1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

امجد اسلام امجد کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از این آر بی, ‏8 اکتوبر 2008۔

  1. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    ملے کیسے صدیوں کی پیاس اور پانی، ذرا پھر سے کہنا
    بڑی دلرُبا ہے یہ ساری کہانی، ذرا پھر سے کہنا

    کہاں سے چلا تھا جدائی کا سایا، نہیں دیکھ پایا
    کہ رستے میں تھی آنسوؤں کی روانی، ذرا پھر سے کہنا

    ہَوا یہ خبر تُو سناتی رہے اور مَیں سُنتا رہوں
    بدلنے کو ہے اب یہ موسم خزانی، ذرا پھر سے کہنا

    مُکر جانے والا کبھی زندگی میں خوشی پھر نہ پائے
    یونہی ختم کرلیں، چلو یہ کہانی، ذرا پھر سے کہنا

    سمے کے سمندر، کہا تُو نے جو بھی، سُنا، پر نہ سمجھے
    جوانی کی ندّی میں تھا تیز پانی، ذرا پھر سے کہنا​
     
  2. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    واہ یہ امجد اسلام کے کون سے مجموعہ کلام سے ھے
     
  3. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    این آر بی بھائی بہت شکریہ اس لڑی کو شروع کرنے کا۔
    اور آغاز بھی بہت عمدہ ہے۔
    :dilphool:
    میں انشاءاللہ اس میں شئیرنگ کروں‌گا :hands:
     
  4. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    [​IMG]
     
  5. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    :a180: :a180:
     
  6. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    :a191:
     
  7. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    مجمعوعے کا نام بھی یہی ہے: "ذرا پھر سے کہنا"۔

    http://www.emarkaz.com/shop/store/books-369.php
     
  8. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    بہت شکریہ ساگراج بھائی۔
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    شکریہ ار بی
     
  10. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ اس پہ یقیں نہ کر
    نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ اسے بھول جا

    واہ، بہت خوب غزل ہے یہ۔ کمال کیا ہے امجد اسلام امجد نے۔
     
  11. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
    اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے

    اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
    جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے

    بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
    دل کو رُکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

    کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
    اس کو ہر طَور سوئے دشتِ سحر جانا ہے

    میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
    وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے

    وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
    ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے​
     
  12. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    این آر بی بھائی بہت شکریہ۔ ساری غزل ہی بہت خوبصورت ہے۔ یہ اشعار بہت پسند آئے۔
    :dilphool:
     
  13. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    خُدا اور خلقِ خُدا


    یہ خلقِ خُدا جو بکھرے ہوئے
    بے نام و نشاں پتوں کی طرح
    بے چین ہوا کے رستے میں
    گھبرائی ہوئی سی پھرتی ہے

    آنکھوں میں شکستہ خواب لئے
    سینے میں دلِ بے تاب لئے
    ہونٹوں میں کراہیں ضبط کئے
    ماتھے کے دریدہ صفحے پر
    اک مہرِ ندامت ثبت کئے
    ٹھکرائی ہوئی سی پھرتی ہے

    اے اہلِ چشم اے اہلِ جفا!
    یہ طبل و عَلَم یہ تاج و کلاہ و تختِ شہی
    اس وقت تمہارے ساتھ سہی
    تاریخ مگر یہ کہتی ہے
    اسی خلقِ خُدا کے ملبے سے
    اک گونج کہیں سے اُٹھتی ہے

    یہ دھرتی کروٹ لیتی ہے
    اور منظر بدلے جاتے ہیں
    یہ طبل و عَلَم یہ تختِ شہی ،
    سب خلقِ خُدا کے ملبے کا
    اک حصہ بنتے جاتے ہیں

    ہر راج محل کے پہلو میں
    اک رستہ ایسا ہوتا ہے
    مقتل کی طرف جو کُھلتا ہے
    اور بن بتلائے آتا ہے
    تختوں کو خالی کرتا ہے
    اور قبریں بھرتا جاتا ہے​
     
  14. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    واہ بہت خوب۔ زبردست
    کیا فکر انگیز اور تاریخی حقائق پر مبنی نصیحت ہے۔
    :dilphool:
     
  15. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    پسندیدگی کا شکریہ ساگراج بھائی۔
     
  16. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    محبت

    محبت اوس کی صورت
    پیاسی پنکھڑی کے ہونٹ کو سیراب کرتی ہے
    گلوں کی آستینوں میں انوکھے رنگ بھرتی ہے
    سحر کے جھٹپٹے میں گنگناتی، مسکراتی جگمگاتی ہے
    [glow=red:yp4s1n0u]محبت کے دنوں میں دشت بھی محسوس ہوتا ہے
    کسی فردوس کی صورت
    محبت اوس کی صورت[/glow:yp4s1n0u]

    محبت ابر کی صورت
    دلوں کی سر زمیں پہ گھر کے آتی ہے اور برستی ہے
    چمن کا ذرہ ذرہ جھومتا ہے مسکراتا ہے
    ازل کی بے نمو مٹی میں سبزہ سر اُٹھاتا ہے
    [glow=red:yp4s1n0u]محبت اُن کو بھی آباد اور شاداب کرتی ہے
    جو دل ہیں قبر کی صورت
    محبت ابر کی صورت[/glow:yp4s1n0u]

    محبت آگ کی صورت
    بجھے سینوں میں جلتی ہے تودل بیدار ہوتے ہیں
    محبت کی تپش میں کچھ عجب اسرار ہوتے ہیں
    کہ جتنا یہ بھڑکتی ہے عروسِ جاں مہکتی ہے
    [glow=red:yp4s1n0u]دلوں کے ساحلوں پہ جمع ہوتی اور بکھرتی ہے
    محبت جھاگ کی صورت
    محبت آگ کی صورت[/glow:yp4s1n0u]

    محبت خواب کی صورت
    نگاہوں میں اُترتی ہے کسی مہتاب کی صورت
    ستارے آرزو کے اس طرح سے جگمگاتے ہیں
    کہ پہچانی نہیں جاتی دلِ بے تاب کی صورت
    محبت کے شجر پرخواب کے پنچھی اُترتے ہیں
    تو شاخیں جاگ اُٹھتی ہیں
    تھکے ہارے ستارے جب زمیں سے بات کرتے ہیں
    [glow=red:yp4s1n0u]تو کب کی منتظر آنکھوں میں شمعیں جاگ اُٹھتی ہیں
    محبت ان میں جلتی ہے
    چراغِ آب کی صورت
    محبت خواب کی صورت[/glow:yp4s1n0u]

    محبت درد کی صورت
    گزشتہ موسموں کا استعارہ بن کے رہتی ہے
    شبانِ ہجر میں روشن ستارہ بن کے رہتی ہے
    منڈیروں پر چراغوں کی لوئیں جب تھرتھر اتی ہیں
    نگر میں نا امیدی کی ہوائیں سنسناتی ہیں
    گلی میں جب کوئی آہٹ کوئی سایہ نہیں رہتا
    دکھی دل کے لئے جب کوئی بھی دھوکا نہیں رہتا
    غموں کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں شانے تو
    یہ اُن پہ ہاتھ رکھتی ہے
    کسی ہمدرد کی صورت
    [glow=red:yp4s1n0u]گزر جاتے ہیں سارے قافلے جب دل کی بستی سے
    فضا میں تیرتی ہے دیر تک یہ
    گرد کی صورت
    محبت درد کی صورت[/glow:yp4s1n0u]​
     
  17. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    وہ ملا ل کوئی اور تھا

    مرے چار سو جو کھلا رھا وہ جمال تو کوئی اور تھا!
    مرے خواب جس میں الجھ گئے وہ خیال تو کوئی اور تھا
    یہاں کس حساب کو جوڑتے
    مرے صبح وشام بکھر گئے!
    جو ازل کی صبح کیا گیا وہ سوال تو کوئی اور تھا!
    جسے تیرا جان کے رکھ لیا وہ ملال تو کوئی اور تھا!
     
  18. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    واہ بہت خوبصورت۔ این آر بی بھائی محبت کے سارے رنگ اور مراحل بڑی خوبصورتی سے بیان کیئے ہیں ۔
    :dilphool:

    خوشی بہت خوب۔
    :dilphool:
     
  19. کاکا سپاہی
    آف لائن

    کاکا سپاہی ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2007
    پیغامات:
    3,796
    موصول پسندیدگیاں:
    596
    ملک کا جھنڈا:
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    ساگراج
    اگر آپ کے پاس غزل :پھرا ہوں سارے زمانے میں در بدر کیسا ؛ ہو تو پلیز لکھ دیں
     
  20. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    شاعر

    کیسے کاریگر ھیں یہ!
    آس کےَ درختوں سے
    لفظ کاٹتے ھیں‌اور سیڑھیاں بناتے ھیں!
    کیسے باہنر ھیں یہ!
    غم کے بیج بوتے ھیں
    اور دلوں میں‌خوشیوں کی کھیتیاں‌اگاتے ھیں
    کیسے چارہ گر ھیں یہ!
    وقت کے سمندر میں
    کشتیاں بناتے ھیں،آپ ڈوب جاتے ھیں
     
  21. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    ساگراج
    اگر آپ کے پاس غزل :پھرا ہوں سارے زمانے میں در بدر کیسا ؛ ہو تو پلیز لکھ دیں[/quote:1qrh0fca]
    منور بھائی اس غزل کے یہ الفاظ اس وقت مجھ پر بڑے فٹ آتے ہیں۔ میں اس کی تلاش میں پھرا ہوں سارے زمانے میں دربدر کیسا :neu:
    آپ براہ مہربانی صرف یہ بتا دیں کہ کیا یہ امجد اسلام امجد صاحب کا ہی کلام ہے؟ اور کیا یہ کسی غزل کے مطلع کا پہلا مصرہ ہے یا کسی شعر کا مصرہ ہے؟
    میں مزید کوشش کرلوں گا۔
    اور اگر کسی اور دوست کے پاس یہ غزل ہو تو پلیززز شئیر کردیں۔ شکریہ
    :dilphool:
     
  22. ساگراج
    آف لائن

    ساگراج ممبر

    شمولیت:
    ‏31 جنوری 2008
    پیغامات:
    11,702
    موصول پسندیدگیاں:
    24
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    کہیں بے کنار سے رتجگے، کہیں زرنگار سے خواب دے!
    ترا کیا اصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا حساب دے!

    جو بچھا سکوں ترے واسطے، جو سجا سکیں ترے راستے
    مری دسترس میں ستارے رکھ، مری مٹھیوں کو گلاب دے

    یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں
    یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں، اسے آب دے کہ سراب دے!

    تجھے چھو لیا تو بھڑک اٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے
    اسی آگ میں مجھے راکھ کر، اسی شعلگی کو شباب دے

    کبھی یوں بھی ہو ترے رو برو، میں نظر ملا کے یہ کہہ سکوں
    "مری حسرتوں کو شمارکر، مری خواہشوں کا حساب دے!"

    تری اک نگاہ کے فیض سے، مری کشتِ حرف چمک اٹھے
    مرا لفظ لفظ ہو کہکشاں، مجھے ایک ایسی کتاب دے
     
  23. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    بہت خوب!
     
  24. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    [​IMG]
    [​IMG]
     
  25. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
    سکون ڈھونڈھنے نکلے تھے، وحشتیں بھی گئیں


    بہت ہی خوب بھئی۔ بہت شکریہ خوشی جی۔
     
  26. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    [​IMG]
    [​IMG]
     
  27. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
    دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے

    حشر کے دن کا غلغلہ، شہر کے بام و دَر میں تھا
    نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے

    اب کے برس بہار کی رُت بھی تھی اِنتظار کی
    لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے

    [glow=red:1s3y16dr]خوابوں کے چاند ڈھل گئے، تاروں کے دم نکل گئے
    پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے؟[/glow:1s3y16dr]
    سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
    کیسی عجیب پیاس تھی‘ کیا عجب سحاب تھے!

    عمر اسی تضاد میں رزقِ غبار ہو گئی
    جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے

    صبح ہوئی تو شہر کے شور میں یوں بِکھر گئے
    جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے

    آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
    آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے

    ساتھ وہ ایک رات کا چشم زدن کی بات تھا
    پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے

    ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
    یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے

    اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دُھل گئے
    آنکھ میں رُونما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے

    درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
    چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے​
     
  28. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دُھل گئے
    آنکھ میں رُونما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے

    خوب :a180:

    اچھی شئیرنگ ھے
     
  29. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    خوابوں کے چاند ڈھل گئے، تاروں کے دم نکل گئے
    پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے؟
    واہ واہ واہ ۔ کیا خوب ، کامل اور جامع استعمال ہے استعارات کا۔
    میں نے زندگی میں استعارات کا اتنا خوبصورت اور بھرپور استعمال بہت کم دیکھا ہے۔
    :a180: :a180: :a180:
     
  30. این آر بی
    آف لائن

    این آر بی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 جنوری 2008
    پیغامات:
    1,495
    موصول پسندیدگیاں:
    108
    Re: ذرا پھر سے کہنا۔

    بہت شکریہ جی۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں