1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

غوریات

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از غوری, ‏10 مارچ 2019۔

  1. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پردیس

    پردیس کے معنی ہیں بیگانہ ملک، غیر وطن، دیار غریب، دیار غیر اور غیر ملک اور وہ جگہ جو ہمارے وطن یعنی اپنے شہر ، اپنے گاؤں، اپنے محلے، اپنی گلی اور اپنے گھر سے دور ہو۔

    اللہ تعالی ہر انسان کو اس کی استطاعت کے مطابق زحمت دیتے ہیں ۔ جو لوگ بچپن سے ہی صبر و تحمل سے کام لینے والے ہوں اور ہر حالت میں خوش رہیں اللہ تعالی انھی کو ایسے مشکل مراحل سے گزارتا ہے جسے دوسرے لوگ جھیل نہ سکیں۔

    جنھیں احساس ہو، خود دار ہوں اور اپنے گھر والوں کی فکر کرنے والے ہوں اللہ تعالی انھیں کسی بڑے مشن کے لئے منتخب کرلیتے ہیں۔

    اپنے گھر سے ہٹ کر کسی دور دراز جگہ خواہ وہ اپنے ملک میں ہی کیوں نہ ہو انسان کے لئے پردیس ہوتا ہے۔ جبکہ اپنے ملک سے دور کسی دوسرے ملک جانا بھی پردیس کہلاتاہے۔ تاہم ، پردیس کاٹناہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ ایک انجانی جگہ پہ ، انجانے لوگوں میں ایڈجسٹ ہونا، بے شمار ناگوار باتوں کو صبر و استقامت سے برداشت کرنا، اپنا کام خود کرنا، اپنے جوتے پالش کرنا، اپنے کپڑے خود دھونا، اپنے برتن خود دھونا اور کبھی کبھی خود پکانا، یہ سب کچھ پردیس میں عام سی بات ہے۔

    اللہ تعالی انھی لوگوں کو پردیس کے لئے منتخب کرتے ہیں جنھیں آئندہ زندگی میں کوئی بڑی ذمہ داری نبھانا ہو۔ جیسے گھر کے مالی حالات اس قدر دگرگوں ہوں کہ آئے دن اُدھار کی رقم کا تقاضہ کرنے والے اًول فًول بک کے چلے جائیں، گھر میں ایک بہن یا کئی بہنوں کی شادی کی تیاری کرنا ہو، کوئی سنجیدہ بیماری کا علاج مقصود ہو۔ یا کرائے کے مکان کا کرایہ ادا کرنا محال ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

    اللہ تعالی ماسٹر پلانر ہیں ۔ جب بھی کوئی شخص دیار غیر کے لئے کمر بستہ ہوتا ہے اللہ تعالی نے خاص طور پر اسے ہی چنُا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہی شخص دیارِ غیر میں اپنی خدمات سرانجام دے کر وہاں کے لوگوں کے لئے رحمت بنے گا اور ان کی ترقی میں وہاں کے لوگوں کے لئے راستے ہموار کرے گا جو مقامی لوگ سر انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اور اُس کے ساتھ ساتھ اس شخص میں اللہ تعالی نے احساس ذمہ داری اور گھر والوں کے دکھ درد کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پہلے سے دی ہوتی ہے۔

    ہم اپنی جوانی میں یہی سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے تیس مار خان ہیں اور ہم پردیس کاٹ لیں گے اور اپنے گھر والوں کے لئے کچھ نہ کچھ پس انداز کرلیں گے۔ جبکہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کا لطف و کرم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ہمارے بچپن میں ایسی ایسی منازل طے کروا دی ہوتی ہیں جس کے بل بوطے پر ہم پردیس جیسی اذیت اور قید کو بھی گلے لگا سکیں۔

    پردیس ایک عذاب ہے۔ جسے روزانہ کی بنیاد پر جھیلنا پڑتا ہے۔
    پردیس ایک آزمائش ہے جسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔
    پردیس ایک امتحان ہے جس میں ناکامی کی گنجائش نہیں۔
    پردیس وہ مقام ہے جہاں کی سرزمین، وہاں کے لوگ ، وہاں کے موسم، وہاں کی زبان اور وہاں کے کھانے، سبھی کچھ اجنبی ہوتے ہیں۔
    پردیس میں ہرشے ہماری فطرت کے برعکس ہوتی ہے جسے خوش دلی سے قبول کرنا پڑتا ہے۔
    پردیس میں کوئی غمخوار نہیں ہوتا۔
    پردیس میں کوئی ہم نوا نہیں ہوتا۔
    پردیس میں کوئی ہم سفر نہیں ہوتا۔
    پردیس کا اچھے سے اچھا وقت اپنے وطن میں گزرے ہوئے مشکل ترین وقت سے کڑا محسوس ہوتا ہے۔
    پردیس میں انسان اپنی بقاء کی جنگ اکیلے لڑتا ہے۔
    پردیس میں ماں کی ممتا کا سہارا نہیں ہوتا۔
    پردیس میں شفقت پدری عنقا ہوجاتی ہے۔
    پردیس میں بہنوں کی محبت اور بھائیوں کا کندھا نہیں ہوتا۔

    پردیس میں اگر بیمار ہوجائیں تو تیمار داری کے لئے کوئی نہیں ہوتا،کیونکہ سبھی اپنے اپنے روزگار کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں۔ اپنی تنہائی کو اکیلے ہی سہنا پڑتاہے۔ کھچڑی کا تصور ذہن میں ضرور گھومتا ہے مگر کوئی تڑکا لگاکر دینے والا نہیں سجھائی دیتا۔ یاس و امید کی جنگ جاری رہتی ہے اور وقت کے کٹھن اور دشوار لمحات اداس، بے رنگ اور طویل راتوں کو آنکھوں میں کاٹتے گزر جاتے ہیں۔

    پردیس میں زندگی کی راعنائیاں نظر آتی ہیں، گلشن میں پھول اپنی رنگینیوں کے ساتھ کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ہوا میں تر و تازگی ہوتی ہے، سمندر اپنی موج میں بھی ہوتا ہے لیکن انسان کے اندر کا موسم بے سُدھ ہوتا ہے، پھولوں کی خوشبو محسوس نہیں ہوتی۔ ہوا میں بادِ صبا کا کوئی پیغام نہیں ہوتا، چاند گونگا ہوجاتا ہے اور راتیں بیابان جنگل کی طرح خوفناک ہوجاتی ہیں۔موسیقی میں سُر تو ہوتے ہیں لیکن ایک پردیسی کو نغمے ہُو کا عالم بن کر ڈراتے ہیں اور فرصت کے لمحات ڈستے ہیں۔

    ایک پردیسی جو گھر سے ہزاروں میل دُور، تلاشِ روزگار میں تپتی ہوئی سڑکوں پہ سرگرداں ہوتا ہے اسے نا تو گرمی کا احساس ہوتا ہے اور نا ہی فاصلوں کی فکر، ریگ زاروں کو چمن بنانے والا پردیسی ، جس لگن اور محنت سے اینٹیں چُن رہا ہوتا ہے یا کوئی دفتری امُور سرانجام دے رہا ہوتا ہے ، خاموش اور اداس سڑکوں پہ ٹرالر چلا رہا ہوتا ہے، یا اپنی کمپنی کے مال کو فروخت کرنے کے لئے سرگرداں ہوتا ہے؛ اس کا دل اپنے وطن میں اپنوں کی یاد میں کھویا ہوا ہوتا ہے، اپنوں سے ملنے کی آس ، اسے ملُول نہیں ہونے دیتی، اس کے حوصلوں کو جِلا دینے کے لئے باپ کا بات بات پہ سمجھانا اور جہاں ضرورت ہو وہاں مارنا، ماں کی یاد ، ماں کا غصہ، ماں کا ڈانٹنا اور بہنوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائیشیں، بیوی کی نوک جھونک، بچوں کی ضِد اور ان کے مسکراتے ہوئے چہروں کا عکس کافی ہوتے ہیں۔

    پردیس میں، خصوصاً مشرق وسطی کی سخت گرمیوں میں رکھے گئے روزے، جس میں محض چند نوالے پراٹھوں کے حلق میں بمشکل اتار کے اوپر سے پانی کے چند گھونٹ پی کر روزہ رکھ لیا جاتا ہے کیونکہ وہاں یکسانیت کے موسم میں کچھ بھی سیر ہوکر کھانے کو دل نہیں چاہتا۔ رہائش گاہ میں ہر شے اپنی جگہ ٹَس سے مَس نہیں ہوتی۔ جو چیز جہاں پڑی ہے وہیں پڑی رہتی ہے، طعام گاہ میں کھانا پکانے والے اجنبی چہرے جو احساسات سے عاری ہوتے ہیں ، کھانا پکانا اور پھر کھانا پیش کرنا ان کے لئے ڈیوٹی سے ذیادہ نہیں ہوتا۔ ایک جیسا کھانا اور ایک جیسا ذائقہ صرف شکم پُری سے ذیادہ کچھ نہیں ہوتا۔

    دن بھر سخت مشقت کرنے کے بعد جب افطاری کا وقت قریب آتا ہے تو پھر وہی بے زاری اپنا رنگ دکھا رہی ہوتی ہے۔ جبکہ کمپنی والے اپنے طور پر ہمارے لئے پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، لسی وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں لیکن چند ایک پکوڑوں اور ایک آدھ کھجور کے بعد صرف پانی یا شربت پیا جاتا ہے بقیہ کچھ کھانے کو جی نہیں چاہتا، کیونکہ وطن کے لوگوں اور وطن کی یاد سے ناصرف دل مغموم ہوتا ہے بلکہ پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔

    مہینے بھر روزے رکھنے کے بعد، عید کی نماز کے لئے رات میں ہی ایک دوسرے کو جلد اُٹھانے کی تاکید کردی جاتی ہے ۔ کیونکہ وہاں عید کی نماز صبح نمازِ فجر کے کچھ دیر بعد ہی منعقد ہوجاتی ہے۔ جس میں اکثر پردیسی سوئے رہ جاتے ہیں۔ جو نماز کے لئے گئے ہوتے ہیں اُنھوں نے عید کے لئے کوئی نیا سوٹ نہیں سلوایا ہوتا بلکہ عمومی کپڑوں میں ہی عید ادا کرلیتے ہیں۔ جی میں یہی خواہش ہوتی ہے کہ پیچھے وطن میں گھر والے زرق برق کپڑے سلوا لیں تاکہ ان کی عید اچھی ہوجائے اور ان کی جیب خرچ کے لئے پیسے عید سے پہلے ملک روانہ کر دیئے جاتے ہیں تاکہ کسی قسم کی گھر والوں کو تکلیف نہ ہو۔

    عید کی نماز اور خطبے کے بعد پردیسی اپنے جیسے پردیسیوں کو تلاش کرتا ہے تاکہ گلے مل کر عید مبارک کہہ سکے۔ کیونکہ مقامی لوگ تو پردیسیوں کو اجنبی کہتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں میں نہیں گھلتے ملتے۔ اس کے بعد پردیسی اپنے اپنے کمروں میں آکر سو جاتے ہیں اور عید کی چھٹیاں سو کر ہی گزر جاتی ہیں۔ ایسا ہر سال ہی ہوتا ہے ۔

    عید کی چھٹیوں کے بعد پردیسی تو اپنی اپنی ڈیوٹیوں پر روانہ ہوجاتے ہیں مگر آفس میں مقامی لوگوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سبھی مقامی لوگ عید کی چھٹیوں میں اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور آتے آتے ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔ گویا عید کے بعد پورا ایک ہفتہ مقامی لوگوں کو عید مبارک کہتے کہتے گزر جاتا ہے۔

    چند ماہ اسی طرح محنت و مشقت اور تنہائی میں گزر جاتے ہیں اور پھر ایک آدھ ماہ بعد سالانہ چھٹی کا انتظار ہونے لگتا ہے۔ وطن سے فرمائیشیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ دو یا تین ماہ گھر والوں کی شاپنگ میں گزر جاتے ہیں۔ شاپنگ کے لئے پردیسیوں کو اپنے شہر سے دور کسی بڑے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے تاکہ اچھی سے اچھی شے خریدی جائے اور اپنوں کے چہرے پہ خوشی دیکھ سکیں۔

    شاپنگ کے بعد پیکنگ کا مرحلہ ہوتا ہے۔ کارٹن کا اہتمام کیا جاتا ہے، چوڑی ٹیپ خریدی جاتی ہے اور ایک عدد قینچی تاکہ چھٹیوں کے لئے خریدا ہوا سامان اچھی طرح پیک کیا جاسکے۔ پیکنگ کے بعد ڈبے کو رسی سے باندھا جاتا ہے۔ کچھ پردیسی اس کام میں طاق ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ چھٹی کے دنوں کے قریب دیگر پردیسی بھی اپنا اپنا تھوڑا تھوڑا سا سامان دے دیتے ہیں اپنے پیاروں کے لئے۔

    اللہ اللہ کرکے چھٹی کا دن بھی آجاتا ہے۔ کمپنی کا ڈرائیور پک اًپ کے ساتھ کمرے کے دروازے پہ آن پہنچتا ہے۔ ایئرپورٹ پہنچتے پہنچتے نجانے کیا کیا خیالات دماغ میں گھومتے رہتے ہیں۔ دل خوشی سے باغ باغ ہورہا ہوتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایئر پورٹ، ایمیگریشن، جہاز کے سفر کے بغیر ہی اُڑ کر وطن پہنچ جاؤں۔

    لیکن ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے۔ ایئر پورٹ پہنچ کر سامان اتارا، اور لائن میں لگ گئے، ٹکٹ لیکر کاؤنٹر پہ گئے، سامان بک کروایا، ٹکٹ چیک کروایا، پھر امیگریشن کروایا اور لاؤنج میں بیٹھ گئے اور اپنے جہاز کی روانگی کے وقت جہاز میں سوار ہوئے اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ سفر خاموشی سے کٹ گیا اور اللہ کے فضل سے اپنے وطن آگئے۔

    سامان لیا، کسٹمز کروایا اور باہر آئے تو سبھی گھر والے استقبال کے لئے موجود تھے۔ کسی نے گلے لگایا کسی نے سامان ہاتھ سے لیا اور کسی نے گلے میں گلاب کے پھولوں کا ہار پہنا دیا۔ اپنے مانوس چہروں کو عرصہ بعد دیکھنے کے بعد کچھ حیرت ہوئی اور کچھ خوشی۔ کیونکہ کچھ چہرے پہلے کی طرح شاداب نہ تھے۔ والدین بوڑھے لگنے لگے اور بیوی بچے اداس چہروں سے زردی مائل لگے۔

    گھر پہنچے تو سامان کھلنے کا انتظار ہونے لگا۔ جیسے ہی ڈبہ کھولا، سب کو ان کے تحفے تحائف دیئے۔ کئی چہرے کھل گئے۔ ایسا لگا کہ پردیس کی تلخی کا حق وصول ہوگیا۔ وطن میں عید نہ ہوتے ہوئے بھی عید کا سماں تھا۔ خوشبودار کھانے پک رہے تھے اور سبھی اپنی اپنی بات سنانے کے لئے بے چین تھے۔

    ایک ماہ کی چھٹی کس طرح گزر گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ ایک پردیس تھا جہاں ایک رات بمشکل کٹتی تھی۔ خیر چھٹیوں میں پڑوسیوں سے ملاقات رہی سبھی بہت اچھے سے ملے۔ گھر میں کچھ کام لٹکے ہوئے تھے۔ بلکہ یوں کہیے کہ میرے انتظار میں تھے۔ انھیں سرانجام دیا۔ اور ہر کٹنے والا دن میرے لئے سوہانِ روح تھا۔ جیسے جیسے چھٹی ختم ہورہی تھی میرے اندر خوف بیدار ہورہا تھا۔ اور خوشی پھیکی پڑنے لگی تھی۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    پردیس آخری صفحہ ۔۔۔۔

    بالآخر ایک دن پورے ماہ کی چھٹی اختتام کو آئی۔ گھر والے دعائیں دینے لگے اور ہر ایک اپنی اپنی سوچ کے مطابق مشورے بھی دے رہا تھا۔ بچے اداس ہونے لگے، ماں باپ بھی جدائی کا صدمہ سہنے کے لئے تیار ہوگئے۔ بیوی بھی کڑوا گھونٹ پینے کو تیار ۔ مگر میری کیفیت ایسے تھی جیسے کسی بچے کو دریا میں نہانے کو کہیں اور وہ ڈر کے مارے دور بھاگنا چاہتا ہو۔

    پہلا سال گزر گیا اور کچھ خاص پس انداز نہ ہوسکا۔ اس لئے سب کی یہی رائے تھی کہ چند ایک سال مزید لگا لوں ۔ لیکن میں نا ہاں کہہ سکتا تھا اور نا ہی نا کرسکتا تھا۔

    انسان اکیلا ہو اور اسے کوئی سزا دی جارہی ہو تو اس کے قدم نہیں اٹھتے لیکن اگر سزا دیتے ہوئے گھر کے تمام لوگ ساتھ ہوں تو نہ چاہتے ہوئے بھی پاؤں اٹھانا پڑتے ہیں تاکہ کسی کو اپنی کمزوری کا احساس نہ ہو۔

    سب کے چہروں پہ خوشی کے آثار تھے مگرمیں بالکل بھی خوش نہ تھا۔ اور واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ پھر وہی شب بیداری، وہی اداسی، وہی تنہائی اور وہی کھانا پینا اور سونا جاگنا اور وہی مشقت۔ مگر کیا کیا جائے جب رزق وطن سے دور لکھا گیا ہے تو سفر کرنا ہی پڑے گا۔

    اس طرح زندگی کا بیشتر حصہ گزر گیا، کئی رمضان پردیس میں گزارے، ساری جوانی وہاں کام کرتے گزر گئ۔ جو کمایا گھر والوں کو دے دیا۔ اپنی زندگی تو بس خواب دیکھتے دیکھتے گزر گئی۔ لیکن ذمہ داریاں نہ ختم ہو سکیں۔ ماں باپ فوت ہوگئے، بہن بھائی بیاہے گئے، اپنے بچے بڑے ہوگئے اور ہم بڑھاپے کی طرف گامزن مگر ابھی تک پردیس کاٹ رہے ہیں۔

    اللہ تعالی سب پردیسیوں کو خیریت سے وطن لے جائے تاکہ زندگی کا بچا کھچا حصہ اپنے لوگوں میں گزار سکیں۔

    یہاں میں ایک صلاح دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ یہ کہ اگر کسی کو بھی اپنے مالی حالات بہتر کرنے کے لئے گھر سے بے گھر ہونا پڑے تو وہ تین برس کا پروگرام مرتب کرے۔ اگر اس دورانیے میں اگر معاملات سلجھ سکتے ہیں تو یہ بہت بہتر رہے گا۔ مگر اس دوران اپنوں سے مسلسل رابطہ قائم رکھیں اور جہاں تک ممکن ہو، گھر آتے جاتے رہیں۔

    اس کے بعد جتنے سال بھی اوپر لگیں گے، آپ گھر سے کٹتے چلے جائیں گے اور نئے دیس کے ماحول میں ڈھلتے چلے جائیں گے۔ اس طرح اپنا قیمتی سرمایہ ضا‏‏ئع ہوجانے کا امکان پیدا ہوجائے گا اور خیالی مستقبل جو نجانے کتنے کوس دور ہے، اس کا پیچھا کرتے کرتے آپ نڈھال ہوجائیں گے۔

    اگر آپ وطن واپس نہ جاسکے تو اپنے عزیز و اقارب کی تمام خوشیاں جس میں آپ شامل ہوکے خود بھی خوشیوں کا حصہ بن سکتے تھےآپ کے شامل نہ ہونے سے وہ خوشیاں آپ کی زندگی کا حصہ نہ بن سکیں گی۔ اسی طرح اپنے والدین، بہن بھائیوں اور پڑوسیوں کے روزانہ کے معاملات سے بے خبر رہ کر آپ کا اور ان کا رشتہ انتہائی کمزور ہوکر رہ جائے گا۔

    حقیقت تو یہ ہے کہ برسوں بعد وطن کی محبت میں گرفتار انسان جب گھر لوٹ کے آتا ہے تو وہ اپنے ہی گھر اور وطن میں اجنبی بن چکا ہوتا ہے۔ بوڑھے والدین جنھیں اس نے بھری جوانی میں چھوڑا تھا؛ اس وقت وہ صحت مند اور تنومند تھے۔ واپسی پر یہی والدین اپنے منہ کے سارے دانت کہیں کھو چکے ہوتے ہیں۔ پہلے وہ ہمیں سنبھالتے تھے اور ہر مشکل میں ہمارے کندھوں کو سہارا دیتے تھے اور ہماری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ہماری مالی مدد بھی کرتے تھے۔ اور آج وہ ہمارے سہارے کے منتظر ہیں۔ وہ بہن بھائی جن کے ساتھ ہم کھیلتے تھے اور شرارتیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج اپنے اپنے گھر والے ہوگئے ہیں۔ بہنیں اپنے شوہروں کی اور بھائی اپنی بیگموں کی دلجوئی اور خدمت کا اپنا شعار بنا چکے ہیں۔ اور دوست احباب بھی اپنے اپنے گھروں کی ذمہ داریوں میں اتنے گم ہیں کہ ان کے پاس آپ کے لئے کوئی وقت نہیں۔ آپ کے پرانے جاننے والے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ ان میں سے کچھ تو اللہ کو پیارے ہوگئے، کچھ دوسرے شہر شفٹ ہوگئے اور کچھ آپ سے بھی آگے نکل گئے اور شہر کے اچھے علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔

    آپ جن بیوی بچوں کے لئے اتنا بڑا عذاب کاٹتے رہے، آج وہ بڑے ہوگئے ہیں اور آپ کی موجودگی انھیں ڈسٹرب کرنے لگی ہے کیونکہ انھیں اپنے معمولات آذادی سے گزارنے کی عادت ہوگئی تھی اور وہ آپ کے بغیر جینا سیکھ چکے تھے اور آپ کی واپسی کے بعد انھیں آپ کی وجہ سے دوستوں سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے میں مشکل ہونے لگی ہے۔

    وہی بچے جو آپ کے ملک سے روانہ ہونے سے پہلے آپ کو آفس تک جانے پر روتے تھے اور آفس سے آنے کے بعد مسکراتے ہوئے چہروں سے خوش آمدید کہتے تھے آج آپکے واپس آنے پر منہ مسوڑے بیٹھے ہیں۔ کہ آپ نے ان کی معمولات میں خلل ڈال دیا۔

    جبکہ بیگم جو آپ کی غیر موجودگی میں پڑوسی خواتین سے خوش گپیاں کیا کرتی تھیں؛ آج آپ کی وجہ سے ہر آنے واے فون کو یہ کہہ آف کردیتی ہیں کہ ابھی کال کرتی ہوں۔

    گویا آپ کا وطن کی محبت میں واپس لوٹنا کسی کے کام نہ آیا۔ کیونکہ گھر والے ہر ماہ ایک خطیر رقم کا ڈرافٹ یا منی ٹرانسفر وصول کرنے کے عادی ہوگئے تھے اور آپ کے واپس لوٹنے پر یہ آسائش منقطع ہوگئی۔

    اب اگر آپ اپنے ساتھ بہت بڑی رقم لائے ہیں یا پہلے سے بہت کچھ بنا رکھا ہے یا سنبھال رکھا ہے تو آپ کسی قدر مناسب زندگی گزار سکتے ہیں۔ بصورت دیگر آپ کے یہاں رہنا وطن میں رہنے سے بھی ذیادہ ابتر ہوجائے گا اور ممکن ہے (اللہ نہ کرے) آپ کو اپنی صحت گرنے کا دن دیکھنا پڑے۔

    جو لوگ بیوی بچوں کے ساتھ دیار غیر میں رہتے ہیں ان کے لئے واپسی کے چانسس بہت کم رہ جاتے ہیں۔ کیونکہ بچے بدیس کو ہی اپنا دیس مانتے ہیں اور بیگم بھی بچوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ آپ اکیلے ہی اپنے شہر آنا جانا رکھتے ہیں تاکہ آپ کو وہ خوشیاں مل سکیں جو آپ غیر ملک میں مس کررہے ہوتے ہیں۔

    مشرق وسطی میں فیملی کے ساتھ رہنے والے ذیادہ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ اگر انھوں نے اپنے ملک میں اپنا گھر نہیں بنایا اور اتنا سرمایہ بھی نہیں ہے کہ ملک میں آکر کچھ کاروبار یا زندگی شروع کرسکیں۔ ان لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی بچہ برسرروزگار ہوجائے تاکہ اس کے ساتھ وہیں رہ سکیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے بچوں کی شادی بھی وہیں کرنا پسند کرتے ہیں۔

    اللہ تعالی سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور جہاں بھی رکھے آسانیوں اور خوشیوں کے ساتھ رکھے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
  3. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    روزگار

    روزگار کے معنی ہیں ذریعہ معاش، گزر اوقات، بسر اوقات، دھندا کار، پیشہ، ملازمت ، نوکری اور کمائی کا ذریعہ۔

    انسا ن کی فطرت ہے دور کے خواب دیکھنا ، خود کو دوسروں سے بہتر سمجھنا اور اپنی زندگی کو پر آسائش بنانا۔ اپنا نام پیدا کرنا۔ والدین، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کا معیار زندگی بلند کرنا۔اور ماضی کی تلخیوں کو خوشیوں سے بدلنا تاکہ دل میں احساس کمتری باقی نہ رہے اور مشقت بھری زندگی پرسکون اور پر مسرت بن جائے۔

    مالی اعتبار سے پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لئے نجانے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں۔ کوئی اپنی تعلیم کو مکمل کرکے اعلی ڈگری حاصل کرنے کی کوشش میں ہے، کوئی ڈگری حاصل کرنے کے بعد، مقابلے کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ جو مقابلے کے امتحان میں نہیں بیٹھنا چاہتے، وہ کوئی نوکری حاصل کرنے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں سفارش تک رسائی کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ کبھی کسی کا رقعہ حاصل کرکے ایک دفتر کی زیارت کرتے ہیں کبھی کسی سیاسی شخصیت کے رقعے کے لئے اپنے حلقے کے انچارج کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔

    جو ذیادہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکے وہ کوئی ٹیکنیکل کورس کرنے کے لئے دوستوں سے صلاح مشورہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ کس کورس کی کس ملک میں ذیادہ مانگ ہے۔

    گویا ہر ایک ذی روح انسان اپنے مستقبل کے لئے سرگرداں ہے۔ کسی کو اعلی نوکری چاہیے، کسی کو کوئی بھی نوکری چلے گی۔ کسی کو امریکا جانا ہے، کوئی کہتا ہے کینیڈا میں بہتر مواقع ہیں۔ کوئی جاپان کی تعریف کرتے نہیں تھکتا۔ کسی کو ملائشیا پسند ہے اور کوئی چائنہ کو بہتر ین ملک گنواتے نہیں تھکتا اور کسی کو یورپ ذیادہ مہذب لگتا ہے اور کوئی مڈل ایسٹ کو بہتر منزل سمجھتا ہے ۔ اور کوئی بزنس کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنے کام کا خود ہی باس ہو۔

    حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر ایک انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا رزق بھی مقرر کردیا ہے۔ جو اس کو مل کر ہی رہے گا۔ نا ذرا سا کم اور نا ذرا سا ذیادہ۔ اللہ تعالی نے مقدار کے ساتھ رزق کے حصول کا مقام اور وقت بھی طے کررکھا ہے۔ لیکن انسان بہت جلد باز ہے۔ اسے سب کچھ چاہیے اور ابھی چاہیے۔ خواہ اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینا پڑے۔

    ہم میں سے اکثر لوگوں نے اپنے اپنے وقت میں کیا کیا نہیں سوچا اور کیا کیا نہیں کیا۔ مگر ہوا وہی جو قدرت کو منظور تھا۔لیکن ہم یہی سمجھتے رہے کہ میں یہ کرلوں گا، میں وہ کرلوں گا۔ اور اگر کچھ نہ ہوا تو میں سب سے الگ کرلوں گا۔

    ہم سب اپنے ماضی میں لوٹ کر دیکھیں تو ہم جو سمجھ کر آگے بڑھتے رہے، ہماری منزل دوسری طرف ہمارے انتظار میں تھی۔ ہماری سب پلاننگ بے کار ہوئی اور جو کام ملا بہت آسانی سے گھر آکر مل گیا۔

    ہر انسان کی زندگی دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ کسی کو ہمیشہ آرام دہ ماحول ملتا ہے اور کسی کو سخت محنت والا کام کرنا پڑتا ہے۔

    کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ایک ڈیپارٹمنٹ میں کام کررہے ہیں اور دوسرے ڈیپارٹمنٹ کو سہل سجمھتے رہے۔ اور یہی دعا کرتے رہے کہ یا رب مجھے اس ڈیپارٹمنٹ میں ٹرانسفر کروا دیجئے۔

    یقین کیجئے آپ کی دعا پوری بھی ہوگئی ہوگی مگر جیسے ہی آپ وہاں پہنچے، وہاں کام پہلے بہت ذیادہ بڑھ گیا اور آپ کو پھر سے سر کھجانے کی فرصت نہیں رہی۔

    اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کہاں رکھنا ہے اور کون کہاں کے لئے موزوں ہے۔ لیکن ہم ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے اپنی ضد پر اڑے رہتے ہیں اور نہ جانے کتنا مال ضائع کردیتے ہیں اور نجانے کتنے ہی برس خوار کردیتے ہیں اپنی پسند کو حاصل کرنے کے لئے۔ اور آخر میں وہی ملتا ہے جو مقدر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔

    دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
    تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے​

    عبدالقیوم خان غوری
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  4. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    تنگ دستی

    تنگ دستی کے معنی ہیں مفلسی، تنگ حالی، تہی دستی، افلاس، غریبی، غربت، حاجت، فقدان اور کمی۔

    دنیا میں کئ لوگ معاشی بدحالی، مفلسی کا شکار ہیں اور کچھ قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو نشے کی لت لگ جاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو دولت کی ہوس میں جؤا کھیلتے ہیں اور سارا مال و متاع ضا‏ئع کردیتے ہیں۔ کچھ بد قسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو قتل اور اقدام قتل، یا چوری کے سلسلے میں جیل چلے جاتے ہیں ۔جس کے باعث ان کے گھر میں چولہا ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی فاقوں تک نوبت آجاتی ہے۔

    ایسے میں ان کے گھر والوں اور بچوں کو سر چھپانا محال ہوجاتا ہے۔ تعلیم منقطع ہوجاتی ہے مال مویشی یا رہی سہی پونجی ختم ہوجاتی ہے۔ پھر قرض کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو ذیادہ دیرپا نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرض کی واپسی کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔

    رشتہ دار بھی ایک ایک کرکے کٹ جاتے ہیں۔ اگر گھر کرایہ پہ لیا ہوا ہے تو مالک مکان پیسوں کا تقاضہ کرتا ہے ۔لوگوں کا قرض، مکان کا کرایہ، پرچون والے کاادھار اور ناامیدی کے بادل اچھےبھلے انسان کو ادھ مویا کردیتے ہیں۔

    بظاہر انسانیت کا پیکر نظر آنے والے بھی اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں۔ ایسے میں اللہ کا آسرا، اور امید انسان کا واحد سہارا بن کر اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ اور اس کے بجھے ہوئے دل اور پژمردہ جان کو ڈھارس دیتے ہیں۔

    انسانی تاریخ میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو بچپن میں تنگ دستی اور کسمپرسی کے عالم میں رہے۔ مگر ہمت نہ ہاری۔ اللہ کو یاد کرتے رہے اور اللہ سے ہی اپنے لئے رز‍‍‍‍‍‍‍‍‍ق حلال کی دعا کرتے رہے۔ پھر کیا ہوا، اللہ تعالی نے انھیں ایسی جوانمردی بخشی اور رز‍‍‍‍‍‍‍‍‍ق حلال کے دروازے کھول دیئے کہ خستہ حال لوگ طویل مشقت کے بعد راحت سے ہمکنار ہوگئے۔

    ایسے باہمت، صابر اور پاکیزہ سیرت سپوت چونکہ مشکلات کے کٹھن مراحل طے کرکے اللہ تعالی کے انعام، لطف و عنایات سے مستفیذ ہوئے ہوتے ہیں اس لئے جہاں وہ مسلسل اللہ تعالی کا شکر بجالاتے ہیں وہیں اپنے بزرگوں کی اطاعت اور دلجوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتے۔

    ایسے عظیم لوگ عجز و انکساری کا نمونہ ہوتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بہت احتیاط سے استعمال کرتے ہیں، تصرف سے اجتناب کرتے ہیں، اللہ کے دیئے ہوئے مال میں غریبوں ، مسکینوں، یتیموں اور نادار لوگوں کی خاموشی سے اعانت کرتے ہیں ۔

    اللہ تعالی انسان کی محنت، اس کی نیت، اس کے خلوص اور اس کی ہمت کو کبھی ناکامیاب نہیں ہونے دیتے ۔ اللہ کی مدد دیر سے آتی ہے مگر ضرور آتی ہے۔

    اس لئے اللہ تعالی سے ہر دم خیر کی دعا کرتے رہیے اور امید کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑیں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  5. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    مسکراہٹ

    مسکراہٹ وہ ہنسی ہے جس میں دانت نہ کھلیں۔ دبی دبی ہنسی۔ دھیمی دھیمی ہنسی اور ہونٹوں میں ہنسنا۔

    مسکرانا ہماری فطرت میں شامل ہے۔ جب کوئی دل سے مسکراتا ہے تو اِس سے اُس کے احساسات کا پتہ چلتا ہے جیسے کہ خوشی،‏ اِطمینان اور سکون۔‏ اور اگر کوئی ہمیں دل سے مسکرا کر دیکھتا ہے،‏ چاہے وہ ہمارا دوست ہو یا کوئی اجنبی تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے اور ہمارے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ جاتی ہے۔‏ ‏ اور اِس سے ہمیں نا صرف خوشی ہوتی ہے بلکہ ہم بہت پُرسکون اور محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

    ایک سادہ مسکراہٹ کسی کا دن بنا سکتا ہے۔ اسی طرح مسکراہٹ سے منسلک خواب خوشیوں، خوشخبریوں اور محبت کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    مسکرانے سے آپ کا اعصابی نظام فعال ہوجاتا ہے جس سے آپ کی صحت اور خوشیوں پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔

    مسکرانے سے ناصرف آپ کے جسم کو آرام ملتا ہے بلکہ اس سے آپ کے دل کی دھڑکن بہتر ہوتی ہے اور آپ کا فشار خون بھی مناسب ہوجاتا ہے۔

    مسکراہٹ کے اور بھی کئی فائدے ہیں۔جسمانی اورذہنی طورپربہترمحسوس کرتےہیں۔ چاہے آپ خوشی محسوس نہ بھی کررہے ہوں،تب بھی مزاج یاموڈپرخوشگواراثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اینڈورفنز (دافع درد) وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو ہمیں مسرت کااحساس دلاتےہیں۔یہ کیمیائی مرکبات بعض سرگرمیوں مثلا دوڑنا، ورزش کرنا اور کھیل کود کے دوران خارج ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ محض مسکرانے سے بھی ان مرکبات کے اخراج میں مدد ملتی ہے جو انسانی جسم میں تناؤکوکم کرتے ہیں۔

    زیادہ مسکرانادرحقیقت آپ کی عمربڑھادیتاہے۔ زیادہ مسکرانےوالےافرادکی اوسط عمر ذیادہ ہوتی ہے جبکہ مسکراہٹ سےدوررہنےوالوں کی اوسط عمرقدرے کم۔ایک اورتحقیق کےمطابق مسکراہٹ دل کی صحت کو بھی بہتربناتی ہے۔

    آپ ایک شخص کی مسکراہٹ سے نہ صرف اُس کے احساسات کا اندازہ لگا سکتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کو اُس شخص کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے۔‏

    اگر مریض کی دیکھ بھال کرنے والے دل سے مریض کی فکر کریں اور مریض کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ان کا علاج کریں تو مریض اطمینان محسوس کرتا ہے ۔ اور اُس کی جسمانی اور ذہنی صحت میں بہتری آتی ہے۔ ‏ لیکن جب دیکھ‌بھال کرنے والے شخص کےچہرے کے تاثرات تلخ ہوں تو اس کی وجہ سے اُس میں اور مریض میں دُوری پیدا ہوجاتی ہے اور مریض کی صحت بگڑ جاتی ہے۔ ‏
    ‏ مسکرانے سے اِنسان زیادہ پُراعتماد ہوتا ہے،‏ خوش رہتا ہے اور اُس کا ذہنی تناؤ بھی کم ہوتا ہے جبکہ اگر ایک شخص ہر وقت مُنہ بنا کر رکھتا ہے تو اُسے نقصان ہوتا ہے۔

    گھر میں ہمیشہ اچھا ماحول رکھیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے رہیے؛ اس سے آپ کا حوصلہ بلند ہوگا اور ثابت قدم رہنے کا عزم اور مضبوط ہوجائے گا۔

    بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ زندگی میں اِتنی پریشانیاں ہیں کہ مسکرانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔‏ لیکن یاد رکھیں کہ عموماً ہماری سوچکاہمارے احساسات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔‏ ‏ لہٰذا چاہے آپ کو ایسا کرنا مشکل ہی کیوں نہ لگے،‏ کوشش کریں کہ آپ اچھی اور خوش‌گوارباتوں کے بارے میں سوچتے رہیں۔‏ اِس سلسلے میں کوشش کریں کہ فضولیات سے دور رہیں، خود کو وقت دیں، کچھ دیر تنہائی میں گزاریں، ناگوارماحول سے دور رہیں ، نمازوں اور وضو کا اہتمام کریں، اللہ کو یاد کریں اور اور دُعا کریں۔‏ ‏

    مسکراہٹ روشنی کا ایسا منبع ہے جس سے پھوٹتی کرنیں سب کو منور کر دیتی ہیں ۔ یہ ایک ایسا انمول تحفہ ہے ۔ جس پر خرچہ بھی کچھ نہیں آتا ۔

    اِس بات کا اِنتظار نہ کریں کہ دوسرے آپ کو دیکھ کر مسکرائیں۔‏ اِس کی بجائے دوسروں کو دیکھ کر مسکرانے میں پہل کریں۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کی مسکراہٹ سے کسی کا دن خوش‌گوار ہو جائے۔‏ آپ کی مسکراہٹ خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے جس سے نہ صرف آپ کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ اُن لوگوں کو بھی جو اِسے دیکھتے ہیں۔‏

    کسی دوست، رشتے دار بلکہ کسی اجنبی کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے سے بھی ہمارے دل اور دماغ میں ایسی خوشی کی لہر پیدا ہوتی ہے جو چاکلیٹ کھانے یا رقم کےحصول وغیرہ سےبھی زیادہ طاقتورہوتی ہے۔خاص طورپر کسی بچے کی مسکراہٹ کو دیکھنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    مردوں کو خواتین میک اپ کے مقابلے میں مسکراہٹ کے ساتھ زیادہ پرکشش لگتی ہیں۔ جو لوگ زیادہ ہنستے مسکراتے ہیں ان کی شادیاں بھی زیادہ کامیاب ہوتی ہیں۔

    مسکراہٹ انسانی جسم میں سفید خونی خلیے تیار کرنے میں مدد دیتی ہے جو بیماریوں کے خلاف مزاحمت کی ذمے داری انجام دیتے ہیں ۔ اس طرح جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔

    مسکراہٹ دائمی کیفیت کا نام ہے، (اسے ہلکی پھلکی ہنسی کا نام بھی دیا جاسکتا ہے)جبکہ ہنسی عارضی حالت ہوتی ہے۔اور بلا وجہ کی ہنسی کے بعد دل مرجھا جاتا ہے۔

    مسکراہٹ ، خوشی پر فطری ردعمل کا دوسرا نام ہے جبکہ ہنسی بسا اوقات دردناک حادثے پر رد عمل کا بھی نتیجہ ہوتی ہے۔

    مسکراہٹ اندرونی خوشی اور سکون کی علامت ہوتی ہے جبکہ ہنسی کسی ہنگامی ناگہانی حالت کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    مسکراہٹ کا اثر دیر تک باقی رہتا ہے جبکہ ہنسی کا اثر جلد زائل ہوجاتا ہے۔

    مسکراہٹ تواضع و انکساری کی دلیل ہے جبکہ ہنسی اگر قہقہے کے ساتھ ہو تو غرور کی نشانی مانی جاتی ہے۔

    مسکراہٹ ہنسی سے زیادہ مشکل کام ہے۔مسکراہٹ مختلف قسم کے لوگوں ،مختلف طبیعتوں اور مختلف المزاج افراد سے میل ملاپ کے وقت آتی ہے۔ جبکہ ہنسی انتہائی بے تکلف قسم کے لوگوں کے ساتھ ہی نمودار ہوتی ہے۔

    مسکراہٹ میں ایک ادب شامل ہوتا ہے جبکہ ہنسی ادب کے دائرے سے خارج بھی ہوجاتی ہے۔

    اچھی مسکراہٹ صحت بخش ہوتی ہے۔ یہ انسان کی ذہنی، جسمانی اوراعصابی صحت کی حفاظت کرتی ہے۔

    صحت بخش مسکراہٹ ، بلڈ پریشر کم کرنے میں معاون بنتی ہے۔

    مسکراہٹ ،ذہنی و سماجی دباؤ کیخلاف جسم میں مدافعتی نظام کو تقویت پہنچاتی ہے۔

    مسکراہٹ کی بدولت دل ، دماغ اور جسم کی کارکردگی پر خوشگوار اثر پڑتے ہیں۔

    مسکرانے والے انسان کی نبض متوازن شکل میں چلتی ہے۔

    مسکراہٹ ، انسان کے لاشعور تک سکون اور اطمینان کی لہر پہنچا دیتی ہے۔

    مسکراہٹ ، چہرے کو خوبصورت اور پررونق بنا دیتی ہے۔

    مسکراہٹ ایک طرح سے عصری امراض سے بچاؤ کا بہترین علاج ہے۔

    مسکراہٹ، بے چینی اور ڈپریشن سے تحفظ دیتی ہے۔

    مسکراہٹ، مختلف قسم کے درد کا علاج ہے۔

    مسکراہٹ، بے خوابی اور بے چینی پر قابوپالیتی ہے۔

    مسکراہٹ اور ہلکی پھلکی ہنسی ،صنفی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے۔ شریانوں کے تناؤ کو ہلکا کرتی ہے، نبض کی رفتار کودرست کردیتی ہے۔ عضلات کو آرام دہ حالت میں لے آتی ہے۔

    چہرے پر خفگی اور غصہ طاری کرنے سے جھریاں موثر شکل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ آنکھوں کے اطراف حلقے پڑجاتے ہیں ۔

    مسکراہٹ جھریوں پر قابو پانے کا موثر ہتھیار ہے۔ مسکراہٹ سے جھریاں جلد نہیں ظاہر ہوتیں، مسکراہٹ کی وجہ سے جھریوں کے ظہور کا عمل کمزور پڑجاتا ہے۔ مردوں کو بالعموم اور خواتین کو بالخصوص مشورہ ہے کہ وہ مسکراہٹ کو اپنی پہچان بنائیں۔مستقل مسکرانے والی خواتین ذہنی سکون میں رہتی ہیں۔

    انسان کے چہرے میں تقریباً 80 عضلات ہوتے ہیں جب وہ ناراض ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ناراضگی کی علامتیں خود بخود ظاہر ہوجاتی ہیں ، چہرے کے اکثر عضلات غصے کی کیفیت سے متاثر ہوتے ہیں۔

    توجہ طلب امر یہ ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے عضلات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا، اس کے چہرے کے عضلات کسی زحمت یا مشقت میں نہیں پڑتے کیونکہ مسکراہٹ کے دوران بہت کم عضلات کو محنت کرنا پڑتی ہے۔

    بار بار مسکرانے سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اس کو ذہنی قرار حاصل ہوتا ہے۔بعض اطباء تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مسکراہٹ سے انسان کو بسا اوقات ڈپریشن سے بھی نجات ملتی ہے۔

    کامیابی کا انتہائی سستا طریقہ مسکراہٹ ہے ، جو انسان اپنے اطراف موجود لوگوں کے ساتھ میل جول میں مسکراتا رہتا ہے، اس سے اس کے احباب اور ملنے جلنے والے اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

    مسکرانے والے شخص اور اس کے اطراف موجود لوگوں کے درمیان ذہنی دیواریں زمین بوس ہوجاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ بار بار مسکراہٹ اعتماد پیدا کرتی ہے۔

    مسکراہٹ، جادو جیسی ہوتی ہے۔ اس سے انسان کے دل میں امید کے دیئے روشن ہوتے ہیں۔ دماغ سے وحشت دور ہوتی ہے۔ دل کو نئی زندگی مل جاتی ہے، مسکراہٹ کے اتنے ڈھیر سارے فائدے معلوم ہوجانے کے باوجود ہم نہ جانے کیوں اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔

    مسکراہٹ بند دلوں کی پہلی کلید ہے۔ مسکراہٹ ، روحانی روشنی ہے، یہ دل کے بند دریچوں کو کھولنے والا طبعی آلہ ہے۔

    مسکراہٹ ،درد میں مبتلا انسان کے زخم پر مرہم اور غم زدہ انسان کیلئے موثر دوا ہے۔

    مسکراہٹ دلوں کو قابو کرنے والاہتھیار ہے۔

    خوبصورت مسکراہٹ ، دل ، دماغ اور روح کو اپنے قبضے میں کرنیوالا طاقتور ترین قانون ہے۔

    مسکراہٹ سے انسانوں کے دل آپ اپنی مٹھی میں کرسکتے ہیں ، ذہنوں پر قبضہ کرسکتے ہیں ۔

    مسکرانے والے لوگ سب سے زیادہ خوش مزاج اور سب سے زیادہ پاکیزہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ سکون سے رہتے ہیں۔

    حقیقی مسکراہٹ میں کوئی ملاوٹ نہیں کی جاسکتی ۔جس طرح خالص سونے میں ملاوٹ فوری طور پر سامنے آجاتی ہے اسی طرح حقیقی مسکراہٹ اور مصنوعی مسکراہٹ کا فرق لمحوں میں سامنے آجاتا ہے۔

    خوشی کا احساس انسان کو دل کے دورے، دل کے امراض ،ہارٹ اٹیک اور ذیابیطس کی تکلیف سے بچاتا ہے۔ خوشی کا احساس ، مٹاپے اور عقل کے مختلف امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ خوشی کا احساس عام طور پر عمر میں اضافہ کردیتا ہے۔ اس کا سبب معمولی ہے ، سبب یہ ہے کہ خوش رہنے والے لوگ کشیدگی پیدا کرنے والے اہم ہارمونز کم مقدار میں خارج کرتے ہیں ۔

    اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی شخصیت دیدہ زیب اور پر کشش نظر آئے تو آپ اپنے چہرے پر پھولوں کی طرح مہکتی، موتیوں کی طرح دمکتی اور ستاروں کی طرح جگمگاتی مسکراہٹ سجائیے۔

    نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے سامنے تمہارا مسکرانا صدقہ ہے (ترمذی)۔

    نبی کریمﷺ کا ایک ارشاد یہ بھی ہے کہ تم لوگوں کے دل اپنی دولت سے ہرگز نہیں جیت سکتے، تمہیں لوگوں کے دل جیتنے کیلئے خندہ پیشانی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے (بیہقی) ۔

    یقین کیجئے کہ پیار بھری مسکراہٹ انمول ہوتی ہے۔ یہ کشش کا راز ہے، یہ دلوں کو جوڑنے والا مختصرترین راستہ ہے۔

    مسکراہٹ صالح صحت کی علامت ہے۔

    ہمارے لئے مسکراہٹ کا اصل ہدف تقرب الی اللہ مقرر کیا ہے۔ یہ ہدف دنیاوی اہداف سے مختلف ہے۔ اس کے نتائج پائدارقسم کے ہیں۔

    چینی کہاوت ہے: جو شخص عمدہ طریقے سے مسکرانا نہیں جانتا اسے دکان نہیں کھولنی چاہئے۔

    اس سے پتہ چلتا ہے کہ سچی مسکراہٹ دل کی گہرائی سے اٹھتی ہے ، یہ مسکراہٹ جادو جیسا اثر کرتی ہے اور ملنے والے کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لیتی ہے۔ سچی مسکراہٹ چہرے کو رونق اور چمک دمک دیتی ہے ۔ مصنوعی مسکراہٹ کے پیچھے مکروفریب کی ظلمتیں چھائی ہوتی ہیں۔

    ہمیں یہ جان لینا کافی ہے کہ جب انسان مسکراتا ہے تو اس کے چہرے کے کئی عضلات حرکت میں آتے ہیں اور جب انسان غصے یا کبیدگی یا پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے چہرے کے کئی گنا عضلات متحرک ہوتے ہیں۔

    ہمیں ذیابیطس ، بلڈ پریشر، تناؤ، بے چینی اور بحران پیدا کرنیوالے یومیہ مسائل پر قابو پانے کیلئے مسکرانا چاہئے۔

    ہمیں اپنے آپ اور اپنے اطراف میں موجود لوگوں کو خوشیاں دینے کیلئے مسکرانا چاہئے۔ تاکہ ہماری زندگی میں موجود تلخیاں، پریشانیاں اور کدورتیں زائل ہوسکیں۔ اور ہماری ذہنی و جسمانی توانائیاں جو منفی رویوں، منفی سوچ اور منفی کرداروں سے نبرد آزما ہیں، انھیں تقویت ملے اور ہم دنیا میں خوشیاں بانٹ سکیں تاکہ یہ دنیا گلشن و گلزار بن سکے۔

    مسکراہٹ دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے۔

    عبدالقیوم خان غوری
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  6. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    احساس

    احساس کے معنی ہیں محسوس کرنا، خیال رکھنا، صاف صاف سمجھ لینا، ایک دوسرے سے غمخواری اور باہمی محبت و شفقت اور تعاون کرنا۔

    احساس کا لفظ بذات خود اتنا نرم اور نازک ہے کہ بولتے ہوئے بھی اپنی لطافت کا احساس دلاتا ہے۔ جس طرح لفظ عمدہ ہے اسی طرح اس کا جذبہ اور اس کی کیفیت بھی بہت پرکیف اور حسّاس ہے۔ احساس انسان کو قابل رشک ، دل عزیز ، ہر ایک کی آنکھ کا تارہ بنا دیتا ہے اور معاشرے میں محترم، مکرم اور معزز بنا دیتا ہے۔

    جبکہ اس کے مقابل اگر احساس نا ہو تو انسان خونخوار، ڈکیت، لڑائی جھگڑا کرنے والا، جھوٹا، منافق، دھوکہ باز اور خود غرض ہو جاتا ہے۔

    اخلاقی قدروں کی بنیاد فقط احساس کے جذبے کی مرہون منت ہے جو ہر انسان میں اللہ تعالی نے ودیعت تو کیا ہے مگر کم لوگ اس کی آبیاری کا سامان کرتے ہیں اور اکثریت اسے اجاگر کرنے کی سعی سے پہلوتہی برتتے ہیں۔ اور خود کو لاتعلق رکھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے سارا ماحول بے کیف ہوجاتا ہے۔ انسانوں کی بستی ایسی لگتی ہے جہاں انسان جنگل میں موجود درختوں کی طرح ہیں۔ ایک دوسرے میں گڈ مڈ، بے ہنگم، بے ترتیب اور بےکار۔

    احساس کا جذبہ ایک ایسی نعمت ہے جو ہمیں نا صرف خدائے برتر سے جوڑ کررکھتی ہے بلکہ یہ ہمیں انسانوں سے میل جول میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ہم اس جذبے کو فراموش کردیں ہمارا ضمیر خود بخود مر جائے اور اگر یہی عمل ہم مجموعی طور پر سرانجام دینا شروع کردیں تو معاشرہ ہی مر جائے۔

    احساس غیر مادی دولت ہے۔ اسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے مگر چھو نہیں سکتے۔ احساس ہمیں انسانیت کے مقام پر قائم رکھتا ہے۔ اسی جذبے کی بدولت ہم فرشتوں سے بہتر ہوسکتے ہیں۔ اگر ہمیں مالی منفعت نہ بھی ہو، پھر بھی دوسروں کے لئے بے لوث احساس کرنا چاہیے۔ احساس کے لئے کوئی موسم یا موقع نہیں؛ بلکہ اسے ہر روز ہر وقت اور ہر جگہ رواج دیں تاکہ دنیا میں خوشیوں کی بہار ہو، مسرتوں کا راج ہو اور آپ کا دل مطمئن و فرحان رہے۔

    انسانی معاشرے میں جذبہ احساس پیار اور محبت کی پہلی سیڑھی ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان میں قربانی و ایثار کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ انسان کو کسی بھی تکلیف کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود اس تکلیف سے نا گزرے۔

    موجودہ دور میں احساس کا جذبہ شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملتاہے۔ وہ لوگ جو اس جذبہ سے سرشار ہوں ان کے دل نرم و گداز ہوتے ہیں۔ کیونکہ جن لوگوں کے دل سخت اور مردہ ہوں وہ اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کسی انسان کو پریشان دیکھ کر اس کی مدد کرنے کے بجائے اس سے سوال جواب کرنے لگتے ہیں کہ تم نے فلاں کام غلط کیا، تمہیں فلاں کام نہیں کرنا چاہئے تھا وغیرہ وغیرہ۔

    احساس کرنے والے اور احساس کروانے والے دونوں بیش قیمت اور لاجواب لوگ ہوتے ہیں۔ اگر آپ کسی کی مالی معاونت نہیں کرسکتے تو اپنے خلوص کا احساس دلا کر دوسرے کو تسلی تو دے ہی سکتے ہیں۔ سکون کے متلاشی لوگ اگر خود میں احساس کا جذبہ پیدا کر لیں تو خود بھی سکون میں رہیں اور دوسرے بھی۔

    انسانی معاشرے میں اگر احساس کسی رشتے میں ہو تو رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور احساس نا ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ نامکمل رشتے کبھی بھی زندگی پرسکون نہیں گزارنے دیتے۔ ایک کمی اور خلاء جو احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رشتوں میں پیدا ہوتا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔

    رشتوں کی مضبوطی کا انحصار بھی آپسی احساس ہے ۔ جس قدر ہم ایک دوسرے کی فکر کریں، خیال رکھیں، روز مرہ کی مشکلات میں ہاتھ بٹائیں، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، ان کے لئے آسانیاں پیدا کریں گے؛ اسی قدر ہمارے رشتوں میں باہمی یگانگت بڑھے گی اور خاندان مضبوط ہوگا اور ہمیں ساتھ ساتھ رہنے میں فخر محسوس ہوگا۔ اور اگر ہم سرد مہری کا مظاہرہ کریں یا دوسروں کا خیال کرنا چھوڑ دیں تو ہمارے رشتے بھی آہستہ آہستہ اپنے مدار سے ہٹ کر نئے رشتے بنانے لگتے ہیں۔

    رشتے درختوں کی مانند ہوتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انہیں کاٹ دیتے ہیں اور خود کو گھنے سائے سے محروم کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ رشتوں کا ہم اپنے ہاتھوں سے خون کرتے ہیں اور کچھ رشتے اپنی مرضی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہی وجہ احساس کی عدم موجودگی ہوتی ہے۔ جو انسانوں کو اپنے پیارے رشتوں سے دور کرتی ہے۔

    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے"رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔"۔

    احساس کی گہرائی میں جاکر دیکھیں تو ہمیں اتنی وسعت اور جامعیت ملتی ہے کہ ہم اس کے دائرہ وسعت سے نہیں نکل سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان صرف دوسروں کا احساس کرنا شروع کردے تو اس کی پوری زندگی تمام ہوجائے گی احساس کی ذمہ داری کا کام مکمل نہ ہوسکے گا۔

    معاشرے میں ہمیں اپنے آس پاس بہت سے لوگ ایسے دکھائی دیتے ہیں جو محض ایک مسکراہٹ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ کسی کی نظر التفات، کسی کے پیار اور توجہ کے مستحق وہ لوگ اپنے چہروں کے خدو خال پر یوں نقش کئے ہوتے ہیں کہ ہر نگاہ میں ان کی بے بسی اور محرومی آجاتی ہے۔ اکثر لوگ اس طرح کے کرداروں سے نظریں چرا کر اپنی راہ لیتے ہیں اور چند ایک حسَاس اور بے لوث محبت کرنے والے، اپنی بساط کے مطابق ان لوگوں کی دلجوئی کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

    ہمارے رشتے دار، دوست، پڑوسی، غریب و مسکین لوگ اور بالخصوص ہمارے والدین ہر وقت ہماری توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ہمارے والدین ایک سائے کی طرح ہیں جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ ہمارے سر پر موجود رہتا ہے، جونہی یہ سایہ اٹھتا ہے تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک عظیم اور انمول دولت سے محروم ہوچکے ہیں۔

    آج کی دنیا میں ذیادہ مسائل خواہ وہ ذاتی نوعیت کے ہوں یا عوامی نوعیت کے؛ان کا سبب صرف اور صرف احساس کا زیاں ہے۔

    احساس کرنا انسانی عظمت ہے اور یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں کہ کس کو آپ کی کتنی اور کیسی ضرورت ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق بغیر کسی لالچ اور ذاتی غرض سے بالاتر ہوکر اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہ احساس ہی ہے جو بندوں سے ہو تو اللہ کے قرب کا موجب بنتا ہے ۔ رشتوں کی حفاظت کریں چاہے رشتے خون کے ہوں، احساس کے ہوں یا پھر دوستی کے ان کی حفاظت کریں کیونکہ تمام رشتے انمول ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کی وجہ سے ہی ہماری زندگی میں خوشیاں آتی ہیں۔ انھی رشتوں کی خوشبو سے ہماری زندگی مہکتی ہے۔ انھی رشتوں کی وجہ سے ہماری زندگی رنگین ہوتی ہے اور انھی رشتوں کی وجہ سے ہم زندگی کی راعنائیوں سے مستفیذ ہوتے ہیں، ہماری شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے اور ہم منفی رویوں سے مثبت رویوں کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔

    جو احساس کا قرب حاصل کرتے ہیں ان کی راہیں ہموار اور منزلیں روشن ہوتی ہیں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     

    منسلک کردہ فائلیں:

    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  7. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    حُسنِ ظن

    حُسنِ ظن کے معنی ہیں اچھا خیال، حسن خیال، خوش خیالی، خوش قیاسی، خوش گمانی، گمان نیک وغیرہ۔

    دوسروں سے بدگمانی سے پرہیز کرنا اور ان سے حسن ظن رکھنا، آپسی روابط کو مضبوط بنانے کا ذریعہ ہے۔ باہمی بدگمانی تہمت، غیبت، بدگوئی اور بد خواہی کا باعث ہوتی ہے اور ایمان کو نیست و نابود کردیتی ہے ، انسان کوانسان کا دشمن بنا دیتی ہے ۔رفتار و گفتار میں حسن ظن ان تمام خطرناک زہریلی چیزوں کا تریاق ہے۔

    حسن ظن ایک ایسی عبادت ہے جس میں انسان کو نہ کوئی مشقت اٹھانا پڑتی ہے اور نہ ہی مالی قربانی دینی پڑتی ہے۔صرف اپنی فکر کو مثبت سمت میں ڈھالنا ہوتا ہے اور وہ بھی بغیر کوئی عمل کیے اور اللہ تعالی کی بارگاہ سے اجرو ثواب کا مستق بن جاتا ہے۔

    فرض کریں دو آدمی کسی مقام پر بیٹھے بات چیت میں مشغول ہیں۔ایک آدمی ان کے پاس سے گزرتا ہے اگر وہ یہ سوچ لیتا ہے کہ دو دوست بیٹھے کسی اپنے مسئلے میں بات چیت کر رہے ہوں گے تو اس نے حسن ظن سے کام لیا۔اس نے کوئی مشقت نہیں اٹھائی ، کوئی قرباتی نہیں دی۔صرف اسی حسن ظن کی بدولت وہ اللہ تعالی کی جناب سے اجر و ثواب کا مسحق ٹھرے گا۔ اور اگر وہاں سے گزرتے ہوئے وہ یہ گمان کر لیتا ہے کہ یہ دونوں چور ہیں۔کہیں چوری کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہوں گے یا یہ ڈاکو ہیں۔کہیں ڈاکہ ڈالنے کے متعلق بات چیت کر رہے ہیں اور وہ اسی بات کو آگے پھیلا دے تو اسے کچھ حاصل نہ ہوا۔اس کو کوئی مادی فائدہ نہ پہنچا صرف اسی بد گمانی کی وجہ سے اس کے نامہ اعمال میں بد گمانی کا گناہ لکھ دیا جائے گا۔

    اصل چیز حسن ظن ہے سوئے ظن تو کسی دلیل کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔مثلا اگر دونوں آدمی واقعی چور ہوں انکی چوری مشہور ومعروف ہو تو اگر کوئی ان کے متعلق چوری کے مشورہ کرنے کا گمان کر بھی لے تو شاید باری تعالی اسے معذور قرار دے کر معاف کر دے۔لیکن بغیر کسی دلیل کے خواہ مخواہ بد گمانی کر لینا تو اللہ تعالی کو سخت نا پسندیدہ ہے اور بد گمانی کرنا مؤمن کی شان نہیں۔

    حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "ظن المؤمنین خیرا" یعنی مؤمنین کے بارے میں حسن ظن رکھنا اچھا گمان کرنا بھلائی ہے۔

    ارشاد ربانی ہے "یا ایھاالذین اٰمنوااجتنبوا کثیرًامن الظن ان بعض الظن اثمٌ" "اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو ۔بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں"

    اللہ تعالی نے فرمایا بہت سے گمانوں سے بچو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر گمان گناہ ہی ہوتے ہیں۔اس لیے انسان کو ہر گمان سے احتیاط کرنی چاہئیے کہ کہیں وہ بد گمانی کا مرتکب نہ ہو جائے۔

    سوء ظن کی دو قسمیں ہیں:-

    پہلی قسم گناہ ہے وہ یہ ہے کہ بندہ گمان کرے اور آگے بیان بھی کر دے۔
    دوسری قسم گناہ نہیں وہ یہ ہے کہ بندہ بد گمانی تو کرے لیکن اسے آگے بیان نہ کرے۔

    مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ حسن ظن سے کام لیتا ہے ۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں

    ولا تظن بکلمة خرجت مت اخيك المؤمن الا خيرا وانت تجدلها في الخير محملاًتفسیر ابن کثیر۔ج٤۔ص٣١٤جو بھی بات تیرے مؤمن بھائی کے منہ سے نکلے تو اس کے متعلق اچھا گمان ہی کر ۔جب کہ تو اس کی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہے۔

    ہمارے اور دوسروں کے درمیان رابطہ کی لکیر ہونی چاہئے ، فاصلہ کی نہیں۔ جو چیز اس رابطہ کو وجود میں لاتی ہے اور رابطہ برقرار ہونے کے بعد اسے مضبوط و مستحکم بناتی ہے وہ ہے دوسروں کے حقوق کو ماننا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا۔

    بہت سے ایسے مواقع جہاں پر دوسروں کی باتیں اور حرکتیں ممکن ہے ہماری بدگمانی کا سبب ہوں وہاں پر بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس کی بات اور عمل پر غور کریں اور اس کی کوئی دلیل تلاش کریں تاکہ بدگمانی میں مبتلا نہ ہونے پائیں۔ یہ حالت لوگوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرتی ہے اور زندگی کو مزید شیریں بنا دیتی ہے

    دعا ہے کہ پروردگار ہمیں بدبینی سے دور رکھے اور حسن ظن سے ہمارا دامن بھر دے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  8. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    خود داری

    خود داری کے معنی ہیں اپنی غیرت اور خودی کے بھرم کو قائم رکھنا۔ خود توقیری، ثابت قدمی اور مستقل مزاجی۔

    خود داری بہترین انسانی صفات میں سے ایک صفت ہے جو انسان کو بلند و بالا کردیتی ہے۔خود داری انسان کی اندرونی نفسیات کا نام ہے۔ یہ انسان کا اپنے بارے میں تجزیہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے۔ خود داری انسان کی اپنی ذات کا حصہ ہے اس لئے انسان کو ہر وقت اس کی حفاظت کرنا پڑتی ہے اور اس کے ذریعے انسان اپنے وجود کی اہمیت کو پہچانتا ہے اور مادی فوائد سے بالاتر ہوکر زندگی بسر کرتا ہے۔

    خود دار ی انسان کو اپنی ذات پر یقین رکھنا سکھاتی ہے اور اللہ تعالی کی ذات کے علاوہ ہر انسان سے بے خوف کردیتی ہے۔ خود دار انسان مستقل مزاج ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں کہ کس طرح دوسروں کی زندگی بہتر کی جائے۔

    خود داری انسان کے اندر مثبت سوچ پیدا کرتی ہے، خود اعتمادی پیدا کرتی ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے، احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے اور اپنے پروفیشن میں پرفیکشن پیدا کرتی ہے۔ خود داری انسان کو خوش لباس بناتی ہے، خوش اخلاق بناتی ہے ، خود داری انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کن لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے، کن لوگوں سے اجتناب کرنا ہے اور مستقل کے بارے میں محتاط بناتی ہے۔

    خود داری انسان کو اپنی ذمہ داریاں نہایت ایمان داری اور ذمہ داری سے نبھانا سکھاتی ہے۔ ایک خود دار ملازم کو سپرویژن (نگاہ رکھنے) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیونکہ خود داری اسی وقت انسان میں اجاگر ہوتی ہے جب انسان خود سے یہ عہد کرلے کہ میں نے ہمیشہ راہ راست اختیار کرنا ہے اور کسی کا حق نہیں مارنا ، کسی سے درشت لہجے میں بات نہیں کرنی اور کسی کی غلط بات برداشت نہیں کرنی، بلکہ اپنی صلاحیتوں اور کوششوں سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود دار انسان مالی یا مادی نقصان کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے اور آگے بڑھتے رہنے کو اپنا مشن سمجھتے ہیں۔

    دنیا میں متعدد غریب لوگ ہیں جنہوں نے کبھی اپنی اقدار اور روایات پر سمجھوتا نہیں کیا، آج دنیا میں انہیں منفرد مقام حاصل ہے۔خودداری ہی وہ جذبہ پیہم ہے، جس سے شخصیت بنتی اور پنپتی ہے۔ کوئی شخص خودداری پر سمجھوتا کرتا ہے تو ذاتی وقار سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ خود دار لوگ ایسی دوستی جو ان کے اخلاق کر متاثر کرے اور وہ کام جس سے عزت پہ حرف آتا ہو، بہت جلد خیر باد کردیتے ہیں۔

    خود دار شخص سچائی، حق، ایمان داری، اخوت، احساس کرنے والا، مدد کرنے اور دوسروں کی امانت کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ اسے کسی سے ذاتی غرض نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کو کچھ دیکر خوشی محسوس کرتاہے۔ ایک خود دار انسان کو خریدنا ناممکن ہے۔

    انا اور خوداری میں یہ فرق ہے کہ انا اپنی ذات کے لیے ہوتی ہے اور خوداری دوسروں کی بھلائی کے لیے ہوتی ہے۔ خودداری قوموں میں اصلاح کا عمل پیدا کرتی ہے، انا انسان میں بیگاڑ لاتی ہے۔ انا ضد لاتی ہے، خودداری اُصول پرڈٹے رہنا سکھاتی ہے۔ شخصیت وہ خودی ہے جو زندگی کو منظم بناتی ہے۔

    خود داری انسان کو محنت کرنا سکھاتی ہے۔
    خود داری انسان کے عزم کو متزلزل نہیں ہونے دیتی۔
    خو د داری انسان کو مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔
    خود داری انسان کو پستیوں سے بلندیوں کے سفر پر گامزن کرتی ہے۔
    خود داری انسان کو ناصرف اپنے رب سے جوڑتی ہے بلکہ اپنے لوگوں کی حالت زار کو بہتر بنانے والا مسیحا بنا کر پیش کرتی ہے۔
    خود داری انسان کو ترقی کی منازل کامیابی سے طے کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتی ہے۔
    ایک خود دار انسان اپنی زندگی میں اصول و ضوابط کی پابندی کرنے میں کوئی تامل نہیں کرتا؛ کیونکہ قانون اور ملک کے مقابلے میں انفرادی پسند و ناپسند کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔
    ایک خود دار انسان کی خدمات اور کارہائے نمایاں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دیتی ہیں۔
    خود داری ایک عام انسان کو خاص انسان بنا دیتی ہے۔ جس کے کردار اور گفتار کا چرچا ہر گھر کی زینت بن جاتی ہے۔
    ایک خود دار انسان ناصرف اپنی فیملی میں نمایاں حیثیت اختیار کرتا ہے بلکہ محلے، شہر اور ملک میں لوگ اسے تعظیم کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کی خیریت کے لئے دعاگو رہتے ہیں۔

    ایک خود دار انسان، اپنے ساتھیوں میں تو محترم ہوتا ہے بلکہ اس کے افسران اور احکام بالا ایسے بہادر، نڈر، محنتی، سچے اور قابل انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک وہ جو دوسروں کی مدد لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔ خود دار لوگ اپنا بوجھ ہمیشہ اپنے کندھوں پر اٹھانا پسند کرتے ہیں؛ اور کسی شخص سے مالی، جذباتی یا تعلیمی مدد نہیں لیتے۔ کیونکہ ان کی خود انحصاری کا جذبہ انہیں توانائی دیتا ہے، ان کے حوصلے بلند رکھتا ہے اور ساتھ ساتھ ان کے یقین میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    خوداری دنیا کی بہت بڑی طاقت ہوتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو آپ کو ہارنے نہیں دیتی۔ جو آپ کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتی اور جو آپ کو شکست کے ساتھ مفاہمت نہیں کرنے دیتی۔ یہ وہ طاقت ہے، یہ وہ قوت ہے جو آپ کی امید کو کبھی بجھنے نہیں دیتی۔

    خود دار شخص اپنے آپ کو کبھی بھی ناکام نہیں سمجھتے۔ خودداری اور توکل وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے اولیاءاور اپنے نبیوں کو دیتا ہے۔

    خود دار انسان اسی وقت بنتا ہے جب اس کا ایمان اللہ تعالی پہ اعلی درجہ کا ہو۔ اور وہ ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بندہ ہو۔ خود داری اصل میں اللہ پہ ایمان اور خود انحصاری ہے۔ ایک معذور شخص بھی خود دار ہوسکتا ہے اور ایک صحت مند اور امیر انسان لالچی اور خود غرض ہوسکتا ہے۔

    دنیا کے تمام کامیاب لوگوں کی فہرست نکال کر دیکھیں تو ان لوگوں میں خود داری نظر آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ہاتھ پھیلانے، مانگنے اور دوسروں سے مدد طلب کرنے والوں کی روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے اور یہی وجہ ہے دنیا میں آج تک کوئی بھکاری خوش حال نہیں ہوا۔ اسی طرح وہ لوگ جو اپنے پیشے اور کاروبار میں بے ایمانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنے مالکوں سے خیانت کرتے ہیں انھیں بے یقینی اور ناکامیابی کا ڈر کھاجاتا ہے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  9. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    وفاء داری

    اس کے معنی ہیں اخیر تک نباہ دینا، پابندی عہد کرنا، جاں نثاری کرنا، خیر خواہی چاہنا اور کرنا، اخلاص اور دیانت داری سے ملنا ملانا اور نمک حلالی کرنا۔

    وفا وہ پاکیزہ جذبہ کہلاتا ہے جو محبت اور ہمدردی کے جذبات سے جنم لیتا ہے۔ اس جذبے کا مظہر بے لوث احسان یا نیکی اور قربانی ہے۔ وفاداری اپنے تمام وعدوں کو دیانتداری سے پورا کرنے کے علاوہ پُرمحبت وابستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھلائی کے لئے مثبت اقدام اُٹھانے کا خیال پیش کرتی ہے۔

    وفاداری ایک ایسا غیر رسمی عہد ہے جس میں اپنوں کی عزت، عصمت، مال و دولت کو اپنا سمجھتے ہوئے ، بے لوث اور بغیر کسی تقاضے کے حفاظت کرنا اور احسان بھی نہ جتانا۔

    وفاداری انسان کی ایسی صفت ہے جس میں انسان اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو اس طریقے سے نبھاتا ہے کہ اس پہ اعتبار کرنے والے، اس پہ انحصار کرنے والے ، اس کو ایمان دار سمجھ کر امانت رکھوانے والے ناامید نہ ہوں۔

    وفاداری دیرپا تعلقات کی پائیداری اور استحکام کے لئے نہایت ضروری ہے۔ وفادار کی تعریف یہ ہے کہ انسان اپنے وعدے اور عہد میں مخلص ہو، اپنے کام اور ذمہ داریوں کو ایمانداری سے نبھائے۔ حکومت ، ریاست یا کسی شخص (خاتون سے شادی وغیرہ) سے کئے گئے عہد ، وعدے اور بیعت کو پوری طرح نافذ کرے اور انحراف نہ کرے۔

    اگر آپ کسی شخص یا دیگر کے ساتھ مخلص ہیں اور آپ نے اپنے آپ کو ان کے لئے وقف کردیا ہے تو آپ ایک وفا شعار انسان ہیں۔ اگر آپ ماما گجر کے علاوہ کسی دوسرے شِیر فروش سے دودھ نہیں خریدتے تو آپ وفادار گاہک ہیں۔ جو وفادار ہوتا ہے ؛ وہ ہمیشہ سچا انسان اور قابل بھروسہ شخص ہوتا ہے۔ خواہ کچھ بھی ہوجائے ایک وفادار دوست ہمیشہ آپ کی مدد کرے گا ۔

    خارجی طور پر قانون یا کسی اور ادارے کی طرف سے نافذ کئے گئے اصول و ضوابط کی تعمیل اس لئے کی جاتی ہے تاکہ سزا سے بچا جاسکے۔ لیکن ایسا رویہ اور برتاؤ جو انسان اخلاقی اصولوں کی پیروی میں اپنی مرضی اور دل کی گہرائیوں سے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے کرے، وہ یقیناً قابل تحسین عمل ہے۔

    میرے خیال میں وفاداری کسی بیرونی اثرو رسوخ کی وجہ سے نبھائی نہیں جاتی بلکہ یہ انسان کے اندر کی اخلاقی خصوصیات اور اس کا اپنا لیا گیا آذانہ فیصلہ ہوتا ہے۔

    وفاداری اور قربانی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ وفاداری میں انسان خود کو نقصان پہنچا لیتا ہے لیکن اپنے دوستوں اور اعتبار کرنے والوں پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ وفادار ی میں انسان اپنے ساتھیوں کو نہ تو دھوکہ دینے کا سوچتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کو اپنے ساتھیوں کو دھوکہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔

    محبت وفادار کی داستان ہوتی ہے اور وفادار شخص کے لئے وفاداری سے ذیادہ کوئی شے پر کشش نہیں ۔

    عبدالقیوم خان غوری
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  10. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    غیرت

    غیرت کے معنی ہیں احساس عزت، پاس ناموس اور انسان کی وہ خاصیت جو بے عزتی کو گوارا نہیں کرسکتی۔

    لفظ غیرت عربی زبان کے لفظ (غیرة) سے مستعار لیا گیا ہے۔ جس کے معنی ہیں محنت کرنا، کوشش کرنا اور جدجہد کرنا۔ غیرت دل کی حالت بدل جانے اور غصہ کے سبب ہیجانی کیفیت طاری ہوجانے کو کہتے ہیں۔ درحقیقت غیرت انسان کے اندر کا ڈر اور خوف ہے جو صرف اس لئے رونما ہوتا کہ انسان سمجھتا ہے کہ اس کے مقابل اسے ایک مزاحمت یا رکاوٹ کا سامنا ہے۔

    جبکہ اس کے مفہوم میں دو باتوں کا بطور خاص ذکر ہے۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہوجانا اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔ عموماً اس لفظ کو عورتوں کی عصمت اور عزت کو بچانے کے لئے کئے گئے اقدامات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ غیرت کا ظہور عموماً حسد، جلن اور غصے کے سبب ہوتاہے۔

    عربی زبان میں غیرت خود داری اور بڑائی کا وہ جذبہ ہے جو کسی غیر شخص یا گروہ کی شرکت کو لمحہ بھر کے لئے برداشت نہیں کرتا۔

    غیرت کا تعلق انسانی فطرت سے ہے۔ یہ جذبہ انسان کو فطری طور پر اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے غیرت سے محروم شخص پاکیزگی سے محروم ہوتا ہے اور جس کے اندر پاکیزہ زندگی معدوم ہو تو پھر اس کی زندگی جانوروں کی زندگی سے بھی گئی گزری ہوتی ہے۔

    جو شخص اپنے اہل و عیال اور محرم عورتوں کے بارے میں دینی غیرت و حمیت سے خالی ہو۔ یعنی ان کی بے حیائی، عریانی اور فحاشی کو دیکھے لیکن خاموش رہے تو وہ دیوث ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں حدیث ہے کہ اللہ تعالی ایسے شخص کی طرف قیامت والے دن دیکھے گا بھی نہیں۔

    اللہ تعالی نے انسان کو اپنی ذات، اپنی ہستی کے سلسلہ میں غیرت مند اور منفعل بنایا ہے۔ یہ وہ فطری جذبہ ہے جو انسان کےDNA میں شامل ہوتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان؛ خواہ وہ کتنا ہی لاچار و مجبور کیوں نہ ہو؛ لیکن اپنے آخری دم تک اپنی عزت و آبرو کی حفاظت اور صیانت میں جان کی بازی لگائے رکھتا ہے۔

    جس شخص یا قوم کے اندر غیرت و حمیت ، مونس و غمگساری کا جذبہ موجود ہوگا اس کی آنے والی نسلیں تعمیری زندگی گزار سکے گی۔اور وہی معاشرہ حُسنِ اخلاق کا پیکر بن کر اعلی اقدار کا مستحق بھی ہوگا۔

    حدیث کی رو سے اللہ تعالی کے نزدیک غیرت دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک غیرت مبغوض اور دوسری غیرت محبوب۔ شک کی بنیاد پہ اجاگر ہونے والی غیرت کو غیرت محبوب کہتے ہیں ۔ اور جو غیرت بغیر شک کے ہو وہ غیرت مبغوض کہلاتی ہے۔ اللہ تعالی کو غیرت مبغوض سخت ناپسند ہے۔

    سب سے محبوب اور قابلِ ستائش غیرت وہ ہے جو خالق ومخلوق کے درمیان ہوتی ہے ۔ یہ وہ غیرت ہےکہ ایک بندۂ مومن اللہ کی محرمات وحدود کو پامال ہوتے دیکھ کر طیش میں آجاتا ہےاور اس کی غیرت اس کو للکارتی ہے۔

    ایک مرد مومن اپنے تیئں سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن محرمات کی پامالی کو لمحہ بھر کے لیے بھی روا نہیں رکھ سکتا ہے۔ایسی صورت میں غیرت مند مومن کے جذبات کا برانگیختہ ہوجانا اور اس کے تن من میں شعلوں کا بھڑک اٹھنا ایک بدیہی امر ہے ۔دینی اعتبار سے سب سے زیاہ قوی وہی شخص ہوگا جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی محرمات وحدود پر سب سے زیادہ غیرت وحمیت ہوگی۔

    وقت کے ساتھ بدلنا تو بہت آسان تھا
    مجھ سے ہر وقت مخاطب رہی غیرت میری


    عبدالقیوم خان غوری
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  11. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    مروت

    مروت کے معنی ہیں اخلاقی رعایت، لحاظ کرنا، حسن سلوک سے پیش آنا، رحم دل، پاس خاطر اور دریا دلی وغیرہ۔

    مروت اخلاقی اقدار کا حسن ہے۔ با مروت شخص یا خاندان انسانیت، انصاف، رحم، جوانمردی، حمیت، غیرت، خلوص، رواداری، شائستگی اور اپنی تہذیب کا پیکر ہوتے ہے۔ اُن کا انداز نشست و برخاست، اُن کی خوش لباسی، اُن کی گفتگو کے آداب، اُن کے لہجے کی مٹھاس، اُن کا طرزِ تکلم اور اُن کا رہن سہن اُن کے عالی نصب ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔

    کسی بھی معاشرے کی اعلی ظرفی کا معیار دیکھنا ہوتو اُن کے حسنِ سلوک میں اِس امر پر توجہ دیں کہ وہ سامنے والے کی بات کس انہماک سے سنتے ہیں، اُس کی غلطیوں اور ناروا رویے میں کس قدر رعایت دیتے ہیں اور اُس کی کاوشوں کو کس طرح ملاحظہ کرتے ہیں اور اُس کی طرف داری میں بخل سے کام تو نہیں لیتے۔

    انسان غلطیوں کا پتلہ ہے اور عمر کے ہر حصے میں کہیں نہ کہیں کوئی چوک سرزد ہونے کا احتمال ضرور رہتا ہے۔ اور جب ہم کسی سے بات کررہے ہوں یا کسی سے کوئی معاملہ کررہے ہوں تو جہاں اصول و ضوابط کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا اہم ہے وہیں مروت سے کام لینا بھی ہمارے کردار اور اخلاق کی پاسداری کے لئے اًز بس ضروری ہے۔

    اللہ تعالی اگر ہمیں اِس قابل بنادے کہ ہم صاحبِ حیثیت ہوں یا کسی آفس میں صاحبِ اختیار ہوں اور اپنے ماتحت افراد یا ملازمین کی باتوں اور اُن گزارشات کو صرف قانون کے مطابق حل کرنے پر ہی اکتفا کریں اور مدعی کی کمزوریوں یا مجبوریوں کو خاطر میں نہ لائیں تو اسے بے مروتی کہتے ہیں۔

    حقیقت میں مروت سے کام لینا انسانی مردانگی کی عکاسی کرتا ہے۔ مروت کرنے والا شخص اصل میں اپنی سخاوت کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے، اپنی شرافت کا اظہار کررہا ہوتا ہے اور اپنے عزت دار ہونے کا ثبوت دے رہا ہوتا ہے۔

    مروت کا فقدان انسان کے اندر بدمزاجی پیدا کرتا ہے، انسان کو بخیل بناتا ہے اور سوقیانہ پن پیدا کرتا ہے۔

    ہمہ عیب خلق دیدن نہ مروت است نہ مردی
    نگہی بہ خویش کن کہ تو ہم گناہ داری

    تمام عیوب دنیا والوں میں تلاش کرنا نہ مروت ہے نہ مردانگی
    ایک نگاہ اپنے آپ پر ڈال کر دیکھ کہ تو بھی گناہ رکھتا ہے

    [​IMG]

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  12. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    غُصہ

    غُصہ کے معنی ہیں طیش میں آنا، غضب ناک ہوجانا، قہر کی شکل اختیار کرنا۔

    غُصہ ایک کیفیت ہے جو انسانی جذبات کی برانگیختگی کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے۔

    جس طرح انسانی فطرت خُوشی کو نہیں چُھپا سکتی اسی طرح غُصہ بھی ہمیشہ سامنے آکر ہی رہتا ہے۔

    غُصہ انسانی جذبات میں سے ایک ہے جو ہم روز مرہ زندگی میں محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک فطری عمل ہے جو کسی ناخُوشگوار واقعہ پیش آنے کے بعد ردِ عمل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں انسان کے اندر مایوسی و جُھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، سخت ہیجان پیدا ہوتا ہے، چہرہ سُرخ ہوجاتا ہے، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے، نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، سانس چڑھنے لگتی ہے۔ حتی کہ ایک سنجیدہ و خوبصورت انسان خوفناک اور وحشت ناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔ غُصہ کِبر و خُود بینی اور ظلم و تعدی (حد سے ذیادہ ستم اور حد سے ذیادہ ناانصافی) سے مرتبط ہوتا ہے اسی لئے وہ ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔

    غُصہ انسان کے لئے ناصرف انفرادی طور پر نقصان دہ ثابت ہوتا ہے بلکہ یہ ہمارے اِرد گِرد کے لوگوں کے لئے بھی تکلیف اور زحمت کا باعث بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے آپ کے کئی دُشمن جنم لیتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناصرف آپ کے خانگی امُور متاثر ہوتے ہیں بلکہ سماجی طور پر نا پسندیدگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    غُصے کی حالت میں انسان لڑائی جھگڑا کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جسمانی، زبانی اور جذباتی طور پر نقصانات واقع ہوتے ہیں جو کہ ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ انسانی رشتوں کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

    کچھ لوگ غُصہ پی جاتے ہیں اور اس کا اظہار نہیں کرتے۔ کچھ لوگ غُصے کا برملا اظہار کرکے دُشمنیاں مول لیتے ہیں۔ جبکہ عقلمند لوگ غصے کے اظہار کے لئے مناسب وقت اور مناسب طریقہ اختیار کرتے ہیں تاکہ جھنجھلاہٹ، چڑچڑا پن اور ناراضگی جیسے جذبات سر نہ اٹھاسکیں۔

    غُصے کے باعث انسان اپنی ذات کو بہت ذیادہ نقصان پہچاتا ہے۔ دماغی حالت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ غصہ انسان کی جسمانی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے دل دھڑکنے کی رفتار اور فشارٍ خُون میں غیر معمولی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ اگر غصے کا احساس بہت شدید یا دیرپا ہو تو یہ تبدیلیاں ہماری صحت کو ناقابل تلافی نقصان بھی دے سکتی ہیں۔

    اللہ تعالی نے جہاں اپنے مومن و مُخلص بندوں کی مُتعدد صفات بیان کی ہیں وہیں ان کی یہ صفات بھی بیان کی ہے کہ

    الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَۚ‏﴿3:134﴾

    جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "پہلوان وہ نہیں جو اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دے۔ بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے کہ جب اسے غصہ آئے تو اپنے آپ پر قابو پالے"۔

    غصے پہ قابو پانے کے لئے چند طریقے بیان کئے جارہےہیں جو کارگر ثابت ہوسکتے ہیں:-

    1. اگر آپ کو اپنے جسم میں کچھ تبدیلیاں محسوس ہوں جیسے کہ سانس بھاری ہونا، سر درد ہونا، دل کا غیر معمولی رفتار کے ساتھ دھڑکنا، پھٹوں میں کھنچاؤ کی کیفیت، تو ان تمام علامات پر فوراً دھیان دیں۔ اُن علامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ایک غیر معمولی جذباتی کیفیت کا شکار ہورہے ہیں۔

    2. اگر اپ ان جسمانی تبدیلیوں کو محسوس کررہے ہیں تو گہرے سانس لیں۔ سانس اندر لیتے ہوئے کچھ وقفہ دیں اسی طرح کچھ وقفہ سانس روکے رکھیں اور پھر سانس باہر نکالتے ہوئے کچھ وقفہ دیں۔

    3. آدھ گھنٹہ کا وقفہ لیجئے تاکہ آپ خود کو پُرسکون کرسکیں۔ کمرے سے باہر نکل جائیں یا پھر مکالمہ ادھورا چھوڑ دیں۔ ہر ممکن کوشش کیجئے جس کی مدد سے آپ آرام دہ محسوس کرسکیں۔

    4. تلاوت سُنیں۔ یا کوئی ایسی شے سنیں جو آپ کو پسند ہو۔ اپنا دھیان بٹانے کی کوشش کریں۔

    5. کوئی بھی ایسا کام کریں جو آپ کی توانائی بحال کرسکے۔ مثلاً ورزش، رقص، کھیل کھیلنا یا پھر پیدل چلنا۔

    6. اپنے خیالات اور احساسات قلم بند کریں۔

    7. کسی سے مدد اور سہارا لیجئے۔

    8. اپنی ذات کا جائزہ لیجئے جو عوامل آپ کے غصے کا سبب بنے ان پر غور کیجئے۔

    9. جب آپ بہتر محسوس کریں تو مناسب انسان سے بات کیجئے۔

    10.اگر غصہ کو سُلجھانے میں ناکامی ہو تو خُود کو کسی تعمیری سرگرمی میں لگائیں۔

    11.کبھی کبھار کا غصہ صحت مند کی نشانی ہے لیکن ہر وقت کا غصہ آپ کا دشمن ہوسکتا ہے۔

    12.غصہ کے وقت برداشت کا ایک لمحہ آپ کو ہزار مرتبہ شرمندگی اور خجلت سے بچا سکتا ہے۔

    [​IMG]

    عبدالقیوم خان غوری
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  13. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    طوطا چشمی

    طوطا چشمی کے معنی ہیں بے وفائی کرنا، بے مُروّتی کرنا،بے لحاظی کرنا،بے اعتنائی کرنا اور کسی کو دھوکے (اندھیرے) میں رکھتے ہو‏‏ئے اپنا کام نکالنا۔

    جو شخص کسی کے احسانات کو بُھول جائے اسے طوطاچشم کہتے ہیں۔ طوطے کی آنکھیں چھوٹی چھوٹی گول گول ہوتی ہیں جنہیں وہ اکثر گھماتا رہتا ہے۔ غالباً آنکھیں گھمانے کی عادت کی بناءپر وہ آنکھیں پھیر لینے والوں کی علامت بن گیا ہے اور ہر بے مروت شخص کو طوطا چشم کہا جاتا ہے۔ طوطا چشمی کا کھیل رچانے والے کبھی اپنے لئے اور کبھی دوسروں کی منشاء پہ یہ قبیح عمل سرانجام دیتے ہیں۔

    طوطا چشمی ایک فطری عمل ہے جو مطلب پرست انسانوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ وصف ان لوگوں میں اعلی درجہ پہ پایا جاتاہے جو اپنی تشہیر چاہتے ہوں اور اہلیت نہ ہونے کے باوجود اہل اور قابل لوگوں کے برابر میں بیٹھنا پسند کرتے ہوں۔

    طوطا چشم لوگ بہ یک وقت خوش پسند اور ناامیدی کے مظہر ہیں ۔ان کی فطرت میں دوستوں کو اذیت پہنچانے کی عادت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔لذت ایذا حاصل کرنا ازل سے طوطا چشم لوگوں کا وتیرہ رہا ہے ۔

    جس طرح طوطوں کی کئی قسمیں ہیں جن میں فصلی طوطے ،نسلی طوطے ، بولنے والے طوطے، پر تولنے والے طوطے، بٹورنے والے طوطے، گھورنے والے طوطے، رجلے طوطے، خجلے طوطے، ادھیڑنے والے طوطے، کھدھیڑنے والے طوطے، یک رنگ طوطے، صد رنگ طوطے، وجیہہ طوطے، وضیع طوطے، عمو می طوطے، نجومی طوطے، ہر کار طوطے، خرکار طوطے، باد نما طوطے اور صیاد نما طوطے قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح طوطا چشم لوگوں کی بھی کئی قسمیں ہیں اور کئی روپ ہیں۔ کچھ ان میں سے ایسے ہوتے ہیں کہ جو اپنی چالاکی، عیاری اور ہوشیاری میں اتنے ماہر ہوتے ہیں کہ آپ کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوسکے گا ان کی مسکراہٹ سجائے ہوئے چہرے پہ۔

    طوطا چشم لوگ ہمیشہ یہ روپ اپنی خاطر نہیں دھارتے بلکہ اکثر اوقات اپنے آقاؤں، اپنے محسنوں کو خوش کرنے کے لئے اور کبھی کبھی یونہی یہ کھیل رچاتے ہیں تاکہ دوسروں سے معلومات حاصل کرکے اور انھیں سنہرے خواب دکھا کر اپنا الو سیدھا کرسکین اور اپنی ذات کی تسکین حاصل کرسکیں۔

    طوطا چشم شخص وہی ہوسکتا ہے جس کی گھٹی میں الزام تراشی، بہتان طرازی اور غیبت پڑ گئی ہو۔ طوطا چشم شخص اپنے اہداف یا ان افراد کو جسے وہ شکار کرنا چاہتا ہے ان کی تر دامنی کے من گھڑت واقعات سنا کر عام لوگوں کے دل کے پھپولے پھوڑتے ہیں۔ ایسے سادیت پسندی کے مریض اور خفاش منش انسانوں کے ہاتھوں کسی کی پگڑی محفوظ نہیں۔ طوطا چشم لوگوں کے مانند کوئی انسان پینترے اور رنگ نہیں بدل سکتا۔

    طوطا چشم لوگ اس وقت تک اپنے آقا اور صیاد کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں جب تک وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوجائیں۔ اس کام کے لئے وہ اپنے آقاؤں کے ہاں سے چُوری کھاتے رہتے ہیں اور کبھی کبھار ان کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک آدھ تصویر بنوا لیتے ہیں تاکہ اپنی دھاک جمع سکیں۔

    طوطا چشم لوگ ضروری نہیں اپنے آقاؤں کے ہمیشہ وفا دار رہیں۔ جب تک ان کے آقا انھیں چوری کھلاتے رہتے ہیں اور ان کی جیب بھرتے رہتے ہیں تب تک وہ اپنے آقاؤں کے وفادار رہتے ہیں اور جیسے ہی ان کی آسائیشیں اور عیاشیاں ختم ہوجائیں وہ چونچ پھاڑ کر اور پنجے جھاڑ کر اپنے آقاؤں کے قبیح کردار کو ہد ف تنقید بناتے ہیں اور اس طرح صیاد کا کچا چٹھاسامنے لاتے ہیں کہ اس کو چھٹی کے دودھ کے ساتھ ساتھ نانی بھی یاد آجاتی ہے۔

    طوطا چشم لوگ فریب صنعت ایجاد کی انوکھی صورت ہیں ۔اپنی ظاہری شکل میں یہ لوگ نہ صرف سبز باغ دکھانے میں ید طولی رکھتے ہیں بلکہ وقت پڑنے پر گدھے کو بھی اپنا باپ بنانے میں کوئی خجلت محسوس نہیں کرتے۔

    طوطا چشم صفت افراد کے شریف النفس لوگوں سے مراسم ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں ۔ گرگٹ محض رنگ بدلتا ہے جب کہ طوطا چشم لوگ اپنا ڈھنگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔گرگٹ سرعت سے چولا بدلتا رہتاہے جبکہ طوطا چشم لوگ بڑ بولا بن کر اپنے منہ میاں مٹھو بنے رہتے ہیں۔ اور اپنی چونچ مال مفت میں پیوست کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہر کسی کو پھانسنے اور تکلیف پہچانے میں لگے رہتے ہیں۔

    طوطا چشم لوگوں کا چہرہ بظاہر بہت معصوم دکھائی دیتا ہے اور آنکھوں کو بھلا لگتا ہے۔ دنیا میں طوطا چشم لوگوں کی مقبولیت بہت ہی زیادہ ہے۔

    طوطا چشم لوگ اس وقت تک اپنے ہدف کا پیچھا کرتے رہتے ہیں جب تک اپنے ہدف کو اپنے مفاد کے لئے زیر نہ کرلیں۔ ان کی طوطا چشمی کی صفت کسی بھی حالت اور کسی بھی مرحلے میں کم نہیں ہوتی۔

    طوطا چشم خواہ بدصورت ہی کیوں نہ ہوں، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہر قسم کا بھیس بدل لیتے ہیں اور وہ روپ دھار لیتے ہیں جو شکار کو چوکنا نہ کرے۔

    طوطا چشم جب تک اپنا مقصد پورا نہ کرلیں، بہت دھیما لہجہ اپنائے رکھتے ہیں اور جیسے ہی مقصد پورا ہوجائے؛ نا تو اپنے شکار کو خاطر میں لاتے ہیں اور نا ہی اس شخص کو اہمیت دیتے ہیں جس کے ذریعے اپنے ہدف کا شکار کیا ہو۔

    طوطا چشمی کا وصف عارضی نہیں ہوتا بلکہ یہ قبر تک انسان کے ساتھ رہتا ہے۔ ایسے لوگ کبھی اطمینان قلب کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہوتے بلکہ حزن اور خوف ہمیشہ ان کا احاطہ کئے رکھتا ہے۔

    اللہ تعالی ایسے بد فطرت کے لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے اور ان کے سایے دور رکھے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  14. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کمال

    اس کے معنی ہیں انوکھا پن، غایت درجہ اعلی، انتہائی ترقی والا کام، بے حد عمدہ کام، مکمل کام اور حیرت انگیز اور کامل کام۔

    کسی شے کی لاجواب خصوصیات اور فوائد یا انسان کی بہترین کارکردگی اور صفات کے لئے لفظ کمال استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے جے ایف تھنڈر پاکستانی انجینئروں اور سائنس دانوں کی کاوشوں کا کمال ہے۔ بشری انصاری ، معین اختر اور سہیل احمد کیا کمال کی اداکاری کرتے ہیں۔

    یوں تو ہر انسان اپنا اپنا کام اچھی طرح جانتا ہے اور تندہی سے سرانجام بھی دیتا ہے اور جہاں تک اخلاص کی بات ہے کچھ لوگ اپنا کام ایمانداری سے سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن پھر بھی دنیا والے ان کے کاموں میں کوئی نہ کوئی کیڑا نکال دیتے ہیں۔

    کسی بھی شعبے میں کمال حاصل کرنے کے لئے اس کام سے متعلق ہر پہلو کے بارے میں علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ پھر اساتذہ کی راہنمائی سے انسان ہر قسم کے جھول کو ختم کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیتا ہے۔

    بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ کام کی انجام دہی میں کام سے محبت کا جذبہ کارفرما ہونا چاہیے۔ جب تک ہم اپنے کام سے محبت نہیں کرتے، ہمارا کام واجبی سا رہے گا۔ ہر وہ کام جسے آپ اپنے لئے بطور پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کام سے محبت بڑھائیے۔ اسے دل و جان سے سرانجام دیں۔ کم سے کم وقت میں عمدہ سے عمدہ کام کیجئے اور جہاں کوتاہیاں محسوس ہوں انھیں دور کرتے رہیے تاکہ کام میں نفاست اور عمدگی جھلکنے لگے۔

    ہر کام کی انجام دہی میں بجٹ کو ہمیشہ سامنے رکھا جاتا ہے۔ وہ کام جو براہ راست ، بغیر کسی عیب کے بروقت اور مناسب قیمت میں مکمل ہوجائے اور گاہک یا خریدار کو پسند آجائے اسے کمال کہنا کاریگر اور فن کار کی تحسین و توصیف کرنے کے مترادف ہے۔

    کمال فن کے لئے علم کا جاننا، کام کا جاننا اور کام سے متعلق تمام ضروری کاریگری، درکار مواد کی موجودگی اور مناسب قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاص اور خوش خلقی بہت اہم ہیں۔

    ان تمام لوازمات کے ساتھ ساتھ کاریگر کا تجربہ ایسی نایاب چیزیں اور تخلیقات بناتا ہے کہ دیکھتے ہی لوگ عش عش کہنے لگتے ہیں۔

    کمال کا درجہ حاصل کرنے کے بعد انسان کو ناصرف عزت و تکریم سے نوازا جاتا ہے بلکہ اس کا کاروبار بھی چمکنے لگتا ہے۔ اور ایک مقام ایسا آتا ہے کہ آپ کا نام آپ کے کام سے منسلک ہوجاتا ہے۔

    یہی وہ دور ہوتا ہے جب آپ کو آپ کی محنت اور جانفشانی کا پھل ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تمام کڑوی اور کسیلی باتیں جو آپ نے اس مقام تک پہنچنے میں برداشت کیں تھیں؛ وہ سب آپ کی تعظیم، آپ کے روشن کاروبار کی چمک کے آگے مندمل پڑ جاتے ہیں۔

    اس کے بعد آپ کو ہر طبقے میں پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے اور کئی کمپنیاں آپ کے کام سے خوش ہوکر آپ کو ایوارڈ اور اسناد سے بھی نوازنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    لاہور میں سہگل موٹرز کسی بھی پرانی گاڑی کو نئی شکل اور نیا انداز دیکر کم پیسوں میں جدید ماڈل بنا دیتے ہیں۔ پرانی گاڑیوں کو نئے ماڈل میں ڈھالنے میں سہگل موٹرز کو کمال حاصل ہے۔ مٹھائیوں میں نرالا سویٹ والے کمال کی مٹھائیاں بناتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

    اس بارے میں حکیم الامت، علامہ محمد اقبال صاحب نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:-

    کسبِ کمال کُن کہ عزیزِ جہاں شوی
    اپنے کام میں کمال حاصل کرو تاکہ دنیا والے تمہیں عزیز جانیں۔​

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  15. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    روا داری

    روا داری کے معنی ہیں وضعداری سے ملنا، ہر کسی سے یکساں برتاؤ رکھنا، نرمی سے پیش آنا ، دوسروں کی آذادی رائے کا احترام کرنا ، ہر ایک کی حدود کا خیال رکھنا اور برداشت کرنا۔

    رواداری سے مراد یہ ہےکہ انسان فکری و اعتقادی ، رنگ و نسل اور وطن و زبان کی بنیاد پر کسی عصبیت یا جانب داری کا شکار ہوئے بغیر تحمل و بردباری سے ایک دوسرے کو برداشت کرے۔ کوئی انسان، گروہ ، پارٹی یا حکومت، دوسروں کے ان افکار و خیالات کو خواہ وہ غلط کیوں نہ ہوں صرف دوسروں کے جذبات و احساسات کا لحاظ کرتے ہوئے برداشت کریں۔ دیگر مذاہب اور نظریات کے ماننے والوں سے نفرت نہ کرے اور ان کے حقوق تسلیم کرے۔

    رواداری تہذیت یافتہ لوگوں کی اور مہذب معاشرے کی بہترین صفت ہے۔ وہ اقوام جو جنگ و جدل اور خون خرابے سے دور رہتے ہیں ان کے ہاں تمام مکاتب فکر کے لوگ ایک دوسرے کو آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں اور انفرادی طور پر ایسے بات کرتے ہیں کہ انسان کا دل موہ لیتے ہیں۔ آج 2019 کے دور میں کینیڈا کا ملک ایسی زندہ مثال ہے کہ وہاں آپ کو نہایت عزت و احترام سے مخاطب کرتے ہیں اور آپ کی خیریت ، آپ کی ترقی، آپ کے بہتر مستقبل کے لئے جو بہتر ہو؛ وہی آپ کو آفر کرتے ہیں۔ اور آپ کے انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ہیں۔

    وہ لوگ جن کے مزاج اور شخصیت میں روا داری راسخ ہوجائے وہ لوگوں سے میل ملاقات اور معاملات میں شائستگی اور لطف و عنایت سے پیش آتے ہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اخلاقی صفات میں نرم دلی اور رواداری سب سے نمایاں ہیں۔ آپ بدو عربوں کی سخت مزاجی، بے ادبی اور جایلت پر نرمی اور رواداری سے پیش آتے تھے۔ آپ کی اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرویدہ بھی بنا دیا۔


    اسلام مذہبی روایات پر مبنی عبادات و رسوم کا مجموعہ نہیں اور نہ ہی یہ میراث میں ملنے والی پہچان ہے۔ بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے ایک ضابطہ حیات کے طور پر ودیعت کیا گیا دین ہے۔ قرآنی تعلیمات پر من و عن عمل کرنے ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جس میں انسانی مساوات، معاشی ترقی، امن و آتشی، قوم یا نسل کی تفریق کے بغیر باہمی اخوت و بھائی چارے پر مبنی معاشرے کی بنیاد پڑتی ہے۔ اور ہر قسم کے منفی تعصبات کے خاتمے کا عمل شروع ہوتا ہے اور اس کے رواج سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اگر ہم لوگ اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ دوسروں کو پوری طرح بات کرنے کا موقع دیں اور آخر تک ان کی بات سنیں۔ اور کوشش کریں کہ اسے بیچ میں نہ کاٹیں بلکہ اسے پوری بات کہنے کا موقع دیں۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ سامنے والا اپنا بیان مکمل کرنے کے بعد نارمل حالت میں آجاتا ہے اور آپ کی ہر معقول بات سننے اور سمجھنے کو تیار ہوجاتا ہے۔

    کیونکہ جب انسان دل کی بات باہر نکال دیتا ہے تو اندر سے ہلکا محسوس کرتا ہے اور شدت یا غصے کی حالت سے باہر نکل آتا ہے۔

    انسانی فطرت ہے کہ اس کی بات نہایت غور اور توجہ سے سنی جائے اور اسے اہمیت دی جائے۔ اس لئے کوشش کریں کہ چہرے پہ مسکراہٹ لائیں اور شائستگی سے بولیں کہ کھل کر بات بیان کی جائے۔

    اگر سامنے والی کی باتیں سچ پر مبنی ہوں تو اس کی تعریف کریں اور من و عن اس کی مانگوں کو پورا کریں اور اس کا شکریہ ادا کریں تاکہ اس کا دل صاف ہوجائے اور آپ کے نفس کی تربیت ہوجائے۔

    اسی طرح اپنے قرب و جوار میں رہنے والے دیگر مسلک کے لوگوں سے مذہبی نازک معاملات نہ چھیڑیں بلکہ عمومی باتیں کریں اور ان سے میل ملاپ کو بلاتفریق بڑھائیں۔ اخلاقی مدد کرتے رہیں اور دنیاوی ضرورت کے امور میں باہمی مشاورت بھی کرتے رہیں تاکہ وہ آپ کو اپنا خیر خواہ سمجھیں۔

    اگر کرکٹ کھیلتے ہوئے بچوں نے غلطی سے آپ کے گھر بال پھینک دی ہو اور کوئی نقصان بھی نہ ہوا ہو تو انھیں خوشی سے ان کی بال واپس کریں اور انھیں پیار سے کہیں کہ گھروں سے دور کھیلیں اور محتاط رہیں۔ اور اگر کوئی نقصان ہوجائے یا چوٹ لگ جائے تو نہایت شیریں انداز میں سمجھائیں اور صبر کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آ پ کی بات ان تک پوری طرح پہنچ جائے گی اور آپ کو نقصان کے بارے میں ذیادہ تفتیش بھی نہیں رہے گی۔

    مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  16. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    شیریں کلامی

    شیریں کلامی کے معنی ہیں فصاحت و لطافت سےگفتگو کرنا، کسی سے نرم لہجے اور شیریں زبانی سے بات کرنا۔


    سلام کرنا، شکریہ ادا کرنا، حال پوچھنا‘ ایک دوسرے کو نیک دعائیں دینا‘ اچھی باتیں کرنا‘ اچھی باتیں سمجھانا‘ اسی ایک صفت کے مختلف جزئیات ہیں۔

    شیریں کلامی یہ ہے کہ باہم ایک انسان دوسرے انسان سے باتیں کرنے میں ایک دوسرے کے ادب و احترام اور لطف و محبت کا پہلو ملحوظ رکھے تاکہ آپس میں خوشگوار تعلقات پیدا ہوں اور باہمی مروت اور محبت بڑھے۔

    شیریں کلامی کے ساتھ گفتگو کی عادت انسانی خصائل میں سے بہترین عادت ہے۔ اس سے ہر آدمی کا دل جیتا جا سکتا ہے گفتگو میں کڑوا لہجہ، چیخنا چلانا، ڈانٹ پھٹکار منہ بگاڑ کر جواب دینا ، یہ اتنی مردود عادتیں ہیں کہ اس سے آدمی ہر ایک کی نظر میں قابل نفرت ہو جاتا ہے۔

    خوش گوئی اور خوش کلامی آپس میں میل ملاپ پیدا کرتی ہے اور بدگوئی و بد کلامی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے۔ وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ ، نفرت ، حسد اور نفاق کے بیج بوتا ہے۔ اس لیے ہمارے لئے بہتر ہے کہ ہم نیک بات بولیں، نیک بات کہیں، اچھے لہجے میں کہیں اور نرمی سے کہیں کہ آپس میں میل ملاپ اور مہر و محبت پیدا ہو۔

    آنخضرت ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان نہ طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت بھیجتا ہے، نہ بد زبانی اور فحش کلامی کرتا ہے(صحیح بخاری باب طیب الکلام)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کی شان اس قسم کی غیر مہذبانہ باتوں سے بہت بلند ہونی چاہیے۔ اس کی زبان سے حق و صداقت، خیر و بھلائی ، نیک خواہی، اور بھلائی کے سوا کوئی اور بات نہ نکلے۔ ایک اور مقام پر فرمایا کہ جو اللہ اور روز جزا پر یقین رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اچھی بات بولے ورنہ چپ رہے(صحیح مسلم کتاب الایمان)۔

    خوش مزاجی ہمیشہ خوبصورتی کی کمی کو پورا کر دیتی ہے لیکن خوبصورتی خوش مزاجی کی کمی کو پورا نہیں کر سکتی۔

    اگر آپ خوبصورت اور خوش لباس ہیں تو آپ کو دنیا کی رنگینیاں اچھی لگے گیں لیکن اگر آپ خوش گفتار ہیں تو آپ دنیا کو اچھے لگو گے۔

    اپنی زبان کو نرم گفتگو اور سلام کا عادی بناؤ کہ اس سے تمہارے دوست زیادہ اور دشمن کم ہوں گے۔

    کامیاب لوگ اپنے ہونٹوں پہ دو چیزیں رکھتے ہیں ، خاموشی اور مسکراہٹ، مسکراہٹ مسئلے حل کرنے کے لیے اور خاموشی مسئلوں سے دور رہنے کے لیے۔

    نہ لو تم بخل سے کچھ کام اب شیریں کلامی میں
    مزہ جاتا رہے گا ورنہ لفظوں کی حلاوت کا

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  17. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    حقوق العباد

    حقوق العباد کا لفظی معنی ہے بندوں کے حقوق۔ ان حقوق میں والدین، اولاد، بیوی، رشتہ دار، یتیم، مسکین، مسافر، اہل حاجت، ہمسایہ، سائل، قیدی کے حقوق اور اجتماعی و معاشرتی حقوق کا وسیع تصور شامل ہے۔

    اسلام انسانیت کے لئے پانچ چیزوں کے تحفظ او رنگہداشت کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ جان کی حفاظت، مال کی حفاظت، عزت کی حفاظت، مذہب کی حفاظت اور آل اولاد کی حفاظت۔ ان پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اسلام انسان کی جان اور اس کے مال، اس کی عزت، اس کے دین اور اس کی نسل کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے۔

    آج کے دور میں کوئی ایسا بھی ہے جسے کسی دوسرے سے گلہ نہ ہو، کوئی رنجش یا شکایت نہ ہو۔ ان شکووں سے رشتوں کی مضبوط دیواروں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں۔باہمی تعلق کے گلستان اجڑ رہے ہیں، بندھن کمزور ہو رہے ہیں۔ رویوں میں سرد مہری کی برف جمتی جارہی ہے۔ پیشانیاں شکنوں سے بھرتی جارہی ہیں۔آپ نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر ان ساری کیفیات کا سبب کیا ہے؟ محبت کی مٹھاس کی جگہ تلخی کا زہر کیوں رگوں میں اتر رہا ہے؟ خوشیاں بانٹنے والے اب دکھ کا باعث کیوں بن رہے ہیں؟اگر معاشرے پر غور کریں تو ایسے تمام معاملات کی ایک ہی بڑی وجہ سامنے آتی ہے۔اور وہ ہے کہ کسی کے حق کی ادئیگی نہ کرنا یا کسی کا حق چھین لینا۔کیونکہ آج کے دور میں یہ فلسفہ ہر کسی کےذہن میں جگہ بنا چکا ہے کہ دوسروں کا حق دینا نہیں اور اپنا حق چھوڑنا نہیں۔یہی فساد کی بنیادی جڑ ہے۔

    اسلامی تعلیمات کی روسے بندوں کے حقوق کی ادائیگی اسلامی نظام کا لازمی جزو ہے اور ان حقوق سے اعراض و پہلو تہی ایک طرف تو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اور دوسری طرف اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔

    اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے انفرادی طور پر معاشرے میں ہر اک کا حق مقرر کیا ہے تاکہ حقوق و فرائض کے ذریعے ہر انسان کی تربیت کی جائے۔ ہمیں کسی بھی انسان کا حق نہیں مارنا چاہیے کیونکہ حقوق العباد کے گناہ نمازیں پڑھنے حج کرنے یا روزہ رکھ لینے سے بھی معاف نہیں ہوتے۔

    کچھ کام نہ آئیں گی نمازیں بھی سر محشرانسان نہ چاہے تو خدا بھی معاف کر نہیں سکتا

    حقوق العباد ادا کرنا نیک لوگوں کی صفت ہے۔ قیامت کے روز نہ صرف اللہ کے حقوق جیسا کہ روزہ، نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ کا حساب ہوگا بلکہ بندے کے حقوق کا بھی حساب ہوگا۔ اللہ کا مجرم ہونا اس قدر خطرناک نہیں جس قدر بندوں کے حقوق مارنے میں خطرہ ہے۔


    انسانی معاشرت میں سب سے زیادہ اہم رکن خاندان ہے اور خاندان میں سب سے زیادہ اہمیت والدین کی ہے۔ والدین کے بعد ان سے متعلق اعزہ اقربا کے حقو ق کا درجہ آتا ہے ۔ اس کے بعد جیسے جیسے انسانی معاشرے کے تعلقات وسیع ہوتے جاتے ہیں ، ویسے ویسے انسان آفاقی ہوجاتا ہے اور کائنات میں موجود تمام مخلوقات سے اس کے خوشگوار تعلقات کی ابتدا ہوتی ہے۔ ہر ایک کے لئے جو کم سے کم حق ہے وہ میٹھا بول ہے۔

    تمام طبقات میں سے ہر ایک کے حقوق کی طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے لیکن سب سے زیادہ جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ قول کریم اور قول معروف ہے۔ اللہ رب العزت نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کے ساتھ جس تفصیل کا ذکر کیا ہے اس میں زبان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے چنانچہ ارشاد فرمایا ہے : '' ان دونوں(والدین )میں سے کسی کو بھی اُف تک نہ کہو ۔ بلکہ ان سے اچھی بات کہو۔''ان آیات کی تعلیمات پر غور فرمائیں۔

    پہلے جن دو باتوں سے منع کیا گیا ہے ان کا تعلق زبان ہی سے ہے۔ زبان سے والدین کو اُف تک نہ کہو ۔ بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو۔۔ نرمی بھی ایسی جس سے رحمت وشفقت ،محبت ومودت اور رحم وکرم ٹپکتا ہو۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ بوڑھے والدین کو اس بڑھاپے میں سب سے زیادہ شیریں کلامی کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ان کی مادّی ضروریات کا تعلق ہے، وہ اگر اولاد پورا نہ بھی کرے تو رب کائنات اُن کی ربوبیت اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک انہیں اس دُنیا میں قیام کرنا ہے۔

    اولاد کے لئے والدین کے بارے میں سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لے، ان سے تنگ نہ آئے اور ان کے بڑھاپے کے عوارض سے پریشان نہ ہوجائے بلکہ ان سے شیریں کلامی کے ذریعہ ان کا دل بہلائے ، اُن میں اعتماد اُمید جگائے اور اُن کی دل بستگی کا سامان کرے۔ پروردگار عالم نے اپنے بندوں کو یہ عمومی تعلیم دی۔ ارشاد فرمایا : '' اور لوگوں کے ساتھ بھلے طریق سے بات کرو''۔

    بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے انسان کی محرومیاں دور ہوجاتی ہیں اور باہمی محبت ویگا نگت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس طرح بغض وعداوت کا خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہر آدمی صرف اپنے حقوق کی بات نہ کرے بلکہ فرائض کو بھی پہچانے ۔ اس طرح حقوق و فرائض کے درمیان ایک مناسب توازن برقرار رکھے تاکہ کسی کا حق غصب نہ ہو اور کوئی فرد محرومیوں کا شکار ہوکر انتہا پسند ی کی جانب مائل نہ ہو۔


    حقوق العباد میں مالی حق بھی ہے اور اخلاقی حق بھی۔ قرآن پاک نے جا بجااس کی حدود بیان کی ہیں اور اس کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے۔

    حقوق العباد کی ادائیگی میں غفلت ، کوتاہی یا کسی قسم کی کمی بیشی رہ گئی تواللہ تعالی بندے کواس وقت تک معاف نہیں کریں گے جب تک کہ بندہ خود معاف نہ کردے۔

    [​IMG]

    بحیثیت مسلمان ہمیں حقوق العباد کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     

    منسلک کردہ فائلیں:

    Last edited: ‏24 مارچ 2019
  18. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کردار

    کردار کے معنیٰ ہیں طرز ، طریق ،قاعدہ ، شغل، کام ، چلن ، خصلت، عادت اور اصطلاحی طور پر کردار ان امتیازی خصوصیات کو کہتے ہیں جو انفرادی طور پر انسان میں نشونما پاتی ہیں۔ جس طرح چھوٹے چھوٹے سوراخ ایک اندھیرے کمرے میں روشنی کی نوید دیتے ہیں؛ اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتیں انسان کے کردار کو عیاں کرتی ہیں۔

    وہ خواص یا علامات جو ایک انسان میں ہوں اسے کردار کہتے ہیں۔ کسی صورت حال میں انسان کا برتاؤ اس کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں سے جس طریقے سے آپ نبٹتے ہیں اسے آپکا کردار کہتے ہیں۔

    کردار کی تعریف عزت نفس، خودداری، ارادے کی پختگی اور دیانت داری ہے۔ ان تمام خصوصیات کا نہایت درجہ پہ موجود ہونا بلندی کردار ہے۔ قوم کے اجتماعی مفاد کیلئے افراد کا اپنے آپ کو قربان کر دینے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا بلند کرداری ہے۔

    وہ کام جو کہنے سننے اور لکھنے لکھانے سے نہیں ہوتے وہ کردار کے ذریعے تکمیل پاجاتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں کردار ہی ایک ذریعہ ہے جس سے ہم اپنی عادات و اطوار بنا لیتے ہیں۔ انسان کا کردار ایک ایسی کتاب ہے جسے ہر ایک انسان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل گنورا، بآسانی پڑھ سکتے ہیں۔

    تعمیر انسانی شخصیت اس کے کردار سے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا کردار اس کی تربیت سے واضح ہوتا ہے۔ لیکن انسان کی عملی تربیت اس کے راسخ عقیدہ اور اس کے روشن نظریات کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

    کردار میں عظمت ہے۔ انسان کا کردار وہ حسن ہے، جسے زوال نہیں۔ انسان کا کردار اسے عظیم بنا دیتا ہے۔ انسان کی تربیت کی ابتدا ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے۔ پھر جب بچہ چلنا پھرنا سیکھتا ہے اس کی تربیت کا دوسرا دور مدرسہ سے شروع ہوتا ہے۔ اور تیسرا مرحلہ انسان کے دوست اور وہ ماحول ہے جس میں وہ پروان چڑھتا ہے۔

    تحصیل علم اور پھر عملی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں خدمات سرانجام دینے سے انسان نہ صرف زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتا ہے بلکہ اپنے علم کی روشنی میں اپنی خدمات کوسرانجام دینے سے اسے بے شمار تجربات سے واسطہ پڑتا ہے۔ اسی مرحلے پر اسے حقیقی معنوں میں سچ اور جھوٹ، اصل اور نقل، انصاف اور ناانصافی، ایمان اور بے ایمانی، خیر اور شر، غرضیکہ حق اور باطل کا عملی نمونہ نوکری یا کاروبار سے حاصل ہوتا ہے۔ جہاں وہ روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کے رویے اور برتاؤ کو دیکھتا ہے اور دنیا کی مکاریوں اور دروغ گوئی کا سامنا کرتا ہے ۔ مگر اچھا انسان وہی ہے جو منفی رویوں کو سمجھتا ہو اور ان کے سد باب کے لئے صحیح راستہ اپنائے چہ جائے کہ دنیا کے رنگینیوں میں رنگ جائے ۔

    اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کے لئے قرآن مجید میں نبی کریم سرور کونین حضرت محمد مصطفی کی ذات اقدس کو رہتی دنیا تک ایک نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ (ترجمہ) ”بے شک تمہارے لئے حضور کی ذات بہترین نمونہ ہے۔

    احکام الہی جہاں عبادت کے لحاظ سے شرک سے روکتا ہے اور ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتا ہے وہاں وہ اخلاقی اقدار کی نسبت جھوٹ بولنے ، وعدہ خلافی ، خیانت ، بدی، رشوت، بغض و حسد اور دوسری برائیوں سے بھی منع کرتا ہے۔

    ان بری باتوں کے بر خلاف قرآن مجید جن خوبیوں کو اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے ان میں سچ بولنا ، عفت و پاک بازی ، عفو و درگزراور ایثار و قربانی جیسے نیک اوصاف کی طرف توجہ دلاتا ہے ، انسان جس حد تک ان اوصاف سے متصف ہو گا، اسلام اسے اسی حد تک انسان کے معیار کی بلندی قرار دیتا ہے۔ انسان کا کردار اتنا بلند ہونا چاہیے کہ وہ اگر اس دنیا سے چلا بھی جائے تو لوگ اسے اچھے لفظوں میں یاد کریں اور اگر زندہ ہو تو اس سے دوبارہ ملنے کی تمنا کریں۔

    اگر انسان ذاتی مفادات سے بالاتر ہوجائے تو اشرف والمخلوقات کہلاتاہے۔ حیوانیت سے انسانیت تک کا سفر بہت طویل اور پیچیدہ ہے۔ عمریں بیت جاتی ہے اس سفر کے پیچ وخم میں۔ بعض لوگ پیدائشی خوش نصیب ہوتے ہیں اُن کی تربیت فطری ہوتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ انساانیت کا عملی نمونہ بن جاتے ہے۔اس دنیا میں کچھ لوگ تربیت دینے کے باوجود انسانیت کے دائرے میں نہیں آتے ہیں۔ بعض لوگوں کے مرنے سے بہت سے لوگ مرجاتے ہیں (کیونکہ ان کی ہستی ایک سایہ دار درخت کی طرح کئی گھرانوں کی کفالت کررہی ہوتی ہے) اور بعض لوگوں کے مرنے سے بہت سے لوگ جینے لگتے ہیں (کیونکہ ان کا وجود بہت سے لوگوں کا حق غاصب کئے ہوئے ہوتا ہے ) یہ سب اپنے اپنے کردار کا نتیجہ ہے۔

    خدائے ذوالجلال نے کسی انسان کو بغیر کسی مقصد کے نہیں بنایاہے۔ لیکن بہت کم لوگ اس حقیت کا ادراک رکھتے ہیں۔ عموما بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ایک مقصدہے تو اِس مقصد کے حصول میں ہمیں کیا کرنا چائیے؟ اس مقصد کے حصول میں کیا، کیوں، کیسے اور کب کے سوالات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کے لئے ہمیں ہدایت اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل وشعور رکھنے کے باوجود ہم اِن سوالات کے جواب دینے یاپانے سے قاصرہیں۔

    اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے کردار کی ادائیگی میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ ہرفرد کا معاشرے میں کوئی نہ کوئی کردارہے۔ اس لئے ہرکردار کی ادائیگی وقت پر ہوناچائیے۔ بعض لوگ اس معاشرے میں کئی قسم کے کردار کے حامل ہوتے ہیں جیسے ایک انسان کسی کا شوہر ہے، کسی کا باپ ہے کسی کا بیٹا ہے کسی کا بھائی اور کسی کا دوست ہے ، کسی کا مالک ہے اور کسی کا نوکر ہے، لیکن ایک کردار کو بھی تسلی بخش طریقے سے سرانجام نہیں دیتا؛ اس کے اپنے حقیقی کردار کو نہ نبھانے کی وجہ سے اس کا حصہ رہ جاتاہے اور معاشرے کی ترقی رک جاتی ہے۔

    ہمارے دین میں ایسے کرداروں کو فرائض میں شامل کیا گیا ہے۔ حقوق وفرائض کی ادائیگی کردار سے ہی ممکن ہے۔ ہم حکومت کا کردار (سرکاری نوکری) لیتے ہیں لیکن احسن طریقے سے اس کو نبھاتے نہیں۔ ہم سرکاری اداروں ‘ نجی اداروں‘ محکموں‘ تنظیموں‘ انجمنوں‘ گروہوں اور دینی اداروں میں بڑے بڑے کردار(عہدے) لیتے ہیں لیکن ان تمام سے عہدہ براء نہیں ہوتے ہیں۔ ادھورے اور غیرتسلی بخش کاموں کی وجہ سے اداروں کی کارکردگی بے نتیجہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس ضمن میں چند افراد کی ایمانداری کوئی اثر دیکھا نہیں سکتی۔ زیادہ لوگ کم لوگوں پرغالب آتے ہیں اور معاشرے میں ان کا کردار زیادہ نظر آنے لگتاہے۔

    تاریخ انسانیت میں کڑوڑوں لوگ آئے اور گئے لیکن چند ایک کی یاد ان کی کردار کی وجہ سے مشہور ہوکر رہ گئی۔ وہ اِس دنیا میں نہ ہوتے ہوئے بھی زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔ ہرفرد کو اِن چیزوں کا علم ہے لیکن اس کے باوجود اپنے کردار میں غفلت برتتے ہیں ۔ اِن کے دل پر قفل ہے اِن کی انکھوں پر پردہ ہے اور ان کی بصیرت کام نہیں کرتی ہے ۔

    ہمار ی سوچ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں بھلا انسان بننا ہے۔ سب کچھ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو اچھے لوگوں کی یا بُرے لوگوں کی راہ پربھی چل سکتے ہیں۔اس لئے اللہ سے ہم دُعا مانگتے ہیں ’’اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت کرتا رہ اور ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے اپنی نعمتیں بھیجی نہ کہ اُن کا جن پر تُونے غضب کیا اور نہ ہی گمراہوں کا۔

    کردار کیسے صحیح کریں؟ کون تعمیر کردار کی تعلیم دیں؟ یہ سوالات ایک مسلمان کے لئے مناسب نہیں کیونکہ اللہ نے قرآن پاک اور سنتِ رسول میں اِن سوالات کا جواب دے رکھا ہے۔فرماتے ہیں ’’بیشک ہر ایک سے اُن کے ایک چھوٹی سے چھوٹی اچھائی کو بھی دیکھا جائے گا اور برائی کوبھی‘‘ اب ضرورت عمل کی ہے۔ اللہ ہم سب کو اپنے کردار کی ادائیگی میں بھرپور رکھیں تاکہ معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

    کردار کی عظمت کے لئے درج ذیل نقائط پر توجہ دیں:-

    اختیار ہوتے ہوئے غلطی نہ کریں۔
    طاقت ہوتے ہوئے طاقت کا استعمال نہ کریں۔
    بھوک لگی ہو، اپنا کھانا مفلوک الحال شخص کو دے دیں۔
    آپ جواب دینے کی سکت رکھتے ہوں مگر معافی دے دیں۔
    آپ سامنے والے کو اڑا کے رکھ سکتے ہوں مگر چپ کر جائیں۔
    حق دار کو چل کے جا کے حق دیں کہ بھائی تمہارا یہ حق ہے، مہربانی کرو، پکڑ لو۔

    ایمان پر چلنے والا، ریگستان کی تنہائی میں بھی گناہ کا موقع آئے تو کہے گا مجھے میرے اللہ کا خوف ہے۔ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا، میرا رب دیکھ رہا ہے۔ اختیار کے ہوتے ہوئے غلطی نہ کرنے والا باکردار انسان ہے۔ وہ ولی بندہ ہے۔ اللہ کا دوست ہے۔ جو پوری طاقت رکھنے کے باوجود ایک ایسا راستہ اختیار کرتا ہے جو ویران راستہ ہے۔ سارے اس راستے پہ نہیں چلتے۔ وہ اپنے سے انتخاب کرتا ہے کہ نہیں بھئی میں نے صحیح راستے سے نہیں اترنا۔

    کردار یہ ہے لوگ آپ پہ اعتبار کریں۔ لوگ آپ پہ یقین کرسکیں۔ لوگ آپ پہ بھروسہ کرسکیں۔ لوگ آپ کے ساتھ محفوظ و مامون محسوس کریں۔ لوگ آپ کے ساتھ چلتے ہوئے خواہ آپ جاب لے رہے ہوں یا آپ کے پاس جاب کررہے ہوں، محفوظ محسوس کریں۔ وعدہ پورا کریں، تنخواہ وقت پر دیں۔ عزت دیں، انھیں اہمیت دیں، چھوٹے سے چھوٹے انسان کی قدر کریں۔

    دھوکہ دہی، دروغ گوئی، حقیقت کو چھپانا، لغویات سے کام لینا، اور وعدہ خلافی کرنا، کردار سے عاری ہونے کی نشانی ہے۔ جیسے آپ بالکل نیک ہیں، ساری نمازی پڑھتے ہیں مگر تنخواہ نہیں دیتے، لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں ان کی عزت نفس کو لہو لہان کرتے ہیں، لوگوں کو باتیں سناتے ہیں، ان کو خوار کرتے ہیں۔ یہ سب وصف آپ کے خود غرض ہونے کی دلیل ہیں۔

    کردار وہ واحد کسوٹی ہے جس سے ہم کسی کی انسانیت اورتمیز کو پرکھ سکتے ہیں۔

    جنہیں ملتا ہے اعلی ظرف اور کردار اےغوری
    نہیں کرتے کبھی پرچار اپنی شرافت کا

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نیکی

    نیکی کے معنی ہیں اچھائی، راست بازی، حسن سیرت، جوہر صفت ، پاک دامنی اور عمل کی اخلاقی قوانین سے مطابقت۔

    نیکی سے مراد اچھا کام۔ لغت میں بھلائی عمدگی کارخیر اور احسان کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ کوئی اچھی بات، کسی مسلمان بھائی سےحسن سلوک، کسی غریب کی مدد وغیرہ یا ایسا کام جو بھلائی کی نیت سے کیا یا سوچا گیا ہو۔ اس کا اجر ثواب ہے۔

    عربی میں نیکی کے لئے برّ کا لفظ بولا جاتا ہے انگریزی میں Virtue کہتے ہیں۔ ۔ انسان کی زندگی میں نیکی و بدی ،خیر و شر کا اہم کردار ہے اس لئے نیکی کرنا بہت اہم ہے کہ یہ نیکیاں ہی ہیں جو ہمارے گناہوں کو مٹاتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عمل خیر ہمارے انسان ہونے اور اچھا مسلمان ہونے کے لئے وجہ تقویت ہے ۔

    ہر شے کا ایک حسن ہوتا ہے اور نیکی کاحسن یہ ہے کہ اسے فورا ً انجام دیا جائے ۔ہم اپنا جائزہ لیں اور مشاہدہ کریں کہ کیا ہم نیکی خوشدلی سے کرتے ہیں یا بے دلی سے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نیکی کو حقیر نہیں جاننا چاہئے۔

    ایک انسان جسے اچھائی کا ذرا بھی شعور ہو، اس کے مالی حالات اجازت دیں اور سماجی حیثیت مستحکم ہو، وہ ضرور کار خیر میں اپنا حصہ ڈالے گا اور ممکن ہے اپنے کام کے لئے ذاتی پروجیکشن کا طلبگار ہو۔ یہ خواہش انسانی جبلت میں شامل ہے۔ لیکن جوں جوں کوئی بے لوث ہوکر اس کا ر خیر کو اپنی زندگی کا حصہ بنالے اور نیت لوگوں کی بھلائی اور اللہ کی رضا ہوتو ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ اس طرح نیکیاں کرنے لگا کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو۔ کیونکہ کار خیر میں یہی عظمت ہے کہ اسے بار بار کرنے سے ذاتی مفادات بالکل ختم ہوجاتے ہیں اور وہ نیک بندہ اپنے آپ کو اللہ کا رضا کار سمجھ کر اپنے وسائل کو اللہ کی راہ میں کھول دیتا ہے۔

    دین کا بنیادی جذبہ خیر خواہی ہے۔ چنانچہ اگر ہم کسی کے لئے اچھائی نہیں کر سکتے تو اس کے لئے برائی کے مرتکب بھی نہ ہوں۔ خیر خواہی کے لئے محض مالی حالت کا اچھا ہونا ضروری نہیں ہے۔ لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، سلام میں پہل کرنا، کسی کی غیبت نہ کرنا اور نہ غیبت سننا، اللہ کی مخلوق سے حسن ظن رکھنا، لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کر دینا، بیمار کی مزاج پرسی کرنا، حقوق العباد کے زمرے میں آتے ہیں۔ کوئی جلدی میں ہو اور آپ کا انھیں راستہ دینا بھی نیکی ہے۔آپ جس بس یا ٹیکسی میں سفر کرتے ہیں، اُس سے نکلتے وقت ڈرائیور کو شکریہ کہنا بھی نیکی ہے۔

    اسی طرح کسی انسان کی مدد، کسی جانور کی مدد، سڑک پر پڑے ہوئے پتھر یا کانٹوں کو راہ سے ہٹا دینا ، کسی مسافر کو ایکسڈنٹ یا ہارٹ اٹیک یا کسی بھی وجہ سے گرنے کی صورت میں ہسپتال پہنچا دیناکسی بچے کو سبق میں درپیش مشکل حل کر دینا اور سمجھادینا ،کسی کو راستہ بتلا دینا ،کسی بھائی یا بہن کا کسی محفل میں مذاق اڑانے کی غرض یا جھوٹی بات منسوب کرنے پر اس کے حق میں بولنا،کسی ضعیف بزرگ یا بوڑھی عورت کو سڑک پار کروا دینا یہ سب نیکی میں شمار ہوتے ہیں ۔

    اسلام نے نیکی کے بھی اصول وضوابط مقر کئے گئے ہیں نیکی احسان جتلا کر نہ کی جائے ۔ نیکی دکھاوے کے لئے نہ ہو۔ بلکہ نیکی رغبت سے کرنا چاہیے۔ اصل نیکی وہ ہے جس سے اطمینان قلب حاصل ہو۔ وہ کام آپ کا اپنی ذات کے لئے بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کے لئے بھی ۔اپنی ذات کے لئے اس طرح کہ آپ خودکو کسی برائی سے بچاکر جب آپ برائی کی طاقت رکھتے ہوئے اللہ کے خوف سے برائی نہ کریں تو یہ آپ کا اپنی ذات پر احسان ہے کہ آپ نے خود کو رب کے ہاں شرمندہ ہونے سے بچا لیا چاہے آپ کا ایسا کرنے سے مقصود یا نیت یہ نہ تھی کہ اجر پائیں بلکہ نیت خشیت الہی اور تقویٰ تھا جو خوف الہی سے گناہ کی طرف مائل نہ ہوئے تو یہ آپ نے نیکی کی اور اپنی مرضی اور اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے کی جو رب نے عنایت کیا ۔

    نیکی عادت کا اچھا ہونا ہے۔ یہ عادت اس وقت پختہ تر ہوجاتی ہے جب ہمارا دل نیکی کے کاموں کی انجام دہی میں ناقابل بیان خوشی اور سکون محسوس کرنے لگے۔

    ایسے تمام کام جو دوسروں کی بھلائی کی نیت سے انجام دیئے جائیں وہ نیکی میں شمار ہوتے ہیں۔ نیکی وہ عمل ہے جس میں نیت تو انسانیت کی بھلائی ہوتی ہے مگر اصل مطمح نظر صرف اور صرف اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔نیکی وہ عمل ہے جو ہمارے اعمال نامے میں درج ہوتا ہے ۔ یہ وہی اعمال نامہ ہے جو ہمارے لئے جنت اور دوزخ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر وقت، ہر روز اپنی نیکیوں میں اضافہ کرتے رہنا چاہیے۔

    اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ۔البقرہ:148
    پس نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے بنو/ نیکیوں کی طرف پیش قدمی کرو۔


    ایک سورہ میں فرمایا کہ ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ۔ہود:114 ۔
    بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹاتی ہیں۔


    ایک اور سورہ میں فرمایاا کہ: : ﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ۔ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ۔ سورۃ الزلزلہ:7،8
    جس نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا جس نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔


    ہر بھلا ،اچھااور نیک کام صدقہ کے زمرے میں آتا ہے ہے اس لئے اسے کرنے کی تگ ودو کرنی چاہئے ۔ فرمان نبوی ہے «كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ»۔صحیح بخاری ، كِتَابُ الأَدَبِ، بَابٌ: كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ،حدیث نمبر:6021۔ترجمہ:ہر نیکی صدقہ ہے۔

    نیکیاں حاصل کرنے کی آرزو جب پیدا ہو جائے تو اللہ سبحان و تعالیٰ ہمارے دل کو اتنا روشن کر دیتے ہیں کہ ہم ہر وقت اپنے ارد گرد نظر رکھتے ہیں کہ کہیں کسی کو ہماری وجہ سے خوشی ملتی ہو، کسی کو لمحے بھر کے لئے سکون ملتا ہو تو ہم اُس کی طرف دوڑ پڑیں۔

    کوئی بہت غصے میں ہو اور آپ کا اُن کو مُسکرا کر دیکھ لینا بھی نیکی ہے۔

    کبھی کسی جگہ، کسی کو قلم کی ضرورت پڑے اور آپ کا آگے بڑھ کر انہیں اپنا قلم پیش کرنا بھی نیکی ہے۔

    نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ بلکہ نیکی میں یہ طاقت ہے کہ اس کی انجام دہی کے بعد انسان کو ایسی دلی خوشی ملتی ہے کہ اس کا کوئی مول نہیں۔ دوسرے نیکی اللہ تعالی کے لئے کی جاتی ہے ۔ اور اللہ تعالی اپنے بندوں کے اچھے اعمال کی جزا اس دنیا میں بھی دیتا ہے اور آخرت میں تو انسان کی نیکیاں محفوظ ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اپنی خوشیوں کو قربان کرکے کسی کی مالی مدد کرتے ہیں تاکہ اس کے مصائب کم ہوسکیں۔ اور اللہ تعالی اپنے فضل و کرم اور اپنے غیب کے خزانوں سے ہماری ایسی مدد کرتا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔

    دوسروں کی مدد کرنا، ان کے کام آنا، لوگوں کی ذمہ داریوں میں حصہ لینا، کسی بے سہارا کا سہارا بنا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں۔ ہر انسان مرد و زن کو چاہیے کہ ان نیکیوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنائیں کیونکہ عظیم مسلمان وہ ہے جس کی زبان، ہاتھ اور پیر اور دیگر توانائی و صلاحیت دوسرے انسان کے کام آئے۔

    اللہ تعالیٰ سے محبت کا ثبوت یہ ہی ہے کہ ہم اُس کی مخلوق کی مدد کریں ۔

    [​IMG]

    دوسروں کی خاطر بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا
    وہ زندگی کیا جس میں اپنی جاں ہی پیاری ہو

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     

    منسلک کردہ فائلیں:

    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ایمان داری

    ایمان داری کے معنی ہیں وفاداری کے عزم کا مظاہرہ کرنا، اخلاص سے معاملات کرنا، سیدھی راہ اختیار کرنا ، اعتماد قائم رکھنا، سچ مچ وہی کہنا اور کرنا جو حقیقت ہے اور دین و ایمان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا۔ ایمان داری کہنے و سننے میں بہت ہلکا و آسان ہے مگر عمل میں بہت مشکل اور آزمائش والا وصف ہے۔


    بے ایمان وقتی فائدہ اٹھا کر مستقل نقصان و پریشانی میں رہتا ہےجب کہ ایمان دار کو ظاہری طور پر وقتی نقصان نظر بھی آجائے مگر در حقیقت اس میں دیرپا فائدہ چھپا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایمان دار انسان کو نہ توخجلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور نہ ہی انہونے خوف کا کوئی ڈر ہوتا ہے۔

    عزت اور نیک نامی سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ مگر اسے کمانے کے لئے انسان کو سچا انسان، شائستگی کا مظہر اور ایمان دار ہونا چاہیے۔ دنیا میں " کمانا" اتنا اہمیت نہیں رکھتا جتنا کہ " کیسے کمایا" رکھتا ہے۔ اس کی پوچھ یہاں بھی ہوتی اور آخرت میں بھی ہوگی ۔ بے ایمانی کا تھوڑا سا کمایا بھی آپ کے حق و حلال کی کمائی کو آلودہ اور ضا‏‏ئع کردیتا ہے۔

    ایک ایمان دار شخص کو ہمیشہ کامیاب انسان سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اصول اس کی رہنمائی صحیح اور درست رستے کی طرف کرتا ہے اور اسے دنیا کے غم و آلام سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح اخروی زندگی میں بھی سکھ و آرام پہنچاتا ہے۔ آج کی تیز دنیا میں جہاں ہر قدم پہ خطرات انسان کو گھیرے رکھتے ہیں اور اگر دل میں بے ایمانی اور حرام کی کمائی کا احساس گھر کرجائے تو آپ کا اعتماد بھی متزلزل ہوتا ہے اور آپ کا خدائے ذوالجلال کی رحمت پہ یقین کو بھی بٹہ لگ جاتا ہے۔ نتیجتاً آپ حزن و ملال کے چنگل میں پھنس کر بے بس ہوجاتے ہیں۔

    ایمانداری کو اختیار کرکے انسان ایک محفوظ راستے کا انتخاب کرتا ہے۔۔ کیونکہ اگر ہم روزمرہ زندگی کی طرف دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے۔ کہ ایمانداری کا ہمیشہ اچھا صلہ ملتا ہے۔۔ ایک ایماندار شخص کی ہمیشہ قدر کی جاتی ہے۔ اسے قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ارد گرد کے لوگ اسے پسند کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ اسکے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ کیونکہ ایک ایماندار شخص مینارہ نور کی طرح ہوتا ہے۔ جو زندگی کے اندھیرے اور تنہائی میں رہنمائی کرتا ہے۔ لوگ اپنی مشکلات اور پریشانیاں اسکے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا شخص ہی انکی مشکلات حل کر سکتا ہے۔ اور وہ اس پوزیشن میں ہوتا ہے۔کہ انکی مشکلات اور پریشانیوں کا صحیح اور درست حل تجویز کر سکے۔

    دنیا کی بنیاد اللہ تعالٰی نے نیکی اور خیر پر رکھی ہے اور یہ قانون قدرت ہے کہ بدی ہمیشہ دنیا سے مٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی نیکی اور خیر کو برقرار رکھتا ہے۔ اور بدی اور برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے ایمان اور بد دیانت شخص کو ہمیشہ ملکی قانون کے تحت یا قدرت کے اصول کے تحت سزا ملتی ہے۔ اور اگر کسی وجہ سے قانون کی نظر سے بچ بھی جائے تو اس کا ضمیر عمر بھر اسے ایسے کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ ایک پل بھی سکون میسر نہیں ہوتا بلکہ پچھتاوا اور احساس گناہ کے زیر سایہ رہتا ہے۔

    بنی نوع انسان کی اجتماعی دانش اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ انہیں برائی اور برے طور طریقوں کا خاتمہ کرنا چاہیئے تاکہ دنیا میں امن و آشتی کو فروغ حاصل ہو اور امن پسند لوگ اطمینان سے زندگی گزار سکیں۔

    بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ معاشرے کے لیئے ٹھیک نہیں وہ بغیر کسی خوف کےاپنے مذموم کام کر رہے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ برے کام اور برے طور طریقے چھوڑ دیں ۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ روز بروز طاقتور اور مضبوط بھی ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    دراصل یہ صورتحال کا اصل رخ نہیں ہے۔۔ ایسے لوگ درحقیقت خوف اور غم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان کا ضمیر ہمیشہ انکے برے طور طریقوں اور برے اعمال کی وجہ سے انہیں ہر وقت ملامت کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے ہمیشہ بےچین اوربے کیف رہتے ہیں۔ وقت کے ساتھہ ساتھہ انکا اندرونی خلفشار اور پریشانی بڑھتی رہتی ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے۔ کہ ملکی قانون اور قانون قدرت ان پر لاگو ہوتا ہے۔

    زندگی ایک آیئنے کی طرح ہے۔۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ اسے صاف ستھرا اور شفاف رکھیں۔ ایمانداری کا ئنات کا حسن ہے۔ ہمیں اس حسن میں مزید نکھار اور خوبصورتی پیدا کرنا چاہئیے۔ ہمیں زندگی کے سنہری اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔ جو ہمیں ایک کامیاب اور خوشحال زندگی گزارنا سکھاتے ہیں۔

    دوسری طرف اگر ہم قوانین قدرت اور اقدار پر عمل نہ کریں تو اس سے ہماری زندگی مشکل اور تکلیف دہ ہو جائے گی۔

    ایمانداری کو ہم بعض اوقات ایمان سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے۔ کہ اگر آپ میں ایمان ہے۔ تو آپ ایماندار ہوں گے۔ کیونکہ یہ ہمارا ایمان ہی ہے۔ جو ہمیں زندگی میں ایمانداری اور دیانتداری سے رہنا سکھاتا ہے۔ اگر آپ ایک ایماندار شخص ہیں تو یہ بات آپکے شعوراور لاشعور میں ہو گی کہ خدا مجھے دیکھہ رہا ہے اور میں ہر وقت اسکی نگاہوں کے سامنے ہوں۔ یہ عقیدہ آپکو ایک ایماندار شخص بنادے گا۔ آپ ہر وقت اسی عقیدے کو سامنے رکھیں گے۔ اور یہی عقیدہ آپکو بدی کی طاقتوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ آپکو نافرمانی ، سرکشی اور بےایمانی سے بھی محفوظ رکھے گا۔


    اب ہم ایمانداری کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ پہلے ہم انفرادی زندگی کو لیتے ہیں۔ ایک ایماندار شخص ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔۔ اسکے والدین، بیوی، بچے اور بہن بھائی اس سے خوش رہتے ہیں۔ اور اسکا احترام کرتے ہیں۔ وہ اسکی خوبیوں اور اسکی ایماندار فطرت کی تحسین کرتے ہیں۔ ایک ایماندار شخص اپنے خاندان اور تمام دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتا ہے۔

    اپنی انفرادی زندگی میں وہ اپنے بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ سہولت اور آسانی بہم پہنچاتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیمی اداروں میں پڑھاتا ہے تاکہ وہ اچھے اور کارآمد شہری بن سکیں اورملک و قوم کی بہتر انداز میں خدمت کر سکیں اور اسکا بھی بڑھاپے میں سہارا بنیں۔ اور اگر اسکے خاندان کا کوئی فرد بیمار پڑ جائے تو وہ فوراً اچھے ڈاکٹر سے اسکا علاج کراتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ اپنے بچوں کے لیے وقت نکالتا ہے۔ اور ہوم ورک میں انکی مدد کرتا ہے۔ اپنی بیوی اور بچوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ ان تمام اقدامات سے اسکی زندگی خوشی اور آرام سے گزرتی ہے۔

    اجتماعی حوالے سے وہ مقامی، ملکی اور پھر بین الاقوامی سطح پرتمام بنی نوع کی فلاح وبہبود کے لیے کام کرتا ہے۔۔ مثلا" خیراتی کاموں اور اداروں کے ساتھہ وابستہ ہونا اور انکی مثبت سرگرمیوں میں شامل ہونا۔ وقت پڑنے پر رضاکارانہ طور پر کام کرنا وغیرہ جیسے امور شامل ہیں۔ یہ تمام امور اور سرگرمیاں اسکی اجتماعی زندگی کو بھی خوبصورت اور ہر کشش بنا دیتی ہیں۔اور اسے ایسا مقام عطا کرتی ہیں جو رہتی دنیا تک اسے زندہ رکھتا ہے۔

    ایمان داری کا تقاضہ ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں اور باقاعدگی سے اپنے دفتر یا کام پر جایں۔ اور وقت پر گھر واپس آئیں ۔ اسی طرح ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیئے بلکہ وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیئے۔ بے شک فی زمانہ وقت ایک دولت ہے۔

    اسی طرح ہمیں روپیہ حلال اور جائز ذرائع سے کمانا چاہیئے۔ اور حلال اور جائز جگہ اور مواقع پر ہی خرچ کرنا چاہیئے۔ اسکے ساتھہ ساتھہ ہمیں بچت بھی کرنا چاہیئے تاکہ آڑے اور مشکل وقت میں کام آئے۔

    اس کے علاوہ ہمیں اپنا کام وقت پر اور درست طریقے سے کرنا چاہیئے۔ اور اس طرح سے کام کرنا چاہیئےکہ ہمارے مالکان اور آفیسر ہم سے خوش اور ہمارے کام سے مطمئن ہو۔ اور اگر ہم کوئی شے گاہک کو بیچ رہے ہیں تو ہمارا مال وہی ہونا چاہیے جو ہم بیچ رہے ہیں اور دام بھی مناسب ہونا چاہیں۔

    اللہ تعالی ایمان دار شخص کو کنول کے پھول کی طرح رکھتا ہے، جو غلاظت و کیچڑ والے ماحول و سسٹم میں بھی خوبصورت و پرسکون نظر آتا ہے۔ ایمانداری زندگی کا ایک بہترین طریقہ اور روشن راستہ ہے۔ ہمیں اسی روشن راستے پر چلنا چاہیئے۔ تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں۔

    کبھی ایسی کامیابی کو ، منافع کو ، امیری کو حاصل کرنے کی کوشش مت کیجئے جو آپکو " بے ایمان" کا لقب دے۔

    ایماندار ی بہترین حکمت عملی ہے۔
    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    محبت

    محبت کے معنی ہیں نزدیکی، آشنائی، دوستی، یارانہ، لاڈ، انسیت اور پیار ہونا۔


    محبتکا لفظ اردو لغت میں بھی کئی معانی رکھتا ہے۔ محبت کی کئی اقسام ہوسکتی ہیں۔ یہ محبت کسی عام شے سے بھی ہوسکتی ہے اور کسی خاص ہستی ، فرد یا رشتے سے بھی ہوسکتی ہے۔ عمومی محبت بھی ہوسکتی ہے اور بھر پور شدت سے بھی محبت ہوسکتی ہے۔ شدید حالت کی محبت میں جان دی بھی جاسکتی ہے اور جان لی بھی جاسکتی ہے۔ شدید قسم کی محبت کو پیار کہتے ہیں اور یہی محبت پروان چڑھتے چڑھتے عشق بن جاتی ہے۔

    محبت روشنی کی ایک کرن ہے جو اپنے اندر بے شمار حسین رنگ سمیٹے ہوئے ہوتی ہے۔ محبت زندگی کا طاقت ور ترین جذبہ ہے جس سے بے شمار جذبے پروان چڑھتے ہیں۔ محبت میں گرفتار افراد انتہائی فرحت اور خوشی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ محبت انسان کو ارد گرد کے ماحول سے بےخبر کردیتی ہے۔ محبت کرنے والے اپنی منصبی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ محبت میں محبوب کی تصویر یا محبوب کی موجودگی انسان کی بیماری اور جسمانی درد میں کمی کا باعث ہوتے ہیں۔ محبت صرف محبت مانگتی ہے۔ دو سچی محبت کرنے والے جب ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں یا رابطے میں ہوں تو ان کے دل کی دھڑکن ایک سی ہوتی ہے۔ جبکہ دو اجنبیوں کے دلوں کی دھڑکن ایسی نہیں ہوتی۔

    ایک جیسی خواص اور ایک جیسے چہرے مہرے والے افراد کے درمیان بھی محبت کے امکان ذیادہ ہوتے ہیں۔ باہمی محبت کے لئے الفاظ سے ذیادہ عمل ذیادہ بلند آہنگ ہوتا ہے۔ جیسے کسی کے لئے اس کی پسندیدہ چائے یا کافی بنا کے پیش کی جائے یا کسی ادب سے لگاؤ رکھنے والے کو اچھا شعر سنادیا جائے اور حب رسول رکھنے والے کو آل رسول کی اعلی خدمات و صفات بیان کی جائیں یا کسی کے نئے کاروبار کی ترقی دینے میں اس کا ساتھ دیا جائے اور اس کی اخلاقی مدد کی جائے۔

    چاہے جانے کا احساس انسان کو اندر سے روشن کردیتا ہے اور دماغی سرگرمیوں کو بڑھا دیتا ہے۔محبت کا جذبہ انسان کو دماغی طور پر مضبوط بنانے کے علاوہ جسمانی طور پر بھی بہادر بنا دیتا ہے۔ مرد عورتوں کے مقابلے میں ذیادہ تیز چلتے ہیں مگر جب دو چاہنے والے اکٹھے چل رہے ہوں تو مرد لامحالہ اپنی رفتار کم کرلیتا ہے اور وہی مرد اگر کسی اجنبی عورت کے ساتھ چل رہا ہو تو اس کے لئے قدم ملانا مشکل ہوجاتا ہے۔ محبت کے لئے مرد کو خوبصورت عورتیں متوجہ کرتی ہیں جبکہ عورتوں کے لئے اپنے شریک حیات کے لئے اعلی سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والا مرد ہوتا ہے۔ محبت میں کامیابی ہو تو انسان کا جسمانی وزن بڑھ جاتا ہے اور اگر ناکامی کا سامنا ہوتو وزن گر جاتا ہے۔ عورتیں محبت کے دیوتا کی تلاش میں مردوں سے پیچھے ہوتی ہیں۔

    محبت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً مذہبی لگاؤ اور پیار، کسی خاص رشتے سے پیار، حب الوطنی یعنی وطن سے پیار، کسی انسان کے لئے پیار وغیرہ وغیرہ۔ محبت ہر انسان کا حق ہے۔ کیونکہ محبت کے بغیر انسانی زندگی نامکمل ہے۔ محبت ایک جذبہ ہے جو کسی شے یا دوسرے انسان کے لئے دل کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے۔

    سچی محبت ہمیشہ بے لوث ہوتی ہے۔ محبت مسلسل باہمی رابطے کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے۔ یہی رابطہ انسان کی کمزوری بن جاتاہے۔ اسی رابطے کی وجہ سے انسیت میں اضافہ ہوتا اور بڑھتے بڑھتے یہ انسان کے جسم و جاں اور روح تک سرایت کرجاتی ہے۔بعینہ اگر رابطے منقطع ہوجائیں اور ملاقات نہ رہے تو آہستہ آہستہ محبت کا جنون زائل ہوجاتا ہے اور ایک خواب و خیال بن کے ذہن کے کسی گوشے میں ایک معدوم نشان باقی رہ جاتا ہے۔

    محبت میں کوئی تعرض ہو یا کوئی ذاتی مفاد مضمر ہو تو وہ محبت پاک نہیں ہوتی۔ ایسی چاہت کو محبت نہیں کہتے بلکہ دکھاوے کی محبت، جھوٹی محبت، پیار کا ڈھونگ، ناز نخرے سے کھیلنا، کسی خیال سے کھیلنا اور تفریحاً محبت کرنا کہتے ہیں۔ اس قسم کی محبت وقتی ہوتی ہے اور وقت گزاری کے لئے کی جاتی ہے۔

    آج کل ہر کوئی محبت کے مرض میں مبتلا ہے۔ جہاں کوئی خوب رو چہرہ دیکھا ، یا موٹی مرغی نظر آئے، یہ مرض سر اٹھانے لگتا ہے۔ ایسے رویے کو محبت کے پیرائے میں نہیں لیا جاسکتا۔ اگر ظاہری حیثیت کو مدنظر رکھ کر جذبات اجاگر ہوں تو یہ محبت کے زمرے میں نہیں آسکتی۔ کیونکہ محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو حسن اور جسم سے نہیں بلکہ دل سےہوتا ہے۔ جس میں خوبصورتی یا بد صورتی کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ جسم کے حصول یا مادی فوائد کی خواہش رکھتے ہیں اور اپنی اس تمنا کو پورا کرنے کو محبت کا نام دیتے ہیں۔ ان کا یہ نقطہ نظر یکسر غلط ہے۔ ایسے لوگ ہی اس محبت کے رشتے کو بدنام کرتے ہیں۔

    محبت کے کئی دیگر روپ بھی ہیں اور ہر ایک دوسرے سے حسین اور دلکش ہے۔ محبت بچے اور ماں کی ممتا میں ہوتی ہے، محبت پدرانہ شفقت میں ہوتی ہے، محبت بہن اور بھائی کے رشتے میں ہوتی ہے، دوستی میں بھی محبت ہوتی ہے، شوہر اور بیوی کے نکاح کے بندھن میں محبت ہوتی ہے اور سب سے اعلی محبت اللہ تعالی کی اپنے بندوں سے محبت ہوتی ہے جو ستر ماؤں کی محبت سے ذیادہ ہے۔

    سچی محبت کا مطلب بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اصل محبت لالچ سے بالاتر ہوتی ہے، کسی کو پانے کی غرض سے نہیں ہوتی ۔ حقیقی محبت روح تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے اور جسم پانے کی چاہت محض ایک ہوس ہے۔ محبت ایمان جیسی ہوتی ہے اور روح کی غذا ہوتی ہے جبکہ ہوس نفس کی غذا ہے۔

    اگر کوئی محبت اور ہوس میں تفریق کرنا چاہے تو کچھ وقت کے لئے اس انسان سے کنارہ کشی اختیار کرکے دیکھ لے۔ اگر تو آپ کی روز مرہ کی زندگی میں کوئی کمی محسوس ہو، یا کوئی فرق پڑے تو سمجھ لیں کہ یہی محبت ہے۔


    سچی محبت پانے کا نام نہیں ہے بلکہ قربانی کا نام ہے۔ محبت اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتی بلکہ محبت تو محبوب کو خوش رکھنے کے لئے ہوتی ہے۔ محبت کرنے والے اپنے محبوب کی ایک جھلک اور مسکراہٹ کے لئے اپنی تمام جمع پونجی لٹانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔سچی محبت کرنے والے اپنے محبوب کے کھونے پر یا اس کے وصال پر ملال پر بھی کبھی خود کو اکیلا نہیں سمجھتے بلکہ محبو ب کی یاد اور محبوب کی شبیہ ان کے جینے کا سبب ہوتی ہے۔

    محبت جب اپنے عروج پہ پہنچ جائے تو عشق کی منازل طے کرتی ہے۔ جس میں انسان کی روح اور جسم بالیدگی اور پاکیزگی کا غسل کرکے اللہ تعالی کی طرف ذیادہ دل جمعی سے رجوع کرتے ہیں۔ خیالات میں عبدیت سرایت کرنے لگے اور انسانوں سے بلا امتیاز محبت کے جذبات اجاگر ہوجائیں اور ذاتی خواہشت کے مقابلے میں عوام الناس کی خدمت فوقیت اختیار کرنے لگے اور اللہ تعالی سے راز و نیاز کا دورانیہ طویل ہونے لگے تو عشق حقیقی بیدار ہونے لگتا ہے۔

    یہی وہ مقام ہے جہاں خود کی نفی اور رب کائنات کی اطاعت، عبادت اور احکام الہی کی دل و جان سے پیروی انسان کا چلن بن جاتا ہے اور اسے دنیا کی رغبت اور لالچ سے بے نیاز کردیتا ہے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور


    نوٹ: میرے مضامین میرے ذاتی تجربے ، مشاہدے اور علم کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ ممکن ہے میری کم علمی کی وجہ سے کوئی کوتاہی ہوجائے ؛ اس لئے پیشگی معذرت چاہتا ہوں اور میرے خیالات سے کسی کا متفق ہونا بھی ضروری نہیں۔
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ کا خوف

    لفظ خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ ، نقصان دہ، خوفناک یا خطرناک امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو۔ مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہونے کا ڈر۔ جبکہ خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔

    خوف خدا یا خشیت الہی وہ وصف ہے جو بندے کی حفاظت وسلامتی کی ضامن ہے اور اسے ہر قسم کی مصیبت وبلاء سے نجات دلانے اور کامیابی سے ہم کنار کرنے کاسبب اور ذریعہ ہے ۔

    ہماری عبادت میں اگر خشیت و تقوی شامل رہے تو ہم ہر برائی سے دور کردیے جاتے ہیں ۔ سورہ انفال میں اللہ رب العالمین فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو ایک خاص امتیاز عطا فرمائے گااور تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تمہاری مغفرت فرمائے گا‘‘۔ایک اور مقام پر فرمایا ’’مومن تو وہ ہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر ہوتا تو ان کے دل اس کی عظمت و جلالت اور خشیت سے کانپ اٹھتے ہیں‘‘۔

    مسلمان کے ایمان کا افضل درجہ یہ ہے کہ اسے اس امر کا یقین رہے کہ وہ جہاں بھی ہے اس کا خدا اس کے ساتھ (نگران) ہے۔ یہ احساس جس قدر گہرا ہوگا ہم اتنے ہی گناہوں سے دور رہیں گے۔

    جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو وہ انسان کبھی کسی گناہ کا مرتکب نہیں ہوتا۔ وہ اپنی زندگی کو خالص اللہ کی عبادت کے لیے وقف کرتا ہے۔ اپنی عبادت کو دنیاوی دکھاوے یا ریاکاری سے پاک رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف شہوات کا ستیاناس کرڈالتا ہے اورگناہوں کی لذتوں کو بدمزہ کردیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور خوف کھانے والوں کی نگاہوں میں گناہوں کی خر مستیاں اور قلقل ومینا کی محبوب ترین جھنکار یں مکروہ اور بد مزہ ہوجاتی ہے۔

    جو انسان اپنے اندر خشیت الٰہی پیدا کرتا ہے۔ اخلاص اور اس کے تقویٰ کا معیار اسے اللہ رب العالمین کے اور زیادہ قریب کردیتا ہے۔

    اللہ تبارک و تعالیٰ کے خوف کے فوائد اور ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ خوف الٰہی بندے کو اعمال صالحہ کی انجام دہی کے لئے ابھارتا ہے۔

    خشیت الہی ایک ایسی صفت ہے جسے کسی شارٹ کٹ طریقے سے نا تو حاصل کیا جاسکتا ہے اور نا ہی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ یہ خوبی ایک مسلمان اور مومن کو مسلسل عبادات، پاکیزگی، طہارت، سچائی، خدمت انسانیت، اخلاص اور ایمان داری سے حاصل ہوتی ہے۔

    خوف خدا کوئی کسرتی صفت نہیں جس کے لئے ریاضت اور جسمانی کسرت کی ضرورت ہو۔ خوف خدا انسان کے دل کی ایسی کیفیت ہے جو انسان کو اس قدر مہربان بنا دیتی ہے کہ وہ ہر کسی سے بے لوث محبت کرتا ہے اور ضرورت مند کو اس کی حاجت بیان کرنے سے پہلے اس کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔

    خوف خدا ، عاجزی، انکساری ، بے لوث خدمت اور انسانوں کی قدر دانی جیسے پیہم عمل سے حاصل ہوتاہے۔ اس نعمت اور صفت کو پانے کے لئے جہاں عبادات کا اہتمام کریں، وہیں جسمانی اور روحانی پاکیزگی اختیار کریں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے لئے اپنے دل میں کشادگی پیدا کریں۔

    ایک مسلمان اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں اللہ تعالی کی حاکمیت اور قدرت اچھی طرح قائم نہ ہو؛ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل، ان کے آل و اولاد سے محبت، اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ہو؛ انسانیت کا درد محسوس کرنے کی حس پوری طرح اجاگر نہ ہوجائے اور وہ اپنے ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر ناصرف اپنے فرائص منصبی ادا کرے بلکہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کا غمخوار اور مددگار نہ ہو اور اپنے مالکان کی ساکھ اور ان کی عطا کردہ مہربانیوں کا خوشی سے اعتراف کرے اور اپنے کام کو صدق دل سے سرانجام دینے میں کوئی کوتاہی نہ کرے، تاکہ مالکان کو ذیادہ سے ذیادہ منافع ہوسکے۔

    جس شخص نے اپنے اعمال کی ادائیگی میں جان توڑ محنت وجانفشانی سے کام لیا وہ منزل مقصود تک رسائی پانے میں کامیاب ہوگیا اور بندہ مؤمن کی منزل مقصود جنت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے خوف کی وجہ سے نافرمانیوں اور معصیتوں کی رنگینیاں ماند پڑجاتی ہیں اوراس کا سرور وکیف مکدر ہوکر رہ جاتا ہے ۔

    آخرت کی زندگی میں خود کو نارِ جہنم سے محفوظ رکھنے کا واحد طریقہ خوف ِ الٰہی او رپرہیز گار ی کو اختیار کرنے میں ہے۔

    خوف خدا کی برکت سے نفسانی خواہشات جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں۔

    خوف خدا عظیم نعمت ہے جو مسلمان میں بندگی اور اطاعت الہی پیدا کرتی ہے۔ خدا سے ڈرنے والے کو کسی اور سے کوئی ڈر نہیں ہوتا۔

    جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو، اس کا دل کبھی مردہ نہیں ہوتا اور کبھی نامراد ہوگا۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    حب الوطنی

    حب الوطن کے معنی وطن سے محبت کے ہیں۔ یہ فطرت ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ لفظ وطن جس قدر پیارا ہے اس کا مفہوم بھی اسی قدر وسیع ہے۔


    وطن ماں کی مانند ہے، جو ہمیشہ ساتھ دے۔ وطن وہ قطعہ ارض ہے جہاں انسان کے عزیز و اقرباء نے زندگی گزاری ہو، جہاں وہ کھیلا کودا اور جوان ہوا ہو، تو پھر کیوں نہ اسے اس سرزمین سے لگاؤ ہو۔ انسان جہاں بھی قدم رکھتا ہے، بس اپنے وطن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انسان جب اپنے وطن سے دور ہو جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن کی ایک ایک چیز کی یاد ستاتی ہے۔ اس کے وطن کے لوگ، زبان، آب و ہوا، مصالحے اور کھانے بھی۔

    وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
    مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں

    وطن کے ہر کونے اور گوشے میں آپکو نہ جانے کتنی رنگ و نسل کے لوگ ملیں گے، لیکن ان میں سے کسی ایک سے بغض و کینہ انسان کے حب وطن کو نامکمل کر دیتی ہے، کیونکہ حب وطن کے معنی ہیں اپنے وطن کی ایک ایک چیز سے محبت کرنا، جس میں اپنے وطنیوں سے محبت بھی شامل ہے۔

    دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو
    نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

    وطن کا کانٹا پردیس کے پھول سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔وطن کی یاد انسان کے دل میں ایسی نقش ہوتی ہے کہ ساری عمر محو نہیں ہوتی اور رہ رہ کر ستاتی ہے۔جس گھر میں بچہ پلتا ہے اس کا چپہ چپہ اسکے ذہن میں قائم رہتا ہے۔اس کے دروازے، اس کی کھڑکیاں، اس کی چھتیں، اسکا دالان، اس کی سیڑھیاں اور اس کا طول وعرض اور محل وقوع کا نقشہ ہمیشہ کیلئے دماغ میں جم جاتا ہے۔جن گلی کوچوں میں بچہ کھیلتا ہے انکی یاد کبھی بھی ذہن سے نہیں اترتی۔

    بچپن کی یادیں سب یادوں سے زیادہ دیرپا اور حسرت ناک ہوتی ہے۔بچپن کے دوستوں کے ساتھ بھائی بہنوں کی محبت سے بھی زیادہ الفت ہوتی ہے۔

    وطن کی محبت انسانی زندگی کا اعلی ترین مقصد ہونا چاہیے۔وطن سے محبت رکھنے والے کسی انعام کی خواہش نہیں رکھتے۔وہ اپنے وطن کی بہبودی کے لئے ذاتی اغراض اور فائدوں کو بے دریغ قربان کر دیتے ہیں۔وطن کی محبت وہ جذبہ ہے جس سے ہر چھوٹا بڑا سرشار ہوکر جان پر کھیل جاتا ہے۔یہ پاکیزہ جذبہ قدرت کی طرف سے عطا ہوتا ہے۔دین اسلام حب وطن کی تعلیم دیتا ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ " حب الوطن من الايمان"۔ یعنی وطن کی محبت ایمان کا جز ہے۔گویا حب وطن سے محروم انسان کے ایمان میں فتور ہے۔

    انسان کو وطن کی ہر چیز سے طبعی انس ہوتا ہے۔پردیس میں خواہ کتنے ہی دلفریب نظارے ہوں، خواہ کیسی ہی راحت میسر ہو۔لیکن وہ وطن کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں ذاتی طور پر کئی دہائیاں دیار غیر میں ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہا۔ اگرچہ میری تنخواہ اور زندگی ہر لحاظ سے بہت خوشحال تھی مگر میرا دل ہر وقت ملک کی یاد میں غمگین رہتا۔ اور جب میں سالانہ چھٹیوں میں اپنے وطن آیا کرتا تو ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے میرے آنسو میرا چہرہ تر کردیتے اور مجھے استقبال کے لئے آنے والے بہن بھائیوں کا سامنا کرنا محال ہوجاتا۔

    محب الوطن شخص اپنے ملک و قوم سے ثقافتی و فکری طور پر جڑا ہوتا ہے اور اپنے ملک و قوم کی بقاء کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ حب وطنی کا ایک جز نظریہ بھی ہوتا ہے جس کی بنیاد پر ایک ملک قائم ہوتا ہے، مثلاً ایک پاکستانی شخص اگر اپنے ملک سے محبت کرتا ہے تو اس نظریے کی بنیاد پر کہ :

    "پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جو دو قومی نظریہ پر بنا ہے، پاکستان کے قیام کا مقصد ہم مسلمانوں کو اپنی سرزمین پر اختیار دینا، اپنی ثقافت کی حفاظت کرنا اور آزادی سے بلا خوف و خطر مذہبی کام سرانجام دینا ہے۔"

    ہمیں اپنے اندر ایسی حب الوطنی پیدا کرنی چاہیے جو ہمیں ایک متحد اور مضبوط قوم بنا کر ہم میں زندگی کی لہر دوڑا دے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنا وہ مقصد حاصل کرسکتے ہیں جس کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے جان و مال کی قربانیاں دی ہیں۔

    اےاہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا
    اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتےرہنا

    پاکستان نے ہمیں پہچان دی، عزت دی اورشہرت دی ، آزادی کو سات دہائیاں گزر گئیں ہم نے پاکستان کو کیا دیا۔

    اگر ہر پاکستانی جسے اپنے وطن اور اپنی قوم سے پیار ہے اسے چاہیے کہ جہاں اپنی ذاتی اور عائلی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے سرگرداں ہے ، وہیں اپنے ملک کی بقاء، اس کی صفائی ستھرائی، اس کی ترقی ، اس کی خوشحالی اور اس کے استحکام کے لئے اپنے تئیں جہاں تک ممکن ہو ضرور بہ ضرور کوشش کرے۔

    ہمیں ہر کام حکومت پہ نہیں چھوڑنا چاہیے بلکہ ہمیں انفرادی طور اپنے ملک کی سالمیت، استحکام اور ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہیے۔

    پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ساتھیوں کی مدد سے مقامی سطح پر عوام الناس کی بھلائی کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اور جہاں کوئی برائی یا نقص دیکھیں جو عوام کے لئے تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے اسے دور کرنے کے لئے امداد باہمی کے ذریعے فی الفور اس کا تدارک کریں۔ اور جو لوگ ملک و قوم میں انتشار پھیلائیں ان کے قلع قمع کے لئے متعلقہ احکام کو مطلع فرمائیں۔

    کسی حادثے کی صورت میں اپنی سمجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے فوری متحرک ہوں اور لوگوں کی مدد سے لوگوں کے جان و مال کو محفوظ بنائیں۔

    ہر پاکستانی کو چاہیے کہ اپنے پاس مختلف رفاہی اداروں، اسپتالوں، پولیس اور دیگر ایمرجنسی نمبروں کی لسٹ رکھیں تاکہ بوقت ضرورت فوری امداد حاصل کی جاسکے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    تندرستی

    تندرستی کے معنی ہیں صحت کی درستی، خیر و عافیت، آرام، خیریت، درستی اور سلامتی وغیرہ۔


    صحت کے لیےاردو زبانمیں متبادل کے طور پرتندرستی کا لفظ مستعمل ہے۔ یہ لفظ دو الفاظ تن اور درستی کا مرکب ہے۔ اس سے مرادجسمکی وہ کیفیت ہے جو معمول کے مطابق ہو یا جسمانی و ذہنی تندرستی ہے۔

    ہر انسان کے جسم سے بیماریوں سے لڑنے کی ایک فطری طاقت ہوتی ہے جس کو قوت مدافعت کہتے ہیں اس کے ذریعہ انسانی جسم مختلف امراض سے لڑتا ہے، یہ قوت بچوں اور بوڑھوں میں کمزور ہوتی ہے لہذا ان کی صحت پر زیادہ توجہ دینا چاہئے۔


    بلاشبہ صحت مند زندگی انسان کے لیے انمول نعمت ہے، دنیا کی آسائشیں اورآرام ایک طرف لیکن صحت نہ ہو تو زندگی خوشیوں سے خالی ہوجاتی ہے۔ انسان جب تک صحت مند وتندرست رہتا ہے اپنی زندگی کے خوشگوار لمحات سے محفوظ ہوتا ہے، اگر خدانخواستہ وہ بیمار ہوجائے تو ساری خوشیاں اور زندگی کی آسانیاں خاک میں مل جاتی ہیں ۔

    تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اس کی قدر اور پورا احساس صحت مند لوگوں کو نہیں ہوتا، جو بیمار ہوجاتے ہیں یا کسی حادثہ کا شکار بن کر بستر پر درواز ہوجاتے ہیں وہی تندرستی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔

    انسانی صحت کا سوچ سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے اگر انسانی سوچ وفکر مثبت رہے یا وہ منفی رجحان سے اپنے آپ کو بچائے رکھے اور اس کا مزاج بھی مستحکم رہے گا۔ وہ اخلاقی خرابیوں سے بچے گا ، غصہ ، اشتعال، جذباتیت، بغض، لالچ اور غرور سے بھی دامن بچائے گا۔ مثال کے طور پر آپ کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے، کوئی دھچکا لگا ہے یا کسی جذباتی (محبت) ناکامی کا سامنا ہے تو اس کا براہ راست آپ کے جسم پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ایسی صورت حال میں کمزور دل لوگ اپنے ہواس کھو دیتے ہیں، ذہنی طور پر کمزور لوگ پاگل ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ انتہائی گہرے صدمے میں چلے جاتے ہیں۔ جب کہ وہ لوگ جو مشکل وقت میں اپنے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، ذیادہ سے ذیادہ قرب الہی حاصل کرتے ہیں وہ اپنی توجہ کو بہتر حل کی طرف مبذول کرکے سکون پاتے ہیں ۔ اسی طرح علم و ادب سے شغف رکھنے والے اگر اپنی توانائیاں لکھنے لکھانے میں صرف کریں تو یقینا بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ کیوں کہ جب دل پہ چوٹ لگتی ہے تو اس کی تڑپ سے ایسے ایسے شاہکار تیار ہوجاتے ہیں جو عمومی حالات میں ناممکن ہوتے ہیں۔

    تمام انسانوں کی صحت میں سوچ وفکر کا تعلق ضرور ہے۔ بری سوچ اور عادتیں آدمی کی محفوظ توانائی کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ جسم میں نئی توانائی پیدا ہونے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور ان کا براہ راست اثر آدمی کے اعصابی نظام پر مرتب ہوتا ہے۔ تندرستی کو برقرار رکھنے کے لئے جہاں ہمیں غذا وقت پر لینے کی عادت ڈالنا چاہئے، وہیں متوازن غذا لینے کی اہمیت بھی سمجھنی چاہئے ۔ کسی دانا کا قول ہے کہ ’’انسان اپنے دانتوں سے خود کی قبر کھودتا ہے‘‘۔ یہاں میں متوازن غذا کی وضاحت کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

    صحتمند اور متوازن غذا کا استعمال ، اچھی صحت کو برقرار رکھنے کا نہایت اہم حصہ ہے اور اس سے آپ خو د کو بہت بہتر محسوس کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے مختلف انواع و اقسام کے کھانے ، مناسب مقدار میں کھانا اور ایک صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنے کے لئے صحیح مقدار میں غذا کھائی جائے اور مشروبات کا استعمال کیا جائے۔

    کھانا جلدی جلدی نہیں کھانا چاہیے بلکہ سکون سے چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر اچھی طرح چبا کرکھائیں۔ دانتوں کا کام ہے کھانے کو چبانا، اگر ہم اچھی طرح نہیں چباکرکھائیں گے تو یہ ذمہ داری معدہ پر آجائے گی اور معدہ میں چبانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اور لامحالہ پیٹ میں درد ہوگا اور اینٹھن اٹھے گی۔ کھانے پینے میں احتیاط برت کر انسان اس قول کو غلط ثابت کرسکتا ہے کیونکہ اطبا ء کے بقول تمام بیماریاں معدے کی خرابی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور معدہ ثقیل غذاؤں سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

    انسانی صحت کا چہل قدمی سے بہت گہرا رشتہ ہے آج مصروف ترین زندگی میں سے تھوڑا وقت نکال کر ہر انسان چہل قدمی کرکے اپنے جسم کو متناسب رکھ سکتا ہے، واکنگ یا چہل قدمی ایک ورزش بھی ہے اور یہ آسان عمل ہے جسے ہر عمر کے فرد بآسانی انجام دے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کام خود انجام دیں اور خود کو جسمانی طور پر متحرک اور چست رکھیں۔

    یوں تو ورزش کو انسانی زندگی کا ایک اہم جزو ہونا چاہئے، ایک تندرست جسم کے لئے تھوڑی بہت ورزش لازم ہے لیکن خواتین اس میں زیادہ سستی برتتی ہیں۔ لیکن ماہرین فٹنس کیلئے کی جانے والی چہل قدمی کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے تھکن کم ہوجاتی ہے او ربیش از بیش فوائد حاصل ہوتے ہیں ، بوڑھے جوان سب کو ہی اپنے جسموں کو صحت مند رکھنے کیلئے چہل قدمی ضرور کرنا چاہئے۔ یہ ذہنی دباؤ کو کم کرکے اضافی چربی کو گھلانے میں مدد دیتی ہے، تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ صحت مند انسان کا تیز چلنا اس کے دل اور پھیپھڑوں کے لئے نہایت مفید اور امراض قلب کے لئے تریاق کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چہل قدمی انسان کے اندر منفی رجحانات کو کم کرنے میں بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ، خود اعتمادی کو بحال کرنے اور سماجی رابطے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    صحت وتندرستی اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور یہ انسان کی اولین ضرورت بھی ہے، ذہنی وجسمانی طور پر صحت مند انسان ہی معاشرہ کی بھلائی کیلئے بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتا ہے۔ اس کے برعکس ایک بیمار اور کاہل انسان سے کسی تعمیری فکر یا سرگرمی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پہلے لوگ اپنی صحت کے بارے میں کافی حساس اور محتاط رہتے تھے جبکہ آج کا انسان اپنی مصروفیات اور گوناگوں مشاغل کے باعث صحت جیسے اہم مسئلے سے لاپرواہی برت رہے ہیں، پھر آلودہ فضا، ناقص خوراک اور ڈپیریشن نے بھی بہت اثر ڈالا ہے، ان سب کے باوجود انسان چاہے تو اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہوکر اور حفظان صحت کا لحاظ رکھ کر ایک صحت مند گھرانے اور معاشرہ کی بنیاد رکھ سکتا ہے، صحت ایک ایسی دولت ہے جو صرف توجہ اور احتیاط چاہتی ہے۔ پائیدار صحت کے لیے صفائی کا اہتمام رکھنا بھی فرض عین ہے۔بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد علاج میں سستی برتنامرض کے بڑھنے اور بگڑنے کا سبب بنتا ہے ، جبکہ بروقت علاج سے مرض سے جلدی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔چھوٹی سے چھوٹی جسمانی تکلیف کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کیجئے؛ کیونکہ ابتداء میں ہر بیماری چھوٹی ہوتی ہے اور ہماری غفلت اور بے پرواہی سے وبال جان بن جاتی ہے۔

    ان سب کے علاوہ سب سے اہم اور قابل توجہ یہ بات ہے کہ ہم انسانی جسم کی مناسب اور متواتر دیکھ بھال کریں۔ اگرچہ سوچنے میں یہ بہت معیوب لگے گا ؛ جیسے ہم چھوٹے بچے ہیں ۔ ہمیں اپنی جسمانی صحت کی دیکھ بھال بچوں کی طرح ہی کرنا چاہیے۔ جیسے:-

    دھوپ میں بیٹھیں، جسم پہ تیل وغیرہ کی مالش کری، ناف میں تیل لگانا، پابندی سے غسل کرنا، پاؤں کو اچھی طرح سے رگڑ کر صاف کرنا اور اگر پاؤں کی ایڑھیاں وغیرہ کی جلد ادھڑی ہوئی ہو یا کٹی ہوئی ہوتو اچھے بیوٹی پارلر سے پاؤں کی دیکھ بھال کروائیں (پیڈیکیور)۔ بالوں کو صاف رکھیں اور اسی طرح جسم کے ڈھکے ہوئے حصوں پہ ڈی اوڈرنٹ وغیرہ لگائیں۔ ناخنوں کو بڑھنے نہ دیں۔ سخت گرمی و سردی میں سر اور گردن کو ڈھانپ کررکھیں۔ پاک صاف رہیں اور روحانی بالیدگی اور قرب الہی کے لئے عبادات اور صدقات کا اہتمام کریں۔

    ہر موسم میں تازہ پھل اور سبزیاں استعمال کریں۔ پانی کو ذیادہ ٹھنڈا کرکے استعمال نہ کریں۔ بلکہ روم ٹمپریچر والا پانی دن میں 8 گلاس ضرور پئیں۔ ہمارے پاکستانی بہن بھائی ہمیشہ پانی پینے میں کوتاہی برتتے ہیں اور اسی وجہ سے سب سے ذیادہ گردوں کی تکالیف بھی پاکستانیوں کو لاحق ہوتی ہیں۔ پانی پینے سے ہمارے پورے جسم میں سے فالتو مادے خارج ہوجاتے ہیں اور ہمارے جسم کو درکار پانی کی مناسب مقدار بھی مل جاتی ہے۔

    ذیادہ شیریں پھل آم اور کیلے وغیرہ کثرت سے نا کھائیں۔ 40 سال سے اوپر افراد سالانہ طبی معائنہ کرواتے رہیں۔

    گھر کو ہوا دار رکھیں اور کچن، باتھ روم اور بستر وغیرہ کی صفائی کا خیال رکھیں۔ اگر حشرات کی موجودگی پائیں تو کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کروائیں۔

    تازہ غذا کا استعمال کریں، سلاد وغیرہ کی عادت اپنائیں اور ہفتہ میں ایک بار پھلوں کی چاٹ کا اہتمام کریں۔ اور بڑی عمر کے لوگ اپنے جسم کو درکار وٹامنز، منرل، امینو ایسڈز اور اومیگا 3 اور اومیگا 9 وغیرہ کے لئے معروف فوڈ سپلیمنٹ استعمال کریں۔

    معدے کی صفائی کے لئے ڈیٹاکسیکیشن کا اہتمام کریں۔

    عبدالقیوم خان غوی - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ادھار دینا (حصہ اول)

    ادھار کے معنی ہیں کسی خاص معیاد کے لئے وعدہ پر کچھ لینا۔ آئندہ ادائیگی کے وعدہ پر کچھ لین دین کرنا۔کسی ضرورت مند کی فوری مالی مدد کے لئے قرض دینا، کسی حاجت مند کو (طے شدہ وقت کے لئے) کوئی چیز مستعار دینا۔

    ادھار یا قرض دو فریقوں کے درمیان پیسوں کی شکل میں لی گئی رقم یا کسی سامان یا اجناس کی وصولی ہوتی ہے۔ جسے حسب وعدہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ قرض دینے والے کو
    قرض خواہ اور قرض لینے والے ">قرض دار کہتے ہیں۔

    انسان کی پوری کوشش ہونا چاہیے کہ اس کو دوسرے شخص سے قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ قرض لینا کوئی اچھا فعل نہیں اور شریعت بھی قرض لینے کو مستحسن عمل قرار نہیں دیتی۔ بلکہ انتہائی مجبوری اور لاچاری کی حالت میں انسان کو قرض لینے کا قدم اٹھانا چاہیے۔ اور قرض دار کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ ادھار لی گئی رقم کیسے، کب اور کہاں سے واپس کرے گا۔ اور بہتر یہی ہے اتنی رقم ہی ادھار لی جائے جو قرض دار کو واپس کرنے میں آسانی ہو۔ ایک مہذب ، ایمان دار اور باشعور انسان کو قرض لیتے ہوئے بار بار سوچنا چاہیے اور اپنی و اپنے خاندان کی ساکھ کو قائم رکھتے ہوئے اتنی رقم ہی قرض لینی چاہیے جسے واپس کرنے کے لئے مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔

    ہر ایک باعزت شخص یہی چاہے گا کہ اسے کبھی بھی قرض لینے کی نوبت نہ آئے۔ کیونکہ قرض لینا تو آسان ہوتا ہے مگر جب واپسی کا موقع آتا ہے تو انسان خود کو بے بس اور لاچار سمجھتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی قرض سے پناہ مانگتے تھے۔

    ملاحظہ ہو ایک حدیث:-
    أنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُوْ فِی الصَّلاَةِ، وَیَقُوْلُ:اللہُمَّ اِنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَم وَالْمَغْرَم،فَقَال قَائِلٌ:ما أکثر مَا تَسْتَعِیْذُ یَا رَسُوْلَ اللہ مِنَ الْمَغْرَم؟ قال:اِنَّ الرَّجُل اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من استعاذ من الدَین،رقم الحدیث:2397)

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تو فرماتے :اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ!کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آدمی جب قرض دار ہوتا ہے تو بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے ،وعدہ کرتا ہے اور اس کے خلاف کرتا ہے۔

    اور سنن النسائی کی روایت ہے:

    عن النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الْکُفْرِ وَالَدَّیْن․ فَقَالَ رَجُلٌ:تَعْدِلُ الدَّیْنَ بالکفُرْ؟فَقَالَ:نَعَم․(سنن النسائی، کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)

    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں،کفر سے اور قرض سے ۔تو ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ،آپ قرض کو کفر کے برابر فرمارہے ہیں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ۔

    مندرجہ بالا احادیث میں قرض کو کفر کے برابر کہا گیا ہے اور قرض کی وجہ سے انسان جھوٹ کا مرتکب بھی ہوسکتا ہے۔

    اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ قرض لینا معیوب ہے۔ انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ حتی الامکان قرض کا بوجھ نہ اٹھائے کیونکہ یہ وہ بوجھ ہے جسے اتارنا بہت مشکل ہے اور بوجھل جسم کے ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہیں۔

    قرض انسانی تعلقات کے لئے زہر قاتل ہے۔ قرض دار جب وقت پر پیسے نہ ادا کرسکے تو مزید وقت کے لئے بار بار عذر پیش کرتا ہے اور دروغ گوئی سے کام لیتا ہے۔

    اگر آپ کو اپنے دوستوں پر اندھا یقین ہوکہ وہ کسی بھی صورت آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے بلکہ زندگی بھر آپ کے ساتھ رہیں گے تو یہ طریقہ آزما کردیکھیں آپ کو قرض کی بدفطرتی کا اندازہ ہوجائے گا اور یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں قرض سے پناہ مانگتے تھے:-

    اپنے غریب دوستوں کو قرض دے دو اور امیر دوستوں سے قرض مانگو۔ مطلب یہ کہ غریب دوستوں کو قرض کی رقم دے دو اور امیر دوستوں سے صرف قرض کے لئے تقاضہ کرو۔ امیر لوگوں سے رقم حاصل نہیں کرنی۔ بہت جلد دونوں طبقے کے دوست آپ کو چھوڑ کر رفو چکر ہوجائیں گے۔

    قرض ایسی لعنت ہے جو خونی رشتوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے۔ اپنی رقم کی واپسی کے لئے لوگ ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں۔

    قرض ایسا بوجھ ہے جو انسان کو خود چکانا ہوتا ہے یا اس کے اہل و عیال ادا کرتے ہیں۔ قرض کی رقم اللہ تعالی بھی معاف نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کا جنازہ پڑھایا جارہا ہوتو یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر کسی انسان کا میت کے ذمے لین بنتا ہے تو فلاں وارث سے رابطہ کرے۔

    اس کے علاوہ ایک قرض ایسا ہے جسے قرض حسنہ کہتے ہیں ۔ قرض حسنہ آپ دو طریقوں سے دے سکتے ہو۔ ایک یہ کہ قرض خواہ یہ کہے کہ یہ رقم میں قرض دار کو اس کی جائز ضرورت کے پیش نظر دے رہا ہوں تاکہ وہ اپنی مشکل سے بر وقت نکل سکے۔ اور جب بھی اس کے پاس پیسے ہوں واپس کردے اور اگر نہ ہوں تو بھی کوئی بات نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ قرض خواہ اپنے قرض دار کو یہ کہے کہ میں یہ رقم اللہ کے لئے تمہیں دے رہا ہوں اور اس کا اجر میں صرف اللہ سے ہی لوں گا۔ تم پہ کوئی بوجھ نہیں۔

    قرض حسنہ صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے ہوتا ہے۔ قرض حسنہ انسان اور اللہ تعالی کے مابین کاروبار ہے جس میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کے دیئے مال کو کئی گنا بڑھا کر آپ کو واپس لوٹائے گا۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:- مَن ذَالَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضاً حَسَناً فَيُضٰعِفُهُ لَهُ اَضْعَافاً كَثِيْرَةً-’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرۃ:245)
    اللہ تعالی نے انسانی معاشرے میں کسی کو امیر بنایا ہے تو کسی کو غریب، تاکہ یہ نظام کائنات چلتا رہے، فرمان الہی ہے کہ:- أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ۔ (سورہ زخرف آیت 32)

    کیا یہ لوگ تمہارے پروردگار کی رحمت کو بانٹتے ہیں؟ ہم نے ان میں ان کی معیشت کو دنیا کی زندگی میں تقسیم کردیا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے اور جو کچھ یہ جمع کرتے ہیں تمہارے پروردگار کی رحمت اس سے کہیں بہتر ہے۔

    قرض حسنہ بہت اعلی عبادت ہے۔ جو لوگ صاحب استطاعت ہیں، اہل ثروت ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے مال میں سے لوگوں کی مالی مدد کریں۔ اگر کچھ رقم خرچ کرکے کسی کی جان بچا سکتے ہیں تاکہ پورا کنبہ بکھرنے نہ پائے، آپ کسی کی تعلیم کے اخراجات اٹھا کر اس کی تعلیم مکمل کروا سکتے ہیں تاکہ ایک انسان اپنی زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کے قابل ہوسکے۔ آپ کسی کو چھوٹے موٹے کام کے لئے اس کی مالی مدد کرسکتے ہو تاکہ وہ اپنا گھر چلا سکے۔ کسی متوسط گھرانے کی مالی مدد کرکے ان کی بیٹی کی شادی انجام تک پہنچا سکتے ہو تاکہ کسی کا گھر بس جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔

    اللہ تعالی اس کائنات کے خالق ہیں، مالک ہیں اور رب ہیں۔ اللہ تعالی سے بہتر کوئی نہیں جانتا کس کو کیا، کب اور کیسے دینا ہے۔ ہماری زندگی میں کئی ادوار ایسے آتے ہیں جب ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور کبھی ہم اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ کسی کی مدد کرسکیں۔

    یہی انسانیت ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کا غمخوار اور مددگار ہو۔ اگر ہم بے حس ہو کر ضرورت مندوں سے لاتعلق ہوکر اپنی زندگی گزارنا شروع کردیں تو آپ حقیقی خوشیوں سے محروم ہوجائیں گے۔ انسانی مدد کرکے جو خوشی ملتی ہے اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کیونکہ یہ بڑے نصیب کی بات ہے کہ اللہ تعالی کسی انسان کو اس قابل بنائے کہ وہ دوسروں کے چہروں پہ خوشیاں بکھیر دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔

    ادھار لیتے ہوئے انسان صرف اور صرف اتنی رقم ادھار لے جو آپ کی آمدنی میں سے بآسانی ادا ہوسکے ۔ ایک ملازم پیشہ انسان صرف اور صرف اتنی رقم ادھار لے جسے وہ اگلے مہینے کی تنخواہ سے ادا کرسکتا ہو۔ بامر مجبوری آپ تھوڑی بڑی رقم بھی ادھار لے سکتے ہیں جو آپ ذیادہ سے ذیادہ چھ ماہ کے دوران اپنی تنخواہ میں سے تھوڑی تھوڑی ادا کرسکتے ہوں۔

    اور ادھار دیتے ہوئے آپ بہت محتاط رہیے۔ جب بھی کوئی رقم کا تقاضہ کرے۔ آپ اس کی ضرورت کو ضرور دیکھئے اور اچھی طرح یقین کرلیجئے کہ وہ واقعی ضرورت مند ہے اور یہ ضرورت جائز ہے۔ پھر ادھار کی رقم کے بارے میں یقین دہانی کرلیجئے کہ وہ کیسے اور کہاں سے ادا کرے گا۔

    جاری ہے۔۔۔۔۔
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    ادھار دینا (حصہ دوئم)

    ہر انسان کی دولت یا سرمایہ بہت قیمتی ہوتا ہے اور اللہ تعالی نے جو مال آپ پر انعام کیا ہے اسے فضول لٹانا نہیں چاہیے۔

    کچھ لوگ آپ کی ظاہری حالت اور اٹھنے بیٹھنے سے یہ تاثر لیتے ہیں کہ آپ بہت رئیس زادے ہیں۔ جبکہ آپ بھی انھی کی طرح ملازمت کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ کم ظرف ، کوتاہ نظر اور خود غرض لوگ، آپ کی شفقت اور بے نیازی کو آپ کی بے وقوفی سمجھتے ہیں اور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح آپ سے مالی فائدہ اٹھایا جائے۔اور اپنے مذموم مقاصد کے لئے وہ ایسا جال بنتے ہیں کہ آپ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ کیا معاملہ ہے۔ اس سلسلہ میں ، میں ایک سچا واقعہ شیئر کر رہا ہوں تا کہ قارئین خبردار ہوں کہ دنیا میں کیسے کیسے عجیب کردار ہیں۔ جن میں اتنی اخلاقی جرات یا اخلاقی پستی ہے کہ کسی کے پیسوں سے پلاٹ خریدیں۔

    ایک مرتبہ میں نے اپنے گھر دعوت پہ چند فیملیوں کو مدعو کیا ۔ ان میں سے ایک فیملی کے سربراہ نے دعوت کے دوران یہ کہا کہ واپڈا ٹاؤن لاہور میں 10 مرلے کا پلاٹ مل رہا ہے۔ جب انھوں نے ایک آدھ بار دوسروں کے ہاں دعوت پہ اس پلاٹ کا مزید ذکر کیا تو میں یہ سمجھا کہ ان صاحب کو یہ پلاٹ پسند ہے اور اس کی ادائيگی کے لئے رقم کا انتظام نہیں کرپارہے۔ میں نے از راہے ہمدردی ان سے پوچھا کہ کتنے پیسے چاہیں۔ کہنے لگے کہ 10،000 ڈالر ۔ میں نے انھیں جب یہ رقم دی تو مزید 2،000 ڈالر کا مطالبہ کردیا۔

    چند ہفتے گزرنے کے بعد جب میں نے رقم کی ادائيگی کے لئے استفسا ر کیا تو موصوف کا جواب یہ تھا کہ آپ کو رقم واپس چاہیے؟ مجھے بہت غصہ آیا ، مگر ضبط کرگیا۔ اور یہ معلوم ہوا کہ موصوف کے پاس تو پیسے ہی نہیں جو ادا کرسکیں۔ قصہ مختصر کہ مجھے اس خطیر رقم کی وصولی کے لئے ایک کمیٹی کا آغاز کرنا پڑا، جس میں انھیں شامل کیا اور آخری کمیٹی ان کے نام سے نکلتی جو مجھے موصول ہوتی۔ اس طرح دو مرتبہ کمیٹیاں ڈال کر ان سے رقم وصول کی گئی۔ گویا دو برس اور چند ماہ بعد اپنی رقم واپس ملی۔ ایک تو میری رقم ٹوٹ گئی اور دوسرے پریشانی علیحدہ۔

    اندازہ لگائیے لوگ اپنے فائدے کے لئے کس حد تک اخلاقی انحطاط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اہل ایمان اور اہل علم دوسرے کے سرمایے کو ایک امانت سمجھتے ہیں۔

    اسلام میں اسی وجہ سے قرض کے معاملے کے لئے یہ اصول وضع کیا گیا ہے تاکہ زحمت اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے:- یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہُ۔۔۔ وَاسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ(البقرة: 282)

    ترجمہ :“اے ایمان والوں جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کروتواُسے لکھ لیا کرو۔اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔”

    اس کے علاوہ جب آپ کوئی بڑی رقم ادھار دے رہے ہوں اور آپ کو احتمال ہوکہ قرض دار آپ کا سرمایہ واپس کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ایسے میں اپنے سرمایہ کی یقینی واپسی کے لئے قرض دار سے کو ئی شے سونے کی یا دیگر قیمتی شے یا زمین کے کاغذات کو بطور ضمانت رکھ لیں۔

    جب قرض دار اپنے قرض خواہ سے قرض لے تو اس کو احسان سمجھنا چاہیے کہ اس نے میری ضرورت پوری کی ۔ قرض کو وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرے اور طلب کرنے سے پہلے خود ہی اس کے پاس جا کر ادا کردے،نہ یہ کہ اس کو آج کل پر ٹالتا رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ظلم فرمایا ہے۔

    ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے قرض لیااور قرض لینے کے بعد ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض ادا نہیں کرتااور بار بار چکر لگواتا رہتا ہے،اس بیچارے نے احسان کیا،لیکن اسے احسان کا بدلہ یہ ملاکہ وہ اپنی چیز کو حاصل کرنے میں سر گرداں ہے،اس طرز عمل سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس پریشانی میں بد دعا دے دے ،جس کی قبولیت میں شک نہیں۔

    اگر کوئی شخص بلاوجہ ٹال مٹول کرے، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ ( سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقات، باب الحبس فی الدین، رقم الحدیث:2427)

    اگر کوئی اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ ادا نہیں کروں گا تو وہ ایسا ہے جیسے حرام کھارہا ہو۔

    اگر کوئی قرض لے کر ہڑپ کرجاتا ہے اور قرض دینے والا اس سے قرض کی وصول یابی کی قدرت نہیں رکھتاتو یہ قرض آخرت میں (قرض دار کی ) نیکیوں کی صورت میں اس سے وصول کیا جائے گا۔

    اگر کسی نے کئی لوگوں سے قرض لیا یا کئی لوگوں کا حق کھایا، جن کو اب جانتا نہیں تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے اور ان کو ان کا حق واپس کرے ، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے، اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میں جتنی مقدار میں قرض لیا ہے یا حقوق کھائے ہیں اتنی مقدار صدقہ کرے۔ اور یہ نیت کرے کہ اس کا ثواب اصل مالک کو پہنچ جائے۔

    جب بھی کوئی آپ سے رقم کا مطالبہ کرے تو فوری طور ہاں یا نہ میں جواب نہ دیں بلکہ چند دن کا وقت مانگ لیں۔ اس دوران اپنے مالی حالات اور اپنی ذمہ داریوں پر صدق دل سے غور کریں اور قرض لینے والے کی ضرورت اور اس کی مالی حالت پر عمیق طریقے سے غور کریں۔ اور کسی کو رقم دینے سے پہلے دلی اطمینان کرلیں تاکہ حالات قابو میں رہیں اور تعلقات کو بٹہ نہ لگے۔ مالی معاملات میں کسی کو اندھیرے میں رکھنے سے بہتر ہے صاف جواب دے دیں۔ بار بار پچھتانے سے بہتر ہے ایک بار کا پچھتانا۔ تاہم حقیقی ضرورت مند اور غیرت مند لوگوں کی مدد کے لئے جس قدر ممکن ہو ضرور مدد کریں۔ کیونکہ انسانی مدد سے آپ ناصرف دوسرے کی مشکل آسان کرتے ہیں، بلکہ اللہ تعالی کی خوشنودی کے بھی مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے آپ کو اچھا انسان بنانے کے عمل کو جاری رکھتے ہیں اور اپنے تقوی اور نفس کی تربیت کے عمل کو بھی جاری رکھتے ہیں۔

    ادھار سے متعلق بہت سے ضرب المثل ہیں، انھیں ضرور یاد رکھیں۔

    ادھار دینا غم میں پڑنا ہے
    ادھار دینا لڑائی مول لینا۔
    ادھار دیجئے دشمن کیجئے۔
    ادھار دیا گاہک کھویا۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    کاروبار

    کاروبار کے معنی ہیں تجارت کرنا، سوداگری، سودا کرنا، لین دین کرنا، مال کا تبادلہ کرنا، بیوپار کرنا، حصول روزگار کا مشغلہ اور کام کاج۔


    کاروبار سے مراد منافع حاصل کرنے کے لئے سرگرم عمل ہونا۔ کاروبار اکیلا انسان بھی کرسکتا ہے اور کئی لوگ مل کر بھی کرسکتے ہیں۔

    عموما ً کچھ سامان تیار کیا جاتا ہے جس پہ اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں اور پھر اس تیار شدہ سامان کو گاہکوں کو بیچنا کاروبار کہلاتا ہے۔ ایک چبوترے پر ٹھیلا لگا کر شربت تیار کرکے بیچنا بھی کاروبار ہے۔ کسی ڑیہڑی پہ دال اور چاول لگا کر بیچنا بھی کاروبار کہلاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ مل کر برابر برابر رقم سے کوئی فیکٹری، ورکشاپ یا تجارت کرسکتے ہیں؛ یہ بھی کاروبار کہلاتا ہے۔ کچھ لوگ شیئر بازار سے کمپنیوں کے شیئر کی خرید و فروخت کےے ذریعے بھی کاروبار کرتے ہیں۔

    اسی طرح بڑے پیمانے پہ کاروبار بھی ہوتے ہیں جس کے لئے بہت ذیادہ سرمایہ درکار ہوتا ہے اور ایک بڑے عملے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کام چند لوگ ذاتی سرمائے اور لوگوں کے شیئر سے کرتے ہیں۔

    ہم یہاں ذاتی روزگار کے حصول کے لئے کاروبار پر بات کریں گے۔ ایسے لوگ جو ملازمت کرتے رہے ہیں یا ایسے لوگ جو کبھی بھی کسی کاروبار سے منسلک نہیں رہے۔ اور پہلی بار اپنے گھر کو چلانے کے لئے روزگار کی تلاش میں ہیں ۔

    ہمیشہ یاد رکھئے کہ آپ کے سرمایہ کو کوئی دوسراانسان استعمال کرکے آپ کو منافع نہیں دے سکتا۔ یہ انسان کی فطرت میں ہی نہیں کہ وہ آپ کو بیٹھے بٹھائے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو آسانی سے منافع دے سکے۔ اس لئے ایسی غلطی مت کیجئے گا۔


    کسی سرکاری ادارے یا بنک وغیرہ میں سرمایہ رکھنا ، محفوظ تو ہے لیکن اس میں جو منافع ملے گا وہ آپ کے لئے سود مند نہیں رہے گا۔

    ا س لئے بہتر ہے کہ اپنے سرمائے کو ایسے کام میں لگایا جائے جو محفوظ سرمایہ کاری ہو۔ جیسے پراپرٹی کی خرید و فروخت، چھوٹے چھوٹے گھر بنا کر بیچنا۔ اگر اتنا سرمایہ بھی نہ ہوتو ایسا کام منتخب کیجئے جس میں سرمایہ کاری کم ہو اور منافع ذیادہ۔ اس کے لئے آپ پراپرٹی ڈیلر کا آفس کھول لیں۔ کوریئر سروس کا آفس کھول لیں یا کوئی اکیڈمی کھول لیں۔

    جو لوگ کسی ہنر کو جانتے ہیں انھیں چاہیے کہ اپنے کام سے متعلق کاروبار شروع کریں۔ جیسے اگر کوئی موٹر سائیکل میکنک ہے تو چھوٹی سے دکان میں اپنا کام شروع کرسکتا ہے۔ اسی طرح کوئی ویلڈنگ کا کام جانتا ہے اسے چاہیے کہ کسی دکان میں اپنا کاروبار شروع کردے۔

    کاروبار کے حوالے سے جب بھی بات ہو، کہتے ہیں کہ ہٹی ۔ چٹی اور کھٹی ۔ ہٹی یعنی پہلے دکان بنائی جائے۔چٹی یعنی پھر دکان کے اخرجات اورگھاٹا اٹھایا جائے پھر کھٹی یعنی اس کے بعد کہیں جا کر انسان کمانا شروع کرتا ہے۔ آج کےبڑے کاروباری لوگ انھی تین مرحلوں سے گزر کر اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب ہوئے اور اپنے نام کی وجہ سے کئی کئی برانچیں کھول کر لاکھوں کڑوڑوں میں کھیل رہے ہیں۔

    انسان بہت جلد باز ثابت ہوا ہے اور جو لوگ پہلی مرتبہ کاروبار شروع کرتے ہیں وہ کاروبار میں گھاٹے اور نقصان کو مدنظر نہیں رکھتے۔ حالانکہ کاروبار میں ہمیشہ مندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر ترقی کے ثمرات بھی ملنے لگتے ہیں۔


    میری طرح آپ لوگوں نے بھی مشاہدہ کیا ہوگا کہ کبھی کبھی لوگ کچھ کاروبار شروع کرتے ہیں اور ان کا مقصد کچھ اور تھا مگران کی فہم وفراست نے انہیں نئے راستے فراہم کئے اور حادثانی طور پر ان کاکاروبار ایک نئی ڈگر پر چل نکلا۔ وہ کاروبار جس کے بارے میں انہوں نے کبھی سو چا بھی نہ تھا۔ کسی حادثے یاکسی اور پس منظر میں اتفاق سے چلنے والا کاروبار انہیں زندگی میں انتہائی کامیاب کر گیا۔ وہ ایک عظیم کاروبار کے بانی قرار پائے اور دنیامیں نامور ٹھہرے۔

    سب سے آسان ، سستا اور کامیاب کاروبار کھانے پینے کا کاروبار ہے۔ اس میں کامیابی کے امکانات بہت روشن ہیں۔ لیکن کسی بھی کاروبار کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے۔بلکہ کاروبار میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ گاہک کیا طلب کرتا ہے، مارکیٹ کا کیا ریٹ ہے اور آپ کے کاروبار کی کامیابی آپ کے کام کا معیار، ذائقہ، صفائی اور آپ کا اخلاق ہے۔ آپ کا لین دین اور خوش خلقی ایک کنجی ہے جو آپ کے کاروبار کو چمکا تی ہے۔

    جو کام بھی کریں، پہلے اس کی نیت کریں، پھر ضروری سرمائے کا انتظام کریں، مناسب جگہ تلاش کیجئے، خلوص سے اپنا مال تیار کروائیں اور اخلاق و محنت سے اسے فروخت کریں۔

    دنیا بھر میں ہر وقت اور ہر دور میں ایسے لو گ موجود ہوتے ہیں جواپنی محنت اور ہمت کے بل بوتے پر کسی بھی وقت کوئی کاروبار شروع کرکے اسے کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔

    اللہ کے نیک بندے اپنا کاروبار شروع کرتے ہوئے اللہ تعالی کو اپنا پارٹنر بنا لیتے ہیں۔ اور اپنے منافع میں سے کچھ حصہ اللہ تعالی کے نام پر ضرورت مندوں کی کفالت کرتے ہیں۔


    اللہ سے کاروباری رشتہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہمارا ایمان اور یقین پختہ ہو اور اسی یقین کے ساتھ ہم کوئی بھی کاروباری فیصلہ اللہ کی مرضی اور اس کی رضا کے بغیر نہ کریں اور اپنے کاروبار کو اللہ کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق ہی پروان چڑھائيں؛ تو یقینا کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    زاد راہ

    زاد راہ کے معنی ہیں توشہ سفر، لوازم سفر، سامان سفر، خرچ راہ اور رستے کا توشہ یا خرچ۔


    ہر کام کی انجام دہی کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہے اور اسی طرح ہر کا م ، ہر سفر، ہر عمل کے زاد راہ کے لوازمات بھی مختلف ہوتے ہیں۔

    کچھ کام ایسے ہوتے ہیں ، جنھیں انجام دہی سے پہلے ان کی تیار ی کی جاتی ہے۔ جیسے کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنا۔ پرچہ حل کرنے کے لئے اس کی تیاری بہت پہلے سے کرنا پڑتی ہے۔ ہر روز کلاس روم میں حاضری دی جاتی ہے، ہر روز ہوم ورک کیا جاتا ہے اور پھر سہ ماہی امتحانوں کی تیاری کی جاتی ہے اور اسی طرح سالانہ امتحانوں کے لئے کھیل کود اور دیگر مصروفیات کو خیر باد کہہ کر پوری توجہ اور انہماک سے امتحان کی تیار ی کی جاتی ہے تب جاکر ایک طالب علم کمرہ امتحان میں پرچہ حل کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

    اسی طرح اگر آپ کا سفر بہت کڑا ہے اور دشوار گزار بھی ہے تو آپ کو اس سفر کے لئے ایسا زاد راہ اکٹھا کرنا ہوگا جو آپ کے سفر کو آرام دہ اور کامیاب بنا دے۔ جیسے آپ کو ایک مضبوط اور لمبے جوتوں کی ضرورت ہوگی، پینٹ اور قمیض بھی مضبوط کاٹن کے کپڑے کی بنی ہوئی ہو۔ دھوپ اور مٹی سے بچنے کے لئے آنکھوں کا چشمہ، اپنی جان اور سر کو بچانے کے لئے ایک عدد ہیٹ کی ضرورت ہوگی۔ آگ جلانے کے لئے لائٹر یا ماچس، اندھیرے میں سفر کرنے کے لئے ٹارچ، پھل ، سبزیاں اور دیگر کاٹنے کے لئے ایک عدد چاقو، پانی پینے کے لئے گلاس، کھانے کے لئے برتن اور پلیٹیں وغیرہ۔ اور شاید ایک عدد لاٹھی کی ضرورت ہوگی تاکہ خونخوار جانوروں اور دیگر خطرات سے نبٹا جاسکے۔

    کسی کو ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہے تو اس کے لئے زاد راہ مختلف ہوگا۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جتنا عالی مرتبت مقصد ہوگا اس کے لئے زاد راہ بھی اسی قدر زور آور درکار ہوگا۔یہی نہیں بلکہ زاد راہ کے ساتھ ساتھ نیت میں اخلاص، عمل پیہم، سچی لگن، علم دوستی اور مقصد میں سنجیدگی ضروری ہیں۔


    زاد راہ، کسی بھی سفر یا کام کے حصول کی ایسی جزیات ہیں جس کی مدد سے آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    زاد راہ ایسے لوازمات ہیں جو آپ کو نا تو اپنے مقصد سے بھٹکاتے ہیں، بلکہ آپ کو اپنے مقصد میں کامیابی کی کنجی ثابت ہوتے ہیں۔

    انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے امور انجام دینے سے پہلے اس کا م کی اکائیوں پہ عمیق طریقے سے غور کرے اور جو بھی درکار ہو اسے محفوظ طریقے سے اپنے ساتھ رکھے اور اپنے زاد راہ سے قطعی غافل نہ ہو۔ اور جہاں جہاں زاد راہ کی ضرورت ہو اسے سلیقے سے بروئے کار لائے تاکہ خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکیں۔

    یہ دنیا اس کے لئے حقائق اور سچائیوں کا گھر ہے جو اس کی حقیقت کو پہچان لے ،یہ اس کے لئے دارِ عافیت ہے جو اسے اچھی طرح سمجھ جائے ۔ یہاں جو سمجھداری سے کام لیتا ہے اسے کامیابی کا منہ نصیب ہوتا ہے۔

    اس دنیا میں ایک مسلمان کی زندگی ایک امتحان ہے جسے پاس کرنے والے جنت کے حق دار ہوں گے اور جو خدا نخواستہ اپنی غفلت، کوتاہی اور ناسمجھی کی وجہ سے ناکام ٹھہرائے گئے تو ان کا انجام بہت ہولناک اور تکلیف دہ ہوگا۔


    ایک عقل مند، زیرک اور صاحب فکر انسان اس زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لئے اپنے ساتھ ایسا زاد راہ کا اہتمام کرکے رکھتا ہے جو اسے اس دنیا میں فخر سے جینے اور آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کروانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکے۔

    یہ زادِ راہ کسی مرحلے میں رکھ دینا
    کوئی گلاب مرے راستے میں رکھ دینا

    دنیاوی زندگی ہماری آخرت کی کھیتی ہے۔ ہم جو یہاں بوئیں گے آخرت میں وہیں کاٹیں گے۔ یہ زندگی ایک نعمت ہے، ایک موقع ہے جس میں ہم اپنے کردار، اپنے عمل اور اپنے علم سے ناصرف خود کامیاب ہوسکتے ہیں بلکہ بے شمار دوسرے انسانوں کوبھی اس دنیا میں اور آخرت میں کامیاب و کامران کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    جس طرح ہم دیگر معاملات میں اپنے ساتھ ضروری لوازمات کا اہتمام کرکے رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں چاہیے کہ اس زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لئے زاد راہ جمع کرکے اسے بروئے کار لاتے ہوئے کامیاب ہوجائیں۔

    اس زندگی میں کامیابی کے لئے ہمیں سب سے پہلے اللہ تعالی پہ اپنے ایمان کو انتہائی درجہ پہ مضبوط کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہمیں اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہونا ہوگا۔ تیسرے اللہ تعالی کے احکامات کو من و عن اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا تاکہ مقصد حیات سے بھٹک نہ جائیں۔ چوتھے کلمہ حق کی آواز کو بلند کرنا ہوگا تاکہ کوئی ہمارا یا ہمارے کسی ساتھی کا حق نہ مار سکے۔پانچویں پاکیزگی، طہارت، اخوت، سچائی اور عف و درگزر کو ہمہ وقت اپنائے رکھنا ہوگا تاکہ قرب الہی حاصل کرسکیں۔ چھٹے تقوی کو بھرپور انداز میں اختیار کرنا ہوگا کیونکہ تقوی انسان کو برائیوں سے بچانے میں مددگار ہوتا ہے اور اچھائیوں کی فکر دیتا ہے اور اچھائیوں کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

    اللہ تعالی نے اپنی کتاب مبین اور حضور صلعم کی سیرت طیبہ کے ذریعے ہمیں ایسی تعلیم دے دی ہے جس پہ پابندی سے عمل کرکے ہم آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

    عزم سفر تو ملک عدم کا ہے اے قلقؔ
    کچھ اپنے ساتھ لے بھی چلے زاد راہ آپ


    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    انسانی رشتے

    پر لطف اور خوبصورت زندگی کا انتہائی اہم راز خوبصورت رشتوں میں پوشیدہ ہے۔ رشتے اعتماد، خلوص اور محبت کے خمیر سے بنتے ہیں۔ انسانی رشتے احساس کی ڈوری سےجڑے ہوتے ہیں۔ اگر احساس یک طرفہ ہے تو یقینا یہ رشتہ عقیدت، احترام، لگاؤ، اعتبار یا معاشی ضرورت کے باعث جڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ رشتے انسانی خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں اور جب دل چاہا اسے منقطع کردیا۔ جب ضرورت محسوس کی تخلیہ کرلیا۔

    دوطرفہ رشتوں کا تعلق جہاں احساس سے ہوتا ہے وہیں یہ رشتے ہماری سانسوں سے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ ان رشتوں میں دراڑ بہت تکلیف دہ اور جان لیوا ہوتا ہے۔ عموماً دو طرفہ رشتوں میں کوئی بھی ایک فرد دوسرے فرد کے لئے کبھی بھی منفی انداز میں نہیں سوچ سکتا اور نہ کبھی ایسی حرکت کرے گا جس سے دل آزاری ہو ۔

    رشتہ کوئی بھی ہو وہ اپنے حوالے سے توجہ اور قربانی مانگتا ہے۔ پیار و محبت کا طالب ہوتا ہے۔ رشتوں کو محبت کی ڈور سے باندھ لیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ محبت جو کائنات کی سب سے مضبوط ڈور ہے، اس کو تھامے رکھیں تو کبھی خالی پن یا تنہائی کا احساس نہیں ہوگا۔ آپ کی ذات سے منسلک ہر قیمتی رشتہ آپ کاگرویدہ ہوجائے گا۔

    انسان کی زندگی میں ہر رشتہ خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ انسان کے اندر بہت سے جذبات ہوتے ہیں جس کی تسکین ہمارے ارد گرد رہنے والے رشتے پوری کرتے ہیں۔ ان تمام رشتوں کے ذریعے ہمارے ارمان پورے ہوتے ہیں ، ان میں سے کچھ رشتوں کی وجہ سے ہماری امنگیں پروان چڑھتی ہیں اور پوری ہوتی ہیں۔ انھی رشتوں سے ہمیں انسیت ملتی ہے۔ کئی رشتے ایسے ہوتے ہیں جہاں سے ہماری چاہت کو قرار حاصل ہوتا ہے اور کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہم چاہتے ہیں۔ ہمیں رشتوں میں قربت، الفت اور محبت وہ تمام ملتا ہے جو ایک انسان کی بنیادی تمنا ہوتی ہے۔ انھی رشتوں کی وجہ سے ہماری زندگی خوش، ہماری صحت اچھی اور ہمارا موڈ عمدہ ہوجاتاہے۔

    رشتے اللہ تعالی کا خاص انعام ہیں۔ ان کی قدر کرنا چاہیے اور انہیں کمزور نہ ہونے دیں۔ کیونکہ جہاں ہمارے رشتے کمزور ہوئے ہم خود کمزور ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کی وجہ سے خوشی اور غم کا احساس زندہ رہتا ہے رشتے عزت و احترام اور باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ رشتے دائمی ہوتے ہیں اور ہماری سماجی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔

    رویوں کی مٹھاس اور چاشنی ختم یا کم ہوجانے سے رشتوں میں کڑواہٹ آجاتی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کامسئلہ بنالینے سے مضبوط سے مضبوط رشتے میں بھی درا ڑ پڑ جاتی ہے۔ جو لوگ مخلص ہوتے ہیں ان کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ مخلص ہیں ۔ ان کی مخلصی کا اندازہ انکے عمل سے ہو جاتا ہے ۔ انسانی رشتے جتنے مضبوط ہوتے ہیں اتنے ہی حساس بھی ہوتے ہیں۔

    ایک وقت تھا جب رشتے دار ہونا باعث افتخار تھا۔ کیونکہ آپسی میل ملاپ اور بے لوث محبت کی خوشبو رشتوں میں جھلکتی تھی اور لوگ خوشی اور فخر سے اپنے رشتے داروں کا تعارف کرواتے تھے۔ کسی کو کانٹا بھی چبھ جاتا تو اس کی تکلیف دیگر رشتہ دار دور بیٹھے بھی محسوس کرتے تھے اور دل سے دعائیں دیتے تھے۔ اپنے کسی رشتہ دار کی کمزوری اور برائی کو چھپانا اپنا فرض سمجھا جاتا تھا کیونکہ عزت سانجھی تھی۔

    یہی رشتہ داری خونی رشتوں سے ہٹ کر اپنے گاؤں اور شہر والوں سے بھی تھی ۔ ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ اللہ تعالی نے جو عزت اور کامیابی ہمیں دی ہے ہم اپنے رشتہ داروں اور اپنے گاؤں والوں کو بھی حصہ دار بنائیں۔

    دراصل رشتہ وہی ہوتا ہے جس میں چاہت ہو، خلوص ہو، جذبہ احترام ہو، جذبہ خدمت ہو، جذبہ ایثار ہو۔ اور سب سے بڑھ کر کوئی مادی مفاد نہ ہو، نہ کوئی مالی منفعت کا خیال ہو اور نہ ہی کوئی ہوس پرستی کارفرما ہو۔

    آج کے دور میں ایک خاندان کے لوگ ایک دوسرے سے بیزار ہیں اور ایک ہی گھر کے لوگ ایک دوسرے سے بے پرواہ ہیں۔ اب صرف اور صرف مفادات کی رشتہ داری رہ گئی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے اپنی اغراض و مقاصد کی خاطر تعلقات قائم کرتے ہیں۔ خود غرضی، بے حسی، ذہنی تخریب کاری، حسد ، اخلاقی گراوٹ اور مفاد پرستی کی وجہ سے رشتہ داری کا حسین و جمیل اور دلکش و خوشنما رشتہ شکست کا سامنا کررہا ہے۔

    رشتوں میں چاہت کی آمیزش نہ ہوتو حقیقی رشتہ داری بھی قائم نہیں رہتی اور اگر یہی چاہت غیروں سے ہو تو ان سے تعلق رشتہ داری قائم ہوجاتا ہے۔ اسی چاہت کی وجہ سے ماں باپ سے رشتہ سب رشتوں پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ والدین کی طرف سے چاہت کبھی نہ کم ہوتی ہے اور ختم ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جبکہ بہن بھائیوں کی چاہت وقت کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں میں بٹ جاتی ہے اور آپ کے لئے ان کے دل میں چاہت کم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کی اپنی عائلی ذمہ داریاں انھیں اس قدر مجبور کردیتی ہیں کہ انھیں آپ سے چاہت شیئر کرنا محال ہوجاتا ہے۔

    اسی طرح عائلی زندگی میں کچھ بیویاں اپنے خاوند سے چاہت کے جذبے کو اپنے بچوں کی طرف منتقل کردیتی ہیں۔ ایسی صورت میں پورا کا پوار گھر بے سکونی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گھر، گھر نہیں رہتا بلکہ مکان بن کے رہ جاتا ہے۔ بچے بھی آپس میں گھل مل کر نہیں رہتے اور نا ہی بچوں کا والدین سے قرب قائم رہتا ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہی بچے اپنی ماں اور باپ سے محبت اور انسیت کا رشتہ قائم نہیں رکھ پاتے۔ بلکہ نئی نئی منزلوں کی تلاش میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ پھر پلٹ کر نہیں دیکھتے۔

    دنیا میں انمول رشتہ ماں اور باپ سے رشتہ ہے جو کبھی بھی نا کم ہوتا ہے اور نا ہی متزلزل ہوتا ہے۔ اور ان دونوں رشتوں کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ۔ زندگی کا حسن اور خوشی کے لئے والدین کا رشتہ ایسا امرت ہےجو انسان کو ہر پریشانی اور ہیجانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن دکھ یہ ہے کہ ماں باپ ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتے۔

    اس لئے کیوں نہ ایسا رشتہ استوار کیا جائے جو ہمیشہ ہمیشہ انسان کے ساتھ رہے اور شفقت میں وہ ماں کی محبت سے ستر گنا ذیادہ ہو اور انسان کے مرنے کے بعد بھی انسان کے ساتھ قائم رہے۔یہ رشتہ روح کا رشتہ ہے جو اللہ تعالی سے استوار کیا جاسکتا ہے۔ تاکہ انسان اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ اور یکسوئی سے اپنا رشتہ رب کائنات کے ساتھ استوار کرکے عبادت اور روحانیت میں مستغرق ہوجائے۔ اور ہر مشکل میں اپنے رب سے راز و نیاز کرے ، مشکل کا حل طلب کرے اور آخرت میں بھی سرخروئی حاصل کرے۔ رب سے قائم کئے گئے رشتے میں کبھی محرومی نہیں ہوتی بلکہ ہر اس گھڑی میں جب سب لوگ ہمیں چھوڑ دیں تو صرف اللہ تعالی کی ذات گرامی ہمارے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    نقطہ نظر

    نقطہ نظر کے معنی ہیں احساس ، انداز، تناظر، جذبات، جگہ، حالت، خیال، رائے، رویہ، زاویہ نگاہ، صورت، عقیدت، کونہ، کیفیت، گوشہ، مقام، منظر، موقع، مؤ‌قف، نظارہ، نقطہ نگاہ، وضع، کسی کے بارے میں اپنا نظریہ ، ترچھی وضع اختیار کرنا، کوئی ذہنی میلان لئے ہونا، کسی خاطر جھکاؤ اور کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا۔


    نقطہ نظر ایک خاص رویہ ہے، کسی معاملے پر غور کرنے کا طریقہ ہے، کسی کے بارے میں سوچنے کا انداز ہے، کسی کو دیکھنے کا طریقہ ہے، کسی کے بارے میں خاص سوچ اور خاص خیالات بھی نقطہ نظر کے زمرے میں آتے ہیں۔

    نقطہ نظر ہر ایک انسان کا الگ الگ ہوتا ہے مگر کچھ نقطہ نظر بہت سے افراد کا ایک جیسا بھی ہوسکتا ہے۔

    نقطہ نظر چیزوں پر غور کرنے کا زاویہ ہے، جو ہمیں ایک صورت حال میں شامل افراد کی رائے یا احساسات سے ظاہر ہوتا ہے۔

    ادب میں نقطہ نظر مصنف کا وہ انداز بیان ہے جو وہ پڑھنے والوں کو اپنی کہانی ، نظم اور مضمون میں بیان کئے گئے واقعات اور کرداروں کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت بہم پہنچاتاہے۔

    اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر انسان اس دنیا میں جب پیدا ہوتا ہے تو وہ شعوری طور پر کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے۔ بے سمجھ بچے کا ذہن ، عقیدہ اور نقطہ نظر اس کے والدین، اس کا قریبی ماحول استوار کرتے ہیں۔ اور اگر بچے کا مذہبی ذوق ہے تو وہ کسی جماعت ، گروہ یا فرقے سے متاثر ہوکر اپنا ذہن اس طرف مائل کردیتا ہے۔ اور وہاں ایک ہی جیسے خیالات بار بار سن کر ، پڑھ کر اور اپنے ساتھیوں کو ایک جیسا عمل کرتے ہوئے دیکھ کر وہ اپنا مخصوص ذہن بنا لیتاہے اور ایک نقطہ نظر رکھتا ہے۔

    نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے آپ ایک سفید کاغذ لیں، اسے رول کریں اور اس رول پر ربڑ بینڈ لگا دیں۔ اس طرح یہ کاغذ ایک نلکی نما بن جائے گا۔ اسے اپنی آنکھ پہ لگا کردیکھیں آپ کو وہی کچھ نظر آئے گا جو نلکی کا قطر ہوگا۔ اس سے ذیادہ دیکھنے کے لئے آپ کو نلکی کو بڑا کرنا پڑے گا۔ یاد رکھیئے نلکی کے قطرکے اندر سے جو دکھائی دیتا ہے وہ ہی نقطہ نظر ہے۔ نلکی جتنی باریک ہوگی، نقطہ نظر بھی اتنا ہی محدود ہوگا۔ اور نلکی جتنا کشادہ ہوگی، نقطہ نظر بھی اتنا وسیع ہوگا۔

    یاد رکھئے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو نقطہ نظر ہمارا ہے، سبھی اس سے متفق ہوں۔ بلکہ کوئی ایک نقطہ نظر نہیں ہوتا، بلکہ ایک سے ذیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہم دوسرے کے نقطہ نظر کو سننے یا پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اپنے نقطہ نظر کو ہی آخر سمجھتے ہیں۔ یوں انسان سچائی کو سامنے پاکر بھی دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    اس محرومی سے بچنے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کے لئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی نظریں اپنے موجودہ نقطہ نظر سے ہٹائیں، آنکھوں پہ لگی نلکی کو ہٹائیں، کھلی آنکھوں سے دوسرے حقائق غور سے دیکھیں اور انھیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ بلکہ اپنی رائے اور دیگر مشاہدوں کا تقابلی تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ سچائی کہاں ہے۔اس طرح آپ تعصب کا شکار ہوجانے سے بچ جائیں گے اور درست سمت پر گامزن ہوجائیں گے جو آپ کو دنیا اور آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔

    عبدالقیوم خان غوری - لاہور
     
    Last edited: ‏24 مارچ 2019
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں