1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیداری شعورو احساس

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏20 ستمبر 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم ۔ ۔ ۔ آپ بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے میں ایک بار پھر واضع کرنا چاہتا ہوں ( میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ) کہ انتخاب حکومت پورے نظام کا مھض ایک حصہ ہوتا ہے اس لیے الیکشن کو یا انتخاب کو کسی طور مکمل نظام نہیں سمجھنا چاہیے اور پھر ہم نے کب کہا ہے کہ مغربی نظام جمہوری ہے یا بلکل عین شرعی ہے یا موجودہ وقت میں اُس کے بغیر گزاراہ نہیں ۔ ۔ ۔ ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ نظام ( جو اس وقت پاکستان میں جمہوریت کے نام پر رائج ہے ) مکمل طور پر غیر شرعی فسق ہے ۔ ۔ ۔ البتہ نعیم بھائی کی رائے ہے کے مغرب میں رائج جمہوریت میں کچھ اچھائیاں بھی ہیں ۔ ۔ ۔ یقینا ہونگی لیکن کم از کم میں اس بات کا بھی قائل نہین ہوں مگر چونکہ مجھے دو بار اور وہ بھی انتہائی مختصر عوصے کے لیے ہی مغربی نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اس لیے میں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اور نعیم بھائی سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی اُن کی بات کو اہمیت دونگا کہ وہ ایک طویل عرصے سے مغرب میں بستے ہیں اور اُنہیں کم از کم مجھ سے بہت زیادہ تجربہ ہے ۔ ۔ ۔ اپنے پچھلے پیغام مین میں نے واضع کیا تھا کہ اسلامی جمہوریت میں حکومت کا سربراہ امیر المومنین ہوتا ہے اور چونکہ ہم اس نظام کو خلافت کہتے آئے ہیں اس لیے وہ خلیفہ بھی کہلاتا ہے حالانکہ خلیفہ الرسول صرف سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہی تھے ان کے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے خلیفہ تھے اور بعد والے اپنے سے پہلے کے ۔ ۔ ۔ اسی لیے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے لیے امیر المومنین کا لقب پسند کیا تھا اور اُن کے بعد ہر خلیفہ امیر المومنین ہی کہلایا ۔ ۔ ۔ نامزدگی اور انتخاب کا طریقہ بھی اپنے پچھلے پیغام میں بتا چکا ہوں ۔ ۔ ۔ اور موجودہ نظام انتخاب میں بھی یہ دونوں موجود ہیں ۔ ۔ ۔ میرے خیال میں نعیم بھائی درست کہہ رہے ہیں اس بحث کو اب یہیں ختم کرا چاہیے ۔ ۔ ۔ ایک بار پھر وضاحت کہ موجودہ نظام جمہوریت کہ جو پاکستان میں رائج ہے وہ کفر ہے ۔ ۔ ۔ یہ یاد رہے کہ ابتداء میں آپ اس کی حمایت کر رہے تھے اور اب اسے کفر ثابت کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔
     
    عقرب، سعدیہ اور نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی آپ کو غلط فہمی ہوئی میں نے واضح الفاظ میں کہا کہ میں اس کا قائل نہیں ہوں
    البتہ عوام کے کوسنے کے حق میں نہیں ہوں اور میں نے نعیم بھائی کی عوام کے خلاف بولنے پر تنقید کی تھی۔
    آپ نے میری بات کو مکس کر دیا ہے۔
    آپ دونوں دو باتیں کر رہے ہیں
    ایک طرف اس جمہوری نظام کو کفریہ نظام کہتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں کہ جمہوریت کے طریقے اس نظام میں موجود ہیں

    آپ کے آخری تحریر کے الفاظ ہیں
    ایک بار پھر وضاحت کہ موجودہ نظام جمہوریت کہ جو پاکستان میں رائج ہے وہ کفر ہے

    مگر اس سے پہلے والی تحاریر میں آپ فرما چکے کہ الیکشن مکمل جمہوری نظام کا ایک حصہ ہیں
    موجودہ مغربی جمہوریت میں بھی جب کوئی امیدوار انتخاب لڑتا ہے تو ایلکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت کوئی رُکن اسمبلی ( موجودہ یا سابقہ ) یا پھر کوئی معزز شخص اُسے نامزد کرتا ہے ( اسے لیے اُسے کاغزات نامزدگی کہا جاتا ہے ) دو عدد لوگ اُس نامزدگی کے تائید کنندہ کے طور پر پیش ہوتے ہیں اور پھر اگر وہ کسی پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑ رہا ہوتا ہے تو اُس پارٹی کے سربراہ یا شورا کی طرف سے دستخط شدہ ٹکٹ ساتھ میں لگایا جاتا ہے یہ ہے نامزدگی

    در اصل آپ کی ایک رائے نہیں ہے جس سے کنفیوژن پیدا ہوتی ہے کہ آپ اس جمہوری نظام کے حق میں ہو یا مخالف ہو۔



     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    محترم عبدالمطلب بھائی ۔ جس بات سے ہماری گفتگو چلی تھی ۔ وہ ذرا پھر سے ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کا موجودہ نواز حکومت کے متعلق فرمان تھا کہ "سرکار بھی عوام کی طاقت سے بنتی ہے"۔
    ----------
    میں نے اسکا جواب عرض کیا تھا کہ پاکستان کا موجودہ نظام اشرافیہ کا بنایا ہوا ایک جال ہے جس میں عوام کی صحیح نمائندگی کبھی ممکن ہی نہیں --------------


    معافی کے ساتھ عرض کروں گا عبدالمطلب بھائی ۔ حقیقی جمہوری ملکوں میں یقینا سرکار عوام کی طاقت ہی سے بنتی ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو "اشرافیہ" نے ڈرامہ رچا رکھا ہے۔ اس میں عوام کے اس نعرے "یعنی سرکار عوام کے ساتھ بنتی ہے" کے ذریعے صرف بےوقوف بنایا جاتا ہے۔ اور ہماری اکثریت بےوقوف بنتی ہے۔
    جمہوریت کا مطلب ہے "اکثریتی رائے"
    بہت سے فلاسفر و دانشور حتی کہ علامہ اقبالؒ بھی مغربی طرز جمہوریت کے قدرداں ہرگز نہ تھے۔ اس ناپسندیدگی کی پہلی وجہ یہ کہ مغربی جمہوریت ’’معیار‘‘(Quality) نہیں ’’مقدار‘‘(Quantity) پر استوار ہے۔وہ تمام انسانوں کو برابر تو کھڑا کر دیتی ہے ، لیکن تعلیم، شعور، قابلیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے ان میں کوئی تمیز نہیں کرتی۔اسی لیے علامہ اقبال نے مغربی جمہوریت پر یوں طنز کیا؎ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں،تولا نہیں کرتے اور ساتھ ہی فرمایا کہ "دو سو گدھے (بےشعور و جاہل ) ملک کر بھی ایک "انسان" کی عقل کا مقابلہ نہیں کرسکتے"۔
    یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ جس سے یہ بیان کرنا مقصود تھا کہ ہمارے ملک میں موجودہ تماشا کسی طرح بھی جمہوریت کی کسی تعریف پر پورا نہیں اترتا اور ہمیں ایک اسلامی جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    پہلے بھی الیکشن 2013 کے بعد اس مسئلہ پر بات ہوئی تھی ۔ ہمارے ہاں کا حلقہ جاتی نظام ہماری عوام کا سب سے بڑآ دشمن اور اشرافیہ (جاگیردار، امیر، طاقتور، غنڈہ گرد اور دہشتگرد) طبقات کا سب سے بڑآ محافظ ہے۔ چند استثنایات کو چھوڑ کر ہر حلقہ میں 3-4 طاقتور خاندان ہیں۔ جو اکثر کرپشن، غنڈہ گردی، سمگلنگ، اور رسہ گیری کے لیے مشہور بھی ہوتے ہیں موجودہ نظام میں کوئی بھی سیاسی جماعت ہوکتنے ہی اعلی پروگرام رکھتی ہو، کتنی ہی باکردار قیادت ہو ۔ حتی کہ قائد اعظم بھی اگر دوبارہ زندہ ہوکر آجائیں تو وہ انہی 3-4 خاندانوں میں سے کسی کو ٹکٹ دے کر جیت سکتے ہیں ورنہ کوئی شریف، متوسط طبقہ کا باکردار آدمی جو کروڑہا روپے نہ لگا سکتا ہو۔ وہ جیتنا تو درکنار، اس نظام میں کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ۔ اسکی بہن بیٹیوں اور عزت آبرو کا جنازہ نکال کر موت کے گھاٹ تک اتارا جا سکتا ہے۔ یا اگر ان سب سے بچ نکلے تو چند ہزار ووٹ لے کر گھر بیٹھ جائے گا۔
    اب حلقہ جاتی نظام کے ذریعے جیتنے کا طریقہ بھی سن لیں۔ اگر ایک حلقہ میں فرض کریں 3 امیدوار ہیں۔ کل ڈالے گئے ووٹ کی تعداد ایک لاکھ ہے، فرض کریں ایک امیدوار 30 ہزار ووٹ لیتا ہے۔ دوسرا بھی 30 ہزار لیتا ہے۔ جبکہ تیسرا 40 ہزار لے کر جیت جائے گا۔ اب خود عقل ودانش سے کام لے کر سوچیں اور وہی اصول پیش نظر رکھیں کہ "عوام کی اکثریتی رائے ہی جمہوریت ہے" تو اس جیتنے والے کو اس حلقے کے 60 ہزار لوگ اپنا نمائندہ نہیں بنانا چاہتے۔ لیکن اس نظام میں وہ ممبر اسمبلی بن جاتا ہے۔

    اسی غلیظ نظام کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں تقریبا ساڑھے آٹھ کروڑ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ جس میں سے گذشتہ الیکشن میں نوازشریف نے حقیقی و جعلی ملا کر تقریبا ڈیڑھ کروڑ ووٹ لیے تھے۔ اب اندازہ کریں کہ پاکستان کے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 7 کروڑ ووٹر نوازشریف کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے لیکن وہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر ملک کا سب سے طاقتور وزیراعظم بن گیا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    الیکشن 2013 کے بعد خود وزیرداخلہ چوہدری نثار نے اسمبلی میں کہا تھا کہ 60 فیصد انگوٹھوں کے نشان ایسے ہیں جن کی تصدیق ہی نہیں ہوسکتی۔ گویا ڈالے گئے ووٹوں میں 60 فیصد ووٹ تو سیدھے سیدھے جعلی ہونے کا خود حکومت اقرار کرلے تو اس الیکشن نظام کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ابھی جولائی میں آزاد کشمیر میں الیکشن ہوئے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسکا تجزیہ پیش خدمت ہے

    ن لیگ کے کل حاصل کردہ ووٹ = 689000 ۔۔۔ ن لیگ کی سیٹ =32
    تحریک انصاف کے حاصل کردہ ووٹ = 383000 ۔ سیٹ = 2
    پیپلز پارٹی کے حاصل کردہ ووٹ = 352000 ۔۔۔ سیٹ = 2
    اب جمہوری تماشے کا نتیجہ = 689000 ووٹ کے ساتھ 32 سیٹیں
    پی پی اور پی ٹی آئی کے کل ووٹ = 735000 ووٹ کے ساتھ سیٹیں صرف 4
    اب سوچیئے کہ کہاں گئی اکثریتی رائے والی جمہوریت ؟

    یاد رہے ان سب میں ابھی ضمیرخریدنے ، ہزاروں لاکھوں سے برادری سربراہان کو خریدنے، پکی گلیوں، پکی نالیوں اور بچوں کو نوکریوں کے چکمے دینے والی سیاست اور ہر حلقے میں 10-15 یا 20 کروڑ لگا کر جمہوری کا جنازہ نکالنے اور عوامی ضمیر پر تھوکنے کا کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    المختصر پاکستان کا نظام نہ اسلامی ہے، نہ جمہوری ہے بلکہ ایک اشرافیہ کا تماشا ہے جس کے ذریعے سادہ لوح عوام کومیڈیا کی مدد سے بے وقوف بنایا جاتا ہے اور عوام بن جاتی ہے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بحمداللہ تعالی آپ بھی اس امر پر متفق ہوگئے ہیں کہ موجودہ انتخابی نظام ایک شیطانی کھیل ہے جو وطن عزیز میں چند ہزار اشرافیہ نے 20کڑوڑ عوام کا استحصال کرنے اور انہیں ہمیشہ اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کے لیے بنایا ہوا ہے۔ اس نظام کے ذریعے کسی صالح، محب وطن، ایماندار قیادت کے قوتِ نافذہ تک پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اس نظام میں "عوام کامل طور پر کسی سرکار کو منتخب کر سکتے ہیں " ۔۔ بلکہ عوام کی اکثریت یعنی 7 کروڑ نوازشریف کو "سرکار" دیکھنا ہی نہیں چاہتی۔۔ لیکن اس استحصالی و سازشی نظام کے تحت وہ محض ڈیڑھ کروڑ جعلی و اصلی ووٹ لے کر عوام پر "بصورت سرکار" مسلط ہوجاتا ہے۔
    بس میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کم از کم ہم اس باطل و استحصالی نظام کو مسترد کرنے کی ضرورت پر متفق ہوگئے۔
    ----------------------

    اگلی قیادت کون سی ہو ؟
    نیا نظام کونسا ہو ؟
    کون بنائے گا؟
    کس کے پاس اتنی صلاحیت ہے ؟
    یقینا نظام ایسا ہوگا جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو اور موجودہ عالمی حالات سے مطابقت رکھتا ہو ۔ کیونکہ یہی تحرک، یہی ارتقا ء اسلام کا طرہ امتیاز اور یہی وصفِ تجدد دراصل اسلام کو حیاتی جاودانی عطا کرتا ہے۔کیونکہ موجودہ دور یا آئندہ دور میں جب بھی کوئی صالح مسلم قیادت میسر آئے گی وہ دستار باندھ کر ، تلوار لہراتا ہوا گھوڑے پر نہیں آئے گا۔۔ بلکہ وہ اس دور کے تقاضوں کے مطابق جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم سے مکمل ہم آہنگ ہوگا۔ بالکل جیسا کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ جیسے مونچھ بردار اور داڑھی صاف جیسے مفکر اسلام اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ جیسے بظاہر ایک انگریز ٹائپ مسلمان کے ذریعے عظیم اسلامی ریاست "پاکستان" کے نام سے عطا کردی۔
    اسکے لیے یقینا ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اسلامی علوم پر گہری دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ موجودہ عالمی قوانین اور حالات پر بھی کامل نظر رکھتی ہو۔
    یہ میرا نکتہ نظر ہے۔۔۔۔۔ آئیے پورے پاکستان میں ڈھونڈ لیں کہ اس پیمانے پر کونسی قیادت پورا اترتی ہے ؟
    والسلام علیکم۔
     
    Last edited: ‏9 ستمبر 2016
    عقرب, سعدیہ, پاکستانی55 اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    محترم بھائی نعیم صاحب پاکستان کے مفاد میں اسلامی اصولوں پر کاربند نظام کی ضرورت ہے آج اگر اسلامی نظام ِ حکومت ہوتی تو چھوٹے بڑے کے فرق کے بنا ہرگناہگارکٹہرے میں ہوتا۔ اور اسلامی شرعی عدالتیں ہوتیں تو چور وزیر یا لیڈر کے ہاتھ کٹ چکے ہوتے۔ اور قصاص کے لئے دھرنے نہ دیئے جاتے۔
    میں اب بھی یہی کہونگا کہ سرکار عوام کے طاقت سے بنتی ہے اور یہ حقیقت ہے مگر عوام میں شعور بیدار کرنے والے ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ جتنے بھی ہیں تمام مفاد پرست ہیں جو برساتی منڈکوں کی طرح عوام کے پاس آتے ہیں لفظوں کے جادو سے بیوقوف بنا کر دولت لوٹ کر مزے کرتے ہیں۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    پورے پاکستان میں کوئی بھی اس موجودہ وقت میں قابل بھروسہ نہیں بھائی میں اپنی رائے میں اگر آزاد ہوں تو میری رائے میں جہموریت کا ڈرامہ بند کر کے چوروں کو ڈنڈے والی سرکار کے حوالے کرنا بہتر ہے۔
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    اسلام کے نام پر بنا ہوا ملک ہے اور کوئی بھی اسلامی نظام لانے پر تیار نہیں ۔ کیوں کے تقریبا سب ہی چور ہیں ۔۔
     
    نعیم اور عبدالمطلب .نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    میں آپ کی بات سے اتفاق کرونگا۔ ملک حاصل کرتے وقت قرآن جلسوں میں دکھا دکھا کر کہا گیا کہ پاکستان میں اس قرآن کا قانون ہوگا مگر مغرب اسلام کی افادیت سے واقف ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک کے قوانین میں قدغن کر کے اپنے طریقے لاگو کرنے میں کامیاب رہی۔

    اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین
     
    پاکستانی55 اور حنا شیخ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا تھا بلکہ ساری اسلامی جماعتیں پاکستان اور قائد اعطم کی مخالف تھیں ۔ ہاں مسلمانوں کے لیے ضرور بنا تھا کیونکہ قائد اعظم اور دوسرے مسلم لیگی لیڈران کا اندازہ تھا جب انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے تو ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر حکمرانی کرنے لگیں گے یاد رہے انگریزوں کی دو سو سالہ حکمرانی سے پہلے سات سو سال تک ہندوستان پر مسلمان ہی حکومت کرتے تھے ، اصل آزادی تو ہندو نے حاصل کی انگریزوں سے بھی اور مسلمانوں سے بھی
    قائد اعطم کو ہندو مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اگر مذہب سے ہوتا تو وہ پاکستان بنے کے بعد ہندو تاجروں کو پاکستان میں رکنے کا نہیں کہتے اور نہ ہی یہ کہتے کہ پاکستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں ان کی مذہبی آزادی حاصل ہوگی ، نہ مسلمان مسلمان رہے گا نہ ہندو ہندو ( اگے کے جملے یاد نہیں مگر آپ یوٹیوب پر ڈھونڈ سکتے ہیں )
    پاکستان کی پہلی کابینہ میں کئی غیر مسلم ارکان موجود تھے
    تو پھر مسئلہ کیا تھا ؟
    مسئلہ ہندؤں کی اکثریت تھی اور قائد اعظم نہیں چاہتے تھے کہ ہندو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو دبا کر رکھیں اس لئے ایک نئی مملکت لازمی تھی جہاں مسلمان اپنی زندگی اور کاروبار اور دوسرے معملات آزادی سے گزار سکیں
    مگر شاید قائد اعظم کو یہ نہیں پتا تھا کہ بعد میں یہ مسلمان جن کو ایک قوم کی شکل میں تیار کیا تھا وہ آپس میں الجھ جائیں گے اور مختلف قوموں میں بٹ جائیں گے
    جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد ان خدشات کا بارہا تذکرہ کرتے رہے تھے اور انہوں نے پاکستان کے متعلق کئی پیشن گوئیاں بھی کی تھی جو بعد میں سچ ثابت ہوئیں جس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ سقوط ڈھاکہ کی تھی
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    بھائی مخلص انسان آپ یہاں پر ایک بہت بڑی بات بھول رہے ہیں وہ ہے دو قومی نظریہ اگر اسلام کے نام پر نہیں بنا پاکستان تو دو قومی نظریہ کیا تھا؟؟؟؟؟؟

    اور ہمارے پیارے اور خوبصورت جھنڈے میں بھی آپ کے سوال کا جواب ملےگا کہ غیر مسلموں کو پاکستان میں رہنے کا پورا حق ہے۔ پاکستان تنگ نظری کی بنیاد پر نہیں مگر اسلام کے نام پر ضرور آزاد ہوا۔

    ایک بات اور واضح کردوں کہ ہندو اکثریت میں نہیں تھے بلکہ مسلمانوں کے ہم پلہ تھے یہ بات آپ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ ہندوستان کے وہ تمام صوبے فراموش کر رہے ہیں جہاں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی آپ صرف پاکستان کے 4 صوبوں کے بارے میں بات کر رہے ہو جبکہ ہندوستان میں مسلم اکثریت والے صوبے اور بھی ہیں۔

    بنگالی تنگ نظر تھے اور ہیں آج بھی دیکھ لیجئے نصف صدی بعد بھی پاکستان کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ بنگالی ون یونٹ کے چکر میں تھے کہ پورے پاکستان پر صرف وہ راج کرینگے۔ اللہ بہتر کرنے والا ہے جو بھی اللہ نے فیصلہ کیا ہمارے حق میں بہتر ہی ثابت ہو یہی ہماری دعا ہے۔
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    ہم تو بچپن سے یہ ہی سنتے آرہے ہیں کے
    پاکستان کا مطلب کیا لا اله الا الله​
    اصغر سودائی کی یہ نظم ہر بات کا جواب ہے ۔۔
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    شب ظلمت میں گزاری ہے
    اٹھ وقت بیداری ہے
    جنگ شجاعت جاری ہے
    آتش و آہن سے لڑ جا
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    ہادی و رہبر سرور دیں
    صاحب علم و عزم و یقیں
    قرآن کی مانند حسیں
    احمد مرسل صلی علی
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    چھوڑ تعلق داری چھوڑ
    اٹھ محمود بتوں کو توڑ
    جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ
    غیر اللہ کا نام مٹا

    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    جرات کی تصویر ہے تو
    ہمت عالمگیر ہے تو
    دنیا کی تقدیر ہے تو
    آپ اپنی تقدیر بنا
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    نغموں کا اعجاز یہی
    دل کا سوز و ساز یہی
    وقت کی ہے آواز یہی
    وقت کی یہ آواز سنا
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    پنجابی ہو یا افغان
    مل جانا شرط ایمان
    ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان
    ایک رسول اور ایک خدا

    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    تجھ میں ہے خالد کا لہو
    تجھ میں ہے طارق کی نمو
    شیر کے بیٹے شیر ہے تو
    شیر بن اور میدان میں آ
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    مذہب ہو تہذیب کہ فن
    تیرا جداگانہ ہے چلن
    اپنا وطن ہے اپنا وطن
    غیر کی باتوں میں مت آ
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    اے اصغر اللہ کرے
    ننھی کلی پروان چڑھے
    پھول بنے خوشبو مہکے
    وقت دعا ہے ہاتھ اٹھا
    پاکستان کا مطلب کیا؟ ۔۔۔۔۔لا الہ الا اللہ
    لا الہ الا اللہ ۔۔ اس ٹائم اسنے مسلمانوں کو یہ بتایا کے پاکستان کس وجہ سے وجود میں آرہا ہے اس کا کیا مقصد ہے مسلمانوں کو اپنے مہذب پر چلنے کی مکمل آزادی ۔ تو اس وقت کا مسلمان تو یہ چاہتا تھا ۔ شاید وہ اسنے یہ سمجھانا شورع کردیا تھا کے ایک عرب ملک کی طرح کا یہ پاکستان ہوگا ۔۔ یہ مگر افسوس کے ملک بننے کے بعد ۔جن کے ہاتھوں میں یہ گیا اس نے اس کا نقشہ ہی بدل دیا ۔اور انگریزوں کے ہاتھوں بک گے اور یہ بکنے کا سلسلہ اب تک چلا آرہا ہے ۔۔
     
    نعیم، عبدالمطلب اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    غدّارانِ پاکستان سے انحراف ہی تمام مسائل کا حل ہے
    آج بھی وقت ہے ملک دشمنوں اور لٹیروں کو مسترد کر دیں
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    کیا آپ اقرار فرما رہے ہیں کہ آپ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہونے کی بدولت "بےشعور" ہیں ؟
    کیا آپ یہ فرما رہے ہیں کہ اللہ کریم نے پاکستانی عوام کی ہدایت کے لیے 70سال تک کوئی انسان ہی نہیں بھیجا ؟
    کیا آپ فرما رہے ہیں کہ اللہ کریم نے صحیح غلط راہ کا شعور دیے بغیر ہی ہم پر عذابات مسلط کردیے ہیں ؟
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    یہ بھی فرما دیں کہ عوام میں شعور پیدا کرنے والا کیسا ہوگا؟ اسکا حلیہ کیا ہوگا؟ اسکا کردار کیا ہوگا؟ اسکی وہ کونسی کرامات ہوں گی جس سے پاکستانی عوام اسے باشعور تسلیم کرکے اس سے شعور لینا شروع کریں گے؟
     
    عقرب اور سعدیہ .نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. مخلص انسان
    آف لائن

    مخلص انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 اکتوبر 2015
    پیغامات:
    5,415
    موصول پسندیدگیاں:
    2,746
    ملک کا جھنڈا:
    مگر کون غدار ہے اور کون محب وطن اس کا فیصلہ کون کرے گا ؟
    ہم ؟ آپ ؟ یا دفاعی ادارے یا وہ جو قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے ؟
    قائد اعظم سے یاد آیا آج ان کا یوم وفات ہے
    ان کی ایک تقریر پوسٹ کر رہا ہوں جس کا حوالہ کل دیا تھا اور شاید وہ جواب بھی ہو حنا شیخ جی کا ( ہم تو بچپن سے یہ ہی سنتے آرہے ہیں کے
    پاکستان کا مطلب کیا لا اله الا الله )
    ۔
    ۔
    ۔ ۔ ۔
     
    عقرب, سعدیہ, نعیم اور مزید ایک رکن نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. حنا شیخ
    آف لائن

    حنا شیخ ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جولائی 2016
    پیغامات:
    2,709
    موصول پسندیدگیاں:
    1,573
    ملک کا جھنڈا:
    بہت زبردست پوسٹ ہے ۔۔ ہم نے مسلمانوں کی سوچ بیان کی کے شاید یہ سوچ ہو،، اور اسلام ہمیں یہ ہی سیکھتا ہے کے ہر مہذب پر کوئی پابندی نہیں ہو ۔ اور مسلمان اپنی مہذب کی ادائیگی آزاد ماحول میں کریں ۔ اور ملک میں اسلامی نظام ہو ۔ لیکن اقلیتوں کو ان کے حقوق بھی حاصل ہوں ۔
     
    سعدیہ اور نعیم .نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. عبدالمطلب
    آف لائن

    عبدالمطلب ممبر

    شمولیت:
    ‏11 اپریل 2016
    پیغامات:
    2,134
    موصول پسندیدگیاں:
    1,728
    ملک کا جھنڈا:
    جس کی غداری آنکھوں سے دیکھی کانوں سے سنی بلکہ پوری دنیا سن چکی ہے
    مگر اللہ جن سے دیکھنے کی بینائی چھین لے
    اور سننے کی قوّت چھین لے
    وہ آنکھوں پرپٹی لگا کر کچھ نہیں دیکھ سکتے

    ہم آپ اور دفاعی ادارے سب کے سب پاکستانی کرینگے
    جو ہو رہا ہے اس سے آنکھیں پھیرنا عقلمندی نہیں ہے

    حال کی فکر کرنی چاہئے
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    رہنما اور رہنمائی کی تلاش

    طلب اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ خود راستے بنا لیتی ہے۔

    انسا ن کبھی چلو میں پانی پیتا تھا جب تسلی نہ ہوئی تو اس نے گلاس بنا لیا ، اگر چلو سے گلاس تک کے سفر کو لیا جائے تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح انسان نے اپنی آسانی کےلیے اور بہت ساری اشیاء بنا لیں لیکن ان چیزوں کے ساتھ ساتھ انسان کو ہمیشہ رہنمائی کی ضرورت رہی ۔ قدرت نے ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا کئے جن کافہم ، جن کی عقل ، جن کی سمجھ اور جن کی دانش زمانے سے بہتر تھی وہ اپنے فہم اور فکر میں اتنے بلند تھے کہ اس وقت کو بھی دیکھ رہے ہوتے تھے جس وقت کو زمانہ نہیں دیکھ رہا ہوتا تھا ۔ ہر دور میں ان کی سنگتیں ، ان کی محفلیں ، ان کی گفتگو اور ان کی تبلیغ لوگوں تک پہنچتی رہیں ۔ یہ سارا سلسلہ چلتے چلتے آگے بڑھا میٹریل چیزیں بنتی رہیں لیکن کبھی بھی اس چیز کی اہمیت ختم نہیں ہوئی کہ رہنمائی کیا ہے ، رہنما کیا ہے، استاد کیا ہے، مرشد کیا ہے اور مربی کیا ہے۔
    جس طرح گلاس کے سفر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اسی طرح رہنما اور رہنمائی کے سفر پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں کیو نکہ یہ انسان کا ذاتی سفر ہے اس سفر میں بے شمار چیزیں شامل ہوئیں جیسے کلچر ، مذہب ، علاقائی رسم و رواج ، لوگوں کے تجربات ، جہالت وغیر وغیرہ۔ ایک وہ وقت بھی تھا جب بادشاہ وقت کو سجدہ لازم تھا لیکن پھر وہ زمانہ بھی آیا کہ جس دور میں رسول پاکﷺ نے فرمایا:" (مفہوم) اگر تمہارے احترا م سے لوگ کھڑے ہو رہے ہیں اور تمہارے دل کو اس سے راحت محسوس ہوتی ہے تو سمجھ لو کہ تم جہنمی ہو گئے" ۔ یہ سارے سیکھنے اور سکھانے کے انداز ، ادب کے ، تعلقات کے ، یہ چلتے چلتے جب اس دور میں آتےہیں تو معلومات اور علم کی اتنی بھر مار ہے کہ رہنمائی کے لیے دانشور استاد کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ۔
    حضرت امام بن حنبلؒ ایک دفعہ سفر کر رہے تھے پیسے ختم ہو گئے تو سوچا کہ کسی مسجد میں جاکر رک جاتےہیں ، مسجد میں گئے رات کے پچھلے پہر میں مسجد کے رکھوالے نے انہیں باہر نکال دیا ، باہر بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا آپ میرے ساتھ چلیں میرے گھر میں ٹھہر جائیں ، جب دونوں گھر چلے گئے توآپؒ نے دیکھا کہ وہ بندے مصلے پر بیٹھا گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہاہے جب وہ دعا سے فارغ ہوا تو آپ ؒ نے پوچھا تم کیا اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے تھے اس نے جواب دیا کہ میر ی بہت خواہشیں تھیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے پوری کردیں بس ایک خواہش رہ گئی ہے جو آج تک پوری نہیں ہو ئی آپ ؒ نے پوچھا وہ کیا خواہش ہے اس نے کہا میری خواہش یہ تھی کہ وقت کے امام حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کبھی ان سے میر ی ملاقات ہو جائے ، آپؒ نے رو کر کہا کہ تمہاری طلب اتنی سچی تھی کہ گھسیٹ ک مجھے تمہارے تک لا دیا گیا ۔ یہ معاملہ جتنی سچی طلب سے جڑا ہوا ہے کسی اور چیز سے نہیں جڑا ۔ حضرت مولانا روم ؒ کلاس میں بیٹھے در س دے رہے ہوتےہیں پیچھے ان کی لکھی ہوئی کتابیں رکھی ہوتی ہیں اسی دوران ایک درویش آتا ہے اور کہتا ہے تم کیا پڑھا رہے ہو اور یہ کتابیں کیسی ہیں مولانا روم ؒ فرماتے باباجی چھوڑیں آپ کو کیا پتا یہ کیا ہے یہ صرف و نحو کی باتیں ہیں آپ جائیں ، درویش جلال میں آتا ہے اور کتابوں کو تلاب میں پھینک دیتا ہے جس سے کتابوں کی سیاہی پانی میں گھلنے لگ پڑتی ہے مولانا روم ؒ رونے لگ پڑے اور کہا آپ نے میری زندگی کی کمائی ضائع کر دی درویش نے کہا گھبراؤ نہیں ، انہوں نے پانی میں ہاتھ ڈالا خشک کتابیں جاڑیں اور واپس رکھ دیں مولانا رومؒ نے کہا یہ کیا ہے درویش نے جواب دیا تم صرف و نحو کی باتیں کرو یہ میرا کام تھا یہ کہہ کر درویش چل پڑا اور غائب ہوگیا ، مولانا روم ؒ اس درویش کو تلاش کرنے لگ پڑے یہاں تک کہ تین سال گزر گئے پھر جا کر کہیں وہ درویش ملے تو حضرت مولانا جلال الدینؒ پاؤں پڑ گئے اور کہا مجھے معافی دے دیں اور کہنے لگے کہ مجھے تین سال آپ کو تلاش کرنے میں لگ گئے درویش نے مڑ کر کہا تمہیں تو صرف تین سال لگے ہیں مجھے تمہارے جیسا سچا شاگرد تلاش کرنے میں تیس سال لگ گئے ہیں ۔
    طلب اتنی طاقتور چیز ہے کہ وہ خود راستے بنا لیتی ہے۔
     
    سعدیہ، عبدالمطلب اور پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    عالمِ عرب میں دشمنانِ اسلام کے مسلمانوں پر ظلم و ستم اور بطورِ مسلمان ہماری ذمہ داری

    چونکہ تعلیماتِ قرآن و حدیث ایک سمندر کی مانند وسیع و عمیق ہیں اور ہر غوطہ خور اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں سے موتی نکال سکتا ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ جو اپنی طاقت سے جو جوہر و گوہر آپ کو اس سمندر سے ملیں وہ مجھ جیسے کم عقل کو بھی نصیب ہوسکیں۔ اس لیے بلاشبہ ہر مسلمان تحصیلِ علم اور اسکے نتیجے میں اپنی رائے میں آزاد ہے۔
    مجھے قرآن و سیرتِ نبوی سے یہ سمجھ آتی ہے کہ اسلام محض جذباتیت و حماقت کا دین نہیں بلکہ عقل و شعور اور دانش و حکمت کا دین ہے۔ و من یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا (القرآن) اس لیے فقط "عربی دان عالم" ہونا چھوٹا درجہ ہے اور علم و حکمت یکجا نصیب ہونا اعلی و اولی درجہ ہے جو براہ راست رحمتِ الہی اور فیضانِ نبوت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصیب ہوتا ہے۔
    اب علم یہ ہے کہ جہاں ظلم دیکھو۔ جہاد والی آیتیں پڑھو، "بندوق" اٹھاو اور جہاد پر چڑھ دوڑو ۔ مرجاؤ۔ شہادت پاؤ اللہ سے اجر حاصل کرو۔
    لیکن قرآنی آیات کے مکی و مدنی ادوار کے نزول اور سیرتِ طیبہ کے مکی و مدنی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک دو بدو جہاد کے لیے مناسب معاشی، عسکری و لشکری قوت نہ دستیاب ہوسکے اس وقت مکی سرداروں کے ظلم وستم بھی سہتے رہو اور محض تبلیغ و اصلاحِ احوال کا کام جاری رکھو۔ جب تک مناسب قوت و ماحول نہ ہو تو شعبِ ابوطالب میں سالوں تک معاشرتی بائیکاٹ کا بھی چپ چاپ سامنا کرو۔ یہ بھی تعلیماتِ اسلام اور سیرتِ پاک ہی کا حصہ ہیں لیکن اس دوران فروغِ دعوت، اصلاحِ احوال اور اپنی قوت میں اضافے کا مشن جاری رکھو۔
    حتی کہ اگر اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر بظاہر کافروں کی ہنسی کا نشانہ بھی بننا پڑے تو کبھی حبشہ تو کبھی مدینہ کی طرف ہجرت بھی کرجاؤ۔ ضروری نہیں کہ کم قوت کے ساتھ کافروں کے ساتھ مقابلہ شروع کردو اور دشمن تمہارا تیا پائنچا کردے ۔۔۔۔
    (مقامِ فکر : آئیے ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کیا کوئی عالم، سکالر یا رہبر نیک نیتی کے ساتھ ریسرچ ورک ، تحقیق و تبلیغ و دیگر مقاصد کے لیے پاکستان سے باہر دنیا بھر میں دوروں پر جائے ۔۔وہاں کی مسلم نوجوان جنریشن کو شراب خانوں کی بجائے مسجدوں کا راستہ دکھائے اور انہیں اسلام کا امن پسند چہرہ سمجھا کر انہیں مغربی معاشروں میں باکردار مسلمان بنانے کی کوشش کرے تو ہم پاکستانی اور ہمارا میڈیا اسکی کس انداز میں تذلیل کرتا ہے؟ )
    پھر مدینہ شریف پہنچ کر جب مسلمان صحابہ کرام زیادہ ہوجائیں تو پھر بھی اپنی عددی طاقت بڑھتی دیکھ کر آپے سے باہر نہ ہوجاو بلکہ مواخاتِ مدینہ کے ذریعے پہلے مسلمانوں کے معاشی مسائل حل کرو۔۔ انکے لیے باعزت روزگار انکے اہل و عیال کو مالی تحفظ فراہم کرو اس دوران یہودونصاری و منافقین جیسے طبقات سے "سیاسی و سماجی معاہدات" بھی کرنے پڑیں تو اپنی معاشی ،علمی، تبلیغی، تربیتی کاوشوں کے ذریعے پختہ فکر افرادی قوت میں اضافے کے لیے وہ بھی کرو ۔۔۔ یہ سب بھی سیرتِ نبوی کا حصہ ہے۔
    تاریخ اسلام گواہ ہے کہ مدنی دور میں بھی بدر و احد کی جنگیں مسلمانوں کی طرف سے پیش قدمی سے نہیں ۔۔ بلکہ براہ راست کافروں کی پہل کی وجہ سے دفاعی انداز میں لڑی گئیں۔ اگر یہ دونوں جنگیں مسلط نہ کی جاتیں تو شاید علم و تعلیم، دعوت و تبلیغ، تربیت و اصلاح اور معاشی ترقی کا سفر شاید مزید جاری رہتا (خیر یہ سب مشیتِ ایزدی تھی)
    پھر جب بفضلِ اللہ تعالی، مسلمان انتہائی مناسب قوت حاصل کرچکے اور مقامِ حدیبیہ ہوا تو صلحِ حدیبیہ کی شرائط بھی پڑھ لیں ۔۔ بظاہر سبھی شرائط کافروں کے حق میں تھیں۔ سیدنا فاروق اعظم اور سیدنا علی المرتضی سمیت کئی جلیل القدر اصحابِ کبار رضوان اللہ عنھم جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں کہ یارسول اللہ ! اتنی کمزور شرائط پر معاہدہ کیوں ؟ ( آج اگر کوئی عالم رہنما حکمت و دانش کے ساتھ دوراندیشی و وسیع البصیرتی سے اس طرح کے اقدامات کرتا ہے تو ہم اور ہمارا میڈیا اسکو کون کون سے طعنوں اور القابات سے نوازتے ہیں۔ ہنود ویہود کا ایجنٹ ، کافروں کا پٹھو وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لیکن سیرتِ رسول صل اللہ علیہ وسلم سے براہ راست روشنی لینے والا سچا مسلمان ایسا کبھی نہیں سوچے گا)
    پھر جہاد کا وقت بھی آیا ۔۔ پھر قرآنی احکامات بھی اترے پھر اللہ پاک نے بھی حکم دیا کہ (مفہوما") اب جیسے انہوں نے تمھیں گھروں سے بےگھر کیا تھا اور تمھارے اوپر ظلم و ستم کیا تھا اب تم بھی ان سے بدلہ لو ۔۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا بدلہ و انتقام میں بھی توازن قائم رکھنا۔۔ حد سے نہ بڑھنا ۔ اللہ پاک حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
    پھر ریاستِ اسلامی قائم ہوئی ۔ سیاسی وسماجی، عدالتی و معاشی ، عسکری اصولوں سے لے کر انسانی حقوق تک سب کچھ واضح ہوگیا ۔
    اور علم و ٹیکنالوجی کی ترغیب و جدوجہد اس قدر کی گئی کہ کافروں کے جنگی قیدیوں سے بھی مدینہ کے ان پڑھ مسلمانوں کو تعلیم دلوائی گئی ۔ آج کسی مسلمان عالم دین کا بچہ اعلی تعلیم کے لیے مغربی ملک چلا جائے تو ہم فورا اسکی مسلمانی اور پاکستانیت پر طعنہ زنی شروع کردیتے ہیں۔
    پھر خلفائے راشدین کے دور میں جب مسلمانوں کی معاشی ترقی و خوشحالی اور معاشرتی امن و امان کا یہ عالم ہوگیا کہ زکوۃ و خیرات لینے والا کوئی نہ ملتا تھا ۔۔ اور لوگ عدلِ فاروقی کے ڈر سے ادنی سے ادنی جرم بھی نہ کرتے تھے ۔۔ پھر اسلام کی فوجیں اعلائے کلمۃ الحق کے لیے روم و فلسطین تک بھی پہنچیں اسلامی سلطنت کا پرچم چہار دانگِ عالم میں لہرایا گیا ۔
    تو عرض کرنے کے مقصد یہ ہے کہ سیرتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہردور کے تقاضوں کے مطابق حکمت و دانش سے اسلامی احکامات کا اطلاق ہوتا ہے۔
    غریب مسلمان بھوک و افلاس سے مررہے ہوں ۔۔ چور لٹیرے قاتل جابر حکمران اپنے معاشرے میں مسلط ہوں اور ہم اس ظلم کو روکنے، اس ظالم کے ہاتھ توڑنے کی بجائے سات سمندر پار مسلمانوں کی مدد کو دوڑنا شروع کردیں تو یہ جذباتیت ہوسکتی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق دانش و حکمت نہیں۔
    اگر سارے کا سارا اسلام صرف جہاد ہی ہوتا اور سارا جہاد صرف "قتال" ہی ہوتا تو پھر کوہِ صفا والی پہلی دعوت سے ہی جہاد و قتال کا اعلان کردیا جاتا۔۔
    پھر حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم اور انکے ساتھیوں کو مکی سرداروں کے سالہا سال تک ظلم و ستم چپ چاپ سہنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    تاجدارِ کائنات صل اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر اوجھڑی اور کافروں کی طرف سے مجنون و دیوانہ وغیرہ جیسے الفاظ سن کر صبر و تحمل قائم رکھنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    سیدنا بلال رض کو تپتی ریت پر لیٹے رہنے اور پھر آزاد ہونے کے بعد بھی صبر کرتے رہنے کی ضرورت کیا تھی ؟
    سیدنا عمار اور سیدہ سمعیہ رض کی قربانیوں پر بھی صبر کی تلقین کیوں ؟
    سیدنا ابوبکر صدیق رض کو کافروں کے ہاتھوں تا لبِ مرگ زدوکوب ہوتا دیکھ کر بھی صبر قائم کیوں رکھا گیا ؟
    ابی طالب کی گھاٹی میں ڈھائی سال تک معاشرتی مقاطعہ یعنی سوشل بائیکاٹ برداشت کرکے بھی جہاد کا اعلان کیوں نہ کیا گیا
    ہجرت کیوں کی گئی؟ رات کے سناٹے میں چھپ چھپا کر، چپ چاپ اپنا گھر بار کیوں چھوڑا گیا ؟
    الغرض سیرتِ طیبہ سے یہی سمجھ آتا ہے کہ پہلے اپنے اپنے معاشرے کو سنوارا جائے۔ علم و ٹیکنالوجی میں ترقی کی جائے۔ فکری و نظریاتی طور پر پختہ مسلمان بنائے جائیں، اہل ، صالح، دیندار مسلمانوں کو مسلمان معاشرے کی قیادت اور ایوانِ اقتدار تک پہنچایا جائے اسکے ذریعے معاشی ترقی اور معاشی خوشحالی لائی جائے۔ جب معاشرے پرامن ہوں، خوشحال ہوں، اور اسکے ساتھ علم و ٹیکنالوجی میں ترقی بھی ہو تو پھر ایسی اسلامی ریاست دنیا میں دیگر مسلمان ریاستوں کے لیے رول ماڈل بن کر انہیں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے مشعلِ راہ بنے گی۔ بعدازاں امت مسلمہ کا معاشی و جغرافیائی اتحادی بلاک یا زیادہ بلاکس بھی بن سکتے ہیں۔ انہیں اسلامی یونین کا نام دیا جائے، اسلامی اقوامِ متحدہ کا نام دے لیا جائے یا اسلامک اکنامک بلاک کہا جائے یا ماڈرن سٹائل کی اسلامی خلافت کا عنوان دے دیا جائے۔ لیکن اسکے بعد پھر کسی بھی اسلام دشمن کو چھوٹے سے چھوٹے اسلامی ملک کو میلی آنکھ دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی۔
    واللہ ورسولہ :drood: اعلم۔
     
    زنیرہ عقیل، پاکستانی55 اور سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن نعیم صاحب عام طور پر علمائے کرام کی تقریروں سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے جہاد سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ؟
    بلکہ طاہرالقادری کی ایک تقریر میں کہیں سنا تھا کہ جہاد رات کی نفلی نمازوں قیام اللیل اور تہجد سے بھی افضل عمل ہے
     
    نعیم اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    سعدیہ میڈم جی۔ آپ کی بات درست ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دورِ حاضر میں لفظ "جہاد" کو بہت ہی منفی معنی میں پیش کیا گیا ہے۔ دشمنوں نے مسلمانوں کے اندر سے "انتہا پسند خوارج" کے ساتھ مل کر انسانیت پر ظلم و ستم، درندگی ، معصوم و غیر مسلح انسانوں کے خنجروں سے گلے کاٹنے، چہروں پر گولیاں مارنے، لاشوں کی تذلیل و بےحرمتی کرنے کا نام "جہاد" رکھ دیا گیا ۔ جس سے عام مسلمان ذہن بھی متاثر ہوا ۔۔ اور کم علمی کے باعث سادہ لوح مسلمان اسی عمل کو جہاد سمجھ بیٹھے۔
    حالانکہ "جہاد" تو ہر طرح کی بدامنی، دہشتگردی، جہالت کو ختم کرنے کا نام ہے۔ جہاد لفظ "جہد" سے مشتق ہے جسکا معنی مثبت کاوش و کوشش ہے۔
    اپنے نفسانی شر کے خلاف جدوجہد اور اسے اسلامی تعلیمات کے تابع کرنے کو "افضل ترین جہاد " فرمایا گیا۔
    حدیث پاک کا مفہوم ہے "علم کی طلب میں نکلنے والا جب تک گھر نہ پہنچے وہ جہاد پر ہے"
    فروغ علم جہاد ہے
    فروغِ امن جہادہے
    ظلم و ناحق اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانا، قلم اٹھانا سب جہاد ہے۔
    معاشرتی سیاست سے ظالموں، جابروں کو پر امن سیاسی جدوجہد سے نکال باہر کرنا۔ انکے ظلم کا خاتمہ کرنا اور عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی بھی جہاد ہے۔
    حق و باطل میں فرق اور حق کے لیے قومی شعور کو بیدار کرنا بھی "جہاد" ہے۔
    اب جہاد کا مفہوم واضح ہوجانے کے بعد ڈاکٹرطاہرالقادری کی یہ بات بھی درست ہے کہ تہجد و قیام الیل وغیرہ تو نفلی نمازیں جب کہ بعض صورتوں میں جہاد واجب ہوجاتا ہے۔ اور واجب کا رتبہ نفل سے افضل ہوتا ہے۔
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    امتِ مسلمہ کی بےبسی، زوال و کسمپرسی کی وجوہات اور انکا تدارک
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بلاشبہ اس وقت ہم تاریخِ اسلام کے شدید اور ہمہ جہتی زوال کا شکارہیں۔ کفرو طاغوت ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے منصوبوں کی تکمیل پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے امت مسلمہ کا جسد خون سے تر بہ تر ہے۔ خونِ مسلم کا پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ "دہشت گردی" کا لیبل بھی مسلمانوں ہی کے ماتھے پر لگا دیا گیا ہے۔
    انفرادی و علاقائی سطح پر مسلمان بالعموم باطل و شر کی حمایت میں بولنے والے یا پھر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دینے والے بن گئے ہیں۔ ظلم و ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اور حق کی حمایت میں نکلنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے انہیں بھی پاگل و دیوانہ سمجھ کر انکی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کم و بیش پوری امت مسلمہ کو اپنے اپنے ملکوں میں "نڈر، باکردار، صالح اور دین دار قیادت" چننے کا شعور تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہی بھروپیے بن کرکم و بیش تمام مسلمان ملکوں پر حکومتیں کرتے اور دشمنانِ اسلام کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اس المناک صورتحال کی وجوہات پر میرے جیسے خود ساختہ فلاسفر اپنی سوچ کے مطابق بےشمار موشگافیاں کرسکتے ہیں اور کرتے بھی رہتے ہیں۔
    لیکن آئیے ہم اپنے آقا و مولا سید المرسلین :drood: کی بارگاہ سے ہی اس سوال کا جواب طلب کرتے ہیں۔ مفہوما ایک حدیث پاک عرض ہے۔
    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم علیہ الصلواۃ و السلام نے فرمایا
    " ایک دور آئے گا جب گمراہ و کافر قومیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے.
    صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا اس وقت ہم مسلمان تعداد میں کم ہونگے (کہ اس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوگی ) آپ:drood:نے فرمایا نہیں تم (مسلمان) تعداد میں کثرت سے ہو گے لیکن تم سمندر کی جھاگ کی طرح ہوگے۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ:drood:پھر اس کا سبب کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا : اللہ پاک تمھارے دشمن کے دلوں سے تمھارا رعب و دبدبہ نکال دے گا۔اور تم "وھن" کی بیماری میں مبتلا ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا "وھن" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "دنیا سے محبت اور موت سے نفرت" (ابوداؤد۔ کتاب الملاحم۔ حدیث نمبر4297)


    اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے زوال کی بنیادی وجہ خالص اندرونی اور داخلی ہے "حبِ جاہ، حبِ مال اور موت سے کراہت اور خوف" نے ہم سے وہ ساری صفات چھین لی جو دشمن کے دلوں میں ہماری مرعوبیت پیدا کرنے کا سبب تھیں۔
    یہی وجہ ہے کہ آج ہم انفرادی سطح پر بھی اپنے ذاتی دو ٹکے کے مفاد کو اپنے معاشرتی و اجتماعی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں۔ انتخابات میں اصول و نظریہ، حب الوطنی، کردار، صلاحیت اور شرافت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات دیکھ کر ووٹ و تائید کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مفاد پرست، کرپٹ، دنیا پرست ، نااہل اور "وطن فروش" حکمران ہم پر مسلط ہوتے ہیں جو ہماری عزت، غیرت،اور بقا کا سودا کردیتے ہیں۔
    نتیجتا دشمن ایک ایک کرکے ہمیں ختم کرتا چلا جارہا ہے۔ ہم اپنے اپنے گروہی، مسلکی، علاقائی، لسانی و ذات برادری کو ایک قوم، ایک امت ہونے پر ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ٹکڑوں میں بٹ چکے ہیں۔ اپنے مسلمان بھائی پر ظلم ہوتا دیکھ کر سوچتے ہیں "وہ تومیرے مسلک کا نہیں ، وہ میری برادری سے نہیں، وہ میرے صوبے سے نہیں، وہ میری پارٹی کا نہیں" ظلم کا نشانہ بنتا ہے، مرتا ہے تو مرجائے۔ مجھے کیا؟

    اور اس پر بدعملی کی انتہا دیکھیے کہ باقاعدہ ایسی جماعتیں، ایسے مبلغ، ایسے داعیانِ اسلام معاشرے میں عام ہیں جو "ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش رہنے کو ہی "عبادت" بیان فرماتے ہیں" کوئی قفلِ مدینہ لگوا دیتا ہے تو کوئی بھیانک سے بھیانک دہشتگردی اور معاشی لوٹ مار کرنے والوں کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں بولتا بلکہ الٹا انکے درباروں میں جا کر سرعام و درپردہ انہی ظالموں، لٹیروں، دہشتگردوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ چند سال پہلے ہی ایک بہت بڑی اسلامی جماعت کے سربراہ نے ٹی وی پر فرمایا کہ دہشت گرد (طالبان و القاعدہ) کے خلاف لڑنے والے پاکستان آرمی کے فوجی "شہید" نہیں کیوںکہ دونوں طرف کلمہ گو اور مجاہد ہیں" (استغفراللہ)۔

    مغربی معاشرے کے سبھی حکمرانوں کا جائزہ لے لیں۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ اور اپنی اپنی فیلڈ میں پروفیشنل ہوتے ہیں۔ وہ سیاست بطور پروفیشن نہیں اپناتے ۔ وہ عوامی حمایت سے اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ عوامی مینڈیٹ کے مطابق4-5 یا 7-8سال بطور حکمران ملک کی خدمت کرتے ہیں اس کے بعد خاموشی سے اپنے سابقہ پیشہ ورانہ زندگی میں واپس لوٹ جاتے ہیں۔
    جرمنی کے سابق چانسلر "گیرہارڈ شروڈر" کو دوسری بار عوامی مینڈیٹ سے 49فیصد ووٹ ملے یعنی کسی بھی دو چار سیٹیوں والی چھوٹی پارٹی سے اتحاد کرکے دوبارہ جرمنی جیسے ملک کا حکمران بن سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے کہا عوام نے چونکہ مجھے قطعی اکثریت نہیں دی اس لیے میں خود کو حکمرانی کے اہل نہیں سمجھتا۔ صحافیوں نے پوچھا اب کیا کریں گے؟ کہا "میں پیشہ ور وکیل ہوں۔ کچھ عرصہ ریسٹ کرنے کے بعد دوبارہ سے وکالت جوائن کرلوں گا" ۔۔۔
    آسٹریا کے سابق حکمران وکٹر کلیما بھی بزنس ایڈمنسٹریشن کے پروفیشن سے سیاست میں آئے۔ 4-5 سال حکومت کے بعد وہ مشہور جرمن آٹو میکینگ کمپینی فوکس واگن WVکے مینجنگ ڈائریکٹر بن کر اپنی پروفیشنل لائف میں واپس چلا گیا۔
    اسی طرح فرانس کا ایک سابق حکمران اکنامک کا پروفیسر تھا ۔ حکومت کرنے کے بعد وہ دوبارہ اپنی پروفیسرشپ میں واپس چلا گیا۔
    امریکہ و کینڈا اور برطانیہ کے حکمران آتے جاتے تو آپ سب بھی جانتے ہیں۔
    آپ نے کبھی سنا کہ فلاں حکمران ۔ حکومت کے بعد اپوزیشن میں جا کر بیٹھ گیا اور اگلی حکومت کی ٹانگیں کھینچ کر حکومت گرانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے؟ یا اپنے بچوں کو اپوزیشن لیڈر بنوا کر انکے ذریعے ملک کو لوٹ مار کے لیے تیار کررہا ہے ؟ 99 فیصد مغربی ملکوں میں ایسا کبھی نہیں دیکھیں گے۔
    جبکہ مسلمان ملکوں کا جائزہ لے لیں۔ حبِ دنیا، حبِ جاہ و اقتدار اور آخرت فراموشی اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔
    سیاست میں ہماری برداشت، رواداری اور جمہوریت پسندی ناپید ہے۔ بلکہ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اول تو اپنے مخالف کو اقتدار میں دیکھ نہیں سکتے۔ اگر خود اقتدار میں آجائیں تو پھر ہر حکمران چاہتا ہے کہ اب یہ ملک میری ذاتی جاگیر بن جائے۔ میں ، میرے بچے، میری نسلیں اس ملک کے آقا و الہ بن جائیں اور اس ملک کی عوام ہمیشہ میری غلام بن جائے۔ صرف پاکستان نہیں، عرب ممالک میں ایشیا میں ہرجگہ سوائے دو چار استثناء کے ساتھ یہی عالم ہے۔ جس بھی حکمران کا خاتمہ ہوتا ہے وہ پھانسی کے پھندے یا تشریف پہ گولی سے ہوتا ہے یا پھر ملک بدری سے۔
    یہ دنیا پرستی، جاہ پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟

    ضرورت ہمیں اپنی اپنی اصلاح کرنے کی ہے۔ محض عبادات، رسوماتِ ارکانِ اسلام سے ہی نہیں بلکہ اپنے ضمیر، اپنے قلب اور اپنی روحانی دنیا کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ دل میں جب دنیوی محبت کی بجائے اللہ رب العزت اور اسکے محبوب کریم :drood: اور دین اسلام کی محبت اور آخرت کی طلب ہو۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں دینی و ملی شعور بھی نصیب ہو کہ ہم اہلِ باطل اور اہلِ شر کی بجائے اہلِ حق، اہلِ تقوی، اور اہلِ ایمان لوگوں کو اپنی حکمرانی کے لیے منتخب کریں انکی حمایت کریں انکا ساتھ دیں تاکہ رفتہ رفتہ امتِ مسلمہ کو درمند، دیندار، غیرت مند اور اتحاد و یگانگت کی فضا دینے والی قیادتیں نصیب ہوں اور امت کی کشتی اس بحران سے بخیر و خوبی نکل سکے۔
    اللہ پاک مجھ سمیت ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
     
    سعدیہ نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,129
    موصول پسندیدگیاں:
    9,751
    ملک کا جھنڈا:
    محترم نعیم صاحب ایک طرف آپ کا فرمان ہے کہ

    مجھے قرآن و سیرتِ نبوی سے یہ سمجھ آتی ہے کہ اسلام محض جذباتیت و حماقت کا دین نہیں بلکہ عقل و شعور اور دانش و حکمت کا دین ہے۔
    و من یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا (القرآن) اس لیے فقط "عربی دان عالم" ہونا چھوٹا درجہ ہے اور علم و حکمت یکجا نصیب ہونا اعلی و اولی درجہ ہے جو براہ راست رحمتِ الہی اور فیضانِ نبوت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نصیب ہوتا ہے۔
    اب علم یہ ہے کہ جہاں ظلم دیکھو۔ جہاد والی آیتیں پڑھو، "بندوق" اٹھاو اور جہاد پر چڑھ دوڑو ۔ مرجاؤ۔ شہادت پاؤ اللہ سے اجر حاصل کرو۔
    لیکن قرآنی آیات کے مکی و مدنی ادوار کے نزول اور سیرتِ طیبہ کے مکی و مدنی ادوار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب تک دو بدو جہاد کے لیے مناسب معاشی، عسکری و لشکری قوت نہ دستیاب ہوسکے اس وقت مکی سرداروں کے ظلم وستم بھی سہتے رہو اور محض تبلیغ و اصلاحِ احوال کا کام جاری رکھو۔ جب تک مناسب قوت و ماحول نہ ہو تو شعبِ ابوطالب میں سالوں تک معاشرتی بائیکاٹ کا بھی چپ چاپ سامنا کرو۔ یہ بھی تعلیماتِ اسلام اور سیرتِ پاک ہی کا حصہ ہیں لیکن اس دوران فروغِ دعوت، اصلاحِ احوال اور اپنی قوت میں اضافے کا مشن جاری رکھو۔
    حتی کہ اگر اپنے آبائی شہر کو چھوڑ کر بظاہر کافروں کی ہنسی کا نشانہ بھی بننا پڑے تو کبھی حبشہ تو کبھی مدینہ کی طرف ہجرت بھی کرجاؤ۔ ضروری نہیں کہ کم قوت کے ساتھ کافروں کے ساتھ مقابلہ شروع کردو اور دشمن تمہارا تیا پائنچا کردے ۔۔۔۔
    ----------------------------------------------------------------------------------------------

    دوسری طرف آپ کا شکوہ ہے کہ


    انفرادی و علاقائی سطح پر مسلمان بالعموم باطل و شر کی حمایت میں بولنے والے یا پھر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دینے والے بن گئے ہیں۔ ظلم و ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اور حق کی حمایت میں نکلنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے انہیں بھی پاگل و دیوانہ سمجھ کر انکی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کم و بیش پوری امت مسلمہ کو اپنے اپنے ملکوں میں "نڈر، باکردار، صالح اور دین دار قیادت" چننے کا شعور تک نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہی بھروپیے بن کرکم و بیش تمام مسلمان ملکوں پر حکومتیں کرتے اور دشمنانِ اسلام کی مدد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اس المناک صورتحال کی وجوہات پر میرے جیسے خود ساختہ فلاسفر اپنی سوچ کے مطابق بےشمار موشگافیاں کرسکتے ہیں اور کرتے بھی رہتے ہیں۔
    لیکن آئیے ہم اپنے آقا و مولا سید المرسلین :drood: کی بارگاہ سے ہی اس سوال کا جواب طلب کرتے ہیں۔ مفہوما ایک حدیث پاک عرض ہے۔
    حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم علیہ الصلواۃ و السلام نے فرمایا
    " ایک دور آئے گا جب گمراہ و کافر قومیں مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکا دسترخوان پر ٹوٹ پڑتا ہے.
    صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ کیا اس وقت ہم مسلمان تعداد میں کم ہونگے (کہ اس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوگی ) آپ:drood:نے فرمایا نہیں تم (مسلمان) تعداد میں کثرت سے ہو گے لیکن تم سمندر کی جھاگ کی طرح ہوگے۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ:drood:پھر اس کا سبب کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا : اللہ پاک تمھارے دشمن کے دلوں سے تمھارا رعب و دبدبہ نکال دے گا۔اور تم "وھن" کی بیماری میں مبتلا ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا "وھن" کیا ہے؟ آپ نے فرمایا "دنیا سے محبت اور موت سے نفرت" (ابوداؤد۔ کتاب الملاحم۔ حدیث نمبر4297)
    ------------------------------------------------------------------------------

    محترم نعیم صاحب آپ کی دو تحریروں میں بنیادی طور پر مجھے تضاد نظر آ رہا ہے

    ایک طرف آپ کا نالاں ہیں کہ
    "اب علم یہ ہے کہ جہاں ظلم دیکھو۔ جہاد والی آیتیں پڑھو، "بندوق" اٹھاو اور جہاد پر چڑھ دوڑو ۔ مرجاؤ۔ شہادت پاؤ اللہ سے اجر حاصل کرو۔ "
    جو جہاد کے اس عمل سے انکار کو ثابت کرتا ہے
    .

    جبکہ دوسری طرف آپ کا شکو ہے کہ
    "مسلمان بالعموم باطل و شر کی حمایت میں بولنے والے یا پھر خاموش تماشائی بننے کو ترجیح دینے والے بن گئے ہیں۔ ظلم و ظالم کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے اور حق کی حمایت میں نکلنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے انہیں بھی پاگل و دیوانہ سمجھ کر انکی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے"


    جہاد ہونا چاہیے یا نہیں یہ وضاحت کیجیے کیوں کہ آپ نے پہلے یہ مشورہ دیا تھا کہ انتظار کیا جائے ہر ظلم کو برداشت کیا جائے وقت آنے پر جہاد کرنا چاہیے اس صورت میں جب آپ کے پاس مکمل تیاری ہو لاؤ لشکر اور اسلحہ کی بھرمار ہو تب جہاد کرنا چاہیے تب تک ظلم برداشت کرنا چاہیے
    جبکہ اب آپ کا یہ بتا رہے ہیں کہ ہم خاموش تماشائی بن گئے ہیں ظلم و ظالم کے خلاف کلمہ بلند کرنے اور حق کی حمایت میں نکلنے والے بہت کم رہ گئے ہیں اور جو رہ گئے انہیں بھی پاگل و دیوانہ سمجھ کر انکی سماجی سطح پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے . یہ ایک شکوہ ہے.
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. سعدیہ
    آف لائن

    سعدیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏7 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    4,590
    موصول پسندیدگیاں:
    2,393
    ملک کا جھنڈا:
    مفصل جواب کا شکریہ ۔ ویسے یہ سب مجھے معلوم بھی تھا
     
  23. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    زنیرہ عقیل صاحبہ۔ آپ نے اہم نکتہ اٹھایا ہے۔ آپکی ذہانت کو داد دیتا ہوں ۔۔
    آپ یا جو مسلمان بھی جہاد سے مراد محض "قتال" یعنی اسلحہ اٹھا کر دشمن کو مارنا یا مرجانا سمجھتے ہیں ان کے لیے میری معروضات اوپر پوسٹ نمبر 199 میں موجود ہیں۔
    کہ موجودہ دور میں جبکہ مسلمان ہرطرح سے علم، ٹیکنالوجی، معیشت، انفراسٹرکچر کے اعتبار سے کمزور ہیں، باہم متحد بھی نہیں بلکہ لخت لخت ہیں، اگر چند جگہوں پر کچھ مثبت پہلو ہیں بھی تو وہ اتحادِ امت نہ ہونے کے باعث کفر و باطل کے خلاف نبردآزمائی میں زیادہ مفید نہیں ۔
    تو اندریں صورت خود کو بنیادی طور پر، علمی و فکری طور پر، ٹیکنالوجی ، ریسرچ اور اسکے ساتھ ساتھ معاشی خوشحالی اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی اور انکا تحفظ یقینی بنانے والے نظام سے مسلمان ملکوں میں قائم کرنے کی پرامن کوشش و جدوجہد ہی "عظیم جہاد" ہے۔ اور بدقسمتی سے ہم مسلمان اول تو اس وقت کی اس حکیمانہ ضرورت کا یا تو شعور نہیں رکھتے یا پھر اسکی طرف عملی اقدامات نہیں اٹھاتے۔ بہت بڑے بڑے مبلغ اور جماعتیں ساری زندگی محض نماز روزہ حج زکوۃ کے فلسفے سمجھاتے، داڑھیاں رکھواتے، کف کالر کے بغیر کپڑے پہنواتے، مسواکیں کرواتے گذار دیتے ہیں۔ جو کہ بلاشبہ باعثِ ثواب کام ہے۔
    لیکن وقت کی ضرورت کے مطابق امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور بیداری شعور ، فروغِ علم، شعورِ انسانیت اور ملک میں باطل، غیر منصفانہ، استحصالی نظام حکومت، ارتکازِ دولت، بلکہ قومی خزانوں کی لوٹ مار اورعوامی انسانی حقوق کو پامال کرنے والے نظام کو بدل کر اسکی جگہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصفانہ، عادلانہ، مضبوط و محفوظ مستقبل کی ضمانت دینے والا ترقی پسندانہ نظامِ سیاست و معیشت لانے کے لیے پرامن جدوجہد کی جائے اور اسکے ساتھ ساتھ مظلوم، محروم اور بدحال معاشرتی طبقات کی داد رسی کے لیے حتی الوسع جانی، مالی مدد مہیا کی جائے۔
    تاکہ جلد سے جلد مسلم ممالک کی آئندہ نسلیں مضبوط و مستحکم ہوکر باطل اور استحصالی قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنے کے قابل ہوسکیں۔
    یہ بہت ہمہ گیر، ہمہ پہلو اور بھرپور جدوجہد ہے جس کے لیے ایک فرد، ایک لیڈر، ایک جماعت یا اسکے چند ہزار کارکنان کوئی خاطرخواہ اثرات پیدا نہیں کرسکتے اس کے لیے معاشرتی سطح پر سب کو ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جدوجہد کرنا ہوگا۔ بلاشبہ یہ سفر بظاہر طویل ضرور ہے لیکن موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا یہی طریقہ کار ہے۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,129
    موصول پسندیدگیاں:
    9,751
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کی تحریر کا لب لباب یہ نکلا کہ
    وقت کی ضرورت کے مطابق امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور بیداری شعور ، فروغِ علم، شعورِ انسانیت اور ملک میں باطل، غیر منصفانہ، استحصالی نظام حکومت، ارتکازِ دولت، بلکہ قومی خزانوں کی لوٹ مار اورعوامی انسانی حقوق کو پامال کرنے والے نظام کو بدل کر اسکی جگہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصفانہ، عادلانہ، مضبوط و محفوظ مستقبل کی ضمانت دینے والا ترقی پسندانہ نظامِ سیاست و معیشت لانے کے لیے پرامن جدوجہد کی جائے اور اسکے ساتھ ساتھ مظلوم، محروم اور بدحال معاشرتی طبقات کی داد رسی کے لیے حتی الوسع جانی، مالی مدد مہیا کی جائے۔

    پہلی بات امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور بیداری شعور ، فروغِ علم، شعورِ انسانیت اور ملک میں باطل، غیر منصفانہ، استحصالی نظام حکومت، ارتکازِ دولت، بلکہ قومی خزانوں کی لوٹ مار اورعوامی انسانی حقوق کو پامال کرنے والے نظام کو بدل کر اسکی جگہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصفانہ، عادلانہ، مضبوط و محفوظ مستقبل کی ضمانت دینے والا ترقی پسندانہ نظامِ سیاست و معیشت لانے کے لیے پرامن جدوجہد کی جائے

    یہ تو پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے عالمی سطح پر کیا کرنا چاہیے اور نیز ہمارا ایٹمی طاقت بننا ہماری بقا کا ضامن ہو سکتا ہے؟

    دوسری بات ظلوم، محروم اور بدحال معاشرتی طبقات کی داد رسی کے لیے حتی الوسع جانی، مالی مدد مہیا کی جائے۔
    تو جانی اور مالی مدد شام تک پہنچانے کے لیے ہم منصفانہ، عادلانہ، مضبوط و محفوظ مستقبل کی ضمانت دینے والا ترقی پسندانہ نظامِ سیاست و معیشت آنے تک انتظار کریں؟

    ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں گھوم رہا ہے
    وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے غزوات کیے ہیں ان میں تعداد کفار کی زیادہ تھی یا مسلمانوں کی اسلحہ کفار کے ساتھ زیادہ تھا یا مسلمانوں کے ساتھ فتح اسلام کی ہوئی یا کفار کی؟
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    آغازمیں ہمیشہ کی طرح اپنی کم علمی و کم عقلی کا اعتراف کرتے ہوئے یاددہانی کرواتا چلوں کہ میں صرف اپنی رائے دے رہا ہوں میں نہ کوئی مفکر، نہ عالم نہ کسی کا سپوکس پرسن ہوں۔
    آپکے سوال سے مجھے جو سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے مکی دور میں بیرونی دنیا (بیرونِ مکہ) میں اشاعتِ اسلام کے لیے انفرادی سطح پر دعوتی و تبلیغی کاوشیں تو کیں لیکن باقاعدہ جنگ و جہاد کا حکم نہ فرمایا تھا۔ اور نہ ہی ایسا کوئی حکم قرآن مجید کی مکی سورتوں میں وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ بظاہرہدایت یہی ملتی ہے کہ پہلے پختہ فکر مسلمانوں کی مناسب جماعت و افرادی قوت تیار کی جائے پھر ان کے ذریعے ایک خوشحال اسلامی ریاست کی تشکیل کی جائے جہاں عوام کے بنیادی جانی مالی، معاشی حقوق مکمل محفوظ ہوں اور پھر عالمی سطح یعنی بیرونِ ریاست اسلام دشمن طاقتوں تک حکمت و قوت کے ساتھ دین کا پیغام پہنچایا جائے۔
     
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    شام یا دنیا کے کسی بھی خطےمیں مظلوم مجبور محقور مسلمانوں بلکہ عام انسانوں کی مدد کرنے کے لیے انہیں بنیادی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کی جانی چاہیے۔ بےگھروں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں۔ میڈیکل سہولتیں۔ بچوں کے لیے تعلیمی ادارے ، خوراک اور دیگر سہولیاتِ فراہم کرنے کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    جی آپ کا فرمانا درست ہے کہ افرادی و مادی وسائل کے اعتبار سے مسلمان ہمیشہ کم تر رہے لیکن انکی فتح کا راز دراصل انکی پختگی ایمان تھی اور پھر وسیلہء محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی ذاتِ گرامی میں وہ فنائیت کی حد تک محبت و اتباع کے رنگ میں رنگے جاچکے تھے۔ لیکن معرکہ بدر سے پہلے کم و بیش 14سال حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے انکی فکری، نظریاتی اور روحانی و ایمانی پختگی، اتحاد و اتفاق اور ایثار و قربانی کے جذبات کی بیداری اور استحکام کے لیے بھرپور محنت بھی تو فرمائی تھی ۔۔ جبھی تو صحابہ کبار رضوان اللہ عنھم کی وہ عظیم جماعت تیار ہوچکی تھی۔
    علامہ اقبال رح نے فرمایا
    فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
    اتر سکتے ہیں گردوں سے قطاراندرقطاراب بھی
    یہی تو فضائے بدر تھی جو حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے 14-15 سال کی محنت شاقہ ، اذیتوں، صعوبتوں کے برداشت کرنے کے بعد ایک عظیم جماعت تیار کی تھی اور اسی لیے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کمال مان کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے ہاتھ اٹھا کر عرض کی تھی کہ "مولا آج اگر یہ جماعت بدرمیں فتح نہ پاسکی تو پھر قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہ رہے گا" پھر سورہ انفال کی وہ آیات اتری جس میں ہزاروں فرشتوں کے لیے مددو نصرت کی خوشخبری تھی۔
    یہی تو میری گذارشات کا بھی لب لباب ہے کہ ہمیں سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں پہلے باہمی منافرتوں، منافقتوں کو چھوڑ کر، باطل کرپٹ بدمعاش و بدقماش جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر ، حق کو پہنچاننے، حق کا ساتھ دینے اور حق کے لیے مرمٹنے والی ایک مناسب حد تک عظیم جماعت بننے کی ضرورت ہے۔ آج کی عالمی دنیا اور بالخصوص پاکستان کی آبادی کے تناسب سے ایسی عظیم جماعت چند کروڑ تک تو ہو جو وطنِ عزیز میں ریاستی نظام کو پرامن انداز میں بدلنے کے لیے تیار بھی ہو اور اہل بھی ہو ۔ پھر بقول اقبال "فضائے بدر" کے تقاضے پورے ہونے کا امکان ہے۔
    صرف بات سمجھنے کے لیے ایک مثال عرض ہے
    کہ اگر کوئی ماسٹر ڈگری یا ڈاکٹریٹ ڈگری ہولڈر پروفیسر یا ریسرچر لیبارٹری میں مختلف کیمائی اجزاء کے ساتھ کوئی کامیاب تجربہ کرتا ہے تو یاد رکھنا چاہیے اسکے پیچھے اسکی سالہا سال کی تعلیم، ریسرچ، محنت و کاوش ہے۔
    اب اگر پرائمری یا مڈل پاس کوئی بھی اسی لیبارٹری میں بھیج دیا جائے جس کے پاس سالہا سال کی ضروری تعلیم، علم، مطالعہ، ریسرچ اور اعتماد نہیں ہے تو وہ لیبارٹری تباہ تو کرسکتا ہے لیکن کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
    یہی کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,154
    ملک کا جھنڈا:
    بلاشبہ اسلحہ و مادی وسائل کی طاقت انسان کی خود اعتمادی اور دشمن پر رعب و دبدبے میں اضافہ ہے۔ یہ مفید چیز ہے
    لیکن اس سے پہلے بنیادی لوازمات بھی ضروری ہیں یعنی ایمان کی پختگی، جذبہ کامل، معاشی ناہمواریوں کا خاتمہ ، عدل و انصاف کی فراہمی ، جانی مالی تحفظ و محفوظ مستقبل کی ضمانت یہ سب کسی معاشرے کے لیے اتنے ہی ناگزیرہیں جتنا کہ زندہ رہنے کے لیے تنفس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی یہی ہے اور آج کی دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے۔
    لیکن اگر حال یہ ہو کہ ایٹمی دھماکہ تو کرلیے اور ملکی معیشت کرپشن و لوٹ مار کے ذریعے اتنی تباہ کردی کہ اب ملکی سلامتی و بقا کے لیے قومی اثاثے گروی رکھنے پڑ جائیں تو پھر انتظار کیجئے اس وقت کا جب ایک دن یہ کرپٹ حکمران و سیاستدان ایٹمی ریکٹر بھی "گروی" رکھ کر اپنی عیاشیوں کے لیے قرضے لیں گے۔ اگر قوم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ وقت خاکم بدہن زیادہ دور نہیں۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,129
    موصول پسندیدگیاں:
    9,751
    ملک کا جھنڈا:
    درست فرمایاآ پ نے
     
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,129
    موصول پسندیدگیاں:
    9,751
    ملک کا جھنڈا:
    آ پ سے متفق ہوں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں