1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

زاویہ 2

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از آزاد, ‏1 اکتوبر 2008۔

  1. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 10
    تنقید اور تائی کا فلسفہ


    (نوٹ- یہ پروگرام اشفاق احمد کے انتقال سے چند روز قبل نشر ہوا)

    ان دنوں میرا پوتا، جو اب بڑا ہو گیا ہے،عجیب عجیب طرح کے سوال کرنے لگاہے- ظاہر ہے کہ بچّوں کو بڑا حق پہنچتا ہے سوال کرنے کا- اُس کی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے، تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو- وہ انگریزی سکول کے بچّے ہیں، اس لیے زیادہ اردو نہیں جانتے- خیر! وہ مجھ سے پڑھنے لگا- اردو سیکھنے کے دوران وہ مجھ سے کچھ اور طرح کے سوالات بھی کرتا ہے- پرسوں مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ دادا! یہ آمد و رفت جو ہے،اس میں عام طور پر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟ (اُس نے یہ لفظ نیا نیا پڑھا تھا) اب اُس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا- پھر اُس نےمجھ سے کہا کہ دادا! کیا نفسیات کی کوئی ایسی کتاب ہے، جس میں آدمی کو پرکھنے کے اچھے سے اور آسان سے طریقے ہوں؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! تہمیں آدمی کو پرکھنے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اُس نے کہا کہ پتہ تو چلے کہ آخر مدِّ مُقابل کیسا ہے؟ کس طرز کا ہے؟ جس سے میں دوستی کرنے جا رہا ہوں، یا جس سے میری مُلاقات ہو رہی ہے- میں اُس کو کس کسوٹی پر لٹمس پیپر کے ساتھہ چیک کروں- میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اُس کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر تم ایسا چاہتے ہی ہو تو ظاہر ہے علمِ نفسیات میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں کہ

    HOW TO UNDERSTAND PEOPLE? HOW TO CHECK HUMAN BEINGS?

    ایسی بیشمار کتابیں ہیں، لیکن وہ ساری کی ساری اتنی ٹھیک نہیں جتنی ہمارے ہاں عام طور پر سمجھی جاتی ہیں- ہماری اُستاد تو ہماری تائی تھی- میں نے پہلے بھی اس کے بارے میں آپ لوگوں کو بتایا ہے، لیکن آپ میں سے شاید بہت سے لوگ نئے ہیں اور اُن کوُ "تائی“ کے بارے میں پتہ نہ ہو، جسے سارا گاؤں ہی”تائی“ کہتا تھا- بڑے کیا، چھوٹے کیا، سبھی- وہ ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ تیلی جو میری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے، اُن کی بیوہ تھیں- ہماری تائی تیلن تھی، تیل نکالتی تھی اور کچی گھانی کا خالص سرسوں کا تیل بیچتی تھی- سارے گاؤں والے اُس سے تیل لیتے تھے- خود ہی بیل چلاتی تھی، بڑی لٹھ جو بہت مشکل ہوتی ہے، بیلوں سے وہ اکیلے نکال لیتی تھی-

    میں جب اُس سے ملا تو اُس کی عمر 80 برس کی تھی- میں اُس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، لیکن مجھے اُس تائی کی شخصیت نے متاثر بہت کیا- وہ اتنی خوش مزاج، اتنی خوشی عطا کرنے والی اور خوش بختی کا سامان مہیا کرنے والی تھی کہ جس کا کوئی حساب نہیں- شام کے وقت گاؤں کے لوگ، بزرگ، ہندو، سکھ سب اُس کے پاس جمع ہو جاتے تھے کہ ہمیں کوئی دانش کی بات اُس کے ہاں سے ملے گی- ایک طرح سے یوں سمجھئے کہ اُس کا گھر”کافی ہاؤس“ تھا جس میں زمیندار لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے- ایک بار میں نے تائی سے پوچھا کہ یہ تیری زندگی جو گزری ہے،اس کا میں تو شاہد نہیں ہوں، وہ کس قسم کی تھی؟ اُس نے بتایا کہ میں چھبّیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئی اور پھر اُس کے بعد میری عمر دیکھ لو، تمہارے سامنے ہے- اَسّی برس ہے- میں ایسے ہی رہی، لیکن میں کڑوی بہت تھی اور تلخ طبیعت کی ہو گئی- جب میں بیوہ ہو گئی- میں خُدا پر بھی تنقید کرتی تھی، حالات پر بھی، وقت پر بھی، لوگوں پر بھی اور میری کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوتا رہتا تھا -

    میری شخصیت کو وہ سکون نہیں ملتا تھا، جس کی میں آرزو مند تھی، لیکن میں ہر بندے کو اچھی طرح سے”کھڑکا“ دیتی تھی اور وہ شرمندہ ہو کر اور گھبرا کر میرے ہاں سے رُخصت ہوتا تھا- تو میں نے ایک اور یہ فیصلہ کیا کہ ( اس عورت میں اللہ نے فیصلے کی بڑی صلاحیت رکھی ہوئی ہے ) اگر مجھے آدمیوں کو، لوگوں کو سمجھنا ہی ہے، اگر مجھے ان کی روحوں کے اندر گہرا اُترنا ہے، تو میرا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ مجھے ان پر Criticism کرنا، تنقید کرنا، نکتہ چینی کرنا چھوڑنا ہوگا- جب آپ کسی شخص پر نکتہ چینی کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اُس پر تنقید کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اُس میں نقص نکالنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ آدمی سارے کا سارا آپ کی سمجھ میں آنے لگتا ہے اور ایکسرے کی طرح اُس کا اندر اور باہر کا وجود آپ کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے-

    اب یہ اُس کا بھی فلسفہ تھا اور کچھ بڑوں سے بھی اُس نے حاصل کیا تھا، وہ بھی تھا- جب بھی مجھے کوئی ایسا مشکل مسئلہ ہوتا، تو میں ضرور اُس سے ڈسکس کرتا کہ اس کو کیسے کرنا ہے، اکیلا میں ہی نہیں، سارے ہی اُس سے ڈسکس کرتے تھے، کیونکہ اُس کا فلسفہ یہ تھا کہ کسی کی خرابیاں تلاش کرنے کے بجائے اُس کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہئے اور ظاہر ہے کہ آدمی کسی کی خوبیوں پر نظر نہیں رکھ سکتا، کیونکہ اُس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، لیکن ڈھونڈنی چاہئیں- وہ تائی واحد ایسی فرد تھی جو کہ بُرے سے بُرے وجود میں سے بھی خوبی تلاش کر لیتی تھی- میرا بھائی جو مجھ سے دو جماعتیں آگے تھا، وہ بھی تائی کے اس روّیے سے بڑا تنگ تھا- وہ ذہین آدمی تھا- ایک دن اُس نے ایک ترکیب سوچی- اُس نے کہا کہ یار! میں ابھی تائی کو پھانستا ہوں، کیونکہ وہ بالکل ان پڑھ ہونے کے باوصف ہم سے بہت آگے چلی جا رہی ہے- میں نے آج ایک معمہ بنایا ہے، اسے لے کر تائی کے پاس چلتے ہیں- لیکن تم بہت سنجیدہ اور معصوم سے”میسنے“بن کر کھڑے ہوجانا- یہ تائی ہر چیز کی تعریف کرتی ہے،کبھی آج تک اس کو کسی میں نقص نظر نہیں آیا، پھر زندگی کا مزہ کیا ہےکہ آدمی نقص کے بغیر ہی زندگی بسر کرتا چلا جائے اور ارد گرد پڑوس میں عورتیں آباد ہوں اور آدمی اُن میں نقص ہی نہ نکالے- بیبیاں تو فوراً کھڑکی کھول کر دیکھتی ہیں کہ اُس کے گھر میں کون آیا ہے؟ کون گیا؟ فٹا فٹ نقص نکالنے اور خرابی کی وضاحت پیش کرنے کے لیے اُن کو موقعہ چاہئے ہوتا ہے- خیر! ہم گئے- میرے بھائی نے بہت ادب کے ساتھ اُس سے کہا ( اور وہ خوش تھا کہ اب تائی پھنس جائے گی) تائی! یہ شیطان کیسا ہے؟ تائی کہنے لگی پُت! ابلیس؟ وہ کہنے لگا ، ہاں- تائی کہنے لگی،ہائے ہائے صدقے جاواں وہ بڑا ہی محنتی ہے، جس کم دا تہیہ کر لے اُس کو چھوڑتا ہی نہیں، پورا کر کے دم لیتا ہے- کیا کہنے اُس کے، وہ ہماری طرح سے نہیں ہے کہ کسی کام میں آدھا دل اِدھر اور آدھا دل اُدھر،اُس نے جس کام کی ٹھان لی، پورا کر کے ہی چھوڑتا ہے- میں نے بھائی سے کہا کہ آجاؤ یہاں ہماری دال نہیں گلے گی، یہ اور طرح کی یونیورسٹی ہے اور اس یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے جو لوگ ہیں، ہم اُن کے ساتھ نہیں کھڑے ہو سکتے- میں اپنے پوتے سے یہ کہہ رہا تھا ( ظاہر ہے عرصہ بیت گیا، اب تائی اس جہاں میں موجود نہیں ہے، لیکن میں اُس سے اپنے حوالے سے اور حیثیت سے بات کر رہا تھا ) کہ آدمی کو اپنے آپ کو جاننے کے لئے دوسرے آدمی کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- جب تک آپ دوسرے کو آئینہ نہیں بنائیں گے، آپ کو اپنی ذات کی شکل نظر نہیں آئے گی- اگر آپ اس کے اوپر کالک ملتے رہیں گے، تو پھر بڑی مشکل ہو جائےگی-

    اتّفاق سے اب ہمارے ہاں Criticism کچھ زیادہ ہی ہونے لگا ہے اور کچھ ہمیں پڑھایا بھی جاتا ہے- کچھ ہماری تعلیم بھی ایسی ہے- کچھ ہم ایسے West oriented Educated لوگ ہو گئے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہر بات کا احتساب کرو، اس پر تنقید کرو اور ہر چیز کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایسے ہی آگے چلتے ہوئے زندگی بسر نہ کرو-

    جب میں لکھنے لکھانے لگا اور میں چھوٹا سا ادیب بن رہا تھا، یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے، اُس وقت لاہور میں ایک”کافی ہاؤس“ ہوتا تھا، وہاں بڑے سینئر ادیب رات گئے تک نشست کرتے تھے، تو ہم بھی اُن کے پاس بیٹھ کر اُن سے باتیں سیکھتے تھے- اُن سے بات کرنے کا شعور حاصل کرتے تھے اور اپنے مسائل بھی اُن سے بیان کرتے تھے- اُس زمانے میں راجندر سنگھہ بیدی یہاں ڈاکخانے میں کام کرتے تھے- پریم چند بھی”کافی ہاؤس“ میں آ جاتے تھے اور اس طرح بہت بڑے لوگ وہاں آجاتے تھے- میں رات دیر سے گھر آتا تھا، میری ماں ہمیشہ میرے آنے پر ہی اُٹھ کر چولہا جلا کر روٹی پکاتی تھی ( اُس زمانے میں گیس ویس تو ہوتی نہیں تھی ) اور میں ماں سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ روٹی رکھ کر سو جایا کریں، تو وہ کہتیں تو رات کو دیر سے آتا ہے- میں چاہتی ہوں کہ تجھے تازہ پکا کر روٹی دوں- جیسا کہ ماؤں کی عادت ہوتی ہے- میں اُن سے اس بات پر بہت تنگ تھا اور میں نے اُن سے یہاں تک کہ دیا کہ اگر آپ اسی طرح رات دیر سے اُٹھ کر روٹی پکاتی رہیں، تو پھر میں کھانا ہی نہیں کھاؤں گا- ایک دن یونہی رات دیر سے میرے آنے کے بعد”پُھلکا“ (تازہ روٹی) پکاتے ہوئے اُنہوں نےمجھ سے پوچھا”کہاں جاتا ہے“ میں نے کہا، اماں! میں ادیب بن رہا ہوں- کہنے لگیں، وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا، اماں! لکھنے والا، لکھاری- وہ پھر گویا ہوئیں، تو پھر کیا کرے گا؟ میں نے کہا، میں کتابیں لکھا کروں گا- وہ کہنے لگیں، اینیاں اگے پیاں جیہڑیاں کتاباں اونہاں دا کی بنے گا؟ میں نے کہا، نہیں! نہیں، وہ تو جھوٹ ہیں، کچھ نہیں- میں اور طرح کا رائٹر بنوں گا اور میں سچ اور حق کے لئے لڑوں گا اور میں ایک سچی بات کرنے والا بنوں گا-

    میری ماں کچھ ڈر گئی- بیچاری اَن پڑھ عورت تھی گاؤں کی- میں نے کہا، میں سچ بولا کروں گا اور جس سے ملوں گا، سچ کا پرچار کروں گا اور پہلے والے لکھاری بڑے جھوٹے رائٹر ہیں- مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس وقت ماں کے ہاتھ میں پکڑے چمٹے میں روٹی اور پتیلی (دیگچی) تھی- اُس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی، اگر تو نے یہی بننا ہے، جو تو کہتا ہے اور تو نے سچ ہی بولنا ہے، تو اپنے بارے میں سچ بولنا- لوگوں کے بارے میں سچ بولنا نہ شروع کر دینا- یہ میں آپ کو بالکل اَن پڑھ عورت کی بات بتا رہا ہوں- سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے، جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں، وہ سچ نہیں ہوتا- ہماری یہ عادت بن چکی ہے اور ہمیں ایسے ہی بتایا، سکھایا گیا ہے کہ ہم سچ کا پرچار کریں-

    جب ہم باباجی کے پاس گئے اور کبھی کبھی اُن کے سامنے میرے منہ سے یہ بات نکل جاتی تھی کہ میں سچی اور حق کی بات کروں گا، تو وہ کہا کرتے تھے، سچ بولا نہیں جاتا، سچ پہنا جاتا ہے، سچ اوڑھا جاتا ہے، سچ واپرتا (اوڑھنے) کی چیز ہے، بولنے کی چیز نہیں ہے- اگر اسی طرح اور یوں ہی سچ بولو گے تو جھوٹ ہو جائے گا- جب تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی، لیکن اب جوں جوں وقت گزرتا ہے اور یہ حسرت اور آرزو ہی رہی ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ مرنے سے پہلے میں کم از کم ایک دن سچ اوڑھ کرباہر نکلوں اور ساری دنیا کا درشن کر کے پھر واپس لوٹوں، اوڑھا ہوا سچ معلوم نہیں کتنا خوبصورت ہوتا ہو گا، بولا ہوا تو آپ کے سامنے ہی ہے- وہ اچھا نہیں ہوتا- جب آدمی کسی کو Criticize کرتا ہے اور کسی کے اوپر تنقید کرتا ہے، تو حُکم تو یہ ہے کہ پہلے آپ دیکھ لیں اور اُس کی عینی شہادت لیں کہ آیا اس میں ایسی کوئی خرابی ہے بھی کہ نہیں- اگر وہ نظر بھی آجائے اور خرابی ہو بھی، تو پھر بھی اُس کا اعلان نہ کریں- آپ کو کیا ضرورت ہے کسی کی خرابی کا اعلان کرنے کی، اللہ ستارالعیوب ہے- اگر اللہ خُداوند تعالٰی ہماری چیزوں کو اُجاگر کرنےلگےتو، توبہ توبہ ہم تو ایک سیکنڈ بھی زندہ نہ رہیں، لیکن وہ ہمارے بھید”لکو“ کر رکھتا ہے- تو ہمیں اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ ہم لوگوں کی خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے پھریں- اگر آپ کو کسی میں خرابی نظر آئے تو یہ یکھیں کہ اگر میں اس کی جگہ پر ہوتا، میں انہی Circumstances میں ہوتا اور میں ایسے حالات میں سے گزرا ہوا ہوتا، بچپن میں یتیم ہو گیا ہوتا، یا کسی کے گھر پلا ہوتا، تو میری شخصیت کیسی ہوتی؟ یہ ایک بات بھی غور طلب ہے-

    ممکن ہے آپ کی آنکھ میں ٹیڑھ ہو اور اُس بندے میں ٹیڑھ نہ ہو- ایک واقعہ اس حوالے سے مجھے نہیں بھولتا، جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے- یہ لاہور میں ایک جگہ ہے- وہ اُن دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا- اچھا پوش علاقہ تھا- وہاں ایک بی بی بہت خوبصورت، ماڈرن قسم کی بیوہ عورت نو عمر وہاں آ کر رہنے لگی- اُس کے دو بچے بھی تھے- ہم، جو سمن آباد کے”نیک“ آدمی تھے، ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آ کر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے اور اُس کا اندازِ زیست ہم سے ملتا جُلتا نہیں ہے- ایک تو وہ انتہائی اعلٰی درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی، پھر اُس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی- تیسری اُس میں خرابی یہ تھی کہ اُس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں- اُس کے جو دو بچّے تھے، وہ گھر سے باہر بھاگے پھرتے تھے اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے- لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے تھے اور جن گھروں میں جاتے، وہیں سے کھا پی لیتے تھے، یعنی گھر کی زندگی سے اُن بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی-

    اُس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے- گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں، لیکن اُس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتی تھیں- ظاہر ہے اس صورتِ حال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے- اُس کے بارے میں ہماراایسا ہی روّیہ تھا، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سُنا رہا ہوں، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہوں گے۔ ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے علاقے میں آکر آباد ہو گئی ہے- میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی- کوئی کام نہیں کرتی تھی- اُسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا- بچّوں کو بھی کئی بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی-

    ایک روز وہ سبزی کی دُکان پر گر گئی، لوگوں نے اُس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اُسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی- تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی- جو بندے اُس کے ہاں آتے تھے، اُنہوں نے ہی اُس کا کفن دفن کا سامان کیا- بعد میں پتہ چلا کہ اُن کے ہاں آنے والا ایک بندہ اُن کا فیملی ڈاکٹر تھا- اُس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا- اُس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی Skin وغیرہ کی کہ اُس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی- جس پر زخم ایسے تھے اور اُسے خوشبو کے لیے سپرے کرنا پڑتا تھا، تاکہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو- اُس کا لباس اس لیے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جوبدن کو نہ چُبھے- دوسرا اُس کے گھر آنے والا اُس کا وکیل تھا، جو اُس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا- تیسرا اُس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا، جو اپنی بھابی کو ملنے آتا تھا- ہم نے ایسے ہی اُس کے بارے طرح طرح کے اندازے لگا لئے اور نتائج اخذ کر لئے اور اُس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا، تو بچّوں کو دھکے مار باہر نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لئے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی-

    میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام اللہ پر چھوڑیں وہ جانے اور اُس کا کام جانے-ہم اللہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اُٹھائیں، کیونکہ اُس کا بوجھ اُٹھانے سے آدمی سارے کا سارا”چِبہ“ ہو جاتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے، مر جاتا ہے-

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں عطا کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ !!
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔
    بہت حکیمانہ گفتگو ہے۔ ماں‌کی نصیحت۔
    واہ ۔ کتنی بڑی بات ہے۔


    اور کینسر کی مریضہ عورت۔ واقعی ہمیں خدا تعالی کا خوف ہر حال میں دامن گیر رکھنا چاہیے۔

    ازاد بھائی ۔ بہت عمدہ شئیرنگ ہے۔ شکریہ
     
  3. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 11
    سلطان سنگھاڑے والا



    انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اُس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اب بڑے پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرے اور وہ ایسے جھمیلوں میں نہ رہے، جس طرح کے جھمیلوں میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور یہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ دوستی لگا لیتے ہیں، وہ بڑے مزے میں رہتے ہیں اور وہ بڑے چالاک لوگ ہوتے ہیں۔ ہم کو اُنہوں نے بتایا ہوتا ہے کہ ہم ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ دوستی رکھیں اور وہ خود بیچ میں سے نکل کر اللہ کو دوست بنا لیتے ہیں۔ اُن کے اوپر کوئی تکلیف، کوئی بوجھ اور کوئی پہاڑ نہیں گرتا۔ سارے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے میرے اور آپ کے ہیں، لیکن ان لوگوں کو ایک ایسا سہارا ہوتا ہے، ایک ایسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔

    میں نے یہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ہمارے گھر میں دھوپ سینکتے ہوئے میں ایک چڑیا کو دیکھا کرتا ہوں، جو بڑی دیر سے ہمارے گھر میں رہتی ہے اور غالباً یہ اُس چڑیا کی یا تو بیٹی ہے، یا نواسی ہے جو بہت ہی دیر سے ہمارے مکان کی چھت کے ایک کونے میں رہتی ہے۔ ہمارا مکان ویسے تو بڑا اچھا ہے، اس کی "آروی" کی چھتیں ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی کھدرا ایسا رہ ہی جاتا ہے، جو ایسے مکینوں کو بھی جگہ فراہم کر دیتا ہے۔ یہ چڑیا بڑے شوق، بڑے سبھاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ہمارے کمرے کے اندر بھی اور فرش پر بھی چلی آتی ہے۔ کل ایک فاختہ آئی جو ٹیلیفون کی تار پر بیٹھی تھی اور یہ چڑیا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت میں دھوپ سینک (تاپ) رہا تھا۔ اُس چڑیا نے فاختہ سے پوچھا کہ " آپا یہ جو لوگ ہوتے ہیں انسان، جن کے ساتھ میں رہتی ہوں، یہ اتنے بے چین کیوں ہوتے ہیں؟یہ بھاگے کیوں پھرتے ہیں؟ دروازے کیوں بند کرتے اور کھولتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟" فاختہ نے کہا کہ "میرا خیال ہے کہ جس طرح ہم جانوروں کا ایک اللہ ہوتا ہے، ان کا کوئی اللہ نہیں ہے اور ہمیں یہ چاہئے کہ ہم مل کر کوئی دعا کریں کہ ان کو بھی ایک اللہ مل جائے۔ اس طرح انہیں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ اگر ان کو اللہ نہ مل سکا، تو مشکل میں زندگی بسر کریں گے۔"

    اب معلوم نہیں میری چڑیا نے اُس کی بات مانی یا نہیں، لیکن وہ بڑی دیر تک گفت وشنید کرتی رہیں اور میں بیٹھا اپنے تصور کے زور پر یہ دیکھتا رہا کہ ان کے درمیان گفتگو کا شاید کچھ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ تو ہم کس وجھ سے، ہمارا اتنا بڑا قصور بھی نہیں ہے، ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔

    ہمارے ایک دوست تھے۔ وہ تب ملتے تھے، جب ہم راولپنڈی جاتے تو کہتے کہ جی آنا، کوئی ملنے کا پروگرام بنانا، یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن ایڈریس نہیں بتاتے تھے۔ جیسے ہم اللہ کو اپنا ایڈریس نہیں بتاتے کسی بھی صورت میں میں کہ کہیں سچ مچ ہی نہ پہنچ جائے۔ ایک دھڑکا لگا رہتا ہے۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ بس مہینے کے آخری ویک کی کسی ڈیٹ کو ملاقات کا پروگرام بنا لیں گے۔ Sunset کے قریب، نہ ڈیٹ بتاتے تھے نہ ٹائم بتاتے تھے، Determine نہیں کرتے تھے، تو ایسا ہی اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے، بلکہ کسی حد تک ڈر جاتے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر ہم نے اللہ سے دوستی لگا لی اور وہ آگیا تو ہمیں بڑے کام کرنے پڑیں گے۔ دوپٹہ چننا ہوتا ہے، بوٹ پالش کرنا ہوتے ہیں، مہندی پر جانا ہوتا ہے۔ اُس وقت اللہ میاں آگئے اور اُنہوں نے کہا کہ "کیا ہو رہا ہے؟" تو مشکل ہوگی۔ ہم نے آخر زندگی کے کام بھی نمٹانے ہیں۔ باقی جو بات میں سوچتا ہوں اور میں نے اپنے بابا کو یہ جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرنا بہت اچھی بات ہے اور ہے بھی اچھی بات۔ اُنہوں نے کہا کہ عبادت کرنا ایک اور چیز ہے، تم نے تومجھ سے کہا کہ میں خداوند کریم کو بِلا واسطہ طور پو ملنا چاہتا ہوں۔ عبادت کرنا تو ایک گرائمر ہے جو آپ کر رہے ہیں اور اگر آپ عبادت کرتے بھی ہیں، تو پھر آپ اپنی عبادت کو Celebrate کریں، جشن منائیں، جیسے مہندی پر لڑکیاں تھال لےکر ناچتی ہیں نا، موم بتیاں جلا کر اس طرح سے، ورنہ تو آپ کی عبادت کسی کام کی نہیں ہوگی۔

    جب تک عبادت میں Celebration نہیں ہوگی، جشن کا سماں نہیں ہوگا، جیسے وہ بابا کہتا ہے "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا" چاہے سچ مچ نہ ناچیں لیکن اندر سے اس کا وجود اور روح "تھیا تھیا" کر رہی ہے، لیکن جب تک Celebration نہیں کرے گا، بات نہیں بنے گی۔ اس طرح سے نہیں کہ نماز کو لپیٹ کر "چار سنتاں، فیر چار فرض فیر دو سنتاں فیر دو نفل،تِن وِتر" سلام پھیرا، چلو جی رات گزری فکر اُترا۔ نہیں جی! یہ تو عبادت نہیں۔ ہم تو ایسی ہی عبادت کرتے رہے ہیں، اس لیے تال میل نہیں ہوتا۔ جشن ضرور منانا چاہئے عبادت کا، دل لگی، محبّت اور عقیدت کے ساتھ عبادت۔ ہمارے یہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں دو بڑی ہاکی اور کرکٹ گراونڈز ہیں، وہاں سنڈے کے سنڈے بہت سویرے، جب ہم سیر سے لوٹ رہے ہوتے ہیں، منہ اندھیرے گڈی اُڑانے والے آتے ہیں۔ وہ اس کا بڑا اہتمام کئے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے بڑے بڑے تھیلے ہوتے ہیں اور بہت کاریں ہوتی ہیں، جن میں وہ اپنے بڑے تھیلے رکھ کر پتنگ اُڑانے کے لئے کھلے میدان میں آتے ہیں۔ اب وہ خالی پتنگ نہیں اُڑاتے، بلکہ اہتمام کے ساتھ اس کا جشن بھی مناتے ہیں۔ جب تک اس کے ساتھ جشن نہ ہو، وہ پتنگ نہیں اڑتی اور نہ ہی پتنگ اُڑانے والا سماں بندھتا ہے، کھانے پینے کی بے شمار چیزیں باجا بجانے کے "بھومپو" اور بہت کچھ لے کر آتے ہیں، وہاں جشن زیادہ ہوتا ہے، کائٹ فلائنگ کم ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں عبادت زیادہ ہوتی ہے، Celebration، اللہ کو ماننا کم ہوتا ہے۔

    میں نے سوچا یہ گڈی اُرانے والے بہت اچھے رہتے ہیں، ہمارے پاس بابا جی کے ہاں ایک گڈی اُڑانے والا آیا کرتا تھا موچی دروازے کے اندر علاقے سے، بڑی خوبصورت دھوتی (تہبند) باندھتا تھا، جیسے انجمن فلموں میں باندھا کرتی تھی، لمبے لڑ چھوڑ کرباندھا کرتی تھی، وہ جب آتا تو ہمارے بابا جی اُسے کہتے، گڈی اُڑاؤ ( اس طرح باباجی ہمیں Celebrate کرنے کا حوصلہ دیتےتھے، جو بات اب سمجھ میں آئی ہے) وہ اتنی اونچی پتنگ اُڑاتا تھا کہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی میرے جیسا آدمی تو اس لمبی ڈور کو سنبھال بھی نہیں سکتا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ بھا صدیق! تم یہ گڈی کیوں اُڑاتے ہو؟ کہنے لگا، جی ! یہ گڈی اُڑانا بھی اللہ کے پاس پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ کہنے لگا، نظر نہیں آتی، لیکن اس کی کھینچ بتاتی رہتی ہے کہ میں ہوں، اللہ نظر نہیں آتا لیکن آپ کے دلوں کی دھڑکن یہ بتاتی ہے کہ "میں ہوں"۔ یہ نہیں کہ وہ آپ کے رُوبرو آ کر موجود ہو۔

    جب میں ریڈیو میں کام کرتا تھا تو ہمیں ایک Assignment ملی تھی۔ وہ یہ کہ پتا کریں چھوٹے دکانداروں سے کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ چھوٹے دکانداروں سے مراد چھابڑی فروش۔ یہ کچھ دیر کی بات ہے، میں نے بہت سے چھابڑی فروشوں کا انٹرویو کیا۔ اُن سے حال معلوم کئے۔ پیسے کا ہی سارا اونچ نیچ ہے اور ہم جب بھی تحقیق کرتے ہیں یا تحلیل کرتے ہیں یا Analysis کرتے ہیں تو Economics کی Base پر ہی کرتے ہیں کہ کتنے امیر ہیں، کتنے غریب ہیں، کیاتناسب ہے کہ وہ کس Ratio کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اُن کے کیا مسائل ہیں؟ دِلّی (دہلی) دروازے کے باہر اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے دہلی دروازہ دیکھا ہو، اُس کے باہر ایک آدمی کھڑا تھا نوجوان، وہ کوئی تیس بتیس برس کا ہو گا۔ وہ سنگھاڑے بیچ رہا تھا۔ میں اُس کے پاس گیا۔ میں نے پوچھا، آپ کا نام کیا ہے؟ کہنے لگا، میرا نام سلطان ہے! میں نے کہا کب تک تم یہ سنگھاڑے بیچتے ہو؟ کہنے لگا، شام تک کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے پوچھا اس سے تمہیں کتنے روپے مل جاتے ہیں؟ اُس نے بتایا، ستر بہتر روپے ہوجاتے ہیں۔ میں نے اُس سے پوچھا، انہیں کالے کیسے کرتے ہیں؟ ( میری بیوی پوچھتی رہتی تھی مجھ سے،کیونکہ وہ دیگچے میں ڈال کر اُبالتی ہے تو وہ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں) اُس نے کہا کہ جی پنساریوں کی دکان سے ایک چیز ملتی ہے، چمچہ بھر اس میں ڈال دیں تو کالے ہو جائیں گے اُبل کر اور آپ جا کر کسی پنساری سے پوچھ لیں کہ سنگھاڑے کالے کرنے والی چیز دے دیں، وہ دیدے گا۔جب اُس نے یہ بات کی تو میں نے کہا، یہ اندر کے بھید بتانے والا آدمی ہے اور کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھتا۔ کھلی نیّت کا آدمی ہے۔ یقیناً یہ ہم سے بہتر انسان ہوگا۔

    میں نے کہا، جب آپ ستر بہتر روپے روز بنا لیتے ہیں تو پھر ان روپوں کا کیا کرتےہیں؟ کہنے لگا، میں جا کر "رضیہ" کو دے دیتا ہوں۔ میں نے کہا، رضیہ کون ہے؟ کہنے لگا، میری بیوی ہے۔میں نے کہا کہ شرم کرو اتنی محنت سے پیسے کماتے ہو اور سارے کے سارے اُسے دے دیتے ہو۔ کہنے لگا، جی اسی کے لئے کماتے ہیں۔ ( اللہ کہتا ہے نا قرآنِ پاک میں کہ اَلرّجَالُ قُوامُون عَلیٰ النِسّاء یہ جو مرد ہیں، یہ عورت کے Provider ہیں )۔ میں نے اُس سے کہا، اچھا تو بیچ میں سے کچھ نہیں رکھتے؟ کہنے لگا، نہیں جی! مجھے کبھی ضرورت نہیں پڑی۔ میں نے کہا، اس وقت رضیہ کہاں ہے؟ ( وہ inside خوبصورت آدمی تھا اس لیے مجھے اُس میں دلچسپی پیدا ہوئی) کہنے لگا، رضیہ کہیں بازار وغیرہ گئی ہو گی۔ اس کی دو سہیلیاں ہیں اور وہ تینوں صبح سویرے نکل جاتی ہیں بازار۔ اُس نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی گلوکوز لگواتی ہیں، اُن کو شوق ہے ( اس طرح مجھے تو بعد میں پتا چلا کہ اندرونِ شہر کی عورتیں گلوکوز لگوانا پسند کرتی ہیں، گلوکوز لگوانا انہیں اچھی سی چیز لگتی ہے کہ اس کے لگوانے سے جسم کو تقویت ملے گی)۔ میں نے کہا، اچھا تم خوش ہو اُس کے ساتھ؟ کہنے لگا، ہاں جی! ہم اپنے اللہ کے ساتھ بڑے راضی ہیں۔ میری تو اللہ کے ساتھ ہی آشنائی ہے۔ میں تو کسی اور آدمی کو جانتا نہیں۔ اس پر میں چونکا اور ٹھٹکا۔ اُس کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ایک بڑا آدمی ہے لاہور کا۔ میں نے اگر کوئی حاکم دیکھا ہے تو وہ "سلطان سنگھاڑا فروش" ہے۔ اُس کو کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ کوئی واردات، واقعہ اُس کے اوپر اثر انداز نہیں ہوتا تھا۔

    میں اُس سے جب بھی ملتا رہا کوئی شکایت اُس کی زبان پر نہیں ہوتی تھی۔ اب تو تین سال سے جانے وہ کہاں غائب ہے۔ مجھے نظر نہیں آیا، لیکن میں اُس کے حضور میں حاضری دیتا ہی رہا۔ اُس کا درجہ چونکہ اس اعتبار سے بلند تھا کہ اُس کی دوستی ایک بزرگ ترین ہستی سے تھی۔ میں ذرا اپنی گفتار اور باتوں میں تھوڑا سا با ادب ہو گیا۔ میں نے اُس سے کہا، یار سلطان! کیا تم اللہ کے ساتھ گفتگو بھی کرتے ہو؟ کہنے لگا، ہم تو شام کو جاتے، صبح کو آتےہوئے، منڈی سے سودا خریدتے ہوئے اُس کے ساتھ ہی رہتے ہیں اور اُسی کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے کہا، کون سی زبان میں؟ وہ کہنے لگا، "اوہ پنجابی وی جاندا اے، اردو جاندا اے، سندھی جو وی بولی بولیں او سب جاندا اے!" میں نے کہا تو نے مجھے بتایا تھا ایک دن کہ گیارہ برس ہوگئے تمہاری شادی کو اور تمہارا کوئی بچّہ نہیں ہے؟ کہنے لگا، بچّہ کوئی نہیں میں اور رضیہ اکیلے ہیں۔ میں نے کہا، اللہ سے کہو کہ اللہ تجھے ایک بچّہ دے۔ کہنے لگا، ، نہیں جی! یہ تو ایک بڑی شرم کی بات ہے۔ بزرگوں سے ایسی بات کیا کرنی، بُرا سا لگتا ہے۔ وہ خداوند تعالٰی کو ایک بزرگ ترین چیز سمجھ کر کہ رہا تھاکہ جی! بڑوں کے ساتھ ایسی بات نہیں کرنی۔ میں یہ کہتا فضول سا لگوں گا کہ اللہ مجھے بچّہ دے۔

    میں نے کہا کہ کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ ہماری بھی اُس کے ساتھ دوستی ہو جائے؟ کہنے لگا، اگر آپ چاہیں تو ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نہ چاہیں تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے جیسا کہ میں پہلے عرض کر رہا تھا، اپنے سارے برسوں کا میں نے جائزہ لیا، سارے دنوں کا، میں نے کبھی یہ نہیں چاہا۔ میرا یہی خیال تھا کہ میں عبادت کروں گا اور عبادت ہی اس کا راز ہے اور عبادت کو ہی لپیٹ کر رکھ دوں گا اپنے مصلّے کے اوپر اور دن رات اسی طرح عبادت کرتا رہوں گا۔ لیکن وہ جو میرا منتہائے مقصود ہے، وہ جو میرا محبوب ہے، اُس کی طرف جانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ میں یہی سمجھتا رہا اور آج تک یہی سمجھتا رہا ہوں کہ عبادت ہی یہ سارا راز اور سارا بھید ہے، حلانکہ عبادت سے ماورا (میں یہ جو بات عرض کر رہا ہوں، آپ کو سمجھانے کے لئے کر رہا ہوں) عبادت سے پرے ہٹ کر ایک آرزو کی بھی تلاش ہے کہ میں اپنے اللہ کے ساتھ جس کی کوئی ایک ہستی ہے نہ نظر میں آنے والی، اس کے ساتھی کوئی رابطہ قائم کروں، جیسا سلطان نے کیا تھا۔ جیسے اُس کے علاوہ چار پانچ بندے اور بھی ہیں میری نظر میں۔ میں نے اس بات سے اندازاہ لگایا کہ اتنا خوش آدمی میں نے زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔ جتنے بھی اللہ کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگ تھے، وہ انتہائی خوش تھے۔

    1965ء کی جنگ میں اس (سلطان) کے پاس گیا، لوگ گھبرائے بھی ہوئے تھے، جذباتی بھی تھے۔ وہ ٹھیک تھا، ویسے ہی، بالکل اسی انداز میں جیسے پہلے ملا کرتا تھا۔ میں نے اُس سے کہا تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے میرے دل میں چلو کم از کم یہ خواہش ہی پیدا ہوجائے، خدا سے دوستی کی اور میں کم از کم اس پلیٹ فارم سے اُتر کر دو نمبر کے پلیٹ فارم پر آ جاؤں۔ پھر میں وہاں سے سیڑھیاں چڑھ کر کہیں اور چلا جاؤں۔ میری نگاہ اوپر ہوجائے، تو کہنے لگا ( حالانکہ اَن پڑھ آدمی تھا، اب لوگ مجھ سے بابوں کا ایڈریس پوچھتے ہیں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ ایک سلطان سنگھاڑے والا دِلّی دروزے کے باہر جہاں تانگے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کھڑا ہے، جو بہت عظیم "بابا" ہے اور نظر آنے والوں کوشاید نظر آتا ہوگا، مجھے پورے کا پورا تو نظر نہیں آتا ) بھا جی! بات یہ ہے کہ جب ہم منہ اوپر اُٹھاتے ہیں تو ہم کو آسمان اور ستارے نظر آتے ہیں۔ اللہ کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے لگا، آپ کبھی مری گئے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں میں کئی بار مری گیا ہوں۔ کہنے لگا، جب آدمی مری جاتا ہے نا پہاڑی پر تو پھر حال کا نظارہ لینے کے لئے وہ نیچے بھی دیکھتا ہے اور اوپر بھی۔ پھر اُس کا سفر Complete ہوتا ہے۔ خالی ایک طرف منہ کرنے سے نہیں ہوتا۔ جب آپ نیچے کو اور اوپر کو ملاتے ہیں، تو پھر ساری وسعت اس میں آتی ہے۔

    اُس نے کہا کہ یہ ایک راز ہے جب آدمی یہ سمجھنے لگ جائے کہ میں وسعت کے اندر داخل ہو رہا ہوں ( وہ پنجابی میں بات کرتا تھا، اُس کے الفاظ تو اور طرح کے ہوتے تھے) پھر اُس کو قربت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن حوصلہ کر کے وہی کہنا پڑتا ہے، جیسا کہ بابا جی کہتے تھے کہ "اے اللہ! تو میرے پاس آجا مجھ میں تو اتنی ہمّت نہیں کہ میں آ سکوں" اور وہ یقیناً آتا ہے۔ بقول سلطان سنگھاڑے والے کے کہ اس کے لئے کہیں جانا نہیں پڑتا، اس لئے کہ وہ تو پہلے سے ہی آپ کے پاس موجود ہے اور آپ کی شہ رگ کے پاس کرسی ڈال کر بیٹھا ہوا ہے۔ آپ اُسے دعوت ہی نہیں دیتے۔ میں نے اُس سے کہا کہ اس کا مجھے کوئی راز بتا، مجھے کچھ ایسی بات بتا کہ جس سے میرے دل کے اندر کچھ محسوس ہو۔ کہنے لگا، جی! آپ کے دل کے اندر کیا میں تو سارے پاکستان کے، لاہور کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب وہ باہر نکلا کریں پورا لباس پہن کر نکلا کریں۔ میں نے کہا، سارے ہی پورا لباس پہنتے ہیں۔ کہنے لگا، یہ دیکھ تانگے میں چار بندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ پورا لباس نہیں پہنا ہوا۔ میں نے کہا، یہ بابو گزرا ہے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا ہے اس نے ٹائی بھی لگائی ہوئی ہے۔ کہنے لگا، نہیں جی آدمی جب کم از کم باہر نکلے تو جس طرح لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں، خاص طور پر باہر نکلنے کے لئے، تو اس طرح آدمی کو بھی اپنے لباس کے اوپر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔

    میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ کوئی اخلاقی بات کرنا چاہتا ہے لباس کے بارے میں، جیسے ہم آپ لوگ کرتے ہیں۔ کہنے لگا، لوگ سارے کپڑے پہن تو لیتے ہیں، لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ نہیں رکھتے اور ایسے ہی آجاتے ہیں لڑائی کرتے ہوئے اور لڑائی کرتے ہوئے ہی چلے جاتے ہیں۔ تو جب تک آپ چہرے پر مسکراہٹ نہیں سجائیں گے، لباس مکمل نہیں ہوگا۔ یہ جو تانگے پر بیٹھے ہوئے ہیں چار آدمی، کہنے لگا یہ تو برہنہ جا رہے ہیں۔ مسکراہٹ اللہ کی شکر گزاری ہے اور جب آدمی اللہ کی شکر گزاری سے نکل جاتا ہے، تو پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا۔ میں کہا، یار! ہم تو بہت عبادت گزار لوگ ہیں۔ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگا،جی! میں لال قدسی میں رہتا ہوں، وہاں بابا وریام ہیں۔ وہ رات کو بات (لمبی کہانی) سنایا کرتے ہیں۔

    انہوں نے ہمیں ایک کہانی سنائی کہ پیرانِ پیر کے شہر بغداد میں ایک بندہ تھا جو کسی پر عاشق تھا۔ اُس کے لئے تڑپتا تھا، روتا تھا، چیخیں مارتا تھا اور زمین پر سر پٹختا تھا۔ لیکن اُس کا محبوب اُسے نہیں ملتا تھا۔ اُس شخص نے ایک بار خدا سے دعا کی کہ اے اللہ! ایک بار مجھے میرے محبوب کے درشن تو کرا دے۔اللہ تعالٰی کو اُس پر رحم آگیا اور اُس کا محبوب ایک مقررہ مقام پر، جہاں بھی کہا گیا تھا، پہنچ گیا۔ دونوں جب ملے تو عاشق چٹھیوں کا ایک بڑا بنڈل لے آیا۔ یہ وہ خط تھے، جو وہ اپنے محبوب کے ہجر میں لکھتا رہا تھا۔ اُس نے وہ کھول کر اپنے محبوب کو سنانے شروع کر دئیے۔ پہلا خط سنایا اور اہنے ہجر کے دکھڑے بیان کئے۔ اس طرح دوسرا خط پھر تیسرا خط اور جب وہ گیارہویں خط پر پہنچا تو اُس کے محبوب نے اُسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا "گدھے کے بچّے! میں تیرے سامنے موجود ہوں، اپنے پورے وجود کے ساتھ اور تو مجھے چٹھیاں سنا رہا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی" سلطان کہنے لگا، بھا جی! عبادت ایسی ہوتی ہے۔آدمی چٹھیاں سناتا رہتا ہے، محبوب اُس کے گھر میں ہوتا ہے، اُس سے بات نہیں کرتا۔ جب تک اُس سے بات نہیں کرے گا، چٹھیاں سنانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ایسے لوگ بڑے مزے میں رہتے ہیں۔ میں بڑا سخت حاسد ہوں ان کا، میں چاہتا ہوں کہ کچھ کئے بغیر، کوشش، Struggle کئے بغیر مجھے بھی ایسا مقام مل جائے، مثلاً جی چاہتا ہے کہ میرا بھی پرائز بانڈ نکل آئے ساڑھے تین کروڑ والا۔ لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ چاہے وہ پرائز بانڈ نکلے نہ نکلے ( ایمانداری کی بات کرتا ہوں) مجھے وہ عیاشی میسر آجائے، جو میں نے پانچ آدمیوں کے چہرے پر اُن کی روحوں پر دیکھی تھی، کیونکہ اُن کی دوستی ایک بہت اونچے مقام پر تھی۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ!!
     
  4. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم۔ آزاد صاحب
    آپ بہت اچھی شئیرنگ کر رہے ہیں۔
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    اشفاق احمد مرحوم ۔ بابوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت سبق سناتے ہیں۔
    آزاد بھائی ۔ شئیرنگ کے لیے شکریہ
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آزاد کی آپ یہ بہت خوبصورت شئیرنگ کر رھے ھیں
     
  7. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 12
    میں کون ہوں ؟


    بہت دیر کا وعدہ تھا جو جلد پورا ہونا چاہئے تھا ، لیکن تاخیر اس لئے ہو گئی کہ شاید مجھ پر بھی کچھ اثر میرے پڑوسی ملک کا ہے کہ اس نے کشمیریوں کے ساتھ بڑی دیر سے وعدہ کر رکھا تھا کہ ہم وہاں رائے شماری کرائیں گے۔ لیکن آج تک وہ اسے پورا نہ کر سکے۔ حالانکہ وہ وعدہ یو این او کے فورم میں کیا گیا تھا، لیکن میری نیت ان کی طرح خراب نہیں تھی۔ میں اس دیر کے وعدے کے بارے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی وجود کی پرکھ، جانچ اور اس کی آنکھ دیگر تمام جانداروں سے مختلف بھی ہے اور مشکل بھی۔ جتنے دوسرے جاندار ہیں ان کو بڑی آسانی کے ساتھ جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے لیکن انسان واحد مخلوق ہے جس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ تو باہر کا کوئی شخص کر سکتا ہے اور نہ خود اس کی اپنی ذات کر سکتی ہے۔ انسانی جسم کو ماپنے، تولنے کے لئے جیسے فوجیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ آپ کا قد ماپیں گے، وزن کریں گے، جسم کی سختی کو ملاحظہ کریں گے، بینائی دیکھیں گے یعنی باہر کا جو سارا انسان ہے، اس کو جانچیں اور پرکھیں گے اور پھر انہوں نے جو بھی اصول اور ضابطے قائم کئے ہیں، اس کے مطابق چلتے رہیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اندر کی مشینری کو جانچنے کے لئے بھی انہوں نے پیمانے بنائے ہیں۔ اگر آپ خدانخوستہ کسی عارضے میں مبتلا ہیں تو اس کو کیسے جانچیں گے؟

    ڈاکٹر اپنا اسٹیتھو سکوپ سینے پر رکھ کر دل کی دھڑکنیں اور گڑ گڑاہٹیں سنتا ہے، تھرما میٹر استعمال کرتا ہے، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ اور سی ٹی سکین، یہ سب چیزیں انسان کے اندر کی بیماریوں کا پتا دیتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تیسری چیز انسان کی دماغی اور نفسیاتی صورتحال کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔ نفسیات دان اس کو جانچتے ہیں۔ انہوں نے کچھ تصویری خاکے اور معمے بنائے ہوتے ہیں۔ ایک مشین بنا رکھی ہے، جو آدمی کے سچ یا جھوٹ بولنے کی کیفیت بتاتی ہے۔ کچھ ایسی مشینیں بھی ہیں، جو شعاعیں ڈال کر پُتلی کے سکڑنے اور پھیلنے سے اندازہ لگاتی ہیں کہ اس شخص کا اندازِ تکلم اور اندازِ زیست کیسا ہے؟

    نفسیات کے ایک معروف ٹیسٹ میں ایک بڑے سے سفید کاغذ پر سیاہی گرا دی جاتی ہے اور اس کاغذ‌کی تہہ لگا دیتے ہیں۔ جب اس کو کھولا جاتا ہے تو اس پر کوئی تصویر سی چڑیا، طوطا یا تتلی بنی ہوئی ہوتی ہے اور پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو یہ کیا چیز نظر آتی ہے؟ اور پھر دیکھنے والا اس کو جیسا محسوس کرتا ہے، بتلاتا ہے، کوئی اسے خوبصورت چڑیا سے تعبیر کر کے کہتا ہے اسے ایک چڑیا نظر آ رہی ہے، جو گاتی ہوئی اڑی جا رہی ہے۔

    ایک اور مزاج کا بندہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں ایک بڑھیا ہے، جو ڈنڈا پکڑے بیٹھی ہے اور اس کی شکل میرے جیسی ہے۔ اس طرح سے دیکھنے والے کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ جانوروں کو بھی اسی معیار پر پرکھا جا سکتا ہے۔ قصائی جس طرح بکرے کو دیکھ کر بیمار یا تندرست کا پتا چلا لیتا ہے۔ بھینس کو دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ اچھی بھینس ہے یا نہیں۔ گھوڑوں کو بھی چیک کر لیا جاتا ہے۔ جانوروں کا چیک کرنا اس لئے بھی آسان ہے کہ اگر ہم جانور کے ساتھ کسی خاص قسم کا برتاؤ کریں گے، تو وہ بھی جواب میں ویسا ہی برتاؤ کرے گا۔ لیکن انسان کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ آپ ایک آدمی کو زور کا تھپڑ ماریں اور وہ پستول نکال کر آپ کو گولی مار دے۔ ممکن ہے کسی کو ایک تھپڑ ماریں اور وہ جھک کر آپ کو سلام کرے یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے۔ اس لئے انسان کے حوالے سے کچھ طے نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو جانچنا ہمارے صوفیائے کرام اور “ بابے “ جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، ان کے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے کہ انسان اندر سے کیا ہے؟ اور جب تک وہ اپنے آپ کو نہ جان سکے، اس وقت تک وہ دوسروں کے بارے میں کیا فیصلہ کر سکتا ہے۔

    آپ کے جتنے بھی ایم این اے اور ایم پی اے ہیں، یہ ہمارے بارے میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں، لیکن وہ خود یہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں؟ یہ ایسے تیراک ہیں جو ہم کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کو خود تیرنا نہیں آتا۔ سیکھا ہی نہیں انہوں نے۔ جو گہری نظر رکھنے والے لوگ ہیں وہ جاننا چاہتے ہیں۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کبھی اگر آپ نے غور کیا ہو یا نہ کیا ہو، لیکن آپ کے شعور سے یہ آواز آتی ہی رہتی ہے کہ “میں کون ہوں“ اور "میں کہاں ہوں“ اور اس سارے معاملے اور کائنات میں کہاں فٹ ہوں، اس کے لئے ہمارے بابوں نے غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور بڑے لمبے وقت اور وقفے سے گزرنے کے بعد اپنی طرز کا طریق سوچا ہے، جس کے کئے رخ ہیں۔ آسان لفظوں میں وہ اس نئے طریق کو “ فکر“ یا “ مراقبے“ کا نام دیتے ہیں۔

    اب یہ مراقبہ کیوں کیا جاتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے، کس لئے وہ بیٹھ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اس سے ان کی آخر حاصل کیا ہوتا ہے؟ مراقبے کی ضرورت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ایسی مشین یا آلہ ایجاد نہیں ہوا، جو کسی بندے کو لگا کر یہ بتایا جا سکے کہ ? What am I? who am I کہ میں کیا ہوں؟ اس کے لئے انسان کو خود ہی مشین بننا پڑتا ہے، خود ہی سبجیکٹ بننا پڑتا ہے اور خود ہی جانچنے والا۔ اس میں آپ ہی ڈاکٹر ہے، آپ ہی مریض ہے۔ یعنی میں‌ اپنا سراغ رساں خود ہوں اور اس سراغ رسانی کے طریقے مجھے خود ہی سوچنے پڑتے ہیں کہ مجھے اپنے بارے میں کیسے پتا کرنا ہے۔ بہت اچھے لوگ ہوتے ہیں، بڑے ہی پیارے، لیکن ان سے کچھ ایسی باتیں سرزد ہوتی رہی ہیں کہ وہ حیران ہوتے ہیں کہ میں عبادت گزار بھی ہوں، میں بھلا، اچھا آدمی بھی ہوں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں ہوں کون؟ اور پتا اسے یوں نہیں چل پاتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ خداوند تعالٰی نے انسان کے اندر اپنی پھونک ماری ہوئی ہے اور وہ چلی آ رہی ہے۔ اس کو آپ Erase نہیں کر سکتے۔ اس کو آپ پردہ کھول کر دیکھ نہیں سکتے، آپ ایک لفظ یاد رکھیئے گا Self یعنی “ذات“ کا۔ اقبال جسے خودی کہتا ہے۔ خودی کیا ہے؟ اس لفظ خودی کے لئے کئی الفاظ ہیں، لیکن “ ذات “ زیادہ آسان اور معنی خیز ہے۔

    حضرت علامہ اقبال نے اس لفظ کو بہت استعمال کیا اور اس پر انہوں جے بہت غور بھی کیا۔ اب اس ذات کو جاننے کے لئے جس ذات کے ساتھ بہت سارے خیالات چمٹ جاتے ہیں، جیسے گڑ کی ڈلی کے اوپر مکھیاں آ چمٹتی ہیں یا پرانے زخموں پر بھنبھناتی ہوئی مکھیاں آ کر چمٹ جاتی ہیں۔ خیال آپ کو کنٹرول کرتا ہے اور وہ ذات وہ خوبصورت پارس جو آپ کے میرے اندر ہم سب کے اندر موجود ہے، وہ کستوری جو ہے وہ چھپی رہتی ہے۔ اس کو تلاش کرنے کے لئے اس اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ meditate (مراقبہ) کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خوش قسمت کے پاس ایسا گُر آ جاتا ہے کہ وہ چند سیکنڈ کے لئے اس خیال کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کو دور کر دیتا ہے اور اس کو وہ نظر آتا ہے۔ لیکن خیال اتنا ظالم ہے کہ وہ اس خوبصورت قابل رشک زریں چیز کو ہماری نگاہوں کے سامنے آنے نہیں دیتا۔

    جب آپ دو، تین چار مہینے کے تھے تو اس وقت آپ اپنی ذات کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ جو معصومیت دے کر اللہ نے آپ کو پیدا کیا تھا، اس کا اور آپ کی ذات کا رشتہ ایک ہی تھا۔ آپ وہ تھے، وہ آپ تھا۔ ایک چیز تھا دو پونے دو سال یا کوئی سی بھی مدت مقرر کر لیں۔ جب خیال آ کر آپ کو پکڑنے لگا تو وہ پھر یہ ہوا کہ آپ گھر میں بیٹھے تھے۔ ماں کی گود میں۔ کسی کی بہن آئی انہوں نے آ کر کہا کہ اوہ ہو، نسرین یہ جو تمہارا بیٹا ہے یہ تو بالکل بھائی جان جیسا ہے۔ اس بیٹا صاحب نے جب یہ بات سن لی تو اس نے سوچا میں تو ابا جی ہوں۔ ایک خیال آ گیا نا ذہن میں، حالانکہ وہ ہے نہیں ابا جی۔ پھر ایک دوسری پھوپھی آ گئیں۔ انہوں نے آ کر کہا کہ اس کی تو آنکھیں بڑی خوبصورت ہیں، تو اس بچے نے سوچا میں تو خوبصورت آنکھوں والا ہیرو ہوں۔ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ انسان نے اپنی ذات کے آگے سائن بورڈ لٹکانے شروع کر دیئے: ہیرو، رائٹر، لیڈر، پرائم منسٹر، خوبصورت اور طاقتور وغیرہ۔ اس طرح کے کتنے سارے سائن بورڈز لٹکا کر ہم آپ سارے جتنے بھی ہیں، نے اپنے اپنے سائن بورڈ لگا رکھے ہیں اور جب ملنے کے لئے آتے ہیں، تو ہم اپنا ایک سائن بورڈ آگے کر دیتے ہیں۔ کہ میں تو یہ ہوں اور اصل بندہ اندر سے نہیں نکلتا اور اصل کی تلاش میں ہم مارے مارے پھر رہے ہیں۔

    خدا تعالٰی نے اپنی روح ہمارے اندر پھونک رکھی ہے۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس سے فائدہ اٹھائیں اس کی خوشبو ایک بار لیں، اس کے لئے لوگ تڑپتے ہیں اور لوگ جان مارتے ہیں۔ وہ ذات جو اللہ کی خوشبو سے معطّر ہے اس کے اوپر وہ خیال جس کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کا بڑا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ وہ خیال کسی بھی صورت میں چھوڑتا نہیں ہے۔ اس خیال کو اس کستوری سے ہٹانے کے لئے مراقبے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ آدمی ذرا ٹھیک ہو۔ اس کو پتا چلے کہ وہ کیا ہے۔ اس سے پھر اسے نماز میں بھی مزا آتا ہے۔ عبادت، گفتگو، ملنے ملانے میں، ایک دوسرے کو سلام کرنے میں بھی مزا آتا ہے۔ ایک خاص تعلق پیدا ہوتا ہے، اس کے لئے جس کا بتانے کا میں نے وعدہ کیا تھا۔

    آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ دو اوقات صبح اور شام صبح فجر پڑھنے کے بعد اور شام کو مغرب کے بعد (یہ اوقات ہی اس کے لئے زیادہ اچھے ہیں) آپ بیس منٹ نکال کر گھر کا ایک ایسا کونہ تلاش کریں، جہاں دیوار ہو، جو عمودی ہو، وہاں آپ چار زانو ہو کر “ چوکڑی “ مار کر بیٹھ جائیں۔ اپنی پشت کو بالکل دیوار کے ساتھ لگا لیں، کوئی جھکاؤ “ کُب“ نہ پیدا ہو۔ یہ بہت ضروری ہے، کیونکہ جو کرنٹ چلنا ہے، نیچے سے اوپر تک وہ سیدھے راستے سے چلے۔

    اب ماڈرن زندگی ہے، بہت سے لوگ چوکڑی مار کر نہیں بیٹھتے۔ انہیں اجازت ہے کہ وہ کرسی پر بیٹھ جائیں، لیکن اس صورت میں پاؤں زمیں کے ساتھ لگے رہنے چاہیں۔ اور آپ کو Earth ہو کر رہنا چاہیئے۔ جب تک آپ ارتھ نہیں ہوں گے، اس وقت تک آپ کو مشکل ہو گی۔ پاؤں کے نیچے دری قالین بھی ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن زمین ہو تو بہت ہی اچھا ہے۔ چونکہ فقیر لوگ جنگلوں میں ایسا کرتے تھے، وہ ڈائریکٹ ہی زمین کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے۔ ہماری زندگی ذرا اور طرح کی ہے۔ جب آپ وہاں بیٹھ جائیں گے تو پھر آپ کو ایک سہارے کی ضرورت ہے۔ جس کو آپ پکڑ کر اس سیڑھی پر چڑھ سکیں، جو لگا لی ہے۔ صرف یہ جھانکھنے کے لئے کہ “ ذات“ کیا چیز ہے؟ اس کے لئے ہر کسی کے پاس ایک “ڈیوائس“ ایک آلہ ہے، جو سانس ہے، جو ساتھ ہے، بیٹھنے کے بعد آپ اپنے سانس کے اوپر ساری توجہ مرکوز کر دیں اور یہ دیکھیں کہ ہر چیز سے دور ہٹ کر جس طرح ایک بلی اپنا شکار پکڑنے کے لئے دیوار پر بیٹھی ہوتی ہے۔ اپنے شکار یعنی سانس کی طرف دیکھیں کہ یہ جا رہا ہے اور آ رہا ہے۔

    اس کام میں کوتاہی یا غلطی یہ ہوتی ہے کہ آدمی سانس کو ضرورت سے زیادہ توجہ کے ساتھ لینے لگ جاتا ہے، یہ نہیں کرنا۔ آپ نے اس کو چھوڑ دینا ہے، بالکل ڈھیلا صرف یہ محسوس کرنا ہے کہ یہ کس طرح سے آتا ہے اور جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ پہلے دن تقریباً ایک سیکنڈ یا ڈیڑھ سیکنڈ تک سانس کے ساتھ چل سکیں گے۔ اس کے بعد خیال آپ کو بھگا لے جائے گا۔ وہ کہے گا کہ یہ بندہ تو اللہ کے ساتھ واصل ہونے لگا ہے۔ میں نے تو بڑی محنت سے اس کو خیالوں کی دنیا میں رکھا ہے (وہ خیال چلتا رہتا ہے، موت تک۔ لوگ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ جی نماز پڑھنے لگتے ہیں تو بڑے خیال آتے ہیں)۔ وہ خیال آپ کو کہیں کا کہیں کافی دور تک لے جائے گا۔ جب آپ کو یہ خیال آئے کہ میں تو پھر خیال کے نرغے، گھیرے یا چُنگل میں آ گیا، چاہے اسے بیس منٹ بھی گزر چکے ہوں، آپ پھر لوٹیں اور پھر اپنے سانس کے اوپر توجہ مرکوز کر دیں اور جتنی دیر ہو سکے، سانس کو دیکھیں محسوس کریں۔

    لیکن زیادہ کوشش نہیں کرنی اس میں جنگ و جدل اور جدوجہد نہیں ہے کہ آپ نے کوئی کُشتی لڑنی ہے۔ یہ ڈھیلے پن کا ایک کھیل ہے اور اسی معصومیت کو واپس لے کر آنا ہے جب آپ ایک سال کے تھے اور جو آپ کے اندر تھی یا چلنے لگے تھے، تو تھی۔ اس میں بچہ معصومیت کو لینے کے لئے زور تو نہیں لگاتا ہے ناں، جب یہ پروسِـس آپ کرنے لگیں گے تو آپ کا عمل ایسا ہونا چاہئے تھا، یا ہو جیسا کہ ٹینس کے کھلاڑی کا ہوتا ہے۔ ٹینس کھیلنے والا یا کھیلنے والی کی زندگی ٹینس کے ساتھ وابستہ ہے (یہ بات میں نے مشاہدے سے محسوس کی ہے)۔ آپ یہ کبھی گمان نہیں کر سکتے کہ ٹینس کا کھلاڑی آپ کو ہر حال میں ٹینس کورٹ میں اپنی گیم Improve کرتا ہی ملے گا۔ اگر غور سے دیکھیں تو ٹینس کا کھلاڑی ہم سے آپ سے بہت مختلف ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ ٹینس ہی کھاتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے، یہی پیتا ہے، ٹینس ہی پہنتا ہے اور ٹینس ہی چلتا ہے۔ یہ اس قدر اس پر حاوی اور طاری ہو جاتی ہے، اس معاملے میں بھی آپ چاہے مراقبے کے اندر ہوں یا باہر نکل آئے ہوں، آپ نے دفتر جانا، منڈی جانا ہے، کام پر جانا ہے، دکان پر جانا ہے، لیکن ٹینس کے کھلاڑی کی طرح آپ کے اندر یہ ایک طلب ہونی چاہئیے تھا، دل لگی ہونی چاہئیے تھا کہ میں نے ذات کے ساتھ ضرور واصل ہونا ہے۔

    یہ سراغ رسانی کا ایک کھیل ہے۔ مثلاً میں اب آپ کے سامنے ہوں، فوت ہو جاؤں گا، بکری کی طرح۔ بکری آئی اس نے بچے دیئے، دودھ پیا، ذبح کیا۔ زندگی میں کوئی کام ہی نہیں تو یہ جاندار جو دوسرے جاندار ہیں، ان میں جان ضرور ہے، سب میں لیکن روح نہیں ہے۔ دیکھیئے اتنا سا فرق ہوتا ہے کئی لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے غیر مسلم دوست کہ جانوروں پر ظلم کرتے ہیں آپ ان کو کھا جاتے ہیں۔ کھاتے ہم اس لئے ہیں کہ ظلم تو جب ہوتا کہ اس کے اندر روح ہوتی اور اس میں ایک Sensibility ہوتی، وہ تو ہے ہی نہیں۔ جب وہیل مچھلی اپنا منہ کھولتی ہے تو تقریباً ساڑھے تین ہزار مچھلیاں ایک لقمے کے اندر اس کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا فلموں میں چھلانگ مار کر خود ہی جا رہی ہوتی ہے، تو یہ اس کی کیفیت ہے۔ اب آپ جاندار تو ہیں، لیکن آپ کے ساتھ روح ہے۔ اس روح کی تلاش کے لئے، اس کی الٹرا ساؤنڈ بننے کے لئے آپ کو خود مشکل میں جانا پڑتا ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔

    یہ ایک بڑا پرلطف تجربہ یوں ہے۔ اچھا اس سے آپ کو کچھ ملے گا نہیں کہ جب آپ مراقبہ کریں گے، تو آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر مل جائے گا، نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن آپ آسودہ ہونے لگیں گے۔ اتنے ہی آسودہ جتنے آپ بچپن میں تھے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہاں آپ اپنے بچوں کو، پوتوں کو، بھتیجوں کو دیکھیں گے۔ آج کے بعد دیکھیں گے کہ یہ کتنی آسودگی کے ساتھ بھاگا پھرتا ہے۔ اس کو کچھ پتہ نہیں اور اللہ بھی یہ فرماتا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں ان کا ایک اندازہ ہے کہ جب آپ جنت میں داخل ہوں گے یا جنت میں جانے لگیں گے تو اللہ گیٹ کے باہر کھڑا ہو گا اور جیسے گیٹ کیپر گیٹ پاس نہیں مانگا کرتا، آپ باہر جا کر کھڑے ہیں تو اللہ کہے گا کہ وہ معصومیت جو دے کر میں نے تمہیں پیدا کیا تھا، وہ واپس کر دو اور اندر چلو اور ہم سارے کہیں گے کہ سر! ہم نے تو بی اے بڑی مشکل سے کیا ہے اور بڑی چالاکی سے ایم اے کیا تھا۔ ہم تو معصومیت بیچتے رہے ہیں۔ وہ تو اب ہمارے پاس نہیں۔ اس معصومیت کی تلاش میں، اس روح کی تلاش کی ضرورت ہے۔ اس میں اگر کوئی اور کوتاہیاں وغیرہ ہو گئی ہیں، اس میں تو آئیں گی ضرور، کیونکہ سب سے تنگ کرنے والی چیز وہ خیال ہے، وہ مائنڈ ہے۔ بابے کہتے ہیں کہ جو وجود ہے ذات کا اور جو ذات ہے اللہ کی، وہ قلب ہے۔ یعنی ہمارا یہ ہارٹ جس کا بائی پاس ہوتا ہے۔ یہ نہیں قلب، اس کے قریب ہی اس کے ڈاؤن پر ایک ڈیڑھ انچ کے فاصلے پر قلب کا ایک مقام ہے، چونکہ یہ بھی نظر نہیں آتا ہم کو، روح کا معاملہ اور اللہ نے فرما بھی دیا ہے کہ ہم نے تم کو علم دیا ہے “ اِلّا قَلِیلاً “ تھوڑا ہے نہیں جان سکو گے روح کے بارے میں ؛ تو وہ اندازہ یہ لگاتے ہیں ‘ مائنڈ جو ہے وہ اس کے اوپر حملے کرتا رہتا ہے اور وہ دیکھتا رہتا ہے کہ میں نے کس طرح سے آدمی کو پکڑ کے پھر پنجرے میں قید کرنا ہے۔ یہ وعدہ تھا بڑی دیر کا وہ آخر کار پورا ہوا۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بہت گہری روحانی گتھیاں سلجھا دی گئی ہیں۔
    آزاد بھائی ہم تک پہنچانے کےلیے شکریہ ۔
     
  9. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 13
    Psycho Analysis


    کبھی کبھی زندگی میں یوں بھی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ خوشیوں اور بڑی راحتوں کے ساتھ ان کے پیچھے چھپی ہوئی مشکلات بھی آ جاتی ہیں اور پھر ان مشکلات سے جان چھڑانی یوں مشکل ہوتی ہے۔ کہ انسان گھبرایا ہوا سا لگتا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے ہاں بہت بارشیں ہوئیں۔ بارشیں جہاں خوشیوں کا پیغام لے کر آئیں، وہاں کچھ مشکلات میں بھی اضافہ ہوا۔ ہمارے گھر میں ایک راستہ، جو چھوٹے دروازے سے ڈرائنگ روم میں کھلتا ہے اور پھر اس سے ہم اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوتے ہیں، بارشوں کی وجہ سے وہ چھوٹا دروازہ کھول دیا گیا، تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے۔ آسانی تو ہوئی، لیکن اس میں پیچیدگی پیدا ہو گئی۔ وہ یہ کہ باہر سے جو جوتے آتے تھے، وہ کیچڑ سے لتھڑے ہوئے ہوتے تھے اور باوجود کوشش کے اور انہیں صاف کرنے کے، کیچڑ تو اندر آ ہی جاتا تھا اور اس سے سارا قالین خراب ہو جاتا تھا۔

    میں چونکہ اب تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہوں اور بوڑھے آدمی میں کنٹرول کی صلاحیت کم ہوتی جاتی ہے۔ تو میں چیختا چلاتا تھا اور ہر اندر آنے والے سے کہتا کہ جوتا اتار کر آؤ اور اسے پہننے کے بجائے ہاتھ میں پکڑ کر آؤ۔ اس سے میرے پوتے اور پوتیاں بہت حیران ہوتے تھے کہ اس جوتے کا فائدہ کیا، جو گھر کے دروازے پر پہنچ کر اتارا جائے اور ہاتھ میں پکڑ کر گھر میں داخل ہوا جائے۔ وہ بے چارے کوئی جواز تو پیش نہیں کرتے تھے، لیکن جوتے اتارتے بھی نہیں تھے، جس سے میری طبیعت میں تلخی اور سختی بڑھتی گئی اور میں سوچتا تھا کہ یہ مسئلہ صرف اس طرح سے ہی حل ہو سکتا ہے، جس طرح میں سوچتا ہوں۔

    میری بہو نے کوئی اعتراض تو مجھ پر نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مجھے کوئی جواب دیا۔ وہ شام کو بازار گئی اور اس نے دو میٹ خریدے۔ ایک تاروں کا بنا ہوا اور دوسرا موٹا بالوں والا۔ اب جب تاروں کے میٹ سے پاؤں رگڑے جاتے تو وہ "رندے" کی طرح صاف کر دیتا اور پھر موٹے بالوں کا موٹا دبیز میٹ مزید صفائی کر دیتا تھا، یہ بعد میں رکھا گیا تھا۔ جب میں نے یہ عمل دیکھا اور اس پر غور کرتا رہا، تو مجھے کافی شرمندگی ہوئی کہ میں جو اپنی دانش کے زور پر اپنے علم اور عمر کے تجربے پر بات کہہ رہا تھا، وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی اور اس لڑکی(بہو) نے اپنا آپ اپلائی کر کے اس مسئلے کا حل نکال دیا اور ہمارے درمیان کوئی جھگڑا بھی نہیں ہوا۔

    مجھے خیال آیا کہ انسان اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے دوسروں پر تنقید زیادہ کرتا ہے اور خود میں تبدیلی نہیں کرتا۔ اس مسئلے سے آپ خود بھی گزرتے ہوں گے۔ ہم نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ چونکہ مجھے ماسی اس طرح سے کہتی ہے اور فلاں اس طرح سے کہتا ہے اس لئے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ماما جی میں خرابی ہے یا چچا ٹھیک نہیں یا پھر محلے والے یا حکومت خراب ہے۔ ٹرانسپیر نسی نہیں ہے اور سسٹم ہی ٹھیک نہیں، اس لئے محلّہ گندہ ہے۔ اگر کہیں پانی کھڑا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ گورنمنٹ اس پر توجہ نہیں دیتی اور اپنی خرابی سے ہٹ کر ہمارے پاس بہت سارے جواز اور بہانے موجود ہوتے ہیں اور یہ ہماری زندگی میں پھیلتے رہتے ہیں۔

    کچھ خوش قسمت ملک ہیں، جہاں لوگ اپنے مسائل اپنے طور پر یا خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ جو ان کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ میری ایک نواسی ہے، اس نے ڈرائیونگ لائسنس کے لئے اپلائی کیا۔ وہ ایک سکول سے دو تین ماہ ڈرائیونگ کی تعلیم بھی لیتی رہی۔ لائسنس کے لئے ٹریفک پولیس والوں نے اس کا ٹیسٹ لیا، لیکن وہ بے چاری فیل ہو گئی۔ وہ بڑی پریشان ہوئی اور مجھ سے آ کر لڑائی کی کہ نانا یہ کیسی گورنمنٹ ہے، لائسنس نہیں دیتی۔ وہ خود میں خرابی تسلیم نہیں کرتی تھی، بلکہ اسے سسٹم کی خرابی قرار دیتی تھی۔ ایک ماہ بعد اس نے دوبارہ لائسنس کے لئے اپلائی کیا اب مجھے جتنی آیات آتی تھیں، میں نے پڑھ کر اللہ سے دعا کی کہ اس کو پاس کر دے، وگرنہ میری شامت آ جائے گی۔ لیکن وہ ٹیسٹ میں پاس نہ ہوئی اور ٹریفک والوں نے کہا کہ بی بی آپ کو ابھی لائسنس نہیں مل سکتا، تو وہ رونے لگی، شدت سے، اور کہنے لگی تم بے ایمان آدمی ہو اور تمھارا ہمارے خاندان کے ساتھ کوئی بیر چلا آ رہا ہے اور چونکہ تمھاری ہمارے خاندان کے ساتھ لگتی ہے، اس لئے ٹریفک والو تم مجھے لائسنس نہیں دیتے۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ کے خاندان کو نہیں جانتے۔ وہ کہنے لگی، ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے اور میں اس ظلم پر احتجاج کروں گی۔ اخبار میں بھی لکھوں گی کہ آپ لوگوں نے مجھے لائسنس دینے سے انکار کیا، ایسا میری امی کے ساتھ اور ایسا ہی سلوک میری نانی کے ساتھ بھی کیا، جو پرانی گریجوایٹ تھیں اور اس طرح ہماری تین “پیڑھیوں“ (نسلوں) کے ساتھ ظلم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ جس سے آپ کا ہمارے ساتھ بیر واضح ہوتا ہے۔

    وہ ابھی تک اپنے ذہن میں یہ بات لئے بیٹھی ہے کہ چونکہ ٹریفک پولیس والوں کی میرے خاندان کے ساتھ ناچاقی ہے اور وہ اس کو برا سمجھتے ہیں، اس لئے ہمیں لائسنس نہیں دیتے۔ اپنی کوتاہی دور کرنے کے بجائے آدمی ہمیشہ دوسرے میں خرابی دیکھتا ہے۔ بندے کی یہ خامی ہے۔ میں اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کے لئے تیار ہوں اور ہمیشہ دوسرے کی خامی بیان کروں گا، جیسا کہ میں قالین پر کیچڑ کے حوالے سے اپنے فیصلے کو آخری قرار دے دیا تھا کہ سوائے جوتے ہاتھ میں پکڑنے کے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر کوئی گروہ انسانی اپنے آپ کو Search کرنا چاہتا ہے اور راست روی پر قائم ہونا چاہتا ہے، تو پھر اسے اپنا تجزیہ اور Analysis کرنا پڑے گا۔ میں اپنا تجزیہ کرنے کے لئے بڑا زور لگاتا ہوں، لیکن کر نہیں پاتا۔ حالانکہ دوسرے کا تجزیہ فوراً کر لیتا ہوں۔ میں ایک سیکنڈ میں بتا دیتا ہوں کہ میرے محلے کا کون سا آدمی کرپٹ ہے۔ میرے دوست میں کیا خرابی ہے، لیکن مجھے اپنی خرابی نظر آتی ہی نہیں۔ میں نے بڑا زور لگایا ہے بڑے دم درود کروائے ہیں۔ Psycho Analysis کروایا، ہپناٹزم کروایا کہ میرا کچھ تو باہر آئے اور مجھے اپنی خامیوں کا پتہ چلے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں تو ایک بہت سمجھدار عاقل، فاضل ہوں۔ مجھ سے زیادہ بڑا دانشمند آدمی تو ہے ہی نہیں۔ اگر آپ کا مطالعہ کریں اور کھلی نظروں سے دیکھیں تو آپ پر یہ کیفیات عجیب و غریب طریقے سے وارد ہوں گی کہ بندہ اپنے آپ کو کیسا سمجھتا ہے اور اصل میں ہوتا کیا ہے۔

    میرے ایک کزن ہیں۔ وہ قصور میں رہتے ہیں۔ جب ہم جوان تھے اور نئی نئی ہماری شادی ہوئی تھی، یہ ان دنوں کی بات ہے۔ اس کے ہاں بچہ ہونے والا تھا۔ وہ رات کے ایک بجے قصور سے لاہور چل پڑا۔بالکل عین وقت پر بجائے اس کے کہ وہ اس کا قبل از وقت بندوبست کرتا، اب ایک بجے وہ گاڑی میں چلے اور سارا راستہ طے کر کے پریشانی کے عالم میں لاہور پہنچے اور اللہ نے کرم کیا کہ وہ وقت پر لاہور پہنچ گئے۔ صبح میں نے اس سے کہا کہ اے جاہل آدمی، تجھے اتنی عقل ہونی چاہیئے تھی کہ پہلے اپنی بیوی کو لاہور لے آتا۔ اس نے کہا نہیں نہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ میں خود اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اسے کب لے جانا ہے اور اللہ نے مجھے یہ فہم دی ہے۔ میں نے کہا فرض کرو رات کے ایک بجے گاڑی چلاتے ہوئے کوئی ایسی پیچیدگی یا مشکل پیدا ہو جاتی اور ریحانہ (بیوی) کی تکلیف بڑھ جاتی، تو پھر تم کیا کرتے؟ کہنے لگا کہ اگر تکلیف بڑھ جاتی تو میں اس کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پچھلی سیٹ پر ڈال دیتا اور خود ڈرائیور کرنے لگ جاتا۔ پتہ یہ چلا کہ صاحبزادہ ڈرائیور بھی اسی سے کرواتا آیا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دانش اور میری سوچ یہ بالکل آخری مقام پر ہے اور اس سے آگے سوچنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

    ہمارے سیانے یہ کہا کرتے ہیں کہ دیواروں سے بھی مشورہ کر لینا چاہیئے۔ یہ ناظم اور کونسلرز کی کمیٹیاں تو اب بنی ہیں۔ پندرہ سال پہلے ہماری ریڈیو کی ایک یونین ہوا کرتی تھی۔ اس میں ہم کچھ نئی باتیں سوچتے تھے۔ اپنے آپ کو یا کارکردگی بہتر بنانے کے لئے اور سننے والوں کو آسانیاں عطا کرنے کے لئے۔ اس دور میں ریڈیو کا خاصا کام ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونین کے ایک صدر تھے۔ انہوں نے ایک روز میٹنگ میں یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ اجلاس میں آپ خرابیاں ہی بیان کریں گے اور آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ تیرہ اور پندرہ منٹ تک جنتی برائیاں بیان کر سکتے ہیں، کریں۔ لیکن پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں اور جو اصحاب اپنا موقف تقریر میں بیان نہیں کر سکتے، وہ یہ آسان کام کریں کہ تیرہ گالیاں دیں اور کھڑے ہو کر اچھی گندی بری گالیاں کھٹا کھٹ دے کر بیٹھ جائیں، کیونکہ کسی نے ہمیں کوئی تعمیری چیز تو بتانی نہیں، نقص ہی نکالنے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ آپ ایسا کر لیں۔ ہم نے کہا کہ اگر انہوں نے اجازت دے دی ہے تو ایسا ہی کریں اور واقعی بیشتر لوگوں نے گالیوں پر ہی اکتفا کیا، کیونکہ آسان کام یہی تھا، آپ لوگوں نے اب بھی اخبارات میں دیکھا ہوگا کہ تعمیری کام کیسے کیا جائے کے بجائے ہم زیادہ تر تنقید ہی کرتے ہیں اور حل پر زور کم دیتے ہیں۔

    یہ مشکلات بہت چھوٹی اور معمولی ہیں، لیکن انہیں کس طرح سے اپنی گرفت میں لیا جائے۔ یہ کام بظاہر تو آسان نظر آتا ہے، حقیقت میں بہت مشکل ہے۔ جب ہمارا ریڈیو سٹیشن نیا نیا بنا تھا تو بارش میں اس کی چھتوں پر ایک تو پانی کھڑا ہو جاتا تھا اور دوسرا کھڑکی کے اندر سے پانی کی اتنی دھاریں آ جاتیں کہ کاغذ اور ہم خود بھی بھیگ جاتے۔ ایک روز ایسی ہی بارش میں ہم سب بیٹھ کر اس کو تعمیر کرنے والے کو صلواتیں سنانے لگے کہ ایسا ہی ہونا تھا۔ بیچ سے پیسے جو کھا لئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک ساتھی قدیر ملک وہ صوتی اثرات کے ماہر تھے۔ وہ سائیکل بڑی تیزی سے چلاتے تھے۔ دبلے پتلے آدمی تھے۔ وہ تیز بارش میں سائیکل لے کر غائب ہو گئے۔ ان کے گھر میں پرانا کنستر کا ایک ٹکڑا پڑا تھا۔ وہ اسے لے آئے اور چھت پر انہوں نے کنستر کے ٹکڑے کو ٹیڑھا کر کے ایک اینٹ نکال کر فکس کر دیا۔ اس طرح پرنالہ بن گیا اور چھت کا اور بارش کا پانی کمرے میں آئے بغیر شر ررر۔۔۔کرتا باہر گرنے لگا۔ ہم نے کہا کہ بھئی یہ کیا ہو گیا ابھی بوچھاڑ اندر کو آ رہی تھی، تو قدیر ملک کہنے لگا، پتہ نہیں کیا ہو گیا۔ لیکن اب تو ٹھیک ہو گیا ہے، بیٹھ کر کام کرو۔ بڑے برسوں کے بعد جب ریٹائرمنٹ کے بعد کبھی چائے وائے پیتے ان سے کسی شخص نے اس حوالے سے پوچھا، تو اس نے اصل بات بتائی۔

    عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ جب ہم روحانی دنیا میں داخل ہوتے ہیں تو جب تک پہلے زندگی کے روزمرہ کے مسائل حل نہیں ہوں گے، تو آپ روحانی دنیا میں داخل ہو ہی نہیں سکیں گے، اس لئے کہ یہ مرحلہ گزرا کر پھر راستہ آگے چلے گا۔ رفو آپ جب ہی کر سکیں گے جب نانی اماں کی سوئی میں دھاگہ ڈال کر دیں گے، اس کو تو نظر نہیں آ رہا، پھر رفو ہو گا پھر وہ اماں وڈھی آپ کو رفو کر کے دے گی۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم روحانی دنیا میں کوئی ایسا فعل اختیار کر لیں۔ کوئی ایسا ورد وظیفہ کر لیں کہ فٹا فٹ دودھ کی بارش ہونے لگے اور ہم کو روشنیاں نظر آنے لگیں، ایسا ہوا نہیں کبھی۔ جانا اسی روزمرہ کی زندگی کے راستے سے پڑتا ہے۔ چھوٹے دروازے کے قالین کے اوپر سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے اور پکڑی جائے گی گردن اشفاق صاحب کی کہ تم نے کیا غلط راستہ نکالا تھا، قالین صاف رکھنے کا۔ اگر کسی مقام پر بھی لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے، تو آپ روحانی دنیا میں داخل نہیں ہو سکتے، کیونکہ اللہ کریم کو اپنی مخلوق بڑی پیاری ہے۔ جب تک مخلوق کا احترام نہیں ہو گا، بات نہیں بنے گی۔

    آپ اکثر دیکھتے ہیں آس پاس کہ احترامِ انسانیت اور احترامِ آدمیت کا فقدان ہے۔ اس میں پاکستان بےچارے کی کوئی خرابی نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم ان لوگوں سے سیکھ کر آئے ہیں، جہاں چھوت چھات مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت میں 32 کروڑ کے قریب انسان ہیں، جو Untouchable کہلاتے ہیں، یعنی اچھوت۔ ان کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ وہ بھی عام بندے ہیں۔ عام لوگوں جیسے ان کے ہاتھ منہ ناک کان ہیں۔ بڑی محنت سے کام بھی کرتے ہیں، لیکن ان کے لئے حکم ہے کہ انہیں ہاتھ نہیں لگانا اور جب ان کے قریب سے گزرنا ہے تو ناک پر رومال رکھنا ہے۔ ہم نے پاکستان تو بنا لیا ہے، لیکن ہم یہ تصور ساتھ لے کر آ گئے ہیں۔ احترامِ آدمیت کا جو اللہ نے پہلا حکم دیا تھا، اس پرکار بند نہیں رہ سکے۔ جب یہ ہی نہیں ہو گا، تو پھر آپ اگر روحانیت کی دنیا میں داخل ہونا چاہیں گے، کسی بابے کو ملنا چاہیں گے، کسی اعلٰی ارفع سطح پر ابھرنا چاہیں گے، تو ایسا نہیں ہو گا، کیونکہ درجات کو پانے کے لئے بڑے بڑے فضول، نالائق بندوں کی جوتیاں سیدھی کرنا پڑتی ہیں اور یہ اللہ کو بتانا پڑتا ہے کہ جیسا جیسا بھی انسان ہے، میں اس کا احترام کرنے کے لئے تیار ہوں، کیونکہ تو نے اسے شکل دی ہے۔

    دیکھئے ناں! جو شکل و صورت ہوتی ہے، میں نے تو اسے نہیں بنایا، یا آپ نے اسے نہیں بنایا، بلکہ اسے اللہ تعالٰی نے بنایا ہے۔ میری بیٹیاں بہوئیں جب بھی کوئی رشتہ دیکھنے جاتی ہیں، تو میں ہمیشہ ایک بات سنتا ہوں کہ بابا جی! لڑکی بڑی اچھی ہے، لیکن اس کی “چھب“ پیاری نہیں ہے۔ پتہ نہیں یہ “چھب“ کیا بلا ہوتی ہے۔ وہ ان کو پسند نہیں آتی اور انسان سے کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتی ہیں۔ میں انہیں کہا کرتا ہوں کہ اللہ کا خوف کرو۔ شکل و صورت سب کچھ اللہ تعالٰی نے بنائی ہے۔ یہ کسی جوتا کمپنی نے نہیں بنائی ہے۔ انسان کو تم ایسا مت کہا کرو، ورنہ تمھارے نمبر کٹ جائیں گے اور ساری نمازیں، روزے کٹ جائیں گے، کیونکہ اللہ کی مخلوق کو آپ نے چھوٹا کیا ہے، تو یہ مشکلات ہیں۔ گو یہ چھوٹی سی باتیں تھیں، لیکن چھوٹی باتوں میں سے بڑی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ جب تک میں اور آپ احترامِ آدمیت کا خیال نہیں رکھیں گے اور اپنے لوگوں کو پاکستانیوں کو عزّتِ نفس نہیں دیں گے، روٹی کپڑا کچھ نہ دیں، ان کی عزّت نفس انہیں لوٹا دیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنے ڈرائیور کو سراج دین صاحب کہنا شروع کر دیں اور اپنے ملازم کے نام کے ساتھ “صاحب“ کا لفظ لگا دیں۔ جب تک یہ نہیں ہو گا، اس وقت تک ہماری روح کے کام تو بالکل رکے رہیں گےاور دنیا کے کام بھی پھنسے ہی رہیں گے۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین!!
     
  10. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    واہ بہت خوبصورت تحریر ھے اب آپ کا کتنا شکریہ ادا کیا جائے آزاد جی
     
  11. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔ سبحان اللہ ۔ کتنی اہم ، سادہ اور قابل عمل باتیں ہیں۔
    آزاد بھائی ۔ شئیرنگ کے لیے شکریہ ۔
     
  12. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 14
    ترقی کا ابلیسی ناچ


    آج سے چند روز پہلے کی بات ہے، میں ایک الیکٹرونکس کی شاپ پر بیٹھا تھا تو وہاں ایک نوجوان لڑکی آئی۔ وہ کسی ٹیپ ریکارڈر کی تلاش میں تھی۔ دُکاندار نے اسے بہت اعلٰی درجے کے نئے نویلے ٹیپ ریکارڈر دکھائے لیکن وہ کہنے لگی مجھے وہ مخصوص قسم کا مخصوص Made کا مخصوص نمبر والا ٹیپ ریکارڈر چاہئے۔ دکاندار نے کہا، بی بی یہ تو اب تیسری Generation ہے، اس ٹیپ ریکارڈر کی اور جو اب نئے آئے ہیں، وہ اس کی نسبت کارکردگی میں زیادہ بہتر ہیں۔ لڑکی کہنے لگی کہ یہ نیا ضرور ہے لیکن میرا تجربہ کہتا ہے کہ یہ اس سے بہتر نہیں۔ میں بیٹھا غور سے اس لڑکی کی باتیں سننے لگا کیونکہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں اور وہ الیکٹرونکس کے استعمال کی ماہر معلوم ہوتی تھی۔ انجینئر تو نہیں تھی لیکن اس کا تجربہ اور مشاہدہ خاصا تھا۔ وہ کہنے لگی کہ آپ مجھے مطلوبہ ٹیپ ریکارڈر تلاش کر دیں۔ میں آپ کی بڑی شکر گزار ہوں گی۔ میں نے اس لڑکی سے پوچھا۔ بی بی آپ اس کو ہی کیوں تلاش کر رہی ہیں؟ اس نے کہا کہ ایک تو اس کی مشین بہتر تھی اور اس کو میری خالہ مجھ سے مانگ کر دبئی لے گئی ہیں اور میں ان سے واپس لینا بھی نہیں چاہتی لیکن اب جتنے بھی نئے بننے والے ٹیپ ریکارڈرز ہیں، ان میں وہ خصوصیات اور خوبیاں نہیں ہیں جو میرے والے میں تھیں۔ اس واقعہ کے دوسرے تیسرے روز مجھے اپنے ایک امیر دوست کے ساتھ کاروں کے ایک بڑے شو روم میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شو روم کے مالک نے ہمیں کار کا ایک ماڈل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ ماڈل تو ابھی بعد میں آئے گا لیکن ہم نے اپنے مخصوص گاہکوں کے لئے اسے پہلے ہی منگوا لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ماڈل میں پہلے کی نسبت کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور یہ کمال کی گاڑی بنی ہے۔ میں نے استفسار کیا کہ کیا پچھلے سال کی گاڑی میں کچھ خرابیاں تھیں جو آپ نے اب دور کر دی ہیں؟ وہ خرابیوں کے ساتھ ہی چلتی رہی ہے، اس میں‌کیا اتنے ہی نقائص تھے جو آپ نے دور کر دیئے ؟ کہنے لگے نہیں اشفاق صاحب یہ بات نہیں۔ ہم کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اس میں جدت آتی رہے اور اچھی، باسہولت تبدیلی آتی رہے۔

    تو یہ سن کر میرا دماغ پیچھے کی طرف چل پڑا اور مجھے یہ خیال آنے لگا کہ ہر نئی چیز، ہر پیچیدہ چیز، ہر مختلف شے یقیناً بہتر نہیں ہوتی۔ اس مرتبہ میری سالگرہ پر میری بیوی نے مجھے کافی پرکولیٹر دیا اور وہ اسے خریدنے کے بعد گھر اس قدر خوش آئیں کہ بتا نہیں سکتا۔ کہنے لگیں میں بڑے عرصے سے اس کی تلاش میں تھی۔ یہ بالکل آپ کی پسند کا ہے اور یہ آپ کو اٹلی کی یاد دلاتا رہے گا۔ آپ اس میں کافی بنایا کریں۔ میں نے دیکھا، وہ بالکل نیا تھا اور اس میں پلاسٹک کا استعمال زیادہ تھا لیکن اس کا پیندا کمزور تھا اور وزن زیادہ تھا۔ دوسرا اس کی بجلی کے پلگ تک جانے والی تار بھی چھوٹی تھی اور جب میں نے اسے لگا کر استعمال کیا تو اس میں پانی کھولانے کی استطاعت تو زیادہ تھی لیکن کافی بھاپیانے کی طاقت اس میں بالکل نہیں تھی۔ چنانچہ میں ان کا (بانو قدسیہ) دل تو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا اور میں نے کہا، ہاں یہ اچھا ہے لیکن فی الحال میں اپنے پرانے پرکولیٹر سے ہی کافی بناتا رہوں گا۔ جب وہ چلی گئیں تو اس وقت میں نے کہا “ یا اللہ (میں نے اللہ سے دعا کی جو میری دعاؤں میں اب بھی شامل ہے) مجھے وہ صلاحیت اور استطاعت عطا فرما کہ اگر تو نئی چیز اور طرحِ نو کی کوئی اختراع وہ بہتر ثابت ہو بنی نوع انسان کے لئے اور تیری بھی پسند کی ہو تو وہ تو میں اختیار کروں، لیکن صرف اس وجہ سے کہ چونکہ یہ نئی ہے، کیونکہ لوگوں کا گھیرا اس کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ یہ توجہ طلب ہے تو اس لئے میں اس سے دور رہوں۔“ چنانچہ یہ بات میرے دل میں اتر گئی اور میں Progress کے بارے میں سوچتا رہا کہ ترقی جس کے پیچھے ہم سارے بھاگے پھرتے ہیں اور جس کے بارے میں جگہ بہ جگہ، گھروں میں، گھروں سے باہر، محلوں شہروں میں، حکومتوں اور اس کے باہر ترقی کی جانب ایک بڑی ظالم دوڑ جاری ہے۔ اس دوڑ سے مجھے ڈر لگتا ہے کہ حاصل تو اس سے کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ ترقی میں اور فلاح میں بڑا فرق ہے۔ میں اور میرا معاشرہ، میرے اہل و عیال اور میرے بال بچے فلاح کی طرف جائیں تو میں ان کے ساتھ ہوں، خالی ترقی نہ کریں۔ خواتین و حضرات، یہ انتہائی غور طلب بات ہے کہ کیا ہم ترقی کے پیچھے بھاگیں یا فلاح کی جانب لپکیں اور اپنی جھولیاں فلاح کی طرف پھیلائیں۔ لاہور کے قریب گوجرانوالہ شہر ہے۔ اس میں Adult ایجوکیشن (تعلیم بالغاں) کے بڑے نامی گرامی سکول ہیں۔ مجھے ان Adult Education کے سکول میں ایک دفعہ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کسان، زمیندار، گاڑی بان تعلیم حاصل کر رہے تھے اور اس بات پر بڑے خوش تھے کہ چونکہ انہوں نے تعلیم حاصل کر لی ہے اور وہ فقروں اور ہندسوں سے شناسا ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب انہوں نے ترقی کر لی ہے۔ چنانچہ وہاں ایک بہت مضبوط اور بڑا ہنس مکھ سا گاڑی بان تھا۔ میں نے کہا کیوں جناب گاڑی بان صاحب، آپ نے علم حاصل کر لیا؟ کہنے لگا، ہاں جی میں نے علم حاصل کر لیا ہے۔ میں نے کہا، اب آپ لکھ پڑھ سکتے ہیں، کہنے لگے لکھنے کی تو مجھے پریکٹس نہیں ہے البتہ میں پڑھ ضرور لیتا ہوں۔ میں نے کہا آپ کیا پڑھتے ہیں؟ کہنے لگا جب میں سٹرک پر سے گزرتا ہوں تو جو سنگِ میل ہوتا ہے میں اب اسے پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس سنگِ میل پر کیا کچھ لکھا ہوتا ہے۔ کہنے لگا میں ہر سنگِ میل پر یہ تو پڑھ لیتا ہوں کہ اسی میل یا ستر میل لیکن کہاں کا اسی میل، کہاں کا ستر میل۔ یہ مجھے کبھی پتہ نہیں لگا کہ کس طرف ہے۔ یہ ستر میل کہاں کے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کہہ رہا تھا کہ میں ترقی یافتہ ہو گیا ہوں اور میں نے اب ترقی کر لی ہے۔

    یہ اس قسم کی ترقی ہے (مسکراتے ہوئے‌) یہ راہ میں نئی چیز ہونے کے باوصف بڑی حائل ہوتی ہے۔ میں اس پر کافی حد تک سوچتا اور غور کرتا رہتا ہوں کہ اے میرے اللہ کیا ہم ہر نئی شے کو ہر Modern چیز کو اپنا لیں۔ یہ تو وہ تھا جو گزشتہ دنوں میرے ساتھ پیش آیا اور میں نے اس کی دعا کی کہ یا اللہ میں تجھ سے اس بات کا آرزومند ہوں کہ کچھ پرانی چیزیں جو ہیں، میں ان کا ساتھ دیتا رہوں مثلاً میں پرانی زمین کا ساتھ دیتا رہوں، میں پرانے چاند ستاروں کا ساتھ دیتا رہوں۔ اے اللہ میں اپنے پرانے دین کے ساتھ وابستہ رہوں اور یا اللہ میری بیوی سے جو 38 سال پرانی شادی ہے، میری آرزو ہے کہ وہ بھی پرانی ہی رہے اور اسی طرح چلتی رہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے دوست اور میرے جاننے والے مجھ پر ضرور ہنسیں گے اور مجھے ایک دقیانوس انسان سمجھیں گے اور میرا مذاق، ٹھٹھہ اڑائیں گے اور مجھے بہت Fundamentalist سمجھیں گے، بنیاد پرست خیال کریں گے لیکن میں کوشش کر کے، جرأت کر کے بہت ساری چیزوں کے ساتھ وابستہ رہتا ہوں۔ انہیں چاہتا ہوں اور کچھ نئی چیزیں جو میری زندگی میں داخل ہو کر میرے پہلوؤں سے ہو کر گزر رہی ہیں، ان میں جو ٹھیک ہے، جو مناسب ہے، جو مجھے فلاح کر طرف لے جاتی ہوں، میں ان کی طرف مائل ہونا چاہتا ہوں اور مجھے یہ یقین ہے کہ خدا میری دعا یقیناً قبول کر لے گا۔ جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اگر آپ غور کریں تو ایسی کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے یا آتی نہیں جیسی کہ آنی چاہئے۔ اگر آپ تاریخ کے طالبعلم ہیں بھی تو یقیناً آپ تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ آپ نے ضرور پڑھا ہو گا یا کسی داستان گو سے یہ کہانی سنی ہو گی کہ پرانے زمانے میں جب شکاری جنگل میں جاتے تھے اور شکار کرتے تھے، کسی ہرن، نیل گائے کا یا کسی خونخوار جانور کا تو وہ ڈھول تاشے بجاتے تھے اور اونچی اونچی گھنی فصلوں میں نیچے نیچے ہو کر چھپ کر اپنے ڈھول اور تاشے کا دائرہ تنگ کرتے جاتے تھے اور اس دائرے کے اندر شکار گھبرا کر، بے چین ہو کر، تنگ آ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تھا اور دبوچ لیا جاتا تھا۔ ان کا یہ شکار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہاتھی سے لے کر خرگوش تک اسی طرح سے شکار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ چلتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔

    خواتین و حضرات، بڑی عجیب و غریب باتیں میرے سامنے آ جاتی ہیں اور میں پریشان بھی ہوتا ہوں لیکن شکر ہے کہ میں انہیں آپ کے ساتھ Share بھی کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے سینما میں، ٹی وی پر اور باہر دیواروں پر کچھ اشتہار دیکھے، کچھ اشتہار متحرک تھے اور کچھ ساکن، کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے تھے اور میں کھڑا ہو کر ان کو غور سے دیکھنے لگا کہ یہ پرانی شکار پکڑنے کی جو رسم ہے، وہ ابھی تک معدوم نہیں ہوئی ویسی کی ویسی ہی چل رہی ہے۔ پہلے ڈھول تاشے بجا کر، شور مچا کر "رولا “ ڈال کے شکاری اپنے شکار کو گھیرتے تھے اور پھر اس کو دبوچ لیتے تھے۔ اب جو اشتہار دینے والا ہے وہ ڈھول تاشے بجا کے اپنے سلوگن، نعرے، دعوے بیان کر کے شکار کو گھیرتا ہے، شکار بِـچارہ تو معصوم ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ مخصوص صابن خریدوں یا پاؤڈر خریدوں۔ اسے تو اپنی ضرورت کی چیزیں چاہئیں ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ شکار ہے اور پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ اس کا گھیراؤ کس طرح سے کرنا ہے تو وہ بظاہر تو تبدیل ہو گئی ہے لیکن یہ باطن اس کا رخ اور اس کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا، آپ خود روز شکار بنتے ہیں۔ میں بنتا ہوں اور ہم اس نرغے اور دائرے سے نکل نہیں‌سکتے۔ پھر جب ہم شکار کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر اپنے ہی گھر والوں سے پنجرے کے اندر آ جانے کے بعد لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ہی عزیز و اقارب سے جھگڑا کرتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے خرچہ زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرا کہتا ہے نہیں تمہاری وجہ سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ہم تو شکاری کے شکار میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔

    اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ترقی ہو گی اور وہ شکار کا پرانا طریقہ گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کام ترقی کی طرف مائل نہیں ہوا ہے بلکہ ہم اسی نہج پر اور اسی ڈھب پر چلتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایسے عجیب و غریب واقعات میرے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں اور میں ان پر حیران بھی ہوتا رہتا ہوں اور کہیں اگر انہیں جب ڈسکس کرنے کا مناسب موقع نہیں ملتا تو میں آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔ پھر مجھے کئی خطوط ملتے ہیں اور لوگ، خط لکھنے والے مجھے راست اور درست قدم اٹھانے پر مائل کرتے ہیں۔ میں آپ سب کا شکر گزار ہوں۔

    بادشاہت کے زمانے اور اس سے پہلے پتھر اور دھات کے زمانے سے لے کر آج تک جتنے بھی ادوار گزرے غلاموں کی تجارت کو بہت بڑا فعل سمجھا جاتا رہا ہے۔ لوگ غلام لے کر جہازوں میں پھرتے تھے۔ انہیں بالآخر فروخت کر کے اپنے پیسے کھرے کر کے چلے جاتے تھے اور اس سے بڑا اور کیا دکھ ہو گا کہ انسان بکتے تھے اور کہاں کہاں سے آ کر بکتے تھے اور وہ اپنے نئے مالکوں کے پاس کیسے رہ جاتے تھے۔ یہ ایک بڑی دردناک کہانی ہے، کہ مہاراجوں کی حکومت میں "داسیاں" بکتی تھیں جو مندروں میں ناچ اور پوجا پاٹ کرتی تھیں۔ یہ "داسیاں" دور دراز سے چل کر آتی تھیں، انہیں زیادہ تر مندروں میں رکھا جاتا تھا۔ کپل وستو کے راجہ شدوّدن کا بیٹا سدھاک جو اپنے باپ کو بہت ہی پیارا تھا اور وہ بعد میں مہاتما بدھ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا دل لگانے کے لئے اس کے باپ نے ایک ہزار لونڈیاں خرید کے محل میں رکھی تھیں تاکہ صاحبزادے کو دکھ، غم، بیماری، بڑھاپے اور موت سے آشنائی نہ ہو۔ یہ لونڈیاں شہزادے کا دل بہلاتی تھیں اور یہ رسم پہلے سے ہی چلتی آ رہی تھی حتٰی کے ایک وقت ایسا بھی آیا اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اور ان کے والد بھی پیغمبر تھے، وہ دنیا کے حسین ترین شخص تھے۔ وہ بھی بک گئے۔ میں یہ حضرت یوسف علیہ السلام کی بات کر رہا ہوں۔ ان کی بھی باقاعدہ بولی لگی تھی۔ یہ درد ناک کہانیاں چلی آتی رہی ہیں اور ایسے واقعات مسلسل ہوتے رہے ہیں۔حضرت عیسٰیؑ، حضرت موسٰیؑ کے زمانے میں غلامی کا دور اور رسم بھی تھی۔ غلامی اور انسانی تجارت کے خلاف سب سے پہلی آواز جو اٹھی وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہایت قبیح رسم ہے۔ چلتی تو زمانوں سے آ رہی ہے اور اسے پورا کا پورا روکنا بہت مشکل ہو جائے گا لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ جب بھی موقع ملے تو چلو اپنے سو غلاموں میں سے کسی ایک غلام کو رہا کر دیا کرو۔ اللہ تمہارے لئے زیادہ آسانیاں پیدا کرے گا۔ پھر جب کسی سے کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ “ سب گناہ معاف ہو جائیں گے اگر تم یہ غلام آزاد کر دو۔“ اگر وہ شخص کہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں تو غریب آدمی ہوں، میرے پاس کچھ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلام کسی سے قسطوں پر لے لو ( کوئی پانچ روپے مہینہ، تین روپے مہینہ ادا کرتے رہنا) لیکن غلام آزاد کر دو۔ یہ غلامی کی ایسی قبیح رسم تھی جس سے انسان آہستہ آہستہ نکلنے کی کوشش کرتا رہا لیکن پھر امریکا میں تو اس نے باقاعدہ کھیل کی صورت اختیار کر لی، افریقہ سے غلاموں کے جہاز بھر بھر کر لائے جاتے تھے اور ان افریقی لوگوں کو امریکہ کے شہروں میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔

    آپ نے سات قسطوں میں چلنے والی فلم “ روٹس “ تو دیکھی ہی ہو گی۔ اس کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ گورے کس کس طریقے سے کیسے ظلم و ستم کے ساتھ کالے (سیاہ فام) غلاموں کو لا کر منڈیوں میں فروخت کرتے تھے۔ چند دن پہلے کی بات ہے یہ دکھ جو ذہن کے ایک خانے میں موجود ہے، اسے لے کر میں چلتا رہتا تھا جیسا کے آپ بھی چلتے رہتے ہیں تو مجھے ایک انٹرویو کمیٹی میں بطور Subject Expert رکھا گیا۔ میں وہاں چلا گیا۔ اس کمیٹی میں کل آٹھ افراد تھے۔ وہ آٹھ افراد کا پینل تھا جس میں خواتین اور مرد بھی تھے اور وہاں ایک ایک کر کے Candidate آ رہے تھے اور ہم ان سے سوال کرتے تھے۔ براڈ کاسٹنگ اور لکھنے لکھانے کے حوالے سے سوال پوچھنا میرے ذمہ تھا۔ وہ بہت بڑا انٹرویو ہر ایک سے لیا جا رہا تھا۔ وہاں کسی صاحب نے باہر سے آ کر مجھے کہا کہ ایک صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔ گھر سے انہیں پتہ چلا کہ آپ یہاں ہیں تو یہاں پہنچ گئے۔ میں اپنے دیگر کمیٹی کے ارکان سے اجازت لیکر اور معذرت کر کے باہر آ گیا کہ براہ کرم ذرا دیر کے لئے اس انٹرویوز کے سلسلے کو روک لیا جائے۔ میں ہال میں اس صاحب سے ملنے کے لئے گیا۔ وہ صاحب ملے، بات ہوئی اور وہ چلے گئے لیکن میں تھوڑی دیر کے لئے ہال میں ان امیدواروں کو دیکھنے لگا جو بڑی بے چینی کی حالت میں اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے اور جو باری بھگتا کے باہر نکلتا تھا۔ اس سے بار بار پوچھتے تھے کہ تم سے اندر کیا پوچھا گیا ہے اور کس کس قسم کے سوال ہوئے ہیں؟ اور ان باہر بیٹھے امیدواروں کے چہروں پر تردد اور بے چینی اور اضطراب عیاں تھا۔ میں کھڑا ہو کر ان لوگوں کو دیکھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ اگلے زمانے میں تو لونڈی غلام بیچنے کے لئے منڈی میں تاجر باہر سے لایا کرتے تھے۔ آج جب ترقی یافتہ دور ہے اور چیزیں تبدیل ہو گئی ہیں، یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں خود اپنے آپ کو بیچنے اور غلام بنانے کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں اور چیخیں مار مار کر اور تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو، اپنی ذات، وجود کو، جسم و ذہن اور روح کو فروخت کرنے آئے ہیں اور جب انٹرویو میں ہمارے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں، سر میں نے یہ کمال کا کام کیا ہے، میرے پاس یہ سرٹیفیکیٹ ہے، میرے پرانے مالک کا جس میں لکھا ہے کہ جناب اس سے اچھا غلام اور کوئی نہیں اور یہ لونڈی اتنے سال تک خدمت گزار رہی ہے اور ہم اس کو پورے نمبر دیتے ہیں اور اس کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور سر اب آپ خدا کے واسطے ہمیں رکھ لیں اور ہم خود کو آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا وقت بدل گیا؟ کیا انسان ترقی کر گیا؟ کیا آپ اور میں اس کو ترقی کہیں گے کہ کسی معشیت کے بوجھ تلے، کسی اقتصادی وزن تلے ہم اپنے آپ کو خود بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں لے جا کر یہ کہتے ہیں کہ جناب اس کو رکھ لو۔ اس کو لے لو اور ہمارے ساتھ سودا کرو کہ اس کو غلامی اور اس کو لونڈی گیری کے کتنے پیسے ملتے رہیں گے۔ یہ ایک سوچ کی بات ہے اور ایک مختلف نوعیت کی سوچ کی بات ہے۔

    آپ اس پر غور کیجیئے اور مجھے بالکل منع کیجیئے کہ خدا کے واسطے ایسی سوچ آئندہ میرے آپ کے ذہن میں نہ آیا کرے کیونکہ یہ کچھ خوشگوار سوچ نہیں ہے۔ کیا انسان اس کام کے لئے بنا ہے کہ وہ محنت و مشقت اور تردّد کرے اور پھر خود کو ایک پیکٹ میں لپیٹ کے اس پر خوبصورت پیکنگ کر کے گوٹا لگا کے پیش کرے کہ میں فروخت کے لئے تیار ہوں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو نظر کے آگے سے گزرتی رہتی ہیں اور پھر یہ خیال کرنا اور یہ سوچنا کہ انسان بہت برتر ہو گیا ہے، برتر تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ارد گرد کے گرے پڑے لوگوں کو سہارا دے کر اپنے ساتھ بِٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی قومیں مضبوط اور طاقتور ہوتی ہیں جو تفریق مٹا دیتی ہیں۔ دولت، عزت، اولاد یہ سب خدا کی طرف سے عطا کردہ چیزیں ہوتی ہیں لیکن عزتِ نفس لوٹانے میں، لوگوں کو برابری عطا کرنے میں یہ تو وہ عمل ہے جو ہمارے کرنے کا ہے اور اس سے ہم پیچھے ہٹے جاتے ہیں اور اپنی ہی ذات کو معتبر کرتے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ہمارے بابا جی کے ڈیرے پر ایک نوجوان سا لڑکا آیا۔ وہ بیچارہ ٹانگوں سے معذور تھا اور اس نے ہاتھ میں پکڑنے اور وزن ڈالنے کے لئے لکڑی کے دو چوکھٹے سے بنوا رکھے تھے۔ وہ بابا جی کو ملنے، لنگر لینے اور سلام کرنے آیا کرتا تھا۔ میں وہاں بیٹھا تھا اور اسے دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوئی اور چونکہ بابا جی کے سامنے ہم آزادی سے ہر قسم کی بات کر لیا کرتے تھے۔ اس لئے میں نے کہا، بابا جی آپ کے خدا نے اس آدمی کے لئے کچھ نہ سوچا۔ یہ دیکھیئے نوجوان ہے، اچھا لیکن صحت مند ہے۔ بابا جی نے ہنس کر کہا، سوچا کیوں نہیں۔ سوچا بلکہ بہت زیادہ سوچا اور اس آدمی ہی کے لئے تو سوچا۔ میں نے کہا، جی کیا سوچا اس آدمی کے لئے، کہنے لگے، اس کے لئے تم کو پیدا کیا، کتنی بڑی سوچ ہے اللہ کی۔ اب یہ ذمہ داری تمہاری ہے۔ میں نے کہا جی (مسکراتے ہوئے) آئندہ سے ڈیرے پر نہیں آنا۔ یہ تو کندھوں پر ذمہ داریاں ڈال دیتے ہیں۔ دوسروں کے لئے سوچنا تو فلاح کی راہ ہے اور یہ ترقی جسے ہم ترقی سمجھتے ہیں یا وہ ترقی جو آپ کے، ہمارے ارد گرد ابلیسی ناچ کر رہی ہے یا وہ ترقی جو آپ کو خوفناک ہتھیاروں سے سجا رہی ہے۔ اسے ترقی تو نہیں کہا جا سکتا۔

    آج سے کچھ عرصہ قبل آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں دو سُپر پاورز تھیں اور ان کا آپس میں بڑا مقابلہ رہتا تھا اور وہ کاغذی جنگ لڑتے ہوئے اور الیکٹرونک کی لڑائی لڑتے ہوئے آپس میں ہمیشہ ایک دوسرے کی تقابل کرتے تھے اور ایک دوسری کو یہ طعنہ دیتی کہ میں تم سے بڑی سُپر پاور ہوں اور دوسری پہلی کو اور وہ اپنی سُپر پاور اور ترقی کی پرکھ اور پیمانہ یہ بتاتی تھیں کہ جیسے ایک کہتی کہ تم دس سیکنڈ میں ایک ملین افراد کو ملیا میٹ کر سکتی ہو، ہم 5 سیکنڈ کے اندر ایک ملین انسان ہلاک کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہم بڑی سُپر پاور ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کبھی تقابلی مطالعہ میں یا معاملہ میں اور کسی بات پر فخر ہی نہیں کیا۔ تو کیا انسانیت اس راہ پر چلتی جائے گی اور جو علم ہمیں پیغمبروں نے عطا کیا ہے اور جو باتیں انہوں نے بتائی ہیں، وہ صرف اس وجہ سے پیچھے ہٹتی جائیں گی کہ ہم نئی چیزیں اور نئے لوگ حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بحرکیف یہ دکھ کی باتیں ہیں اور بہت سے لوگ میرے ساتھ اس دکھ میں شریک ہوں گے۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا۔

    اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
     
  13. آزاد
    آف لائن

    آزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اگست 2008
    پیغامات:
    7,592
    موصول پسندیدگیاں:
    14
    زاویہ 2/باب 15
    ہاٹ لائن


    ایک مرتبہ پروگرام "زاویہ" میں گفتگو کے دوران "دعا" کے بارے میں بات ہوئی تھی اور پھر بہت سے لوگ "دعا" کے حوالے سے بحث و تمحیث اور غور و خوض کرتے رہے اور اس بابت مجھ سے بھی بار بار پوچھا گیا۔ میں اس کا کوئی ایسا ماہر تو نہیں ہوں لیکن میں نے ایک تجویز پیش کی تھی جسے بہت سے لوگوں نے پسند کیا اور وہ یہ تھی "دعا" کو بجائے کہنے یا بولنے کے ایک عرضی کی صورت میں لکھ لیا جائے۔ عرض کرنے اور میرے اس طرح سوچنے کی وجہ یہ تھی کہ پوری نماز میں یا عبادت میں جب ہم دعا کے مقام پر پہنچتے ہیں تو ہم بہت تیزی میں ہوتے ہیں اور بہت (اتاولی) کے ساتھ دعا مانگتے ہیں۔ ایک پاؤں میں جوتا ہوتا ہے، دوسرا پہن چکے ہوتے ہیں، اُٹھتے اٹھتے،کھڑے کھڑے جلدی سے دعا مانگتے چلے جاتے ہیں یعنی وہ رشتہ اور وہ تعلق جو انسان کا خدا کی ذات سے ہے، وہ اس طرح جلد بازی کی کیفیت میں پورا نہیں ہو پاتا۔ ہمارے بابا نے ایک ترکیب یہ سوچی تھی کہ دعا مانگتے وقت انسان پورے خضوع کے ساتھ اور پوری توجّہ کے ساتھ Full Attention رکھتے ہوئے دعا کی طرف توجّہ دے اور جو اس کا نفسِ مضمون ہو، اُس کو ذہن میں اُتار کر، تکلّم میں ڈھال کر اور پھر اس کو Communicate کرنے کے انداز میں آگے چلا جائے تاکہ اُس ذات تک پہنچے جس کے سامنے دعا مانگی جا رہی ہے یا پیش کی جا رہی ہے۔ ہمارے ایک دوست تھے، اُنہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے دعا کاغذ پر لکھنے کی بجائے ایک اور کام کیا ہے جو آپ کی سوچ سے آگے ہے۔ میرے دوست افضل صاحب نے کہا کہ میں نے ایک رجسٹر بنا لیا ہے اور میں اس پر اپنی دعا بڑی توجّہ کے ساتھ لکھتا ہوں اور اس پر باقاعدہ ڈیٹ بھی لکھتا ہوں اور اس کے بعد میں پیچھے پلٹ کر اس کیفیت کا جائزہ بھی لیتا ہوں جو دعا مانگنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ میرے دوست کے رجسٹر بنانے کا بڑا فائدہ ہے اور ان کا تعلق اپنی ذات، اپنے اللہ اور اُس ہستی کے ساتھ جس کے آگے وہ سر جھکا کر دعا مانگتے ہیں، بہت قریب ہو جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر اور میں بھی اس میں شامل ہوں، جو یہ شکایت کرتے ہیں کہ" جی بڑی دعا مانگی لیکن کوئی اثر نہیں ہوا۔ پر کوئی توجّہ نہیں دی جاتی اور ہماری دعائیں قبول نہں ہوتیں۔"

    خواتین و حضرات! دعا کا سلسلہ ہی ایسا ہے جیسا نلکا " گیڑ" کے پانی نکالنے کا ہوتا ہے۔ جس طرح ہینڈ پمپ سے پانی نکالتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا جو ہینڈ پمپ بار بار یا مسلسل چلتا رہے یا "گڑتا " رہے، اُس میں سے بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے اور جو ہینڈ پمپ سُوکھا ہوا ہو اور استعمال نہ کیا جاتا رہا ہو، اُس پر " گڑنے" والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو۔ اُس پر آپ کتنا بھی زور لگاتے چلے جائیں، اُس میں سے پانی نہیں نکلتا۔ اس لئے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ دعا مانگتے ہی چلے جائیں اور مانگیں توجّہ کے ساتھ، چلتے ہوئے، کھڑے ہوئے، بے خیالی میں کہ یا اللہ ایسے کردے۔ عام طور پر جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں" دعاؤں میں یاد رکھنا " اور وہ بھی کہتے ہیں ہم آپ کو دعاؤں میں یاد رکھیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ دعاؤں میں یاد رکھتے بھی ہوں لیکن آپ کو خود کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

    خدا کے واسطے دعا کے دائرے سے ہرگز ہرگز نہیں نکلئے گا اور یہ مت کہیئے گا کہ جناب دعا مانگی تھی اور اُس کا کوئی جواب نہیں آیا، دیکھئے دعا خط وکتابت نہیں، دعا Correspondent نہیں ہے کہ آپ نے چٹھی لکھی اور اُس خط کا جواب آئے۔ یہ تو ایک یکطرفہ عمل ہے کہ آپ نے عرضی ڈال دی اور اللہ کے حضور گزار دی اور پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے کہ یہ عرضی جا چکی ہےاور اب اس کے اوپر عمل ہو گا۔اُس کی (اللہ) مرضی کے مطابق کیونکہ وہ بہتر سمجھتا ہے کہ کس دعا یا عرضی کو پورا کیا جانا ہے اور کس دعا نے آگے چل کر اُس شخص کے لئے نقصان دہ بن جانا ہے اور کس دعا نے آگے پہنچ کر اُس کو وہ کچھ عطا کرنا ہے جو اُس کے فائدے میں ہے۔ دعا مانگنے کے لئے صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہیں ہونا چاہیئے۔ میں نے شائد پہلے بھی عرض کیا تھا کہ کچھ دعائیں تو مانگنے کے ساتھ ہی پوری ہو جاتی ہیں، کچھ دعاؤں میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور کچھ دعائیں آپ کی مرضی کے مطابق پوری نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر آپ اللہ سے ایک پھول مانگ رہے ہیں کہ " اے اللہ مجھے زندگی میں ایک ایسا پھول عطا فرما جو مجھے پہلے کبھی نہ ملا ہو۔" لیکن اللہ کی خواہش ہو کہ اسے ایک پھول کی بجائے زیادہ پھول، پورا گلدستہ یا پھولوں کا ایک ٹوکرا دے دیا جائے لیکن آپ ایک پھول پر ہی Insist کرتے رہیں اور ایک پھول کی ہی دعا بار بار کرتے جائیں اور اپنی عقل اور دانش کے مطابق اپنی تجویز کو شامل کرتے ہیں کہ مجھے ایک ہی پھول چاہیئے تو پھر اللہ کہتا ہے کہ اگراس کی خواہش ایک پھول ہی ہے تو اسے پھولوں سے بھرا ٹوکرا رہنے دیا جائے۔ آپ کی دانش اور عقل بالکل آپ کی دستگیری نہیں کرسکتی۔ مانگنے کا یہ طریقہ ہو کہ " اے اللہ میرے لئے جو بہتر ہے، مجھے وہ عطا فرما۔ میں انسان ہوں اور میری آررزوئیں اورخواہش بھی بہت زیادہ ہیں، میری کمزوریاں بھی میرے ساتھ ہیں اور تُو پروردگارِ مطلق ہے، میں بہت دست بستہ انداز میں عرض کرتا ہوں کہ مجھے کچھ ایسی چیز عطا فرما جو مجھے بھی پسند آئے اور میرے ارد گرد رہنے والوں کو، میرے عزیز واقارب کو پسند ہو اور اس میں تیری رحمت بھی شامل ہو۔ اگر کہیں کہ اللہ جو چاہے عطا کرے وہ ٹھیک ہے۔اللہ آپ کو فقیری عطا کردے جبکہ آپ کی خواہش سی ایس ایس افسر بننے یا ضلع ناظم بننے کی ہو۔ دعا ایسی مانگنی چاہیئے کہ اے اللہ مجھے ضلع ناظم بھی بنا دے اور پھر ایسا نیک بھی رکھ کہ رہتی دنیا تک لوگ اس طرح یاد کریں کہ باوصف اس کے کہ اس کو ایک بڑی مشکل درپیش تھی اور انسانوں کے ساتھ اس کے بہت کڑے روابط تھے لیکن پھر بھی وہ اس میں پورا اترا اور کامیاب ٹھہرا۔ دعا کے حوالے سے یہ باریک بات توجہ طلب اور نوٹ کرنے والی ہے۔ پھر بعض اوقات آپ دعا مانگتے مانگتے بہت لمبی عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور دعا پوری نہیں ہوتی۔ اللہ بعض اوقات آپ کی دعا کو Defer بھی کر دیتا ہے۔ جیسے آپ ڈیفنس سیونگ بانڈز لیتے ہیں، وہ دس سال کے بعد میچور ہوتے ہیں۔ جس طرح کہتے ہیں کہ یہ بچّہ ہو گیا ہے۔ اب اس کے نام کا ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ لے لیں، اسے آگے چل کر انعام مل جائے گا۔ اس طرح اللہ بھی کہتا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ اب اس شخص کے لئے یہ چیز عطا کرنا غیر مفید یا بے سود ثابت ہو گا، ہم اس کو آگے چل کر اس سے بھی بہت بڑا انعام دیں گے بشرطیکہ یہ صبر اختیار کرے اور ہماری مرضی سمجھنے کی کوشش کرے۔ دعا کو خدا کے واسطےایک معمولی چیز نہ سمجھا کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے جو مشاہدے میں آئی ہے کہ دعا ایک اہم چیز ہے۔ جس کے بارے میں خداوند تعالٰی خود فرماتے ہیں کہ "جب تم نماز ادا کر چکو تو پھر پہلو کے بل لیٹ کر، یا بیٹھ کر میرا ذکر کرو" یعنی میرے ساتھ ایک رابطہ قائم کرو۔ جب تک یہ تعلق پیدا نہیں ہوگا، جب تک یہ Hot Line نہیں لگے گی۔ اُس وقت تک تم بہت ساری چیزیں نہیں سمجھ سکو گے۔ ہم نے بھی بابا جی کے کہنے پر جو بات دل میں ہوتی اُس کو بڑے خوشخط انداز میں لمبے کاغذ پر٠لکھ کر، لپیٹ کر رکھتے تھے اور اس کے اوپر یوں حاوی ہوتے تھے کہ وہ تحریر اور وہ دعا ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں ہر وقت موجود رہتی تھی۔ ایک صاحب مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ جب وہ دعا پوری ہوجائے تو پھر کیا کریں؟ میں نے کہا کہ پھر اس کاغذ کو پھاڑ کر ( ظاہر ہے اس میں آپ نے بہت باتیں بھی لکھی ہوں گی کیونکہ آدمی کی آرزو خالص Materialistic یا مادّہ پرستی کی دعاؤں کی ہی نہیں ہوتی کچھ اور دعائیں بھی انسان مانگتا ہے ) پُرزہ پُرزہ کر کے کسی پھل دار درخت کی جڑ میں دبا دیں، یہ احترام کے لئے کہا ہے ۔ ویسے تو آپ خود بھی جانتے ہیں کہ ایسی تحریروں والے مقدّس کاغذوں کے ڈسپوزل کا کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیئے۔ ہمارے دوست جو افضل صاحب ہیں ، انہوں نے دعاؤں کا باقاعدہ ایک رجسٹر بنایا ہوا ہے جو قابل غور بات ہے اور اس میں وہ دیکھتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں سن میں میں نے یہ دعا مانگی تھی ، کچھ دعائیں چھوٹی ہوتی ہیں، معمولی معمولی سی ۔ وہ ان کو بھی رجسٹر میں سے دیکھتے کہ یہ اس سن میں مانگی دعا، اس وقت آکر پوری ہوئی اور فلاں دعا کب اور جب جا کر پوری ہوئی۔ دعا پوری توجہ کا تقاضا کرتی ہے۔ چلتے چلتے جلدی جلدی میں دعا مانگنے کا کوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا۔ کچھ دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو بہت “ٹھاہ “ کرکے لگتی ہیں۔ بغداد میں ایک نانبائی تھا، وہ بہت اچھے نان کلچی لگاتا تھا اور بڑی دور دور سے دنیا اس کے گرم گرم نان خریدنے کے لئے آتی تھی۔ کچھ لوگ بعض اوقات اسے معاوضے کے طور پر کھوٹہ سکہ دے کے چلے جاتے جیسے ہمارے یہاں بھی ہوتے ہیں۔ وہ نانبائی کھوٹہ سکہ لینے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد اپنے “گلے“ (پیسوں والی صندوقچی ) میں ڈال لیتا تھا۔ کبھی واپس نہیں کرتا تھا اور کسی کو آواز دے کر نہیں کہتا تھا کہ تم نے مجھے کھوٹہ سکہ دیا ہے۔ بے ایمان آدمی ہو وغیرہ بلکہ محبت سے وہ سکہ بھی رکھ لیتا۔ جب اس نانبائی کا آخری وقت آیا تو اس نے پکار کر اللہ سے کہا (دیکھئے یہ بھی دعا کا ایک انداز ہے ) “ اے اللہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں تیرے بندوں سے کھوٹے سکے لے کر انہیں اعلٰی درجے کے خوشبودار گرم گرم صحت مند نان دیتا رہا اور وہ لے کر جاتے رہے۔ آج میں تیرے پاس جھوٹی اور کھوٹی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وہ اس طرح سے نہیں جیسا تو چاہتا ہے۔ میری تجھ سے یہ درخواست ہے کہ جس طرح سے میں نے تیری مخلوق کو معاف کیا تو بھی مجھے معاف کردے۔ میرے پاس اصل عبادت نہیں ہے۔ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اونچے مقام پر فائز تھا اور اللہ نے ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ متمنی تھا۔ “ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دعا مانگی گئی ہے لیکن قبولیت نہیں ہوئی اور جواب ملنا چاہیے لیکن جو محسوس کرنے والے دل ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں جواب ملتا ہے ۔ ایک چھوٹی سی بچی تھی۔ اس کی گڑیا کھیلتے ہوئے ٹوٹ گئی تو وہ بیچاری رونے لگی اور جیسے بچوں کی عادت ہوتی ہے تو اس نے کہا کہ اللہ میاں جی میری گڑیا جوڑ دو ، یہ ٹوٹ گئی ہے ۔ اس کا بھائی ہنسنے لگا کہ بھئی ٹوٹ گئی ہے اور اب یہ جڑ نہیں سکتی۔ اس نے کہا کہ مجھے اس گڑیا کے جڑنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ میاں جواب نہیں دیا کرتے ۔ اللہ میاں کو تو بڑے بڑے کام ہوتے ہیں۔ لڑکی نے کہا کہ ان میں اللہ میاں کو ضرور پکاروں گی اور وہ میری بات کا ضرور جواب دے گا۔ اس نے کہا ، اچھا اور چلا گیا۔ جب تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو دیکھا کہ بہن ویسے ہی ٹوٹی گڑیا لئے بیٹھی ہوئی ہے اور بہن سے کہنے لگا ، بتاؤ کہ اللہ میاں کا کوئی جواب آیا۔ وہ کہنے لگی ، ہاں آیا ہے ۔ اس لڑکے نے کہا تو پھر کیا کہا ؟ اس کی بہن کہنے لگی ، اللہ میاں نے کہا ہے یہ نہیں جڑ سکتی ۔ یہ اس لڑکی کا ایک یقین اور ایقان تھا۔ بہت سی دعاؤں کے جواب میں ایسا بھی حکم آجاتا ہے۔ ایسی بھی Indication آجاتی ہے کہ یہ کام نہیں ہوگا۔ اس کو دل کی نہایت خوشی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیئے۔ ہم برداشت نہیں کرتے ہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ پھر بھی ہمیں معافی ہے کہ ہم تقاضۂ بشری کے تحت ، انسان ہونے کے ناطے بہت ساری چیزوں کو اس طرح چھوڑ دیتے ہیں اور ہم پورے کے پورے اس پر حاوی نہیں ہوتے۔ کئی مرتبہ دعا مانگنے کے سلسلے میں کچھ لوگ بڑی ذہانت استعمال کرتے ہیں۔ آخر انسان ہیں نا! آدمی سوچتا بھی بڑے ٹیڑھے انداز میں ہے۔ ہمارے گاؤں میں ایک لڑکی تھی ، جوان تھی لیکن شادی نہیں ہورہی تھی۔ ہم اسے کہتے کہ توبھی دعا مانگ اور ہم بھی دعا مانگتے ہیں کہ اللہ تیرا رشتہ کہیں کرا دے۔ اس نے کہا ، میں اپنی ذات کے لئے کبھی دعا نہیں مانگوں گی۔ مجھے یہ اچھا نہیں لگتا۔ ہم نے کہا کہ بھئی تُو تو پھر بڑی ولی ہے جو صرف دوسروں کے لئے ہی دعا مانگتی ہے۔ اس نے کہا ولی نہیں ہوں لیکن دعا صرف مخلوقِ خدا کے لئے مانگتی ہوں۔ وہ اللہ زیادہ پوری کرتا ہے۔ ہم اس کی اس بات پر بڑے حیران ہوئے تھے۔ وہ ہمیشہ یہی دعا مانگا کرتی تھی کہ “ اے اللہ میں اپنے لئے کچھ نہں مانگتی ، میں اپنی ماں کے لئے دعا مانگتی ہوں کہ اے خدا میری ماں کو ایک اچھا ، خوبصورت سا داماد دے دے ، تیری بڑی مہربانی ہوگی۔ اس سے میری ماں خوش ہوگی ، میں اپنے لئے کچھ نہیں چاہتی۔ وہ ذہین بھی ہو ، اس کی اچھی تنخواہ بھی ہو۔ اس کی جائیداد بھی ہو۔ اس طرح کا داماد میری ماں کو دے دے۔“ انسان ایسی بھی دعائیں مانگتا ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے کہ اس قسم کی اور اس طرح سے دعا مانگنا بھی بڑی اچھی بات ہے۔ اس سے بھی اللہ سے ایک تعلق ظاہر ہوتاہے ۔ اللہ ہر زبان سمجھتا ہے۔ اپنی دعا کو نکھار نکھار کے نتھار نتھار کے چوکھٹا لگا کے اللہ کی خدمت میں پیش کیا جائے کہ جی یہ چاہیئے، ان چیزوں کی آرزو ہے۔ یہ بیماری ہے ، یہ مشکل ہے ، حل کردیں۔ آپ کی بری مہربانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو دعا مانگنے والے کے لئے مشکل پیدا کردیتی ہیں کہ وہ صبر کا دامن چھوڑ کر بہت زیادہ تجویز کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ جتنی جلدی میں دکھاؤں گا ، جتنی تیزی میں کروں گا اتنی تیزی کے ساتھ میری دعا قبول ہوگی۔ وہ ہر جگہ ، ہر مقام پر ہر ایک سے یہی کہتا پھرتا ہے۔ اگر کبھی وہ یہ تجربہ کرے کہ میں نے عرضی ڈال دی ہے اور لکھ کر ڈال دی ہے اور اب مجھے آرام کے ساتھ بیٹھ جانا چاہیئے کیونکہ وہ عرضی ایک بڑے اعلٰی دربار میں گئی ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ فیصلہ ضرور ہوگا۔ کئی دفعہ دعا کے راستے میں یہ چیز حائل ہو جاتی ہے کہ اب جب آپ کوئی کوشش کر ہی رہے ہیں تو پھر انشاء اللہ تعالی آپ کی کوشش کے صدقے کام ہوجائےگا۔ ہم یہ بھی سوچتے ہیں لیکن یہ بھی میرا ایک ذاتی خیال ہے کہ دعا کی طرف پہلے توجہ دینی چاہیئے اور کوشش بعد میں ہونی چاہیے ۔ دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ دعا کے ساتھ گہری اور یقین کے ساتھ وابستگی ہونی چاہیئے، اور جب گہری وابستگی ہو تو اس یقین کے ساتھ کوشش کرکے سوچنا چاہیئے کہ اب عرضی چلی گئی ہے ، اب اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔ دعا ہر زبان میں پوری ہوتی ہے جس زبان میں بھی کی جائے۔ 1857 ء میں جب انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ آزادی جا ری تھی اور مولوی حضرات اس جنگ کی رہنمائی کر رہے تھے اور توپیں بھر بھر کے چلا رہے تھے تو اس جنگ کے خاتمے پر ایک مولوی نے ایک انگریز سے کہا کہ حیرانی کی بات ہے کہ ہم جو بھی تدبیر یا تجویز کرتے ہیں وہ پوری نہیں ہوتی اور آپ جو بھی کام کرتے ہیں ہر جگہ پر آپ کو کامیابی ملتی رہی ہے ، اس کی کیا وجہ ہے؟ انگریز نے ہنس کے کہا “ ہم ہر کام کے لئے دعا مانگتے ہیں۔“ مولوی صاحب نے کہا ، دعا تو ہم بھی مانگتے ہیں ۔ انگریز نے کہا ، ہم انگریزی میں دعا مانگتے ہیں ۔ اب مولوی بیچارہ خاموش ہو گیا۔ اس وقت بھی انگریزی کا ایک خاص رعب اور دبدبہ ہوتا تھا تو مولوی صاحب نے بھی کہا کہ شاید انگریزی میں مانگی ہوئی دعا کامیاب ہوتی ہوگی۔ دعا کے لئے کسی زبان کی قید نہیں ہے۔ بس دلّی وابستگی اہم ہے۔

    اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین ۔ اللہ حافظ۔
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ آزاد بھائی
    بہت اچھی تحریر ہے۔ دعا عین عبادت ہے بلکہ حدیث پاک کے مطابق "‌مغز العبادۃ" ہے ۔
    بدقسمتی سے امت میں نئے نئے فرقے پیدا ہوتے ہوتے اب کچھ ایسے طبقے بھی پیدا ہوچکے ہیں جو عین فرض نماز کے بعد بھی دعا نہیں مانگتے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب سے بڑے موحد (توحید پرست) بھی بنے بیٹھے ہیں۔ دوسروں پر شرک بدعت کے فتوے بھی لگاتے ہیں۔ لیکن بارگاہ ِ الہیہ میں‌ہاتھ تک نہیں اٹھاتے ۔ نماز پڑھی ۔ سلام پھیر کر اٹھ کر گھر کی راہ لیتے ہیں۔ اگر پوچھو کہ بھائی اللہ تعالی سے دعا کیوں‌نہیں مانگی ۔ تو کہتے ہیں۔ بھئی نماز بھی تو دعا ہی تھی ۔ حالانکہ واضح احادیث پاک ہیں کہ حضور اکرم :saw: اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم ہمیشہ نماز سے فارغ ہوکر دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہ الہی میں دعائیں کیا کرتے تھے۔ اور حضور اکرم :saw: تو ہاتھ اتنے بلند فرماتے کہ صحابہ کرام ، آپ :saw: کے بغل مبارک کی سفیدی بھی دیکھ لیتے تھے۔

    آزاد بھائی ۔ جزاک اللہ خیر۔
     
  15. نیلو
    آف لائن

    نیلو ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2009
    پیغامات:
    1,399
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    آزاد صاحب ۔ اہم باتیں ہم تک پہنچاتے ہیں۔ آپکا بہت شکریہ۔
     
  16. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آزاد جی آج ایک بار پھر آپ اک شکریہ ادا کروں گی اس خوبصورت شئیرنگ پہ ، کہ اتفاق سے جب میں یہ کتاب خریدنے گئی تو آؤٹ آف سٹاک تھی یہ اس کے بعد پھر جانا ہی نہیں‌ہو سکا اور شدید خواہش تھی زاویہ 2 پڑھنے کی کیونکہ زاویہ 1 میں پڑھ چکی تھی ، آپ کی اس شئیرنگ کی اس خواہش کو پورا کر دیا بہت شکریہ
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    آزاد جی آپ نے کافی دنوں سے مزید نہیں لکھا ، پلیز کچھ شئیر کریں انتظار ھے شدت سے آگے پڑھنے کا
     
  18. بےباک
    آف لائن

    بےباک ممبر

    شمولیت:
    ‏19 فروری 2009
    پیغامات:
    2,484
    موصول پسندیدگیاں:
    17
    :salam: :dilphool:

    آج کافی دن بعد جب یہاں حاضری ہوئی تو بہت کچھ نیا دیکھنے اور پڑنھے کو ملا لیکن اسمیں زیادہ دلچسپ اور دل کو چھو لینے والی تحریریں جو سب سے پہلے دیکھیں آزاد جی آپکی ہیں ۔۔بہت خوشی ہوئی اور خاص‌اسلیئے بھی کہ آپ ایک بہت دلچسپ شیئرنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔بہت زبردست۔۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ اس دلچسپ اور مزےدار شیئرنگ کے لیے
    اور ساتھ میں محبتوں اور دعاؤں کے تحائف بھی قبول کیجیئے۔۔۔سلامت رہیئے اور ہمیشہ خوش رہیئے۔۔۔آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں