اتنا بھی کہا نہ مان میرا

    میں دکھتے ہوئے دلوں کا عیسیٰ
    اور جسم لہو لہان میرا

    کچھ روشنی شہر کو ملی تو
    جلتا ہے جلے مکاں میرا

    یہ ذات یہ کائنات کیا ہے
    تو جان مری جہان میرا

    تو آیا تو کب پلٹ کے آیا
    جب ٹوٹ چکا تھا مان میرا

    جو کچھ بھی ہوا یہی بہت ہے
    تجھ کو بھی رہا ہے دھیان میرا
     
  28. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جانے نشّے میں کہ وہ آفت جاں خواب میں تھا
    جیسے اک فتنہ بیدار ، رواں خواب میں تھا

    وہ سرِ شام ، سمندر کا کنارا ، ترا ساتھ
    اب تو لگتا ہے کہ جیسے یہ سماں خواب میں تھا

    جیسے یادوں کا دریچہ کوئی وا رہ جائے
    اک ستارہ مری جانب نگراں خواب میں تھا

    جب کھلی آنکھ تو میں تھا مری تنہائی تھی
    وہ جو تھا قافلۂ ہمسفراں خواب میں تھا

    ایسے قاتل کو کوئی ہاتھ لگاتا ہے فراز
    شکر کر شکر کہ وہ دشمنِ جاں خواب میں تھا
     
  29. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
    آج کیا جانیے کیا یاد آیا

    پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
    پھر ترا عہد وفا یاد آیا

    جس طرح دھند میں‌لپٹے ہوئے پھول
    ایک اک نقش ترا یاد آیا

    ایسی مجبوری کے عالم میں‌ کوئی
    یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا

    اے رفیقو سر منزل جا کر
    کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا

    یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
    پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا

    جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
    جب کوئی بھول گیا یاد آیا

    یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
    جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا
     
  30. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: شاعری

    جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا
    مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟

    نہ تھی اتنی کڑی تازہ مسافت
    پرانے ہم سفر یاد آ گئے کیا ؟

    یہاں‌کچھ آشنا سی بستیاں تھیں
    جزیروں کو سمندر کھا گئے کیا؟

    مری گردن میں باہیں ڈال دی ہیں
    تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا ؟

    نہیں آیا مرا جانِ بہاراں
    درختوں پر شگوفے آ گئے کیا

    جہاں میلہ لگا ہے قاتلوں کا
    فراز اس شہر میں تنہا گئے کیا؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں