1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از افضال اَمر, ‏31 اگست 2006۔

  1. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    شب ڈھلی چاند بھی نکلے تو سہی
    درد جو دل میں ہے چمکے تو سہی

    ہم وہیں پر بسا لیں خود کو
    وہ کبھی راہ میں روکے تو سہی

    مجھے تنہاءیوں کا خوف کیوں ہے
    وہ میرے پیار کو سمجھے تو سہی

    وہ قیامت ہو ،ستارہ ہوکہ دل
    کچھ نہ کچھ ہجر میں ٹوٹے تو سہی

    سب سے ہٹ کر منانا ہے اُسے
    ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

    اُس کی نفرت بھی محبت ہو گی
    میرے بارے میں وہ سوچے تو سہی

    دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
    دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

    اُس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
    میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

    میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
    میری جانب کبھی دیکھے تو سہی

    اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
    شرط اتنی ہے کہ، بولے تو سہی
     
  2. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بہت خوب! افضال بھائی!
     
  3. Admin
    آف لائن

    Admin منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    687
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    بہت خوب جی
     
  4. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وعلیکم السلام
    بہت شکریہ
     
  5. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کون دیکھتا ہے

    ہجومِ شہر سے ہٹ کر حدودِ شہر کے بعد
    وہ مُسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے

    وہ آنکھ جس میں کوئی سایہ نہ کوئی عکس طلب
    وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے

    ہجومِ درد میں کیا مُسکرائیے کہ یہاں
    خزا ں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے

    ملے بغیر جو مجھ سے بچھڑ گیا محسن
    وہ راستے میں رکے بھی تو کون دیکھتا ہے
     
  6. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    ہجومِ شہر سے ہٹ کر حدودِ شہر کے بعد
    وہ مُسکرا کے مِلے بھی تو کون دیکھتا ہے

    ہجومِ درد میں کیا مُسکرائیے کہ یہاں
    خزا ں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے​

    بہت خوب! افضال بھائی!
     
  7. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سرَ شام

    [/b][font=Times New Roman, serif][/font]
    سرَ شام

    اک درر سا پہلو میں مجلتا ہے سرِشام
    اکاش پہ جب چاند نکلتا ہے سرِشام

    بے نام سی اک آگ دہک اٹھتی ہے دل میں
    مہتاب جو ٹھنڈک سی اُگلتا ہے سرِشام

    یہ دل ہے مرا یا کسی کٹیا کا دیا ہے
    بُجھتا ہے دمِ‌صبح تو جلتا ہے سرِشام

    کچھ دیر شفق پھولتی ہے جیسے افق پر
    ایسے ہی مرا حال سنبھلتا ہے سرِشام

    بنتا ہے تیرا جسم کبھی گُل کبھی شعلہ
    سانچے میں‌خیالوں کے جو ڈھلتا ہے سرِشام

    چھٹ جاتی ہے آلامِ زمانہ کی سیاہی
    جب دور تیری یاد کا چلتا ہے سرِشام
     
  8. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    بہت زبردست افضال بھائی ۔ کیا آپکے سارے ارسال کردہ کلام محسن نقوی کے ہیں ؟
     
  9. بجو
    آف لائن

    بجو ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جولائی 2007
    پیغامات:
    1,480
    موصول پسندیدگیاں:
    16
    کیا بات ہے!! :a180: :a98:
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب افضال بھائی ۔ ماشاءاللہ آپ کا انتخاب بہت شُستہ و عمدہ ہے۔

    اگر ہوسکے تو غزل کے آخر میں شاعر کا نام بھی لکھ دیا کریں پلیز۔
     
  11. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    خوب افضال صاحب
     
  12. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت زبردست افضال بھائی ۔ کیا آپکے سارے ارسال کردہ کلام محسن نقوی کے ہیں

    شکریہ جناب!
    سارا کلام تو محسن صاحب کا نہیں‌ہے۔
     
  13. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    غزل

    غزل

    کچھ اب کہ بہاروں‌کا بھی انداز نیا ہے
    ہر شاخ پہ غنچے کی جگہ زخم کھلا ہے

    دو گھونٹ پلا دے کوئی ، مے ہو کہ ہلاہل
    وہ تشنہہ لبی ہے کہ بدن ٹوٹ رہا ہے

    اس رندِ‌سیاہ مست کا ایمان نہ پوچھو
    تشنہ ہو مخلوق ہے ، پی لے تو خدا ہے

    کس بام سے آتی ہے تیری زلف کی خوشبو
    دل یاد کے زینے پہ کھڑا سوچ رہا ہے

    کل اِس کو تراشو گے تو پوجے گا زمانہ
    پتھر کی طرح‌ آج جو راہوں‌میں پڑا ہے

    دیوانوں کو سودائے طلب ہی نہیں ورنہ
    ہر سینے کی دھڑکن کسی منزل کی صدا ہے
     
  14. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بہت خوب! بہت عمدہ انتخاب ہے افضال بھائی۔ :a165:
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست افضال بھائی ۔ غزل پڑھ کر بہت مزہ آیا۔
    مطلع اور مقطع تو لاجواب ہیں ۔ بہت ساری داد قبول فرمائیں۔
     
  16. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    افضال صاحب۔ آپ کا انتخابِ کلام بہت عمدہ ہے۔ بہت اعلی معیار ہے۔ ماشاءاللہ
     
  17. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت شکرہ

    نعیم بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ
     
  18. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    وہی میرا خدا تھا

    غزل
    لب تک جو نہ آیا تھا وہی حرفِ رسا تھا
    جس کو نہ میں سمجھا تھا وہی میرا خدا تھا

    محرومی کا احساس رہا اُس سے نہ مل کر
    ملنے پہ یہ احساس مگر اور ہوا تھا

    میں دستِ صبا بن کے اُسے چھیڑ رہا تھا
    وہ غنچہ نورس تھا ابھی تک نہ کھلا تھا

    ہر چند کہ نسبت تو مجھے گُل سے رہی تھی
    میں‌ بو کی طرح پیرہنِ گل شے جدا تھا

    اُترا تھا رگ و پے میں مری زہر کی ماند
    وہ درد کی صورت مرے پہلو سے اُٹھا تھا

    محروم تو رکھا تو مجھے مری اَنا نے
    جو اٹھ نہ سکا تھا وہ مرا دستِ‌دعا تھا
     
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    افضال بھائی ۔
    اتنی عمدہ غزل ارسال کرنے پر ایک بار پھر شکریہ قبول فرمائیں۔

    اس غزل کے لکھنے والے کون ہیں ؟
     
  20. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    آپ نے کہا ہم نے قبول کیا ۔ یہ سب آپ کے اچھے ذوق کی بات ہے ۔
     
  21. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کبھی کبھی

    کبھی کبھی

    کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
    کہ زندگی تیری زلفوں کی گھنی چھاوءں میں
    گزرنے پاتئ تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

    یہ تیرگی جو میری زیست کا مقدر ہے
    تیری نظر کی شعاعوںمیں کھو بھی سکتی تھی
    عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ و الم ہو کر
    تیرے جمال کی رعنائوں‌میں کھو رہتا
    تیرا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
    انہی حسین فسانوں‌میں محو ہو رہتا

    پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
    تیرے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
    حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
    گھنیری زلفوں کے سایہ میں‌چھپ کے جی لیتا

    مگر یہ ہو نا سکا اور اب یہ عالم ہے
    کہ تو نہیں ، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں
    گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
    کسی بھی اور سہارے کی آرزو بھی نہیں

    زمانے بھر کے دکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
    گزر رہا ہوں کچھ انجانی رہگزاروں سے
    مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
    حیات و موت کے پر ہول خار زاروں سے

    نہ کوئی جادہ منزل نہ روشنی کا چراغ
    بھٹک رہی ہے خلاوءں‌میں زندگی میری
    انہی خلاوءں‌میں رہ جاوءں‌گا کبھی کھو کر
    میں جانتا ہوں‌میری ہم نفس مگر یونہی

    کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
     
  22. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت اچھی شاعری ہے
    بہت خوب
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
    کہ جیسے تجھکو بنایا گیا ہے میرے لیے
    تو اب سےپہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
    تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے میرے لیے​

    بہت خوبصورت شاعری ہے۔ :a180:
     
  24. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ریِیت اس نگر کی ہے


    تتلیوں کے موسم میں نوچنا گلابوں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے
    دیکھ کر پرندوں کو، باندھنا نشانوں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے

    تم ابھی نئے ہو ناں!اسی لیے پریشاں ہو
    آسمان کی جانب اس طرح سے مت دیکھو
    آفتیںجب آنی ہو توٹوٹنا ستاروں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے

    شہر کے باشندے، بو کے بیج نفرت کے
    انتظار کرتے ہیں فصل ہو محبت کی
    چھوڑ کے حقیقت کو، ڈھونڈنا سرابوں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے

    اجنبی فضاؤں میں، اجنبی مسافر سے
    اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
    اور جب بچھڑ جانا، مانگنا دعاؤں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے

    خامشی میرا شیوہ، گفتگو ہنر اُس کا
    میری بے گناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
    بات بات پر جب کہ، مانگنا حوالوں کا
    ریت اس نگر کی ہےاور جانے کب سے ہے​
    ۔
     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب افضال بھائی ۔ آخری قطعہ سب سے عمدہ لگا۔
    :a180:
     
  26. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    منزلیں اُن کا مقدر کہ طلب ہو جن کو

    پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں
    لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں

    منزلیں اُن کا مُقدّر کہ طلب ہو جن کو
    بے طلب لوگ تو منزل سے گُزر جاتے ہیں

    جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو، اُنہیں زندہ سمجھو
    پانی مرتا ہے تو دریا بھی اُتر جاتے ہیں

    لب خنداں ہوں، کہ ہوں اُن کی شگفتہ آنکھیں
    ہم سمجھتے تھے کہ یہ زخم بھی بھر جاتے ہیں

    اے خدا ایسی اذیّت سے بچانا ہم کو
    جہاں دستار تو رہ جاتی ہے، سر جاتے ہیں

    (سعداللہ شاہ)​
     
  27. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کون روک سکتا ہے


    لاکھ ضبط خواہش کے
    بے شمار دعوے ہوں
    اس کو بھول جانے کے
    بے پناہ ارادے ہوں
    اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
    فیصلہ سنانے کو
    کتنے لفظ سوچے ہوں
    دل کو اسکی آہٹ پر
    بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے

    پھر وفا کے صحرا میں
    اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی
    خوشبوؤں کو چھونے کی
    جستجو میں رہنے سے
    روح تک پگھلنے سے
    ننگے پاؤں چلنے سے
    کون روک سکتا ہے
    آنسوؤں کی بارش میں
    چاہے دل کے ہاتھوں میں
    ہجر کے مسافر کے
    پاؤں تک بھی چھو آؤ
    جس کو لوٹ جانا ہو
    اس کو دور جانے سے
    راستہ بدلنے سے
    دور جا نکلنے سے
    کون روک سکتا ہے

    ( نوشی گیلانی)
     
  28. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    واہ
    بہت ہی خوب
     
  29. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    فرض کرو

    فرض کرو

    فرض کرو ہم تارے ہوتے
    اِک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بُجھتے
    اور پھر اِک دن
    شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
    دریا کے دو دھارے ہوتے
    اپنی اپنی موج میں بہتے
    اور سمندر تک اس اندھری، وحشی اور منہ زور مسافت
    کے جادو میں تنہا رہتے
    فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے
    اُڑتے اُڑتے اِک دوجے کو چھوتے۔۔۔ اور پھر
    کھلے گگن کی گہری اور بے صرفہ آنکھوں میں کھو جاتے!
    ابرِ بہار کے جھونکے ہوتے
    موم کے اِک بے نقشہ سے خواب میں ملتے
    ملتے اور جُدا ہو جاتے
    خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندہ کرتے
    اور اَن دیکھے سپنے بوتے
    اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے
    فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔۔ ؟

    امجد اسلام امجد
     
  30. افضال اَمر
    آف لائن

    افضال اَمر ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اگست 2006
    پیغامات:
    86
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تم سے کچھ نہیں کہنا

    تم سے کچھ نہیں کہنا

    ہم نے سوچ رکھا ہے
    چاہے دل کی ہر خواہش
    زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
    بہہ جائے
    چاہے اب مکینوں پر
    گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
    اور بے مقدر ہم
    اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
    تم سے کچھ نہیں کہنا
    کیسی نیند تھی اپنی،کیسے خواب تھے اپنے
    اور اب گلابوں پر
    نیند والی آنکھوں پر
    نرم خو سے خوابوں پر
    کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
    تم سے کچھ نہیں کہنا
    گھر گئے ہیں راتوں میں
    بے لباس باتوں میں
    اس طرح کی راتوں میں
    کب چراغ جلتے ہیں،کب عذاب ٹلتے ہیں
    اب تو ان عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا
    راستہ نہیں جاناں!
    جس طرح تمہیں سچ کے
    لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
    ہم نے سوچ رکھا ہے
    تم سے کچھ نہیں کہنا​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں