1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔
  2. اس صیغے میں اسلامی کتب لگائی جاتی ہیں۔ انتظامیہ کسی بھی مکتبہ فکر پر پابندی نہیں لگاتی ہے اس لیے صارفین کتب پر نقظہ اعتراض اٹھانے کے بجائے اپنی صوابدید کے مطابق کتب سے استفادہ کریں۔یہاں لگائی گئی کتب کسی بھی طرح انتظامیہ کا مذہبی رجحان یا مکتبہ فکر ظاہر نہیں کرتی۔

کتاب التوحید ( نور توحید )

'اسلامی کتب' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏17 فروری 2021۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 8 ) ۔ ۔ ۔ منتر اور تعویذ گنڈوں کے بارے میں
    { دموں اور تعویذوں کا بیان }
    حدیث میں آتا ہے
    ابو بشیر انصاری ( رض ) سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : " وہ رسول اللہ ( ص ) کے ہمراہ کسی سفر میں تھے کہ آپ نے ایک قاصد کو یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی اور ہار نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے کاٹ دیا جائے ۔ " ( صحیح بخاری ، 3005 )
    عبداللہ ابن مسعود ( رض ) بیان کرتے ہیں : " میں نے رسول اللہ ( ص ) کو فرماتے ہوئے سنا : بلا شبہ جھاڑ پھونک تعویذ گنڈے اور عشق و محبت منتر شرک ہیں ۔ " ( سنن ابی داود ، 3883 )
    رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " جوشخص کوئی چیز لٹکائے تو اسی کے سپرد کردیا جاتا ہے ۔ " ( جامع ترمذی ، 2072 )
    حضرت رویفع ( رض ) فرماتے ہیں : رسول اللہ ( ص ) نے مجھ سے فرمایا : " اے رویفع ! شاید تم دیر تک زندہ رہو ۔ تم لوگوں کو بتا دینا کہ جس شخص نے ڈاڑھی کو گرہ لگائی یا گلے میں تانت ڈالی یا جانور کے گوبر یا ہڈی کے ساتھ استنجا کیا تو لاشبہ محمد اس سے بری اور بے زار ہے ۔ " ( سنن ابی داود ، 36 )
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    سعید بن جبیر ( رح ) سے منقول ہے ، وہ فرماتے ہیں : " جس شخص نے کسی انسان سے تعویذ کاٹ پھینکا ، اسے ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ثواب ہوگا ۔ " ( المصنف لابن بی شیبہ : ح : 3524 )
    ابراھیم نخعی ( رح ) سے روایت ہے کہ وہ ابن مسعود ( رض ) اور ان کے شاگردوں کے متعلق فرماتے ہیں: " وہ قرآنی اور غیر قرآنی ہر قسم کے تمائم کو نا پسند سمجھتے تھے ۔ ( المصنف لابن بی شیبہ : ح : 3518 )
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    اس باب میں دم کرنے اور کروانے کا حکم بیان ہوا ہے ۔ اذکار ، دعائیں اور بابرکت الفاظ پڑھ کر پھونک مارنے دم کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض کا اعضائے بدن پر اور بعض کا روحانی طور پر اثر ہوتا ہے ۔ بعض ان میں سے شرعا جائز ہیں اور بعض ناجائز ، حرام بلکہ شرک ہیں ۔ جن دموں میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں ان کی اجازت دی ہے ۔ نبی کریم ( ص ) نے فرمایا: " دم میں اگر شرکیہ کلمات نہ ہوں تو وہ جائز ہیں ، ان میں کوئی حرج نہیں ۔ " ( صحیح مسلم ، 5732 )
    شرکیہ دم : وہ ہیں جن میں غیر اللہ سے مدد مانگی جائے یا ان میں شیاطین کے نام آتے ہوں یا دم کرانے والا یہ عقیدہ رکھے کہ یہ کلمات ازخود موثر یا نفع بخش ہیں ۔ ایسی صورت ہو تو یہ دم ناجائز اور شرکیہ ہو گا ۔ اور تمیمہ یعنی تعویذات سے مراد ، چمڑے کے ٹکڑے ، منکے ، لکھے ہوئے بعض الفاظ و کلمات یا مختلف شکلوں کی چیزیں مثلا ریچھ یا ہرن کا سر ، خچر کی گردن ، سیاہ کپڑا ، آنکھ کی شکل کی کوئی چیز یا منکوں کی مالا وغیرہ کوئی بھی چیز باندھنا اور لٹکانا ہے ۔ یہ تمام اشیاء تمیمہ یعنی تعویذ کہلاتی ہیں ۔ الغرض ہر وہ چیز جس کے متعلق یہ اعتقاد ہو کہ یہ خیر اور بھلائی کا سبب اور نقصان سے تحفظ اور اس کے دفعیہ کا باعث ہے ، اسے تمیمہ کہا جاتا ہے ۔ اس چیز کی شرعا اور تقدیرا بالکل اجازت نہیں دی گئی ۔ علماء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دم اور رقیہ جس میں مندرجہ ذیل تین شرائط پائی جائیں ، جائز ہے
    1 ۔ وہ دم جو کلام اللہ ، اسماء اللہ یا اس کی صفات پر مبنی ہو ۔
    2 ۔ وہ دم جو عربی زبان میں ہو ، اس کے معنی بھی واضح اور مشہور ہوں اورمطابق شریعت اسلامی ہو ۔
    3 ۔ یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دم فی نفسہ کوئی بااثر چیز نہیں ہے بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اور اگر اللہ تعالی نے چاہا تو اثر ہو گا ۔
    ( سنن ابی داود ، 3883 ) اس حدیث میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔
    تعویذ گنڈے : سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بچوں کو نظربد سے بچانے کے لیے ان کے گلے میں یا جسم کے کسی اور حصے پر لٹکائی یا باندھی جاتی ہے یہ شرک ہے ۔ لیکن جب وہ چیز قرآنی آیات پر مشتمل ہو تو بعض صحابہ کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے اور بعض نے ناجائزکہا ہے اور ایسا کرنے کو بھی منع کردہ امور میں سے شمار کیا ہے ۔ اس کو ناجائز قرار دینے والوں میں سے ایک عبد اللہ بن مسعود ( رض ) بھی ہیں ۔
    جھاڑ پھونک : سے مراد وہ اعمال ہیں جنہیں منتر، جھاڑ پھونک اور دم کہا جاتا ہے یہ بھی شرک ہے ۔ لیکن شرعی دلیل نے وضاحت کردی کہ جس دم میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں وہ جائز ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ ( ص ) نے نظربد اور زہریلے جانور کے ڈسنے پر دم کی رخصت اور اجازت عطا فرمائی ہے ۔
    عشق و محبت منتر : سے مراد وہ چیز ہے جسے مشرکین ان نظریے اور اعتقاد سے بناتے اور تیار کرتے تھے کہ یہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب ہے ۔
    ( جامع ترمذی ، 2072 ) یہ حدیث عبد اللہ بن عکیم ( رض ) سے روایت ہے ۔
    عیسی بن عبدالرحمن کہتے ہیں : میں عبداللہ بن عکیم کے ہاں ان کی عیادت کر نے گیا ، ان کو حمرہ کا مرض تھا ہم نے کہا : کوئی تعویذ وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا : موت اس سے زیادہ قریب ہے ، نبی اکرم ( ص ) نے فرمایا : " جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا " امام ترمذی کہتے ہیں : عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی کی روایت سے جانتے ہیں ، عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرم ( ص ) سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپ ( ص ) کے زمانہ میں تھے ، وہ کہتے تھے : رسول اللہ ( ص ) نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کربھیجا ہے ۔
    ( فضيلة الشيخ الامام محمد ناصر الدين الالبانی اس حدیث کو حسن کہتے ہیں )
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ اس تفصیل سے دم اور تعویذات کی وضاحت ہوئی ۔
    2 ۔ : التولہ یعنی " وہ چیز ہے جسے مشرکین ان نظریے اور اعتقاد سے بناتے اور تیار کرتے تھے کہ یہ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا محبوب بنانے کا ذریعہ اور سبب ہے " کا مفہوم بھی واضح ہوا ۔
    3 : غیر شرعی جھاڑ پھونک تعویذ گنڈے اور عشق و محبت منتر تینوں شرک ہیں ان میں سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے ۔
    4 ۔ نظربد اور زہریلے کیڑوں کے کاٹے کا غیر شرکیہ دم اس ممنوع جھاڑ پھونک میں سے نہیں ۔
    5 ۔ قرآنی تعویذت کے بارے میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں ۔ بعض نے انہیں جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے ۔
    6 ۔ نظربد سے تحفظ کی خاطر جانوروں کے گلے میں تانت باندھنا بھی شرک ہے ۔
    7 ۔ تانت باندھنے والے پر شدید وعید وارد ہوئی ہے ۔
    8 ۔ کسی کے گلے میں باندھے ہوئے تعویذ کو کاٹ پھینکنے کا ثواب اور اس کی فضیلت بھی عیاں ہو رہی ہے ۔
    9 ۔ ابراھیم نخعی ( رح ) کا قول اہل علم کے مذکورہ بالا اختلاف کے منافی نہیں کیونکہ ان کے کلام سے عبداللہ بن مسعود ( رض ) کے اصحاب یعنی شاگرد مراد ہیں ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    تعویذ اور جھاڑ پھونک کا بیان : اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو گلے وغیرہ میں لٹکائی جاتی ہیں اور پھر ان کے ساتھ ایک دلی تعلق اور امید وابستہ ہو جاتی ہے ۔ اس کے متعلق بھی وہی عقیدہ ہوتا ہے جو کڑے اور دھاگے وغیرہ کے متعلق ہوتا ہے جیسا کہ اس سے پہلے بیان گزر چکا ۔ ان میں سے کچھ تعویذ دھاگے شرک اکبر ہوتے ہیں ۔ جیسے وہ چیزیں جن میں شیاطین یا جنات یا کسی دیگر سے مشکل دور کرنے کے لیے مدد طلب کی جاتی ہے ۔ پس ایسے امور جن پر اللہ تعالی کے علاوہ کسی کا کوئی اختیار نہیں ان میں مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ سے مدد طلب کرنا یہ حقیقی شرک ہے ۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی ۔ اور کچھ ایسے ہیں جو کہ حرام ہیں ۔ مثال کے طور پر ایسے نام وغیرہ اور ایسی عبارتیں لکھنا جن کی کچھ سمجھ نہ آتی ہو کیونکہ یہ شرک کا سبب بنتے ہیں ۔
    قرآن وحدیث پر مشتمل تعویذ : جن میں آیات یا مسنون دعائیں وغیرہ لکھی ہوئی ہوں تو زیادہ بہتر یہی ہے کہ ان کو بھی لکھ کر نہ لٹکایا جائے ۔ کیونکہ ایسا کرنا شارع علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اس سلسلہ میں میں شریعت میں کوئی نص وارد ہوئی ہے ۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ کام حرام تک رسائی کا سبب بن جاتا ہے ۔ اور اکثر طور پر ان قرآنی آیات کے تعویذ رکھنے والے ان کا احترام نہیں کر پاتے ۔ خصوصا جب وہ گندی جگہوں پر داخل ہوتے ہیں ۔
    جہاں تک دم کرنے کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل ہے ۔ اگر دم کتاب و سنت میں سے ہو یا اس کے علاوہ کوئی اچھا اور بامعنی کلام ہو تو ایسا کرنا دم کرنے والے کے حق میں مندوب ہے ۔ کیونکہ اس میں مخلوق کے ساتھ احسان اور بھلائی ہے اس سے انہیں فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔ یہ دم کروانے والے کے حق میں بھی جائز ہے مگر اسے چاہیے کہ ہوسکے تو کسی سے دم کرنے کی طلب نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا کمال توکل اور یقین کے منافی ہے ۔ کمال توکل و یقین کا تقاضا ہے کہ انسان نہ ہی کسی سے دم کروائے اور نہ ہی تعویذ وغیرہ لے ۔
    اگر دم میں غیر اللہ کو پکارا جارہا ہو یا غیر اللہ سے شفا طلب کی جارہی ہو تو ایسا کرنا شرک اکبر ہے ۔ کیونکہ غیر اللہ کو پکارنا اور ان سے مشکل کشائی چاہنا شرک اکبر ہے ۔ اس تفصیل کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے ۔ اور اس بات سے اجتناب کریں کہ ہر قسم کے دم یا جھاڑ پھونک پر ایک ہی حکم تھوپ دیا جائے ۔ حالانکہ اپنے اغراض و مقاصد اور اسباب اور کیفیت کے اعتبار سے ان میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 9 ) ۔ ۔ ۔ درخت یا پتھر سے برکت حاصل کرنا
    { کسی درخت یا پتھر وغیرہ کو متبرک سمجھںا }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰىۙ o وَمَنٰوةَ الثَّالِثَةَ الْاُخْرٰى ( سورۃ النجم ، 19 + 20 )
    " اب ذرا بتاؤ ، تم نے کبھی اس لات ، اور اس عزی o اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا ؟ "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    ابو واقد لیثی ( رض ) کا بیان ہے کہ : " ہم رسول اللہ ( ص ) کے ساتھ حنین کی طرف جارہے تھے ۔ اور ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا ۔ راستے میں مشرکین کا بیری کا درخت تھا وہ اس درخت کے پاس بیٹھتے اور اپنے ہتھیار بھی اس درخت پر لٹکاتے تھے ۔ پس جب ہم بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ ( ص ) سے عرض کی : جیسے ان مشرکین کے لیے ذات انواط ہے ، آپ ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فر ما دیجئے ۔ تو رسول اللہ ( ص ) نے اللہ اکبر کہا اور فرمایا :" یہی تو راستے ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم نے تو وہی بات کی جو بنو اسرائیل نے موسی ( ع ) سے کہی تھی کہ " جیسے ان کے معبود ہیں آپ ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردیں ۔" تو نبی کریم ( ص ) نے فرمایا : تم بھی پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے " ( مسند احمد ، 349 )
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    تبرک کا معنی : برکت حاصل کرنا ہے ۔ یعنی خیر اور بھلائی کی کثرت اور اس کے ہمیشہ ہمیشہ رہنے کی تمنا اور خواہش رکھنا ۔ قرآن و سنت کے دلائل سے یہ بات ثابت ہے کہ برکت دینے والا صرف اللہ تعالی ہے ۔ مخلوق میں سے کوئی ، کسی کو برکت نہیں دے سکتا ۔
    ( مسند احمد ، 349 ) حدیث میں " ذات انواط " : مشرکین اس درخت کی عظمت و جلالت کے پیش نظر اس کے پاس بیٹھنا باعث بر کت سمجھتے تھے ۔ یعنی برکت حاصل کرنے کی نیت سے اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے ۔ ان صحابہ کرام ( رض ) نے یہ اس لیے کہا کہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ شائد یہ بھی عند اللہ پسندیدہ عمل ہے لہذا ہم بھی تبرک حاصل کیا کریں ۔ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ شرک ہے تو وہ رسول اللہ ( ص ) کی مخالفت کی کیسے جرات کر سکتے تھے؟ رسول اللہ ( ص ) نے صحابہ کرام ( رض ) کی اس بات کو بنی اسرائیل کے قول سے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ دونوں نے الہ طلب کیا تھا جس کی وہ اللہ تعا لی کے سوا عبادت کریں ۔ دونوں کے مطالبہ کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں تاہم معنی ایک ہی ہیں کیونکہ الفاظ کی تبدیلی سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی ۔
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ سورۃ النجم کی آیات کی تفسیر واضح ہوتی ہے ۔
    2 ۔ صحابہ کرام ( رض ) کی مطلوبہ صورت کی وضاحت یعنی ذات انواط مقرر کرنے کے مطالبہ کی صحیح توجیہہ بھی معلوم ہوئی کہ وہ صرف تبرک کی خاطر ذات انواط مقرر کرانا چاہتے تھے ان کا مقصود اسے معبود بنانا نہ تھا ۔
    3 ۔ صحابہ کرام ( رض ) نے اپنی اس خواہش کا محض اظہار ہی کیا تھا ۔ اسے عملی جامہ نہیں پہنایا تھا ۔
    4 ۔ اور اس سے ان کا مقصود قرب الہی کا حصول ہی تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اللہ تعالی اسے پسند فرماتا ہے ۔
    5 ۔ صحابہ کرام ( رض ) جیسی عظیم ہستیوں پر شرک کی یہ قسم مخفی رہی تو عام لوگوں کا اس سے ناواقف رہنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔
    6 ۔ صحابہ کرام ( رض ) سے جو نیکیوں اور بخشش کے وعدے کیے گئے ہیں وہ دوسروں کو حاصل نہیں ہو سکتے ۔
    7 ۔ رسول اللہ ( ص ) نے اس بارے میں صحابہ ( رض ) کو معذور نہ جانا بلکہ آپ نے ان کی تردید کرتے ہوئے معاملے کی سنگینی ان تین جملوں میں بیان کی ۔ اللہ سب سے بڑا ہے ۔۔۔ یہی تو گمراہی کے راستے ہیں ۔۔۔ تم پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے ۔ ان تین کلمات سے ان پر سخت انکار کیا ۔
    8 ۔ سب سے اہم اور بڑی بات جو اصل مقصود ہے وہ نبی کریم ( ص ) کا صحابہ ( رض ) سے یہ فرمانا ہے کہ تمہارا مطالبہ اور فرمائش بھی بنی اسرائیل جیسی ہے ۔ انہوں نے کہا تھا : " اے موسی ! ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر جس طرح ان کے معبود ہیں ۔ "
    9 ۔ اس قسم کے مقامات کو متبرک اور مقدس نہ سمجھنا بھی توحید اور کلمہ توحید کا تقاضا ہے ۔ یہ ایک انتہائی دقیق اور پوشیدہ بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ( رض ) پر بھی یہ معاملہ مخفی رہ گیا تھا ۔
    10 ۔ آپ ( ص ) نے فتوی دیتے ہوئے قسم اٹھائی ۔
    11 ۔ بیشک شرک شرک اکبر بھی ہوتا ہے اور شرک اصغر بھی ۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام اس مطالبہ پر مرتد نہیں ہوئے ۔ 12 ۔ ابو واقد ( رض ) کا یہ کہنا کہ اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں دوسرے ایسے صحابہ کرام ( رض ) بھی تھے جن کو اس مسئلہ کا علم تھا ۔
    13 ۔ اظہار تعجب کے موقعہ پر اللہ اکبرکہنا جائز ہے ۔ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو اسے مکروہ سمجھتے ہیں ۔
    14 ۔ شرک و بدعت کے تمام اسباب و ذرائع کا سدباب کرنا ضروری ہے ۔
    15 ۔ اہل جاہلیت سے مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت ۔
    16 ۔ دوران تعلیم غلطی پر ناراضگی کے اظہار کا جواز ۔
    17 ۔ نبی کریم ( ص ) نے" إِنہا السنن " یہی تو راستے ہیں فرما کر عمومی اصول بیان فرما دیا ۔ ( حدیث کا عربی متن )
    18 ۔ نبی کریم ( ص ) کا یہ فرمانا کہ : تم بھی پہلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے " آپ ( ص ) کی یہ خبر بھی علامات نبوت میں سے ہے ۔
    19 ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جن کاموں اور باتوں پر یہود و نصاری کی مذمت فرمائی ہے وہ دراصل ہمیں تنبیہ ہے تاکہ ہم ان کاموں سے بچ کر رہیں ۔
    20 ۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ عبادات کی بنیاد اللہ تعالی کے حکم اور امر پر ہے ۔ اس سے قبر کے سوالات پر تنبیہ ہے ۔ قبر میں پہلا سوال یہ ہو گا کہ تیرا رب کون ہے ؟ یہ تو واضح ہے ۔ دوسرا سوال ہوگا : تیرا نبی کون ہے ؟ اس کا تعلق امور غیبیہ سے ہے اور تیسرا سوال کہ تیرا دین کیا ہے ؟ اس پر سورۃ الأعراف ، 138 کی یہ آیت " اجْعَل لَّنَـآ اِلٰـهًا ( ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے ) " دلالت کرتی ہے ۔
    21 ۔ اہل کتاب کے طور طریقے بھی اسی طرح مذموم ہیں جیسے مشرکین کے طور اطوار مذموم ہیں ۔
    22 ۔ جو شخص نیا نیا مسلمان ہوا ہو اس کے دل میں دور کفر و شرک کی عادات و اطوار کا پایا جانا بعید ازقیاس نہیں ۔ جیسا کہ پیش نظر واقعہ میں صحابہ کرام ( رض ) کے اس قول سے واضح ہے کہ : " ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا " ۔
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    درخت اور پتھر وغیرہ سے تبرک لینا اور بیشک ایسا کرنا شرکیہ اور مشرکین کا عمل ہے ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی درخت ، پتھر یا زمین کے کسی کونے سے یا درگاہ وغیرہ سے تبرک مشروع نہیں ہے ۔ بلکہ اس قسم کا تبرک درحقیقت میں ان چیزوں میں غلو کا نتیجہ ہے جو بڑھتے بڑھتے آخر کار ان کو ہی پکارنے اور ان کی عبادت بجا لانے تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہی چیز تو شرک اکبر ہے جیسا کہ اس سے پہلے اس کی حدود و قیود بیان ہوچکی ہیں ۔ یہ حکم ہر چیز کے لیے عام ہے ۔ حتی کہ مقام ابراہیم اور نبی کریم ( ص ) کے حجرہ اور بیت المقدس میں موجود چٹان اور دیگر فضیلت والی جگہوں کا بھی یہی حکم ہے ۔ جہاں تک کعبہ شریف میں حجر اسود کو بوسہ دینے اوررکن یمانی پر ہاتھ سے مسح کرنے کا تعلق ہے تو یہ اللہ تعالی کی عبودیت اور اس کی تعظیم اور اس کی عظمت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے سے تعلق رکھتا ہے اوراس میں عبادت کی روح پائی جاتی ہے ۔ اس میں درحقیقت اللہ تعالی خالق و مالک کی تعظیم اور اس کی بندگی ہے ۔ جب کہ پہلے ذکر کردہ چیزوں میں مخلوق کی تعظیم اور ان کی بندگی ہے ۔
    اور ان دونوں باتوں میں فرق بالکل ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالی سے دعا کرنے میں جو کہ عین اخلاص اور توحید ہے اور مخلوق کو پکارنے میں جو کہ شرک اور اللہ تعالی کی برابری کرنا ہے ۔
    کتاب و سنت کے دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالی نے برکت سے نوازا ہے وہ یا تو کچھ مقامات یا اوقات ہیں یا افراد و شخصیات ۔
    پہلی قسم : مقامات یا اوقات ۔ ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالی نے بعض جگہوں کو بابرکت بنایا ہے جیسے بیت اللہ شریف ، مسجد نبوی اور بیت المقدس کا آس پاس وغیرہ ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں میں بہت زیادہ خیر اور بھلائی ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ منسلک اور مربوط ہے اور یہ خیر و برکت ان میں اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جن لوگوں کو ان کی زیارت کی دعوت دی گئی ہے ان میں یہ رغبت اور شوق پیدا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنا تعلق اور دلی لگاؤ ان کے ساتھ رکھیں ۔ ان جگہوں کے با برکت ہونے کا یہ مفہوم قطعا نہیں کہ وہاں کی سرزمین یا دیواروں کو چھوا جائے کیونکہ یہ برکت ان کے ساتھ اس طرح سے لازم ہے کہ کسی دوسری چیز میں منتقل نہیں ہو سکتی ۔ یعنی زمین کو چھونے ، وہاں دفن ہونے اور اسے متبرک سمجھنے سے اس کی برکت منتقل نہیں ہوجاتی ۔ کسی جگہ کے با برکت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کا دلی تعلق اس جگہ کے ساتھ ہو جیسے بیت اللہ الحرام ہے کہ اس کا قصد و ارادہ کرنے والا ، وہاں جاکر اس کا طواف کرنے والا اور عبادت بجالانے والا بہت ہی خیر کا مستحق ٹھہرتا ہے ، حتی کہ حجراسود بھی ایک با برکت پتھر ہے لیکن اس کی برکت بھی عبادت ہی کی بنا پر ہے ۔ یعنی جو شخص نبی کریم ( ص ) کی اتباع واطاعت کرتے ہوئے بطور عبادت اسے چھوئے اور بوسہ دیگا وہ اتباع کی برکت بھی پا لیگا ۔ عمر ( رض ) نے حجراسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا تھا " میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے ، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع ۔ اگر رسول اللہ ( ص ) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا " ( صحیح بخاری ، 1597 ) ۔ ۔ ۔ رہے اوقات : جیسے ماہ رمضان یا اس کے علاوہ فضیلت کے حامل دیگر ایام کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں عبادت بجالانا اور بھلائی کا قصد کرنا اجر و ثواب میں زیادتی کا باعث ہے ، ان کے علاوہ دوسرے ایام میں اس قدر اجر و ثواب نہیں ملتا ۔
    دوسری قسم : جس برکت کا تعلق شخصیات کے ساتھ ہے ۔ اللہ تعالی نے انبیاء اور رسولوں کی ذات میں برکت رکھی تھی یعنی ان کے اجسام با برکت تھے کہ ان کا کوئی امتی اگر ان کے اجسام کو ہاتھ لگا کر یا ان کا پسینہ حاصل کر کے یا ان کے بالوں سے برکت حاصل کرنا چاہتا تو یہ اس کے لیے جائز ہوتا تھا کیونکہ اللہ تعالی نے ان کے جسموں میں برکت رکھی تھی ۔ اسی طرح محمد ( ص ) کا جسم اطہر بھی بےحد مبارک تھا ۔ احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام ( رض ) آپ کے پسینے ، بالوں اور دیگر اشیاء سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔ انبیاء اور رسولوں کی برکت ذاتی ہوتی تھی ۔ اس برکت اور فضل و خیر کا ان کے جسموں سے دوسروں تک منتقل ہو ، ناممکن تھا ۔ اور یہ صرف انبیاء کا خاصہ تھا ۔ رہے انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگ تو انبیاء کے امتیوں میں سے کسی کے بارے میں کوئی دلیل نہیں کہ اس کی ذات بھی با برکت ہو ، حتی کہ اس امت کی افضل ترین شخصیات ، ابوبکر ( رض ) سے بھی تبرک لینے کی کوئی دلیل نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ، تابعین اور مخضرمین ابو بکر و عمر و عثمان و علی ( رض ) سے اس طرح تبرک نہیں لیا کرتے تھے جس طرح نبی کریم ( ص ) کے بالوں یا وضو کے پانی سے تبرک لیتے تھے ۔ ان بزرگ شخصیات کی برکت تو محض ان کے اعمال کی برکت ہوتی تھی نہ کہ ذات کی ، کہ نبی کریم ( ص ) کی ذاتی برکت کی طرح ان کی برکت بھی دوسروں تک منتقل ہوسکے ۔
    وہ لوگ جو عہد نبوی میں اسلام قبول کر چکے تھے لیکن نبی کریم ( ص ) سے ملاقات نہیں ہوئی تھی انہیں مخضرمین کہتے ہیں ۔
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 10 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کے نام پر قربانی دینے کے بارے میں احکام
    { غیر اللہ کے لئے ذبح کرنے کا حکم }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَ مَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ O لَا شَرِيْكَ لَهٗۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَاۡ اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ( سورۃ الأنعام ، 162 + 163 )
    " کہو ، میری نماز ، میرے تمام مراسم عبودیت ، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے O جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں "
    فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ( سورۃ الكوثر ، 2 )
    " پس تم اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    علی ( رض ) فرماتے ہیں : رسول اللہ ( ص ) نے مجھے چار باتیں ارشاد فرمائیں : 1 ۔ جو شخص غیر اللہ کے لیے ذبح کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔ 2 ۔ جو شخص اپنے والدین پر لعنت کرے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔ 3 ۔ جو شخص کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر بھی اللہ تعالی کی لعنت ہے ۔ 4 ۔ اور جو شخص حدود زمین کے نشانات کو بدلے اس پر بھی اللہ کی لعنت ہے ۔ ( صحیح مسلم ، 5125 )
    طارق بن شہاب ( رض ) سے روایت ہے ، رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : ایک شخص ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں چلا گیا اور ایک شخص ایک مکھی ہی کی وجہ سے جہنم میں جا پہنچا ۔ صحابہ کرام ( رض ) نے عرض کیا : یا رسول ! وہ کیسے ؟ فرمایا : دوآدمیوں کا ایک قوم پر گزر ہوا ۔ جس کا ایک بت تھا وہ کسی کو وہاں سے چڑھاوا دیے بغیر گزرنے کی اجازت نہ دیتے تھے ۔ انہوں نے ان میں سے ایک سے کہا : چڑھاوا چڑھا ۔ اس نے کہا : میرے پاس چڑھاوے کے لیے کچھ نہیں ۔ کہنے لگے : چڑھاوا چڑھا خواہ ایک مکھی ہی ہو ۔ اس نے ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھا دیا تو انہوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا وہ اس سبب جہنم میں جا پہنچا ۔ دوسرے سے کہا : توبھی چڑھاوا چڑھا ۔ وہ بولا : میں تو اللہ تعالی کے سوا کسی کے واسطے کوئی چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا ۔ انہوں نے اسے قتل کردیا ۔ اور وہ سیدھا جنت میں جا پہنچا ۔ ( رواہ احمد فی کتاب الزھد 1 / 203 )
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    ( سورۃ الأنعام ، 162 + 163 ) کی آیات سے ثابت ہوا کہ نماز اور قربانی دونوں عبادتیں ہیں کیونکہ قربانی کو اللہ کے ساتھ خاص کیا گیا ہے مخلوق کے اعمال میں سے عبادات صرف اللہ کے ساتھ خاص ہوتی ہے ۔ اسی لیے صَلَاتِىْ کے بعد وَنُسُكِىْ فرمایا کہ قربانی بھی دیگر عبادتوں کی طرح ایک عبادت ہے اور اس کا مستحق بھی صرف اللہ تعالی ہی ہے ۔ نہ نماز میں اس کا کوئی شریک ہے نہ قربانی میں ۔ عبادت کا مستحق وہی رب ہے جو عظیم بادشاہت کا مالک ہے ۔
    ( رواہ احمد فی کتاب الزھد 1 / 203 ) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بت کے تقرب کے لیے جانور ذبح کرنا اس شخص کے لیے دخول جہنم کا سبب بنا ۔ ظاہرا لگتا ہے کہ یہ کام کرنے والا آدمی مسلمان تھا جو اپنے اس شرکیہ فعل کی پاداش میں جہنم رسید ہوا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب اور تعظیم کے لیے جانور ذبح کرنا اور چڑھاوے چڑھانا شرک اکبر ہے ۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لیے مکھی جیسی بے قدر و قیمت چیز کا چڑھاوا چڑھاوا چڑھانا جب اس آدمی کے لیے جہنم میں داخل ہونے کا سبب بنا تو جو چیز منفعت میں اس سے بڑی اور قیمتی ہو اس کا چڑھاوا چڑھانا اسی قدر دخول جہنم کا بڑا سبب ہو گا ۔
    یہ روایت احمد بن حنبل ( رح ) کی " کتاب الزھد " کے اندر موجود ہے اور فضيلة الشيخ الامام محمد ناصر الدين الالبانی نے اسے سلمان فارسی (رض ) پر موقوفا صحیح کہا ہے ۔ واللہ اعلم
     
  11. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1۔ سورۃ الأنعام 162 اور 163 کی آیات کی تفسیر معلوم ہوتی ہے ۔
    2 ۔ " فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ " آیت کی تفسیر بھی معلوم ہوتی ہے ۔
    3 ۔ حدیث میں رسول اللہ ( ص ) نے سب سے پہلے غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے ۔
    4 ۔ اپنے والدین پر لعنت کرنے والے پر لعنت کی ہے ۔ ایسا تب ہوگا جب کوئی کسی کے والدین پر لعنت کرے تو وہ اس کے والدین پر لعنت کریں ۔
    5 ۔ اس حدیث میں بدعتی کو پناہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے ۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس پربدعت کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے سزا واجب ہو اور وہ اس سے بچنے کے لیے کسی کی پناہ ڈھونڈ رہا ہو ۔
    6 ۔ جو شخص حدود زمین کے نشانات و علامات کو آگے پیچھے کرکے بدل ڈالے وہ بھی لعنتی ہے ۔ اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو آپ کے اور آپ کے ہمسایہ کے حقوق کی حدود کا تعین کرتے ہیں ۔ ان نشانات کو آگے پیچھے کرکے اپنے ہمسایہ کا حق مارنا موجب لعنت ہے ۔
    7 ۔ کسی متعین شخص پر اور عمومی طور پر گناہ گار لوگوں پر کسی کا نام لیے بغیر لعنت کرنے میں فرق ہے ۔
    8 ۔ ایک مکھی کا چڑھاوا چڑھانے کے سبب ایک آدمی کے جہنم میں جانے کا واقعہ بڑاعبرت ناک ہے ۔
    9 ۔ مکھی کا چڑھاوا چڑھانے والا جہنم رسید ہوا حالانکہ اس کا مقصد شرک کرنا قطعا نہ تھا بلکہ اس نے محض اپنی جان بچانے کی خاطر ایسا کیا تھا ۔
    10 ۔ اہل ایمان کی نظر میں شرک اس قدر سنگین جرم ہے کہ اس مومن نے قتل ہونا گوارا کر لیا ، لیکن اہل صنم کا مطالبہ پورا نہ کیا ، حالانکہ انہوں نے اس سے صرف ظاہری طور پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔
    11 ۔ شرک کا ارتکاب کرکے جہنم میں جانے والا شخص مسلمان تھا ۔ اگر وہ کافر ہوتا تو آپ ( ص ) یوں نہ فرماتے کہ وہ ایک مکھی کی وجہ سے جہنم میں گیا ۔
    12 ۔ اس حدیث سے ایک دوسری صحیح حدیث کی تائید بھی ہوتی ہے ، جس میں نبی کریم ( ص ) نے فرمایا : " جنت تم میں سے کسی ایک کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ اور جہنم بھی ایسے ہی ہے ۔ " ( صحیح بخاری ، 6488 )
    13 ۔ بت پرستوں سمیت ہر ایک کے نزدیک قلبی عمل سب سے زیادہ اہم اور مقصود اعظم ہوتا ہے ۔
     
  12. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    غیراللہ کے نام پر ذبح کرنا شرک ہے ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول کی نصوص اس سلسلہ میں بڑی واضح ہیں جن میں اللہ تعالی کے لیے ذبح کرنے اور اس کے لیے اخلاص کے ساتھ بندگی کا حکم وارد ہوا ہے ۔ جیسا کہ یہ نصوص نماز کے بارے میں بھی بڑی ہی واضح ہیں ۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں کئی ایک مقامات پر ذبح اور نماز کے مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے ۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ اللہ کی رضا کے لیے ذبح کر نا بڑی عظیم الشان عبادات اور اطاعت الہی کے کاموں میں سے ہے تو یہ بھی پتہ چلا کہ غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا شرک اکبر ہے جس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے ۔ بیشک شرک اکبر کی حد اور تفسیر جو کہ اس کی تمام انواع و افراد کے لیے جامع ہے وہ یہ ہے کہ : " انسان عبادات کی اقسام میں سے کوئی ایک قسم کسی غیر اللہ کے لیے بجا لائے ۔ "
    پس ہر وہ عقیدہ ، قول اور عمل جس کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ یہ شارع علیہ السلام کی طرف سے مامور ہے اس کا صرف ایک اللہ وحدہ لاشریک کے لیے بجا لانا ایمان اور اخلاص ہے اور اس کو غیر اللہ کے لیے بجا لانا کفر اور شرک ہے ۔
    غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے کی وعید شدید ہے اور ایسا کرنا اللہ کے ساتھ شرک ہے ۔ ذبح سے مراد خون بہانا ہے ۔ ذبح میں دوچیزیں اہم ہوتی ہیں : 1 کسی کا نام لے کر ذبح کرنا ۔ 2 کسی کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرنا ۔
    پہلی صورت میں اصل چیز نام ہے اور دوسری صورت میں قصد و ارادہ ۔ دراصل جانور ذبح کرتے وقت جس کا نام لیا جائے اس سے استعانت اور مدد مقصود ہوتی ہے ۔ مثلا اگر آپ بسم اللہ کہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اللہ کے نام سے مدد حاصل کرتے ہوئے اور اسے متبرک سمجھتے ہوئے ذبح کرتا ہوں ۔ رہی بات قصد و ارادہ کی تو یہ عبودیت اور بندگی کے اظہار کی ایک صورت ہے ۔ نام اور قصد و ارادہ کے لحاظ سے ہمارے سامنے چار صورتیں آتی ہیں :
    پہلی صورت اللہ کا نام لے کر اسی کے تقرب کے قصد سے ذبح کرنا ۔ اس کے لیے دوشرطیں ہیں ۔ پہلی شرط : اللہ تعالی کے تقرب کے ارادے سے ذبح کرے ، جیسے قربانی ، بدی، اور عقیقہ وغیرہ ۔ دوسری شرط : اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ۔ اگر جان بوجھ کر اللہ تعالی کا نام نہ لیا تو ذبیحہ حلال نہ ہوگا ۔ یہ دونوں شرطیں بیک وقت تب کارگر ہیں جب ذبح سے اللہ تعالی کا تقرب مقصود ہو ۔ اور اگر اللہ تعالی کے تقرب کے لیے نہیں بلکہ مہمانوں کی مہمان نوازی کے لیے یا اپنے کھانے کے لیے ذبح کرے تو یہ جائز ہے ، شرعا اس کی اجازت ہے کیونکہ اس نے اللہ تعالی کا نام لے کر ذبح کیا ہے ، غیر اللہ کا نام نہیں لیا ۔ یہ وعید میں داخل ہوگا نہ ممانعت میں ۔
    دوسری صورت ذبح تو اللہ کا نام لے کر کیا جائے لیکن مقصود اس سے غیر اللہ کا تقرب ہو ۔ مثلا ذبح کے وقت یہ کہے میں اللہ کا نام لے کر ذبح کرتا ہوں اور اس ذبح سے اس کی نیت ، کسی مدفون نبی یا کسی بزرگ کا تقرب ہو۔تو یہ ذبح بھی اور ذبح شدہ جانور بھی حرام ہے ۔
    تیسری صورت ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور اس سے مقصود بھی غیر اللہ کا تقرب ہی ہو ۔ مثلا باسم المسیح کہہ کر ذبح کرے اور تقرب بھی مسیح ہی کا مقصود ہو ۔ یہ بہت بڑا شرک ہے ۔ شرک فی الاستعانت بھی اور شرک فی العبادت بھی ۔ اس طرح بدوی ، جسین ، زینب ، عیدروس ، مرغینانی بابا صاحب یا ان کے علاوہ وہ شخصیات جن سے لوگ عبادت اور پوجا والا معاملہ رکھتے ہیں ان کے نام لے کر ذبح کرنے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ ان کے نام لے کر ذبح کرتے وقت لوگوں کی نیت اور ارادہ ان کا تقرب ہوتا ہے ۔ اس لیے یہ دوطرح سے شرک بن جاتا ہے۔ ایک تو استعانت اور مدد کے حصول کی وجہ سے اور دوسرا عبودیت ، تعظیم اور غیر اللہ کے لیے خون بہانے کی وجہ سے ۔
    چوتھی صورت ذبح غیر اللہ کا نام لے کر کیا جائے اور مقصود ، اللہ کا تقرب ہو ، اور یہ بہت قلیل اور نادر ہے ۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ذبح تو کسی بزرگ کا نام لے کر کیا جائے مگر نیت یہ ہوتی ہے کہ اس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے تو یہ بھی درحقیقت شرک فی الاستعانت اور شرک فی العبادت ہی میں شامل ہے ۔
     
  13. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 11 ) ۔ ۔ ۔ جس مقام پر غیر اللہ کے نام پر قربانی دی جاتی ہو
    { جہاں غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کئے جائیں وہاں ذبح کرنا جائز نہیں }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    لَا تَقُمْ فِيْهِ اَبَدًا ۗ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِۗ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۗ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ( سورۃ التوبة ، 108 )
    " تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا ۔ جو مسجد اول روز سے تقوی پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو ، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    ثابت بن ضحاک ( رض ) سے روایت ہے ، فر ماتے ہیں : " ایک آدمی نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ، اس نے اس کے متعلق نبی اکرم ( ص ) سے دریافت کیا ، تو آپ ( ص ) نے فرمایا : کیا وہاں دور جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہوتی تھی ؟ صحابہ نے کہا : نہیں ۔ آپ ( ص ) نے مزید پوچھا : کیا وہاں مشرکین کا کوئی تہوار ہوتا تھا ؟ صحابہ نے کہا : نہیں ۔ آپ نے فرمایا : تم اپنی نذر پوری کر لو ۔ یاد رکھو ! جو نذر اللہ تعالی کی نافرمانی کے متعلق ہو یا انسان کے تصرف و اختیار میں نہ ہو ، اسے پورا کرنا ہر گز جائز نہیں ۔ " ( سنن ابی داود ، 3313 )
    یہ حدیث امام ابو داؤد ( رح ) نے روایت کی ہے اور امام بخاری اور امام مسلم ( رح ) کی شرائط کے مطابق صحیح الاسناد ہے ۔
     
  14. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    جس جگہ غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں یا اس کے قرب و جوار میں اللہ تعالی کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ اس طرح غیر اللہ کے لیے ذبح کرنے والوں کے ساتھ مشابہت اور اشتراک ہو جاتا ہے ۔
    مثلا مشرکین یا مبتدعین کی نظر میں کوئی جگہ قابل تعظیم ہو یا کوئی قبر وغیرہ جہاں صاحب قبر کے تقرب کی نیت سے جانور ذبح کیے جاتے ہوں ، کسی موحد مسلمان کے لیے ایسی جگہ پر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اگرچہ وہ ذبیحہ اللہ تعالی کے لیے ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح اس جگہ کی تعظیم میں ان مشرکین سے مشابہت ہو جاتی ہے جو ان مقامامت پر غیر اللہ کے لیے مختلف عبادات بجالاتے ہیں ۔ پس جہاں غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں اللہ تعالی کے لیے بھی جانور ذبح کرنا نہ صرف ناجائز بلکہ ذریعہ شرک ہے ۔ اس سے اس جگہ کی تعظیم ظاہر ہوتی ہے ۔ جبکہ یہ عمل حرام اور ذریعہ شرک ہے ۔
    منافقین نے اللہ تعالی اور رسول اللہ ( ص ) کی مخالفت میں ایک مسجد بنائی جسے قرآن میں مسجد ضرار کہا گیا ہے ، چونکہ مسجد بنانے والوں کی اصل غرض ، اللہ تعالی اور رسول اللہ ( ص ) کی مخالفت تھی ۔ وہاں نماز پڑھنے سے ان کی تائید ، ان کی تعداد میں اضافہ اور عام لوگوں کے لیے وہاں نماز ادا کرنے کا جواز ثابت ہوتا تھا ۔ اس لیے اللہ تعالی نے سورۃ التوبة کی آیت میں اپنے نبی کو اور مومنین کو اس مسجد میں نماز ادا کرنے بلکہ کھڑے ہونے تک سے منع فرما دیا ۔ حالانکہ رسول اکرم ( ص ) اور باقی مومنین اگر وہاں نماز ادا کرتے تو وہ صرف اللہ تعالی کے لیے نماز ادا کرتے ۔ وہاں نماز ادا کرنے سے ان کا مقصود ، دین کو نقصان پہنچانا یا مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا یا اللہ اور رسول کی مخالفت قطعا نہ ہوتا ۔ مگر اس کے باوجود انہیں وہاں نماز ادا کرنے سے اس لیے منع کر دیا گیا کہ منافقین کے ساتھ مشارکت یا مشابہت نہ ہو ۔ اسی طرح جس مقام پر غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیے جاتے ہوں وہاں اللہ تعالی کے لیے جانور ذبح کرنا بھی جائز نہیں اگرچہ اس سے محض اللہ تعالی کی رضا ہی مقصود کیوں نہ ہو کیونکہ اس طرح اس جگہ کی تعظیم اور مشرکین سے مشابہت ہوتی ہے ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ جہاں مشرکین غیر اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کرتے ہوں وہاں ان کے ساتھ شریک ہو کر ان کی ظاہری مشابہت اختیار کرنا ہرگز جائز نہ ہوگا اگرچہ وہاں محض اللہ کے تقرب کے لیے ذبح کیوں نہ کیا جائے اور فقط رضائے الہی کی خاطر نماز کیوں نہ پڑھی جائے ۔
    حدیث میں نبی ( ص ) کا صحابہ سے بوانہ کے مقام کے متعلق سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہوتا کہ وہاں جاہلیت کے کسی بت کی پوجا ہورہی ہے تو وہاں قربانی کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہوتی ۔ یہاں حدیث بیان کرنے کا بھی یہی مقصد ہے ۔
     
  15. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ ( سورۃ التوبة ، 108 ) آیت کی تفسیر معلوم ہوئی ۔
    2 ۔ بسا اوقات اللہ تعالی کی نافرمانی زمین پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور ایسے ہی اطاعت بھی ۔
    3 ۔ کسی پیچیدہ مسئلہ کو واضح مثال سے سمجھانا ضروری ہے تاکہ مسئلہ پوری طرح سمجھ میں آجائے ۔
    4 ۔ مفتی ، سائل سے حسب ضرورت تفصیل طلب کر سکتا ہے ۔
    5 ۔ منت اور نذر کے لیے کسی خاص مقام کو مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو ۔
    6 ۔ جس مقام پر کوئی بت وغیرہ ہو وہاں نذر پوری کرنا منع ہے ، خواہ اب اسے وہاں سے ختم کر دیا گیا ہو ۔
    7 ۔ جہاں مشرکین کا کوئی میلہ یا تہوار منایا جاتا ہو وہاں پر بھی نذر پوری نہیں کی جاسکتی خواہ اب وہ سلسلہ بند ہی ہو چکا ہو ۔
    8 ۔ مشرکین کے بت یا تہوار والی جگہ کی نذر مانی ہو تو اسے پورا کرنا جائز نہیں ، کیونکہ یہ نذر نافرمانی کی نذر ہے ۔
    9 ۔ مشرکین کے تہواروں میں بھی ان کی مشابہت سے بچنا چاہئے اگر چہ ان کی مشابہت کا قصد و ارادہ نہ بھی ہو ۔
    10 ۔ جو نذر اللہ تعالی کی نافرمانی پر مشتمل ہو ، وہ باطل ہے ۔
    11 ۔ جو کا م انسان کی ملکیت اور اختیار میں نہ ہو ، اس کی نذر ماننا بھی ناجائز اور غلط ہے ۔
     
  16. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    یہ باب پچھلے باب کا ایک خوبصورت تسلسل ہے ۔ پہلا باب مقاصد پر مشتمل تھا ۔ اور یہ باب وسائل پر مشتمل ہے ۔ وہ باب شرک اکبر کے بیان میں تھا ۔ جبکہ یہ باب اس سے قریب کرنے والے شرکیہ وسائل کے بیان میں ہے ۔ بیشک وہ جگہ جہاں پر مشرکین اپنے معبودوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کرتے ہوں اور اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوں تو وہ شرک کی علامات میں سے ایک علامت بن جاتا ہے ۔ پس جب کوئی مسلمان اس جگہ پر جانور ذبح کرے بھلا اس کا قصد اللہ تعالی کی رضامندی ہی کیوں نہ ہو تو یقینا وہ اپنے اس عمل میں مشرکین کی مشابہت اختیار کرتا ہے ۔ اور ان کے خاص مذہبی شعائر میں ان کی مشابہت اختیار کرتا ہے ۔ ظاہری اعمال میں ان کی موافقت درحقیقت باطن میں ان کی موافقت اور ان کی طرف میلان کا سبب بنتی ہے ۔
     
  17. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 12 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کے نام پر نذر ماننا
    { غیر اللہ کی نذر و نیاز ماننا شرک ہے }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِيْرًا ( سورۃ الانسان ، 7 )
    " یہ وہ لوگ ہوں گے جو نذر پوری کرتے ہیں ، اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی "
    وَمَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ نَّفَقَةٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُهٗ ۔ ۔ ۔ ( سورۃ البقرة ، 270 )
    " تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نذر بھی مانی ہو ، اللہ کو اس کا علم ہے "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    عائشہ ( رض ) فرماتی ہیں : رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " جو کوئی اللہ کی اطاعت کی نذر مانے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے اور جو شخص اللہ کی نافرمانی کی نذر مانے تو وہ اللہ کی نافرمانی نہ کرے ۔ " ( صحیح بخاری ، 6696 )
     
  18. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    نذر ماننا مشروع عبادت اور اللہ تعالی کو محبوب ہے اسی لیے اس آیت میں اللہ تعالی نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے ۔ جب یہ عبادت ہے تو اس کا غیر اللہ کے لیے بجالانا شرک اکبر ہے ۔ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ وہ نذریں جو قبرپرست ، درگاہوں اور مزاروں کی قربت اور ان کی رضامندی حاصل کرنے کی غرض سے مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اصحاب القبور ان کی حاجات پوری کریں اور ان کے سفارشی بنیں ، تو یہ سب شرک فی العبادت ہیں ۔ پس جو شخص قبر وغیرہ کے لئے تیل کی نذر مانے تاکہ قبروں پر دیئے جلائے جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا عقیدہ وعمل ہے پس ایسی نذر مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق اللہ کی نافرمانی ہے اور اسے پورا کرنا ناجائز ہے ۔ یہی صورت حال اس مال کی ہوگی جو صاحب قبر یا مجاوروں کو خوش کرنے کے لئے بطور نذر مانا گیا ہو ۔ آج کل قبروں کے مجاور سجادے اور گدی نشین ان لوگوں سے بالکل ملتے جلتے ہیں جو کہ لات ، عزی اور مناۃ کے مجاور تھے اور ناحق ، لوگوں کا مال کھاتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے ۔ آج کے مجاوروں کا بھی یہی حال ہے یہ بھی عوام الناس کا مال بے دریغ کھاتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہو رہا ہے کہ یہ لوگ صراط مستقیم سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔
     
  19. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ اطاعت والی نذر کو پورا کرنا ضروری ہے ۔
    2 ۔ جب یہ ثابت ہو چکا کہ نذر اللہ تعالی کی عبادت ہے تو پھر اسے غیر اللہ کے لیے ماننا اور پورا کرنا شرک ہے ۔
    3 ۔ جس نذر سے اللہ تعالی کی نافرمانی ہوتی ہو اس کا پورا کرنا جائز نہیں
     
  20. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    نذر طاعت امر واجب میں ہوتی ہے اور امر مستحب میں بھی ۔

    امر واجب کی مثال یہ ہے کہ میں اول وقت میں نماز پڑھوں گا ۔ اسے حتی المقدور اس پر عمل کرنا ہو گا ، یعنی اول وقت میں نماز ادا کرنا ہو گی
    اور امر مستحب کی مثال دیگر مالی اور بدنی عبادات ہیں ۔ نذر کے بعد اس قسم کی عبادت واجب ہو جاتی ہے ۔
    حدیث میں صریح ہے کہ نذر طاعت کو پورا کرنا ضروری ہے اور اگر کسی معصیت اور گناہ و نافرمانی کی نذر ہے تو اس کا ترک کر دینا ضروری ہے ۔
     
  21. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 13 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کی پناہ مانگنا
    { غیر اللہ کی پناہ لینا شرک ہے }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا ( سورۃ الجن ، 6 )
    " اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ، اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    خولہ بنت حکیم ( رض ) فرماتی ہیں : " میں نے رسول اکرم ( ص ) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص کسی جگہ میں ٹھہرے اور یہ کلمات کہہ لے : " میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اسکے مکمل کلمات کے ساتھ ، تمام مخلوق کے شر سے ۔ " تو مذکورہ دعا پڑھنے سے اس مقام سے کوچ کرنے کے وقت تک اسے کوئی چیز تکلیف نہ دے سکے گی ۔ " ( جامع ترمذی ، 3437 )
     
  22. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    غیر اللہ کی پناہ مانگنا شرک اکبر ہے ۔ استعاذہ کا معنی پناہ مانگنا ہے ۔ درحقیقت استعاذہ سے مراد پناہ لینے کی دعا کرنا ہے ۔ اور جب یہ دعا ہے تو عبادت بھی ہے اور ہر قسم کی عبادت کا سزاوار صرف اللہ ہے ۔ اہل اسلام کے ہاں بالا تفاق استعاذہ ، اللہ رب العزت کے سوا کسی دوسرے سے درست نہیں ہے ۔ اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ جو چیز مخلوق کے بس میں ہے اس میں مخلوق سے پناہ مانگنا جائز ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مخلوق سے پناہ ، محض زبانی طور پر مانگی جاتی ہے، دلی اطمینان اور لگاؤ اللہ ہی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ حسن ظن ہوتا ہے کہ یہ بندہ تو محض ایک سبب ہے درحقیقت پناہ دینے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے ۔ لہذا جب ظاہری طور پر مخلوق سے پناہ مانگی جائے اور دلی رجحان اور توجہ مخلوق کی طرف نہ ہو تو پھر مخلوق سے پناہ مانگنا جائز ہوگا ۔ اسی لیے اہل خرافات کا یہ قول باطل ہے کہ مردوں ، جنات ، اولیائے کرام اور دیگر مخلوق سے ان چیزوں کی پناہ مانگنا جائز ہے جو ان کی قدرت اور طاقت میں ہیں اور اللہ تعالی نے انہیں پناہ دینے کی قدرت بھی دے رکھی ہے ۔
    جنات سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنی کوئی ضرورت پوری کرا لے یا اپنا کوئی حکم منوا لے ، یا کسی نا معلوم اور مقام بعید کی خبر حاصل کر لے وغیرہ وغیرہ ۔ اور جنات کے انسانوں سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان سے اپنی تعظیم کرا لے ، یا اس کو استعاذہ پر مجبور کر دے یا اپنے سامنے اس کو کسی کام کے لیے مجبور کر دے وغیرہ ۔ اس استعاذہ سے اگر کوئی دنیوی فائدہ حاصل ہو بھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ شرک ہی رہے گا ۔
    یہاں رَهَقًا معنی یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اس قدر خوف و اضطراب پیدا ہو گیا کہ وہ ان پر ظلم و زیادتی کرنے لگے ۔ ظلم جسم پر بھی ہوتا ہے اور روح پر بھی ۔ گویا ان پر جنات کا یہ ظلم بطور سزا تھا اور سزا کسی گناہ پر ہی ہوتی ہے
    آیت مبارکہ میں ان لوگوں کی مذمت بیان ہوئی ہے اور یہ مذمت صرف اس لیے ہے کہ انہوں نے اس عبادت کا حقدار غیر اللہ کو ٹھہرایا جبکہ اللہ کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی سے پناہ نہ مانگی جائے ۔ قتادہ ( رح ) اور بعض دیگر اسلاف کا قول یہ ہے کہ رَهَقًا معنی گناہ ہے اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے پناہ مانگنا باعث گناہ ہے ۔
     
  23. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ سورۃ الجن ، 6 آیت کی تفسیر
    2 ۔ غیر اللہ کی پناہ طلب کرنا میں داخل ہے
    3 ۔ حدیث میں غیر اللہ کی پناہ مانگنے کے شرک ہونے پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ کلمات اللہ غیر مخلوق ہیں کیونکہ اگر یہ مخلوق ہوتے تو ان سے پناہ طلب کرنے کی اجازت نہ ہوتی ۔ اس لیے کہ مخلوق سے پناہ طلب کرنا شرک ہے ۔
    4 ۔ اس دعا کے مختصر ہونے کے باوجود اس کی فضیلت ۔
    5 ۔ کسی عمل کا دنیاوی فوائد کے اعتبار سے مفید ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عمل شرعا جائز ہے اور شرک نہیں ہے ۔
     
  24. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    ( جامع ترمذی ، 3437 ) حدیث میں نبی کریم ( ص ) نے اللہ کے کلمات کے ساتھ پناہ مانگنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے اور شریر مخلوقات سے اللہ کے کلمات کی پناہ میں آنے کا سبق دیا ہے ۔ ( أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ) ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے ۔ اس سے مقصود ان مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنا ہے جن میں شر ہو ۔ ورنہ اللہ تعالی کی بہت سی ایسی پاکیزہ مخلوقات بھی ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی شر نہیں بلکہ وہ سراپا خیر ہیں ، مثلا جنت ، ملائکہ ، انبیاء اور اولیاء وغیرہ ۔
     
  25. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 14 ) ۔ ۔ ۔ غیر اللہ سے مدد طلب کرنا
    { غیر اللہ سے فریاد کرنا یا انہیں پکارنا شرک ہے }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ 0 وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۤدَّ لِفَضْلِهٖ ۗ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۤءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۗ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ( سورۃ یونس ، 106 + 107 )
    " اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا 0 اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے ، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے "
    ۔ ۔ ۔ اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَـكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَهٗ ۗ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ( سورۃ العنكبوت ، 17 )
    " در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو ، اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو "
    وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۤٮِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ 0 وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَاۤءً وَّ كَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ ( سورۃ الأحقاف ، 5 + 6 )
    " آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں 0 اور جب تمام انسان جمع کیے جائیں گے اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے "
    اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوْۤءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاۤءَ الْاَرْضِ ۗ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۗ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ ( سورۃ النمل ، 62 )
    " کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے ؟ اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اور طبرانی ( رح ) نے اپنی سند سے بیان کیا ہے آپ فرماتے ہیں کہ : " رسول اللہ ( ص ) کے دورمیں ایک منافق ، صحابہ کرام ( رض ) کو بہت تکلیف دیا کرتا تھا ۔ چنانچہ چند صحابہ ( رض ) نے مشورہ کیا کہ چلو آپ ( ص ) کی خدمت میں حاضر ہو کر اس منافق سے گلو خلاصی کے لئے استغاثہ کریں ۔ " تو رسول اللہ ( ص ) نے فرمایا : " دیکھو ! مجھ سے فریاد نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ صرف اللہ تعالی کی ذات سے فریاد کیا جاتا ہے ۔ " ( راوہ الطبرانی )
     
  26. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کی تشریح
    اگرچہ دعا اور فریاد کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کو بالخصوص علیحدہ بیان کیا گیا ہے
    جو شخص شدید دکھ اور پریشانی میں اس قدر مبتلا ہو کہ اسے سخت نقصان پہنچنے یا اس کے ہلاک ہوجانے کا خدشہ ہو تو اس کی فریاد رسی کو غوث کہا جاتا ہے ۔ لہذا جب یہ کہا جائے کہ فلاں نے فلاں کی فریاد رسی کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے مدد کرتے ہوئے اسے اس مصیبت سے چھٹکارا دلایا جس میں وہ جکڑا ہوا تھا ۔ چنانچہ جب مخلوق سے کسی ایسے کام کی فریاد کی جائے جو اس کے بس میں نہ ہو بلکہ صرف اللہ کے بس اور اس کی قدرت میں ہو تو یہ فریاد کرنا شرک اکبر ہوگا ۔ ہاں اگر مخلوق کے بس میں ہو تو جائز ہے
    بعض علماء نے فریاد اور دعا میں فرق کیا ہے ۔ فریاد میں شرط یہ ہے کہ مستغیث کسی مصیبت میں مبتلا ہو جبکہ دعا عام ہے ، کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا نہ ہو ، دعا ہر وقت مانگی جا سکتی ہے ۔ دعا کی دو قسمیں ہیں ۔ 1 ۔ دعائے عبادت 2 ۔ دعائے مسئلہ ۔
    قرآن میں یہ دو نوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں اور بعض اوقات بیک وقت دونوں مقصود ہوتی ہیں ۔ دعائے مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی تکلیف اور مشکل سے نجات کا طلبگار ہو یا کسی منافع کا خواہش مند ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جو اللہ کے علاوہ ایسے افرادسے طالب دعا ہو جو کسی نفع یا نقصان کے قطعا مجاز نہیں ہیں جیسا کہ مذکورہ بالا آیت میں فر مایا گیا ہے ۔
    ( سورۃ العنكبوت ، 17 ) اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ تم صرف اللہ ہی سے رزق طلب کرو ۔ اس طلب کو اللہ ہی کے ساتھ خاص رکھو ، طلب رزق کے لیے غیر اللہ سے فریاد نہ کرو ۔ رزق کا لفظ عام ہے ۔ ہر وہ چیز جو انسان کو ملے اور عطا ہو اسے رزق کہا جاتا ہے ۔ اس میں صحت ، عافیت اور مال و دولت سب کچھ شامل ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے " اور اسی کی بندگی کرو " فرمایا تاکہ بطور سوال اور بطور عبادت دونوں طرح کا پکارنا اس میں شامل ہوجائے ۔
    ( سورۃ الأحقاف ، 5 + 6 ) ان آیات میں ان لوگوں کی گمراہی کی انتہا بیان کی گئی ہے جو اللہ تعالی کو چھوڑ کو مردوں کو پکارتے ہیں اس سے بتوں ، پتھروں یا درختوں کو پکارنا مراد نہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا : " جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے " اور یہ اشیاء تو قیامت کے بعد بھی سننے پر قادر نہیں جبکہ مردے قیامت کے بعد اٹھ کر سننے لگیں گے ۔
    ( سورۃ النمل ، 62 ) اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بےکس اور لاچار آدمی کی دعا جو کہ بطور سوال ہوتی ہے ۔ صرف اللہ سنتا ہے ۔ اور ان الفاظ " کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے ؟ " یہ استفہام انکاری ہے ۔ یعنی اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں جسے پکارا جائے ۔
     
  27. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    اس باب میں مندرجہ ذیل مسائل ہیں
    1 ۔ دعا ( پکارنا ) عام ہے اور فریاد ( استغاثہ ) خاص ۔ پس فریاد کے بعد دعا کا ذکر کرنا عطف العام علی الخاص کے قبیل سے ہے ۔
    2 ۔ ( سورۃ یونس ، 106 + 107 ) آیات کی تفسیر ۔
    3 ۔ غیر اللہ کو پکارنا اور فریاد کرنا شرک اکبر ہے ۔
    4 ۔ اگر کوئی انتہائی برگزیدہ بندہ بھی غیر اللہ کو راضی کرنے کے لیے اسے پکارے تو وہ بھی مشرکین میں سے ہو گا ۔
    5 ۔ ( سورۃ العنكبوت ، 17 ) آیت کی تفسیر ۔
    6 ۔ ( سورۃ الأحقاف ، 5 ) آیت کی تفسیر ۔
    7 ۔ غیر اللہ کو پکارنا دنیا میں کچھ نفع بخش نہیں اور پھر یہ کہ ایسا کرنا کفر بھی ہے ۔
    8 ۔ اللہ کے سوا کسی دوسرے سے روزی مانگنا ایسے ہی درست نہیں جیسے اس کے سوا کسی دوسرے سے جنت نہیں مانگی جاسکتی ۔
    9 ۔ ( سورۃ الأحقاف ، 6 ) آیت کی تفسیر ۔
    10 ۔ غیر اللہ کو پکارنے والے سے بڑھ کر گمراہ کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ۔
    11 ۔ جن غیراللہ کو پکارا جاتا ہے وہ تو پکارنے والے کی پکار سے بے خبر ہیں ۔
    12 ۔ غیر اللہ کو یہ پکار قیامت کے دن ان پکارنے والوں اور پکارے جانے والوں کے مابین دشمنی اور بغض کا سبب ہو گی ۔ 13 ۔ غیر اللہ کو پکارنے کو قرآن نے ان کی عبادت کا نام دیا ہے ۔
    14 ۔ جن کو پکارا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ان کی عبادت اور پکار کا انکار کردیں گے ۔
    15 ۔ ان امور کی وجہ ہی سے یہ انسان سب سے زیادہ گمراہ کہلاتا ہے ۔
    16 ۔ ( سورۃ النمل ، 62 ) کی تفسیر بھی معلوم ہوتی ہے ۔
    17 ۔ اس میں سب سے عجیب بات یہ بتائی گئی ہے کہ بتوں کو پوجنے والے بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ مجبور اور بےسہارا انسان کی فریاد سننے والا اور مشکلات سے نجات دینے والا صرف اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ شدید مصائب اور مشکلات کے وقت وہ لوگ بھی انتہائی خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی ہی طرف رجوع کرتے ہیں ۔
    18 ۔ نبی کریم ( ص ) نے مکمل طور پر گلشن توحید کی حفاظت فرمائی اور اللہ تعالی کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ رکھا ۔
     
  28. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    حصہ اول
    جو لوگ اللہ تعالی کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے تھے ، مثلا کسی نبی یا فرشتے یا بت وغیرہ کو ، تو ان کا یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا کہ یہ کسی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں یا بارش برساتے ہیں یا انگور وغیرہ اگاتے ہیں ، بلکہ وہ یا تو ان کی عبادت کرتے تھے یا ان کی قبروں کو پوجتے تھے یا ان کی تصویروں کے سامنے جھکتے تھے اور یہ کیوں کرتے تھے ؟ قرآن مجید اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے کہ مشرکین کہتے ہیں : " ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں " ( سورۃ الزمر ، 3 ) ۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا : " یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع ، اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں " ( سورۃ یونس ، 18 )
    ابن قیم ( رح ) لکھتے ہیں کہ : شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے ، ان کے نام سے فریاد یا استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے ، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے ۔ جوشخص فوت ہوچکا ، اس کے اعمال منقطع ہو چکے ۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے ، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اس کی سفارش کرے گا ۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں ۔ " فتاوی البزازیہ " میں لکھا ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگان دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں ، وہ کافر ہو جاتا ہے ۔ شیخ صنع اللہ حنفی ( رح ) اپنی کتاب " الردعلی من ادعی ان للاولیاء تصرفات فی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ " میں تحریر فرماتے ہیں کہ دور حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت و تصرف حاصل ہے اورسختیوں اور مشکلات میں ان سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں ۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروں پر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحاب کرامت تھے ۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ ان میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی ، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی ، ان کی تعداد 77 اور 44 تک پہنچتی ہے ۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے ۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں ، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں ۔
    شیخ صنع اللہ ( رح ) مزید فر ماتے ہیں کہ یہ وہ عقیدہ ہے جس میں نہ صرف افراط وتفریط ہی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں ہلاکت ابدی اور عذاب سرمدی بھی ہے کیونکہ اس میں خالص شرک کی بو آتی ہے جو کتاب اللہ کے صحیح اور واضح احکام کے صریح خلاف ہے ، تمام ائمہ کرام کے عقائد سے متصادم ہے اور اجتماع امت کے خلاف ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ " مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے ، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے " ( سورۃ النساء ، 115 ) اور اللہ تعالی کا فرمان ہے " اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے ؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہے؟ کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو 0 ان سے کہو ، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ، اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے " ( سورۃ النمل ، 64 + 65 )
    یہ تمام آیات قرآنی اس بات پر دلائل کناں ہیں کہ صرف اللہ ہی کو اپنی مخلوق کے لئے تدبیر ، تصرف اور تقدیر کا اختیار حاصل ہے ۔ اس میں کسی بھی غیر اللہ کو ذرہ برابر دخل نہیں ہے تمام کائنات اس کے قبضہ میں ، اس کی تسخیر اور اس کے تصرف میں ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ زندگی ، موت اور پیدائش اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ چونکہ یہ تمام امور فقط اللہ تعالی کے اختیار و قدرت میں ہیں ، اس لیے اس کی تعریف و ثناء میں بہت سی آیات موجود ہیں ، مثلا اللہ تعالی کا فرمان ہے " لوگو ، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں انہیں یاد رکھو کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو ؟ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، آخر تم کہاں سے دھوکا کھا رہے ہو ؟ " ( سورۃ فاطر ، 3 ) اور اللہ تعالی کا فرمان ہے " اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں 0 انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا " ( سورۃ فاطر 13 + 14 )
    شیخ صنع اللہ ( رح ) نے یہاں بہت سی آیات نقل کی ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ تمام آیات میں لفظ " دُوْنِہٖ " سے ہر وہ غیر اللہ مراد ہے جس کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ استمداد کے قابل ہے ، چاہے کوئی ولی ہو یا کوئی شیطانی طاقت جو خود تو اپنی مدد نہیں کر سکتا ، وہ بھلا دوسروں کی کیا مدد کرے گا ۔ شیخ صنع اللہ ( رح مزید فر ماتے ہیں کہ یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد کسی قسم کے تصرف پر کوئی قدرت حاصل ہے ، یہ ان کی زندگی میں تصرفات کا عقیدہ رکھنے سے بھی زیادہ برا اور بدعتی عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ( ص ) کے متعلق فرمایا ہے کہ " تمہیں بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی مرنا ہے " ( سورۃ الزمر ، 30 ) اور ارشاد فرمایا " وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے " ( سورۃ الزمر ، 42 )
    یہ اور اس کے علاوہ دوسری آیات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ موت کے بعد انسان کی حرکت و حس منقطع اور ختم ہو جاتی ہے ۔
    جب میت کو تو اپنی ذات پر بھی کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ دوسروں کے معاملات میں کس طرح تصرف کریگی ؟ تعجب ہے کہ اللہ تعالی تو یہ کہتا ہے کہ ارواح قطعی طور پر میرے قبضے میں ہیں اور ملحد و اصحاب بدعت یہ کہتے ہیں کہ ان کو علی الاطلاق تصرفات حاصل ہیں ۔
    شیخ صنع اللہ ( رح ) اس سے آگے فرماتے ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ غیر اللہ کو بلیات و شدائد کو رفع کرنے اور حاجات کے پورا ہونے میں کچھ اثر اور قدرت حاصل ہے ، جیسا کہ دور جاہلیت کے عرب کہتے تھے یا آج اس دور کے جہال صوفیاء کا عقیدہ ہے اور وہ ان کو پکارتے بھی ہیں ۔ یہ عقیدہ سراسر باطل اور منکرات میں سے ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ میں سے اللہ کے کسی نبی یا ولی یا کسی روح کو کسی کرب ومصیبت کے دور کرنے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت حاصل ہے یا وہ کسی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا اس باب میں ان کو کوئی اثر و نفوذ حاصل ہے تو ایسا شخص جہالت کی خطرناک وادی میں گامزن ہے اور دوزخ کے کنارے کھڑا ہے ۔ ان کا یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ صرف کرامات ہیں تو اللہ تعا لی کی ذات بے نیاز ہے کہ اس کے اولیاء میں اس قسم کی کوئی طاقت موجود ہو ۔ یہ تو اصنام و اوثان کے پچاریوں کاعقیدہ ہے ، اس کی نشاندہی خود قرآن کریم نے کی ہے کہ وہ غیر اللہ کو صرف سفارشی اور صاحب کرامت سمجھتے تھے ۔
    قرآن کے الفاظ یہ ہے کہ " کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لوں ؟ حالانکہ اگر خدائے رحمان مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آ سکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں " ( سورۃ یس ، 23 )
     
  29. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    باب کا خلاصہ
    حصہ دوئم
    جب آپ سابقہ باب میں بیان کردہ ضابطہ ، جس میں شرک اکبر کی حد کا تعین ہے کہ جو کوئی اللہ تعالی کی عبادت کے امور میں سے کچھ بھی غیر اللہ کے بجا لاتا ہے وہ مشرک ہے ، سمجھ گئے ، تو اب ان تین ابواب اور بعد والے ابواب کا سمجھنا آپ کے لیے آسان ہو جائے گا ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نذر پوری کرنا اللہ تعالی کی عبادت کا کام ہے اور اسے پورا کرنے والوں کی اللہ تعالی نے تعریف کی ہے ۔ اور نبی کریم ( ص ) نے ان نذرور کے پورا کرنے کا حکم دیا ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت میں ہوں ۔ اورہر وہ کام جس کی تعریف شارع علیہ السلام نے کی ہو یا وہ کام کرنے والوں کی ثنائے خیر بیان کی ہو یا اس کا حکم دیا ہو ۔ تووہ کام کرنا عبادت ہے ۔ بیشک عبادت ایک جامع نام ہے جو ہر اس ظاہری و باطنی قول و فعل کو شامل ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتے ہوں اور اس کے کرنے پر راضی ہوتے ہوں ۔ نذر بھی انہی کاموں میں سے ایک ہے ۔ ایسے ہی اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ ہر قسم کے شر و برائی سے بچنے کے لیے صرف اور صرف اس سے پناہ طلب کی جائے ۔ مشکل اوقات میں مشقت کے خاتمہ اور مشکل کشائی کے لیے صرف اللہ تعالی سے فریاد کی جائے ۔ پس یہ کام صرف اللہ کے لیے کرنا ایمان اور توحید ہے اور انہیں غیر اللہ کے لیے بجا لانا اللہ تعالی کی برابری اور شرک ہے ۔
    دعا اور فریاد میں فرق ۔ ۔ ۔
    دعا عام ہے جو ہر حال میں ہوتی ہے ۔ جب کہ فریاد ( استغاثہ ) ایک خاص دعا ہے ۔ یعنی شدید دکھ اور پریشانی میں فریاد کرنا ۔ یہ تمام امور صرف اور صرف ایک اللہ تعالی سے ہی ہوسکتے ہیں ۔ وہی پکارنے والوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرتا ہے ۔ پس جو کوئی اللہ تعالی کو چھوڑ کر کسی غیر کو پکارتا ہے خواہ وہ نبی ہو یا فرشتہ ولی ہو یا کوئی دیگر یا پھر ان سے فریاد رسی چاہتا ہے یا ایسے امور میں غیر اللہ سے مدد چاہتا ہے جن پر اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی کوئی دسترس یا قدرت نہیں تو ایسا انسان کافر اور مشرک ہے ۔ یہ انسان نہ صرف دین اسلام سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ عقل سے بھی خالی ہو جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق میں سے کوئی ایک بھی نہ ہی کسی قسم کا کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی تکلیف اور ضرر کا خاتمہ کرسکتا ہے نہ ہی اپنی ذات سے اور نہ ہی کسی دوسرے سے ۔ بلکہ تمام کے تمام لوگ اپنے تمام تر امور میں صرف اور صرف ایک اللہ تعالی کی بارگاہ کے محتاج ہیں ۔
     
  30. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    ( 15 ) ۔ ۔ ۔ ارشاد باری تعالی " اَيُشْرِكُـوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْئًا ۔ ۔ ۔ " کا بیان
    { بے اختیار مخلوق کو پکارنا }
    اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
    اَيُشْرِكُوْنَ مَا لَا يَخْلُقُ شَيْـًٔـــا وَّهُمْ يُخْلَقُوْنَ ۖ 0 وَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ لَهُمْ نَـصْرًا وَّلَاۤ اَنْفُسَهُمْ يَنْصُرُوْنَ ( سورۃ الأعراف ، 191 + 192 )
    " کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ ان کو خدا کا شریک ٹھیراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں 0 جو نہ ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں "
    ۔ ۔ ۔ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍۗ 0 اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۤءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَـكُمْ ۗ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۗ وَلَا يُـنَـبِّـئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ( سورۃ فاطر ، 13 + 14 )
    " اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ کے مالک بھی نہیں ہیں 0 انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا "
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حدیث میں آتا ہے
    انس ( رض ) سے مروی ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ : رسول اکرم ( ص ) کو جنگ احد میں زخمی کر دیا گیا اور آپ ( ص ) کے اگلے دو دانت شہید کر دیئے گئے ۔ اس پر آپ ( ص ) نے فرمایا کہ ایسی قوم کیسے کامیاب ہو گی جس نے اپنے ہی نبی کو زخمی کر دیا ہے ؟ اس پر آیت ( سورۃ آل عمران ، 128 ) نازل ہوئی کہ " فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ، اللہ کو اختیار ہے چاہے انہیں معاف کرے ، چاہے سزا دے کیونکہ وہ ظالم ہیں " ( صحیح مسلم ، 1791 )
    عبداللہ بن عمر ( رض ) سے مروی ہے ، کہ انھوں نے نبی ( ص ) سے سنا ، آپ ( ص ) نے جب صبح کی نماز میں آخری رکعت کے رکوع سے سر اٹھایا تو فرمایا : " اے اللہ ! فلاں اور فلاں پر لعنت فرما ۔ " آپ ( ص ) منافقین میں سے کچھ لوگوں کا نام لے لے کر بددعا کرتے تھے تو اللہ تعالی نے یہ آیت ( سورۃ آل عمران ، 128 ) اتاری ۔ ( سنن نسائی ، 1078 )
    ایک روایت کے مطابق آپ ( ص ) ، صفوان بن امیہ ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام پر بددعا کرتے تھے تو یہ آیت ( سورۃ آل عمران ، 128 ) نازل ہوئی ( صحیح بخاری ، 4070 )
    ابو ہریرہ ( رض ) سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : رسول اللہ ( ص ) پر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ " اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ " ( سورۃ الشعراء ، 214 ) تو رسول اللہ ( ص ) نے کھڑے ہو کر فرمایا : اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو بچاؤ ، کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا ۔ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں آپ کو کچھ کام نہیں آؤں گا ، اے پھوپھی صفیہ ! میں آپ کو کچھ کام نہیں آؤں گا ۔ اے فاطمہ بنت محمد ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے لیکن اللہ تعالی کے ہاں تیرے کام نہ آؤں گا ۔ " ( صحیح بخاری ، 2753 )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں