1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غوریات

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏10 مارچ 2019۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بدگمانی

    بدگمانی کے معنی ہیں ، برا گمان رکھنے والا، جسے کسی پر یقین نہ آئے، شکی انسان، بدظن ، فاسد خیال اور وہمی انسان۔


    بدگمانی سے مراد ہے کسی کے بارے میں منفی رائے یا اندازہ قائم کرنا جس سے اخوت اور بھائی چارے میں برا اثر پڑے۔

    جبکہ گمان سے مراد کسی فرد یا شے کے بارے میں اندازہ لگانا اورکوئی ابتدائی رائے قائم کرنا ہے۔یہ گمان ظاہر ی نشانی کے باعث پیدا ہونے والے خیال کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ گمان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اچھا گمان جسے حسن ظن کہتے ہیں ۔ دوسرا سوئے ظن، برا گمان۔

    کسی کے بارے میں گمان کو تقویت نہ دی جائے، جب تک کہ مظنون ( وہ شخص جس کے بارے میں دل میں گمان پیدا ہو) کے بارے میں اچھی طرح غور و فکر نہ کرلیا جائے۔ اگر مظنون نیک و پرہیزگار ہے تو اس پر معمولی وہم کی وجہ سے بدگمانی نہ کی جائے ۔ کبھی کبھی ہم کسی شخص کو کوئی کام کرتے ہوئے دیکھیں اور فوری طور پر اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرلیں۔ جب کہ جو ہم سمجھ رہے ہیں، ایسا بالکل ہی نہ ہو۔ یا کسی کا اچانک نا روا رویہ دیکھ کر ہم قطع تعلق کرلیں یہ بدگمانی ہے۔ کیونکہ ہم جو ہمیشہ آئینہ دیکھتے ہیں ہمیں اپنا چہرہ اچھا لگتا ہے لیکن خامیاں ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ اگر آپ کا دل صاف ہے تو آپ قطع تعلقی سے پہلے اپنے رویوں پر غور کریں اور اگر سمجھ نہ سکو تو پھر مظنون سے وضاحت طلب کریں۔ ہوسکتا ہے مظنون کی رائے حق ہو اور آپ بدگمانی کاشکار ہورہے ہوں۔

    ایک مرتبہ میں عرب دوستوں کے ساتھ کسی دعوت میں مدعو تھا۔ وہاں کی مشہور ڈش مندی چاول ہے۔ جس میں چاول، میوہ جات اور گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے ہوتے ہیں، علیحدہ سے ٹماٹر کی چٹنی اور کٹا ہوا پیاز بھی ہوتا ہے۔ میں نے جیسے ہی گوشت کی بوٹی لی اور منہ میں لے جانا چاہی تو وہ بہت گرم تھی۔ میں نے فورا نکال کر سامنے مندی کے بڑے تھال میں رکھ دی۔ میرا خیال تھا کہ میں تھوڑی دیر میں جب گوشت قدرے ٹھنڈا ہوجائے گا تب تناول کروں گا۔ مگر میرے قریب بیٹھے ہوئے ایک عرب دوست (سمیر) نے اس بوٹی کو اٹھا کر تھال کے نیچے بچھے ہوئے پلاسٹک کی شیٹ پر رکھ دیا اور کہا کہ قیوم کھائے ہوئے کھانے کو کھانے میں نہیں رکھتے۔

    اس واقعے کو دیکھ کر سمیر نے یہ گمان کیا کہ مجھے بوٹی اچھی نہیں لگی ، اس لئے میں نے واپس رکھ دی۔ جبکہ بوٹی گرم تھی میں نے اس لئے رکھ دی۔ جس کا احساس سمیر کو نہیں تھا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ انسان کی ظاہری حالت ، سادگی ، برد باری اور خاموشی کو دیکھ اسے حقیر نہیں جاننا چاہیے کیوں کہ ہوسکتا ہے وہ گڈری کا لعل ہو۔

    گمان اور کثرت گمان سے بچنے کا بہترین حل ہے کہ کسی کی ٹوہ میں اپنی توانائیاں ضائع نہ کریں۔ جیسے ہی گمان کے بارے میں آپ کا علم مکمل ہوگا ، آپ کا گمان یا بدگمانی ختم ہوجائے گی اور اسکی جگہ یقین لے لے گا۔

    انسان کی اچھائی یہی ہے کہ مثبت سوچیں تاکہ آپ کی معاشرت، معاملات، کاروبار اور شخصیت کو قبول عام حاصل ہو۔ ہمیشہ مثبت سوچنے سے ناامیدی، مایوسی، ناکامی اور احساس کمتری کی جڑ کٹ جاتی ہے۔یہی نہیں بلکہ مثبت سوچ کے علمبردار کی زندگی کو مثبت عوامل جیسے امید، اولوالعزمی، قوت عمل، حسن ظن ، مسلسل ترقی اور درست زاویہ فکر احاطہ کئے رکھتے ہیں۔ اسے اندھیروں سے اجالوں کی طرف لے جاتے ہیں اور اسے کوئی پچھتاوا نہیں ستاتا۔

    کوئی بات بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔ کوئی خبر خلاف معمول ہو تو اس پہ فوری ردعمل سے پہلے معاملے کی تحقیق کرنی چاہیے۔ ادھوری باتیں بدگمانیان پیدا کرتی ہیں۔ منفی سوچ کا ایک مظہر غلط فہمی ہے اور یہی بات آج کل کے تمام جھگڑوں کا باعث ہوتی ہیں۔ مثبت انداز فکر کا تقاضہ ہے کہ کسی ناخوشگوار فضا کو جنم دینے کے بجائے وسعت ظرفی سے کام لیا جائے۔ اور قیمتی رشتوں کو محض نامکمل بیانات اور بغیر صفائی کا موقع دیئے نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔

    جس طرح دوسروں کی برائی یا برے عمل سے دل میں میل آجاتا ہے۔ اسی طرح اپنے خیالات سے دل میں میل آجاتا ہے۔ جس کےباعث ہمارے رویوں میں تبدیلی آجاتی ہے۔ کسی خیال یا سوچ سے دل میں غصہ پیدا ہوتا ہے، کسی سے نفرت، کسی سے بے جا اور غیر متوازن محبت ہوجاتی ہے اور فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب چیزیں خرابی پیدا کرتی ہیں۔ اچھے رویوں کے اظہار کے لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف ہو۔ جس کے بغیر ہم کسی سے اچھا برتاؤ نہیں کرسکتے۔

    بد گمانی کے اسباب : نامکمل و ادھورا علم، منفی سوچ ، غلط فہمی، کسی مخصوص شخص سے نفرت یا شکایت، ماضی کا تلخ تجربہ ، عدم تحفظ کا احساس، توہمات،انسانی یا جناتی شیطان کی وسوسہ انگیزی۔

    بدگمانی کے نقصانات
    : نفسیاتی بیماریاں، باہمی نفرتیں، رنجشیں، رقابتیں، معاشرے میں انتشار، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت گری، خاندانی ، قبائلی، لسانی اور اداروں کی رقابتیں۔

    بدگمانی کا حل:-

    1. اگر مسئلہ اہم اور سنجیدہ ہے تو معلومات میں اضافہ کر کے گمان کو خاتمہ کردیں۔
    2. دوسروں کے متعلق بہت زیادہ منفی انداز میں سوچنے اور بلاوجہ رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔
    3. اپنی منفی سوچوں پر قابو رکھیں اور کسی بھی ناخوشگوار خیال پر قابو پائیں۔
    4. اگر کسی کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا ہو جائے تو آخری حد تک بدگمانی سے جنگ لڑیں۔
    5. اپنا حق لوگوں کے لئے چھوڑنا شروع کریں۔
    6. لوگوں کو انکی غلطی پر معاف کرنا سیکھیں کیونکہ اگر غلطی آپ کی ہے تو معا فی کیسی؟
    7. یہ ایک دن کا کام نہیں بلکہ سعی مسلسل ہے۔ لہٰذا ناکامی کی صورت میں کوشش جاری رکھیں۔


    ہمیں چاہیے کہ غلط فہمی، بدگمانی اور خلاف حقیقت باتوں سے بچیں (کیونکہ بد گمانی تباہ کن ہے)۔ بدگمانی پر قابو نہ پایا جائے تو ایک سٹیج پہ انسان خود سے بدگمان ہوجاتا ہے۔ اس لئے تحقیق کی عادت اپنائیں تاکہ نادانی میں خود کو یا کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچائیں اور پچھتاوے کی آگ میں جلنے سے محفوظ رہیں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ماحول

    ماحول کے معنی ہیں گردو پیش، اطراف، گردو نواح، جو کسی کو متاثر کریں، گرد و پیش کے وہ تمام طبعی، سماجی اور ثقافتی عوامل جو مجموعی طور پر انسانی زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرتی ماحول اور ہمسائے میں واقع اشیاء وغیرہ۔


    جبکہ ماحول کے لغوی معنی ارد گرد ہیں۔ یعنی ہر وہ چیز جو ذی روح انسانوں پر اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہو۔

    انسانی بقاء کے لئے ہوا، پانی اور زمین بنیادی جزو ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جہاں انسانی زندگی کا قیام ممکن ہوتا ہے۔ زمین ہمارے لئے فرش ہے جس پہ ہم دیواریں چن کر اپنی چھت کا انتظام کرسکتے ہیں، پانی ہماری زندگی کا اہم جزو ہے۔ جو ہماری ذراعت، شجرکاری اور دیگر گھریلو ضروریات کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ جبکہ ہوا ہمارے جینے اور فصلوں کی پرورش میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔


    تاریخ کا مطالعہ کریں تو ابتدائی تہذیبیں وہیں قائم ہوئیں جہاں ذرخیز زمین، خوش ذائقہ پانی اور صاف ستھری ہوا کی سہولت موجود تھیں۔ جیسے دلی شہر دریائے جمنا کے کنارے، لاہور دریائے راوی کے کنارے، پشاور دریائے کابل کے قریب، بغداد دریائے دجلہ کے کنارے، دمشق میں دریا بانہ اور فرفر ہیں وغیرہ وغیرہ۔

    زمین اور پانی کے علاوہ صحت بخش ہوا بھی انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ انسانی صحت کی بحالی کے لئے بنائے گئے اسپتالوں کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جس میں سب سے اہم چیز جس کو مد نظر رکھتے ہیں وہ ہے تازہ اور صاف ہوا۔

    جوں جوں انسانی تہذیب اور تمدن نے معاشرتی اور سماجی اقدار کو جنم دیا وہیں معاشرے کا اخلاقی اقدار وجود میں آیا۔ کسی معاشرے کی اخلاقی اقدار وہاں کا اخلاقی ماحول کہلاتا ہے۔ جس جگہ جیسے لوگ بستے ہیں وہاں کا اخلاقی ماحول بھی انھی لوگوں کے اخلاقی اقدار کا آئینہ دار ہوتا ہے۔


    جیسے جیسے انسانی علم میں اضافہ ہوتا گیا اور مالی استحکام ہوا، مختلف تہذیبوں نے نئی نئی بستیاں قائم کیں۔ جس میں بہت سی گلیاں اور کئی محلے تھے۔ پھر یہی بستیاں ترقی کرتے کرتے شہر بن گئے اور ہر شہر میں آج کئی نئے ٹاؤن بن گئے ہیں۔ جہاں ہر جگہ کا ماحول ایک جگہ سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جگہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسا ہی ماحول پروان چڑھتا ہے۔

    اس کے علاوہ ایک قدرتی ماحول ہوتا ہے۔ جس سے مراد، زمین پر یا زمین کے کسی حصے پر موجود وہ تمام جاندار اور بے جان اشیاء جو قدرتی طور پر موجود ہوں۔ یہ ماحول کی ایک قسم ہے۔ جس میں جانداروں اور بے جان چیزوں، موسم، آب و ہوا اور قدرتی وسائل کا آپس میں تعلق ہوتا ہے۔ اسی سے انسانی بقاء اور اس کی معیشت کا دارو مدار ہوتا ہے۔ اس کی مثال ہے کوہ مری، جھیل سیف الملوک اور چھانگا مانگا کا جنگل وغیرہ۔

    موجودہ دور میں ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے وہ ایسے مقام پہ رہے جہاں موسم معتدل ہو، آب و ہوا صاف ستھری ہو، جہاں قدرتی وسائل دستیاب ہوں، تعلیمی ادارے ہوں، طبی مراکز کی سہولت ہو، آب رسانی کی سہولت ہو، نکاسی آب کا انتظام ہو، کوڑا کرکٹ تلف کرنے کا نظام ہو، صفائی ستھرائی ہو، روزگار و تجارت کے وافر مواقع موجود ہوں اور امن و امان کی ضمانت ہو۔

    اسی طرح ایک گھر کا ماحول بھی صحت مند اور خوش کن ہونا چاہیے۔ جس طرح پھول پانی کے بغیر مرجھا جاتے ہیں اسی طرح انسان توجہ اور پیار کے بغیرمرجھا جاتے ہیں۔ انسانی پرورش کے لئے پیار اور محبت کی اشد ضرورت ہے۔ انسان کی صحت پر سب سے بڑا اثر اسی بات سے ہے کہ آیا اسے متوازن محبت ملتی ہے کہ نہیں۔ جس کی وجہ سے گھروں میں تناؤ اور کھنچاؤ پایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ خود غرض ہوگئے ہیں اور خود کو دوسروں سے غیر منسلک رکھتے ہیں۔

    اسی طرح آفس وغیرہ میں کچھ باس ایسے ہوتے ہیں جو ملازمیں کی تضحیک سے خوش ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی سے دفتر کا ماحول انتہائی ناقابل یقین ہوجاتا ہے۔ لوگ خوف و دہشت کے ماحول میں ایک دوسرے کو اشاروں سے پوچھتے ہیں کہ باس کا موڈ کیسا ہے؟ ایسے ماحول میں اچھے بھلے انسان کے چہرے کے نقوش اثر بد کی وجہ سے بھدے لگنے لگتے ہیں۔

    انسان کی ذات، حرکات، سکنات، عادات اور خیالات پر ماحول کا انتہائی گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے کوشش کرنا چاہیے کہ ایسے لوگوں کے درمیان رہیں جو ایک دوسرے کی عزت کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں، مہر و وفا کی پاسداری کریں اور اچھے کاموں میں ہماری مدد کریں اور برائی سے دور رہیں۔

    ماحول کے بارے میں حکومتی سطح پر فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنا ہے، کوڑے کو تلف کرنے کا بندوبست کرنا، نکاسی آب اور آب رسانی کا بہتر انتظام کرنا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیلاب کی صورت حال سے نبٹنے کے لئے مناسب انتظامات کی ضرورت ہے اور تعلیمی سرگرمیوں و تفریحی سرگرمیوں کے لئے اسکول، کالج اور پارک وغیرہ تعمیر کریں، جبکہ عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ اپنے جسم کا خیال رکھیں، اپنے گھر اور اپنے گھر کے قرب و جوار میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔ ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اپنے علاقہ میں ذیادہ سے ذیادہ درخت لگائیں اور پانی کو ضا‏ئع نہ ہونے دیں۔ اور عبادت گاہوں کو آباد رکھیں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    مکافات عمل

    اس کے معنی ہیں عمل کا بدلہ (عمومی طور پر) گناہ کی سزا۔ باہم برابر ہونا، کرنی کا پھل، اجر، انتقام، پاداش، جرمانہ، جزا، معاوضہ وغیرہ۔

    مکافات عمل کا مطلب ہے عمل کا بدلہ، وہ عمل جو ہم کرتے ہیں اور بدلہ جو ہمیں ملتا ہے۔ اس دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا بدلہ اسے ضرور ملتا ہے۔ اچھائی کی جزا جس طرح ضرور ملتی ہے اسی طرح برائی کی سزا بھی ملتی ہے۔ آج ہم کسی کا دل دکھائیں گے تو کل کو ہمارا دل ضرور دکھے گا۔ آج کسی کا حق ماریں گے تو کل ہمارا حق بھی نہیں ملے گا۔ آج کسی کو دھوکہ دیں گے تو کل کو خود بھی دھوکہ کھائیں گے۔

    جب کوئی انسان کسی کے ساتھ برا کرتا ہے اور خود پر برا وقت آجائے ، تب انسان کو چاہیے کہ بیٹھ کر سوچے کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے۔اگر جواب نہ ملے، حقیقت جانتے ہوئے بھی اس بات کا اعتراف نہ کرسکو کہ یہ مکافات عمل ہے۔ تو سمجھ لو کہ ابھی ضمیر خواب غفلت میں ہے۔ ہر انسان کو اللہ تعالی نے یہ صلاحیت دی ہے کہ جب وہ کچھ بھی برا کررہا ہوتا ہے تو اس کا نفس لوامہ اس کو ضرور خبردار کرتا ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ انسان اس آواز حق کو فراموش کردیتا ہے۔ اور سنی ان سنی کردی جاتی ہے۔ برے وقت کی برائی سے ڈرنا چاہیے اور اس فانی دنیا میں کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بار مکافات عمل کے بارے میں ضرور سوچ لینا چاہیے۔

    مکافات عمل ہونا اٹل ہے صاحب
    دیر سویر ہوسکتی ہے پر ٹل نہیں سکتا

    آج کے دور کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثریت اپنے نفس کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ہم ہر وہ کام کرنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں جس میں ہمارا فائدہ ہو ، اور خواہ وہ کام غیر اخلاقی ہو اور جس میں دوسرے کا یقینی نقصان ہو رہا ہو۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اندر اللہ تعالی نے ایک جج بٹھایا ہوا ہے جو نہ خریدا جاسکتا ہے اور نا ہی جھکتا ہے۔ اس جج کا کام ہے آپ کو بروقت خبردار کرنا اور بار بار کرنا۔ وہ جج آپ کو تنبیہ کرتا ہے کہ آپ جو کررہے ہیں وہ غلط ہے اور آپ کو قدرت کی طرف سے بلایا جائے گا اور مجرم بناکے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ اور ثابت کیا جائے کہ آپ نے کیا غلط کیا اور فی الفور فیصلہ ہوجائے۔ مجرم کو کبھی بھی سزا ملنے میں دیر نہیں لگتی۔

    تِلْكَ اُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَـهَـا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُـمْ ۖ وَلَا تُسْاَلُوْنَ عَمَّا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ(سورہ بقرہ آیت 141)
    وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، ان کے لیے ان کے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے عمل ہیں، اور تم سے ان کے اعمال کی نسبت نہیں پوچھا جائے گا۔

    انسان خود کو بہلاتا رہتا ہے ، خوش فہمی کا شکار رہتا ہے اور خود کو تسلی دیتا رہتا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ لیکن آپ کے اندر بے چینی اور ہلچل مچی رہتی ہے۔ اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ آپ کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے جو آپ نے کسی اور کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ تب کہیں آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے غلط کیا تھا۔

    ایک مرتبہ میری پروموشن ہوئی اور یہ پروموشن میرٹ پر ہوئی تھی۔ میں نے نئی جاب کا چارج سنبھالا اور ڈیپارٹمنٹ کو نئے سرے سے منظم کیا۔ تین ماہ کے بعد مجھے مکہ المکرمہ میں اعتکاف کے لئے جانا تھا۔ میں نے چھٹی لی اور اعتکاف مکمل کیا۔ اور عید کے بعد جب ڈیوٹی پر آیا تو مجھے ایک نامہ موصول ہوا کہ آپ نے نئی جاب اچھے طریقے سے انجام دی اور شکریہ کے ساتھ یہ لکھا تھا اب آپ واپس اپنی پرانی جاب پر لوٹ آئیں۔

    مجھے بہت دکھ ہوا اور افسوس بھی ہوا کہ کیا ماجرا ہے۔ جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جس صاحب کو میں نے سفارش کرکے اپنی جگہ پہ عارضی طور پر کام کرنے کے لئے رکھوایا تھا، انھوں نے کسی تیسرے پاکستانی کے ساتھ ساز باز کرکے وہ پوزیشن مجھ سے ہتھیا لی، اور خود تیسرے شخص کی پوزیشن لے لی۔ جس کے لئے انھوں نے نجانے کہاں کہاں سے کیا کہہ کر سفارش ڈلوائی ۔ مجھے نئی پوزیشن پر ایک ہزار ریال بڑھنے کی توقع تھی۔ لیکن دو افراد کی ملی بھگت سے مجھے وہ پوزیشن خالی کرنا پڑی۔ میں نے اس معاملے کو اللہ تعالی کی حکمت سمجھتے ہوئے بہتر سمجھا۔ اور پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ فوری طور پر ایک نئی پوزیشن کا اجراء ہوا اور میں اس پوزیشن کے لئے بھی منتخب ہوگیا۔ اور الحمد للہ نئی پوزیشن پہ مجھے 1400 ریال کا اضافہ ملا۔ یہ سچ ہے کہ اللہ پہ توکل کرنے سے انسان گھاٹے میں نہیں رہتا اور جو دوسروں کا حق مارتےہیں انھیں جواب دینا پڑتا ہے ۔ خدا کے سامنے بھی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے ضمیر کے سامنے بھی رسوا ہوتے ہیں۔

    کسی کا دل دکھانے کے بعد بہتر ہوگا
    کہ آپ اپنی باری کا انتظار کریں!!
    اس واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے جو لوگ جان بوجھ کر کسی کا حق مارتے ہیں، غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں اور گناہ گار اور دھوکہ دہی کرتے ہیں ، اپنے دل کو کالا کردیتے ہیں۔ ان کے اندر ایک شیطان براجمان ہوجاتا ہےجو ہر فیصلہ ان کے حق میں کرتا ہے اور وہ بڑے فخر سے سر بلند کرکے کہتے ہیں کہ ہم ٹھیک کررہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ آپ کو الزام دیں گے، آپ پہ چڑھائی کریں گے کہ آپ غلط ہیں۔ ایسے لوگوں کو ایک ہی بار چوٹ لگتی ہے جو ان کی روح کو اندر سے گھائل کردیتی ہے۔ جب وہ اپنے اندر جھانکتے ہیں تب ان کو احساس ہوتا ہے ۔ تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ ‎سچ ہے کہ گزرا وقت لوٹ کر نہیں آسکتا اور پچھتاوے کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔

    یہ دنیا مکافات عمل ہے، یہاں ہر شخص کو اپنے کیے کا حساب دینا ہے، ہر جھوٹ ، ہر دھوکے، ہر فریب ، ہر تکلیف، ہر اذیت جو وہ کسی کو دیتا ہے، اُسے اپنی ذات پہ بھگتنا ہے۔ہر غلط ارادے ، سوچ، عمل کا حساب دینا ہے۔


    ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں آئے ہیں اور ایک دن واپس بھی جانا ہے۔

    ازل سے ہے مکافات عمل
    کا سلسلہ قائم
    رولایا جس نے اوروں کو
    وہ خود بھی چشم تر ہوگا۔۔۔۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نظم و ضبط

    نظم و ضبط کے معنی ہیں انتظام و انصرام کرنا، نظم اور ترتیب، سرکاری یا دفتری امور کا بندوبست۔


    نظم و ضبط ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی زندگی کو با اصول بناتا ہے۔ انسان کو صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش سکھاتا ہے۔ نظم و ضبط میں رہنے کی ترغیب اسی لئے دی جاتی ہے کہ ہم سچی اقدار کو اپنائیں ، محنت کو شعار بنائیں، شارٹ کٹ یا سُستی سے پرہیز کریں اور زندگی کو بہتر انداز میں گزار سکیں۔

    نظم و ضبط سے مراد ایک نظام، سلسلہ، ترتیب اور بندوبست ہے۔ انسان کے جسم میں جو اعضاءبنائے گئے ہیں وہ سارے کے سارے اپنا اپنا کام ایک مخصوص ضابطے یا قانون کے تحت کرتے ہیں۔ دماغ کے لئے ایک ضابطہ مقرر ہے۔ وہ اس کے تحت کام کررہا ہے۔ جسم کے دوسرے اعضاء بھی ایک مقرر قاعدے کے تحت ہی کام کرتے رہتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون اور ضابطہ ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی چیز باہر نہیں۔

    کائنات پہ غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے سورج ایک روشن ستارہ ہے جودنیا کو ناصرف روشنی دیتا ہے بلکہ دن کے اوقات بھی متعین کرتا ہے۔ جیسے صبح سورج کا طلوع ہونا، ایک نئی صبح کی نوید دیتا ہے، دوپہر کو سورج نصف النہار پر ہوتا ہے اور شام کو غروب ہوجاتا ہے۔ اور ایک پورے دن کی تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ سورج کی گردش سے موسم جنم لیتے ہیں۔ سورج کی تپش سے فصلیں اور پھل پک کر تیار ہوتے ہیں۔ اسی طرح رات میں چاند افق پہ ہلال کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور ہر روز اپنا سفر طے کرتے کرتے ماہ کامل بن جاتاہے۔ چاند کے علاوہ دیگر ستارے اور سیارے بھی کائنات قدرت کے نظام کا حصہ ہیں۔

    ہواؤں کا چلنا، موسموں کا بدلنا، برفوں کا پگھلنا اور ندی نالوں کارواں دواں ہونا یہ سب قدرت کے قوانین اور ضابطوں کا مظہر ہیں۔

    اسی طرح ہر ایک گھر کا اپنا نظم و ضبط ہوتا ہے۔ جس میں ایک سربراہ ہوتا ہے جو مالی وسائل کے حصول کے لئے سرگرداں رہتا ہے تاکہ گھر کا نظام چل سکے۔ گھر کا سربراہ پورے گھر کا ناظم اعلی ہوتا ہے۔ گھر میں درکار روازنہ استعمال کی اشیاء کا بندوبست کرنا اسی کے ذمہ ہوتا ہے۔ گھر کے طعام وقیام کےلئے خاتون خانہ سرگرم عمل ہوتی ہیں۔ مہمانوں کے استقبال، ان کی خاطر مدارت بھی خاتون خانہ کے ذمہ ہے۔ گھر کی صفائی، ستھرائی، کپڑوں کو دھونا اور انھیں ترتیب سے رکھنا خاتون خانہ سرانجام دیتی ہیں۔ جبکہ بچے اگر بڑے ہیں تو وہ اپنے ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔

    انسان کی بقاءو ارتقاء کے لئے مخصوص ضابطوں کی پابندی لازم ہے۔ اسلام اپنے اندر ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو یونہی زمین پر نہیں بھیجا۔ انسان کی تربیت اور ہدایت کے لئے اللہ تعالی نے اپنے انبیاء بھیجے تاکہ انسان کو نظم و ضبط کے تحت زندگیاں بسر کرنے کا طریقہ بتائیں۔ جیسے ارکان اسلام میں نمازوں کا حکم ہے۔ ہر نماز کا وقت ایک مقررہ وقت پر ادا کرنے کا حکم ہے۔ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح دوسری نمازوں کے لئے مختلف اوقات مقرر کئے گئے ہیں۔ جب اذان کی آواز ہماری سماعتوں سے ٹکراتی ہے تو ہم اپنی تمام مصروفیات چھوڑ کر اللہ کے گھر کی طرف چل پڑتے ہیں۔ مسجد میں پہنچ کر وضور کرتے ہیں اور پھر امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    نماز میں ہمیں پہلے وضو کرنا پڑتا ہے، تاکہ روحانی پاکیزگی کے حصول کے لئے جسم کے اہم حصوں کو دھو کر تازہ دم ہوجائیں۔ امام کی امامت میں نماز ادا کریں اور سلام پھیر کر اجتماعی دعا کرنا، نظم و ضبط کی بہترین مشق ہے۔ پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرنا ، ہمیں سکھاتا ہے کہ امام کی امامت میں اجتماعی سرگرمیوں کو کس طرح باقاعدگی اور اصول و ضوابط کے تحت ادا کیا جاتا ہے۔

    نماز ہمیں صفائی ستھرائی سکھاتی ہے، نماز ہمیں لیڈر کے حکم کی تعمیل سکھاتی ہے، نماز ہمیں اجتماعی طور پر ایک مقصد کے حصول کے لئے متحد ہو سرگرم عمل کرنا سکھاتی ہے۔ نماز ہمیں اپنے رب سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔

    عالمی سطح پہ امت مسلمہ کا اجتماع حج کے موقع پہ ہوتا ہے جہاں لاکھوں مسلمان مناسک حج ادا کرتے ہیں۔ ایک جیسا لباس، اکٹھے طواف کرنا، سعی کرنا، رمی کرنا، قربانی دینا غرض ہر جگہ انہیں نظم و ضبط کا پابند رہنا ہوتا ہے۔

    زندگی میں اسی قوم نے ترقی کے زینے طے کئے ہیں، جس میں اتحاد اور نظم وضبط پایا جاتا ہے۔جو قومیں بے اصولی سے زندگی گزارتی ہیں ان میں نہ تو اتحاد پایا جاتا ھے اور نہ ہی نظم وضبط۔ ایسی قوموں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر فساد برپا ہوجاتا ہے۔کوئی کسی کی بات نہیں سنتا۔ہر کوئی اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے۔مراد یہ کہ ہر کوئی اپنی اپنی ڈفلی بجا تا ہے اور ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپتا ہے ۔

    نظم و ضبط اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ہر کہیں اس کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ جہاں پر نظم نہیں وہاں افراتفری اور غلط نتائج ہی نظر آئیں گے۔ دنیا کا ہر کام کسی نہ کسی ضابطے یا قاعدے کے تحت ہوتا ہے۔زندگی میں خوبصورتی نظم و ضبط کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔

    ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات و احساسات کا احترام کریں اور ہمارا قول و فعل سوسائٹی کےلئے مفید ثابت ہو۔ اگر ہم معاشرے میں رہتے ہوئے کسی قانون اور ضابطے کا خیال نہیں کرتے تو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اگر ہم نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں اور اتحاد و اتفاق سے زندگی بسر کریں تو ہماری زندگیوں میں سلیقہ اور ایک جمال دکھائی دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں کے ہر شعبے میں نظم و ضبط پیدا کریں اور اپنی زندگی کو ایک خوشگوار راستے پر گامزن کریں۔۔۔۔


    بانی پاکستان قائد اعظم نے قوم کو اتحاد، یقین اور تنظیم کا عظیم سبق دیا ہے۔ جس قوم میں نظم و ضبط نہیں ہوتا وہ جلد صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوجاتی ہے۔ اسلام کا عروج بھی قومی نظم و ضبط‘ اتحاد و تنظیم کے طفیل ہوا۔

    اگر ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے اور ہم واقعی پاکستان سے مخلص ہیں اور اپنی قوم کو دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیئے۔ اور اٹھتے بیٹھتے ‘ چلتے پھرتے ہر مقام پر ہر وقت اتحاد اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔

    یاد رکھئے کہ سائنس منظم علم ہے اور دانائی منظم زندگی۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    ھارون رشید اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب لکھ رہے ہیں جاری رکھئے

    اور شکریہ کے ساتھ شاباش بھی قبول کیجئے
     
    آصف احمد بھٹی اور غوری .نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ جناب۔
    کوشش یہی ہے کہ زندگی کو بامقصد بناتے ہوئے خلوص دل سے کچھ ایسا کرجاؤں جو دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو۔
     
    آصف احمد بھٹی اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی کاوش ہے
    ان شاء اللہ اگلے ماہ لاہور کا ٹور ہے آپ کا دیدار حاصل کرنے کی کوشش کروں گا
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    جی ضرور تشریف لائیے انتظار رہے گا۔
    جی آیاں نوں
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پابندی وقت

    دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لئے جو سنہری اصول و ضوابط ہیں، ان میں سب سے اہم نکتہ وقت کی پابندی ہے۔ شخصی تربیت ہو یا زندگی میں اعلی کارکردگی، ترقی کے سفر کے لئے وقت کا صحیح استعمال بہت ضروری ہے۔ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے اور فضول باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہر ایک کام کو وقت پر نمٹانا ایسی عمدہ خوبی ہے جو انسان کو ہر شعبہ زندگی میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے۔

    وقت نہایت قیمتی دولت ہے اور اس سے بہترین استفادہ حاصل کرنے کا راز یہ ہے کہ اسے مکمل طور پر منظم اور مربوط انداز میں صرف کیا جائے، اور پابندی وقت ایسا زریں اصول ہے جس پر انسانی شخصیت کی تعمیر، ترقی اور خوش حالی کی عمارت استوار ہے۔ یہ صفت ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے اختیار کرنے سے انسان بلند ترین اہداف حاصل کرسکتا ہے اور انتہائی اہم امور میں بھی زبردست کامیابی سے سرفراز ہوسکتاہے۔

    کام کوبروقت انجام دینا وہ پرکشش عادت ہے جو فتح و کامرانی کے باب کھول دیتی ہے۔ وقت کی پابندی کے ان گنت فوائد ہیں ۔ وقت کی بہترین منصوبہ بندی سے انسان کو زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوسکتی ہیں۔اور نظم و ضبط کی شاندار صفات کسی بھی شخصیت کا عنوان اور پہچان بن سکتی ہے۔ اگر اس خوبی کو پختگی اور استحکام سےعمل میں لایا جائے تو زندگی میں غیر معمولی کامیابیوں کے حصول کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔

    دراصل وقت ہی زندگی ہے۔ کیونکہ اپنی پیدائش سے لیکر آخری سانس تک جو بھی وقت انسان کے مقدر میں لکھا ہے وہی اس کی زندگی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم وقت کو اہمیت دیں اور اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور بھرپور وقت دیکر علم حاصل کریں۔ تاکہ زمانے میں ہم پیچھے نہ رہ جائیں۔

    ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور وہ کام اسی وقت پہ کرنا سود مند ہوتا ہے۔ ایک دور ایسا ہوتا ہے جب انسان تعلیم حاصل کرسکتا ہے تاکہ اس کا مستقبل تابناک بن سکے۔ اس دوران تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں میں وقت گزاری بہت مہنگی پڑتی ہے۔

    پابندی وقت کی عادت بچپن ہی میں ڈالنا ضروری ہے۔چھوٹی عمر میں جو بری عادتیں پڑ جاتی ہیں وہ بڑے ہوکر بھی قائم رہتی ہیں اور مرتے دم تک ساتھ نہیں چھوڑتیں ، اس لیے بچپن میں ہی اچھی عادتیں پختہ ہونی چاہیے۔ ہر کام وقت پر کرنا بہت اچھی اور مفید عادت ہے اس لیے زندگی کے اوائل میں ہی اسے پختہ کر لینا چاہیے اس سے ساری زندگی آرام و سکون کے ساتھ گزرے گی۔ کامیابی قدم چومے گی ۔ وقت پر سونا، وقت پر جاگنا، وقت پر کھانا پینا، وقت پر بیٹھنا، وقت پر کھیلنا غرض ہر کام مناسب وقت پر سر انجام دینا چاہیے۔

    اگر ہم کائنات قدرت پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی دیکھنے کو ملے گا کہ یہاں ہر کام متعین وقت پر انجام پارہا ہے۔ سورج ہر روز خاص وقت پر طلوع ہوتا ہے اور اس کے غروب ہونے کے لمحات بھی طے شدہ ہیں۔ سال بھر کے تمام موسم خاص مہینوں میں ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ہر روز رات اور دن کے قائم ہونے کے اوقات مخصوص ہیں۔ کائنات کا حسن و جمال اور اس کی سلامتی تمام فطری امور ، وقت پر انجام پذیر ہونے میں مضمر ہیں۔


    وقت کا کوئی نعم البدل نہیں۔ ہر شے انسان کو بار بار مل سکتی ہے مگر گزرا ہوا وقت کبھی واپس نہیں آسکتا۔ وقت اگر ضائع ہو جائے تو اس کی واپسی کی قطعاً کوئی توقع نہیں کی جاسکتی لہٰذا ’’وقت‘‘ کائنات میں قدرت کی عطا کردہ قیمتی ترین نعمت ہے۔ اس لئے ہر انسان کو چاہیے کہ وقت کی قدر کرے اور اسے ضائع نہ ہونے دے۔

    ہمارا دین ہمیں ’’وقت کی پابندی‘‘ کا درس دیتا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد ان تمام ارکانِ اسلام کی ادائیگی وقت کی پابندی سے مشروط ہے۔ پنج وقتہ نماز جو کہ دین کی بنیاد ہے‘ اس کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں۔ روزے رکھنے کا اہتمام رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے مخصوص اوقات کے ساتھ فرض قرار دیا گیا ہے اسی طرح حج کے فریضہ کی ادائیگی کا معاملہ مخصوص اوقات‘ ایام اور مقامات کی پابندی کے تصور سے مشروط ہے۔

    دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ گزرے ہیں، انھوں سے ہمیں وقت کی قدر کا پیغام دیا ہے۔ انھوں نے تلقین کی ہے ہم ہر کام میں وقت کے پابند رہیں۔ بے کار اور بے فائدہ کام کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔

    جو انسان وقت کی قدر نہیں کرتا وہ پچھتاتا ہے ۔ جو قوم وقت اور موقعہ کو غنمیت نہیں جانتی وہ دنیا میں پیچھے رہ جاتی ہے۔ اگر صحت، ترقی، شہرت، عزت اور سب سے بڑھ کر کردارکی نعمتوں سے مالامال ہونے کی آرزو ہے تو ہر حال میں وقت کے پابند رہو۔


    ہوشیاری اور سمجھ داری اسی بات میں ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات میں مناسب وقت پر درست فیصلہ کرے اور اپنی ذمے داریوں کو بروقت اور احسن انداز میں پورا کرے۔

    فارسی میں ایک مشہور مقولہ ہے:-

    وقت از دست رفتہ و تیر از کمان جستہ باز یناید
    ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتے

    ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے، وقت اور صحت۔ (صحیح بخاری)

    زندگی چند روزہ ہے۔اس لئے وقت کی قدر اور بھی زیادہ ہونی چاہیے اور اس مختصر زندگی میں ایک لمحہ بھی ضایع نہیں کرنا چاہیے۔جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں وہ ہر کام جلد سے جلدانجام دیتے ہیں اور کبھی وقت کی کمی کی شکایت نہیں کرتے۔ ان کے تمام کام وقت پر پورے ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو آدمی سست اور غافل ہوتا ہے اس کا وقت یوں ہی گذر جاتا ہے اور وہ کوئی کام وقت پر نہیں کر سکتا اس لیے اس کے کام ادھورے رہ جاتے ہیں اور وہ نا کام و نامراد ہو کر کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے۔ وقت کی پابندی کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہم اپنے وقت کو سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق صرف کریں بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کا وقت بھی ضایع نہ کریں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    زنیرہ عقیل اور آصف احمد بھٹی .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    شادی

    شادی کا لفظ فارسی زبان کے لفظ شاد (بے غم، خوش حال) کے ساتھ لاحقہ کیفیت "ی" کے اضافہ سے وجود میں آیا۔ اس کے معنی ہیں خوشی، مسرت، انبساط۔ بنیادی طور پر شادی کی تعریف یہ کی جاسکتی ہے کہ وہ رسم یا قانونی معاہدہ جس کے ذریعےمرد کو شوہر اور عورت کو بیوی کی حیثیت سے رشتہ ازدواج میں منسلک کیا جاتا ہے۔ اور معاشرے میں ایک نئے گھرانے کا اضافہ ہوتا ہے۔

    شادی (نکاح ) ایک ایسا رشتہ ہے جو معاشرت کا نقطہ آغاز ہے۔ اس میں ایک مرد اور عورت مل کر معاشرے کی اکائی یعنی ایک خاندان بناتے ہیں۔ ایک اچھا جوڑا، اللہ تعالی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا جاتاہے۔

    شادی صرف ایک ہی عورت سے ہوتی ہے کیونکہ جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق کی تو اماں ہوا کو پیدا کیا۔ اگر ایک مرد کے لئے چار چار بیویاں ضروری ہوتیں تو اللہ تعالی چار اماں ہوا پیدا کرتے۔ یہ چار بیویوں کا تصور انسان کی کج فہمی کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ یہ نا تو عورت کے لئے ممکن ہے اور نا ہی مرد اس آزمائش کا متحمل ہوسکتا ہے۔ چار شادیاں ایمرجنسی صورت حال (جنگ یا بیماری میں اکثریت مردوں کی تعداد لقمہ اجل بن جائے) میں یتیم اور بیوہ عورتوں کی کفالت کے لئے ہوتا ہے۔

    ایک وقت میں ایک ہی بیوی انسان کی ضرورت ہے اور اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی کھنچاؤ یا بدمزگی ہے تو اسے افہام و تفہیم سے دور کیا جاسکتا ہے۔ لیکن طلاق یا دوسری شادی کرنا افضل عمل نہیں ہے۔مردوں کو ازدواجی زندگی میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے عورت کے اندر جتنا حیاء کا مادہ رکھا ہے اگر یہ مادہ اس مقدار میں نا ہوتا تو یہ دنیا فحاشی سے بھر جاتی۔ شوہر اور بیوی میں اعتماد اور احترام کا رشتہ ان کے مستقبل کی ضمانت ہے۔

    شادی کی ضرورت:

    ایک نوجوان جو تعلیم سے فارغ ہوکر برسرروزگار ہو، وہ جب تک بیوی جیسی لائف پارٹنر سے محروم رہتا ہے اس کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی ہوتی ہے۔ اس کی بہت سی صلاحیتیں محدود ہوکر رہ جاتی ہیں بلکہ دب کر رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح عورت جب تک شوہر سے محروم رہے، اس کی حیثیت انگور کی اس بیل کی طرح ہے جو سہارا نہ ملنے کے باعث پھیلنے اور پھلنے پھولنے سے محروم رہ جاتی ہے۔

    عورت کو مرد مل جائے اور مرد کو بیوی کی رفاقت حاصل ہوجائے تو دونوں کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور زندگی کے میدان میں دونوں مل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اور اللہ تعالی ان دونوں کی جدوجہد میں برکت دیتا ہے اور ان کے حالات خوش گوار طور پر بالکل بدل جاتے ہیں۔

    شادی کے لئے مناسب عمر کیا ہے:-

    نوجوانوں کی شادی اس وقت ہو جانی چاہیے جب وہ واقعی نوجوان ہوں۔ وقت پر شادی کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مرد و زن کی زندگی اکثر مفسدات سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ وقت پہ شادی کرنے سے پاکدامن معاشرہ وجود میں آتا ہے جہاں نفسیاتی طور پر صحتمند شخصیتیں پروان چڑھتی ہیں۔

    سترہ سے بائیس سال کی عمر کے نوجوانوں میں ہارمونز پورے طور پر متحرک ہوتے ہیں۔ جب کوئی بھی نوجوان لڑکا ہو یا لڑکی اس کے چہرے پہ قدرتی شادابی ، جاذبیت، دلکشی ، حسن اور کشش ہوتی ہے اور انسان کسی عام سی شکل کے لڑکے یا لڑکی سے بھی شادی کرنے پر تیار ہوجاتاہے۔ یہی مناسب وقت ہوتا ہے جب شادی کرنا چاہیے ۔ زندگی کا حسین ترین دور وہ ہوتا ہے جب انسان شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد اپنے گھر کے علاوہ ایک دوسرے خاندان کے افراد سے میل ملاپ کرتا ہے۔ رشتوں کو نبھانے ، انھیں جوڑے رکھنے کے گوں نا گوں مراحل سے گزرتا ہے۔اور مہر و وفا کرنا سیکھتا ہے۔

    بیس بائیس سال کی عمر کے بعد شادی میں جتنی تاخیر ہو اسے تاخیر ہی سمجھنا چاہیے۔تاہم شادی کے لئے لڑکیوں کے لئے آخری حد عمر 21 تا 28 سال ہے جبکہ مردوں کی عمر 25 تا 32 سال ہے۔ اس دوران شادی ضرور کردیں۔ کیونکہ یہ ڈھلتی ہوئی عمر ہوتی ہے اور رشتے تاخیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    شادی کے لئے اصل عمر تو یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں ذہنی طور پر اتنے سمجھدار ہوں جو زمانے کے اتار چڑھاؤ سے اچھی طرح واقف ہوں۔ اور معاشرتی مسائل سے بھی باخبر ہوں۔ دونوں فریقوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے۔ خصوصا ًمالی معاملات کو کس طرح سنبھالنا ہے۔ دونوں فریقوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ زندگی محض کھیل کود کا نام نہیں بلکہ عملی زندگی قربانیاں مانگتی ہے۔ اور دونوں فریقوں میں قوت برداشت کا ہونا بہت ضروری ہے اور ذاتی انا کو کبھی آڑھے نہ آنے دیں ۔

    کچھ لوگ کم عمری میں پختہ ذہن کے ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے ہوکر بھی بڑے نہیں ہوپاتے۔ تاہم شادی کے لئے ضروری ہے کہ لڑکا اور لڑکی اپنی اپنی ذمہ داریوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور مالی معاملات کو عقل اور د لیل سے سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

    اگر لڑکی کی تعلیم مکمل ہوگئی ہے اور امور خانہ داری میں ماہر ہے تو اس کی شادی کردیں۔ کیونکہ جیسے جیسے عمر ڈھلتی ہے چہرے کا روپ مانند پڑنے لگتا ہے۔

    اسی طرح اگر لڑکا تعلیم سے فارغ ہوگیا ہے اور برسرروزگار ہے تو اس کی شادی کردیں تاکہ عائلی زندگی کا آغاز کرکے معاشرے میں اپنی جگہ بناسکے۔

    شادی کے لئے عمر کا فرق:

    بڑی عمر کی عورت کم عمر مرد کے ساتھ ازدواجی تعلقات کو پسند کرتی ہے۔ اور مرد بھی عورت کی خود اعتمادی ، ذہنی پختگی پسند کرتا ہے۔ جس کے باعث یہ رشتہ اور مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں کی زندگی بہت پرسکون گزرتی ہے۔ بڑی عمر کی عورت ایک اچھی ماں کے طور پر اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ بڑی عمر کی عورت اپنے خاوند کو کاروبار یا نوکری کے بارے میں اچھے مشورے دیتی ہے، گھریلو معاملات کو بہترین انداز میں دیکھتی ہے اور انہیں سلجھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔

    جبکہ چھوٹی عمر کی عورت مرد کے لئے بے شمار مشکلات کھڑی کرتی ہے۔ اور مرد کو سمجھنے کی بجائے اپنی رائے اور اپنی خواہشات کو اہمیت دیتی ہے۔چھوٹی عمر کی عورت ہمیشہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کو اپنے خاوند کے سر تھوپ کر اپنے آپ کو کسی خطا سے پاک رکھنا چاہتی ہے۔ ایک کم عمر عورت سے نبھاہ اس لئے بھی مشکلات سے دوچار ہوتا ہے کہ ذہنی ہم آہنگی میں بہت فرق ہوتاہے۔

    اگر عورت اپنی ذات سے بلند ہوکر خود کو مرد کی حاکمیت میں دے دے اور جہاں ضرورت ہو اپنی رائے کا اظہار کرکے معاملات کو سلجھانے میں اپنے شوہر کی مدد کرے تو یہ بہترین ازدواجی زندگی ہوسکتی ہے۔ مسلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب عورت اور مرد کی سوچ میں یگانگت نہ ہو۔

    شادی پسند کی ہو یا والدین کا انتخاب ، جب تک شیریں کلامی، نرم خوئی، صبر، برداشت اور درگزر سے کام نہ لیا جائے تو دونوں ہی ناکام ناکام رہتی ہیں۔

    لڑکیاں سسرال جاتے ہی وہاں راج کرنے کی نہ سوچیں، بلکہ اپنی جگہ بنائیں، محبتیں پھیلائیں، دلوں کو جیتیں۔ عقلمند عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کی پسند کو اپنی پسند، شوہر کی ناپسند کو اپنی ناپسند سمجھے۔ ایسا کرنے سے ایک دن خود راج کا تاج آپ کے سر سجا دیا جائے گا۔

    شادی میں تاخیر کا سبب:

    اگر شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہوجائے تو نوجوان خصوصا ً لڑکیاں جو جسم میں کام کرنے والے ہارمونز کے زیر اثر پیدا ہونے والے احساسات کے باعث اپنے ذہن میں صنف مخالف کا ایک رومانوی خاکہ ترتیب دیتی ہیں جو حقیقی زندگی سے بہت ذیادہ دلکش اور حسین ہوتا ہے۔ اور ایسی لڑکیوں کا ذیادہ وقت آئینے کے سامنے گزرتا ہے۔ اور ان کے خوابوں کا شہزادہ نجانے کہاں گم رہتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں اسی وجہ سے نکاح نہیں کرپاتیں کہ انھیں موزوں رشتہ نہیں ملا۔ اس مسلے نے ہر گھر میں اضطراب اور ہیجانی کیفیت برپا کر رکھی ہے۔

    بعض لڑکوں کی شادی نئے مکان کی منتظر ہوتی ہے۔ لڑکے کی عمر پینتیس برس ہوگئی لیکن سوچ یہ ہے کہ نیا گھر بناؤں گا پھر شادی کروں گا۔ ایسے لڑکوں کے لئے مشورہ ہے کہ پہلے شادی کرو، نیا گھر بناتے بناتے تم پرانے مکان نہ بن جانا۔ مجبوری میں ایک کمرہ بھی ہو تو نکاح کرکےبیوی گھر لے آؤ، اللہ تعالی تمہارے رزق میں برکت دے گا پھر نیا مکان بھی بن جائے گا۔ ظاہر نمود و نما‏ئش چھوڑو اور برائی سے بچو۔

    کچھ لوگ شادی کو بوجھ سمجھتے ہیں کہ اس مہنگائی کے دور میں کیسے بچوں کی کفالت کرسکیں گے۔ ایسی سوچ ہمارا اپنا انتخاب ہے ۔ جبکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں نکاح کرو رزق میں اضافہ ہوگا۔ اور اسی طرح کثرت اولاد بھی دینی مطالبہ نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ والدین کو اپنے حالات اور مالی وسائل کے اعتبار سے کرنا چاہیے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بقیہ شادی۔۔۔۔

    شادی کے لئے بہترین لڑکی کون ہے:-

    اہل عرب کے ہاں مشہور ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ ان سات قسم کی عورتوں (انانہ، براقہ، حداقہ، حنانہ، شداقہ، کنانہ اور منانہ) سے شادی نہ کرنا، خواہ وہ کتنی ہی حسین و جمیل ہوں یا مالدار ہوں۔

    وہ سات عورتیں کون ہیں:-

    انانہ:- ایسی عورت جو ہمیشہ سر پر پٹی باندھے رکھے۔ کیونکہ شکوہ و شکایت اس کا معمول ہوتا ہے۔

    براقہ:- وہ عورت جو ہر وقت اپنی چمک دمک میں ہی لگی رہے-

    حداقہ:-ایسی عورت جوشوہر سے ہر وقت فرمائش ہی کرتی رہے، جو چیز بھی دیکھے اس کی طلبگار ہو جائے-

    حنانہ:- ایسی عورت جو ہر وقت اپنے سابقہ شوہر کو ہی یاد کرتی رہے اور کہے کہ وہ تو بڑا اچھا تھا مگر تم ویسے نہیں۔

    شداقہ:- وہ عورت جو تیز زبان ہو اور ہر وقت باتیں بنانا ہی اس کا کام ہو-

    کنانہ:- ایسی عورت جو ہمیشہ ماضی کو یاد کرے کہ فلاں وقت میں میرے پاس یہ تھا اور وہ تھا۔

    منانہ:- وہ عورت جو ہر وقت مرد پر اپنا احسان جتاتی رہے۔ اور گلہ کرے کہ مجھے تجھ سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔


    شادی اور صحت کا تعلق:

    شادی کا تعلق اچھی صحت سے جڑا ہوا ہے۔ کینسر کے شکار شادی شدہ مریضوں میں اس بیماری سے بچنے کا امکان کنوارے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

    شادی شدہ افراد کو زیادہ بہتر سماجی معاونت حاصل ہوتی ہے جو ان کو اس جان لیوا مرض سے بچانے میں کنجی ثابت ہوتی ہے۔


    آپ کا شریک حیات روزمرہ کی بنیاد پر آپ کی زندگی بچانے کا باعث ہوتا ہے۔

    درمیانی عمر کے شادی شدہ افراد اپنے غیر شادی شدہ ساتھیوں کے مقابلے میں جسمانی طور پر زیادہ فٹ، مضبوط گرفت اور تیز چلتے ہیں۔

    شادی شدہ افراد مطلقہ افراد کے مقابلے میں زیادہ تیز چلتے ہیں جبکہ مطلقہ خواتین کی گرفت کمزور ہوجاتی ہے۔

    شادی شدہ جوڑا کو اپنے تحفظ کا زیادہ خیال، بہتر نیند، تناؤ کی سطح میں کمی، دماغی امراض سے تحفظ، طویل زندگی، فالج کا امکان کم ہوتا ہے، ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔

    شادی کرنے میں 8 حیران کن طبی فوائد ہیں:

    1 آپریشنز کے بعد بچنے کا زیادہ امکان - ایک اچھا شریک حیات بڑی سرجری کے بعد ریکور کرنے کے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جیسے دل کا بائی پاس وغیرہ۔ خوش باش جوڑوں کا بڑی سرجری کے 15 سال بعد بھی زندہ ہونے کا امکان تنہا افراد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اچھا رشتہ لوگوں کو تندرست رہنے میں مدد دیتا ہے تاہم ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب جوڑا ایک دوسرے سے مطمئن ہو۔

    2 اپنے تحفظ کا زیادہ خیال - شادی شدہ جوڑے کے اندر خطرناک سرگرمیوں کا حصہ بننے کا امکان کم ہوتا ہے جیسے جان لیوا انداز سے ڈرائیونگ یا نقصان دہ اشیاء(نشے کا استعمال) سے دوری وغیرہ۔ جب لوگوں کی شادی ہوجاتی ہے تو ان کے اندر خطرناک اقدامات کے رجحان میں نمایاں کمی آتی ہے اور اس کی وجہ ممکنہ طور پر ان لوگوں کا احساس ہوتا ہے جو ان پر منحصر ہوتے ہیں (بیوی، شوہر اور بچے) اور اس وجہ سے وہ اپنے تحفظ کا خاص خیال رکھتے ہیں۔

    3 بہتر نیند - اگر شریک حیات سے تعلق خوشگوار ہے تو آپ کی نیند بھی نامطمئن جوڑوں یا تنہا افراد کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ شادی کے بعد تعلق خوش باش ہو تو لوگوں کی نیند کا معیار بہتر ہوجاتا ہے تاہم ناخوش جوڑوں میں یہ نیند متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے اور اگر نیند پوری نہ ہو تو موٹاپے سمیت چڑچڑے پن اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔


    4 تناؤ کی سطح میں کمی - شادی کے بندھن میں بندھ جانا لوگوں کے اندر ذہنی تناؤ یا مایوسی کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کردیتا ہے۔ طویل المعیاد خوش گوار تعلق ان ہارمونز میں تبدیلی لاتا ہے جو تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اگرچہ شادی کے بعد کی زندگی بیوی بچوں کی دیکھ بھال اور معاشی تناؤ جیسے چیلنج سے بھرپور ہوتی ہے مگر شادی شدہ افراد کے لیے اپنی زندگیوں کے دیگر مسائل پر قابو پانا کافی حد تک آسان ہوتا ہے۔

    5 دماغی امراض سے تحفظ - شادی شدہ مرد اور خواتین میں متعدد دماغی امراض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ شادی شدہ جوڑے کے اندر ڈپریشن کی شرح کم ہوتی ہے اور دیگر نفسیاتی عوارض لاحق ہونے کا خطرہ کنوارے افراد یا مطلقہ افراد کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔


    6 فالج کا امکان کم ہوتا ہے - شادی شدہ مردوں میں جان لیوا فالج کے دورے کا خطرہ تنہا مرد کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ غیرشادی شدہ افراد کے مقابلے میں شادی شدہ افراد کو فالج کی صورت میں فوری طبی امداد میسر ہونے کے امکان ہوتے ہیں۔

    7 ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم ہوجاتا ہے - شادی کرنا مرد اور خواتین دونوں میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ کم کردیتا ہے۔ شادی سے ہر عمر کے مرد اور خواتین میں خون کی شریانوں کے مسائل سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے اور اس کی وجہ شادی شدہ افراد کی صحت مند زندگی گزارانا، زیادہ دوست اور سوشل سپورٹ حاصل ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ کنوارہ انسان کتنا ہی شریف النفس ہو معاشرے میں اسے ہر جگہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر فیملیاں سنگل لوگوں کے ہاں کم آتی ہیں۔


    8 طویل زندگی - شادی کا سب سے بڑا فائدہ طویل العمری ہے۔ شادی کے بعد جوڑوں کی زندگی کے دورانیے میں کئی برسوں تک کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ غیرشادی شدہ افراد میں جلد موت کا خطرہ دوگنا زیادہ ہوتا ہے۔

    شادی بیاہ کی تقریبات :


    دنیا میں معاشرتی بگاڑ کی وجہ سے بہت سی نفسیاتی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ جس کا باعث خود بنی نوع انسان ہے۔ جیسے معاشرے کی بے جا رسم و رواج نے ایک عام انسان کی زندگی میں پریشانیوں کو پروان چڑھایا ہے۔ اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا بلکہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ جبکہ کوئی بھی ذی شعور انسان اسے ہمارے معاشرے کے موافق نہیں سمجھتا مگر اس کے خلاف آواز اٹھانے والے کہیں نہیں دکھائی دیتے۔

    شادی بیاہ ایک فطرتی عمل ہے جو ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے نکاح برائیوں سے روکتا ہے اور خاندان بڑھانے کی علامت ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پہ افراد کی خوشی قابل دید ہوتی ہے۔ اسلام ایسے موقع پر خوشی منانے سے منع نہیں کرتا، بلکہ نکاح کے بعد دلہے کی طرف سے ولیمہ کا اہتمام، شرعی طریقے سے خوشی کا اظہار ہے۔ مگر ہم لوگ شادی بیاہ کی فضول خرچیوں میں اسراف سے کام لیتے ہیں اور بہت سی غیر ضروری رسموں کی وجہ سے شادی کی تقریبات میں بھی حد سے تجاور کرجاتے ہیں۔

    معاشرے کے امیر لوگ جو صاحب ثروت ہیں انھیں اپنا مال و دولت نمائش کرنے کی خواہش نے معاشرے کو جکڑ کر رکھ دیا ہے۔ اور بہت سے متوسط طبقہ کے لوگ معاشرے کی اس غلط روایت کی نظر ہورہے ہیں۔ یہ سب فضولیات جھوٹی شان و شوکت اور انا لوگوں کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی بھی شادیوں کے لئے ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔ لوگ سود پر قرض لے کر شادیاں کررہے ہیں۔ اور برسہا برس قرض کے بوجھ تلے دب کر ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔

    معاشرے میں دکھاوے کی یہ فضا بہت سے مجبور والدین کو ذہنی مشقت اور نفسیاتی آگ میں جھونک رہے ہیں۔ ایسی کیفیت سے انسانی معاشرے میں نفرت اور نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ بہت سی شادیاں انہی جھوٹی انا پرستی، فضول خرچیوں اور رسموں کی وجہ سے نہیں ہوپارہیں۔

    متوسط طبقے کو اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہیں۔ اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپنانا چاہیے۔

    یاد رکھیں کہ شادی کے چھہ شرعی اعمال ہیں۔ جس میں دو فرائض ہیں۔ ایک ہے ایجاب و قبول اور دوسرا دو گواہ۔ اسی طرح ایک واجب ہے جسے کہتے ہیں مہر۔ اور اس کے علاوہ تین سنتیں ہیں۔ ان میں خطبہ نکاح، تقسیم چھوہارہ اور ولیمہ۔ ان اعمال کے علاوہ شادی میں جو کچھ بھی کیا جاتا ہے وہ غیر شرعی اور خلاف سنت ہے۔


    ذاتی انا، دوستوں اور رشتہ داروں کو خوش کرنے کے لئے اللہ تعالی کو نہ ناراض کریں۔
    عبدالقیوم خان غوری - لاہور

    نوٹ: اس موضوع میں جو معلومات درج ہیں، اسے میری ذاتی رائے تصور کیجئے اور ضروری نہیں آپ سب اس سے اتفاق کریں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں