1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ممتاز قادری

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏6 جنوری 2011۔

?

ممتاز قادری کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے

رائے شماری ختم ہوگئی ‏16 جنوری 2011۔
  1. اسے پھانسی ہونی چاہئے

    1 ووٹ
    16.7%
  2. عمر قید ہونی چاہئے

    0 ووٹ
    0.0%
  3. اس نے ٹھیک کیا ہے رہا ہونا چاہئے

    2 ووٹ
    33.3%
  4. پتا نہیں

    3 ووٹ
    50.0%
  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام علیکم
    ممتاز ملک ، سلمان تاثیر کا قاتل

    اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے
     
  2. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    [​IMG]
    [​IMG]
     
  3. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جواب: ممتاز قادری

    گورنر پنجاب کے بیٹے آتش کی کہانی
    [​IMG]
    لندن (ماریانہ بابر ) گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے 29 سالہ بیٹے آتش تاثیر جو کہ ایک صحافی ہیں اور لندن میں رہائش پذیر ہیں نے ایک کتاب لکھی ہے جو ان کی ذاتی یادداشتوں پر مبنی ہے اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے ۔جس میں انہوں نے اپنے والد کے بارے میں جس طرح بیان کیا اس سے پاکستانی قارئین کو نہ صرف صدمہ ہوگا بلکہ وہ برگشتہ ہوں گے۔ کتاب کا عنوان ”تاریخ کا اجنبی، ایک بیٹے کا اسلامی سرزمین کا سفر “ ہے اور اس کتاب کا ایک ہفتے تک لندن میں اجراء ہوگا اور چند ہفتوں تک بھارت میں اجرا ہوگا۔ بھارتی میگزین”آؤٹ لک“ نے اس کتاب کے حقوق حاصل کرلئے ہیں اور خیر سگالی کے طور پر دی نیوز کے ساتھ اس کی خبر چلانے پر رضا مندی ظاہر کی ہے میگزین آج جمعہ کو بھارت کی مارکیٹ میں آئے گا ۔ میگزین نے آتش کا بھی انٹرویو کیا ہے ۔ میگزین کے مطابق کتاب مارکیٹ میں آنے کو تیار ہے اور آتش جلدکتاب کے اجرا کی بھر پور عالمی مہم پر ہوگا۔ اس کے ناشر ”پکاڈر انڈیا ”والے ہیں ۔ آؤٹ لک میگزین کے مطابق کتاب آتش کی ڈرامائی زندگی کا افسانوی بیان ہے ۔ مختصراً کہانی کچھ اس طرح سے ہے۔”پاکستانی سیاستدان سلمان تاثیر اور بھارتی صحافیہ تولین سنگھ کے درمیان ایک مختصر مگر بھر پور تعلق کے نتیجہ میں ایک بچہ پیدا ہوتا ہے جب تعلق ناکام ہوتا ہے تو باپ (اس کے بیٹے کے بیان کے مطابق) ماں اور شیر خوار بچے کو لندن میں چھوڑ دیتا ہے وہ دونوں دہلی چلے جاتے ہیں جہاں لڑکا (بچہ) آتش ایک سکھ اشرافیہ خاندان میں ایک امتیاز کے ساتھ پروان چڑھتا ہے کیونکہ اس کا باپ ایک پاکستانی اور مسلمان ہے“۔ آتش نے بچپن میں اپنے والد کے ساتھ تعلقات کی بحالی کیلئے 2مرتبہ کوشش کی مگر اسے دھتکار دیاگیاا۔2002ء میں جب اس کی عمر 21سال تھی اس نے پھر سے کوشش کی اور لاہور پہنچ کر بڑی کامیابی حاصل کی۔ سلمان کا سیاسی کیرئیر روبہ زوال تھا ، فوجی حکمران ملک پر براجمان تھا ۔ ان کی پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو جلا وطن تھیں اور وہ (سلمان تاثیر) ایک دولتمند تاجر اور میڈیا ٹائیکون بن چکا تھا اور اپنی تیسری خوبصورت بیوی او 6بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا“۔ آتش کے برسوں سے واقف خاندانی دوستوں اور رشتہ داروں نے سلمان کی زندگی میں داخل ہونے کیلئے اس کی مدد کی۔ اس طرح باپ بیٹے کے تعلقات کا آغاز ہوا جو کہ کسی طرح سے آسان نہ تھے ۔ اس طرح سے ناول وجود میں آتا ہے۔ آپ بیتی پر ناول لکھنے کی کوشش پر نظر دوڑاتے ہوئے آتش کہتا ہے کہ ”یہ وہ غیر معمولی کہانی ہے، لیکن اس کا مقصد کیا ہے؟۔ یہ ہر ایک کی کہانی نہیں ہے “ ”پھر ایک اہم موڑ آتا ہے۔ 2005ء میں آتش جو کہ لندن میں قیام پذیر ایک صحافی تھا نے برطانوی میگزین کیلئے پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کی دوسری نسل کی بنیاد پرستی کے بارے میں لکھا اور ایک زبردست دلیل دی کہ بنیاد پرستی کا تعلق مختلف محاذوں پر شناخت کی ناکامی سے ہے۔ اپنی سرورق کی کہانی شائع ہونے کی خوشی میں آتش نے یہ تحریراپنے باپ جس سے اب وہ قربت محسوس کررہا تھا کو بھی بھیجی اور اس کو اس وقت سخت صدمہ ہوا جب اس کو ایک غصے سے بھر پور جواب ملا کہ وہ مسلمانوں کیخلاف مذموم پروپیگنڈا کرکے خاندان کا نام بدنام کررہا ہے“۔ ان الزامات نے آتش کے اندر ردعمل / بدلے کا طوفان برپا کردیا ہے اس کا باپ (جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں بتایا) ایک مسلمان کے طور پر اس کی تحریروں سے کسطرح مشتعل ہوسکتا ہے کیونکہ وہ تو خود ہر شام اسکاچ پیتا ہے ،روزہ رکھتا ہے نہ نماز پڑھتا ہے حتیٰ کہ سور کا گوشت تک کھاتا ہے(کچھ باتیں ناقابل اشاعت ہیں)۔ ذاتی تعلقات اور گفتگو کو برسرعام بیان کرنے کے اپنے متنازعہ فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے آتش نے کہا کہ اس کا فیصلہ میں نے اس واقعہ کے بعد اس یقین پر کیا کہ ذاتی حالات میں بڑی کہانی چھپی ہوئی ہے تاہم انہوں نے تسلیم کیا کتاب تحریر کرنے کا مقصد اس مایوسی پر قابو پانا تھا جو اسے اپنے والد کے ساتھ تعلقات اچانک ختم ہونے پر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ”یہ ذاتی تاریخ سے سمجھوتا کرنے کا بھی ایک طریقہ تھا“ ۔ یہ کتاب ایک صحافی کی دلچسپ روداد سفر ہے ۔ لیکن سیاسی اور ذاتی واقعات جہاں بھر پور انداز میں آئے وہ کتاب کا تیسرا حصہ ہے جہاں آتش اپنے آپ کو پاکستان میں پاکستانیوں کے درمیان پاتا ہے ۔ ذاتی مایوسی اور دانشورانہ غصہ اس کے اپنے والد کے ساتھ آخری ٹاکرے میں ملکر سامنے آتا ہے ۔ ایک سیاح کے طور پر وہ اپنے منتشر آبائی تعلق کے بارے میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں میں بھارت مخالف جذبات دیکھ کر افسردہ ہوتا ہے۔ کتاب کسی حد تک نظر یہ پاکستان (کسی حد تک بھارتی نظریے کی حمایت) کو مسترد کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے تاہم آتش دونوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلتاہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اس نے کہا کہ ”مجھے امید ہے کہ یہ کتاب پاکستان کیلئے ہے(اگرچہ) یہ کہنا انتہائی معصومانہ سی بات ہے ۔ یہ کتاب میں نے اس لئے نہیں لکھی کہ میں پاکستان یا اپنے باپ سے حساب برابر کروں مجھے امید ہے کہ وہ کچھ جو پاکستان کے بارے میں مایوسانہ نظر آتا ہے ممکن ہے وہ پاکستان کے بارے میں حقیقی تشویش اور محبت کا اظہار ہوگی“۔ آؤٹ لک کے مطابق آتش کی یہ ذاتی کہانی نئے موڑ لے چکی ہے ۔ سلمان تاثیر جس کے ساتھ آتش کا 15ماہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے کتاب کے بارے میں سن کر اپ سیٹ ہے او ر وہ ویسے بھی آج کل پاکستان کی سیاست کے افق پر دوبارہ ابھر آئے ہیں بے یقینی کے ساتھ ہنستے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”کتاب کے اجرا کا وقت ٹھیک نہیں ہے “ وہ (سلمان تاثیر) ایک کاروباری شخصیت تھے اور میرے خیال میں ان کیلئے یہی کافی تھا ۔ انہیں پنجاب کا گورنر بننے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس قسم کی کتاب لکھ کر خاص طورپر اس قد ر حساس موقع پر تعلقات گنوانے کیلئے تیار ہیں تو انہوں نے کہا کہ ”میں کتاب لکھتا یا نہ لکھتا دونوں صورتوں میں میں ناپسندیدہ شخصیت ہوں“۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ ”میرے والد ایک ذہین اور وسیع المطالعہ شخص ہیں مجھے امید ہے آخر ایک روز وہ سمجھ جائیں گے“۔ ذیل میں کتاب کے کچھ اقتباسات ہیں ۔ ”میں اپنا سفر ان سوالوں کے ساتھ شروع کرچکا تھا۔ کہ میرا باپ مسلمان کیوں تھا؟ اور اس کی کیا وجہ ہے کہ اسلام کے اخلاقی احکامات /معیارات ان کے اندر کیوں نہیں پائے جاتے ، لیکن وہ مسلمان تھے کیونکہ وہ ہولو کاسٹ پر یقین نہیں رکھتے اور امریکا اور اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں ، ہندوؤں کو کمزور اور بزدل تصور کرتے ہیں اور اسلام کی ماضی میں شاندار کامیابیاں ان کو پر جوش بنادیتی ہیں “۔ ”ان کے اندر ایمان کمزور پڑچکا تھا، جس سے وہ کوئی اخلاقی رہنمائی حاصل نہیں کرتے تھے ان کیلئے وہ تاریخی و سیاسی شناخت کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ان کے اندر ایمان کی اتنی سی ہی قوت تھی یہ اہم بات تھی کیونکہ اس طرح وہ ایک ماڈریٹ مسلمان بن گئے تھے لیکن یہ بہت کمزور اور غلط سمت میں اختیار کی کی گئی اعتدال پسندی تھی ۔یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ کوئی کسطرح عبادت کرتا ہے ، کتنی عبادت کرتا ہے ، کیسا لباس زیب تن کرتا ہے، آیا شراب نوشی کرتا ہے یا نہیں لیکن یہ بات ضرور اہم ہے کہ کوئی یہودیوں ، امریکیوں اور ہندوؤں کے بارے میں نفرت کے جذبات رکھتا ہے یہ وہ چیز ہے جو کہ عقیدہ میں گندھی ہوئی ہے اور سیاسی مباحثوں میں شامل ہے ۔ میں کمرے سے چلے جانے کیلئے کھڑا ہوا ۔ یہ ایسا تھا جیسے کوئی نہر کا کنارا ٹوٹ گیا ہو۔ میں اور میرے والد پہلی مرتبہ پریشانی کی حدوں کو پار کرچکے تھے ۔میں کچھ دیر بعد ان کو خدا حافظ کہنے کیلئے واپس آیا لیکن وہ کچھ کہے بغیر ہی کمرہ چھوڑ کر جاچکے تھے۔ اس خالی کمرے نے میرے اندر خالی پن پیدا کردیا جو کہ ایک طرح کی مایوسی تھی میں نے پھر سے سب کچھ دوبارہ سوچنا چاہا ۔ اس میں مفاہمت شامل نہیں تھی کیونکہ اس کے بہت سے تقاضے تھے ۔ صرف احساس زیاں ہی نہیں بلکہ میرا اپنے باپ کی تلاش کا سفر لاہور میں ایک خالی کمرے پر ختم ہو ا تھا۔ ”میرے اور میرے والد کے درمیان فاصلہ زیادہ نہ تھا لیکن یہ سرزمین ایک منفرد تاریخ رکھتی ہے جس سے میرے دونوں ٹوٹے ہوئے (ماں اور باپ) ٹکڑوں کا تعلق ہے۔ میرا اپنے والد کی تلاش اور ان کے ذریعے ان کے ملک کی تلاش اپنی تاریخ کے ساتھ سمجھوتے کا ایک انداز تھا لیکن یہ بے صلہ نہ رہا۔ میرے پاکستان کے ساتھ تعلق کی تجدید ہوئی میں خوش قسمت تھا کہ میرا دونوں ملکوں کے ساتھ تعلق تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے وہ کچھ ملا جس سے بٹوارے نے بہت سے لوگوں کو محروم کردیا تھا۔میرے لئے اس کا مطلب مختلف تعلیم اور انڈیا کی سہ جہتی یعنی اردو، سنسکرت اور انگریزی میں تاریخ کے بارے میں جاننے کے امکانات شامل تھا۔ یہ بے جوڑ تعلق تحریف شدہ تاریخ رکھنے والے لوگوں کا مقدر ہے لیکن میں ان کو انتہاپسندی پر ترجیح دیتا ہوں۔ دنیا دوغلوں سے بھری پڑی ہے۔ ”لیکن پھر وہاں خالی کمرہ تھا اور رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ تھی جس کیلئے میرے پاس اپنے باپ کے وجود کے سوا کوئی تسلی نہیں تھی اور جس کا وجود میری پوری زندگی میں ایک سایہ کا سا تھا اب محض انتہائی بے وزن ہوگیا تھا اور کون جانتا ہے کہ یہ فضول و ہم مجھ پر کس قدر شدت سے حاوی ہے۔

    بشکریہ " جنگ " (9 جنوری 2011)

    [​IMG]
    تولین سنگھ
    [​IMG]
    آتش تاثیر ​
     
  4. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: ممتاز قادری

    پاکستان میں ہی اییسرإے شماری ہوسکتی ھے کیونکہ وہاں انسانیت کی موت ہو چکی ھے
     
  5. جبار گجر
    آف لائن

    جبار گجر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2010
    پیغامات:
    377
    موصول پسندیدگیاں:
    185
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری



     
  6. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    اس بات سے قطع نظر کے ممتاز قادری کا فعل ٹھیک ہے یا غلط، اس کی ہمت کی داد دینا پڑے گی۔
     
  7. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    کوئی بھائی یہ شئیر کر سکتا ہے کہ گورنر کے ان الفاظ کے خلاف شدید عوامی رد عمل یا علماء کرام کی طرف سے مذمتی بیانات ۔ جب وہ گورنر سلمان تھا مقتول سلمان نہیں ۔
     
  8. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    جواب: ممتاز قادری

    مسئلہ توہین رسالت... کس سے منصفی چاہیں… انصار عباسی جنگ اخبار
    گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کو پاکستان میں موجود ایک مغرب زدہ سیکولر طبقہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے تاکہ قانون ناموس رسالت کو ختم کیا جاسکے۔ ایک انگریزی اخبارنے تو اس قانون کو ہی سلمان تاثیر کے قتل کا ذمّہ دار ٹھہرا دیا۔ موم بتیاں جلا کر مقتول کو خراج تحسین پیش کرنے والے روشن خیالی کے عَلم بردار قانون ناموس رسالت کو انسانوں کا بنایا ہوا قانون کہہ کرجھٹلانے کی کوشش میں ہیں جیسا کہ وہ دوسرے اسلامی قوانین اوردینی شعائر پر مکمل عمل پیرا ہوں۔ قارئین کی رہنمائی کے لیے اس قانون کی شرعی حیثیت کے متعلق محترم علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا:
    " توہین رسالت کی سزا پاکستان کے قانون کے مطابق قتل ہے۔کیا یہ سزا قرآن و سنّت سے ثابت ہے؟ اس حوالے سے ایک نئی بحث اس وقت سامنے آئی جب آسیہ نامی عورت کو ڈسٹرکٹ کورٹ ننکانہ نے توہین رسالت کے جرم میں مجرم قرار دیا۔ اس واقعہ کے کافی عرصے کے بعد پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر ڈسٹرکٹ جیل ننکانہ میں گئے جہاں انہوں نے آسیہ سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد عدالتی فیصلے کو غلط قرار دیا اور قانون توہین رسالت کو کالا قانون قرار دیا۔انہوں نے آسیہ کی معافی کی اپیل کو صدر پاکستان تک پہنچانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔بعض علماء نے رسول ﷺکو رحمة اللعالمین قرار دے کر عام معافی کے فلسفے کو پروموٹ کرنے کی کوشش بھی کی اور دانستہ یا نادانستہ گورنر کی رائے کو بھی تقویت دینے کی کوشش کی۔
    رسول ﷺکی عزّت و ناموس مسلمانوں کیلئے دنیا کے تمام رشتوں اور مال و متاع سے زیادہ اہم ہونی چاہئے اور قرآن مجید نے رسولﷺ کی مخالفت کرنے والے شخص کی بہت شدید انداز میں مذمّت کی ہے۔سورة مجادلہ کی آیت نمبر20 میں اللہ نے فرمایا ہے۔ترجمہ”یقیناً جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہی ذلیل ترین لوگ ہیں“۔
    اسی طرح اللہ نے سورة کوثر کی آخری آیت میں ارشاد فرمایا ہے۔ترجمہ”یقیناً تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہے“۔
    جہاں تک تعلق ہے توہین رسالت کی سزا کا تو میں سب سے پہلے اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا نہیں بلکہ قرآن و سنّت کی نصوص سے ثابت یا واضح ہے۔قرآن کی متعدد آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺکے گستاخ کی سزاقتل ہے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے میں سورة فرقان کی ان تین آیات کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔
    اللہ تعالیٰ آیات27 تا29 میں ارشاد فرماتے ہیں۔ترجمہ”جس دن ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے گا اور کہے گا،اے کاش میں نے رسولﷺکے ساتھ راستہ پکڑ لیاہوتا۔ ہے ہائے میری شامت،کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔البتہ اس نے مجھے نصیحت سے بہکایا،اس کے بعد جبکہ وہ میرے پاس پہنچ گئی اور شیطان انسان کو (عین وقت پر) تنہا چھوڑ جانے والا ہے“۔
    تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ،تفسیر جلالین،تفسیر ابن کثیر کے مطابق یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب ابی بن خلف کے اکسانے پر عقبہ بن ابی معیط نے رسول ﷺ کی شان میں کستاخی کی تھی اور نبیﷺنے اس کو تنبیہ کی کہ اگر تو مکہ کے باہر مجھے ملا تو میں تجھے قتل کروں گا۔رسولﷺ نے بدر کی جنگ کے موقع پر اس کو گرفتاری کی حالت میں قتل کیا تھا۔اسی طرح اللہ نے قرآن مجید میں اپنے اور اپنے رسولﷺ سے جنگ کرنے والوں اور زمین پر فساد پھیلانے والوں کی سزا سورة مائدہ کی آیت نمبر33 میں بتلائی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ترجمہ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کرتے ہیں اور زمین پر فساد پھیلاتے ہیں ان کی سزا صرف یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا سولی چڑھائے جائیں یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں یا ان کو ملک سے باہر نکال دیا جائے، یہی ان کے لئے دنیا کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔"
    اس آیت مبارکہ میں فسادی کی سزا واضح طور پر قتل بتلائی گئی ہے۔عرف عام میں فسادی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خاندانوں اور برادریوں کے مابین الٹی سیدھی باتیں پھیلا کر اشتعال پیدا کرتا ہے جس سے نفرتیں اور کدورتیں پیدا ہوتی ہیں اور بات دشمنی تک جا پہنچتی ہے۔اس شخص سے بڑھ کر فسادی کون ہو سکتا ہے جو رسولﷺکے بارے الٹی سیدھی باتیں کر کے مسلمانوں کو طیش دلاتا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانش ور زنا،ڈکیتی اور قتل کرنے والے کو فساد فی الارض کا مرتکب قرار دیتے ہیں لیکن مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے اور ان کے عقیدے کی بنیاد پر حملہ کرنے والے کو فسادی ماننے کے لئے تیار نہیں۔یقیناً توہین رسالت کا جرم ہر اعتبار سے قتل اور ڈکیتی سے زیادہ سنگین ہے۔
    اسی طرح سورة توبہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے دین میں طعن کرنے والے شخص کے بارے میں کہا ہے کہ ایسا شخص اپنے عہد کو توڑنے کا مرتکب ہوتا ہے، یعنی مسلم ریاست کا غیر مسلم ریاست یا اپنی ریاست میں رہنے والی اقلیتوں سے جو امن کا معاہدہ ہوتا ہے، وہ دین میں طعن کرنے کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور دین میں طعنہ دینے کی کوئی قسم بھی توہین رسالت سے بڑی نہیں ہو سکتی اور ایسا طعن کرنے والے کی سزا بھی اللہ نے قتل ہی تجویز کی ہے۔
    اللہ تعالیٰ سورة توبہ کی آیت نمبر12 میں ارشاد فرماتے ہیں۔ترجمہ”اور اگر اپنے عہد کے بعد وہ اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں عیب لگائیں تو کفر کے عَلم برداروں کو قتل کرو۔یقیناً ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں شاید کہ وہ باز آجائیں“۔ یہ اور واضح دلیل ہے کہ دین میں طعن کرنے والا بندہ قتل کی سزا کا مستحق ہوتا ہے اور اگر وہ قسمیں بھی اٹھائے تو اس کی قسم کو نہیں مانا جا سکتا۔
    یہ تو قرآن مجید کے بعض مقامات ہیں جن سے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا ثابت ہوتی ہے۔جہاں تک تعلق ہے رسولﷺ کے اپنے عمل یا اپنے دور کا تو بہت سے مصدقہ واقعات سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والے کی سزا موت ہے۔ بخاری شریف میں اس سلسلے میں دو احادیث وارد ہوئی ہیں۔
    پہلی حدیث میں کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر ہے۔کعب بن اشرف رسولﷺ کی شان میں گستاخی کرتا تھا۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم اور آپ کی رضامندی کے ساتھ اس کو قتل کر دیا،جب محمد بن مسلمہ یہ کام کرکے پلٹے تو رسولﷺ نے ارشاد فرمایا تھا ”وہ چہرے کامیاب ہوئے جنہوں نے یہ کام کیا اور جواب میں جناب محمد بن مسلمہ نے عرض کیا اور آپ کا چہرہ بھی اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم(کامیاب ہوا)“۔
    دوسری حدیث میں ابو رافع یہودی کا ذکر ہے۔ یہ بدگو یہودی حضورﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا تھا۔رسولﷺ نے اس کی سرکوبی پر عبداللہ ابن عتیق کو مامور کیا تھا۔عبداللہ ابن عتیق اس کو قتل کرنے کے لئے اس قلعہ میں داخل ہوئے، جہاں وہ مقیم تھا۔اس قلعہ میں وہ اپنی دانست میں مکمل طور پر محفوظ تھا لیکن شمع رسالت کے پروانے نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اسے جہنّم واصل کیا۔واپس آتے ہوئے تیزرفتاری میں اندازے کی غلطی کی وجہ سے آپ سیڑھی سے نیچے گرے اور آپ کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔رسول ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو نبیﷺ نے آپ کی ہڈی پر ہاتھ پھیرا تو وہ اس طرح ہو گئی جیسے کبھی ٹوٹی ہی نہیں تھی۔
    سنن ابوداؤد اور نسائی شریف میں ایک نابینا صحابی کا واقعہ موجود ہے جنہوں نے اپنے دو بیٹوں کی ماں اور خدمت گزار لونڈی کو صرف توہین رسالت کے جرم کی پاداش میں قتل کر دیا تھا۔نابینا صحابی اس کو تنبیہ کرتے رہے جب وہ باز نہ آئی تو انہوں نے گھریلو سطح پر کی جانے والی گستاخی کو بھی برداشت نہ کیا اور اس کا پیٹ چاک کر دیا۔معاملہ جب نبیﷺ کی بارگاہ میں پیش ہوا تو آپﷺ نے کہا گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان اور بدلہ نہیں ہے۔
    اسی طرح ایک اور ملعونہ اسماء بنت مروان کو عمیر ابن عدی نے توہین رسالت کے جرم میں قتل کیا تھا۔
    فتح مکہ کے روز جبکہ رسولﷺ عفو ودرگزر کے مقام بلند پر فائز تھے اور ہر کسی کو معاف کر رہے تھے، آپﷺ نے توہین آمیز شاعری لکھنے کی پاداش میں عبداللہ بن خطل اور اس کی غلیظ شاعری کو پڑھنے والی اس کی لونڈیوں کے قتل کا حکم جاری کیا۔عبداللہ بن خطل کو اس حالت میں قتل کیا گیا کہ وہ حرم شریف میں پناہ گزین تھا۔
    یہیں ایک اور سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا توبہ سے توہین کا جرم معاف ہو سکتا ہے؟یقیناً سچی توبہ انسان کے اُخروی فائدہ کا سبب بن سکتی ہے لیکن دیگر جرائم کی طرح جب معاملہ عدالتی یا عوامی سطح پر آجائے گا تو دنیا میں اس کو اس جرم کی سزا سہنا ہی پڑے گی، جس طرح سچی یا جھوٹی توبہ سے زنا،قذف،چوری،شراب اور قتل کی سزا معاف نہیں ہو سکتی تو ان سے کہیں زیادہ سنگین جرم کی سزا فقط توبہ سے کس طرح معاف ہو سکتی ہے؟"
     
  9. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    بے باک بھائی اللہ کریم آپ کے علم و عقل میں اور اضافہ فرمائیں

    [​IMG]
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    السلام علیکم ۔
    کسی بھی قانون کے دو پہلو ہوتے ہیں ۔
    نمبر 1۔۔۔۔ قانونِ اساس یا اساسی قانون ۔۔ Substantive Law
    نمبر 2۔۔۔۔ قانونِ اسلوب کاری یا عملداری قانون ۔۔ Procedural or Adjective Law

    ہمارے پاکستان کا کم و بیش سارا آئین 1973 ہی اپنی اساس کے اعتبار سے صحیح ہے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ کہ اساسی طور پر آئین پاکستان 1973 اسلامی و مروجہ بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے آئین پاکستان میں کوئی خرابی نہیں ۔

    لیکن بدقسمتی سے خرابی پاکستان کے عملداری قانون Procedural Law میں‌ہے۔ پاکستان کا نظام عدل و انصاف انتہائی مشکوک، بےضابطہ اور کرپٹ ہے۔ قانون پر سو فیصد درست Accurate عملدرآمد شاید کسی طرح بھی نہیں‌ہوپاتا۔

    مثلا ۔ آئین پاکستان میں‌ رکن پارلیمنٹ‌کی اہلیت سے متعلق واضح آرٹیکل 62 موجود ہے ۔
    [​IMG]

    یہ اساسی قانون ہے جس کے تحت

    ۔۔رکن پارلیمنٹ کا دیانتدار و ایماندار "شہرت " کا حامل ہو
    ۔۔سرعام اسلامی شعائر کی توہین کرنے والا نہ ہو
    ۔۔کرپٹ و داغدار ماضی کا حامل نہ ہو
    وغیرہ وغیرہ

    لیکن یہی قانون جب عملدرآمد کے فیز میں پہنچتا ہے تو جو اسکا حلیہ بنتا ہے اس سے ہر باشعور پاکستانی آگاہ ہے۔ اگر اسی آرٹیکل کے اساسی ضابطے پر 100فیصد عمل درآمد ہوجائے تو شاید چند ایک ممبران کے سوا باقی ساری پارلیمنٹ بشمول صدر پاکستان جیل میں پہنچ جائے

    اسی طرح ۔۔ آئین پاکستان میں ممبر پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ کرپشن سے بچاو کے لیے وہ اپنے اثاثہ جات کی فہرست مہیا کریں۔
    اس قانون پر بھی عملدرآمد کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آتا ہے اس سے بھی ہر باشعور پاکستانی بخوبی آگاہ ہے کہ جب

    شریف برادران جیسے حضرات 20-25 ہزار روپے نقد مالیت کے اثاثے ظاہر کرتے ہیں۔
    چوہدری برادران کے پاس اپنی ایک گاڑی تک ثابت نہیں ہوتی ۔
    سندھ کے ارب پتی وڈیروں کے پاس چند مرلے زمین نکلتی ہے۔
    وغیر وغیرہ ۔۔

    اگر تفصیل درج کرناچاہیں تو شاید ایسے سینکڑوں قانون نکل آئیں گے جو اپنی اصل، بنیاد و اساس کے اعتبار سے بہت اعلی ہیں لیکن عملی طور پر وہ پاکستان عدالتی نظام میں مذاق بن چکے ہیں ۔
    ثابت یہ ہوا قانون اپنی اساسی و بنیادی حیثیت میں خراب نہیں‌ہے۔ لیکن اس پر عملداری کا ضابطہ ء کار اور اسکے پروسیجرل قوانین اتنے غلط ہیں کہ اصل قانون کا بھی حلیہ بگڑ جاتا ہے۔

    توہین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون بھی اپنی بنیادی حیثیت اور روح کے اعتبار سے 100فیصد درست ہے اور اس پر دنیا کا کوئی قانون دان فنی اعتبار سے اعتراض نہیں کرسکتا ۔ ویسے بھی ہر ملک کو اپنے قوانین بنانے کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔ اس لیے اعتراض کی گنجائش ہی نہیں۔ البتہ جب حکمران و سیاست دان کسی کی غلامی کا دم بھرنا شروع ہو جائیں تو الگ بات ہے۔ خیر یہ جملہ معترضہ تھا ۔

    پاکستان کے دیگر قوانین کی طرح جب توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کی عملداری حیثیت و ضابطے کا بغور ایماندرانہ مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس درست قانون کو بھی طاقتور اور بااثر لوگ اپنے مفادات کے لیے اکثر و بیشتر غریب و نادار غیر مسلموں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اس سارے پراسیس میں ۔ دھن ، دھونس ، دھاندلی سے مدد لی جاتی ہے۔ پولیس بھی کرپٹ ۔ عملداری نظام بھی کرپٹ ۔ وکیل ویسے ہی الا ماشاءاللہ اپنی فیس کے حریص ہوتے ہیں ۔۔ یوں اس اعلی و عمدہ قانون کا عملی طور پر نہ صرف مذاق بنتا ہے۔ بلکہ بہت سے غریب و نادار لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتی بھی ہوتی ہے جس کی ایک اسلامی ریاست میں کسی طور بھی اجازت نہیں۔

    اگر ہم جذبات کی بجائے ٹھنڈے دل و دماغ سے اتنی سادہ سی بات سمجھ لیں تو امید ہے کافی ابہام و اشکالات دور ہوسکتے ہیں ۔ وگرنہ اگر ایسا ہی وطیرہ معاشرے میں جاری و ساری رہا تو وہ دن دور نہیں‌جب ہمارا معاشرہ نہ اسلامی کہلائے گا، نہ انسانی ،
    بلکہ ایک حیوانی معاشرہ کہلائے گا۔
     
  11. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    ممتاز قادری کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے ؟ کسی کو کچھ معلوم ہے؟
     
  12. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    میں‌نے یہ تھریڈ آج ہی دیکھا ہے
    اب تک تو سارے پاکستان کو پتا چل چُکا ہے کہ
    ممتاز قادری کا معاملہ کہاں تک پہنچا ہے ؟
     
  13. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    بے باک صاحب اور نعیم بھائی آپ دونوں حضرات کا شکریہ حالات و واقعات سے آگاہ کرنے کا
     
  14. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    السلام علیکم۔ میرے خیال میں ، اس مسئلے پر رائے شماری درست نہیں ہے۔ یہ خالصتاً علمی و تحقیقی اور عدالتی معاملہ ہے۔ اس لئے جن کا کام ہے انہی کو کرنے دیں۔ البتہ اس مسئلے پر مستند رائے جاننے کیلئے درج ذیل لنکس وزٹ کرنا مفید ہے:

    تحفظ ناموس رسالت دفعہ295c
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=11062

    گستاخ رسول کون ہوتا ہے ؟
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=11140

    آپ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے
    http://www.oururdu.com/forums/showthread.php?t=11274

    قارئین کرام، اوپر کے لنکس کے تفصیلی مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس معاملے میں خواہ مخواہ عوام کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے، کیونکہ:
    جو بات قرآن وسنت اور تصریحات ائمہ فقہاء کی روشنی میں واضح ہو، اسکا فیصلہ انہی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہی کیا جانا عدل کا تقاضا ہے۔ اس پر کسی شخصی رائے کی بالکل کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لئے اس بارے میں پھر عرض کروں گا ، کہ جن کا کام ہے ، انہی کو کرنے دیں۔ ہاں جو لوگ عدالت کے فیصلے سے اختلاف رکھیں، انہیں عدالت میں جاکر اس پر دلائل دینے چاہیئیں ، ناکہ عوام کو اشتعال دلاکر فساد فی الارض کے مرتکب ہوں۔ اگر عام عدالتوں سے یہ طبقہ مطمئن نہ ہو تو پھر اس سے متعلق وفاقی شرعی عدالت بھی موجود ہے، اس میں یہ لوگ کیس کیوں فائل نہیں کرتے؟

    اللہ کریم ہم سب کو شعور دے، آمین! اللہ حافظ، والسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
     
  15. الکرم
    آف لائن

    الکرم ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏25 جون 2011
    پیغامات:
    3,090
    موصول پسندیدگیاں:
    1,180
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    انتہائی نازک اور حساس لڑی ہے
    نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن
    بس خاموشی ہی ٹھیک ہے
    اللہ تعالیٰ ممتاز قادری کو اُس کی نئیت کا اجر دے ۔۔ آمین
     
  16. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    اکرم بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ
     
  17. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    یہ حوالہ امیر اہلسنت کی کتاب کفریا کلمات کے سوال و جواب سے لیے گے ہیں
    سُوال:کیا مُرتَد کی دنیا میں بھی کوئی سزا ہے؟

    جواب:جی ہاں۔دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ182صَفحات پر مشتمل کتاب ، ''بہارِ شریعت''حصّہ9 صَفْحَہ174تا175پر صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:جو شخص مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ مُرتَد ہو گیا تو مُستَحَب ہے کہ حاکمِ اسلام اُس پر اسلام پیش کرے اور اگر وہ کچھ شُبہ بیان کرے تو اُس کا جواب دے اور اگرمُہلَت مانگے تو تین دن قید میں رکھے اور ہر روز اسلام کی تلقین کرے ۔یوہیں اگر اُس نے مُہْلَت نہ ما نگی مگر امّید ہے کہ اسلام قَبول کر لے گا جب بھی تین دن قید میں رکھا جائے۔ پھر اگر مسلمان ہو جائے فَبِہا(یعنی بَہُت بہتر)ورنہ قتل کر دیا جائے۔ بِغیر اسلام پیش کیے اُسے قتل کر ڈالنا مکر وہ ہے۔ (دُرِّمُختار ج6 ص 346۔349)
    کیا مُرتَد کو ہرکوئی قَتل کر سکتا ہے؟

    سُوال: کیا مُرتَد کو ہرکوئی قتل کر سکتا ہے؟

    جواب:جی نہیں۔ یہ صرف بادشاہِ اسلام کا کام ہے ۔ چُنانچِہ صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:مُرتَد کو قید کرنا اور اسلام نہ قبول کرنے پر قتل کر ڈالنا بادشاہِ اسلام کا کام ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایسا شخص اگر زندہ رہا اور اس سے تَعَرُّض نہ کیا گیا (یعنی روک ٹوک نہ کی گئی )تو ملک میں طرح طرح کے فساد پیدا ہو نگے اور فتنہ کا سلسلہ روز بروز ترقّی پذیر ہو گا، جس کی وجہ سے اَمْنِ عامّه میں خَلل پڑیگا ، لہٰذا ایسے شخص کو ختم کر دینا ہی مُقتَضائے حکمت(یعنی مَصلَحت کا تقاضا)تھا۔اب چُونکہ حکومتِ اسلام ہندوستان میں باقی نہیں،کوئی روک تھام کرنے والا باقی نہ رہا، ہر شخص جو چاہتا ہے بکتا ہے اور آئے دن مسلمانوں میں فَساد پیدا ہوتا ہے، نئے نئے مذہب پیدا ہوتے رہتے ہیں، ایک خاندان بلکہ بعض جگہ ایک گھر میں کئی مذہب ہیں اور بات بات پر جھگڑے لڑائی ہیں، ان تمام خرابیوں کا
    باعِث یِہی نیا مذہب ہے۔ ایسی صورت میں سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قراٰن و حدیث میں ارشاد ہوئی، اگر مسلمان اُس پر عمل کریں تمام قِصّوں سے نَجات پائیں دنیا و آخِرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل مَیل جُول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا، اُن کے ساتھ کھانا پینا، اُن کے یہاں شادی بیاہ کرنا غَرَض ہر قسم کے تعلُّقات ان سے قَطع کر دیں گویا سمجھیں کہ وہ اب رہا ہی نہیں ۔ ( بہارِ شریعت حصّہ 9 ص175)

    عورت یا بچّہ مُرتَد ہو تو سزا

    سُوال:اگر عورت یا سمجھدار بچّہ مُرتَد ہو جائے تو کیا اُس کو بھی قتل کیا جائے گا؟

    جواب: نہیں۔صدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:عورت یا نابالِغ سمجھ وال(یعنی سمجھدار )بچّہ مُرتَد ہو جائے تو قتل نہ کرینگے ۔ بلکہ قید کرینگے یہاں تک کہ توبہ کرے اور مسلمان ہو جائے ۔ ( بہارِ شریعت حصّہ 9 ص175، عالمگیری ج2 ص254)
    اللہ جانتا ہے وہ کون سے سنی ہیں جو امیر اہلسنت الشیخ الیاس عطار قادری کی بھی بات نہیں سنتے
    اگر آپ یہی موقف سننا چاہتے ہیں تو 17نومبر2011 رات 10 سے گیارہ بجے کا مدنی مذاکرہ سن لیں
     
  18. خوبصورت
    آف لائن

    خوبصورت ممبر

    شمولیت:
    ‏9 اکتوبر 2011
    پیغامات:
    6,517
    موصول پسندیدگیاں:
    35
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    اچھی باتیں ہیں۔۔ لیکن اگر حوالے حدیث کی مین کتابوں مثلا بخاری و مسلم وغیرہ کے ہوں تو کوئی انکار نہیں‌کر سکتا۔۔ اب میرے جیسی نا تو ان کتابوں کو جانتی ہے نا مفتی محمد امجد علی صاحب کو۔۔ ہاں مولانا الیاس قادری صاحب کو مدنی چینل پر دیکھا ہے۔۔ اچھے انسان ہیں۔۔ بلکل سادہ۔۔
     
  19. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    میرا مقصد یہ تھا کچھ لوگ سنیت کا لبادہ ڈال کر دعوت اسلامی والوں کو گمراہ کرنے کوشش کرتے ہیں ۔ اس لیے میں نے سمجھا کہ اس نقط نظر کی بھی وضاحت ہو سکے۔ حضرتِ علامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمہ کے متعلق یہ لنک چیک کریں
    http://ur.wikipeia.org/wiki/مولانا_محمدی
     
  20. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: ممتاز قادری

    محترم آپ سے گذارش ہے کہ فرقہ پرستی والی بحث سے پرہیز کریں ہر شخص خود سمجھدار ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں