1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

شعرا ء اک نظر میں

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از ایم اے رضا, ‏23 نومبر 2008۔

  1. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    ----------------عدم-------------------------------------
    میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
    ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھاگرچہ آج عبد الحمید عدم ہمارے اجتماعی ادبی شعور سے محو ہو گئے ہیں، لیکن ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ برِصغیر میں عدم کا طوطی بولتا تھا۔ عدم بھی اپنے زمانے میں مشاعروں کے بہت مقبول شاعر تھے، ان کی شاعری عام فہم، بیان سیدھا سادا اور الفاظ عام ہوتے تھے، اس لیے ان کی بات دل پر اثر کرتی تھی۔ ایسی شاعری کو عام اصطلاح میں سہلِ ممتنع کہا جاتا ہے۔

    اس دور کے تقریباً تمام گلو کاروں نے عدم کی غزلوں کو اپنی آواز دی تھی۔ چونکہ جلسوں میں گلو کاروں کے ذریعہ جو غزلیں گائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد سامعین کو محظوظ کرنا ہو تا ہے اور سامع انہیں اشعار سے محظوظ ہوتا ہے جو اس کے ذہن کو چھو سکیں۔ ایسے اشعار کا آسان ہو نا ضروری ہے اور عدم کی غزلیں اس معیار پر پوری اترتی ہیں۔ عدم کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت ان کے اندر پائی جانے والی ’کیفیت‘ ہے۔ کیفیت روایتی کلاسیکی شاعری کی اصطلاح ہے اور اس سے مراد ایسی شاعری ہے جس میں جذبات کا وفور ہو اور شعر سن کرسامع پر وہی کیفیت طاری
    ہو جائے جس کے تحت شاعر نے شعر لکھا تھا۔

    عدم دس اپریل 1910ء کو گوجرانوالہ کے قریبی قصبے تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے تھے، تاہم تعلیم کی غرض سے وہ لاہور منتقل ہو گئے۔ایف اے کرنے کے بعد فوج میں اکاؤنٹنٹ بھرتی ہو گئے۔ جب دوسری جنگِ عظیم چھڑی تو ان کا تبادلہ عراق ہو گیا، جہاں انھوں نے ایک عراقی لڑکی سے شادی کر لی۔
    قیامِ پاکستان کے بعد بھی وہ اسی شعبے سے وابستہ رہے۔ عدم کا انتقال چار نومبر 1981ء کو ہوا۔

    عدم بہت پرگو اور زود گو شاعر تھے۔ ان کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے خرابات، نگار خانہ،چارہ درد اور رم آہو وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب ان کے پاس شراب خریدنے کے پیسے ختم ہو جایا کرتے تھے تو وہ
    جلدی جلدی غزلیں لکھ کر اپنے پبلشر کو دے کر اس سے ایڈوانس معاوضہ
    لے آتے تھے۔ ان کی اکثر شاعری اسی طرح سے لکھی گئی ہے۔

    تاہم جو غزلیں عدم نے اپنے لیے لکھی ہیں ان میں ان کا مخصوص انداز جھلکتا ہے، جس میں ہلکا ہلکا سوز بھی اور عشق و محبت کی دھیمی دھیمی آنچ ہے۔ انہوں نے روایتی موضوعات، خم و گیسو، گل و بلبل، شمع و پروانہ، شیشہ وسنگ کا استعمال کیا ہے۔ کوئی نیا پن نہ ہونے کے باوجود یہ سامع کو نیا ذائقہ ضرور دے جاتی ہیں اور ایک طرح سے انہوں نے روایتی غزل کو مزید آبدار کیا ہے۔

    جہاں ہم ہیں وہاں ربط و کشش سے کام چلتا ہے
    سمجھنے اور سمجھانے کی گنجائش بہت کم ہے
    محبت ہو گئی ہے زندگی سے اتنی بے پایاں
    کہ اب گھبرا کے مر جانے کی گنجائش بہت کم ہے
    گل و غنچہ کو ہے ان سے عقیدت اس لئے گہری
    تیری زلفوں میں مرجھانے کی گنجائش بہت کم ہے

    زمانہ ہنستا ہے ہم بے نوا فقیروں پر
    یہ غفلتیں تو مناسب نہیں غریب نواز
    وہ زلف ویسے تو آتش ہے اے عدم یکسر
    مگر اثر کی رعایت سے ہے نسیم حجاز

    اے زیست کی تلخی کے شاکی صرف ایک نصیحت ہے میری
    آنکھوں کی شرابیں پیتا جا زلفوں کی پناہیں لیتا جا
    اے موسم گل جاتا ہے اگر پھر اتنا تکلف کیامعنی
    غنچوں کے گریباں لیتا جا پھولوں کی کلاہیں لیتا جا

    ہنس کے آپ جھوٹ بولتے ہیں
    دل میں کتنی مٹھاس گھولتے ہیں
    دنیا کتنی حسین لگتی ہے
    آپ جب مسکرا کر بولتے ہیں

    اسی موضوع پر عدم نے مزید طبع آزمائی کی ہے:

    یہ سمجھ کے سچ جانا ہم نے تیری باتوں کو
    اتنے خوب صورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے

    عدم بعض اوقات اشعار کے پردے میں سماجی اور سیاسی معاملات پر بھی طنز کر جاتے ہیں۔ ان کا یہ شعر اپنے دور میں بے حد مشہور ہوا تھا:

    کس قدر بوجھ تھا گناہوں گا
    حاجیوں کا جہاز ڈوب گیا

    عدم بھاری تن و توش کے مالک تھے۔ایک بار بھارت سے مجاز لکھنوی تشریف لائے۔ انھوں نے پہلے عدم کو نہیں دیکھا تھا، لیکن ان کی شاعری کے مداح تھے۔ جب ان کا تعارف کروایا گیا تو بے اختیار ان کے منھ سے نکلا:

    اگر یہی ہے عدم تو وجود کیا ہو گا؟

    عدم نے 1960ء میں عمر خیام کی رباعیات کا اردو زبان میں ترجمہ کیا تھا جسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ خیام اور عدم کا فلسفہٴ زندگی اور شاعری کا انداز ملتا جلتا تھا۔ اس مجموعے سے چند رباعیاں پیشِ خدمت ہیں:

    سلسلہ تیری میری باتوں کا
    پسِ پردہ ہے جو بھی جاری ہے
    پردہ اٹھا تو آگہی ہو گی
    پردہ داری ہی پردہ داری ہے

    اور

    نوجوانی کے عہدِ رنگیں میں
    جز مےِ ناب اور کیا پینا
    ایک ہی خاصیت ہے دونوں کی
    تلخ ہے جام، تلخ ہے جینا

    [​IMG] :titli: :titli:
     
  2. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli:




    یہ تھے جناب عدم صاحب
     
  3. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: بہادر شاہ ظفر :titli: :titli: :titli:



    ابوظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر کے 233ویں یوم پیدائش کے موقع پر دہلی میں لال قلعے کے دیوانِ خاص محل میں ” فریڈم مومنٹ آف انڈیا“کمیٹی کے زیر اہتمام ایک جلسہ 24اکتوبر کو منعقد ہوا۔ جس کی صدارت ہریانہ کے گورنر ڈاکٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے کی۔ جب کہ مہمان خصوصی مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان اور مہمان ذی وقار قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین محمد شفیع قریشی تھے۔

    تمام مقررین نے ایک بار پھر اس بار کا اعادہ کیا کہ بہادر شاہ ظفر کے باقیات کو لا کر دہلی میں ان کی وصیت کے مطابق خواجہ بختیار کاکی کی درگاہ کے احاطے میں دفن کیا جائے، تاکہ اس بد قسمت شہنشاہ کو دو گز زمین مل جائے۔ جس کی وہ آخری سانس تک آرزو کرتے رہے تھے :
    کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    مگر یہ اعادہ پہلی بار نہیں کیا گیا ہے گذشتہ نصف صدی میں اس قسم کے اعلانات کئی بارہوتے رہے ہیں اور ہر سطح پر ہو تے رہے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے باقیات رنگون سے دہلی لا کر انہیں اجداد کے قرب میں دفن کر دیا جائے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

    1957ء میں جب جدو جہد آزادی کی 100ویں سالگرہ منائی گئی تھی تو اس وقت کے وزیرا عظم جواہر لال نہرونے بھی یہ اعلان کیا تھا کہ پہلی جنگ آزادی کے ہراول دستہ کے سردار بہادر شاہ ظفر کے باقیات رنگون سے یہاں لا کر ان کی شایان شان یادگار قائم کی جائے گی مگر بات اعلانات اور خط و کتابت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

    1978ء میں جب مراد جی ڈیسائی کابینہ کے وزیرخارجہ کی حیثیت سے اٹل بہاری واجپئی برما کے دورے پر گئے تو انہوں نے رنگون میں بہادر شاہ ظفر کے مزار پر بھی حاضری دی تھی اور وہاں کے یادگاری رجسٹر پر بڑا المناک نوٹ لکھا تھا۔ جس کا کافی ذکر ہوا تھا۔ شاید اس وقت اٹل بہاری واجپئی کے اندر کا شاعر بیدار ہو گیا تھااور انہوں نے بھی اس بد قسمت شاعر کے احساسات کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے بھی کہا تھا کہ وہ ان کے لے دہلی میں دو گز زمین کا اتنظام کریں گے۔ لیکن جب وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے تو اس کا کبھی ذکر بھی نہیں ہوا۔

    گذشتہ ایک برس میں یہ آواز بار بار اٹھی کہ بہادر شاہ ظفر کے باقیات دہلی لا کر ان کے لےھ ایک شایان شان یادگار قائم کی جائے۔ کیوں کہ 1857ء کی جدو جہد آزادی کی 150ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ مجاہدین آزادی کی تنظیم کے صدر شانتی بھوشن نے کئی جلسوں میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ ملک کے آخری فرماں روا اور جدو جہد آزادی کے ہیرو کی آخری خواہش کا احترام کیا جائے مگر بات وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

    رنگون میں بہادر شاہ ظفر کی آخری آرام گاہ آج بھی بے کسی کا مزار بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے خود ہی کہہ دیا تھا:

    پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
    کوئی آکے شمع جلائے کیوں میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

    جس لال قلعہ کے دیوان خاص میں ان کی 233 ویں سالگرہ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ اسی مقام پر وہ 24اکتوبر 1775ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش ملک کے فرماں روا کے یہاں ہوئی تھی اس لے۔ فطری طور پر بڑاجشن منایا گیا تھا۔

    حالانکہ ان کے والد اکبر شاہ ثانی کے زمانے تک حکومت کا حلقہ بے حد محدود ہو کر رہ گیا تھا اور اس کے بارے میں عرف عام میں کہا جاتا تھا ”سلطنت شاہ عالم دہلی تا پالم۔“مگر بہادر شاہ بہر حال فرماں روا تھے، نام کے ہی صحیح۔ وہ 63سال کی عمر میں 28ستمبر 1838ء کو شہنشاہ بنے تھے۔ 20برس تک فرماں روا رہے اور 1857ء کی بغاو ت کے بعد انہیں انگریزوں نے قید کر لیا۔ ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور اس دوران شہنشاہ کے تین بیٹوں کے سر قلم کر کے خوان ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس بوڑھے شہنشاہ کے منہ سے نکلا ” تیمور کے خاندان کی اولادیں اسی طرح سر خ رو ہو کر والدین کے سامنے جاتی ہیں “ اور 1858ء میں انہیں جلا وطن کر کے رنگون بھیج دیا گیا۔ جہاں وہ ایک چھوٹے سے مکان میں قید رہے اور 4برس تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد سات نومبر 1862ء کو ان کی موت واقع ہو گئی۔
    بہادر شاہ ظفر شہنشاہ تھے لیکن شاعر بھی تھے۔ ان کے چھ دواوین پر مشتمل کلیات کلیات موجود ہے۔ ان کے دور سلطنت میں دربار میں مشاعرے کی محفلیں آراستہ ہو تی تھیں۔ جس میں ذوق غالب اور مومن جیسے باکمال شعراء کلام سناتے تھے۔ ذوق او رغالب تو ان کے استاد بھی رہے۔ لیکن ظفر کا انداز کلام جدا گانہ ہے۔ ایک تو وہ شہنشاہ وقت کے خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اس وقت خاندان تیموریہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا۔ اسی لےک سورج کے غروب ہونے کی شفق ظفر کے کلام میں در آئی ہے۔ ان کا پورا کلام شفق گوں ہو گیا ہے۔ وہ 1857ء کی تباہی و بربادی سے قبل کا ہو یا جلا وطنی کے بعد کا۔ اس میں درد و کرب کی مکمل کیفیت موجود ہے۔ جو اس مایوس اور نامراد شہنشاہ کے ذہن میں گردش کرتی رہی ہو گی:

    یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہو تا
    یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہو تا
    دل صد چاک بنایا تو بلا سے لیکن
    زلف مشکیں کا ترے شانہ بنایا ہو تا
    روز معمورہ دنیا میں خرابی ہے ظفر
    ایسی بستی کو تو ویرانہ بنایا ہو تا

    جو پوچھامیں نے لب زخم تو کہے گیا کیا
    کہا کے خنجر قاتل کو میں دعا دوں گا
    یہ دے کے دم مجھے لایا تھا کھینچ جوش ظہور
    کہ چل جہاں کا تماشہ تجھے دکھا دوں گا
    نہ پوچھ مجھ سے ظفر تو مری حقیقت حال
    اگر کہوں گا ابھی تجھ کو میں رلا دوں گا

    یا پھر ان کی مشہور غزل جن میں درد ہے،کرب ہے، دکھ ہے، ابتلا ء ہے اور دنیا بھر کا غم و اندوہ سمٹ آیا ہے۔

    لگتا نہیں دل مرا اجڑے دیار میں
    کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں
    عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
    دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
    کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
    اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

    اور 7نومبر 1862ء کو بے وطنی میں وہ یہ کہتے ہوے رخصت ہو گئے تھے:

    کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
    دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

    اور جس دن انہیں کوئے یار میں دفن کے لےے دو گزز مین مل جائے گی تو ان کے اشعار کے مفاہیم ہی تبدیل ہو جائیں گے۔


    [​IMG]
     
  4. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli:حضرت حکیم الامت علامہ محمد اقبال :titli: :titli: :titli:





    دیکھا ہے جو کچھ میں نے ۔۔۔۔ اوروں کو بھی دکھلا دے


    علامہ اقبال کی شاعری جمود کو توڑتی اورغفلت وآسائش طلبی کے فسوں کو زائل کرتی ہے۔ان کے یہاں فکر و فن کا ایک بحرِ ذخار ہے جو موجیں مارتا رہتا ہے۔ اقبال کا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے خود پیکر تراشے اور تلمیحات و استعارات کے ذریعے فکر و فن کو استحکام بخشا۔ ان کا کلام خوابیدہ نسلوں کے لیے صوراسرافیل اور بانگ درا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آنے والی نسلوں میں اقبال کے کلام کا شوق پیدا کریں تاکہ وہ اپنے آباکے علم کے اس موتی کو پھر سے حاصل کر سکیں جو یورپ میں پہنچ چکا ہے اور جس پر اقبال کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔‘ان خیالات کا اظہار شاعر مشرق‘ حکیم الامت علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کے یوم پیدائش پر منعقدہ یوم اردو کی تقریبات میں مداحان اقبال اور اردو کی سرکردہ شخصیات نے کیا ہے۔


    الہ آباد کی ایک چھوٹی سی تنظیم اردوڈیولپمنٹ آرگنائزیشن نے تقریباً 15 سال قبل یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو آج پھیل کر پورے ملک پر محیط ہو گیا ہے ۔بلکہ ایک اطلاع کے مطابق اب دوسرے ملکوں میں بھی محبانِ اردو یوم اردو منانے لگے ہیں۔در اصل تنظیم کے ذمے داروں نے یوم اردو منانے کے لئے جس تاریخ کا انتخاب کیا اس میں اہل اردو کے لیے زبردست کشش ہے اور وہ تاریخ ہے شاعر مشرق‘ حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے یوم پیدائش کی تاریخ۔

    یوں تو علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش پر اختلاف ہے۔ کچھ لوگ نو نومبر بتاتے ہیں تو کچھ 29 دسمبر پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ نو نومبر پر زیادہ لوگوں کا اتفاق ہے لہذااسی تاریخ کو یوم اردو منایا جانے لگا۔امسال بھی ملک کے متعدد علاقوں میں یوم اقبال اور یوم اردو منایا گیا اور اب تک کی اطلاع کے مطابق بیس پچیس شہروں میں یوم اقبال اور یوم اردو منایا جا چکا ہے۔اس سلسلے ہر سال سب سے زیادہ تقریبات دہلی میں منعقد ہوتی ہیں اور اصل تقریب اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹڈ مسلمز آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقد ہوتی ہے۔اس بار اس کا انعقاد پارلیمنٹ کے قریب رفیع مارگ پر کانسٹی ٹیوشن کلب کے اسپیکر ہال میں کیا گیا۔ جس کی صدارت قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیئرمین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے کی۔

    انھوں نے کہا کہ علامہ اقبال کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کو حاصل نہیں ہے۔ انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ لوگ کہیں اقبال کے کلام کو فراموش نہ کر دیں۔ فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد نے اس بات پر زور دیا کہ آنے والی نسلوں کو علامہ اقبال کے کلام سے روشناس کرانے کی بے حد ضرورت ہے۔

    ماہر اقبالیات پروفیسر عبد الحق نے کہا کہ علامہ اقبال کی نظم’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘کو جتنا پڑھا جاتا ہے دنیا کے کسی بھی شاعر کی کسی بھی نظم کو اتنا نہیں پڑھا جاتا۔انھوں نے اقبال کو ہماری تہذیب کی سب سے روشن علامت قرار دیا اور کہا کہ دنیا کی تمام تہذیبوں میں کوئی بھی ان کے قد کا نہیں ہے۔ انھوں نے اقبال کی سیاسی پیشین گوئیوں کا بھی ذکر کیا اور ایک مفکر کے حوالے سے کہا کہ اقبال کے اس شعر سے بہتر کلام تو لینن اور مارکس بھی نہیں کہہ سکتے تھے

    جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
    اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

    علامہ اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر کے ڈائرکٹر پروفیسر بشیر احمد نحوی نے کشمیر سے علامہ کے جذباتی رشتے پر روشنی ڈالی اور کہا کہ علامہ کا کلام جس طرح دلوں کو گرماتا ہے کسی اور کا کلام نہیں گرماتا۔انھوں نے بتایا کہ اب تک علامہ اقبال پر تین ہزار کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں۔اندرا گاندھی اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسربصیر احمد نے علامہ اقبال کو ایک سچا عاشق رسول قرار دیا اور کہا کہ انھوں نے دوسرے مذاہب اور ان کے پیشواوٴں کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔اس موقع پر اقبال کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک یادگار مجلہ بھی جاری کیا گیا۔

    ادھر یوم اقبال کے تعلق سے انٹر فیتھ کولیشن فار پیس اور گاڈز گریس فاونڈیشن کے زیر اہتمام دو روزہ جشن اقبال کا انعقاد کیا گیا۔اس کی افتتاحی تقریب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے انصاری آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس کی صدارت مسلم یونیورسنی علیگڑھ کے سابق وائس چانسلر سید حامد نے کی۔اس موقع پر انصاری آڈیٹوریم کے وسیع و عریض لان اور آس پاس کے علاقے کو شہر اقبال میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جگہ جگہ اقبال کے اشعار کے بینر آویزاں تھے جن کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ علامہ اقبال بذات خود تشریف لے آئے ہیں اور لوگوں کو اسلامی بیداری کا درس دے رہے ہیں۔

    سید حامد نے اپنے خطاب میں کہا کہ کلام اقبال کے بارے میں اقبال شناسوں کی رائے بدلتی رہی ہے۔ کبھی ان کے پیغام پر زور دیا گیا تو کبھی ان کے شعری محاسن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ انھوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کلام اقبال کو نقادوں کی مدد کے بغیر سمجھنا چاہیئے کیونکہ نقاد قاری کو بھٹکا دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اقبال کے کلام کو فراموش کر دیا گیا ہے اور ہم یہاں اس کا کفارہ ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔کیونکہ انھوں نے جن لوگوں کو خطاب کیا ہے آج ان میں مایوسی‘ بے حسی‘ بے دلی طاری ہو گئی ہے جو اضطراب اور احتجاج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔سید حامد کے مطابق اقبال کے کلام میں جو شعری محاسن ہیں وہ دنیا کی کسی بھی زبان کے کسی بھی شاعر میں نہیں ہیں۔

    اس موقع پر بزرگ شاعر اور خطیب پنڈت آنند موہن زتشی گلزار دہلوی نے اقبال کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ غالب اور اقبال کو جغرافیائی حدود میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔غالب کو ہندوستان نے لے لیا اور اقبال کو پاکستان نے۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ اقبال کسی جغرافیائی شناخت کے محتاج نہیں ہیں وہ پوری دنیا کے شاعر ہیں۔

    اس پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر سید ظفر محمود نے کلام اقبال سے اپنے خصوصی شغف کا اظہار کیا اور ان کے فکر و فلسفہ پر فکر انگیز روشنی ڈالی۔انھوں ان کی ایک نظم ’نیا شوالہ‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اقبال لوگوں تقسیم کرنے میں نہیں بلکہ جوڑنے میں یقین رکھتے تھے اور اس نظم سے انھوں نے اتحاد کی دعوت دی ہے۔پروفیسر عبد الباری نے اقبال کو دانتے اور دیگر مغربی شاعروں سے بڑا شاعر قرار دیا۔

    دوسرے دن انڈیا اسلامک سینٹر میں اقبال پر سمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک بھر سے تین درجن ادیبوں شاعروں دانشوروں اور نقادوں نے مقالے پیش کر کے اقبال اور کلام اقبال کا جائزہ لیا۔ دہلی میں دوسرے مقامات پر بھی جشن اقبال اور یوم اردو کا اہتمام کیا گیا۔خیال رہے کہ سید ظفر محمود نے اس دوروزہ سمینار سے قبل ملک کے نصف درجن سے زائد شہروں میں جشن اقبال کا انعقاد کیاتھا۔ملک کے مختلف حصوں سے یوم اقبال اور یوم اردو منانے کی خبریں مسلسل موصول ہو رہی ہیں۔

    [​IMG]
     
  5. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: میر تقی میر :titli: :titli: :titli:


    [​IMG]


    پرانے لکھنئو میں وزیر گنج کی جانب سے سٹی اسٹیشن کی طرف ایک سڑک سلطان المدارس کو جاتی ہے۔ وہیں پر بھیم کا اکھاڑہ کا قبرستان ہوا کرتا تھا جہاں 21ستمبر 1810ء کو خدائے سخن میر تقی میر کی تدفین ہوئی تھی۔ ویسے اب ان کی قبر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ شاید سیٹی اسٹیشن کی توسیع اس قبرستان کو ہضم کر گئی تھی۔ یا پھرزمین کے حریصوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ میر کو پہلے ہی اس کا اندازہ ہو گیا تھا:


    مت تربتِ میر کو مٹاؤ
    رہنے دو غریب کا نشاں تو

    ان کی قبر کے سلسلہ میں معروف محقق مسعود حسین رضوی ادیب کا خیال ہے ”سٹی اسٹیشن سے ڈالی گنج جانے والی چھوٹی لائن کی پٹری کے کنارے ریل کے چھتے کے قریب ذرا بلندی پر کچھ پرانی قبریں تھیں۔ان میں ایک غیر معمولی سائز سے کچھ بڑی اور مستحکم تھی۔میں لڑکپن سے اسے میر کی قبر سنتا آیا ہوں۔ میرے لڑکپن میں بھی اسے بڑے بوڑھے میر کی قبر بتاتے تھے۔

    1967ء میں لکھنئو کے ایک اہل ثروت اور ادب پرور مقبول احمد لاری کو میر تقی میر کا خیال آیا اور انہوں نے آل انڈیا میر اکادمی کی تشکیل کر کے قبرستان کے پاس میر کی یاد میں ایک بڑے سے قلم دوات کی شبیہ نصب کروا دی تھی۔ اسی زمانے میں انہوں نے میر کی شاعری پر ایک ضخیم کتاب”حدیث میر “شائع کی تھی۔ مگر چند سال قبل مقبول احمد لاری کا بھی انتقال ہو گیا اور قلم دوات کی شبیہ بھی خاک میں مل گئی۔ اس لئے اب وہاں میر کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ مگر اس سے کیا ہو تا ہے میر کا کلام تو ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور پورے عالم اردو میں اس پر بحث ہو رہی ہے۔ اس کا احساس خود میر کو بھی تھا۔ اسی لئے انہوں نے کہا:

    جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہر گز
    تا حشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا

    میر تقی میر 1722ء میں آگرہ کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہو ئے تھے۔ ان کے والد ایک صاحب کمال بزرگ تھے۔ لیکن جب میر تقی میر 4سال کے تھے اس وقت ان کے والد کے انتقال ہو گیا اور انہوں نے ساری زندگی کلفتوں میں گزاری۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی شاعری میں غم و الام بہت ہیں۔ جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
    درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا

    یا پھر یوں فرماتے ہیں:

    باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنئیے گا
    کہتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا

    میر کے بعد آنے والے تمام شعراء نے ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ غالب جیسا خود پسند شاعر بھی کہتا ہے:

    ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
    آب بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    اور دور جدید میں تو فراق گورکھپور ی میر کی شاعری کے اس قدر معتقد ہیں کہ ان کو دنیا کے بڑے شاعروں میں سے ایک مانتے ہیں۔
    میر کا دور در اصل دور ابتلا تھا۔ انہوں نے نادر شاہ کے حملوں کے بعد محمد شاہ رنگیلا کے دور کا دلی کا قتل عام دیکھا تھا۔ اس وقت دلی ویران ہو چکی تھی۔ لیکن جب طبعی دنیا ویران ہوئی تب دل کی دنیا آباد ہوئی اور اسی سے میر تقی میر کی آفاقی اور لافانی شاعری وجود میں آئی اورمیر نے بجا طور پر کہا:

    سہل ہے میر کا سمجھنا کیا
    ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
    میر تقی میر در بدری کی زندگی گزارنے کے بعد لکھنئو پہنچے تھے اور لکھنئو میں ان کا والہانہ استقبال ہوا تھا، کیوں کہ ان کی آمد سے قبل وہاں ان کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ دوسری بات یہ تھی کہ وہ نواب آصف الدولہ کی دعوت پر وہاں تشریف لائے تھے۔ ان کی آمد کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی شہرہ آفاق کتاب ” آب حیات“ میں لکھتے ہیں:

    ”لکھنئو پہنچ کر جیسا کے مسافروں کا دستو رہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے،رہ نہ سکے۔ اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرے میں جا کر شامل ہو گئے۔ ان کی وضع قدیمانہ۔۔۔ کھڑکی دار پگڑی،پچاس گز کے گھیر کا پائجامہ،ایک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا ایک رومال،پٹری دار تہہ کیا ہوااس میں آویزاں مشروع کا پائجامہ جس کے عرض کے پائنچہ، ناک ہنی کی انی دار جوتی،جس کی ڈیڑھ بالش اونچی نوک،کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخلہ محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنئو کے نئے انداز، نئی تراشیں،بانکے ٹیڑھے جمع انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے اور میر صاحب مخاطب ہوئے:

    کیا بود وباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    مجھ کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    اس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میر تقی میر29برس تک لکھنئو میں رہے۔ لیکن لکھنئو کی زبان اور شاعری کے شاکی رہے۔ وہاں کی شاعری کو ”چوما چاٹی“ ہی کہتے رہے۔

    گذشتہ دو سو برسوں میں میر تقی میر کی شاعری پر ہر دو رمیں کچھ نہ کچھ لکھا گیا ہے۔ تمام ناقدین نے اس پر توجہ کی ہے۔ مگر سب سے قابل ذکر کام شمس الرحمن فاروقی کا ”شعر شور انگیز ہے “۔ جسے انہوں نے چار جلدوں میں مکمل کیا اور تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل اس تفہیم میں میر کے اشعار کے نئے زاوے پیش کئے گئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    ”میر کے آہنگ میں نرمی،ٹھہراؤ، دھیمے پن وغیرہ کے بارے میں نقادوں کی آرا ہم دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ آہنگ کو معنی سے الگ نہیں کر سکتے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ میر کے معنی محض محزونی، بے چارگی اور حرماں نصیبی جیسے الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیے جا سکتے۔۔۔ “

    فاروقی مزید لکھتے ہیں:

    ’کہتے ہیں کہ میر 19ویں صدی کے شروع میں مرے تھے۔ ایسا نہ ہو کہ 21ویں صدی کے شروع ہو تے وقت بھی ان کا شعر ہمیں ملامت کرتا رہے۔ دیوان اول جس کا یہ شعر ہے 18 ویں صدی کے وسط ہی میں مکمل ہو گیا تھا:

    گفتگو ناقصوں سے ہے ورنہ
    میر جی بھی کمال رکھتے ہیں

    اتنا تو ہم بھی مانیں گے کہ ڈھائی سو برس کا انتظار بہت ہو تا ہے۔اگر میر کے دیوان میں ہر جگہ شعر شو ر انگیز کے باعث قیامت کا سا ہنگامہ ہے تو اس شور قیامت کی ایک ٹھوکر ہم کو بھی لگ جائے تو اچھا ہو:

    ہر ورق ہر صفحہ میں ایک شعر شو رانگیز ہے
    عر صہٴ محشر ہے عرصہ میرے بھی دیوان کا

    یوں تو قدما نے میر کے دیوان میں بہتر نشتر بتائے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ہر شعر نشتر ہے۔ جو دل سے جاں تک اترتا چلا جاتا ہے:

    مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
    تب خاک کے پردے سے انسا ن نکلتے ہیں

    دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
    یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

    وجہ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    جی میں آتا ہے کچھ اور بھی موزوں کیجئے
    درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا

    پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
    مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہمار یاں

    جہاں سے دیکھیئے ایک شعر شور انگیز نکلے ہے
    قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں

    سر سری تم جہان سے گزرے
    ورنہ ہرجاں جہان دیگر تھا

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
    آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

    پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
    افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
     
  6. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: میر و غالب :titli: :titli: :titli:





    [​IMG]




    شاعری کا تعلق دل کی دنیا سے ہے اورکہا جاتا ہے کہ دل کا راستا پیٹ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسی منطق کو آگے بڑھایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ شاعری کا پیٹ سے گہرا تعلق ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اردو کے کئی عظیم شعرا اکثر خالی پیٹ ہی رہا کرتے تھے۔

    اردو کے عظیم شعرا کا ذکر آیا ہے تو میر اور غالب سے زیادہ عظیم کون ہو گا۔ لیکن کیا کبھی میر اورغالب نے سوچا ہو گا کہ ایک دن انھیں چاول بنانے کے ایک چولہے سے اتنا فائدہ پہنچے گا جو ان کے کسی مربی نواب سے زندگی بھر نہیں ملا اور اسی چولہے کی بدولت ان کے فن پر قابلِ قدر تحقیقی اور تنقیدی کارنامے سرانجام دیے جائیں گے؟

    کیلنڈر کے صفحات تیزی سے پلٹ کر ہم پہنچتے ہیں 1971ء میں۔ نیویارک سے شائع ہونے والے مشہور رسالے ’نیویارکر‘ میں وید مہتا نامی ایک شخص خط لکھا، جس میں انھوں نے نیویارکر ہی میں شائع ہونے والے ایک اداریے کا جواب دیا تھا۔

    اوراس اداریے کا موضوع کیا تھا؟ اس کے لیے ہمیں مزید سات سال پیچھے جانا پڑے گا کیوں حیرت انگیز طور پر مہتا صاحب کو اس کا جواب دیتے دیتے سات برس لگ گئے تھے۔

    سات برس قبل 1964ء میں نیویارکر نے ایک دل چسپ وصیت کا ذکر کیا تھا۔ ایک افغان نژاد شخص عطااللہ اوزئی درانی نے پانچ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اس مقصد کے لیے مختص کی تھی کہ میر اورغالب کی شاعری کے انگریزی میں تراجم کیے جائیں۔ مدیر نے اس وصیت پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھا تھا:

    ’جناب درانی نے انیسویں صدی کے فارسی شعرا (کذا) میرتقی میر اورغالب کے انگریزی ترجموں اور ان کی سوانح لکھنے کے لیے یہ رقم چھوڑی ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے یہ خراب شعرا رہے ہوں، لیکن ’منٹ رائس‘ کے موجد جناب درانی اگر ان کے اتنے مداح ہیں تو ہمیں اس بات پر اطمینان ہے۔‘

    اس اداریے میں ’خراب شعرا‘ کا جو فقرہ استعمال ہوا،اسی نے وید مہتا صاحب کو سات برسوں بعد ہی سہی، اس کا جواب دینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن اس سےپہلے کہ ہم وید مہتا کے جوابی خط کا جائزہ لیں، پہلے اس بات کا تعین ہو جائے کہ منٹ رائس کیا چیز ہے؟ اس کے لیے ہمیں 23 سال مزید پیچھے جانا پڑے گا۔


    منٹ رائس آج بھی امریکہ میں عام دستیاب ہے

    عطااللہ درانی صاحب ویسے تو جامعہ علی گڑھ کے فارغ التحصیل تھے، لیکن 30 کی دہائی میں امریکہ جا بسے تھے۔ درانی صاحب کا میلان کھانا پکانے کے نت نئے چولہے ایجاد کرنے کی طرف تھا۔ چناں چہ 1941ء کے ایک دن وہ جنرل فوڈ کمپنی کے دفتر میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے اور اپنی سالہاسال کی تحقیق کا نچوڑ کمپنی کے مینیجر کے سامنے میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک چھوٹا سا برقی چولہا تھا جس کی خوبی یہ تھی کہ صرف ایک منٹ میں چاول تیار کر دیتا تھا۔

    جنرل فوڈ کو یہ چولہا اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے فوراً اسے خرید لیا اور درانی صاحب راتوں رات کروڑ پتی ہو گئے۔ اور اسی رقم میں سے کچھ انھوں نے میر و غالب کے لیے چھوڑی تھی۔

    وید مہتا صاحب نے نیویارکر کے اداریے کے جواب میں لکھا کہ میر اور غالب ہرگز خراب شعرا نہیں تھے، بلکہ اردو جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ دونوں انگریزی کے عظیم شعرا چاسر اور بائرن سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ بلکہ ان کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ ان کا ترجمہ کسی اور زبان میں ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ ایسی کوئی بھی کوشش ان کی توہین کے مترادف ہو گی۔

    کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش؟
    جسم رکھتا ہوں ہے اگرچہ نزار
    کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
    کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
    آگ تاپے کہاں تلک انسان
    دھوپ کھائے کہاں تلک جاں دار
    آپ کا بندہ اور پھروں ننگا؟
    آپ کا نوکر اور کھاؤں ادھار؟

    غالب کے قصیدے سے اقتباس



    عطااللہ درانی کا انتقال 1964ء میں امریکی ریاست کولاراڈو میں ہوا تھا۔ انھوں نے ایک امریکی خاتون سے شادی کی تھی اوران کی ایک بیٹی بھی تھی، لیکن بعد میں ان کی بیوی سے علاحدگی ہو گئی تھی۔ ان کی اس عجیب و غریب وصیت نے وکلا کو بھی اچھے خاصے مخمصے میں ڈال دیا تھا کیوں کہ ان بے چاروں نے کبھی میر یا غالب کا نام تک نہیں سنا تھا، اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ دونوں فارسی کے شعرا ہیں۔ جب امریکہ میں قائم بھارتی قونصل خانے کے لائبریرین سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے خاصی سوچ بچار کے بعد نتیجہ نکالا یہ معاملہ پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کی تحقیق کا نچوڑ یہ تھا کہ غالب کی شاعری عاشقانہ اور فلسفیانہ ہے جب کہ میر کی شاعری شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔

    جب نیویارک کی کولمبیا یونی ورسٹی کے مطالعہٴ ایران کے پروفیسر احسان یارشاطر سے اس معاملے پر روشنی ڈالنے کے لیے درخواست کی گئی تو انھوں نے بھی بھارتی لائبریرین کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ دونوں شاعر پاکستانی علاقے کے باشندے تھے۔ انھوں نے یہ اضافہ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ ان کی شاعری کوئی خاص نہیں ہے۔

    اس کہانی کا آخری سوال یہ ہے کہ آخر 1964ء کے زمانے کے اس نصف ملین ڈالر کی بھاری رقم کا کیا مصرف ہوا؟


    وصیت کے نتیجے میں لکھی جانے والی کتاب، تین مغل شاعر

    درانی صاحب نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ یہ رقم ہارورڈ یونی ورسٹی یا اسی جیسے کسی دوسرے تحقیقی ادارے کو دی جائے۔ چناں ہارورڈ یونی ورسٹی نے اس ترکے سے استفادہ کرتے ہوئے پہلے تو مشہور جرمن مستشرق این میری شمل کو انڈومسلم سٹڈیز کا پروفیسر مقرر کر دیا، تو دوسری طرف رالف رسل اور خورشید السلام کے ذمے میر اور غالب پر تحقیق کا کام لگا دیا۔ اسی تحقیق کے ثمر میں ان دونوں حضرات کی کتاب ’تین مغل شاعر‘ اور’غالب، زندگی اور خطوطِ‘ تخلیق کی گئیں، یہ دونوں کتابیں انگریزی زبان میں اردو ادب کے بارے میں عمدہ ترین کتابیں متصور کی جاتی ہیں۔

    این میری شمل نے بھی میر کے بارے میں ایک کتاب لکھی تھی، ممکن ہے کہ یہ بھی اسی منصوبے کا حصہ ہو۔

    یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ درانی صاحب نے اردو کی خدمت کے لیے اپنی تجوری کا منھ کھولا ہو۔ اس سے قبل انھوں نے علی گڑھ یونی ورسٹی کو ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا تھا تاکہ سید حسین یادگاری پروفیسرشپ قائم کی جا سکے۔ تاہم اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور درانی صاحب نے بعد میں اپنی رقم واپس لے لی۔

    غالب اکثر روزی کی تنگی کی شکایت کیا کرتے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ انھیں اگر اسی قسم کا ایک رائس کوکر مل جاتا تو وہ ادھار کھانے کی بجائے اسی کی کمائی اڑایا کرتے اور بہادر شاہ کی بجائے عطااللہ درانی کی مدح لکھتے۔
     
  7. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: غالب :titli: :titli: :titli:




    مرزا غالب
    ادیب
    پیدائشی نام اسد اللہ بیگ خاں مرزا غالب
    ادیب
    پیدائشی نام اسد اللہ بیگ خاں
    قلمی نام مرزا غالب
    تخلص اسد
    غالب
    ولادت دسمبر 1797ء، آگرہ
    ابتدا آگرہ
    وفات 15 فروری 1869ء
    اصناف ادب شاعری
    نثر
    ذیلی اصناف غزل

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقررمقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔

    قلمی نام مرزا غالب
    تخلص اسد
    غالب
    ولادت دسمبر 1797ء، آگرہ
    ابتدا آگرہ
    وفات 15 فروری 1869ء
    اصناف ادب شاعری
    نثر
    ذیلی اصناف غزل

    مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقررمقرر کرا دیا۔ 1810ءمیں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

    شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے ۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ءمیں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا ، اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔

    غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ءکے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔
     
  8. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: خواجہ میر درد :titli: :titli: :titli:



    خواجہ میر درد

    درد کا نام سید خواجہ میر اور درد تخلص تھا با پ کا نام خواجہ محمد ناصر تھا جو فارسی کے اچھے شاعر تھے اور عندلیب تخلص کرتے تھے۔خواجہ میر درد دہلی میں 1720ءمیں پیدا ہوئے اور ظاہری و باطنی کمالات اور جملہ علوم اپنے والد سے حاصل کیے ۔ درویشانہ تعلیم نے روحانیت کو جلا دی اور تصوف کے رنگ میں ڈوب گئے۔ آغاز جوانی میں سپاہی پیشہ تھے۔ پھر دنیا ترک کی اور والد صاحب کے انتقال کے بعد سجادہ نشین ہوئے ۔درد نے شاعری اور تصوف ورثہ میںپائے ۔ ذاتی تقدس ، خودداری ، ریاضت و عبادت کی وجہ سے امیر غریب بادشاہ فقیر سب ان کی عزت کرتے تھے
    وہ ایک باعمل صوفی تھے اور دولت و ثروت کو ٹھکرا کر درویش گوشہ نشین ہو گئے تھے۔ ان کے زمانے میں دلی ہنگاموں کا مرکز تھی چنانچہ وہاں کے باشندے معاشی بدحالی ، بے قدری اور زبوںحالی سے مجبور ہو کر دہلی سے نکل رہے تھے لیکن درد کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی اور وہ دہلی میںمقیم رہے۔ درد نے 1785ءمیں وفات پائی اور وہی تکیہ جہاںتمام عمر بسر کی تھی مدفن قرار پایا۔ درد کو بچپن ہی سے تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ متعدد تصانیف لکھیں جو فارسی میں ہیں۔ نظم میں ایک دیوان فارسی اور ایک دیوان اردو میں ہے۔
     
  9. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: مجید امجد :titli: :titli: :titli:


    [​IMG]

    حالات زندگی
    29 جون 1914 کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ 1930 میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے بی اے کیا۔ 1939 تک جھنگ کے ہفت روزہ اخبار عروج کے مدیر رہے۔ 1944 انسپکٹر سول سپلائر مقرر ہوئے۔ ترقی پاکر اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بنے۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ منٹگمری موجودہ ساہیوال میں گزار ۔ جہاں سے وہ 29 جون 1972ء کو ریٹائر ہوئے۔


    ازدواجی زندگی
    1939 میں خالہ کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ جو گورنمنٹ سکول جھنگ میں استانی تھیں۔ دونوں کے مزاج میں اختلاف تھا۔ وہ اولاد سے محروم رہے۔


    آخری ایام
    انتہائی عسرت اور تنگی میں گزارے ۔ وفات سے ایک ماہ پہلے تک انہیں پینشن نہ مل سکی۔ نوبت تقریباً فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ آخر اسی کیفیت میں گیارہ مئی 1974ء کے روز اپنے کوارٹر واقع فرید ٹاون ساہیوال میں مردہ پائے گئے۔ تدفین آبائی وطن جھنگ میں ہوئی


    شاعری
    مجید امجد کے بارے میں خواجہ محمد زکریا لکھتے ہیں: مجید امجد اردو نظم کے ایک انتہائی اہم اور منفرد لہجے کے شاعر ہیں ان کا کلام معیار اور مقدار دونوں اعتبار سے بے مثال ہے۔ جتنا تنوع ان کے ہاں پایا جاتا ہے وہ اردو کے کسی جدید شاعر میں موجود نہیں ۔ ان کی تقریباً ہر نظم مختلف موضوع اور مختلف ہیت میں تخلیق ہوئی ہے۔ ان کے کلام میں زبردست آورد پائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود جذباتی گہرائی جتنی ان کے ہاں ملتی ہے، وہ عصر حاضر میں کسی اور کے ہاں نایاب ہے۔ انہیں ادبی حلقوں نے مسلسل نظر انداز کیا لکین انہوں نے کبھی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔





    نمونہ کلام
    اگر میں خدا اس زمانے کا ہوتا
    تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
    عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا

    مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
    ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کی رس میں
    نہیں مرے بس میں نہیں مرے بس میں

    مری عمر بیتی چلی جارہی ہے
    دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جارہی ہے
    ذرا سی یہ بتی جلی جارہی ہے

    جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش
    کہ لائے ذرا لب پہ فریاد پر جوش
    اجل آکے کہتی ہے خاموش! خاموش


    تصانیف
    پہلا شعری مجموعہ شب رفتہ کے نام سے ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا۔’’ شبہ رفتہ کے بعد‘‘ ان کا دوسرا مجموعہ تھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نے کلیات مجید امجد کے نام سے ان کا تمام کلام مرتب کیا ہے۔

    بشکریہ وکی پیڈیا ڈاٹ او ار جی
     
  10. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: حضرت احسان دانش :titli: :titli: :titli:




    احسان دانش(1914 کاندھلے ؟ - 1982) اردو کے مقبول شاعر ہیں۔ آپ نے صرف پانچویں حماعت تک تعلیم حاصل کی تھی اس کے بعد آپ مزدوری کر کے آپنا پیٹ پالتے تھے۔ آپ نے لاہور آ کر باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔

    آپ کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں آپ نے مزدوری کی۔


    نمونہ شاعری
    نظر فریب قضا کھا گئي تو کيا ہوگا
    حیات مو ت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا


    بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
    جنوں کي زد پہ خرد آگئی تو کیا ہوگا


    نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہيں مگر
    نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہوگا


    نہ رہنمائوں کي مجلس ميں لے چلو مجھ کو
    ميں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا


    غم حیات سے بیشک ہے خود کشی آساں
    مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا



    تضانیف
    جہان دانش



    بشکریہ وکی پیڈیا ڈاٹ او ار جی
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    بہت خوب ایم اے رضا بھائی ۔
    عظیم شعرا کے تعارف ، بہت منفرد ، مفید اور علمی اثاثے ہیں۔
    ہم تک پہنچانے کے لیے بہت شکریہ :dilphool:
     
  12. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    جناب محترم ایم اے رضا بھائی۔۔۔۔حضرت احسان دانش کے بارے بہت ہی کم لکھا امید ہے کہ ان کے بارے جو تشنگی رہ گئی ہے۔۔مزید یہاں زیب قرطاس کرکے علم کی پیاس بھی بجھائیں گے اور شکریہ کا موقع بھی ضرور دینگے۔ یہ فرمائش اس لیے کہ شاعری کو پڑھتے رہنے کا موقع ملتا ہی رہتا ہے مگر شعراء کے بارے جاننے کی جستجو ۔۔۔۔جستجو ہی رہتی ہے۔
     
  13. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    ایم اے رضا صاحب۔
    بہت عمدہ سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے۔
    عظیم شعرا کا تعارف بہت سوں کے لیے نئی اور مفید چیز ہے۔
     
  14. ایم اے رضا
    آف لائن

    ایم اے رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏26 ستمبر 2006
    پیغامات:
    882
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    :titli: :titli: :titli: پروین شاکر :titli: :titli: :titli:

    [​IMG]


    پروین شاکر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہیں۔ کراچی میں 24 نومبر 1954ء کو پیدا ہوئیں۔ تعلیم پاکستان اور امریکہ میں حاصل کی۔ انکی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔

    خوشبو، صدبرگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام مجموعہ کلام ہیں۔

    پروین شاکر استاد اور سرکاری ملازم بھی رہیں۔ 26 دسمبر 1994 کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں انتقال کر گئیں۔

    [​IMG]


    [​IMG]
     
  15. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عدم میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ان کی ساری کتابیں اور سوانح حیات میرے پاس موجود ہے ۔لیکن باقی شعرا کے بارے میں اچھی معلومات تھی
     
  16. ثانیہ
    آف لائن

    ثانیہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :hands: :hands: مرزا محمد ہادی رسوا :hands: :hands: :hands:



    [​IMG]


    مرزا محمد ہادی رسوا کی تاریخ پیدائش اور سنہ دونوں کے بارے میں محققین کے درمیان کافی اختلاف رہا ہے اور اس سلسلہ میں لوگو ں نے کافی سر کھپایا ہے۔ خاصی طویل بحثیں بھی ہوئی ہیں، جن سے ادبی رسائل کے اوراق بھرے ہوئے ہیں، اور ان میں نامور محققین اس میں حصہ لیتے رہے ہیں،۔ مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لیکن اب نامور ناقد اور محقق پروفیسر قمر رئیس نے اس سلسلہ میں مصدقہ سند پیش کی ہے۔ انہوں نے ایوان اردو ستمبر 2008ءکے شمارے میں لکھا ہے کہ ”مرزا محمد ہادی رسوا کی صحیح اور مصدقہ تاریخ ولادت 20نومبر 1858ء روز شنبہ مطابق 13ربیع الاخر 1275ہجری ہے۔ اپنی یہ تاریخ ولادت مرزا رسوا نے دار الترجمہ جامعہ عثمانیہ کی ملازمت اختیار کرتے ہوئے خود درج کی تھی۔ “

    ظاہر ہے کہ اس سے بہتر کوئی سند نہیں ہو سکتی۔ جب مرزا رسوا نے بوقت ملازمت اپنی تاریخ پیدائش رجسٹر پر درج کی تھی تو وہی مصدقہ ہے۔

    مرزا محمد ہادی رسوا کی شہرت’ امراؤجان ادا ا‘ناول کی وجہ سے ہے۔ جس کا ترجمہ دنیا کی دودرجن سے زائد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ لیکن مرزا رسوا نے ا س کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے وہ عبقری شخصیت کے مالک تھے، بلندپایہ شاعر اور ناقد تھے۔ ان کی شخصیت جامع الکمالات تھی۔ چونکہ اس سال ان کی پیدائش کے ڈیڑھ سو سال مکمل ہو رہے ہیں اس لحاظ سے اردو کے اس عبقری دانشور کی شایان شان یاد منانی ضروری ہے۔ مرزا رسوا کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اس سے کائنات کے کئی راز منکشف ہو تے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مرزا رسوا نے اپنی ذات کو تلاش کرنے میں ہی ایک طویل مدت صرف کر دی تھی۔ وہ اپنی ایک تخلیق امراؤ جان ادا کی وجہ سے یاد تو رکھے گئے لیکن ان کو اس طرح سے کہاں یاد رکھا گیا جس طور پر ایک ادیب کو یاد کیا جانا چاہئے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر مرزا رسوا امراؤ جان ادا کا ایک کردار نہ ہو تے تو شاید انہیں یکسر فراموش کر دیا جاتا۔

    ” امراؤ جان ادا“ 1899ء میں شائع ہو ئی تھی۔ اس وقت رسوا تقریباً 41 برس کے تھے۔ انہوں نے اپنے اس ناول میں لکھنئو کی زوال آمادہ تہذیب کا عکس پیش کیا ہے۔مگر آج بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ رسوا ایک فلسفی تھے، شاعر تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انجینئر بھی تھے۔ انہیں راگ راگنیوں پر بھی درک حاصل تھا۔

    مرزا رسوا 20نومبر 1858ء کو لکھنئو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا محمد تقی نواب محمدآصف الدولہ کی فوج میں اعلیٰ عہدیدار رہے، چنانچہ علمی ذوق رسوا کو ورثہ میں ملا۔ وہ کم عمری میں والدہ کی آنچل کی چھاؤں سے محروم ہو گئے تھے اور 15سال کی عمر میں والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ جاگیر، جائیداد سب رشتہ داروں نے غصب کر لی۔ کچھ دن ننیہال میں رہے تو روکھی سوکھی بھی طعن و تشنیع کے ساتھ ملتی تھی اور رسوا کو یہ رسوائی گوراہ نہ تھی۔ اس لئے جو کچھ بچ رہا تھا اسے بیچ کر وہ تعلیم حاصل کرنے میں لگ گئے۔ اوائل عمری میں ہی عربی، فارسی، ریاضی اور نجوم اپنے والد سے سیکھ چکے تھے۔ شرح جامی کا
    امراؤ جان ادا کی کہانی کو ہندوستان پاکستان میں کئی بار فلمایا جا چکا ہے

    درس اس وقت کے نامور استاد مولوی محمد یحیٰ سے حاصل کیا۔ مولوی کمال الدین نے فلسفہ اور منطق میں کمال تک پہنچایا۔ لیکن انگریزی زبان انہوں نے خود سے سیکھی۔ ویسے تو رسوا کو جو بھی علم حاصل کرنے کی سوجھی انہوں نے اس میں خود کو کھپا دیا اور اسی کے ہو رہے۔ لیکن انگریزی سیکھنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں علم کیمیا سے دلچسپی تھی اور اس زمانے میں کیمیا کی کتابیں ہندوستان میں دستیاب نہیں تھیں۔ یہ کتابیں وہ لندن سے منگوایا کرتے تھے۔

    1885ء میں رسوا نے پنجاب یونیورسٹی سے فلسفہ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے ذہن میں پتا نہیں کیا آیا کہ انہوں نے روڑکی کے انجیئنرنگ کالج میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے اورسیئر کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ریلوے میں ملازمت کر لی۔ کوئٹہ کی ریلوے لائن اس کے درمیانی ریلوے اسٹیشن کے نقشے، ریلوے لائن کے پیچ و خم رسوا نے ہی قائم کیے تھے۔ جہاں موڑ آتے وہاں وہ علم ریاضی کی مدد لیتے جن کے ضابطوں کی روشنی میں انہوں نے ریل کی رفتار کا تقرر کر کے ریلوے کے نئے ضابطے بنائے۔

    ایک ریل سفر کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ جب ریل کی رفتار یکساں رہتی ہے تو ریل کی پٹریوں پر ایک مخصوص لحن پیدا ہو تا ہے جس میں موسیقیت پائی جاتی ہے۔ اس خیال نے ہی مرزا رسوا کو فن موسیقی کی جانب راغب کیا تو انہوں نے تقریباً300 راگ راگنیوں پر عبور حاصل کر لیا اور انگریزی موسیقی کی طرح ہندوستانی موسیقی کے بھی ضابطے تیار کیے جو آ ج بھی موسیقاروں کے کام آرہے ہیں۔
    ریلوے کی ملازمت سے سبک دوش ہو کر وہ کوئٹہ سے لکھنئو چلے آئے اور کرسچن کالج میں فارسی کے استاد مقرر ہو گئے۔ کالج میں یوں تو وہ فارسی کے استاد تھے لیکن علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ تاریخ، منطق، فلسفہ، ریاضی، نفسیات یعنی جس موضوع پر گفتگو کرتے نہ صرف طلبا بلکہ اساتذہ بھی عش عش کر اٹھتے۔ اس وقت تک رسوا کو شاعری سے دلچسپی پیدا نہیں ہو ئی تھی مگر جب شاعری کرنے لگے تو مرثیہ کے مشہور شاعر مرزا سلامت علی دبیر سے اصلاح لی۔ لیکن خود مرزا دبیر نے ان کا رنگ سخن دیکھ کر انہیں محمد جعفر اوج کے سپر د کر دیا اور اس طرح انہیں اوج کی بھی سرپرستی حاصل رہی۔

    مرزا رسوا کی طبیعت میں قلندری تھی۔ وہ شب و روز مطالعہ میں غرق رہا کرتے تھے۔ 60سال کی عمر میں وہ کرسچن کالج سے سبک دوش ہوئے اور پھر انہیں حیدر آبا د کے دارالترجمہ میں رکھ لیا گیا۔ جہاں وہ 18 اگست 1919ء تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور دار الترجمہ کا وہ دور حیدرآباد کی علمی ترقی کا زریں دور کہلاتا ہے۔ اس زمانے میں وہاں عبد اللہ عمادی، علی حیدر نظم طبا طبائی، مرزا محمد ہادی رسوا، جوش ملیح آبادی کے علاوہ مولوی عبد الحق بھی ادارے سے وابستہ تھے۔ دارالترجمہ میں مرزا رسوا نے تقریباً دس قیمتی کتابوں کا ترجمہ کیا۔ ان میں ”مفتاح المنطق“ کا انگریزی سے ترجمہ کیا۔شہا ب الدین سہر وردی کی کتاب حکمت الاشراق کا عربی سے ترجمہ کیا۔ نفسیات،فلسفہ اور منطق کی کتابوں کے انگریزی، عربی اور فارسی سے براہ راست ترجمے کیے۔ افلاطون اور ارسطو کی کتاب کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرزا محمد ہادی رسوا نے اردو شارٹ ہینڈ پر بھی ایک کتاب لکھی تھی اور اردو ٹائپ رائٹر کے کی بورڈ کے سلسلہ میں بھی ان کا کام بہت نمایاں رہا۔

    مرزا رسوا کی تخلیقات میں صرف امراؤ جان ادا کا ہی نام لیا جاتا ہے حالانکہ ان کے افسانوں اور ناولوں کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ تحقیقی اور تنقیدی مضامین بھی وافر تعداد میں ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے مرزا رسوا پر کام ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔

    21 اکتوبر 1931ء کو حیدر آباد میں رسوا کا انتقال ہوا اور انہیں مسجد فرمان واڑی سے متصل قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس طرح لکھنئو سے جو جامع الکمالات شخصیت اٹھی تھی وہ حیدر آباد کی خاک میں مل گئی۔


    بشکریہ وکیپیڈیا
     
  17. ثانیہ
    آف لائن

    ثانیہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :hands: :hands: :hands: فیض احمد فیض :hands: :hands:


    [​IMG]

    [​IMG]


    بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے نئی اردو شاعری اپنا لب و لہجہ متعین کر چکی تھی۔ اس پیکرِ رعنا کو رنگینیاں عطا کرنے والوں میں جن شعرا نے اپنی انگلیاں خون میں ڈبو لیں، ان میں فیض احمد فیض کا نام نمایاں ہے۔

    فیض نے شاعری شروع کی تو اس وقت بہت سے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہیں تھا۔جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی کے سامنے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ یہ کسی ازم سے بھی وابستہ نہیں تھے لیکن فیض احمد فیض نے خود کو ترقی پسندی سے وابستہ کیا۔ ان تمام خطرات کے باوجود کہ ازم سے وابستگی شاعری کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لیکن اس کا ذکر آل احمد سرو ر یوں کرتے ہیں:

    ’ترقی پسند تحریک نے جمال حسن، اخلاق، ابدیت جیسی اصطلاحوں کی اندھی پرستش سے ادب کو آزاد کیا۔ اس نے اصطلاحوں کا فریب بھی ظاہر کیا ہے اور ان کی تنگی بھی۔ اس نے قالب، ظاہر، لباس اور جلد پر توجہ کرنے کے بجائے روح، باطن یا اقبال کے الفاظ میں” اندرون“میں خلل ڈالا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ ادب میں جان انفرادیت سے آتی ہے۔ مگر آزاد، مکمل اور شاداب انفردایت کو سماج کے تعلق سے تازہ خون ملتا ہے۔ ‘

    ترقی پسندی کی جانب اپنے میلان کا جواز فیض یوں پیش کرتے ہیں:

    ’شعر کی مجموعی قدر میں جمالیاتی خوبی اور سماجی افادیت دونوں شامل ہیں،اس لیے مکمل طور پر اچھا شعر وہ ہے جو فن کے معیار پر نہیں زندگی کے معیار پر بھی پورا اترتا ہے۔‘

    اور فیض احمد فیض زندگی بھر اسی راہ پر گامزن رہے جو انہوں نے اپنے لیے متعین کر لی تھی۔ انہوں نے کبھی بھی ترقی پسند تحریک کے منشور کے مطابق شاعری نہیں کی، کیوں کہ وہ شاعری نعرہ بازی بن گئی تھی اور فیض اس سے قطعی بیزار نظر آتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنے لیے معیار متعین کر لیا تھا، اس لیے اس سے تجاوز کرنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس طرح فیض کی شاعری داغ دار ہونے سے بچ گئی۔ لیکن فیض کی شاعری پر بات کرنے سے پہلے ان کی شخصیت کو بھی سمجھنا بہت ضروری ہے۔

    فیض کا پورا نام فیض محمد خاں تھا۔ وہ 13اکتوبر 1911ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز انہوں نے کالج میں انگریزی کے لکچرار کی حیثیت سے کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ فوج میں بھرتی ہو گئے اور جنگ کے خاتمہ پر لیفٹننٹ کرنل کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ 9 مارچ 1951ء کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ 1955ء میں رہائی عمل میں آئی۔ 1958ء میں دوبارہ گرفتار ہوئے اور 1959ء میں آزادی ملی۔ 1962ء میں انہیں لینن انعام سے نوازا گیا جو کسی ایشیائی تخلیق کار کو ملنے والا پہلا اعزاز تھا۔ وہ کچھ عرصہ تک کراچی کے عبد اللہ ہارون کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ اس کے علاوہ ادبی رسالہ” ادب لطیف “کے مدیر اور اس کے بعد روزنامہ ” پاکستان ٹائمز“ روزنامہ امروز اور ہفتہ وار لیل و نہار کے مدیر اعلیٰ رہے۔

    اس طرح فیض کی ذاتی زندگی کئی نشیب و فراز کا شکار نظر آتی ہے۔ در س و تدریس سے وابستگی پھر فوج میں شمولیت اور پھر قید زنداں کی صعوبت اور پھر صحافت کا خار زار، ان سب نے ان کی شاعری پر اثر ڈالا ہے۔ ترقی پسندی سے وابستگی کے سبب رومانیت ان کی شاعری کا محور بنی۔ لیکن ایک فوجی اور قیدی ہونے کی سبب وہاں انقلاب کی باز گشت بھی سنائی دیتی ہے۔ در اصل رومان اور انقلاب کی آمیزش سے ہی انہوں نے اپنا لہجہ ترتیب دیا ہے:

    اجنبی خاک نے دھندلا دیے قدموں کے سراغ
    گل کرو شمعیں بڑھاؤ مےو مینا و ایاغ
    اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
    اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا


    فیض کا مجموعہ نسخہ ہائے وفا

    فیض کئی زبانوں پرعبور رکھتے تھے۔ انگریزی کے علاوہ وہ اردو،پنجابی، فارسی اور عربی سے بھی براہ راست واقفیت رکھتے تھے، اس لیے انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شعریات سے براہ راست استفادہ کیا اور ان کو اپنی شاعری میں برتا۔ اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ کلاسیکی شعرا کی گہری چھاپ ان کے یہاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی کی تیز و تند آندھی میں بھی ان کی شاعری پامال نہیں ہو سکی۔ وہ خود کہتے ہیں:

    ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے چمن میں ایجاد
    فیض گلشن میں وہی طرزِ فغاں ٹرہیی ہے

    ترقی پسند شعر و ادب میں مزدور، محنت کش کسان اور دوسرے طبقات کے دکھ درد اور کرب و ابتلا کی ترجمانی کی جاتی ہیں، لیکن فیض کا فن کارانہ کمال یہ ہے کہ انہوں نے مروجہ شعری ڈھانچہ سے فکر و خیال کی نئی عمارت کھڑی کر دی:

    رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام
    موسم گل ہے تمہارے بام پہ آنے کا نام
    پھر نظر میں پھو ل مہکے دل میں پھر شمع جلیں
    پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کانام

    رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
    جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
    جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
    جیسے بیما ر کو بے وجہ قرار آجائے

    اے ظلم کے مانو لب کھولو، چپ رہنے والوں کب تک
    کچھ حشر تو ان سے اٹھے گا، کچھ دور تو نالے جائیں گے
    اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
    جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فیض رومانیت کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں عشق کے نئے معاملات اور نئے تجربات ملتے ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے رومانیت کو نیا ڈکشن دیا ہے:

    بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
    تمہارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

    ترے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے
    تری رہ میں کرتے تھے سر طلب سر رہ گزار چلے گئے
    نہ سوال وصل، نہ عرض غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
    ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
    نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کروگے کیا
    جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

    یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ درد کی یہ کیفیت کلاسیکی غزل کے فراق و ہجر کی کیفیت سے ملتی تو ضرور ہے، لیکن فیض کے یہاں یہ تجربہ بالکل الگ ہے اور مزاجاً یہ کلاسیکی اعتبار سے بھی مختلف ہے۔ اس میں جو خلش ہے، درد ہے اور لذت ہے وہ بھی اپنی انفرادیت رکھتی ہے:

    کب ٹھرہے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
    سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی
    کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
    کس دن تری شنوائی اے دیدہٴ تر ہو گی
    واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے
    اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
    کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانا نہ
    کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

    در اصل ان اشعار میں جہاں عشق و عاشقی کی نئی گرہیں کھلتی ہیں وہیں سماجی معنویت بھی سامنے آتی ہے۔
    فیض احمد فیض کے شعری مجموعے نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں اور کلیات ’نسخہ ہائے وفا‘ اردو کے شعری ادب میں اضافہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کے مخالفین بھی ان کے کلام کی انفرادیت کے مر کف ہیں:

    ہم خستہ تنوں سے محتسبوکیا مال منال کا پوچھتے ہو
    جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
    دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
    لو ہم نے دامن جھاڑ دیا لو جام الٹائے دیتے ہیں

    اور انہوں نے 20 نومبر 1984ء کو شعر و ادب کا وہ مے خانہ بند کر دیا اور رخصت ہو گئے۔ یہ کہتے ہوئے:

    ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
    ب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے


    تھینکس وکیپیڈیا
     
  18. ثانیہ
    آف لائن

    ثانیہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :hands: :hands: ساحر لدھیانوی :hands: :hands:




    ساحر لدھیانوی کے بارے میں میرا دعویٰ ہے کہ وہ اردو کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر آپ پاکستان میں کتابوں کی کسی بھی دکان پر چلے جائیں تو وہاں آپ کو ساحر کی تلخیاں کی کئی ایڈیشن نظر آ جائیں گے۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں اتوار کے دن پرانی کتابوں کا میلہ لگتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہاں چہل قدمی کرتے ہوئے اگر آپ تلخیاں کے ایڈیشن گنتے جائیں تو کم از کم دو درجن مختلف ایڈیشن نظر آ ہی جائیں گے۔
    سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ساحر کی اس بےپناہ مقبولیت کا راز کیا ہے؟ ترقی پسندی؟ لیکن ترقی پسند تو اور شعرا بھی تھے، فلمی شاعری؟ لیکن فلموں کے لیے تو بہت سوں نے لکھا ہے، بلکہ کئی ترقی پسندوں نے بھی فلموں کے نغمے لکھے ہیں، جن میں مجروح سلطان پوری، مجاز، قتیل شفائی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی وغیرہ شامل ہیں۔
    میرا خیال ہے کہ ساحر کی مقبولیت کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان کی شاعری بیک وقت عوامی ادبی تھی، یا یوں کہیے کہ وہ ادبی شاعری کو عوام تک لے کر آگئے اور ساتھ ہی ساتھ فن کارانہ اصولوں کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا۔
    میرا موضوع چوں کہ ساحر کی فلمی شاعری تک محدود ہے، اس لیے میں اس بحث کو فلمی شاعری ہی کے دائرے میں رکھوں گا۔
    جب لاہور میں ساحر کے وارنٹ گرفتاری نکل گئے تو ان کے پاس ہندوستان واپس جانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ ہندوستان میں وہ سیدھے بمبئی میں وارد ہوئے۔ ان کا قول مشہور ہے کہ بمبئی کو میری ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں ساحر اور دوسرے ترقی پسند شعرا نے بھانپ لیا تھا کہ فلم ایک ایسا میڈیم ہے جس کے ذریعے اپنی بات عوام تک جس قوت اور شدت سے پہنچائی جا سکتی ہے، وہ کسی اور میڈیم میں ممکن نہیں ہے۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ساحر ایک مشن کے تحت بمبئی گئے تھے۔ اگرچہ1949ء میں ان کی پہلی فلم "آزادی کی راہ پر" قابلِ اعتنا نہ ٹھہری، لیکن موسیقار سچن دیو برمن کے ساتھ 1950ء میں فلم "نوجوان" میں ان کے لکھے ہوئے نغموں کو ایسی مقبولیت نصیب ہوئی کہ آپ آج بھی آل انڈیا ریڈیو سے انھیں سن سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک گانے "ٹھنڈی ہوائیں" کی دھن تو ایسی ہٹ ہوئی کہ عرصے تک اس کی نقل ہوتی رہی۔
    پہلے تو موسیقار روشن نے 1954ء میں فلم "چاندنی چوک" میں اس دھن پر ہاتھ صاف کیا، پھر اس سے تسلی نہ ہوئی تو 1960ء میں "ممتا" فلم میں اسی طرز میں ایک اور گانا بنا ڈالا۔ جب دوسروں کا یہ حال ہو تو بیٹا کسی سے کیوں پیچھے رہتا، چناں چہ آر ڈی برمن نے 1970ء میں "ٹھنڈی ہوائیں" سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور گانا بنا ڈالا۔
    خیر بات ہو رہی تھی ساحر کی فلم "نوجوان" کے گیتوں کی مقبولیت کی۔ اس کے بعد ایس ڈی برمن اور ساحر کی شراکت پکی ہو گئی اور اس جوڑی نے یکے بعد دیگرے کئی فلموں میں کام کیا جو آج بھی یادگار ہے۔ ان فلموں میں "بازی"، "جال"،"ٹیکسی ڈرائیور"، "ہاؤس نمبر 44"،"منیم جی" اور "پیاسا" وغیرہ شامل ہیں۔
    ساحر کی دوسری سب سے تخلیقی شراکت روشن کے ساتھ تھی اور ان دونوں نے "چترلیکھا"، "بہو بیگم"، "دل ہی تو ہے"، "برسات کی رات"، "تاج محل"، "بابر"اور "بھیگی رات" جیسی فلموں میں جادو جگایا۔ روشن اور ایس ڈی برمن کے علاوہ ساحر نے او پی نیر، این دتا، خیام، روی، مدن موہن، جے دیو اور کئی دوسرے موسیقاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
    جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، ساحر کے علاوہ بھی کئی اچھے شاعروں نے فلمی دنیا میں اپنے فن کا جادو جگایا، لیکن ساحر کے علاوہ کسی اور کو اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ اور اس کی بنیادی وجہ وہی ہے جو ان کی ادبی شاعری کی مقبولیت کی ہے، یعنی شاعری عوامی لیکن ادبی تقاضوں کی مدِ نظر رکھتے ہوئے۔
    ایک زمانے میں اردو ادب میں بڑٰ ٰ لیکن ترقی پسندشاعر اس بات کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ شاعری کے ذریعے معاشرے میں انقلاب بپا کرنا چاہتے تھے۔ ترقی پسند شعرا کی جوق در جوق فلمی دنیا سے وابستگی ان کی عوام تک پہنچنے کی اسی خواہش کی آئینہ دار تھی۔
    یہی وجہ تھی کہ ساحر فلمی دنیا میں اپنی آئیڈیالوجی ساتھ لے کر آئے، اور دوسرے ترقی پسندنغمہ نگاروں کے مقابلے میں انھیں اپنی آئیڈیالوجی کو عوام تک پہنچانے کے مواقع بھی زیادہ ملے، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انھوں نے جن فلم سازوں کے ساتھ زیادہ کام کیا وہ خود ترقی پسندانہ خیالات کے مالک تھے۔ اس سلسلے میں گرودت، بی آر چوپڑا اور یش راج چوپڑا کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ میں صرف ایک مثال دوں گا۔
    جب ساحر "کرائم اینڈ پنشمنٹ" پر مبنی رمیش سیگل کی فلم "پھر صبح ہو گی" کے گیت لکھ ہے تھے تو انھوں نے شرط رکھی کہ فلم کی موسیقی وہی موسیقار ترتیب دے گا جس نے دوستو ییفسکی کا ناول پڑھ رکھا ہو۔ اگرچہ سیگل شنکرجے کشن کو لینا چاہتے تھے، لیکن ساحر کی شرط پر صرف خیام پورا اترے۔ چناں چہ ساحر نے اس فلم کے لیے وہ نغمے لکھے جو فلمی کہانی میں معاون ہونے کے ساتھ ساتھ ساحر کے ایجنڈے پر بھی پورا اترتے ہیں:
    چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
    رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہمارا
    جتنی بھی بلڈنگیں تھیں سیٹھوں نے بانٹ لی ہیں
    فٹ پاتھ بمبئی کے ہیں آشیاں ہمارا
    اسی فلم کے دوسرے نغمے بھی ساحر کے نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں، جیسے آسماں پہ ہے خدا اور زمیں پہ ہم، اور وہ صبح کبھی تو آئے گی، وغیرہ۔
    ساحر کتنے بااثر فلمی شاعر تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کم از کم دو ایسی انتہائی مشہور فلموں کے گانے لکھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کہانی ساحر کی اپنی زندگی سے ماخوذ تھی۔ ان میں گرودت کی پیاسا اور یش راج کی کبھی کبھی شامل ہیں۔ پیاسا کے گانے تو درجہ اول کی شاعری کے زمرے میں آتے ہیں:
    یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
    یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
    اور یہ گانا
    یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے
    جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
    اسی طرح کبھی کبھی میں "کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے" کے علاوہ "میں پل دو پل کا شاعر ہوں" ایسے گانے ہیں جو صرف ساحر ہی لکھ سکتے تھے۔ظاہر ہے کہ کسی اور فلمی شاعر کو یہ چھوٹ نہیں ملی کہ وہ اپنے حالاتِ زندگی پر مبنی نغمے لکھے۔
    ساحر کے فلمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانا لازمی ہے کہ ساحر ہمیشہ گیت کے بولوں کو اس کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ گردانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیاسا کے بعد ساحراور ایس ڈی برمن کی جوڑی ٹوٹ گئی کیوں کہ ساحر سمجھتے تھے کہ فلم کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ ان کا ہےاور وہ چاہتے تھے کہ ان کا معاوضہ موسیقار سے زیادہ ہو۔
    بعد میں انھوں نے کئی بی گریڈ موسیقاروں کے ساتھ کام کیا، جن میں ٰخیام کے علاوہ روی، این دتا اور جے دیو شامل ہیں۔ اور ان درجہ دوم کے موسیقاروں کےساتھ بھی ساحر نے کئی لافانی نغمے تخلیق کیے، جیسے روی کے ساتھ "ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی"، "نیلے گگن کے تلے"، "چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو"وغیرہ، این دتا کے ساتھ "میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی"، "میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں" اور "دامن میں داغ لگا بیٹھے"، وغیرہ اور جے دیو کے ساتھ "ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں"،"میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا"، "رات بھی ہے کچھ بھیگی بھیگی" وغیرہ شامل ہیں۔
    ساحر اور مجروح سلطان پوری کا نام اکثر ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے، لیکن میرے خیال سے دونوں شعرا کا پس منظر ایک جیسا ہونے کے باوجود ساحر مجروح سے کہیں بہتر فلمی شاعر تھے۔
    مجروح کی فلمی نغمہ نگاری اکثر کھوکھلی نظر آتی ہے، وہ شاعری کے ادبی پہلو سے مکمل انصاف نہیں کر پاتے۔ جو کام ساحر بہت سہولت سے کر گزرتے ہیں، وہاں اکثر اکثر مجروح کی سانس قدم اکھڑنے لگتی ہے۔ مجروح کی فلمی بولوں کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ وہ سننے میں بہت بھلے لگتے ہیں لیکن جوں ہی کاغذ پر لکھے جائیں، ان میں عیب نظر آنے لگتے ہیں۔
    مثال کے طور پر مجروح کا فلم "ممتا" کے لیے لکھا ہوا ایک انتہائی خوب صورت گیت ہے:
    رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے، بن کے کلی، بن کے صبا باغِ وفا میں
    (ویسے برسبیلِ تذکرہ عرض کرتا چلوں کی موسیقار روشن نے اس گانے کی دھن ساحر،ایس ڈی برمن کی فلم نوجوان کے گانے "ٹھنڈی ہوائیں" سے مستعار لی ہے)
    بظاہر تو گانا بہت عمدہ لگتا ہے لیکن جب اسے کاغذ پر لکھا ہوا دیکھیں تو اور ہی کہانی سامنے آتی ہے:
    موسم کوئی ہو اس چمن میں رنگ بن کے رہیں گے ہم خراماں
    چاہت کی خوشبو یوں ہی زلفوں سے اڑے گی خزاں ہو کہ بہاراں
    ذرا قافیے کا استعمال ملاحظہ ہو، کہ اتنی لمبی بحر میں بھی مناسب قافیہ نہ مل سکا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بہاراں جمع ہے اور خزاں واحد۔ شاعرانہ اصطلاح میں اسے عیبِ شتر گربگی کہا جاتا ہے یعنی ایک جگہ اونٹ اور بلی کا امتزاج۔
    کھوئےہم ایسے، کیا ہے ملنا کیابچھڑنا، نہیں ہے یادہم کو
    کوچے میں دل کے، جب سے آئے صرف دل کی زمیں، ہے یاد ہم کو
    اسی فلم سے ایک اور شاہ کار نغمہ دیکھیے، اور یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ میں صرف اعلیٰ پائےکے نغموں سے مثالیں دے رہا ہوں
    چھپا لو یوں دل میں پیار میرا کہ جیسے مندر میں لو دیے کی
    ہر لحاظ سے شان دار گاناہے، لیکن صرف سننے کی حد تک۔ کاغذ پر کچھ اور ہی کہانی نظر آتی ہے۔
    میں سر جھکائے کھڑی ہوں پریتم، کہ جیسے مندر میں لو دیے کی
    اب لو دیے کی ہمیشہ سر کو اٹھائے ہوئے رہتی ہے، نہ کہ سر جھکائے۔
    ایک اور گیت لیجیے
    تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
    یہ مصرعہ مجروح نےفیض احمد فیض کی نظم سے لیا ہے، اگرچہ یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ انھوں نے خط لکھ کر فیض سے اسے استعمال کرنے کی اجازت لے لی تھی۔ لیکن میرا اشارہ اسی گیت کے دوسرے بندوں کی طرف ہے:
    یہ اٹھیں صبح چلے، یہ جھکیں شام ڈھلے
    میرا جینا میرا مرنا انہی پلکوں کے تلے
    غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ صبح چلے نہ صرف خلافِ محاورہ ہے بلکہ بے معنی بھی۔
    پلکوں کی گلیوں میں چہرے بہاروں کے ہنستے ہوئے
    ہیں میرے خوابوں کے کیا کیا نگر ان میں بستے ہوئے
    اب ذرا استعارے کی پیچیدگی دیکھیے کہ پلکوں کی گلیاں ہیں جن میں بہاروں کے چہرے ہنس رہے ہیں اور ان چہروں میں خوابوں کے نگر آباد ہیں۔ اب پیچیدگی تو ضرور ہے لیکن فلمی گانے میں اس کی گنجائش اور ضرورت کم ہی ہے۔
    اس کے مقابلے پر ساحر کی فلمی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نک سک سے درست اور عام طور پر ادبی لحاظ سے بے عیب ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ کاغذ پر لکھنے کے معیار پر بھی پورا اترتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اور فلمی گیت نگار کے گیتوں کے اتنے ایڈیشن نہیں چھپے جتنے ساحر کے "گاتا جائے بنجارا" اور "گیت گاتا چل" کے۔
    ایک اور فلمی شاعر شکیل بدایونی ہیں جن کا نام ساحر کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ لیکن میری نظر میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔ شکیل کے ہاں بعض جگہ عروض کی غلطیاں بھی نظر آتی ہیں، مثال کے طور پر وہ لفظ "نہ" کو بر وزنِ "نا" بھی باندھ جاتے ہیں، جو عروض کے اعتبار سے غلط ہے۔ اس کے علاوہ شکیل کے ہاں زبان و بیان کی کوئی تازگی نظر نہیں آتی، وہی لگی بندھی تشبیہات، پامال استعارات اور استعمال شدہ ترکیبوں کی بھرمار شکیل کا خاصہ ہے۔
     
  19. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ثانیہ خوش رہیں۔ :dilphool:
     
  20. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب ثانیہ جی ۔
    موضوع کے ساتھ پوری طرح انصاف کرتی ہوئی تحریر ہے۔ :mashallah:
    بہت خوب
     
  22. ثانیہ
    آف لائن

    ثانیہ ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    33
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :titli: :titli: :titli: یہ سب چیزیں تو رضا بھائی کی سکھائی ہوئی ہیں آج مجھے بھی احساس ہو رہا کے ایم اے رضا صاحب ٹھیک کہتے تھے زندگی گزارنا آسان جبکہ بسر کرنا بہت ادق ہے آب میں زندگی کچھ کچھ بسر کر رہی ہوں ہماری اردو کی فیملی یعنی خاندان میں اتنا بڑا سواگت واقعی اعزاز ہے میرے لیے ---------اور آپ کے توسط سے مجھے ایم اے رضا کی صحیح قدر ہوئی ہے اور آج مجھے ان کے ان الفاظ کا احساس ہو رہا
    "ثانیہ میری زندگی تو بسر ہو ہی جائے گی بس ایک افسوس رہے گا اگر میں اپنی صلاحیتوں کو تم تک منتقل نہ کر سکا تو میں نہ جستجوئے انقلاب کے ساتھ وفا کر سکوں گا نہ اپنی زندگی کے اندر موجود ہیجانات سے -------"


    وہ واقعی ایک عظیم انسان ہے اور جس انقلاب کی وہ بات کرتا وہ 100% سو فیصد ٹھیک ہے --------اور واقعی یہ باتیں صرف انقلابیوں کی سمجھ میں ہی آ سکتیں ہیں
     
  23. تابی
    آف لائن

    تابی ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    50
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :takar: :takar: :takar: سانوں وی پوچھ لو کوئی جدھر ویکھو رضا رضا ہوندی پئی اے---------
     
  24. تابی
    آف لائن

    تابی ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    50
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :car: :car: :car: مذاق کر رہی تھی سیریس نہ لے جانا یہ ------یہ تو دیکھو تعریف کس کی ہو رہی ہے-------ہمارے رضا کی اور جہاں رضا کا نام ائے گا وہاں لیو کلاسک کا نام آئے گا یعنی ہم سب ------------میں کجھ سیانی ہو گئی --------
     
  25. تابی
    آف لائن

    تابی ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    50
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مذاق کر رہی تھی سیریس نہ لے جانا یہ ------یہ تو دیکھو تعریف کس کی ہو رہی ہے-------ہمارے رضا کی اور جہاں رضا کا نام ائے گا وہاں لیو کلاسک کا نام آئے گا یعنی ہم سب ------------میں کجھ سیانی ہو گئی -------- :car: :car: :car:


    سوری غلط سینڈ ہو گیا تھا--------ہو گئی نہ بےزتی--------بے زتی دا کوئی ٹیم ہوند ہے-----
     
  26. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بھائی یہ ادبی لڑی ہے ۔اس لیے زیادہ بات نہیں‌ کروں‌گاکیوں‌کہ یہاں کا تقدس پامال ہو گا۔آپ ذرا گپ شپ کی کسی لڑ ی میں آہئں آپ کو بھی پوچھ لیتے ہیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :flor: :flor:
     
  27. تابی
    آف لائن

    تابی ممبر

    شمولیت:
    ‏23 نومبر 2008
    پیغامات:
    50
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :takar: :takar: :takar: علی بھائی عشق جنوں پیشہ کی لڑی میں تشریف لائیں
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تابی بھائی ۔
    آپ نے اچانک لڑکی بن کر پیغام بھیجنے کیوں شروع کر دیے ؟ :nose:
     
  29. علی کاظمی
    آف لائن

    علی کاظمی ممبر

    شمولیت:
    ‏20 نومبر 2008
    پیغامات:
    796
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تابی بھائی ۔
    آپ نے اچانک لڑکی بن کر پیغام بھیجنے کیوں شروع کر دیے ؟ :nose:[/quote:3cbdxvvh]
    حالانکہ میں نے اپنی تصویر بھی اوتار میں‌ نہیں‌ لگائی :nose:
     
  30. نادر سرگروہ
    آف لائن

    نادر سرگروہ ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جون 2008
    پیغامات:
    600
    موصول پسندیدگیاں:
    6
    یہ کیا ثانیہ صاحبہ ؟؟؟؟

    آج کل ہماری اردو پر کنفیوزن بڑھتا جا رہا ہے۔
    کیوں نعیم صاحب ؟
    کیا خیال آپ کا؟؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں