1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جواب دو!

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از عبدالجبار, ‏18 جون 2006۔

  1. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    کیا دل مرا نہیں تھا تمہارا، جواب دو!
    برباد کیوں کیا ہے؟ خدارا جواب دو!

    کیا تم نہیں ہمارا سہارا، جواب دو!
    آنکھیں ملاؤ ہم کو ہمارا جواب دو!

    کل سے مراد صبحِ قیامت سہی، مگر
    اب تم کہاں ملو گے دوبارہ جواب دو!

    چہرہ اداس، اشک رواں، دل ہے بے سکوں
    میرا قصور کیا ہے تمہارا جواب دو!

    دیکھا جو شرم سار، الٹ دی بساطِ شوق
    یوں تم سے کوئی جیت کے ہارا، جواب دو!

    میں ہو گیا تباہ تمہارے ہی سامنے
    کیونکر کیا یہ تم نے گوارا، جواب دو!

    تم نا خدا تھے اور تلاطم سے آشنا
    کشتی کو کیوں ملا نہ کنارہ، جواب دو!

    شام آئی، شب گزر گئی، آخر سحر ہوئی
    تم نے کہاں یہ وقت گزارا، جواب دو!

    لو تم کو بلانے لگے ہیں نصیر وہ
    بولو ارادہ کیا ہے تمہارا، جواب دو!​
     
  2. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    اچھا انتخاب ہے
     
  3. ہما
    آف لائن

    ہما مشیر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    251
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    واہ بھئی واہ جواب نہیں
     
  4. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
  5. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جبار جی، مزید بھی تو کچھ ارشاد ہو۔۔۔
     
  6. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت اچھی غزل ہے
     
  7. موٹروے پولیس
    آف لائن

    موٹروے پولیس ممبر

    شمولیت:
    ‏26 مئی 2006
    پیغامات:
    1,041
    موصول پسندیدگیاں:
    2
  8. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    مِری زیست پُر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
    کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    مجھے حُسن نے ستایا ، مجھے عشق نے مِٹایا
    کسی اور کی یہ حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

    وہ جو بے رُخی کبھی تھی وہی بے رُخی ہے اب تک
    مِرے حال پر عنایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    وہ جو حکم دیں بجا ہے ، مِرا ہر سُخن خطا ہے
    اُنہیں میری رُو رعایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    جو ہے گردشوں نے گھیرا ، تو نصیب ہے وہ میرا
    مجھے آپ سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    تِرے در سے بھی نباہے ، درِ غیر کو بھی چاہے
    مِرے سَر کو یہ اجازت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    تِرا نام تک بُھلا دوں ، تِری یاد تک مٹا دوں
    مجھے اِس طرح کی جُرات کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    میں یہ جانتے ہوئے بھی ، تیری انجمن میں آیا
    کہ تجھے مِری ضرورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    تُو اگر نظر ملائے ، مِرا دَم نکل ہی جائے
    تجھے دیکھنے کی ہِمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    جو گِلہ کِیا ہے تم سے ، تو سمجھ کے تم کو اپنا
    مجھے غیر سے شکایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    تِرا حُسن ہے یگانہ ، تِرے ساتھ ہے زمانہ
    مِرے ساتھ میری قسمت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    یہ کرم ہیں دوستوں کا ، وہ جو کہہ رہے ہیں سب سے
    کہ نصیر پر عنایت ، کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  9. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    یہ غزل بھی بہت بہت اچھی ہے
    نصیر صاحب اچھی شاعری کرتے ہیں اور عبدالجبار صاحب کا شکریہ جو ہم تک پہنچاتے ہیں
     
  10. منشاء الاسلام
    آف لائن

    منشاء الاسلام ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جولائی 2006
    پیغامات:
    12
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    عینک غزل ہے آپ کی اور ہونٹ ہیں گلاب
    سارے جہاں میں‌ آپ کا کوئی نہیں‌ جواب

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
    بیٹھ کہ سایہ گل میں ناصر
    ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا​
     
  11. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    تمام اہل اسلام بہت خوب، بہت اچھے، نہایت شاندار
     
  12. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    آپ اِس طرح تو ہوش اُڑایا نہ کیجیئے
    یوں بن سنور کے سامنے آیا نہ کیجیئے

    یا سَر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیئے
    یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیئے

    یُوں مَدھ بھری نگاہ اُٹھایا نہ کیجیئے
    پینا حرام ہے تو پِلایا نہ کیجیئے

    کہیئے تو آپ محو ہیں کس کے خیال میں
    ہم سے تو دل کی بات چُھپایا نہ کیجیئے

    تیغِ ستم سے کام جو لینا تھا، لے چکے
    اہلِ وفا کا یوں تو صفایا نہ کیجیئے

    میں آپ کا، گھر آپ کا، آئیں ہزار بار
    لیکن کسی کی بات میں‌آیا نہ کیجیئے

    اُٹھ جائیں گے ہم آپ ہی محفل سے آپ کی
    دشمن کے رُوبرو تو بٹھایا نہ کیجیئے

    دل دور ہوں تو ہاتھ مِلانے سے فائدہ؟
    رسماً کسی سے ہاتھ ملایا نہ کیجیئے

    محروم ہوں لطافتِ فطرت سے جو نصیر
    اُن بے حِسوں کو شعر سُنایا نہ کیجیئے

    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  13. ع س ق
    آف لائن

    ع س ق ممبر

    شمولیت:
    ‏18 مئی 2006
    پیغامات:
    1,333
    موصول پسندیدگیاں:
    25
    یا سَر پہ آدمی کو بٹھایا نہ کیجیئے
    یا پھر نظر سے اُس کو گِرایا نہ کیجیئے

    بہت خوب
     
  14. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    شکریہ! :)
     
  15. ثناء
    آف لائن

    ثناء ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    245
    موصول پسندیدگیاں:
    5
    عبدالجبار صاحب
    بہت خوب صورت غزلیں آپ نے پوسٹ کیں۔
    بہت خوب
     
  16. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    شکریہ، ثنا جی!
     
  17. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    بیتاب ہیں، ششدر ہیں، پریشان بہت ہیں
    کیونکر نہ ہوں، دل ایک ہے، ارمان بہت ہیں

    کیوں یاد نہ رکّھوں تجھے اے دُشمنِ پنہاں!
    آخر مِرے سَر پر تِرے احسان بہت ہیں

    ڈھونڈو تو کوئی کام کا بندہ نہیں مِلتا
    کہنے کو تو اِس دور میں انسان بہت ہیں

    اللہ ہ! اِسے پار لگائے تو لگائے
    کشتی مِری کمزور ہے طوفان بہت ہیں

    ارمانوں کی اِک بھیڑ لگی رہتی ہے دن رات
    دل تنگ نہیں، خیر سے مہمان بہت ہیں

    دیکھیں تجھے، یہ ہوش کہاں اہلِ نظر کو
    تصویر تِری دیکھ کر حیران بہت ہیں

    یُوں ملتے ہیں، جیسے نہ کوئی جان نہ پہچان
    دانستہ نصیر آج وہ انجان بہت ہیں

    (سید نصیر الدین نصیر)​
     
  18. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    بہت خوب عبدالجبار صاحب
     
  19. مظھرالحق
    آف لائن

    مظھرالحق ممبر

    شمولیت:
    ‏29 اگست 2006
    پیغامات:
    73
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جبار بھائی آپ کے انتخاب کا جواب نہیں
     
  20. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ مظہر بھائی اور لاحاصل جی!

    ایک اور غزل حاضر ہے۔

    اب ہے احساس اُنہیں بھی مِری بربادی کا
    سُن رہا ہوں کہ وہ خود بھی ہیں پریشاں کافی

    آنکھ ہو عشق سے روشن، یہی بینائی ہے
    چشمِ یعقوب کو تھے یوسفِ کنعاں کافی

    دوستو! آؤ ، بس اب فِکر کریں ساحل کی
    ہو چکا تذکرہءِ کشتی و طوفاں کافی

    میرے ہر جُرمِ تمنّا پہ سزا دے مجھ کو
    اِس سے پہلے بھی ہیں مجھ پہ تِرے احساں کافی

    مُنتظر دیر سے ہوں ، مان بھی جا ، سامنے آ
    ہو چُکا پردہ اب اے جلوہءِ جاناں کافی

    تیرے ایماں کا نصیر اب تو خدا حافظ ہے
    گِرد پِھرتے ہیں تِرے دُشمنِ ایماں کافی

    (سید نصیر الدین نصیر)​
     
  21. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    میرے ہر جرم تمنا پہ سزا دے مجھ کو
    اس سے پہلے بھی ہیں مجھ پہ ترے احساں کافی

    واہ کیا بات ہے
     
  22. شامی
    آف لائن

    شامی ممبر

    شمولیت:
    ‏25 اگست 2006
    پیغامات:
    562
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت خوب
     
  23. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    جو مجھ کو دیتے رہے دھمکیاں جلانے کی
    منائیں خیر وہ آج اپنے آشیانے کی

    نہ پوچھ مجھ سے بُرے وقت کے نشیب و فراز
    مِری نِگاہ میں ہیں کروٹیں زمانے کی

    بھلا ہو بادِ خِزاں تیرے چار جھونکوں کا
    “جُھکی تو پھر نہ اُٹھی شاخ آشیانے کی“

    ملے گا آپ کی ہر بات کا جواب یہیں
    مگر اُٹھائیے پہلے قسم نہ جانے کی

    مدد کا وقت ہے پھر اے مذاقِ خود مَنَشی
    کہ کوششیں ہیں مجھے راہ پر لگانے کی

    سحابِ فَضل! بَرس اور ہم پہ کُھل کے برس
    کہ بجلیوں کو تو عادت ہے مُسکرانے کی

    مِرا کہا جو نہیں مانتے تو نہ مانو
    سبق سکھائیں گی خود ٹھوکریں زمانے کی

    نگاہ ، قول پہ ہو مُرتکز ، نہ قائل پر
    کہے کوئی بھی مگر بات ہو ٹھکانے کی

    خدا بچائے سرِ بزم آج واعظ سے
    اِسے ہے مفت میں عادت زباں چلانے کی

    کھڑے ہیں کس لئے احباب یوں سرِ بالیں
    نکالتے کوئی صورت اُنہیں منانے کی

    نہیں ہے غم سے یہ اطفال اشک ہی منسوب
    کہ آہِ سَرد بھی ہے فرد اِس گھرانے کی

    وہ دور کیا تھا کہ شِیر و شکر تھے ہم تم بھی
    غضب ہُوا کہ نظر کھا گئی زمانے کی

    چمن کی سوچ یہاں تک بھی آ گئی تھی نصیر
    کہ شاخ ہی نہ رہے میرے آشیانے کی

    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    کیا بات ہے
    بہت فکر انگیز شعر ہے۔
     
  25. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    شکریہ! نعیم بھائی!


    جواں ہو کر بدلتے جا رہے ہیں
    وہ رعنائی میں ڈھلتے جا رہے ہیں

    مِرے پیچھے پڑے جو ہاتھ دھو کر
    وہ خود اب ہاتھ مَلتے جا رہے ہیں

    نہیں بس چل سکا کانٹوں پہ جن کا
    وہ پھولوں کو مَسلتے جا رہے ہیں

    خدا ہی اب سنبھالے تو سنبھالے
    وہ ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں

    مِری خاموشیوں‌ پہ ہسنے والو!
    مِرے تیور بدلتے جا رہے ہیں

    مِری نظروں‌کی زد میں ہیں مخالف
    کہاں بچ کر نکلتے جا رہے ہیں؟

    نہیں، جھوٹے نہیں ہیں تیرے وعدے
    بس اتنا ہے کہ ٹَلتے جا رہے ہیں

    جو کل تک تھے مِری آنکھوں کی ٹھنڈک
    وہی اب مجھ سے جلتے جا رہے ہیں

    خُدا گلزار رکھے اُن کے پاؤں
    جو میرے ساتھ چلتے جا رہے ہیں

    نظر کو ہے تلاشِ عہدِ ماضی
    کہ اب منظر بدلتے جا رہے ہیں

    یہ کس کا ہے نصیر زَار پر ہاتھ
    کہ طوفاں سَر سے ٹلتے جا رہے ہیں

    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اچھا شعر ہے۔ :)
     
  27. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    یہ مقدر کا لکھا ہے، اب یہ کٹ سکتا نہیں
    راہ سے اُن کی ہمارا پاؤں ہَٹ سکتا نہیں

    دیکھ کر رنگِ چمن آنسو بہانے چاہیئیں
    کیا ہمارا خونِ دل پھولوں میں بٹ سکتا نہیں

    کیسی کیسی محفلیں تھیں، کیسے کیسے لوگ تھے
    وہ سُنہرا دورِ ماضی اب پلٹ سکتا نہیں

    دم قدم کے ساتھ رہتی ہے زمانے کی ہوا
    اُن کے قدموں سے کوئی ذرّہ لپٹ سکتا نہیں

    وہ جفا جُو ، میں وفا پیشہ ، محبّت نامراد
    اُن کے میرے درمیاں سودا یہ پَٹ سکتا نہیں

    آئینے میں بے حجابانہ سما جاتا ہے تُو
    بے تکلّف میری بانہوں میں سمٹ سکتا نہیں

    دوست ہوگا، رٹ لگی ہے جس کو تیرے نام کی
    کوئی دُشمن یُوں کسی کا نام رٹ سکتا نہیں

    چارہ گر کچھ ہوش کر، کیوں چارہ سازی کی ہے دُھن
    بڑھ تو سکتا ہے یہ دل کا درد گھٹ سکتا نہیں

    دل کے ذرّے منتشر ہو کر ملے ہیں خاک میں
    جو بِکھر جائے وہ شیرازہ سِمٹ سکتا نہیں

    حاسدانِ تِیرہ باطن سے کوئی کہہ دے نصیر
    علم کا رُتبہ بڑھا کرتا ہے، گھٹ سکتا نہیں


    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    عبدالجبار بھائی ۔ اس شعر سے سچی بات ہے مجھے تو کربلا کی یاد آ گئی

    اور یہ شعر اگر کوئی 2 ہفتے پہلے مجھے مل جاتا تو ایک مخصوص لڑی میں کچھ ناسمجھوں سے ضرور کہتا

    بہت خوب عبدالجبار بھائی ۔ بہت عمدہ انتخاب ہے
     
  29. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
    پسندیدگی کے اظہار کا بہت شکریہ نعیم بھائی!
    -----------------------------------------------------------------------------------------


    اندوہِ عشق ایک زمانے کی بات ہے
    یہ بات کیا کسی سے چُھپانے کی بات ہے

    دل کو جلانے دل کو ستانے کی بات ہے
    اچھا تمہی کہو یہ ٹھکانے کی بات ہے؟

    ناراض ہیں جو وہ تو منا لیں گے اُن کو ہم
    بس ایک بار آنکھ ملانے کی بات ہے

    لہجے میں آنچ، حرف میں حدّت، نفس میں سوز
    ہر بات اُن کی دل کو جلانے کی بات ہے

    تم بے وفا نہیں ہو تو اچھا ہمی سہی
    ایسی بھی کیا یہ بات بڑھانے کی بات ہے

    وہ دل کا حال سُنتے رہے پہلے اور پھر
    ہنس کر کہا یہ گزرے زمانے کی بات ہے

    میخانے میں طلب نہیں جامِ شراب کی
    ساقی سے اب تو آنکھ ملانے کی بات ہے

    ناکامئِ وفا پہ اُڑاتے ہو تم ہنسی
    اے دوستو! یہ رونے رُلانے کی بات ہے

    بس ایک مَیں کہ مجھ کو بھلایا گیا نصیر
    اُن کی زباں پہ ورنہ زمانے کی بات ہے


    (سیّد نصیر الدین نصیر)​
     
  30. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    اتنی اچھی غزل شئیر کرنے پر ایکبار پھر داد و ستائش قبول فرمائیے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں