1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از برادر, ‏17 مئی 2008۔

  1. jaamsadams
    آف لائن

    jaamsadams مہمان

    کلر ٹھیک نھیں آئے اس لئے ایک بار دوبارہ
    بھائی لوگوں کیلئے صحیح بخاری کی حدیث قدسی کا مفہوم پیش کرتا ہوں شائد اس طرح یہ مسئلہ سلجھے
    آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پر ذیشان - حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث نمبر: 6021 ''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ: ”جس نے میرے ولی سے دشمنی کی اس کے خلاف میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔ میرا بندہ میرا تقرب کسی دیگر عمل سے جو مجھے پسند ہو اتنا حاصل نہیں کرسکتا جتنا اس عمل سے حاصل کرسکتا ہے جو میں نے اس پر فرض کیاہے۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ سے میرے قریب ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس دوں گا اور اگر وہ میری پناہ میں آنا چاہے گا تو میں اسے پناہ میں لے لوں گا۔ اور مجھے کسی کام کے کرنے میں جو مجھے کرنا ہے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردد مجھے مومن کی روح قبض کرنے میں ہوتا ہے۔ وہ موت سے دلگیر ہوتا ہے اور مجھے اس کا دلگیر ہونا گوارا نہیں ہوتا اور موت اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے''

    اب کوئی ہمارے نبی سے بڑھ کر بھی اللہ کے قریب ہوگا- اورکیا اللہ نے تو خود آقا کریم کے ہاتھ مبارک کو قرآن میں اپنا ہاتھ قرار نہ دیا -
    وَمَارَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰکِنَّ اﷲَ رَمٰي - الأنفال، 8 : 17(یہ کنکریان جو (حبیب مکرم) آپ نے ماریں وہ آپ نے نھیں ماریں بلکے وہ اللہ نے ماریں) -
    اسی طرح فرمایا
    إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - الفتح، 48 : 10 (جن لوگوں نے(بظاہر) آپ کے ہاتھ پر بیت کی انھوں نے درحقیقت اللہ کے ہاتھ پر بیت کی، ان کے ہاتھ پر (ظاہرا آپ کا ہاتھ) درحقیقت اللہ کا ہاتھ تھا )
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم جناب jamsadam
    ہماری اردو میں‌خوش آمدید اور پہلے مراسلے کا شکریہ ۔
    اللہ کریم آپکے ایمان اور عقیدے میں مزید پختگی عطا فرمائے اور ہم سب کو اولیائے کرام کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    ہماری اردو کا ماحول بہت دوستانہ اور خوشگوار ہے۔ یہاں ہر کسی کو اپنا نکتہ ء نظرواضح کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن فرقہ واریت اور کسی کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی ۔ اسلیے آپ کے پیغام میں‌ معمولی سی تبدیلی کر دی گئی ہے۔
    امید ہے آپ ہماری اردو کے فورم کے قواعد و ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے آئندہ پابندی فرمائیں گے۔ شکریہ
     
  3. jaamsadams
    آف لائن

    jaamsadams مہمان

    ہائے! آپ نے اتنے میٹھے میٹھے انداز میں حکم دیا ہے تو کیوں نہ مانیں گے بھلا؟ ضرور مانیں گے جی

    ویسے ایک دو دن لگا رہنے دیا جاتا تو اچھا نہ ہوتا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو خیر ایسے ہی سھی
     
  4. مسز مرزا
    آف لائن

    مسز مرزا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مارچ 2007
    پیغامات:
    5,466
    موصول پسندیدگیاں:
    22

    برادر بھائی تصوف کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا خطاب ہم تک پہنچانے پہ بے حد شکریہ۔ انتہائی خوبصورت الفاظ اور تصوف کی بہترین explanation ہے :happy: اور سیدھی دل میں اتر گئی الحمد للہ!
    اب دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سمیت سب مسلمانوں کو ایسے جھوٹے پیر فقیروں سے بچائے آمین
     
  5. محمد ابراہیم میسوری
    آف لائن

    محمد ابراہیم میسوری ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مارچ 2009
    پیغامات:
    1
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    :salam:
    وسیم بھائی
    :a180:
    تصوف کی حقیقت کے بارے میں ایک مستقل کالم بنایا جإے ۔ کیا خیال ہے؟
    جس میں تصوف کی تاریخ اور اس کی ضرورت سے آگاہی ہو۔
    تاکہ اسلام کی صحیح تعلیم سے تمام مسلمان آگاہ ہو۔


    :dilphool:
     
  6. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    وعلیکم السلام

    اچھا خیال ھے آپ کا دیکھیں باقی کیا کہتے ھیں مگر یہ پوچھنے کلے لئے شاید کوئی اور لڑی بنانی پڑے یہاں شاید یہ بحث مناسب نہ ہو
     
  7. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    السلام علیکم جناب محمد ابراہیم میسوری صاحب۔
    ہماری اردو میں خوش آمدید۔
    متعلقہ موضوع یا کسی بھی موضوع پر آپ بلا جھجک کوئی بھی "عنوان" اسکے متعلقہ (مطابقت رکھنے والے) چوپال میں شروع کرکے اس میں اپنی معلومات ارسال کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ معلومات:
    1۔ بنیادی اسلامی تعلیمات کے خلاف نہ ہوں۔
    2۔ کسی کی دل آزاری کا باعث نہ ہوں ۔
    3۔ فرقہ واریت پھیلانے میں مددگار نہ ہوں۔
    4۔ ہماری اردو کے دوستانہ و خوشگوار ماحول کو متاثر نہ کریں۔

    والسلام علیکم۔
     
  8. مبارز
    آف لائن

    مبارز ممبر

    شمولیت:
    ‏3 اگست 2008
    پیغامات:
    8,835
    موصول پسندیدگیاں:
    26
    جزاک اللہ۔۔

    یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
    حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
    تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
    شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    خرد نے کہہ بھی دیا 'لاالہ' تو کیا حاصل
    دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
    فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

    (علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
     
  9. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    سبحان اللہ ۔ کاشفی بھائی ۔
    آپ نے مضمون کی مناسبت سے حضرت اقبال :ra: کا عمدہ کلام ارسال کیا ہے۔
    :mashallah:
     
  10. حسن رضا
    آف لائن

    حسن رضا ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جنوری 2009
    پیغامات:
    28,857
    موصول پسندیدگیاں:
    592
    ملک کا جھنڈا:
    دوست :a180: :a165: :dilphool:
     
  11. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    کاشفی جی ۔ بہت خوب۔
    نفسِ مضمون کے عین مطابق کلام ارسال فرمایا ہے۔ :mashallah:
     
  12. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جزاک اللہ۔۔

    یہ حکمت ملکوتی، یہ علم لاہوتی
    حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    یہ ذکر نیم شبی ، یہ مراقبے ، یہ سرور
    تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    یہ عقل، جو مہ و پرویں کا کھیلتی ہے شکار
    شریک شورش پنہاں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    خرد نے کہہ بھی دیا 'لاالہ' تو کیا حاصل
    دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
    عجب نہیں کہ پریشاں ہے گفتگو میری
    فروغ صبح پریشاں نہیں تو کچھ بھی نہیں

    (علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ)
    [/quote:p0jz31ei]
    السلام علیکم۔ برادر محترم کاشفی صاحب۔
    موضوعِ مضمون کے عین مطابق شاعرِ مشرق کا کلام ارسال فرمانے کا بہت شکریہ ۔
     
  13. jaamsadams
    آف لائن

    jaamsadams مہمان

    لگتا ہے کہ دونوں طرف ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔ اور آگ بجھ گئی ہے۔ جو کہ اچھا نہیں

    آگ مستقل لگی رہنی چاہے۔ کہ یہی مقصود کائنات ہے۔ نمرود کے بعد فرعون پھر یزید اور چھوٹے یزید الغرض سلسلہ جاری رہنا چاہے تاقیامت۔
     
  14. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    میرے خیال میں‌تو سلسلہ جاری ہی ھے اب تک
     
  15. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    حقیقت تصوف اور اکیسویں صدی

    ==تاریخ انسانی اور شعوری بالیدگی==
    تجسس انسانی فطرت کا خاصہ رہا ہے اور اس کے بل بوتے پر انسانی ذہن نے مختلف ادوار میں جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اسکے باعث امکانات کے اسرار کھلتے ہیں اور انسانی سوچ کو بلند فضاؤں میں پرواز کی لذت حاصل ہوتی ہے۔ اب جبکہ شعوری بالیدگی کا دور دورہ ہے اور نئے نئے انکشافات نے پرانے اور دقیانوسی تصورات کی جگہ لے لی ہے دور حاضر کے مسلسل سائنسی انکشافات نے حقائق بیان کر کے شعوری پستی کی آنکھیں چکا چوند کر دی ہیں ۔ اگر پچھلی ابتدائی صدیوں کے انسان کو آج کے دور کے سلسلہ ء زندگی کو دیکھنے کا موقعہ ملے تو وہ سو فیصد غیر یقینی حالت میں چلا جائے گا کیونکہ پرانے وقتوں میں ایک انسان کے لئے ہوا میں اڑنا ،سمندر کے پانی میں سفر کرنا دور دراز کے فاصلے گھنٹوں میں طے کرنا یا پھر لاکھوں کلومیٹر دور بیٹھے شخص کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہ صرف دیکھنا بلکہ بات بھی کر لینا یا پھر زمین کے کسی بھی کو نے سے دوسرے کو نے میں پلک جھپکتے میں بات کر لینا یا پھر اسے پیغام بجھوا دینا کسی حیرت انگیز بات سے کم نہیں۔ مگر آج کے انسان نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ یہ زمین ساری کی ساری اس کی دسترس میں آ گئی ہے اور یہ دنیا اب ایک چھوٹے سے بچے کے آگے صرف Mouse کی ایک Click کے فاصلے پہ ہے۔ جبکہ فاصلے سمٹ چکے ہیں اور دنیا ایک Global Villiage کی شکل اختیار کر چکی ہے ۔ یہاں تک کہ دنیا کے ایک کونے میں سرکنے والے پتھر کی بازگشت دوسرے کونے میں سنای دیتی ہے۔ مگر ہمارے دنیا کو ماپنے اور جاننے کے پیمانے وہی صدیوں پرانے ہیں. یہ بات بہت اہم ہے کہ اگر اس پرانی صدی کے انسان کو ہماری اس دنیا میں رہنے کا موقع ملے تو ا س کے لئے یہ سب کچھ جو وہ دیکھے گا کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں ہو گا ۔مزید برآں یہ سارے طلسمات ایک عام انسان کی دسترس میں ہیں کہ وہ نا صرف گھر بیٹھے دور دراز کے حالات اور دنیا کی خبر رکھ سکتا ہے بلکہ زمین کے کسی بھی کونے میں ہونے والے حالات ا سکی نظروں کے سامنے ہیں لہذا اس انسان کے لئے ہوا میں اڑنا اور دور دراز کے رابطے کے لئے پریشان ہونا اور دور کی خبریں حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرنا کتنا مضحکہ خیز ہو گا؟ پہلے وقتوں میں یہ سب باتیں شخصی کمالات کے زمرے میں آتی تھیں اور ان کی ضرور ت بھی تھی کیونکہ وسائل محدود تھے اور کسی کو بھی ٹیلیفون ،ٹیلیویژن، جہاز ، گاڑی کی سہولیات میسر نہ تھی بلکہ ان کا تصور بھی نہ ہو گا اب جبکہ یہ سب کچھ ہو چکا تو ان علوم پر وقت ضائع کرنا جن سے یہ کمالات حاصل ہوں مندرجہ بالا جائزہ کے پس منظر میں کتنا مضحکہ خیز ہو گا؟

    اب روایتی شخصیت پرستی کا دور ختم ہو چکا ہے پہلے اگر راکھ کی ایک چٹکی کوئی خاص آدمی کسی عام آدمی کو دیتا تھا تو وہ آنکھیں بند کر کے منہ میں رکھ لیتا تھا کہ یہ کوئی خاص آدمی کا کمال ہے اور واقعی شفا بخشی بھی نظر آتی تھی مگر آج سائنسی ترقی علوم کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ راکھ کے اندر بھی شفا بخشی کی صلاحیت موجود ہے جیسا کہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج میں Carbo Veg کے نام کی راکھ سے دوا بھی موجود ہے ۔ ارتقاء کا دھارا ا ب کسی دوسری طر ف گامزن ہے ۔یہ شعوری بالیدگی کا دور ہے اب بہت سے طلسمات کا جادو ٹوٹ چکا ہے۔پہلے پہل بہت سی با تےں جن کو جادوئی تصور کیا جاتا تھا اب ان کی بھی کوئی نہ کوئی طبعی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے.

    =='''مراقبہ کا عمل اور تاریخ انسانی'''==
    اس زمین پر ظہور انسانی سے ہر دور کے لوگو ں کا چند اکے سوالات سے واسطہ پڑتا رہا ہے جیسا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے ۔؟زمین پر زندگی کا آغاز کسیے ہوا ۔؟ زندگی کا مقصد کیا ہے ۔؟ہم کیوں پیدا ہوئے اور کیو ں مر جاتے ہیں۔؟آیا ان سب معا ملات کے پس پردہ کو ئی باقاعدہ منصوبہ بندی ہے یا پھر سارا عمل خود بخود ہو رہا ہے ۔ہر دور کے لوگوں میں کائنات کے خالق کو جاننے کا جوش خروش پایا جاتا ہے (یہاں ایک اصول واضح کرتا چلو کہ اگر کوئی شخص کسی مسئلے کا حل تلاش نہ کر سکے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے جانچے ۔ یعنی تمام امکانات کا جائزہ لے) ا کثر اوقات دیانتداری سے مسئلہ کو حل کرنے کی کاوش خودبخود ہی مسئلہ کو آسان بنا دیتی ہے ۔لہذا انہی خطوط پر چلتے ہوئے لوگوں میں معاملات زندگی کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ پیدا ہو گئی ہے ۔یہ جاننے کیلئے کہ اس کائنات کا خالق کو ن ہے ۔لوگوں نے اس کائنات (آفاق)کی تخلق سے متعلق تخلیق کرنا شروع کر دی۔ کائنات کے راز کو جاننے کیلئے مختلف روش اختیار کی گیں.

    لوگو ں کے ایک گروہ نے آفاق کو اپنا مر کز چن کر کائنات کے اسرار کو جاننے کیلئے اسکالرشپ مطالعہ شروع کر دیا نتیجہ نا صرف قوانین اور مظاہر قد رت کو جانا بلکہ انتہائی مفید مشینری،الیکٹرانکس کے آلات و دیگر ایجادات کا ایک ڈھیر لگا دیا ۔ان تحقیقات کی بدولت سائنس نے ترقی کی اور نت نئی ایجادات کا لا متناہی سلسلہ چل پڑا لہذا مستقل جستجو نے طبعی (Physical) اور زےستی (Biological) قوانین کے راز فاش کرنے شروع کر دیئے۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کے باعث آجکا جد ید دور ان لوگوں کی مستقل تجقیقات اور جدو جہد کا نتیجہ ہے جنہوں نے اس کائنات کا ظاہری مطالعہ کیا۔یہ تحقیق اپنی مسلسل پیش رفت کے باعث قدرت کے رازوں کو مسخر کرنے پر گامزن ہے .

    علاوہ ازیں لوگوں کے دوسرے گروہ نے بجائے اس کے کہ زندگی کی حقانیت کو آفاق میں تلاش کیا جائے خود انہوں نے ایک دوسری روش اختیار کی۔ ان لوگوں کی سوچ تھی کہ ا گراس ظاہری کائنات کا کو ئی خا لق ہے تو انکے وجود (جسم )کا بھی کوئی خالق ہو گا ؟ لہذا اس سوچ سے وہ بھی اس تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے ۔ اپنی تو جہ کائنات کے ظاہری وجود سے ہٹا کر اپنے وجو د ( نفس) کے اسرار کی کھوج میں لگا دی۔ اس طرح انہوں نے آفاق سے ہٹ کہ مطالعہ نفس میں دلچسپی لی اور اپنی ذات پہ تجربات کا ایک سلسلہ شروع کیا تا کہ اپنے اندر کے رازِ حقیقت کو سمجھا جائے اس طرح سے علم نورانی مذاہب کے سلسلے نے وجود پکڑا یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ تمام تجربات انسان کے اپنے (Software ) یعنی ذہن (MIND (پہ کئے گئے نہ کہ جسم پہ)
    پرانے وقتوں میں لوگ یہ تصور کرتے تھے کہ یہ دنیا صر ف چار عناصر سے مل کر بنی ہے ۔زمین، پانی اور آگ اور ہوا، پھر سائنسی ایجادات کا سلسلہ چلا اور زیادہ سے زیادہ انکشافات سامنے آنے لگے اور یہ طے پایا کہ کائنات108عناصر سے ملکر بنی تھی ۔پھر ان 108عناصرکی پیچیدگیوں کے مطالعہ کے بعد یہ اخذ کیا گیا کہ یہ تمام عناصر صرف ایک ذرہ ایٹم (ATOM)سے ملکر بنے ہیں اور ان عناصر میں صرف فرق ایٹم کی ترتیب کا ہے۔ اسکے بعد کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ایٹم ہی بنیادی ذرہ نہیں بلکہ الیکٹران ہی وہ بنیادی ذرہ ہے جو تمام دنیا کی اساس ہے۔ تاہم الیکٹران کی دریافت ایک مسئلہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔الیکٹران اگرچہ بنیادی ذرہ کہلایا مگر یہ مطلق ذرہ والی فطرت ظاہر نہ کر پایا یعنی ایک وقت میں وہ متحرک بھی تھا اور غیر متحرک بھی۔ کبھی یہ ذرہ کا کردار ادا کرتا اور کبھی ایک لہر کی شکل میں ہوتا۔یہ معاملہ سائنسدانوں کیلئے انتہائی پیچیدہ ہو گیا کہ وہ الیکٹران کی اصل تعریف کیسے کر سکیں ۔لہذا ایک نئی اختر ع سا منے آئی اور الیکٹران دوہری خصوصیت کا حامل ٹھرا ے جو کہ لہر کے ذرات ا ور کبھی صرف ذرہ کی خصوصیت کا اظہار کرتا ۔ مگر جب اس الیکٹران پر مزید تحقیق جاری رکھی تو یہ کھوج ایک انتہائی درجے پر پہنچی کہ الیکٹران صرف اور صرف ایک کمترین توانائی کا ذرہ (Energy Particle)ہے اور یہ توانائی ہی کی خصوصیت ہے جو کہ اپنے آپ کو الیکٹران میں تبدیل کرتی ہے اور بعد میں اس مادے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مشہور سائنسدان البرٹ آئینسٹاین کی مساوات E= MC2 بھی تمام مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں تبدیل ہونے کے عمل کہ تقویت دیتی ہے۔سائنسدانوں کی تمام تحقیق اب تک ہمیں یہاں تک لانے میں یقینی طور پہ کامیاب ہو ی ہے کہ یہ درخشاں توانائی اپنے بنیادی درجہ پر اس کائنات میں جاری و ساری ہے ۔ جبکہ ہر چیز ایک مخصوص جگہ گھیرتی ہے اور پھر توانائی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

    یہ تو بات ہو رہی تھی ا ن لوگوں کے بارے میں جنہوں نے مسلسل آفاق کی تحقیق سے زندگی کے چند اسرار کا اندازہ لگایا اور ہمیں ہستی کے نئے میدان میں لاکھڑا کیا ۔ اب ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جنہوں نے نفس کو اپنی تحقیق کا مرکز بنایا اور اپنے جسم و ذات پر یہ تحقیق شروع کر دی اور انہوں نے اپنی توجہ اپنے ا ند ر مرکوز کر دی جسکے نتیجہ میں نفوذ کرنے کے بہت سے طریقہ کار دریافت کیے تا کہ ا پنے اندر کا سفر کرکے اس اکائی (جز)کو تلاش کیا جا سکے جو کے انکو اس کائناتی حقیقت سے مربوط کرتا ہے ۔اس کوشش نے علم نورانی (علم مراقبہ) کے عمل کو تقویت دی ۔تمام طریقہ کار جو کہ مختلف طرح سے مراقبہ کے عمل میں نظر آتے ہیں وجود پائے۔ جس کا عمل دخل کم و بیش ہر مذہب کی اساس معلوم ہوتا ہے۔ آ ج مراقبہ کے عمل میں جو جدت اور انواع و اقسام کے طریقہ کار نظر آتے ہیں انہی لوگوں کے مرہون منت ہے جنہوں نے اپنے نفس کو تحقیق کیلئے چنا۔ ان تحقیقات اور مراقبہ کی مختلف حالتوں میں لوگوں نے محسوس کیا کہ اس سارے نظام عالم وجود میں شعوری توانائی کا نفوذ اور منسلکہ رشتہ ہے ۔مراقبہ کی گہری حالتوں میں اب ہر فرد واحد کا واسطہ ایک ا ہم گہرا احساس دلانے وا لے وجود یعنی خودی ( میں،SELF)سے پڑا اور یہ اخذ کیا گیا کہ یہ جو سلسلہ کائنات میں توانائی کا عمل دخل نظر آتا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ ایک اعلی حس آگاہی (Supreme Consciousness) ہے جس کا اس کائنات میں نفوذ ہے ۔ اب ان تحقیقات مراقبہ اور سائنس میں کبھی کبھی ہم آہنگی ہونے کے ممکنات موجو د ہیں ۔ اس فطرت کی ہر شے کچھ نہیں سوائے ایک مطلق حس آگاہی کے ۔یہ ایک اعلی مطلق خبر آگاہی جسکا ہر طرف نفوذ ہے اور یہی وہ اللہ ہے جو کائنات میں ہمیں اپنی ذات کے اندر اور باہر محسوس ہوتا ہے ( اللہ نور السمٰوات ولارض) ( ھو ا ول و آخر ظاہر و باطن) کبھی ہم اپنی ذات (خودی ) سے تعلق ہمیں ایک رابطہ ملتا ہے کہ ہم اپنے اللہ کو جانیں (من عرفہ نفسہ فقد عرفہ رب)۔
    (یہاں یہ بات واضع کرتا چلوں کہ اس درجہ کے احساس خود شناسی پہ وحدت الوجود کا مطالعہ نہ ہو، اگلی کسی تحریر میں اس فلسفہ بھی بیان کردوں گا ) ۔ مراقبہ ایک عمل ہے جو اپنی گہری حالتوں میں کسی بھی شخص کیلئے وجود حقیقی سے روابط کا ذریعہ بنتا ہے

    ==''' علم نورانی (مراقبہ) '''==
    مدتوں سے لوگ مراقبہ کو ایک انتہائی پرا سرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ۔مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلی مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کی کرنے مے دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تو سکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حےثےت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے اعلی تعلیم یا فتہ ڈاکٹر اور صحتی ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں مراقبہ جو کہ پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لئے بھی مرکزی حےثےت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباﺅ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کو مرکزی حےثےت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اسکی آگاہی بڑھتی جا رہی ہے نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جب زیادہ لوگ مراقبہ کی بدولت ذاتی شناسائی حاصل کرتے جائیں گے انکو کائنات کی سچائی اور اصلیت کا قرب حاصل ہو گا اور نتیجہ عالمی بھائی چارہ وجود میں آئے گا۔

    ==مراقبہ کیا ہے؟==

    مراقبہ انسان کا اپنی حقیقی خودی ( Self-[میں]-ذات) کی طرف ایک گہرا سفر ہے جس میں ایک انسان اپنے اندر (باطن) میں اپنا اصلی گھر تلاش کر لیتا ہے آپ چاہے کسی بھی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ ۔ کسی بھی مذہب اور روحانی سلسلہ سے منسلک ہوں مراقبہ سب کے لئے ایک جیسا عمل ہے مراقبہ آپکی توجہ ،آپکے باطن کی طرف لے جانے کا موجب بنتا ہے آپ کا ذہن اس طرح سے سکون پہ مقیم ہو جاتا ہے اس طرح آپکی توجہ بھٹکے ہو ئے شعور کی حدود سے نکل کر حقیقی مرکز سے مربوط ہو جاتی ہے ۔مراقبہ ذہن کی وہ طاقت ہے جو اسکو نورانی پہلو کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ باندھ دیتی ہے اس پہلو سے ذہن زندگی کا اعلی مقصد آشکار ہوتا ہے مراقبہ کو آپ " نورانی علم " سے تعبیر کر سکتے ہیں کیونکہ یہ نور کے چشمہ سے کام کرتا ہے ۔حقیقی مراقبہ کا راز صرف ذہنی تصور کے ساتھ منسلک ہے جو اسکی ابتدائی اور انتہائی سطحوں پر کام کر تا ہے ۔ مراقبہ علم کی وہ قسم ہے جو آپکی شخصیت ،روح اور ذات کو آپس میں یکجا کر دے اور سب کو ایک نقطہ سے مربوط کر کے کثرت و دوئی سے آزادی کا احساس پیدا کر دے ۔ مراقبہ ایک علمی تجربہ ہے جو ذہنی کشمکش سے خالی پن اور ظاہر ی زندگی کے مستقل نہ ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے۔مراقبہ ایک عملی نمونہ ہے زندگی کو قریب سے دیکھنے پر اسکے ظاہری نا پائداری کے احساس کا۔ مراقبہ کو آپ ایک ذہنی ورزش کا نام دے سکتے ہیں ۔جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے اثرات نمایاں ہوتے چلے جاتے ہیں ۔جتنا زیادہ اس عمل کو کیا جائے اتنی زیادہ اس میں مہارت حاصل ہو گی ۔یہ اس طرح کا عمل ہے جیسے ایک باڈی بلڈر یا پہلوان جسمانی ورزش کے باعث مضبوط و خوبصورت بناتا ہے۔ مراقبہ کرنے کی عادت سے باطنی اعضاء کی ورزش ہوتی ہے اور وہ قابل استعمال ہو جاتے ہیں۔

    =='''عبادت اور مراقبہ میں فرق'''==
    عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی ا تھا ہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا صرف سنا شا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدہ ء قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا ہے یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں ۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں ۔ اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آ جاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے ۔بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے اور لذت بھی ایسی

    ع کہ جیسے روح ستاروں کے درمیاں گزرے

    یہی زندگی کا موسم بہار ہے جسکے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جسکے سامنے ایک وسیع و اریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشیوں کا دور دورہ ہے۔یہاں لذت و سرور کا وہ سماں ہے جو کہ دنیا کے کسی نشے میں نہیں ۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔اب اسکا سفر کوئی سڑاند والا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جسکے سفینے صرف کامیابی ،خشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہےں۔

    =='''نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) اور مراقبہ'''==
    درحقیقت آپ صرف ایک احساس خودی (Self) ہیں۔ اور یہ حس آگاہی ہے نہ کے آپکا ذہن، جسم یا پھر خیالات بلکہ اس مکمل شعوریت (خودآگاہی) ہیں جوکہ محسوس کرتی ہے۔ اور شاہد بنی ہوئی ہیں کہ آپ زندگی میں کیا رول ادا کر رہے ہیں۔ یہ احساس خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والا ،از سرنو زندگی بخشنے والا ہے۔ مراقبہ ایک خودی (Self )کو اپنے اندر جاننے کا عمل ہے۔ اس موقع پہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک فرد یہ کس طرح جان سکتا ہے کہ اس کے اندر خودی (Self ) موجود ہے جوان تمام واقعات و حالات کا مشاہدہ کر رہی ہے جو ہمارا ذہن یا جسم اس زندگی میں کر رہا ہے۔
    یہ بات یہاں تک واضح ہوگئی کہ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے۔ جو ہمیں اپنے اندر موجود خودی (Self) سے ملانے کا ذریعہ بنتا ہے اور یہ خودی اپنی خاصیت کے اعتبار سے انتہائی پر سکون، ٹھہراﺅ والی اور از سرنو زندگی بخشنے والی ہے۔ لہٰذا ہم چاہےںگئے کہ مراقبہ کو سمجھنے کیلئے ہم سب سے پہلے اپنے اندر موجود خودی (Self) کو جانیں۔آپ اس خودی کو اور بھی نام دے سکتے ہیں۔ مثلاً، نفس، میں (مثلاSelf, I, Ego) وغیرہ آئیے اب ایک چھوٹا سا تجربہ کرتے ہیں جو انتہائی دلچسپی کا حامل ہے اور آپ کے لئے اس (میں ) سے شناسا ئی کا ذریعہ بنے گا۔

    =='''میں(Self) کا انسانی وجود سے تعلق'''==

    ”آپ اپنی آنکھیں بند کر کے کوئی ایک لفظ، کسی کا نام یا اللہ کا نام 25 مرتبہ اپنے ذہن میں دہرائیں مگر گنتی دل ہی دل میں ہونی چاہیے مگر گنتی کرتے ہوئے ذہن میں کوئی اور خیال نہیں آنا چائیے اور اگر گنتی میں کوئی غلطی ہو تو دوبارہ سے گنتی شروع کردیئے۔ مگر گنتی ذہن میں ہی رہے ناکہ ہاتھوں یا انگلیوں پہ“ اس تجربہ کے کرنے کے بعد ہوسکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ25 مرتبہ ایک لفظ اپنے ذہن میں گنتے رہے ہونگے اور خیال بھی ذہن میں آتا ہوگا۔ یا ہو سکتا ہے کہ چند خیالات ذہن سے گزرے ہوں۔ یا پھر پہلی کوشش ناکام ہو گئی ہو اور کئی مرتبہ اس تجربہ کو کرنا پڑا ہو تو پھر جا کر 25 مرتبہ کی گنتی پوری ہوئی ہو یا پھر خیالات بھی آ رہے ہوں اور گنتی بھی جاری رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کامیابی کے ساتھ یہ تجربہ نہ کر پائے ہوں کہ آپ 25 مرتبہ کوئی ایک لفظ دہرائیں اور کوئی خیال بھی ذہن میں نہ آئے ۔

    '''مراقبہ اور ذات (Self ) سے شناسائی'''

    معاملہ کچھ بھی، تجربہ کچھ بھی ہو، بات حقیقت ہے کہ آپ اپنے اندرونی خودی (Self ) کے وجود کا انکار نہ کرپانیں گے۔ کیونکہ جب آپکا ذہن گنتی میں مصروف تھا تو وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن سے خیالات گزر رہے ہیں؟وہ کون تھا جو ایک ہی وقت میں مشاہدہ کر رہا تھا کہ ذہن میں خیالات بھی آ رہے ہیں اور گنتی بھی ہورہی ہے؟ کیونکہ آپ کا ذہن کو ےقےنا گنتی میں مصروف تھا۔ےقےنا آپ کہیں گے کہ وہ میں تھا جو دیکھ رہا تھا کہ کوئی خیال ذہن میں آ رہا ہے اور گنتی بھی صحیح ہو رہی ہے۔ وہ کون تھا جو مشاہدہ کر رہا تھا؟ آپ کا جسم یا پھر آپ کا ذہن؟ یا پھر آپ خود؟ اگر آپ یہ سارا عمل دیکھ رہے تھے تو آپ کو اپنے ذہن اور جسم سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ جی ہاں! دراصل یہ حس آگاہی ہی تو خودی (Self-I) ہے جو آ پکو اپنے خیالات تصورات سے آگاہ کرتی اور صرف اور صرف خودی (Self-me) ہی ہے جو آ پکو بتلاتی ہے کہ ا پکے اندر اور باہر کیا ہو رہا ہے؟ کہاں ہو رہا ہے ؟ و دیگر سے آگاہی کا سبب بنتی ۔ اس جاننے والے کو جاننے کا عمل ہی مراقبہ ہے۔ مراقبہ دراصل اپنی ذات سے شناسائی کا عمل ہے .

    ؂؂ میں (مثلاSelf, I, Ego) کی تلاش ؂؂
    ہر دور میں مختلف افراد اپنی بساط کے مطابق ’میں‘(SELF) کی تلاش میں نکلے، کسی نے کہا ’کی جاناں میں کون؟‘ اور کوئی ’ان الحق‘ کا نعرہ لگا کر چلا گیا کسی نے خودی کا تصور دیا۔ غرض ہر نظر نے اپنے اپنے زاویے سے دیکھا اور جو دیکھا خوب دیکھا۔ ہر شے کو دیکھنے کے360 زاویے ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر زاویہ ٹھیک ہو مگر ایک زاویہ ضرور حقیقت بتلاتا ہے۔ زاویہ، نظریہ، ترکیب بہر حال ایک تو ضرور ایسی ہوتی ہے جو حقیقت شناسا ہوتی ہے۔

    اگر ہائیڈروجن گیس کے دو حصے اور آکسیجن کا ایک حصہ ملایا جائے تو نتیجتاً پانی بنے گا مگر ان دونوں گیسوں کو اور کسی بھی ترکیب سے ملایا جائے پانی نہیں بنے گا چاہیں کروڑوں طریقے آزمائے جائیں۔ یعنی ایک ہی زاویہ یا ترکیب کسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے وگرنہ دوسری ساری تراکیب و طریقے (زاویے، نقطہ نظر) سوائے گمراہی اور وقت کے ضیاع کے اور کچھ نہیں۔

    تخلیق کا خاصہ ہے کہ وہ ان طاقتوں کو (جو ایک دوسرے کیلئے قربت کا مزاج رکھتی ہوں) ایک خاص نسبت (ترکیب) پہ ملا کر ایک نئی چیز معرض وجود میں لاتی ہے۔ جیسے قدرت کے رازوں میں سے ایک راز واضح کرتا چلوں کہ قدرت کس طرح عدم (غائب) سے کسی چیز کو ظاہر وجود میں لاتی ہے۔ یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن نظر نہ آنے والی گیسیں ہیں مگر جب دونوں ایک خاص ترکیب (H20) کی نسبت کے ساتھ ملتی ہیں تو ایک نئی چیز (پانی ) وجود میں آتا ہے جو کہ ایک جدا گانہ خاصیت رکھتا ہے اور دیکھا اور چکھا بھی جا سکتا ہے۔

    اس دنیا کو ہم اپنی اپنی نظر اور زاویہ سے دیکھتے ہیں اور جو اخذ کرتے ہیں وہ ہماری اندر کی دنیا کا عکس ہے۔ ورنہ باہر کی دنیا ایک ہی ہے مگر نقطہ نظر اور تجربات زندگی مختلف۔ کوئی خوش ہے اور کوئی غمگین کسی کو دنیا (زندگی ) حسین و دلفریب نظر آتی ہے اور کسی کو خاردار جھاڑی یعنی ہر کوئی دنیا کے بارے میں اپنا علیحدہ ہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’میں ڈوبا تو جگ ڈوبا‘ یعنی ایک دفعہ ایک شخص پانی میں ڈوب رہا تھا۔ اس نے شور مچایا کہ مجھے بچاﺅ ورنہ تمام یہ دنیا (جگ) ڈوب جائے گی۔ لوگوں نے اسے بچا کر کنارے پر پہنچایا اور پوچھا کہ یہ بات تو ٹھیک کہ تم ڈوب رہے تھے مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اگر میں ڈوبا تو جگ ڈوبا؟ وہ شخص بولا بھئی اگر میں ڈوب کر مر جاتا تو میرے لئے تم سب مر گئے تھے نا یعنی میرے لئے تو دنیا ختم ہوگئی تھی “

    اس مثل میں کتنی بڑی حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ ہر فرد کی اپنی دنیا اور اپنا زندگی کا تجربہ ہے۔ اب اندر کی دنیا بھی کئی منزلہ عمارت کی مانند ہے جسے ہم بچپن سے لے کر مرنے تک تعمیر کرتے ہیں اور اس کی منزلوں میں نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ لوگ تو اس عمارت کی بیسمنٹ میں رہتے ہیں کچھ گراؤنڈ فلور پر اور کچھ سب سے اوپر والی منزل پر۔ آپ اندازہ کریں کہ جو شخص اس کئی منزلہ عمارت کی بیسمنٹ میں رہتا ہو جہاں حشرات الارض (کیڑے مکوڑے) اور بدبودار ماحول ہے اس کو کس طرح سے اندازہ ہو سکتا ہے اس شخص کی زندگی کے بارے میں جو سب سے اوپر والی منزل میں رہتا اور قدرت کے نظارے ، صبح سورج طلوع ہونے کا منظر، بادلوں کا آنا جانا، غروب ہونے کا منظر وغیرہ دیکھتا ہے۔ غرض اپنے ہی اندر کوئی عذاب میں مبتلا ہے اور کوئی سکون کی لذت سے مالامال ہے۔

    یعنی یہ کئی منزلہ عمارت ہمارے اپنے اندر (ذہن ) میں بنے ہوئے ماحول (Mind Set) ہیں جن میں ہم اپنی زندگی گزارتے ہیں اور کبھی تکلیف نہیں کرتے کہ اسکے بارے میں معلوم کریں؟ بچپن سے اب تک جو کچھ ہم دیکھتے آئے ہیں، سنتے آئے ہیں سب کا سب ہمارے ذہن کا حصہ بن چکا ہے مگر اس سب کو ہم باہر سے اندر غیر جانب دار ہو کر ریکارڈ نہیں کرتے بلکہ اپنے عقیدہ (Belief System) کے تحت مرضی کی اشیاء اپنے ذہن کا حصہ بناتے ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ذہن میں شاندار طریقے سے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ ہم تہہ در تہہ اس کو ذخیرہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سب ہماری زندگی پہ براہ راست اثر انداز ہوتا ہے۔

    خودی (SELF) ہر فرد کے اندر سے اس دنیا ( زندگی )کی ہر چیز کا مشاہدہ کر رہی ہے؟ اس دنیا کی ہر چیز تبدیل ہوتی ہے ہمارے نظریات تبدیل ہوتے ہیں، ہماری ذات، اردگرد کا ماحول ملک خاندان غرض ہر شے تبدیل ہوتی ہے مگر یہ مشاہدہ کرنے والی اکائی (میں - SELF) کبھی تبدیل نہیں ہوتی بلکہ شہادت دیتی ہے کہ اب بچپن ہے اور یہ جوانی ہے اور یہ بڑھاپا ہے ہر چیز پہلے اس طرح تھی اور اب اس طرح ہو گئی غرض ہمارے اندر سے اس دنیا کی ہر تبدیلی پہ یہ اکائی (میں Self) شہادت دینے والی بن جاتی ہے۔ مراقبہ اپنے آپ کو جاننے کا ایک عمل ہے کہ دراصل ہم میں کون ہیں؟ اور ہمارے اندر کبھی نہ تبدیل ہونے والی اس (Self)سے رابطہ کیسے کیا جائے جبکہ اسکے ثمرات سے استفادہ حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ (جاری)

    ==حوالہ جات==
    *روزنامہ '''نوائے وقت''' 10اکتوبر2008 اشاعت خاص
    *Nawaiwqt
    *تحریر و تحقیق: '''محمد الطاف گوہر'''
     
  16. گل
    آف لائن

    گل ممبر

    شمولیت:
    ‏9 دسمبر 2006
    پیغامات:
    74
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    جزاک اللہ
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔ بھائی الطاف گوہر صاحب۔
    جزاک اللہ خیرا ۔ بہت عالمانہ و عارفانہ تحریر ہے۔
    تصوف کے بنیادی عنصر مراقبہ کی حقیقت کو جس احسن اور مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔
    اس پر بہت سا خراج تحسین اور شکریہ قبول کیجئے۔
     
  18. آفتاب آصف
    آف لائن

    آفتاب آصف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 فروری 2011
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    محترم دوستو ! تصوف کے موضوع پر کتب ہمیں ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں ۔
    ساجد اسلامک پبلک لائبریری نزد ریلوے پھاٹک لیہ ۔
    رابطہ ---6956586 ــ0307
     
  19. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمیشہ سے مسلمان تین گروہوں میں بٹے رہے ہیں ۔ ایک وہ جو نعوذ ؂باللہ انتہائی لغو کرتے ہوئے اولیاء اکرام میں ربانی صفات تسلیم کرتے رہے ہیں ، دوسرے وہ جو اس کے ایک دم مخالف اور اولیاء‌ اکرام کی یکسر نفی کرتے رہے ہیں اور تیسرا وہ جو ان دونوں کے درمیان رہا ہے ، حالانکہ یہ ہمیشہ تعداد میں بہت کم رہے ہیں مگر میرے خیال میں یہ اول الذکر دونوں‌گروہوں سے بہتر ہیں ۔ اگر اولیاء اکرام کو ربانی صفات سے مفوف کرنا درست نہیں تو اُن کا یکسر انکار کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے ۔
    یہ بھی درست ہے کہ صوفی اور اولیاء کا ایک ہی سمجھا جا تا ہے جبکہ صوفی ہونا اور اولیاء اللہ ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔
     
  20. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    [​IMG]
    [​IMG]
    :91:
    ماشاءاللہ اوپر بہت سے دوستوں نے تصوف کے حوالے سے بہت ہی مفید معلومات شیئر کی ہیں۔ اللہ تعالی سب کو اجر عظیم عطا فرمائے۔:p_rose123::n_thanks:
    اسی موضوع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ نے اپنی کئی تصانیف میں سیر حاصل بحث کی ہےجس سے اسلامی تصوف کے بارے میں پائی جانے والی بہت سی غلط فہمیوں کا مؤثر ازالہ ہوتا ہے۔ دوستوں کے استفادہ کیلئے اس موضوع سے متعلق کتب کے لنک یہاں پوسٹ کر رہا ہوں، تاکہ ہم سب اپنے احوال کی اصلاح کرسکیں۔ مختصراً یہ واضح ہونا چاہیئے کہ حقیقی اسلامی تصوف وہی ہے جسکی بنیاد قرآن کریم ، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور احوالِ صحابہ و تابعین پر قائم ہے اور جس پر اکابر اولیاءاللہ اپنے اپنے ادوار میں کاربند رہے۔ یہی وہ نفوس قدسیہ تھے جنہوں نے مشکل سے مشکل اور مایوس کن حالات میں بھی دین اسلام کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ آج ہم مسلمان ہیں تو انہی کی مبارک کاوشوں کے نتیجے میں۔ اس کارِعظیم پر ہماری نسلیں بھی ان بزرگوں کی مقروض اور احسان مند ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان مبارک تعلیمات کو سمجھنے، عمل کرنے اور آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/cid/21/bid/223/btid/0/read/img/%D8%B3%D9%84%D8%B3%D9%84%DB%82%20%D8%A7%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%AA%20(4):%20%D8%A7%D8%AD%D8%B3%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D8%B2-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%DA%88%D8%A7%DA%A9%D9%B9%D8%B1-%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D8%B7%D8%A7%DB%81%D8%B1%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AF%D8%B1%DB%8C.html

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/127/cid/9/read/img/%D8%B3%D9%84%D9%88%DA%A9-%D9%88-%D8%AA%D8%B5%D9%88%D9%81-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C-%D8%AF%D8%B3%D8%AA%D9%88%D8%B1.html
    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/130/cid/9/read/img/%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D8%A7%D8%B9%D9%85%D8%A7%D9%84.html

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/132/cid/9/read/img/%D8%AD%D8%B3%D9%86-%D8%A7%D8%AE%D9%84%D8%A7%D9%82.html
    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/134/cid/9/read/img/%D9%81%D8%B3%D8%A7%D8%AF-%D9%82%D9%84%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D8%B3-%DA%A9%D8%A7-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC.html

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/137/cid/9/read/img/%DB%81%D9%85%D8%A7%D8%B1%D8%A7-%D8%A7%D8%B5%D9%84-%D9%88%D8%B7%D9%86.html

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/214/cid/19/read/img/%D8%B4%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%88%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%A1-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%AF%DB%8C%D8%AF-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%DA%BA.html

    [​IMG]
    اس کتاب کے مطالعہ کیلئے اس لنک پر کلک کریں:
    http://www.minhajbooks.com/urdu/control/btext/bid/129/cid/9/read/img/%D8%AA%D8%B0%DA%A9%D8%B1%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B5%D8%AD%D8%A8%D8%AA%DB%8C%DA%BA.html
    اس ناچیز کو دعاؤں میں مت بھولیں۔ شکریہ ! والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔:dilphool::dilphool::dilphool:
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    السلام علیکم۔ محمد اکرم بھائی ۔
    جزاک اللہ خیرا۔
    شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا عصرِ حاضر میں دین اسلام کی خدمت میں یہ بہت بڑا خاصہ ہے کہ ہر دینی، روحانی، سائنسی، معاشی، معاشرتی ، اخلاقی، سیاسی ، سماجی موضوع پر قرآن و حدیث اور جدید علم کے امتزاج پر مشتمل عظیم خزانہ عوام الناس کی افادیت کے لیے فی سبیل اللہ عام کردیا ہے۔
    ورنہ آج کل لوگ ایک دو کتابیں لکھ ڈالیں تو ساری زندگی بیٹھ کر انکی مشہوری بھی کرتے ہیں اور انکی رائلٹی بھی انجوائے کرتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتب و سی ڈیز کی لاکھوں کروڑوں روپے کی انکم اپنی ذات پر حرام کرکے فقط دین اسلام کے فروغ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ دین و ملت کے ایسے بےلوث خادم امت مسلمہ میں اب خال خال ہی ہیں۔
     
  22. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق


    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
    نعیم بھائی ، بلال بھائی اور دیگر : آپ سب بھائیوں کی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔:dilphool::dilphool::dilphool:
    نعیم بھائی آپ نے بالکل درست فرمایا ہے، کہ دور حاضر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے اپنی تصانیف اور خطابات کی کثیر آمدنی کو فی سبیل اللہ وقف کرکے علمائے اسلام اور خُدّامِ دین کیلئے ایک قابلِ تقلید مثال چھوڑی ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
     
  23. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ۔ حال ہی میں چٹاگانگ بنگلہ دیش میں انٹرنیشنل صوفی کانفرنس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے تصوف کے موضوع پر بڑا ہی پرمغز، علمی، تحقیقی اور ایمان افروز خطاب فرمایا، جسے اس لڑی کی مناسبت سے افادہ عام کی خاطر یہاں پوسٹ کررہا ہوں۔
    حصہ اول:
     
  24. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    ڈاکٹر صاحب کی کیا بات ہے ۔
    علم اتنا کہ پہلا عجمی عالم کہ جس کی لکھی ہوئ کتابوں کو مصر کی یونیورسٹی میں نصاب میں شامل کر دیا گیا۔واہ خدا سلامت رکھے ۔آمین
     
  25. محمداکرم
    آف لائن

    محمداکرم ممبر

    شمولیت:
    ‏11 مئی 2011
    پیغامات:
    575
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    دوستوں کی معلومات کیلئے:

    [​IMG]
     
  26. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    ماشاءاللہ تمام مضامین بہت ہی اچھی ہیں۔۔۔جزاکم اللہ خیراً
     
  27. غیاث
    آف لائن

    غیاث ممبر

    شمولیت:
    ‏24 اپریل 2011
    پیغامات:
    16
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    اس اہم موضوع کی جتنی اہمیت ہے انا ہی وسیع بھی ہے۔ اسکی ہر جہت کو الگ سے بیان کرنا پھر اسکی گہرائی کو جاننا ضروری ہے۔

    سرف سطحی مطالعہ سے خرابیاں ہی خرابیاں ہوتی ہیں۔بالخصوص ایسے لوگ جوکئی طرح کے اوہام کا شکار ہیں وہ تصوف تعلیمات صوفیاء اور اولیاء کرام کے بارے مسلمانوں اور حقیقی صوفیاء کااصٌ علمی ذخیرہ مطالعہ کریں ۔اسکے بعد فیصلہ کریں انشاء اللہ ذہنی آسودگی حاصل ہوگی۔
     
  28. احمداسد
    آف لائن

    احمداسد ممبر

    شمولیت:
    ‏22 جنوری 2011
    پیغامات:
    110
    موصول پسندیدگیاں:
    4
    ملک کا جھنڈا:
  29. عاصم محمود
    آف لائن

    عاصم محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏25 دسمبر 2011
    پیغامات:
    108
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: Re: تصوف کیا ہے؟ دلچسپ مگر تلخ حقائق

    جو پیسے کی بات کرے اور جو اپنے امیر اور غریب مرید میں فرق کرے وہ جعلی پیر ہے۔
    ڈکٹر صاحب کی کیا بات ہے ۔اللہ ان کو صحت دے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں