1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ڈرامہ اکبر ( آزاد )

'کتب کی ٹائپنگ' میں موضوعات آغاز کردہ از ساتواں انسان, ‏19 اکتوبر 2020۔

  1. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 152
    عالم خواب میں جہانگیر کے سامنے پیش کردیں اور وہ حسن و عشق کا پتلا ۔ ایک جام و ایک کباب پر بک جانے والا سیدھا سادہ ترک خیال نشہ میں خوش مست بیٹھا ہو ۔ کسی کا ہاتھ اس کی پیٹھ پر گل یاسمن کی طرح دھرا ہو ۔ پھر وہ پروفیسر صاحب ان کی منطق اس کے سامنے پیش ہوجائے ۔ تب دیکھیں کہ مینا بازار سے لے کر دم واپیں تک کے مرقع اس کی آنکھوں میں پھر جائیں ۔ اپنی کاوشیں ، اپنے جاں نثار رفقاء کی محبتیں یاد آجائیں اور ادھر ایک بےسروپا دفتر فقط عبارت کے زور اور دلیلوں کے شور پر پروفیسر صاحب پیش کرکے ان سب کی جانبازیاں خاک میں ملانا چاہیں تو یقین جانئے کہ ان کو وہی انعام ملے جو اس درگاہ سے قاضی نوراللہ شتری کو ملا تھا کیونکہ اس سے زیادہ سرکار محبت میں کوئی صلہ ہی نہیں ۔ مگر اس کا اب کیا علاج کہ زمانے نے وہ ورق ہی الٹ دیا ۔ وہ بساط ہی سمیٹ لی نفسا نفسی کی گرم بازاری اس قدر عام ہوئی کہ شخصی سلطنت کا نام بھی دنیا میں رہتا نظر نہیں آتا ۔ ورنہ سب حال ایک نظر میں کھل جاتا کہ ایک اشارہ ابرو پر کس طرح ہزاروں سر قربان گاہ عشق میں نذرانہ بن کر چڑھتے ہیں ۔ واقعہ کے لحاظ سے شیرافگن کا قتل کوئی نئی بات نہ تھی ۔ انہیں حضرت جہانگیر کے دادا حضرت ہمایوں بادشاہ جنت آرام گاہ کے معشوق شاہ ابوالمعالی نے رات کے وقت ایک بےقصور مسلمان کو قتل کیا اور صبح ہوتے ہوتے مع اس خونچکاں تلوار کے سردربار آکھڑے ہوئے اور فقط اپنی ایک مستانہ وار نگاہ کے اثر سے بےگناہ کا خون افشاں بنا کر اڑادیا ۔ اس وقت دربار میں مولوی
     
  2. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 153
    مجتہد ، قاضی ، مفتی کیا کچھ نہ تھے ۔ مگر کسی کے پھوٹے منہ سے ایک حرف بھی نہ نکلا ۔ نکلتا بھی کیونکر ۔ وہاں تو وہی بولتا ہے جسے خود بھی اسی گھاٹ پار اترنا ہوتا ہے ۔ یہ بات بھی جانے دیجے ۔ حضرت اکبر اور انارکلی کا قصہ کیا کم عبرت انگیز ہے ۔ پھر اگر جہانگیر بےچارے نے اپنا کانٹا اس طرح نکال لیا تو کون غضب کیا ۔
    فلسفہ تاریخ سے ہمیں کیا نسبت ۔ مگر اتنا معلوم ہے کہ واقعات کو چانچنے کے لئے اس زمانہ کے مناسب حال واقعات جن آدمیوں کے متعلق واقعہ ہو ۔ اگر ٹھیک ٹھیک ایک جگہ جمع ہوجائیں تو کچھ نہ کچھ واقع اصل رنگ دکھانے لگتا ہے ۔ ورنہ اگر آج ایک شخص سیب کو سیب نہ کہے اور سب کے کہنے سے بھی نہ مانے تو اس کا کیا علاج ؟
    جن باتوں پر کہ عام مورخین ڈگمگا جاتے ہیں ۔ وہ فقط دو چیزیں ہیں ۔ 1 ۔ توزک جہانگیر کی عبارت ۔ اس پر طرہ جہانگیر کی صاف بیانی ۔ اس کا جواب اتنا کافی ہے کہ یہ عبارت اس کا بیان سمجھنا چاہئے نہ کہ فیصلہ ۔ اب رہی اس کی سچائی تو قتل سے تو انکار اس غریب کو بھی نہیں ۔ فقط وجہ قتل میں اختلاف ہے ۔ تزک کا بیان ہے کہ شیرافگن ایک سپاہی تھا ۔ ہم نے اس کو عنایات کا مورو بنایا ۔ اور مرحمت خسروانہ سے سپاہی سے سردار کردیا ۔ آخر اس کورنمک نے بغاوت کی اور کیفرکردار کو پہنچا ۔
    ہم نے مان لیا کہ وہ ایک سپاہی تھا ۔ آپ نے اس پر عطا و بخشش کا دروازہ
     
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 154
    کھول دیا ۔ اور آخر اس نمک حرام نے بغاوت بھی کی ۔ مگر وجہ تو ذرا بتائیے کہ بغاوت کیوں کی ؟ کیا اس کے دل میں شہنشاہ ہندوستان ہونے کا خیال تھا کیا شیرشاہ کی طرح اس کے ہم قوم و ہم مذہب اس قدر حمیت رکھتے تھے کہ ترکوں و راجپوتوں کے مورملخ جیسے لشکر کو دبا سکتے ۔ پھر آخر اس نے آپ کے کون سے حکم کو رد کیا جو باغیوں میں شمار ہونے لگا ۔
    جہانگیر کی صاف بیانی سے جو شبہ اس معاملہ میں پڑگیا ہے ۔ وہ ہی اس کو پھنسا بھی سکتا ہے ۔ کیونکہ سچائی کا شبہ ہی جھوٹ کا پردہ پوش ہوا کرتا ہے ۔ ورنہ جھوٹے آدمی کو اس شبہ کا فایدہ نہیں پہنچا کرتا ۔ مگر ان سب باتوں کے علاوہ جو وجہ اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ ایشیائی غیرت کے منافی ہے کہ وہ ساف لکھ دیتا کہ میرا معشوق اس کی بغل میں تھا اور میرے بار بار اصرار پر بھی وہ نہ چھوڑتا تھا ۔ بس اس لئے وہ سب باتیں چبا کر فقط بغاوت کے لفظ پر ہی عبارت ختم کردیتا ہے ۔
    اب ذرا بغاوت پر غور کیجے ۔ بغاوت کیوں کی ۔ کہاں کی ۔ کیا کیا سامان بغاوت فراہم کئے ۔ کس کس پر گنہ سرکاری پر قبضہ مخالفانہ کیا ۔ آخر کس مقام پر لشکرکشی ہوئی کہاں جنگ ہوئی ۔ مگر افسوس یہ کچھ بھی نہیں ۔ فقط قطب الدین کو کہ سے زبانی باتوں پر تلوار چلی اور دونوں ڈھیر ہوگئے ۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ جہانگر وجہ بغاوت نہیں بتاسکا ۔ نہ وہ ملکی باغی تھا ۔ البتہ نقد حسن کا ڈاکو ضرور تھا ۔ جس کی اس کو سزا بھی مل گئی ۔
     
  4. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 155
    اب دوسری وجہ مغالطہ میں ڈالنے والی یہ ہے کہ عام طور پر اس زمانے کے مورخین کچھ نہیں لکھتے ۔ نہ لکھنا چاہئے تھا ۔ آخر کس کی شامت نے دھکا دیا تھا کہ اپنے آپ کو تلوار کی دھار اور ہاتھی کے پاوں کا شکار بناتا ۔ صاحب وہ تو شخصی حکومت تھی ۔ آج کی بات سنئے کہ اس قدر آزادی کی ہوا چل رہی ہے مگر دیسی ریاستوں کو دیکھئے اگرچہ ہر طرح سے برٹش گورمنٹ کی سیاست میں جکڑی پڑی ہیں ۔ مگر پھر بھی یہ قانون پیش کرہی دیا کہ پریس ایکٹ کی آزادی میں یہ ترمیم ضرور ہوجائے کہ ہمارے خلاف کوئی شخص کچھ لکھ نہ سکے ۔ حلانکہ شخصی حکومت کی ہوا بھی نہ لگی ۔ قابل غور یہ امر ہے کہ جب انگریزی علاقہ والوں کی زبان تو اس طرح بند کرلی ۔ اب ان کی اپنی رعایا میں کس کا دماغ پھرا ہے جو ان کے خلاف ایک حرف بھی لکھ سکے ۔ ورنہ کھولو بچہ تیار ہے ۔ ان سب باتوں کو اگر ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو سب حال کھل ہوجاتا ہے اور مورخین پر سے بھی الزام دور ہوجاتا ہے ۔
    اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ فرمائیے ۔ مہرالنساء کون ہے ؟ ایک باغی سپاہی کی بیوی ، غیر مذہب ایرانی النسل ، نووارد ، تیس سال سے اونچی ، بچوں والی پھر آخر اس میں کون سے پھول لگے تھے کہ شہنشاہ حضور کو اس کے بن چین ہی نہ پڑتا تھا ۔ باغی کے بیوی بچوں کو تہ تیغ کیا ہوتا ۔ گھر بار کی اینٹ سے اینٹ بجوادی ہوتی ۔ اگر طبعیت ایسی ہی رحیم و کریم تھی تو بھول گئے ہوتے
     
  5. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 156
    بھلا دو تین سال تک کانٹوں پر کیوں لوٹتے پھرے ۔ آخر بازی جیتی اور جیتی ۔ زور کہو ۔ ظلم سمجھو ۔ منت سماجت کے سرسہرا باندھو ۔ مگر بیٹے پوتوں والے شہنشاہ کو جب ہی صبر آیا کہ اس پھول کو زیب دامن کرہی لیا ۔
    پڑھے لکھے آدمیوں میں سے بعض یہ بھی اعتراض کربیٹھے ہیں کہ نورجہاں شیرافگن خان سے بہت زیادہ محبت رکھتی تھی ۔ جس کی وجہ سے اس نے بار بار شادی سے انکار بھی کیا ۔ مگر تھوڑے ہی عرصہ بعد بالکل کایا پلٹ کیوں ہوگئی نکاح کیا کیا کہ دل سے دلی کی مالک ہی بن بیٹھی ۔
    یہ اعتراض بھی بھولے بادشاہ ہی اٹھاتے ہیں ۔ سمجھدار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ فطرت کا تقاضہ غم اور غصہ ہے ۔ جس کا اظہار نور جہاں نے اس طرح کیا جو اس کا حق تھا ۔ مگر مجبوری اور وقت کا گزرجانا بھی تو کوئی اثر رکھتا ہے ۔ اس پر غضب یہ کہ خودمختار بادشاہ ۔ اوپر خدا دور ۔ نیچے شہنشاہ نزدیک ۔ جس نے لالوں جیسی جان کو فقط اپنی خوشی کے لئے خاک میں ملا دیا ۔ وہ اس پری پیکر سے ناامید ہوکر اس کو دیومرگ کے سپرد کیوں نہ کردیتا ۔ اس کو اور اس کے گھر والوں کو تھوتھے تیروں نہ اڑوادیتا ۔ اور بھی جو جو کچھ کرتا تعجب نہ تھا ۔ غرضکہ یہ مجبوریاں تھیں کہ اس کو اپنے خاوند کے قاتل سے نکاح کرنے پر آمادہ کرتی تھیں ۔ ورنہ وہ ستی تو ہونے سے رہی تھی ۔
     
  6. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 157
    آخر مسلمان تھی ۔ نکاح ہوا ۔ بیوی بن گئی ۔ پردہ اٹھ گیا ۔ شخصی حکومتوں میں ہر شخص ترقی اور عزت کا خواہاں ہوا ہی کرتا ہے ۔ اب اس کی عقلمندی اور تجربہ کاری تھی کہ اس رشتہ سے محلوں کی کارگزاریوں سے گزر کر دربارداریوں میں شریک ہوگئی ۔ اور وہ رتبہ پایا کہ کسی مغل بیگم پر اس کے آنچل کا سایہ تک نہیں پڑا ۔ اپنی عزت و حکومت کے علاوہ اپنے گھروالوں کو خانخاناں کی کرسی پر بٹھادیا ۔ اپنے ہم مذہب ، اہل ولایت ، شاعر ، مولوی ، مجتہد غرضکہ ایک انبوہ تھا جو نورجہاں کے پردے میں پل رہا تھا ۔ اور جو ایجاد و اختراع اس نے حکومت کے ذریعہ کئے ہیں تمدن کے زریں صفحوں پر قیامت تک چمکیں گے ۔ یہ تمام باتیں تو اس کی قدر و منزلت ، موقع شناسی پر وال ہیں نہ کہ خاوند کا خوں بہا ہوسکتی ہیں ۔
    ان تمام باتوں کو جانے دیجئے ۔ یہ واقع ہے کے دن کا ۔ ابھی تو ہندوستان میں سینکڑوں خاندان اور گھرانے موجود ہیں ۔ جن کے بزرگ مغل بادشاہوں کی آنکھ کی پتلی تھے ۔ رازدان تھے ۔ ہر کھلی اور ڈھکی بات سے واقف تھے ۔ ان کے گھروں میں سینہ بہ سینہ قصے کہانیوں کی طرح یہ اور اس قسم کے بیسیوں محلات کے واقعات چلے آتے ہیں ۔ ان پر پانی کیسے پھرسکتا ہے ۔ بردوان میں دونوں نامرادوں کی قبریں عبرت کی تصویر بنی ہوئی موجود ہیں ۔ قطب الدین خان کے خاندان والے زندہ ہیں ۔ بس آخر یہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ تاریخ میں وضاحت کے ساتھ
     
  7. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 158
    نہ ہونا ۔ شخصی حکومت کی ہیبت اور تسلط پر ہی مبنی ہے ۔
    ناظرین حیران ہونگے کہ اس قدر تمہید کس عنوان کے لئے اٹھائی گئی ۔ یہ سمع خراشی آخر کیوں کی گئی تو حضرات اس میں میرا قصور فقط اتنا ہے کہ گذشتہ سال مولانا کا نامکمل ڈرامہ لیا ۔ اتفاقا آئندہ کا پلاٹ بھی نکل آیا ۔ سید ناصر نذیر صاحب فراق نے احسان فرما کر اپنے استاد کے تبرک کو اور متبرک بنادیا ۔ مگر اس عرصہ میں مجھے بہت سے ایم _ اے _ بی _ اے تاریخ دان مسلمان کے مایہ ناز نوجوان احباب سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ جن سے ڈرامہ کا بھی ذکر آیا ۔ تو ہر شخص نے مخالفت کی کہ نہ اس کو مکمل کراؤ نہ اس کو چھپواؤ ۔ وجہ پوچھی تو فقط اس قدر کہ اس میں مسلمان بادشاہوں کی بےعزتی ہے ۔ ان پر بڑا بھاری الزام لگتا ہے جو اتارے سے نہیں اترتا ۔ جس سے ہم مسلمانوں کی عزت خاک میں ملی جاتی ہے ۔ خیر اس قسم کی بہت سی بحثیں ہوئیں ۔ میں چونکہ ارادہ کرچکا تھا ۔ ڈرامہ چھپوا ہی دیا اب نہایت مودبانہ طریقہ سے عرض پرواز ہوں کہ واقع قتل کے متعلق جہاں تک میری عقل نے واقعات کا ساتھ دیا ہے ۔ اوپر عرض کرچکا ہوں ۔ اب مسلمان بادشاہوں کی عزت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔
    شکر کی جگہ ہے کہ مولانا شبلی کی روح کے صدقہ سے میں مسلمان بادشاہوں کو برا نہیں کہتا ۔ کیونکہ ان کے عہد میں ہمارے بزرگوں نے جس شان کے لطف
     
  8. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 159
    اٹھائے اور حکومت کے مزے لوٹے ہیں ۔ وہ اب میسر نہیں آئیں گے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ہمارے مسلمان بادشاہ ہندوستان میں فرشتہ بن کر آئے تھے اگر ایسا ہوتا تو حکومت ہی کیوں جاتی ۔ نہ ان کا ہر فعل ہمارے لئے قابل تقلید ہے بلکہ جو کام انہوں نے اچھے کئے وہ حقیقتا اس تاریکی کے زمانہ میں ایک نور تھے اور جو برے کئے وہ تقاضہ بشریت اور صالح کاروں کی غلطیاں تھیں ۔ جو ضرورت وقت کے لئے ضروری ہوتی ہیں ۔ ہم سے ان کے اعمال کی بابت نہ یہاں پوچھ ہے نہ آیندہ ہوگی ۔ کیونکہ یہ مسئلہ صاف ہے کہ ۔
    اپنی نبیڑو اپنی کرنی کو پاؤگے تم
    ان کے کئے کی بابت پوچھے نہ جاؤگے تم
    ان کا معیار سلطنت فاتحانہ تھا ۔ اس ملک کو قوت بازو سے لیا تھا ۔ تجار یا پادری بن کر نہ دھس آئے تھے جو کسی سے دب کے چلتے ۔ بس تو حق اور ناحق کا فیصلہ ان کی مرضی تھی ۔ جو ان کی رضا وہ حق اور جو خلاف وہ باغی قابل گردن زونی ۔ خاص کر ترک بادشاہ تو پہلے ترک تھے ۔ پھر مسلمان تھے ۔ جہاں جاتے تھے طورہ چنگیزی کو اپنا وطیرہ بناتے تھے ۔ جمہور کے کوندی سونٹے اٹھائے نہ پھرتے تھے ۔ پھر اگر جہانگیر نے عشق کا اندھا تیر کھایا اور ایک معمولی سے آدمی کو قتل کرادیا تو کیا ہوا ۔ معلوم نہیں اس پر مسلمان اس قدر تربھر
     
  9. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    صفحہ 160
    کیوں ہوتے ہیں ۔ وہاں تو رات دن مست ہاتی اسی لئے کھڑے رہتے تھے کہ جلدی کوئی آئے تو پیر کے نیچے کچل دیں ۔ اس قصہ کا تاریخ اسلام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ البتہ ایک عبرت ناک سبق ہے کہ اتفاق زمانہ ہے کہ گریٹ مغل بھی عشق کی افسوں کاری سے نہ بچ سکا ۔ اور عشق مجازی کے پھندے میں اس طرح پھنسا کہ مرتے دم تک اس گرہ کو نہ کھول سکا اور اسی کے زانوؤں پر سر رکھ کر اس دارفانی سے عالم جاودانی کو چلاگیا ۔
    آخر میں دعا مانگتا ہوں کہ اے عشق و محبت کو پیدا کرنے والے خدا تو ہر نیک اور بد کا چانچنے اور پرکھنے والا ہے ۔ تو اپنی بخشش کے طفیل جہانگیر ، نورجہاں اور شیرافگن پر رحم کر ۔ اور ان کو ان کے مناسب حال عالم بقا میں جگہ عنایت فرما اور ہم زندہ مسلمانوں کو اس بلائے درماں کی دشواریوں سے بچ بچ کر گزرنے کی توفیق عنایت فرما _ آمین ۔
    دعا کا محتاج
    طاہر نبیرہ آزاد
    27 نومبر 1922ء
     
  10. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:

اس صفحے کو مشتہر کریں