1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دفع آفات، حفظ بلیات کے لئےمجرب تعویذات اورعملیات

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از Guest, ‏19 فروری 2008۔

  1. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    Re: مسئلہ

    +++
     
  2. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    بعض اوقات

    بعض اوقات صورت حال اس کے برعکس بھی ہوتی ہے جب کوئی مسلمان لڑکی کا دل کسی کافر لڑکے پر آجاتا ہے تو ایسی صورت میں تو ان تفریق ڈالنا نہ صرف یہ کہ مباح ہوجاتا ہے بلکہ واجب بھی۔ کیا یہ بات آپ قابل تسلیم ہے؟
     
  3. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    سلام۔۔ بابا جی۔۔ :212:
     
  4. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    Re: بعض اوقات

    بابا جی آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔اس وجہ سے کتنے ہی بچے اپنی جان لے بیٹھتے ہیں یا اپنی زندگی برباد کر لیتے ہیں لیکن کاغذ پہ لکھے گئے چند حروف کسی انسان کے دل و دماغ کو کیسے کنٹرول کر سکتے ہیں؟
     
  5. زمردرفیق
    آف لائن

    زمردرفیق ممبر

    شمولیت:
    ‏20 فروری 2008
    پیغامات:
    312
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    Re: بعض اوقات

    پیارے محترم بھاٰہی میں آپ کے سامنے چند آیات رکھ رہا ہوں دل کی گہراہیوں میں جھانک کر پڑھنا اللہ پاک آپکو ہداہت دےآمین،،،،سورتہ البقرہ آیات 78تا79
    بڑی خرابی ہو گی ان کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب(توریت) کو اول بدل کر لکھتے ہہیں پھر کہتے ہین کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے،اس ذریعہ سے یہ تھوڑی نقدی وصول کر لیتے ہین سو بڑی خرابی ہے ان کی جو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور خرابی ہو گی ان کی جو اس طرع وصول کرتے ہین،،،،،،،،،
    باقی آپ سمجھدار ہیں
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    :soch: کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی :soch:
     
  7. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    بے ربط بات کرتے ہیں آپ

    فويل للذين يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا فويل لهم مما كتبت أيديهم وويل لهم مما يكسبون - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص (12) سورہ بقرہ آیت ۷۹
    کیا سمجھانا مقصد ہے آپ کا اس آیہ مبارکہ سے جبکہ یہ آیت قوم یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور آسمانی کتاب میں انکی جانب سے انجام پانے والی تحریف کو بیان کر رہی ہے۔
    مندرجہ ذیل روایت دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت قوم یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے:
    أنا الحسن بن أحمد بن حبيب حدثنا محمد وهو بن عبد الله بن نمير نا وكيع نا سفيان عن عبد الرحمن بن علقمة قال سمعت بن عباس يقول الذين يكتبون الكتاب بأيديهم نزلت في أهل الكتاب
    - السنن الكبرى - النسائي ج 6 ص 286 :
    آیت قوم یہود کی تحریف پر دلالت کر رہی ہے، اس کی دلیل یہ روایت ہے:
    قال وحدثنا الحسن بن علي المعمري ثنا عمرو بن أبي عاصم حدثني أبي ثنا شبيب بن بشر عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنه في قول الله عز وجل فويل للذين يكتبون الكتاب بأيديهم ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمنا قليلا قال أحبار اليهود وجدوا صفة محمد صلى الله عليه وسلم مكتوبا في التوراة أكحل أعين ربعة جعد الشعر حسن الوجه فما وجدوه في التوراة محوه حسدا وبغيا فأتاهم نفر من قريش من أهل مكة فقالوا تجدون في التوراة نبيا منا قالوا نعم نجده طويلا أزرق سبط الشعر فأنكرت قريش وقالوا ليس هذا منا
    - دلائل النبوة- إسماعيل الأصبهاني ص 157 :
    پس اس آیت سے ہمارے خلاف استدلال کرنا بالکل بے ربط ہے۔
    اور مسسز مرزا صاحبہ لگتا ہے کہ آپ کو قرآن پر ایمان نہیں ہے کیا کلام خدا میں آپ کے نزدیک اتنی بھی تاثیر نہیں؟ عزیز مصر کا خزانہ خالی ہو گیا تھا لیکن ترازو میں جناب یوسف کے پلے کا مقابلہ نہ کر سکا مگر جب بسم اللہ۔۔ لکھ کر رکھ دیا گیا تو جناب یوسف کا پلہ ہکا پڑ گیا۔ اور پھر جناب ابراہیم کا پرندوں کو آواز دینا اور ان کا زندہ ہوجانا اور جناب عیسیٰ کا پرندہ بناکر اذن پروردگار سے اس میں روح پھونکنا اور مریضوں کو شفا دلانا یہ سب آپ کو جادو لگتا ہے؟ کفار بھی یہی کہتے تھے۔ ان آیات کو ملاحظہ فرمائیں:
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 56 :
    ورسولا إلى بني إسرائيل أني قد جئتكم بآية من ربكم أني أخلق لكم من الطين كهيئة الطير فأنفخ فيه فيكون طيرا بإذن الله وأبرئ الاكمه والابرص وأحيي الموتى بإذن الله وأنبئكم بما تأكلون وما تدخرون في بيوتكم إن في ذلك لآية لكم إن كنتم مؤمنين [ آل عمران 49 ]
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 44 :
    وإذ قال إبراهيم رب أرني كيف تحيي الموتى قال أو لم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي قال فخذ أربعة من الطير فصرهن إليك ثم اجعل على كل جبل منهن جزءا ثم ادعهن يأتينك سعيا واعلم أن الله عزيز حكيم [ بقرة 260 ]
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 126 :
    إذ قال الله يا عيسى ابن مريم اذكر نعمتي عليك وعلى والدتك إذ أيدتك بروح القدس تكلم الناس في المهد وكهلا وإذ علمتك الكتاب والحكمة والتوراة والانجيل وإذ تخلق من الطين كهيئة الطير بإذني فتنفخ فيها فتكون طيرا بإذني وتبرئ الاكمه والابرص بإذني وإذ تخرج الموتى بإذني وإذ كففت بني إسرائيل عنك إذ جئتهم بالبينات فقال الذين كفروا منهم إن هذا إلا سحر

    اور کیا آپ کو خواب کی تعبیر کا بیان کرنا حرام لگتا ہے؟ تو یہ کام تو جناب یوسف علیہ السلام بھی کیا کرتے تھے:
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 239 :
    ودخل معه السجن فتيان قال أحدهما إني أراني أعصر خمرا وقال الآخر إني أراني أحمل فوق رأسي خبزا تأكل الطير منه نبئنا بتأويله إنا نراك من المحسنين [ يوسف 36 ] * قال لا يأتيكما طعام ترزقانه إلا نبأتكما بتأويله قبل أن يأتيكما ذلكما مما علمني ربي إني تركت ملة قوم لا يؤمنون بالله وهم بالآخرة هم كافرون [ يوسف 37 ]

    آخری بات میں عرض کروں کہ اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید نہ کریں، قرآن میں بے شمار جگہوں پر اس کی مذمت کی گئی ہے:
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 125 :
    وإذا قيل لهم تعالوا إلى ما أنزل الله وإلى الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا عليه آباءنا أولو كان آباؤهم لا يعلمون شيئا ولا يهتدون [ مائدة 104 ]
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 153 :
    وإذا فعلوا فاحشة قالوا وجدنا عليها آباءنا والله أمرنا بها قل إن الله لا يأمر بالفحشاء أتقولون على الله ما لا تعلمون [ اعراف 28 ]
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 217 :
    قالوا أجئتنا لتلفتنا عما وجدنا عليه آباءنا وتكون لكما الكبرياء في الارض وما نحن لكما بمؤمنين [ يونس 78 ]
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 326 :
    قالوا وجدنا آباءنا لها عابدين [ أنبياء 53 ]
    ............................................................
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 370 :
    قالوا بل وجدنا آباءنا كذلك يفعلون [ الشعراء 74 ] *
    ............................................................
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 413 :
    وإذا قيل لهم اتبعوا ما أنزل الله قالوا بل نتبع ما وجدنا عليه آباءنا أو لو كان الشيطان يدعوهم إلى عذاب السعير [ لقمان 21 ] *
    ............................................................
    - القرآن الكريم- كتاب الله تبارك وتعالى ص 491 :
    وكذلك ما أرسلنا من قبلك في قرية من نذير إلا قال مترفوها إنا وجدنا آباءنا على أمة وإنا على آثارهم مقتدون [ زخرف 23 ]

    اور اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اتنے سارے لوگ کیسے غلط راستے پر ہو سکتے ہیں تو یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ اکثریت کا بھی کوئی اعتبار نہیں اور اس کی بھی قرآن میں متعدد مقامات پر مذمت کی گئی ہے۔ لہذا اگر سچا مسلمان بننا ہے تو خالص دین محمد صلی اللہ ۔۔۔ کو اپناؤ اپنے بزرگوں کے مخلوط کردہ دین کو نہیں!
     
  8. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    بابا جی اچھے عالموں کی طرح اپنے الفاظ واپس لے لیجیئے :139:
    قرآن پہ میرا ایمان الحمدللہ ہے۔ میرے سوال کو دوبارہ غور سے پڑھیں محترم!!!
    اگر تو قرآن کو لکھ لکھ کے کسی کا دل دماغ کنٹرول ہو سکتا ہے تو پہلے ہم کیوں نہ اپنے چاچے بش کو پکڑیں؟ کیوں نہ اپنے فلسطینی بہن بھایئوں کے لیئے ان یہودیوں کے دل اور دماغ قابو کر لیں؟ اگر ایسا ممکن ہے تو سرکار ہم اسے کیوں نہ عالمی سطح پہ استعمال کرنے کی کوشش کریں؟ کتنے ہی بے بس اور مجبور لوگ کیسے کیسے ظلم کو چپ چاپ سہہ رہے ہیں لیکن ہمارا یہ حال ہے کہ کسی کو اپنی نند سے چھٹکارا چاہیئے تو کوئی ساس کا منہ نہیں دیکھنا چاہتا یا چاہتی یا کوئی اپنی محبت کا رونا لیئے بیٹھا ہے۔ دیکھا اس کو کہتے ہیں شیطان!!! اس نے ہمیں چھوٹی چھوٹی لایعنی باتوں میں الجھایا ہوا ہے اور جس چیز کی طرف ہمارا دھیان جانا چاہیئے اس طرف جاتا نہیں۔ وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
    شعر اگر صحیح نہیں ہے تو معذرت !!! بات کا مقصد آپ کو سمجھ آ ہی رہا ہو گا کہ جب تک ہم پورے عزم کے ساتھ دل اور جان لگا کے ایک دوسرے کے لیئے کچھ نہیں کریں گے مسلمانوں کا نام یونہی بدنام ہوتا رہے گا اور مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ان میں اتحاد نہیں ہے سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور اپنی اپنی بھی فضول اور بے مقصد باتوں کی پڑی ہوئی ہے۔ بابا جی اگر تو قرآن کو اس طریقے سے استعمال کر کے ہم کچھ تبدیلی لا سکتے ہیں تو حضور آیئے سب مل کر دنیا میں کچھ تبدیلی لاتے ہیں۔ رابطہ میں کرتی ہوں آپ سے۔۔۔آپ قدم بڑھایئے ہم آپ کے ساتھ ہیں!!! :hands: :a191:
     
  9. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    اگر تو قرآن کو لکھ لکھ کے کسی کا دل دماغ کنٹرول ہو سکتا ہے تو پہلے ہم کیوں نہ اپنے چاچے بش کو پکڑیں؟ کیوں نہ اپنے فلسطینی بہن بھایئوں کے لیئے ان یہودیوں کے دل اور دماغ قابو کر لیں؟

    مسسز مرزا صاحبہ توجہ فرمائیں:اس کا تو بس ایک جواب ہے کہ کیا خدا قادر مطلق ہوتے ہوئے بھی ایسا کچھ کر رہا ہے جیسا آپ فرما رہی ہیں؟ ثانیاً ہم نے وہ سب باتیں سوالیہ طور پہ عرض کی تھیں، آپ کو سوال کرنے کے بجائے ان کا جواب دینا چاہیے تھا۔
     
  10. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    حضرت بابائے عملیات جی کیا آپ قرآن کریم کی آیات کو ان مقاصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے جن کے لئے ان کو نازل فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں یقینا“ شفا ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے گلے میں ڈال دیا جائے یا بازو پر باندھ لیا جائے اور پوری عمر کے لیے بیماری نزدیک نہ آئےِ؟

    قرآن کریم تو راہ ہدایت ہے جس پر چل کر ہی اور جس کے احکامات کو مان کر ہی شفا اور ہدایت مل سکتی ہے۔
     
  11. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    یہ تو وہی تکرار مکررات ہے، اس کا جواب تو ہم پہلے ہی دے چکے ہیں کہ کسی شی میں ایک بڑے فائدے کا ہونا اس کے دوسرے فوائد سے استفادہ کیلئے مانع نہیں ہوتا۔ مذکورہ آیات کو ملاحظہ فرمائیں یا پھر یہ تسلیم کریں مذکورہ انبیا کے وہ قوت الہیہ سے استفادے لغو تھے۔
     
  12. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    بابا جی تفرقہ ڈالنا،بغض،عداوت،اوردشمنی پیدا کرنا کیا یہ کوئی مسلمانوں کے کام ہیں
    اور کیا یہ کام فی سبیل اللہ ہوسکتے ہیں؟اللہ تعالی آپ کودولت ھدایت سے نوازے
     
  13. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    [/quote]
    بابا جی تفرقہ ڈالنا،بغض،عداوت،اوردشمنی پیدا کرنا کیا یہ کوئی مسلمانوں کے کام ہیں
    اور کیا یہ کام فی سبیل اللہ ہوسکتے ہیں؟اللہ تعالی آپ کودولت ھدایت سے نوازے[/quote]

    لگتا ہے کہ جناب کی فقھی معلومات بہت مختصر ہے، ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں دیگر موارد جواز آپ خود تلاش کرلیں گے۔ مثلا اگر چند کافر و ظالم متحد ہوجائیں تو ایک بے گناہ مسلمان کو ضرر پہنچا سکتے ہیں لیکن اگر ان میں جدائی ڈال دی جائے تو انکی طاقت گھٹ جائے گی۔ اسی مثال میں فرض کریں ان کا اتحاد بے گناہ مسلمان کے قتل تک منجر ہوتا ہے۔ ان دونوں مثالوں میں فقہا کی کیا رائے ہے؟ آیا وہ تفریق ڈالنے کو ان صورتوں میں بھی حرام جانتے ہیں؟
     
  14. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    لگتا ہے کہ جناب کی فقھی معلومات بہت مختصر ہے، ہم ایک مثال پیش کرتے ہیں دیگر موارد جواز آپ خود تلاش کرلیں گے۔ مثلا اگر چند کافر و ظالم متحد ہوجائیں تو ایک بے گناہ مسلمان کو ضرر پہنچا سکتے ہیں لیکن اگر ان میں جدائی ڈال دی جائے تو انکی طاقت گھٹ جائے گی۔ اسی مثال میں فرض کریں ان کا اتحاد بے گناہ مسلمان کے قتل تک منجر ہوتا ہے۔ ان دونوں مثالوں میں فقہا کی کیا رائے ہے؟ آیا وہ تفریق ڈالنے کو ان صورتوں میں بھی حرام جانتے ہیں؟
     
  15. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    عزیز مصر کا خزانہ خالی ہو گیا تھا لیکن ترازو میں جناب یوسف کے پلے کا مقابلہ نہ کر سکا مگر جب بسم اللہ۔۔ لکھ کر رکھ دیا گیا تو جناب یوسف کا پلہ ہکا پڑ گیا۔


    یہ مکذوبہ روایت آپ نے اپنے بزرگوں سے سنی ہو گی ورنہ قرآن میں تو کہیں مذکور نہیں۔


    1) جناب ابراہیم کا پرندوں کو آواز دینا اور ان کا زندہ ہوجانا-
    2) جناب عیسیٰ کا پرندہ بناکر اذن پروردگار سے اس میں روح پھونکنا اور مریضوں کو شفا دلانا

    یہ سب آپ کو جادو لگتا ہے؟

    جناب محترم یہ سب جادو ہرگز نہیں بلکہ معجزات ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کو عطا فرمائے تھے اگر آپ بھی ایسے ہی معجزات دکھانے کا دعوی کرتے ہیں تو پھر ان کی مثال دیں ورنہ ایسے کمالات دکھانے کا دعوی عام انسان نہیں کر سکتے اور اگر کریں بھی تو ان کا کیا مقام ہو گا آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔


    اور کیا آپ کو خواب کی تعبیر کا بیان کرنا حرام لگتا ہے؟ تو یہ کام تو جناب یوسف علیہ السلام بھی کیا کرتے تھے

    یہ بھی معجزہ ہی کہلائے گا۔

    آخری بات میں عرض کروں کہ اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید نہ کریں، قرآن میں بے شمار جگہوں پر اس کی مذمت کی گئی ہے:


    اور اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ اتنے سارے لوگ کیسے غلط راستے پر ہو سکتے ہیں تو یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ اکثریت کا بھی کوئی اعتبار نہیں اور اس کی بھی قرآن میں متعدد مقامات پر مذمت کی گئی ہے۔ لہذا اگر سچا مسلمان بننا ہے تو خالص دین محمد صلی اللہ ۔۔۔ کو اپناؤ اپنے بزرگوں کے مخلوط کردہ دین کو نہیں!

    یہ باتیں تو بہت اچھی کی ہیں لیکن اللہ تعالی آپ کو بھی ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

    قرآن کے احکامات وقتی نہیں تھے وگرنہ ھر بات کو یہ کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے کہ یہ حکم فلاں کے لیے نازل ہوا تھا یہ بات فلاں قوم کے لیے تھی وغیرہ
     
  16. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حجت تام

    ماشاء اللہ ؛؛؛سیف بھائی کی ایک ایک بات سے صداقت ٹپک رہی ہے؛؛سیف بھائی نے حجت تام کردی اب میں اور کیا لکھوں باباجی کو
     
  17. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    روایت مکذوبہ ہے یا کاذبہ؟ مکذوبہ ہے تو اس روایت کو جھٹلانے والا کون ہے، اگر کوئی معصوم ہے تو سر آنکھوں پہ تسلیم ہے، لیکن اگر جھٹلانے والے آپ ہیں تو اس کا کوئی اعتبار نہیں! اور جہاں تک سوال اس بات کا ہے کہ قرآن میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں، تو بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا تذکرہ بظاہر قرآن میں نہیں ہے اور اگر آپ کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس کا تذکرہ قرآن میں نہ ہو تو اسے ٹھکرا دیا جائے، تو پھر ٹھکرا دیجئے اپنے موجودہ دین کو، کیونکہ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے!

    علمائے کلام نے جو تعریف معجزے کی بیان کی ہے لگتا ہے وہ آپ کی نظروں سے نہیں گزریں۔ میں مذکورہ آیات کو اپنے اوپر ہونے والے اعتراضات کے جواب میں پیش کیا تھا، کیونکہ وہ اعتراضات کچھ ایسی باتوں پر مشتمل تھے جنکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہر وہ چیز جو غیر طبعی طریقے سے وجود میں آئے وہ سحر اور حرام ہے اس لئے میرا یہ کام سحر اور حرام ہے تو میں نے جواب میں ان آیات کو پیش کیا کہ ہر ما ورائے طبیعت شی سحر نہیں ہوتی۔ بلکہ اس چند قسمیں ہیں ممکن ہے معجزہ ہو، ممکن ہے سحر ہو، ممکن ہے کرامت ہو۔ ان تینوں چیزوں کو سمجھنے کے لئے علم کلام میں ان کی تعاریف کا مطالعہ فرمائیں۔
    ہر خارق العادۃ امر معجزہ نہیں ہوتا بلکہ شرط ہے کہ دعوائے نبوت ساتھ ہو، مبارزہ طلبی ہو، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے کہ اس کے مثل ایک سورہ لاو ، اور قابل تعلیم و تعلم نہ ہو!

    میں اس دین کو غیروں سے کیوں لوں؟ دین کو سمجھنا ہے تو اس کے سرچشمے سے سمجھوں گا!!
     
  18. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    روایت اگر مکذوبہ یا کاذبہ نھیں ہےتو اس لئے کہ آپ نے بیان فرمائی ہے یا اپنے جیسےکسی معصوم کی کتاب سے نقل فرمائی ہے- اگر ایسا ہے تو پھر کوئی حوالہ، ماخذ یا ثبوت بھی فراہم فرما دیتے تو میرا منہ بھی بند ہو جاتا-

    آپ نے جو کرامات بیان فرمائی تھیں وہ معجزات ہی تھے وگرنہ صاف انکار فرمائیں کہ وہ معجزات نہیں۔ خرق العادات کرامات تو ہر مذھب میں موجود ہیں اور اگر آپ کو بھی دعوی ہے تو واضح فرمائیں میں بھی استفادہ کرنے کے لیے تیار ہوں۔

    یہ آپ ہی کے ارشادات ہیں جو میں نے نقل کیے لیکن آپ نے خود ہی ان کا جواب دے دیا۔ حضور عالی مقام آپ بالکل درست فرماتے ہیں لازما“ آپ کو دین سمجھنے کے لئے اس کے سرچشمے ہی سے رجوع کرنا چاہیے۔

    لیکن آپ جو دعوی فرما رہے ہیں کہ آپ عملیات کے ماہر ہیں اس کی تعلیم آپ نے کس سرچشمے سے حاصل فرمائی ہے۔ عملیات کا آغاز تو بابل و نینوا کی سرزمین سے ہوا تھا تو کیا آپ کے نزدیک اھل بابل (نمرود وغیرہم) ہی سرچشمہ ہدایت ہیں۔ اگر ایسا ہے تو میرا خیال ہے کسی کو اعتراض نہیں ہو گا ------ کم از کم مجھے تو ہرگز نہیں کیونکہ اھل بابل کے نقش قدم پر چلنے والے کے افعال پر کوئی کیا اعتراض کر سکتا ہے۔
     
  19. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان



    بات کو کہیں اور نہ لے جائیں! پہلے آب بتائیں کہ اس آیت:
    وإذ قال إبراهيم رب أرني كيف تحيي الموتى قال أو لم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي قال فخذ أربعة من الطير فصرهن إليك ثم اجعل على كل جبل منهن جزءا ثم ادعهن يأتينك سعيا واعلم أن الله عزيز حكيم [ بقرة 260
    اس کی رو سے جناب ابراہیم اپنے اطمینان قلب کے لئے خدا سے سوال کر رہے ہیں کہ پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے اور تبجناب ابراہیم کا پرندوں کو آواز دینا اور ان کا زندہ ہوجانا یہ آپ کو معجزہ لگتا ہے تو بتائیں کہ معجزہ تو دعوائے نبوت کی تصدیق لے پیش کیا جاتا ہے نا، یہاں جناب ابراھیم اپنی نبوت کو کس پر اثبات کرنا چاہتے ہیں؟ خدا پر!

    ودخل معه السجن فتيان قال أحدهما إني أراني أعصر خمرا وقال الآخر إني أراني أحمل فوق رأسي خبزا تأكل الطير منه نبئنا بتأويله إنا نراك من المحسنين [ يوسف 36 ] * قال لا يأتيكما طعام ترزقانه إلا نبأتكما بتأويله قبل أن يأتيكما ذلكما مما علمني ربي إني تركت ملة قوم لا يؤمنون بالله وهم بالآخرة هم كافرون [ يوسف 37 ]
    بتائیں کہ مذکورہ بالا آیت میں جناب یوسف اپنی نبوت کو کس پر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معجزہ پیش کر رہے ہیں وہ کسی سائل کے سوال پر، کیا وہ مقام اثبات نبوت میں تھے؟ جبکہ معجزہ یعنی مدعی نبوت کی صداقت کی دلیل! جب وہ اپنی نبوت کو اثبات کر رہا ہو۔

    اور رہی جناب عیسیٰ کی بات تو انھوں نے بعض مقامات پر اپنی نبوت کے اثبات کے لئے بعنوان معجزہ مردے کو زندہ کیا ہے یا مریض کو شفا دلائی ہے اور بعض مقامات پہ جہاں پہ وہ مقام اثبات میں نہیں تھے بعنوان کرامت یہ امور انجام دیئے ہیں۔

    خلاصہ یہ کہ انبیاء کی تمام کرامتیں معجزہ نہیں ہوتیں، اگر نبی ان امور کو اپنے دعوے میں صداقت کی دلیل بنا کر پیش کرے تو معجزہ ہے، ورنہ پھر تسلیم کریں کہ نبی کی صلح و جنگ، عبادت و بندگی، اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، روزہ رکھنا سب کے سب معجزہ ہیں۔ پس ان تمام صورتوں میں نبی میں کمال ہی کیا رہ جائے گا جبکہ وہ اپنے تمام فرائض معجزے کے ذریعے انجام دے رہا ہو!

    پس آپ اتنا تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہر غیر طبعی امر سحر اور حرام نہیں ہوتا ( کیونکہ آپ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ معجزہ خارق العادۃ امر ہے) تو بتائیں کہ اگر سورہ جن پڑھ کر کسی پر دم کر دیا جائے اور اس سے آسیپ دور ہوجائے تو یہ کس دلیل سے حرام ہے۔ اور اگر آپ کو اس کی تاثیر سے انکار ہے تو یہ اور بات، اور میں تاثیرکو قبول کرنے پرکسی کو مجبور بھی نہیں کرسکتا۔ آپ کو وسوسہ شیطانی پر تو یقین ہو، قرآنی آیات پر نہیں تو اس کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے؟

    ارشاد فرمائیں کہ جب ہر غیر طبعی امر جادو اور سحر نہیں ہوتا تو پھر آپ ہمارے عملیات کو کن دلیلوں سے حرام جانتے ہیں۔ اگر آپ کی ادلہ کا انطباق ہی ہمارے عملیات پر نہ ہو تو وہ کیسے حرام ہو سکتے ہیں۔


    آپ نے فرمایا کہ عملیات کا آغاز تو بابل و نینوا کی سرزمین ( سر زمین حکومت نمرود وغیرہم) سے ہوا تھا تو میں عرض کروں گا کہ اس دور میں تو اس (عملیات) لفظ ہی کا وجود نہ تھا، چہ جائیکہ اس کے معانی اور مفاہیم کا وجود رہا ہو۔ ممکن ہے آپ کے ذہن میں کوئی اور معنی خطور کر رہا ہو جس کو آپ عملیات رحمانی پر منطبق کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں یہ لفظ کہیں پر استعمال ہوا ہو تو اس کا حوالہ دیں!


    مکذوبہ اور کاذبہ میں فرق ہے۔ روائی جنجال میں نہیں پڑنا چاہتا، لکھوں تو ایک مکمل کتاب بنے گی، لیکن بات مطلب سے ہٹ جائے گی۔ بس آپ اتنا اثبات کریں کہ ہمارے امور پہ حرمت کی دلیلیں کیا ہیں۔
     
  20. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    ماشا اللہ بیان و زبان تو کمال کی ہے ۔۔۔۔ اللہ تعالی آپ کو اپنے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

    قرآن کریم اور اس کی آیات کو عملیات کے لیے استعمال نہ کریں۔ اللہ تعالی نے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے آپ ان سے کام لیں اور مخلوق خدا کی خدمت کریں۔

    اگر آپ اپنے عملیات ہی پر مصر ہیں اور اسی کو ذریعہ معاش بنا کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کا اپنا عمل ہے جو نہ تو سنت رسول سے ثابت ہے اور نہ ھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے۔

    بحث و مباحثہ کی ضرورت ہی نہیں آپ ماشا اللہ خود ہی بڑے سمجھ دار ہیں اگر آپ صدق دل سے اپنے عمل کو درست سمجھتے ہیں تو اللہ تعالی کرم فرمائے گا۔
     
  21. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    جناب یہ تو ایک علمی مباحثہ ہے، شاید ہم دونوں کے عقیدے ایک ہی ہوں، لیکن اس کو فقھی قواعد و اصول پر منطبق کرنا بھی تو ہمارا فرض ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں عرض کروں کہ یہ میرا ذریعہ معاش نہیں ہے، انسانوں کی خدمت کے لئے میں ان امور کی انجام دہی پر مصر ہوں۔ ہم کسی چیز کو تب تک حرام قرار نہیں دے سکتے جب تک ان کی حرمت قطعی ادلہ سے اثبات نہ ہوجائے۔ چائے پینے کا جواز نہ تو سنت رسول میں ملے گا اور نہ ہی سیرہ صحابہ میں لیکن ہم مباح کیوں مانتے ہیں؟ علمائے کافہ کےنزدیک اصالۃ الحل ایک مسلم قاعدہ ہے، یعنی اشیا میں اصل ان کا حلال ہونا ہے، جب تک کہ قطعی دلیل سے اس کی حرمت نہ ثابت ہوجائے۔ اور یہ قاعدہ بھی احادیث سے ماخوذ ہے۔ جیسا کہ اس مضمون کی ایک حدیث: کل شی لک حلال حتی تعلم انہ حرام بعینہ تمام اسلامی فرقوں کی کتابوں میں مذکور ہے۔

    خون اعیان نجسہ میں سے ہے اور اعیان نجسہ کی بیع و شرا پر حرمت کی دلیلیں موجود ہیں۔ پھر آپ بتائیں کہ خون کی خرید و فروخت کیسے جائز سمجھی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کی حرمت پہ دلیل موجود ہے لہذا اس کا اصالۃ الحل کے تحت داخل ہونا مشکل ہے۔
     
  22. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    بات حرام و حلال کی تو شاید نہیں ہو رہی تھی۔

    مسلہ یہ ہے کہ میرے نزدیک قرآن کریم مکمل ضابطہ حیات ہے جو قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی عملی رہنمائی اور ہدایت کے لئے نازل فرمایا گیا ہے۔

    ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی ہدایات پر خود بھی عمل کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں- میں نہیں سمجھتا کہ قرآن کریم کو اس مقصد کی تکمیل کی بجائے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔

    قرآن پر خود عمل کرنا اور اس کی ہدایات کی روشنی میں دوسروں کو اس کی ترغیب دینا فریضہ اول ہے۔ باقی باتیں بے سود ہیں-

    اگر آپ اس سے متفق ہیں تو انسانوں کی بھلائی کے لیے وہ کام کریں جس کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، عمل کر کے دکھایا اور ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا کہ اس سے بہتر نظام حیات کوئی ہے ہی نہیں۔

    اگر آپ اس سے متفق نہیں تو پھر اللہ تعالی نے تو راہ ہدایت بتا دی ہے کوئی اس پر عمل کرے یا نہ کرے۔
     
  23. Guest
    آف لائن

    Guest مہمان

    تو پھر نزاع کس بات کی ہے؟!!

    کیا کوئی مسلمان اس سے منکر ہو سکتا ہے؟ یہ بات تو میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ قرآن ہمارے نبی کا معجزہ اور امت کے لئے مشعل ہدایت ہے(میری ابتدائی تحریروں کو ملاحظہ فرمائیں) ۔ اس لئے اس کو ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور یہ عبارت آپ کی زائد لغو ہے۔

    میں بھی تو یہی کہتا ہوں، لیکن کیا کسی شی میں ایک عظیم فائدے کا پایا جانا، اس شی میں موجود دیگر فوائد سے استفادہ کے لئے مانع بنتا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر کیوں نہ ہم اس کے تمام فوائد سے بہرہ مند ہوں!

    اولا و بالذات تو ہمارا وظیفہ قرآن کی ہدایات پر عمل کرنا ہے ورنہ مسلمان کس بات کے؟! ثانیا و بالعرض ہم اس کے دیگر فوائد سے بھی استفادہ کریں گے، خاص کر اس وقت جب ہم اسے مباح جانتے ہوں! جیسا کہ آپ بھی مباح ہونے کو تسلیم کر چکے ہیں۔

    تو پھر آپ کی نظر میں معالج کا علاج کرنا، سائنس دانوں کا سائنسی علوم کو ارتقاء کی منزل تک لیجانا اور پھر آپ کا انٹرنٹ سے استفادہ کرنا یہ سب بے سود ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا باقی باتیں بے سود ہیں۔

    پیغمبر نے کس چیز پہ امر کیا ہے اور کس سے نہی، یہ آپ بتائیں گے کیونکہ امر وجوب پر دلالت کرتا ہے اور نہی حرمت پر جبکہ آپ عملیات کو نہ واجب جانتے ہیں نہ حرام تو پھر اس کی قباحت کس لحاظ سے ہے؟!!
    مذکورہ عبارات سے واضح ہے کہ میں کن باتوں سے متفق ہوں اور کن باتوں سے نہیں! آخر میں یہ بات بھی عرض کرتے چلوں کہ مذکورہ تمام باتیں وہی تکرار مکررات تھیں جن کی طرف پہلے بھی اشارہ ہو چکا ہے، پھر بھی میں نے اس پہ جواب لکھنا بہتر سمجھا تاکہ ناظرین کے اذہان عالیہ میں کوئی خدشہ باقی نہ رہ جائے۔ راہ ہدایت پر ہونے کے تو لوگ بہت سارے زبانی دعوے کرتے ہیں، لیکن اگر ان کی روز مرہ کی زندگی میں جھانک کر دیکھا جائے تو عمل سے عاری ہوتے ہیں۔
     
  24. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    آپ کے نزدیک اگر آپ خود بالذات اور بالعرض قرآن کریم کے مطابق عائد شدہ فرائض کی تکمیل کر چکے ہیں تو زاید غیر لغو کے طور پر جو مناسب سمجھیں کریں آپ کو کون روک رہا ہے۔

    میں عالی جناب کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں کہ حضور والہ و عالی شان نے باوجود تکرار مکررات کے مذکورہ گزارشات کو لائق اعتنا گرادنتے ہوئے اس پہ جواب لکھنا بہتر سمجھا وگرنہ یقینا“ ناظرین کے اذہان عالیہ میں کوئی نہ کوئی خدشہ ضرور باقی رہ جاتا۔ علاوہ بر ایں راہ ہدایت پر ہونے کے جو لوگ بہت سارے زبانی دعوے کرتے ہیں، ان کی روز مرہ کی زندگی میں بھی اب یقینا“ عمل کا دخول واقع ہو گا اور بالفرض کوئی کمی رہ بھی گئی تو وہ بھی حضور عالی شان کے عملیات کے باعث پوری ہو جائے گی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں