1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

چھوٹی چھوٹی باتیں، بڑا سبق

'گپ شپ' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏9 مارچ 2014۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ معلوماتی تحریریں یا پھر کچھ ایسے واقعات جو دل کو چھو لینے والے ہوں وہ یہاں لکھے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے یاد ہے جب میں لندن میں تھا ، وہاں ساکر(فٹبال) کے دیوانہ وار مقابلے ہوا کرتے تھے ۔ تو ایک جادو قدم کھلاڑی نارمن تھا جس کے آگے نہ بال رکتا تھا نہ کوئی کھلاڑی ٹھرتا تھا ۔ وہ جب بھی کھیلتا اس کا والد ضرور آ کر تماشائیوں میں بیٹھتا اور اپنے بیٹے کا کھیل دیکھتا اور بیٹا بھی اپنے باپ کو کھیل دکھانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیتا اور پھر یوں ہوا کہ اس کا باپ فوت ہو گیا اور نارمن بجھ گیا ۔ اس کے کھیل مین وہ قوت اور تیزی نہ رہی ۔ ایک روز اس نے کہا کوچ ، باوجود اس کے کہ میرا باپ اس دنیا مین نہیں ہے ، میں اس کے لیئے کھیل کھیلنا چاہتا ہوں ، کوچ نے کہا ، بہت خوب ہم اس کے لیئے مخصوص کرسی خالی رکھیں گے ۔

    بس پھر اس روز جو کھیل نارمن کھیلا اس کی مثال سوکر" کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی ۔ پانچ ہزار تماشائیوں کی تالیوں کی گونج میں کھیل کا میدان لرزتا رہا ، گونجتا رہا ، پکارتا" رہا ، نعرے مارتا رہا۔ گیم جیت کر جب نارمن ڈریسنگ روم میں گیا تو اس نے کوچ کو بتایا کہ آج کا کھیل میں نے اپنے باپ کے لیے کھیلا ۔ جب تک وہ زندہ رہا اس نے عمر بھر ایک مرتبہ بھی میرے کھیل کو مس نہیں کیا،باقاعدگی سے آتا رہا اور میرا کھیل ملاحظہ کرتا رہا لیکن اس نے عمر بھر مجھے ایک مرتبہ بھی کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا،کیونکہ میرا والد اندھا تھا ۔ آج مجھے یقین ہے کہ جب وہ اس دنیا میں نہیں ہے ، اس نے میرا کھیل ضرور دیکھا ہوگا ۔ میرا خیال ہے ہم زندگی کی اسٹیج پر جو پرفارمنس دیتے ہیں ، اللہ اسے فرنٹ رو میں بیٹھ کر ملاحظہ فرماتا ہے ۔ جب ہم سے کوئی کمال سرزد ہوتا ہے تو وہ فرماتا ہے ، یہ ہے میرا بندہ جس پر شیطان کا اغوا ممکن نہیں ۔

    اشفاق احمد بابا صاحبا
     
    بزم خیال، آصف احمد بھٹی، پاکستانی55 اور 2 دوسروں نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ۔
    صبح صبح اچھی تحریر پڑھنے کو ملی بہت خوشی ہوئی اور مجھے بھی اپنے علاقے میں فٹ بال کا کھیل یاد آگیا جس میں ایک چھوٹے قد کا پٹھان گول کیپر بہت پھرتیلا کھیلا کرتا تھا اور ہر میچ میں ان کے والد محترم ہاتھ میں تسبیح لئے دعاگو رہتے تھے۔

    مگر گول کیپر گولی کی طرح متحرک رہتا اور گول کا دفاع دل و جان سے کرتا اور اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرواتا۔

    بے شک ہمارے والدین ہمارے رب ہوتے ہیں۔ جوہماری جان کو اپنی جان سے مقدم رکھتے ہیں۔اور ہردم ہمارے لئے دعاگو رہتے ہیں۔


    نوٹ: ہم لوگ بہت جذباتی ہیں اور بہت جلد تیش میں آجاتے ہیں خصوصا اپنے مذہب سے جڑے معاملات میں۔ اس لئے برائے کرم میرے استعمال شدہ لفظ "ہمارے والدین ہمارے رب ہوتے ہیں" پر قطعا غصہ مت ہوئيے گا۔ کیونکہ عربی میں اسی طرح لکھا جاتا ہے۔ میرے ورک پرمٹ (اقامے) میں مجھے اپنے بچوں کا رب کہہ کر لکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
     
    بزم خیال، احتشام محمود صدیقی اور ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    عربی مین ایک ہی لفظ دو معنی ہوتے ہیں ، ایک حقیقی اور ایک مجازی ، جیسے عبد کہ جس کے معنی ، غلام ، بندہ اور لڑکا ہوتا ہے ، اور پھر رب کو لغوی معنی پالنے والا ، خیال رکھنے والا ، حفاظت کرنے والا کے ہیں ، عربی میں خاتون خانہ کو " ربہ منزل " کہا جاتا ہے ۔ ۔ ۔
    عربی کو بہت سے الفاظ جب فارسی سے ہوتے ہوئے ہم تک یعنی اردو تک پہنچے ہیں تو اُس کے معنی وہ نہین رہے کہ جو عربی میں ہیں ، جیسا کہ ایک لفظ " ذلیل " ہے ، اردو و فارسی میں اس لفظ کے معنی " کمینہ " ہے جب کہ عربی میں اس کے معنی " کمزور " ہے ۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اردو زبان میں بہت جامعیت اورلچک ہے۔
    اردو حروف تہجی میں بہت سے حروف ایسے ہیں جو مکمل طور پر کسی بھی ایک لغت میں نہیں ہیں اور ہم بآسانی دیگر زبانوں کا تلفظ بہتر انداز میں ادا کرسکتے ہیں۔
    اردو زبان کی بنیاد رکھنے والے اساتذہ نے بہت عظیم کارنامہ انجام دیا کہ ہمیں ایک ایسا تحفہ دیا جس کے بل بوتے پر ہم عربی اور فارسی کے ادبی ورثے سے فیضیاب ہوسکتے تھے مگر کاروان اردو کے جدید راہنماوں سے اسے فروغ نہیں دیا اور کچھ حکومت کی سرپرستی بھی حاصل نہ رہ سکی۔
    اردو میں ایک لفظ ہے عمیق جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور یہ لفظ کم کم ہی استعمال ہوتا ہے جیسے عمیق نظر اور عمیق مطالعہ وغیرہ۔ ایک دن میں نے سڑکے کے کنارے گہری خندق کے قریب مٹی کے ڈھیر پر ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا الحفر العمیق DEEP EXCAVATION
    اسی طرح ایک شاپ پر لکھا تھا

    HAPPY CORNERالركن سعيد
    اور ایک شاپ پر لکھا تھا
    اس کے علاوہ بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں مگر عربی میں وہ الفاظ قدرے مختلف معانی میں استعمال ہوتے ہیں۔
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ایک آدمی نے خواب دیکھا کہ ایک شیر اُس کا پیچھا کر رہا ہے وہ ڈر کے بھاگا اور جان بچانے کے لیے ایک درخت پر چڑھ گیا اور اُسکی ایک شاخ پر جا بیٹھا۔

    کچھ دیر بعد اُس نے نیچے دیکھا تو شیر ابھی تک وہیں بیٹھ کر اُس کا انتظار کر رہا تھا اُس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو کیا دیکھا کہ درخت کی جس شاخ پر وہ بیٹھا ہے وہاں دو چوہے چکر لگا رہے ہیں اور اُس شاخ کو کھا رہے ہیں۔ ایک چوہا کالے رنگ کا ہے جبکہ دوسرے کا رنگ سفید ہے۔

    شاخ بہت جلد زمین پر گر جائے گی، اِسی خوف کے چلتے سے نیچے دیکھا تو اُس کے اُوسان خطا ہو گئے کیونکہ اُس شاخ کے بالکل نیچے کنویں میں ایک بہت بڑا کالے منہ والا سانپ منہ کھول کے بیٹھا ہے کہ آدمی جب بھی گرے تو سیدھا اُس کے منہ میں جائے۔

    یہ شخص سہارا تلاش کرنے کی خاطر اِدھر اُدھر دیکھتا ہے کہ کوئی شاخ ہو جسے وہ پکڑ سکے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ساتھ والی شاخ پر شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہے اور شہد کے قطرے اس میں سے گر رہے ہیں۔ آدمی ان قطروں کا ذائقہ چکھنا چاہتا ہے، وہ شہد کے قطروں کو چکھنے کے لیے اپنی زبان باہر نکالتا ہے شہد بہت لذیز اور مزیدار تھا پھر وہ ایک کے بعد دوسرے قطرے کو چاٹنا شروع کر دیتا ہے اور نتیجے کے طور پر وہ شہد کی شیرینی کے نشے میں اتنا کھو جاتا ہے کہ وہ بھول ہی جاتا ہے کہ جس شاخ پر وہ بیٹھا ہوا ہے اُسے چوہے کتر رہے ہیں اور زمین پر شیر اور اُس شاخ کے بالکل نیچے کنویں میں سانپ اُس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہے۔
    پھر اچانک جب شاخ ٹوٹتی ہے تو اُسے سب خطرات یاد آجاتے ہیں اور وہ بیدار ہو جاتا ہے۔

    یہ ایک منفرد خواب تھا جو اُس نے دیکھا۔۔!!
    وہ اِس خواب کی تعبیر تلاش کرنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ آخر اُسے خواب کی تعبیر ملتی ہے۔۔!!

    وہ "شیر" جو اُس نے دیکھا وہ اُس کی موت تھی جو ہر وقت اُسکا پیچھا کر رہی تھی اور جہاں بھی وہ جاتا ہے اُس کے پیچھے پیچھے چل پڑتی ہے۔

    وہ "دو چوہے کالا اور سفید" دن اور رات ہیں۔ یہ چکر لگا رہے ہیں ایک کے بعد دوسرا آجاتا ہے یہ اُسکا وقت کھا رہے ہیں اور اُسے ہر لمحہ موت کو قریب کر رہے ہیں۔

    وہ "کنویں کے اندر کالے منہ والا بڑا سانپ" اُسکی قبر ہے وہ اُسکا انتظار کر رہی ہے کب وہ اس میں آئے گا۔۔۔!

    وہ "شہد کا چھتہ" دنیا ہے اور اس سے ٹپکتے قطرے اس کی "رنگینیاں اور دلفریبیاں ہیں"

    دوستو! اِس خواب کی تعبیر ہم سب پر بھی صادق آتی ہے۔ ہم بھی اِس دنیا کی رنگینیوں اور دلکشیوں میں اتنے کھو چکے ہیں کہ نہ تو ہمیں دِن، رات کے گزرنے کا پتہ چلتا ہے۔ نہ ہمیں موت کی فکر ہے اور نہ قبر کا خوف ہے۔

    ہم دنیا میں اتنے مست ہو چکے ہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ دنیا کے کسی بازار میں ہمارے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بھی آ چکا ہے۔
     
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ

    بہت خوب۔

    ہم دنیا میں اتنے مست ہو چکے ہیں کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ دنیا کے کسی بازار میں ہمارے کفن کا کپڑا بکنے کے لیے بھی آ چکا ہے۔
     
  8. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    سیدنا عمرو بن العاص مشہور صحابی رسول ؐ اور معروف سپہ سالار تھے اور سیدنا عمرؓ نے آپ کو مصر کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ آپؓ کے دورِ حکمرانی میں ایک مرتبہ حسب معمول گھڑ دوڑ منعقد ہوئی جس میں عمرو بن العاص کے صاحبزادے بھی شریک تھے۔ مقابلے میں ایک مصری نوجوان اپنا گھوڑا دوڑاتا ہوا سب سے آگے نکل گیا تو عمرو بن العاص کے صاحبزادے کو غصہ آگیا۔ اس نے اس جیتنے والے مصری جوان کو کوڑے رسید کر دیئے اور کہا تمہیں معلوم نہیں میں مصر کے گورنر کا بیٹا ہوں۔ مصری جوان نے عدل فاروقی سے متعلق سن رکھا تھا، ہمت کرکے مصر سے کئی روز کے طویل سفر کے بعد مدینہ منورہ پہنچ گیا۔

    سیدنا فاروق اعظم کے دربار میں ہر ایک کو رسائی حاصل تھی خصوصاً باہر سے آنے والے فریادی کو۔ جوان نے اپنی آپ بیتی سیدنا عمر کو سنائی تو حضرت عمر نے اپنے مایہ ناز گورنر عمر بن العاص کو فوری پیغام بھیجا کہ پہلی فرصت میں اپنے بیٹے کو لے کر حاضر ہوں۔ جب وہ مدینہ منورہ آگئے توحضرت عمر نے مصری نوجوان کو طلب کیا اور فرمایا تمہارا مجرم تمہارے سامنے ہے جتنے کوڑے اس نے تجھے مصر میں مارے تھے اتنے ہی کوڑے میرے سامنے اسے مارو۔ پھر حضرت عمر بن العاص سے مخاطب ہو کر ترجمانِ رسالتؐ نے وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو یورپی اقوام میں تبدیلی اور خصوصاً انقلابِ فرانس کا سبب بنا۔

    آپ نے فرمایا: ’’جن لوگوں کو ان کی ماؤں نے آزاد پیدا کیا تھا انہیں تم نے کب سے اپنا غلام بنا لیا ہے؟"

    بلکہ بعض روایات میں آیا ہے کہ سیدنا عمر نے اس مصری نوجوان کو فرمایا کہ ایک کوڑا اس کے باپ عمر ابن العاص کو بھی مارو جس کی شہ پر اس کے بیٹے نے سرِ عام ظلم کی جرات کی۔ آپ ؓ نے ایک ملک کے گورنر کو محض اس لئے مدینہ طلب کرکے انہیں کھردرا لباس پہنا کر بکریاں چرانے پر لگا دیا تھا کیونکہ انہوں نے اپنے لباس اوررہائش کو دیگر لوگوں کی نسبت پر آسائش اور پرکشش بنانا شروع کر دیا تھا۔

    قارئین موضوع زیر بحث سے قبل میں نے شاہکارِ رسالت سیدنا عمرؓکے دورِ حکومت میں نظام عدل انصاف اور اصولِ حکمرانی کی ایک دو مثالیں اس لیے پیش کیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ محض افسانوی باتیں نہیں بلکہ اسلام میں سماجی انصاف اور عدل خود رسالت مآب ؐاور آپ کے خلفائے راشدین نے معاشرے میں نافذ کرکے دکھایا تھا۔ تب جا کر اسلامی معاشرہ امن و آشتی کا گہوارہ بن سکا تھا۔ پاکستان بھی اس لیے لاکھوں قربانیوں کے بعد معرضِ وجود میں لایا گیا تھا کہ یہاں بھی وہی نظام عدل و انصاف حقیقی معنوں میں نافذ ہوسکے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص دوسروں کو اصول و ضوابط اور قانون کا پابند دیکھنا چاہتا ہے مگر جب اس کی اپنی ذات کا معاملہ آتا ہے تو ہر کوئی استثناء کا خواہشمند ہوتا ہے۔ کسی ملک کی حکمرانی تو خیر بہت بڑا منصب ہے ہمارے ہاں تو سیکشن آفیسر، اسسٹنٹ کمشنر یا تھانیدار بننے والا شخص خود کو دوسروں سے الگ مخلوق سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ بس یہیں سے سماجی تضاد اور ظلم کا آغاز ہو جاتا ہے۔گذشتہ روز وزیراعلیٰ شہباز شریف مظفر گڑھ خود سوزی سے مرنے والی جس جواں سال بچی کے ورثا کے پاس گئے اور وہاں متعلقہ پولیس آفیسرز کو معطل کرتے ہوئے جس نظام کے خلاف بے ساختہ ارشاد فرمایا کہ ’’اس نظام ظلم کو ہم برداشت نہیں کریں گے‘‘ کاش اس کمٹمنٹ کو ہی وہ اپنا منشور بنالیں تو پاکستان کی تقدیر سالوں میں نہیں مہینوں میں بدل جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو حادثات رونما ہونے کے بعد جس اضطراب سے گزرنا پڑتا ہے وہ فکر اور احساس انہیں عام حالات میں کیوں نہیں ہو پاتا؟…… وزیراعظم نواز شریف نے تھرپار کر جا کر قحط زدہ لوگوں پر اس وقت ترس کھاتے ہوئے امدادی رقم کا اعلان کیا جب سینکڑوں معصوم بچے اور بوڑھے موت کے منہ جا چکے تھے۔ وہ بھی میڈیا کے ان لوگوں کا بھلا ہو جنہوں نے کچھ تصویریں دکھا کر عوام و خواص کو اس المیے کی طرف متوجہ کیا۔ اس قحط زدہ علاقے کا کوئی صوبائی اور قومی نمائندہ زندہ نہیں ؟ کسی کو سالہا سال سے پنپنے والے فاقوں کا احساس کیوں نہیں ہوا؟ جواب بڑا سادہ ہے کہ ان میں سے کوئی اس علاقے میں آتا جاتا ہی نہیں۔ کراچی اور اسلام آباد کے محلات اور نعمتوں میں رہنے والوں کو صحرائے تھل کی مشکلات کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔

    نظام حکومت انسان دوست ہو تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حکمران اگر احساس ذمہ داری اور عوامی حقوق کی حساسیت سے آگاہ ہوتے تو انسان تو کیا وہاں کے حیوانات بھی تلف نہ ہوتے۔ سیدنا عمرؓنے فرمایا تھا فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی پیاس سے مرے گا تو عمر اﷲ کے سامنے اس کا ذمہ دار ہو گا۔ یہ تھا ان کا احساس ذمہ داری، جذبہ حکمرانی اور خدمتِ خلق کا معیار۔ اسی لیے تو روم اور ایران کے وفود جب مسلمانوں کے اس عظیم سپوت کو حیرت و حسرت سے دیکھنے مدینہ منورہ آتے تھے تو حیران ہوتے تھے کہ یہ شخص تو اینٹ پر سر رکھ کر بغیر کسی پہرہ دار کے سوتا ہے۔ اس کے بیٹھنے کے لیے کوئی تخت اور رہنے کے لئے کوئی شاہی محل نہیں ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں کی خواہش تو یہی ہے کہ وہ بھی امیر المؤمنین کہلائیں، لوگ ان کی عدالت مساوات اور عوام دوستی کے گن گائیں لیکن چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک!

    ہمارے ہاں بے حسی عوام سے لے کر حکمرانوں تک ہمارے کردار کا حصہ بن چکی ہے۔ لالچ ہماری شخصی کمزوری میں ڈھل گئی ہے اور بد دیانتی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔ حکمران اگر حساس، دیانتدار اور مخلص ہوگا تو افسر شاہی میں بھی یہ خصوصیات پیدا ہوں گی۔ہم ان سطور کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کی خدمت میں گذارش کر رہے ہیں کہ پولیس والوں کو ارتکابِ جرم کے بعد معطل کرنے کی بجائے انہیں باکردار اور مخلص بنائیں تاکہ مخلوقِ خدا ان سے پناہ مانگنے کی بجائے انہیں اپنے تحفظ اور امن کا ضامن اور مددگار سمجھیں۔ پولیس انتظامیہ اور عدلیہ میں اگر بے حسی، بددیانتی اور لالچ کی وباء ختم یا کم ہو جائے تو اس ملک کے اسی فیصد مسائل خود حل ہو جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے علماء اور ماہرین نفسیات کو لے کر ایک تربیتی نصاب بنانا چاہیے جو ان لوگوں کو پڑھایا جائے تاکہ ان کی اخلاقیات میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے۔ ظلم تو کوچہ و بازار میں بچے جنم دے رہا ہے مگر عدل و انصاف یہاں کی عدالتوں میں بھی بانجھ ہے۔ ہمارے ہاں سماجی، سیاسی، تعلیمی اور عائلی معاملات میں خود غرضی، نا انصافی کو جنم دے رہی ہے اور نا انصافی ظلم اور چوری ڈاکے کا سبب بن رہی ہے۔ یہاں تو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتیں بھی مہنگے داموں خریدنی پڑ رہی ہیں۔ اس لیے ان بنیادی ضرورتوں کے لئے ترستے ہوئے لوگوں کو ان کے حقوق کی ضمانت درکار ہے۔ انکو جیتے جی انصاف تعلیم اور صحت درکار ہے۔ مرنے کے بعد اگر حاکم وقت ان کی قبر پر جاکر ٹسوے بہا بھی لے تو اس سے عوام کے مسائل تو کم نہیں ہوں گے۔
     
    سعدیہ, آصف احمد بھٹی, غوری اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    نفس کیا چیز ہے؟
    شیطان کیا چیز ہے؟
    اور دنیا کیا چیز ہے؟
    نفس بادشاہ ہے شیطان اُس کا وزیر ہے اور دنیا اِن دونوں کی ماں ہے جو اِن کی پرورش کرتی ہے۔

    حضرت سخی سلطان باھوؒ
     
    سعدیہ، آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    ۔بس سے اتر کر جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں چونک پڑا۔جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟ کل نو روپے اور ایک خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا: "میری نوکری چھوٹ گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاؤں گا"۔تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی طبیعت نہیں ہو رہی تھی۔نو روپئے جاچکے تھے۔یوں نو روپئے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔ لیکن جس کی نوکری چھوٹ گئی ہواُس کے لیے نو سو سے کم بھی تو نہیں ہوتی ہے۔کچھ دن گزرے ۔۔۔ ماں کا خط ملا۔پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا۔ضرور پیسے بھیجنے کو لکھا ہوگا۔لیکن خط پڑھ کر میں حیران رہ گیا!ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تیرا بھیجا پچاس روپئے کا منی آرڈر ملا۔تو کتنا اچھا ہے رے ۔۔۔ پیسے بھیجنے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتا"۔میں کافی دنوں تک اس اُدھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کو پیسے کس نے بھیجے؟ کچھ دن بعد ایک اور خط ملا۔ آڑی ترچھی لکھاوٹ۔بڑی مشکل سے پڑھ سکا: "بھائی نو روپئے تمھارے، اور اکتالیس روپئے اپنے ملا کر میں نے تمھاری ماں کو منی آرڈر بھیج دیا ہے۔فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہے نا! وہ کیوں بھوکی رہے؟--
    تمھارا جیب کترا
    (گیان پرکاش وویک کا ایک مختصر افسانہ)
     
  11. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    دلوں میں رب رہتا ہے اور رب سارے جہاں کا مالک اور خالق ہے
    زندہ دل لوگ زندگی کو رواں دواں رکھنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں "ہرمزان" نہاوند کا ایرانی گورنر تھا اور مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا.. اس کی وجہ سے مسلمانوں اور ایرانیوں میں کئی لڑائیاں هوئیں.. آخر ایک لڑائی میں ہرمزان گرفتار ہوا.. اسے یقین تھا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا لیکن امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ نے اسے اس شرط پر رہا کردیا کہ وه آئیندہ جزیہ دے گا..
    آزاد ہو کر وه اپنے دارلخلافہ پہنچا' بہت بڑی فوج اکٹھی کی اور مسلمانوں کے مقابلے میں اتر آیا لیکن اس بار بهی اسے شکست ہوئی اور ہرمزان دوبارہ سے گرفتار ہو کر امیر المومنین حضرت عمر رضی الله عنہ کے سامنے پیش کیا گیا.. ہرمزان کے چہرے سے صاف ظاہر تھا که وه خود کو صرف کچھ لمحوں کا مہمان سمجھتا ہے..
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "تم نے ہمارے ساتھ کئی بار عہد شکنی کی ہے.. تم جانتے ہو کہ اس جرم کی سزا موت ہے..؟"
    ہرمزان نے کہا.. "ہاں میں جانتا ہوں اور مرنے کیلئے تیار ہوں.."
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام قبول کرنے کو کہا لیکن اس نے انکار کردیا اور کہا.. "میری ایک آخری خواہش ہے.."
    آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا.. "کیا..؟"
    ہرمزان نے کہا.. "میں شدید پیاسا ہوں اور پانی پینا چاہتا ہوں.."
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر اسے پانی کا پیالہ پیش کیا گیا.. ہرمزان نے پیالہ ہاتھ میں پکڑ کر کہا.. "مجھے خوف ہے کہ پانی پینے سے پہلے ہی مجھے قتل نہ کردیا جائے.."
    آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "اطمینان رکھو.. جب تک تم پانی نہ پی لو گے کوئی شخص تمہارے سر کو نہ چھوئے گا.."
    ہرمزان نے کہا.. "آپ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جب تک میں پانی نہ پیوں گا مجھے قتل نہ کیا جائے گا.. میں یہ پانی کبھی نہیں پیوں گا.." یہ کہہ کر اس نے پیاله توڑ دیا اور کہنے لگا.. "اب آپ مجھے کبھی قتل نہیں کر سکتے.."
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسکرا کر فرمایا.. "تم نے عجیب چال چلی ہے لیکن عمر (رضی اللہ عنہ) کو اپنے لفظوں کا پاس ہے.. جاؤ تم آزاد ہو.."
    ہرمزان شکرگزاری اور حیرانی کے تاثرات کے ساتھ چلا گیا..
    چند دن بعد ہی ہرمزان اپنے کچھ ساتھیوں سمیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حاضر ہوا اور درخواست کی کہ ہمیں اسلام میں داخل کرلیجئے..
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. "تم نے اس وقت اسلام قبول کیوں نہ کیا جب میں نے تمہیں دعوت دی تھی.."
    ہرمزان نے کہا.. "صرف اس لیے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں نے موت کے خوف سے کلمہ پڑھ لیا ہے.. اب میں اپنی رضا سے اسلام قبول کرتا ہوں.."

    اسلامی واقعات کی کتاب "بصائر" سے اقتباس..
     
    سعدیہ، آصف احمد بھٹی اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جی
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    مجھے وہ بات یاد آ رہی ہے جو شاید میں نے ٹی وی پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اُس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جس میں دنیا کا نقشہ تھا ۔ اور اس نقشے کو 32 ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ۔ اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے اس جوڑ کر دکھاؤ ۔ اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہو کے بیٹھ گیا ۔ کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے ۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا ۔ لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا ۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا ۔
    اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کی دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا ۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا ۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی ۔

    اشفاق احمد زاویہ 2 بندے کا دارو بندہ صفحہ
     
    بزم خیال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    آدمی کا جڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ شروع ہی سے یہ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے نیکی اور بدی اور دونوں اپنے آپ کو صحیح کہتے ہیں ۔نیکی تو صحیح ہے اور اسکا کہنا صحیح ہے لیکن بدی غلط ہے پھر بھی اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے
    کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے اور دنیا کا سکون تباہ کیا ہوا ہے
     
  16. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    امریکی لیڈر شپ نے اپنی عوام کو چکر دینے کے لئے ایک فارمولا اپنایا ہوا ہے اور اسی پر عمل ہو رہا ہے ۔۔جیسے فلموں میں ہیرو اور ولن ہوتا ہے اسی طرح وقت حاضر کا امریکی صدر کسی ملک کے سربراہ کو ولن بنا لیتا ہے اور میڈیا
    پر اس ولن کے خلاف بیان بازی کرتا رہتا ہے ۔اور عوام خوش سے جھومتے رہتے ہیں
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﺭح – ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﻟﻮﮒ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ، ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ؟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﻋﺠﺐ ﻣﺰﮦ ﮨﻮ ﮔﺎ، ﺍﮔﺮ ﺍﺛﻨﺎﺀ ﺣﺴﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺎ: " ﯾﺎﻋﺒﺪﯼ!"ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ" ﻟﺒﯿﮏ (ﺟﯽ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ)"- ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﺍﺱ ﺩﻝ ﺟﻠﮯ ﻋﺎﺷﻖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﻀﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﻼ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ﺟﺎﺋﮯ- ﺣﻀﺮﺕ ﺑﺎﯾﺰﯾﺪ ﺑﺴﻄﺎﻣﯽ ﺭح ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮯ کہ " ﻋﺎﺷﻖ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺸﻮﻕ ﮐﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﮐﺌﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺳﻤﺠﮭﮯ"- ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﯿﺴﯽ ﮔﺬﺭﯼ؟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺩﻓﻦ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ" ﺑﮉﮬﮯ ! ﺑﺘﺎ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ ؟ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ: ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﮌﮬﯽ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻓﻘﯿﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﯿﺎ ﻻﯾﺎ ﮨﮯ، ﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻭ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻓﻘﯿﺮ ! ﮐﮩﮧ ﮐﯿﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ–
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جی
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ایک عالِم نے ایک بُڑھیا کو چرخہ کاتتے دیکھ کر فرمایا.. " بڑی بی ! ساری عُمر چرخہ ھی کاتا ھے یا کچھ اپنے اللہ کی بھی پہچان کی..؟ "

    بُڑھیا نے جواب دیا.. " بیٹا مَیں نے تمہاری طرح موٹی موٹی کتابیں تو نہیں پڑھیں مگر سب کچھ اِسی چرخہ میں دیکھ لیا.. "

    فرمایا.. " بڑی بی! یہ تو بتاؤ کہ اللہ موجود ھے یا نہیں..؟ "

    بُڑھیا نے جواب دیا.. " ھاں ! ھر گھڑی اور رات دن ' ھر وقت ایک زبردست اللہ موجود ھے.. "

    عالِم نے فرمایا.. " مگر اس کی کوئی دلیل بھی ھے تمہارے پاس..؟"

    بُڑھیا بولی.. " دلیل ھے یہ میرا چرخہ.. "

    عالِم نے پوچھا.. " یہ معمولی سا چرغہ کیسے..؟ "

    وہ بولی.. " وہ ایسے کہ جب تک مَیں اس چرخہ کو چلاتی رھتی ھوں یہ برابر چلتا رھتا ھے اور جب مَیں اسے چھوڑ دیتی ھوں تب یہ ٹھہر جاتا ھے..

    تو جب اس چھوٹے سے چرخہ کو ھر وقت چلانے والے کی لازماً ضرورت ھے تو اِتنی بڑی کائنات یعنی زمین و آسمان ' چاند ' سورج کے اتنے بڑے چرخوں کو کس طرح چلانے والے کی ضرورت نہ ھو گی..؟

    پس جس طرح میرے کاٹھ کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے اسی طرح زمین و آسمان کے چرخہ کو ایک چلانے والا چاھیے.. جب تک وہ چلاتا رھے گا یہ سب چرخے چلتے رھیں گے اور جب وہ چھوڑ دے گا تو یہ ٹھہر جائیں گے..

    مگر ھم نے کبھی زمین و آسمان ' چاند سورج کو ٹھہرے ھوئے نہیں دیکھا تو جان لیا کہ ان کا چلانے والا ھر گھڑی موجود ھے.. "

    عالم نے سوال کیا.. " اچھا یہ بتاؤ کہ آسمان و زمین کا چرخہ چلانے والا ایک ھے یا دو..؟ "

    بُڑھیا نے جواب دیا.. " ایک ھے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی یہی میرا چرخہ ھے کیوں کہ جب اس چرخہ کو مَیں اپنی مرضی سے ایک طرف کو چلاتی ھوں تو یہ چرخہ میری مرضی سے ایک ھی طرف کو چلتا ھے.. اگر کوئی دوسرا چلانے والا ھوتا تب تو چرخہ کی رفتار تیز یا آھستہ ھو جاتی اور اس چرخہ کی رفتار میں فرق آنے سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ ھوتا..

    یعنی اگر کوئی دوسرا صریحاً میری مرضی کے خلاف اور میرے چلانے کی مخالف جہت پر چلاتا تو یہ چرخہ چلتے چلتے ٹھہر جاتا مگر ایسا کبھی نہیں ھوا.. اس وجہ سے کہ کوئی دُوسرا چلانا والا ھے ھی نہیں..

    اسی طرح آسمان و زمین کا چلانے والا اگر کوئی دُوسرا اللہ ھوتا تو ضرور آسمانی چرخہ کی رفتار تیز ھو کر دن رات کے نظام میں فرق آ جاتا یا چلنے سے ٹھہر جاتا یا ٹوٹ جاتا.. جب ایسا نہیں ھے تو پھر ضرور آسمان و زمین کے چرخہ کو چلانے والا ایک ھی اللہ ھے..!! "

    ماخوذ از " سیرت الصالحین ص:٣ .
     
    بزم خیال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ایک روز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ھاں تشریف فرما تھے... حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک صاف و روشن طشت میں نہایت اعلی درجہ کا شہد حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا... شہد میں ایک بال بھی تھا... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال دیکھ کر فرمایا... یہ طشت، شہد اور اس میں نظر آنے والا بال اسرار و معارف کے آئینہ دار ھیں... کیا آپ بتاسکتے ھیں... کہ وہ اسرار ومعارف کیا ھیں؟...

    حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا...
    "مؤمن کا دل اس طشت سے زیادہ درخشاں ھے... اس کا ایمان شہد سے زیادہ شیریں ھے... اور اس ایمان کو آخر دم تک سلامت لے جانا بال سے بھی زیادہ باریک کام ھے...

    حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا... بادشاھت اس طشت سے زیادہ روشن ھے... حکمرانی شہد سے زیادہ میٹھی ھے... اور عدل وانصاف بال سے زیادہ باریک ھے....

    حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا... مہمان طشت سے زیادہ روشن ھے... مھمان کی خدمت شہد سے زیادہ لذت رکھتی ھے... مگر مھمان کی خوشنودی اور دل نوازی کا حصول بال سے بھی زیادہ باریک تر ھے...

    حضرت فاطمۃ رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کیا... یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم).! عورت کی حیاء اس طشت سے زیادہ روشن ھے... اس کے چہرے پر نقاب اور چادر شھد سے بڑھ کر شیریں ھے... اور نگاہ نامحرم سے بچانا بال سے زیادہ باریک تر ھے...

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا... معرفت الہی اس طشت سے زیادہ منورھے... معرف الہی سے آگاھی شہد سے زیادہ شیریں ھے... اور اسے اپنے دل میں رکھنا بال سے باریک تر ھے...

    حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ھوۓ اور عرض کیا... یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) راہ خدا اس طشت سے بڑھکر منور ھے... اس پر چلنا اس شہد سے زیادہ لذت بخش ھے... اور اس پر آخر دم تک قائم رھنا بال سے باریک تر ھے...

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ھوئ اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ھوا... بھشت اس طشت سے زیادہ صاف وروشن ھے... جنت کی نعمتیں شہد سے بڑھکر شیریں ھیں اور جنت کو جانے والا راستہ بال سے باریک تر ھے...

    (ماخوز کنزالمعارف)

    :عبدالناصرشاہ:
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ
     
  24. ھارون
    آف لائن

    ھارون ممبر

    شمولیت:
    ‏13 دسمبر 2007
    پیغامات:
    21
    موصول پسندیدگیاں:
    18
    سبحان اللہ ! کیا حکمت بھری باتیں ہیں
     
    بزم خیال نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    پسندیدگی کا شکریہ
     
  26. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    مرید کیسا ہونا چاہئے:

    حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے
    فرمایا کہ حضرت قطب الدین حیدر رحمتہ اللہ علیہ کا ایک مرید حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کی خانقاہ میں پہنچا تو اسےبہت بھوک لگ رہی تھی-اپنے شیخ کی طرف منہ کرکے عرض کیا:
    "شیا للہ(یعنی کچھ مل جاۓ)حضرت شیخ شہاب الدین کو اس کا علم ہو گیا-آپ نے خادم کو حکم دیا کہ اسے کھانا دو-جب وہ کھانا کھا چکا تو اپنے شیخ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا"شکراللہ یا قطب الدین حیدر،آپ نے ہمیں کسی جگہ ترک نہیں کیا"جب وہ خادم حضرت شیخ شہاب الدین کے پاس گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ کیسا آدمی ہے-اس نے عرض کیا کہ عجیب آدمی ہے آپ کا کھاتا ہے اور قطب الدین حیدر کا شکریہ ادا کرتا ہے-حضرت شیخ نے فرمایا کہ مریدی اسی سے سیکھنی چائیے کہ جہاں سے ملتا ہے اپنے شیخ کا فیض سمجھتا ہے خواہ وہ نعمت ظاہری ہو یا باطنی-

    (مقابیس المجالس،صفحہ نمبر963)
     
    بزم خیال اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
  28. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﻮ ﺳُﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ
    ﺿﻌﯿﻒ ﺍٓﺩﻣﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮﺍ، ﺣﻀﻮﺭ
    ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ
    ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺍﺣﮑﺎﻡ ﻭ ﻣﺴﺎﺋﻞ
    ﺑﺘﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺳﮯﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ
    ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻣﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ؟
    ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ’’ : ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺑﻨﯽ
    ﺳُﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﺰﺍﺭ ﺍٓﺩﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ
    ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻭﺭ ﻓﻘﯿﺮ ﻣﯿﮟ
    ﮨﯽ ﮨﻮﮞ۔‘‘ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
    ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ
    ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ : ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺍﺱ
    ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ؟‘‘
    ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ
    ﮐﮩﺎ’’ : ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ! ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ
    ﺍﻭﻧﭩﻨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔‘‘
    ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ
    ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ :ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ
    ﺍﺱ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮈﮬﺎﻧﮏ ﺩﮮ۔‘‘
    ﺳﯿّﺪﻧﺎ ﻋﻠﯽ ﻣﺮﺗﻀﯽٰ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ
    ﻋﻤﺎﻣﮧ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ
    ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
    ﭘﮭﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
    ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’: ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺳﮑﯽ
    ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﮮ۔‘‘
    ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
    ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ
    ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔
    ﭼﻨﺪ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ
    ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﻣﻼ۔ ﭘﮭﺮ
    ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
    ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ
    ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
    ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ
    ﺍﻟﺘﺠﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﭽﮯ ﺭﺳﻮﻝ
    ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﺱ ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ
    ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﯿﺠﺌﮯ۔‘‘
    ﺳﯿّﺪۃ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﮯ ﺍٓﺑﺪﯾﺪﮦ ﮨﻮﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ’’ :
    ﺍﮮ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﺍٓﺝ ﮨﻢ ﺳﺐ
    ﮐﻮ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﻓﺎﻗﮧ ﮨﮯ۔ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﭽﮯ
    ﺑﮭﻮﮐﮯ ﺳﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﺋﻞ ﮐﻮ
    ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭﻧﮕﯽ۔ ﺟﺎﺅ
    ﻣﯿﺮﯼ ﯾﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﺷﻤﻌﻮﻥ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﮐﮯ
    ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻮ ﻓﺎﻃﻤﮧؑ ﺑﻨﺖ
    ﻣﺤﻤّﺪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ
    ﯾﮧ ﭼﺎﺩﺭ ﺭﮐﮫ ﻟﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ
    ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﺟﻨﺲ ﺩﮮ ﺩﻭ۔
    ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
    ﻋﻨﮧ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﯾﮩﻮﺩﯼ
    ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ
    ﮐﯿﻔﯿﺖ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﯽ۔ ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ
    ﭘﮭﺮ ﭘﮑﺎﺭ ﺍﭨﮭﺎ ’’ ﺍﮮ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ
    ﻗﺴﻢ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﻟﻮﮒ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ
    ﺗﻮﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﮔﻮﺍﮦ ﺭﮨﻨﺎ ﮐﮧ
    ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
    ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﭘﺮ
    ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ۔‘‘ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﭽﮫ ﻏﻠّﮧ
    ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭ ﺑﮭﯽ
    ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
    ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ
    ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯼ۔ ﻭﮦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ
    ﭘﮩﻨﭽﮯ۔ ﺳﯿّﺪﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﻧﺎﺝ
    ﭘﯿﺴﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﯿﻠﺌﮯ
    ﺭﻭﭨﯽ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯼ۔
    ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ’’ : ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ
    ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﮐﮫ ﻟﯿﺠﺌﮯ۔‘‘ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ:
    ’’ﺳﻠﻤﺎﻥ ﺟﻮ ﭼﯿﺰ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﮮ
    ﭼﮑﯽ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺟﺎﺋﺰ
    ﻧﮩﯿﮟ۔‘‘
    ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻠﻤﺎﻥ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ
    ﻋﻨﮧ ﺭﻭﭨﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ
    ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ
    ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ
    ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﭨﯽ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﺩﯼ
    ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺎﺏ ﺳﯿﺪﮦ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﯿﺒﯽ ﻓﺎﻃﻤﮧ
    ﺍﻟﺰﮨﺮﺍ ﺳﻼﻡ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﺎ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ
    ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ
    ﺩﺳﺖ ﺷﻔﻘﺖ ﭘﮭﯿﺮﺍ، ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ
    ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ:
    ’’ ﺑﺎﺭِ ﺍﻟٰﮩﺎ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﮐﻨﯿﺰ ﮨﮯ، ﺍﺱ
    ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﻨﺎ۔ ‘‘
    ﺳﯿﺪﮦ ﻃﺎﮨﺮﮦ ﺳﯿﺪﮦ ﻓﺎﻃﻤﮧ
    ﯾﻌﻨﯽ ﺧﺎﺗﻮﻥِ ﺟﻨﺖ ﭘﮧ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺳﻼﻡ
     
    مالا اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ جناب
     
  30. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    شہر کوفہ میں ایک جگہ لوگ شراب کے نشے میں مست تھے اور ایک شخص زاذان نامی بہت اچھی آواز میں گانا گا رہا تھا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس کی آواز سن کر فرمانے لگے کتنی عمدہ آواز ہے کاش اس آواز میں قرآن پاک پڑھتا تو کتنا مزہ آتا اور یہ کہتے ہوئے سر پر کپڑا ڈال کر گزر گئے زاذان کے کان میں کچھ آواز پڑی جو اسے سمجھ نہ آئی تو بولا یہ کون تھے اور کیا کہہ رہے تھے لوگوں نے بتایا یہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ۔۔تھے اور فرما رہے تھے کہ کتنی عمدہ آواز ہے کاش اس آواز میں قرآن پاک پڑھتا تو کتنا مزہ آتا ان کی بات سن کر زاذان بہت متاثر ہوا فورا اپنا طبلہ توڑ دیا اور دوڑ کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے سینے سے لگایا اور دونوں رونے لگے پھر حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا میں اس شخص سے کیوں نہ محبت کروں جس سے اللہ تعالی کو محبت ہے چناں چہ زاذان نے توبہ کی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہ کر قرآن کریم سیکھا پھر ایک وقت آیا کہ قرآن کریم اور دوسرے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ بڑے عالم بن گئے چناں چہ حدیث کی بہت سی روایتوں میں ان کا نام آیا - (کتاب التوابین)
     
    مریم سیف اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں