1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زاویہ 2

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏1 اکتوبر 2008۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    [center:3q7v1xaa][​IMG][/center:3q7v1xaa]
    زاویہ 2
    مصنف اشفاق احمد

    فہرستِ ابواب

    باب 1 پنجاب کا دوپٹہ
    باب 2 ملٹی نیشنل خواہشیں
    باب 3 وقت ایک تحفہ
    باب 4 چھوٹا کام
    باب 5 خوشی کا راز
    باب 6 ماضی کا البم
    باب 7 ویل وشنگ
    باب 8 دروازہ کھلا رکھنا
    باب 9 ایم- اے پاس بلی
    باب 10 تنقید اور تائی کا فلسفہ
    باب 11 سلطان سنگھاڑے والا
    باب 12 میں کون ہوں
    باب 13 Psycho Analysis
    باب 14 ترقی کا ابلیسی ناچ
    باب 15 ہاٹ لائن
    باب 16 تکبر اور جمہوریت کا بڑھاپا
    باب 17 شک
    باب 18 رشوت
    باب 19 بشیرا
    باب 20 اسطخدوس کے عرق سے سٹین گن تک
    باب 21 پانی کی لڑائی اور سندیلے کی طوائفیں
    باب 22 بندے کا دارو بندہ
    باب 23 عالم اصغر سے عالم اکبر تک
    باب 24 انسانوں کا قرض
    باب 25 بابے کی تلاش
    باب 26 محاورے
    باب 27 ڈپریشن کا نشہ
    باب 28 زندگی سے پیار کی اجازت درکار ہے
    باب 29 نظر بد
    باب 30 اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
    باب 31 چیلسی کے باعزت ماجھے گامے
    باب 32 ذات کی تیل بدلی
    باب 33 رہبانیت سے انسانوں‌کی بستی تک
    باب 34 Salute to non-degree technologists
    باب 35 تھری پیس میں ملبوس بابے اور چغلی میٹنگ
    باب 36 Mind never matter
    باب 37 من کی آلودگی
    باب 38 ان پڑھ سقراط
    باب 39 بونگیاں‌ ماریں، خوش رہیں
    باب 40 آٹو گراف
    باب 41 “چاہیئے“ کا روگ
    باب 42 چلاس کی محبتیں
    باب 43 تسلیم و رضا کے بندے
    باب 44 بھائی والی کا رشتہ
    باب 45 گھوڑا ڈاکٹر اور بلونگڑا
    باب 46 لڑن رات ہو وچھڑان رات نہ ہو
    باب 47 توکل
    باب 48 بانسری
    باب 49 تحائف
    باب 50 جیرا بلیڈ، ڈاکیا اور علم
    باب 51 فونگ شوئی
    باب 52 دھرتی کے رشتے
     
  2. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    [right:1niu24lk]زاویہ 2/باب 1

    پنجاب کا دوپٹہ


    جب آدمی میری عمر کو پہنچتا ہےتو وہ اپنی وراثت آنے والی نسل کو دے کر جانے کی کو شش کرتا ہے- کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو انسان بد قسمتی سے ساتھ ہی سمیٹ کر لے جاتا ہے- مجھے اپنی جوانی کے واقعات اور اس سے پہلے کی زندگی کے حالات مختلف ٹکڑیوں میں ملتے ہیں- میں چاہتا ہوں کہ اب وہ آپ کے حوالے کر دوں- حالانکہ اس میں تاریخی نوعیت کا کوئی بڑا واقعہ آپ کو نہیں ملے گا لیکن معاشرتی زندگی کو بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو اس میں ہماری سیاسی زندگی کے بہت سے پہلو نمایاں نظر آئیں گے۔
    آج سے کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے میں کسی سرکاری کام سے حیدرآباد گیا تھا۔ سندھ میں مجھے تقریباً ایک ہفتے کے لئے رہنا پڑا، اس لئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے، چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ تھی- دو دن وہاں گزارنے کے بعد میری طبیعت جیسے بے چین ہو گئی-میں اکثراس حوالے سے آپ کی خدمت میں ُ ُ بابوں“ کا ذکر کرتا ہوں- میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھٹ شاہ (شاہ عبدالطیف بھٹائی ) کا مزار یہاں قریب ہی ہے اور آج جمعرات بھی ہے، اس لئے آج ہم وہاں چلتے ہیں- وہ میری بات مان گئی- میزبانوں نے بھی ہمیں گاڑی اور ڈرائیور دے دیا، کیونکہ وہ راستوں سے واقف تھا- ہم مزار کی طرف روانہ ہو گئے- جوں جوں شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار قریب آ رہا تھا، مجھ پر ایک عجیب طرح کا خوف طاری ہونے لگا- مجھ پر اکثر ایسا ہوتا ہے- میں علم سے اتنا متأثر نہیں ہوں، جتنا کریکٹر سے ہوں- علم کم تر چیز ہے، کردار بڑی چیز ہے- اس لئے صاحبانِ کردار کے قریب جاتے ہوئے مجھے بڑا خوف آتا ہے- صاحبانِ علم سے اتنا خوف نہیں آتا، ڈر نہیں لگتا۔

    جب ہم وہاں پہنچے تو بہت سے لوگ ایک میلے کی صورت میں ان کے مزار کے باہر موجود تھے- گھوم پھر رہے تھے- ہم میاں بیوی کافی مشکل سے مزار کے صحن میں داخل ہوئے- بہت سے لوگ وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنا رہے تھے-اس کلام میں جب شاہ کی شاعری میں موجود ایک خاص ٹکڑا آتا تو سارے سازندے چوکس ہو کر بیٹھ جاتے اور گانے لگتے۔ کلام میں یہ خاص ٹکڑا اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے بھی کم کم ہی اس کا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن اس کی گہرائی زمانے کے ساتھ ساتھ کُھلتی چلی جاتی ہے- ہم بھی وہاں ایک دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے- وہاں کافی رش تھا- کچھ لوگ زمین پر لیٹے ہوئے تھے- عورتیں، مرد سب ہی اور کچھ بیٹھے کلام سن رہے تھے- ہم بھی جا کر بیٹھ گئے- جب شاہ کی وائی ( مخصوص ٹکڑی ) شروع ہوتی تو ایک خادم دھات کے بڑے بڑے گلاسوں میں دودھ ڈال کر تقسیم کرتا- یہ رسم ہے وہاں کی کہ جب وائی پڑھتے ہیں تو دودھ تقسیم کیا جاتا ہے- گلاس بہت بڑے بڑے تھے، لیکن ان میں تولہ ڈیڑھ تولہ دودھ ہوتا- جب اتنا بڑا گلاس اور اتنا سا دودھ لا کر ایک خادم نے میری بیوی کو دیا، تو اُس نے دودھ لانے والے کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا اور پھر جھانک کر گلاس کے اندر دیکھا- میں نے اُس سے کہا کہ دودھ ہے پی لو- میں نے اپنے گلاس کو ہلایا- میرے گلاس کے اندر دودھ میں ایک تنکا تھا- میں اُس تنکے کو نظر انداز کرتا تھا، لیکن وہ پھر گھوم کر سامنے آ جاتا تھا- میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں دودھ کو تنکے سمیت ہی پی جاتا ہوں-چنانچہ میں نے دودھ پی لیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آپ بھی پئیں، یہ برکت کی بات ہے۔

    خیر! اُس نے زبردستی زور لگا کر پی لیا اور قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہا کہ آپ ہمیں تھوڑی سی جگہ دیں- اُس شخص کی بیوی لیٹ کر اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی- اُس شخص نے اپنی بیوی کو ٹہوکہ دیا اور کہا کہ مہمان ہے، تم اپنے پاؤں پیچھے کرو- میری بیوی نے کہا کہ نہیں نہیں، اس کو مت اُٹھائیں- لیکن اُس شخص نے کہا،نہیں نہیں کوئی بات نہیں- اُس کی بیوی ذرا سمٹ گئی اور ہم دونوں کو جگہ دے دی- انسان کا خاصہ یہ ہے کہ جب اُس کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے، تو وہ لیٹنے کی بھی چاہتا ہے-جب ہم بیٹھ گئے تو پھر دل چاہا کہ ہم آرام بھی کریں اور میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا پاؤں پسارنے لگا- فرش بڑا ٹھنڈا اور مزیدار تھا- ہوا چل رہی تھی- میں نیم دراز ہو گیا- میری بیوی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ میں چکر لگا کر آتی ہوں، کیونکہ یہ جگہ تو ہم نے پوری طرح دیکھی ہی نہیں- میں نے کہا ٹھیک ہے- وہ چلی گئی- دس پندرہ منٹ گزر گئے، وہ واپس نہ آئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں گُم ہی نہ ہو جائے، کیونکہ پیچیدہ راستے تھے اور نئی جگہ تھی۔

    جب وہ لوٹ کر آئی تو بہت پریشان تھی- کچھ گھبرائی ہوئی تھی- اُس کی سانس پھولی ہوئی تھی- میں نے کہا، خیر ہے! کہنے لگی آپ اُٹھیں میرے ساتھ چلیں- میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں- میں اُٹھ کراُس کے ساتھ چل پڑا- وہاں رات کو دربار کا دروازہ بند کر دیتے ہیں اور زائرین باہر بیٹھے رہتے ہیں- صبح جب دروازہ کُھلتا ہے تو پھر دعائیں وغیرہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں- جب ہم وہاں گئے تو اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی، آپ ادھر آئیں- شاہ کے دروازے کے عین سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی- اُس کے سر پر جیسے ہمارا دستر خوان ہوتا ہے، اس سائز کی چادر کا ٹکڑا تھا اور اُس کا اپنا جو دوپٹہ تھا وہ اُس نے شاہ کے دروازے کے کنڈے کے ساتھ گانٹھ دے کر باندھا ہوا تھا اور اپنے دوپٹے کا آخری کونہ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی اوربالکل خاموش تھی۔ اُسے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہیں۔
    اُس کی عمر کوئی سولہ،سترہ یا اٹھارہ برس ہو گی- وہ کھڑی تھی، لیکن لوگ ایک حلقہ سا بنا کر اُسے تھوڑی سی آسائش عطا کر رہے تھے تاکہ اُس کے گرد جمگھٹا نہ ہو- کچھ لوگ، جن میں عورتیں بھی تھیں، ایک حلقہ سا بنائے کھڑے تھے- میں نے کہا، یہ کیا ہے؟ میری بیوی کہنے لگی، اس کے پاؤں دیکھیں- جب میں نے اُس کے پاؤں دیکھے تو آپ یقین کریں کہ کوئی پانچ سات کلو کے- اتنا بڑا ہاتھی کا پاؤں بھی نہیں ہوتا- بالکل ایسے تھے جیسے سیمنٹ، پتھر یا اینٹ کے بنے ہوئے ہوں- حالانکہ لڑکی بڑی دھان پان کی اور دُبلی پتلی سی تھی- ہم حیرانی اور ڈر کے ساتھ اُسے دیکھ رہے تھے، تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بات کر رہی تھی- وہاں ایک سندھی بزرگ تھے- ہم نے اُن سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ اُس نے کہا، سائیں! کیا عرض کریں- یہ بیچاری بہت دُکھیاری ہے- یہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے اور ہمارے اندازے کے مُطابق مُلتان یا بہاولپور سے ہے-

    یہ گیارہ دن سے اسی طرح کھڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار، وہ سفید داڑھی والا بُزرگ، اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ایک کھجور کھانے کے لئے یہ منہ کھول دیتی ہے، چوبیس گھنٹے میں- میری بیوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اس کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور یہ بیچارگی کے عالم میں وہاں سے چل کر یہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کھڑی ہے اور ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ ُ ُ اے شاہ! تُو تو اللہ کے راز جانتا ہے، تُو میری طرف سے اپنے ربّ کی خدمت میں درخواست کر کہ میرے بھائی کو رہائی ملے اور اس پر مقدّمہ ختم ہو-“ وہ بس یہ بات کہہ رہی ہے- شاہ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ ُ ُ اے لوگو! چودھویں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے، پہلی کے چاند کو جو نظر بھی نہیں آتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر اُنگلیوں کا اشارہ کر کے اسے دیکھتے ہیں- یہ کیا راز ہے تم میرے قریب آؤ میں تمھیں چاند کا راز سمجھاتا ہوں ( یہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ایک نظم کا حصّہ ہے)
    وہ لڑکی بھی بیچاری کہیں سے چل کر چلتی چلتی پتا نہیں اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا بھی ہے کہ نہیں، لیکن وہ وہاں پہنچ گئی ہے اور وہاں کھڑی تھی- چونکہ رات کو مزار کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، اس لئے کوئی کنکشن نہیں رہتا، اس نے اپنا دوپٹہ اُتار کر وہاں باندھ رکھا ہے- وہ بابا بتا رہا تھا کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے- بڑی مشکل سے قدم اُٹھا کر چلتی ہےاور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لئے دعا کرتے ہیں- ہم اپنا ذاتی کام بھول جاتے ہیں اور ہم اس کے لئے اور اس کے بھائی کے لئے اللہ سائیں سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تُو اس پر فضل کر- کتنی چھوٹی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کیا مصیبت ڈال لی ہے- میں کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا- اُس کا دوپٹہ اگر سر سے اُتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک یا کوئی اور کپڑا اُس کے سر پر ڈال دیتے- میں اس کو دیکھتا رہا- مجھے باہر دیکھنا، وائی سننا اور دودھ پینا سب کچھ بھول گیا- میں چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، لیکن میرا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا، کیونکہ وہ اتنے بُلند کردار اور طاقت کے مقام پر تھی کہ ظاہر ہے ایک چھوٹا، معمولی آدمی اس سے بات نہیں کر سکتا تھا- ہمیں وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی- ہم نے ساری رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا- ہم نے ساری رات اس لڑکی کےلئےدعائیں کیں- بس ہم اس کے لئے کچّی پکّی دعائیں کرتے رہے۔

    صبح چلتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تک پنجاب کا دوپٹہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کُنڈے سے بندھا ہے پنجاب اور سندھ میں کسی قسم کا کریک نہیں آسکتا- یہ تو اپنے مقصد کے لئے آئی ہے نا، لیکن مقصد سے ماورا بھی ایک اور رشتہ ہوتا ہے- میری بیوی کہنے لگی، کیوں نہیں، آپ روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ یہ سندھ کارڈ ہے، یہ پنجاب کارڈ ہے- جب ایک چودھری دیکھتا ہے کہ لوگوں کی توجّہ میرے اوپر ہونے لگی ہے اور لوگ میرے بارے میں Critical ہونے لگے ہیں، تو وہ پھر کہتا ہے اے لوگو! میری طرف نہ دیکھو- تمھارا چور پنجاب ہے- دوسرا کہتا ہے، نہیں! میری جانب نہ دیکھو تمھارا چور سندھ ہے، تاکہ اس کے اوپر سے نگاہیں ہٹیں، ورنہ لوگوں کے درمیان وہی اصل رشتہ قائم ہے جو مُلتان یا بہاولپور سے جانے والی لڑکی کا شاہ کے مزار سے ہے، جو اکیلی تن تنہا، سوجے پاؤں بغیر کسی خوراک کے کھڑی ہوئی ہے اس کا اعتقاد اور پورا ایمان ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو گا- اپنی ایک نظم میں شاہ فرماتے ہیں کہ ُ ُ اے کمان کسنے والے تُو نے اس میں تیر رکھ لیا ہے اور تُو مجھے مارنے لگا ہے، لیکن میرا سارا وجود ہی تیرا ہے، کہیں تُو اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے-“

    چند سردیاں پہلے کی بات ہے کہ ہمارے باغِ جناح میں پُرانے جم خانے کے سامنے اندرونِ شہر کی ایک خاتون بنچ کے اوپر بیٹھی تھی اور اپنے چھوٹے بچے کو اپنے گُھٹنے کے اوپر پلا رہی تھی- اُس کی تین بچیاں کھیلتے ہوئے باغ میں پھیل گئی تھیں اور ایک دوسری کے ساتھ لڑتی تھیں اور بار بار چیخیں مارتی ہوئی ماں سے ایک دوسری کی شکایت کرتی تھیں- ذرا دیر بعد پھر ماں کو تنگ کرنا شروع کر دیتیں اور پھر چلی جاتیں- آخر میں پھر لڑتی ہوئی دو بچیاں آئیں اور کہا کہ امّاں اس نے میری فلاں اتنی بڑی چیز لے لی ہے- ایک نے مُٹھی بند کی ہوئی تھی- آخر ماں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا کھول دے مُٹھی- جب اس نے مُٹھی کھولی تو اس میں سوکھا ہوا درخت سے گِرا بھیڑہ تھا- ایک نے کہا، پہلے میں نے دیکھا تھا یہ میرا ہے- اُن کی ماں نے دوسری سے کہا، اسے دے دو- پھر وہ صُلح صفائی کرتے ہوئے بھاگ کر چلی گئیں- جب میں نے ان کے درمیان اتنی زیادہ لڑائی دیکھی تو میں نے اُس خاتون سے کہا کہ آپ تو مشکل میں پڑی ہوئی ہیں- یہ بچے آپ کو بہت تنگ کرتے ہیں- تو اُس نے کہا کہ بھائی! مجھے یہ بہت تنگ کرتے ہیں، لیکن میں اِن سے تنگ ہوتی نہیں- میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگیں، یہ جو میرے بچے ہیں، اپنی نانی کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں- میں سوچتی ہوں کہ اگر ان کی نانی زندہ ہوتی تو یہ بچیاں کتنی ہی شیطانیاں کرتیں، ضد کرتیں، لڑائیاں کرتیں، لیکن پھر بھی اپنی نانی کی پیاریاں اور لاڈلیاں ہی رہتیں۔

    جب میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے تو یہ کچھ بھی کریں- میں اپنی نانی کی حوالے سے ان کو معاف کر دیتی ہوںاور یہ مزے سے کھیلتی رہتی ہیں، حالانکہ جسمانی اور ذہنی وروحانی طور پر مجھے تنگ کرتی ہیں- جب اُس نے یہ بات کی تو میں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے سیاسی اور سماجی وجود میں کوئی نانی جیسا تصوّر نہیں آسکتا؟ کیا ہمیں ایسا لیڈر نہیں مل سکتا، یا سکا جس کے سہارے ہم اپنی مشکلات کو اس کے نام Dedicate کر کے یہ کہیں کہ اگرایسی مشکلات ہوتیں اور اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو ہم ان کے حوالے کر دیتے کہ جی یہ مشکلات ہیں اور وہ ان کو ویسے ہی سمیٹ لیتے جیسا کہ وہ دوسری مشکلات سمیٹا کرتے تھے، بلکہ اکیلے اُنہوں نے ہی تمام مشکلات کو سمیٹا تھا- لیکن شاید یہ ہماری قسمت یا مقدّر میں نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ایک دھان پان سی، دُبلی پتلی لڑکی اتنی ہمّت کر کے اپے ذاتی مقصد کے لئے اتنا بڑا کنکشن میرے آپ کے اور سندھ کے درمیان پیدا کر سکتی ہے، تو ہم جو زیادہ پڑھے لکھے، دانشمند اور دانشور لوگ ہیں یہ دل اور روح کے اندر مزید گہرائی پیدا کرنے کے لئے کچھ کیوں نہیں کر سکتے؟

    کوئی ایسی صبح طلوع ہو یا کوئی ایسی شام آئے، جب ہم دیوار سے ڈھو لگا کر ایک Meditation میں داخل ہوتے ہیں، تو کیا اس مراقبے میں یہ ساری چیزیں نہیں آتیں، یا یہ کہ ہم اس مراقبے کے اندر کبھی داخل ہی نہیں ہو سکے؟ ایک چھوٹی سی لڑکی اس طرح ایک تہیہ کے اندر اور ایک ارادے کے اندر داخل ہو گئی تھی اور ہم جو بڑے ہیں ان سے یہ کام نہیں ہو تا- اس کے باوجود میں بہت پُر امید ہوں کہ یقیناً ایسا وقت آجائے گا جس کا کوئی جواز ہمارے پاس نہیں ہو گا، جس کی کوئی منطق نہیں ہو گی- لیکن وہ وقت ضرور آئے گا، کیوں آئے گا، کس لئے آئے گا، کس وجہ سے اورکیسے آئے گا؟ اس کا بھی کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے- لیکن اتنی بڑی معاشرتی زندگی میں جان بوجھ کر یا بیوقوفی سے ہم جو نام لے چکے ہیں، انہیں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر سفل ہونا ضروری ہے- یہ میرا ایک ذاتی خیال ہے، جس کے ساتھ میں وابستہ رہتا ہوں-

    مایوسی کی بڑی گھٹائیں ہیں، بڑی بے چینیاں ہیں، بڑی پریشانیاں ہیں-اکنامکس کا آپ کے یوٹیلیٹی بلز کا ہی مسئلہ اتنا ہو گیا ہے کہ انسان اس سے باہرہی نہیں نکلتا- آدمی روتا رہتا ہے، لیکن ہمارے اس لاہور میں، ہمارے اس مُلک میں اور ہمارے اس مُلک سے ماورا دوسری اسلامی دنیا میں کچھ نہ کچھ تو لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اکنامکس کی تنگی کے باوصف یہ کہتے ہوں گے جو میں نہیں کہہ سکتا- میں کسی نہ کسی طرح سے خوش ہو سکتا ہوں، کیونکہ خوشی کا مال ودولت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں- ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ اگر مال ودولت کے ساتھ جائیداد کے ساتھ خوشی کاتعلق ہوتا تو آپ اتنی ساری چیزیں چھوڑ کرکبھی سوتے ناں! ان ساری چیزوں کو آپ اپنی نگاہوں کے سامنے چھوڑ کر سو جاتے ہیں اور سونا اتنی بڑی نعمت ہے جو آپ کو راحت عطا کرتی ہےاور اگر آپ کو کوئی جگائے تو آپ کہتے ہیں کہ مجھے تنگ نہ کرو- اگر اس سے کہیں کہ تیری وہ کار، جائیداد اور بینک بیلنس پڑا ہے تو اس سونے والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی- اس سے طے یہ پایا کہ یہ دولت یہ مال ومتاع یہ سب کچھ آپ کو خوشی عطا نہیں کرتے، خوشی آپ کے اندر کی لہر ہے-

    مچھلی جس کو پکڑ لے وہ اس لہر پر ڈولفن کی طرح سوار ہو کر دُور جا سکتی ہے- اگر وہ لہر نہ پکڑی جائے تو پھر ہماری بد قسمتی ہے- پھر ہم کچھ نہیں کر سکتے- اس لہر کو دیکھنا، جانچنا اور پکڑنا اور اس پر سوار ہونا شہ سواروں کا کام ہے، عام لوگوں کا نہیں- بڑی تکلیفیں اور دقّتیں ہیں، لیکن ان کے درمیان رہتے ہوئے بھی کئی آدمی گاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور ہم اپنے کانوں سے ان کا گانا سُنتے ہیں اور ہم ان کی تحقیق نہیں کر سکتےکہ ان کے اندر کون سی چُپ لگی ہوئی ہے، کس قسم کی پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ یہ گاتے چلے جا رہے ہیں- اللہ آپ کو خوش رکھے اور بہت سی آسانیاں عطا فرمائے اور خداوند تعالٰی آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!
    [/right:1niu24lk]

    نوٹ: لڑی ابھی جاری ہے۔۔۔۔
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جاری ھے تو ھم بھی انتظار میں ھیں بہت خوب
     
  4. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    [right:1fazod18]زاویہ 2/باب 2

    ملٹی نیشنل خواہشیں

    پچھلی گرمیوں کا آخری مہینہ میں نے اپنے بھانجے جاوید کے گھر گزارا- اُس کے گھر میں ایک بڑا اچھا سوئمنگ پول ہے۔اُس کا ایک چھوٹا بیٹا ہے۔اُس کے بیٹے کا ایک چھوٹا کُتّا "جیکی" ہے- میں کُتّوں بارے میں چونکہ زیادہ نہیں جانتا اس لیے اتنا سمجھ سکا ہوں کہ وہ چھوٹے قد کا نہایت محبّت کرنے والا اور تیزی سے دُم ہلانے والا کُتّا ہے-جیکی کی یہ کیفیت ہے کہ وہ سارا دن کھڑکی کی سل پر اپنے دونوں پنجے رکھ کر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا ہے اور جب آوارہ لڑکے اسے پتھر مار کر گُزرتے ہیں تو وہ بھونکتا ہے- جب آئس کریم کی گاڑی آتی ہے تو اُس کا باجا سُنتے ہی وہ اپنی کٹی ہوئی دُم بھی "گنڈیری“ کی طرح ہلاتا ہے اور ساتھ بھونکنے کے انداز میں " چوس چوس“ بھی کرتا ہے (شاید اُسکی آرزو ہو کہ مجھے اس سے کچھ ملے گا)- پھر جب غبّارے بیچنے والا آتا ہے تو وہ اُس کےلئے بھی ویسا ہی پریشان ہوتا ہے اور وہ منظر نامہ اُس کی نگاہوں کے سامنے سے گُزرتا رہتا ہے- پھر جس وقت سکول سے اُ س کا محبوب مالک توفیق آتا ہے تو پھر وہ سل چھوڑ کر بھاگتا ہےاور جا کر اُس کی ٹانگوں سے چمٹتا ہے۔

    شام کے وقت جب وہ سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں اور جب اُس کُتّے کا مالک، اُس کا ساتھی توفیق چھلانگ لگاتا ہے تو وہ (جیکی) خود تو اندر نہیں جاتا، لیکن جیسے جیسے وہ تالاب میں تیرتا ہوا آگے جاتا ہے- جیکی بھی اُس کے ساتھ آگے بھاگتا ہے اور تالاب کے اِرد گِرد " پھرکی“ کی طرح چکر لگاتا ہے، غرّاتا ہے، بھونکتا ہے، پھسلتا ہے اور پانی کے سبب دُور تک پھسلتا جاتا ہے- میں اس قیام کے سارے عرصہ میں اسے دیکھتا رہا کہ یہ کیا کرتا ہے- پھر میں نے بچّوں کو اکٹّھا کرکے ایک دن کہا کہ آؤ اس جیکی کو سمجھائیں کہ تم تو اس طرح بھاگ بھاگ کے ہلکان ہو جاؤ گے، زندگی برباد کر لو گے- بچّوں نے کہا اچھا دادا- اور اُن سب نے جیکی کو بُلا کر بٹھایا اور اُس سے کہا کہ جیکی میاں دادا کی بات سُنو-میں نے جیکی سے کہا، دیکھو وہ (توفیق) تو تیرتا ہے۔ وہ تو انجوائے کرتا ہے۔ تم خواہ مخواہ بھاگتے ہو،پھسلتے ہو اور اپنا مُنہ تُڑواتے ہو۔ تم اس عادت کو چھوڑ دو لیکن وہ یہ بات سمجھا نہیں- اگلے روز پھر اُس نے ایسے ہی کیا، جب اُس کو میں سمجھا چکا اور رات آئی اور میں لیٹا لیکن ساری رات کروٹیں بدلنے کے بعد بھی مجھے نیند نہ آئی تو میں نے اپنا سر دیوار کے ساتھ لگا کر یہ سوچنا شروع کیا کہ میرے بیٹے نے جو سی ایس ایس کا امتحان دیا ہے کیا وہ اس میں سے پاس ہو جائے گا؟ پوتا جو امریکہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گیا ہے کیا اُس کو ورلڈ بینک میں کوئی نوکری مل جائے گی؟ ہمارے اوپر جو مقدّمہ ہے، کیا اُس کا فیصہ ہمارے حق میں ہو جائے گا اور وہ انعامی بانڈ جو ہم نے خریدا ہے،وہ نکل آئے گا کہ نہیں؟ میری اتنی ساری بے چینی اور یہ سب کچھ جو مل کر میری Desires، میری آرزوئیں، میری میری تمنائیں اور خواہش گڈمڈ ہوگئیں تو میں نے کہا کہ میں بھی کسی صورت میں جیکی“ سے کم نہیں ہوں۔ جس طرح وہ بے چین ہے، جیسے وہ تڑپتا ہے، جیسے وہ نا سمجھی کے عالم میں چکر لگاتا ہے، تو حالات کے تالاب کے اِرد گِرد میں بھی چکر لگاتا ہوں تو کیا میں اس کو کسی طرح روک سکتا ہوں، کیا میں ایسے سیدھا چل سکتا ہوں جیسے سیدھا چلنے کا مجھے حُکم دیا گیا ہے- میں جیسے پہلے بھی ذکر کیا کرتا ہوں، میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ جی یہ کیوں بے چینی ہے، کیوں اتنی پریشانی ہے، کیوں ہم سکونِ قلب کے ساتھ اور اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتےہیں تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو تم اپنی پریشانی کی پوٹلیاں اپنے سامنے نہ رکھا کرو، اُنہیں خُدا کے پاس لے جایا کرو، وہ ان کو حل کردے گا- تم انہیں زور لگا کر خود حل کرنے کی کوشش کرتے ہو، لیکن تم انہیں حل نہیں کر سکو گے-

    میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے گاؤں میں میری ماں کے پاس ایک بوڑھی عورت آیا کرتی تھی، ہم اسے تائی سوندھاں کہتے تھے- اُس کے پاس چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں ہوتی تھیں- وہ میری ماں کے پاس بیٹھ جاتی اور ایک ایک پوٹلی کھول کے دکھاتی کہ بی بی یہ ہے- کسی پوٹلی میں سُوکھے بیر ہوتے، کسی میں سُوکھی لکڑیاں، جیسے مُلٹھی ہوتی ہے، وہ ہوتیں- وہ کہتی کہ اگر ان لکڑیوں کو جلاؤ تو مچھر نہیں رہتا، کسی پوٹلی میں چھوٹے چھوٹے پتھر ہوتے تھے، کسی میں بڑ کے درخت سے گری ہوئی "گولیں“ ہوتی تھیں- اُس کے پاس ایسی ہی سُوکھی چیزوں کی بے شمار پوٹلیاں ہوتی تھیں، اُن میں کوئی بھی کام کی چیز نہیں ہوتی تھی، میرا یہ اندازہ ہے اور میری ماں کا بھی یہ اندازہ تھا- میری ماں کہتی کہ نہیں سوندھاں مت کھول ان کو ٹھیک ہے اور میری ماں اُسے کچھ آٹھ آنے، چار آنے دے دیتی تھی- اُس زمانے میں آٹھ چار آنے بہت ہوتے تھےاور وہ دعائیں دیتی ہوئی چلی جاتی تھی- اُس کی کسی کے حضور پوٹلیاں کُھل کر یا نہ کُھل کربھی اُس کو بہت فائدہ عطا کرتی تھیں- اور میرا بابا مجھ سے یہ کہتا تھا کہ تُو اپنی پوٹلیاں اللہ کے پاس لے جا، ساری مشکلات کسی وقت بیٹھ کر دیوار سے ڈھو لگا کر کہو کہ اے اللہ یہ بڑی مشکلات ہیں یہ مجھ سے حل نہیں ہوتیں- یہ میں تیرے حضور لے آیا ہوں-

    میں چونکہ بہت ہی پڑھا لکھا آدمی تھا اور ولایت سے آیا تھا، میں کہتا، کہاں ہوتا ہے خُدا؟ اُس نے کہا، خُدا ہوتا نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے، نہ جانا جاتا ہے، نہ جانا جا سکتا ہے اور خُدا کے بارے میں تمہارا ہر خیال وہ حقیقت نہیں بن سکتا لیکن پھر بھی اُس کو جانا جانا چاہیے- میں کہتا تھا کیوں جانا جانا چاہیےاور آپ اس کا کیوں بار بار ذکر کرتے ہیں، آپ ہر بار اس کا ذکر کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نہ جانا جاتا ہے اور نہ جانا جا سکتا ہے، کہنے لگے کہ پرندہ کیوں گاتا ہے اور کیوں چہچہاتا ہے، اس لیے نہیں کہ پرندے کے پاس کوئی خبر ہوتی ہے، کوئی اعلان ہوتا ہے، یا پرندے نے کوئی ضمیمہ چھاپا ہوا ہوتا ہے کہ "آگئی آج کی تازہ خبر“ پرندہ کبھی ضمیمے کی آواز نہیں لگاتا، پرندہ اس لیے گاتا ہے کہ اُس کے پاس ایک گیت ہوتا ہے اور ہم خُدا کا ذکر اس لئے کرتے ہیں کہ پرندے کی طرح ہمارے پاس بھی اُس کے نام کا گیت ہے- جب تک آپ اس میں اتنے گہرے، اتنے Deep اور اتنے عمیق نہیں جائیں گے اُس وقت تک تمہارا یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا- لیکن میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اور بہت زور لگانے کے با وصف "جیکی“ کی طرح بے چین ہی رہا اوراپنے حالات کے تالاب کے اِرد گِرد ویسے ہی بھاگتا رہا، چکر کاٹتا رہا جیسے کہ جیکی میرے پوتے کے اِرد گِرد بھاگتا ہے-

    کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ"آپا یہ سمندر کہاں ہوتا ہے؟“ اُس نے کہا جہاں تم کھڑی ہوئی ہو یہ سمندر ہے- اُس نے کہا، آپ نے بھی وہی جاہلوں والی بات کی۔ یہ تو پانی ہے، میں تو سمندر کی تلاش میں ہوں اور میں سمجھتی تھی کہ آپ بڑی عمر کی ہیں، آپ نے بڑا وقت گزارا ہے، آپ مجھے سمندر کا بتائیں گی- وہ اُس کو آوازیں دیتی رہی کہ چھوٹی مچھلی ٹھہرو،ٹھہرو میری بات سُن کے جاؤ اور سمجھو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں لیکن اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور چلی گئی- بڑی مچھلی نے کہا کہ کوشش کرنے کی، جدّوجہد کرنے کی، بھاگنے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، دیکھنے کی اور Straight آنکھوں کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے- مسئلے کے اندر اُترنے کی ضرورت ہے- جب تک تم مسئلے کے اندر اُتر کر نہیں دیکھو گے، تم اسی طرح بے چین و بےقرار رہو گےاور تمہیں سمندر نہیں ملے گا-

    میرے "بابا“ نے کہا یہ بڑی غور طلب بات ہے- جو شخص بھی گول چکروں میں گھومتا ہے اور اپنے ایک ہی خیال کے اندر”وسِ گھولتا“ہے اور جو گول گول چکر لگاتا رہتا ہے، وہ کُفر کرتا ہے، شِرک کرتا ہے کیونکہ وہ اِھدِناالصّراطَ المُستَقیم (دکھا ہم کو سیدھا راستہ) پر عمل نہیں کرتا- یہ سیدھا راستہ آپ کو ہر طرح کے مسئلے سے نکالتا ہے لیکن میں کہتا ہوں سر اس” دُبدا“ (مسئلے) سے نکلنے کی آرزو بھی ہےاور اس بے چینی اور پیچیدگی سے نکلنے کو جی بھی نہیں چاہتا، ہم کیا کریں- ہم کچھ اس طرح سے اس کے اندر گِھرے ہوئے ہوتے ہیں، ہم یہ آرزو کرتے ہیں اور ہماری تمنّا یہ ہے کہ ہم سب حالات کو سمجھتے جانتے، پہچانتے ہوئے کسی نہ کسی طرح سے کوئی ایسا راستہ کوئی ایسا دروازہ ڈھونڈ نکالیں، جس سے ٹھنڈی ہوا آتی ہو- یا ہم باہر نکلیں یا ہوا کو اندر آنے دیں، لیکن یہ ہمارے مقدّر میں آتا نہیں ہے- اس لیے کہ ہمارے اور Desire کے درمیان ایک عجیب طرح کا رشتہ ہے جسے بابا بدھا یہ کہتا ہے کہ جب تک خواہش اندر سے نہیں نکلے گی (چاہے اچھی کیوں نہ ہو) اُس وقت تک دل بے چین رہے گا- جب انسان اس خواہش کو ڈھیلا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ جو بھی راستہ ہے، جو بھی طے کیا گیا ہے میں اُس کی طرف چلتا چلا جاؤں گا، چاہے ایسی خواہش ہی کیوں نہ ہو کہ میں ایک اچھا رائٹر یا پینٹر بن جاؤں یا میں ایک اچھا” اچھا“ بن جاؤں- جب انسان خواہش کی شدّت کو ڈھیلا چھوڑ کر بغیر کوئی اعلان کئے بغیر خط کشیدہ کئے یا لائن کھینچے چلتا جائے تو پھر آسانی ملے گی-

    ایک گاؤں کا بندہ تھا، اسے نمبر دار کہہ لیں یا زیلدار اُس کو خواب آیا کہ کل ایک شخص گاؤں کے باہر آئے گا، وہ جنگل میں ہو گا اور اُس کے پاس دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا ہو گا اور اگر کسی میں ہمّت ہے اور اُس سے وہ ہیرا لے سکے تو حاصل کر لے- چنانچہ وہ شخص جنگل میں گیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک درخت کے نیچے واقعی ایک بُدھو سا آدمی بیٹھا ہوتا ہے، اُس نے جا کر اُس شخص سے کہا کہ تیرے پاس ہیرا ہے، اُس نے جواب دیا، نہیں میرے پاس تو کوئی ہیرا نہیں- اُس نے کہا کہ مجھے خواب آیا ہے کہ تیرے پاس ایک ہیرا ہے- اُس نے پھر نفی میںجواب دیا کہ نہیں اور کہا کہ میرے پاس میرا ایک تھیلا ہے” گتُھلہ“ اس کے اندر میری ٹوپی، چادر، بانسری اور کچھ کھانے کے لیے سُوکھی روٹیاں ہیں، گاؤں کے شخص نے کہا، نہیں تم نے ضرور ہیرا چھپایا ہوا ہے، اس پر اُس پردیسی نے کہا کہ نہیں میں کوئی چیز چھپاتا نہیں ہوں اور ہیرے کی تلاش میں آنے والے کی بے چینی کو دیکھا (جیسا مجھ میں اور جیکی میں بے چینی ہے) اور تھیلے میں ہاتھ ڈال کر کہا کہ جب میں کل اس طرف آرہا تھا تو راستے میں مجھے یہ پتھر کا ایک خوبصورت،چمکدار ٹُکڑا ملا ہے- یہ میں نے تھیلے میں رکھ لیا تھا- اُس شخص نے بے قراری سے کہا، بیوقوف آدمی یہی تو ہیرا ہے تو اُس نے کہا ، اس کا میں نے کیا کرنا ہے تُو لے جا- وہ اُس پتھرکو لے گیا- وہ گاؤں کا شخص ہیرا پا کر ساری رات سو نہ سکا، کبھی اسے دیکھتا، کبھی دیوار سے ڈھو لگا کر پھر آنکھیں بند کر لیتا اور پھر اسے نکال کر دیکھنے لگتا- ساری رات اسی بے چینی میں گُزر گئی-

    صبح ہوئی تو لوٹ کر اُس شخص کے پاس گیا، وہ یسے ہی آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا- اُس نے دیکھ کر کہا، اب میرے پاس کیا مانگنے آیا ہے- اُس نے کہا، میں تیرے پاس وہ اطمینان مانگنے آیا ہوں جو اتنا بڑا، قیمتی ہیرا دے کر تجھے نصیب ہے اور تُو آرام سے بیٹھا ہوا ہے، تیرے اندر بے چینی کیوں پیدا نہیں ہوئی- اُس نے جواب دیا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ بے چینی کس طرح پیدا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے! اُس گاؤں کے شخص نے کہا تو آجا اور ہمارے گاؤں میں رہ کے دیکھ- میں تجھے اس بات کی ٹریننگ دوں گا اور بتاؤں گا کہ بے چینی کس چیز کا نام ہے- لیکن وہ انکار کر گیا اور کہا کہ میرا راستہ کچھ اور طرح کا ہے- تُو یہ ہیرا رکھ اپنے پاس- اُس نے پھر کہا کہ گو میں نے تم سے یہ ہیرا لے لیا ہے، لیکن میری بےچینی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے- میں اس پریشانی میں مُبتلا ہو گیا ہوں کہ ایسا کس طرح اور کیسے ہو سکتا ہے جیسے تُو نے کر دیا ہے-اب میں وہاں سے آتو گیا ہوں اور میں اپنے گھر میں ہوں لیکن میرے اندر کا”جیکی“ وہ اس طرح سے آدھا پانی میں بھیگا ہوا۔ لعاب گراتا ہوا، اس بے چینی کے ساتھ گھوم رہا ہے اور اُس کو وہ سکون نصیب نہیں ہوا، جو ہونا چاہیے تھااور میں اپنی تمام تر کوشش کے باوصف اس خواہش سے، اس آرزو سے، اس تمنّا سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا، باہر نہیں نکل سکا جو اس عمر میں جو کہ ایک بڑی عمر ہے، نکل جانا چاہیے تھا- میں سڑک پر باہر نکل کر دیکھتا ہوں تو پریشانی کے عالم میں بہت سارے جیکی میرے شہر کی سڑکوں پر بے چینی کے عالم میں بھاگ رہے ہوتے ہیں- وہ بھی میرے جیسے ہی ہیں- ان کے اندر بھی یہ بیماری چلی جا رہی ہےاور بڑھتی چلی جا رہی ہے- میں لوٹ کر آگیا ہوں اور اس وقت اپنے وجود کی کھڑکی میں آرزو کے پنجے رکھ کر باہر دیکھ رہا ہوں اور ہر آنے جانے والی چیز کو دیکھ رہا ہوں اور حاصل کرنے والی چیز کے لیے بڑی شدّت کے ساتھ دُم ہلا رہا ہوں- میری کوئی مدد نہیں کرتا، کوئی آگے نہیں بڑھتا حالانکہ میری خواہش یہ ہے کہ ایسے لوگ مجھے بھی ملیں جن کے تھیلے میں وہ من موہنا ہیرا ہو جو لوگوں کو دیکھ چکنے کے بعد کچھ عطا کر دیتا ہے- اب جبکہ میں بڑا بے چین ہوں اور اس عمر میں یہ بےچینی زیادہ بڑھ گئی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک بڑا حصّہ ملٹی نیشنل کا بھی ہے- پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں-

    ایک صبح جب میں جاگا اور میں باہر نکلا تو میرے شہر کے درودیوار بدل گئے-اُن کے اوپر اتنے بڑے بڑے ہورڈنگ، سائن بورڈز اور تصویریں لگ گئی ہیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں جو پُکار پُکار کر مجھے کہ رہی تھیں کہ مجھے خریدو، مجھے لو، مجھے استعمال کرو، میں ان کو نہیں جانتا تھا- آپ یقین کریں کہ آج سے ستر برس پہلے بھی میں زندہ تھا- میں خُدا کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں آج سے پہلے زندہ تھا اور بڑی کامیابی کے ساتھ زندہ تھا اور صحت مندی کے ساتھ زندہ تھا اور اب اس بڑھاپے میں میری انکم کا ستر فیصدی حصّہ ان آئٹمز پر خرچ ہو رہا ہے جو آج سے 70 برس پہلے ہوتی ہی نہیں تھیں-1960ء میں یہ آئٹمز ہوتی ہی نہیں تھیں- یہ ایک بڑی ٹریجڈی ہے-آپ یقین کریں کہ 1960ء میں فوٹو اسٹیٹ مشین کا کوئی تصوّر نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے- اب مجھے اتنا فوٹو اسٹیٹ کروانا پڑتا ہے کہ میں پیسے بچا بچا کر رکھتا ہوں- میرا پوتا کہتا ہے کہ دادا اس کی میں فوٹو اسٹیٹ کروا لاتا ہوں- فلاں چیز کی بھی ہو جائے- وغیرہ وغیرہ- جب میں کسی دفتر میں جاتا ہوں اور میں وہا ں جا کر عرضی دیتا ہوں کہ جناب مجے اپنی Date of Birth چاہیے تو سب سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ جی اس کی دو فوٹو اسٹیٹ کروا لائیں- بھئی کیوں کروا لاؤں؟ کہتے ہیں اس کا مجھے نہیں پتہ، بس فوٹو اسٹیٹ ہونا چاہئے- آپ یقین کریں کہ جب میں بی اے میں پڑھتا تھا ، بہت دیر کی بات ہے تو وہاں ہمارا ایک سِکھ دوست ہرونت سنگھ تھا،اُس نے مجھے کہا ہتھیلی آگے بڑھا، میں نے ہتھیلی آگے بڑھائی- اُس نے ایک گندی لیس دار چیز میری ہتھیلی پر لگا دی- میں نے کہا”ظالما! یہ تُو نے کیا کِیا، سکھا“- اُس نے کہا، اس پر پانی گرا اور سر پر مَل اور پھر دیکھ- میں نے اس پر پانی گرا کر سر پر مَلا تو” پھپھا پھپ“ جاگ ہو گئی، کہنے لگا اس کو شیمپو کہتے ہیں-ہم تو اُس وقت لال صابن سے نہاتے تھے- اُس نے کہا یہ میرے چاچے نے لندن سے بھیجی ہے-

    ہمارے مُلک میں شام کے وقت جب میں اپنے ٹی وی پر Advertisement دیکھتا ہوں تو مجھے یہ پتہ چلتا ہے کہ میرے مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کون سا شیمپو استعمال کیا جائے- ایک لڑکی کہتی ہے، خبردار جوئیں پڑ جائیں گی، وہ شیمپو نہیں لگانا- دوسری کہتی ہے، نہیں میں تو”ٹیکافوری“ لگاتی ہوں-وہ کہتی ہے، مت لگا، ٹیکا فوری خراب ہوتا ہے-"چوچا چوچی" کا اچھا ہے- میرے سارے بچّےکہتے ہیں، ہمیں فلاں شیمپو چاہئے- میرا ایک پوتا مجھ سے کہتا ہے کہ دادا تم خُدا کے فضل سے بڑے صحت مند آدمی ہو، اللہ کے واسطے یہ پانی مت پیو جو تم 78 برس سے پیتے آرہے ہو- تم منرل واٹر پیو، یہ بالکل Pure Water ہوتا ہے- اُس کے کہنے کا مطلب شاید یہ ہوتا ہے کہ اس کے پینے والا زندہ رہتا ہے- دوسرے سب فوت ہوئے پڑے ہیں!! اس سب کے ساتھ ساتھ مجھے رونا بھی آ رہا ہے کہ میں اپنے یوٹیلیٹی بلز پر دباؤ ڈالتا ہوں اور ان پرکُڑھتا ہوں- میرا اس میں کوئی قصور نہیں- یوٹیلیٹی بل بھیجنے والوں کا بھی کوئی قصور نہیں- قصور میری خواہشات کا ہے، میری Desires کا دائرہ اتنی دُور تک پھیل گیا ہے اور وہ میرے اختیار میں بالکل نہیں رہا- میں کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لوں، میں اس دائرے کے اندر نہیں آ سکتا- بار بار مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے- وہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے اور جب تک تم اسے استعمال میں نہیں لاؤ گے، اُس وقت تک کچھ نہیں ہو سکتا-

    1948ء میں ہم نے ایک فریج خریدا،کیونکہ میری بیوی کہتی تھی کہ فریج ضرور لینا یہ دُنیا کی سب سے قیمتی اور اعلٰیٰ درجے کی چیز ہے- ہمارے خاندان میں کسی کے پاس فریج نہیں تھا- وہ ہمارے گھر سالم تانگے کروا کر فریج دیکھنے آتے تھے کہ سُبحان اللہ کیا کمال کی چیز ہے- میری بیوی انہیں دکھاتی تھی کہ دیکھو ڈھکنا کُھلا ہے اور اس میں ساری چیزیں پڑی ہیں اور ان پر روشنی پڑ رہی ہے- ساری چیخیں مارتی تھیں کہ آپا جی بتّی جلتی رہے گی- تو وہ کہتی” ہے ہے! جب دروازہ بند ہوگا توبتّی خود بخود بجھ جائے گی- اس میں یہ کمال ہے-“ تو وہ ساری بیچاریاں دست بستہ ہو کر ڈر کے پیچھے ہو کر کھڑی ہو جاتیں- میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ فریج تو آ گیا ہے اس کے ساتھ کی ساری نیگٹیؤ چیزیں بھی آئیں گی- اُس نے کہا، نہیں یہ بڑی مُفید چیز ہے-

    اگلے روز عید تھی- جب میں نمازِ عید پڑھ کے صوفی غلام مُصطفٰی تبسّم کے گھر کے آگے سے گُزرا تو گھروں میں صفائی کرنے والی دو بیبیاں جا رہی تھیں، میں اُن کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا- ایک نے دوسری سے پوچھا کہ اس بی بی نے تجھے کتنا گوشت دیا ہے- تو اُس نے کہا، دفع دُور! اُس نے ٹھنڈی الماری خرید لی ہے، سارا بکرا کاٹ کے اندر رکھ دیا ہے، کچھ بھی نہیں دیا- اب آپ لوگ میرا بندوبست کرو کہ میں اپنے آپ کو کیسے بچاؤں- میں جتنی دیر بھی اور زندہ رہنا چاہتا ہوں، خوش دلی اور خوش بختی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں-مجھ پر ایسا دباؤ نہ ڈالو، میں محسوس کرتا ہوں کہ جیکی میرے مُقابلے میں اب زیادہ پُرسکون ہو گیا ہے، یہ بات شاید اب سمجھ میں آگئی ہو جبکہ میں اِرد گِرد بھاگا پھرتا ہوں اور بے چین ہوں-

    میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ -[/size][/right:1fazod18]

    نوٹ: لڑی ابھی جاری ہے۔۔۔
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واووووووووووووووووووووووووووووووووووو :a180:
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شکریہ آزاد صاحب،!!!!!

    اشفاق احمد صاحب تو میری بہت ھی پسندیدہ شخصیت ھیں،!!!!!!

    خوش رھیں،!!!!
     
  7. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    اب اگر میں نے یہ کہا کہ اشفاق جی تو بھی بہت قریب سے دیکھنے کی سعادت ھاصل ھوئی ھے تو کسی نے ماننا نہیں اس لئے
     
  8. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی،!!!!
    یہ تو بہت ھی خوش نصیبی کی بات ھے کہ آپ نے انہیں بہت ھی قریب سے دیکھا ھے، میں تو خاص کر ریڈیو اور ٹیلیویژن پر ان کی بیٹھک میں جو گفتگو ھوتی تھی، وہ جو کہانیاں سنایا کرتے تھے، وہ میں بہت ھی شوق سے دیکھتا تھا، ایسا لگتا تھا کہ وہ سب کچھ میرے سامنے ھورھا ھے، ان کے انداز بیاں کا ایک بالکل منفرد، کیا خوب انداز تھا،!!!!

    خوش رھیں،!!!!
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آ پ کا بھی انداز بھی خوب ھے مگر مجھے تو عقرب نے اتنا ڈرا دیا ھے کہ اب اپ سے بات کرتے بھی جھجک سی ھونے لگی ھے
     
  10. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    بہت مہربانی خوشی صاحبہ :dilphool: اور محترم عبدالرحمن سید صاحب :dilphool:
     
  11. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    [right:25i57n4h]زاویہ 2/باب 3

    وقت ایک تحفہ

    میں وقت کے بارے میں بہت گنجلک رہتا ہوں۔ میں کیا اور میری حیثیت کیا۔ میں کس باغ کی مولی ہوں۔ وقت کےبارے میں بڑے بڑے سائنسدان، بڑے فلسفی، بڑے نکتہ دان، وہ سارے ہی اس کی پیچیدگی کا شکار ہیں کہ وقت اصل میں ہے کیا؟ اوریہ ہماری زندگیوں پر کس طرح سے اثر انداز ہوتا ہے؟ حضرت علامہ اقبال رح اور ان کےبہت ہی محبوب فرانسیسی فلسفی برگساں بھی وقت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ مولانا روم اپنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں وقت کا ہی ذکر کرتے ہیں۔آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ آئن سٹائن نے بھی اپنی Theory of Reality میں سارا زور وقت پر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ “شے“ کوئی چیز نہیں ہے “وقت“ شے کی ماہئیت کو تبدیل کرتا ہے۔ اس نے ہم لوگوں کی آسانی کے لئے ایک مثال دی ہے کہ اگر آپ ایک بہت گرم توے پر غلطی سے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے تک اور آپ پریشانی کی حالت میں یا تکلیف میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، تو آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ پوری صدی آپ کے ساتھ چمٹ گئی ہے۔

    اگر آپ اپنے محبوب کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور اس نے کہا ہے کہ میں دس بج کر پندرہ منٹ تک پہنچ جاؤں گا، یا پہنچ جاؤں گی، فلاں جگہ تو اس میں اگر ایک منٹ کی بھی دیری ہو جاتی ہے، تو آپ کو یوں لگتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس گزر گیا ہے اور وہ ایک منٹ آپ کی زندگی سے جاتا ہی نہیں۔ یہ سارا وقت کا ہی شاخسانہ ہے کہ آنے جانے، ملنے ملانے اور گرم ٹھنڈے کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ساری بات وقت کی ہے، پھر جو آئن سٹائن سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ Sub-atomic Particle Level پر جب ہم اس کو دیکھتے ہیں تو کبھی وہ ہم کو Wave نظر آتا ہے، تو کبھی وہ ہمیں Particleدکھائی دیتا ہے اور اگر اس میں سے وقت کو نکال دیا جائے، تو پھر شاید اصل بات پتا چل سکے کہ Sub-atomic Levelکے اوپر یہ کیا چیز ہے۔ بہر کیف یہ ایسی پیچیدگیاں ہیں، جن کے بارےمیں بات ہوتی رہتی ہے۔ میرے جو سمجھدار نوجوان اس نسل کے ہیں، یہ بھی وقت کے بارے میں بہت لمبی اور سوچ بچار کی بات کریں گے۔

    وقت کا ایک پیچدہ سا خاکہ ہر انسان کے ساتھ گھومتا رہتا ہے۔ چاہے وہ اس پر غور کرے یا نہ کرے۔ میں جب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہو رہا تھا، تو ریٹائرمنٹ کا بڑا خوف ہوتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ یعنی آدمی نے ایک نوکری کی ہوتی ہے اور اس میں پھنسا چلتا رہتا ہے، لیکن آخر میں کچھ لوگ تو Re-employmentکی تیار کر لیتے ہیں۔ ایک پھانسی سے نکلوں گا، دوسری پھانسی انشاءاللہ تیارہوگی۔ اس میں اپنا سر دے دوں گا اور پھر آخرت کا سفر کر جاؤں گا۔

    جب میں ریٹائر ہونے کے قریب تھا، تو مجھ پر بھی یہ خوف سوار ہوا۔ میں نے قدرت اللہ شہاب سے، جو بڑے ہی نیک اور عبادت گزار تھے، ان سے پوچھا کہ “سر! میں ریٹائر ہونے والا ہوں، تو میں کیا کروں؟“انہوں نے کہا کہ ریٹائر ہونے کا جو خوف ہوتا ہے، اس کا سب سے بڑا دباؤ آپ پر یہ پـڑتا ہے کہ پھر لوگ آپ پر توجہ نہیں دیتے یعنی اپنا وقت آپ کو نہیں دیتے۔ آپ ان کے وقت کی آغوش سے نکل جاتے ہیں، پھر آپ کلب کی ممبر شپ اختیار کرتے ہیں۔ گالف کھیلنے لگتے ہیں، زور لگاتے ہیں کہ نئے دوست بنیں۔ اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ ہم متوسط درجے کے لوگوں کا، کہ آپ مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگ جائیں۔

    میں نے کہا کہ اس کا کیا تعلق؟ یعنی ریٹائرمنٹ کا اور مسجد کا آپس میں کیا تعلق؟ میں نے کہا کہ خیر نماز پڑھ لوں گا۔ کہنے لگے، نہیں مسجد میں جاکر، جب میں ریٹائر ہوا تو میں نے سوچا کہ انہوں نے کہا ہے اور یہ بات مانی جانی چاہئے کہ مسجد میں جا کر نماز پڑھوں۔ اب میں مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگا، لیکن عصر اور مغرب کی۔ اس طرح کوئی دو مہینے گزر گئے۔ مجھے تو اس میں کوئی عجیب بات نظر نہیں آئی۔ لیکن چونکہ انہوں نے کہا تھااس لئے میں ان کی بات مانتا تھا۔ایک دن میری بیوی یہ بیان کرتی ہے کہ کچھ عجیب و غریب جسم کے چار پانچ آدمی، جن کی شکلیں میں نے پہلے نہیںدیکھی تھیں، ہاتھ میں چھڑیاں لے کر اور دوسرے ہاتھ میں تسبیحات لٹکا کر میرے گھر کے دروازے پر آئے اور انہوں نے گھنٹی بجائی اور جب میں باہر نکلی تو کہنے لگے:“اشفاق صاحب خیریت سے ہیں!“ میں(بانو قدسیہ) نے کہا، ہاں ٹھیک ہیں۔ وہ کہنے لگے، ان سے ملاقات نہیں ہوسکتی کیا؟ میں نے کہا کہ وہ پچھلے چھ دن سے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے “الحمدللہ، الحمدللہ! ہمارے تسلی ہو گئی، اچھا بہن السلام علیکم!“ میری بیوی پوچھنے لگی وہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا کہ، وہ میرے دوست تھے، جو مسجد جانے کی وجہ سے میرے حلقۂ احباب میںشامل ہوئے ہیں۔ میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں کلب میں ممبر ہو کر نئی دوستیاں استوار کر سکوں۔ وہ مجھے وقت عطا کرتے ہیں اور اس وقت کی تلاش میں کہ میں اس میں شامل نہیں ہوں، پوچھنے آئے تھے کہ میں کہاں ہوں؟ انسان دوسرے انسان کو جو سب سے بڑا تحفہ عطا کر سکتا ہے، وہ وقت ہے۔ اس سے قیمتی تحفہ انسان انسان کو نہیں دے سکتا۔ آپ کسی کو کتنا بھی قیمتی تحفہ دے دیں، اس کا تعلق گھوم پھر کر وقت کے ساتھ چلا جائے گا۔ مثلاً آپ مجھے یا میں آپ کو نہایت خوبصورت قیمتی پانچ ہزار روپے کا “اوڈی کلون“ دوں یا آپ مجھے قالین کا ایک خوبصورت ٹکڑا دیں، یا میرے آرٹسٹ بچے مجھے ایک بہت قیمتی پینٹنگ بطور تحفہ دیں، یا سونے کا کنگن ایک خاتون کو دیا جائےیا ہیرے کا ایک طوطا یا کوئی اور قیمتی چیز، تو آپ دیکھیں گے کہ یہ سارے تحفے جو بظاہر اور حقیقت میں قیمتی ہیں، ان کے پیچھے وقت ہی کار فرما ہے۔

    پہلے میں نے وقت لیا، پھر میں نے کمائی کی۔ میں نے دس دیہاڑیاں لگائیں، جو مجھے ایک ہزار فی دیہاڑی ملتے تھے، پھر دس ہزار کا میں نے قالین خریدا اور تحفے کے طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ ٹائم پہلے لینا پڑتا ہے، پھر اس کو بیچنا پڑتا ہے، پھر اس کو تحفے کی شکل میںConvertکرنا پڑتا ہے، پھر وہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس تحفہ دینے اور لینے کے لئے سب سے قیمتی چیز بس وقت ہی ہے۔ اکثر یہ ہو جاتا ہے جیسے آج مجھ سے ہوگا اور میں مجبور ہوں ایسا کرنے پر کہ میں اپنا وقت اس شخص کو دینے کی بجائے جو میری آس میں ہسپتال کے ایک وارڈ میں موجود ہے، میں اسے پھولوں کا ایک گلدستہ بھیجوں گا، لیکن وہ شخص اس گلدستے کی آس میں نہیں ہوگا، بلکہ وہ میرے وجود، میرے لمس اور میرے ٹچ کے لئے بے چین ہوگا کہ میں اس کے پاس آؤں اور اس کے ساتھ کچھ باتیں کروں۔ ڈاکٹر اس کی بہت نگہداشت کر رہے ہیں۔ نرسیں اس پر پوری توجہ دے رہی ہیں اور اس کے گھر کے لوگ بھی ظاہر ہے اس کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کر رہے ہیں، کیونکہ وہ بیمار ہے۔ لیکن ایک خاص کرسی پر اسے میرا انتظار ہے، لیکن میں اس کے پاس اپنے وقت کا تحفہ لے کر نہیں جا سکتا۔

    خواتین وحضرات! وقت ایک ایسی انوسٹمنٹ ہے، ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو باہمی اشتراک رکھتی ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ جب میں آپ کو اپنا وقت دیتا ہوں تو سننے والا اور آپ سے ملاقات کرنے والا اور آپ کے قریب رہنے والا آپ کو اپنا وقت دیتا ہے اور باہمی التفات اور محبت کا یہ رشتہ اس طرح سے چلتا رہتا ہے۔ میرے بھتیجے فاروق کی بیوی کشور جب ساہیوال سے اپنے میکے اسلام آباد گئی، تو کشور نے جاتے ہوئے(اس کا خاوند فاروق انکم ٹیکس آفیسر ہے اور اس نے سی ایس ایس کیا ہوا ہے، کشور بھی بڑی پڑھی لکھی ذہین لڑکی ہے) ایک کاغذ پر لکھا، یہ تمھارے لئے ایک Instruction Paper ہے کہ دھوبی کو تین سو روپے دے دینا، دودھ والا ہر روز ایک کلو دودھ لاتا ہے، اس کو کم کرکے پونا سیر کر دینا اور بلی کے لئے جو قیمہ ہے ، یہ میں نے ڈیپ فریزر میں رکھ کر اس کی “پڑیاں“ بنا دی ہیں اور ان کے اوپر Datesبھی لکھی ہوئی ہیں، روز ایک پڑیا نکال کر اس کو صبح کے وقت دینی ہے(اس کی سیامی بلی ہے، وہ قیمہ ہی کھاتی ہے)۔ اس نے اور دو تین Instructionsلکھی تھیں کہ مالی جب آئے تو اسے کہنا ہے کہ فلاں پودے کاٹ دے، فلاں کو “وینگا“(ٹیڑھا) کر دے اور فلاں کی جان مار دے، جوجو بھی اس نے لکھنا تھا، ایک کاغذ پر لکھ دیا۔

    اس نے اپنے خاوند سے کہا کہ ساری چیزیں ایمانداری کے ساتھ ٹٍک کرتے رہنا کہ یہ کام ہو گیا ہے۔ جب وہ ایک مہینے کے بعد لوٹ کر آئی اور اس نے وہ کاغذ دیکھا، تو اس کے Dutiful خاوند نے ساری چیزوں کو ٹٍک کیا ہوا تھا۔ اس نے آخر میں کاغذ پر یہ بھی لکھا تھا کہ “مجھ سے محبت کرنا نہیں بھولنا“ جب اس نے ساری چیزیں ٹٍک کی ہوئی دیکھیں اور آخری ٹٍک نہیں ہوئی تو اس نے رونا، پیٹنا شروع کر دیا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے باقی کام تو نہایت ذمہ داری سے کئے ہیں، یہ ٹٍک کیوں نہیں کی؟ تب اس(فاروق) نے کہا کہ پیاری بیوی جان یہ تو میں ٹٍک کر نہیں سکتا، کیونکہ یہ تو Continuous Process ہے۔محبت کا عمل تو جاری رہتا ہے۔ یہ کہیں رُکتا نہیں ہے۔ محبت گوالے کا دودھ نہیں ہے، یا اخبار کا بل نہیں ہے، اس کو میں کیسے ٹٍک کر سکتا تھا؟ یہ تو چلتی رہے گی۔ یہ کاغذ ایسا ہی رہے گا۔ تم سو بار مجھے لکھ کر دے جاؤ، ہزار بار میں ہر آئٹم کو ٹٍک کروں گا، لیکن یہ معاملہ تو ایسے ہی چلتا رہے گا۔ تو یہ ایک انوسٹمنٹ ہے، وقت کی۔ پلیز! خدا کے واسطے اس بات کو یاد رکھیئے۔ بظاہر یہ بڑی سیدھی سی اور خشک سے نظر آتی ہے، لیکن آپ کو اپنا وقت دینا ہوگا، چاہے تھوڑا ہی، بے حد تھوڑا ہو اور چاہے زندگی بڑی مصروف ہو گئی ہو۔

    واقعی زندگی مصروف ہو گئی ہے، واقعی اس کے تقاضے بڑے ہو گئے ہیں، لیکن جب انسان انسان کے ساتھ رشتے میں داخل ہوتا ہے، تو سب سے بڑا تحفہ اس کا وقت ہی ہوتا ہے۔ وقت کے بارے میں ایک بات اور یاد رکھئے کہ جب آپ اپنا وقت کسی کو دیتے ہیں تو اس وقت ایک عجیب اعلان کرتےہیں اور بہت اونچی آواز میں اعلان کرتے ہیں، جو پوری کائنات میں سنا جاتا ہے۔ آپ اس وقت یہ کہتے ہیں کہ “اس وقت میں اپنا وقت اس اپنے دوست کو دے رہی ہوں، یا دے رہا ہوں۔ اے پیاری دنیا! اے کائنات!! اس بات کو غور سے سنو کہ اب میں تم ساری کائنات پر توجہ نہیں دے سکتا، یا دے سکتی، کیونکہ اس وقت میری ساری توجہ یہاں مرکوز ہے۔“آپ اعلان کریں یا نہ کریں، کہیں یا نہ کہیں جس وقت آپ ہم آہنگ ہوتے ہیں اور ایمانداری کے ساتھ وقت کسی کو دے رہے ہوتے ہیں، تو پھر یہ اعلان بار بار آپ کے وجود سے، آپ کی زبان سے،آپ کے مسام سے آپ کی حرکت سے نکلتا چلا جائے گا۔ توجہ ہی سب سے بڑا راز ہے۔

    ایک دن ہمارا ڈرائیور نہیں تھا۔ میری بہو درس میں جاتی ہے، تو میں نے اس سے کہا کہ تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟ میں تمھیں چھوڑ دیتا ہوں۔ دن کے وقت میں گاڑی چلا لیتا ہوں۔ میں نے کہا۔ اس پر اس نے کہا، ٹھیک ہے۔ ماموں آپ مجھے چھوڑ آئیں بڑی مہربانی۔ جب میں اسے اس جگہ لے گیا، جس مقام پر بیٹھ کر خواتین درس دیتی ہیں، تو ظاہر ہے میں تو آگے نہیں جا سکتا تھا، میں نے اسے اتارا۔اسی اثناء میں، میں نے درس دینے والی خاتون کا عجیب اعلان سنا۔ جو میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کی قسمت میں تو نہیں۔ میں نے مردوں کے بڑے بڑے جلسے دیکھے ہیں۔ ان میں، میں نے اتنی خوبصورت بات نہیں سنی۔ وہ بی بی اندر کہ رہی تھیں کہ “اے پیاری بچیو اور بہنو! اگر تم اپنی بیٹی سے بات کر رہی ہو، یا اپنے خاوند سے مخاطب ہو، یا اپنی ماں کی بات سن رہی ہو اور ٹیلیفون کی گھنٹی بجے تو ٹیلیفون پر توجہ مت دو، کیونکہ وہ زیادہ اہم ہے، جس کو آپ اپنا وقت دے رہی ہو۔ چاہے کتنی ہی دیر وہ گھنٹی کیوں نہ بجتی رہے، کوئی آئے گا سن لے گا۔“ یہ بات میرے لئے نئی تھی اور میں نے اپنے حلقۂ احباب میں لوگوں یا دوستوں سے کبھی ایسی بات نہیں سنی تھی۔

    میں اس خاتون کی وہ بات سن کر بہت خوش ہوا اور اب تک خوش ہوں اور اگر یہ بات ان بیبیوں نے سمجھی ہے تو یہ بے حد قیمتی بات ہے اور غالباً انہوں نے اس سے قیمتی بات اس روز کے درس میں اور نہیں دی ہوگی۔ اب آپ بڑے ہو گئے ہیں، آپ کو وقت کی پیچیدگی کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ایک آپ کو چھپے چھپائے مسائل ملتے ہیں اور ایک وہ ہیں، جن کو آپ جیسے بچے اپنے کالج کے برآمدوں میں ستونوں کے ساتھ ٹیک لگا کر سوچتے ہیں۔ آپ ان مسائل کو سوچیں، جو آپ کی زندگیوں کے ساتھ ٹچ کرتے ہیں۔ گزرتے، لمس کرتے اور جیسے پنجابی میں کہتے ہیں “کھیہ“ کے جاتے ہیں، پھر آپ کی سوچ شروع ہوگی، ورنہ پٹے ہوئے سوال جو چلے آ رہے ہیں، انگریز کے وقتوں سے انہی کو آپ اگر Repeat کرتے رہیں گے، تو پھر آپ آنے والے زمانے کو وہ کچھ عطا نہیں کر سکیں گے، جو آپ کو عطا کرنا ہے۔ اس وقت کا تعلق حال سے ہے۔ جب آپ کسی کو وقت دیتے ہیں، یا کوئی آپ کو وقت دیتا ہے، اپنا لمحہ عطا کرتا ہے تو آپ حال میں ہوتے ہیں، اس کا تعلق ماضی یا مستقبل سے نہیں ہوتا۔ لیکن کبھی کبھی (یہ بات میں تفریح کے طور پر کرتا ہوں، تاکہ اپنے استاد کو بہت داد دے سکوں اور ان کا مان بڑھانے کے لئے میں ان کے سامنے عاجزی سے کھڑے ہونے کے لئے کہتا ہوں) جس زمانے میں ہمارے استاد پطرس بخاری ہمیں گورنمنٹ کالج چھوڑ کر “یو این او“ میں چلے گئے تھے اور وہ نیویارک میںرہتے تھے، جس علاقے یا فلیٹ میں وہ رہتے تھے، وہاں پر استادٍ مکرم بتاتے ہیں کہ رات کے دو بجے مجھے فون آیا اور بڑے غصے کی آواز میں ایک خاتون بول رہی تھیں۔ وہ کہ رہی تھیں کہ آپ کا کتا مسلسل آدھ گھنٹے سے بھونک رہا ہے، اس نے ہماری زندگی عذاب میں ڈال دی ہے۔ میرے بچے اور میرا شوہر بے چین ہو کر چارپائی پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کی آواز بند نہیں ہوتی۔اس پر بخاری صاحب نے کہا کہ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ میرا کتا اس طرح سے Behaveکر رہا ہے۔لیکن میں کیا کروں، میں مجبور ہوں۔ اس پر اس خاتون نے غصے میں آکر اپنا فون بند کر دیا۔ اگلے ہی روز بخاری صاحب نے رات ہی کے دو بجے ٹیلیفون کر کے اس خاتون کو جگایا اور کہا کہ محترمہ! میرے پاس کوئی کتا نہیں ہے، مجھے کتوں سے شدید نفرت ہے۔ کل رات جو کتا بھونکا تھا، وہ میرا نہیں تھا۔اب دیکھئے کہ انہوں نے کس خوبصورتی سے حال کو مستقبل سے جوڑا، یا میں یہ کہوں گا کہ ماضی کو مستقبل کے ساتھ جوڑا۔ یہ بخاری صاحب کا ہی خاصہ تھا۔

    میں اب آپ سے بڑی عجیب و غریب بات عرض کرنے لگا ہوں۔ مجھے اپنا وہ زمانہ یاد آگیا، جلدی میں وہ بات بھی بتا دوں۔ جب میں اٹلی میں رہتا تھا۔ روم میں ایک فوارہ ہے، جس میں لوگ پیسے پھینکتے ہیں۔ میں وہاں راستے میں کھڑا ہو گیا۔ وہاں بہت سارے امریکن ٹورسٹ آئے تھے۔ ایک بڈھا امریکی بھی اس میں پیسے پھینک رہا تھا۔اس کی بیوی ہنس کر اس سے کہنے لگی کہ “جارج! میرا نہیں خیال تھا کہ تم اس طرح کے دقیانوسی اور اتنے پرانی باتوں کو ماننے والے ہوگے۔ اور کیا تم تسلیم کرتے ہو کہ اس طرح سے باتیں پوری ہوتی ہیں؟“ اس نے کہا کہ دیکھئے یہ جو میری بات یا منت تھی، یہ تو کب کی پوری ہو چکی ہے۔ اب تو میں اس کی قسطیں ادا کر رہا ہوں۔“یہ ساری محبت اور Attachmentکی باتیں ہیں، جن کا ہمارے ہاں رواج کم ہی ہے۔

    جس طرح سے میں وقت کی بات آپ کی خدمت میں عرض کر رہا تھا اور اسے تحفے کے طور پر ادا کرنے کے لئے آپ کو رائے دے رہا تھا، اسی طرح وقت ہی سب سے بڑا دشمن بھی ہے، کیونکہ جب آپ کسی کو قتل کر دیتے ہیں تو اس سے کچھ نہیں لیتے، سوائے اس کے وقت کے۔ اس نے ابھی سوات دیکھنا تھا، ابھی ڈھاکہ جانا تھا۔ لیکن آپ نے اس سے اس کا وقت چھین لیا۔ جب آپ کسی انسان پر بہت ظلم کرتےہیں، بڑی شدت کا تو آپ اس سے اس کا وقت چھین لیتے ہیں۔ ابھی اس نے نیویارک دیکھنا تھا، ابھی اس نے کئی پینٹنگز بنانی تھیں، ابھی اس نے گانے گانے تھے، ابھی اس نے ناچنا تھا اور وہ سب آپ نے چھین لیا۔ وقت کا بھید پکڑا نہیں جا سکتا۔ اس کی پیچیدگی کو آسانی نے سلجھایا نہیں جا سکتا، لیکن یہ بات یاد رکھئے یہ آپ کے، میرے اور ہم سب کے اختیار میں ہے کہ ہم وقت دیتے ہیں تو ہمارا مدٍ مقابل زندہ ہے۔ اگر اس سے وقت لے لیتے ہیں، تو روح اور قالب ہونے کے باوصف وہ مر جاتاہے۔میں تو کسی کو بھی وقت نہیں دے سکا اور نہ ہی آج شام ایسا کر سکوں گا۔ اپنے دوست کو پھولوں کا گلدستہ ہی بھیج دوں گا، جو میری بدقسمتی اور کوتاہی ہے۔ آپ دوسروں کو وقت دینے کی کوشش ضرور کیجئے گا۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ نگہبان!![/right:25i57n4h]

    نوٹ: لڑی ابھی جاری ہے۔۔۔
     
  12. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    خوشی جی،!!!!
    آپ بھی دل پراثر لے لیتی ھیں، عقرب جی نے تو معذرت بھی طلب کرلی تھی اور میں نے تو آپکو اجازت دے دی ھے کہ میرے معاملے میں آپ بلا جھجک تنقید یا اصلاح کر سکتی ھیں، مجھے تو بہت اچھا لگتا ھے کہ میں اسی بہانے اپنی درستگی کرلیتا ھوں، میں تو ویسے بھی کبھی برا نہیں مانتا ھوں،!!!!!
    خوش رھیں،!!!!!
     
  13. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 4
    چھوٹا کام


    رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالٰی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالٰی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا- میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہئے- ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں۔ لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں۔

    ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اُس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اُسے ضرورت ہو گی- لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اُس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائے گی۔

    وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھہ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مُسکرانے کی ضرورت ہے- یہ ایک راز ہے جو سکولوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا- ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں- مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں- میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، اُن سے کوئی کام لیں گے- نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا- میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں- بتاؤ کس کا چاہئے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا- میں نے کہا کہ 931416, کیونکہ تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکو گے- کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملے گا ناں!

    آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے- وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ اچھا سا خانساماں کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ- اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو-ان بابوں کے پاس کچھ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے، جو میں نے متجسّس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا- میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے- یا اللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے- مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے کام نہ کرو-چھوٹے کاموں کو مت بھولیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں- چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو۔

    جب ہم بابا جی کے پاس ڈیرے پر گئے تو اُنہوں نے ہمیں مٹر چھیلنے پر لگا دیا- میں نے تھری پیس سوٹ پہن کر ٹائی لگا رکھی تھی، لیکن مٹر چھیل رہا تھا، حالانکہ میں نے ساری زندگی کبھی مٹر نہیں چھیلے تھے- پھر اُنہوں نے لہسن کو چھیلنے پر لگا دیا اور ہاتھوں سے بُو آنا شروع ہو گئی- پھر حکم ہوا کہ میتھی کے پتّے اور " ڈنٹھل“ الگ الگ کرو- اس مشقّت سے اب تو خواتین بھی گھبراتی ہیں- ہماری ایک بیٹی ہے زونیرا، اُس کو کوئی چھوٹا سا کام کہ دیں کہ بھئی یہ خط پہنچا دینا تو کہتی ہے، بابا یہ معمولی سا کام ہے- مجھے کوئی بڑا سا کام دیں- اتنا بڑا کہ میں آپ کو وہ کر کے دکھاؤں (کوئی شٹل میں جانے جیسا کام شاید) میں نے کہا یہ خط تو پہنچا دیتی! کہنےلگی، یہ تو بابا بس پڑا ہی رہ گیا میرے پاس- چھوٹے چھوٹے کاموں سے بابوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہماری زندگی میں ڈسپلن آئے۔

    ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے- میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے- اب وہ مُسلمان ہو گیا ہے- اُس کی آواز بڑی خوبصورت آواز ہے- میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مُسلمان ہو گیا ہے، اُس سے ملنے گیا- وہ اپنے مُسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا- اُس نے مُسلمان ہونے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورۂ روم پڑھ کر مُسلمان ہوا ہے- میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورۂ روم میں کیا نظر آٰیا- میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں- اُس نے کہا نہیں- اسلام کا نام تو جلّی حروف میں سامنے دیوار پر بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا ہے- میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں- خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں سے نکلنے کا بھی ایک انداز ہے- ہم نکلیں گے- میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھ سات سو امریکی مُسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھ سات سو کینیڈین مُسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھ نو سو سکینڈے نیوین مُسلمان ہوجائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑے گا، کیونکہ We are Disciplined۔اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا- میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا- اُس کی یہ بات سُن کر اور سوچا کہ دیکھو! ہر حال میں ان کی "چڑھ“ مچ جاتی ہے- یہ جو گورے ہیں یہ یہاں بھی کامیاب ہو جائیں گے-

    اسلام، جو ہم کو بہت پیارا ہے- ہم نعرے مار مار کر، گانے گا گا کر یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ ہمیں مل نہیں رہا- میں نے اُس سے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی حصّہ نہیں ہوگا؟ تو اُس نے کہا کہ نہیں! آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اس میں کوئی حصّہ نہیں ہے- میں نے کہا کہ یار! ہمارا بھی جی چاہے گا کہ ہمارا بھی اس میں کوئی حصّہ ضرور ہو- کہنے لگا، ایسا کریں گے کہ جب ہمارا قافلہ چلے گا تو تم بھی بسترے اُٹھا کر پپیچھے پیچھے چلتے آنا اور کہا Sir we are also Muslim - لیکن آپ میں وہ ڈسپلن والی بات ہے نہیں- اور دنیا جب آگے بڑھی ہے تو وہ نظم سے اور ڈسپلن سے ہی آگے بڑھی ہے- جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقّرر ہیں- وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی- اس کی رکعات مقّرر ہیں- آپ مغرب کی تین ہی پڑھیں گے- آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ، اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی- آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑے گا- پھر آپ حج کرتے ہیں- اس میں کچھ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں- پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ہے اور جو یہ کر گیا، اُس کا حج ہو گیا، کچھ لمبا چوڑا کام نہیں -

    دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے- ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے- جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں- کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا- یہ اُس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا- ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا- ان سے ہماری محبتّیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے- افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکّام سے ملے-

    ]ایک گاؤں میں بہت دُور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں- دھواں نکل رہا تھا- میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے- کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں-جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں- ہم نے اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم سٹیل بنا رہی ہیں- میں نے کہا کہ سٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے- اُنہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے- ہمارے پاس کوئی سٹیل مل نہیں ہے- ہم نے اپنے طریقے کا سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے- یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھ سٹیل کا ایک "ڈلا“ یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں- ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا-

    اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کی بدلے لے لیتے ہیں- میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سُبحان اللہ، ان کی کیا ہمت تھی- اُن کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو مُلک کی کمی پوری ہوگی- چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے- اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے-

    اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ ایک بڑا سخت قسم کا یہودی تھا- اس کی کوئی تیرا چودہ منزلہ عمارت تھی- صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر "ٹاکی“ لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹڑی ہوتی ہے اُسے صاف کر رہا ہوتا- میں اُس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر-اُس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا- میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اُس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفّت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے- وہ چھوٹے کام ضرور کرے- ہم کو یہ نوکری ملی ہے- حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے- اُس نے کہا کہ آپ کے نبیؐ اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے- قمیض کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے- کپڑے دھو لیتے تھے- راستے سے "جھاڑجھنکار“ صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟ میں کہنے لگا مجھےتو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا- وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا- مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم اُستاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں- جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو- اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے- تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا- ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا- وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں-آپ کا وصف یہ ہونا چاہئے کہ آپ اپنی بات اُن کے لئے کہیں- جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائے گی- میں اُس کی باتوں کو کبھی بُھلا نہیں سکتا- جب میں اپنے بابا جی کے پاس آیا تو میں نے کلاؤ کی یہ بات اُنہیں بتائی، اُنہوں نے کہا کہ دیکھو کچھ ہماری ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ مجھے سکھایا گیا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- سبزیاں چھیلنے کی تو میری پریکٹس ہو چکی تھی- اب بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- اب یہ بڑا مشکل کام ہے- میں کبھی ایک آنکھ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھ کانی کرتا، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈالتا تھا-

    خیر! میں نے ان سے کہا کہ اچھا جی دھاگہ ڈال دیا، اس کا فائدہ؟ کہنے لگے کہ اس کا یہ فائدہ ہے کہ اب تم کسی کا پھٹا ہوا کپڑا، کسی کی پھٹی ہوئی پگڑی سی سکتے ہو۔ جب تک تمہیں لباس سینے کا فن نہیں آئے گا، تم انسانوں کو کیسے سیؤ گے، تم تو ایسے ہی روگے، جیسے لوگ تقریریں کرتے ہیں۔بندہ تو بندے کے ساتھ جڑے گا ہی نہیں۔ یہ سوئی دھاگے کا فن آنا چاہیئے۔ ہماری مائیں بہنیں بیبیاں جو لوگوں کو جوڑ کے رکھتی تھیں، وہ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرتی تھیں۔

    آپ ایک لمحے کے لئے یہ بات سوچیں کہ اس ملک کی آبادی 14 کروڑ ہے اور ان 14 کروڑ بندوں کو کس طرح کھانا مل رہا ہے۔ کیا کوئی فیکٹری انہیں کھانا فراہم کرتی ہے یا کوئی ٹرک آتا ہے؟ آپ اپنے گھر تشریف لے جائیں گے اور ٹھنڈا " بسا" بینگن گرم کرکے یا ا مّاں سے کہیں کہ دال ڈال دیں، مکس کرکے گھی ڈال دیں، اس طرح ہمیں کھانا مل رہا ہے اور ان چھوٹے کاموں سے کتنی بڑی آبادی پل رہی ہے۔ آپ اس بارے ضرور سوچیئے گا کہ اگر کام فیکٹر يوڼڼں اور بڑی بڑی چیزوں سے ہی ہوتے تو پھر تو سب بھوکے رہ جاتے۔ یہ تو خواتین کا ہی خاصا ہے کہ وہ سب کوکھانا بناکر دیتی ہیں۔

    آپ ان چند بڑے بڑے اشتہاروں کی طرف نہ دیکھیں، جن میں لڑکیاں برگر کھارہی ہوتی ہیں۔ ان کے ہونٹ آدھے لپ اسٹک سے لال ہوتے ہیں، آدھی کیچپ سے لال۔ بڑا خوبصورت اشتہار ہوتا ہے جیسے شیرنی ہرن کا "پٹھا" کھارہی ہو۔ گھر کے لوگوں کو بسم اللہ پڑھ کر کھانا دینے کا سارا درجہ خواتین ہی کو حاصل ہے۔ جب گھروں میں یہ خواتین کھانا پکانے کے لئے نہ ہوں تو مرد تو بھوکے رہ جائیں۔ ان مردوں کو تو نہ کھانا پکانا آتا ہے نہ گھر چلانا۔

    یہ ضرور یاد رکھیئے کہ انبیاء کی غلامی یا ان کے نوکری میں شامل ہونے کے لئے چھوٹے کام کو ضرور اختیار کریں۔اگر آپ ان کی نوکری چاہتے ہیں تو! کیونکہ انہوں نے یہ کام کئے ہیں۔ میرا منجھلا بیٹا جب ایف اے میں تھا تو کہنے لگا مجھے دو بکریاں لے دیں، پیغمبروں نے بکریاں چَرائی ہیں، میں بھی چَراؤں گا، ہم نے اس کو بکریاں لے دیں، لیکن وہ پانچویں چھٹے دن روتا ہوا آگیا اور کہنے لگا یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں ایک کو کھیت سے نکالتا ہوں تو دوسری بھاگ کر ادھر چلی جاتی ہے۔ پھر اس نے دونوں کے گلے میں رسی ڈال دی۔

    میں نے باباجی سے پوچھا کہ انبیاء کو بکریاں چَرانے کا حکم کیوں دیا جاتا تھا، تو بابا جی نے فرمایا کہ چونکہ آگے چل کر زندگی میں ان کو نہ ماننے والے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان کا کفار سے واسطہ پڑنا تھا۔ اس لئے ان کو بکریوں کے ذریعے سے سکھایا جاتا تھا، کیونکہ دنیا میں جانوروں میں نہ ماننے والا جانور بکری ہی ہے۔ اپنی مرضی کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، اس پر غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پُر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھہ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اُس کے سر کی ایک چھوٹی سی جُنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی- اُس جُنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکّا- لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے- سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھہ کرتی ہے- میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتّی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے-

    یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں- میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا ( جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے- اُس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا- میں نے کہا کتنا، کہنے لگا آٹھ آنے- میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی- میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی،اُس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی-

    ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، مسکرانا سیکھنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو اتنا"چیڑا“ (سخت) نہ بنا لیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں- مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گےاور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور Relax رکھیں گے-

    اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز واقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عا فرمائے- اللہ حافظ !!

    نوٹ: لڑی ابھی جاری ہے۔۔۔
     
  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت خوب آزاد جی اشفاق احمد کی تحریر میں مجھے ہمیشہ ایک جادو سا لگا جو اپنی طرف کھینچ لیتا ھے جیسا کہ میں نے کہا کہ اشفاق احمد جی کو قریب سے دیکھنے سننے کا موقع ملا ھے شاید اس لئے بھی ان کی تحریریں مجھے بڑی سحر انگیز لگتی ھیں

    بہت شکریہ آزاد جی زاویہ 1 تو میرے پاس بھی ھے نمبر 2 نہیں تھا بہت شکریہ اس شئیرنگ کا
     
  15. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائی ۔ اہم شئیرنگ کا بہت شکریہ
     
  16. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 5
    خوشی کا راز


    ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔

    میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔

    میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔ میں جب نو سال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہو جاؤں اور کھیل پیش کروں، کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ تیرہ، چودہ، پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے۔ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں بہت متأثر ہوا۔ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرکس میں‌اپنے کمالات دکھاؤں گا، تو میری نانی “پھا“ کر کے ہنسی اور کہنے لگیں، ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں‌ کام کرے گا۔ میری ماں‌ نے بھی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میں‌بھرتی ہو کر کیا کرنا ہے۔ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا۔ وہی ماں‌جس نے مجھے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان میں امان اور آسائش عطا کی تھی۔ وہ میری خواہش کی مخالفت کر رہی تھی۔

    میرے والد سن رہے تھے۔ انہوں‌نے کہا کہ نہیں، کیوں نہیں؟ اگر اس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ اب ایک میری ماں‌کی مہربانی تھی۔ ایک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوں‌نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی، بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نیلا اور پیلا پینٹ کر کے بھی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں۔ اس پر آپ کھیل کریں گے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔

    چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ گول چکر کاٹ سکتا تھا۔ بغیر پیچھے دیکھے ہوئے، آگے پیچھے آجا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم پر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں اچھالنے کی پریکٹس کی۔ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیا۔ وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا۔ وہ مجھے سے بھی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوں‌ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی، اس کو بھی میں‌نے ٹرینڈ کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔

    ہماری ایک “بُشی“ نامی کتا تھا، وہ لمبے بالوں والا روسی نسل کا تھا۔ اس کو ہم نے کافی سکھایا، لیکن وہ نہ سیکھ سکا۔ وہ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ کتا کافی ذہین ہوتا ہے۔ وہ بھونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا، مگر اوپر چڑھنے سے ڈرتا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ یہ کتا ہماری سرکس ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ جوکر کتا ہے اور یہ کوئی کھیل نہیں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

    خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تومیرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اُور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ صرف ابا جی ہی آتے تھے۔ ہم انہیں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس دیکھنے آئیے گا۔ وہ کہتے، میں‌ آؤں گا۔ وہ ہم سے ایک روپے کا ٹکٹ بھی لیتے تھے، جو ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔

    زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کیجئے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماں‌باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں‌ لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا، میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاں‌کیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔

    اس نے کہا، دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea، تو میں جلدی میں‌ایسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میں‌اس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میں‌نے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میں‌اقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ“ جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں‌رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔“ انسان کو خود یہ سوچنا چاہئے کہ جی مجھ میں‌فلاں تبدیلی آنی چاہئے۔ جی میں‌سیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میں‌اپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میں‌کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیں‌کی ہوتی ہے۔

    میں‌نے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پر ویسی نہیں‌ہے، جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیں‌کہا کہ عقل کی بات کر، تو کیا کہ رہا ہے؟‌اس نے مجھے یہ کہنے کی بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماں‌نے مجھے بادوباراں‌کے طوفان میں‌یہ نہیں‌کہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور میں اس میں‌کمنٹری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیں‌کر سکا تھا کہ اگلے دن میں‌نے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماں‌میں۔ میں‌نکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔

    جب آپ زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہیں، تو جب تک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہ کریں گے اور بڑے میدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تیار کریں گے، وہاں‌نہیں جا سکیں‌گے۔ آپ ہمیشہ کسی “بابے“ کی بابت پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے باباجی سے فیصل آباد سے آنے والے صاحب نے بھی یہی پوچھا اور کہنے لگے کہ سائیں صاحب! آپ کو تو ماشاء اللہ خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ دیا ہے۔ آپ ہم کو کسی “قطب“ کے بارے میں‌بتلا دیں۔ باباجی نے ان کی یہ بات نظر انداز کر دی۔ وہ صاحب پھر کسی قطب وقت کے بارے دریافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تیسری بار یہی پوچھا تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟

    آدمی کا شاید اس سے یہی مطلب یا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور میں اس کی غلطیاں‌ نکالوں۔اگر روح‌کی دنیا کو ٹٹولنے کا کوئی ایسا ارادہ ہو یا اس دنیا میں‌کوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ “میں ‌آگیا“ تو اس کے لئے ایک راستہ متعین ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ تبھی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائریکٹ کبھی وہاں‌نہیں جا سکتے۔آپ کو اس دنیا کے اندر کوئی پیرا شوٹ لے کر نہیں جائے گا۔ جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں‌ رونما ہونگی، تو جا کر کہیں بات بنے گی۔

    میرے بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہے تو میرے پاس آکر مہینے دو گزار لیں (ان کا رینالہ خورد میں ایک مرغی خانہ ہے)۔ میں‌وہاں‌گیا، بچے بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر تو میری جان بڑی اذیت میں پھنس گئی۔ وہ اچھی سر سبز جگہ تھی۔ نہر کا کنارہ تھا، لیکن وہ جگہ میرے لئے زیادہ Comfortable ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ آسائشیں‌میسر نہیں تھیں۔ ایک تو وہاں‌مکھیاں‌بہت تھیں، دوسرے مرغی خانے کے قریب ہی ایک اصطبل تھا، وہاں‌سے گھوڑوں‌کی بو آتی تھی۔ تیسرا وہاں‌ پر مشکل یہ تھی کہ وہاں ایک چھوٹا فریج تھا، اس میں ضرورت کی تمام چیزیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں اور بار بار بازار جانا پڑتا تھا۔یہ مجھے سخت ناگوار گزرتا تھا۔

    اب دیکھئے خدا کی کیسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا میں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میں اصطبل میں‌یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کیا جا سکے۔ وہاں‌جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے تینوں بچے گھوڑوں‌کو دیکھنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ صبح‌جاگتے تھے تو سب سے پہلے آکر گھوڑوں کو دیکھتے۔ انہیں گھوڑوں کے ساتھ اتنا عشق ہو گیا تھا۔ ان میں ایک گھوڑا ایسا تھا جو بڑا اچھا تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ ہنہنا کر ہنساتا تھا اور اگر وہ “ٹینے مینے“ بچے وقت پر نہیں پہنچتے تھے، تو شاید انہیں بلاتا تھا، اس گھوڑے کی ہنہناہٹ سے یہ اندازہ ہوتا تھا۔ اب میں نے کہا کہ نہیں، یہ خوشبو یا بدبو، یہ اصطبل اور گھوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجھے وارے میں ہے اور اب مجھے یہ گھوڑے پیارے ہیں۔ بس ایسے ٹھیک ہے۔

    ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میں‌مکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میں‌مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میں‌نے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاں‌گند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میں‌لوٹ کر آئی اور میں‌نے سوچا کہ مجھے اس کمرے میں‌کوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاں‌کی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔

    جب میں سودا لینے کے لئے(جس سے میں بہت گھبراتا ہوں‌) ایک میل کے فاصلے پر گیا، تو میں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطیوں کی دکانیں‌دیکھیں، جو ہمارے بڑے شہروں‌ میں ‌نہیں ہوتیں۔ وہاں‌ پر میں‌نے بڑی دیر بعد دھونکنی کے ساتھ برتن قلعی کرنے والا بندہ دیکھا، پھر عجیب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ وہاں ایک کسان کا لڑکا دیکھا، جو گندم کے باریک “ناڑ“ جو تقریباً چھ انچ لمبا تھا، اسے کاٹ کر اس کے ساتھ “الغوزہ“ بجاتا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت الغوزہ بجاتا تھا کہ اگر آپ اسے سننے لگیں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بھول جائیں۔ پھر میں‌آرزو کرنے لگا کہ مجھے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ یہ چیزیں‌چھوٹی چھوٹی ہیں اور یہ بظاہر معمولی لگتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔

    اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے، اگر آپ اپنی “کنکری“ کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا، لیکن آپ کی یہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنایا دائرہ کہیں‌سے مل جائے اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قدرت کا ایک قانون ہے کہ جب تک آپ چھوٹی چیزوں ‌پر، معمولی سی باتوں ‌پر، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر اور اپنی بھتیجی پر، آپ جب تک اس کی چھوٹی سی بات کو دیکھ کر خوش نہیں‌ہوں‌گے، تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں‌کر سکے گی، کیونکہ روپیہ آپ کو‌خوشی عطا نہیں کر سکتا۔ روپے پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں، خواتین کپڑے خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔

    خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں‌کی ہوتی، تیار بھی نہیں‌ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ ‌پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں‌کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں ‌پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی Methodology مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں‌ پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں‌جانے کے آپ آرزومند ہیں۔

    سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں‌خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا اور مجھے آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ یہ کوشش ضرور کریں گے۔

    اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ بہت آسانیاں ‌عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین!!

    نوٹ: لڑی ابھی جاری ہے۔۔۔
     
  17. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائ اچھی شیئرنگ ہے بہت شکریہ :dilphool:
     
  18. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب آزاد بھائی ۔ آپ نے روحانیت پر بہت اچھا مضمون شئیر کیا ہے۔
    بہت شکریہ ۔
     
  19. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 6
    ماضی کا البم

    انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ آدمی کو کسی چیز سے ایسی چڑ ہو جاتی ہےکہ اس کا کوئی خاص جواز نہیں ہوتا مگر یہ ہوتی ہے- اور میں اُن خاص لوگوں میں سے تھا جس کو اس بات سے چڑ تھی کہ "دروازہ بند کر دو-“ بہت دیر کی بات ہے کئی سال پہلے کی، جب ہم سکول میں پڑھتے تھے، تو ایک انگریز ہیڈ ماسٹر سکول میں آیا- وہ ٹیچرز اور طلباء کی خاص تربیت کے لئے متعین کیا گیا تھا - جب بھی اُس کے کمرے میں جاؤ وہ ایک بات ہمیشہ کہتا تھا- "Shut The Door Behind You "
    پھر پلٹنا پڑتا تھا اور دروازہ بند کرنا پڑتا تھا-

    ہم دیسی آدمی تو ایسے ہیں کہ اگر دروازہ کُھلا چھوڑ دیا تو بس کُھلا چھوڑ دیا، بند کر دیا تو بند کر دیا، قمیص اُتار کے چارپائی پر پھینک دی، غسل خانہ بھی ایسے ہی کپڑوں سے بھرا پڑا ہے، کوئی قاعدہ طریقہ یا رواج ہمارے ہاں نہیں ہوتا کہ ہر کام میں اہتمام کرتے پھریں-

    یہ کہنا کہ دروازہ بند کر دیں، ہمیں کچھ اچھا نہیں لگتا تھا اور ہم نے اپنے طورپر کافی ٹریننگ کی اور اُنہوں نے بھی اس بارے میں کافی سکھایا لیکن دماغ میں یہ بات نہیں آئی کہ بھئی دروازہ کیوں بند کیا جائے؟ رہنے دو ،کُھلا کیا کہتا ہے، آپ نے بھی اپنے بچّوں، پوتوں، بھتیجوں کو دیکھا ہو گا وہ ایسا کرنے سے گھبراتے ہیں- بہت سال پہلےجب میں باہر چلا گیا تھا اور مجھے روم میں رہتے ہوئے کافی عرصہ گُزر گیا وہاں میری لینڈ لیڈی ایک "درزن“ تھی جو سلائی کا کام کرتی تھی- ہم تو سمجھتے تھے کہ درزی کا کام بہت معمولی سا ہے لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہ عزّت والا کام ہے- اُس درزن کی وہاں ایک بوتیک تھی اور وہ بہت با عزّت لوگ تھے-

    میں اُن کے گھر میں رہتا تھا- اُن کی زبان میں درزن کو "سارتہ" کہتے ہیں میں جب اُس کے کمرے میں داخل ہوتا اُس نے ہمیشہ اپنی زبان میں کہا”دروازہ بند کرنا ہے“ وہ چڑ جو بچپن سے میرے ساتھ چلی تھی وہ ایم اے پاس کرنے کے بعد، یونیورسٹی کا پروفیسر لگنے کے بعد بھی میرے ساتھ ہی رہی- یہ بات بار بار سُننی پڑتی تھی تو بڑی تکلیف ہوتی، اور پھر لوٹ کے دروازہ بند کرنا، ہمیں تو عادت ہی نہیں تھی-کبھی ہم آرام سے دھیمے انداز میں گروبا پائی سے کمرے میں داخل ہی نہیں ہوئے، کبھی ہم نے کمرے میں داخل ہوتے وقت دستک نہیں دی، جیسا کہ قران پاک میں بڑی سختی سے حُکم ہے کہ جب کسی کے ہاں جاؤ تو پہلے اُس سے اجازت لو، اور اگر وہ اجازت دے تو اندر آؤ، ورنہ واپس چلے جاؤ- پتہ نہیں یہ حُکم اٹھارویں پارے میں ہے کہ اُنتیسویں میں کہ”اگر اتّفاق سے تم نے اجازت نہ لی ہو اور پھر کسی ملنے والے کے گھر چلے جاؤ اور وہ کہ دے کہ میں آپ سے نہیں مل سکتا تو ماتھے پر بل ڈالے بغیر واپس آ جاؤ-“

    کیا پیارا حُکم ہے لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس کو تسلیم نہیں کرتا- ہم کہتے ہیں کہ اندر گُھسا ہوا ہے اور کہ رہا ہے کہ میں نہیں مل سکتا، ذرا باہر نکلے تو اس کو دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ، ہماری انا اس طرح کی ہے اور یہ کہنا کہ”دروازہ بند کر دیں“ بھی عجیب سی بات لگتی ہے- ایک روز میں نے بار بار یہ سُننے کے بعد روم میں زچ ہو کر اپنی اُس لینڈ لیڈی سے پوچھا کہ آپ اس بات پر اتنا زور کیوں دیتی ہیں- میں ایک بات تو سمجھتا ہوں کہ یہاں (روم میں) سردی بہت ہے، برف باری بھی ہوتی ہے کبھی کبھی اور تیز”وینتو“ (رومی زبان کا لفظ مطلب ٹھنڈی ہوائیں چلنا) بھی ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ کُھلے ہوئے دروازے سے میں بالکل شمشیر زنی کرتی ہوئی کمروں میں داخل ہوتی ہیں- یہاں تک تو آپ کی دروازہ بند کرنے والی فرمائش بجا ہے لیکن آپ اس بات پر بہت زیادہ زور دیتی ہیں- چلو اگرکبھی دروازہ کُھلا رہ گیا اور اُس میں سے اندر ذرا سی ہوا آگئی یا برف کی بوچھاڑ ہوگئی تو اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے-

    اس نے کہا کہ تم ایک سٹول لو اور یہاں میرے سامنے بیٹھ جاؤ (وہ مشین پر کپڑے سی رہی تھی ) میں بیٹھ گیا وہ بولی دروازہ اس لئے بند نہیں کرایا جاتا اور ہم بچپن سے بچّوں کو ایسا کرنے کی ترغیب اس لئے نہیں دیتے کہ ٹھنڈی ہوا نہ آجائے یا دروازہ کُھلا رہ گیا تو کوئی جانور اندر آ جائے گا بلکہ اس کا فلسفہ بہت مختلف ہے اور یہ کہ اپنا دروازہ، اپنا وجود ماضی کے اوپر بند کر دو، آپ ماضی میں سے نکل آئے ہیں اور اس جگہ پر اب حال میں داخل ہو گئے ہیں- ماضی سے ہر قسم کا تعلق کاٹ دو اور بھول جاؤ کہ تم نے کیسا ماضی گُزارا ہے اور اب تم ایک نئے مُستقبل میں داخل ہو گئے ہو- ایک نیا دروازہ تمہارے آگے کُھلنے والا ہے، اگر وہی کُھلا رہے گا تو تم پلٹ کر پیچھے کی طرف ہی دیکھتے رہو گے- اُس نے کہا کہ ہمارا سارے مغرب کا فلسفہ یہ ہے اور دروازہ بند کر دو کا مطلب لکڑی، لوہے یا پلاسٹک کا دروازہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب تمہارے وجود کے اوپر ہر وقت کُھلا رہنے والا دروازہ ہے- اُس وقت میں ان کی یہ بات نہیں سمجھ سکا جب تک میں لوٹ کے یہاں (پاکستان) نہیں آگیااور میں اپنےجن”بابوں“ کا ذکر کیا کرتا ہوں ان سے نہیں ملنے لگا۔ میرے”بابا“ نے مومن کی مجھے یہ تعریف بتائی کہ مومن وہ ہے جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہو اور مستقبل سے خوفزدہ نہ ہو- ( کہ یا اللہ پتہ نہیں آگے چل کے کیا ہونا ہے ) وہ حال میں زندہ ہو-

    آپ نے ایک اصلاح اکثر سُنی ہو گی کہ فلاں بُزرگ بڑے صاحبِ حال تھے- مطلب یہ کہ اُن کا تعلق حال سے تھا وہ ماضی کی یاد اور مستقبل کی فکر کے خوف میں مبتلا نہیں تھے- مجھے اُس لینڈ لیڈی نے بتایا کہ دروازہ بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب تم ایک نئے عہد، ایک نئے دور ایک نئے Era اور ایک اور وقت اور زمانے میں داخل ہو چکے ہیں اور ماضی پیچھے رہ گیا ہے- اب آپ کو اس زمانے سے فائدہ اُٹھانا ہے اور اس زمانے کے ساتھ نبرد آزمائی کرنی ہے ۔جب میں نے یہ مطلب سُنا تو ہم چکاچوند گیا کہ میں کیا ہم سارے ہی دروازہ بند کرنے کا مطلب یہی لیتے ہیں جو عام طور پر ہو یا عام اصطلاح میں لیا جاتا ہے- بچّوں کو یہ بات شروع سے سکھانی چاہئے کہ جب تم آگے بڑھتے ہو، جب تم زندگی میں داخل ہوتے ہو، کسی نئے کمرے میں جاتے ہو تو تمہارے آگے اور دروازے ہیں جو کُھلنے چاہئیں- یہ نہیں کہ تم پیچھے کی طرف دھیان کر کے بیٹھے رہو-

    جب اُس نے یہ بات کہی اور میں نے سُنی تو پھر میں اس پر غور کرتا رہا اور میرے ذہن میں اپنی زندگی کے واقعات، ارد گرد کے لوگوں کی زندگی کے واقعات بطور خاص اُجاگر ہونے لگے اور میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ہم لوگوں میں سے بہت سے لوگ آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جو ہر وقت ماضی کی فائل بلکہ ماضی کے البم بغل میں دبائے پھرتے ہیں- اکثر کے پاس تصویریں ہوتی ہیں- کہ بھائی جان میرے ساتھ یہ ہو گیا، میں چھوٹا ہوتا تھا تو میرے ابّا جی مجھے مارتے تھےسوتیلی ماں تھی، فلاں فلاں، وہ نکلتے ہی نہیں اس یادِ ماضی سے- میں نے اس طرح ماضی پر رونے دھونے والے ایک دوست سے پوچھا آپ اب کیا ہیں؟ کہنے لگے جی میں ڈپٹی کمشنر ہوں لیکن رونا یہ ہے کہ جی میرے ساتھ یہ زمانہ بڑا ظلم کرتا رہا ہے- وہ ہر وقت یہی کہانی سُناتے- ہمارے مشرق میں ایشیاء، فارس تقریباً سارے مُلکوں میں یہ رواج بہت عام ہے اور ہم جب ذکر کریں گے اس”دردناکی“ کا ذکر کرتے رہیں گے- ہماری ایک آپا سُکیاں ہیں- جو کہتی ہیں کہ میری زندگی بہت بربادی میں گزری بھائی جان، میں نے بڑی مشکل سے وقت کاٹا ہے- اب ایک بیٹا تو ورلڈ بینک میں ملازم ہے ایک یہاں چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہے- اہک بیٹا سرجن ہے ( ان کے خاوند کی بھی اچھی تنخواہ تھی، اچھی رشوت بھی لیتے رہے،اُنہوں نے بھی کافی کامیاب زندگی بسر کی ۔)

    میں نے ایک بار اُن سے پوچھا تو کہنے لگے بس گُزارا ہو ہی جاتا ہے، وقت کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں- میں نے کہا کہ آدھی رشوت تو آپ سرکاری افسر ہونے کے ناطے دے کر سرکاری سہولتوں کی مد میں وصول کرتے ہیں مثلاً آپ کی اٹھارہ ہزار روپے تنخواہ ہو گی تو ایک کار ایک دوسری کار، پانچ نوکر، گھر، یہ اللہ کے فضل سے بہت بڑی بات ہے کیا اس کے علاوہ بھی چاہیئے- وہ بولے ہاں اس کے علاوہ بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن ہم نے بڑا دُکھی وقت گُزارا ہے، مشکل میں گُزارا، ہمارا ماضی بہت دردناک تھا- وہ ماضی کا دروازہ بند ہی نہیں کرتے- ہر وقت یہ دروازہ نہ صرف کُھلا رکھتے ہیں بلکہ اپنے ماضی کو ساتھ اُٹھائے پھرتے ہیں- میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے، آج کے بعد آپ بھی غور فرمائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کے پاس اپنے ماضی کی رنگین البمیں ہوتی ہیں- ان میں فوٹو لگے ہوئے ہوتے ہیں اور دُکھ درد کی کہانیاں بھری ہوئی ہوتی ہیں- اگر وہ دُکھ درد کی کہانیاں بند کر دیں، کسی نہ کسی طور پر”تگڑے“ ہو جائیں اور یہ تہیہ کر لیں کہ اللہ نے اگر ایک دروازہ بند کیا تو وہ اور کھولے گا، تو یقیناً اور دروازے کُھلتے جائیں گے-

    اگر آپ پلٹ کر پیچھے دیکھتے جائیں گے اور اُسی دروازے میں سے جھانک کے وہی گندی مندی، گری پڑی چیزوں کو اکٹھا کرتے رہیں گے تو آگے نہیں جا سکتے- اس طرح سے مجھے پتہ چلا کہ Shut behind the door کا مطلب یہ نہیں ہے جو میں سمجھتا رہا ہوں- وہ تو اچھا ہو گیا کہ میں اتفاق سے وہاں چلا گیا ورنہ ہمارے جو انگریز اُستاد آئے تھے اُنہوں نے اس تفصیل سے نہیں بتایا تھا- آپ کو ہم کو، سب کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے کہ ماضی کا پیچھا چھوڑ دیں-

    ہمارے بابے، جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، بار بار کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا، اُن کے ڈیروں پر آپ جا کر دیکھیں، وہ ماضی کی بات نہیں کریں گے- وہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ آپ یہاں آگئے ہیں، یہ نئی زندگی شروع ہو گئی ہے، آپ بالکل روشن ہو جائیے، چمک جایئے- جب ہمارے جیسے نالائق بُری ہیئت رکھنے والے آدمی اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، تو وہ نعرہ مار کے کہتے ہیں”واہ واہ! رونق ہو گئی، برکت ہوگئی، ہمارے ڈیرے کی کہ آپ جیسے لوگ آ گئے-“ اب آپ دیکھئے ہمارے اوپر مشکل وقت ہے، لیکن سارے ہی اپنے اپنے انداز میں مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ پتا نہیں جی کیا ہوگا اور کیسا ہوگا ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں سوچنا چاہئے- ہم کوئی ایسے گرے پڑے ہیں، ہم کوئی ایسے مرے ہوئے ہیں، ہمارا پچھلا دروازہ تو بند ہے، اب تو ہم آگے کی طرف چلیں گے اور ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے، اس لئے کہ اللہ نے بھی حکم دے دیا ہے کہ مایوس نہیں ہونا، اس لئے حالات مشکل ہوں گے، تکلیفیں آئیں گی، بہت چیخیں نکلیں گی- لیکن ہم مایوس نہیں ہوں گے، کیونکہ ہمارے اللہ کا حکم ہے اور ہمارے نبیﷺ کے ذریعے یہ فرمان دیا گیا ہے کہ لَا تَـقنُـطـومِـن رحـمـۃِ اللہ (“یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں“)- بعض اوقات یہ پتا نہیں چلتا کہ اللہ کی رحمت کے کیا کیا رُوپ ہوتے ہیں- آدمی یہ سمجھتا ہے میرے ساتھ یہ زیادتی ہو رہی ہے، میں Demote ہو گیا ہوں، لیکن اس Demote ہونے میں کیا راز ہے؟ یہ ہم نہیں سمجھ سکتے- اس راز کو پکڑنے کے لئے ایک ڈائریکٹ کنکشن اللہ کے ساتھ ہونا چاہئے اور اُس سے پوچھنا چاہئے کہ جناب! اللہ تعالٰی میرے ساتھ یہ جو مشکل ہے، میرے ساتھ یہ تنزّلی کیوں ہے؟ لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں ملتا اور ہم پریشانی میں اتنا گُم ہوجاتے ہیں کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملتا، ہمارے ساتھ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں بازاروں میں جانے کا وقت مل جاتا ہے، تفریح کے لئے مل جاتا ہے،دوستوں سے ملنے، بات کرنے کا وقت مل جاتا ہے- لیکن اپنے ساتھ بیٹھنے کا، اپنے اندر جھانکنے کا کوئی وقت میسر نہیں آتا-

    آپ ہی نہیں، میں بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں- اگر میں اپنی ذات سے پوچھوں کہ”اشفاق احمد صاحب! آپ کو اپنے ساتھ بیٹھنے کا کتنا وقت ملتا ہے؟ کبھی آپ نے اپنا احتساب کیا ہے؟“تو جواب ظاہر ہے کہ کیا ملے گا- دوسروں کا احتساب تو ہم بہت کر لیتے ہیں-اخباروں میں، کالموں میں، اداریوں میں لیکن میری بھی تو ایک شخصیت ہے، میں بھی تو چاہوں گا کہ میں اپنے آپ سے پوچھوں کہ ایسا کیوں ہے، اگر ایسا ممکن ہو گیا، تو پھر خفیہ طور پر، اس کا کوئی اعلان نہیں کرنا ہے، یہ بھی اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ اُس نے ایک راستہ رکھا ہوا ہے، توبہ کا! کئی آدمی تو کہتے ہیں کہ نفل پڑھیں، درود وظیفہ کریں، لیکن یہ اُس وقت تک نہیں چلے گا، جب تک آپ نے اُس کئے ہوئے برے کام سے توبہ نہیں کر لی، توبہ ضروری ہے- جیسا آپ کاغذ لے کے نہیں جاتے کہ”ٹھپہ“ لگوانے کے لئے- کوئی "ٹھپہ“ لگا کر دستخط کردے گا اور پھر آپ کا کام ہو جاتا ہے، اس طرح توبہ وہ”ٹھپہ“ ہے جو لگ جاتا ہے اور بڑی آسانی سے لگ جاتا ہے،اگر آپ تنہائی میں دروازہ بند کر کے بیٹھیں اور اللہ سے کہیں کہ !”اللہ میاں پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا، مجھ سے یہ غلطی، گُناہ ہو گیا اور میں اس پر شرمندہ ہوں-“ ( میں یہ Reason نہیں دیتا کہ Human Being کمزور ہوتا ہے، یہ انسانی کمزوری ہے یہ بڑی فضول بات ہے ۔ایسی کرنی ہی نہیں چاہئے) بس یہ کہے کہ مجھ سے کوتاہی ہوئی ہے اور میں اے خداوند تعالٰی آپ سے معافی چاہتا ہوں اور میں کسی کو یہ بتا نہیں سکتا، اس لئے کہ میں کمزور انسان ہوں- بس آپ سے معافی مانگتا ہوں-

    اس طرح سے پھر زندگی کا نیا، کامیاب اور شاندار راستہ چل نکلتا ہے- لیکن اگر آپ اپنے ماضی کو ہی اُٹھائے پھریں گے، اُس کی فائلیں ہی بغل میں لئے پھریں گے اور یہی رونا روتے رہیں گے کہ میرے ابا نے دوسری شادی کر لی تھی، یا میرے ساتھ سختی کرتے رہے، یا اُنہوں نے بڑے بھائی کو زیادہ دے دیا، مجھےکچھ کم دے دیا، چھوٹے نے زیادہ لے لیا، شادی میں کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی- اس طرح تو یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا، پھر تو آپ وہیں کھڑے رہ جائیں گے، دہلیز کے اوپر اور نہ دروازہ کھولنے دیں گے، نہ بند کرنے دیں گے، بس پھنسے ہوئے رہیں گے- لیکن آپ کو چاہئے کہ آپ Shut Behind The Door کر کے زندگی کو آگے لے کر چلیں- آپ زندگی میں یہ تجربہ کر کے دیکھیں- ایک مرتبہ تو ضرور کریں- آپ میری یہ بات سننے کے بعد جو میری نہیں میری لینڈ لیڈی ، اُس اطالوی درزن کی بات ہے، اس پہ عمل کر کے دیکھیں-

    اس کے بعد میں نے رونا چھوڑ دیا اور ہر ایک کے پاس جا کر رحم کی اور ہمدردی کی بھیک مانگنا چھوڑ دی- آدمی اپنے دُکھ کی البم دکھا کر بھیک ہی مانگتا ہے نا! جسے سُن کر کہا جاتا ہے کہ بھئی! غلام محمّد، یا نور محمّد یا سلیم احمد تیرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی- اس طرح دو لفظ آپ کیا حاصل کر لیں گے اور سمجھیں گے کہ میں نے بہت کچھ سر کر لیا، لیکن وہ قلعہ بدستور قائم رہے گا، جسے فتح کرنا ہے- اگر آپ تہیہ کر لیں گے کہ یہ ساری مشکلات، یہ سارے بل، یہ سارے یوٹیلیٹی کے خوفناک بل تو آتے ہی رہیں گے، یہ تکلیف ساتھ ہی رہے گی، بچّے بھی بیمار ہوں گے، بیوی بھی بیمار ہوگی، خاوند کو بھی تکیلف ہو گی، جسمانی عارضے بھی آئیں گے، روحانی بھی، نفسیاتی بھی- لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے ہم تھوڑا سا وقت نکال کراور مغرب کا وقت اس کے لئے بڑا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ یوں تو سارے ہی وقت اللہ کے ہیں، اس وقت الگ بیٹھ کر ضرور اپنی ذات کے ساتھ کچھ گُفتگو کریں اور جب اپنے آپ سے وہ گُفتگو کر چکیں، تو پھر خفیہ طور پر وہی گُفتگو اپنے اللہ سے کریں، چاہے کسی بھی زبان میں، کیونکہ اللہ ساری زبانیں سمجھتا ہے، انگریزی میں بات کریں، اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی جس زبان میں چاہے اس زبان میں آپ کا یقیناً اُس سے رابطہ قائم ہو گا اور اس سے آدمی تقویت پکڑتا ہے، بجائے اس کے آپ مجھ سے آ کر کسی بابے کا پوچھیں، ایسا نہیں ہے- آپ خود بابے ہیں- آپ نے اپنی طاقت کو پہچانا ہی نہیں ہے- جس طرح ہمارے جوگی کیا کرتے ہیں کہ ہاتھی کی طاقت سارے جانوروں سے زیادہ ہے۔ لیکن چونکہ اس کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں، اس لئے وہ اپنی طاقت، وجودکو پہچانتا ہی نہیں- ہاتھی جانتا ہی نہیں کہ میں کتنا بڑا ہوں- اس طرح سے ہم سب کی آنکھیں بھی اپنے اعتبار سے چھوٹی ہیں اور ہم نے اپنی طاقت کو، اپنی صلاحیت کو جانا ہی نہیں- اللہ میاں نے تو انسان کو بہت اعلٰی و ارفع بنا کر سجود و ملائک بنا کر بھیجا ہے- یہ باتیں یاد رکھنے کی ہیں کہ اب تک جتنی بھی مخلوق نے انسان کو سجدہ کیا تھا، وہ انسان کے ساتھ ویسے ہی نباہ کر رہی ہے- یعنی شجر، حجر، نباتات، جمادات اور فرشتے وہ بدستور انسان کا احترام کر رہے ہیں- انسان سے کسی کا احترام کم ہی ہوتا ہے- اب جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، تو اس وقت کروڑوں ٹن برف کے۔ ٹو (K2) پر پڑی آوازیں دے کر پکار پکار کر سورج کی منّتیں کر رہی ہے کہ "ذرا ادھر کرنیں زیادہ ڈالنا، سندھ میں پانی نہیں ہے- جہلم، چناب خشک ہیں اور مجھے وہاں پانی پہنچانا ہے اور نوعِ انسان کو پانی کی ضرورت ہے-“ برف اپنا آپ پگھلاتی ہے اور آپ کو پانی دے کر جاتی ہے- صبح کے وقت اگر غور سے سوئی گیس کی آواز سُنیں اور اگر آپ اس درجے یا جگہ پر پہنچ جائیں کہ اس کی آواز سن سکیں، تو وہ چیخ چیخ کر اپنے سے سے نیچے والے کو کہ رہی ہوتی ہے”نی کُڑیو! چھیتی کرو- باہر نکلو، جلدی کرو تم تو ابھی ہار سنگھار کر رہی ہو- بچوں نے سکول جانا ہے- ماؤں کو انہیں ناشتہ دینا ہے- لوگوں کو دفتر جانا ہے- چلو اپنا آپ قربان کرو-“ وہ اپنا آپ قربان کر کے جل بھن کر آپ کا ناشتہ، روٹیاں تیار کرواتی ہے-

    یہ سب پھل، سبزیاں اپنے وعدے پر قائم ہیں- یہ آم دیکھ لیں، آج تک کسی انور راٹھور یا کسی ثمر بہشت درخت نے اپنا پھل خود کھا کر یا چوس کر نہیں دیکھا- بس وہ تو انسانوں سے کئے وعدے کی فکر میں رہتا ہے کہ میرا پھل توڑ کر بلوچستان ضرور بھیجو، وہاں لوگوں کو آم کم ملتا ہے- اس کا اپنے اللہ کے ساتھ رابطہ ہے اور وہ خوش ہے- آج تک کسی درخت نے افسوس کا اظہار نہیں کیا- شکوہ نہیں کیا کہ ہماری بھی کوئی زندگی ہے، جی جب سے گھڑے ہیں، وہیں گھڑے ہیں- نہ کبھی اوکاڑہ گئے نہ کبھی آگے گئے، ملتان سے نکلے ہی نہیں- میرا پوتا کہتا ہے”دادا! ہو سکتا ہے کہ درخت ہماری طرح ہی روتا ہو، کیونکہ اس کی باتیں اخبار نہیں چھاپتا-“ میں نے کہا وہ پریشان نہیں ہوتا، نہ روتا ہے، وہ خوش ہے اور ہوا میں جھومتا ہے- کہنے لگا، آپ کو کیسے پتا ہے کہ وہ خوش ہے؟ میں نے کہا کہ وہ خوش ایسے ہے کہ ہم کو باقاعدگی سے پھل دیتا ہے- جو ناراض ہو گا ، تو وہ پھل نہیں دے گا-

    میں اگر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھوں، میں جو اشفاق احمد ہوں، میں پھل نہیں دیتا- میرے سارے دوست میرے قریب سے گُزر جاتے ہیں- میں نہ تو انور راٹھور بن سکا، نہ ثمر بہشت بن سکا نہ میں سوئی گیس بن سکا-

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت اچھا مضمون ہے۔
    لیکن ماضی کو بھول جانا اور مستقبل کے لیے فکر مند نہ ہونا۔
    مجھ بےسمجھ کو سمجھ نہیں آیا ۔ :nose:

    خیر ۔ آزاد بھائی ۔ اچھی باتیں‌ہم تک پہنچانے کے لیے بہت شکریہ ۔
     
  21. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائ اِس شیئرنگ کا شکریہ
     
  22. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آزاد جی بہت شکریہ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا پلیز اسے مکمل ضرور کیجئے گا میرے پاس نہیں ھے زاویہ 2
     
  23. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 7
    ویل وشنگ


    میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ جب وقت ملے اور گھر میں کوئی دیوار ہو تو اُس میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ جب وقت ملے اور گھر میں کوئی دیوار ہو تو اُس کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ کر اپنا تجزیہ ضرور کیا جانا چاہئے- یہ ہے تو ذرا سا مشکل کام اور اس پر انسان اس قدر شدّت سے عمل پیرا نہیں ہو سکتا، جو درکار ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی اپنی باتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں- آپ نے سُنا ہوگا کہ یہ جو رفو گر ہیں، کشمیر میں برف باری کے دنوں میں اپنا سوئی دھاگہ لے کر چلے جاتے ہیں اور وہاں کپڑے کے اندر ہو جانے والے بڑے بڑے شگافوں کی رفو گری کا کام کرتے ہیں، جن میں خاص طور پر گرم کپڑوں کے شگاف اور”لگار“ اور چٹاخ جو ہوتے ہیں اُن کی رفو گری کرتے ہیں، وہ کہاں سے دھاگہ لیتے ہیں اور کس طرح سے اس کو اس دھاگے کے ساتھ مہارت سے ملاتے ہیں کہ ہم”ٹریس“ نہیں کر سکتے کہ یہاں پر اتنا بڑا (Gape) سُوراخ ہو گیا تھا، کیونکہ وہ بالکل ایسا کر دیتے ہیں، جیسے کپڑا کارخانے سے بن کر آتا ہے-

    یہ رفو گروں کا کمال ہے- وہ غریب لوگ اپنی چادر لے کر اور اپنی کانگڑی (مٹّی کی بھٹّی) سُلگا کر اُس میں کوئلے ڈال کر، دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوتے ہیں اور بہت بھلے لوگ ہیں یہ کشمیری لوگ، بڑی ہی بھلی کمیونٹی ہیں، کیونکہ وہ اپنا تجزیہ کرتے ہیں اور اُن کو پتہ چلتا رہتا ہے اپنے اس Self کا جو لے کر انسان پیدا ہوا تھا، محفوظ رکھا ہوا ہے یا نہیں- گو ہم نے تو اپنی Self کے اوپر بہت بڑے بڑے سائن بورڈ لگا لئے ہیں، اپنے نام تبدیل کر لئے ہیں، اپنی ذات کے اوپر ہم نے پینٹ کر لیا ہے- ہم جب کسی سے ملتے ہیں، مثلاً میں آپ سے اس اشفاق کی طرح نہیں ملتا، جو میں پیدا ہوا تھا، میں تو ایک رائٹر، ایک دانشور، ایک سیاستدان، ایک مکّار، ایک ٹیچر بن کر ملتا ہوں-اس طرح آپ جب مجھ سے ملتےہیں تو آپ اپنے اپنے سائن بورڈ مجھے دکھاتے ہیں- اصل Self کہاں ہے، وہ نہیں ملتی- اصل Self جو اللہ نے دے کر پیدا کیا ہے،وہ تب ہی ملتا ہے، جب آدمی اپنے نفس کو پہچانتا ہے،لیکن اُس وقت جب وہ اکیلا بیٹھ کر غور کرتا ہے، کوئی اُس کو بتا نہیں سکتا۔ اپنے نفس سے تعارف اُس وقت ممکن ہے جب آپ اُس کے تعارف کی پوزیشن میں ہوں اور اکیلے ہوں- جس طرح خُدا وند تعالٰی فرماتا ہے "جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا-“

    جس انسان نے خود کو پہچان لیا کہ میں کون ہوں؟ وہ کامیاب ہو گیا اور وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو باوجود اس کے کہ علم زیادہ نہیں رکھتے، اُن کی تعلیم بھی کچھ زیادہ نہیں، لیکن علم اُن پر وارد ہوتا رہتا ہے، جو ایک خاموش آدمی کو اپنی ذات کے ساتھ دیر تک بیٹھنے میں عطا ہوتا ہے-

    میں پہلے تو نہیں اب کبھی کبھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ ،اور عمر کے اس حصّے میں میری طبیعت پر ایک عجیب طرح کا بوجھ ہے، جو کسی طرح سے جاتا نہیں - میں آپ سے بہت سی باتیں کرتا ہوں- اب میں چاہوں گا کہ میں اپنی شکل آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ بھی میری مدد کریں، کیونکہ یہ آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ مجھ جیسے پریشان اور درد مند آدمی کا سہارا بن جائیں- ہمارے بابے جنکا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی محفل میں کسی یونیورسٹی، سیمینار، اسمبلی میں، کسی اجتماع میں یا کسی بھی انسانی گروہ میں بیٹھے کوئی موضوع شدّت سے ڈسکس کر رہے ہوں اور اُس پر اپنے جواز اور دلائل پیش کر رہے ہوں اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آجائے جو بہت طاقتور ہو اور اُس سے اندیشہ ہو کہ اگر میں یہ دلیل دوں گا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اُس آدمی کے پاس اس دلیل کی کاٹ نہیں ہو گی- شطرنج کی ایسی چال میرے پاس آ گئی ہے کہ یہ اس کا جواب نہیں دے سکے گا- اس موقع پر”بابے“ کہتے ہیں کہ"اپنی دلیل روک لو، بندہ بچا لو، اسے ذبح نہ ہونے دو، کیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے-“

    ہم نے تو ساری زندگی کبھی ایسا کیا ہی نہیں- ہم تو کہتے ہیں کہ” میں کھڑکار پادیاں گا-“ ہماری بیبیاں جس طرح کہتی ہیں کہ” میں تے آپاں جی فیر سدھی ہوگئی،اوہنوں ایسا جواب دتا کہ اوہ تھر تھر کنبن لگ پئی، میں اوہنوں اک اک سُنائی، اوہدی ماسی دیاں کرتوتاں، اوہدی پھوپھی دیاں وغیرہ وغیرہ-“

    ( باجی میں نے تو اُس کو کھری کھری سنا دیں، جس سے وہ تھر تھر کانپنے لگی- اُس کو اُس کی خالہ، پھوپھی سب کی باتیں ایک ایک کر کے سُنائیں)

    خیر انسان کمزور ہے، ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں-بڑی دیر کی بات ہے، 1946ء کی، جب پاکستان نہیں بنا تھا- میں اُس وقت بی اے کر چکا تھا اور تازہ تازہ ہی کیا تھا- ہمارے قصبے کے ساتھ ایک گاؤں تھا- اس میں ایک ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول تھا، وہاں کا ہیڈ ماسٹر چھٹی پر گیا- اُس کی جگہ تین ماہ کے لئے مجھے ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا- اب میں ایک پدّا سا (چھوٹے قد کا) نوجوان بڑے فخر کے ساتھ ایک سکول ہینڈل کر رہا ہوں- گو مجھے زیادہ تجربہ نہیں ہے، لیکن میں زور لگا کے یہ بتانا چاہتا ہوں دوسرے ماسٹروں کو کہ بی اے کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہ بیچارے نارمل سکول پڑھے ہوئے تھے-جیسا کہ ہر نئے آدمی کی عادت ہوتی ہے یا جو بھی کسی جگہ نیا آتا ہے، وہ ہمیشہ سسٹم ٹھیک کرنے پر لگ جاتا ہے- یہ بندے کے اندر ایک عجیب بلا ہے- میں نے بھی سوچا کہ میں سکول کا سسٹم ٹھیک کروں گا، حالانکہ مجھے چاہئے تو یہ تھا کہ میں پڑھاتا اور بہتر طور پر پڑھاتا اور جیسا نظام چل رہا تھا، اُسے چلنے دیتا، لیکن میں نے کہا نہیں، اس کا سسٹم بدلنا چاہئے- چنانچہ میں نے کہا یہ گملا ادھر نہیں اُدھر ہونا چاہئے- وہ جو سن فلاور (سورج مُکھی) ہوتا ہے، وہ مجھے بہت بُرا لگتا ہے- اُس پیلے پھول کو میں نے وہاں سے نکال دینے کا حُکم دیا- اب اگلا پھٹا (ڈیسک) پیچھے کر کے پچھلا آگے کر کے سسٹم تبدیل ہو رہا ہے- گملوں کو گیرو لگا دو، سُرخ رنگ کا، سفیدی کر دو، تمام ماسٹر صاحبان پگڑی باندھ کر آئیں- اس طرح سکول میں سسٹم کی تبدیلی جاری تھی- ماسٹر بیچارے بھی عذاب میں مُبتلا ہو گئے- سکول میں چھٹی کے وقت پہاڑے کہلوائے جاتے تھے- چھ کا پہاڑہ ماسٹر صاحب کہلوا رہے تھے-

    " چھ ایکم چھ ، چھ دونی بارہ چھ تیا اٹھارا ، چھ چوکے چودی “

    میں نے سکول میں ایک شرط عائد کر دی کہ بچوں میں شرمندگی اور خفّت دور کرنے کے لئے ان کو سٹیج پر آنا چاہئے اور بلیک بورڈ (تختہ سیاہ) کے سامنے کھڑے ہو کر یہ پہاڑہ لکھنا چاہئے- چوتھی جماعت کا ایک لڑکا تھا، اب مجھے اُس کا نام یاد نہیں صادق تھا یا صدّیق- اُس نے تختہ سیاہ پر لکھنے سے انکار کر دیا کہ میں نہیں لکھوں گا- اُستاد نے کہا کہ یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا حُکم ہے، تمہیں وہاں جا کر لکھنا پڑے گا، لیکن اُس نے صاف انکار کر دیا- وہ شرماتا ہو گا بیچارہ گاؤں کا لڑکا- اُسے میرے سامنے پیش کیا گیا- بتایا گیا کہ یہ لڑکا پہاڑہ تو ٹھیک جانتا ہے، لیکن بورڈ پر لکھتا نہیں- میں نے پوچھا، تم کیوں نہیں لکھتے، اُس نے کہا میں نہیں لکھوں گا- میں نے اُس کا کان پکڑ کر مروڑا اور کہا کیا تجھے معلوم ہے کہ میں تجھے سخت سزا دوں گا، کیونکہ تم میرے اصول کے مطابق کام نہیں کر رہے-اُس نے کہا جی میں یہ نہیں کر سکتا، مجھ سے لکھا نہیں جاتا شرمیلا تھا شاید- میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ اسے ساری کلاسوں میں پھرائیں اور سب کو بتائیں کہ یہ نا فرمان بچّہ ہے اور اس نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات نہیں مانی- ماسٹر صاحب اُسے میرے حُکم کے مطابق لے گئے اور اُسے گھماتے رہے-دیگر اُستادوں نے بھی بادل نخواستہ اپنی طبیعت پر بوجھ سمجھ کر میرے اس حُکم کو قبول کیا، تاہم اُنہوں نے میری یہ بات پسند نہیں کی، جسے میں اپنی انتظامی صلاحیت خیال کرتا تھا-اس کے بعد وہ لڑکا چلا گیا- اس کے بعد کبھی سکول نہیں آیا- اس کے والدین نے بھی کہا کہ جی وہ سکول نہیں جاتا- گھر پر ہی رہتا ہے- میں نے اپنے ایک فیصلے اور حُکم سے اُسے اتنا بڑا زخم دے دیا تھا کہ وہ اُس کی تاب نہ لا سکا- گو میں نے بد نیتی سے ایسا نہیں کیا تھا، لیکن اب میں بیٹھ کر سوچتا ہوں، تو دیکھتا ہوں کہ میں نے اتنے اچھے صحت مند پیارے بچّے کے ساتھ کیا حماقت کی ہے- اُس وقت میرے ذہن میں Scar یعنی زخم کا لفظ نہیں آیا- تب میں سمجھتا تھا کہ پڑھانے کے لئے ایسا ہی سخت روّیہ ہونا چاہئے-

    وہ زمانہ گُزر گیا،پاکستان بن گیا- ہم ادھر آگئے- وہ لوگ پتا نہیں کدھر ہوں گے- ایسے ہی مجھے پتا چلا کہ وہ گھرانہ ساہیوال چلا گیا تھا- باپ کو اُسے پڑھانے کا بہت شوق تھا، خواہش تھی- اُس نے بچّے کو پھر سکول داخل کرایا، لیکن وہ سکول سے بھاگ جاتا تھا- ڈرتا تھا اور کانپتا تھا- وقت گُزرتا گیا- بہت سال بعد مجھے پھر معلوم ہوا کہ اُس لڑکے نے بُری بھلی تعلیم حاصل کر لی ہے اور لاہور سے انجینئرنگ یونیورسٹی سے بی ایس سی بھی کر لی ہے- ایک اندازہ تھا لوگ مجھے آکر یہ بتاتے تھے کہ شاید وہی لڑکا ہے کوئی یقینی بات نہیں تھی- پچھلی سے پچھلی عید پر جب ہم نماز پڑھ چکے، تب ہم عید کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں- معانقہ کرتے ہیں”جپھی“ ڈالتے ہیں- اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اُس بندے کو جانتے ہیں یا نہیں- آپ کی صف میں جو بھی ہو اُس سے معانقہ کیا جاتا ہے- کوئی واقف کار ہو یا نہ ہو- میرے ساتھ لوگ ملتے رہے اور ہم بڑی محبّت سے ایک دوسرے سے جپھی ڈالتے رہے- وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا، وہ بھی کسی سے مل رہا تھا- میں نے کہا یہ میری طرف تو متوجہ نہیں ہوتا، میں ہی اس کی طرف متوجہ ہوں- میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا- اُس نے پلٹ کر دیکھا اور جب میں نے آگے بڑھ کر اُسے جپھی ڈالنے کی کوشش کی تو اُس نے دونوں ہاتھوں سے مجھے پرے دھکیل دیا- اب میرا یقین ہے کہ یہ وہی لڑکا تھا- میں تو اُس وقت بڑا تھا- وہ چھوٹا تھا تب اور وہ مجھے پہچانتا تھا- میں اُسے نہیں پہچان سکتا تھا- اب میں اُس کو تلاش کر رہا ہوں اور بہت تکلیف میں ہوں اور اس بات کا آرزو مند ہوں کہ کسی طرح سے مجھے اُس سے معافی مل جائے-

    بظاہر تو یہ اتنی بڑی کوتاہی نہیں تھی، لیکن جو واقعہ گُزرا اور جس طرح سے اُس کے دل کے اوپر لگا اور وہ زخم کتنے ہی سال گُزرنے کے بعد بھی اُس کے دل پر چلا آرہا ہے اور اب وہ واقعہ ایک نئے رُوپ میں مجھے پریشان کرتا ہے، دُکھ دیتا ہے- میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے، بظاہر ہم یہ بات کہ دیتے ہیں کہ میں نے اس کو ایسا پوائنٹ مارا کہ اس کی پھٹکری پُھل کر دی، لیکن ایک بندہ زندہ رہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی لاش ساتھ اُٹھائے پھرتا ہے اور آپ اُس کے قاتل ہیں- اُس کا دَین، اُس کی دیت، اُس کا قصاص کس طرح سے ادا کیا جائے، یہ سمجھ سے باہر ہے- وہ کشمیری جن کو بھارتی گورنمنٹ اپنا اٹوٹ انگ کہتی ہے کہ یہ ہمارے بدن کا ایک حصّہ ہیں، مگر ان بھارتیوں نے گزشتہ 56 برسوں میں کتنے زخم کشمیریوں کو دئے ہیں- جسمانی بھی، روحانی بھی، نفسیاتی بھی اور ہر طرح کے زخم اور وہ ساری کی ساری قوم بھارت کے سامنے ایسی ہی ہو گئی ہے جیسے وہ زخم لئے پھرتی ہو۔ کچلی ہوئی انا کا زخم، ہاتھ کا زخم، اسلحے باروں کا زخم اور ان کی یہ کیفیت اجتماعی طور پر ہے۔

    لوگ اکثر بیٹھے یہ باتیں کرتے ہیں کہ بھارتی فلموں کے بہت اچھے ناچ گانے ہوتے ہیں۔ وہ دھیمے انداز کی بیبیاں ماتھے پر بندی لگاتی ہیں، تو اچھی لگتی ہیں۔ لیکن جس طرح کشمیر یوں کا دکھ محسوس کرتے ہوئے میں آپ کو دیکھتا ہوں۔ میں اتنی بڑی قوم کو ملاحظہ کرتا ہوں تو سارے کشمیریوں میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں جس میں بھارت کی فوج نے کوئی جانی نقصان نہ کیا ہو اور پھر ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بہت پیارے ہیں اور ہمارے بدن کا حصہ ہیں اور ہمارا اٹوٹ انگ ہیں۔ شائد ان کی کشمیریوں کے لئے یہی انداز اور طریقہ ہے کہ وہ چھ سات لاکھ کی فوج کشمیر کے اندر بھیج کر ظلم ڈھارہے ہیں۔ ایسی کوتاہیاں انفرادی طور پر بھی آدمی سے ہوتی ہیں، اجتماعی طور بھی ہوتی ہیں۔ لیکن جب مسلسل اجتماعی رنگ میں ہونے لگیں تو اس کے باوجود بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ہیں، لیکن یہ کامیابی نہیں ہوتی۔

    ہمارے اور اللہ کے ٹائم میں بڑا فرق ہے۔ ہمارا جو ایک دن ہے وہ اللہ کے لئے تو کچھ بھی نہیں۔ پتا نہیں ہمارا کتنا ٹائم لگ جائے تو پھر اللہ کا ایک دن بنے۔ اللہ نے کہیں فرمایا بھی ہے کہ وقت کیا ہیں۔ میرا مطلب ہے ہمارے وقت سے مختلف۔ اب ہم اپنے کشمیری بھائیوں کا اور میں اپنے اس بچے کا، جس کا میں ہیڈماسٹر بن گیا تھا ، اس طرح سے "پراسچت" کر سکتے ہیں ایسی تلافی کرسکتے ہیں کہ ہم ان کی بہتری چاہیں، دل سے انہیں اچھا wish کریں۔ یہ ایسی بات ہے جو دعا سے بھی طاقتور ہوتی ہے۔ ہم ان کے ساتھ جاکر لڑ تو نہیں سکتے۔ میں اس کے اوپر یعنی well wishing پر کسی اگلے پروگرام میں بات کروں گا۔ دعا لفظوں کے ساتھ مانگی جاتی ہے، لیکن جب آپ کسی کے لئے well wish نیک خواہشات کے طور پر کریں، آرزو اچھی رکھیں اور آپ کسی کو کہ دیں کہ غلام محمد بڑا اچھا آدمی ہے، اللہ اس کو بھاگ لگائے۔ چاہے آپ کسی کو بے خیالی میں کہ دیں، پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ کی وہ دعا قبول نہ ہو۔

    ہمارے قدرت اللہ شہاب صاحب کا بھی سٹائل تھا، جو بھی ان سے دعا کرنے کی درخواست کرتا آپ اسے well wish کرتے۔ اکثر اس کا کام بن جاتا۔ آپ ان سب لوگوں کے لئے جو بڑے دکھ سے گزر رہے ہیں اور بڑی تکلیف میں ہیں، ان کے لئے اور کچھ نہیں کرسکتے تو well wish ضرور کریں اور اگر آپ کے گھر کے اندر کوئی دیوار ہے اور کبھی آپ کو مغرب کا وقت میسر آئے تو آپ اس کے ساتھ ڈھو (ٹیک) لگاکر بیٹھیں اور اپنے اللہ سے یہ ضرور کہیں کہ " میں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کے لئے جن پر صریحاً ظلم ہو رہا ہے، محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں، خدا ان پر رحم کریں اور کہیں کہ”اے اللہ! میں ان کے لئے اور کچھ نہیں کر سکتا، صرف Well Wish کر سکتا ہوں- اے اللہ! تُو مدد فرما-“ لیکن آپ کو اس کے لئے وقت نکالنا پڑے گا- یہ نہیں کہ آپ چلتے ہوئے رسماً پڑھ لیں اس طرح سے Well Wish اثر نہیں کرے گی- جو ہاتھوں کی زنجیر بنتی ہے وہ تصویر کھینچنے کے لئے ہوتی ہے- یہ تصویر جو الگ بیٹھ کر آپ کھینچیں گے یہ اللہ کے دربار میں کھنچے گی اور اللہ اس کی طرف متوجہ ہوگا- میرے لئے بھی یہ دعا ضرور کیجیے گا کہ وہ نوجوان، اب ماشاءاللہ اُس کے بچّے ہوں گے، مل جائے اور اتنا ناراض نہ رہے، جتنا ناراض ہونے کا اُسے حق پہنچتا ہے-

    اللہ آپ کو خوش رکھے-اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
     
  24. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    بہت شکریہ آزاد جی اس خوبصورت اور بے مثال شئیرنگ کے لئے
     
  25. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 8
    دروازہ کُھلا رکھنا

    آج سے چند ہفتے پہلے یا چند ماہ پہلے میں نے ذکر کیا تھا کہ جب بھی آپ دروازہ کھول کے اندر کمرے میں داخل ہوں تو اسے ضرور بند کر دیا کریں اور میں نے یہ بات بیشتر مرتبہ ولایت میں قیام کے دوران سُنی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ Shut Behind The Door میں سوچتا تھا کہ وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اندر داخل ہوں تو دروازہ پیچھے سے بند کر دو، شاید وہاں برف باری کے باعث ٹھنڈی ہوا بہت ہوتی ہے اس وجہ سے وہ یہ جملہ کہتے ہیں۔ لیکن میرے پوچھنے پر میری لینڈ لیڈی نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ”آپ اندر داخل ہوگئے ہیں اور اب ماضی سے آپ کا کوئی تعلق نہیں رہا، آپ صاحبِ حال ہیں،اسلئےماضی کو بند کر دو اور مستقبل کا دروازہ آگے جانے کے کیے کھول دو۔“

    ہمارے بابے کہتے ہیں صاحبِ ایمان اور صاحبِ حال وہ ہوتا ہے،جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہو اور مستقبل سے خوفزدہ نہ ہو۔ اب میں اس کے ذرا سا اُلٹ آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا کیوں کہ پیچھے کی یادیں اور ماضی کی باتیں لوٹ لوٹ کے میرے پاس آتی رہتی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس میں سے کچھ حصّہ بٹائیں۔

    ابنِ انشاء نے کہا تھا کہ”دروازہ کُھلا رکھنا۔“ آپ دوسروں کےلئےضرور دروازہ کھول کے رکھیں، اسے بند نہ رہنے دیں۔ آپ نے اکثرو بیشتر دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں بینکوں کے دروازے شیشے والے ہوتے ہیں وہاں دروازوں پر موٹا اور بڑا Thick قسم کا شیشہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ اگر اسے کھول دیا جائے تو بلا شبہ اندر آنے والے کےلئے بڑی آسانی ہوگی اور اگر آپ کسی کےلئےدروازہ کھولتے ہیں اور کسی دوسرے کو اس سے آسانی پیدا ہوتی ہے، تو اس کا آپ کو بڑا انعام ملے گا، جس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ کسی کےلئےدروازہ کھولنا بڑے اجر کا کام ہے۔ ہمارے گھروں میں بیبیوں کا زیادہ اس کا علم نہیں ہے، وہ بیٹھی ہی کہ دیتی ہے”اچھا ماسی سلام، فیر ملاں گے“ اور اپنی جگہ پر بیٹھی کہ دیتی ہیں، یہ نہیں کہ اُٹھ کے دروازہ کھول کےکہا بسم اللہ اورجانے کےلئےخود دروازہ کھولیں اور خدا حافظ کہیں۔اس میں بہت ساری برکات ہیں اور بہت سارے فوائد سے آپ مستفید ہو سکتے ہیں اور ایسا نہ کر کے آپ ان سے محروم رہ جاتے ہیں۔

    میں جب اٹلی میں رہتا تھا، تو جب ہمیں مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی، تو میں ایک بہت اچھے ریستوران میں، جہاں اُمراء آتے تھے، خاص طور پر اداکار اور اداکارائیں بھی آتی تھیں، چلا جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب میں بیٹھا کافی پی رہا تھا تو ایک شخص بڑے وجود اور بڑے بڑے ہاتھوں والا آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا کہ میں نے گزشتہ ماہ آپ کو کسی آدمی سے باتیں کرتے سُنا تھا، تو آپ بڑی رواں اٹالین زبان بول رہے تھے۔ لیکن آپ conditional Verb اور Subjective Verb میں تھوڑی سی غلطی کر جاتے ہیں جیسے I wish I cold have been doing do ۔ اس طرح تو مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے ناں؟ میں نے کہا، جی! آپ کی بڑی مہربانی۔ میں نے اُس سے کہا کہ میں بھی آپ کو جانتا ہوں ( اب اُن کا جو حوالہ تھا، وہ تو میں نے اُن سے نہیں کہا) آپ اس دنیا کے بہت بڑے امیر آدمی ہیں یہ مجھے معلوم ہے ( اُس کا پہلا حوالہ یہ تھا کہ وہ ایک بہت بڑے مافیا کا چیف تھا) اُس شخص نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک بڑی عجیب و غریب بات بتاتا ہوں، جو میری امارت کا باعث بنی اور میں اس قدر امیر ہو گیا۔ وہ یہ کہ مجھے ہارس ریسنگ کا شوق تھا اور میں گھوڑوں پر جُوا لگاتا تھا۔ میری مالی حالت کبھی اونچی ہو جاتی تھی اور کبھی نیچی،جیسے ریس کھیلنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔

    ایک بار میں نے اپنا سارا مال ومتاع ایک ریس پر لگادیا اور کہا کہ اب اس کے بعد میں ریس نہیں کھیلوں گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں وہ ریس ہار گیا، میری جیبیں بالکل خالی تھیں اور میں بالکل مفلس ہو گیا تھا۔ جب میں وہاں سے پیدل گھر لوٹ رہا تھا، تو مجھے شدّت سے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن وہاں جانے کےلئےمیرے پاس مقامی کرنسی کا سکّہ نہیں تھا، جو واش روم کا دروازہ کھولنے کےلئےاُس کے لاک میں ڈالا جاتا ہے، وگرنہ دروازہ کُھلتا نہیں ہے۔ میں بہت پریشان تھا اور مجھے جسمانی ضرورت کے تحت تکلیف بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں وہاں قریبی پارک میں گیا۔ وہاں بنچ پر ایک شخص بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا۔ میں نے بڑی لجاجت سے اُس سے کہا کہ” کیا آپ مجھے ایک سکّہ عنایت فرمائیں گے؟ اُس شخص نے میری شکل وصورت کو دیکھا اور کہا کیوں نہیں اور سکّہ دے دیا۔ لیکن اس سے قبل میری جسمانی صحت پر غور ضرور کیا۔ اُسے کیا خبر تھی میں بالکل پھانگ (مفلس) ہو چکا ہوں۔ جب میں وہ سکّہ لے کر چلا اور واش روم کے دروازے تک پہنچا، جہاں لاک میں سکّہ ڈالنا تھا، تو اچانک وہ دروازہ کُھل گیا جبکہ وہ سکّہ ابھی میرے ہاتھ میں تھا۔ جو اندر آدمی پہلے موجود تھا وہ باہر نکلا اور اُس نے مسکرا کر بڑی محبّت، شرافت اور نہایت استقبالیہ انداز میں دروازہ پکڑے رکھا اور مجھ سے کہا، یہ ایک روپے کا سکّہ کیوں ضائع کرتے ہو؟ میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور میں اندر چلا گیا۔ اب جب میں باہر نکلا تو میرے پاس وہ ایک روپے کی قدر کا سکّہ بچ گیا تھا ۔ تو میں قریب کسینو میں چلا گیا، وہاں پر ایک جوا ہو رہا تھا کہ ایک روپیہ لگاؤ ہزار روپے پاؤ۔ میں نے وہ روپے کا سکّہ اُس جوئے میں لگا دیا اور سکّہ بکس میں ڈال دیا۔ وہ سکّہ کھڑ کھڑایا اور ہزار کا نوٹ کڑک کر کے باہر آ گیا۔ ( جواری آدمی کی بھی ایک اپنی زندگی ہوتی ہے)۔ میں نے آگے لکھا دیکھا کہ ایک ہزار ڈالو تو ایک لاکھ پاؤ۔ میں نے ہزار کا نوٹ وہاں لگا دیا۔ رولر گھوما، دونوں گیندیں اُس کے اوپر چلیں اور ٹک کر کے ایک نمبر پر آکر وہ گریں اور میں ایک لاکھ جیت گیا (آپ غور کریں کہ وہ ابھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے اُس نے ایک سکّہ مانگا تھا) اب میں ایک لاکھ روپیہ لے کر ایک امیر آدمی کی حیثیت سے چل پڑا اور گھر آ گیا۔

    اگلے دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ یہاں پر اگر کوئی Sick Industry میں انویسٹ کرنا چاہے، تو حکومت انہیں مالی مدد بھی دے گی اور ہر طرح کی انہیں رعایت دے گی۔ میں نے ایک دو کارخانوں کا انتخاب کیا، حکومت نے ایک لاکھ روپیہ فیس داخل کرنے کا کہا اور کہا کہ ہم آپ کو ایک کارخانہ دے دیں گے ( شاید وہ جُرابیں بنانے یا انڈر گارمنٹس کا کارخانہ تھا) وہ کارخانہ چلا تو اس سے دوسرا، تیسرا اور میں لکھ پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہو گیا۔ (آپ اب غور کریں کہ یہ سب کچھ ایک دروازہ کُھلا رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا) اُس نے کہا کہ میری اتنی عمر گزر چکی ہے اور میں تلاش کرتا پھر رہا ہوں اُس آدمی کو، جس نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اُس آدمی کو، جس نے آپ کو ایک روپیہ دیا تھا؟ اُس نے کہا، نہیں! اُس آدمی کو، جس نے دروازہ کُھلا رکھا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ اُس کا شکریہ ادا کرنے کےلئےاُس سے ملنا چاہتے ہیں؟ تو اُس نے جواب دیا، نہیں! یہ دیکھنے کےلئےاُس سے ملنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص کن کیفیات سے گزر رہا ہے اور کس اونچے مقام پر ہے اور مجھے یقین ہے کہ دروازہ کھولنے والے کا مقام روحانی، اخلاقی اور انسانی طور پر ضرور بُلند ہو گا اور وہ ہر حال میں مجھ سے بہتر اور بُلند تر ہوگا لیکن وہ آدمی مجھے مل نہیں رہا ہے۔

    میں اُس کی یہ بات سُن کر بڑا حیران ہوا، اور اب مجھے انشاء جی کی دروازہ کُھلا رکھنا کی بات پڑھ کر وہ شخص یاد آیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ بُڑھاپے میں گزشتہ چالیس، پینسٹھ، باسٹھ برس کی باتیں اپنی پوری جزویات اور تفصیلات کے ساتھ یاد آجاتی ہیں اور کل کیا ہوا تھا، یہ یاد نہیں آتا ۔ بُڑھاپے میں بڑی کمال کمال کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آدمی چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ میں بڑا pleasant آدمی ہوں۔ بڑا شریف آدمی ہوں۔ میں تو چڑچڑا نہیں ہوں۔ پرسوں ہی مجھے گیس کا چولہا جلانے کےلئےماچس چاہئے تھی، میں اتنا چیخا، اوہ ! آخر کدھر گئی ماچس! میرا پوتا اور پوتی کہنے لگے کہ الحمدللہ دادا بوڑھا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگے، آپ چڑنے لگے ہیں اور ایسی تو آپ کی Language کبھی نہ تھی۔ میں نے کہا، بھئی آخر بُڑھاپے میں تو داخل ہونا ہی ہے،کیا کیا جائے؟ لیکن پھر بھی تم سے بہت طاقتور ہوں۔ کہنے لگے، آپ کیسے طاقتور ہیں؟ میں نے کہا، جب تمہاری کوئی چیز زمین پر گرتی ہے تو تم اُسے اُٹھا لیتے ہو، لیکن اللہ نے مجھے یہ قوّت دی ہے، ایک بوڑھے آدمی میں کہ جب اُس کی ایک چیز گرتی ہے تو وہ نہیں اُٹھاتا اور جب دوسری گرتی ہے، تو میں کہتا ہوں اکٹھی دو اُٹھالیں گے، اسی لئےہمیشہ انتظار کرتا ہے کہ دو ہوجائیں تو اچھا ہے۔

    خواتین وحضرات! دروازہ کُھلا رکھنے کے حوالے سے مجھے یہ بھی یاد آیا ہے اور اپنے آپ کو جب میں دیکھتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا (جس طرح سے ماشاءاللہ آپ لوگ جوان ہیں) 1947ء میں جب ہم نعرے مار رہے تھے، تو ہمارا ایک ہی نعرہ ہوتا تھا، لے کے رہیں گے آزادی، لے کے رہیں گے پاکستان، ہم اُس وقت نعرے لگاتے ہوئے گلیوں، بازاروں میں گُھوما کرتے تھے اور اپنے مخالفین اور دُشمنوں کے درمیان بالکل اس طرح چلتے تھےجیسے شیر اپنی کچھار میں چلتا ہے اور اب جب کچھ وقت گزرا ہے اور ہم ہی پر یہ وقت آیا ہے اور ہم جو کہتے تھے کہ” لے کے رہیں گے پاکستان، لے کے رہیں گے آزادی“ اب ہر بات پر کہتے ہیں کہ لے کے رہیں گے سکیورٹی“ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں سکیورٹی نہیں ہے۔

    کسی آدمی کی تبدیلی لاہور سے مُلتان کر دی جائے تو وہ کہتا ہے کہ جی بس سکیورٹی نہیں ہے (ایسے ہی کہتے ہیں ناں ) تو سکیورٹی کےلئےاتنے بے چین ہو گئے ہیں ہم، اتنے ڈر گئے ہیں اور آخر کیوں ڈر گئے؟ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ ہم تو وہی ہیں۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہم نے اپنی بات پر اتنے دروازے بند کرلئے ہیں اور ہم دروازے بند کر کے اندر رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ ذہنی طور پر، روحانی طور پر اور جسمانی طور پر۔ ہم نے ہر لحاظ سے خود کو ایسا بند کر دیا ہے کہ اب وہ آواز سُنائی نہیں دیتی کہ”لے کے رہیں گے پاکستان" جب چاروں طرف سے دروازے بند ہوں گے تو یہی کیفیت ہوگی۔ پھر آپ اس حصار سے یا کمرے سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ اور نہ کسی کو دعوت دے سکیں گے، نہ تازہ ہواؤں کو اپنی طرف بُلا سکیں گے۔ ایسی چیزوں پر جب نظر پڑتی ہے اور میری عمر کا آدمی سوچتا ہے، تو پھر حیران ہوتا ہے کہ یہ وقت جو آتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں، یا پھر قومیں ایسے فیصلے کر لیتی ہیں، یا مختلف گروۂ انسانی اس طرح سے سوچنے لگتے ہیں۔ اس کا کوئی حتمی یا یقینی فیصلہ کیا نہیں جا سکتا ۔

    میں ایک دن ناشتے کی میز پر اخبار پڑھ رہا تھا اور میری بہو کچھ کام کاج کر رہی تھی باورچی خانے میں۔ وہ کہنے لگی، ابو! میں آپ کو کافی کی ایک پیالی بنا دوں؟ میں نے کہا، بنا تو دو، لیکن چوری بنانا، اپنی ساس کو نہ پتہ لگنے دینا، وہ آکر لڑے گی کہ ابھی تو تم نے ناشتہ کیا ہے اور ابھی کافی پی رہے ہو۔ اُس نے کافی بنا کر مجھے دے دی۔ ہمارے باورچی خانے کا ایک اایسا دروازہ ہے، جس کو کھولنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی، میری بہو کو وہ دروازہ کھولنے کی ضرورت پڑی اور وہ کھولنے لگی اور جب وہ میرےلئےکافی بنا رہی تھی تو کہنے لگی، ابو آپ یہ مانیں گے کہ عورت بے بدل ہوتی ہے، اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا، میں نے کہا، ہاں بھئی! میں تومانتا ہوں، وہ دروازہ کھولنے لگی اور کوشش کرنے لگی، کیونکہ وہ کم کھلنے کے باعث کچھ پھنسا ہوا تھا اور بڑا سخت تھا، وہ کافی دیر زور لگاتی رہی، لیکن وہ نہ کھلا تو مجھے کہنے لگی، ابو اس دروازے کو ذرا دیکھئے گا، کھل ہی نہیں رہا۔ میں گیا اور جا کر ایک بھرپور جھٹکا دیا تو وہ کھل گیا، جب وہ کھل گیا تو پھر میں نے بھی کہا کہ دیکھا ( انسان خاص طور پر مرد بڑا کمینہ ہوتا ہے، اپنے انداز میں ) تم تو کہتی تھیں کہ میں بے بدل ہوں اور عورت کا کوئی بدل نہیں ہوتا۔ کہنے لگی، ہاں ابو! یہی تو میں اب بھی کہتی ہوں کہ عورت بے بدل ہوتی ہے۔ دیکھیں میں نے ایک منٹ میں دروازہ کھلوالیا (قہقہہ) میں نے کہا، ہاں یہ بڑی پیاری بات ہے۔

    میں یہ عرض کررہا تھا کہ دوسروں کےلئےدروازہ کھولنا، ایک جادو، چالاکی، ایک تعویذ اور ایک وظیفے کی بات ہے، اگر آپ میں، مجھ میں یہ خصوصیت پیدا ہوجائے تو یہ عجیب سی بات لگے گی کہ ہم دروازہ کھولنے لگیں، لوگوں کےلئےتو یہ ایک رہبری عطا کرنے کا کام ہوگا۔ آپ لوگوں کو رہبری عطا کریں گے اپنے اس عمل سے، جس نے دروازہ کھول کے اندر جانا ہے، آخر اُسے جانا تو ہے ہی، لیکن آپ اپنے عمل سے اُس شخص کے رہنما بن جاتے ہیں اور جب آدمی رہنمائی کرتا ہے، تو اس کا انعام اُسے ضرور ملتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ رواج ذرا کم ہے۔ ہم تو دروازہ وغیرہ اس اہتمام سے نہیں کھولتے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کسی کا دروازہ کھولنے کی، جب وہ چلا جائے گا، دفع ہو جائے گا تو کھول کر اندر چلے جائیں گے۔ اگر ہم میں دروازہ کھولنے کی عادت پیدا ہو جائے۔ اگر ہم اپنے دفتر، بینک یا درس گاہ میں دروازہ خود کھولیں، چاہے ایک اُستاد ہی اپنے شاگردوں کےلئےکلاس روم کا دروازہ کیوں نہ کھولے، یہ کام برکت اور آگے بڑھنے کا ایک بڑا اچھا تعویذ ثابت ہو گا۔

    یہ بات واقعی توجہ طلب ہے۔ اس سے فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا تعلق ذاتی فائدے سے بھی ضرور ہوتا ہے۔اس میں چاہے روحانی فائدہ ہویا جسمانی یا پھر اخلاقی ہو، ہوتا ضرور ہے اور انسان سارے کا سارا محض چیزوں اور اشیاء سے ہی نہیں پہچانا جاتا۔ ہمارے ایک اُستاد تھے، میرے کولیگ،بڑے بزرگ قسم کے، وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ Rich آدمی وہ ہوتا ہے، جس کی ساری کی ساری Richness اس کی امارت، اس کی دولت، سب کی سب ضائع ہو جائے اور وہ اگلے دن کیسا ہو؟ اگر وہ اگلے دن گر گیا تو اس کا سہارا اور امارت جو تھی وہ جھوٹی تھی۔ میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی اس پروگرام کے بعد دروازے کھولنے والوں میں ہوں گا، چاہے میں ڈگمگاتا ہوا ہی اسے کھولوں۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ !!
     
  26. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    آزاد بھائ بہت خوب شیئرنگ ہے میں نے تو پڑھی ہی آج ہے
     
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ آزاد بھائی ۔ آپ کی شئیرنگ ہمیشہ معیاری ہوتی ہے۔ :87:
     
  28. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 9
    ایم اے پاس بلّی


    آج صبح کی نماز بھی ویسے ہی گزر گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے- میرے ساتھ اکثر وبیشتر ایسے ہو جاتا ہے کہ آنکھ تو کھل جاتی ہے لیکن اُٹھنے میں تاخیر ہو جاتی ہے اور پھر وہ وقت بڑا بوجھل بن کر وجود پر گزرتا ہے- میں لیٹا ہوا تھا- میں نے کہا اور کوئی کام نہیں چلو کل کا اخبار ہی دیکھ لیں- میں نے ہیڈ لیمپ آن کیا، بتّی جلائی اور اخبار دیکھنے لگ پڑا اور آپ جانتے ہیں اخبار میں کتنی خوفناک خبریں ہوتی ہیں، وہ برداشت نہیں ہوتیں- مثلاً یہ کہ سرحد کے پار سے تیس گاڑیاں مزید چوری ہوگئی ہیں-دو بیٹوں نے کاغذات پر انگوٹھے لگوا کر باپ کو قتل کر کے اُس کی لاش گندے نالے میں پھینک دی- تاوان کے لئے بچّہ اغوا کرنے والے نے بچّے کو کسی ایسی جگہ پر رکھا کہ وہ والدین کی یاد میں تین دن تک روتا ہوا انتقال کر گیا وغیرہ-

    ایسی خبریں پڑھتے ہوئے دل پر بوجھ پڑتا ہے- ظاہر ہے سب کے دل پر پڑتا ہو گا- میں یہ سب کچھ پڑھ کر بہت زیادہ پریشان ہو گیا اور میں سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے خود کشی حرام ہے، لیکن ایسے موقعے پر اس کی اجازت ہونی چاہئے یا مجھ سے پہلے جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ہیں، وہ کتنے اچھے تھے- خوش قسمت تھے کہ اُنہوں نے یہ ساری چیزیں نہیں دیکھی تھیں- میں یہ دردناک باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دو اڑھائی کلو کا ایک گولہ میرے پیٹ پر آن گرا اور میں ہڑبڑا گیا- اخبار میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا- میں نے غور سے دیکھا تو میری پیاری بلّی "کنبر" وہ فرش سے اُچھلی اور اُچھل کر میرے پیٹ پر آن گری تھی اور جب میں نے گھبراہٹ میں اُس کی طرف دیکھا، تو وہ چلتی چلتی سینے پر پہنچ گئی- اُس نے پیار سے میرے منہ کے قریب اپنا منہ لاکر میاؤں کی، چیخ ماری اور کہا کہ”بیوقوف آدمی! لیٹے ہوئے ہو، یہ تو میرے دودھ کا ٹائم ہے اور تم مجھے اس وقت دودھ دیا کرتے ہو-“

    میں تھوڑی دیر کے لئے اُسے پیار کرتا رہا اور وہ ویسے ہی میرے سینے کے اوپر آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلی گئی- جب”کنبر“ مراقبے میں گئی تو میں سوچنے لگا کہ جس طرح اس کنبر کو اعتماد ہے مجھ پر، میرے وجود پر اور میری ذات پر، کیا مجھ کو میرےاللہ پر نہیں ہو سکتا؟ یعنی یہ مجھ سے کتنی "Superior" ہے، برتر ہے اور کتنی ارفع واعلٰی ہے کہ اس کو پتہ ہے کہ مجھے گھر بھی ملے گا، حفاظت بھی ملے گی، Care بھی ملے گی، Protection بھی ملے گی اور میں آرام سے زندگی بسر کروں گی، لیکن میرے اندر یہ چیز اس طرح سے موجزن نہیں ہے، جیسے میری بلّی کے اندر موجود ہے- میرا یقین کیوں ڈگماگاتا ہے-

    خیر! میں اُٹھا اور باورچی خانے میں گیا- وہاں میری بیٹی نے اُس کو ایک تھالی میں دودھ دیا- اور وہ تھالی سے دودھ لپرنے لگی- میں دیر تک سوچتا رہا- بہت سارے خوف ابھی تک میرے ساتھ چمٹے ہوئے تھے- خوف انسان کو آخری دم تک نہیں چھوڑتا اور یہ بڑی ظالم چیز ہے- میں نے اس کا اپنے طور پر ایک طریق نکالا ہوا ہے- میں سوچتا رہتا ہوں اور جو میرے دل کا خوف ہوتا ہے،اسے میں ایک بڑے اچھے، خوبصورت کاغذ پر لکھتا ہوں- ایک نئے مارکر کے ساتھ کہ”اے اللہ! میرے دل کے اندر جو خوف ہے کہ مجھ سے اُس مقام تک نہیں پہنچا جائے گا، جس مقام تک پہنچنے کے لئے تو نے ہمیں رائے دی ہے، پھر میں یہ لائن بڑی دفعہ لکھتا ہوں- کوئی ذاتی خوف، بچّے کے پاس نہ ہونے کا خوف یا بچّی کی شادی نہ ہونے کا، میں اسے پہلے ایک کلر میں لکھتا ہوں، پھر کئی اور کلرز میں لکھتا ہوں اور جب میں اسے بار بار پڑھتا ہوں اور بالکل اس کا وظیفہ کرتا ہوں تو عجیب بات ہے کہ آہستہ آہستہ میرے ذہن سے وہ خوف کم ہونے لگتا ہے اور جب وہ کم ہونے لگتا ہے، تو پھر میں اُس کاغذ کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہوں، ہر روز میرے خوف اور میرے ڈر، جو ہیں وہ نئی نئی Shape اختیار کر کے آگے ہی آگے چلتے رہتے ہیں-

    میری ایک تمنّا،آرزو اور بہت بڑی Desire یہ ہے کہ میں اللہ پر پورے کا پورا اعتماد کروں، ویسا نہیں جیسا ہم عام طور پر کیا کرتے ہیں”اچھا جی! اللہ جو بھی کرائے ٹھیک ہے- اللہ نے جیسا چاہا جی انشاءاللہ ویسے ہی ہوگا- اللہ کو جو منظور ہوا وہی ہوگا-“ یہ تو اللہ کے ساتھ تعلق کی بات نہیں ہے- اللہ کے ساتھ تعلق تو ایسے ہونا چاہئے کہ آدمی اپنے کمرے کے اندر پلنگ کے بازو پر بیٹھا ہوا اُس کے ساتھ باتیں کر رہا ہو اور اپنی مشکلات بیان کر رہا ہو، اپنی زبان میں، اپنے انداز میں کہ اے خدا! مجھے یہ مشکل درپیش ہے- اللہ کے ساتھ تعلق تو اُس وقت ہوتا ہے جب آپ ایک بہت بڑے کُھلے میدان میں، جہاں بچّے کرکٹ کھیل رہے ہوں، اُس کے کارنر یا کونے میں بنچ پر بیٹھے ہوئے اُن کو دیکھ رہے ہیں اور اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق چل رہا ہے، اتنا ہی وسیع جتنا بڑا میدان آپ کے سامنے ہےاور اتنی ہی قربت کے ساتھ جتنا بچّوں کا واسطہ اپنے کھیل سے ہے- اللہ کے ساتھ تعلق تو ایسے ہوتا ہے-

    جب آپ حضرات یا خواتین بازار جاتے ہیں سودا لینے اور اُس کے بعد آپ بس کے انتظار میں بس سٹینڈ پر بیٹھ جاتے ہیں، تو اُس وقت آپ اللہ سےکہیں کہ اے اللہ! شازیہ نے بی اے کر لیا ہے، اب اُس کے رشتے کی تلاش ہے، اب یہ بوجھ تیرا ہی ہے، تو جانے- یہ تعلق جو ہے یہ مختلف مدارج میں ہوتا ہوا چلتے رہنا چاہئے- یہ جو ہم خدا سے تعلق کے محاورے بول جاتے ہیں کہ اچھا جی جو اللہ چاہے کرے گا- اللہ کی مرضی!! کبھی کبھی وقت نکال کر اللہ کے ساتھ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور پیدا کرنا چاہئے، جیسے پالتو بلّی کو گھر کے افراد ساتھ ہوتا ہے کہ میری ساری ذمّے داریاں انہوں نے اُٹھائی ہوئی ہیں اور میں مزے سے زندگی بسر کر رہی ہوں- کبھی نہ کبھی تو ہمارا بھی دل چاہتا ہے مزے سے زندگی بسر کرنے کا، ہم بھی تو اس بات کے آرزو مند ہوں گے کہ ہم بھی مزے سے زندگی بسر کریں اور اپنے اللہ کے اوپر سارا بوجھ ڈال دیں-

    ہم نے تو بہت سارا بوجھ خود اپنے کندھے پر اُٹھا رکھا ہے- ہم اتنے سیانے ہوجاتے ہیں جیسے میں کئی دفعہ اپنے دل میں کہتا ہوں کہ نہیں یہ تو میرے کرنے کا کام ہے، اسے میں اللہ کے حوالے نہیں کر سکتا، کیونکہ میں ہی اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہوں اور میں نے ہی ابھی Statistics کا مضمون پاس کیا ہے اور یہ نیا علم ہے- اسے میں ہی جانتا ہوں- لیکن یہ قسمت والوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا سارا بوجھ اُس (اللہ) کے حوالے کر دیتے ہیں اور اُس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں- ایک دفعہ ہمارے ہاں ایک نُمائش ہوئی تھی، بڑی دیر کی بات ہے، میرا بچّہ اُس وقت بہت چھوٹا تھا- اُس نمائش میں بہت ساری چیزیں تھیں- خاص طور پر کھلونوں کے سٹال تھے اور چائنہ جو نیا نیا ابھر رہا تھا، اُس کے بنے ہوئے بڑے کھلونے اُدھر موجود تھے- میرے سارے بچّے اسی کھلونوں کے سٹال پر ہی جا کر جمع ہو گئے- ظاہر ہے میں اور اُن کی ماں بھی وہاں اُن کے ساتھ تھے- وہاں پر چائنہ کا بنایا ہوا ایک پھول، بہت اچھا اور خوبصورت پھول، جو کپڑے اور مصالحے کا بنا ہوا تھا اور سٹال والے کا دعویٰ تھا کہ یہ پھول رات کے وقت روشنی دیتا ہے، یعنی اندھیرے میں رکھو تو روشن ہو جاتا ہے- میرے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابو یہ پھول لے لیتے ہیں- وہ اُس پھول کے بارے میں بڑا متجسس تھا- میں نے کہا ٹھیک ہے، لے لیتے ہیں- وہ اتنا قیمتی بھی نہیں تھا- ہم نے پھول لے لیا- اب وہ (میرا بیٹا) بیچارا سارا دن اسی آرزو اور انتظار میں رہا کہ کب رات آتی ہے اور کب میں اس کو روشن دیکھوں گا-

    رات کو وہ اپنے کمرے میں وہ پھول لے گیا اور بیچارا آدھی رات تک بیٹھا رہا، لیکن اُس میں سے کوئی روشنی نہیں آئی تھی- صبح جب میں اُٹھا تو وہ میرے بستر کے پاس کھڑا”پُھس پُھس“ رو رہا تھا اور پھول اُس کے ہاتھ میں تھا اور کہ رہا تھا کہ ابو اس میں کوئی روشنی نہیں تھی، یہ تو ویسا ہی کالے کا کالا ہے- یہ تو ہمارے ساتھ دھوکہ ہو گیا- میں نے کہا، نہیں ! تم ابھی تھوڑا انتظار کرو اور صبر کی کیفیت پیدا کرو- اگر اُس سٹال والے نے دعویٰ کیا ہے تو اس میں سے کچھ ہو گا- میں نے اُس سے وہ پھول لے لیا اور اُسے اپنے کوٹھے (گھر کی چھت) پر لے جا کر (وہاں کڑی دھوپ تھی) دھوپ میں رکھ دیا- مجھے پتہ تھا کہ اس مین جونسا چمکنے والا مصالحہ انہوں نے لگایا تھا، وہ جب تک سورج کی کرنیں جذب نہیں کرے گا، اُس وقت تک اُس میں روشنی نہیں آئے گی- بالکل ویسے ہی جیسے گھڑیاں ہوتی تھیں کہ وہ دن کو روشنی میں رہتی تھیں، تو رات کو پھر جگمگاتی تھیں- جب شام پڑی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اب تم اس پھول کو لے جاؤ- جب رات گہری اندھیری ہو گئی تو جیسا میں نے اُسے بتایا تھا کہ اس کے اوپر کالا کپڑا رکھنا اور فلاں فلاں وقت میں اسے دیکھنا ( میں نے اُسے اس انداز میں سمجھایا جیسے جادوگر کرتے ہیں)- اُس نے ایسے ہی کیا اور خوشی کا نعرہ اور چیخ ماری- اُس کا سارا کمرہ جگمگ روشن جو ہو گیا تھا- اُس نے اپنی ماں کو اور چھوٹے بھائیوں کو بلایا اور وہ جگمگاتا ہوا پھول دکھانے لگا- ہمارے گھر میں ایک جشن کا سا سماں ہو گیا-

    جب اُس کی ماں اور اُس کے بھائی اُس کے کمرے میں بیٹھے ہوئے اُس کے ساتھ باتیں کر رہے تھے، تو میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم بھی وہ روشنی، جو اللہ خداوند تعالٰی ہمیں عطا کرتا ہے اور جسے وہ بطور خاص نور کہتا ہے اللہ نُورُالسّمٰوٰتِ وَالاَرض کہتا ہے کیا ہم اس کو اپنی ذات میں نہیں سمو سکتے؟ کیا ایسے نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی بلّی کی طرح اپنی ساری چیزیں اُس کی روشنی میں رکھ دوں، جیسے میں نے وہ پھول چھت پر رکھا تھا تاکہ وہ روشنی جذب کر کے چمک سکے- میری شادی، میری مُلازمت، میری زندگی، میری صحت، میرے بچّے، میرے عزیزواقارب، میرے رشتہ دار حتٰی کہ میں اپنا مُلک بھی، جسے بڑی محبّت، محنت کے ساتھ اور بڑی قربانیاں دے کر ہم نے آزادی دلوائی ہے، اس کو اُٹھا کر اس روشنی کے اندر رکھ دوں اور پھر یہ سارا دن رات اسی طرح جگمگاتے رہیں، جیسے میرے بچّے کا وہ پھول رات کے اندھیرے میں جگمگا رہا تھا- لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہم کو ظلمات سے اتنا پیار ہوگیا ہے، کس وجہ سے ہوا ہے- میں یہ الزام آپ پر بھی نہیں لیتا، آپ کو خیر کیسے دے سکتا ہوں کہ اندھیرے سے اتنا پیار کیوں ہے؟

    ہم اندھیرے کی طرف کیوں مائل ہیں اور جب اللہ بار بار کہتا ہے، واضح کرتا ہے کہ میں تم کو ظلمات سے نور کی طرف لانا چاہتا ہوں، تم ظلمات سے نور کی جانب آؤ اور جن کے اَذہان اور روئیں بند ہیں، وہ روشنی کی طرف نہیں آتے اور ایسے ہو نہیں پاتا، جیسے ربِ تعالٰی چاہتا ہے اور آرزو یہ رہتی ہے کہ انسان اپنے کام، اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے کرے- انسان اپنے کام اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے صرف اسی حد تک کرے، جس کا وہ مکّلف ہے، یعنی جس کی وہ تکلیف اُٹھا سکتا ہے- لیکن اللہ کو بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داری عطا کرنی چاہئے- اگر آپ تفریحاً ( میری ایسی ہی باتیں ہیں، جو ایک ڈرائنگ ماسٹرسمجھتے ہیں، وہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی تعلق پیدا کرنا چاہئے) کچھ وقت نکال کر، آپ اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیں اور میرے کہنے پر ہی تھوڑے وقت کے کے لئے کہ آپ کسی بھی زبان میں، اپنے اللہ کے ساتھ کچھ گفتگو شروع کر دیں ( جس طرح آج کل آپ اپنے سیلولر فون پر کرتے ہیں) تو چند دنوں کے بعد آپ کو ایک Message آنے لگ جاتا ہے، جو واضح تو نہیں ہوتا- ایسے تو نہیں ہوتا جیسے آپ ٹیلیفون پر سُنتے ہیں، لیکن آپ کا دل، آپ کی ذات اور آپ کا ضمیر اس کے ساتھی وابستہ ہو جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ زیادہ وقت صرف کرنے سے کہ میں کچھ وقت نکال کر، اپنا ہل چھوڑ کے”واہی“ (کھیتی) چھوڑ کر یا قلم چھوڑ کر لکھتے ہوئے یا دفتر میں اپنے اوقات کے دوران میں اگر آپ کا کمرہ الگ ہے، تو اپنی ٹیبل چھوڑ کر، سامنے والے صوفے جو مہمانوں کے لئے رکھا ہوتا ہے، وہاں جا کر بیٹھیں اور اپنے جوتے اُتار دیں، پاؤں آرام سے قالین پر رکھیں- پھر آپ کہیں کہ میں خاص نیّت کے ساتھ آپ سے ( خُدا سے ) وابستہ ہونے کے لئے یہاں آ کر بیٹھا ہوں- مجھے یہ پتہ نہیں ہے کہ وابستگی کس طرح سے ہوتی ہے، مجھے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ آپ کو کس طرح سے پُکارا جاتا ہے- میں صرف یہ بوجھ آپ پر ڈالنے کے لئے یہاں آیا ہوں کہ جس طرح جانور کو اپنے مالک پر اعتماد ہوتا ہے- اسی طرح میں عین اُس جانور کی حیثیت سے اپنا بوجھ آپ پر ڈالنے آیا ہوں-

    مجھے سارے طریقے نہیں اآتے ہیں، جو طریقے بزرگوں کو معلوم ہیں- اس طرح آپ کے اندر اور اس ماحول کے اندر سے اور اُس مقام کے اندر سے اور جو کام کرنے والی جگہ چھوڑ کر آپ اور جگہ پر آ کر بیٹھے ہیں، اُس جگہ کے حوالے سے اور اُس جگہ کی تقدیس سے یقیناً آپ Inline ہوں گے- جس طرح آپ نے شاید کبھی انجن گاڑی کے ساتھ جوڑتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ کس طرح جب انجن کو گاڑی کے پاس لایا جاتا ہے، تو وہ”کرک“ کر کے گاڑی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور گاڑی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ ساتھ جُڑ گیا ہے- یہ مشاہدہ آپ ضرور کریں کہ کس طرح سے آدمی اللہ کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور پھر وہ اپنا سارا بوجھ اللہ پر ڈال کر اور ساری ذمّے داری اُس کے حوالے کر کے چلتا رہتا ہے-

    ایک روز میں جمعہ پڑھنے جا رہا تھا- راستے میں ایک چھوٹا سا کُتّا تھا، وہ پلا ریہڑے کی زد میں آ گیا اور اُسے بہت زیادہ چوٹ آگئی- وہ جب گھبرا کر گھوما تو دوسری طرف سے آنے والی جیپ اس کو لگی، وہ بالکل مرنے کے قریب پہنچ گیا- سکول کے دو بچّے یونیفارم میں آ رہے تھے- وہ اُس کے پاس بیٹھ گئے- میں بھی اُن کے قریب کھڑا ہو گیا- حالانکہ جمعے کا وقت ہو گیا تھا- اُن بچوں نے اُس زخمی پلے کو اُٹھا کر گھاس پر رکھا اور اُس کی طرف دیکھنے لگے- ایک بچّے نے جب اُس کو تھپتھپایا تو اُس پلے نے ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کر لیں- وہاں ایک فقیر تھا- اُس نے کہا کہ واہ، واہ واہ! وہ سارے منظر کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا، جبکہ ہم کچھ آبدیدہ اور نم دیدہ تھے- اُس فقیر نے کہا کہ یہ اب اس سرحد کو چھوڑ کر دوسری سرحد کی طرف چلا گیا- وہ کہنے لگا کہ یہ موت نہیں تھی کہ اس کتّے نے آنکھیں بند کر لیں اور یہ مر گیا- اس کی موت اُس وقت واقع ہوئی تھی جب یہ زخمی ہوا تھا اور لوگ اس کے قریب آ کر سڑک کراس کر رہے تھے اور کوئی رُکا نہیں تھا- پھر اُس نے سندھی کا ایک دوہڑا پڑھا- اس کا مجھے بھی نہیں پتہ کہ کیا مطلب تھا اور وہ آگے چلا گیا- وہ کوئی پیسے مانگنے والا نہیں تھا- پتہ نہیں کون تھا اور وہاں کیوں آیا تھا؟

    وہ سپردگی جو اُس سکول کے بچّے نے بڑی دل کی گہرائی سے اُس پلے کو عطا کی، ویسی ہی سپردگی ہم جیسے پلوں کو خدا کی طرف سے بڑی محبّت اور بڑی شفقت سے اور بڑے رحم اور بڑے کرم کے ساتھ عطا ہوتی ہے- لیکن یہ ہے کہ اسے Receive کیسے کیا جائے؟ کچھ جاندار تو اتنی ہمّت والے ہوتے ہیں وہ رحمت اور اس شفقت کو اور اس Touch کو حاصل کرنے کے لئے جان تک دے دیتے ہیں- آپ نے بزرگانِ دین کے ایسے بیشمار قصّے پڑھے ہوں گے-

    میں یہ عرض کر تھا کہ میرا چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے، لیکن ان تجربات میں سے گزرتے ہوئے میں نے یہ ضرور محسوس کیا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنا سارا سامان، جتنا بھی ہے، اُس کی روشنی میں رکھ دیا جائے اور جب اُس کی پوری کی پوری روشنی سے وہ پورے کا پورا لتھڑ جائے، تو پھر کوئی خطرہ کوئی خوف باقی نہیں رہتا-

    کتابی علم جو میرے پاس بھی ہے، وہ تو مل جائے گا، لیکن وہ روح جو سفر کرتی ہے، وہ داخل نہیں ہوگی- میری بلّی کنبر نے آج صبح سے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور میں بار بار قدم قدم پر یہ سوچتا ہوں کہ کیا میں اس جیسا نہیں بن سکتا؟ اب مجھے اپنی بلّی پر غصّہ بھی آتا ہے اور پیار بھی آتا ہے اور میں اس سے چڑ گیا ہوں کہ یہ تو اتنے بڑے گریڈ حاصل کر گئی اور فرسٹ ڈویژن میں ایم اے کر گئی ہے اور میں جو اس کا مالک ہوں، میں بالکل پیچھے ہوں- یہ ساری بات غور کرنے کی ہے- آپ میری نسبت باطن کے سفر کے معمول میں بہتر ہیں اور جو جذبہ اور جو محبّت اور لگن آپ کی روحوں کو عطا ہوتی ہے، وہ مجھے عطا نہیں ہوئی- لیکن میں آپ کے ساتھ ساتھ بھاگنے والوں میں شریک رہنا چاہتا ہوں کہ کچھ کرنیں جب بٹ جائیں، آپ کے سامان سے تو وہ مجھے مل جائیں-

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    واہ ۔ بہت خوب۔
    ہلکی اور عام سی گھریلو مثال سے روحانیت کی دنیا کی بہت اہم مثال سمجھا دی ہے۔
    کاش ہم سب تعلق باللہ اور توکل علی اللہ کے اعلی درجے پر پہنچ سکیں۔ آمین
     
  30. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آزاد جی بہت شکریہ اس شئیرنگ کا چھٹیاں کیں تو آپ کی اس شئیرنگ کو بہت مس کیا پلیزززززززززززز مزید لکھیں اب
     

اس صفحے کو مشتہر کریں