1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از زین, ‏23 جون 2011۔

  1. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    باب 1: غلامی کا تعارف

    دور قدیم ہی سے دنیا میں انسان، اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنایا کرتے تھے۔ غلامی کے آغاز کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہے۔ انسانیت کی معلوم تاریخ میں پائے جانے والے قدیم قوانین کا مجموعہ، بابل کے بادشاہ حمورابی (1796 – 1750 BC) کے قوانین کا ہے۔ یہ قوانین اب سے کم و بیش 3800 سال پہلے بنائے گئے۔ ان قوانین کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں عام لوگوں کے علاوہ اولاد کو بھی اپنے والدین کی غلام سمجھا جاتا تھا اور اس کی خرید و فروخت کو بھی ایک نارمل بات سمجھا جاتا تھا۔

    غلامی کی تعریف

    غلامی کی متعدد تعریفات کی گئی ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

    ایک شخص کو دوسرے کی ملکیت میں مال و جائیداد کی طرح دے دیا جائے۔ (انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا)

    ایک شخص کی دوسرے پر قبضے کی ایسی حالت کہ جس میں قابض کو وہ تمام اختیارات حاصل ہو جائیں جو اسے اپنے مال و جائیداد پر حاصل ہوتے ہیں۔

    (غلامی سے متعلق کنونشن 1927، سیکشن 1، http://www.unhchr.ch )

    مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غلامی ایسی حالت کا نام ہے جس میں کوئی انسان دوسرے کے تابع ہو کر اس طرح سے زندگی بسر کرے کہ اس کے تمام فیصلوں کا اختیار اس کے آقا کے پاس ہو۔

    غلامی کا آغاز

    جب سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل دنیا کے مختلف علاقوں میں جا کر آباد ہوئی تو انہوں نے ہر جگہ مختلف معاشرے تشکیل دیے۔ غلامی کے آغاز سے پہلے یقینی طور پر وہ فضا تیار ہوئی ہو گی جس میں غلامی کا ادارہ پروان چڑھا ہو گا۔ اس فضا میں طبقاتی نظام اور انسانی عدم مساوات کے نظریوں کا قبول کیا جانا شامل ہے۔

    غلامی کے آغاز سے متعلق دو نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ ایک نظریہ تو یہ ہے کہ غلامی کا آغاز لالچ، نفرت، حقارت اور دوسروں پر غلبہ پانے کے جذبات سے ہوا۔ انہی بنیادوں پر قومیں ایک دوسرے پر حملہ کر کے ان کے افراد کو غلام بناتی رہیں۔

    دوسرا نظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز رحم کے جذبے سے ہوا تھا۔ جب جنگوں میں دشمن کے بہت سے سپاہی قیدی بنائے گئے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ان کا کیا کیا جائے؟ ایک نقطہ نظر تو سامنے یہ آیا کہ انہیں تہہ تیغ کر دیا جائے۔ اس کے جواب میں دوسرا نقطہ نظر یہ پیش ہوا کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ غلام بنا لیا جائے۔ تیسری صورت انہیں آزاد کر دینے کی تھی لیکن اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کہیں دوبارہ تیاری کر کے حملہ آور نہ ہو جائیں، اس وجہ سے غلامی کو ترجیح دی گئی۔

    ممکن ہے کہ دونوں نظریات ہی درست ہوں۔ کسی ایک قوم نے لالچ، نفرت اور غلبے کی بنیاد پر غلامی کا آغاز کیا ہو اور دوسری قوم نے رحم دلی کے جذبے کے تحت غلامی کا آغاز کیا ہو۔ بہرحال یہ طے ہے کہ غلامی کو جب ایک مرتبہ قابل قبول سمجھ لیا گیا تو اس کے بعد اس کی ایسی ایسی خوفناک شکلیں وجود میں آئیں جن کے تذکرے سے انسانیت کی روح کانپ اٹھتی ہے۔

    غلامی کی اقسام

    غلامی کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں: ایک جسمانی و قانونی غلامی اور دوسری ذہنی غلامی۔ جب ایک انسان مختلف ذرائع سے دوسرے کے جسم پر کنٹرول حاصل کر کے اسے اپنا قیدی بنا لے تو یہ جسمانی غلامی کہلاتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی کسی کو اغوا کر کے یا جنگ میں قید کر کے اپنا غلام بنا لے۔ اس کے برعکس جب کوئی شخص نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے اپنا ذہنی غلام بنا لے تو اسے نفسیاتی غلامی کہا جاتا ہے۔

    غلامی خواہ کسی بھی قسم کی ہو، غلامی ہی ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں ایک انسان دوسرے کا محتاج ہو جایا کرتا ہے۔ اس کتاب میں ہم ان دونوں قسم کی غلامی پر بحث کریں گے۔

    غلامی کے درجوں میں فرق ہوتا ہے۔ جسمانی غلامی بسا اوقات مکمل غلامی ہوتی ہے جس میں ایک شخص دوسرے کا مکمل غلام ہوتا ہے۔ آقا کو اپنے غلام پر ہر قسم کے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ وہ چاہے تو اپنے غلام کو قتل کر سکتا ہے، چاہے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ سکتا ہے اور چاہے تو اس کا جنسی استحصال کر سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ غلامی صرف چند پہلوؤں سے غلامی ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل جاگیردارانہ دور کی مزارعت ہے جس میں جاگیردار کو اپنے مزارعوں پر بہت سے حقوق حاصل ہوا کرتے ہیں۔

    بالکل اسی طرح نفسیاتی غلامی کے بھی مختلف درجے ہیں۔ کبھی تو ایک شخص دوسرے سے ایک حد تک ہی متاثر ہوتا ہے اور بعض معاملات میں اپنے نفسیاتی آقا کی پیروی کرتا ہے اور کبھی وہ اس کا مکمل غلام بن کر اس کے اشارہ ابرو پر اپنی جان بھی قربان کر دیا کرتا ہے۔

    غلاموں میں اضافے اور کمی کا طریق کار

    دنیا بھر کے مختلف معاشروں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو غلام بنائے جانے کے یہ طریقے معلوم ہوتے ہیں:

    · بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔

    · اگر کسی کو کوئی لاوارث بچہ یا لاوارث شخص ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔

    · کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام شہریوں کو غلام بنا لیا جائے۔

    · کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔

    · جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین جنگی قیدیوں کو غلام بنا دیں۔

    · قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔

    · پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔

    · غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔

    · پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کسی کو نفسیاتی غلام بنا لیا جائے۔

    · اگر کسی معاشرے میں ان طریقوں سے بنائے جانے والے غلاموں کی تعداد کم پڑ جاتی تو وہ معاشرہ کسی اور ملک سے غلام خرید کر اپنے غلاموں میں اضافہ کر سکتا تھا۔

    کسی معاشرے میں غلاموں کی تعداد میں کمی کی یہ صورتیں پائی جاتی تھیں۔

    · غلام کو اس کا آقا اپنی مرضی سے آزاد کر دے۔

    · حکومت کسی غلام کو آزاد قرار دے دے۔

    · غلاموں کو کسی دوسرے ملک میں لے جا کر بیچ دیا جائے۔

    · غلاموں کی آئندہ آنے والی نسل کو آزاد قرار دے دیا جائے۔

    · نفسیاتی غلام کسی طریقے سے اپنے آقا کی ذہنی غلامی سے نکل آئے۔ اس کی تفصیل ہم باب 19-20 میں بیان کریں گے۔

    غلامی کی بنیادی وجوہات

    اگر پوری انسانی تاریخ میں غلامی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کی بنیادی طور پر تین وجوہات ہوا کرتی ہیں: غربت، جنگ، اور جہالت۔

    · غربت کو اگر غلامی کی ماں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ غربت کے باعث بہت سے انسانوں کو بنیادی ضروریات کے حصول کے لئے دوسروں کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ دنیا کے بہت سے معاشروں میں یہ رواج رہا ہے کہ امراء، غریبوں کو ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے سود پر قرض دیا کرتے تھے اور ان کی عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں اپنا غلام بنا لیا کرتے تھے۔

    · غلامی کی دوسری بڑی وجہ جنگ ہے۔ معلوم انسانی تاریخ میں طاقتور قومیں کمزور اقوام پر حملہ کر کے انہیں اپنا غلام بناتی رہی ہیں۔ بسا اوقات یہ سلسلہ محض قوموں کی غلامی تک محدود رہا کرتا تھا اور بعض اوقات مفتوح قوم کے ایک ایک فرد کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔

    · جسمانی غلامی کی تیسری وجہ جہالت ہے۔ یہ نفسیاتی غلامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کم تعلیم یافتہ اور ناخواندہ افراد کو طالع آزما اور استحصال کے شوقین افراد پروپیگنڈہ اور برین واشنگ کے ذریعے اپنا نفسیاتی غلام بنا لیا کرتے تھے۔ بہت مرتبہ یہی نفسیاتی غلامی آگے چل کر جسمانی غلامی میں تبدیل ہو جایا کرتی تھی۔

    دور غلامی اور آسمانی مذاہب

    دور غلامی قدیم زمانے سے لے کر بیسویں صدی عیسوی تک چلا ہے۔ اسی دور میں اللہ تعالی نے اپنی ہدایت اپنے انبیاء و رسل کے ذریعے انسانیت کو دی ہے۔ یہ ہدایت پہلے سیدنا ابراہیم، اسحاق اور اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کے ذریعے اخلاقی طور پر جاری کی گئی۔ جب سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آسمانی ہدایت کو ایک اجتماعی نظام کی صورت میں رائج کیا گیا تو اس کے قوانین کو تورات کی صورت میں لکھ کر دے دیا گیا۔ یہ اجتماعی نظام سیدنا موسی سے لے کر سیدنا داؤد و سلیمان علیہم الصلوۃ والسلام تک اپنی اصل شکل میں رائج رہا۔

    بعد کے ادوار میں ان انبیاء کے پیروکار اپنے اصل دین سے دور ہوتے چلے گئے اور ان کا اجتماعی نظام اس صورت میں قائم نہ رہا جس صورت میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے رائج کیا تھا۔ ان کے دنیا پرست حکمرانوں اور شکم پرست مذہبی راہنماؤں نے آسمانی ہدایت میں تحریف کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اس قوم میں اچھے اور خوف خدا رکھنے والے لوگوں کی کمی نہ تھی لیکن یہ حضرات تورات کے اصل نظام کو رائج کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔

    بنی اسرائیل کی سیاسی و مذہبی قیادت کے اس اخلاقی انحطاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر غلامی کا عذاب مسلط کیا گیا اور پہلے ایران اور پھر روم کی سلطنتوں نے انہیں کثیر تعداد میں غلام بنا کر دنیا بھر میں جلا وطن کیا۔ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کی طرف پے در پے نبی بھیجے اور ان پر آخری حجت سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے تمام کر دی۔

    دوسری طرف اولاد ابراہیم کی دوسری شاخ بنی اسرائیل میں اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ کو آخری آسمانی ہدایت "قرآن" کی شکل میں دی گئی جس کی تعلیمات کی بنیاد پر آپ نے بالکل سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی طرز پر ایک اجتماعی نظام قائم کر دیا۔ اس نظام کی تفصیلات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کے ذخیرے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل میں سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ "میں بنی اسرائیل کے بھائیوں (یعنی میں بنی اسماعیل میں) تمہاری مانند ایک رسول برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔"

    یہ نظام اپنی اصل شکل میں ساٹھ ستر سال تک قائم رہا۔ اس کے بعد اس میں بھی خرابیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان کوششوں کی بدولت قرآن مجید کی ہدایت کو مسخ تو نہ کیا جا سکا لیکن عملی طور پر اس سے انحراف بہرحال موجود رہا۔

    آسمانی ہدایت خواہ وہ تورات و انجیل کی شکل میں ہو یا قرآن مجید کی شکل میں، اس میں "عدل" اور "مساوات انسانی" کو بنیادی اقدار قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی کی دی گئی ہدایت اسی کے فرستادہ رسولوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ اس ہدایت کی بنیاد پر معلوم تاریخ انسانی میں دو مرتبہ خدائی اجتماعی نظام بھی اپنی اصل شکل میں موجود رہا ہے۔

    بچپن ہی سے میرے ذہن میں یہ سوال بار بار پیدا ہوتا تھا کہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالی ایک طرف تو "عدل" اور "مساوات" کی تلقین کرے اور دوسری طرف وہ انسانوں کو غلام بنائے رکھنے کو بھی قبول کر لے۔ ایسا تضاد کسی انسانی قانون میں تو ممکن ہے لیکن اللہ تعالی کی شریعت میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اسی جذبے کے پیش نظر میں نے اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت کا کھلے ذہن سے تفصیلی مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے جو نتائج نکلے وہ اس کتاب کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔

    غلامی پر ریسرچ کا طریق کار اور اس کے بنیادی اصول

    اس موضوع پر مسلمانوں کے اہل علم کے ہاں بہت ہی کم مواد موجود ہے۔ زیادہ تر غیر مسلم اسکالرز نے اس ضمن میں کوششیں کی ہیں۔ میں نے ان کی کاوشوں کا تفصیلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ میرے نزدیک ان اسکالرز کی تحقیق میں ایک بنیادی غلطی موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ "اسلام اور غلامی" کے موضوع پر بات کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے لے کر آج تک کے مسلمانوں کا عمل ان کے نزدیک "اسلام" ہوتا ہے۔ اس طریق کار کی بدولت مسلمانوں کا ہر عمل خواہ وہ اسلام کی تعلیمات کے بالکل خلاف ہی کیوں نہ ہو، "اسلام" قرار پاتی ہے۔

    یہ طریق کار بالکل غلط ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی یورپ یا امریکا کے حکمرانوں کی غلطیوں کو لے اور اس کی بنیاد پر عیسائیت پر الزامات عائد کرنے لگے یا روس کے لینن یا اسٹالن کے مظالم کو لے کر اس کی بنیاد پر کارل مارکس کو مطعون کرنے لگے۔ ظاہر ہے یہ طریق غیر علمی ہے۔ کسی بھی مذہب یا فلسفے میں کسی خامی کی نشاندہی کا درست طریقہ یہ ہے کہ اس مذہب یا فلسفے کے اصل مآخذ کو بنیاد بنایا جائے۔ اس کے علاوہ اس مذہب کے بانی اور ان کے قریبی اور مخلص پیروکاروں کے عمل کو دیکھا جائے۔ اس عمل کو دیکھنے کے لئے مستند تاریخ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر کسی مذہب کی مستند تاریخ موجود نہ ہو تو اس کے بارے میں اچھی یا بری کوئی رائے قائم کر لینا ایک غیر علمی رویہ ہے۔

    آسمانی ہدایت کے بارے میں اگر کوئی رائے قائم کرنا مقصود ہو تو اس کے لئے یہ ماخذ دیکھنا ہوں گے۔

    · تورات، زبور یا انجیل جو اب بائبل مقدس کی صورت میں موجود ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اس کتاب میں مذہبی راہنماؤں نے تصرفات اور تبدیلیاں کی ہیں۔ اس وجہ سے ان کتب کے مواد کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔

    · قرآن مجید کے بارے میں تاریخی طور پر یہ تو متعین ہے کہ یہ صد فیصد وہی کتاب ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی قوم کے سامنے کلام الہی کی حیثیت سے پیش کی تھی۔ اس کتاب کے متن میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے البتہ اس کی متعدد تشریحات (Interpretations) کی گئی ہیں جن میں کسی حد تک اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان میں درست تشریح کا انتخاب بہت ضروری ہے۔

    · احادیث و آثار، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تاریخی ریکارڈ ہے۔ اگرچہ بعد کے ادوار میں اس ذخیرے میں بہت سی جعلی احادیث کی ملاوٹ بھی کی گئی ہے۔ محدثین کی عظیم کاوشوں کے نتیجے میں ایسے طریق کار وجود میں آ گئے ہیں جن کی بدولت اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ صرف اور صرف صحیح حدیث کی بنیاد پر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

    · صحیح طریق کار یہ ہے کہ وہ بائبل کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالی کی دی گئی ہدایت کا آخری ورژن ہے اور اس کا متن ہر قسم کی تحریفات سے پاک ہے۔ اگرچہ اس طریقے پر وہی لوگ عمل درآمد کر سکتے ہیں جو قرآن مجید کو اللہ تعالی کی آسمانی ہدایت کا آخری ورژن مانتے ہیں۔

    · احادیث کے بارے میں بھی محدثین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی حدیث کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ قرآن مجید اور دیگر صحیح احادیث کے مخالف مفہوم پیش نہ کر رہی ہو۔ (دیکھیے خطیب بغدادی کی الکفایہ فی علم الروایۃ اور جلال الدین سیوطی کی تدریب الراوی)

    · اسلام اور غلامی کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے کچھ ایسے مزید ذرائع ہیں جن سے استفادہ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس ضمن میں اہم ترین مواد ان کتب میں موجود ہے۔ اس ضمن میں راہنما اصول یہ ہیں:

    · تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمانوں کے ہاں تاریخ کو کافی مسخ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ شروع کی صدیوں میں مسلمانوں کے اندر ایسے فرقے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے نظریے کو تقویت دینے کے لئے تاریخی روایات کو گھڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بعد کے ادوار میں جب مورخین نے ان روایات کو اکٹھا کیا تو انہوں نے سچی جھوٹی ہر قسم کی تاریخی روایات کو اپنی کتب میں لکھ دیا۔ انہوں نے ایسا کرتے ہوئے ہر روایت کی سند بھی بیان کر دی تاکہ بعد کا کوئی بھی محقق ان روایات کی چھان بین کرنا چاہے تو کر لے۔ اصلی اور جعلی تاریخی روایات میں فرق کرنا بہت ضروری ہے۔

    · فن رجال کی کتب کا مطالعہ اسلام اور غلامی کی بحث میں نہایت ہی مفید ہے۔ ایسے افراد جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کی روایات کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں اپنا کردار ادا کیا، ان کے حالات زندگی فن رجال کی کتب میں ملتے ہیں۔ ان میں سے بہت بڑی تعداد غلاموں اور آزاد کردہ غلاموں کی تھی۔ ان کے حالات زندگی کے مطالعے سے صحابہ و تابعین کے ہاں غلامی کی صورتحال پر نہایت ہی مفید معلومات میسر آتی ہیں۔

    · بعد کی صدیوں میں غلامی کی صورتحال جاننے کے لئے مسلم علماء کی کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ ان میں فتاوی کی کتب میں مختلف ادوار میں غلاموں کی فقہی و قانونی حیثیت کا علم ہوتا ہے۔ حسبہ یعنی محکمہ احتساب سے متعلق علماء کی کتب میں غلاموں سے متعلق حکومتی اصلاحات کی تفصیل ملتی ہے۔ مسلمانوں کے سماجی مصلحین کی کتب سے ان کے دور میں غلاموں کی سماجی حالت کا علم ہوتا ہے۔

    · اسلام اور غلامی کے حوالے سے غیر مسلم مصنفین بالخصوص مستشرقین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ متعصب مصنفین کو چھوڑ کر ان میں سے بہت سے غیر متعصب اسکالرز نے اس موضوع پر قابل قدر کام کیا ہے۔ ان حضرات کی کتب میں اس موضوع کے ایسے ایسے پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے جو موجودہ دور کے مسلم علماء کے وہم و گمان میں بھی موجود نہ تھے۔ اس موضوع پر تحقیق کے لئے ان غیر متعصب مغربی اسکالرز کی کتب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

    میں نے کوشش کی ہے کہ اس کتاب کی تیاری میں جہاں تک ممکن ہو، ان تمام وسائل سے استفادہ کیا جائے۔ آپ سے گذارش ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت کھلے ذہن سے اللہ تعالی کی آسمانی ہدایت کا مطالعہ کیجیے اور میرے استدلال میں کہیں کوئی کوتاہی رہ گئی ہو تو اس سے مطلع فرما کر ممنون کریں۔

    کتاب کی ترتیب

    اس کتاب کو بنیادی طور پر چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ صرف ایک باب پر مشتمل ہے جو اس موضوع اور کتاب کے تعارف سے متعلق ہے۔

    دوسرے حصے میں اسلام سے پہلے دنیا میں غلامی کی حالت پر بحث کی گئی ہے۔ یہ حصہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ اس میں ایران، یونان، قدیم مصر، ہندوستان، چین، قدیم اسرائیل، روم اور عرب میں غلامی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ قدیم اسرائیل میں غلامی کا مطالعہ اس وجہ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں غلامی سے متعلق تورات کی اصلاحات زیر بحث آئی ہیں۔ سلطنت روم کا مطالعہ اس وجہ سے زیادہ اہم ہے کہ اس میں غلامی کے ادارے پر عیسائیت کے اثرات زیر بحث آئے ہیں۔ عرب میں غلامی کا مطالعہ اس وجہ سے نہایت ہے اہم ہے کہ اس کے مطالعے سے ہی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی اصلاحات سے پہلے عرب میں غلامی کی کیا صورت رائج تھی۔

    تیسرا حصہ سات ابواب پر مشتمل ہے جس میں غلامی سے متعلق اسلام کی اصلاحات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان اصلاحات میں غلاموں کی آزادی کی تحریک، پہلے سے موجودہ غلاموں سے متعلق اصلاحات اور نئے غلام بنائے جانے پر پابندیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اس ضمن میں دو مباحث چونکہ نہایت ہی حساس تھے، اس وجہ سے ان پر علیحدہ باب قائم کئے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک لونڈیوں سے متعلق اسلام کی اصلاحات سے متعلق ہے اور دوسرا جنگی قیدیوں سے متعلق۔ اس حصے میں غلامی کے ادارے پر اسلام کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک باب اسلام اور نفسیاتی آزادی سے متعلق قائم کیا گیا ہے۔

    کتاب کا چوتھا حصہ تین ابواب پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں اس دور میں مسلم ممالک میں جسمانی و نفسیاتی غلامی کا جائزہ لیا گیا ہے جب مسلمان بالعموم اپنے دین کی تعلیمات سے دور ہو چکے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی ہم عصر مغربی تہذیب میں غلامی کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ ان عوامل کی تفصیل سامنے آ سکے جن کے نتیجے میں مغربی دنیا میں غلامی کے خلاف تحریک پیدا ہوئی۔ اس کے آخر میں مسلم اور یورپی تہذیب میں غلامی کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔

    پانچواں حصہ غلامی اور موجودہ دور سے متعلق ہے۔ یہ حصہ چار ابواب پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں غلامی کے خاتمے کی عالمی تحریک کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں غلامی کی صورتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حصے کے آخری دو ابواب نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان میں موجودہ دور میں موجود نفسیاتی غلامی اور اس کے علاج پر بحث کی گئی ہے۔

    کتاب کا چھٹا اور آخری حصہ اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات سے متعلق ہے۔ اس حصے میں دو ابواب ہیں۔ پہلا باب، اسلام اور غلامی کے تعلق کے حوالے سے فلسفیانہ اور تاریخی نوعیت کے سوالات پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں فقہی اور قانونی معاملات زیر بحث آئے ہیں جن میں ہم نے اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
     
  2. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    حصہ دوم: زمانہ قبل از اسلام میں غلامی کی تاریخ

    باب 2: ایران، یونان، چین، مصر اور ہندوستان میں غلامی

    دور قدیم ہی سے غلامی کم و بیش تمام معاشروں میں موجود رہی ہے۔ کچھ معاشروں میں غلاموں سے متعلق قوانین اور ان کی حالت دیگر معاشروں سے بہتر رہی ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ غلامی بہرحال ہر معاشرتی نظام کا ایک اہم ادارہ رہی ہے۔ قدیم مصر، چین، ہندوستان، ایران اور بحیرہ روم کے ممالک میں غلاموں کے موجود ہونے کا سراغ ملتا ہے۔

    دور غلامی کی کچھ تفصیلات ہم دل پر پتھر رکھ کر یہاں بیان کر رہے ہیں۔ یہ تفصیلات انسان پر انسان کے ظلم کی ایسی بھیانک تصویر پیش کرتی ہیں کہ کلیجہ شق ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ تفصیلات صرف اور صرف دستیاب معلومات کی بنیاد پر ہیں۔ ممکن ہے کہ حقیقت ان سے مختلف ہو۔ اگر تاریخ کے کوئی محقق ان تفصیلات کو غلط ثابت کر سکیں تو سب سے زیادہ خوشی ہمیں ہو گی۔ مختلف تاریخی شخصیتوں کے زمانے کے اندازے بھی، جو دستیاب ہیں پیش کر دیے گئے ہیں۔ اگر یہ بالکل درست نہ بھی ہوں، تب بھی ان سے کم از کم اس شخصیت کے زمانے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

    ہم یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ان تفصیلات کے بیان کا مقصد کسی قوم یا مذہب کی مذمت یا دل آزاری نہیں ہے۔ ان تفصیلات کو محض ایک علمی تحقیق کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی قوم یا مذہب سے تعلق رکھنے والے کوئی صاحب انہیں دلائل کی بنیاد پر غلط قرار دے سکیں تو ہمیں حق بات کو قبول کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ ہو گی۔

    ایران بشمول عراق

    بابل کے بادشاہ حمورابی (1796 – 1750 BC) کے قوانین پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے ملے ہیں۔ آثار قدیمہ اور قدیم زبانوں کے ماہر ایل ڈبلیو کنگ نے ان قوانین کا ترجمہ کیا ہے جو کہ انٹرنیٹ پر پر دستیاب ہے۔ ان کے لنک http://www.wsu.edu اور http://eawc.evansville.edu ہیں۔

    ان قوانین کے مطالعے سے ہم یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں:

    · بابل کے معاشرے میں غلاموں کی حیثیت بھی وہی تھی جو بے جان مال و اسباب اور جائیداد کی ہوا کرتی ہے۔ (قانون نمبر 7, 15-20, 116)

    · زیادہ تر قوانین کا تعلق غلاموں کے مالکوں کے حقوق سے متعلق ہے۔ غلاموں کے حقوق سے متعلق کچھ زیادہ تفصیلات ہمیں ان قوانین میں نہیں ملتیں۔ (قانون نمبر 7, 15-20, 116, 278-280 )

    · اولاد کی حیثیت بھی والدین کے غلام ہی کی ہوا کرتی تھی اور والدین کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنی اولاد کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیں۔ (قانون نمبر 7)

    · غلاموں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔ (قانون نمبر 118)

    · لونڈیوں سے ازدواجی تعلقات رکھے جاتے تھے۔ اگر لونڈی کے مالک کا اس لونڈی سے بچہ پیدا ہو جاتا تو وہ لونڈی ناقابل فروخت تصور کی جاتی تھی۔ اس لونڈی کو کچھ حالات میں آزادی بھی عطا کر دی جاتی تھی۔ اس لونڈی کا درجہ کسی حد تک بیوی کے برابر ہو جاتا تھا لیکن مالک اگر چاہتا تو اسے نوکرانی بنا کر رکھ سکتا تھا۔ آقا کے مرنے کے بعد وہ لونڈی اور اس کے بچے آزاد ہو جایا کرتے تھے۔ (قانون نمبر 119, 146, 171)

    · بابل کے تمام عوام کو بادشاہ کا غلام سمجھا جاتا تھا اور بادشاہ کو انہیں سزا دینے یا جرائم کے باوجود معاف کر دینے کا حق حاصل تھا۔ (قانون نمبر 129)

    · بہت سے غلام براہ راست ریاست کی ملکیت بھی ہوا کرتے تھے۔ (قانون نمبر 175)

    · اگر کوئی غلام کسی آزاد شخص کی بیٹی سے شادی کر لیتا تو اس کے بچوں کو آزاد قرار دیا جاتا تھا۔ (قانون نمبر 175)

    · غلام کی آنکھ نکال دینے یا اس کی ہڈی کو توڑ دینے پر اس کے مالک کو غلام کی نصف قیمت ادا کرنا ضروری تھا۔ قانون میں یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کرنے والے کے لئے قصاص کی سزا مقرر تھی یا نہیں۔ (قانون نمبر 199)

    · اگر غلام کسی آزاد شخص کو مار بیٹھتا تو اس کی پاداش میں اس کا کان کاٹ دیا جائے۔ (قانون نمبر 205)

    · طبی معالج کے لئے آزاد شخص کے علاج کا معاوضہ پانچ شیکل (ان کی کرنسی) اور غلام کے علاج کو معاوضہ دو شیکل تھا۔ (قانون نمبر 223)

    · اگر میڈیکل آپریشن کے دوران غلام مر جاتا تو معالج کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس کے بدلے دوسرا غلام مالک کو دے۔ (قانون نمبر 219)

    · غلاموں کو ممیز کرنے کے لئے ان کے جسم پر جراحی کے ذریعے کچھ علامتیں کھود دی جاتی تھیں۔ یہ کام ان کے حجام سر انجام دیا کرتے جو جراحت کے ماہر ہوتے۔ ان علامتوں کو کاٹنے یا توڑنے والے شخص کی سزا یہ مقرر کی گئی کہ اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ (قانون نمبر 226)

    · کسی دوسرے شخص کے غلام کو قتل کرنے کی سزا اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ اس کے بدلے میں مالک کو دوسرا غلام دے دے۔ (قانون نمبر 231)

    · اگر غلام یہ دعوی کرتا کہ فلاں اس کا مالک نہیں ہے اور دعوی غلط ثابت ہو جاتا تو غلام کا کان کاٹ دیا جاتا۔ (قانون نمبر 282)

    غلامی سے متعلق سائرس اعظم کی اصلاحات

    بعد کے ادوار میں ایران میں سائرس اعظم (590 – 530BC) کا دور ایرانی سلطنت کا روشن ترین دور سمجھا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سائرس نے غلامی کے خاتمے کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔ انہوں نے کثیر تعداد میں اسرائیلی غلاموں کو آزاد کیا اور انہیں اپنے وطن واپس جا کر آباد ہونے کی اجازت دی۔ مسلم محققین کا خیال ہے کہ یہ سائرس ہی ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں "ذوالقرنین" کے لقب آیا ہے۔

    قدیم یونان

    قدیم یونانی معاشرے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں جمہوری نظام قائم کیا تھا۔ اس جمہوری معاشرے میں بھی غلامی نہ صرف موجود تھی بلکہ اس کی جڑیں معاشرتی نظام میں بہت گہری تھیں۔ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ہندو مورخ کے ایس لال لکھتے ہیں:

    قدیم یونانی معاشرہ تین طبقات میں منقسم تھا۔ (سب سے اوپر) یونان کے وہ شہری تھے جو آزاد پیدا ہوئے تھے۔ انہیں تمام حقوق حاصل تھے اور یہ لوگ سیاست میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ دوسرا طبقہ پیریاسی (perioeci) تھا جو کہ غیر ملکیوں پر مشتمل تھا۔ انہیں سیاسی حقوق حاصل نہ تھے البتہ ان کی حالت غلاموں سے بہتر تھی کیونکہ یہ لوگ بعض اوقات معاشی اور فوجی معاملات چلایا کرتے تھے۔

    تیسرا طبقہ ہیلوٹس کا تھا جو غلاموں پر مشتمل تھا۔ یونان میں بہت سے لوگوں کے پاس اپنی زمین نہ تھی اور (مزارعت پر کاشت کرنے کی وجہ سے) انہیں اپنی فصل کا بڑا حصہ جاگیر داروں کو دینا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ قرض لینے پر مجبور ہوتے اور سوائے اپنے جسم و جان کے ان کے پاس کوئی چیز رہن رکھنے کے لئے نہ ہوا کرتی تھی۔ ان لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک وقت میں ایتھنز شہر میں محض 2100 شہری اور 460,000 غلام موجود تھے۔

    ہر آقا کے پاس کثیر تعداد میں مرد و عورت غلام ہوا کرتے تھے۔ مرد غلام کانوں اور کھیتوں میں کام کرتے جبکہ خواتین گھروں میں کام کرتیں۔ غلاموں کو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے سب کچھ کرنا پڑتا تھا۔ پہلے عبرانیوں کے ہاں اور پھر یونانیوں میں غلاموں سے نہایت ہی سخت برتاؤ رکھا جاتا تھا۔ یونان کی تمام شہری ریاستوں میں معاملہ ایک جیسا نہ تھا۔ ایتھنز میں غلاموں سے کچھ نرمی برتی جاتی جبکہ سپارٹا میں ان سے نہایت سخت سلوک کیا جاتا لیکن عمومی طور پر غلام بالکل ہی بے آسرا تھے۔

    ڈریکو کے آئین (621 BC) اور سولون کے قوانین سے غلاموں کی حالت کچھ بہتر ہوئی۔ انہیں (افراد کی بجائے) ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا اور کچھ بنیادی حقوق بھی فراہم کیے گئے۔ سوائے ریاست کے اب انہیں کوئی اور موت کی سزا نہ دے سکتا تھا۔ بہرحال یہ غلام ہی تھے جنہوں نے (اپنی محنت و مشقت کے باعث) یونانیوں کو سیاست کرنے اور سیاسی فلسفے ایجاد کرنے کا وقت فراہم کیا جس کی بدولت یونانی پوری دنیا میں مشہور ہوئے۔ (Muslim Slave System, Chapter I)

    یونانی قوانین میں غلاموں کے مختلف طبقات مقرر کیے گئے تھے۔ ان میں سے ہر طبقے کے حقوق و فرائض ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ وکی پیڈیا کے مقالہ نگاروں نے اپنی تحریر "قدیم یونان میں غلامی (Slavery in Ancient Greek)" میں ان کی کچھ تفصیل بیان کی ہے۔

    · ایتھنز کے غلاموں کو اپنے مالک کی جائیداد سمجھا جاتا تھا۔

    · غلام کو شادی کرنے کی اجازت تھی لیکن قانون کی نظر میں "غلام خاندان" کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ مالک جب چاہتا وہ غلام کے بیوی بچوں کو اس سے الگ کر سکتا تھا۔

    · غلاموں کے قانونی حقوق عام شہریوں کی نسبت بہت کم تھے اور غلاموں کو عدالتی معاملات اپنے آقاؤں کے توسط سے ہی کرنا پڑتے تھے۔

    · قانونی تفتیش کے علاوہ غلاموں پر بالعموم تشدد نہ کیا جاتا تھا۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے غلام پر تشدد کرتا تو اس کا آقا جرمانہ وصول کر سکتا تھا۔ اگر کوئی شخص اپنے غلام پر ظلم کرتا تو کوئی بھی آزاد شہری اس معاملے کو عدالت تک لے جا سکتا تھا۔ سقراط کے بقول، ادنی ترین غلام کو بھی سوائے قانونی تفتیش کے موت کی سزا نہ دی جا سکتی تھی۔

    · ڈریکو کا آئین، جو کہ ایتھنز کا پہلا تحریری آئین مانا جاتا ہے، میں غلام کے قتل کی سزا بھی موت ہی مقرر کی گئی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اگر غلاموں کو بکثرت قتل کر دیا گیا تو یہ معاشرے کے لئے نقصان دہ ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے کے غلاموں کو مارنے لگیں گے۔ بہرحال اس آئین کو یہ کریڈٹ دینا پڑے گا کہ اس نے بہرحال غلام اور جانور میں فرق کیا ہے۔

    · ایتھنز میں غلاموں سے بہتر سلوک کیا جاتا۔ نئے غلام کا استقبال پھلوں وغیرہ سے کیا جاتا۔ غلاموں کو اپنے آقاؤں کے دیوتاؤں کی عبادت کی اجازت بھی ہوتی۔

    · ایتھنز میں غلاموں کو الگ سے مال رکھنے کی اجازت نہ تھی لیکن وہ مالک سے آزادی خریدنے کے لئے مال جمع کر سکتے تھے۔

    · ایتھنز میں غلاموں کو اپنے مالکوں کی طرح کسی آزاد لڑکے سے ہم جنس پرستانہ تعلقات رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں پچاس کوڑے کی سزا دی جاتی۔

    · مالکوں کو اس کی اجازت تھی کہ وہ اپنے غلاموں سے ہم جنس پرستانہ تعلقات قائم کر سکیں۔

    · غلاموں کو آزاد کرنے کی روایت موجود تھی۔ آزادی کے بعد کسی کو دوبارہ غلام نہ بنایا جا سکتا تھا۔ بعض غلاموں کو اس بات کی اجازت بھی دی گئی کہ وہ اپنے مالک کو ایک طے شدہ معاوضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا الگ کاروبار کر سکیں۔

    چین اور کنفیوشن ممالک

    چین میں بھی دور قدیم میں غلامی موجود رہی ہے۔ چونکہ تاریخ کے تمام ادوار میں چین ایک زیادہ آبادی والا خطہ رہا ہے اس وجہ سے یہاں غلامی اور نیم غلامی کی مختلف صورتیں موجود رہی ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مقالہ نگار کے الفاظ میں:

    چین میں غلامی شانگ خاندان (اٹھارہویں سے بارہویں صدی قبل مسیح) کے دور سے موجود رہی ہے۔ تفصیلی تحقیق کے مطابق ہان خاندان (206BC – 220CE) کے دور میں چین کی کم و بیش پانچ فیصد آبادی غلاموں پر مشتمل تھی۔ غلامی بیسویں صدی عیسوی تک چینی معاشرے کا حصہ رہی ہے۔ زیادہ تر عرصے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بھی غلام انہی طریقوں سے بنائے جاتے تھے جن طریقوں سے دنیا کے دوسرے حصوں میں غلام بنائے جاتے تھے۔ ان میں جنگی قیدی، آبادی پر حملہ کر کے انہیں غلام بنانا اور مقروض لوگوں کو غلام بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ چین میں قرضوں کی ادائیگی یا خوراک کی کمی کے باعث اپنے آپ کو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بیچ ڈالنے کا رواج بھی رہا ہے۔ جرائم میں ملوث مجرموں کے قریبی رشتہ داروں کو بھی غلام بنا لیا جاتا۔ بعض ادوار میں اغوا کر کے غلام بنانے کا سلسلہ بھی رائج رہا ہے۔

    http://www.britannica.com/eb/article-24156/slavery

    چین روم کی طرح مکمل طور پر ایک غلام معاشرہ نہیں بن سکا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے عام طور پر سستے کارکن موجود رہے ہیں۔ بعض غلاموں سے اچھا سلوک بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں بہت سے انسانی حقوق حاصل نہ رہے ہیں۔

    کنفیوشس (551 – 479BC) کے فلسفے اور اخلاقیات پر یقین رکھنے والے دیگر ممالک جیسے مشرقی چین، جاپان اور کوریا میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ اسمتھ کے مطابق ابتدائی طور صرف حکومت کو غلام بنانے کی اجازت دی گئی جو کہ جنگی قیدیوں اور دیگر مجرموں کو غلام بنانے تک محدود تھی۔ کچھ عرصے بعد پرائیویٹ غلامی اور جاگیردارانہ مزدوری کا نظام بھی آہستہ آہستہ پیدا ہو گیا۔

    قدیم مصر

    مصر میں بھی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح غلامی موجود رہی ہے۔ مصری قوانین کے تحت پوری رعایا کو فرعون کا نہ صرف غلام سمجھا جاتا تھا بلکہ ان سے فرعون کی عبادت کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اہرام مصر کی تعمیر سے متعلق جو تفصیلات ہمیں ملتی ہیں، ان کے مطابق اہرام کی تعمیر ہزاروں کی تعداد میں غلاموں نے کی تھی۔ کئی کئی ٹن وزنی پتھر اٹھانے کے دوران بہت سے غلام حادثات کا شکار بھی ہوئے تھے۔

    مصر میں زیادہ تر غلام دریائے نیل کی وادی اور ڈیلٹا کے علاقوں میں موجود تھے اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ بہت سے غلام مندروں سے وابستہ ہوا کرتے تھے۔ غلاموں کے ساتھ عام طور پر اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ یہاں سرکاری غلاموں کا طبقہ بھی موجود تھا جو سرکاری ملازمتیں سرانجام دیا کرتا تھا۔ یہ غلام نسبتاً بہتر حالت میں موجود تھے۔

    (دیکھیے http://nefertiti.iwebland.com/timelines/topics/slavery.htm )

    مصر میں چوری جیسے جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنانے کے رواج کا ذکر قرآن مجید کی سورہ یوسف میں ہوا ہے۔ یہاں یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ایسے شخص کو ساری عمر کے لئے غلام بنا دیا جاتا تھا یا پھر کچھ مخصوص مدت کے لئے ایسا کیا جاتا تھا۔

    مصر میں غربت کے باعث لوگوں میں خود کو فروخت کر دینے کا رجحان بھی موجود تھا۔ مصر کی تاریخ میں سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام وہ پہلے ایڈمنسٹریٹر تھے جنہوں نے اس رواج کو ختم کرتے ہوئے کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی عطا کی۔ حافظ ابن کثیر اہل کتاب کے علماء کے حوالے سے لکھتے ہیں:

    وعند أهل الكتاب أن يوسف باع أهل مصر وغيرهم من الطعام الذي كان تحت يده بأموالهم كلها من الذهب والفضة والعقار والأثاث وما يملكونه كله، حتى باعهم بأنفسهم فصاروا أرقاء. ثم أطلق لهم أرضهم، وأعتق رقابهم، على أن يعملوا ويكون خمس ما يشتغلون من زرعهم وثمارهم للملك، فصارت سنة أهل مصر بعده. (ابن کثير؛ قصص الانبياء)

    اہل کتاب کے علم کے مطابق سیدنا یوسف علیہ السلام نے اہل مصر اور دیگر لوگوں کو سونا، چاندی، زمین اور دیگر اثاثوں کے بدلے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کیں۔ جب ان کے پاس کچھ نہ رہا تو انہوں نے خود کو ہی بیچ دیا اور غلام بن گئے۔ اس کے بعد آپ نے انہیں ان کی زمینیں واپس کر دیں اور ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیا اور شرط یہ رکھی کہ وہ کام کریں گے اور فصلوں اور پھلوں کا پانچواں حصہ حکومت کو دیں گے۔ اس کے بعد مصر میں یہی قانون جاری ہو گیا۔

    یہی واقعہ بائبل کی کتاب پیدائش کے باب 47 میں موجود ہے۔ سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے دور اقتدار کے کافی عرصے بعد میں مصر کے قدیم باشندوں میں قوم پرستی کی ایک عظیم تحریک پیدا ہوئی اور بنی اسرائیل کے سرپرست ہکسوس بادشاہوں کو اقتدار سے بے دخل کر کے بنی اسرائیل کو غلام بنایا گیا۔ بنی اسرائیل کے لئے یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں انہیں آزادی نصیب ہوئی۔ بعد کے ادوار میں بھی مصر میں غلامی موجود رہی ہے۔

    ہندوستان

    کے ایس لال کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق قدیم ہندوستان میں بھی غلامی موجود رہی ہے البتہ دنیا کے دیگر خطوں کی نسبت یہاں غلاموں سے بہتر سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ گوتم بدھ نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ غلاموں سے صرف اتنا ہی کام لیں جو وہ کر سکیں۔

    چندر گپت موریہ (300BC – 100BC) کے دور میں غلاموں سے متعلق قوانین بنائے گئے جن میں یہ شامل تھا کہ غلاموں کو بغیر کسی معقول وجہ کے ان کا مالک سزا نہیں دے سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو حکومت اس آقا کو سزا دے سکتی ہے۔ اشوک اعظم نے غلاموں سے نرم برتاؤ رکھنے کا حکم دیا۔ غلاموں سے اتنا اچھا سلوک کیا جاتا تھا کہ یونانی سیاح میگاستھینز (350BC – 290BC) یہ سمجھ بیٹھا کہ ہندوستان میں غلامی پائی ہی نہیں جاتی۔

    موریہ دور میں لکھی گئی ارتھ شاستر میں آریہ غلاموں کو بہت سے حقوق دیے گئے ہیں۔ وکی پیڈیا کے مقالہ نگار کے مطابق مقروض شخص یا اس کے بیوی بچوں کو صرف عدالتی حکم کے تحت ہی غلام بنایا جا سکتا ہے۔ غلام بننے کے بعد بھی اسے جائیداد رکھنے، اپنی محنت کی اجرت وصول کرنے اور اپنی آزادی خریدنے کا حق رہتا ہے۔ غلامی ایک محدود مدت کے لئے ہوتی ہے جس کے اختتام پر غلام خود بخود آزاد ہو جاتا ہے۔

    قدیم ہندوستان کی ایک خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ اس میں عام غلامی کے علاوہ غلامی کی ایک بالکل ہی الگ تھلگ شکل بھی پائی جاتی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ملتی۔ یہ یہاں کا ذات پات کا نظام ہے۔ اس نظام کے تحت معاشرے کو چار بنیادی ذاتوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں برہمن کا کام مذہبی رسومات سر انجام دینا، کھشتری کا کام فوج اور حکومتی معاملات دیکھنا، ویش کا کام تجارت کرنا اور شودر کا کام زراعت، صفائی اور دیگر نچلے درجے کے کام کرنا ہے۔

    ذات پات کے نظام کے بارے میں ہندو اہل علم کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی قدیم کتب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر یہ تقسیم محض معاشی نوعیت کی تھی۔ ایک پیشے سے تعلق رکھنے والا دوسرے پیشے کو اختیار کر سکتا تھا۔ اس کی مثال ان آیات میں ملتی ہے:

    A bard am I, my dad's a leech, mammy lays corn upon the stones. (Rig Veda, http://www.hinduwebsite.com)

    میں شاعر ہوں، میرے والد ایک طبیب تھے اور والدہ پتھروں پر مکئی پیسنے والی ہیں۔ (رگ وید 9.112.3)

    (Thus) a Sudra attains the rank of a Brahmana, and (in a similar manner) a Brahmana sinks to the level of a Sudra; but know that it is the same with the offspring of a Kshatriya or of a Vaisya. (Manu Smriti, Sanskrit Text with English Translation, 10:65)

    ایک شودر کا بیٹا برہمن بن سکتا ہے اور برہمن کا بیٹا شودر بن سکتا ہے۔ یہی معاملہ کھشتری اور ویش کا بھی ہے۔

    بعد کے ادوار میں یہ نظام سختی اختیار کرتا چلا گیا اور میرٹ کی جگہ وراثت نے لے لی۔ مغربی محقق کلارنس اسمتھ کے الفاظ میں:"

    غلامی کی جڑوں کو قدیم ہندو کتب میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ آواگون کے عقیدے کے تحت (کسی شخص کے) غلام ہونے کو اس کے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا قرار دیا گیا۔۔۔۔۔غلامی اور ذات پات کے نظام اگرچہ بعض مشترک پہلو بھی رکھتے تھے لیکن انہیں یکساں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برہمنوں نے خود کو غلام بنائے جانے سے مستثنی قرار دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ غلام صرف اور صرف نچلے درجے کی ذاتوں سے بنائے جائیں لیکن عملی طور پر غلام کسی بھی ذات کے ہو سکتے تھے۔

    (Relgions & Abolition of Slavery – a comparative approach, p.2)

    آہستہ آہستہ اس نظام نے وہ شکل اختیار کر لی جس میں شودر کو چھونے سے برہمن ناپاک ہو جاتا تھا۔ شودروں کا کام محض بڑی ذاتوں کی خدمت ہی رہ گیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ بڑی ذاتوں کے افراد اپنی پیدائش سے ہی پاک اور چھوٹی ذاتوں کے لوگ ناپاک ہوتے ہیں۔ اس نظام کی مزید تفصیلات سدھیر برودکار کے آرٹیکل "جاتی ورنا میٹرکس" میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ آرٹیکل اس لنک پر دستیاب ہے۔

    http://www.hindubooks.org/sudheer_birodkar/hindu_history/castejati-varna.html

    انڈین معاشرے کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ روم، یونان اور مصر کے برعکس یہاں اس قسم کی غلامی کے خلاف بھی بہت سی اصلاحی تحریکوں نے جنم لیا۔ ان میں گوتم بدھ کی تحریک سب سے قدیم سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جین مت اور بعد کے ادوار میں بھگتی اور سکھ تحریکیں قابل ذکر ہیں۔ دور جدید میں دلتوں کو بھارتی آئین میں بہت سے حقوق حاصل ہو چکے ہیں اور ذات پات کے قدیم نظام کے خلاف ایک مضبوط تحریک سیکولر انڈیا میں پائی جاتی ہے۔

    غلامی اور بدھ حکومتیں

    گوتم بدھ (623 – 543BC) نے غلاموں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے غلاموں کی تجارت سے نفع کمانے سے منع فرمایا۔ گوتم بدھ بذات خود اگرچہ بہار کی ریاست کے ایک شہزادے تھے لیکن انہوں نے خود حکومت نہ کی۔ ان کے پیروکاروں میں سے اشوک اعظم (269 – 232BC) نے بدھ تعلیمات کی بنیاد پر حکومت قائم کی۔ اشوک نے غلامی کا مکمل خاتمہ کیے بغیر مہاتما بدھ کی ان تعلیمات پر عمل کرنے کا حکم قانونی طور پر جاری کیا۔

    بعد کے ادوار میں سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں بدھ سلطنتیں قائم ہوئیں۔ ان میں اگرچہ غلامی کو تو بڑی حد تک کم کر دیا گیا لیکن غلاموں کی جگہ مزارعت کے نظام (Serfdom) نے لے لی جو غلامی ہی کی ایک نسبتاً بہتر شکل تھی۔ مغربی محقق ویلیم جی کلارنس اسمتھ اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    قرون وسطی کے یورپ کی طرح، رحم دل بدھ کے یہ خیالات غلاموں کو مزارعوں (Serfdom) میں تبدیل کر سکتے تھے۔ تیرہویں صدی تک سری لنکا اور جنوب مشرقی ایشیا کے مین لینڈ (برما، تھائی لینڈ، ویت نام وغیرہ) میں، تھیرو وادو (روایتی بدھ فرقہ) بدھ سلطنتوں میں مزدوروں کی تعداد غلاموں سے بڑھ چکی تھی۔ اکثر اوقات کی جانے والی فوجی کاروائیوں کا مقصد لوگوں کو قید کر کے انہیں پوری پوری کمیونٹی کی صورت میں زمین سے وابستہ کیا گیا جو بعض اوقات بدھ عبادت گاہوں کی جاگیر ہوا کرتی تھی۔ قرض ادا نہ کر سکنے والے مقروض جو کہ کثیر تعداد میں تھے، جبری مزارعوں میں شامل کر دیے گئے۔

    (Religions & Abolition of Slavery – a comparative approach, p.3)
     
  3. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    باب 3: غلامی اور بنی اسرائیل

    قدیم اسرائیل میں بھی غلامی موجود رہی ہے۔ بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے سیدنا یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد تھے۔ سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں مصر میں دریائے نیل کے ڈیلٹا کے زرخیز علاقے میں آباد کیا تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ آپ کے دور اقتدار کے کافی عرصے بعد میں مصر کے قدیم باشندوں میں قوم پرستی کی ایک عظیم تحریک پیدا ہوئی اور بنی اسرائیل کے سرپرست ہکسوس بادشاہوں کو اقتدار سے بے دخل کر کے بنی اسرائیل کو غلام بنایا گیا۔

    بائبل اور قرآن مجید میں بنی اسرائیل کی جو تاریخ ملتی ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کو فرعون کی طرف مبعوث کیا۔ آپ نے اس کے سامنے جو مطالبات رکھے ان میں ایک خدا پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ دوسرا مطالبہ یہ بھی تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کر کے انہیں آپ کے ساتھ روانہ کر دے۔ فرعون نے یہ مطالبات منظور نہ کیے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد فرعون اور اس کا لشکر بحیرہ احمر میں غرق ہوا اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نجات مل سکی۔

    بائبل اور قرآن میں بار بار اللہ تعالی بنی اسرائیل اپنا یہ احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے انہیں غلامی سے نجات عطا کی۔ اس وجہ سے ان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت کریں اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے بنیں۔ بائبل کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی غلامی سے نفرت کرتا ہے اور اسے ایک لعنت قرار دیتا ہے۔

    آزادی کے بعد سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ہی بنی اسرائیل کو موجودہ اردن کے علاقے میں اقتدار ملا اور اس کے لئے تفصیلی قوانین اللہ تعالی کی طرف سے ان کے لئے نازل کیے گئے جن کا مجموعہ تورات ہے۔ موجودہ بائبل بنی اسرائیل کی تاریخ کا مجموعہ ہے جس میں تورات کا متن بھی شامل ہے۔

    بائبل کی تاریخ کے مطابق اسرائیلی سلطنت کو ہم دو ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ان کا ایک دور سیدنا موسی (1393BC – 1273BC) سے شروع ہو کر سیدنا سلیمان علیہما الصلوۃ والسلام (1025BC – 953BC) پر ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں تورات کی حقیقی تعلیمات اسرائیلی سلطنت کا قانون تھیں۔ بعد کے ادوار میں ایک سیدنا عزیر و نحمیاہ علیہما الصلوۃ والسلام کے دور (458BC – 397BC) کو چھوڑ کر بالعموم ان کے حکمرانوں میں دین سے انحراف کا رویہ عام رہا حتی کہ حکمرانوں اور امراء کی خواہشات کے مطابق تورات کے قانون میں بھی تحریفات کی جانے لگیں۔ غلامی سے متعلق تورات کے قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔

    بنی اسرائیل کے ہاں بھی غلامی کا ماخذ جنگی قیدی ہی تھے۔ اس کے علاوہ جب وہ کوئی علاقہ فتح کرتے تو وہاں پہلے سے موجود غلاموں کا معاملہ بھی پیش آتا۔ اسرائیلیوں کے مفتوحہ علاقوں میں قرض کی عدم ادائیگی یا جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنائے جانے کا سلسلہ بھی موجود تھا۔

    غلامی سے متعلق تورات کی اصلاحات

    بنی اسرائیل کے آئیڈیل دور میں جس میں ان کی حکومت براہ راست اللہ تعالی کے مبعوث کردہ انبیاء کرام کے ماتحت تھی، واضح طور پر ہمیں یہ ملتا ہے کہ بنی اسرائیل کو انسانوں سے عمومی طور پر اور غلاموں سے خصوصی طور پر اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ ان قوانین کی تفصیل یہ ہے:

    · اچھے سلوک کا یہ دائرہ صرف اسرائیلیوں تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ غیر اقوام کے افراد جنہیں بائبل میں "پردیسی (Gentiles)" کہا گیا ہے، ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا ضروری ہے جیسا کہ اسرائیلیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے: "کوئی پردیسی (غیر قوم کا فرد) تمہارے ساتھ تمہارے ملک میں رہتا ہو تو اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا۔ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اس سے دیسی (اسرائیلی) جیسا برتاؤ کرنا بلکہ تم اس سے اپنے ہی مانند محبت کرنا کیونکہ تم بھی مصر میں پردیسی تھے۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔" (احبار باب 19)

    چھ برس بعد غلاموں کی آزادی کا قانون

    · چھ برس کی خدمت کے بعد غلام یا کنیز کو خود بخود آزاد کر دیے جانے کا قانون بنا دیا گیا: "اگر تو عبرانی غلام خریدے تو وہ چھ برس تیری خدمت کرے لیکن ساتویں برس وہ قیمت ادا کیے بغیر آزاد ہو کر چلا جائے۔" (خروج باب 21) "اگر کوئی عبرانی بھائی، خواہ مرد ہو یا عورت، تمہارے ہاتھ بیچا گیا ہو اور وہ چھ سال تمہاری خدمت کر چکے تو ساتویں سال تم اسے آزاد کر کے جانے دینا۔" (استثنا باب 15)

    · چھ برس بعد غلام کی آزادی کے وقت اس سے اعلی درجے کا حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ "اور جب تم اسے آزاد کر دو تو اسے خالی ہاتھ رخصت نہ کرنا بلکہ اپنے گلہ (مویشیوں)، کھلیان (زرعی پیداوار) اور کولہو (صنعتی پیداوار) میں سے اسے دل کھول کر دینا۔ یاد رکھو ملک مصر میں تم بھی غلام تھے اور خداوند تمہارے خدا نے تمہیں اسے سے خلاصی بخشی۔ اس لیے آج میں تمہیں یہ حکم دے رہا ہوں۔" (استثنا باب 15)

    · چھ برس بعد غلاموں کی اس آزادی کو خوش دلی سے قبول کرنا ضروری قرار دیا گیا: "اپنے خادم کو آزاد کرنا اپنے لیے تم بوجھ نہ سمجھنا۔ کیونکہ اس نے چھ سال تمہارے لیے دو مزدوروں کے برابر خدمت کی ہے اور خداوند تمہارا خدا تمہارے ہر کام میں تمہارے لیے برکت دے گا۔" (استثنا باب 15)

    غلام کے ازدواجی حقوق

    · غلام کو شادی کا حق دیا گیا اور اس کے ساتھ اس کے بیوی بچوں کو بھی آزاد کرنے کا حکم دیا گیا: "اگر وہ اکیلا خریدا جائے تو اکیلا ہی آزاد کیا جائے۔ اگر شادی شدہ ہو تو اس کی بیوی کو بھی اس کے ساتھ ہی آزاد کیا جائے۔" (خروج باب 21)

    · غلام کو اس فیصلے کا حق دیا گیا کہ اگر وہ اپنے آقا کی محبت یا اپنی مالی تنگدستی کے باعث آزادی کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو تو بدستور غلامی میں رہے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ تھی کہ بہت سے غلام اتنی صلاحیت نہ رکھتے تھے کہ وہ آزاد ہو کر اپنا پیٹ پال سکیں۔ ان کے مالک ان کے پورے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھے، جس کے ختم ہوتے ہی غلام کے روزگار کے چھن جانے کا خدشہ تھا: "اگر وہ غلام یہ اعلان کرے کہ میں اپنے آقا اور اپنی بیوی بچوں سے محبت رکھتا ہوں اور میں آزاد ہو کر نہیں جانا چاہتا، تو اس کا آقا اسے قاضیوں کے پاس لے جائے اور اسے دروازے یا اس کی چوکھٹ پر لا کر سوئے سے اس کا کان چھید دے۔ تب وہ عمر بھر اس کی خدمت کرتا رہے گا۔" (خروج باب 21 اور استثنا باب 15)

    غلام پر تشدد کی حرمت کا قانون

    · غلام پر تشدد کو حرام قرار دے دیا گیا۔ ایسا کرنے والے کو حکومت کی جانب سے سزا دی جائے۔ "اگر کوئی شخص اپنے غلام یا کنیز کو لاٹھی سے ایسا مارے کہ وہ فوراً مر جائے تو اسے لازماً سزا دی جائے۔" (خروج باب 21)

    · غلام پر تشدد کے بدلے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ "اگر کوئی آدمی اپنے غلام یا کنیز کی آنکھ پر ایسا مارے کہ وہ پھوٹ جائے تو وہ اس کی آنکھ کے بدلے اسے آزاد کر دے۔ اور اگر وہ کسی غلام یا کنیز کا دانت مار کر اسے توڑ ڈالے تو وہ اس کے دانت کے بدلے اسے آزاد کر دے۔" (خروج باب 21)

    آزاد شخص کو غلام بنانے کی ممانعت

    · آزاد شخص کو غلام بنانے کی سزا موت مقرر کی گئی۔ "جو کوئی دوسرے شخص کو اغوا کرے، خواہ اسے بیچ دے، خواہ اسے اپنے پاس رکھے اور پکڑا جائے تو وہ ضرور مار ڈالا جائے۔" (خروج باب 21)

    · اگر کوئی مفلسی کے ہاتھوں خود کو بیچنا چاہے تو اس کی ممانعت کر دی گئی۔ "اگر تمہارے درمیان تمہارا ہم وطن مفلس ہو جائے اور اپنے آپ کو تمہارے ہاتھ بیچ دے تو اس سے غلام کی مانند کام نہ لینا۔ بلکہ اس سے ایک مزدور یا تمہارے درمیان کسی مسافر کی طرح سلوک کیا جائے اور وہ (زیادہ سے زیادہ) جوبلی کے سال تک تمہارے لیے کام کرے۔" (احبار باب 25)

    · بنی اسرائیل کو خاص طور پر غلام بنانے کی ممانعت کی گئی۔ "بنی اسرائیل میرے خادم ہیں جنہیں میں مصر سے نکال کر لایا لہذا ان کو بطور غلام کے ہرگز نہ بیچا جائے۔" (احبار باب 25)

    مظلوم غلاموں کی آزادی کا قانون

    · مظلوم غلام اگر بنی اسرائیل کی پناہ میں آ جائے تو اسے آزاد کر دینے کا حکم دیا گیا۔ "اگر کسی غلام نے تمہارے پاس پناہ لی ہو تو اسے اس کے آقا کے حوالے نہ کر دینا۔ اسے اپنے درمیان جہاں وہ چاہے اور جس شہر کو وہ پسند کرے وہیں رہنے دینا۔ اور تم اس پر ظلم نہ ڈھانا۔" (استثنا باب 23)

    مقروض کو غلام بنا لینے کی ممانعت

    · سود کو قطعی حرام قرار دے دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سودی قرض، غلامی کا ایک اہم سبب تھے۔ "تم اپنے بھائی سے سود وصول نہ کرنا خواہ وہ روپوں پر، اناج پر یا کسی ایسی چیز پر ہو جس پر سود لیا جاتا ہے۔" (استثنا باب 23)

    · مقروض کی شخصی آزادی کو پوری طرح برقرار رکھنے کی ہدایت کی گئی۔ "جب تم اپنے ہمسائے کو کسی قسم کا قرض دو تو جو شے وہ رہن رکھنا چاہے اسے لینے کے لئے اس کے گھر میں داخل نہ ہو جانا بلکہ باہر ہی کھڑے رہنا ۔۔۔۔اگر وہ شخص مسکین ہو تو اس کی رہن رکھی ہوئی چادر کو اوڑھ کر نہ سو جانا۔" (استثنا باب 23)

    · مقروض اگر سات سال تک اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو اس کا قرض معاف کر دینے کا حکم دیا گیا۔ "ہر سات سال کے بعد تم قرض معاف کر دیا کرنا۔" (استثنا باب 15)

    · غریب مزدوروں کی مفلسی سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کر دی گئی۔ "تم مزدور کی مفلسی اور محتاجی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا خواہ وہ اسرائیلی بھائی ہو یا کوئی اجنبی ہو جو تمہارے کسی شہر میں رہتا ہو۔" (استثنا باب 23)

    لونڈیوں کی آزادی سے متعلق خصوصی اصلاحات

    · اگر کوئی آقا اپنی کنیز کے طرز عمل سے خوش نہ ہو تو وہ اسے آزاد کر دے۔ "اگر وہ (کنیز) آقا کو جس نے اسے اپنے لئے منتخب کیا تھا خوش نہ کرے تو وہ اس کی قیمت واپس لے کر اسے اپنے گھر جانے دے۔ اسے اس کنیز کو کسی اجنبی قوم کو بیچنے کا اختیار نہیں کیونکہ وہ اس کنیز کو لانے کے بعد اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہ کر سکا۔" (خروج باب 21)

    · بیٹوں کی کنیزوں سے بیٹیوں جیسا سلوک کیا جائے اور ان پر بری نظر نہ رکھی جائے۔ "اگر وہ اسے (یعنی کنیز کو) اپنے بیٹے کے لئے خریدتا ہے تو اس کے ساتھ بیٹیوں والا سلوک کرے۔" (خروج باب 21)

    · کنیز کو کسی صورت میں بھی بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گی۔ "اگر وہ کسی دوسری عورت کو بیاہ لائے تو لازم ہے کہ وہ اس کنیز یعنی پہلی عورت کو کھانے، کپڑوں اور ازدواجی حقوق سے محروم نہ کرے۔ اگر وہ اسے یہ تین چیزیں مہیا نہیں کرتا تو وہ کنیز اپنے آزاد ہونے کی قیمت ادا کیے بغیر واپس جا سکتی ہے۔" (خروج باب 21)

    · تورات کے قانون کے مطابق آزاد شخص کو بدکاری کے جرم میں موت کی سزا مقرر کی گئی تھی۔ لیکن کنیزوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے اس سزا میں تخفیف کر دی گئی۔ "اگر کوئی آدمی کسی ایسی کنیز سے جنسی تعلقات پیدا کر لے جو کسی اور کی منگیتر ہو لیکن نہ تو اس کا فدیہ دیا گیا ہو اور نہ ہی وہ آزاد کی گئی ہو تو کوئی مناسب سزا دینا ضروری ہے تاہم انہیں جان سے نہ مارا جائے کیونکہ وہ عورت آزاد نہیں کی گئی تھی۔" (احبار باب 19)

    · ایسی لاوارث خواتین جو جنگی قیدی کے طور پر اسرائیل میں لائی جائیں، کے لئے یہ ضابطہ مقرر کیا گیا کہ ان سے شادی کر لی جائے جو کہ ظاہر ہے کہ خاتون کی اجازت ہی سے ہو سکتی ہے۔ "جب تم اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے نکلو اور خداوند تمہارا خدا انہیں تمہارے ہاتھ میں کر دے اور تم انہیں اسیر کر کے لاؤ اور ان اسیروں میں سے کوئی حسین عورت دیکھ کر تم اس پر فریفتہ ہو جاؤ تو تم اس سے بیاہ کر لینا۔۔۔۔جب وہ تمہارے گھر میں رہ کر ایک ماہ تک اپنے ماں باپ کے لئے ماتم کر چکے تب تم اس کے پاس جانا اور تب تم اس کے خاوند ہو گے اور وہ تمہاری بیوی ہو گی۔ اور اگر وہ تمہیں نہ بھائے تو جہاں وہ جانا چاہے، اسے جانے دینا۔ تم اس کا سودا نہ کرنا، نہ اس کے ساتھ لونڈی کا سا سلوک روا رکھنا کیونکہ تم نے اسے بے حرمت کیا ہے (یعنی اس سے ازدواجی تعلقات قائم کیے ہیں۔)" (استثنا باب 21)

    ان آیات کا بغیر کسی تعصب کے مطالعہ کیا جائے تو واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء راشدین کے دور میں غلامی کے خاتمے اور موجود غلاموں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کی سطح پر اقدامات کئے گئے۔ غلاموں پر تشدد کو ممنوع قرار دیا گیا اور ایسا کرنے کی صورت میں انہیں آزاد کر دینے کا حکم دیا گیا۔

    غلام بنانے کا ایک اہم راستہ یہ تھا کہ غریب اور مقروض افراد، جو اپنا قرض ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، کو غلام بنا لیا جائے۔ تورات نے واضح طور پر سود کی حرمت کا اعلان کیا اور تنگدست اور مقروض اگر خود بھی غلام بننا چاہے تو ایسا کرنے کی ممانعت کر دی۔ غربت سے لوگوں کو بچانے کے لئے مزدور کی مزدوری فوراً ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔

    جو غلام پہلے سے معاشرے میں موجود تھے، ان کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا کہ انہیں چھ سال کی سروس کے بعد آزاد کر دیا جائے۔ یہ آزادی تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو بلکہ اس غلام کے ساتھ اس کے بیوی بچوں کو بھی نہ صرف آزاد کیا جائے بلکہ آقا اپنے مال و اسباب میں سے بھی دل کھول کر انہیں نوازے۔ غلاموں پر تشدد کرنے سے منع کر دیا گیا۔ ان خواتین کا خاص طور پر خیال رکھا گیا جو جنگی قیدی کے طور پر بنی اسرائیل کے ہاں آ جائیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کنیزوں کے حقوق کا بھی پورا تحفظ کیا گیا۔
     
  4. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    باب 4: بنی اسرائیل کے دور انحطاط میں غلامی

    سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد بہت جلد بنی اسرائیل ایک عظیم اخلاقی انحطاط (Moral Degeneration) کا شکار ہو گئے۔ اس انحطاط کی تاریخ خود ان کے اپنے مورخین نے بیان کی ہے۔ بائبل میں "استثنا" کے بعد کی کتابوں میں اس اخلاقی انحطاط کو بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کی اخلاقیات اس درجے میں تباہ ہو چکی تھیں کہ انہوں نے اللہ تعالی کی کتاب تورات کو بھی نہ چھوڑا اور اس میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کرنے لگے۔ "نظریہ ضرورت" کے تحت تورات میں من گھڑت احکام داخل کئے گئے۔

    دور انحطاط میں غلامی سے متعلق احکام میں تحریف

    انسانی حقوق کو صرف اسرائیلیوں سے مخصوص کرنے کے لئے تورات میں تحریف

    تورات میں انسانی حقوق سے متعلق جو قوانین بنائے گئے تھے، ان کا اطلاق نہ صرف اسرائیلیوں پر ہوتا تھا بلکہ تورات کی کتاب احبار میں آیت نمبر 19:34 کے حکم کے مطابق سلطنت اسرائیل کی حدود میں رہنے والے تمام باشندے، خواہ وہ اسرائیلی ہوں یا نہ ہوں، ان حقوق کے مستحق تھے۔ ان حضرات نے تمام انسانی حقوق کو "عبرانیوں" کے ساتھ خاص کر لیا اور دیگر اقوام کو “Gentiles” قرار دے کر ان کے استحصال کی اجازت دے دی۔ سودی لین دین، جو شریعت موسوی میں حرام تھا اور غلامی کا ایک اہم سبب تھا، کو دیگر اقوام کے معاملے میں جائز قرار دے دیا گیا۔ اس دور میں ان خدائی قوانین میں جو اضافے کئے گئے، وہ خط کشیدہ عبارت میں موجودہ بائبل کے الفاظ بیان کئے گئے ہیں:

    · "تمہارے غلام اور تمہاری کنیزیں ان قوموں میں سے ہوں جو تمہارے ارد گرد رہتی ہیں، انہی سے تم غلام اور لونڈیاں خریدا کرنا۔" (استثنا باب 25)

    · "تمہارے درمیان عارضی طور پر رہنے والوں اور ان کے گھرانوں کے ان افراد میں سے بھی جو تمہارے ملک میں پیدا ہوئے، کچھ کو خرید سکتے ہو اور وہ تمہاری ملکیت ہوں گے۔" (استثنا باب 25)

    · "تم انہیں میراث کے طور پر اپنی اولاد کے نام کر سکتے ہو اور یوں انہیں عمر بھر کے لئے غلام بنا سکتے ہو۔" (استثنا باب 25)

    · "تم چاہو تو پردیسیوں سے سود وصول کرنا لیکن کسی اسرائیلی بھائی سے نہیں۔" (استثنا باب 23)

    غلاموں سے متعلق قوانین میں ترامیم و اضافے

    پہلے سے موجود خدائی قوانین میں جو ترامیم کی گئیں، ان کی تفصیل یہ ہے:

    · کتاب خروج باب 21 میں چھ سال کی سروس بعد غلام اور اس کے بیوی بچوں کو آزاد کرنے کا جو حکم دیا گیا تھا، اس میں یہ تبدیلی کر دی گئی کہ "اگر اس کا بیاہ اس کے آقا نے کروایا ہو اور اس عورت کے اس سے بیٹے اور بیٹیاں بھی ہوئی ہوں تو وہ عورت اور اس کے بچے آقا کے ہوں گے اور صرف آدمی آزاد کیا جائے گا۔"

    · کتاب استثنا باب 15 کے مطابق چھ سال بعد آزادی کا حکم مرد اور عورت دونوں قسم کے غلاموں کے لئے تھا۔ اس قانون میں تبدیلی کر کے یہ کہہ دیا گیا کہ "کنیز غلاموں کی طرح (چھ برس بعد) آزاد نہ کی جائے۔" اپنی بیٹیوں کو بائبل کے دیگر صریح احکام کے خلاف بطور کنیز بیچنے کی اجازت دے دی گئی۔ (خروج باب 21)

    · کتاب خروج باب 21 میں غلام پر تشدد کر کے اسے قتل کر دینے کی صورت میں جو سزا تورات نے نافذ کی تھی، اس میں یہ اضافہ کر دیا گیا کہ یہ معاملہ صرف اس صورت میں ہے کہ اگر غلام فوراً مر گیا ہو، "لیکن اگر وہ ایک دو دن زندہ رہے تو اسے سزا نہ دی جائے، اس لئے کہ وہ اس کی ملکیت ہے۔" تحریف کرنے والوں کو یہ خیال نہ آیا کہ غلام اگر تشدد کے نتیجے میں فوراً مر جائے یا ایک دو دن بعد، اس سے اس کے آقا کے جرم کی نوعیت میں کیا فرق واقع ہوا ہے۔ اس کا جرم تو ایک ہی ہے۔

    · جنگی قیدیوں کے لئے یہ قانون بنایا گیا تھا کہ ان میں شامل خواتین سے اسرائیلی ان کی مرضی سے شادی کر سکتے ہیں۔ اس قانون کو تبدیل کر کے صلح کرنے والوں کو بھی غلام بنانے کی اجازت دے دی گئی۔ "جب تم کسی شہر پر حملہ کرنے کے لئے اس کے قریب پہنچو تو اس کے باشندوں کو صلح کا پیغام دو۔ اگر وہ اسے قبول کر کے اپنے پھاٹک کھول دیں تو اس میں کے سب لوگ بیگار میں کام کریں اور تمہارے مطیع ہوں۔ (استثنا باب 20)

    حام کی غلامی کا فرضی قصہ

    · کتاب پیدائش میں ایک فرضی قصہ داخل کیا گیا جس کے مطابق سیدنا نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے حام نے اپنے والد سے کچھ بدتمیزی کی جس پر انہوں نے حام کو بددعا دی کہ "حام، اپنے بھائیوں سام اور یافث کا غلام ہو۔" اس قصے کی بدولت انہوں نے حام کی اولاد یعنی افریقیوں کی غلامی کا جواز پیدا کیا۔انہوں نے اس بات کا خیال نہیں کیا کہ اگر حام نے کوئی بدتمیزی کی بھی تھی تو اس کی سزا ان کی پوری اولاد کو دینا کس قانون کے تحت درست ہو گا۔

    یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید بار بار یہود کو ان کے آبا ؤ اجداد کے جرائم یاد دلاتا ہے تو ایسا کیوں ہے؟ اولاد تو اپنے آباء کی غلطیوں کی ذمہ دار نہیں ہے۔ نزول قرآن کے وقت بنی اسرائیہل ایک غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم نیک لوگوں کی اولاد ہیں، اس لئے ہماری نجات پکی ہے اور ہم سیدھے جنت میں جائیں گے۔ قرآن مجید نے انہیں ان کی اپنی تاریخ سے مثال پیش کی کہ تمہارے آبا ؤ اجداد کو ان کے جرائم کی سزا ملی ہے، بالکل اسی طرح تمہیں بھی تمہارے جرائم کی سزا ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید نے آباء کے جرم کی سزا اولاد کو ہرگز نہیں دی۔

    تورات میں کی جانے والی تحریفات پر تبصرہ

    ممکن ہے موجودہ دور کے یہودی اہل علم ہماری دی گئی تفصیلات سے اختلاف کریں۔ ہم نے تورات کی جن آیات کو بعد کی ایجاد کردہ آیات میں شمار کیا ہے، وہ انہیں خدا کا حکم ہی سمجھتے ہوں۔ اگر ایسا ہی ہو تو ان سے ہماری گزارش یہ ہو گی کہ وہ ان آیات کی اس آیت سے مطابقت پیدا کر کے دکھائیں جس کے مطابق پردیسیوں (Gentiles) سے وہی سلوک کرنا ضروری تھا جو اسرائیلی سے کیا جائے۔ اس آیت اور ان آیات جن میں غیر اسرائیلیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی گئی ہے، ایک واضح تضاد نظر آتا ہے، جسے رفع کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ آیت کو ہم دوبارہ درج کر رہے ہیں:

    "کوئی پردیسی (غیر قوم کا فرد) تمہارے ساتھ تمہارے ملک میں رہتا ہو تو اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا۔ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اس سے دیسی (اسرائیلی) جیسا برتاؤ کرنا بلکہ تم اس سے اپنے ہی مانند محبت کرنا کیونکہ تم بھی مصر میں پردیسی تھے۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔" (احبار باب 19)

    ممکن ہے کہ بعض حضرات یہ کہیں کہ ہمیں یہ کیسے علم ہوا کہ یہ تفصیلات بعد کی تحریفات پر مشتمل ہیں۔ اس کے لئے ہمارا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس کی تمام مخلوق برابر ہے۔ وہ اپنی پوری مخلوق سے محبت کرتا ہے۔ انسانی جان، مال، آبرو اور آزادی کی حرمت ایسا معاملہ ہے جسے کسی مخصوص گروہ کے ساتھ اللہ تعالی نے کبھی خاص نہیں کیا۔ انسانوں نے تو اپنے مفاد کے لئے ایسا کیا ہے لیکن کائنات کا خدا کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔

    اللہ تعالی نے اپنی ہدایت کے ہر ورژن میں ایک انسان (نہ کہ صاحب ایمان) کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ یہی معاملہ غلامی کا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق ہیں جن کے معاملے میں مذہب، قوم اور رنگ کی بنیاد پر کوئی امتیاز کرنا کبھی درست نہیں ہو گا۔

    دور انحطاط میں مبعوث ہونے والے انبیاء کرام کی تنبیہات

    بنی اسرائیل کے دور انحطاط میں اللہ تعالی نے جن انبیاء کو مبعوث فرمایا، انہوں نے بنی اسرائیل کو ان کی غلط کاریوں پر کڑی تنبیہ کی اور انہیں ان نافرمانیوں کی بدولت آنے والے خدائی عذاب سے خبردار کیا۔ ان غلط کاریوں میں "غلام بنانا" بھی شامل تھا۔ کچھ تفصیلات یہ ہیں:

    · بائبل میں سیدنا عاموس علیہ الصلوۃ والسلام (793-740BC) کی کتاب اسرائیلیوں پر اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کی وارننگ ہے۔ اس میں غزہ کے علاقے کے رہنے والوں کے جو جرائم گنوائے گئے ہیں، ان میں غلام بنانا بھی شامل ہے۔ "غزہ کے تین بلکہ چار گناہوں کے باعث میں اپنے غضب سے باز نہ آؤں گا۔ چونکہ اس نے سارے گروہوں کو اسیر کر لیا اور انہیں ادوم کے ہاتھ بیچ دیا۔ میں غزہ کے شہر پناہ پر آگ بھیجوں گا جو اس کے قلعوں کو کھا جائے گی۔" (عاموس، باب 1)

    · اسی دور انحطاط میں سیدنا یسعیاہ علیہ الصلوۃ والسلام (740 – 681BC) کی بعثت ہوئی جنہوں نے غلاموں کو آزاد ہونے کی بشارت دی۔ "اس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے کہ میں شکستہ دلوں کو تسلی دوں، قیدیوں (غلاموں) کے لئے رہائی کا اعلان کروں اور اسیروں کو تاریکی سے رہا کروں۔" (یسعیاہ باب 61)

    اسی عرصے میں اللہ تعالی نے سیدنا یرمیاہ علیہ الصلوۃ والسلام (627 – 580BC) کو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیا۔ انہوں نے انحطاط زدہ بنی اسرائیل کو ان کے جرائم کی چارج شیٹ پڑھ کر سنائی۔ ان جرائم میں غلام بنانا بھی شامل تھا (یرمیاہ باب 2)۔ بائبل کی کتاب یرمیاہ میں اس کے بعد بنی اسرائیل کو آخری وارننگ دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اللہ تعالی کی شریعت پر عمل کرنا شروع نہ کیا تو پھر ان پر عظیم عذاب آنے والا ہے اور عنقریب اسرائیلیوں کی دونوں سلطنتیں یہوداہ اور اسرائیل تباہ ہونے والی ہیں۔ یہ سزا بنی اسرائیل کے قتل اور انہیں غلام بنا لئے جانے کی صورت میں ان پر نافذ کی جائے گی۔ بعد کی تاریخ گواہ ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا۔

    یہودیوں کے بعد کے ادوار میں غلامی

    یہودیوں کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ انہوں نے کم از کم اپنی قوم کے بارے میں بائبل کے ان احکامات پر عمل کیا۔ اگر ان کا کوئی ہم مذہب کسی جنگ میں قیدی ہو جائے تو وہ اسے فدیہ ادا کر کے آزاد کرواتے تھے۔ "یہودیوں کی تاریخ" کے مصنف پال جانسن نے اپنی کتاب میں اس رواج کا تذکرہ کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں جو یہود مدینہ میں آباد تھے۔ ان کے ہاں بھی یہی معمول تھا جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔

    ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَتَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ۔ (2:85)

    اس کے بعد تم اپنے افراد کو قتل کرتے ہو اور اپنے ایک گروہ کو ان کے گھروں سے جلا وطن کرتے ہو اور ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھہ بندی کرتے ہو۔ اس کے بعد اگر انہیں جنگی قیدی بنا لیا جائے تو تم ان کا فدیہ دیتے ہو جبکہ انہیں گھروں سے جلا وطن کرنا ہی تمہارے لئے حرام ہے۔ کیا تم کتاب (تورات) کے بعض حصوں کو مانتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو؟

    بعد کے ادوار میں یہودی علماء کے ہاں غلامی کے جواز اور عدم جواز کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایسین (Essene) فرقے کے علماء نے غلامی کو کھلم کھلا خدا کی مرضی کے خلاف قرار دیا۔ یہی وہ فرقہ ہے جس کے بارے میں تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی کمیونٹی میں غلامی کا مکمل خاتمہ کر لیا تھا۔
     
  5. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    باب 5: روم میں غلامی

    باب 5: روم میں غلامی

    سلطنت روما: عیسائیت سے پہلے

    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    غلامی کی بدترین مثال

    سلطنت روم ماضی کی عظیم ترین سلطنت رہی ہے۔ اس کا اقتدار 200BC سے شروع ہو کر کم و بیش 1500 عیسوی تک جاری رہا۔ غلاموں سے متعلق رومی قوانین اپنی ہم عصر سلطنتوں سے کافی مختلف تھے۔ ان قوانین کو غلامی سے متعلق سخت ترین قوانین قرار دیا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کیتھ بریڈلے اپنے آرٹیکل "قدیم روم میں غلاموں کی مزاحمت (Resisting Slavery in Ancient Rome)" میں اس دور کی غلامی کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:

    ٍ

    کے ایس لال نے رومی غلامی کی مزید خصوصیات بیان کی ہیں:

    · رومی غلام زیادہ تر وہ ہوا کرتے تھے جو یا تو جنگوں میں پکڑے جائیں یا پھر وہ جو اپنے قرضے ادا نہ کر سکیں۔

    · ان غلاموں کو قطعی طور پر کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔ انہیں معمولی غلطیوں پر بھی موت کی سزا دی جا سکتی تھی۔

    · غلام اتنی کثیر تعداد میں تھے کہ بادشاہ آگسٹس کے دور میں ایک شخص چار ہزار غلام بطور جائیداد کے چھوڑ کر مرتا تھا۔

    · کثیر تعداد میں موجود غلاموں کو کنٹرول کرنے کے لئے انہیں دائمی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا دی جاتی تھیں جو وہ سوتے وقت بھی اتار نہ سکتے تھے۔

    · آقاؤں کی تفریح کے لئے غلاموں کو ایک دوسرے یا وحشی درندوں سے لڑایا جاتا۔ ان غلاموں کو اس کی باقاعدہ تربیت دی جاتی اور ان لڑائیوں کا نتیجہ کسی ایک کی موت کی صورت ہی میں نکلتا۔ ایسے غلاموں کو گلیڈی ایٹر (Gladiator) کہا جاتا تھا۔ فتح یاب غلام کو آزادی دینا اس کے مالکوں اور تماشائیوں کی صوابدید پر منحصر ہوا کرتا تھا۔

    غلاموں کی بغاوتیں

    غلامی کی اس بدترین شکل کے نتیجے میں رومی سلطنت میں بہت سی بغاوتیں بھی ہوئیں۔ رومی سلطنت میں غلاموں کی بہت سی بغاوتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کیتھ بریڈلے کا آرٹیکل انہی بغاوتوں کے بارے میں ہے۔ ان کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ان میں سب سے مشہور بغاوت 73-71BC میں ہوئی جس کا لیڈر مشہور گلیڈی ایٹر اسپارٹکس تھا۔ اس بغاوت میں بہت سے غلاموں نے حصہ لیا اور اس بغاوت کے نتیجے میں سلطنت روما تباہ ہوتے ہوتے بچی۔ بغاوت ناکام رہی اور اسپارٹکس کو قتل کر دیا اور اس کے ہزاروں پیروکاروں کو صلیب پر چڑھا دیا گیا جو کہ رومیوں کا عام طریق کار تھا۔

    رومی ہمیشہ ان بغاوتوں سے خائف رہے۔ ایک مرتبہ روم کے سینٹ میں یہ خیال پیش کیا گیا کہ غلاموں کو علیحدہ لباس پہنایا جائے جس سے ان کی الگ سے شناخت ہو سکے لیکن اس خیال کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ اس طریقے سے غلام ایک دوسرے کو پہچان کر اپنی قوت سے آگاہ ہو سکتے تھے۔

    رومی غلامی اس حد تک خوفناک تھی کہ روم کے مقابلے پر لڑنے والوں کو اگر اپنی شکست کا یقین ہو جاتا تو یہ لوگ اس غلامی سے محفوظ رہنے کے لئے اجتماعی طور پر خود کشی کر لیا کرتے تھے۔ دوسری طرف بعض غلام تنگ آ کر اپنے مالکوں کو بھی قتل کر دیا کرتے تھے۔ ایسی صورت میں یہ قانون بنایا گیا کہ اگر قاتل پکڑا نہ جا سکے تو اس شخص کے تمام غلاموں کو ہلاک کر دیا جائے۔

    بہت سے غلاموں نے فرار کا راستہ بھی اختیار کیا۔ رومیوں نے اس کے جواب میں غلاموں کو پکڑنے کی ایک تربیت یافتہ پولیس تیار کی۔ یہ پولیس راستوں اور جنگلوں میں غلاموں کی تلاش کی ماہر ہوا کرتی تھی۔ ان غلاموں کو باقاعدہ جنگلی جانوروں کی طرح شکار کیا جاتا۔ پکڑے جانے والے غلام پر تشدد کے بعد اس کے گلے میں لوہے کا ایک دائمی طوق پہنا دیا جاتا۔

    سلطنت روما: دور عیسائیت میں

    سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام (33BC – 0CE) کی بعثت بنی اسرائیل میں اس دور میں ہوئی جب اسرائیلی اپنے عروج کا زمانہ دو مرتبہ گزار چکے تھے۔ یہود کا دوسرا عروج سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں ہوا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی دوبارہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو کر پہلے یونان اور پھر روم کی غلامی میں جا چکے تھے۔ آپ کی بعثت کے وقت فلسطین کے علاقے پر اگرچہ ایک یہودی بادشاہ "ہیرودوس" کی حکومت تھی لیکن اس کی ریاست مکمل طور پر رومنائز ہو چکی تھی اور اس کی حیثیت روم کے ایک گورنر کی سی تھی۔

    ان کے حکمرانوں کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ایک رقاصہ کی فرمائش اپنی قوم کے صالح ترین شخص، یحیی (John the Baptist) علیہ الصلوۃ والسلام کا سر قلم کر کے اس کے حضور پیش کر دیا گیا تھا۔ سیدنا یحیی علیہ الصلوۃ والسلام کو بادشاہ بھی صالح ترین مانتا تھا۔ آپ کا جرم صرف اتنا تھا کہ آپ نے بادشاہ کو اپنی سوتیلی بیٹی سے شادی کرنے سے منع فرمایا تھا۔

    غلاموں اور پست طبقات سے متعلق سیدنا عیسی علیہ السلام کی تعلیمات

    سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام پر جو لوگ ایمان لائے، وہ معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جن کا سیاسی اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر تھا۔ آپ کے قریبی صحابہ میں سیدنا پطرس، اندریاس، یعقوب اور یوحنا رضی اللہ عنہم گلیل کی جھیل کے مچھیرے اور سیدنا متی رضی اللہ عنہ محض ایک سرکاری ملازم تھے۔ اس صورت حال میں غلامی سے متعلق کوئی اقدام کرنا آپ کے لئے ممکن نہ تھا۔ آپ نے معاشرے کے پست ترین طبقات کو، جن میں غلام بھی شامل تھے، مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان کے لئے ہے۔ مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہ زمین کے وارث ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جنہیں راستبازی کی بھوک و پیاس ہے کیونکہ وہ سیراب ہوں گے۔ مبارک ہیں وہ جو رحمدل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو صلح کرواتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے (محبوب) کہلائیں گے۔ مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی بادشاہی (جنت) انہی کے لئے ہے۔ (متی باب 5)

    اے محنت مشقت کرنے والو! اور وزنی بوجھ اٹھانے والو! تم میرے پاس آؤ، میں تمہیں آرام پہنچاؤں گا۔ (متی، 11:28)

    آپ نے غلاموں کو آزادی کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    خداوند کا روح مجھ پر ہے۔ اس نے مجھے مسح کیا ہے، تاکہ میں غریبوں کو خوشخبری سناؤں، اس نے مجھے بھیجا ہے تاکہ میں قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی کی خبر دوں، کچلے ہوؤں کو آزادی بخشوں اور خداوند کے سال مقبول کا اعلان کروں۔ (لوقا باب 4)

    آپ نے تمام انسانوں کو برابر اور ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور یہود کے علماء، جو سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی جانشینی کا منصب سنبھالے ہوئے تھے، کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    شریعت کے عالم اور فریسی موسی (علیہ الصلوۃ والسلام) کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ لہذا جو کچھ یہ تمہیں سکھائیں اسے مانو اور اس پر عمل کرو۔ لیکن ان کے نمونے پر مت چلو کیونکہ وہ کہتے تو ہیں مگر کرتے نہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جنہیں اٹھانا مشکل ہے، باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں اور خود انہیں انگلی بھی نہیں لگاتے۔ وہ ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور عبادت خانوں میں اعلی درجے کی کرسیاں، اور چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ انہیں جھک جھک کر سلام کریں اور 'ربی' کہہ کر پکاریں۔ لیکن تم ربی نہ کہلاؤ کیونکہ تمہارا رب ایک ہی ہے اور تم سب بھائی بھائی ہو۔ (متی باب 23)

    انجیل میں آپ کے کچھ ایسے ارشادات پائے جاتے ہیں جن میں آپ نے غلاموں کو اپنے مالکوں کا وفادار رہنے کی تلقین کی ہے لیکن اس سے یہ قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ آپ غلامی کو برقرار رکھنے کے قائل تھے۔ ان ارشادات کا تعلق غلام اور آقا کے تعلقات کو بہتر بنانے سے تھا۔

    غلامی کے خاتمے سے متعلق آپ کو علیحدہ سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کوئی نئی شریعت نہ لائے تھے۔ غلامی کو ختم کرنے سے متعلق شریعت موسوی میں جو تعلیمات موجود تھیں، انہی پر اگر صحیح روح کے ساتھ عمل کر لیا جاتا تو غلامی کے اثر کو کم کیا جا سکتا تھا۔ آپ نے ارشاد فرمایا:

    یہ نہ سمجھو کہ میں موسی کی کتاب، شریعت اور نبیوں کی تعلیمات کو منسوخ کرنے کے لئے آیا ہوں۔ میں ان کو منسوخ کرنے کی بجائے انہیں پورا کرنے کے لئے آیا ہوں۔ (متی، باب 5)

    ہاں ایسا ضرور تھا کہ تورات میں علمائے یہود نے جو تحریفات کر رکھی تھیں، ان سے تورات کو پاک کرنا ضروری تھا۔ آپ نے اپنی تعلیمات میں یہود کی شریعت کے ان پہلوؤں کی طرف توجہ ضرور دلائی اور بتایا کہ یہ بوجھ اللہ تعالی نے نہیں بلکہ ان کے مذہبی راہنماؤں نے ان پر عائد کیے ہیں۔ افسوس کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے سوانح نگاروں نے یہ تفصیلات مکمل طور پر ریکارڈ نہیں کیں البتہ اس کے بعض اشارات انجیلوں میں ملتے ہیں۔ اگر آپ کی مکمل تعلیمات کو ریکارڈ کر لیا جاتا تو یقینی طور پر اس میں ہمیں خدا کی اصل شریعت اور انسانوں کی موشگافیوں کی تفصیلات مل جاتیں۔

    سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ عرصے بعد عیسائیوں کی اکثریت نے سینٹ پال کو بطور مذہبی راہنما کے قبول کر لیا۔ موجودہ دور کی عیسائیت سینٹ پال کی مذہبی تعبیرات پر مبنی ہے۔ پال نے آقاؤں کو غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ "خدا کی نظر میں سب برابر ہیں۔" پال کی تعلیمات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک موسوی شریعت کی سزاؤں کے حق داروں میں لوگوں کو اغوا کر کے انہیں غلام بنانے والے بھی شامل تھے۔ وہ اپنے شاگرد ٹموتھی کو خط میں لکھتے ہیں:

    شریعت (غالباً حدود و تعزیرات مراد ہیں) راستبازوں کے لئے نہیں بلکہ بے شرع لوگوں، سرکشوں، بے دینوں، گناہ گاروں، نا راستوں، اور ماں باپ کے قاتلوں اور خونیوں کے لئے ہے۔ اور ان کے لئے ہے جو زناکار ہیں، لونڈے باز ہیں، بردہ فروشی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں جو اس صحیح تعلیم کے خلاف ہے۔ (ٹموتھی اول، باب 1)

    انجیل کے بعد کی کتابوں میں عام طور پر غلاموں کو اپنے آقاؤں سے مخلص اور فرمانبردار رہنے کی تلقین ملتی ہے۔ دوسری طرف آقاؤں کو بھی یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ غلاموں سے اچھا سلوک کریں اور خدا کی نظر میں وہ سب برابر ہیں۔ اس تعلیم کا مقصد آقا اور غلام کے تعلق کو بہتر بنانا معلوم ہوتا ہے کہ تاکہ غلاموں پر موجود سختیوں کو کم از کم عیسائی برادری کی حد تک کم کیا جا سکے۔

    تم آزاد لوگوں کی طرح رہو لیکن اپنی آزادی کو بدکاری کا پردہ مت بناؤ بلکہ خدا کے بندوں کی طرح زندگی بسر کرو۔ سب کی عزت کرو، اپنی برادری سے محبت رکھو، خدا سے ڈرو اور بادشاہ کی تعظیم کرو۔ اے غلامو! اپنے مالکوں کے تابع رہو اور ان کا کہا مانو چاہے وہ نیک اور حلیم ہوں یا بدمزاج۔ (پطرس باب 2)

    نوکرو! اپنے دنیاوی مالکوں کی صدق دلی سے ڈرتے اور کانپتے ہوئے فرمانبرداری کرو جیسی مسیح کی سی کرتے ہو۔۔۔۔مالکو! تم بھی اپنے نوکروں سے اسی قسم کا سلوک کرو۔ انہیں دھمکیاں دینا چھوڑ دو کیونکہ تم جانتے ہو کہ ان کا اور تمہارا دونوں کا مالک آسمان پر ہے اور اس کے ہاں کسی کی طرف داری نہیں ہوتی۔ (افسیوں باب 6)

    نوکرو! اپنے دنیاوی مالکوں کے سب باتوں میں فرمانبردار رہو، نہ صرف دکھاوے کے طور پر انہیں خوش کرنے کے لئے بلکہ خلوص دلی سے جیسا کہ خداوند کا خوف رکھنے والے کرتے ہیں۔۔۔۔۔مالکو! اپنے نوکروں سے عدل و انصاف سے پیش آؤ کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان پر تمہارا بھی ایک مالک ہے۔ (کلسیوں باب 4)

    عیسائیوں میں بعد کے ادوار میں غلامی

    اسمتھ کی تحقیق کے مطابق بعد کے ادوار میں بہت سے عیسائی اہل علم نے غلامی کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا۔ سینٹ اوریجن (154 – 185CE) نے ساتویں سال غلام کی آزادی کے قانون پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ سینٹ گریگوری (335 – 394CE) نے غلامی کو فطرت اور انسانیت کے خلاف قرار دیا۔ لیکن عیسائیوں کی اکثریت نے اس کے بالکل مخالف سینٹ آگسٹائن (354 – 430CE) کے نظریات کو ترجیح دی جس کے مطابق "غلامی گناہ گار کے لئے خدا کی سزا ہے۔ غلامی تو جنگی قیدی کے لئے خوش قسمتی ہے کہ وہ مرنے سے بچ گیا۔ غلامی سماجی نظام قائم رکھنے کی گارنٹی ہے اور آقا اور غلام دونوں کے لئے فائدہ مند ہے۔" اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عیسائیت قبول کر لینے والے غلاموں کو آزاد کر دینے کی تلقین بھی کی۔ چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے دوران آرتھوڈوکس فرقے کی جانب سے مسلمانوں کو خاص طور پر غلام بنا لینے کا فتوی جاری کیا گیا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی انسان دوست تعلیمات اور ان کے پیروکاروں کی زبردست دعوتی سرگرمیوں کے کچھ اثرات رومی سلطنت پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ کے ایس لال لکھتے ہیں:

    انتھونئس پائس (86 – 161CE) کے دور میں آقاؤں سے یہ حق چھین لیا گیا کہ وہ اپنے غلاموں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کر سکیں۔ شہنشاہ قسطنطین (274 – 337 CE) کے دور میں یہ قانون بنا دیا گیا کہ آقا کی وراثت تقسیم کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تقسیم ہونے والے غلاموں میں باپ بیٹے، میاں بیوی، اور بہن بھائی کو الگ نہ کیا جائے۔

    روم میں اگرچہ عیسائی تعلیمات کے تحت غلاموں کے حالات قدرے بہتر ہوئے لیکن اس کے باوجود رومی سلطنت کے خاتمے تک غلاموں سے متعلق سخت قوانین موجود تھے۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح بادشاہوں کو مذہب میں جہاں کوئی چیز اپنے مفاد میں ملتی ہے، وہ اسے اختیار کر لیتا ہے اور جہاں کوئی چیز اس کے مفاد کے خلاف نظر آتی ہے، اسے پس پشت پھینک دیتا ہے۔
     
  6. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    باب 6: عرب میں غلامی

    اہل عرب میں بھی غلامی پائی جاتی تھی۔ ان کے ہاں غلامی سے متعلق کچھ ایسے ادارے موجود تھے جن کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ چونکہ عرب میں کوئی ایک مرکزی حکومت قائم نہ تھی بلکہ الگ الگ قبائلی ریاستیں پائی جاتی تھیں، اس وجہ سے غلامی کی عملی صورتیں مختلف قبائل میں مختلف تھیں۔

    قبل از اسلام، عربوں کی تاریخ سے متعلق ہمارے پاس دیگر اقوام کی نسبت بہت زیادہ مواد موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کو اپنے نسب اور اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کو محفوظ کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کارناموں کو وہ سینکڑوں اشعار پر مشتمل نظموں اور خطبات کی صورت میں بیان کرتے اور اپنی محفلوں میں بکثرت ان کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ اشعار کو حفظ کرنے کا رواج ان کے ہاں غیر معمولی درجے میں پایا جاتا تھا۔ انہی اشعار اور عربوں کی دیگر روایات کی مدد سے عربوں کی تاریخ مدون کی گئی۔

    اس ضمن میں سب سے اعلی درجے کی کاوش ڈاکٹر جواد علی کی "المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام" ہے جو آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ یہ تاریخ کم و بیش چار ہزار صفحات پر محیط ہے۔ انہوں نے غلامی سے متعلق مباحث کو جلد 4 میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

    غلاموں کی حیثیت

    غلاموں کا طبقہ عرب معاشرے میں "حقیر ترین" طبقہ تھا۔ عربوں کے زیادہ تر غلام افریقہ سے لائے گئے تھے۔ ان کے علاوہ سفید رنگت والے رومی غلام بھی ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔ یہ زیادہ تر عراق یا شام سے لائے جاتے تھے۔

    غلاموں کے لئے لفظ "عبد" استعمال کیا جاتا تھا جس کا استعمال اپنے حقیقی مفہوم میں خدا کے مقابلے پر اس کے بندے کے لئے کیا جاتا تھا۔ مجازی طور پر آقا کو اس کے غلام کا خدا تصور کیا جاتا تھا۔ مالک کے لئے مجازی طور پر "رب" کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    ان غلاموں کی خرید و فروخت جانوروں یا بے جان اشیاء کی طرح کی جاتی تھی۔ مالک کو اپنے غلام پر مکمل حقوق حاصل تھے۔ ملکیت کا یہ حق مقدس سمجھا جاتا تھا۔ غلام کی کسی غلطی پر مالک اسے موت کی سزا بھی دے سکتا تھا۔ ابو جہل نے اپنی لونڈی سمیہ رضی اللہ عنہا کو اسلام قبول کرنے پر اپنے ہاتھوں سے موت کی سزا دی تھی۔ زیادہ غلاموں رکھنے کا مقصد آقاؤں کے جاہ و جلال اور دولت کی نمائش ہوا کرتا تھا۔ بعض امراء کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں غلام موجود تھے۔

    لونڈیوں کی حالت

    غلاموں کی ایک بڑی تعداد لونڈیوں پر بھی مشتمل تھی۔ انہیں زیادہ تر گھر کے کام کاج کے لئے رکھا جاتا۔ آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دے تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔ بہت سے آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔

    عربوں کے ہاں غلاموں کی باقاعدہ تجارت ہوا کرتی تھی۔ ان کے ہاں ایک باقاعدہ طبقہ موجود تھا جس کا کام ہی غلاموں کی تجارت کرنا تھا۔ اس طبقے کو "نخّاس" کہا جاتا تھا۔

    غلاموں میں اضافے کا طریق کار

    عربوں میں لڑائی جھگڑا اور بین القبائل جنگیں عام تھیں۔ ان جنگوں میں فاتح، نہ صرف مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بناتا بلکہ اس قبیلے کی خواتین اور بچوں کو بھی غلام بنانا فاتح کا حق سمجھا جاتا تھا۔ اس حق کو کہیں پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا سوائے اس کے کہ مفتوح قبیلہ دوبارہ قوت جمع کر کے اپنا انتقام لے سکے۔

    · قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کے باعث بھی لوگوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔

    · کسی بستی پر حملہ آور ہو کر اسے غلام بنا لینے کا رواج بھی ان کے ہاں عام تھا۔ بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لینے کا رواج عام نہیں تھا لیکن بہرحال پایا جاتا تھا۔

    · غلاموں کی اولاد بھی غلام ہی ہوا کرتی تھی۔

    · غلاموں کو خریدنے کے علاوہ جوئے میں بھی حاصل کیا جاتا تھا۔

    · ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے غلام وراثت میں اسے کی اولاد کو منتقل ہو جایا کرتے تھے۔

    غلاموں کے حقوق و فرائض

    · غلام خطرے کی صورت میں آقاؤں کی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔

    · اکثر مالکان غلاموں کے ساتھ نہایت ہی برا سلوک کیا کرتے تھے۔ غلاموں کو مال رکھنے کی اجازت بھی نہ تھی۔ فصل کٹنے کے وقت غلام کو اپنا حصہ بھی آقا کے حضور پیش کرنا پڑتا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی جنگیں غلام لڑا کرتے تھے اور جنگ میں ملنے والا مال غنیمت آقا کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سی جنگوں میں غلام مخالف فریق سے مل کر اپنے مالکوں سے غداری کر لیا کرتے تھے۔

    · صحرائی دیہاتوں میں بھی غلام ہوا کرتے تھے۔ یہ عام طور پر اپنے مالکوں کے لئے گلہ بانی کیا کرتے۔ ان کی حالت شہری غلاموں کی نسبت عام طور پر بہتر ہوتی تھی کیونکہ ان کے کام کی نوعیت شہری غلاموں کی نسبت اتنی سخت نہیں تھی۔

    · بعض غلاموں کو ان کے مالک یومیہ بنیادوں پر طے شدہ معاوضے پر آزاد چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یہ غلام محنت کرتے اور اپنی کمائی میں سے خراج مالک کو ادا کر دیتے۔

    · بعض غلام زرعی زمینوں سے وابستہ تھے۔ یہ کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔ ان غلاموں کو زمین کے ساتھ ہی اگلے مالک کی طرف منتقل کر دیا جاتا تھا۔

    عرب میں نیم غلامی

    غلاموں کے علاوہ کچھ نیم غلام قسم کے طبقات بھی اہل عرب کے ہاں پائے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک طبقہ "الادم" یا "الادوم" پایا جاتا تھا۔ یہ مزارعین کا طبقہ تھا جو خود زمین کے مالک نہ ہوا کرتے تھے بلکہ امراء کی جاگیروں پر کام کرتے اور انہیں زمین کا کرایہ ادا کیا کرتے تھے۔ اپنے حالات کے باعث یہ نہایت ہی غریب ہوا کرتے تھے لیکن ان کی حالت بہرحال غلاموں سے بہتر تھی کیونکہ یہ اپنے مالک کی ملازمت ترک کر کے دوسری جگہ جانے کا اختیار رکھتے تھے۔ ان کی مزید خصوصیات یہ ہیں:

    · بعض اوقات جاگیردار، زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار کو اپنے لئے مخصوص کر لیتے۔ ایسا عام طور پر اس زمین کے سلسلے میں کیا جاتا تھا جو نہر یا برساتی نالے کے قریب واقع ہوا کرتی تھی۔ اس طریقے سے اچھی زمین کی فصل جاگیردار لے جاتا اور خراب زمین کی تھوڑی سی پیداوار مزارعوں کے حصے میں آیا کرتی۔

    · نیم غلاموں میں ہاتھ سے کام کرنے والے بھی شامل تھے۔ زیادہ تر یہ لوگ غلام ہوا کرتے تھے لیکن ان میں سے بعض آزاد بھی ہوتے تھے۔ عرب معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت شدید تھی۔ صنعتیں نہایت ہی معمولی درجے کی تھیں اور ہاتھ سے کام کرنے والوں کو نہایت ہی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ نائی، موچی، قلی یا اس قسم کے دیگر کام کرتے۔ عرب خود ان کاموں کو پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے یہ کام بالعموم غلاموں، غیر ملکیوں اور یہودیوں کے سپرد تھے۔

    · اعلی طبقے کے لوگ ہاتھ سے کام کرنے والے کی کمائی کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور ان کے ہاں یہ بڑی شرم کی بات تھی کہ کوئی انتہائی مجبوری کی حالت میں بھی کسی ایسے شخص سے مالی مدد لے جو ہاتھ سے کما کر کھاتا ہو۔

    · ادنی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص سے اعلی طبقے کا کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا اور اس معاملے میں پورا معاشرہ نہایت ہی حساس تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیرہ کے بادشاہ نعمان بن منذر کو اس بات کا طعنہ دیا جاتا رہا کہ اس کا نانا ایک چمڑہ رنگنے والا تھا۔

    · ہاتھ سے کام کرنے والوں کو حقیر سمجھے جانے کا بھی یہی معاملہ تھا۔ بخاری (حدیث 4020) کے مطابق ابوجہل کو مرتے وقت اس بات کا افسوس رہا کہ اسے کسانوں نے قتل کیوں کیا کسی سردار نے قتل کیوں نہیں کیا۔

    ولاء کا سماجی ادارہ

    غلامی کے معاملے میں عربوں کے ہاں ایک ایسا ادارہ پایا جاتا تھا جس کی مثال دنیا کی دیگر اقوام میں نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کرتا تو اسے اپنے خاندان کا ہی ایک فرد مان لیا کرتا تھا۔ اس رشتے کو "ولاء" اور آزاد کردہ غلام کو "مولی" جمع "موالی" کہا جاتا تھا۔ بعض اوقات آزاد کردہ غلام کو یہ اختیار بھی دے دیا جاتا کہ وہ اپنی ولاء، سابق مالک کی بجائے کسی اور سے قائم کر لے۔ اس رشتے کو "ولاء بالعتق" کہا جاتا تھا۔

    ولاء کے اس رشتے سے سابق مالک کو فائدہ یہ ہوتا کہ وہ غلام کے مرنے کے بعد اس کا وارث بنتا اور غلام کو فائدہ یہ ہوتا کہ اس کی اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچا ہو تو اس کا جرمانہ ادا کرنا سابقہ مالک اور اس کے قبیلے کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ آزاد کردہ غلام کی حفاظت قبیلے اور سابقہ مالک کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی جبکہ قبیلے کو کسی خطرے کی صورت میں آزاد کردہ غلام پر دفاع کی وہی ذمہ داری عائد ہوا کرتی تھی جو اس کے مالک پر۔

    ولاء کے اس تعلق کی غلامی کے علاوہ ایک شکل اور بھی تھی۔ عربوں میں اپنی عربیت اور قبیلے سے متعلق انتہا درجے کا تعصب پایا جاتا تھا۔ اگر کوئی غیر ملکی یا کسی دوسرے قبیلے کا فرد ان کے درمیان آ کر رہنا پڑتا تو اس کے لئے لازم تھا کہ وہ قبیلے کے کسی فرد کے ساتھ ولاء کا رشتہ قائم کرے۔ ایسے لوگوں کو "موالی بالعقد" کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ جس عرب سے ولاء کا رشتہ قائم کیا کرتے تھے، عام طور پر وہ بہت سے حقوق کے حصول کے لئے اس کے محتاج ہوتے۔ اس وجہ سے اس قسم کے موالی بھی کسی حد تک نیم غلامی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔

    مولی خواہ آزاد کردہ غلام ہو یا کسی معاہدے کے تحت مولی بنا ہو، اسے حقیر سمجھا جاتا تھا اور انہیں اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ دینا معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر مولی کی شادی آزاد شخص کی بیٹی سے کر دی جاتی تو اس کا قبیلہ خود کو رسوا سمجھنے لگتا تھا۔ مشہور شاعروں ابو البجیر اور عبدالقیس نے جب اپنی بیٹیوں کی شادی اپنے موالی سے کی تو ان کی باقاعدہ ہجو کہی گئی۔

    غلام کو آزاد کرنے کی صورتیں

    عربوں میں نیک سیرت افراد کی کمی بھی نہ تھی۔ یہ لوگ غلاموں کی حالت زار پر کڑھتے اور ان سے اچھا برتاؤ کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس غلاموں کو آزاد کرنے کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہ تھا کہ غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جائے۔ اس کی ایک مثال سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے دور جاہلیت میں ایک سو غلاموں کو خرید کر آزاد کیا۔

    غلاموں کی آزادی کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ وہ اپنی آزادی خود خرید سکیں۔ ایسا کرنے کے لئے ان کے مالک کی اجازت ضروری تھی۔ اگر مالک اس بات پر تیار ہو جاتا تو غلام اپنی آزادی کو خرید کر قسطوں میں ادائیگی کر سکتا تھا۔ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ یہ رواج عرب میں بہت ہی کم تھا۔

    غلاموں کی آزادی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مالک اپنے کسی غلام کو وصیت کر دیتا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو۔ ایسے غلام کو پھر وراثت میں تقسیم نہ کیا جاتا بلکہ مالک کے مرنے کے ساتھ ہی وہ آزاد ہو جایا کرتا تھا۔

    "ام ولد" کا تصور بھی اسلام سے پہلے کے عربوں میں پایا جاتا تھا۔ ام ولد ایسی لونڈی کو کہا جاتا تھا جو اپنے مالک سے بچہ پیدا کرے۔ ایسی لونڈی کی خرید و فروخت بھی کی جاتی تھی۔ اگر مالک اس لونڈی کو فروخت نہ کرتا تو مالک کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہو جایا کرتی تھی۔

    خلاصہ بحث

    اسلام سے قبل کے دور میں غلامی کی اس صورتحال کے جائزے سے یہ نتائج نکل سکتے ہیں:

    · ظہور اسلام کے وقت دنیا میں غلاموں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ یہ غلام عرب، روم، افریقہ، ایران، ہندوستان، وسط ایشیا، چین میں موجود تھے۔

    · بعض ممالک میں غلامی اپنی بدترین شکل میں موجود تھی اور بعض ممالک میں غلاموں کے حالات نسبتاً بہتر تھے۔ عرب اور روم کے غلاموں کی حالت پوری دنیا میں سب سے بدتر تھی۔

    · دنیا کے عام مذاہب اگرچہ غلامی کو مکمل طور پر ختم تو نہ کر سکے لیکن انہوں نے بالعموم غلاموں کی حالت کو بہتر بنانے کی تلقین کی۔ جہاں جہاں مذہبی تعلیمات کے تحت حکومتیں قائم ہوئیں، وہاں عملی اقدامات بھی کیے گئے۔

    · سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت میں، انسانی کی معلوم تاریخ میں پہلی مرتبہ، غلامی کے خاتمے کے لئے قوانین بنائے گئے اور ان پر بڑی حد تک عمل بھی کیا گیا۔ بعد کے ادوار میں ہونے والی بعض تبدیلیوں کے باعث ان قوانین کے اثر کو محدود کر دیا گیا۔
     
  7. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 7: اسلام میں غلاموں کی آزادی کی تحریک (1)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    اسلام اور غلامی کی بحث سے قبل چند امور ذہن نشین کر لینے چاہییں۔ پہلی بات تو یہ کہ اسلام نے غلامی کا آغاز نہیں کیا۔ جیسا کہ پچھلے باب میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلام سے پہلے غلامی موجود تھی۔ اس غلامی کی ایک پیچیدہ اور خوفناک شکل جزیرہ نما عرب اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں موجود تھی۔ پوری دنیا اس وقت غلامی کو برقرار رکھنے کے حق میں تھی اور غلامی کے خلاف کہیں کوئی آواز موجود نہ تھی۔ اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس غلامی کے ساتھ کیا معاملہ کیا، اسے جاننے کے لئے عرب اور دیگر ممالک میں موجود غلامی کی صورتحال کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

    دوسری بات یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے ہاں غلامی کا مطالعہ کرتے وقت ہم نے ان کے آئیڈیل اور دیگر ادوار میں فرق کیا تھا، بالکل اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ میں غلامی کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں آئیڈیل اور بعد کے ادوار میں فرق کرنا چاہیے۔ اسلام کا آئیڈیل دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے سے شروع ہو کر خلافت راشدہ کے خاتمے تک رہا ہے۔ اس کے بعد اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو بھی اسی میں شامل کر لیا جائے تو اسلام کے آئیڈیل دور کی مدت ساٹھ سال (1 – 60H / 622 – 680CE) کے قریب بنتی ہے۔ اسلامی حکومت قائم ہونے سے پہلے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی کے تیرہ سالوں کو بھی اسی میں شمار کر لیا جائے تو یہ مدت کم و بیش 73 سال بنتی ہے۔

    آئیڈیل دور کے بعد کے ادوار میں بھی اگرچہ شریعت اسلامی ہی حکومت کا آفیشل قانون رہی ہے لیکن اس سے انحراف کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایک حدیث کے الفاظ کے مطابق خلافت راشدہ کو "کاٹ کھانے والی بادشاہت" اور پھر "جبر کی بادشاہت" میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ انحراف کے اس دور میں غلامی کے ادارے کی تفصیلات ہم متعلقہ باب میں بیان کریں گے۔

    تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ لوگ عام طور پر مسلمانوں کی فقہ کی کتب سے قوانین دیکھ کر ان کی بنیاد پر اسلام پر اعتراضات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ طریق کار بالکل غلط ہے۔ علم فقہ، مسلم فقہاء کی قانون سازی کا ریکارڈ ہے۔ اس ریکارڈ میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جو خالصتاً قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کی بنیاد پر ہیں۔ ان کے علاوہ انہی کتب فقہ میں ایسے قوانین بھی موجود ہیں جن کی بنیاد فقہاء کے اپنے اجتہادات ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان اجتہادی قوانین کے لئے دین اسلام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

    دین اسلام صرف اور صرف انہی قوانین کے لئے ذمہ دار ہے جو اس کے اصل ماخذ یعنی قرآن مجید اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس باب میں ہم صرف انہی احکامات کا جائزہ لیں گے جو قرآن مجید اور احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت کم و بیش 609CE میں ہوئی۔ اس دور میں عرب بہت سی چھوٹی بڑی قبائلی ریاستوں کا مجموعہ تھا۔ جزیرہ نما عرب کے اردگرد ایران کی ساسانی اور روم کی بازنطینی سلطنتوں کی حکومت قائم تھی۔ عرب میں یمن کا علاقہ ایران کے اور شام کا علاقہ روم کے ماتحت تھا۔ ان تمام سلطنتوں میں غلامی کی صورتحال کم و بیش وہی تھی جسے ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں۔

    دین اسلام کی تعلیمات میں غلامی کو ایک جھٹکے میں ختم نہ کیا گیا بلکہ اس سے متعلق کچھ اہم ترین اصلاحات نافذ کی گئیں۔ ان اصطلاحات کا ایک حصہ تو ان غلاموں سے متعلق ہے جو معاشرے میں پہلے سے ہی موجود تھے اور دوسرا حصہ آئندہ بنائے جانے والے غلاموں سے متعلق ہے۔

    جیسا کہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں کثیر تعداد میں غلام موجود تھے۔ غلاموں کا طبقہ عرب معاشرے میں "حقیر ترین" طبقہ تھا۔ ان غلاموں کی خرید و فروخت جانوروں یا بے جان اشیاء کی طرح کی جاتی تھی۔ مالک کو اپنے غلام پر مکمل حقوق حاصل تھے۔ ملکیت کا یہ حق مقدس سمجھا جاتا تھا۔ غلام کی کسی غلطی پر مالک اسے موت کی سزا بھی دے سکتا تھا۔ مجازی طور پر آقا کو اس کے غلام کا خدا تصور کیا جاتا تھا۔ غلاموں کی اولاد بھی غلام ہی ہوا کرتی تھی۔ ایک شخص کے مرنے کے بعد اس کے غلام وراثت میں اسے کی اولاد کو منتقل ہو جایا کرتے تھے۔

    زیادہ غلاموں رکھنے کا مقصد آقاؤں کے جاہ و جلال اور دولت کی نمائش ہوا کرتا تھا۔ بعض امراء کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں غلام موجود تھے۔ غلام خطرے کی صورت میں آقاؤں کی حفاظت کا فریضہ بھی سر انجام دیا کرتے تھے۔ اکثر مالکان غلاموں کے ساتھ نہایت ہی برا سلوک کیا کرتے تھے۔ غلاموں کو مال رکھنے کی اجازت بھی نہ تھی۔ غلام کو جنگ میں ملنے والا مال غنیمت آقا کی ملکیت ہوا کرتا تھا۔

    غلاموں کی ایک بڑی تعداد لونڈیوں پر بھی مشتمل تھی۔ انہیں زیادہ تر گھر کے کام کاج کے لئے رکھا جاتا۔ آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دے تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔ بہت سے آقا ان لونڈیوں سے عصمت فروشی کا کام لے کر ان کی کمائی خود وصول کیا کرتے تھے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ شب بسری کے لئے کسی دوست کو ایک رات کے لئے لونڈی دے دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔

    غلاموں کے علاوہ کچھ نیم غلام قسم کے طبقات بھی اہل عرب کے ہاں پائے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک مزارعین کا طبقہ تھا جو خود زمین کے مالک نہ ہوا کرتے تھے بلکہ امراء کی جاگیروں پر کام کرتے اور انہیں زمین کا کرایہ ادا کیا کرتے تھے۔ بعض اوقات جاگیردار، زمین کے کسی مخصوص ٹکڑے کی پیداوار کو اپنے لئے مخصوص کر لیتے۔ ایسا عام طور پر اس زمین کے سلسلے میں کیا جاتا تھا جو نہر یا برساتی نالے کے قریب واقع ہوا کرتی تھی۔ اس طریقے سے اچھی زمین کی فصل جاگیردار لے جاتا اور خراب زمین کی تھوڑی سی پیداوار مزارعوں کے حصے میں آیا کرتی۔

    عرب معاشرے میں طبقاتی تقسیم بہت شدید تھی۔ صنعتیں نہایت ہی معمولی درجے کی تھیں اور ہاتھ سے کام کرنے والوں کو نہایت ہی حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ نائی، موچی، قلی یا اس قسم کے دیگر کام کرتے۔ ادنی طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص سے اعلی طبقے کا کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا اور اس معاملے میں پورا معاشرہ نہایت ہی حساس تھا۔

    ان حالات میں اسلام کا ظہور ہوا۔ اللہ تعالی نے جہاں مسلمانوں کو دیگر معاملات میں بہت سے احکامات دیے، وہاں غلامی سے متعلق بھی احکامات نازل ہوئے۔ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات میں غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریک پیدا کرنے سے متعلق احکامات کو ان عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

    · غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب

    · غلاموں کی آزادی کی مثال قائم کرنا

    · مکاتبت کے ادارے کا قیام

    · حکومتی سطح پر غلاموں کی آزادی کے اقدامات

    · مذہبی بنیادوں پر غلام آزاد کرنے کے احکامات

    · قریبی رشتے دار غلام کی آزادی کا قانون

    · اسلام قبول کرنے والے غلاموں کی آزادی کا قانون

    اب ہم ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں:

    غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب

    غلامی کے خاتمے کا وژن

    اللہ تعالی نے وحی کے آغاز ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذریعے مسلمانوں کو غلامی کے خاتمے کے لئے ایک وژن دے دیا تھا۔

    وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ۔ (النحل 16:71)

    اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کے برابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو آغاز وحی سے ہی غلاموں کی آزادی کی ترغیب دی جانے لگی۔ آپ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ انہیں دوران وحی غلاموں کو آزاد کرنے کا خاص حکم دیا جاتا ہے:

    حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِلالٍ ، حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : مَا زَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ يُوصِينِي بِالْمَمْلُوكِ ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيَجْعَلُ لَهُ حَدًّا إِذَا بَلَغُوا عَتِقُوا. وحديث المملوك صحيح على شرطه وشرط البخاري (بيهقي، شعب الايمان، عسقلانی، المطالب العالية، باب ابن عباس)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "جبریل مجھے مسلسل غلاموں کے بارے میں نصیحت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال گزرا کہ وہ (اللہ تعالی کی جانب سے) کوئی ایسی حد مقرر فرما دیں گے کہ جس پر پہنچ کر غلام کو آزاد کر دیا جائے۔" بیہقی کہتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

    جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا خیال تھا، یہ حد بعد میں مکاتبت کے قانون میں مقرر کر دی گئی۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ غلامی کے بارے میں اسلام کا یہ وژن اتنا واضح ہے کہ اس کا اعتراف انصاف پسند مستشرقین بھی کرتے ہیں:

    For, far from being passive submission to Allah’s inscrutable will, Islam gives each individual the chance to contribute actively towards his own salvation. For instance, in the Koran slavery was taken for granted, in accordance with prevailing practice; but freeing of slaves was encouraged as meritorious. Thus, the Koran, in the seventh century A.D., does not consider slavery an immutable, God-given state for certain groups of human beings, but an unfortunate accident. It was within the reach of man to ameliorate this misfortune. (Ilse Lichtenstadter; Islam & the Modern World)

    اسلام محض اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکا دینے کا نام نہیں ہے۔ اسلام ہر شخص کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی نجات کے لئے خود متحرک ہو کر کام کرے۔ مثال کے طور پر قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ غلامی دنیا میں متواتر عمل کے طور پر موجود ہے لیکن غلام آزاد کرنے کو ایک بڑی نیکی قرار دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ساتویں صدی کے قرآن نے غلامی کو ناقابل تبدیلی قرار نہیں دیا کہ یہ ایک ایسی حالت ہے جو خدا نے چند انسانی گروہوں پر مسلط کر دی ہے، بلکہ (قرآن کے نزدیک) یہ ایک منحوس حادثہ ہے جس کا ازالہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔

    ابتدائی مسلمان اور غلامی

    جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو حیرت انگیز طور پر اس دعوت نے دو طبقات کو متاثر کیا۔ ان میں سے ایک طبقہ تو وہ تھا جو مکہ کی اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا لیکن وہ موجودہ مذہبی، سیاسی اور معاشرتی نظام سے مطمئن نہ تھا۔ اس طبقے کے اسلام کی دعوت قبول کرنے والے افراد کی مثال سیدنا ابوبکر، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، ابو عبیدہ، خدیجہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ دوسرا طبقہ غلاموں اور نیم غلاموں پر مشتمل تھا جس میں سیدنا بلال، یاسر، سمیہ، عمار، صہیب اور خباب رضی اللہ عنہم شامل تھے۔

    یہ مذہبی جبر (Religious Persecution) کا دور تھا۔ جہاں ایک طرف اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اپنے بزرگوں کے ہاتھوں جبر کا سامنا کرنا پڑا وہاں غلام طبقے کو تو باقاعدہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ ان غلاموں کو مکہ کی تپتی ریت اور دہکتی چٹانوں پر لٹا کر بھاری بھرکم پتھر ان کے سینے پر رکھ دیے جاتے۔ اس موقع پر اسلام قبول کرنے والے امیر افراد سامنے آئے اور انہوں نے ان غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے کا عمل شروع کیا۔

    اگر ہم اس دور میں نازل شدہ قرآنی آیات کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہو گا کہ قرآن اپنے ماننے والوں کو اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتیں یاد دلا کر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

    أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ. وَلِسَاناً وَشَفَتَيْنِ. وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ. فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ. وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ. فَكُّ رَقَبَةٍ۔ أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ. يَتِيماً ذَا مَقْرَبَةٍ۔ أَوْ مِسْكِيناً ذَا مَتْرَبَةٍ. (90:11-15)

    کیا ہم نے اس (انسان) کے لئے دو آنکھیں، زبان اور دو ہونٹ نہیں بنائے اور دونوں نمایاں راستے اسے نہیں دکھائے۔ مگر اس نے دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی کوشش نہیں کی اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی ہے کیا؟ کسی گردن کو غلامی سے آزاد کروانا، یا فاقے میں مبتلا کسی قریبی یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا۔

    ان قرآنی تعلیمات کے نتائج خاطر خواہ نکلے اور اسلام کے آغاز ہی سے یہ بات طے ہو گئی کہ غلام بھی آزاد ہی کی طرح کے انسان ہیں اور آزاد افراد کا یہ فرض ہے کہ وہ ان غلاموں کو برابری کی سطح پر لائیں۔ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی مستشرق ٹاؤن سینڈ لکھتے ہیں:

    Numerous slaves also announced their adhesion to the new opinions. Abu Bekr exhausted great wealth for an Arab in purchasing slaves who had been persecuted for their admira tion of Mahommed, and from that day to this Islam has been distinguished by its adherence to one high principle. The slave who embraces Islam is free ; not simply a freed man, but a free citizen, the equal of all save the Sultan, competent de facto as well as de jure to all and every office in the state. (Townsend, Asia vs. Europe)

    ان نئے عقائد کو قبول کرنے والوں میں بہت سے غلام بھی تھے۔ ابوبکر نے اپنی دولت، جو کہ کسی عرب کے لئے بڑی دولت تھی، کو ان غلاموں کو خرید کر (آزاد کرنے میں) صرف کیا جو کہ محمد (صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) پر ایمان لا چکے تھے۔ اس دن کے بعد آج تک اسلام میں ایک اصول تو طے شدہ ہے۔ ہر وہ غلام جو اسلام قبول کر لے، آزاد ہو جاتا ہے۔ نہ صرف ایک آزاد انسان، بلکہ ایک آزاد شہری جو کہ بادشاہ کے علاوہ دوسرے تمام شہریوں کے برابر اور قانونی اور حقیقی اعتبار سے ہر عہدے کے لئے موزوں سمجھا جاتا ہے۔

    ٹاؤن سینڈ کو یہ غلطی لاحق ہوئی ہے کہ غلام کا درجہ بادشاہ سے کم ہے۔ اسلام میں عزت اور مرتبے کا معیار صرف اور صرف تقوی ہے۔ ایک غلام اگر متقی ہے تو اس کا درجہ ایک صحیح اسلامی معاشرے میں کسی بدکار بادشاہ سے کہیں زیادہ ہے۔ ہجرت کے بعد میں مزید ایسی آیات نازل ہوئیں جنہوں نے غلام آزاد کرنے کو بڑی نیکی قرار دیا۔

    لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ۔ (2:177)

    نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ کوئی اللہ، یوم آخرت، فرشتوں، آسمانی کتب، اور نبیوں پر ایمان لائے اور اپنے مال کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سائلوں اور غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے خرچ کرے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی تعلیمات میں غلام آزاد کرنے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    حدثنا أحمد بن يونس: حدثنا عاصم بن محمد قال: حدثني واقد ابن محمد قال: حدثني سعيد بن مرجانة، صاحب علي بن حسين، قال: قال لي أبو هريرة رضي الله عنه: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "أيما رجل أعتق امرأ مسلما، استنقذ الله بكل عضو منه عضوا منه من النار۔" قال سعيد بن مرجانة: فانطلقت به إلى علي بن حسين، فعمد علي بن حسين رضي لله عنهما إلى عبد له، قد أعطاه به عبد الله بن جعفر عشرة آلاف درهم، أو ألف دينار، فأعتقه. (بخاری، کتاب العتق، حديث 2517)

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی کسی مسلمان غلام کو آزاد کرتا ہے، اللہ تعالی اس (غلام) کے ہر ہر عضو کے بدلے (آزاد کرنے والے کے) ہر ہر عضو کو جہنم سے آزاد کرے گا۔" سعید بن مرجانہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے ایک غلام کی طرف رخ کیا اور اسے آزاد کر دیا۔ اس غلام کی قیمت عبداللہ بن جعفر دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار لگا چکے تھے۔

    اسلام میں آزادی کی اس تحریک کو صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ کسی بھی "نسمہ" (یعنی جاندار چیز جس میں انسان، جانور اور پرندے سبھی شامل ہیں) کی آزادی کو ایک نیکی قرار دے دیا گیا۔

    وعن ابن عباس قال‏:‏ جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال‏:‏ يا رسول الله أصبت امرأتي وهي حائض فأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يعتق نسمة وقيمة النسمة يومئذ دينار‏. (مجمع الزوائد، کتاب الطهارة)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، "یا رسول اللہ! میں نے حالت حیض میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے ایک جاندار آزاد کرنے کا حکم دیا۔ آج کے دن جاندار چیز کی (کم سے کم قیمت) ایک دینار ہے۔

    غیر مسلم غلاموں کی آزادی

    ان آیات و حدیث سے کوئی یہ سمجھ سکتا ہے کہ صرف مسلمان غلام ہی کو آزاد کرنا باعث اجر ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو، جنہوں نے بہت سے غیر مسلم غلاموں کو آزاد کیا تھا، کو بھی اجر ملنے کی بشارت دی۔

    حدثنا عبيد بن إسماعيل: حدثنا أبو أسامة، عن هشام: أخبرني أبي: أن حكيم بن حزام رضي الله عنه أعتق في الجاهلية مائة رقبة، وحمل على مائة بعير، فلما أسلم حمل على مائة بعير، وأعتق مائة رقبة، قال: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله، أرأيت أشياء كنت أصنعها في الجاهلية، كنت أتحنث بها؟ يعني أتبرر بها، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أسلمت على ما سلف لك من خير). (بخاری، کتاب العتق، حديث 2538)

    حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے اور ضرورت مند مسافروں کو سواری کے لئے سو اونٹ فراہم کئے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی انہوں نے سو اونٹ ضرورت مندوں کو دیے اور سو غلام آزاد کئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، "یا رسول اللہ! ان نیک اعمال کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو میں دور جاھلیت میں کر چکا؟" آپ نے فرمایا، "جو نیکیاں تم اسلام لانے سے پہلے کر چکے ہو، وہ سب کی سب قائم رہیں گی۔"

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غیر مسلم غلاموں کو آزاد کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "مصنف" میں غیر مسلم غلاموں کی آزادی کا باقاعدہ باب قائم کرتے ہوئے اس میں سیدنا عمر، علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے غیر مسلم غلام آزاد کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔

    حدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي هِلاَلٍ ، عَنْ أُسَّقٍ ، قَالَ : كُنْتُ مَمْلُوكًا لِعُمَرَ ، فَكَانَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ الإِسْلاَمَ وَيَقُولُ : {لاَ إكْرَاهَ فِي الدِّينِ} فَلَمَّا حُضِرَ أَعْتَقَه. (مصنف ابن ابی شيبة، باب فی عتق اليهودی و النصراني، حديث 12690)

    اُسق کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دیا کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے، "دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔" ایک مرتبہ اسق کو ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اسق کو آزاد کر دیا۔

    سعيد قال : حدثنا أبو شهاب عن يحيى بن سعيد : أن عمر بن عبد العزيز أعتق عبداً له نصرانياً ، فمات وترك مالاً ، فأمر عمر بن عبد العزيز ما ترك أن يجعل في بيت المال . (سنن سعيد بن منصور؛ كتاب الميراث)

    سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک عیسائی غلام آزاد کیا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے ترکے میں مال تھا (اور اس کا سوائے عمر بن عبدالعزیز کے اور کوئی وارث بھی نہ تھا۔) عمر نے اس کے ترکے کو بیت المال میں داخل کر دیا۔

    یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اہل علم جیسے امام مالک نے موطاء (پیراگراف نمبر 2258 میں) غیر مسلم غلاموں کو آزاد کرنے کو نیکی قرار دیا ہے۔ اس واقعے کو گولڈ زیہر نے بھی اپنی کتاب "محمد اینڈ اسلام" میں بیان کیا ہے۔

    مسلمانوں کے ہاں یہ عمل بھی رائج رہا ہے کہ وہ غیر مسلم غلاموں کو خود بھی آزاد کیا کرتے تھے اور دشمنوں سے بھی خرید کر آزاد کروایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:

    A document of the time of the Umaiyad caliph 'Umar ibn 'Abdal-'Aziz (reported by Ibn Sa'd) says that the payment of the ransoms by the Muslim government includes liberating even the non-Muslim subjects who would have been made prisoners by the enemy. (Dr. Hamidullah, Introduction to Islam)

    اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (علیہ الرحمۃ) کے دور کے ایک سرکاری کاغذ کے مطابق جسے ابن سعد نے بیان کیا ہے، مسلمان حکومت کو اپنے ایسے غیر مسلم شہریوں کا فدیہ ادا کرنا چاہیے جو کہ دشمن کی قید میں ہوں۔

    قیمتی غلاموں کی آزادی

    ایسا ممکن تھا کہ ان آیات اور احادیث کو سن کر لوگ اپنے کاہل اور نکمے قسم کے غلاموں کو تو آزاد کر دیتے لیکن قیمتی اور محنت کرنے والے غلاموں کو بدستور غلام رکھتے۔ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

    حدثنا عبيد الله بن موسى، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن أبي مراوح، عن أبي ذر رضي الله عنه قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم: أي العمل أفضل؟ قال: (إيمان بالله، وجهاد في سبيله). قلت: فأي الرقاب أفضل؟ قال: (أغلاها ثمنا، وأنفسها عند أهلها). قلت: فإن لم أفعل؟ قال: (تعين صانعا، أو تصنع لأخرق). قال: فإن لم أفعل؟ قال: (تدع الناس من الشر، فإنها صدقة تصدق بها على نفسك). (بخاری، کتاب العتق، حديث 2518)

    ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، "کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟" آپ نے فرمایا، "اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔" میں نے عرض کیا، "کس غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے؟" آپ نے فرمایا، "جو سب سے زیادہ قیمتی ہو اور اپنے آقاؤں کے لئے سب سے پسندیدہ ہو۔" میں نے عرض کیا، "اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟" آپ نے فرمایا، "تو پھر کسی کاریگر یا غیر ہنر مند فرد کی مدد کرو۔" میں نے عرض کیا، "اگر میں یہ بھی نہ کر سکوں؟" آپ نے فرمایا، "لوگوں کو اپنی برائی سے بچاؤ۔ یہ بھی ایک صدقہ ہے جو تم خود اپنے آپ پر کرو گے۔"

    حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو جلدی جلدی آزاد کرنے کی ترغیب دلائی۔ آپ نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ غلام آزاد کرنے کے لئے اپنی موت کا انتظار نہ کریں بلکہ جلد از جلد غلاموں کو آزاد کریں۔

    قال أخبرنا قتيبة بن سعيد ، قال : حدثنا أبو الأحوص ، عن أبي إسحاق ، عن أبي حبيبة ، عن أبي الدرداء أن رسول الله r قال الذي يعتق عند الموت كالذي يهدي بعدما شبع . (سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4873)

    ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے، وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو (گناہوں سے) اچھی طرح سیر ہونے کے بعد (نیکی کی طرف) ہدایت پاتا ہے۔

    لونڈیوں کی آزادی

    جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اس دور میں لونڈیوں کی اخلاقی حالت اچھی نہ تھی۔ نوجوان لونڈیوں کو عصمت فروشی کی تربیت دے کر انہیں تیار کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے کوئی شریف آدمی شادی کرنے کو تیار نہ ہوتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان لونڈیوں کی اخلاقی تربیت کر کے انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دلائی۔

    أخبرنا محمد، هم ابن سلام، حدثنا المحاربي قال: حدثنا صالح بن حيان قال: قال عامر الشعبي: حدثني أبو بردة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب، آمن بنبيه وآمن بمحمد صلى الله عليه وسلم، والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة يطؤها، فأدبها فأحسن أدبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجران. (بخاری، کتاب العلم، حديث 97)

    ابو بردہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "تین قسم کے افراد کے لئے دوگنا اجر ہے: اھل کتاب میں سے کوئی شخص جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لایا۔ ایسا غلام جو اللہ کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے مالکان کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ ایسا شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جس سے وہ ازدواجی تعلقات رکھتا ہو، وہ اسے بہترین اخلاقی تربیت دے، اسے اچھی تعلیم دلوائے، اس کےبعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے تو اس کے لئے بھی دوہرا اجر ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خود اس کی مثال قائم فرمائی۔ آپ نے سیدہ صفیہ اور ریحانہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے ان کے ساتھ نکاح کیا۔ اسی طرح آپ نے اپنی لونڈی سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کی۔ آپ نے اپنی ایک لونڈی سلمی رضی اللہ عنہا کو آزاد کر کے ان کی شادی ابو رافع رضی اللہ عنہ سے کی۔

    غلاموں کی آزادی میں رسول اللہ کی ذاتی دلچسپی

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو غلاموں کی آزادی سے ذاتی طور پر دلچسپی تھی۔ اوپر بیان کردہ عمومی احکامات کے علاوہ آپ بہت سے مواقع پر خصوصی طور پر غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ بہت سی جنگوں جیسے غزوہ بدر، بنو عبدالمصطلق اور حنین میں فتح کے بعد آپ نے جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے اور انہیں آزاد کروا کر ہی دم لیا۔ اس کے علاوہ بھی آپ مختلف غلاموں کے بارے میں ان کے مالکوں سے انہیں آزاد کرنے کی سفارش کیا کرتے تھے۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا سليمان بن داود حدثنا أبو عامر عن الحسن عن سعد مولى أبي بكر وكان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم وكان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه خدمته فقال: يا أبا بكر أعتق سعدا فقال: يا رسول الله ما لنا ما هن غيره قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أعتق سعدا. (مسند احمد، باب سعد مولی ابوبکر)

    ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام سعد رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت کیا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ان کی خدمت سے بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے، "ابوبکر! سعد کو آزاد کر دو۔" ابو بکر کہنے لگے، "یا رسول اللہ! میرے پاس ان کے علاوہ اور کوئی غلام نہیں ہے۔" آپ نے پھر فرمایا، "سعد کو آزاد کر دو۔" چنانچہ ابوبکر نے سعد کو آزاد کر دیا۔

    جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر مقرر فرمایا تو انہیں بہت سی نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ آپ نے غلاموں کی آزادی کو اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ کام قرار دیا۔

    يا معاذ ما خلق الله شيئا على وجه الأرض أبغض إليه من الطلاق وما خلق الله عز وجل على وجه الأرض أحب إليه من العتاق وإذا قال الرجل لمملوكه أنت حر إن شاء الله فهو حر ولا استثناء له وإذا قال لامرأته أنت طالق إن شاء الله فله استثناؤه ولا طلاق عليه (ابن عدى ، والبيهقى ، والديلمى عن معاذ )أخرجه ابن عدى (2/279 ، ترجمة 443 حميد بن مالك) ، والبيهقى (7/361 ، رقم 14897) ، والديلمى (5/378 ، رقم 8485) . وأخرجه أيضًا : الدارقطنى (4/35) ، وابن الجوزى فى العلل المتناهية (2/643 ، رقم 1066) . (جمع الجوامع)

    اے معاذ! اللہ تعالی نے روئے زمین پر جو چیزیں تخلیق کی ہیں، ان میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کام کوئی نہیں ہے اور اس نے زمین پر جو چیزیں تخلیق کی ہیں ان میں غلام آزاد کرنے سے زیادہ اچھا کام کوئی نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے غلام سے کہے، اگر اللہ چاہے تو تم آزاد ہو تو وہ آزاد ہو جاتا ہے اور اس میں کسی چیز کا استثناء نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ اللہ چاہے تو تمہیں طلاق ہے تو اس صورت میں استثناء موجود ہے اور طلاق واقع نہیں ہو گی۔

    کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کرنے کی یہ ترغیب محض ایک ترغیب ہی تو تھی۔ اس میں مسلمانوں کو کسی بات کا قانونی طور پر پابند نہیں کیا گیا تھا۔ اس وجہ سے محض ترغیب دینے کا کیا فائدہ؟

    یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دین اسلام کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ارشادات سے محبت اور وابستگی سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔ صحابہ کرام اور ان کے تربیت یافتہ تابعین تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زبان اقدس سے نکلی ہوئی ہر بات کو پورا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال اوپر گزر چکی ہے جس میں سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ نے حدیث سنتے ہی اپنا قیمتی ترین غلام آزاد کر دیا تھا۔

    فقہی اور قانونی اعتبار سے انفرادی طور پر غلام کو آزاد کرنا اگرچہ محض ایک مستحب عمل ہی تھا لیکن بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ غلاموں کا درجہ خود تک بلند کریں۔ جب دین کا کوئی حکم مسلمانوں کو بحیثیت اجتماعی دیا جائے تو اس کی ادائیگی حسب استطاعت ہر مسلمان پر ضروری ہوتی ہے۔ امیر افراد پر ان کی طاقت کے مطابق اور غرباء پر ان کی استطاعت کے مطابق۔

    یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے اس حکم کے نتیجے میں مسلمانوں میں سے امیر و غریب افراد نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے غلامی کے خاتمے کے لئے جو کچھ کیا، اس کی تفصیلات ہم آگے بیان کر رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اس ترغیب و تحریک کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں غلاموں کی آزادی ایک نیک اور متواتر عمل کے طور پر جاری ہو گئی اور موجودہ دور میں غلامی کے مکمل خاتمے تک جاری رہی۔

    غلاموں کی آزادی کی مثال قائم کرنا

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو آزاد کرنے کی محض ترغیب ہی نہ دی بلکہ ایسا کرنے کی بذات خود مثال قائم فرمائی۔ آپ جب یہ محسوس فرماتے کہ آپ کا کوئی غلام آزادانہ طور پر زندگی بسر کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے تو اسے آزاد فرما دیتے۔ یہ سلسلہ آپ کی پوری زندگی میں جاری رہا حتی کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کے پاس کوئی غلام نہ تھا۔

    حدثنا إبراهيم بن الحارث: حدثنا يحيى بن أبي بكير: حدثنا زهير بن معاوية الجعفي: حدثنا أبو إسحاق، عن عمرو بن الحارث، ختن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أخي جويرية بنت الحارث، قال: ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته درهما، ولا دينارا، ولا عبدا، ولا أمة، ولا شيئا، إلا بغلته البيضاء، وسلاحه، وأرضا جعلها صدقة. (بخاری، کتاب الوصايا، حديث 2739)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے برادر نسبتی عمرو بن حارث جو ام المومنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہما کے بھائی ہیں، کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت درھم، دینار، غلام، لونڈی اور کوئی چیز نہ چھوڑی تھی۔ ہاں ایک سفید خچر، کچھ اسلحہ (تلواریں وغیرہ) اور کچھ زمین چھوڑی تھی جسے آپ صدقہ کر گئے تھے۔

    حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کزن سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو آپ کی وفات کے وقت آپ کے قریب موجود تھے، بیان کرتے ہیں:

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عفان وأبو سعيد المعني قالا: حدثنا ثابت حدثنا هلال بن خباب عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم التفت إلى أحد فقال: والذي نفس محمد بيده ما يسرني أن أحدا يحول لآل محمد ذهبا أنفقه في سبيل الله أموت يوم أموت أدع منه دينارين إلا دينارين أعدهما لدين إن كان فمات وما ترك دينارا ولا درهما ولا عبدا ولا وليدة وترك درعه رهونة عند يهودي على ثلاثين صاعا من شعير. (مسند احمد، باب عبداللہ بن عباس)

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (اپنی وفات سے پہلے) کسی کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، "اس کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، یہ معاملہ میرے لئے آسان نہیں ہے کہ کوئی محمد کے خاندان کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جانے والا سونا دے۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں آج دو دینار ہی چھوڑ کر فوت ہو جاؤں سوائے اس کے کہ وہ قرض ادا کرنے کے لئے رکھے ہوئے ہوں۔ آپ نے ایسی حالت میں وفات پائی کہ آپ نے ترکے میں کوئی دینار، درہم، غلام، لونڈی نہ چھوڑی۔ آپ نے ترکے میں ایک زرہ چھوڑی جو کہ تیس صاع جو کا قرض لینے کے باعث ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی۔

    ان احادیث کے بارے میں بعض لوگ یہ کہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو بڑے مکاتب فکر یعنی شیعہ اور سنی کا ان پر اتفاق نہیں ہے۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ اہل تشیع کا اس معاملے میں اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ترکے میں کوئی غلام یا لونڈی چھوڑی تھی یا نہیں؟ ان کا اختلاف باغ فدک سے متعلق ہے جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے خاندان کا حق سمجھتے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی چھوڑی ہوئی جائیداد صدقہ تھی اور اسے سرکاری خزانے کا حصہ ہونا چاہیے تھا۔

    اگر حضور نے اپنے ترکے میں کوئی لونڈی یا غلام چھوڑا ہوتا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اس کا بھی دعوی کرتیں جبکہ اہل تشیع کی روایات ایسی کسی غلام یا لونڈی کے ذکر سے خالی ہیں۔ اس وجہ سے اس معاملے میں سنی اور شیعہ دونوں مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا تھا۔

    حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن غلاموں اور لونڈیوں کو آزادی عطا فرمائی ، ان میں زید بن حارثہ، ثوبان، رافع، سلمان فارسی، ماریہ، ام ایمن، ریحانہ رضی اللہ عنہم مشہور ہوئے۔ ابن جوزی نے تلقیح الفہوم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جن آزاد کردہ غلاموں کے نام گنوائے ہیں ان کی تعداد 41 ہے جبکہ انہوں نے آپ کی 12 آزاد کردہ لونڈیوں کا تذکرہ کیا ہے۔

    بہت سے غلاموں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلمانوں کے بیت المال کی رقم سے خرید کر آزاد فرمایا۔ ان کا درجہ بلند کرنے کے لئے انہیں آپ نے اپنا مولی قرار دے کر انہیں اپنے خاندان میں شامل کر دیا۔ ابن جوزی بیان کرتے ہیں کہ مرض وفات میں آپ نے چالیس غلاموں کو خرید کر آزاد فرمایا۔ (تاریخ الامم و الملوک، ج 4)

    غلام آزاد کرنے کی یہ مثال نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قائم فرمائی بلکہ آپ کے اہل بیت اور قریبی صحابہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ اس کی تفصیلات ہم غلاموں کی آزادی کی تحریک کے نتائج کے باب میں بیان کریں گے۔
     
  8. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 7: اسلام میں غلاموں کی آزادی کی تحریک (2)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مکاتبت کے قانون کا نفاذ

    مکاتبت کا سماجی ادارہ عرب میں پہلے سے موجود تھا یا نہیں تھا، اس معاملے میں اسلام سے پہلے کی تاریخ عرب لکھنے والے مورخین میں اختلاف ہے۔ اگر یہ ادارہ موجود بھی تھا تو یہ مالک کی مرضی پر ہوا کرتا تھا کہ وہ غلام کو اس طریقے سے آزاد کرے یا نہ کرے۔ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ قدیم عرب میں مکاتبت کا رواج بہت ہی کم تھا۔ (دیکھئے طبقات الکبری، باب ابوعبس بن جبر)

    مکاتبت کے ادارے کا قانونی تحفظ

    دین اسلام نے اس ادارے کو قانونی شکل دی اور مالکوں کے لئے یہ لازم قرار دیا کہ جب ان کے غلام ان سے اپنی آزادی خریدنا چاہیں تو وہ اس سے انکار نہ کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

    وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْراً وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۔ (النور 24:33)

    تمہارے غلاموں میں سے جو مکاتبت کرنا چاہیں، ان سے مکاتبت کر لو اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔

    اس آیت کے الفاظ صریحاً اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ غلام اگر اپنی آزادی کو خریدنے کا طالب ہو تو اس سے مکاتبت کرنا ضروری ہے۔ "اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو" سے مراد سب اہل علم بشمول سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، نے یہی لیا ہے کہ ان غلاموں کے پاس اتنا مال ہو یا وہ اتنا مال کمانے کی صلاحیت رکھتے ہوں جس سے وہ اپنی آزادی خرید سکیں۔ (دیکھیے مسند ابن ابی شیبہ، حدیث 23306) علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں:

    واحتجوا أيضا بأن هذه الآية نزلت في غلام لحويطب بن عبد العزى يقال له صبيح سأل مولاه أن يكاتبه فأبى عليه فأنزل الله تعالى هذه الآية فكاتبه حويطب على مائة دينار ووهب له منها عشرين دينارا فأداها وقتل يوم حنين في الحرب. (عينی، شرح البخاری، کتاب المکاتب)

    اہل علم نے اس بات سے بھی دلیل حاصل کی ہے کہ (مکاتبت کی یہ آیت) حویطب بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں صبیح کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے آقا سے مکاتبت کی درخواست کی جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔ انہوں نے حویطب سے سو دینار پر مکاتبت کر لی اور اس میں سے بیس دینار انہیں معاف بھی کر دیے۔ انہوں نے یہ رقم ادا کی۔ یہ صاحب جنگ حنین میں شہید ہو گئے۔

    اس کے علاوہ مالکان، حکومت اور دیگر صاحب ثروت لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ایسے غلاموں کی مدد کریں جو مکاتبت کے خواہاں ہوں۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ غلام کی درخواست پر مکاتبت کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس ادارے کو باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل تھا۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

    وقال روح، عن ابن جريج: قلت لعطاء: أواجب علي إذا علمت له مالا أن أكاتبه؟ قال: ما أراه إلا واجبا. وقاله عمرو بن دينار. قلت لعطاء: تأثره عن أحد، قال: لا. ثم أخبرني: أن موسى بن أنس أخبره: أن سيرين سأل أنسا المكاتبة، وكان كثير المال فأبى، فانطلق إلى عمر رضي الله عنه فقال: كاتبه، فأبى، فضربه بالدرة ويتلو عمر: {فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا}. فكاتبه. (بخاری، کتاب المکاتب، ترجمة الباب عند حديث 2559)

    ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا، "کیا مجھ پر یہ لازم ہے کہ اگر مجھے علم ہو کہ غلام ادائیگی کر سکتا ہے تو اس سے مکاتبت کر لوں؟" وہ کہنے لگے، "میں اسے ضروری تو نہیں سمجھتا۔" عمرو بن دینار نے ان سے کہا، "کیا آپ کو اس معاملے میں کسی صحابی کے قول و فعل کا علم ہے؟" وہ کہنے لگے، "نہیں"۔ انہوں نے یہ موسی بن انس کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا:

    سیرین (جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) کے پاس کثیر مال موجود تھا۔ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے مکاتبت کی درخواست کی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ یہ معاملہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں لے گئے۔ انہوں نے (انس سے) کہا: "مکاتبت کرو۔" انہوں نے پھر انکار کیا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں درے سے مارا اور یہ آیت تلاوت کی، "ان سے مکاتبت کرو اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو۔" اب انس نے مکاتبت کر لی۔ (یہ روایت طبرانی میں متصل سند کے ساتھ موجود ہے۔)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے وقت کثیر تعداد میں صحابہ موجود تھے۔ کسی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات سے نہیں روکا کہ وہ انس رضی اللہ عنہ کو سزا کیوں دے رہے ہیں جبکہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اکابر صحابہ مکاتبت کو ضروری قرار دیتے تھے۔ یہ مکاتب جن کا نام سیرین تھا، تابعین کے مشہور امام محمد بن سیرین کے والد تھے۔ بعد کے ادوار میں بھی یہی معاملہ رہا۔

    مکاتبوں کے قانونی تحفظ کا یہ عالم تھا کہ مالک کو یہ قطعی اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ اس معاملے میں الٹی سیدھی شرائط عائد کر کے مکاتبت کے معاملے کو لٹکا سکے۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ : أَرَادَ مُكَاتَبٌ أَنْ يُعْطِيَ مَوْلاَهُ الْمَالَ كُلَّهُ ، فَقَالَ : لاَ آخُذُهُ إلاَّ نُجُومًا ، فَكَتَبَ لَهُ عُثْمَانُ عِتْقَهُ ، وَأَخَذَ الْمَالَ وَقَالَ : أَنَا أُعْطِيكَهُ نُجُومًا ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الرَّجُلَ أَخَذَ الْمَالَ. (مصنف ابن ابی شيبة، حديث 22993)

    ایک مکاتب نے ارادہ کیا کہ وہ مکاتبت کی پوری رقم کی یک مشت ادائیگی کر دے۔ مالک کہنے لگا، "میں تو قسطوں ہی میں لوں گا۔" سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی آزادی کا فرمان لکھ کر جاری کر دیا اور اس سے مال لے لیا اور مالک سے فرمایا، "میں تمہیں قسطوں میں ادائیگی کر دیا کروں گا۔" اس شخص نے جب یہ دیکھا تو پورا مال قبول کر لیا۔

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ بْنَ أبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرَهُ يَذْكُرُونَ: أَنَّ مَكَاتَباً كَانَ لِلْفُرَافِصَةِ بْنِ عُمَيْرٍ الْحَنَفِي، وَأَنَّهُ عَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِ جَمِيعَ مَا عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ، فَأَبَى الْفُرَافِصَةُ، فَأَتَى الْمُكَاتَبُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ، وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَا مَرْوَانُ الْفُرَافِصَةَ فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ فَأَبَى، فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِذَلِكَ الْمَالِ أَنْ يُقْبَضَ مِنَ الْمُكَاتَبِ، فَيُوضَعَ فِي بَيْتِ الْمَالِ، وَقَالَ لِلْمُكَاتَبِ : اذْهَبْ فَقَدْ عَتَقْتَ. فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْفُرَافِصَةُ قَبَضَ الْمَالَ. (موطاء مالک، کتاب المکاتب، حديث 2324)

    ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ فراصہ بن عمیر الحنفی کا ایک مکاتب غلام تھا۔ اس نے اپنے آقا کو یہ پیشکش کی کہ وہ کتابت کی پوری قیمت اکٹھی ادا کر کے مکمل آزاد ہونا چاہتا ہے۔ فرافصہ نے اس سے انکار کر دیا۔ وہ مکاتب مدینہ کے گورنر مروان بن الحکم کے پاس گیا اور اس بات کا ان سے تذکرہ کیا۔ مروان نے فرافصہ کو بلایا اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے پھر انکار کر دیا۔ مروان نے حکم دیا کہ مکاتب سے پورا مال لے کر اسے بیت المال میں جمع کر دیا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے مکاتب سے کہا، " جاؤ، تم تو آزاد ہو گئے۔" فرافصہ نے جب یہ دیکھا تو پورا مال لے لیا۔

    غلاموں میں نفسیاتی تبدیلی کے ذریعے آزادی کی خواہش پیدا کرنے کی کوشش

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں میں نفسیاتی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ وہ آزادی کے خواہش مند بنیں اور اپنے مالکوں سے مکاتبت کر لیں۔ آپ کا ارشاد ہے:

    أخبرنا أحمد بن عمرو بن السرح قال أنا بن وهب قال أخبرني الليث عن بن عجلان عن سعيد ، عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ثلاثة حق على الله عونهم المكاتب الذي يريد الأداء والناكح الذي يريد العفاف والمجاهد في سبيل الله . (سنن الکبری نسائی، کتاب العتق، حديث 4995)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی مدد کو اللہ نے خود پر لازم کر لیا ہے: ایسا مکاتب جو ادائیگی (کر کے آزاد ہونے) کا ارادہ رکھتا ہو؛ نکاح کرنے والا جو عفت و پاکدامنی کا طالب ہو؛ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔

    آپ نے بہت سے غلاموں کو فرداً فرداً بھی ترغیب دلائی کہ وہ اپنے مالکان سے مکاتبت کر لیں۔ اس کی مثال سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی مکاتبت چالیس اوقیہ چاندی کے بدلے ہوئی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس رقم کو ادا کر دیا تھا (دیکھیے سیرت ابن ہشام)۔

    مکاتبین کی مدد کا نظام

    اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مالکوں کو بھی تلقین کیا کرتے تھے کہ وہ قرآن کے حکم کے مطابق غلاموں کو مکاتبت میں سے رقم معاف کر دیں۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی یہ ترغیب دلایا کرتے تھے کہ وہ مکاتبوں کی مدد کریں تاکہ یہ رقم ادا کر کے جلد از جلد مکمل آزاد ہو سکیں۔ صحابہ کرام کا عمل بھی اس کے عین مطابق تھا اور وہ اپنے غلاموں کو مکاتبت کی رقم میں سے حسب توفیق کچھ نہ کچھ معاف کر دیا کرتے تھے اور دوسروں کے مکاتب غلاموں کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ : أَنَّ سَهْلَ بْن حُنَيْفٍ حَدَّثَهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم : مَنْ أَعَانَ مُجَاهِدًا فِي سَبِيلِ اللهِ ، أَوْ غَارِمًا فِي عُسْرَتِهِ ، أَوْ مُكَاتَبًا فِي رَقَبَتِهِ ، أَظَلَّهُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إلاَّ ظِلُّهُ. (مصنف ابن ابی شيبة، کتاب المکاتب، حديث 23474، مستدرک حاکم، کتاب المکاتب، حديث 2860)

    سیدنا سھل بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے، یا تنگدستی کی حالت میں جرمانہ ادا کرنے والے یا آزادی کے طالب مکاتب کی مدد کی، اللہ اسے قیامت کے اپنا خاص سایہ نصیب کرے گا۔ اس دن اس کے علاوہ کوئی اور سایہ بھی نہ ہو گا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اس ترغیب کا کیا اثر ہوا۔ اس کا اندازہ ان روایات سے لگایا جا سکتا ہے:

    أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ حَبَّانَ بْنِ مُوسَى عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الدَّانَاجِ أَنَّ فُلاَنًا الْحَنَفِىَّ حَدَّثَهُ قَالَ : شَهِدْتُ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَقَامَ مُكَاتَبٌ إِلَى أَبِى مُوسَى رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَانَ أَوَّلَ سَائِلٍ رَأَيْتُهُ فَقَالَ : إِنِّى إِنْسَانٌ مُثْقَلٌ مُكَاتَبٌ فَحَثَّ النَّاسَ عَلَيْهِ فَقُذِفَتْ إِلَيْهِ الثِّيَابُ وَالدَّرَاهِمُ حَتَّى قَالَ حَسْبِى فَانْطَلَقَ إِلَى أَهْلِهِ فَوَجَدَهُمْ قَدْ أَعْطَوْهُ مُكَاتَبَتَهُ وَفَضَلَ ثَلاَثُمِائَةِ دِرْهَمٍ فَأَتَى أَبَا مُوسَى فَسَأَلَهُ فَأَمْرَهُ أَنْ يَجْعَلَهَا فِى نَحْوِهِ مِنَ النَّاسِ. (سنن الکبری بيهقى، كتاب قسم الصدقات، حديث 13192)

    ایک حنفی بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز میں حاضر تھا تو ایک مکاتب سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔ میں نے وہ پہلا سائل دیکھا تھا جو کہہ رہا تھا، "میں ایسا انسان ہوں جس پر مکاتبت کا بوجھ ہے۔ لوگ اس کی طرف گویا دوڑ پڑے اور اس پر کپڑے اور درہم نچھاور کرنے لگے یہاں تک کہ وہ کہنے لگا، "بس کافی ہے۔" اب وہ اپنے مالکوں کی طرف گیا اور انہیں مکاتبت کی رقم ادا کی۔ اس کے بعد بھی اس کے پاس 300 درہم بچ گئے۔ وہ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے اس رقم کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اپنے جیسے اور مکاتبوں کو دے دو۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ صَبِيحٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ صُبَيْحِ بْنِ عَبْدِ اللهِ : أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبَّاسٍ حَثَّ النَّاسَ عَلَى مُكَاتَبِهِ ، فَجَمَعُوا لَهُ فَأَدَّى مُكَاتَبَتَهُ ، وَبَقِيَتْ فَضْلَةٌ فَجَعَلَهَا عَبْدُ اللهِ فِي الْمُكَاتِبِينَ. (مصنف ابن ابی شيبة، حديث 21943)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما لوگوں کو مکاتبت کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔ (غلام) ان کے پاس اکٹھے ہو کر آیا کرتے اور وہ ان کی مکاتبت کی رقم ادا کر دیا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی مال باقی بچتا، وہ اسے مکاتبوں کی مدد پر ہی صرف کیا کرتے تھے۔

    ایک طرف تو یہ معاملہ تھا کہ لوگ مکاتبین کی مدد کیا کرتے تھے اور دوسری طرف مالکان بھی متعدد مرتبہ مکاتبوں کی رقم حیلے بہانے سے چھوڑ دیا کرتے تھے:

    أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْفَقِيهُ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ زُهَيْرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ح قَالَ وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالاَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ : كَاتَبَ ابْنُ عُمَرَ غُلاَمًا لَهُ فَجَاءَ بِنَجْمِهِ حِينَ حَلَّ فَقَالَ : مِنْ أَيْنَ هَذَا؟ قَالَ : كُنْتُ أَسْأَلُ وَأَعْمَلُ. فَقَالَ : تُرِيدُ أَنْ تُطْعِمَنِى أَوْسَاخَ النَّاسِ أَنْتَ حُرٌّ وَلَكَ نَجْمُكَ. (سنن الکبری بيهقى، كتاب المکاتب، حديث 21666)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک غلام کے ساتھ مکاتبت کی۔ وہ ادائیگی کے وقت اپنی قسط لے کر ان کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا، "یہ رقم کہاں سے لائے؟" وہ بولا، "کچھ کام کر کے اور کچھ لوگوں سے مانگ کر لایا ہوں۔" آپ نے فرمایا، "کیا تم مجھے لوگوں کی میل کھلانا چاہتے ہو۔ جاؤ تم آزاد ہو اور تمہاری قسط بھی تمہاری ہی ہے۔"

    حکومت کے اقتصادی نظام (Fiscal System) میں حکومت کا باقاعدہ ایک خرچ یہ مقرر کیا گیا کہ وہ غلام خرید کر آزاد کرے یا پھر مکاتبین کی مدد کرے۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔

    مکاتب کا قانونی اسٹیٹس

    احادیث میں مکاتبت کے حقوق و فرائض کا جو ذکر آیا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکاتبت کا معاہدہ ہو جانے کے بعد مکاتب کا اسٹیٹس"آزاد" اور "غلام" کے درمیان ہو جایا کرتا تھا۔ مالک کے لئے لازم ہوا کرتا تھا کہ وہ اسے کام کر کے کمانے کی اجازت دے تاکہ وہ ادائیگی کر کے مکمل آزاد ہو سکے۔ امہات المومنین کو خاص طور پر پردہ کرنے کا جو حکم قرآن میں دیا گیا تھا، غلام اس سے مستثنی تھے لیکن مکاتبت کی صورت میں انہیں مکاتب سے پردہ کرنا ضروری تھا۔

    حدثنا سعيد بن عبد الرحمن قال حدثنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن نبهان مولى أم سلمة عن أم سلمة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان عند مكاتب إحداكن ما يؤدي فلتحتجب منه قال أبو عيسى هذا حديث حسن صحيح. (ترمذی، کتاب البيوع، حديث 1261)

    سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا (جنہوں نے اپنے غلام سے مکاتبت کر لی تھی) کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب تم میں کوئی مکاتبت کرے اور اس نے پوری ادائیگی نہ بھی کی ہو تب بھی اس سے حجاب کرو۔"

    حدثنا هارون بن عبد الله البزار حدثنا يزيد بن هارون أخبرنا حماد بن سلمة عن أيوب عن عكرمة عن بن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا أصاب المكاتب حدا أو ميراثا ورث بحساب ما عتق منه وقال النبي صلى الله عليه وسلم يؤدي المكاتب بحصة ما أدى دية حر وما بقي دية عبد۔ (ترمذی، کتاب البيوع، حديث 1259، مستدرک حاکم، 2865-2866)

    ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اگر مکاتب کو (کسی جرم میں) سزا دی جائے یا اسے (مالک کے فوت ہو جانے کی صورت میں اس کے) وارثوں کے حوالے کیا جائے تو ایسا کرتے ہوئے اس کا معاملہ اس کی آزادی کے تناسب سے کیا جائے۔ آپ نے فرمایا، " (اگر مکاتب کو کسی حادثے میں نقصان پہنچا ہو تو) اس کی دیت کی ادائیگی اس حساب سے کی جائے گی کہ اس نے جتنے (فیصد مکاتبت کی رقم) ادا کی ہو، اسے اتنے (فیصد) آزاد سمجھا جائے گا اور جتنے (فیصد) باقی ہو، غلام سمجھا جائے گا۔

    مکاتب کے حقوق و فرائض کے بارے میں اگر تمام روایات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بالعموم مکاتب کو اکثر حقوق وہ دیے گئے ہیں جو کسی آزاد شخص کو حاصل تھے لیکن اس پر زکوۃ، حج، جہاد اور حکومتی جرمانے وغیرہ کے معاملے میں وہ ذمہ داریاں عائد نہیں کی گئیں جو کہ آزاد افراد پر عائد کی گئی تھیں۔

    حدثنا عبد الباقي بن قانع وعبد الصمد بن علي قالا نا الفضل بن العباس الصواف ثنا يحيى بن غيلان ثنا عبد الله بن بزيع عن بن جريج عن أبي الزبير عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس في مال المكاتب زكاة حتى يعتق. (دارقطنى، سنن، كتاب الزكوة)

    سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "مکاتب کے مال میں کوئی زکوۃ نہیں ہے جب تک وہ مکمل آزاد نہ ہو جائے۔"

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض تو اس بات کے قائل تھے کہ مکاتبت کرتے ہی غلام آزاد ہو جاتا ہے اور کی حیثیت سابقہ مالک کے مقروض کی سی ہو جاتی ہے اور بعض اسے ادائیگی کے تناسب سے آزاد قرار دیا کرتے تھے:

    عند ابن عباس فإنه يعتق بنفس العقد وهو غريم المولى بما عليه من بدل الكتابة وعند علي رضي الله تعالى عنه يعتق بقدر ما أدى۔ (عينى، عمدة القارى شرح البخارى)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مکاتب معاہدہ کرتے ہی آزاد ہو جاتا ہے۔ اب وہ اپنے سابقہ مالک کا مقروض ہے کیونکہ اس پر مکاتبت کی رقم کی ادائیگی لازم ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ جتنی رقم ادا کر دے، اسی تناسب سے آزاد ہو جاتا ہے۔

    عدم ادائیگی کے باعث مکاتب کا قانونی تحفظ

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تو یہ قانون بنا دیا تھا کہ اگر مکاتب نصف رقم کی ادائیگی کر چکا ہو اور اس کے بعد وہ باقی رقم ادا نہ بھی کر سکے تب بھی اسے غلامی کی طرف نہ لوٹایا جائے گا۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ وَحَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ: إنَّكُمْ تُكَاتِبُونَ مُكَاتَبِينَ ، فَإِذَا أَدَّى النِّصْفَ فَلاَ رَدَّ عَلَيْهِ فِي الرِّقِّ. (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 20960)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "تم لوگ مکاتبت کرتے ہو، جب مکاتب آدھی رقم ادا کر دے تو پھر اسے غلامی کی طرف نہ لوٹایا جائے گا۔

    یہی بات سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ نصف رقم کی ادائیگی کے بعد مکاتب آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی حیثیت ایک مقروض شخص کی ہو جایا کرتی ہے۔ (مسند ابن الجعد)

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عام طور پر اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ مکاتب کا مالک کسی اور شخص سے رقم لے کر مکاتب کی بقیہ اقساط کو کسی اور شخص کی طرف منتقل کر دے۔ ہاں اگر وہ مکاتب خود اس کی اجازت دے دے تو اسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔

    حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ بَيْعَ الْمُكَاتَبِ. (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 23054)

    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مکاتب کے منتقل کئے جانے کو سخت ناپسند کیا کرتے تھے۔

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مکاتب کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر وہ پوری رقم کی ادائیگی سے پہلے فوت ہو جائے اور اس کے بچے ہوں تو وہ بچے آزاد ہی قرار پائیں گے۔ (بیہقی، معرفۃ السنن والآثار، کتاب المکاتب)

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ معمول تھا کہ اگر مکاتبین رقم ادا کرنے سے عاجز ادا آ جاتے تو وہ انہیں بالعموم رقم معاف کر کے آزاد کر دیا کرتے تھے۔

    أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَسَنِ وَأَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِى إِسْحَاقَ قَالاَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِى عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَاتَبَ غُلاَمًا لَهُ يُقَالُ لَهُ شَرْفًا بِأَرْبَعِينَ أَلْفًا فَخَرَجَ إِلَى الْكُوفَةِ فَكَانَ يَعْمَلُ عَلَى حُمُرٍ لَهُ حَتَّى أَدَّى خَمْسَةَ عَشَرَ أَلْفًا فَجَاءَهُ إِنْسَانٌ فَقَالَ مَجْنُونٌ أَنْتَ أَنْتَ هَا هُنَا تُعَذِّبُ نَفْسَكَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَشْتَرِى الرَّقِيقَ يَمِينًا وَشِمَالاً ثُمَّ يُعْتِقُهُمَ ارْجَعْ إِلَيْهِ فَقَلْ لَهُ قَدْ عَجَزْتُ فَجَاءَ إِلَيْهِ بِصَحِيفَتِهِ فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَدْ عَجَزْتُ وَهَذِهِ صَحِيفَتِى فَامْحُهَا فَقَالَ لاَ وَلَكِنِ امْحُهَا إِنْ شِئْتَ فَمَحَاهَا فَفَاضَتْ عَيْنَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ قَالَ أَصْلَحَكَ اللَّهُ أَحْسِنْ إِلَى ابْنىَّ قَالَ هُمَا حُرَّانِ قَالَ : أَصْلَحَكَ اللَّهُ أَحْسِنْ إِلَى أُمَّىْ وَلَدَىَّ قَالَ هُمَا حُرَّتَانِ فَأَعْتَقَهُمْ خَمْسَتَهُمْ جَمِيعًا فِى مَقْعَدٍ. (بیہقی، معرفۃ السنن والآثار، کتاب المکاتب)

    زید بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد عبداللہ بن عمر نے ایک غلام، جس کا نام شرف تھا، سے 40,000 درہم پر مکاتبت کی۔ وہ کوفہ کی جانب نکل گیا اور وہاں وہ اسفالٹ کا کام کرنے لگا یہاں تک کہ اس نے 15,000 درہم ادا کر دیے۔ اس کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا، "تم تو پاگل ہو، تم یہاں سخت محنت کر رہے ہو جبکہ عبداللہ بن عمر تو ادھر ادھر سے غلام خریدتے ہیں اور اسے آزاد کر دیتے ہیں۔ تم ان کے پاس جاؤ اور کہو، میں رقم ادا کرنے سے عاجز آ گیا ہوں۔"

    (اب وہ واپس ان کے پاس آیا اور اس کے طلب کرنے پر) اس کے پاس اس کی مکاتبت کا معاہدہ لایا گیا۔ وہ کہنے لگا، "اے ابو عبدالرحمٰن! میں رقم ادا کرنے سے عاجز آ گیا ہوں۔ یہ میرا معاہدہ ہے، اسے مٹا دیجیے۔" آپ نے فرمایا، "نہیں، ہاں تم ہی غلام رہنا چاہو تو میں اسے مٹا دوں گا۔" جب معاہدہ مٹایا گیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، "جاؤ، تم آزاد ہو۔" وہ کہنے لگا، "اللہ آپ کے ساتھ بھلائی کرے، میرے دونوں بیٹوں پر بھی احسان کیجیے۔" فرمایا، "وہ دونوں بھی آزاد ہیں۔" کہنے لگا، "میرے دونوں بچوں کی ماؤں پر بھی احسان کیجیے۔" آپ نے فرمایا، "وہ دونوں بھی آزاد ہیں۔" اس طرح آپ نے بیٹھے بیٹھے وہیں ان پانچوں کو آزاد کر دیا۔

    متعدد مالکوں کے مشترک غلام کی مکاتبت

    بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک شخص متعدد مالکوں کا غلام ہوتا تھا۔ اس کی صورت ایسی ہی تھی جیسا کہ اگر کوئی کسی پارٹنرشپ کمپنی کا ملازم ہو۔ ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حکم دیا کہ اگر کوئی ایک پارٹنر غلام میں اپنے حصے کو آزاد کرے تو باقی پارٹنر بھی اپنے اپنے حصوں کو آزاد کر دیں۔ اگر وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہوں تو غلام خود بخود مکاتب کا درجہ اختیار کر جائے گا۔ وہ کما کر اپنے باقی مالکان کو ادائیگی کرے گا اور اس معاملے میں اس پر سختی نہ کی جائے گی۔

    حدثنا بشر بن محمد: أخبرنا عبد الله: أخبرنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من أعتق شقيصا من مملوكه فعليه خلاصه في ماله، فإن لم يكن له مال، قوم المملوك قيمة عدل، ثم استسعي غير مشقوق عليه). (بخاری، کتاب الشرکة، حديث 2492)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اگر کسی نے غلام میں سے اپنے حصے کو آزاد کر دیا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اس غلام کو پورا آزاد کروائے۔ اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس غلام کی مناسب قیمت لگوائی جائے اور اسے سے اسے کمانے کو کہا جائے گا اور اس پر سختی نہ کی جائے گی۔

    قانون مکاتبت کے اثرات

    مکاتبت کا یہ قانون ایک انقلابی قانون تھا۔ غلاموں کی آزادی کے دیگر تمام اقدامات کا تعلق تو ان کے مالکان یا حکومت سے تھا لیکن مکاتبت وہ سماجی ادارہ تھا جس کی بدولت غلام خود اپنی آزادی کی تاریخ رقم کر سکتے تھے۔ یہ آزادی خود ان کی اپنی خواہش کی مرہون منت تھی۔ اس کے لئے حکومت اور مخیر حضرات ہمہ دم ان کی مدد کے لئے تیار تھے۔ اب اگر کوئی کمی باقی رہ گئی تھی تو وہ یہی تھی کہ غلام خود آزادی کا طالب نہ ہو ورنہ اسے آزاد کرنے کے تمام وسائل مہیا کر دیے گئے تھے۔ اس کے بعد وہی لوگ غلامی میں باقی رہ جاتے جو خود غلام رہنا چاہتے تھے یا آزادی کی امنگ نہ رکھتے تھے۔

    اس اقدام کا نتیجہ بہت ہی مثبت نکلا۔ غلاموں میں آزادی خریدنے کی زبردست تحریک پیدا ہوئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ آزادی حاصل کرنے کا ایک باعزت طریقہ تھا جس میں مالک کا غلام پر کوئی احسان بھی قائم نہ ہوتا تھا اور غلام کی عزت نفس مجروح کئے بغیر اسے آزادی مل جایا کرتی تھی۔ مکاتبت کے ذریعے مالک کو بھی اپنی وہ رقم واپس مل جایا کرتی تھی جو اس نے غلام کی خدمات کو خریدنے پر صرف کی تھی۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بے شمار مکاتبین کا ذکر اسماء الرجال کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ حضرات نہ صرف ان سے مکاتبت کر لیا کرتے تھے بلکہ اس میں سے جس قدر رقم کم کر سکتے کر دیتا کرت تھے اور آزادی کے وقت انہیں اپنے مال میں سے بھی بہت کچھ دے دلا کر بھیجا کرتے تھے۔

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام ابوامیہ سے مکاتبت کی اور جب ان کی آزادی کا وقت آیا تو سیدنا عمر کے پاس کچھ نہ تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے دو سو درہم ادھار لے کر ابو امیہ کو دیے۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک غلام سے مکاتبت کی اور پھر اس پر خود ہی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں پوری رقم معاف کر دی۔ (طبقات ابن سعد اور سنن الکبری) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکاتبت کرتے تو اس کے آخر میں رقم معاف کر دیا کرتے تھے۔

    بعد کے ادوار میں مکاتبت کا ادارہ اتنی ترقی کر گیا کہ قانونی ماہرین کو ان میں باقاعدہ الگ سے مکاتبت کے ابواب قائم کر کے اس سے متعلق قانون سازی کرنا پڑی۔

    مکاتبت کی انشورنس کا نظام

    موطاء امام مالک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دور میں مکاتبت کا ادارہ اتنی ترقی کر چکا تھا کہ غلام اجتماعی طور پر بھی مکاتبت کیا کرتے تھے۔ یہ مکاتبت کی انشورنس کا نظام تھا۔ اس میں یہ معاملہ طے کیا جاتا کہ چند غلام مل کر اپنے مالکوں سے مکاتبت کریں گے۔ اگر بیماری یا کسی اور وجہ سے کوئی غلام اپنی ادائیگی نہ کر سکے تو اس کے دوسرے ساتھی اس کی ادائیگی کریں گے۔
     
  9. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 7: اسلام میں غلاموں کی آزادی کی تحریک (3)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    حکومتی سطح پر غلاموں کی آزادی کے اقدامات

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو محض آزاد کرنے اور آزاد ہونے ہی کی ترغیب نہ دلائی بلکہ آپ نے مدینہ میں حکومت قائم کرنے کے بعد حکومتی سطح پر اس کا اہتمام بھی فرمایا۔ مدینہ کی اس ریاست کی اقتصادی پالیسی (Fiscal Policy) میں غلاموں کی آزادی کو ایک سرکاری خرچ کی حیثیت دی گئی۔ ریاست کی آمدنی کا ذریعہ زکوۃ تھی جسے قرآن مجید میں صدقہ کا نام بھی دیا گیا ہے۔

    إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ۔ (التوبة 9:60)

    یہ صدقات تو دراصل فقرا، مساکین اور سرکاری ملازموں (کی تنخواہوں) کے لئے ہیں، اور ان کے لئے جن کی تالیف قلب مقصود ہو۔ یہ غلام آزاد کرنے، قرض داروں کی مدد کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور مسافروں کی مدد کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

    حکومتی سطح پر بھی بہت سے غلاموں کو خرید کر آزاد کیا گیا۔ بعض مکاتبوں کو اپنی رقم کی ادائیگی کے لئے ان کی مدد کی گئی۔ اس کی ایک مثال سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ہیں۔ خلفاء راشدین کے دور میں بیت المال سے غلاموں کو خرید خرید کر آزاد کیا جاتا تھا۔ اگر کسی کا کوئی وارث نہ ہوتا تو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کو بیچ کر اس سے بھی غلام آزاد کئے جاتے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا بِسْطَامُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ : أَنَّ طَارِقَ بْنِ الْمرقَّع أَعْتَقَ غُلاَمًا لَهُ لِلَّهِ ، فَمَاتَ وَتَرَكَ مَالا ، فَعُرِضَ عَلَى مَوْلاَهُ طَارِقٍ ، فَقَالَ : شَيْءٌ جَعَلْته لِلَّهِ ، فَلَسْت بِعَائِدٍ فِيهِ ، فَكُتِبَ فِي ذَلِكَ إلَى عُمَرَ ، فَكَتَبَ عُمَرُ : أَنِ اعْرِضُوا الْمَالَ عَلَى طَارِقٍ ، فَإِنْ قَبِلَهُ وَإِلاَّ فَاشْتَرَوْا بِهِ رَقِيقًا فَأَعْتِقُوهُمْ ، قَالَ : فَبَلَغَ خَمْسَةَ عَشَرَ رَأْسًا. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المیراث، حدیث 32086)

    طارق بن مرقع نے ایک غلام کو اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ وہ فوت ہو گیا اور اس نے کچھ مال ترکے میں چھوڑا۔ یہ مال اس کے سابقہ مالک طارق کے پاس پیش کیا گیا۔ وہ کہنے لگے، "میں نے تو اسے محض اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا تھا، میں اس میں سے کچھ نہ لوں گا۔" یہ بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجی گئی کہ طارق مال لینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا، "اگر وہ قبول کر لیں تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے غلام خرید کر آزاد کرو۔" راوی کہتے ہیں کہ اس مال سے پندرہ غلام آزاد کئے گئے۔

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں تو عرب میں موجود تمام غلاموں کو حکومت کے مال سے خرید کر آزاد کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔ زکٰوۃ ایک حکومتی ٹیکس تھا جو مسلمانوں پر مذہبی طور پر واجب کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں تو یہاں تک اجازت دے دی گئی کہ اگر کوئی شخص اپنی زکوۃ کی رقم سے خود ہی غلام خرید کر آزاد کر دے تو وہ حکومت کو ادائیگی کرتے ہوئے اس رقم کو قابل ادائیگی زکوۃ (Zakat Liability) سے منہا کر سکتا ہے۔ ابن زنجویۃ نے کتاب الاموال میں سیدنا ابن عباس اور حسن بصری کا یہ موقف بیان کیا ہے۔

    مذہبی بنیادوں پر غلام آزاد کرنے کے احکامات

    اللہ تعالی کو چونکہ غلاموں کی آزادی سے خاص دلچسپی تھی، اس وجہ سے کچھ دینی احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں بطور کفارہ انہیں غلام آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔ ان میں قسم توڑنے، ناجائز طریقے سے طلاق دینے اور غلطی سے کسی کی جان لے لینے کی صورتیں شامل تھیں۔

    قسم توڑنے کا کفارہ

    لا يُؤَاخِذُكُمْ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۔ (المائدة 5:89)

    تم لوگ جو بغیر سوچے سمجھے قسمیں کھا لیتے ہو، ان پر تو اللہ تمہاری گرفت نہ کرے گا مگر جو قسمیں تم جان بوجھ کر کھاتے ہو، ان پر وہ ضرور تم سے مواخذہ کرے گا۔ (ایسی قسم توڑنے کا) کفارہ یہ ہے کہ تم دس مساکین کو اوسط درجے کا وہ کھانا کھلاؤ جو تم اپنے بال بچوں کو کھلاتے ہو یا انہیں لباس فراہم کرو یا پھر غلام آزاد کرو۔ جسے یہ میسر نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے۔

    ناجائز طریقے سے طلاق دینے کا کفارہ

    وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ۔ (المجادلة 58:3)

    جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں قرار دے بیٹھیں اور پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرنا چاہیں تو ان کے لئے لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلام آزاد کریں۔ اس سے تمہیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔

    غلطی سے کسی کو قتل کر دینے کا کفارہ

    وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَأً وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلاَّ أَنْ يَصَّدَّقُوا فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنْ اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيماً حَكِيماً۔ (النساء 4:92)

    کسی مومن کو یہ بات روا نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مومن کو قتل کرے سوائے اس کے کہ غلطی سے ایسا ہو جائے۔ تو جو شخص غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کر بیٹھے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو قانون کے مطابق دیت ادا کرے، سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں۔

    اگر وہ مقتول تمہاری دشمن قوم کا فرد ہے مگر مسلمان ہے تو اس کا کفارہ بھی ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا ہے۔

    اگر وہ کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جس کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہے تو پھر بھی قانون کے مطابق اس کے وارثوں کو دیت کی ادائیگی اور مسلمان غلام آزاد کرنا ضروری ہے۔ جس کے پاس غلام نہ ہوں، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اللہ سے توبہ کرتے ہوئے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔

    روزہ توڑنے کا کفارہ

    ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے روزہ توڑنے پر بھی یہی کفارہ عائد کیا۔

    حدثنا موسى: حدثنا إبراهيم: حدثنا ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن: أن أبا هريرة رضي الله عنه قال: أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هلكت، وقعت على أهلي في رمضان، قال: (أعتق رقبة). قال: ليس لي، قال: (فصم شهرين متتابعين). قال: لا أستطيع، قال: (فأطعم ستين مسكيناً). قال: لا أجد، فأتي بعرق فيه تمر - قال إبراهيم: العرق المكتل - فقال: (أين السائل، تصدق بها). قال: على أفقر مني، والله ما بين لابتيها أهل بيت أفقر منا، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، قال: (فأنتم إذاً). (بخاری، کتاب الادب، حديث 6087)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا، "میں ہلاک ہو گیا۔ میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔" آپ نے فرمایا، "غلام آزاد کرو۔" وہ کہنے لگا، "میرے پاس کوئی غلام نہیں ہے۔" آپ نے فرمایا، "دو مہینے کے لگاتار روزے رکھو۔" وہ کہنے لگا، "مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے۔" آپ نے فرمایا، "پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔" وہ بولا، "میرے پاس یہ بھی تو نہیں ہے۔"

    اسی اثنا میں آپ کے پاس کھجوروں کو ایک ٹوکرا لایا گیا۔ آپ نے فرمایا، "وہ سائل کہاں ہے؟" اسے ٹوکرا دے کر ارشاد فرمایا، "اسی کو صدقہ کر دو۔" وہ بولا، "مجھ سے زیادہ اور کون غریب ہو گا۔ اللہ کی قسم اس شہر کے دونوں کناروں کے درمیان میرے خاندان سے زیادہ غریب تو کوئی ہے نہیں۔" یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہنس پڑے اور آپ کے دانت ظاہر ہو گئے۔ آپ نے فرمایا، "چلو تم ہی اسے لے جاؤ۔"

    سورج گرہن پر غلاموں کی آزادی

    اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سورج گرہن کے موقع پر بھی غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔

    حدثنا موسى بن مسعود: حدثنا زائدة بن قدامة، عن هشام بن عروة، عن فاطمة بنت المنذر، عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما قالت: أمر النبي صلى الله عليه وسلم بالعتاقة في كسوف الشمس. (بخاری، کتاب العتق، حديث 2519)

    سیدہ اسما بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سورج گرہن کے وقت غلام آزاد کرنے کا حکم دیا۔

    اس بات کا اندازہ کرنا تو مشکل ہو گا کہ ان مذہبی احکام کے نتیجے میں کتنے غلام آزاد ہوئے البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام غلاموں کو آزاد کرنے سے کتنی دلچسپی رکھتا ہے۔ عربوں کی معاشرت کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں قسم کھانے اور غصے میں بیوی کو ماں قرار دے لینے کے معاملات ہوتے ہی رہتے تھے۔ ایک حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ قسم توڑنے پر چالیس غلام آزاد فرمائے۔

    قریبی رشتے دار غلام کی آزادی کا قانون

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس بات کا حکم دیا کہ اگر کوئی اپنے قریبی رشتہ دار جیسے ماں، باپ، بیٹے، بیٹی، بہن، بھائی وغیرہ کو غلام بنا دیکھے تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔ اگر کسی طریقے سے کوئی غلام اپنے ہی قریبی رشتے دار کی ملکیت میں آ جائے تو وہ خود بخود آزاد ہو جائے گا۔

    أخبرنا إسحاق بن إبراهيم ، قال : حدثنا جرير عن سهيل ، عن أبيه ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى اللّه عليه وسلم لا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه . (سنن الکبری نسائی، کتاب العتق، حديث 4876)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کسی بیٹے کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے والدین کو غلام دیکھے تو انہیں خرید کر آزاد نہ کرے۔"

    حدثنا مسلم بن إبراهيم وموسى بن إسماعيل قالا: ثنا حماد بن سلمة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، عن النبي صلى اللّه عليه وسلم، وقال موسى في موضع آخر: عن سمرة بن جندب فيما يحسب حماد قال: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "من ملك ذا رحمٍ محرمٍ فهو حرٌّ". (ابو داؤد، کتاب العتق، حديث 3949، ابن ماجة ، کتاب العتق، حديث 2326)

    سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جو کوئی اپنے ذی رحم کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا۔

    اس بات کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ اس قانون کے تحت کتنے غلام آزاد ہوئے لیکن ان سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مختلف صورتوں میں غلام آزاد کرنے کی کس حد تک ترغیب دی ہے۔

    وصیت کے ذریعے غلاموں کی آزادی کا قانون

    بعض لوگ مرتے وقت یہ وصیت کر جایا کرتے تھے کہ ان کے غلاموں کو آزاد کر دیا جائے۔ ایسے غلام "مدبر" کہلایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے زیادہ پسند نہیں فرمایا بلکہ حکم دیا کہ غلام کو اپنی زندگی ہی میں جلد سے جلد آزاد کر دیا جائے۔

    قال أخبرنا قتيبة بن سعيد ، قال : حدثنا أبو الأحوص ، عن أبي إسحاق ، عن أبي حبيبة ، عن أبي الدرداء أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الذي يعتق عند الموت كالذي يهدي بعدما شبع . (سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4873)

    سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے، وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو (گناہوں سے) اچھی طرح سیر ہونے کے بعد (نیکی کی طرف) ہدایت پاتا ہے۔

    یہاں پر بعض لوگوں کو شاید یہ خیال گزرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خود بھی تو مرض وفات میں چالیس غلاموں کو خرید کر آزاد کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ان چالیس غلاموں سے ساری عمر خدمت لیتے رہے تھے اور عین وفات کے وقت نہیں آزاد فرما دیا تھا۔ آپ نے آخر وقت میں ان غلاموں کو خرید کر آزاد فرمایا۔

    اسلام کے قانون وراثت میں وصیت صرف ایک تہائی مال میں کرنے کی اجازت ہے اور دو تہائی مال کے بارے میں قرآن نے واضح طور پر مختلف وارثوں کے حصے مقرر کر دیے ہیں۔ بعض اوقات ایسی صورت پیش آ جاتی کہ ایک شخص نے غلاموں کی آزادی کے علاوہ اور بھی وصیتیں کر رکھی ہیں۔ ایسی صورت میں غلاموں کی آزادی کو فوقیت دی گئی۔ انہیں آزاد کرنے کے بعد اگر مالک کی جائیداد کے ایک تہائی حصے میں سے کچھ باقی بچتا تو اس سے وہ وصیتیں پوری کی جاتی تھیں ورنہ نہیں۔ اس ضمن میں اگرچہ کوئی مرفوع حدیث ہمیں نہیں مل سکی لیکن مسلمانوں کے بڑے اہل علم کا یہی نقطہ نظر رہا ہے۔

    حدثنا الحسين بن بشر ثنا المعافى عن عثمان بن الأسود عن عطاء قال من أوصى أو أعتق فكان في وصيته عول دخل العول على أهل العتاقة وأهل الوصية قال عطاء ان أهل المدينة غلبونا يبدؤون بالعتاقة. (دارمی، کتاب الفرائض، حديث 3229)

    عطاء کہتے ہیں، "جس نے غلام کی آزادی کے ساتھ ساتھ کوئی اور وصیت بھی کر دی اور وصیت کی مجموعی رقم میں عول داخل ہو گیا (یعنی مجموعی رقم ترکے کے تہائی حصے سے زیادہ ہو گئی) تو اہل مدینہ کی غالب اکثریت کا عمل یہ ہے کہ وہ غلاموں کی آزادی سے ابتدا کرتے ہیں۔

    حدثنا المعلى بن أسد ثنا وهيب عن يونس عن الحسن في الرجل يوصي بأشياء ومنها العتق فيجاوز الثلث قال يبدأ بالعتق. (دارمی، کتاب الفرائض، حديث 3227)

    حسن (بصری) نے ایسے شخص کے بارے میں، جس نے مختلف کاموں اور غلاموں کی آزادی کی وصیت کی تھی اور مجموعی رقم ایک تہائی سے زائد ہو گئی تھی، ارشاد فرمایا، "ابتدا غلاموں کی آزادی سے کی جائے گی۔"

    حدثنا عبيد الله عن إسرائيل عن منصور عن إبراهيم قال يبدأ بالعتاقة قبل الوصية. (دارمی، کتاب الفرائض، حديث 3232)

    ابراہیم (نخعی) کہتے ہیں کہ غلاموں کو آزادی وصیت (کے باقی معاملات) سے پہلے دی جائے گی۔

    اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تابعین کے جلیل القدر ائمہ انسانی آزادی کو کس قدر اہمیت دیا کرتے تھے۔

    اسلام قبول کرنے والے غلاموں کی آزادی کے اقدامات

    دین اسلام میں مسلم اور غیر مسلم ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے غلام کو آزاد کرنے کو ثواب کا کام بتایا گیا ہے۔ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی روایت جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں میں یہ صراحت موجود ہے کہ غیر مسلم غلام کو آزاد کرنا بھی ثواب کا کام ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل یہی رہا ہے کہ وہ غیر مسلم غلاموں کو بھی آزاد کیا کرتے تھے۔

    دنیا بھر کی اقوام کا یہ اصول ہے کہ کسی بھی نیکی یا بھلائی کے کام کا آغاز ہمیشہ اپنے گھر سے ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم میں غرباء و مساکین پائے جاتے ہوں اور اس قوم کے امیر لوگ اپنی قوم کے غرباء کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے خطوں میں جا کر رفاہی کام کرنا شروع کر دیں تو یہ رویہ سب کے نزدیک قابل اعتراض ہی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں غلام آزاد کرنے کے معاملے میں ترجیح انہی غلاموں کو دی گئی جو کہ اسلام قبول کر چکے ہوں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہ تھا۔ اس دور میں یہ طریق کار اختیار کیا گیا کہ جو غلام بھی اسلام قبول کرے، اسے صاحب ثروت مسلمان خرید کر آزاد کر دیں۔ یہ بات ہم تک تواتر سے منتقل ہوئی ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دولت کا بڑا حصہ غلاموں کو آزاد کرنے پر صرف کیا گیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

    حدثنا أبو نعيم: حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن محمد بن المنكدر: أخبرنا جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: كان عمر يقول: أبو بكر سيدنا، وأعتق سيدنا. يعني بلالا. (بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3754)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، "ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا تھا۔"

    مدینہ ہجرت کرنے کے بعد مسلمانوں کی ایک حکومت قائم ہو گئی تھی جس کے سربراہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تھے۔ اس دور میں مسلمان ہونے والے غلاموں کو نہ صرف خرید کر آزاد کرنے کے لئے زکوۃ فنڈ کو استعمال کیا گیا بلکہ پورے عرب سے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے غلاموں کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا۔

    حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا هشام، عن ابن جريج، وقال عطاء، عن ابن عباس: كان المشركون على منزلتين من النبي صلى الله عليه وسلم والمؤمنين: كانوا مشركي أهل حرب، يقاتلهم ويقاتلونه، ومشركي أهل عهد، لا يقاتلهم ولا يقاتلونه، وكان إذا هاجرت امرأة من أهل الحرب لم تخطب حتى تحيض وتطهر، فإذا طهرت حل لها النكاح، فإن هاجر زوجها قبل أن تنكح ردت إليه، وأن هاجر عبد منهم أو أمة فهما حران ولهما ما للمهاجرين، ثم ذكر من أهل العهد مثل حديث مجاهد: وأن هاجر عبد أو أمة للمشركين أهل عهد لم يردوا، وردت أثمانهم. (بخاری، کتاب النکاح، حديث 5286)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور مومنین کا مشرکین سے معاملہ دو طرح کا تھا۔ بعض مشرکین "اہل حرب" تھے۔ وہ مسلمانوں سے جنگ کرتے اور مسلمان ان سے جنگ کرتے۔ دوسری قسم کے مشرکین "اہل عہد" تھے۔ نہ تو وہ مسلمانوں سے جنگ کرتے اور نہ ہی مسلمان ان سے جنگ کرتے۔ اگر اہل حرب کی کوئی خاتون (مسلمان ہو کر) ہجرت کرتیں تو انہیں حیض آنے اور پھر پاک ہونے تک نکاح کا پیغام نہ بھیجا جاتا تھا۔ جب وہ پاک ہو جاتیں تو ان کے لئے نکاح کرنا جائز ہو جاتا تھا۔ اگر نکاح کرنے سے پہلے ان کا خاوند بھی (مسلمان ہو کر) ہجرت کر کے آ پہنچتا تو ان کا رشتہ برقرار رکھا جاتا۔

    اگر اہل حرب کے کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آ جاتے تو انہیں آزاد قرار دے دیا جاتا اور ان کا درجہ مہاجرین کے برابر ہوتا۔۔۔۔اور اگر اہل عہد کے کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آ جاتے تو انہیں واپس لوٹایا نہ جاتا بلکہ ان کی قیمت ان کے مالکان کو بھیج دی جاتی۔

    اسی اصول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح کا معاہدہ طے پا جانے سے پہلے آنے والے دو غلاموں کو آزادی عطا فرمائی۔

    حدثنا عبد العزيز بن يحيى الحرَّاني، قال: حدثني محمد يعني ابن سلمة عن محمد بن إسحاق، عن أبان بن صالح، عن منصور بن المعتمر، عن رِبْعيِّ بن حِرَاش، عن عليّ بن أبي طالب قال: خرج عِبْدَانٌ إلى رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم يعني يوم الحديبية قبل الصلح، فكتب إليه مواليهم فقالوا: يامحمد، واللّه ما خرجوا إليك رغبة في دينك، وإنما خرجوا هرباً من الرِّق، فقال ناس: صدقوا يارسول اللّه رُدَّهم إليهم، فغضب رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم وقال: "ما أراكم تنتهون يا معشر قريشٍ حتى يبعث اللّه [عزوجل] عليكم من يضرب رقابكم على هذا" وأبى أن يردَّهم، وقال: "هم عتقاء اللّه عزوجل". (ابو داؤد، کتاب الجهاد، حديث 2700)

    سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حدیبیہ کے دن صلح سے پہلے (اہل مکہ کے) دو غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آ گئے۔ ان کے مالکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خط لکھا اور کہا، "اے محمد! خدا کی قسم یہ آپ کے دین سے رغبت کے باعث آپ کے پاس نہیں آئے۔ یہ تو محض آزادی حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں۔"

    لوگ کہنے لگے، "یا رسول اللہ! ان کے مالک درست کہہ رہے ہیں۔ آپ انہیں واپس بھجوا دیجیے۔" رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے، "اے گروہ قریش! میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کام (یعنی غلامی کو برقرار رکھنے) سے اس وقت تک باز نہ آؤ گے جب تک کہ اللہ عزوجل تمہاری طرف کسی ایسے کو نہ بھیجے جو تمہاری گردنوں پر اس کی پاداش میں ضرب لگائے۔" آپ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا، "وہ اللہ عزوجل کی رضا کے لئے آزاد ہیں۔"

    اسی اصول پر آپ نے طائف کے محاصرے کے وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اہل طائف کے غلاموں میں سے جو آزادی کا طالب ہو، وہ ہماری طرف آ جائے۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا يحيى بن زكريا حدثنا الحجاج عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس قال: لما حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الطائف أعتق من رقيقهم. (مسند احمد، باب عبدالله بن عباس، مصنف ابن ابی شيبة، حديث 34283)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اھل طائف کا محاصرہ کیا تو ان کے غلاموں میں سے (ان غلاموں کو جو مسلمانوں کی طرف آ گئے تھے) آزاد فرما دیا۔

    مشہور مستشرق ولیم میور اس اعلان کے بارے میں لکھتے ہیں:

    آپ نے محصورین کے پاس ایک اعلان بھیجا جس سے وہ لوگ بہت ناراض ہوئے۔ اس اعلان کا مضمون یہ تھا کہ اگر شہر سے کوئی غلام ہمارے پاس آئے گا تو اسے آزاد کر دیا جائے گا۔ تقریباً بیس غلاموں نے اس اعلان سے فائدہ اٹھایا اور وہ اپنے آزادی دینے والے کے سچے اور بہادر پیرو ثابت ہوئے۔ (ولیم میور، The life of Mohamet)

    مشہور مورخ بلاذری نے "فتوح البلدان" میں ان میں سے بعض غلاموں کے نام بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک ابوبکرہ نقیع بن مسروح رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ بکرہ عربی میں چرخی (Pulley) کو کہتے ہیں۔ انہیں یہ نام اس لئے دیا گیا کہ یہ قلعے کی دیوار پر موجود چرخی کے رسے سے لٹک کر نیچے اترے تھے۔ ان میں ایک رومی لوہار ابو نافع بن الازرق رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

    ایسے تمام غلاموں کو درجہ بلند کرنے کے لئے ان کی ولاء کا تعلق بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قائم کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب کے سب غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اپنے خاندان میں شامل کر لئے گئے۔ اس کی تفصیل ہم "ولاء" کی بحث میں بیان کریں گے۔

    بعد کے ادوار میں مسلمانوں کے ہاں یہ رسم رائج ہو گئی کہ جو غلام اسلام قبول کر لیتا، وہ اسے اس کے مالکان سے خرید کر آزاد کر دیا کرتے تھے۔ اس طریقے سے بے شمار غلاموں نے آزادی حاصل کی۔

    ثم ذكر البيهقى لقصة منام شاهدا من طريق الاعمش ، عن أبى وائل ، عن عبدالله ، وأنه كان من جملة ما جاء به عبيد فأتى بهم أبا بكر ، فلما رد الجميع عليه رجع بهم ثم قام يصلى فقاموا كلهم يصلون معه . فلما انصرف قال : لمن صليتم ؟ قالوا : لله . قال : فأنتم له عتقاء . فأعتقهم . (ابن كثير، سيرة النبوية)

    عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو غلام لئے گئے ان میں سے میں بھی تھا۔ جب سب غلام ان کے سامنے پیش کئے گئے تو وہ ان سے ہٹ کر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ یہ سب غلام بھی ان کے ساتھ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد ابوبکر ان کی طرف مڑے اور پوچھا، "تم نے کس کے لئے نماز پڑھی ہے؟" وہ بولے، "اللہ کے لئے۔" آپ نے فرمایا، "پھر تم اسی کے لئے آزاد ہو۔" یہ کہہ کر آپ نے ان سب کو آزاد کر دیا۔

    حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ : مَضَتِ السُّنَّةُ أَنْ لاَ يَسْتَرِقَّ كَافِرٌ مُسْلِمًا. (مصنف ابن ابی شيبة، كتاب الجهاد، حديث 23290)

    ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ (مسلمانوں میں) یہ معمول کی بات ہے کہ مسلمان کو غیر مسلم کا غلام نہیں بننے دیا جاتا۔

    انیسویں صدی کے مستشرق جارج بش لکھتے ہیں:

    It has hence become a standing rule among his followers always to grant their freedom to such of their slaves as embrace the religion of the prophet. (George Bush A.M., Life of Mohammed)

    (محمد کے) پیروکاروں میں یہ مستقل دستور بن گیا کہ ان کے غلاموں میں سے جو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو، اسے آزاد کر دیا جائے۔

    جے ایم وڈنی لکھتے ہیں:

    The absolute equality of all men. In theory at least, it knows neither high nor low, rich nor poor ; all stand upon the same level. The strong tie of a common brotherhood. Caste disappears at its touch. Early Christianity possessed somewhat of this, yet not to the same degree. "La Ilaha il Allah" and the slave was free. (J. M. Widney; The Genesis of Evolution of Islam & Judaeo - Christianity)

    (اسلام میں) تمام انسانوں کو مستقلاً برابر قرار دیا گیا ہے۔ کم سے کم نظریاتی طور پر، بلند و پست، امیر و غریب سب ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں۔ مشترکہ بھائی چارے کا رشتہ بہت ہی مضبوط ہے۔ ذات و نسل سرے سے ہی مفقود ہے۔ ابتدائی دور کی عیسائیت میں بھی اگر اسی درجے میں نہ سی، لیکن کسی حد تک یہی چیز موجود ہے۔ "لا الہ الا اللہ" کہا اور غلام آزاد ہو گیا۔
     
  10. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 8: غلاموں کا اسٹیٹس بہتر بنانے کے اقدامات (1)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    دین اسلام نے غلاموں کو آزادی عطا کرنے کے لئے جو اقدامات کئے، ان کے نتائج فوری طور پر برآمد ہونا ممکن نہ تھا۔ غلامی کی جڑیں پوری دنیا کے معاشروں میں اتنی گہری تھیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے ایک طویل عرصہ درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں دین اسلام نے تدریجی اصلاح کا طریقہ اختیار کیا۔

    انقلابی تبدیلیوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ جہاں ایک برائی کو ختم کرتی ہیں وہاں دسیوں نئی برائیوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے برائیوں کے خاتمے کے لئے بالعموم "انقلاب (Revolution)" کی بجائے "تدریجی اصلاح (Evolution)" کا طریقہ اختیار کیا۔

    حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں غلاموں کی حیثیت بالکل آج کے زمانے کے ملازمین کی تھی جن پر پوری معیشت کا دارومدار تھا۔ غلامی کے خاتمے کی حکمت عملی کو سمجھنے کے لئے اگر درج ذیل مثال پر غور کیا جائے تو بات کو سمجھنا بہت آسان ہوگا۔

    موجودہ دور میں بہت سے مالکان (Employers) اپنے ملازمین (Employees) کا استحصال کرتے ہیں۔ ان سے طویل اوقات تک بلامعاوضہ کام کرواتے ہیں، کم سے کم تنخواہ دینے کی کوشش کرتے ہیں، بسا اوقات ان کی تنخواہیں روک لیتے ہیں، خواتین ملازموں کو بہت مرتبہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔

    ان حالات میں آپ ایک مصلح ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ دنیا سے ملازمت کا خاتمہ ہوجائے اور تمام لوگ آزادانہ اپنا کاروبار کرنے کے قابل (Self Employed) ہو جائیں۔ آپ نہ صرف ایک مصلح ہیں بلکہ آپ کے پاس دنیا کے وسیع و عریض خطے کا اقتدار بھی موجود ہے اور آپ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ان حالات میں آپ کا پہلا قدم کیا ہوگا؟ کیا آپ یہ قانون بنا دیں گے کہ آج سے تمام ملازمین فارغ ہیں اور آج کے بعد کسی کے لئے دوسرے کو ملازم رکھنا ایک قابل تعزیر جرم ہے ؟

    اگر آپ ایسا قانون بنائیں گے تو اس کے نتیجے میں کروڑوں بے روزگار وجود پذیر ہوں گے۔ یہ بے روزگار یقینا روٹی ، کپڑے اور مکان کے حصول کے لئے چوری ، ڈاکہ زنی ، بھیک اور جسم فروشی کا راستہ اختیار کریں گے۔ جس کے نتیجے میں پورے معاشرے کا نظام تلپٹ ہوجائے گا اور ایک برائی کو ختم کرنے کی انقلابی کوشش کے نتیجے میں ایک ہزار برائیاں پیدا ہوجائیں گی۔

    یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملازمت کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے تدریجی اصلاح کا طریقہ ہی کارآمد ہے۔ اس طریقے کے مطابق مالک و ملازم کے تعلق کی بجائے کوئی نیا تعلق پیدا کیا جائے گا۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کیا جائے گا وہ اپنے کاروبار کو ترجیح دیں۔ انہیں کاروبار کرنے کی تربیت دی جائے گی۔ جو لوگ اس میں آگے بڑھیں، انہیں بلا سود قرضے دیے جائیں گے اور تدریجاً تمام لوگوں کو 8 گھنٹے کی غلامی سے نجات دلا کر مکمل آزاد کیا جائے گا۔ (واضح رہے کہ کارل مارکس اس مسئلے کا ایک حل ’’کمیونزم ‘‘ پیش کرچکے ہیں اور دنیا کے ایک بڑے حصے نے اس کا تجربہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے جو ناکام رہا۔)

    عین ممکن ہے کہ اس سارے عمل میں صدیاں لگ جائیں۔ ایک ہزار سال کے بعد، جب دنیا اس مسئلے کو حل کرچکی ہو تو ان میں سے بہت سے لوگ اس مصلح پر تنقید کریں اور یہ کہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا، ویسا کیوں کیا مگر اس دور کے انصاف پسند یہ ضرور کہیں گے کہ اس عظیم مصلح نے اس مسئلے کے حل کے لئے ابتدائی اقدامات ضرور کئے تھے۔

    اب اسی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور پر غور کیجیے۔ اسلام غلامی کا آغاز کرنے والا نہیں تھا۔ غلامی اسے ورثے میں ملی تھی۔ اسلام کو اس مسئلے سے نمٹنا تھا۔ عرب میں بلامبالغہ ہزاروں غلام موجود تھے۔ جب فتوحات کے نتیجے میں ایران ، شام اور مصر کی مملکتیں مسلمانوں کے پاس آئیں تو ان غلاموں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اگر ان سب غلاموں کو ایک ہی دن میں آزاد کر دیا جاتا تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلتا کہ کروڑوں کی تعداد میں طوائفیں، ڈاکو، چور اور بھکاری وجود میں آ جاتے جنہیں سنبھالنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوتی۔

    اس صورتحال میں اس کے سوا اور کوئی حل نہ تھا کہ غلامی کو کچھ عرصے کے لئے برداشت کر لیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ غلاموں کو آزاد کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ اس عرصے کے دوران جو لوگ غلامی کی حالت میں موجود ہیں، ان کے لئے قانونی اور سماجی نوعیت کی ایسی اصلاحات (Reforms) کر دی جائیں جس کے نتیجے میں ان لوگوں کی زندگی آسان ہو جائے اور انہیں معاشرے میں پہلے کی نسبت بہتر مقام مل سکے۔

    اس ضمن میں جو اصلاحات کی گئیں، انہیں ہم ان عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں:

    · غلاموں کی عزت نفس سے متعلق اصلاحات

    · غلاموں سے حسن سلوک

    · غلاموں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی

    · مالک کے معیار زندگی کے مطابق خوراک کی فراہمی

    · مالک کے معیار زندگی کے مطابق لباس کی فراہمی

    · مالک کے معیار زندگی کے مطابق علاج کی فراہمی

    · غلام کی طاقت و صلاحیت کے مطابق کام اور اس میں مالک سے مدد کا حصول

    · غلاموں پر ہر قسم کے تشدد کی ممانعت

    · غلاموں کے ازدواجی حقوق

    · شادی کا حق

    · طلاق کا حق

    · آزاد خاتون سے شادی کرنے اور طلاق دینے کا حق

    · اپنی فیملی کو اپنے ساتھ رکھنے کا حق

    · غلاموں کے قانونی حقوق

    · غلام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کا حق

    · مالک پر عدالت میں مقدمہ کرنے کا حق

    · گواہی دینے کا حق

    · مال رکھنے کا حق

    · مال غنیمت میں حصہ لینے کا حق

    · جرم کرنے کی صورت میں نصف سزا

    · غلاموں کے سیاسی حقوق

    · آقا اور غلام کے تعلقات میں بہتری

    · غلاموں کی خرید و فروخت سے متعلق اصلاحات

    · نیم غلام طبقوں سے متعلق اصلاحات

    اب ہم ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔

    غلاموں کی عزت نفس سے متعلق اصلاحات

    جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اسلام سے قبل کے زمانے میں غلاموں کو اپنے آقاؤں کی نسبت کمتر مخلوق خیال کیا جاتا تھا۔ عرب میں تو آقا کو "رب" اور غلام کو "عبد" کہا جاتا تھا جس کے معنی ہی پالنے والے یعنی خدا اور بندے کے ہیں۔ دین اسلام نے ان تمام تصورات کو پاش پاش کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ امیر و غریب اور آقا و غلام سب خدا کے بندے ہیں۔ یہ سب ایک ہی باپ اور ماں کی اولاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے نزدیک وہی افضل ہے جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کے احکام کی پابندیاں کرنے والا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

    يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ. (الحجرات 49:13)

    اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور (اس کے بعد محض) تعارف کے لئے تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا۔ تم سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہی ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔

    اسی بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بار بار بیان فرمایا۔ امت مسلمہ کے سب سے بڑے اجتماع سے اپنے آخری خطاب میں بھی آپ نے ارشاد فرمایا:

    أيها الناس إن ربكم واحد وإن أباكم واحد كلكم لآدم وآدم من تراب أكرمكم عند الله اتقاكم، وليس لعربي على عجمي فضل إلا بالتقوى۔

    اے انسانو! تم سب ایک ہی رب کے بندے اور ایک ہی باپ آدم کی اولاد ہو اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر سوائے تقوی کے اور کوئی فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی۔

    مساوات کے اسی اصول کی بنیاد کی بنیاد پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو "عبد" اور آقا کو "رب" کہلائے جانے سے منع فرما دیا۔

    حدثنا محمد: حدثنا عبد الرزاق: أخبرنا معمر، عن همام بن منبه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: لا يقل أحدكم: أطعم ربك، وضئ ربك، اسق ربك، وليقل: سيدي مولاي، ولا يقل أحدكم: عبدي أمتي، وليقل: فتاي وفتاتي وغلامي۔ (بخاری، کتاب العتق، حديث 2552)

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی (اپنے غلام سے) یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھانا کھلاؤ، اپنے رب کو وضو کرواؤ، اپنے رب کو پانی پلاؤ بلکہ یہ کہا کرو کہ میرے سردار یا میرے مولا۔ (اسی طرح) تم میں سے کوئی (اپنے غلام کو) اپنا بندہ یا بندی نہ کہا کرے بلکہ وہ اسے میرا بیٹا، میری بیٹی یا میرا لڑکا کہے۔

    کہنے کو تو یہ محض الفاظ کی تبدیلی تھی لیکن اس کے اثرات نہایت ہی دور رس تھے۔ اس تبدیلی نے آقا اور غلام دونوں کی ذہنیت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دونوں ہی کو یہ معلوم ہو گیا کہ ہم اللہ کے نزدیک ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ صرف دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے کا ماتحت ہے اور ہمیں دنیا میں اس تعلق کو بھی اس طریقے سے نبھانا چاہیے کہ غلام، آقا کو اپنے باپ کا درجہ دے اور آقا غلام کو بیٹا یا بیٹی سمجھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

    فأرشد صلى الله عليه وسلم إلى ما يؤدي المعنى مع السلامة من التعاظم لأن لفظ التي والغلام ليس دالا على محض الملك كدلالة العبد فقد كثر استعمال الفتى في الحر وكذلك الغلام والجارية۔ (فتح الباری شرح بخاری، کتاب العتق)

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ ہدایت دی کہ ایسے الفاظ میں معنی ادا کئے جائیں جو تکبر سے پاک ہوں۔ (عربی میں) لفظ "غلام (یعنی لڑکا)" ملکیت پر دلالت نہیں کرتا جیسا کہ لفظ "عبد" کرتا ہے۔ لفظ الفتی (یعنی بیٹا) ، غلام (لڑکا)، جاریہ (لڑکی) کے الفاظ آزاد لوگوں کے لئے بھی بکثرت استعمال کئے جاتے ہیں۔

    غلام کو جو حقوق دیے گئے، اگر ان کی تفصیل دیکھی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان حقوق نے بھی غلاموں اور ان کے آقاؤں میں ایک بڑی نفسیاتی تبدیلی پیدا کی۔ چونکہ غلاموں کو بھی اتنا ہی انسان تسلیم کر لیا گیا تھا جتنے کہ ان کے آقا تھے، اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خصوصی طور پر انہیں کچھ حقوق عطا فرمائے۔ یہ حقوق ایسے تھے کہ ان کی بدولت غلام اور آزاد کے اسٹیٹس میں زیادہ فرق باقی نہ رہ گیا۔

    غلاموں سے حسن سلوک کا حکم

    مسلمانوں کی ذہنیت کو تبدیل کرتے ہوئے انہیں اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ وہ غلاموں سے اچھا سلوک کریں اور اپنے دوسروں کے مقابلے میں بالعموم اور غلاموں کے مقابلے میں بالخصوص تکبر نہ کریں۔

    وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالاً فَخُوراً (النساء 4:36)

    اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ والدین، رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، پڑوسی رشتے داروں، ساتھ والے پڑوسیوں، دیگر ساتھیوں، مسافروں اور غلاموں سے اچھا سلوک کرو۔ اللہ کسی غرور کرنے والے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔

    ذہنیت کی اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ غلاموں کو اپنے اسٹیٹس تک لانے کی کوشش کریں۔ یہ کوشش انہیں آزاد کر کے بھی ہو سکتی ہے اور جب تک وہ غلام ہیں، ان کی حالت بہتر بنا کر بھی ہو سکتی ہے۔

    وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ۔ (النحل 16:71)

    اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کے برابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو غلاموں کے حقوق کا اس حد تک خیال تھا کہ نزع کے عالم میں بھی آپ نے ان کے حقوق ادا کرنے اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔

    حدّثنا أَحْمَدُ بْنُ المِقْدَامِ. ثنا المُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانُ. سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَتْ عَامَّةُ وَصِيَّةِ رَسُولُ اللَهِ صلى الله عليه وسلم حِينَ حَضَرَتْهُ الوَفَاةُ، وَهُوَ يُغَرْغِرُ بِنَفْسِهِ ((الصلاةَ. وَمَامَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)). (ابن ماجة، کتاب الوصايا، حديث 2697)

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات کا وقت آن پہنچا اور آپ کی روح نکالی جا رہی تھی، اس وقت آپ نے وصیت فرمائی، "نماز اور تمہارے غلام۔"

    غلاموں کی بنیادی ضروریات اور ان پر کام کا بوجھ لادنے کی ممانعت

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قرآن مجید کی انہی آیات پر عمل کرتے ہوئے غلاموں کو جو معاشرتی اور معاشی حقوق عطا کئے، ان میں سرفہرست یہ ہے کہ آقاؤں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ غلاموں کی تمام ضروریات پوری کرنے کے اسی طرح پابند ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ دوسری طرف وہ غلاموں سے صرف اتنا ہی کام لے سکتے ہیں، جتنا کام کرنے کی ان میں طاقت اور صلاحیت موجود ہے۔

    غلام کی بنیادی ضروریات

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : « لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ بِالْمَعْرُوفِ، وَلاَ يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلاَّ مَا يُطِيقُ »۔ (موطاء مالک، کتاب الجامع، حديث 2806، مسلم، کتاب الايمان، حديث 4316)

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: "غلام کے لئے دستور کے مطابق کھانا اور لباس کی فراہمی (مالک کی) ذمہ داری ہے۔ اس پر کام کا بوجھ صرف اتنا ہی لادا جائے گا جتنی کہ اس میں طاقت ہے۔

    ایک اور حدیث میں ان حقوق کی مزید تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے صحابہ کو غلاموں کے حقوق سے متعلق کیسے تربیت دیا کرتے تھے اور اس کا آپ کے صحابہ پر کیا اثر ہوا کرتا تھا۔

    حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا وكيع. حدثنا الأعمش عن المعرور بن سويد. قال: مررنا بأبي ذر بالربذة. وعليه برد وعلى غلامه مثله. فقلنا يا أبا ذر! لو جمعت بينهما كانت حلة. فقال: إنه كان بيني وبين الرجل من إخوتي كلام. وكانت أمه أعجمية. فعيرته بأمه. فشكاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم. فلقيت النبي صلى الله عليه وسلم. فقال (يا أبا ذر! إنك امرؤ فيك جاهلية). قلت: يا رسول الله! من سب الرجال سبوا أباه وأمه. قال (يا أبا ذر! إنك امرؤ فيك جاهلية. هم إخوانكم. جعلهم الله تحت أيديهم. فأطعموهم مما تأكلون. وألبسوهم مما تلبسون. ولا تكلفوهم ما يغلبهم. فإن كلفتموهم فأعينوهم)۔ (مسلم، کتاب الايمان، حديث 4313)

    معرور بن سعید کہتے ہیں کہ ہم لوگ (دوران سفر) ربذہ سے گزرے جہاں سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ قیام پذیر تھے۔ ہم نے دیکھا کہ انہوں نے ایک چادر اوڑھ رکھی ہے اور بالکل ویسی ہی چادر ان کے غلام نے اوڑھ رکھی ہے۔ ہم نے کہا، "ابے ابوذر! اگر آپ یہ دونوں چادریں لے لیتے تو آپ کا لباس مکمل ہو جاتا۔" انہوں نے فرمایا، "مجھ میں اور میرے ایک (غلام) بھائی میں کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ ان کی والدہ عجمی تھیں۔ میں نے ان کی والدہ سے متعلق انہیں طعنہ دے دیا تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی۔ جب میں آپ نے ملا تو آپ نے فرمایا تھا۔'اے ابوذر! تم میں تو ابھی جاہلیت کا اثر باقی ہے۔'

    میں نے عرض کیا، 'یا رسول اللہ! اگر کوئی کسی کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کے ماں باپ کو برا کہے گا۔' آپ نے فرمایا، 'اے ابوذر!تم میں جاہلیت کا اثر باقی ہے (کہ اگر تمہیں کوئی برا کہے تو تم بھی اسے ہی کہو نہ کہ اس کے ماں باپ کو۔) یہ (غلام) تو تمہارے بھائی ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے تمہارے ماتحت کیا ہے۔ انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو اور انہیں وہی لباس پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ ان پر کام کا اتنا بوجھ نہ لادو جس کی ان میں طاقت نہ ہو اور اگر کام سخت ہو تو پھر خود اس میں ان کی مدد کرو۔' "

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ و اہل بیت غلاموں کی ضروریات کا خیال کس طرح رکھا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال تو سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ ملاحظہ فرما چکے۔ دوسری مثال سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے قائم کی۔

    حدثنا أبو نعيم: حدثنا عبد الواحد بن أيمن قال: حدثني أبي قال: دخلت على عائشة رضي الله عنها، وعليها درع قطر، ثمن خمسة دراهم، فقالت: ارفع بصرك إلى جاريتي انظر إليها، فإنها تزهى أن تلبسه في البيت، وقد كان لي منهن درع على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما كانت امرأة تقين بالمدينة إلا أرسلت إلي تستعيره. (بخاری، کتاب الهبة، حديث 2628)

    ایمن کہتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں داخل ہوا۔ آپ نے قطر (یمن کا ایک کھردرا کپڑا) کا لباس پہن رکھا تھا جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ آپ فرمانے لگیں، "میری اس لڑکی کو تو دیکھو، یہ اس لباس کو گھر میں پہننے سے بھی انکار کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں میرے پاس ایسی ایک ہی قمیص تھی۔ مدینہ میں جس عورت کی بھی شادی ہوتی، وہ مجھ سے اس قمیص کو ادھار مانگ لیتی (اور شادی کے بعد واپس کر جاتی۔)

    سیدہ نے اپنی لونڈی پر یہ جبر نہیں کیا کہ جو لباس میں پہن رہی ہوں تم اسے پہننے سے کیوں انکار کرتی ہو بلکہ اس کے نخرے برداشت کئے اور اسے اپنے سے بھی بہتر لباس پہننے کو دیا۔

    غلاموں پر کام کا بوجھ لادنے کی ممانعت

    اوپر بیان کردہ احادیث سے واضح ہے کہ کسی غلام سے اتنا ہی کام اور وہی کام لیا جا سکتا ہے جو اس کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ہو۔ اگر وہ کوئی کام سر انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو مالک پر لازم ہے کہ وہ خود اس کی مدد کرے۔ ایسے مالک کو اللہ تعالی بہت اجر سے نوازے گا۔

    أخبرنا أبو يعلى قال حدثنا أبو خيثمة قال حدثنا عبد الله بن يزيد قال حدثني سعيد بن أبي أيوب قال حدثني أبو هانئ قال حدثني عمرو بن حريث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما خففت عن خادمك من عمله كان لك اجرا في موازينك. (صحيح ابن حبان، حديث 4314)

    عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جو اپنے خادم کے کام میں کمی کرتا ہے، اسے اس کا اجر اپنے اعمال کے وزن کے وقت ملے گا۔"

    امام شافعی غلام پر بوجھ لادنے سے متعلق ہوئے فرماتے ہیں:

    قال شافعی: و معنی قولہ "لا یکلف من العمل الا ما یطیق" یعنی ۔۔ واللہ اعلم ۔۔: الا ما یطیق الدوام علیہ، لاما یطیق یوما اور یومین، او ثلاثہ، و نحو ذلک ثم یعجز۔ و جملۃ ذلک ما لا یضر ببدنہ الضرر البین، فان عمی او زمن، انفق علیہ مولاہ، و لیس لہ ان یسترضع الامۃ غیر ولدھا الا ان یکون فیہا فضل عن ربہ، او یکون ولدھا یغتذی بالطعام، فیقیم بدنہ، فلا باس بہ۔ (بغوی، شرح السنۃ، کتاب النکاح)

    شافعی کہتے ہیں، اس ارشاد کہ "غلام پر کام کا اتنا ہی بوجھ لادا جائے جس کی وہ طاقت رکھتا ہے۔" کا معنی یہ ہے، (اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے) کہ اس سے ایسا کام نہ لیا جائے جس کا ہمیشہ کرتے رہنا اس کے لئے ممکن نہ ہو۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ ایک، دو یا تین دن کسی کام کو تو کر لے اور اس کے بعد (بیمار پڑ کر) اس سے عاجز آ جائے۔ اس میں وہ تمام کام شامل ہیں جن کے نتیجے میں اس کی صحت کو واضح نقصان پہنچ سکتا ہو جیسے وہ کسی کام کے نتیجے میں نابینا ہو جائے یا بیمار پڑ جائے۔

    (بیماری کی صورت میں) مالک پر لازم ہے کہ وہ اس پر خرچ کرے۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی لونڈی کو اپنے بچے کے علاوہ دوسرے کسی بچے کو دودھ پلانے پر مجبور نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ اس پر اپنے رب کا فضل ہو (یعنی ایک بچے کی ضرورت سے زیادہ دودھ اترتا ہو)، یا پھر اس کا اپنا بچہ کچھ اور کھا کر نشوونما پا رہا ہو (اور اس کا دودھ فالتو ہو گیا ہو) تو پھر کسی اور کے بچے کو دودھ پلانے میں حرج نہیں ہے۔

    بنیادی ضروریات کی فراہمی میں حکومت اور معاشرے کا کردار

    کسی کو یہ خیال نہ رہے کہ ان حقوق کی تلقین محض اخلاقی نوعیت کی تھی۔ اگر ایسا بھی ہوتا تب بھی صحابہ کرام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا حکم ہی کافی تھا، لیکن ان حقوق کو قانونی طور پر بھی نافذ کر دیا گیا۔ اس کی تفصیل ان روایات میں بیان کی گئی ہے۔

    وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى الْعَوَالِي كُلَّ يَوْمِ سَبْتٍ، فَإِذَا وَجَدَ عَبْداً فِي عَمَلٍ لاَ يُطِيقُهُ، وَضَعَ عَنْهُ مِنْهُ۔ (موطاء مالک، کتاب الجامع، حديث 2807)

    سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر ہفتے کے دن مدینہ کے گرد و نواح میں (واقع کھیتوں وغیرہ) میں جایا کرتے اور اگر انہیں کوئی ایسا غلام مل جاتا جو اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کر رہا ہوتا تو آپ اس کا بوجھ کم کروا دیتے۔

    وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَمِّهِ أبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَهُوَ يَخْطُبُ وَهُوَ يَقُولُ : لاَ تُكَلِّفُوا الأَمَةَ غَيْرَ ذَاتِ الصَّنْعَةِ الْكَسْبَ, فَإِنَّكُمْ مَتَى كَلَّفْتُمُوهَا ذَلِكَ كَسَبَتْ بِفَرْجِهَا، وَلاَ تُكَلِّفُوا الصَّغِيرَ الْكَسْبَ، فَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يَجِدْ سَرَقَ، وَعِفُّوا إِذْ أَعَفَّكُمُ اللَّهُ، وَعَلَيْكُمْ مِنَ الْمَطَاعِمِ بِمَا طَابَ مِنْهَا۔ (موطاء مالک، کتاب الجامع، حديث 2808)

    سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا، "اگر تمہاری لونڈیاں کوئی ہنر نہ جانتی ہوں تو انہیں کمانے کے لئے مت کہو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے نتیجے میں وہ عصمت فروشی کرنا شروع کر دیں گی۔ بچوں کو بھی کمانے کے لئے مت کہو کیونکہ اگر انہیں روزگار نہ ملے گا تو وہ چوری شروع کر دیں گے۔ ان سے مہربانی کا سلوک کرو کیونکہ اللہ نے تم سے مہربانی کی ہے۔ تم پر یہ لازم ہے کہ انہیں خوراک اور علاج کی سہولیات مہیا کرو۔

    غلاموں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے مالکوں کے مال میں سے رواج کے مطابق بنیادی ضروریات کا سامان لے سکتے تھے۔

    عبد الرزاق عن بن جريج قال سمعت نافعا يحدث أن عبد الله بن عمر يقول إن المملوك لا يجوز له أن يعطي من ماله أحدا شيئا ولا يعتق ولا يتصدق منه بشيء إلا بإذن سيده ولكنه يأكل بالمعروف ويكتسي هو وولده وامرأته. (مستدرک حاکم؛ حديث 2856)

    نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے، "غلام کو اس کی اجازت تو نہیں ہے کہ وہ اپنے مالک کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کوئی چیز دے یا مالک کا غلام آزاد کرے یا اس میں سے صدقہ کرے۔ لیکن اسے دستور کے مطابق اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے خوراک اور کپڑا لینے کا حق حاصل ہے۔"

    غلاموں کے ان حقوق کا تقدس اس درجے کا تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حقوق فراہم نہ کرنے والے مالک پر غلام کے جرم کی سزا نافذ کی۔

    وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، أَنَّ رَقِيقاً لِحَاطِبٍ سَرَقُوا نَاقَةً لِرَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، فَانْتَحَرُوهَا فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَأَمَرَ عُمَرُ كَثِيرَ بْنَ الصَّلْتِ أَنْ يَقْطَعَ أَيْدِيَهُمْ، ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : أَرَاكَ تُجِيعُهُمْ. ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ لأُغَرِّمَنَّكَ غُرْماً يَشُقُّ عَلَيْكَ. ثُمَّ قَالَ : لِلْمُزَنِيِّ كَمْ ثَمَنُ نَاقَتِكَ ؟ فَقَالَ الْمُزَنِيُّ : قَدْ كُنْتُ وَاللَّهِ أَمْنَعُهَا مِنْ أَرْبَعِ مِئَةِ دِرْهَمٍ. فَقَالَ عُمَرُ : أَعْطِهِ ثَمَانَ مِئَةِ دِرْهَمٍ۔ (موطاء مالک، کتاب الاقضية، حديث 2178)

    عبدالرحمٰن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ (ان کے والد) حاطب کے ایک غلام نے بنو مزینہ کے کسی شخص کی اونٹنی چرا کر اسے ذبح کر (کے کھا گیا۔) یہ معاملہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (کی عدالت میں) لایا گیا۔ (پہلے) سیدنا عمر نے کثیر بن الصلت کو اس غلام کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا لیکن پھر (آقا سے) ارشاد فرمایا، "مجھے لگتا ہے تم انہیں بھوکا رکھتے ہو۔" پھر فرمایا، "اللہ کی قسم! میں تم پر ایسا جرمانہ عائد کروں گا جو تمہیں ناگوار گزرے گا۔" اس کے بعد بنو مزینہ کے اس مدعی سے پوچھا، "تمہاری اونٹنی کی قیمت کیا ہے؟" اس نے کہا، "واللہ میں نے تو اس کے چار سو درہم قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آقا سے فرمایا، "اسے آٹھ سو درہم ادا کر دو۔"

    غلام کو ساتھ بٹھا کر کھانے کا حکم

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حکم دیا کہ اگر غلام کھانا بنا کر لائے تو مالک اسے ساتھ بٹھا کر کھلائے۔

    وحدثنا القعنبي. حدثنا داود بن قيس عن موسى بن يسار، عن أبي هريرة. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (إذا صنع لأحدكم خادمه طعامه ثم جاءه به، وفقد ولى حره ودخانه، فلقعده معه. فليأكل. فإن كان الطعام مشفوها قليلا، فليضع في يده منه أكلة أو أكلتين۔ قال داود: يعني لقمة أو لقمتين. (بخاری، کتاب العتق، حديث 2556، مسلم کتاب الايمان، حديث 4317)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب تمہارا کوئی خادم کھانا پکائے اور اسے لے کر تمہارے پاس آئے تو چونکہ اس نے کھانا پکانے کے لئے تپش اور دھواں برداشت کیا ہے، اس وجہ سے اسے اپنے ساتھ بٹھا لو اور کھانا کھلاؤ۔ اگر کھانا کم مقدار میں ہو تو اپنے ہاتھ سے اس کے لئے (کم از کم) ایک دو لقمے ہی الگ کر دو۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خود غلاموں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور یہی معاملہ آپ کے صحابہ کا تھا۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو گوشت کا ایک ٹکڑا پیش کیا۔ اس معاملے میں امہات المومنین کو تردد ہوا کیونکہ یہ حکومت کے بیت المال کا گوشت تھا جو بریرہ کو دیا گیا تھا۔ بیت المال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے خاندان کو کچھ لینے کی اجازت نہ تھی۔ آپ نے فرمایا، "یہ گوشت بریرہ کے لئے تو صدقہ ہے لیکن ہمارے لئے بریرہ کا تحفہ ہے اس لئے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔"

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی معاملہ تھا۔ وہ اپنے غیر مسلم غلاموں کے ساتھ بلا تکلف کھانا کھایا کرتے تھے۔

    غلاموں کے حقوق اور صحابہ کرام کا کردار

    خلفاء راشدین کا یہ بھی یہی دستور تھا کہ اگر کسی غلام کا مالک اس کی کفالت کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہو تو اس کی مدد کیا کرتے تھے۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مَخْلَدٍ الْغِفَارِي أَنَّ ثَلاَثَةً مَمْلُوكِينَ شَهِدُوا بَدْرًا ، فَكَانَ عُمَرُ يُعْطِي كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ كُلَّ سَنَةٍ ثَلاَثَةَ آلاَفٍ ثَلاَثَةَ آلاَفٍ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 33553)

    تین غلاموں نے جنگ بدر میں حصہ لیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک تو سالانہ تین تین ہزار درہم دیا کرتے تھے۔

    حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ هَارُونَ بْنِ عَنْتَرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : شَهِدْتُ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا يَرْزُقَانِ أَرِقَّاءَ النَّاسِ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 33554)

    سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنہما (اپنے ادوار میں) لوگوں کے غلاموں کو ان کی ضروریات کا سامان پہنچایا کرتے تھے۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بہت سوں نے تو غلاموں کو معمولی سے خراج کے عوض خود کمانے اور کھانے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ خراج صرف ایک درہم روزانہ ہوا کرتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب غلاموں کی قیمتیں40,000 درہم تک پہنچ چکی تھیں۔ اس طریقے سے یہ غلام عملاً آزاد ہو چکے تھے۔

    أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْفَضْلِ الصَّيْرَفِىُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ : مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ أَخْبَرَنِى أَبِى حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِىُّ حَدَّثَنِى رَجُلٌ مِنَّا يُقَالُ لَهُ نَهِيكُ بْنُ يَرِيمَ حَدَّثَنِى مُغِيثُ بْنُ سُمَىٍّ قَالَ : كَانَ لِلزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ أَلْفَ مَمْلُوكٍ يُؤَدِّى إِلَيْهِ الْخَرَاجَ فَلاَ يُدْخِلُ بَيْتَهُ مِنْ خَرَاجِهِمْ شَيْئًا. (بيهقى؛ سنن الكبرى؛ حديث 15787)

    سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار غلام تھے جو انہیں خراج ادا کیا کرتے تھے۔ اس خراج میں سے کوئی رقم ان کے گھر میں داخل نہ ہوا کرتی تھی (یعنی وہ سب کی سب رقم انہی غلاموں اور دیگر غرباء پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔)

    أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ أَبِى الْمَعْرُوفِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ نُجَيْدٍ أَخْبَرَنَا أَبُو مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ أَبِى ذِئْبٍ عَنْ دِرْهَمٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ : ضَرَبَ عَلَىَّ مَوْلاَى كُلَّ يَوْمٍ دِرْهَمًا فَأَتَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ فَقَالَ اتَّقِ اللَّهَ وَأَدِّ حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوْلاَكَ. (بيهقى؛ سنن الكبرى؛ حديث 15788)

    سیدنا عبدالرحمٰن (بن عوف) رضی اللہ عنہ کے سابقہ غلام درہم کہتے ہیں، "میرے آقا نے مجھ پر روزانہ ایک درہم کا خراج مقرر کیا تھا۔ (ایک دن) میں نے یہ درہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا تو انہوں نے فرمایا، "اللہ سے ڈرو اور اللہ کا اور اپنے آقا کا حق (انہی کو) ادا کرو۔"

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس کسی کو اپنے غلام پر زیادتی کرتے ہوئے دیکھتے تو فوراً اسے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔

    و روی ان اباھریرہ رای رجلا راکبا و غلامہ یسعی خلفہ، فقال: یا عبداللہ احملہ، فانہ اخوک، و روحک مثل روحہ۔ (بغوی، شرح السنۃ، کتاب النکاح)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سوار ہے اور اس کا غلام اس کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا، "اے عبداللہ! اسے بھی سوار کرو۔ یہ تمہارا بھائی ہی ہے۔ تمہارے اندر جو روح ہے وہ بھی اسی کی روح کی طرح ہی ہے۔
     
  11. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 8: غلاموں کا اسٹیٹس بہتر بنانے کے اقدامات (2)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    غلاموں پر ہر قسم کے تشدد کی ممانعت

    تشدد زدہ غلاموں کی آزادی کا قانون

    اسلام سے پہلے کے زمانے میں غلاموں پر جسمانی و نفسیاتی تشدد عام تھا۔ غلام کو مکمل طور پر آقا کی ملکیت تصور کیا جاتا اور اسے اپنے غلام کو قتل کر دینے کا حق بھی حاصل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بہت سختی سے غلاموں پر تشدد کی ممانعت فرمائی اور حکم دیا کہ اگر کوئی اپنے غلام کو تھپڑ بھی مار دے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس غلام کو آزاد کر دے۔

    وحدثنا محمد بن المثنى وابن بشار (واللفظ لابن المثنى). قالا: حدثنا محمد بن جعفر. حدثنا شعبة عن فراس. قال: سمعت ذكوان يحدث عن زاذان؛ أن ابن عمر دعا بغلام له. فرأى بظهره أثرا. فقال له: أوجعتك؟ قال: لا. قال: فأنت عتيق. قال: ثم أخذ شيئا من الأرض فقال: ما لي فيه من الأجر ما يزن هذا. إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول (من ضرب غلاما له، حدا لم يأته، أو لطمه، فإن كفارته أن يعتقه). (مسلم کتاب الايمان، حديث 4299)

    زاذان بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک غلام کو بلایا۔ اس کی پیٹھ پر چوٹ کا نشان تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا، "کیا میں نے تمہیں تکلیف دی ہے؟" وہ بولا، "جی نہیں۔" آپ نے فرمایا، "تم آزاد ہو۔" اس کے بعد زمین سے کوئی چیز (لکڑی وغیرہ) اٹھا کر فرمایا، "مجھے اس کے وزن کے برابر بھی اجر نہیں ملا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، 'جو بھی غلام کو بغیر کسی جرم کے سزا دے یا اسے تھپڑ مار دے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے۔' "

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم غلاموں پر تشدد کے معاملے میں نہایت حساس تھے۔ آپ نے غلام کو مارنے پر آزاد نہ کرنے والے کو بتایا کہ اس صورت میں اسے جہنم کی آگ کے لئے تیار رہنا چاہیے۔

    وحدثنا أبو كريب محمد بن العلاء. حدثنا أبو معاوية. حدثنا الأعمش عن إبراهيم التيمي، عن أبيه، عن أبي مسعود الأنصاري. قال: كنت أضرب غلاما لي. فسمعت من خلفي صوتا (اعلم، أبا مسعود! لله أقدر عليك منك عليه) فالتفت فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقلت: يا رسول الله! هو حر لوجه الله. فقال (أما لو لم تفعل، للفحتك النار، أو لمستك النار). (مسلم کتاب الايمان، حديث 4308)

    سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (کسی بات پر) اپنے غلام کو مار رہا تھا۔ میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی، "ابو مسعود! جان لو، اللہ تم پر اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہے، جتنی تم اس غلام پر قدرت رکھتے ہو۔" میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تھے۔ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! یہ اللہ کے لئے آزاد ہے۔" آپ نے فرمایا، "اگر تم ایسا نہ کرتے تو (جہنم کی) آگ تمہیں جلا ڈالتی یا فرمایا کہ تمہیں چھو لیتی۔"

    اسی حدیث کی دیگر روایتوں میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بات سن کر ابو مسعود رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے وہ چھڑی گر گئی جس سے وہ غلام کو مار رہے تھے اور انہوں نے آئندہ کسی غلام کو مارنے سے توبہ کر لی۔

    ایک اور حدیث میں ہے:

    من ضرب مملوكه ظلمًا له أقيد منه يوم القيامة (جمع الجوامع)

    جس نے اپنے غلام پر ظلم کرتے ہوئے اسے مارا تو اس سے قیامت کے دن بدلہ لیا جائے گا۔

    ابن القیم ایسا ہی ایک واقعہ نے بیان کیا ہے:

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عبد الرزاق أخبرني معمر أن ابن جريج أخبره عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن زنباعا أبا روح وجد غلاما له مع جارية له فجدع أنفه وجبه فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال من فعل هذا بك قال زنباع فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال ما حملك على هذا فقال كان من أمره كذا وكذا فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعبد إذهب فأنت حر فقال يا رسول الله فمولى من أنا قال مولى الله ورسوله فأوصى به رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين قال فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى أبي بكر فقال وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم نجري عليك النفقة وعلى عيالك فأجراها عليه حتى قبض أبو بكر فلما استخلف عمر جاءه فقال وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم أين تريد قال مصر فكتب عمر إلى صاحب مصر أن يعطيه أرضا يأكلها.‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ابو روح زنباع نے اپنے ایک غلام کو ایک لونڈی کے ساتھ مشغول پایا تو انہوں نے اس کی ناک کاٹ دی۔ اسے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے پوچھا، "یہ کس نے کیا ہے؟" بتایا گیا، "زنباع نے۔" آپ نے زنباع کو بلایا اور فرمایا، "تم سے ایسا کرنے کے لئے کس نے کہا تھا؟" اس کے بعد آپ نے غلام سے فرمایا، "تم تو جاؤ، تم آزاد ہو۔" اس نے پوچھا، "یا رسول اللہ! میری ولاء کا رشتہ کس سے قائم ہو گا؟" فرمایا، "اللہ اور اس کے رسول سے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کے بارے میں مسلمانوں کو وصیت فرمائی۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات کے بعد وہی غلام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حضور کی وصیت بیان کی۔ آپ نے فرمایا، "ہاں، ہم تمہارے اور تمہارے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے وظیفہ جاری کریں گے۔" اس کے بعد انہوں نے یہ وظیفہ جاری کر دیا۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو وہ پھر ان کے پاس آیا اور یہی وصیت بیان کی۔ انہوں نے فرمایا، "بالکل ٹھیک! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟" وہ کہنے لگا، "مصر میں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر کو حکم جاری کیا کہ اسے اتنی (سرکاری) زمین دے دی جائے جسے کاشت کر کے وہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کر سکے۔

    تشدد زدہ غلاموں سے متعلق صحابہ کی حساسیت

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تربیت کا اثر تھا کہ آپ کے صحابہ بھی اس معاملے میں بہت حساس تھے۔

    وحدثنا عبدالوارث بن عبدالصمد. حدثني أبي. حدثنا شعبة. قال: قال لي محمد بن المنكدر: ما اسمك؟ قلت: شعبة. فقال محمد: حدثني أبو شعبة العراقي عن سويد بن مقرن؛ أن جارية له لطمها إنسان. فقال له سويد: أما علمت أن الصورة محرمة؟ فقال: لقد رأيتني، وإني لسابع إخوة لي، مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. وما لنا خادم غير واحد. فعمد أحدنا فلطمه. فأمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن نعتقه. (مسلم کتاب الايمان، حديث 4304)

    سیدنا سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک لونڈی کو اس کے آقا نے تھپڑ مارا۔ سوید اس سے کہنے لگے، "کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ چہرے پر مارنا حرام ہے؟ مجھے دیکھو، میرے سات بھائی تھے اور ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھی تھے۔ ہمارے پاس صرف ایک غلام تھا۔ ہم میں سے ایک نے اسے تھپڑ مارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیا۔

    سیدنا سوید رضی اللہ عنہ تو اس معاملے میں اتنے حساس تھے کہ صحیح مسلم کے اسی باب کی ایک اور روایت کے مطابق ان کے بیٹے نے اپنے غلام کو مارا تو انہوں نے غلام سے کہا کہ اپنا بدلہ لے لو۔ اس نے معاف کر دیا تو سیدنا سوید رضی اللہ عنہ نے بیٹے کو اس غلام کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ یہی معاملہ خلفاء راشدین کے زمانے میں تھا۔ اگر غلام پر جسمانی تشدد کیا جاتا تو خلفاء راشدین اس غلام کو آزاد کر دیا کرتے تھے۔

    وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، أَنَّهُ بَلَغَهُ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَتَتْهُ وَلِيدَةٌ قَدْ ضَرَبَهَا سَيِّدُهَا بِنَارٍ، أَوْ أَصَابَهَا بِهَا، فَأَعْتَقَهَا. (موطاء مالک، کتاب العتق، حديث 2251)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لونڈی لائی گئی جسے اس کے مالک نے جلتی ہوئی (لکڑی وغیرہ) سے مارا تھا۔ آپ نے اسے آزاد کر دیا۔ (اس کے دوسرے طرق میں یہ بھی ہے کہ مالک کو انہوں نے سو کوڑے کی سزا بھی دی۔ مستدرک حاکم، حدیث 2856)

    ایسا ہی ایک واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیش آیا جس پر انہوں نے اس غلام کو آزاد کر دیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 28619)

    غلام پر نفسیاتی تشدد کی ممانعت

    غلام پر صرف جسمانی تشدد کی ممانعت ہی نہ تھی بلکہ اسے ذہنی اذیت دینے سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے منع فرمایا۔

    حدثنا مسدد: حدثنا يحيى بن سعيد، عن فضيل بن غزوان، عن ابن أبي نعم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: (من قذف مملوكه، وهو بريء مما قال، جلد يوم القيامة، إلا أن يكون كما قال). (بخاری، كتاب الحدود، حديث 6858)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، "جس نے اپنے غلام پر الزام لگایا اور وہ اس الزام سے بری ہے، تو اسے قیامت کے دن کوڑے لگائے جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ اس نے سچ کہا ہو" (یا پھر وہ دنیا میں اپنے جرم کی سزا بھگت لے۔)

    اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے محدث ابن جوزی لکھتے ہیں:

    اعلم أن المملوك عبد لله كما أن المالك عبد له والحق عز وجل عادل فإذا لم يجلد لموضع قذفه له في الدنيا من جهة استعلائه عليه بالملكة جلد له في القيامة. (ابن جوزی، کشف المشکل من حديث الصحيحين)

    یہ بات جان رکھیے کہ غلام بھی اسی طرح اللہ کا بندہ ہے جیسا کہ مالک۔ اللہ تعالی عدل کرنے والا ہے۔ اگر کسی شخص کو اس دنیا میں اپنے غلام پر غلبے کے باعث سزا نہ مل سکی تو اسے اس جرم کی سزا میں قیامت کے دن کوڑے لگائے جائیں گے۔

    غلاموں کے ازدواجی حقوق

    غلاموں کی شادی کر دینے کا حکم

    قرآن مجید میں اللہ تعالی نے خاص طور پر یہ غلاموں کے مالکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کی شادیاں کر دیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں گے اور اس کے نتیجے میں اگر یہ غلام اور لونڈیاں بدکاری پر مجبور ہوئے تو ان کے اس گناہ کے ذمہ دار ان کے مالکان ہوں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

    وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔ (النور 24:32)

    تم میں سے جو (مرد و عورت) مجرد ہوں، ان کی شادیاں کر دیا کرو اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح بھی کر دیا کرو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے۔

    یہاں صالحین کے لفظ کے استعمال کی وجہ یہ تھی کہ اسلام سے پہلے کے دور میں غلاموں اور لونڈیوں کی تعلیم و تربیت پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی جس کے باعث ان میں اخلاقی انحطاط اور بدکاری پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے غریب لوگوں کو جو آزاد خواتین کے مہر ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، ترغیب دلائی کہ وہ لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

    وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلاً أَنْ يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ۔ (النساء 4:25)

    جو شخص تم میں سے اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ آزاد مسلمان خواتین سے شادی کر سکے تو تمہاری ان لڑکیوں میں سے کسی سے نکاح کر لے جو تمہاری ملکیت میں ہیں اور مومن ہیں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کرو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں اور آزاد شہوت رانی اور چوری چھپے آشنائی سے بچ سکیں۔

    اس سے کسی کو یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ لونڈیوں سے شادی کے لئے ان کے مالک کی اجازت لینا ضروری تھا۔ دین اسلام نے نہ صرف لونڈیوں بلکہ آزاد خواتین کو بھی یہی کہا ہے کہ وہ اپنے سرپرستوں کی اجازت سے شادی کریں کیونکہ نکاح محض دو افراد کے تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ دو خاندانوں کے ملاپ کا نام ہے اور ایسا کرنے میں پورے خاندان کو شریک ہونا چاہیے۔ آزاد اور غلام خواتین کے سرپرستوں کو بھی یہ تاکید کی گئی کہ وہ اس معاملے میں قطعی کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں اور اگر وہ ایسا کریں تو خاتون اس معاملے کو عدالت میں لے جا سکتی ہے۔

    طلاق کا حق

    شادی کرنے کے بعد طلاق کا حق صرف اور صرف غلام کو ہی دیا گیا۔ کسی مالک کو اس بات کی اجازت نہ تھی کہ وہ غلام کو اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں یہی عمل تھا۔

    وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ : مَنْ أَذِنَ لِعَبْدِهِ أَنْ يَنْكِحَ، فَالطَّلاَقُ بِيَدِ الْعَبْدِ، لَيْسَ بِيَدِ غَيْرِهِ مِنْ طَلاَقِهِ شَيْءٌ۔ (موطاء مالک، کتاب الطلاق، حديث 1676)

    سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے، "جس نے اپنے غلام کو شادی کرنے کی اجازت دے دی، تو اب طلاق کا معاملہ غلام کے ہاتھ ہی میں ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو طلاق کے معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔"

    غلاموں کو شاید عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آزاد خاتون سے شادی کا حق بھی دے دیا گیا تھا۔ وہ عرب جو ہاتھ سے کام کرنے والے کسی شخص سے اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح کرنے کو توہین سمجھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تعلیمات کے تحت ایسا کرنے پر تیار ہو گئے۔ نہ صرف نکاح، بلکہ آزاد خاتون کو طلاق دینا بھی ان کے لئے ممکن ہو گیا تھا۔ ایسا ضرور تھا کہ غلام کو طلاق دینے کا حق دو مرتبہ دیا گیا جبکہ آزاد خاوند کو یہ حق تین مرتبہ حاصل تھا۔

    حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّ نُفَيْعاً مُكَاتَباً كَانَ لأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَوْ عَبْداً لَهَا، كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ, فَطَلَّقَهَا اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَأَمَرَهُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْتِيَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَيَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَلَقِيَهُ عِنْدَ الدَّرَجِ آخِذاً بِيَدِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَسَأَلَهُمَا، فَابْتَدَرَاهُ جَمِيعاً فَقَالاَ : حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَرُمَتْ عَلَيْكَ.(موطاء مالک، کتاب الطلاق، حديث 1672)

    سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام یا مکاتب نفیع تھے۔ ان کے نکاح میں ایک آزاد خاتون تھیں۔ انہوں نے انہیں دو مرتبہ طلاق دے دی اور پھر رجوع کرنے کا ارادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج نے معاملے کو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (جو کہ خلیفہ تھے) کی عدالت میں لے جانے کا حکم دیا۔ وہ ان سے فیصلہ کروانے کے لئے گئے تو ان کی ملاقات سیڑھیوں کے نزدیک ان سے ہوئی۔ اس وقت وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جلدی جلدی کہیں جا رہے تھے۔ ان سے پوچھا تو وہ دونوں کہنے لگے، "وہ اب تمہارے لئے حرام ہے، وہ اب تمہارے لئے حرام ہے۔"

    لونڈیوں کے لئے طلاق کا حق

    لونڈیوں کو اس بات کا حق دیا گیا کہ جب انہیں آزادی ملے تو اس موقع پر وہ چاہیں تو حالت غلامی میں کئے گئے اپنے سابقہ نکاح کو برقرار رکھیں یا اسے فسخ کر دیں۔ اس حق کو "خیار عتق" کہا جاتا ہے۔

    حدثنا محمد: أخبرنا عبد الوهاب: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن زوج بريرة عبد أسود يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: (يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا). فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لو راجعته). قالت يا رسول الله تأمرني؟ قال: (إنما أنا أشفع). قالت: لا حاجة لي فيه. (بخاری، کتاب الطلاق، حديث 5283)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بریرہ کے خاوند ایک سیاہ فام غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ میں گویا اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے ہیں اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا، "عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ مغیث بریرہ سے کس قدر محبت کرتا ہے اور وہ اس سے کتنی نفرت کرتی ہے۔" آپ نے بریرہ سے فرمایا، "کاش تم علیحدگی کا یہ فیصلہ بدل دو۔" وہ پوچھنے لگیں، "یا رسول اللہ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟" آپ نے فرمایا، "نہیں میں تو سفارش کر رہا ہوں۔" وہ بولیں، "پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔"

    اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دور رسالت میں کس حد تک لوگوں کو آزادی حاصل تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی انہیں ان کے حقوق و اختیارات کے معاملے میں مجبور نہ کیا کرتے تھے بلکہ زیادہ سے زیادہ مشورہ دے دیا کرتے تھے۔

    اس حدیث سے بعض فقہاء نے یہ نکتہ رسی کرنے کی کوشش کی ہے کہ لونڈی کو یہ اختیار اسی صورت میں ہوگا اگر اس کا شوہر غلام ہو۔ اگر شوہر آزاد ہو تو اسے یہ اختیار حاصل نہ ہو گا۔ یہ نقطہ نظر درست نہیں۔ حدیث بریرہ کے مختلف طرق کو اگر اکٹھا کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بریرہ کے شوہر مغیث سیاہ فام غلام تھے لیکن بریرہ کی آزادی کے وقت وہ پہلے ہی آزاد ہو چکے تھے۔

    ثنا الحسين بن إسماعيل نا هارون بن إسحاق نا عبدة عن سعيد عن أبي معشر عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة أن زوج بريرة كان حرا يوم أعتقت (دارقطنی، کتاب العتق)

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جس دن بریرہ آزاد ہوئیں، ان کے خاوند پہلے ہی آزاد ہو چکے تھے۔

    خاندان کو اکٹھا رکھنے کا حق

    غلام خاندانوں کو یہ حق بھی دے دیا گیا کہ ان کی کسی قسم کی منتقلی کی صورت میں ان کے خاندان کو الگ نہ کیا جائے گا۔

    حدثنا عمر بن حفص بن عمر الشيباني أخبرنا عبد الله بن وهب أخبرني حيي عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن أبي أيوب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من فرق بين والدة وولدها فرق الله بينه وبين أحبته يوم القيامة۔ قال أبو عيسى وفي الباب عن علي وهذا حديث حسن غريب۔ والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم كرهوا التفريق بين السبي بين الوالدة وولدها وبين الولد والوالد وبين الأخوة ۔ (ترمذی، کتاب الجهاد، حديث 1566)

    سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "جس نے ماں اور اس کے بچے کو الگ کیا، اللہ قیامت کے دن اس کو اس کے پیاروں سے الگ کر دے گا۔"

    ترمذی کہتے ہیں، "یہ حدیث حسن غریب درجے کی ہے اور اس کی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علماء صحابہ اور دیگر اہل علم کا عمل بھی یہی ہے۔ وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ غلاموں میں ماں اور بچے، باپ اور بچے اور بہن بھائیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إذَا أُتِيَ بِالسَّبْيِ أَعْطَى أهل البيت أَهْلَ الْبَيْتِ جَمِيعًا كَرَاهِيَةَ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَهُمْ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23265)

    سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب بھی جنگی قیدیوں کی خدمات کو تقسیم کرتے تو ان کے ایک پورے گھرانے کو ایک گھر کی خدمت کے لئے دیا کرتے۔ آپ اسے سخت ناپسند فرماتے کہ ایک ہی گھر کے افراد میں علیحدگی کروائی جائے۔

    حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ : بَعَثَ مَعِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم بِغُلاَمَيْنِ سَبِيَّيْنِ مَمْلُوكَيْنِ أَبِيعُهُمَا ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ ، قَالَ : جَمَعْتَ أَوْ فَرَّقْتَ ؟ قُلْتُ : فَرَّقْتُ ، قَالَ : فَأَدْرِكْ أَدْرِكْ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23258)

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دو جنگی قیدی غلاموں کو میرے ساتھ بھیجا کہ ان کی خدمات کو فروخت کر دیا جائے۔ جب میں واپس آیا تو آپ نے پوچھا، "انہیں اکٹھا رکھا ہے یا الگ الگ؟" میں نے عرض کیا، "الگ الگ۔"۔ آپ نے فرمایا، "تمہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے تھا (کہ انہیں الگ کرنا جائز نہیں ہے۔"

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أُمِّهِ فَاطِمَةَ ابْنَةِ حُسَيْنٍ ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ قَدِمَ يَعْنِي مِنْ أَيْلَةَ ، فَاحْتَاجَ إلَى ظَهْرٍ فَبَاعَ بَعْضَهُمْ ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم رَأَى امْرَأَةً مِنْهُمْ تَبْكِي ، قَالَ : مَا شَأْنُ هَذِهِ ؟ فَأُخْبِرَ أَنَّ زَيْدًا بَاعَ وَلَدَهَا ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اُرْدُدْهُ أَوِ اشْتَرِهِ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23257)

    فاطمہ بنت حسین بیان کرتی ہیں کہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایلہ سے واپس آئے۔ انہوں نے کچھ غلاموں کی خدمات کو فروخت کر دیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم آئے تو آپ نے ایک خاتون کو روتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے پوچھا، "انہیں کیا ہوا؟" آپ کو بتایا گیا کہ زید نے ان کے بیٹے کی خدمات کو فروخت کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے (خدمات خریدنے والوں سے) فرمایا، "یا تو ان کے بیٹے کو واپس کرو یا پھر ماں کی خدمات کو بھی خرید لو۔"

    حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ فَرُّوخَ ، قَالَ : كَتَبَ عُمَرُ : أنْ لاَ تُفَرِّقُوا بَيْنَ الأَخَوَيْنِ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23259)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قانون بنایا، "(خدمات کی منتقلی کے وقت) دو بھائیوں میں علیحدگی نہ کروائی جائے۔"

    حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ فَرُّوخَ - وَرُبَّمَا قَالَ : عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ عُمَرَ ، قَالَ : لاَ تُفَرِّقُوا بَيْنَ الأُمِّ وَوَلَدِهَا. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23260)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قانون بنایا، "(خدمات کی منتقلی کے وقت) ماں اور اس کی اولاد میں علیحدگی نہ کروائی جائے۔"

    حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ ، قَالَ : قَالَ عِقَاْلُ - أَوْ حَكِيمُ بْنُ عِقَاْل - قَالَ : كَتَبَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إلَى عِقَاْل : أَنْ يَشْتَرِيَ مِئَة أَهْلِ بَيْتٍ يَرْفَعُهُمْ إلَى الْمَدِينَةِ ، وَلاَ تَشْتَرِي لِي شَيْئًا تُفَرِّقُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ وَالِدِهِ. (ابن ابي شيبة؛ حديث 23261)

    سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عقال کو لکھا، "ایک ہی خاندان کے سو افراد کی خدمات کو خرید کر انہیں مدینہ روانہ کر دو۔ خدمات کی خریداری اس طرح سے مت کرنا جس کے نتیجے میں اولاد اور والدین میں علیحدگی ہو جائے۔"

    ان احادیث کو درج ذیل حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو صورت اور واضح ہو جاتی ہے۔

    حدثنا أبو كريب حدثنا وكيع عن زكريا بن إسحاق عن يحيى بن عبد الله بن صيفي عن أبي معبد عن بن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معاذ بن جبل إلى اليمن فقال اتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله حجاب۔ قال أبو عيسى وفي الباب عن أنس وأبي هريرة وعبد الله بن عمر وأبي سعيد وهذا حديث حسن صحيح وأبو معبد اسمه نافذ ۔ (ترمذی، کتاب الادب، حديث 2014)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو فرمایا، "مظلوم کی بددعا سے بچنا۔ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔" ترمذی نے اس حدیث کو انس، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمر اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے بھی روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

    اس معاملے میں مسلمانوں کے اہل علم میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کسی بھی حالت میں غلاموں کے خاندان کو تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ خطابی لکھتے ہیں:

    و لا یختلف مذاہب العلماء فی کراھۃ التفریق بین الجاریۃ و ولدھا الصغیر سواء کانت مسبیۃ من بلاد الکفر او کان الولد من زنا او کان زوجہا اھلہا فی الاسلام فجاءت بولد۔ و لا اعلمھم یختلفون فی ان التفرقۃ بینہما فی العتق جائز و ذلک ان العتق لا یمنع من الحضانۃ کما یمنع منہا البیع۔ (خطابی، معالم السنن، کتاب الجہاد)

    ایک لونڈی اور اس کے چھوٹے بچے کو علیحدہ کرنے کے بارے میں علماء کے نقطہ ہائے نظر میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ دشمن کے کسی ملک سے آئی ہو یا اس کا بچہ بدکاری کا نتیجہ ہو یا اس کے مالکوں نے اس کی شادی مسلمانوں میں کر دی ہو (ہر صورت میں اس کا بچہ اس کے پاس ہی رہے گا۔) اس معاملے میں بھی مجھے کوئی اختلاف نہیں مل سکا کہ (ماں یا بچے میں سے کسی ایک کو) آزاد کر دینے کی صورت میں علیحدگی جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزاد کر دینے کی صورت میں تو ماں اپنے بچے کی پرورش کر سکتی ہے مگر خدمات کی منتقلی کی صورت میں نہیں۔
     
  12. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 8: غلاموں کا اسٹیٹس بہتر بنانے کے اقدامات (3)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    غلاموں کے قانونی حقوق

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قانونی نظام میں یہ اصلاح فرمائی کہ قانون کی نظر میں غلاموں کو برابر قرار دے دیا گیا۔ غلام کی جان، مال اور عزت کو بھی اسی طرح محترم قرار دیا گیا جیسا کہ آزاد شخص کی جان، مال اور عزت محترم ہے۔ آقاؤں کی زیادتیوں کے خلاف غلاموں کو عدالت میں جانے کا حق مل گیا۔ غلاموں کی گواہی کو عدالت میں قبول کیا جانے لگا۔ جنگ میں شریک ہونے والے غلاموں کو مال غنیمت میں سے بھی حصہ دیا جانے لگا اور غلاموں کو اپنے آقاؤں کا وارث بنایا جانے لگا۔

    غلام کی جان کی حفاظت

    قصاص کا قانون تورات ہی میں بیان کر دیا گیا تھا۔ قرآن مجید نے اسی قانون کی توثیق کرتے ہوئے حکم دیا کہ قاتل و مقتول خواہ کوئی بھی ہوں، مقتول کے قصاص میں قاتل کو موت کی سزا دی جائے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَى بِالأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنْ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۔ (البقرة 2:178-179)

    اے ایمان والو! تمہارے لئے قصاص کا قانون بنا دیا گیا ہے۔ آزاد نے قتل کیا ہو تو وہی آزاد، غلام نے قتل کیا ہو تو وہی غلام، اور عورت نے قتل کیا ہو تو وہی عورت قتل کی جائے گی۔ جس قاتل کو اس کا (دینی) بھائی معاف کر دے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قانون کے مطابق دیت کا تصفیہ کیا جائے اور قاتل اسے اچھے طریقے سے ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک سزا ہے۔ اے عقل مندو!، تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ امید ہے کہ تم اس کی خلاف ورزی سے پرھیز کرو گے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بھی اس کی وضاحت فرما دی کہ اگر کوئی آزاد کسی غلام کو قتل کرے خواہ وہ اس کا مالک ہی کیوں نہ ہو، اسے بھی اس جرم کی پاداش میں قتل ہی کیا جائے گا۔

    أخبرنا محمود بن غيلان وهو المروزي ، قال : حدثنا أبو داود الطيالسي ، قال : حدثنا هشام عن قتادة عن الحسن عن سمرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من قتل عبده قتلناه ومن جدعه جدعناه ومن أخصاه أخصيناه .

    أخبرنا نصر بن علي ، قال : حدثنا خالد ، قال : حدثنا سعيد ، عن قتادة عن الحسن عن سمرة۔ اخبرنا قتيبة بن سعيد ، قال : حدثنا أبو عوانة عن قتادة عن الحسن عن سمرة، حدّثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّد. ثنا وَكِيعٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الحسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ ۔ قال أبو عيسى هذا حديث حسن غريب (ترمذی، کتاب الديات، حديث 1414، ابن ماجة، کتاب الدية، حديث 2663، نسائی، کتاب القسامة، حديث 4736)

    سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جو اپنے غلام کو قتل کرے گا، ہم بھی اسے ہی قتل کریں گے۔ جو اس کا کوئی عضو کاٹے گا تو ہم بھی اس کا وہی عضو کاٹیں گے، اور جو اسے خصی کرے گا، ہم بھی اسے خصی کریں گے۔

    وَأَخْبَرَنِى أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِىُّ أَخْبَرَنَا عَلِىُّ بْنُ عُمَرَ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْجُنَيْدِ حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنِ الْحَكَمِ قَالَ قَالَ عَلِىٌّ وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا : إِذَا قَتَلَ الْحُرُّ الْعَبْدَ مُتَعَمِّدًا فَهُوَ قَوَدٌ. (بيهقى؛ سنن الكبرى؛ حديث 15941)

    سیدنا علی اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا، "اگر آزاد نے غلام کو جان بوجھ کر قتل کیا ہو تو اسے قتل کیا جائے گا۔

    حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَن سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ : سَأَلْتُهُ عَنْ رَجُلٍ حُرٍّ قَتَلَ مَمْلُوكًا ؟ قَالَ : يُقْتَلُ بِهِ ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : يُقْتَلُ بِهِ ، ثُمَّ قَالَ : وَاللَّهِ لَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْيَمَنِ لَقَتَلْتهمْ بِهِ. (ابن ابی شيبة؛ حديث 28091)

    (جلیل القدر تابعی عالم) سعید بن مسیب علیہ الرحمۃ سے ایسے آزاد شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے غلام کو قتل کر دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا، "وہ بھی (قصاص میں) قتل کیا جائے گا۔" لوگ دوبارہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا، "وہ قتل کیا جائے گا۔ خدا کی قسم! اگر تمام اھل یمن نے مل کر بھی کسی غلام کو قتل کیا ہو تو وہ سب اس کے بدلے قتل کئے جائیں گے۔"

    غلام کو خصی کرنا اس کا مثلہ کرنا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں غلام تو کیا جانوروں کو خصی کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔

    مالک پر عدالت میں مقدمہ کرنے کا حق

    آقاؤں کے ظلم و زیادتی کے خلاف غلاموں کے عدالت میں جانے کے بہت سے واقعات حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ ان میں سے بعض واقعات ہم اس کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے غلام نے برا بھلا کہے جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے شکایت کی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سیرین اس وجہ سے آئے کہ ان کے آقا نے انہیں مکاتبت کے ذریعے آزاد کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خود یہ جائزہ لیتے رہتے تھے کہ کہیں کوئی اپنے غلام پر ظلم تو نہیں کر رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تو غلاموں کے لئے ہر وقت اپنے دروازے کھلے رکھتے تھے تاکہ ان کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے۔

    حدّثنا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ. حدّثنا عَبْدُ الصَّمَدِ وَسَلْمُ بْنُ قَتَيْبَةَ: قَالاَ: حدّثنا شُعْبَةَ عَنْ عَلِيِّ ابْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَلِكٍ؛ قَالَ: إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ أَهْلِ الْمَدِيَنِةِ لَتَأْخدُ بِيَدِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَمَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهَا حَتَّى تَذْهَبَ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ مِنَ الْمَدِيَنةِ، فِي حَاجَتِهَا. (ابن ماجة، کتاب الزهد، حديث 4177)

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اھل مدینہ کی ایک کنیز تھی۔ وہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا بازو پکڑ لیتی۔ آپ اس سے بازو نہ چھڑاتے تھے بلکہ وہ اپنے مسئلے کے حل کے لئے مدینہ میں آپ کو جہاں چاہتی لے جایا کرتی تھی۔

    حدّثنا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ. حدّثنا جَرِيرٌ عَنْ مُسْلِمٍ الأَعْوَرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَعُودُ الْمَرِيضَ، وَيُشَيِّعُ الْجِنَازَةَ، وَيُجِيبُ دَعْوَةَ الْمَمْلُوكِ، وَيَرْكَبُ الْحِمَارَ. (ابن ماجة، کتاب الزهد، حديث 4178)

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مریضوں کی عیادت کیا کرتے، جنازے میں شرکت کیا کرتے، غلاموں کی فریاد پر اقدامات کرتے اور (عجز و انکسار کا یہ عالم تھا کہ حکمران ہونے کے باوجود) گدھے پر سواری بھی کر لیا کرتے تھے۔

    مسلمانوں کے دور انحطاط میں اگرچہ غلاموں سے متعلق بہت سے مسائل بھی پیدا ہوئے لیکن ان کے قانونی حقوق ہمیشہ انہیں ادا کئے جاتے رہے۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈ لکھتے ہیں:

    The slaves, like other citizens, had their rights, and it is even said that a slave might summon his master before the Qadi for ill usage, and that if he alleged that their tempers were so opposite, that it was impossible for them to agree, the Qadi could oblige his master to sell him. (T. W. Arnold; Preaching of Islam)

    دوسرے شہریوں کی طرح غلاموں کے حقوق بھی تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برے سلوک پر ایک غلام اپنے آقا کے خلاف مقدمہ بھی قاضی کے پاس لے کر جا سکتا ہے۔ اگر وہ یہ الزام لگا دے کہ (اس کے اور اس کے آقا کے) مزاج میں بہت فرق ہے اور ان کا اتفاق ناممکن ہے تو قاضی آقا کو حکم جاری کر سکتا ہے کہ وہ اس غلام کی خدمات کسی اور فروخت کر دے۔

    غلاموں اور لونڈیوں کی عزت کی حفاظت

    غلاموں اور لونڈیوں کی عزت کو اتنا محفوظ بنا دیا گیا تھا کہ ایک لونڈی کی آبرو ریزی کرنے کے جرم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماعز اسلمی (جنہوں نے توبہ کر کے دنیا کی سزا قبول کی تھی) کو عبرت ناک طریقے سے رجم کی سزا دی تھی۔

    حدثنا قتيبة بن سعيد وأبو كامل الجحدري (واللفظ لقتيبة). قالا: حدثنا أبو عوانة عن سماك، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك (أحق ما بلغني عنك؟) قال: وما بلغك عني؟ قال (أنك وقعت بجارية آل فلان) قال: نعم. قال: فشهد أربع شهادات. ثم أمر به فرجم. (مسلم، كتاب الحدود، حديث 4427، نسائی سنن الکبری، کتاب الرجم، حديث 7134)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماعز بن مالک سے پوچھا، "کیا جو خبر مجھ تک پہنچی ہے وہ سچ ہے؟" انہوں نے کہا، "آپ تک کیا بات پہنچی ہے؟" آپ نے فرمایا، "تم نے فلاں کی لونڈی کی آبرو ریزی کی ہے؟" انہوں نے چار مرتبہ قسم کھا کر اقرار کر لیا۔ آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔

    اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس شخص کے لئے سخت وعید بیان فرمائی جو اپنے غلام یا لونڈی پر جھوٹا الزام عائد کرے۔

    حدثنا مسدد: حدثنا يحيى بن سعيد، عن فضيل بن غزوان، عن ابن أبي نعم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: سمعت أبا القاسم صلى الله عليه وسلم يقول: (من قذف مملوكه، وهو بريء مما قال، جلد يوم القيامة، إلا أن يكون كما قال). (بخاری، كتاب الحدود، حديث 6858)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، "جس نے اپنے غلام پر الزام لگایا اور وہ اس الزام سے بری ہے، تو اسے قیامت کے دن کوڑے لگائے جائیں گے۔ سوائے اس کے کہ اس نے سچ کہا ہو" (یا پھر وہ دنیا میں اپنے جرم کی سزا بھگت لے۔)

    صحابہ و تابعین کے زمانے میں اگر کوئی لونڈی مکاتبت کر لیتی تو اس کے بعد اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جاتا۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنِ الدَّسْتَوَائِيِّ , عَنْ قَتَادَةَ فِي رَجُل وَطِئَ مُكَاتَبَتَهُ قَالَ إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَعَلَيْهِ الْعُقْرُ وَالْحَدُّ , وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَعَلَيْهِ الْحَدُّ وَلَيْسَ عَلَيْهِ الْعُقْرُ. (مصنف ابن ابی شيبة، كتاب الحدود، حديث 28619)

    قتادہ ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتے ہیں جس نے اپنی مکاتبہ لونڈی سے ازدواجی تعلق قائم کیا تھا، وہ کہتے ہیں، "اگر اس نے ایسا جبراً کیا ہے تو اسے (بدکاری کی) شرعی حد کے علاوہ سزا بھی دی جائے گی۔ اگر اس نے ایسا اس کی رضامندی سے کیا ہے تو پھر اسے صرف شرعی حد لگائی جائے گی اور اضافی سزا نہ دی جائے گی۔

    غلام کے لئے گواہی دینے کا حق

    غلاموں کی گواہی کو بھی عدالت میں قبول کیا جاتا تھا۔

    حدثنا علي بن عبد الله: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم: أخبرنا أيوب، عن عبد الله بن أبي مليكة قال: حدثني عبيد بن أبي مريم، عن عقبة ابن الحارث قال: وقد سمعته من عقبة لكني لحديث عبيد أحفظ، قال: تزوجت امرأة فجاءتنا امراة سوداء، فقال: أرضعتكما، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: تزوجت فلانة بنت فلان، فجاءتنا امراة سوداء فقالت لي: إني قد أرضعتكما، وهي كاذبة فأعرض عني، فأتيته من قبل وجهه، قلت: إنها كاذبة، قال: (كيف بها وقد زعمت أنها قد أرضعتكما، دعها عنك). وأشار إسماعيل بإصبعيه السبابة والوسطى، يحكي أيوب. (بخاری، کتاب النکاح، حديث 5104 نسائی سنن الکبری، کتاب القضاء، حديث 5983)

    سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک خاتون سے شادی کر لی تھی۔ ایک سیاہ رنگ کی خاتون (جو کہ نسائی کی روایت کے مطابق لونڈی تھیں) آئیں اور کہنے لگیں، "میں نے تو ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔" میں یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس لایا گیا تو میں نے عرض کیا، "میں نے فلاں بنت فلاں سے شادی کی، یہ سیاہ رنگ کی خاتون آ کر کہہ رہی ہیں کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔"

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (کو یہ بات اتنی ناگوار گزری کہ آپ) نے رخ پھیر لیا۔ میں نے پھر عرض کیا، "یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔" آپ نے انگلی سے اشارہ کر کے فرمایا، "تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ انہوں نے کہا ہے کہ انہوں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ اپنی بیوی سے علیحدہ ہو جاؤ۔"

    ماعز اسلمی کے مقدمے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس لونڈی کی گواہی کو قبول فرمایا تھا جن کی آبرو ریزی کی گئی تھی۔ مسلمانوں کا عمل بھی اس کے بعد یہی رہا ہے کہ ان کے قاضی غلاموں کی گواہی کو قبول کیا کرتے تھے۔

    وقال أنس: شهادة العبد جائزة إذا كان عدلا. وأجازه شريح وزرارة بن أوفى. وقال ابن سيرين: شهادته جائزة إلا العبد لسيده. وأجازه الحسن وإبراهيم في الشيء التافه. وقال شريح: كلكم بنو عبيد وإماء. (بخاری، کتاب الشهادة)

    سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، "غلام کی گواہی درست ہے اگر وہ اچھے کردار کا مالک ہو۔" قاضی شریح اور زرارہ بن اوفی بھی اسے درست قرار دیتے ہیں۔ ابن سیرین کی رائے یہ ہے کہ، "غلام کی گواہی درست ہے سوائے ان معاملات کے جن میں وہ اپنے آقا کے حق میں گواہی دے۔" حسن بصری اور ابراہیم نخعی نے معمولی معاملات میں ان کی گواہی کو درست قرار دیا ہے۔ شریح تو یہاں تک کہا کرتے تھے، "تم سب غلاموں اور لونڈیوں کی اولاد ہی تو ہو۔"

    آقا کے حق میں غلام کی گواہی کو قبول نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ممکن ہے وہ آقا کے دباؤ میں آ کر گواہی دے رہا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ قاضی شریح جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انہی کے مقرر کردہ جج تھے، انہوں نے ایک یہودی کے مقدمے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ان کے غلام قنبر رضی اللہ عنہ کی گواہی کو قبول نہیں کیا تھا اور فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا تھا۔

    غلام کے لئے دولت کمانے اور رکھنے کا حق

    غلاموں کو مال کمانے، رکھنے اور اس سے اپنی ضروریات پوری کرنے کا حق بھی دے دیا گیا تھا۔ حدیث میں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن میں غلاموں کے پاس مال کے موجود ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔ محمد بن سیرین نے جب مکاتبت کرنے کے لئے اپنا مقدمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیا تو وہ کافی مالدار تھے۔ غلام کی آزادی کے وقت بھی اس کے مال کو اسی کی ملکیت قرار دیا جاتا تھا سوائے اس کے کہ مالک کچھ مال کو بطور مکاتبت کی قیمت کے وصول کر لے۔

    حدثنا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى.عبد اللهِ بْنُ وَهْبٍ. أَخْبَرَنِي ابن لَهِيعَةَ. ح وَ حدّثَنَا مُحَمَّد بْنُ بحيى. ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ. أَنْبَأَنَا الَّليْثُ بْنُ سَعْدٍ، جَمِيعاً، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي جَعْفِرٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الأَشَجِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابٍنِ عُمَرَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُول اللهِ صلى الله عليه وسلم: ((مَنْ أَعْتَقَ عَبْداً ولَهُ مَالٌ، فَمَالُ العَبْدِ لَهُ. إِلاَّ أَنَّ يَشْتَرِطَ السَّيِّدُ مَالَهُ، فَيَكُونَ لَهُ)). (ابن ماجة، کتاب العتق، حديث 2529)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس نے غلام آزاد کیا اور اس غلام کے پاس مال بھی تھا، تو وہ مال غلام ہی کا ہو گا سوائے اس کے کہ مالک (مکاتبت کی) شرط لگا لے تو وہ مال اسی کا ہو جائے گا۔

    حدثنا مُحَمَّد بْنُ يَحْيَى. ثنا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّد الجرمِيُّ. ثنا المُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرٍ، وَهُو مَوْلَى ابْنِ مَسْعُودٍ؛ أَنَّ عَبْدَ اللهِ قَالَ لَهُ:يَا عُمَيْرُ! إِنِّي أَعْتَقْتُكَ عِتْقاً هَنِيئاً. إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: ((أَيُّما رَجُلٍ أَعْتَقَ غُلاماً، وَلَمْ يُسَمِّ مَالَهُ، فَالْمَالُ لَهُ)). فأخْبَرَنِي مَا مَالُكَ؟ (ابن ماجة، کتاب العتق، حديث 2530)

    عمیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ انہوں نے عمیر سے کہا، "عمیر! میں تمہیں اپنی خوشی سے آزادی دے رہا ہوں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے، 'جو شخص بھی غلام آزاد کرے اور اس کے مال کا ذکر نہ کیا جائے، تو مال غلام ہی کا ہے۔' یہ تو بتاؤ تمہارے پاس مال کیا ہے؟

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک شخص کے فوت ہو جانے پر اس کا کوئی وارث نہ ہونے کی صورت میں غلام ہی کو وارث بھی بنایا تھا۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا سفيان عن عمرو عن عوسجة عن ابن عباس: رجل مات على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يترك وارثا إلا عبدا هو أعتقه فأعطاه ميراثه. (مسند احمد، باب ابن عباس)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص فوت ہو گیا اور اس نے سوائے ایک غلام کے اور کوئی وارث نہ چھوڑا تھا جسے اس نے آزادی دے دی تھی۔ حضور نے اس شخص کی میراث بھی غلام کو دلا دی۔

    یہ تمام احادیث اس بات کی شہادت پیش کرتی ہیں کہ غلاموں کو مال رکھنے اور اسے استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مال غنیمت میں سے غلاموں کو جو حصہ ملتا تھا وہ بھی انہی کا مال ہوا کرتا تھا۔

    مال غنیمت میں سے حصہ

    غلاموں کو جنگوں میں مال غنیمت میں سے بھی حصہ دیا جانے لگا۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا أبو النضر عن ابن أبي ذئب عن القاسم بن عباس عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطي المرأة والمملوك من الغنائم ما يصيب الجيش. (مسند احمد، باب ابن عباس)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لشکر کو جو بھی مال غنیمت ملتا تھا، آپ اس میں سے خواتین اور غلاموں کو بھی حصہ دیا کرتے تھے۔

    حدثنا قتيبة حدثنا بشر بن المفضل عن محمد بن زيد عن عمير مولى أبي اللحم قال شهدت خيبر مع سادتي فكلموا في رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلموه أني مملوك۔ قال فأمرني فقلدت السيف، فإذا أنا أجره فأمر لي بشيء من خرتي المتاع وعرضت عليه رقية كنت أرقي بها المجانين، فأمرني بطرح بعضها وحبس بعضها وفي الباب عن بن عباس وهذا حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند بعض أهل العلم لا يسهم للمملوك ولكن يرضخ له بشيء وهو قول الثوري والشافعي وأحمد وإسحاق. (ترمذی، کتاب السير، حديث 1557)

    ابو اللحم کے آزاد کردہ غلام محمد بن زید بن عمیر کہتے ہیں کہ میں اپنے آقاؤں کے ساتھ جنگ خیبر میں شریک تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بات کی کہ میں ان کا غلام ہوں (یعنی غنیمت میں سے غلام کا حصہ انہیں دیا جائے۔) آپ نے مجھے تلوار تیار کرنے کا حکم دیا۔ جب میں نے یہ کر دیا تو آپ نے مجھے مال غنیمت میں سے کچھ چیزیں دیں۔ میں نے آپ کے سامنے کچھ جنگی قیدی پیش کئے جنہیں میں نے گرفتار کیا تھا اور وہ پاگل سے معلوم ہوتے تھے۔ آپ نے ان قیدیوں میں سے بعض کو رکھنے اور بعض کو چھوڑنے کا حکم دیا۔

    ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی روایت کی ہے اور حسن صحیح ہے اور اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم غلاموں کو غنیمت میں سے حصہ تو نہیں دیتے لیکن انہیں کچھ نہ کچھ حصہ ضرور دیتے ہیں۔ یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق کا نقطہ نظر ہے۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ خَالِهِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ ، قَالَ : قَسَمَ لِي أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ كَمَا قَسَمَ لِسَيِّدِي. (ابن ابی شيبة، حديث 33889)

    ابو قرہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جیسا میرے آقا کو غنیمت میں سے حصہ دیا ویسا ہی مجھے بھی دیا۔

    حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ ، قَالَ : حدَّثَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نِيَارٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم أُتِيَ بِظَبْيَةِ خَرَزٍ , فَقَسَمَهَا لِلْحُرَّةِ وَالأَمَةِ , وَقَالَتْ عَائِشَةُ : كَانَ أَبِي يَقْسِمُ لِلْحُرِّ وَالْعَبْدِ.. (ابن ابی شيبة، حديث 33895)

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس ظبیہ کے مقام پر خرز لائی گئی۔ آپ نے اسے ایک آزاد اور ایک لونڈی میں تقسیم کر دیا۔ میرے والد (ابوبکر) بھی آزاد اور غلام دونوں کو حصہ دیا کرتے تھے۔

    وراثت میں حصہ

    مالک کے مرنے کی صورت میں اگرچہ اس کے غلام کا کوئی حصہ قرآن مجید میں مقرر نہیں کیا گیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر وارث نہ ہونے کی صورت میں آپ نے غلاموں کو مالک کی میراث میں سے حصہ دیا۔

    حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنِ ابْنَةِ حَمْزَةَ قَالَ مُحَمَّدٌ : وَهِيَ أُخْتُ ابْنِ شَدَّادٍ لأُمِّهِ - قَالَتْ : مَاتَ مَوْلًى لِي وَتَرَكَ ابْنَتَهُ ، فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَالَهُ بَيْنِي وَبَيْنَ ابْنَتِهِ ، فَجَعَلَ لِي النِّصْفَ وَلَهَا النِّصْفَ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المیراث، حدیث 31783)

    اخت بن شداد کی والدہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے آقا فوت ہو گئے اور ان کی صرف ایک ہی بیٹی زندہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کا ترکہ میرے اور ان کی بیٹی کے درمیان اس طرح تقسیم فرمایا کہ آدھا ان کی بیٹی کو ملا اور آدھا مجھے۔

    صحابہ کرام میں بھی یہی عمل جاری رہا۔

    حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَطَاءٍ : أَنَّ رَجُلاً أَعْتَقَ غُلاَمًا لَهُ سَائِبَةً ، فَمَاتَ وَتَرَكَ مَالا ، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ ؟ فَقَالَ : إنَّ أَهْلَ الإسْلاَمِ لاَ يُسَيِّبُونَ ، إنَّمَا كَانَتْ يُسَيِّبُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ ، أَنْتَ مَوْلاَهُ وَوَلِيُّ نِعْمَتِهِ وَأَوْلَى النَّاسِ بِمِيرَاثِهِ ، وَإلاَّ فَأرِنِهِ هَا هُنَا وَرَثَةٌ كَثِيرٌ. يَعْنِي : بَيْت الْمَالِ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب المیراث، حدیث 32078)

    عطا کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو بطور سائبہ (ایک قسم کا وقف) آزاد کر دیا۔ اس کے بعد وہ فوت ہو گیا اور ترکے میں کچھ مال چھوڑ دیا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: "اھل اسلام میں تو سائبہ کی رسم نہیں ہے، ہاں اھل جاہلیت سائبہ بنایا کرتے تھے۔ تم اس کے آزاد کردہ غلام ہو، اس کے ولی نعمت ہو اور سب لوگوں سے زیادہ اس کی وراثت کے حقدار ہو۔ اگر تم اس کا یہ ورثہ چھوڑنا چاہو تو پھر اس کے وارثوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔" یعنی بیت المال میں یہ ورثہ جمع کروا دیا جائے گا اور اس کے وارث تمام شہری ہوں گے۔

    دینی ذمہ داریوں میں تخفیف

    چونکہ غلاموں پر اپنے آقاؤں کی خدمت کی ذمہ داری تھی، اس وجہ سے انہیں دین اسلام کی بیشتر ذمہ داریوں سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ نماز پڑھنا ان کے لئے لازم تھا مگر ان کے ذمے زکوۃ کی ادائیگی نہیں تھی۔ حج اور جہاد بھی ان پر فرض نہ تھا۔ ہاں اگر ان کا آقا اجازت دے دیتا تو یہ غلام بھی اپنی مرضی سے حج یا جہاد کے لئے جا سکتے تھے، ان پر اس کی ذمہ داری نہیں تھی۔

    جرم کرنے کی صورت میں نصف سزا

    ان تمام حقوق کے باوجود غلاموں کو کسی بھی جرم کی پاداش میں آزاد شخص کی نسبت نصف سزا دی جاتی تھی۔ قرآن مجید میں بدکاری کے جرم میں لونڈیوں کو آزاد خواتین کی نسبت نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا تھا۔

    فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنْ الْعَذَابِ. (النساء 4:25)

    جب لونڈیوں کو نکاح میں محفوظ کر دیا جائے اور اس کے بعد بھی وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد خواتین کی نسبت آدھی ہے۔

    اس آیت سے یہ واضح ہے کہ لونڈیوں کو یہ نصف سزا اس صورت میں دی جائے گی جب وہ شادی شدہ ہو جائیں۔ اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں اور بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کی سزا کے بارے میں قدیم اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک ایسی صورت میں انہیں کچھ تھوڑی بہت سزا محض تادیب کے لئے دے دی جائے گی لیکن ان پر شرعی حد جاری نہ کی جائے گی۔ (سنن سعید بن منصور بحوالہ تفسیر ابن کثیر آیت 4:25)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسی پر عمل فرمایا اور اس پر قیاس کرتے ہوئے غلاموں کے دوسرے جرائم کی سزا بھی نصف ہی مقرر فرمائی۔

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أبِي الزِّنَادِ، أَنَّهُ قَالَ : جَلَدَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَبْداً فِي فِرْيَةٍ ثَمَانِينَ. قَالَ أَبُو الزِّنَادِ : فَسَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : أَدْرَكْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَالْخُلَفَاءَ هَلُمَّ جَرًّا، فَمَا رَأَيْتُ أَحَداً جَلَدَ عَبْداً فِي فِرْيَةٍ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ. (موطا مالک، کتاب الحدود، حديث 2396)

    عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بدکاری کا الزام عائد کرنے کے جرم میں ایک غلام کو اسی کوڑے کی سزا دی (جو کہ آزاد کی سزا ہے۔) ابو الزناد کہتے ہیں کہ میں نے اس سے متعلق عبداللہ بن عامر بن ربیعۃ اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگے، "عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما اور دیگر خلفاء کے سامنے بھی ایسے مقدمے لائے گئے تھے۔ انہوں نے قذف کے مقدمے میں کسی غلام کو چالیس کوڑوں سے زائد کی سزا نہ دی تھی۔"

    دارقطنی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم چوری وغیرہ کے جرم میں اکثر اوقات غلاموں پر سزا نافذ ہی نہ کیا کرتے تھے۔ اگر وہ غلام بار بار چوری کرنے سے باز نہ آتا تب اس پر چوری کی سزا نافذ فرمایا کرتے تھے۔ (دارقطنی، کتاب الحدود)

    مسلمانوں کے دشمن کو امان دینے کا حق

    اسلام میں چونکہ ہر مسلمان کو برابر درجہ عطا کیا گیا ہے، اس وجہ سے ہر مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ اگر دشمن کا کوئی فرد کسی ایک مسلمان کی امان حاصل کر کے بھی مسلم ملک میں آ جائے تو حکومت پر لازم ہو گا کہ وہ اس کی دی گئی امان کا احترام کرتے ہوئے اس دشمن کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرے۔ ابن جوزی لکھتے ہیں:

    ويصح أمان المسلم العاقل سواء كان ذكرا أو أنثى حرا أو مملوكا. (ابن جوزی، کشف المشکل من حديث الصحيحين)

    ہر صاحب عقل مسلمان کی دی گئی امان درست ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ککہ وہ مرد ہو یا خاتون، آزاد ہو یا غلام۔

    غلاموں کے سیاسی حقوق

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کا درجہ اس قدر بلند کر دیا تھا کہ آپ نے مسلمانوں کو یہ حکم بھی دیا کہ اگر ایک حبشی غلام بھی ان پر حکمران بنا دیا جائے تو وہ اس کی بھی اطاعت کریں۔

    وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وعبدالله بن براد الأشعري وأبو كريب. قالوا: حدثنا ابن إدريس عن شعبة، عن أبي عمران، عن عبدالله بن الصامت، عن أبي ذر. قال: إن خليلي أوصاني أن أسمع وأطيع. وإن كان عبدا مجدع الأطراف. (مسلم، کتاب الامارۃ، حديث 4755)

    سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، "میرے دوست (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں حکمران کی بات سنوں اور اس کی اطاعت کروں اگرچہ وہ ایک ایسا غلام ہو جس کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹے ہوئے ہوں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات صرف سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ ہی کو نہ ارشاد فرمائی بلکہ حدیث 4757 کے مطابق آپ نے صحابہ کرام کے سب سے بڑے اجتماع حجۃ الوداع کے موقع پر بھی یہی حکم دیا۔ اس حکم کی عملی صورت اس وقت سامنے آئی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے بعد آنے والے خلیفہ کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس منصب کے لئے دو افراد کو سب سے زیادہ مناسب قرار دیا، ایک امین الامت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم رضی اللہ عنہم۔ یہ دونوں حضرات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے، اس وجہ سے آپ نے پھر عشرہ مبشرہ کے چھ صحابہ میں سے خلیفہ کے انتخاب کی وصیت کی۔

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غلاموں کے پیچھے نماز پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج محسوس نہ کیا کرتے تھے۔ اس دور میں نماز کی امامت وہی کیا کرتا تھا جو ان میں دین، علم اور کردار کے معاملے میں سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا اور اسی شخص کو حکومتی عہدوں کے لئے بھی زیادہ موزوں تصور کیا جاتا تھا۔

    عبد الرزاق عن الثوري وإسماعيل بن عبد الله عن داود بن أبي هند عن أبي نضرة عن أبي سعد مولى بني أسيد قال تزوجت وأنا مملوك فدعوت أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أبو ذر وبن مسعود وحذيفة فحضرت الصلاة فتقدم حذيفة ليصلي بنا فقال له أبو ذر أو غيره ليس ذلك لك فقدموني وأنا مملوك فأممتهم. (مصنف عبدالرزاق؛ حديث 7015)

    بنو اسید کے آزاد کردہ غلام ابو سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابھی غلام ہی تھا جب میں نے شادی کی۔ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ ابوذر، عبداللہ بن مسعود اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کی دعوت کی۔ نماز کا وقت آیا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ امامت کے لئے آگے بڑھنے لگے۔ انہیں ابوذر یا عبداللہ نے اس سے روکا اور مجھے امامت کرنے کے لئے کہا۔ میں نے آگے بڑھ کا امامت کی جبکہ میں ابھی غلام ہی تھا۔

    مدینہ میں اسلام کے آغاز کے وقت ہی سیدنا سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نماز کی امامت کیا کرتے تھے۔

    آقا اور مالک کے تعلقات میں بہتری

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک طرف غلاموں کو بہت سے حقوق دیے اور ان کے مالکوں کو ان سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا تو دوسری طرف غلاموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد فرمائی کہ انہیں اپنے آقا کا خیر خواہ ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ خیانت نہیں کرنی چاہیے۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ آقا اور مالک کے تعلقات خلوص پر مبنی ہوں اور برادرانہ سطح پر آ جائیں۔ بالکل یہی تعلیمات ہمیں سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں بھی ملتی ہیں:

    حدثني أبو الطاهر وحرملة بن يحيى. قالا: أخبرنا ابن وهب. أخبرني يونس عن ابن شهاب. قال: سمعت سعيد بن المسيب يقول: قال أبو هريرة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (للعبد المملوك المصلح أجران). والذي نفس أبي هريرة بيده! لولا الجهاد في سبيل الله، والحج، وبر أمي، لأحببت أن أموت وأنا مملوك. قال: وبلغنا؛ أن أبا هريرة لم يكن يحج حتى ماتت أمه، لصحبتها. (مسلم، کتاب الايمان، حديث 4320)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "نیک غلام کے لئے دوگنا اجر ہے۔" ابوہریرہ کہتے ہیں: خدا کی قسم جس کے قبضے میں ابوہریرہ کی جان ہے، اگر اللہ کی راہ میں جہاد، حج اور والدہ کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں یہ پسند کرتا کہ غلام ہی بن کر مروں (تاکہ دوگنا اجر مجھے ملے۔) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ کی خدمت کے لئے ان کی وفات سے پہلے حج بھی نہ کیا تھا۔

    اسی حدیث کی دوسری روایت میں غلام کو دوگنا اجر دیے جانے کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ اپنے آقا کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اپنے اصل مالک یعنی اللہ تعالی کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو یہ تاکید کرنے کے ساتھ ساتھ مالکوں کو بھی ان سے حسن سلوک کا حکم دیا۔ ہم اوپر بہت سی احادیث بیان کر چکے ہیں۔ دو اور ایمان افروز احادیث یہ ہیں:

    حدّثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ مُحَمَّدٍ، قَالاَ: حدّثنا إِسْحَاقُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ((لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّءُ الْمَلَكَةِ)) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ! أَلَيْسَ أَخْبَرْتَنَا أَنَّ هذِهِ الأُمَّةَ أَكْثَرُ الأُمَمِ مَمْلُوكِينَ وَيَتَامَى؟ قَالَ ((نَعَمْ فَأَكْرِمُوهُمْ كَكَرَامَةِ أَوْلاَدِكُمْ. وَأَطْعِمُوهُمْ مِمَّا تَأْكُلُونَ)). قَالُوا: فَمَا يَنْفَعُنَا فِي الدُّنْيَا؟ قَالَ ((فَرَسٌ تَرْتَبِطُهُ تُقَاتِلُ عَلَيْهِ فِي سَبِيلِ اللهِ. مَمْلُوكُكَ يَكْفِيكَ. فَإذا صَلَّى، فَهُوَ أَخُوكَ (ابن ماجة، کتاب الادب، حديث 3691)

    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "برے مالک جنت میں داخل نہ ہوں گے۔" لوگوں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں بتایا تھا کہ ہماری امت میں (دوسری قوموں کی نسبت) زیادہ غلام اور یتیم ہوں گے۔"

    آپ نے فرمایا، "ہاں، ان غلاموں کو ویسی ہی عزت دو جیسی تم اپنی اولاد کو دیتے ہو۔ انہیں وہی کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو۔" عرض کیا، "ہمارے لئے دنیا میں فائدے کی کیا چیز ہے؟" فرمایا، "ایسے گھوڑے جن پر تم زین کس کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور تمہارے غلام جو تمہارے لئے کافی ہوں۔ اگر وہ نماز پڑھتے ہوں تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔"

    عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدخل الجنة بخيل ولا خب ولا خائن ولا سيء الملكة وأول من يقرع باب الجنة المملوكون إذا أحسنوا فيما بينهم وبين الله عز وجل وفيما بينهم وبين مواليهم. (مسند احمد، مطالب العالية، باب ابوبکر)

    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جنت میں بخیل، بدمزاج، بددیانت اور غلاموں سے برا سلوک کرنے والے داخل نہ ہوں گے۔ جنت کا دروازہ سب سے پہلے ان غلاموں کے لئے کھولا جائے گا جو اپنے اور اللہ کے معاملے میں اور اپنے اور اپنے مالکان کے معاملے میں اچھے ہوں گے۔"

    جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو غلاموں کا اتنا خیال تھا کہ آپ نے اس حالت میں بھی جب آپ کی روح نکلنے کا عمل شروع ہو چکا تھا، ان سے اچھا سلوک کرنے کی وصیت فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے برے غلاموں سے بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔

    وعن أبي هريرة قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏"‏ما من صدقة أفضل من صدقة تصدق بها على مملوك عند مليك سوء‏"‏‏.‏ رواه الطبراني في الأوسط‏. (مجمع الزوائد، کتاب العتق)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اس سے زیادہ کوئی صدقہ افضل نہیں ہے کہ کوئی اپنے برے غلاموں پر خرچ کرے۔"

    وعن ابن عمر أن رجلاً أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال‏:‏ إن خادمي يسيء ويظلم أفأضربه‏؟‏ قال‏:‏ ‏"‏تعفو عنه كل يوم سبعين مرة‏"‏‏.‏ قلت‏:‏ رواه الترمذي باختصار‏.‏ رواه أبو يعلى ورجاله ثقات‏.‏ (مجمع الزوائد، کتاب العتق)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا، "میرے غلام غلط کام کرتے ہیں اور بعض اوقات (مجھ پر) زیادتی بھی کر بیٹھتے ہیں تو کیا میں انہیں مار سکتا ہوں؟" آپ نے فرمایا، "اس سے زیادہ کوئی صدقہ افضل نہیں ہے کہ کوئی اپنے برے غلاموں پر خرچ کرے۔" آپ نے فرمایا، "انہیں روزانہ ستر مرتبہ معاف کر دیا کرو۔"
     
  13. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 8: غلاموں کا اسٹیٹس بہتر بنانے کے اقدامات (4)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    غلاموں کی خرید و فروخت سے متعلق اصلاحات

    عہد رسالت سے پہلے غلاموں کی خرید و فروخت ایک "انسان" کی خرید و فروخت تھی جسے بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کے حقوق سے متعلق جو اصلاحات عملاً اپنے معاشرے میں رائج فرمائی تھیں، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلاموں کی خرید و فروخت، اب انسان کی نہیں بلکہ محض اس کی "خدمات" کی خرید و فروخت بن کر رہ گئی کیونکہ کسی بھی آقا کو غلام پر جسمانی تصرف کا کوئی حق نہ رہ گیا تھا۔ ایک شخص کو اگر غلام کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے تو وہ ان خدمات کو کسی دوسرے کی طرف منتقل کر دے۔ یہ معاملہ کچھ اسی طرح کا تھا کہ جیسے آج کل کوئی کمپنی اپنے ملازم کو کام کرنے کے لئے دوسری کمپنی میں بھیج دے۔

    غلاموں کی اس منتقلی سے متعلق ایک اہم قانون بنایا گیا اور وہ یہ تھا کہ اس منتقلی کے دوران غلام کے خاندان کو کسی صورت تقسیم نہ کیا جائے بلکہ انہیں اکٹھا رکھا جائے۔

    حدثنا عمر بن حفص بن عمر الشيباني أخبرنا عبد الله بن وهب أخبرني حيي عن أبي عبد الرحمن الحبلي عن أبي أيوب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من فرق بين والدة وولدها فرق الله بينه وبين أحبته يوم القيامة۔ قال أبو عيسى وفي الباب عن علي وهذا حديث حسن غريب۔ والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم كرهوا التفريق بين السبي بين الوالدة وولدها وبين الولد والوالد وبين الأخوة ۔ (ترمذی، کتاب الجهاد، حديث 1566)

    سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "جس نے ماں اور اس کے بچے کو الگ کیا، اللہ قیامت کے دن اس کو اس کے پیاروں سے الگ کر دے گا۔"

    ترمذی کہتے ہیں، "یہ حدیث حسن غریب درجے کی ہے اور اس کی روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی کی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علماء صحابہ اور دیگر اہل علم کا عمل بھی یہی ہے۔ وہ اس بات کو سخت ناپسند کرتے تھے کہ غلاموں میں ماں اور بچے، باپ اور بچے اور بہن بھائیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔

    اس پابندی نے عملی طور پر بردہ فروش طبقہ جسے "نخاش" کہا جاتا تھا، کے مفادات پر کاری ضرب لگائی۔ اگر کوئی کسی غلام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل بھی کرنا چاہے تو اس کے لئے لازم تھا کہ وہ غلام کی پوری فیملی کو خریدے اور پھر اسے دوسرے شہر میں منتقل کرے۔

    بعض لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دور میں غلاموں کی خرید و فروخت سے قطعی طور پر منع کیوں نہ کیا گیا؟ یہ سوال دراصل اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سامنے وہ صورتحال نہیں ہے جس میں یہ معاملہ ہو رہا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں موجودہ دور کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اس صورتحال کی وضاحت کرنا ہو گی۔

    فرض کر لیجیے کہ ایک شخص کسی وجہ سے اپنا کاروبار ختم کر رہا ہے یا کسی اور وجہ سے اسے ملازمین کی ضرورت نہیں ہے۔ اس صورت میں کیا اس کے لئے یہ ممکن ہو گا کہ وہ تاعمر اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرتا رہے؟ مالک اور ملازمین کے لئے بہترین صورت یہی ہو گی کہ وہ ان کی ملازمت کو کسی اور کمپنی میں منتقل کر دے۔ اس طرح سے ملازمین بھی فوری طور پر بے روزگار نہ ہوں گے اور مالک بھی اپنے کاروبار کو کم سے کم نقصان پر بند کر سکے گا۔

    بالکل یہی صورتحال اس دور میں تھی۔ ایک شخص کا کاروبار ختم ہو گیا اور اسے اب غلام کی ضرورت نہیں رہی۔ وہ اس غلام کا کیا کرے؟ اس کے سامنے تین ہی راستے ہیں: یا تو وہ اس غلام کو ساری عمر بٹھا کر اس کے اخراجات برداشت کرتا رہے یا پھر اسے آزاد کرے یا پھر اس کی خدمات کسی دوسرے کو منتقل کر دے۔ پہلی صورت تو بہرحال مالک کے لئے ممکن نہ ہو گی۔ دوسری صورت دین اسلام کے مطابق سب سے بہتر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس مالک نے ایک بڑی رقم لگا کر غلام کی خدمات حاصل کی تھیں اور اس کے مالی حالات ایسے ہیں کہ وہ اتنی بڑی رقم کے ڈوبنے کو افورڈ نہیں کر سکتا، تو اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ غلام کی خدمات کو دوسرے شخص کو منتقل کر دے۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غلام کو نئے مالک کی شخصیت اور عادات پسند نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ اس مسئلے کا حل دین اسلام نے یہ پیش کیا ہے کہ وہ اپنی خدمات کی منتقلی کے اگلے روز بھی اپنے مالک سے مکاتبت کر کے اس سے فوری نجات حاصل کر سکتا ہے۔ مکاتبت کرتے ہی وہ اپنے مالک کی سروس کا پابند نہ رہتا بلکہ آزادانہ طور پر رقم کما کر اپنے مالک کو آسان قسطوں میں ادائیگی کر کے اپنی آزادی خرید سکتا تھا۔ اس کے باوجود بسا اوقات یہ سہولت بھی دی گئی کہ اگر کسی غلام کو اپنے مالک کا مزاج پسند نہ ہو تو وہ حکومت سے درخواست کر کے اپنی خدمات کو کسی اور مالک کی طرف منتقل کروا سکتا تھا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے میں غلاموں کو یہ سہولت بھی میسر تھی کہ اگر ان کا مالک مکاتبت پر تیار نہ ہو تو وہ معاملے کو حکمران کی عدالت میں لے جا سکتے تھے اور حکمران بھی ایسے تھے جن کے ہاں کوئی دربان اور سکیورٹی فورس نہ تھی جو غلام کو آنے سے روکے۔

    اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تو یہاں تک مثال قائم کر دی تھی کہ ایک کنیز بھی آ کر آپ کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتی اور اپنا مسئلہ حل کرنے کا کہہ سکتی تھی۔ خلفاء راشدین کے معاملے میں بھی یہی صورتحال تھی اور وہ ہر نماز کے وقت مسجد میں دستیاب رہا کرتے تھے۔ یہی معاملہ ان خلفاء کے مقامی گورنروں کا بھی تھا۔

    اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلاموں کی خدمات کی منتقلی کا اس سے بہتر اور کوئی حل دستیاب ہی نہ تھا۔

    نیم غلام طبقوں کے معاملات میں اصلاحات

    جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عربوں کے ہاں اسلام سے پہلے کے زمانے سے ہی کچھ نیم غلام طبقے بھی پائے جاتے تھے جن کی حالت غلاموں سے کچھ ہی بہتر تھی لیکن انہیں بھی نہایت حقیر سمجھا جاتا تھا۔ ان میں مزارعے اور ہاتھ سے کام کرنے والے دیگر افراد شامل تھے۔ نیم غلامی کی یہ صورتیں موجودہ دور میں بھی موجود ہیں اور اس پر تفصیلی بحث ہم موجودہ دور میں غلامی سے متعلق باب میں کریں گے۔

    انسانیت کی پوری تاریخ میں اگر نیم غلام طبقے کا جائزہ لیا جائے تو ان کے غلام بنائے جانے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ معلوم ہوتی ہے اور وہ ہے غربت۔ غربت کے مارے لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی قرض بعد میں سود در سود کے باعث انہیں غلامی کے شکنجے میں دھکیل دیتا ہے۔ اسی غربت کے باعث یہ غریب کارکن نہایت ہی غیر انسانی شرائط پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسلام سے پہلے کے عرب میں بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طبقے کے لئے جو اصلاحات فرمائیں انہیں بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

    · غربت کا خاتمہ اور نیم غلام طبقے کا معاشی استحکام

    · ملازمت میں استحصالی شرائط لگانے کا خاتمہ

    · نیم غلام طبقے کے سماجی مرتبے (Social Status) کی بحالی

    غربت کے خاتمے سے متعلق جو اقدامات کئے گئے ان میں سے بعض وقتی اور بعض دائمی نوعیت کے تھے۔ ان اقدامات اور ان کے اثرات پر پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ یہ تمام اقدامات معروف و مشہور ہیں اس لئے یہاں پر ہم ان اقدامات کی تفصیل بیان کئے بغیر ان کا محض اجمالی جائزہ پیش کریں گے۔

    غربت کا خاتمہ اور نیم غلام طبقے کا معاشی استحکام

    · دین اسلام میں زکوۃ کا نظام ہمیشہ سے قائم ہے۔ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت میں بھی زکوۃ کا تصور موجود ہے۔ زکوۃ اس کم سے کم رقم کو کہا جاتا ہے جو ہر صاحب ثروت کو غربت کے خاتمے کے لئے ادا کرنا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں دولت کی جو صورتیں موجود تھیں، ان میں آپ نے نے جمع شدہ اموال پر 2.5%، زرعی پیداوار پر 5-10%، معدنی پیداوار اور دفن شدہ خزانوں کی دریافت پر 20% اور جانوروں پر ان کی تعداد، عمر اور نوعیت کے اعتبار سے زکوۃ عائد فرمائی۔ اس زکوۃ کا بنیادی مصرف غربت کا خاتمہ ہی تھا۔

    · صاحب ثروت افراد کو بھرپور ترغیب دلائی گئی کہ وہ زکوۃ تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ رقم حتی کہ اپنی ضرورت سے زائد پورے کے پورے مال کو اپنی خوشی سے اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ یہ محض ایک اپیل ہی نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسا زبردست جذبہ پیدا کر دیا تھا کہ وہ اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں غربت کے خاتمے کے لئے خرچ کریں۔ اگر حدیث اور تاریخ کے ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طریقے سے خرچ کی جانے والی رقم زکوۃ کی رقم سے کہیں زیادہ تھی۔

    · ہجرت کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ پہنچے تو ان کی اکثریت کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک ایک انصاری کو ایک ایک مہاجر کا بھائی بنا دیا۔ انصار کا ایثار اس درجے کا تھا کہ انہوں نے اپنی آدھی جائیداد اپنے مہاجر بھائی کو دے دی۔ مہاجرین نے بھی یہ جائیداد لینے کی بجائے خود کام کر کے کمانے کو ترجیح دی۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان یہ طے پایا کہ مہاجر انصاریوں کے کھیتوں اور باغات میں پارٹنرشپ پر کام کریں گے اور پیداوار کو آپس میں برابر تقسیم کر لیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب المزارعۃ، حدیث 2325)

    · ایسے صحابہ جنہیں مواخات کے اس عمل میں شریک نہ کیا جا سکا تھا، ان کے لئے مسجد نبوی میں صفہ نامی چبوترہ بنا کر عارضی طور پر آباد کیا گیا۔ ان لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھنا مدینہ کی پوری آبادی کے ذمہ تھا۔ ہر شخص کے پاس جو چیز بھی ضرورت سے زائد ہوتی وہ ان لوگوں کو دے دیتا۔ تھوڑے ہی عرصے میں یہ لوگ بھی مالی طور پر خود کفیل ہو گئے۔

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قابل کاشت زمین کی آباد کاری پر بھرپور توجہ دی۔ آپ نے زمین کاشت کرنے اور انسانوں اور جانوروں کے لئے غلہ اگانے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا۔ (بخاری، کتاب المزارعۃ، حدیث 2320)

    · سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں تک حکم دیا کہ جن لوگوں کے پاس فالتو زمین ہے اور وہ تین سال سے اسے کاشت نہیں کر سکے، اسے اپنے ان بھائیوں کو کاشت کے لئے دے دیں جن کے پاس زمین نہیں ہے۔ (کتاب الخراج)

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایسی زمینیں جو کسی کی ملکیت نہ تھیں، آباد کرنے کے لئے ان لوگوں کو دیں جن کے پاس زمین موجود نہ تھی۔ (بخاری، کتاب المزارعۃ، حدیث 2335) ان میں سے جو لوگ زمین کو آباد نہ کر سکے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ان سے غیر آباد زمینوں کو واپس لے کر ان لوگوں کو دیا گیا جو انہیں آباد کر سکتے تھے۔ (کتاب الخراج)

    · بعد کے دور میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ مفتوحہ ممالک کی زمینوں کو سرکاری ملکیت میں رکھا جائے گا اور ان کی آمدنی کو غربت کے خاتمے کے لئے خرچ کیا جائے گا۔ (بخاری، کتاب المزارعۃ، حدیث 2334)

    اسلام کے قانون وراثت نے چند ہاتھوں میں دولت کے ارتکاز کو عملاً ناممکن بنا دیا۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی امیر کیوں نہ ہوتا، اگر وہ اور اس کی اولاد کام نہ کرتے تو محض دو نسلوں ہی میں اس کا خاندان مڈل کلاس میں آ جاتا۔ اس کے نتیجے میں معاشرے کے بالائی طبقے میں جو خلا پیدا ہوتا، اس کے نتیجے میں غریب اور مڈل کلاس کے افراد کے لئے مسلسل معاشی اور معاشرتی مواقع پیدا ہوتے رہتے تھے جن کے ذریعے وہ اپنے مالی حالات اور سماجی رتبے کو بہتر بنا سکتے۔ اس پر مغربی مصنف ڈینیل پائپس نے نہایت خوبصورت تبصرہ کیا ہے:

    No matter how rich the grandfather, two generations later his grandchildren usually received modest inheritances. Unable to concentrate their resources, great families did not often gain a hold on important positions. Islamicate society knew no rigid social boundaries but was a constant flux of persons and families; as a result, there was always room for new blood. Only in religious officialdom, where special skills (not money) formed the basis of power, does one find consistent hereditary patterns. Because no hereditary aristocracy dominated military and political offices, they were open to social climbers--including slaves.

    Beyond keeping the positions open, this fluidity in social rank cut down on birthrights. The daintiness of born aristocrats in Hindu India or feudal Europe derived in large part from their assured superiority. They never allowed their ranks to be filled by persons of slave origins; but in Islamicate society, social fortunes were too transient for a person’s birth to play too much of a role in his career. (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    قطع نظر اس کے کہ دادا کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، دو نسلوں کے بعد اس کے پوتے پوتیاں وراثت میں بس معقول حصہ ہی لے رہے ہوتے تھے۔ اپنے وسائل کو (چند ہاتھوں میں) مرکوز نہ رکھ سکنے کے سبب اعلی خاندان اکثر اوقات اہم عہدوں پر قبضہ برقرار رکھنے میں ناکام رہتے تھے۔ مسلم معاشروں میں کوئی سخت سماجی حد بندی نہ تھی بلکہ افراد اور خاندانوں کے (سماجی رتبے میں) حرکت ہوتی رہتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہمیشہ نئے خون کے لئے جگہ موجود رہا کرتی تھی۔

    صرف بعض مذہبی عہدوں پر، جہاں پیسے کی بجائے مخصوص صلاحیتیں ہی طاقت کا منبع تھیں، کسی کو موروثی اقتدار نظر آ سکتا ہے (اگرچہ ابتدائی صدیوں میں یہ بات بالکل غلط ہے)۔ چونکہ فوجی اور سیاسی عہدوں کے لئے کوئی موروثی صلاحیت درکار نہ تھی، اس وجہ سے غلاموں سمیت ترقی کے خواہشمند ہر طبقے کے لئے راستہ کھلا تھا۔

    اس سماجی بہاؤ کی وجہ سے عہدے حاصل کرنے کا راستہ کھلا رکھنے کے ساتھ ساتھ پیدائشی حقوق میں بھی کمی واقع ہو چکی تھی۔ ہندو انڈیا یا فیوڈل یورپ میں مراعات یافتہ طبقے کے افراد پیدائش کے ساتھ ہی بہتر سماجی مرتبہ حاصل کر لیا کرتے تھے اور انہوں نے کبھی اپنے عہدوں کو سابقہ غلاموں کے حوالے کرنے اجازت نہ دی تھی، مگر مسلم معاشرے میں کسی شخص کی محض پیدائش کو اس کی قسمت بنانے میں بہت کم دخل حاصل تھا۔

    ملازمت میں استحصالی شرائط کا خاتمہ

    · مزارعوں کے ساتھ زیادتی کی ایک صورت یہ بھی تھی کہ مالک زمین کے اس حصے کی پیداوار کو، جو پانی کے قریب ہوتا، اپنے لئے مخصوص کر لیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس استحصالی شرط سے منع فرما دیا۔ اس حدیث کو روایت کرنے والے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہیں جو خود زمیندار تھے اور اس طریقے سے زمین کاشت کے لئے دیا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ اتنے محتاط ہوئے کہ مزارعت سے ہی اجتناب کرنے لگے۔ (بخاری، کتاب المزارعۃ، حدیث 2327)

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بالائی علاقوں کے زمین داروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے بعد پانی کو نشیبی علاقوں کی زمینوں کے لئے چھوڑ دیں تاکہ پیداوار میں اضافہ ہو سکے۔ (بخاری، کتاب المساقاۃ، حدیث 2369)

    · حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے محنت کر کے کمانے کی بھرپور ترغیب دی۔ آپ نے فرمایا، "اگر کوئی شخص رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے اور اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔" (بخاری، کتاب المساقاۃ، حدیث 2373)

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے چراگاہوں کو مخصوص کر کے اسے عام لوگوں کے مویشیوں کے لئے بند کر دینے سے منع فرما دیا۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ سب لوگوں کے مویشیوں کو خوراک میسر ہو سکے اور ان کی مالی حالت میں بہتری آ سکے۔ (بخاری، کتاب المساقاۃ، حدیث 2370)

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غرباء و مساکین کے لئے یہ طے کر دیا کہ اگر وہ کوئی قرض چھوڑ کر فوت ہوں گے تو ان کے قرض کی ادائیگی ان کے وارثوں کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ (مسلم، کتاب الفرائض، حدیث 4157)

    نیم غلام طبقے کی سماجی رتبے (Social Status) کی بحالی سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اقدامات کی تفصیل ہم آزاد کردہ غلاموں کے سماجی مرتبے سے متعلق اصلاحات کے عنوان میں بیان کر رہے ہیں۔

    سابقہ غلاموں اور نیم غلاموں کے سماجی رتبے (Social Status) میں اضافہ

    ولاء کے سماجی ادارے کا استحکام

    جیسا کہ ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ اسلام سے پہلے کے زمانے میں بھی عرب میں نیک لوگ موجود تھے جو غلاموں کو آزاد کرنے کو نیکی تصور کرتے تھے۔ عربوں کے ہاں آزاد کردہ غلاموں کے لئے ایک سماجی ادارہ موجود تھا جسے "ولاء" کہا جاتا تھا۔ ولاء بنیادی طور پر کسی شخص کو عرب معاشرے میں رہنے کا حق دیتی تھی۔ عرب اپنے درمیان غیر قوم کے فرد کو صرف اسی صورت میں برداشت کیا کرتے تھے جب وہ کسی عرب کی پناہ حاصل کر لے۔ ولاء کے اس رشتے کے نتیجے میں غیر عرب کو عرب معاشرے میں رہنے کا حق مل جاتا۔ ایسے لوگوں کو "مولی" جمع "موالی" کہا جاتا تھا۔

    یہ موالی آزاد کردہ غلام بھی ہوا کرتے تھے اور دیگر غریب لوگ بھی۔ یہ موالی مجموعی طور پر نیم غلامی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ ان کا سماجی درجہ بہت پست سمجھا جاتا تھا اور ان سے کوئی اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ بھی کرنے کو تیار نہ ہوا کرتا تھا۔

    قرآن مجید نے آغاز وحی کے زمانے میں ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اللہ تعالی اسلام قبول کرنے والے امیر لوگوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے غلاموں اور دیگر غرباء کا درجہ خود تک بلند کریں۔

    وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ ۔ (النحل 16:71)

    اللہ نے تم میں سے بعض کو دیگر پر رزق کے معاملے میں بہتر بنایا ہے۔ تو ایسا کیوں نہیں ہے کہ جو رزق کے معاملے میں فوقیت رکھتے ہیں وہ اسے غلاموں کو منتقل کر دیں تاکہ وہ ان کےبرابر آ سکیں۔ تو کیا اللہ کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جہاں پہلے سے موجود غلاموں کو آزاد کرنے اور ان کی حالت بہتر بنانے کے اقدامات کئے وہاں آپ نے آزاد کردہ غلاموں اور نیم غلاموں کے سماجی رتبے کو بہتر بنانے کے لئے بھی عملی اقدامات کئے۔ سب سے پہلے آپ نے مولی کا درجہ اس کی قوم کے برابر قرار دیا۔

    حدثنا آدم: حدثنا شعبة: حدثنا معاوية بن قرَّة وقتادة، عن أنس بن مالك رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (مولى القوم أنفسهم). أو كما قال. (بخاری، کتاب المواريث، حديث 6761)

    سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کسی قوم کا مولی بھی انہی میں سے ہے۔"

    ولاء کے اس تعلق کے نتیجے میں اس بات کا امکان کئی گنا بڑھ گیا کہ سابقہ غلام نہ صرف مسلم معاشرے کا حصہ بن جائے بلکہ اسے معاشرے میں اعلی مقام اور مرتبہ حاصل ہو سکے۔ اس بارے میں ڈینیل پائپس لکھتے ہیں:

    Slaves owned by a Muslim remained by their master long after emancipation, providing him with allegiance and service in return for protection and patronage. Few slaves returned to their countries of origin after becoming free; the majority stood by their patron. This continuing voluntary relationship increased the likelihood of men of slave origins serving their masters in important positions.

    (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    آزادی کے بعد طویل عرصے تک کسی مسلمان کے سابقہ غلام اس کے ساتھ ہی رہتے۔ تحفظ اور سرپرستی کے بدلے یہ آزاد کردہ غلام ان کے ساتھ وفاداری اور خدمت کا تعلق قائم رکھتے۔ بہت کم ہی ایسے غلام ہوں گے جو آزاد ہونے کے بعد اپنے اصل ملکوں میں واپس گئے ہوں۔ اکثریت اپنے سابقہ مالک کے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ رضا کارانہ تعلق کے اس سلسلے نے اس بات کا امکان بڑھا دیا کہ اصلاً غلامی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص اپنے سابقہ آقاؤں کے ہاں اہم عہدے حاصل کر سکے۔

    ولاء کے اس تعلق کے نتیجے میں آزاد کردہ غلام کو اپنے سابقہ مالک کے برابر سماجی رتبہ مل جایا کرتا تھا۔ یہ لوگ عام طور پر اپنے سابقہ مالکوں کے ساتھ ہی رہا کرتے اور ان کے ہاں تنخواہ کے بدلے ملازمت کر لیا کرتے تھے۔ اس تعلق کا سابقہ مالک کو فائدہ یہ پہنچتا تھا کہ اسے ایک قابل اعتماد ساتھی میسر آ جایا کرتا تھا۔ جب یہ غلام فوت ہوتا تو اس کی وراثت کو اس کے ورثا میں قرآن کے قانون کے تحت تقسیم کرنے کے بعد جو رقم باقی بچتی، اسے اس کے سابقہ مالک کو دے دیا جاتا۔ اس طریقے سے اس مالک کو اپنی وہ انوسٹمنٹ واپس مل جاتی جو اس نے غلام کو خریدنے، اس کی تربیت کرنے اور پھر اسے آزاد کرنے پر کی ہوتی تھی۔

    ایسے غلام جو غیر عرب ممالک سے تعلق رکھتے تھے، ان کی ولاء کا رشتہ اس شخص سے قائم کر دیا جاتا جس کے ہاتھ پر انہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ اس طریقے سے ان غلاموں کو بھی مسلم معاشرے میں ایک باوقار مقام حاصل ہو جایا کرتا تھا۔

    ولاء کے اسی رشتے کے باعث مسلمانوں کی تاریخ میں بہت سے افراد اور قبائل کو غیر معمولی اثر و رسوخ حاصل ہوا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ابن خلدون لکھتے ہیں:

    قال صلى الله عليه وسلم: " مولى القوم منهم " ، وسواء كان مولى رق أو مولى اصطناع وحلف، وليس نسب ولادته بنافع له في تلك العصبية۔۔۔۔۔۔۔وهذا شأن الموالي في الدول والخدمة كلهم، فإنهم إنما يشرفون بالرسوخ في ولاء الدولة وخدمتها، وتعدد الآباء في ولايتها. ألا ترى إلى موالي الأتراك في دولة بني العباس، وإلى بني برمك من قبلهم، وبني نوبخت كيف أدركوا البيت والشرف وبنوا المجد والأصالة بالرسوخ في ولاء الدولة. فكان جعفر بن يحيى بن خالد من أعظم الناس بيتاً وشرفاً بالانتساب إلى ولاء الرشيد وقومه، لا بالانتساب في الفرس. وكذا موالي كل دولة وخدمها إنما يكون لهم البيت والحسب بالرسوخ في ولائها والأصالة في اصطناعها. (ابن خلدون؛ مقدمة؛ باب 2 فصل 14)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "کسی قوم کا آزاد کردہ غلام انہی میں سے ہے۔" اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ شخص غلامی سے آزاد ہونے کے باعث مولی بنا ہو یا حلف یا محبت کے تعلق سے۔ اس قسم کی عصبیت میں نسلی خاندان کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی۔۔۔۔۔یہ سلطنتوں میں موالی اور ان کی خدمات کا معاملہ ہے۔ انہیں حکمران کی ولاء حاصل کرنے اور اسے اپنی خدمات پیش کرنے کے ذریعے غیر معمولی شرف اور رسوخ حاصل ہوا۔ کیا آپ بنو عباس کے عہد میں آزاد کردہ ترک غلاموں کو نہیں دیکھتے؟ ان سے پہلے یہی معاملہ بنو برمکہ کا ہے۔ اسی طرح بنو نوبخت نے کس طرح مقام اور مرتبہ حاصل کیا۔ ان دونوں کو حکمران کی ولاء کے ذریعے اس دور میں عزت و مقام اور اثر و رسوخ حاصل ہوا۔

    اگر مسلم دنیا میں ولاء کے اس تعلق کے نتائج کا تقابل موجودہ دور کے مغربی معاشروں سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس تعلق کے نتیجے میں سابقہ غلام کس طریقے سے مسلم معاشرے میں اعلی مقام حاصل کرتے چلے گئے جبکہ مغربی معاشروں میں غلامی کے خاتمے کے ڈیڑھ سو برس بعد بھی یہ مسئلہ آج تک برقرار ہے۔ امتیاز کے خلاف بہت سے قوانین (Anti-Discrimination Laws) کی موجودگی میں بھی امریکی معاشرے میں آج بھی ووٹ رنگ اور نسل دیکھ کر دیے جاتے ہیں۔

    سابقہ غلاموں سے صحابیات کی شادی کے اقدامات

    موالی کا درجہ بلند کرنے کے لئے آپ نے اپنے خاندان سے مثال قائم فرمائی۔ آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا نکاح اپنی کزن سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کیا۔ یہ خاتون قریش کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ عربوں میں قریش کو سب سے افضل سمجھا جاتا تھا اور قریش میں بنو ہاشم کا درجہ خصوصی سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی لیکن بہرحال یہ مثال قائم ہو گئی کہ مولی کا درجہ اس کی قوم کے برابر ہے۔ اس کے بعد صحابہ کرام میں نہ صرف آزاد کردہ غلاموں بلکہ موجودہ غلاموں سے بھی اپنی لڑکیوں کی شادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب، عن الزهري قال: أخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها: أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس، وكان ممن شهد بدرا مع النبي صلى الله عليه وسلم، تبنى سالما، وأنكحه بنت أخيه هند بنت الوليد ابن عتبة بن ربيعة، وهو مولى لإمرأة من الأنصار.(بخاری، کتاب النکاح، حديث 5088)

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس (جو کہ قریش کے ایک ممتاز خاندان بنو عبدشمس سے تھے) اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں حصہ لیا تھا، نے سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دی تھی۔ یہ سالم ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے۔

    حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّ نُفَيْعاً مُكَاتَباً كَانَ لأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَوْ عَبْداً لَهَا، كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ, فَطَلَّقَهَا اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَأَمَرَهُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْتِيَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَيَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَلَقِيَهُ عِنْدَ الدَّرَجِ آخِذاً بِيَدِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَسَأَلَهُمَا، فَابْتَدَرَاهُ جَمِيعاً فَقَالاَ : حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَرُمَتْ عَلَيْكَ.(موطاء مالک، کتاب الطلاق، حديث 1672)

    سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام یا مکاتب نفیع تھے۔ ان کے نکاح میں ایک آزاد خاتون تھیں۔ انہوں نے انہیں دو مرتبہ طلاق دے دی اور پھر رجوع کرنے کا ارادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج نے معاملے کو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (جو کہ خلیفہ تھے) کی عدالت میں لے جانے کا حکم دیا۔ وہ ان سے فیصلہ کروانے کے لئے گئے تو ان کی ملاقات سیڑھیوں کے نزدیک ان سے ہوئی۔ اس وقت وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جلدی جلدی کہیں جا رہے تھے۔ ان سے پوچھا تو وہ دونوں کہنے لگے، "وہ اب تمہارے لئے حرام ہے، وہ اب تمہارے لئے حرام ہے۔"

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ اشْتَرَى عَبْداً فَأَعْتَقَهُ، وَلِذَلِكَ الْعَبْدِ بَنُونَ مِنِ امْرَأَةٍ حُرَّةٍ، فَلَمَّا أَعْتَقَهُ الزُّبَيْرُ قَالَ هُمْ مَوَالِيَّ.، وَقَالَ مَوَالِي أُمِّهِمْ : بَلْ هُمْ مَوَالِينَا. فَاخْتَصَمُوا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَقَضَى عُثْمَانُ لِلزُّبَيْرِ بِوَلاَئِهِمْ. (موطاء مالک، کتاب العتق و الولاء، حديث 2270)

    ربیعۃ بن ابو عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ایک غلام کو خرید کر اسے آزاد کر دیا۔ اس غلام کے ایک آزاد بیوی میں سے بچے تھے۔ جب سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے آزاد کیا تو فرمایا کہ تمہارے بچے بھی میرے موالی ہیں۔ اس شخص نےکہا، "نہیں، یہ تو اپنی ماں کے موالی ہوئے۔" وہ یہ مقدمہ لے کر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں گئے۔ آپ نے ان بچوں کی ولاء کا فیصلہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا۔

    انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کی شادی بھی ایک قریشی خاتون سے ہوئی تھی۔ انہی سالم کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ:

    حدثنا إبراهيم بن المنذر قال: حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر قال: لما قدم المهاجرون الأولون العصبة، موضع بقباء، قبل مقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يؤمهم سالم، مولى أبي حذيفة، وكان أكثرهم قرآنا. (بخاری، کتاب الصلوۃ، حديث 693)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، "جب مہاجرین کا پہلا گروہ ہجرت کر کے مدینہ میں آیا تو انہوں نے قباء میں قیام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی آمد سے قبل ابوحذیفہ کے مولی سالم رضی اللہ عنہما ہماری امامت کیا کرتے تھے کیونکہ وہ سب سے زیادہ قرآن کے عالم تھے۔

    موجودہ اور سابقہ غلاموں کی امامت

    موجودہ دور کے برعکس، اس دور میں نماز کی امامت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ نماز کی امامت، دنیا کی امامت سے متعلق تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو یہ دلیل پیش کی گئی کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی زندگی میں انہیں نماز کا امام بنایا تھا، اس وجہ سے وہ خلافت کے بھی سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ انہی سالم رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن سالم ان سے پہلے ہی وفات پا گئے تھے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زید رضی اللہ عنہ کو جنگ موتہ میں ایسے لشکر کا سربراہ بنا کر بھیجا جس میں ان کے نائب آپ کے اپنے کزن سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ تھے۔ نائب دوم انصار کے ایک بڑے رئیس عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ تھے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے کمانڈر ان سب حضرات کے ماتحت عام سپاہی کی حیثیت سے اس لشکر میں شریک تھے۔ جب یہ تینوں قائدین شہید ہوئے تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی تھی۔ بعد میں آپ نے انہی زید کے بیٹے اسامہ رضی اللہ عنہ کو ایسے لشکر کا سربراہ مقرر فرمایا جس میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے بزرگ بھی شامل تھے۔

    حدثنا إسماعيل: حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا، وأمر عليهم أسامة بن زيد، فطعن الناس في إمارته، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (إن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل، وايم الله إن كان لخليفا للإمارة، وإن كان لمن أحب الناس لي، وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده). (بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3730)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنا کر بھیجا۔ لوگوں نے ان کے امیر ہونے پر اعتراض کیا تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا، "تم لوگ ان کی امارت پر اعتراض کر رہے ہو جبہ تم نے اس سے پہلے ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ خدا کی قسم وہ امارت کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پسند تھے اور ان کے بعد اسامہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔"

    اسی کو بیان کرتے ہوئے مغربی مورخ ایڈورڈ گبن لکھتے ہیں:

    The holy banner was entrusted to Zeid; and such was the discipline or enthusiasm of the rising sect, that the noblest chiefs served without reluctance under the slave of the prophet. (Edward Gibbon, The History of Decline & Fall of Roman Empire, http://www.ccel.org )

    اس جنگ میں مقدس جھنڈا زید کو دیا گیا تھا۔ اس ابھرتے ہوئے گروہ کے ڈسپلن اور جوش کا یہ عالم تھا کہ (عرب کے) معزز ترین سرداروں نے بغیر کسی جھجک کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کے تحت جنگ کی۔

    موجودہ و سابقہ غلاموں اور نیم غلاموں کا درجہ اس قدر بلند کر دیا گیا تھا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک آزاد کردہ غلام بلال کو اپنا سردار کہا کرتے تھے۔

    حدثنا أبو نعيم: حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن محمد بن المنكدر: أخبرنا جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: كان عمر يقول: أبو بكر سيدنا، وأعتق سيدنا. يعني بلالا. (بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3754)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، "ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا تھا۔"

    آج کے دور کی طرح، اس دور کے اہل مکہ کے ہاں خانہ کعبہ میں داخل ہونا ایک بہت ہی خاص شرف تھا جو صرف رئیسوں اور حکمرانوں کے لئے محدود تھا۔ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہی بلال رضی اللہ عنہ کو کعبہ میں داخل ہو کر تو کیا، اس کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔ یہ ایسا انقلابی قدم تھا جس سے اہل مکہ کے سینے پر سانپ لوٹ گئے کہ ایک آزاد کردہ غلام کو کعبہ کی چھت پر چڑھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

    سابقہ غلاموں سے برادرانہ تعلقات

    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہوں نے صہیب اور بلال رضی اللہ عنہما کو خرید کر آزاد کیا تھا۔ ان کا رویہ اپنے آزاد کردہ غلاموں سے کیسا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں کیسا رویہ اختیار کرنے کی تعلیم دی تھی، اس کی کچھ جھلک اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔

    حدثنا محمد بن حاتم. حدثنا بهز. حدثنا حماد بن سلمة عن ثابت، عن معاوية بن قرة، عن عائذ بن عمرو؛ أن أبا سفيان أتى على سلمان و صهيب وبلال في نفر. فقالوا: والله! ما أخذت سيوف الله من عنق عدو الله مأخذها. قال فقال أبو بكر: أتقولون هذا لشيخ قريش وسيدهم؟. فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره. فقال "يا أبا بكر! لعلك أغضبتهم. لئن كنت أغضبتهم لقد أغضبت ربك". فأتاهم أبو بكر فقال: يا إخوتاه! أغضبتكم؟ قالوا: لا. يغفر الله لك. يا أخي!. (مسلم، کتاب الفضائل، حديث 6412)

    عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ (قریش کے سردار) ابوسفیان رضی اللہ عنہ (اسلام قبول کرنے سے کچھ دیر پہلے) سلمان، صہیب، بلال اور ایک گروہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے۔ انہوں نے کہا، "اللہ کی تلواریں اللہ کے دشمن کی گردن پر اپنے مقام پر نہ پہنچیں۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو فرمایا، "کیا تم یہ بات قریش کے بزرگ اور سردار کے بارے میں کہہ رہے ہو؟"

    جب نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لائے تو انہیں یہ بات بتائی گئی۔ آپ نے فرمایا، "ابوبکر! شاید تم نے انہیں ناراض کر دیا۔ اگر تم نے انہیں ناراض کیا تو گویا تم نے اپنے رب کو ناراض کیا ہے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے، "میرے بھائیو! کیا میں نے تمہیں ناراض کر دیا ہے۔" وہ بولے، "ارے نہیں ہمارے بھائی! اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔"

    سابقہ غلاموں کا معاشی استحکام

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نہ صرف آزاد کردہ غلاموں سے شفقت کا سلوک فرماتے بلکہ آپ ان کے معاشی مقام کو بھی بہتر بنانے کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔ آپ نے کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے بچے ہوئے مال میں آزاد کردہ غلاموں کو بھی وارث بنانے کی رسم شروع کی جس کے نتیجے میں ان کے مالی اسٹیٹس میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح آپ نے اپنی آزاد کردہ کنیز سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کو مدینہ میں پورا ایک باغ تحفتاً دیا اور ان کی شادی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کر دی۔ (بخاری، کتاب الھبہ، حدیث 2630، مستدرک حاکم، حدیث 6910)
     
  14. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 9: لونڈیوں سے متعلق خصوصی اصلاحات


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ہم نے غلاموں سے متعلق اوپر جو اصلاحات بیان کی ہیں، یہ سب کی سب مرد و عورت ہر قسم کے غلام سے متعلق تھیں۔ جہاں ان اصلاحات کے نتیجے میں غلام آزاد ہوئے اور ان کا سماجی رتبہ بلند ہوا، وہیں خواتین غلاموں یعنی لونڈیوں کا درجہ بھی ان کی نسبت بلند ہوا۔ ان اصلاحات کے علاوہ لونڈیوں کے لئے خصوصی طور پر مزید اصلاحات بھی کی گئیں۔ ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے، ہم زمانہ قبل از اسلام میں لونڈیوں کی صورتحال کا مختصر جائزہ دوبارہ پیش کرتے ہیں۔

    جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ دور جاہلیت میں غلاموں کی ایک بڑی تعداد لونڈیوں پر بھی مشتمل تھی۔ انہیں زیادہ تر گھر کے کام کاج کے لئے رکھا جاتا۔ آقا کو لونڈی پر مکمل جنسی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے لیکن اگر آقا کسی لونڈی کی شادی کر دیتا تو پھر وہ خود اپنے حق سے دستبردار ہو جایا کرتا تھا۔

    بہت سے آقا اپنی لونڈیوں سے عصمت فروشی بھی کروایا کرتے تھے اور ان کی آمدنی خود وصول کیا کرتے تھے۔ اس قحبہ گری کا ایک مقصد یہ بھی ہوا کرتا تھا کہ لونڈیوں کی ناجائز اولاد کو غلام بنا لیا جائے۔ ایسی لونڈیوں کو جنس مخالف کو لبھانے کے لئے مکمل تربیت فراہم کی جاتی تھی۔ عرب میں باقاعدہ قحبہ خانے موجود تھے جن میں موجود طوائفیں عام طور پر لونڈیاں ہی ہوا کرتی تھیں۔ شب بسری کے لئے کسی دوست یا مہمان کو لونڈی عطا کر دینے کا رواج بھی ان کے ہاں پایا جاتا تھا۔ ان لونڈیوں کے حالات کی تفصیل نقل کرتے ہوئے سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں:

    اس وقت عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں رائج تھیں۔ ایک خانگی کا پیشہ اور دوسرے باقاعدہ چکلہ۔ "خانگی" کا پیشہ کرنے والی آزاد شدہ لونڈیاں ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا، یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے والا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت ان کا معاہدہ ہوجاتا کہ وہ ان کو مدد خرچ دیں گے اور اپنی حاجت رفع کرتے رہیں گے۔ جب بچہ پیدا ہو جاتا تو وہ عورت ان مردوں میں سے جس کے متعلق کہہ دیتی کہ یہ بچہ اس کا ہے، اسی کا بچہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ یہ گویا معاشرے میں ایک مسلم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا "نکاح" سمجھتے تھے۔

    دوسری صورت یعنی کھلی قحبہ گری صرف لونڈیوں کے ذریعے ہوا کرتی تھی۔ ایک تو یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں پر ایک بھاری رقم عائد کر دیتے کہ ہر مہینے اتنا کما کر ہمیں دیا کرو، اور وہ بے چاریاں بدکاری کروا کروا کر یہ مطالبہ پورا کیا کرتی تھیں۔ اس کے سوا نہ کسی دوسرے ذریعہ سے وہ اتنا کما سکتی تھیں، نہ مالک ہی یہ سمجھتے تھے کہ وہ کسی پاکیزہ کسب کے ذریعے یہ رقم لایا کرتی ہیں، اور نہ جوان لونڈیوں پر عام مزدوری کی شرح سے کئی کئی گنا رقم عائد کرنے کی کوئی دوسری معقول وجہ ہو سکتی تھی۔

    دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنہیں دیکھ کر دور سے ہی معلوم ہو جاتا تھا کہ "حاجت مند" آدمی کہاں اپنی حاجت رفع کر سکتا ہے۔ یہ عورتیں "تعلیقیات" کہلاتی تھیں اور ان کے گھر "مواخیر" کے نام سے مشہور تھے۔ بڑے بڑے معزز رئیسین نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ خود عبداللہ بن ابی کا مدینے میں ایک باقاعدہ چکلہ موجود تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے وہ صرف دولت ہی نہیں کماتے تھے بلکہ عرب کے مختلف حصوں سے آنے والے معزز مہمانوں کی تواضع بھی انہی سے فرمایا کرتے تھے اور ان کی ناجائز اولاد سے اپنے خدم و حشم کی فوج بڑھایا کرتے تھے۔ (تفہیم القرآن، سورۃ نور 24:33)

    قحبہ گری کی ممانعت

    لونڈیوں سے متعلق اللہ تعالی نے جو اصلاحات کرنے کے جو احکامات جاری کئے، ان میں سب سے اہم حکم یہی تھا کہ لونڈیوں سے عصمت فروشی کروانے کے کاروبار کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔

    وَلا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّناً لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ. (النور24:33)

    اگر تمہاری لونڈیاں پاکدامنی کی خواہشمند ہوں تو دنیا کا مال و دولت کمانے کے لئے انہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ اگر کوئی انہیں مجبور کرے گا تو اللہ تعالی اس مجبوری کے باعث انہیں بخشنے والا مہربان ہے۔

    اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں مدینہ میں مشہور منافق عبداللہ بن ابی کے پاس چھ لونڈیاں تھیں اور وہ ان سے عصمت فروشی کروایا کرتا تھا۔ ان میں سے ایک لونڈی معاذہ رضی اللہ عنہا نے اسلام قبول کر لیا اور پیشہ کرنے سے انکار کر دیا۔ عبداللہ بن ابی نے ان پر تشدد کیا۔ انہوں نے آ کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی جو انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ آپ نے حکم جاری کیا کہ اس لونڈی کو ہرگز واپس نہ بھیجا جائے۔ ابن ابی نے بہت شور مچایا کہ محمد تو ہماری لونڈیاں چھیننے لگ گئے ہیں لیکن اس کے شور کو کوئی اہمیت نہ دی گئی اور ان خاتون کو آزاد کر دیا گیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن ابی حاتم، حدیث 14528)

    اس حکم سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر وہ خود بدکاری کی خواہش مند ہوں تو انہیں کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ اس آیت کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور کرے تو اس کی دنیاوی اور اخروی سزا کا مستحق ان کا مالک ہی ہو گا۔ اگر لونڈی اپنی مرضی سے عصمت فروشی کرنا چاہے تو اس صورت میں ان کے لئے بھی سزا مقرر کی گئی۔ ابتدا میں یہ سزا انہیں انہی کے گھروں میں قید کرنے تک محدود تھی۔ یہ سزا صرف لونڈیوں ہی کے لئے نہ تھی بلکہ آزاد فاحشہ عورتوں کو ان کے آشنا مردوں سمیت سزا دی گئی۔

    وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً۔ وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنْكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّاباً رَحِيماً۔ (النساء 4:15-16)

    تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں، ان پر اپنے لوگوں میں سے چار افراد کی گواہی لو۔ اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت ان کا کام تمام کردے یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ نکال دے ۔ اور جو دو مرد و عورت تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیکوکار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

    اس سزا کو بعد میں ایک حتمی سزا میں تبدیل کر دیا گیا۔

    الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ (النور24:2)

    بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے حکم میں تمہیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے۔ اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو بھی موجود ہونا چاہیے۔

    یہ سزا آزاد مرد و خواتین کے لئے تھی۔ لونڈیوں کی ناقص اخلاقی تربیت کے باعث انہیں یہ رعایت دی گئی کہ ان کے لئے نصف سزا مقرر کی گئی۔

    فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنْ الْعَذَابِ. (قرآن 4:25)

    جب لونڈیوں کو نکاح میں محفوظ کر دیا جائے اور اس کے بعد بھی وہ بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد خواتین کی نسبت آدھی ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قحبہ خانوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے یہ سزائیں نافذ کیں اور اپنے اقتدار کے علاقے میں ان قحبہ خانوں کا مکمل خاتمہ کر دیا۔

    حدثنا مسلم بن إبراهيم: حدثنا شعبة، عن محمد بن جحادة، عن أبي حازم، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كسب الإماء. (بخاری، کتاب الاجارة، حديث 2283)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے لونڈیوں سے پیشہ کروانے سے منع فرمایا۔

    حدثنا يعقوب بن إبراهيم، ثنا معتمر، عن سلم يعني ابن أبي الذيال قال: حدثني بعض أصحابنا، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس أنه قال: قال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "لا مساعاة في الإِسلام، من ساعى في الجاهلية فقد لحق بعصبته، ومن ادَّعى ولداً من غير رشدةٍ فلا يرث ولا يورث". (ابو داؤد، کتاب الطلاق، حديث 2264)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اسلام میں کوئی قحبہ گری نہیں ہے۔ جس نے جاہلیت میں قحبہ گری کی ہو، اسے اپنی ماں کے رشتے داروں سے ملحق کیا جائے گا۔ جس نے کسی بچے کو غلط طور پر خود سے ملحق کیا، نہ تو وہ بچہ اس کا وارث ہو گا اور نہ ہی وہ شخص اس بچے کا وارث۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہاں تک حکم دیا کہ لونڈی کی کمائی بھی اسی صورت میں قبول کی جائے جب یہ معلوم ہو کہ اس نے اسے حلال طریقے سے کمایا ہے۔

    حدثنا هارون بن عبد اللّه، ثنا هاشم بن القاسم، ثنا عكرمة، حدثني طارق بن عبد الرحمن القرشي قال: جاء رافع بن رفاعة إلى مجلس الأنصار فقال: لقد نهانا نبي اللّه صلى اللّه عليه وسلم اليوم فذكر أشياء، ونهى عن كسب الأمة إلا ما عملت بيدها، وقال هكذا بأصابعه نحو الخبز والغزل والنفش . (ابو داؤد، کتاب الاجارة، حديث 3426)

    سیدنا رافع بن رفاعۃ رضی اللہ عنہ نے انصار کی مجلس میں بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہمیں ان چیزوں سے منع فرمایا تھا۔ انہوں نے اس میں لونڈی کی کمائی کا ذکر بھی کیا سوائے اس کے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ جیسے روٹی پکانا، سوت کاتنا یا روئی دھنکنا۔

    لونڈیوں کو رقص و موسیقی کے لئے استعمال کرنے پر پابندی

    دور جاہلیت میں یہ عام معمول تھا کہ لونڈیوں کو رقص و موسیقی کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔ اس کے لئے باقاعدہ محفلیں جما کرتی تھیں جن میں لوگ ریشمی لباس پہن کر آتے، شراب پیتے، گانا سنتے، رقص دیکھتے، رقم نچھاور کرتے اور اگلے مرحلے پر انہی لونڈیوں کو اپنی ہوس مٹانے کے لئے استعمال کیا کرتے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان محفلوں پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ حکم جاری فرمایا کہ لونڈیوں کو رقص اور موسیقی کی تعلیم نہ دی جائے اور ان کی خدمات کی خرید و فروخت کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔

    حدثنا قتيبة أخبرنا بكر بن مضر عن عبيد الله بن زحر عن علي بن يزيد عن القاسم عن أبي أمامة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا تبيعوا القينات ولا تشتروهن ولا تعلموهن ولاخير في تجارة فيهن وثمنهن حرام في مثل هذا أنزلت هذه الآية { ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله } إلى آخر الآية قال وفي الباب عن عمر بن الخطاب قال أبو عيسى حديث أبي أمامة إنما نعرفه مثل هذا من هذا الوجه وقد تكلم بعض أهل العلم في علي بن يزيد وضعفه وهو شامي۔ قال الشيخ الألباني : حسن۔ (ترمذی، کتاب البيوع، حديث 1282)

    سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "رقص و موسیقی کی ماہر لونڈیوں کو نہ تو فروخت کرو اور نہ ہی خریدو۔ انہیں اس کی تعلیم مت دو۔ ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں ہے۔ ان کی قیمت حرام ہے۔ اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ "لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو فضول باتیں خریدتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے وہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔"

    ایسی محفلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کاموں میں سے ایک قرار دیا جن کے بعد اہل زمین اللہ کے عذاب کے مستحق ہو جایا کرتے ہیں:

    حدثنا صالح بن عبد الله الترمذي حدثنا الفرج بن فضالة أبو فضالة الشامي عن يحيى بن سعيد عن محمد بن عمر بن علي عن علي بن أبي طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا فعلت أمتي خمس عشرة خصلة حل بها البلاء فقيل وما هن يا رسول الله قال إذا كان المغنم دولا والأمانة مغنما والزكاة مغرما وأطاع الرجل زوجته وعق أمه وبر صديقه وجفا أباه وارتفعت الأصوات في المساجد وكان زعيم القوم أرذلهم وأكرم الرجل مخافة شره وشربت الخمور ولبس الحرير واتخذت القينات والمعازف ولعن آخر هذه الأمة أولها فليرتقبوا عند ذلك ريحا حمراء أو خسفا ومسخا۔ (ترمذی، کتاب الفتن، حديث 2210)

    سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جب میری امت میں پندرہ خصلتیں اکٹھی ہو جائیں گی تو ان کے لئے مصیبتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔" پوچھا گیا، "یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں؟"

    فرمایا، "جب چرواہے امیر ہو جائیں گے، دولت ہی ایمان بن جائے گی، زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جانے لگے گا، مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کیا کریں گے، دوست کے ساتھ نیکی اور باپ کے ساتھ ظلم کیا جائے گا، مسجدوں میں شور مچایا جائے گا، قوم کے لیڈر ان کے بدترین لوگ ہوں گے، کسی شخص کی عزت اس کی برائی سے محفوظ رہنے کے لئے کی جائے گی، شراب پی جائے گی، ریشم پہنا جائے گا، رقص و موسیقی کی ماہر لونڈیوں اور آلات موسیقی کا اہتمام کیا جائے گا اور اس امت کے بعد کے لوگ پہلے زمانے کے لوگوں پر لعنت بھیجیں گے۔ جب ایسا ہو گا تو انہیں سرخ آندھی، زمین میں دھنسا دیے جانے اور صورتیں مسخ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔

    افسوس کہ لونڈیوں کو قحبہ گری اور رقص و موسیقی کے لئے استعمال کرنا مسلمانوں کے ان جرائم میں سے ہے جن پر انہوں نے اپنے نبی کی واضح تعلیمات کے خلاف عمل کیا۔ موجودہ دور میں قانونی غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہے، لیکن اس مقصد کے لئے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے پوری مسلم دنیا میں قائم ہیں جہاں تربیت دے کر انہیں مغربی اور مشرق وسطی کے ممالک میں اسمگل کر دیا جاتا ہے۔ یہ لڑکیاں اگرچہ قانونی طور پر آزاد ہوتی ہیں مگر عملاً غلام ہی ہوتی ہیں۔ اس پر تفصیلی بحث ہم نے باب 17 میں کی ہے۔ جب تک یہ معاملات ہمارے معاشروں میں موجود ہیں، ہمیں اللہ کے عذاب کا انتظار کرنا چاہیے جس کی لپیٹ میں نہ صرف یہ بدکار آئیں گے بلکہ وہ نیک لوگ بھی آ جائیں گے جو اس پر ان مجرموں کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    لونڈیوں کی شادیاں کر دینے کا حکم

    اللہ تعالی نے لونڈیوں کو عصمت فروشی سے محفوظ رکھنے کے لئے ان کی شادی کی ترغیب دلائی۔

    وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔ (النور 24:32)

    تم میں سے جو (مرد و عورت) مجرد ہوں، ان کی شادیاں کر دیا کرو اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح بھی کر دیا کرو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے۔

    آزاد افراد کے لئے لونڈیوں سے شادی کرنے میں دو مسائل تھے۔ ایک تو یہ کہ لونڈیوں کو خاص طور پر قحبہ گری کی تربیت دی جاتی تھی۔ ایسی عورت سے شادی کر کے اس کے ساتھ نباہ کرنا ایک شریف آدمی کے لئے بڑا مشکل تھا۔ دوسرے یہ کہ ان سے ہونے والی اولاد کو بھی "غلام ماں کی اولاد" ہونے کا طعنہ دیا جاتا جو ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس وجہ سے لوگوں میں ان سے نکاح کرنے میں رغبت نہ پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالی نے خاص طور پر مسلمانوں کے ان غریب لوگوں کو جو آزاد خواتین کے مہر ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے تھے، ترغیب دلائی کہ وہ لونڈیوں سے نکاح کر لیں۔

    وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلاً أَنْ يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ فَتَيَاتِكُمْ الْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُمْ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ۔ (النساء 4:25)

    جو شخص تم میں سے اتنی استطاعت نہ رکھتا ہو کہ وہ آزاد مسلمان خواتین سے شادی کر سکے تو تمہاری ان لڑکیوں میں سے کسی سے نکاح کر لے جو تمہاری ملکیت میں ہیں اور مومن ہیں۔ اللہ تمہارے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کرو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں اور آزاد شہوت رانی اور چوری چھپے آشنائی سے بچ سکیں۔

    لونڈیوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کا حکم

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے لونڈیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کر کے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کرنے کی بھرپور ترغیب دی۔

    أخبرنا محمد، هم ابن سلام، حدثنا المحاربي قال: حدثنا صالح بن حيان قال: قال عامر الشعبي: حدثني أبو بردة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لهم أجران: رجل من أهل الكتاب، آمن بنبيه وآمن بمحمد صلى الله عليه وسلم، والعبد المملوك إذا أدى حق الله وحق مواليه، ورجل كانت عنده أمة يطؤها، فأدبها فأحسن أدبها، وعلمها فأحسن تعليمها، ثم أعتقها فتزوجها، فله أجران). (بخاری، کتاب العلم، حديث 97)

    ابوبردہ کے والد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین افراد کے لئے دوگنا اجر ہے۔ (پہلا) اہل کتاب کا کوئی فرد جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور اس کے بعد محمد پر بھی ایمان لایا۔ (دوسرا) ایسا غلام کو اللہ اور اپنے آقا دونوں کا حق ادا کرتا ہے۔ اور (تیسرا) وہ شخص جس کی کوئی لونڈی ہو جس سے وہ ازدواجی تعلقات قائم کرنا چاہے تو اسے بہترین اخلاق اور علم کی تعلیم دے، اس کے بعد اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لے۔ اس کے لئے بھی دوگنا اجر ہے۔

    لونڈیوں کے ازدواجی حقوق کا بیوی کے حقوق سے تقابلی جائزہ

    لونڈیوں کے ضمن میں اہم ترین اصلاح یہ تھی کہ ان سے ازدواجی تعلقات کو صرف اور صرف ان کے آقا تک محدود قرار دے دیا گیا۔ اس طریقے سے لونڈی اپنے مالک کی ایک قسم کی بیوی ہی قرار پائی۔ اگر لونڈی کسی اور شخص کے ساتھ شادی شدہ ہو تو مالک کے لئے اس سے ازدواجی تعلقات ناجائز قرار دیے گئے۔

    اس مسئلے پر چونکہ بہت سے لوگوں کو تردد ہے، اس وجہ سے بہتر ہے کہ ہم بیوی اور لونڈی کے حقوق و فرائض کا ایک تقابلی جائزہ پیش کر دیں تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ مالک اور لونڈی کے درمیان ازدواجی تعلقات کی جو اجازت دی گئی تھی، اس کے نتیجے میں لونڈی کو مالک کی بیوی ہی کی ایک قسم قرار دیا گیا تھا۔ ان حقوق و فرائض کے بارے میں مسلمانوں کے اہل علم میں ایک عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔

    میاں اور بیوی کا تعلق ایک معاشرتی اور قانونی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے جسے نکاح کہتے ہیں۔ اس قانونی عمل کے بعد ہی انہیں ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
    آقا اور لونڈی کا تعلق بھی ایک معاشرتی اور قانونی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے جس کے بعد انہیں ازدواجی تعلق کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

    بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے نتیجے میں ایک شخص "محصن" یعنی بدکاری وغیرہ سے محفوظ قرار پاتا ہے۔
    لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے نتیجے میں بھی ایک شخص "محصن" قرار پاتا ہے۔ اس شخص پر بھی قانونی طور پر وہی احکام نافذ کئے جائیں گے جو شادی شدہ مرد پر نافذ ہوتے ہیں۔ (موطاء مالک، کتاب النکاح، 1555)

    بیوی سے خاوند کی اولاد اپنے باپ کی وراثت میں پوری طرح حق دار ہوتی ہے۔
    لونڈی سے آقا کی اولاد بھی اپنے باپ کی وراثت میں پوری طرح حق دار ہوتی ہے اور بیوی اور لونڈی کی اولاد کے سماجی رتبے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

    بیوی کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔
    لونڈی کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا آقا کی ذمہ داری ہے۔

    اگر خاوند بیوی کی ضروریات پوری نہیں کرتا تو بیوی عدالت میں دعوی کر کے اپنے حقوق وصول کر سکتی ہے۔
    اگر آقا لونڈی کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا تو لونڈی بھی عدالت میں دعوی کر کے اپنے حقوق وصول کر سکتی ہے۔

    اگر بیوی اپنے خاوند سے مطمئن نہ ہو تو وہ اس سے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
    اگر لونڈی اپنے آقا سے مطمئن نہ ہو تو وہ اس سے آزادی کا مطالبہ "مکاتبت" کی صورت میں کر سکتی ہے۔

    اگر خاوند بیوی کے ازدواجی حقوق پورے نہ کر سکتا ہو تو بیوی اس سے طلاق لے سکتی ہے۔
    اگر آقا لونڈی کے ازدواجی حقوق پورے نہ کر سکتا ہو، تو لونڈی کے سامنے دو راستے ہیں: یا تو وہ آقا سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کی کہیں شادی کر دے یا پھر اسے آزاد کر دے۔

    اگر خاتون پہلے سے شادی شدہ ہو اور اس کی اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی ہو جائے یا پہلا خاوند فوت ہو جائے تو اس صورت میں دوسری شادی کے لئے خاتون کو کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے تاکہ اگر حمل موجود ہو تو وہ واضح ہو جائے۔ اس عمل کو "استبراء" کہا جاتا ہے۔ حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل تک خاتون کو دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے۔
    اگر لونڈی بھی پہلے کسی اور مالک کے پاس تھی تو اس صورت میں اسے دوسرے مالک کے پاس آنے سے پہلے استبراء کرنا ضروری ہے تاکہ اگر اسے حمل ہو تو وہ واضح ہو جائے۔ حمل ہونے کی صورت میں وضع حمل تک دوسرے مالک کو اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات کی اسے اجازت نہیں ہے۔ (موطاء مالک، کتاب النکاح، 1539, 1735)

    کسی خاتون سے شادی کے بعد اس کی ماں اور بیٹی، اس خاتون کے شوہر کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہیں۔
    کسی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے بعد لونڈی کی ماں اور بیٹی بھی آقا کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہیں۔ (موطاء مالک، کتاب النکاح، 1543, 1547)

    ایک بیوی کی موجودگی میں شوہر اس کی بہن، پھوپھی یا خالہ سے شادی نہیں کر سکتا۔
    ایک لونڈی کی موجودگی میں آقا اس کی بہن، پھوپھی یا خالہ سے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کر سکتا۔ (موطاء مالک، کتاب النکاح، 1539)

    خاوند سے طلاق حاصل کرنے کے بعد خاتون کو اجازت ہے کہ وہ جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے۔
    آقا سے آزادی حاصل کرنے کے بعد لونڈی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے۔ اگر اس کے آقا نے پہلے ہی اس کی شادی کسی سے کر رکھی ہے، تو آزادی کے وقت لونڈی کو یہ حق حاصل ہے کہ چاہے تو وہ اس شادی کو برقرار رکھے اور چاہے تو اس شادی کو بغیر طلاق کے ختم کر دے۔ اسے "خیار عتق" کہا جاتا ہے۔ (موطاء مالک، کتاب النکاح، 1625)


    بیوی اور لونڈی میں جو فرق ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:

    بیوی اپنی مرضی سے خاوند کے نکاح میں آتی ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہو سکتا۔
    لونڈی کے معاملے میں یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ہی آقا کی ملکیت میں آئی ہو لیکن اگر اسے اپنا آقا پسند نہ ہو تو وہ مکاتبت حاصل کر کے فوری طور پر آقا سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔

    بیوی کا اگر اپنے خاوند سے بچہ ہو جائے تو اس کی قانونی حیثیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
    لونڈی کا اگر اپنے آقا سے بچہ ہو جائے تو اس کی قانونی حیثیت یک دم بڑھ جاتی ہے۔ ایسی لونڈی کو ام ولد کہا جاتا ہے۔ ام ولد، مکاتب کی طرح غلام اور آزاد کی درمیانی حالت میں آ جاتی ہے اور آقا کے مرنے کی صورت میں وہ خود بخود آزاد ہو جاتی ہے۔

    آزاد خاتون کی اپنے خاوند سے علیحدگی کی صورت میں اس کی عدت تین حیض (یا طہر) اور بیوگی کی صورت میں چار ماہ دس دن کی عدت مقرر کی گئی۔ حمل ہونے کی صورت میں یہ عدت وضع حمل ہی ہے۔
    لونڈی کی عدت دو حیض مقرر کی گئی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بیوہ لونڈی کی عدت ایک حیض مقرر کی گئی۔ حمل ہونے کی صورت میں یہ عدت وضع حمل ہی ہے۔


    بیوی اور لونڈی کے مابین اس تفاوت میں دوسرا نکتہ، لونڈی کے حق میں ہے۔ تیسرا نکتہ بہت زیادہ اہم نہیں ہے۔ صرف پہلا نکتہ ایسا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں لونڈی، بیوی کی نسبت کمتر درجے کی حامل ہے۔ دین اسلام نے اس معاملے میں یہ اصلاح کی کہ لونڈی کو اگر اپنا آقا پسند نہ ہو، تو وہ اس کی ملکیت میں آنے کے فوراً بعد ہی، ازدواجی تعلقات قائم کئے بغیر، وہ مکاتبت کر سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس کی مثال موجود ہے اور ایسا کرنے کی صورت میں پورا معاشرہ اس خاتون کی حمایت اور مدد کے لئے تیار تھا جو اپنے آقا کو ناپسند کرتی ہو۔

    حدثنا عبد العزيز بن يحيى أبو الأصبغ الحراني، قال: حدثني محمد يعني ابن سلمة عن ابن إسحاق، عن محمد بن جعفر بن الزبير، عن عروة بن الزبير، عن عائشة [رضي اللّه عنها] قالت: وقعت جويرية بنت الحارث بن المصطلق في سهم ثابت بن قيس بن شماس، أو ابن عمّ له، فكاتبت على نفسها، وكانت امرأةً ملاّحة تأخذها العين، قالت عائشة رضي اللّه عنها: فجاءت تسأل رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم في كتابتها، فلما قامت على الباب فرأيتها كرهت مكانها وعرفت أن رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم سيرى منها مثل الذي رأيت، فقالت: يارسول اللّه، أنا جويرية بنت الحارث، وإنما كان من أمري ما لايخفى عليك، وإني وقعت في سهم ثابت بن قيس بن شماس، وإني كاتبت على نفسي فجئت أسألك في كتابتي فقال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "فهل لك إلى ما هو خيرٌ منه؟" قالت: وما هو يارسول اللّه؟ قال: "أؤدِّي عنك كتابتك وأتزوجك" قالت: قد فعلت، قالت: فتسامع تعني الناسَ أن رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم قد تزوج جُويرية، فأرسلوا ما في أيديهم من السَّبْيِ فأعتقوهم وقالوا: أصهار رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم، فما رأينا امرأة كانت أعظم بركة على قومها منها، أعتق في سببها مائة أهل بيت من بني المصطلق. (ابو داؤد، كتاب العتق، حديث 3931)

    سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جویریۃ بنت حارث بن مصطلق، ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے کزن کے حصے میں آئیں۔ انہوں نے ان سے اپنی آزادی کے بارے میں مکاتبت کر لی۔ آپ ایک نہایت شاندار خاتون تھیں اور آپ پر نظر نہ ٹکتی تھی۔ سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں، "جویریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس اپنی مکاتبت کے سلسلے میں آئیں۔ جب وہ دروازے میں کھڑی تھیں تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ انہیں اپنی موجودہ جگہ پسند نہیں ہے۔"

    وہ کہنے لگیں، "یا رسول اللہ! میں جویریہ بنت حارث ہوں۔ میرا معاملہ آپ نے مخفی نہیں ہے۔ میں ثابت بن قیس بن شماس کے حصے میں آئی ہوں۔ میں نے ان سے اپنی آزادی کے سلسلے میں مکاتبت کر لی ہے۔ میں آپ سے اس مکاتبت کے معاملے میں (مدد کی) درخواست کرنے آئی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اگر میں آپ کو اس سے بہتر پیشکش کروں تو کیا آپ کو قبول ہو گی؟ وہ کہنے لگیں، "وہ کیا یا رسول اللہ؟" آپ نے فرمایا، "میں آپ کی کتابت کی پوری رقم ادا کر دوں اور آپ سے شادی کر لوں؟" وہ کہنے لگیں، "میں یہی کرنا چاہوں گی۔"

    لوگوں نے جب یہ بات سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو وہ کہنے لگے، "یہ (بنو عبدالمصطلق کے) قیدی تو اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سسرالی رشتے دار ہو گئے، ہم انہیں قید کیسے رکھیں۔" انہوں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔ سیدہ عائشہ کہتی ہیں، "میں نے جویریہ سے بڑھ کر کوئی خاتون نہیں دیکھی جو اپنی قوم کے لئے اتنی بابرکت ثابت ہوئی ہو کہ ان کے باعث ان کے رشتے دار بنو عبدالمصطلق کے سو کے قریب قیدی آزاد ہوئے۔"

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دیگر مواقع پر بھی سسرالی تعلقات قائم کر کے جنگی قیدیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی تھی۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

    ہم بیان کر چکے ہیں کہ صحابہ و تابعین کے زمانے میں اگر کوئی لونڈی مکاتبت کر لیتی تو اس کے بعد اس کے ساتھ ازدواجی تعلق قائم کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا جاتا۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنِ الدَّسْتَوَائِيِّ , عَنْ قَتَادَةَ فِي رَجُل وَطِئَ مُكَاتَبَتَهُ قَالَ إِنْ كَانَ اسْتَكْرَهَهَا فَعَلَيْهِ الْعُقْرُ وَالْحَدُّ , وَإِنْ كَانَتْ طَاوَعَتْهُ فَعَلَيْهِ الْحَدُّ وَلَيْسَ عَلَيْهِ الْعُقْرُ. (مصنف ابن ابی شيبة، كتاب الحدود، حديث 28619)

    قتادہ ایسے شخص کے بارے میں بیان کرتے ہیں جس نے اپنی مکاتبہ لونڈی سے ازدواجی تعلق قائم کیا تھا، وہ کہتے ہیں، "اگر اس نے ایسا جبراً کیا ہے تو اسے (بدکاری کی) شرعی حد کے علاوہ سزا بھی دی جائے گی۔ اگر اس نے ایسا اس کی رضامندی سے کیا ہے تو پھر اسے صرف شرعی حد لگائی جائے گی اور اضافی سزا نہ دی جائے گی۔

    لونڈیوں کی عفت و عصمت کی حفاظت

    جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عربوں میں لونڈیوں کو خاص طور پر قحبہ گری کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بطور خاص ان لونڈیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دی اور ان کے آقاؤں کو حکم دیا کہ وہ ان کی اخلاقی تعلیم و تربیت کر کے انہیں آزاد کر دیں۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے لونڈیوں کی عفت و عصمت کو آزاد عورت کے برابر قرار دیا۔ لونڈی کی آبرو ریزی کرنے کی وہی سزا مقرر فرمائی گئی جو کہ آزاد عورت کی آبرو ریزی کرنے کی سزا تھی۔

    حدثنا قتيبة بن سعيد وأبو كامل الجحدري (واللفظ لقتيبة). قالا: حدثنا أبو عوانة عن سماك، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك (أحق ما بلغني عنك؟) قال: وما بلغك عني؟ قال (أنك وقعت بجارية آل فلان) قال: نعم. قال: فشهد أربع شهادات. ثم أمر به فرجم. (مسلم، كتاب الحدود، حديث 4427، نسائی سنن الکبری، کتاب الرجم، حديث 7134)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماعز بن مالک سے پوچھا، "کیا جو خبر مجھ تک پہنچی ہے وہ سچ ہے؟" انہوں نے کہا، "آپ تک کیا بات پہنچی ہے؟" آپ نے فرمایا، "تم نے فلاں کی لونڈی کی آبرو ریزی کی ہے؟" انہوں نے چار مرتبہ قسم کھا کر اقرار کر لیا۔ آپ نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔

    اگر کوئی لونڈی کسی شخص کی بیوی کی ملکیت ہو تو اسلام سے پہلے یہ کوئی بڑی بات نہ تھی کہ خاوند اپنی بیوی کی لونڈی سے بھی ازدواجی تعلقات قائم کر لے۔ دین اسلام نے اسے مکمل حرام قرار دیا اور ایسی صورت میں اس شخص کو سزا دینے کا حکم دیا۔

    حدثنا أحمد بن صالح، ثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن قتادة، عن الحسن، عن قبيصة بن حريث، عن سلمة بن المحبَّق أن رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم قضى في رجل وقع على جارية امرأته: إن كان استكرهها فهي حُرَّة وعليه لسيدتها مثلها، فإِن كانت طاوعته فهي له وعليه لسيدتها مثلها. قال أبو داود: رواه يونس بن عبيد وعمرو بن دينار، ومنصور بن زاذان، وسلام عن الحسن هذا الحديث بمعناه، لم يذكر يونس ومنصور قبيصة. (ابو داؤد، كتاب الحدود، حديث 4460، نسائی سنن الکبری، حديث 7231)

    سیدنا سلمہ بن المحبق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک ایسے شخص کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے تھے: "اگر تو اس نے ایسا زبردستی کیا ہے تو اس لونڈی کو آزاد کر دیا جائے اور اس شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ ویسی ہی لونڈی کی خدمات کو خرید کر اپنی بیوی کے حوالے کرے۔ اگر اس نے ایسا لونڈی کی رضامندی سے کیا تھا تو وہ لونڈی اسی شخص کو دے دی جائے اور اس شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ ویسی ہی لونڈی کی خدمات کو خرید کر اپنی بیوی کے حوالے کرے۔

    وقال أبو الزناد، عن محمد بن حمزة بن عمرو الأسلمي، عن أبيه: أن عمر رضي الله عنه بعثه مصدقا، فوقع رجل على جارية امرأته، فأخذ حمزة من الرجل كفيلا حتى قدم على عمر، وكان عمر قد جلده مائة جلدة، فصدقهم وعذره بالجهالة. (بخاری، كتاب الکفالة، حديث 2290)

    سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زکوۃ کی وصولی کے لئے بھیجا۔ (جہاں وہ زکوۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے) ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کر لئے تھے۔ حمزہ نے اس شخص کی دوسرے شخص سے ضمانت لی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ انہوں نے اس شخص کو سو کوڑے کی سزا سنائی۔ اس شخص نے جو جرم کیا تھا، اسے قبول کر لیا تھا لیکن یہ بھی بتایا تھا کہ دین کا یہ حکم اس کے علم میں نہ تھا۔ اس وجہ سے حضرت عمر نے اس عذر کو قبول کر لیا تھا۔

    ام ولد سے متعلق اصلاحات

    اسلام سے پہلے لونڈیوں اور ان کے بچوں کا معاشرے میں بہت پست مقام تھا۔ لونڈی کے بچوں کو آزاد خاتون کے بچوں کی نسبت حقیر سمجھا جاتا۔ ام ولد کو بیچنے کا رواج تو عرب میں کم ہی تھا لیکن تھوڑا بہت پایا جاتا تھا۔ اسلام نے اس ضمن میں یہ اصلاح کی کہ بچے والی لونڈی جسے ام ولد کہا جاتا ہے، کی خدمات کی منتقلی کو قطعی طور پر ممنوع قرار دیا گیا۔ ایسی لونڈی اپنے خاوند کی بیوی کے ہم پلہ قرار پائی۔ اس کے بچے کا بھی معاشرے میں وہی مقام قرار پایا جو کہ آزاد عورت کے بچے کا تھا۔

    حدثنا عبد اللّه بن محمد النفيلي، ثنا محمد بن سلمة، عن محمد بن إسحاق، عن خطَّاب بن صالح مولى الأنصار، عن أمِّه، عن سلامة بنت معقل امرأة من خارجة قيس عَيْلان، قالت: قَدِمَ بي عمي في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو أخي أبي اليَسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب ثم هلك، فقالت امرأته: الآن واللّه تباعين في دَيْنِهِ، فأتيت رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم فقلت: يارسول اللّه، إني امرأة من خارجة قيس عيلان قدم بي عمي المدينة في الجاهلية، فباعني من الحباب بن عمرو أخي أبي اليَسر بن عمرو، فولدت له عبد الرحمن بن الحباب، فقالت امرأته: الآن واللّه تباعين في دَيْنه، فقال رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم: "من ولِيُّ الحباب؟" قيل: أخوه أبو اليسر بن عمرو، فبعث إليه فقال: "أعتقوها، فإِذا سمعتم برقيقٍ قدم عليَّ فأتوني أعوضكم منها" (ابو داؤد، کتاب العتق، حديث 3953)

    سلامہ بنت معقل بیان کرتی ہیں کہ میں خارجہ قیس عیلان سے تعلق رکھتی ہوں اور اپنے چچا کے ساتھ آئی تھی۔ میرے چچا نے مجھے دور جاہلیت میں حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا تھا جو کہ ابی الیسر بن عمرو کے بھائی تھے۔ میرے ہاں ان سے عبدالرحمٰن بن حباب کی پیدائش ہوئی۔ اس کے بعد حباب فوت ہو گئے۔ ان کی بیوی کہنے لگی، "خدا کی قسم اب تو ہم اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے تمہیں بیچیں گے۔"

    میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی، "یا رسول اللہ! میں خارجۃ قیس علیان سے اپنے چچا کے ساتھ دور جاہلیت میں مدینہ آئی تھی۔ انہوں نے مجھے حباب بن عمرو کے ہاتھ بیچ دیا تھا اور میرے بطن سے عبدالرحمٰن بن حباب کی پیدائش ہوئی ہے۔ اب ان کی بیوی کہہ رہی ہے کہ وہ ان کا قرض ادا کرنے کے لئے مجھے بیچ دیں گی۔" آپ نے فرمایا، "حباب کے بعد خاندان کا سرپرست کون ہے؟" کہا گیا، "ان کے بھائی ابوالیسر بن عمرو۔" آپ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا، "انہیں آزاد کر دو۔ جب بھی تم کسی غلام کے بارے میں سنو تو میرے آ جایا کرو۔ میں تمہیں اس کا معاوضہ دوں گا۔"

    حدّثنا أحَمَدُ بْنُ يَوسُفَ. نا أَبُو عَاصِمٍ، ثنا أَبو بَكْرٍ، يَعْنِي النَّهْشَلِيَّ، عَنِ الحُسَيْنِ ابنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: ذُكِرِتْ أُمُّ إِبْرَاهِيمَ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم. فَقَالَ: ((أَعْتَقَهَا وَلَدُهَا)). (ابن ماجة، كتاب العتق، حديث 2516)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے ام ابراہیم (ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا) کا ذکر کیا گیا۔ آپ نے فرمایا، "اس کے بچے نے اسے آزاد کروا دیا ہے۔"

    حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّد ومحمد بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَالاَ: ثنا وَكِيعٌ. ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عِكْرِمَة، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَالَ: قَال رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ((أَيُّمَا رَجلٍ وَلَدَتْ أمَتُهُ مِنُ، فَهِيَ مُعْتَقَةٌ عَنْ دُبُرٍ مِنْهُ)). (ابن ماجة، كتاب العتق، حديث 2515، مشکوۃ، کتاب العتق، حديث 3394)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جس شخص کے ہاں بھی کسی لونڈی سے بچہ پیدا ہو جائے، تو وہ اس کے فوت ہوتے ہی آزاد ہو جائے گی۔"

    ان دونوں احادیث کی سند میں اگرچہ حسین بن عبداللہ ضعیف راوی ہیں لیکن اس حدیث کی دیگر صحیح اسناد بھی موجود ہیں۔ دارمی میں یہی حدیث صحیح سند سے روایت کی گئی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا یہی فرمان تھا کہ ام ولد کی منتقلی کو مکمل طور پر روک کر اس کی آزادی پر عمل درآمد کیا جائے۔

    نا عبد الله بن إسحاق بن إبراهيم البغوي نا أبو زيد بن طريف نا إبراهيم بن يوسف الحضرمي نا الحسن بن عيسى الحنفي عن الحكم بن أبان عن عكرمة عن بن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أم الولد حرة وإن كان سقطا. (دارقطنی، كتاب المکاتب، مسند ابن الجعد)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "ام ولد آزاد ہی ہے اگرچہ اس کا حمل ساقط ہو جائے۔"

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ام ولد کی آزادی کو بچے کے پیدا ہونے سے مشروط نہیں فرمایا بلکہ محض حمل ٹھہر جانے سے مشروط فرما دیا اگرچہ وہ حمل بعد میں ضائع بھی ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس ضمن میں سختی سے ام ولد کی آزادی کو نافذ کیا۔

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ : أَيُّمَا وَلِيدَةٍ وَلَدَتْ مِنْ سَيِّدِهَا، فَإِنَّهُ لاَ يَبِيعُهَا، وَلاَ يَهَبُهَا، وَلاَ يُوَرِّثُهَا, وَهُوَ يَسْتَمْتِعُ بِهَا، فَإِذَا مَاتَ فَهِيَ حُرَّةٌ. (موطا مالک، کتاب العتق، حديث 2248)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا: جس لونڈی کے بھی اپنے آقا سے بچہ پیدا ہو، تو اس کی خدمات کو نہ تو بیچا جائے گا، نہ ہی کسی کو تحفتاً منتقل کیا جائے گا، نہ ہی وراثت میں منتقل کیا جائے گا۔ وہ مالک ہی اس سے فائدہ اٹھائے گا اور اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو گی۔
     
  15. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 10: غلاموں میں اضافے کا سدباب


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ دور قدیم میں مختلف معاشروں میں نئے غلاموں میں اضافے کے لئے مختلف طریقے رائج تھے جن کی تفصیل یہ ہے:

    · بچوں، خواتین اور مردوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جائے۔

    · کسی آبادی پر حملہ کر کے اس کے تمام شہریوں کو غلام بنا لیا جائے۔

    · کسی شخص کو اس کے کسی جرم کی پاداش میں حکومت غلام بنا دے۔

    · اگر کسی کو کوئی لاوارث بچہ، عورت یا مرد ملے تو وہ اسے غلام بنا لے۔

    · قرض کی ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں مقروض کو غلام بنا دیا جائے۔

    · غربت کے باعث کوئی شخص خود کو یا اپنے بیوی بچوں کو فروخت کر دے۔

    · پہلے سے موجود غلاموں کی اولاد کو بھی غلام ہی قرار دے دیا جائے۔

    · جنگ جیتنے کی صورت میں فاتحین، مفتوحین کو غلام بنا دیں۔

    دین اسلام نے اس ضمن میں جو اصلاحات کیں، ان کی تفصیل ہم الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کرتے ہیں۔ جنگی قیدیوں کی تفصیل ہم اگلے باب میں بیان کریں گے۔

    اغوا یا حملہ کر کے غلام بنا لینے پر پابندی

    اسلام سے پہلے دنیا بھر میں یہ معمول تھا کہ مختلف قومیں اور قبائل ایک دوسرے پر حملہ کر کے انہیں غلام بنا لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بردہ فروشوں کے گروہ سرگرم عمل رہتے اور بچوں وغیرہ کو اغوا کر کے انہیں غلام بنا لیتے۔ سیدنا زید بن حارثہ، سلمان فارسی اور صہیب رومی رضی اللہ عنہم کو اسی طریقے سے اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا تھا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کسی بھی آزاد شخص، خواہ وہ بالغ مرد و عورت ہو یا بچہ، کو اغوا کر کے غلام بنا لینے کو ایک عظیم جرم قرار دیا۔

    حدثني بشر بن مرحوم: حدثنا يحيى بن سليم، عن إسماعيل بن أمية، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (قال الله: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر، ورجل باع حرا فأكل ثمنه، ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره) (بخاری، كتاب البيوع، حديث 2227)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ تین افراد ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں قیامت کے دن میں خود ہی دعوی دائر کر دوں گا۔ ایک وہ شخص جس نے میرا نام لے کر وعدہ کیا اور پھر اسے توڑ دیا۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد شخص کو پکڑ کر بیچا اور اس کی قیمت کھا گیا۔ تیسرا وہ شخص جس نے کسی مزدور کو کام پر رکھا، اس سے پورا کام لے لیا لیکن اس کی اجرت عطا نہیں کی۔"

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کی جو بچوں کو اغوا کر کے غلام بناتا ہو۔ ایک ضعیف حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بھی اسی سزا کا ذکر ملتا ہے۔ (دیکھیے، بیہقی، معرفۃ السنن و الآثار، کتاب السرقۃ)

    اسلام سے پہلے کے زمانے میں عرب میں جنگ و جدال عام تھا۔ بعض قبائل کا پیشہ ہی لوٹ مار ہوا کرتا تھا۔ بدامنی کا یہ عالم تھا کہ سوائے چار ماہ کے کسی قافلے کا عرب کے اطراف میں سفر کرنا ہی ایک مشکل کام تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین نے عرب میں ایسا امن قائم کیا کہ اب اگر کوئی خاتون پورے زیورات پہن کر عرب کے ایک سرے سے دوسرے تک بھی اکیلی چلی جاتی تو کوئی اس سے تعرض کرنے والا نہ تھا۔ اس امن کا نتیجہ یہ نکلا کہ عملی طور پر اغوا کر کے غلام بنا لینے کا خاتمہ کر دیا گیا۔

    جرم کی پاداش میں غلام بنا لینے پر پابندی

    اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جن جرائم پر انتہائی سزائیں مقرر کی ہیں، وہ سب کی سب جسمانی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف جرائم کی سزاؤں کو حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کی پوری تاریخ میں کبھی کسی جرم میں کسی بھی شخص کو غلام بنا لینے کی سزا نہیں دی گئی۔ بعد کے ادوار میں بالعموم اسی پر عمل رہا ہے۔ اس کی وجہ وہی وعید ہے کہ جو کسی آزاد کو غلام بنا لے، اس پر دعوی اللہ تعالی خود قائم کرے گا۔

    لاوارثوں کو غلام بنا لینے پر پابندی

    اسلام میں لاوارث افراد کو غلام بنا لینے کی بھی قطعی ممانعت کی گئی۔ پوری امت مسلمہ میں یہ اجماعی اصول طے پا گیا کہ جس شخص یا بچے کے بارے میں یہ علم نہ ہو سکے کہ وہ آزاد ہے یا غلام، اسے آزاد ہی تصور کیا جائے گا۔ اسلام سے پہلے کے زمانے میں ایسا نہیں تھا بلکہ لاوارث بچوں کے بارے میں یہ فرض کر لیا جاتا تھا کہ وہ غلام ہی ہیں۔ اس اجماعی اصول پر پوری طرح عمل کیا گیا۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَعْتَقَ لَقِيطًا. (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 22327)

    سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لاوارث بچے کو آّزاد قرار دیا۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، عَنْ زُهَيْرٍ الَعَنَسِيّ أَنَّ رَجُلاً الْتَقَطَ لَقِيطًا فَأَتَى بِهِ عَلِيًّا , فَأَعْتَقَهُ وَأَلْحَقَهُ فِي مِئَةٍ. (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 33609)

    زھیر عنسی کہتے ہیں کہ ایک شخص کو ایک بچہ پڑا ہو ملا۔ اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے اسے آزاد قرار دیا اور (اس کے خرچ کی ذمہ داری کو) سو افراد کے ذمے لگا دیا۔

    موجودہ دور میں دین اسلام اور مسلمانوں کے مشہور نقاد لیوس برنارڈ لکھتے ہیں:

    But Qur'anic legislation, subsequently confirmed and elaborated in the Holy Law, brought two major changes to ancient slavery which were to have far-reaching effects. One of these was the presumption of freedom; the other, the ban on the enslavement of free persons except in strictly defined circumstances….. It became a fundamental principle of Islamic jurisprudence that the natural condition, and therefore the presumed status, of mankind was freedom, just as the basic rule concerning actions is permittedness: what is not expressly forbidden is permitted; whoever is not known to be a slave is free. (Race & Slavery in Middle East)

    قرآنی قانون نے، جس کی بعد میں مقدس قانون کی شکل میں توثیق اور توضیح کی گئی، قدیم غلامی میں دو تبدیلیاں پیدا کیں جس کے اثرات دور رس تھے۔ ایک تو یہ کہ آزادی کو اصول کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ دوسرا یہ کہ سختی سے متعین کردہ حالات کے علاوہ آزاد افراد کو غلام بنا لئے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔۔۔۔۔یہ اسلامی فقہ کا ایک بنیادی اصول بن گیا کہ انسانوں کی فطری حالت، بنیادی طور پر آزادی ہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ (اسلام میں) یہ بنیادی اصول ہے کہ جس چیز کے حرام ہونے کو بیان نہیں کیا گیا، وہ جائز اور حلال ہے۔ اسی اصول پر یہ طے پایا کہ جس شخص کے غلام ہونے کا علم نہیں ہے، وہ آزاد ہی ہے۔

    قرض کی عدم ادائیگی پر غلام بنا لینے پر پابندی

    دور قدیم سے ہی یہ اصول چلا آ رہا تھا کہ قرض کی عدم ادائیگی کے باعث کسی شخص کو اس کے بیوی بچوں سمیت غلام بنا لیا جائے۔ اس ضمن میں اسلام نے نہ صرف یہ کہ قرض ادا نہ کر سکنے والے شخص کو غلام بنا لینے کی ممانعت کر دی بلکہ اس کے علاوہ ایسے اقدامات بھی کئے جن کے نتیجے میں قرض دار کا استحصال کرنے کی تمام صورتیں ممنوع قرار پائیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

    الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لا يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔ يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنْ الرِّبَا إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ (البقرة 2:275-279)

    جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ (سزا) اس لئے ہو گی کہ وہ کہتے ہیں کہ تجارت کرنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہوچکا وہ اس کا ہے اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہو گا۔ اور جس نے دوبارہ سود لینا شروع کر دیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں (جلتے) رہیں گے۔

    اللہ سود کو نیست و نابود (یعنی بےبرکت) کرتا ہے اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے رہے ان کو ان کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) ان کو نہ کچھ خوف ہوا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔

    مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو تمہیں خبردار کیا جاتا ہے (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ اگر تم توبہ کرلو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ ہی کوئی تم پر ظلم کرے۔

    قرآن مجید نے سود لینے والوں کے لئے نہ صرف آخرت کے عذاب کی وعید سنائی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اگر وہ سود لینے کو ترک نہ کریں گے تو پھر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم، جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہو گی، سے جنگ کے لئے تیار رہنا پڑے گا۔ اس جنگ کی نوبت اس لئے نہ آئی کہ مسلمانوں نے اپنے درمیان سود کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر یہ مثال قائم فرمائی کہ آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا سودی قرضہ بہت سے لوگوں کے ذمہ واجب الادا تھا، آپ نے اس پورے کے پورے سود کو معاف فرما دیا۔

    قرآن مجید نے یہ حکم دیا کہ اگر قرض دار تنگ دست ہو تو اصل زر کی وصولی کے لئے بھی اسے مہلت دی جائے اور بہتر یہی ہے اس اصل قرض کو بھی معاف کر دیا جائے۔

    وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ۔ (البقرة 2:280)

    اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) آسانی کے حاصل ہونے تک مہلت دو اور اگر (اصل زر) معاف ہی کر دو توتمہارے لئے یہ زیادہ اچھا ہے اگر تم اس بات کو سمجھتے ہو۔

    بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تنگ دست مقروضوں کے لئے یہ حکم جاری فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو اس کے قرض کی ادائیگی حکومت کے ذمہ ہو گی۔

    حدثني محمد بن رافع. حدثنا شبابة. قال: حدثني ورقاء عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال (والذي نفس محمد بيده! إن على الأرض من مؤمن إلا أنا أولى الناس به. فأيكم ما ترك دينا أو ضياعا فأنا مولاه. وأيكم ترك مالا فإلى العصبة من كان)۔ (مسلم، كتاب الفرائض، حديث 4517)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اس کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے! روئے زمین پر کوئی ایسا مسلمان نہیں جس سے میرا قریب ترین تعلق نہ ہو۔ تم میں سے جو شخص کے ذمے قرض یا اور کوئی ادائیگی ہو اور وہ فوت ہو جائے تو میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ تم میں سے اگر کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے۔"

    ان اصلاحات کے نتیجے میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں غلام بنا لئے جانے کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

    غربت کے باعث اپنی ذات یا اولاد کو فروخت کرنے پر پابندی

    دنیا کے بہت سے حصوں میں لوگ غربت کے باعث اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو فروخت کر دیا کرتے تھے اور اب بھی ایسا کرتے ہیں۔ دین اسلام میں ایسے لوگوں کو خریدنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی ایسے شخص کو خریدا ہے۔ مسلمان معاشرے کو بالعموم اور حکومت کو بالخصوص ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے معاشرے میں غربت کے خاتمے کے لئے جو اقدامات کئے ان کی تفصیل ہم "نیم غلامی سے متعلق اصلاحات" کے تحت تفصیل سے بیان کر چکے ہیں۔

    ان تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے زکوۃ کا نظام قائم فرمایا جس کا بنیادی مقصد غربت کا خاتمہ ہی تھا۔ آپ نے زمینوں کی آباد کاری پر بھرپور توجہ دی اور جو لوگ زمین سے محروم تھے، انہیں زمینیں عطا کیں تاکہ وہ انہیں آباد کر کے اپنی مالی حالت بہتر بنا سکیں۔ اس ضمن میں یہ شرط رکھی گئی کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین کے جتنے حصے کو آباد نہ کر سکا تو اس کی فالتو زمین اس سے لے کر کسی اور ضرورت مند کو دے دی جائے گی۔ زمیندار اور مزارعوں سے متعلق ہر قسم کی استحصالی شرائط سے منع فرما دیا گیا۔

    ان اصلاحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی حکومت میں غربت کا تقریباً خاتمہ ہو گیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تو یہ مشہور ہے کہ لوگ خیرات کی رقم لے کر ان افراد کو ڈھونڈتے تھے جو اسے قبول کرنے پر تیار ہوں لیکن اس رقم کو قبول کرنے والا بڑی مشکل سے ہی ملا کرتا تھا۔ اس طریقے سے وہ وجہ ہی سرے سے ختم کر دی گئی جس کے باعث کوئی اپنی ذات یا اولاد کو فروخت کرنے پر تیار ہوتا تھا۔ لوئیس برنارڈ اس ضمن میں لکھتے ہیں۔

    The enslavement of free Muslims was soon discouraged and eventually prohibited. It was made unlawful for a freeman to sell himself or his children into slavery, and it was no longer permitted for freemen to be enslaved for either debt or crime, as was usual in the Roman world and, despite attempts at reform, in parts of Christian Europe until at least the sixteenth century. (Race & Slavery in Middle East)

    آزاد مسلمانوں کو غلام بنائے جانے کی حوصلہ شکنی کی گئی اور بالآخر اسے مکمل طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا۔ یہ بات خلاف قانون قرار دی گئی کہ کوئی شخص اپنی ذات یا اولاد کو بطور غلام فروخت کر سکے۔ اس بات کی اجازت بھی ختم کر دی گئی کہ کسی آزاد شخص کو قرض کی عدم ادائیگی یا کسی جرم کی پاداش میں غلام بنایا جائے گا۔ (غلام بنانے کے یہ تمام طریق ہائے کار) رومی دنیا میں عام تھے اور اصلاح کی تمام تر کوششوں کے باوجود عیسائی دنیا میں یہ طریق ہائے کار سولہویں صدی تک چلتے رہے ہیں۔

    غلاموں کی آئندہ آنے والی نسلوں کی آزادی

    دنیا بھر میں یہ دستور رائج تھا کہ غلاموں کی آئندہ نسلیں بھی غلام ہوں گی۔ دنیا کے تمام خطوں میں غلاموں کو عام طور پر شادی کی اجازت بھی اسی وجہ سے دی جاتی تھی کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے غلاموں کی فوج میں اضافہ کر سکیں گے۔ لونڈیوں سے عصمت فروشی کروانے کا مالکوں کو ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ اس کے نتیجے میں ان کے پاس لونڈیوں کی ناجائز اولاد کی صورت میں مزید غلام میسر آ جاتے۔ ان غلاموں کا کوئی متعین باپ بھی نہ ہوا کرتا جو ان کی آزادی کی کوشش کر سکتا۔

    ظہور اسلام کے وقت غلاموں کی اولاد کی جو اقسام دور جاہلیت سے چلی آ رہی تھیں، وہ یہ تھیں:

    · آقاؤں کے اپنی لونڈیوں سے پیدا ہونے والے بچے

    · آزاد خواتین کے غلام شوہروں سے پیدا ہونے والے بچے

    · لونڈیوں کے اپنے آزاد خاوندوں سے پیدا ہونے والے بچے

    · غلام باپ اور کنیز ماں کے بچے

    آقاؤں کی اپنی لونڈیوں سے اولاد

    دور جاہلیت میں ان میں سے ہر قسم کے بچوں کو بالعموم غلام ہی سمجھا جاتا تھا۔ ان میں سے ان بچوں کی حالت نسبتاً بہتر تھی جو آقا اور لونڈی کے ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں لیکن یہ بھی اپنے ان سوتیلے بہن بھائیوں کی نسبت کمتر درجے کے حامل ہوا کرتے تھے جو ان کے باپ اور ایک آزاد عورت کے ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں۔ ان بچوں کے حقوق وراثت وغیرہ کے معاملات میں اپنے آزاد بہن بھائیوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر تھے۔

    اسلام نے ان بچوں سے متعلق جو اصلاحات کیں، ان کے مطابق آقا اور لونڈی کے تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کو مکمل طور پر آزاد اور اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے ہم پلہ قرار دیا۔ انہیں وراثت میں بھی وہی حقوق دیے گئے جو ان کے بہن بھائیوں کو حاصل تھے۔ نہ صرف اولاد بلکہ اس اولاد کی کنیز ماں کے خود بخود آزاد ہو جانے کا قانون بنا دیا گیا جس کی تفصیل ہم "ام ولد" کے عنوان کے تحت بیان کر چکے ہیں۔

    آزاد ماں اور غلام باپ کی اولاد

    بالکل یہی معاملہ ان بچوں کے ساتھ کیا گیا جن کا باپ غلام اور ماں آزاد ہو۔ ان بچوں کو بھی مکمل طور پر آزاد قرار دے دیا گیا۔

    حدثنا يعلى عن الأعمش عن إبراهيم قال قال عمر المملوك يكون تحته الحرة يعتق الولد بعتق أمه فإذا عتق الأب جر الولاء.‏ (دارمی، کتاب الفرائض، حدیث 3170)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "غلام باپ اور آزاد خاتون کے بچے اپنی ماں کے آزاد ہونے کے باعث آزاد ہی ہوں گے۔ جب ان کا باپ آزاد ہو گا تو (ان بچوں کی) ولاء کا رشتہ (باپ کے سابقہ مالک) سے قائم ہو جائے گا۔"

    ابن تیمیہ، امام احمد بن حنبل کا یہ نقطہ نظر بیان کرتے ہیں کہ آزاد ماں اور غلام باپ کے بچے بھی آزاد ہی ہوں گے۔

    قال أحمد : إذا تزوج العبد حرة عتق نصفه . ومعنى هذا ، أن أولاده يكونون أحراراً وهم فرعه ، فالأصل عبد وفرعه حر والفرع جزء من الأصل .‏ (ابن تیمیہ، السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعیۃ)

    احمد بن حنبل کہتے ہیں، "جب کوئی غلام کسی آزاد خاتون سے شادی کر لے تو اس کا نصف آزاد ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس غلام کی اولاد آزاد ہو گئی کیونکہ وہ اسی کی ایک شاخ ہے۔ تنا تو غلام ہے لیکن شاخیں آزاد ہیں اور شاخ تو تنے کا ایک حصہ ہی ہے۔"

    آزاد باپ اور غلام ماں کی اولاد

    ایسے بچے جن کی ماں غلام اور باپ آزاد ہو تو ان کے ضمن میں کوئی مرفوع حدیث ہمیں نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ رہی ہو گی کہ ایسا کوئی مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہی نہ ہوا ہو گا۔ اول تو ایسے جوڑوں کی تعداد ہی بہت کم تھی جن میں آزاد مردوں نے غلام خواتین سے نکاح کی ہو کیونکہ لونڈیوں کی اخلاقی حالت کے باعث ان سے آزاد مرد بہت کم نکاح کیا کرتے تھے۔ دوسرے یہ کہ جو ایسے جوڑے ہوں گے بھی، انہوں نے اپنے مالکان کو بچوں کی آزادی پر راضی کر لیا ہو گا اور عدالت میں مقدمے کی نوبت ہی نہ آئی ہو گی۔

    سیدنا عمر یا عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا جس میں ایک لونڈی نے جھوٹ بول کر خود کو آزاد عورت ظاہر کر کے شادی کر لی۔ اس مقدمے میں خلیفہ وقت نے ان بچوں کے آزاد باپ کو حکم دیا کہ وہ فدیہ ادا کر کے اپنے بچوں کو آزاد کروا لے۔ (موطاء مالک، کتاب الاقضیۃ، حدیث 2160)۔ ایک اور مقدمہ سیدنا عبداللہ بن مسعود یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس پیش کیا گیا تو انہوں نے ایسے بچوں کو غلام بنانے سے منع فرما دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ کیا:

    قال (احمد): و اخبرنا ثقہ عن ابن ابی ذئب، عن الزھری، عن سعید بن المسیب، ان عمر بن الخطاب کان یقضی فی العرب الذین ینکحون الاماء بالفداء بالغرۃ۔ (بیہقی، معرفۃ السنن والآثار، کتاب السیر، حدیث 17964)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے عربوں سے جو لونڈیوں سے نکاح کر لیتے تھے، (کی اولاد کے بارے میں) یہ فیصلہ کیا کہ وہ فدیہ ادا کر کے (اپنی اولاد کو آزاد کروا سکتے ہیں۔)

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عَبْدِ اللهِ فَقَالَ : إنَّ عَمِّي زَوَّجَنِي وَلِيدَتَهُ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَسْتَرِقَّ وَلَدِي ، قَالَ : لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ. (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 21277)

    ایک شخص عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا، میرے چچا نے اپنی لونڈی کی شادی مجھ سے کر دی تھی۔ اب وہ میری اولاد کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا، "اس ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔"

    ابن کثیر نے امام شافعی کا ایک نقطہ نظر یہ درج کیا ہے کہ ماں یا باپ میں سے اگر ایک بھی آزاد ہو تو ان کے بچے بھی آزاد ہی تصور کئے جائیں گے۔ (تفسیر سورۃ نساء 4:25)

    غلام ماں اور غلام باپ کی اولاد

    وہ بچے جن کے ماں اور باپ دونوں ہی غلام ہوں، ان کے بارے میں بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کوئی حدیث نہیں مل سکی۔ تفسیر و فقہ کی کتب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے تابع ہی ہوں گے۔ جب تک ان کے والدین غلام رہیں گے، یہ بچے بھی غلام ہی تصور کئے جائیں گے اور جب والدین آزاد ہوں گے یا ان میں سے کوئی مکاتبت کرے گا تو یہ بچے خود بخود ان کے ساتھ ہی آزاد ہو جائیں گے۔

    حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنِ الْعُمَرِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وَلَدُ أُمِّ الْوَلَدِ بِمَنْزِلَتِهَا. (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 21000)

    نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، "لونڈی کی (اپنے مالک کے علاوہ کسی اور شوہر کی اولاد) اپنی ماں کے درجے پر ہے (یعنی وہ ماں کے ساتھ ہی آزاد ہو جائے گی۔)

    حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ فِي الرَّجُلِ يُزَوِّجُ أُمَّ وَلَدِهِ عَبْدَهُ فَتَلِدُ لَهُ أَوْلاَدًا ، قَالَ : هُمْ بِمَنْزِلَةِ أُمِّهِمْ ، يَعْتِقُونَ بِعِتْقِهَا وَيُرَقُّونَ بِرِقِّهَا ، فَإِذَا مَاتَ سَيِّدُهُمْ عَتَقُوا. (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 20996)

    (تابعی عالم) ابراہیم نخعی نے ایسی صورت کے بارے میں فتوی دیا جس میں ایک شخص نے اپنی ام ولد کی شادی اپنے غلام سے کر دی تھی اور پھر اس غلام میں سے اس کی اولاد بھی پیدا ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا، "وہ اپنی ماں کے درجے پر ہوں گے۔ جب تک وہ غلامی کی حالت میں رہے گی، یہ بھی غلام رہیں گے اور جب وہ مکمل آزاد ہو جائے گی تو یہ بھی آزاد ہو جائیں گے۔ جب ماں کا آقا فوت ہو گا تو یہ سب کے سب آزاد ہو جائیں گے۔"

    اس معاملے میں بھی کسی مرفوع حدیث کے نہ پائے جانے کا سبب بنیادی طور پر یہی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں پیش نہیں آیا جس میں کسی غلام یا لونڈی کے مالک نے ان کے بچوں کو آزاد کرنے سے انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اس اصول کو مان لیا گیا ہے کہ غلاموں کے نابالغ بچے اپنے والدین کے تابع ہی ہوں گے۔ اگر ان بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے ان کے والدین آزاد نہیں ہو پاتے، جس کا امکان عہد رسالت میں بہت ہی کم تھا، تو ان بچوں کو خود یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ یہ مکاتبت کے ذریعے اپنی آزادی خرید سکیں۔

    غلاموں کے بچوں کو اپنے والدین کی حالت پر برقرار رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر انہیں پیدائش کے وقت سے ہی آزاد کر دیا جاتا تو ان کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ ان بچوں کی کفالت ان کے والدین کی کفالت کے ساتھ ساتھ والدین کے آقاؤں کے ذمہ تھی۔ اگر ان بچوں کو پیدائش کے وقت ہی آزاد قرار دے دیا جاتا تو پھر ان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے والدین کے آقاؤں پر کیسے عائد کی جاتی؟ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے والدین کے تابع ہی رہنے دیا گیا اور بالغ ہونے پر اپنی آزادی خریدنے کا حق انہیں دے دیا گیا۔
     
  16. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 11: جنگی قیدیوں سے متعلق خصوصی اصلاحات (1)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    جنگی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ

    دین اسلام سے پہلے یہ رواج چلا آ رہا تھا کہ جنگ کی صورت میں فاتح مفتوح کے تمام جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا اور اس سے نہایت ہی غیر انسانی سلوک کیا کرتا تھا۔ نہ صرف فوجیوں کو بلکہ ان کے ساتھ ساتھ مفتوحہ ممالک کے عام لوگوں کو بھی غلام بنا لیا جاتا تھا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت، 1950ء میں جنیوا کنونشن کے نافذ ہونے تک یہ سلوک جائز اور درست سمجھا جاتا تھا۔ جنیوا کنونشن سے تیرہ سو برس پہلے ہی قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی ہی میں جنگی قیدیوں سے انسانی سلوک کرنے کی تلقین فرمائی۔

    وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا۔ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا۔ (الدهر 76:8-9)

    (نیک لوگ وہ ہیں جو) اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم تو تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھانا کھلاتے ہیں۔ ہم اس پر تمہاری طرف سے کسی اجر یا شکر گزاری کے طالب بھی نہیں ہیں۔

    مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ جنگ، جنگ بدر کے موقع پر جنگی قیدیوں سے متعلق یہ قانون بیان کر دیا گیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

    فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا۔ (محمد 47:4)

    جب تمہارا انکار کرنے والوں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ، یہاں تک کہ جب تم انہیں قتل (کر کے شکست دے) چکو تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ (اس کے بعد ان جنگی قیدیوں کو) بطور احسان رہا کر دو یا پھر فدیہ لے کر چھوڑ دو۔ یہ سب معاملہ اس وقت تک ہو جب تک لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں۔

    اس آیت میں جنگی قیدیوں کے ساتھ دو ہی معاملات کرنے کا حکم دیا گیا۔ ایک تو یہ کہ انہیں بطور احسان رہا کر دیا جائے اور دوسرے یہ کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تمام جنگوں کا اگر تفصیل سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت بسا اوقات دشمن کے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ذاتی طور پر کوشش کر کے انہیں غلامی سے نجات دلائی۔ بسا اوقات آپ نے خود فدیہ ادا کر کے دشمن کے جنگی قیدیوں کو رہائی عطا فرمائی۔ بعض اوقات آپ نے دشمن ہی کی کسی خاتون سے سسرالی رشتہ قائم کر کے مسلمانوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ ان جنگی قیدیوں کو آزاد کر دیں اور بعض اوقات آپ نے ذاتی طور پر ترغیب دلا کر ان قیدیوں کو غلامی سے بچایا۔

    اسلام کا قانون یہ قرار پایا کہ جو لوگ جنگ میں گرفتار ہوں ان کو یا تو احسان کے طور پر رہا کر دیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑا جائے یا دشمن کے مسلمان قیدیوں سے ان کا مبادلہ کر لیا جائے۔ لیکن اگر یونہی رہا کر دینا جنگی مصالح کے خلاف ہو، اور فدیہ وصول نہ ہو سکے، اور دشمن اسیران جنگ کا مبادلہ کرنے پر بھی رضامند نہ ہو تو مسلمانوں کو حق ہے کہ انہیں غلام بنا کر رکھیں۔ البتہ اس قسم کے غلاموں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک اور رحمت و رافت کے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، ان کو تعلیم و تربیت دینے اور انہیں سوسائئی کے عمدہ افراد بنانے کی ہدایت کی گئی ہے اور مختلف صورتیں ان کی رہائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ (سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات، جلد دوم)

    جنگ نہ کرنے والے غیر مسلموں کو غلام بنانے کی ممانعت

    ایسے غیر مسلم جو مسلمانوں سے جنگ نہیں کرتے، اسلام میں انہیں قطعی طور پر غلام بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ قدیم عرب میں دنیا کے بین الاقوامی قانون کے تحت فاتح مفتوح کے جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا کرتا تھا۔ ان جنگی قیدیوں میں فوجی بھی شامل ہوتے تھے اور عوام بھی۔ اسلام نے ان لوگوں کے خلاف قطعی طور پر کسی بھی کاروائی کو حرام قرار دیا ہے جو جنگ میں شریک نہیں ہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے میں محدود مدت کے لئے صرف ان لوگوں کو غلام بنایا گیا جو کہ جنگ میں شریک ہوا کرتے تھے۔ غیر مقاتلین، خواہ وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں، کے خلاف کسی بھی قسم کی جنگی کاروائی اسلام میں متفقہ طور پر ممنوع ہے۔

    إِلاَّ الَّذِينَ يَصِلُونَ إِلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ أَوْ جَاءُوكُمْ حَصِرَتْ صُدُورُهُمْ أَنْ يُقَاتِلُوكُمْ أَوْ يُقَاتِلُوا قَوْمَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ عَلَيْكُمْ فَلَقَاتَلُوكُمْ فَإِنْ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْا إِلَيْكُمْ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً. (النساء 4:90)

    (ان لوگوں سے جنگ جائز نہیں ہے) جو کسی ایسی قوم سے جا ملیں جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کے ساتھ جنگ بھی جائز نہیں ہے جو تمہارے پاس آتے ہیں لیکن وہ لڑائی سے دل برداشتہ ہیں، نہ تم سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی قوم سے۔ اگر اللہ چاہتا تو انہیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ بھی تم سے جنگ کرتے۔ اگر وہ تم سے کنارہ کش ہو جائیں اور جنگ سے باز رہیں اور تمہاری طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمہارے لئے ان پر دست درازی کا کوئی راستہ کھلا نہیں رکھا ہے۔

    حدثنا قيس بن حفص: حدثنا عبد الواحد: حدثنا الحسن: حدثنا مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من قتل نفساً معاهداً لم يُرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عاماً). (بخاري، كتاب الديات، حديث 6914)

    سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "جس کسی نے معاہدے میں شریک کسی فرد کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا اگرچہ اس کی خوشبو (اتنی ہے) کہ چالیس سال سفر کے فاصلے سے بھی آ جاتی ہے۔

    حدثنا أحمد بن يونس: أخبرنا الليث، عن نافع: أن عبد الله رضي الله عنه أخبره: أن امرأة وجدت في بعض مغازي النبي صلى الله عليه وسلم مقتولة، فأنكر رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل النساء والصبيان. (بخاري، كتاب الجهاد، حديث 3014)

    سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک عورت قتل ہوئی پڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جنگ میں خواتین اور بچوں کو قتل کرنے سے (سختی سے) منع فرما دیا۔

    حمید بن زنجویہ نے کتاب الاموال میں ایک تفصیلی باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے "باب الحکم رقاب اھل الصلح و ھل یحل سباؤھم ام ھم احرار؟" اس کا معنی ہے کہ "اہل صلح کو غلام بنانے کا حکم اور کیا انہیں غلام بنانا جائز ہے یا وہ آزاد ہیں؟" اس باب میں انہوں نے تفصیل سے بہت سی احادیث و آثار اکٹھے کئے ہیں جن کے مطابق، وہ لوگ جو جنگ میں شریک نہیں ہیں، انہیں غلام بنانا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔

    انہوں نے دور صحابہ و تابعین کا یہ متفق اور جاری عمل (سنت) بیان کیا ہے کہ غیر مقاتلین کو قطعی طور پر غلام نہیں بنایا جاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بعض اھل صلح کو غلطی سے قید کر لیا گیا تو انہوں نے ان سب کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح بنو امیہ کے دور میں بعض بربروں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلیفہ بنتے ہی ان سب کو آزاد کرنے کا حکم دیا۔

    اس معاملے میں مسلمانوں کے اہل علم میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔

    عہد رسالت میں متحارب قوتیں

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جنگ کرنے والے چارطرح کے تھے:

    · قریش مکہ: یہ وہ لوگ تھے جن کے سامنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دین اور انسانیت کی دعوت پیش کی۔ انہوں نے نہ صرف اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ اس دعوت کی راہ میں شدید روڑے اٹکائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جب مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی تو یہ اب بھی باز نہ آئے اور طرح طرح سے مدینہ میں مسلمانوں کو تنگ کرنے لگے۔

    · عرب کے یہود: مدینہ میں جو یہودی آباد تھے، میثاق مدینہ کے تحت وہ اسلامی حکومت کے شہری قرار پائے تھے۔ مسلمانوں اور ان کے درمیان معاہدہ تھا کہ کسی ایک فریق پر کسی بھی حملے کی صورت میں وہ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ اس معاہدے کے تحت یہود کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کر دی گئی تھی۔ جب اہل مکہ نے مسلمانوں پر مختلف حملے کئے تو انہوں نے بجائے مسلمانوں کا ساتھ دینے کے الٹا ان کے خلاف سازشیں کیں۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تو یہ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے اور وہاں قلعہ بند ہو کر مدینہ پر حملے کی تیاری کرنے لگے۔

    · لوٹ مار کرنے والے وحشی عرب قبائل: عرب کے اطراف میں ایسے قبائل بکھرے ہوئے تھے جن کا پیشہ ہی لوٹ مار کرنا تھا۔ چونکہ مدینہ ایک زرعی علاقہ تھا اور یہاں زرعی پیداوار کے علاوہ جانوروں کی چراگاہیں بھی تھیں، اس وجہ سے مدینہ ان لوگوں کا خاص ہدف تھا۔ مدینہ کی ریاست سے انہیں یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر یہ ریاست مضبوط بنیادوں پر مستحکم ہو گئی تو انہیں لوٹ مار کا پیشہ ترک کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے یہ لوگ مدینہ پر بار بار حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرتے رہے۔

    · سلطنت روم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسلام کی دعوت قیصر روم، ہرقل (Herculeas) کے سامنے بھی رکھی۔ ہرقل ایک صاحب علم بادشاہ تھا۔ اس نے قریش مکہ کے وفد سے حضور کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس نے اپنے ماتحت حبشہ کےبادشاہ نجاشی کے اسلام قبول کر لینے پر بھی ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔ اس حقیقت کو پہچاننے کے باوجود ہرقل، اپنے ساتھیوں اور مذہبی علماء کے دباؤ پر، آپ سے جنگ کرنے پر تیار ہو گیا۔ رومی افواج کی ایک بڑی جنگ مسلمانوں کے ایک گروہ سے موتہ کے مقام پر ہوئی۔ جنگ تبوک میں ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بذات خود آمد کا سن کر مقابلہ کرنے سے پہلوتہی کی کیونکہ اہل کتاب ہونے کے ناتے اسے یہ علم تھا کہ خدا کے رسول کے سامنے کوئی فوج ٹھہر نہیں سکتی۔

    عہد رسالت میں جنگی قیدی

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دس سال کے عرصے میں ان چاروں گروہوں سے جنگ کرنے کے لئے 72 سے زائد مہمات روانہ کیں۔ اگر ان تمام جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جنگی قیدیوں کے ساتھ یہی دو معاملات کئے۔ اس کے علاوہ بسا اوقات آپ کے زمانے میں جنگی قیدیوں کو غلام بھی بنایا گیا لیکن سیرت طیبہ کو اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے ایسے واقعات محض استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔

    جن جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا، انہیں بھی ہمیشہ کے لئے غلام نہیں بنایا گیا بلکہ ان کی حیثیت قیدیوں کی سی تھی۔ قیدیوں کو سرکاری جیل میں رکھنے کی بجائے مختلف افراد کے حوالے کر دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں عرب معاشرے میں جیل کا ادارہ معرض وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ تھی قیدیوں کو ایک جگہ رکھنے کی بجائے مختلف افراد کی تحویل میں دے دیا جاتا۔ یہ افراد ان قیدیوں کے ساتھ اس طرح سے معاملہ کرتے:

    · دوران قید، قیدیوں کی ہر بنیادی ضرورت کا خیال رکھا جاتا۔ قیدیوں کے ورثا سے رابطہ کر کے ان سے فدیہ وصول کیا جاتا اور قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا۔

    · قیدیوں سے کچھ عرصہ خدمت لینے کے بعد انہیں رہا کر دیا جاتا۔

    · دوران قید، قیدیوں کی اخلاقی تربیت کی جاتی۔ انہیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا جاتا۔ اگر کوئی قیدی اسلام قبول کر لیتا تو اسے فوراً آزاد کر دیا جاتا۔

    · سرکاری سطح پر ان قیدیوں کے بدلے، دشمن کی قید میں موجود مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کر لیا جاتا۔

    · ان قیدیوں کو وہی انسانی حقوق فراہم کئے جاتے تھے جن کی تلقین اسلام نے غلاموں اور زیر دستوں سے متعلق کی تھی۔

    · قیدیوں کو اپنی گرفتاری کے فوراً بعد مکاتبت کا حق حاصل ہوتا تھا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر یہ تلقین فرما دی تھی کہ دشمن کے جو افراد جنگ میں حصہ نہ لیں، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے۔ اس دور میں عام رواج تھا کہ خواتین بھی فوج کے ساتھ آیا کرتی تھیں۔ ایک طرف وہ شعر و نغمہ کے ذریعے اپنے سپاہیوں کے حوصلے بڑھاتیں اور دوسری طرف زخمیوں کی خبرگیری کرتیں۔

    ایسی خواتین جنگ میں براہ راست شریک ہوا کرتی تھیں۔ ان کے ساتھ پوری دنیا میں یہ معاملہ کیا جاتا تھا کہ انہیں گرفتار کر کے طوائف بنا دیا جاتا تھا۔ اسلام میں چونکہ قحبہ گری کی مکمل ممانعت موجود ہے، اس وجہ سے اگر ایسی خواتین جنگی قیدی بنائی جاتیں تو انہیں مسلم معاشرے میں جذب کرنے کا یہ طریق کار وضع کیا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی تحویل میں دے کر ان کے خاندان کا حصہ بنا دیا جاتا اور کچھ عرصے میں یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن کر آزاد ہو جایا کرتی تھیں۔

    پچھلے ابواب میں ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ اس خاتون کو کم و بیش وہی حقوق حاصل ہوا کرتے تھے جو اس شخص کی آزاد بیوی کو حاصل ہوتے تھے۔ ایسی خواتین کو اگر اپنا آقا پسند نہ ہوتا تو انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ یہ فوری طور پر مکاتبت یا سرکاری مدد کے ذریعے اس سے نجات حاصل کر سکتی تھیں۔

    ان خواتین کو فوری طور پر آزاد نہ کرنے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ بہرحال یہ خواتین دشمن فوج سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے شوہر اور بھائی وغیرہ جنگ میں مارے جا چکے ہوتے تھے۔ ان خواتین کو مسلم معاشرے سے فوری طور پر کوئی ہمدردی بھی نہ ہوا کرتی تھی۔ انہیں فوری طور پر آزاد کر دینے کا نتیجہ یہی نکلتا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے انہیں عصمت فروشی کا سہارا لینا پڑتا جس کا نتیجہ معاشرے کی اخلاقی تباہی کے سوا اور کچھ نہ نکل سکتا تھا۔ اس کی بجائے ان کے لئے باعزت راستہ یہ نکالا گیا کہ انہیں مختلف افراد کی ذرا کم درجے ہی کی سہی لیکن بیوی بنا دیا جاتا اور کچھ ہی عرصے میں جب یہ مسلم معاشرے کا حصہ بن جاتیں تو انہیں ام ولد، مکاتبت اور سرکاری امداد کے قوانین کے تحت آزاد کر دیا جاتا۔

    مسلم معاشروں کے برعکس دیگر معاشروں میں یہ طریق کار اختیار کیا گیا تھا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی خواتین کو لونڈی بنا کر عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا اور انہیں اپنی اولاد کے ساتھ ساتھ آقا کو بھی ایک طے شدہ رقم فراہم کرنا پڑتی۔ اسلام نے اس کے برعکس ان کی عفت و عصمت کو برقرار رکھنے کا طریقہ اختیار کیا جس کے نتیجے میں بے شمار خواتین کو آزادی نصیب ہوئی۔
     
  17. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 11: جنگی قیدیوں سے متعلق خصوصی اصلاحات (2)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    عہد رسالت کی جنگی مہمات

    اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کی ایک ایک جنگی مہم کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے زمانے میں جنگی قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ان جنگوں کی تفصیلات ہم سیرت ابن ہشام، مغازی ابن اسحق، طبقات ابن سعد، ابن جوزی کی کتاب تلقیح الفھوم اور صفی الرحمٰن مبارک پوری کی کتاب "الرحیق المختوم" میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

    جیسا کہ سیرت کے طالب علم جانتے ہیں کہ "غزوہ" اس مہم کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم خود شامل تھے اور "سریہ" اس مہم کو کہتے ہیں جو آپ نے روانہ فرمائی لیکن اس میں آپ خود شامل نہ تھے۔

    ہجرت سے جنگ بدر کا زمانہ

    جنگ بدر سے پہلے غزوات زیادہ تر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنے کے لئے کیے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی مدینہ ہجرت کے بعد قریش مسلسل انہیں تنگ کر رہے تھے۔ کبھی مدینہ پر حملہ کر کے ان کے مویشی لوٹ لیتے۔ کبھی مکہ میں موجود مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے۔ اپنی تجارت کے ذریعے جو مال یہ کمایا کرتے تھے، اس کا بڑا حصہ ہتھیاروں پر صرف کرتے تھے۔ ان لوگوں کی یہ سرکشی اللہ کے ایک پیغمبر کے مقابلے پر تھی جس کے جواب میں ان پر خدائی عذاب جنگ بدر میں نازل ہوا۔ بدر سے پہلے غزوات کی تفصیل یہ ہے۔

    1. سریہ سیف البحر (1H / 623CE): اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔

    2. سریہ رابغ (1H / 623CE): اس سریہ کا مقصد قریش کے تجارتی قافلے سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ اس میں معمولی تیر اندازی ہوئی لیکن باقاعدہ جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    3. سریہ خرار (1H / 623CE): یہ مہم بھی معلومات اکٹھی کرنے کے لئے کی گئی۔ اس میں بھی کسی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    4. غزوہ ابوا (1H / 623CE): یہ غزوہ قریش کے تجارتی قافلے کو روکنے کے لئے کیا گیا تھا۔ اس میں میں جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی بلکہ ابوا کے علاقے کے رہنے والے بنو ضمرہ سے صلح کا معاہدہ طے پایا۔

    5. غزوہ بواط (2H / 623CE): اس غزوے میں بھی جنگ کی نوعیت نہیں آئی۔

    6. غزوہ سفوان (2H / 623CE): یہ غزوہ ڈاکوؤں کے خلاف کاروائی پر مبنی تھا۔ اس میں بھی جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    7. غزوہ ذو العشیرۃ (2H / 623CE): اس غزوے کا مقصد بھی قریش کے تجارتی قافلے کو روکنا تھا۔ اس میں بھی جنگ کی نوبت نہیں آئی بلکہ دو قبائل سے امن کا معاہدہ طے پایا۔

    8. سریہ عبداللہ بن جحش (2H / 624CE): یہ مہم صرف بارہ افراد پر مشتمل تھی اور اس کا مقصد معلومات حاصل کرنا تھا۔ اس سریے میں معمولی جنگ ہوئی۔ دشمن کا ایک آدمی مقتول اور دو افراد بطور قیدی گرفتار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان دونوں قیدیوں کو بغیر کسی معاوضے کے آزاد کر دیا اور مقتول کی دیت بھی ادا فرمائی۔

    9. غزوہ بدر (2H / 624CE): اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی، قریش کے ستر افراد قتل اور ستر گرفتار ہوئے۔ ان تمام افراد کو فدیہ لے کر رہا کیا گیا۔ فدیہ کی رقم ایک سے چار ہزار درہم مقرر کی گئی۔ جو لوگ فدیہ ادا نہ کر سکتے تھے، مدینہ کے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کو ان کا فدیہ قرار دیا گیا۔

    غزوہ بدر مسلمانوں اور قریش کے درمیان پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ اس جنگ میں اللہ کا عذاب قریش کے سرداروں پر نازل ہوا اور ان کی وہ پوری قیادت جو اللہ کے رسول کے مقابلے پر سرکشی سے آ کھڑی ہوئی تھی، ہلاک ہو گئی۔ ان کی قیادت میں باقی وہ افراد بچے جو بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ سرکش نہیں تھے۔ یہ لوگ بعد میں ایمان لے آئے۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے داماد ابوالعاص (رضی اللہ عنہ) بھی جنگی قیدی تھے۔ ان کا فدیہ یہ طے پایا کہ وہ آپ کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو مدینہ آنے سے نہ روکیں گے۔ حضور کے اپنے چچا عباس (رضی اللہ عنہ) بھی قیدی بن کر آئے تھے۔ انصار نے آپ سے یہ درخواست کی کہ ان کے فدیے میں کمی کی جائے لیکن آپ نے ان سے پورا فدیہ وصول کرنے کا حکم دیا۔ بعض افراد کا فدیہ معاف کر کے انہیں بطور احسان بھی چھوڑ دیا گیا۔ قریش کے سردار ابوسفیان کے بیٹے عمرو کو مسلمان قیدی سعد بن نعمان رضی اللہ عنہ کے بدلے رہا کر دیا گیا۔

    جنگ بدر سے جنگ احد تک کا زمانہ

    جنگ بدر کے نتیجے میں کفار مکہ میں ایک شدید رد عمل پیدا ہوا اور انہوں نے اس کے فوراً بعد دوسری جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو دو محاذوں پر فوجی کاروائی کرنا پڑی۔ ان میں سے ایک مدینہ کے یہودی قبائل تھے، جو درپردہ قریش سے ملے ہوئے تھے اور مدینہ کی اس نوزائیدہ حکومت پر اندر سے ضرب لگانا چاہتے تھے۔ دوسرے عرب کے دیہاتی علاقوں کے راہزن تھے جنہیں مدینہ کی اس حکومت کے قیام میں اپنی لوٹ مار کا خاتمہ ہوتا نظر آ رہا تھا۔ اس دور کی جنگی مہمات کی تفصیل یہ ہے۔

    10. غزوہ بنی سلیم (2H / 624CE): قبیلہ غطفان کی شاخ بنو سلیم مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ان کی جنگی تیاریوں کو روکنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دو سو سواروں کے ساتھ اچانک حملہ کر دیا۔ بنو سلیم میں اچانک بھگدڑ مچ گئی اور وہ لوگ اپنے پانچ سو اونٹ چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اس جنگ میں کوئی جنگی قیدی ہاتھ نہیں لگا۔ بنو سلیم کا ایک غلام مسلمانوں کے قبضے میں آیا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آزاد کر دیا۔

    11. غزوہ بنو قینقاع (2H / 624CE): مدینہ میں یہود کے تین قبیلے بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ آباد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے فوراً بعد مدینہ کے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے مطابق یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو مدینہ کی ریاست کا سربراہ تسلیم کر لیا تھا۔ کسی بھی ایک فریق پر حملے کی صورت میں دوسرے فریق کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی مدد کرے۔

    بنو قینقاع، جو یہود کا سب سے بہادر قبیلہ سمجھا جاتا تھا، نے اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اشتعال انگیز کاروائیاں شروع کر دیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے اوس و خزرج قبائل میں جنگ کروانے کی سازش کی۔ مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور ایک خاتون کی آبرو ریزی کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی مارے گئے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں تنبیہ کی تو انہوں نے اعلان جنگ کر دیا۔ یہ لوگ قلعہ بند ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ پندرہ دن کے محاصرے کے بعد انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ رسول اللہ ان کے متعلق جو فیصلہ کریں گے، انہیں قبول ہو گا۔ ان کے تمام افراد کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ اس کے بعد ان سب کو رہا کر دیا گیا۔

    12. غزوہ سویق (2H / 624CE): غزوہ بدر کے صرف دو ماہ بعد قریش مکہ کے ایک دستے نے مدینہ پر حملہ کیا اور گوریلا طرز کی ایک کاروائی میں ایک انصاری کو ان کے کھیت میں شہید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جوابی کاروائی کے لئے ان کا تعاقب کیا تو یہ لوگ تیزی سے فرار ہو گئے۔ ان میں سے کوئی گرفتار نہ ہوا البتہ بہت سی خوراک یہ جاتے ہوئے اپنا وزن ہلکا کرنے کے لئے پھینک گئے۔

    13. غزوہ ذی امر (3H / 624CE): بنو ثعلبہ اور دیگر قبائل نے مدینہ پر ایک بڑی چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ان کے مقابلے پر ساڑھے چار سو افراد پر مشتمل ایک لشکر لے کر تشریف لے گئے جس سے دہشت زدہ ہو کر یہ لوگ منتشر ہو گئے۔ اس مہم میں باقاعدہ کوئی جنگ نہ ہوئی۔ دشمن کا ایک شخص گرفتار ہوا جس نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمانوں کو دشمن فوج سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔

    14. غزوہ بحران (3H / 624CE): یہ غزوہ بھی دشمن کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے پیش آیا۔ اس میں جنگ نہیں ہوئی۔

    15. سریہ زید بن حارثہ (3H / 624CE): یہ مہم قریش کے ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لئے کی گئی تھی جو معروف ساحلی راستہ چھوڑ کر نجد کے راستے جا رہا تھا۔ اس مہم میں قافلے کے سردار فرات بن حیان گرفتار ہو کر مدینہ لائے گئے۔ یہاں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

    16. غزوہ احد (3H / 625CE): اس کے بعد جنگ احد کی شکل میں مسلمانوں کو ایک بڑی جنگ پیش آئی۔ غزوہ احد کے بعد بھی مدینہ پر حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کے ایک دستے کی غلطی کی وجہ سے مسلمانوں کا نقصان زیادہ ہوا۔ اس جنگ میں کوئی فریق دوسرے فریق کے سپاہیوں کو جنگی قیدی نہ بنا سکا۔

    17. غزوہ حمراء الاسد (3H / 625CE): یہ غزوہ جنگ احد کے دوسرے دن پیش آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ جنگ احد میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے بعد قریش دوبارہ مدینہ پر حملہ آور ہوں گے۔ آپ نے مدینہ سے باہر پیش قدمی کی۔ قریش نے مقابلہ کرنے کی بجائے واپس جانے میں عافیت سمجھی۔ اس غزوے میں مشرکین کے دو جاسوس گرفتار ہوئے جنہیں موت کی سزا دے دی گئی۔

    جنگ احد سے جنگ خندق تک کا زمانہ

    18. سریہ ابو سلمہ (4H / 625CE): جنگ احد میں اسلامی لشکر کو نقصان پہنچنے کے باعث دیہاتی عربوں کے قبائل کے حوصلے بلند ہو گئے۔ بنو اسد نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ڈیڑھ سو سواروں کو بھیجا۔ بنو اسد حملے سے پہلے ہی منتشر ہو گئے اور ان کا جنگی ساز و سامان مسلمانوں کے حصے میں آیا۔ اس غزوے میں کوئی جنگی قیدی ہاتھ نہ آیا۔ لشکر کے امیر سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ایک پرانے زخم کے باعث شہید ہوئے۔

    19. سریہ عبداللہ بن انیس (4H / 625CE): خالد بن سفیان ھذلی مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ایک لشکر بھیجا۔ اس جنگ میں خالد مارا گیا لیکن کوئی شخص گرفتار نہ ہوا۔

    20. رجیع کا حادثہ (4H / 625CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بنو عضل اور بنو قارہ کے کچھ لوگوں کی درخواست پر کچھ صحابہ کو ان کے قبائل میں اسلام کی تعلیم کے لئے بھیجا۔ انہوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ان حضرات پر حملہ کر دیا۔ سات افراد کو شہید اور تین کو قیدی بنا لیا گیا۔ ان تین قیدیوں میں سے ایک صحابی کو شہید کر دیا گیا اور دو صحابہ سیدنا خبیب اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو غلام بنا کر مکہ میں فروخت کر دیا۔ ان دونوں حضرات کو اہل مکہ نے شہید کر دیا۔

    21. بئر معونہ کا حادثہ (4H / 625CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ستر صحابہ کو نجد کی جانب اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لئے بھیجا۔ ان لوگوں نے بھی عہد شکنی کی اور ان تمام صحابہ کو شہید کر دیا۔ صرف ایک صحابی سیدنا عمرو بن امیہ الضمری رضی اللہ عنہ بچے جنہیں غلام بنا لیا گیا۔ انہیں قید کرنے والے شخص مالک کی ماں نے غلام آزاد کرنے کی نذر مانی تھی جسے پورا کرنے کے لئے اس نے انہیں آزاد کر دیا۔

    22. غزوہ بنی نضیر (4H / 625CE): بئر معونہ کے حادثے کے فورا بعد یہودیوں کے دوسرے قبیلے بنو نضیر نے عہد شکنی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو شہید کرنے کی کاروائی کی۔ اس کے جواب میں ان کا محاصرہ کر لیا گیا۔ جنگ کی کوئی نوبت نہ آئی اور صرف چھ دن کے بعد ان لوگوں نے بھی بنو قینقاع کی طرح ہتھیار ڈال دیے۔ ان کے تمام جنگی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا اور انہیں اجازت دی گئی کہ وہ اسلحہ کے علاوہ اپنا جو کچھ مال ساتھ لے جا سکتے ہیں، لے کر جلاوطن ہو جائیں۔

    23. غزوہ نجد (4H / 625CE): غزوہ بنو نضیر سے فارغ ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ نجد کے علاقے میں بنو غطفان کے دو لٹیرے قبائل مدینہ پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان پر حملہ کیا۔ یہ لوگ اپنا مال و اسباب چھوڑ کر تتر بتر ہو کر پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے۔ اس میں بھی کوئی جنگی قیدی نہ بنایا گیا۔

    24. غزوہ بدر دوم (4H / 626CE): قریش نے جنگ احد سے واپسی پر مسلمانوں کو یہ چیلنج دیا تھا کہ اگلے سال بدر کے مقام پر دوبارہ جنگ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ یہاں پہنچے۔ قریش بھی مقابلے کے لئے مکہ سے نکلے لیکن راستے ہی میں بددل ہو کر واپس لوٹ گئے۔

    25. غزوہ دومۃ الجندل (4H / 626CE): حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ شمالی عرب میں دومۃ الجندل کے مقام پر لٹیرے قبائل مدینہ پر حملہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ آپ ایک ہزار سواروں کے ساتھ نہایت ہی رازداری سے وہاں پہنچے تو یہ لوگ مال مویشی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ اس غزوے میں بھی جنگی قیدیوں کی کوئی نوبت نہ آئی۔

    26. غزوہ بنو عبدالمصطلق (5H / 626CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ بنو عبدالمصطلق آپ سے جنگ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ آپ نے اس خبر کی تصدیق کرنے کے بعد دشمن پر حملہ کیا۔ بنو عبدالمصطلق کو شکست ہوئی اور ان کے بہت سے لوگ غلام بنائے گئے۔ ان میں ان کے سردار کی بیٹی جویریہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔

    انہوں نے اپنے آقا سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے مکاتبت کر لی اور حضور کے پاس مدد کی درخواست لے کر آئیں۔ آپ نے ان کی مکاتبت کی رقم ادا کر کے انہیں آزاد کیا اور ان کی رضامندی سے ان سے نکاح کر لیا۔ جب صحابہ کو یہ خبر ملی تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے سسرالی تعلق کے باعث بنو عبدالمصطلق کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں، "میں نے جویریۃ سے بڑھ کر کوئی خاتون نہیں دیکھی جو اپنی قوم کے لئے اتنی بابرکت ثابت ہوئی ہو کہ ان کے باعث ان کے رشتے دار بنو عبدالمصطلق کے سو کے قریب قیدی آزاد ہوئے۔"

    27. جنگ خندق (5H / 626CE): اس کے بعد قریش نے عرب کے مختلف قبائل کو ملا دس ہزار کا لشکر تیار کیا اور مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ یہ عرب کی تاریخ کے بڑے لشکروں میں سے ہے۔ مدینہ کی کل آبادی بھی اس لشکر سے کہیں کم تھی۔ اس کے بعد بھی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جو جاری رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دفاعی انداز میں مدینہ کے گرد خندق کھود کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔ اس غزوے میں خندق کی وجہ دو بدو لڑائی کی نوبت کم ہی آئی کیونکہ دشمن کے سپاہی جب خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تو مسلمان ان پر تیر اندازی کر کے انہیں روکتے۔ یہود کا صرف ایک قبیلہ بنو قریظہ باقی رہ گیا تھا جو مسلمانوں کا حلیف تھا۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ مسلمانوں کی مدد کرتے، صلح کا معاہدہ توڑ کر کفار کے لشکر کو رسد پہنچانا شروع کر دی۔ اللہ تعالی نے اپنی قدرتی طاقتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی۔ تیز آندھی، طوفان اور سردی کے باعث کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اب یہ لوگ کبھی مدینہ پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے۔

    28. غزوہ بنو قریظہ (5H / 626CE): بنو قریظہ نے عین اس لمحے عہد شکنی کی تھی جب مدینہ پر پورے عرب کے لشکر نے حملہ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ سخت ترین سزا کے مستحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کر لیا۔ بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین تجاویز پیش کیں: اسلام قبول کر لیا جائے، یا ہفتے کے دن مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے (یہودی مذہب میں ہفتے کے دن کوئی کام کرنا منع تھا) یا پھر اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے مسلمانوں پر حملہ کر کے کٹ مرا جائے۔ انہوں نے کوئی تجویز قبول نہ کی۔

    بنو قریظہ میں سے چند افراد اپنی قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے۔ ان کا تفصیلی ذکر ابن سعد نے طبقات الکبری میں کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو عہد شکنی کے خلاف تھے۔ ان سب کے جان و مال کو محفوظ قرار دے دیا گیا۔ ان میں ابو سعد بن وھب النضری، رفاعہ بن سموال القرظی، ثعلبہ بن سعیہ القرظی، اسید بن سعیہ القرظی، اسد بن عبید القرظی اور عمرو بن سعدی شامل تھے۔

    چند ہی دن میں بنو قریظہ نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیےکہ ان کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کریں گے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تورات کے قانون کے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے تمام لڑنے والے مردوں کو قتل کیا جائے اور خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ بنو قریظہ کے جن افراد نے اسلام قبول کیا تھا یا عہد شکنی میں حصہ نہ لیا تھا، انہیں کوئی سزا نہ دی گئی۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنو قریظہ کو اتنی سخت سزا کیوں دی گئی؟ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔ حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار ہی رہتے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔

    اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی تھی جس کی تائید اللہ تعالی نے خود وحی کے ذریعے کر دی تھی۔ اس سخت سزا کی بنیادی طور پر وجہ یہی تھی کہ اس قوم پر اللہ کے رسول سے عہد شکنی کے باعث ان پر اسی طرز کا عذاب مسلط کیا گیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے قوم عاد، ثمود، مدائن، سدوم اور خود بنی اسرائیل پر مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں کے ساتھ ان کے معاہدات رہے ہیں، وہ خود ان پر معاہدات کی خلاف ورزی کی صورت میں یہی سزا مسلط کرتے رہے ہیں۔ ہم یہاں تورات کی متعلقہ آیات نقل کر رہے ہیں:

    اگر وہ صلح کرنے سے انکار کریں اور لڑائی پر اتر آئیں تو تم اس شہر کا محاصرہ کر لینا اور جب خداوند تمہارا خدا اسے تمہارے ہاتھ میں دے دے تو اس میں سے سب مردوں کو تلوار سے قتل کر دینا لیکن عورتوں، بچوں اور مویشیوں اور اس شہر کی دوسری چیزوں کو تم مال غنیمت کے طور پر اپنے لئے لے لینا۔ (کتاب استثنا، باب 20)

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس معاملے میں قرآن کے نرم قانون کی بجائے تورات کے سخت قانون پر عمل کیوں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا اللہ تعالی کے ایک خصوصی حکم کے تحت ہوا تھا۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کی تائید اللہ تعالی کی طرف سے کر دی گئی تھی۔

    قوموں پر عذاب سے متعلق اللہ تعالی کا یہ قانون ہے کہ وہ جس قوم کا انتخاب کر کے اس کی طرف اپنا رسول مبعوث فرما دے، اس قوم کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی۔ رسول اللہ تعالی کے خصوصی دلائل اور معجزات کے ذریعے اس قوم کے سامنے اس درجے میں اتمام حجت کر دیتا تھا کہ ان کے پاس ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوا کرتا تھا۔

    رسول کی دعوت کو اگر وہ قوم قبول کر لیتی تو اسے دنیا ہی میں سرفراز کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا موسی، یونس اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔ اگر کوئی قوم رسول کی دعوت کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتی تو انہیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عذاب دے دیا جاتا تھا۔ سیدنا نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔

    اس طریقے سے یہ اقوام اللہ تعالی کے جزا و سزا کے آخرت کے قانون کا ایک عملی ثبوت بن جایا کرتی تھیں۔ یہ قانون اتنا واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات اور قرآن کا بنیادی موضوع ہی یہی قانون ہے۔ اس موضوع پر ہم نے ان اقوام کے علاقوں سے متعلق اپنے سفرنامے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

    اگر رسول کے پیروکار کم تعداد میں ہوتے تو ایمان نہ لانے والوں پر یہ عذاب قدرتی آفات کی صورت میں آیا کرتا تھا۔ اگر ان پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہوتی تو پھر یہ عذاب رسول کے پیروکار، جنہیں یہ اقوام نہایت حقیر سمجھتی تھیں، کی تلواروں کے ذریعے آیا کرتا تھا۔ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل کی تلواروں کے ذریعے یہ عذاب موجودہ اردن، شام اور فلسطین کی اقوام پر نازل ہوا۔

    محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والے گروہوں میں سے بنی اسماعیل کے مشرکین عرب کو موت کی سزا دی گئی۔ اگرچہ اس سزا پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا جبکہ عرب اور روم کے یہود و نصاری پر یہ سزا عائد کی گئی کہ ان کی حکومت کو ختم کر دیا جائے۔

    انہی یہود کا ایک گروہ بنو قریظہ تھے جس نے رسول کے مقابلے میں سرکشی کی انتہا کر دی تھی جس کی وجہ سے ان پر وہی سزا نافذ کی گئی جو اصلاً مشرکین بنی اسماعیل کے لئے تھے۔ دنیا میں جزا و سزا کا یہ قانون محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر نبوت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ یہ ایک استثنائی قانون تھا اور اس سے اسلام کا دائمی قانون اخذ کرنا درست طرز عمل نہیں ہے۔

    بنو قریظہ کے بیوی بچوں کو بھی ہمیشہ کے لئے غلام نہ بنایا گیا تھا۔ ان سب کو مکاتبت کا پورا حق حاصل تھا۔ ان میں سے ایک خاتون ریحانہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کا مہر بارہ اوقیہ چاندی مقرر فرمایا جو کہ دیگر ازواج مطہرات کا مہر بھی تھا۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ذکر ازواج النبی)۔

    اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام میں ان خواتین اور بچوں کو آزاد کرنے کی ترغیب پیدا ہوئی اور انہیں آہستہ آہستہ آزاد کر دیا گیا۔ بہت سے صحابہ نے ان خواتین کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ بنو قریظہ کی جو نسل مسلم معاشرے میں موجود تھی، ان میں عطیہ القرظی ، عبدالرحمٰن القرظی، محمد بن کعب القرظی اور رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہم کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا ذکر اس لئے بطور خاص ملتا ہے کہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی تعلیم میں مشغول رہے ہیں۔

    جنگ خندق سے صلح حدیبیہ تک کا زمانہ

    29. سریہ عبداللہ بن عتیک (5H / 626CE): مدینہ سے جلا وطن ہوجانے والے بنو قینقاع اور بنو نضیر اب خیبر میں آباد تھے۔ ان کا ایک سردار ابورافع سلام بن ابی الحقیق مشرکین کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کی ترغیب دینے میں پیش پیش تھا۔ اس کے علاوہ وہ مسلمان خواتین کے بارے میں فحش شاعری بھی کیا کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مہم خیبر کی طرف روانہ کی اور انہیں تاکید کی کہ وہ خواتین اور بچوں کو قتل نہ کریں۔ اس ٹیم نے ابو رافع کا کام تمام کر دیا۔

    30. سریہ محمد بن مسلمہ (6H / 627CE): نجد کے علاقے میں بنو بکر بن کلاب مسلمانوں پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تیس افراد پر مشتمل ایک دستہ ان کی طرف روانہ کیا۔ ان کے حملے کے نتیجے میں دشمن کے تمام افراد اپنا مال و اسباب چھوڑ کر بھاگ نکلے۔

    بنو حنیفہ کے ایک سردار ثمامہ بن اثال حنفی گرفتار ہوئے۔ چونکہ مدینہ میں جیل موجود نہ تھی اس وجہ سے انہیں مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے فدیہ دے کر رہا ہونے کی پیشکش کی۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بغیر کسی فدیہ کے انہیں رہا کر دیا۔ انہوں نے باہر جا کر غسل کیا اور آ کر اسلام قبول کر لیا۔

    اہل مکہ کے لئے غلے کی زیادہ تر فراہمی یمامہ سے ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد ثمامہ نے اہل مکہ کو غلہ کی سپلائی روک دی۔ اس پر قریش سخت مشکل میں پڑ گئے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتے داری کا واسطہ دے کر درخواست کی کہ آپ ثمامہ کو غلے کی فراہمی کا حکم دیں۔ آپ نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان کے لئے غلے کی سپلائی بحال کروا دی۔

    31. غزوہ بنو لحیان (6H / 627CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حادثہ رجیع کا بدلہ لینے کے لئے ایک لشکر لے کر بنو لحیان پر چڑھائی کر دی۔ یہ لوگ پہاڑوں میں بھاگ نکلے او جنگ کی نوبت نہ آئی۔

    32. سریہ غمر (6H / 627CE): سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں یہ مہم بنو اسد کے لٹیروں کی طرف بھیجی گئی۔ دشمن ان کی آمد کا سن کر فرار ہو گیا اور جنگ کی نوبت نہ آئی۔

    33. سریہ ذوالقصہ (6H / 627CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دس افراد کا ایک دستہ معلومات کے حصول کے لئے بنو ثعلبہ کی طرف روانہ فرمایا۔ رات کے وقت دشمن نے ان پر حملہ کیا اور سوائے محمد بن مسلمہ کے تمام صحابہ کو شہید کر دیا۔ آپ بھی زخمی حالت میں واپس آئے۔

    34. سریہ ذوالقصہ دوم (6H / 627CE): اس کے ایک ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ایک دستہ بنو ثعلبہ کی طرف بھیجا۔ دشمن نے پہاڑوں میں پناہ لی اور ان کا ایک آدمی قیدی بنا۔ یہ صاحب بعد میں مسلمان ہو گئے۔

    35. سریہ جموم (6H / 627CE): حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر جموم کی طرف بھیجا۔ اس غزوے میں ایک خاتون حلیمہ جنگی قیدی بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان کی شادی کروا دی۔

    36. سریہ عیص (6H / 627CE): یہ مہم قریش کے ایک قافلے کی طرف بھیجی گئی۔ اس قافلے کے سربراہ ابوالعاص رضی اللہ عنہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے داماد تھے۔ یہ وہاں سے بھاگ کر مدینہ پہنچے اور اپنی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی پناہ حاصل کر کے یہ درخواست کی کہ ان کے قافلے کا مال واپس کیا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس معاملے میں صحابہ سے مال واپس کرنے کی درخواست کی۔ صحابہ نے کچھ زیادہ ہی مال ان کے حوالے کر دیا۔ یہ مال لے کر مکہ پہنچے اور ہر شخص کو اس کا حصہ ادا کرنے کے بعد مدینہ واپس آئے اور مسلمان ہو گئے۔

    37. سریہ طرف (6H / 627CE): یہ مہم بھی سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنو ثعلبہ کے راہزنوں کی طرف بھیجی گئی۔ اس میں جنگ نہ ہو سکی۔

    38. سریہ وادی القری (6H / 627CE): اس مہم کا مقصد دشمن کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔ دشمن نے گھات لگا کر صحابہ پر حملہ کر دیا اور بارہ میں سے نو افراد شہید ہو گئے۔ ٹیم کے امیر سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ واپس پہنچے۔

    39. سریہ سیف البحر (6H / 627CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قریش کے ایک تجارتی قافلے کی نقل و حرکت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو تین سو سواروں کے ساتھ ساحل کی طرف بھیجا۔ راستے میں ان حضرات کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالی نے انہیں ایک وہیل مچھلی عطا کی جسے پورے لشکر نے کئی دن تک کھایا۔

    40. سریہ بنی کلب (6H / 627CE): اس مہم کے سربراہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حکم کے مطابق بنو کلب کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے یہ دعوت قبول کر لی جس کے بعد حضور کے حکم ہی کے مطابق انہوں نے اس قوم کے سردار کی بیٹی سے نکاح کر لیا۔ اس مہم میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    41. سریہ فدک (6H / 627CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خبر ملی کہ بنو سعد اور خیبر کے یہود کے درمیان اتحاد ہوا ہے۔ آپ نے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دو سو سواروں کو روانہ کیا۔ ان کے حملے پر بنو سعد اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس مہم میں کوئی جنگی قیدی ہاتھ نہیں آیا۔

    42. سریہ بنو فزارہ (6H / 627CE): بنو فزارہ کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے پیچھے ایک عورت ام قرفہ کا ہاتھ تھا۔ اس نے تیس شہسواروں کو خاص طور پر اسی مقصد کے لئے تیار کیا تھا۔ آپ نے ان کی جانب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا۔ انہوں نے تیس کے تیس افراد کو قتل کر دیا۔ اس جنگ میں ام قرفہ کی بیٹی گرفتار ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے رہا کرنے کے بدلے مکہ سے متعدد مسلمان قیدیوں کو رہا کروا لیا۔ (مسلم، کتاب الجہاد، حدیث 4573)

    43. سریہ عرینین (6H / 627CE): عکل اور عرینہ کے کچھ افراد، جو دراصل ڈاکو تھے، نے مدینہ میں آ کر بظاہر اسلام قبول کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں مدینہ کے باہر ایک چراگاہ میں بھیج دیا۔ انہوں نے چراگاہ کے رکھوالوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دیں۔ اس کے بعد وہاں سے یہ اونٹ لے کر فرار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سیدنا کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بیس صحابہ کو ان کے پیچھے روانہ کیا۔ انہیں گرفتار کر کے قصاص میں ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو انہوں نے چرواہوں کے ساتھ کیا تھا۔

    44. صلح حدیبیہ (6H / 628CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف عمرے کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ قریش نے خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کو، جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے، آپ کو روکنے کے لئے بھیجا۔ مسلمان ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک طویل اور دشوار گزار راستے سے گزر کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچے۔ قریش کے دو غلام فرار ہو کر مسلمانوں سے آ ملے جنہیں آزاد کر دیا گیا۔

    حضور نبی کریم صلی اللہ علی واٰلہ وسلم نے قریش کو صلح کی پیشکش کی جسے انہوں نے کچھ رد و قدح کے بعد قبول کر لیا۔ اسی دوران ان کے بعض پرجوش نوجوانوں نے، جن کی تعداد ستر یا اسی تھی، شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے پہرے داروں کی مدد سے انہیں گرفتار کر لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سب کو بلامعاوضہ آزاد کر دینے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کے بعد قریش اور مسلمانوں کے درمیان دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ طے پا گیا۔

    صلح حدیبیہ سے فتح مکہ تک کا زمانہ

    45. سریہ بنو جذام (7H / 628CE): قبیلہ بنو جذام کے بعض افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے قاصد سیدنا دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ پر حملہ کر کے ان سے وہ تحائف چھین لئے، جو قیصر روم ہرقل نے آپ کے لئے بھیجے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں پانچ سو صحابہ کا لشکر ان کی طرف روانہ کیا۔ قبیلہ جذام کو شکست ہوئی اور ان کے سو کے قریب افراد جنگی قیدی بنے۔ ان کے ایک سردار زید بن رفاعہ جذامی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی رہائی کی درخواست کی جس پر ان تمام جنگی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔

    46. غزوہ ذی قرد (7H / 628CE): یہ غزوہ بنو فزارہ کے کچھ ڈاکوؤں کے خلاف تھا جو مدینہ کی چراگاہوں پر اونٹ لوٹنے کے لئے حملہ آور ہوئے تھے۔ سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی شجاعت کے باعث یہ نہ صرف اونٹ چھوڑ کر بھاگے بلکہ اپنا بہت سا اسلحہ اور ساز و سامان چھوڑ گئے۔ سلمہ ان کا پیچھا کرنا چاہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے تعاقب سے منع فرما دیا کیونکہ یہ اپنے قبیلے میں واپس پہنچ چکے تھے۔

    47. غزوہ خیبر (7H / 628CE): مدینہ سے جلاوطن ہو کر یہودی اپنے ہم مذہب بھائیوں کے پاس خیبر میں آباد ہو چکے تھے۔ یہاں انہوں نے مضبوط قلعے تعمیر کر لئے تھے اور مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کرنے میں مصروف تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یلغار کے نتیجے میں ان کے بعض قلعے بغیر جنگ کے فتح ہو گئے۔ ان لوگوں کو جنگی قیدی نہیں بنایا گیا۔

    قلعہ قموص سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی غیر معمولی بہادری کے ساتھ فتح ہوا۔ یہاں کے جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا۔ ان میں سے یہود کے سردار حی بن اخطب کی بیٹی صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ اس طرح سے آپ نے ان میں سسرالی رشتہ قائم فرما کر انہیں اپنے اپنے غلام آزاد کرنے کی ترغیب دی۔ اس کے بعد وادی القری میں ایک اور جنگ ہوئی جس میں جنگی قیدی نہیں بنائے گئے۔ بعد ازاں فدک اور تیماء کے علاقے کے یہودیوں نے خود صلح کی پیشکش کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے قبول کرتے ہوئے ان کے جان و مال کو محفوظ قرار دیا۔

    48. سریہ ابان بن سعید (7H / 628CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خیبر روانگی کے ساتھ ہی مدینہ کو نجد کے ڈاکوؤں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک مہم نجد کی طرف بھی روانہ کی جس کے سربراہ سیدنا ابان بن سعید رضی اللہ عنہ تھے۔ اس مہم کی تفصیل نامعلوم ہے۔

    49. غزوہ ذات الرقاع (7H / 628CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ نجد کے خانہ بدوش بدوؤں نے اکٹھے ہو کر مدینہ پر حملے کی تیاریاں شروع کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے چار یا سات سو کا ایک لشکر لے کر نجد کی طرف رخ کیا۔ اس مہم میں باقاعدہ جنگ نہ ہوئی البتہ ایک دو افراد گرفتار ضرور ہوئے جنہیں اسلام قبول کر لینے کے باعث آزاد کر دیا گیا۔ اس غزوے کے نتیجے میں خانہ بدوش ڈاکوؤں پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہو گیا جس نے آئندہ ان علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کی بنیاد ڈال دی۔

    50. سریہ قدید (7H / 628CE): یہ سریہ قدید میں بنو ملوح کی جانب روانہ کیا گیا۔ انہوں نے بعض صحابہ کو قتل کر دیا تھا۔ جنگ میں دشمن کے بہت سے افراد قتل ہوئے۔ اس جنگ میں بھی جنگی قیدی نہیں بنائے گئے۔ دشمن نے مسلمانوں پر پلٹ کر حملے کی کوشش کی لیکن شدید بارش کے باعث ان کے اور مسلمانوں کے درمیان سیلاب حائل ہو گیا۔

    51. سریہ تربہ (7H / 628CE): یہ مہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بنو ہوازن کی طرف روانہ کی گئی۔ اس میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    52. سریہ بشیر بن سعد (7H / 629CE): بنو مرہ کی طرف سیدنا بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی زیر قیادت ایک لشکر روانہ کیا گیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا اور سوائے امیر لشکر کے سب کے سب شہید کر دیے گئے۔

    53. سریہ میفعہ (7H / 629CE): اس سریے کا مقصد بنو عوال اور بنو ثعلبہ کو مطیع بنانا تھا۔ اس جنگ میں دشمن کے سب کے سب سپاہی مارے گئے۔

    54. سریہ خیبر (7H / 629CE): بنو غطفان کا ایک گروہ مدینہ پر حملہ کی تیاریوں میں مشغول تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کی جانب سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا جس نے تمام کے تمام حملہ آوروں کو قتل کر دیا۔

    55. سریہ یمن و جبار (7H / 629CE): نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تین سو صحابہ کو سیدنا بشیر بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں بنو غطفان کی طرف بھیجا جو مدینہ پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہے تھے۔ دشمن مسلمانوں کو دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ ان کے دو افراد قیدی بنائے گئے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا۔

    56. سریہ غابہ (7H / 629CE): قبیلہ جشم کا ایک شخص کچھ افراد کو لے کر غابہ کے مقام پر آیا۔ وہ بنو قیس کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کرنا چاہتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صرف تین افراد کی ایک ٹیم ان کی طرف بھیجی جنہوں نے حکمت عملی سے ان شرپسندوں کا خاتمہ کر دیا۔

    57. سریہ ابو العوجاء (7H / 629CE): یہ سیدنا ابوالعوجاء رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک دعوتی مہم تھی جو بنو سلیم کی طرف روانہ کی گئی۔ انہوں نے جواب میں جنگ کی جس کے نتیجے میں دو افراد قیدی بنے۔ ان کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔

    58. سریہ غالب بن عبداللہ (8H / 629CE): یہ مہم فدک کی طرف روانہ کی گئی۔ اس میں دشمن کے بہت سے افراد قتل ہوئے لیکن جنگی قیدی نہیں بنائے گئے۔

    59. سریہ ذات اطلح (8H / 629CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پندرہ افراد کی ایک ٹیم کو سیدنا کعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں معلومات کے حصول کے لئے بھیجا۔ ان کا سامنا دشمن سے ہوا جس نے ان تمام صحابہ کو شہید کر دیا۔

    60. سریہ ذات عرق (8H / 629CE): یہ مہم بنو ہوازن کی طرف روانہ کی گئی۔ اس میں جنگ کی نوبت نہیں آئی۔

    61. سریہ موتہ (8H / 629CE): یہ تین ہزار افراد پر مشتمل ایک بڑا لشکر تھا جو موجودہ اردن کے علاقے میں بھیجا گیا۔ اس لشکر کا سامنا قیصر روم کی ایک لاکھ فوج سے ہو گیا۔ لشکر کے تین بڑے کمانڈر سیدنا زید بن حارثہ، جعفر طیار اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے۔ اس کے بعد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی اور لشکر کے بڑے حصے کو بچا کر لے آئے۔ اس لشکر کشی کے نتیجے میں شمالی عرب کے مختلف قبائل پر زبردست رعب قائم ہو گیا کیونکہ مسلمانوں نے پہلی مرتبہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور قیصر روم کی افواج کو چیلنج کیا تھا۔

    62. سریہ ذات السلاسل (8H / 629CE): یہ مہم شام کی سرحد پر رہنے والے قبائل کی طرف سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بھیجی گئی۔ اس میں جنگ کی نوبت نہیں آئی البتہ بہت سے قبائل اسلامی حکومت کے مطیع ہو گئے۔

    63. سریہ خضرہ (8H / 629CE): خضرہ کے علاقے میں بنو غطفان نے مسلمانوں پر حملے کے لئے ایک فوج جمع کرنا شروع کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک لشکر ان کی طرف بھیجا جس نے ان پر حملہ کر کے ان کی سرکوبی کی۔ اس جھڑپ میں بعض جنگی قیدی ہاتھ آئے جن کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔

    64. غزوہ فتح مکہ (8H / 630CE): مسلمانوں اور قریش کے درمیان حدیبیہ میں دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ پر حملہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کے جرم میں مکہ پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ جب قریش کو اس کا علم ہوا تو ان کے سردار ابوسفیان رضی اللہ عنہ معاہدے کی تجدید کے لئے مدینہ آئے لیکن انہیں انکار کر دیا گیا۔ اس کے بعد حضور نے دس ہزار صحابہ کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا اور بغیر جنگ کے اسے فتح کر لیا۔ مکہ کے تمام افراد کو فتح کے بعد قیدی بنانے کی بجائے انہیں بطور احسان آزاد کر دیا گیا۔

    فتح مکہ کے بعد کی جنگیں

    65. غزوہ حنین (8H / 630CE): یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے کی آخری بڑی جنگ تھی جس میں بنو ہوازن اور بنو ثقیف مل کر مسلمانوں کے مقابلے پر آئے اور ابتدائی کامیابی کے باوجود انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس جنگ میں چھ ہزار افراد کو جنگی قیدی بنایا گیا۔ ان قیدیوں کو تقسیم کیا جا چکا تھا کہ بنو ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر آ گیا۔ انہوں نے اپنے قیدیوں کو آزاد کرنے کی درخواست کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے حصے کے قیدیوں کو فوراً آزاد کر دیا اور اس موقع پر نئے مسلمان ہونے والے افراد کے پاس جا کر انہیں قائل کیا کہ وہ اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیں۔ اس طرح سے 6000 جنگی قیدیوں کو آزادی نصیب ہوئی۔

    66. سریہ عینیہ بن حصن الفزاری (9H / 630CE): ابھی فتح مکہ کو چند ہی ماہ گزرے تھے کہ بنو تمیم نے بغاوت کر دی۔ ان کی بغاوت کو فرو کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا عینیہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو ان کی طرف بھیجا۔ اس جنگ میں ساٹھ کے قریب جنگی قیدی بنائے گئے۔ بنی تمیم کے توبہ کر لینے کے بعد حضور کے حکم سے ان سب کو آزاد کر دیا گیا۔

    67. سریہ قطبہ بن عامر (9H / 630CE): یہ مہم قبیلہ خثعم کی طرف روانہ کی گئی اور فریقین کے خاصے افراد اس میں زخمی ہوئے اور بعض قید ہوئے جن کی تفصیل معلوم نہیں ہو سکی۔

    68. سریہ ضحاک بن سفیان الکلابی (9H / 630CE): یہ مہم بنو کلاب کی طرف بھیجی گئی اور اس جنگ میں ایک آدمی مارا گیا لیکن جنگی قیدی نہیں بنائے گئے۔

    69. سریہ علقمہ بن مجرزمدلجی (9H / 630CE): حبشہ کے کچھ بحری قزاقوں نے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے ساحل کے قریب لشکر اکٹھا کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کی طرف سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تین سو افراد کا لشکر بھیجا۔ ان کی آمد کا سن کر حبشی سمندر میں فرار ہو گئے۔ مسلمانوں نے ایک جزیرے تک ان کا تعاقب کیا لیکن سمندر کے ماہر ہونے کی وجہ سے یہ لوگ بچ نکلے۔

    70. سریہ بنو طے (9H / 630CE): سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں بنو طے کی طرف ایک مہم روانہ کی گئی۔ اس مہم میں بہت سے جنگی قیدی بنائے گئے جن میں مشہور عرب سخی حاتم طائی کی بیٹی بھی شامل تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سب کو آزاد کر دیا۔

    71. غزوہ تبوک (9H / 630CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ قیصر روم کا ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملے کے لئے آ رہا ہے۔ آپ نے پیش قدمی کرتے ہوئے تیس ہزار صحابہ کے ساتھ شمال کی طرف کوچ کیا۔ تبوک کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ رومیوں اور ان کے حامیوں کا لشکر مقابلے پر نہیں آ رہا۔ یہاں ٹھہر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تیما، دومۃ الجندل، جرباء، اذرح اور ایلہ کی طرف مہمات روانہ کیں جن میں ان علاقوں کے حکمرانوں نے آپ کی اطاعت قبول کر لی۔ اس مہم میں کوئی جنگی قیدی نہیں بنایا گیا۔ اس لشکر کشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب اور روم کے درمیان نیوٹرل علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا اور ان کی سرحدیں براہ راست سلطنت روم سے جا ملیں۔

    72. سریہ اسامہ بن زید (11H / 632CE): رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی آخری مہم سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی قیادت میں شام کی طرف روانہ کی۔ ابھی یہ لشکر مدینہ سے باہر ہی نکلا تھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم وفات پا گئے جس کی وجہ سے یہ لشکر واپس آ گیا۔ اس لشکر کو دوبارہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں روانہ کیا گیا۔

    عہد رسالت کے جنگی قیدیوں کا تجزیہ

    اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے کی تمام جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ 72 جنگوں میں سے صرف 19 جنگوں میں جنگی قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ ان کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا وہ یہ تھا۔

    · دو جنگوں، غزوہ بدر اور سریہ بنو فزارہ کے جنگی قیدیوں کو "اما فداء" کے اصول کے تحت فدیہ لے کر رہا کیا گیا۔ بدر کے قیدیوں سے یا تو رقم لی گئی یا پھر کچھ خدمات جیسے بچوں کی تعلیم وغیرہ کو بطور فدیہ قبول کیا گیا جبکہ بنو فزارہ کے قیدیوں کے بدلے مسلمان قیدیوں کو آزاد کروایا گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور موقع پر بنی عقیل کے مشرک قیدیوں کے بدلے آپ نے مسلم قیدیوں کا تبادلہ کروایا۔ (ابن ابی شیبہ، حدیث 33920)

    · تیرہ جنگوں کے قیدیوں کو "اما منا" کے اصول کے تحت بلامعاوضہ آزاد کر دیا گیا۔ ان میں سے بڑی جنگوں میں غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر، حدیبیہ، اور فتح مکہ شامل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کاروائیوں میں بالعموم "اما منا" کے اصول کے تحت قیدیوں کو بلامعاوضہ ہی رہا کیا گیا۔

    · صرف چار جنگیں ایسی تھیں جن میں جنگی قیدیوں کو غلام بنایا گیا۔ ان چار جنگوں میں غزوہ بنو عبدالمصطلق، بنو قریظہ، خیبر اور حنین شامل ہیں۔ ان کی تفصیل پر بھی دوبارہ غور فرمائیے:

    o بنو عبدالمصطلق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بنو عبدالمصطلق کے سردار کی بیٹی سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے قیدیوں کو آزاد کر دیں کیونکہ اب بنو عبدالمصطلق مسلمانوں کے رسول کے سسرالی رشتے دار ہو چکے ہیں چنانچہ سو کے قریب خاندانوں کو آزادی نصیب ہوئی۔

    o بنو قریظہ: بنو قریظہ کے معاملے میں بھی آپ نے یہی طرز عمل اختیار کیا۔ بنو قریظہ کی خاتون سیدہ ریحانہ رضی اللہ عنہا جو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی لونڈی بنی تھیں، آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ صحابہ کرام نے بالعموم بنو قریظہ کی خواتین کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا اور ان کے بچوں کی اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرظیوں میں بعض نہایت ہی مخلص اور صاحب علم صحابی پیدا ہوئے جن کا ذکر اسماء الرجال کی کتب میں موجود ہے۔

    o خیبر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہاں بھی یہود کے سردار حیی بن اخطب کی بیٹی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ خیبر کے قیدیوں کو آزاد کر دیں۔

    o حنین: یہ وہ جنگ تھی جس میں چھ ہزار کے قریب جنگی قیدیوں کو گرفتار کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے نئے مسلمان ہونے والے افراد کو ذاتی طور پر قائل کیا کہ وہ اپنے اپنے حصے کے قیدیوں کو آزاد کر دیں۔ نہ صرف انہیں آزادی دیں بلکہ غنیمت کا مال بھی بنو ہوازن کو واپس کر دیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

    اس کے علاوہ متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس جنگی قیدی لائے گئے تو آپ نے خود اپنے پاس سے فدیہ ادا کر کے انہیں آزادی عطا فرما دی۔ امام بیہقی نے معرفۃ السنن و الآثار کی کتاب الجہاد میں ایسے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔
     
  18. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 11: جنگی قیدیوں سے متعلق خصوصی اصلاحات (3)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    خلافت راشدہ کی جنگی مہمات

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء راشدین (بشمول عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمۃ) کے طرز عمل سے متعلق تاریخی روایات کا جائزہ لیا جائے تو قیدیوں کے بارے میں ان کے یہ اقدامات سامنے آتے ہیں:

    · عمومی طور پر خلفاء راشدین "اما منا او اما فداء" کے اصول کے تحت جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ یا پھر کچھ معاوضہ لے کر رہا کر دیا کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں قیدی کا فدیہ 400 درہم مقرر کیا گیا۔ بسا اوقات اس میں کمی بیشی بھی کی گئی۔ (دیکھیے عمری، عصر الخلافۃ الراشدہ)

    · جنگی قیدیوں کا تبادلہ دشمن کی قید میں موجود اسلامی ریاست کے قیدیوں سے کیا جاتا تھا۔

    · بعض موقعوں پر استثنائی طور پر جنگی قیدیوں کو غلام بھی بنایا گیا لیکن یہ معاملہ عارضی طور پر تھا۔ حکومت کی اطاعت قبول کر لینے پر ان جنگی قیدیوں کو آزاد کر دیا جاتا تھا۔

    · اسلامی ریاست کے جو شہری جنگی قیدی بن کر دشمن کی غلامی میں چلے جاتے، خواہ وہ مذہباً مسلمان ہوں یا نہ ہوں، انہیں بیت المال سے رقم ادا کر کے آزاد کروا لیا جاتا تھا۔ اگر وہ قیدی جنگ کے ذریعے دوبارہ مسلمانوں کے پاس آ جاتے تو انہیں فوراً آزاد کر دیا جاتا تھا۔

    اس تمام اقدامات کی مثالوں کے لئے یہ روایات ملاحظہ فرمائیے۔

    قال شافعی: و لا نعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم سبی بعد حنین احدا۔ و لا نعلم ابابکر سبی عربیا من اھل الردۃ۔ ولکن اسرھم ابوبکر حتی خلاصھم عمر۔ (بیہقی، معرفۃ السنن والآثار، کتاب السیر، حدیث 17966)

    امام شافعی کہتے ہیں، "ہمارے علم میں نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غزوہ حنین کے بعد کسی کو غلام بنایا ہو۔ نہ ہی ہمارے علم میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے ساتھ جنگوں میں کسی عرب کو غلام بنایا ہو۔ ابوبکر نے انہیں قید ضرور کیا۔ (یہ لوگ قید میں رہے) یہاں تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں رہا کر دیا۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أُتِيَ بِسَبِي فَأَعْتَقَهُمْ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33889)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جنگی قیدی لائے گئے، انہوں نے ان سب کو آزاد کر دیا۔

    حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْن أَبِي حَفْصَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : كُلَّ أَسِيرٍ كَانَ فِي أَيْدِي الْمُشْرِكِينَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ ، فَفِكَاكُهُ مِنْ بَيْتِ مَالِ الْمُسْلِمِينَ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33937)

    سیدنا ابن عباس روایت کرتے ہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہم نے فرمایا، "ہر وہ مسلمان قیدی جو مشرکین کے پاس ہے، اس کا فدیہ مسلمانوں کے بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔"

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ : قَالَ عُمَرُ : لأَنْ أَسْتَنْقِذَ رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ أَيْدِي الْكُفَّارِ أَحَبَّ إلَيَّ مِنْ جِزيَةِ الْعَرَبِ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33928)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے، "اگر میں مسلمانوں کے ایک شخص کو بھی دشمن کی قید سے آزاد کرواؤں تو یہ میرے لئے پورے عرب کے جزیہ سے زیادہ پسندیدہ ہے۔"

    حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَرِيكٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ : سَأَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ عَنِ الرَّجُلِ يُقَاتِلُ عَنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ ، فَيُؤْسَرُ ؟ قَالَ : فَفِكَاكُهُ مِنْ خَرَاجِ أُولَئِكَ الْقَوْمِ الَّذِينَ قَاتَلَ عَنْهُمْ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33938)

    ابن زبیر نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہم سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو (غیر مسلم) اھل ذمہ میں سے ہو اور قیدی بنا لیا گیا ہو۔ انہوں نے فرمایا، "اس کا فدیہ مسلمانوں کے خراج (بیت المال) میں سے ادا کیا جائے گا کیونکہ وہ انہی کی طرف سے جنگ کر رہا تھا۔"

    حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، قَالَ : كَانَ عَلِيٌّ إِذَا أُتِيَ بِأَسِيرٍ يَوْمَ صِفِّينَ ، أَخَذَ دَابَّتَهُ ، وَأَخَذَ سِلاَحَهُ ، وَأَخَذَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَعُودَ ، وَخَلَّى سَبِيلَهُ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33944)

    ابو جعفر کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس جنگ صفین کا ایک قیدی لایا گیا۔ آپ نے اس کا جانور اور اسلحہ لے لیا اور اس سے یہ وعدہ لے کر اسے آزاد کر دیا کہ وہ دوبارہ آپ سے جنگ کرنے نہیں آئے گا۔

    حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : أَمَرَ عَلِيٌّ مُنَادِيَهُ ، فَنَادَى يَوْمَ الْبَصْرَةِ : لاَ يُقْتَلُ أَسِيرٌ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33950)

    ابو جعفر کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی جنگ میں یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔

    حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ؛ أَنَّ الْحَجَّاجَ أُتِيَ بِأَسِيرٍ ، فَقَالَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ : قُمْ فَاقْتُلْهُ ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا بِهَذَا أُمِرْنَا , يَقُولُ اللَّهُ : {حَتَّى إِذَا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً}. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33946)

    حسن بصری کہتے ہیں کہ حجاج (بن یوسف) کے پاس ایک جنگی قیدی لایا گیا۔ اس نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا، "اٹھیے اور اسے قتل کر دیجیے۔" ابن عمر نے فرمایا، "ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ اللہ تعالی کا حکم ہے، 'جب تم انہیں (جنگ میں) قتل کر چکو تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ اس کے بعد یا تو بطور احسان رہا کر دو یا پھر بطور فدیہ رہا کر دو۔' " (اس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہ نے وقت کے ایک ظالم و جابر گورنر کے سامنے کلمہ حق ادا کیا۔)

    حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ ، قَالَ : حدَّثَنِي أَبُو الطُّفَيْلِ ، قَالَ : كُنْتُ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ بَعَثَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إلَى بَنِي نَاجِيَةَ , فَانْتَهَيْنَا إلَيْهِمْ فَوَجَدْنَاهُمْ عَلَى ثَلاَثِ فِرَقٍ ، قَالَ : فَقَالَ : أَمِيرُنَا لِفِرْقَةٍ مِنْهُمْ : مَا أَنْتُمْ ؟ قَالُوا : نَحْنُ قَوْمٌ نَصَارَى وَأَسْلَمْنَا , فثبتنا على إسلامنا ، قَالَ اعتزلوا , ثم قَالَ للثانية : ما أنتم ؟ قالوا نحن قوم من النصارى لم نر دينا أَفْضَلَ مِنْ دِينِنَا فثبتنا عليه فقال اعتزلو , ثم قَالَ لفرقة أخرى : ما أنتم ؟ قالوا نحن قوم من النصارى فَأَبَوْا ، فَقَالَ لأَصْحَابِهِ : إذَا مَسَحْت رَأْسِي ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَشُدُّوا عَلَيْهِمْ فَفَعَلُوا فَقَتَلُوا الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَوْا الذَّرَارِي , فَجِئْت بِالذَّرَارِيِّ إلَى عَلِيٍّ وَجَاءَ مِصْقَلَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ فَاشْتَرَاهُمْ بِمِائَتَيْ أَلْفٍ فَجَاءَ بِمِئَةِ أَلْفٍ إلَى عَلِي , فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ , فَانْطَلَقَ مِصْقَلَةُ بِدَرَاهِمِهِ وَعَمَدَ إلَيْهِمْ مِصْقَلَةُ فَأَعْتَقَهُمْ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33408)

    ابو طفیل کہتے ہیں کہ میں ایک لشکر میں تھا جسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بنو ناجیہ کی طرف بھیجا تھا۔ جب ہم ان تک پہنچے تو ہمیں ان کے تین گروہ ملے۔ ہمارے امیر نے ایک گروہ سے پوچھا، "تم کون ہو؟" وہ کہنے لگے، "ہم عیسائی قوم ہیں لیکن ہم اسلام قبول کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے اسلام پر ثابت قدم رہنے دیجیے۔" امیر نے کہا، انہیں چھوڑ دو۔

    اس کے بعد ہمارا سامنا دوسرے گروہ سے ہوا تو ان سے پوچھا، "تم کون ہو؟" وہ کہنے لگے، "ہم عیسائی قوم ہیں۔ ہمیں اپنے دین سے اچھا کوئی دین نہیں لگتا۔ (ہم آپ کی اطاعت قبول کرتے ہیں بس) ہمیں اسی پر قائم رہنے دیجیے۔" امیر نے کہا، "انہیں بھی چھوڑ دو۔"

    اس کے بعد ہمارا سامنا تیسرے گروہ سے ہوا۔ ان سے بھی پوچھا گیا کہ وہ کون ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہم عیسائی قوم ہیں۔" اس کے بعد انہوں نے سرکشی دکھائی (یعنی جنگ پر تیار ہو گئے۔) امیر لشکر کہنے لگے، "جب میں اپنے سر پر تین مرتبہ ہاتھ پھیروں تو ان پر حملہ کر دینا۔" ہم نے ان سے جنگ کی اور ان کے فوجیوں کو ہلاک کر کے ان کے بیوی بچوں کو قیدی بنا لیا۔ ہم ان قیدیوں کو لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس آ رہے تھے کہ مصقلہ بن ھبیرہ آیا اور اس نے ان قیدیوں کی خدمات کو دو لاکھ درہم (ایڈوانس دے کر) خرید لیا۔ اس کے بعد وہ ایک لاکھ درہم لے کر سیدنا علی کے پاس آیا۔ آپ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے مصقلہ کو اس کی رقم واپس کی اور تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا۔

    حدثنا حمید ثنا ابو جعفر النفیلی انا ابن عینیہ عن عبداللہ ابن شریک عن بشر بن غال مسع ابن الزبیر یسال الحسین بن علی عن الاسیر من اھل الذمہ یاسرہ العدو۔ قال: فکاکہ علی المسلمین۔ (حمید بن زنجویہ، کتاب الاموال)

    سیدنا عبداللہ بن زبیر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہم سے ذمی غیر مسلم قیدی کے بارے میں سوال کیا جسے دشمن نے قید کر رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا، "اسے آزاد کروانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔"

    ثنا الحکم بن نافع انا صفوان بن عمرو ان عمر بن عبدالعزیز قال: اذا خرج الاسیر المسلم یفادی نفسہ، فقد وجب فداؤہ علی المسلمین۔ لیس لھم ردہ الی المشرکین۔ (حمید بن زنجویہ، کتاب الاموال)

    سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے فرمایا، "اگر کوئی مسلمان جنگی قیدی اپنا فدیہ خود ادا کر کے نکل آئے تو اس فدیے کو اسے ادا کرنا مسلمانوں (کی حکومت) کی ذمہ داری ہو گی۔ اسے کسی صورت میں بھی مشرک دشمنوں کے حوالے نہ کیا جائے گا۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ ، وَعَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَدَى رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ جَرْمٍ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ بِمِئَةِ أَلْفٍ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33923)

    عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے ایک فوجی کا ایک لاکھ جرمانہ ادا کر کے اسے آزاد کروایا۔

    جلیل القدر تابعین کا بھی یہی موقف تھا کہ جنگی قیدیوں کو بلامعاوضہ یا فدیہ لے کر رہا کرنا ہی قرآن کا بنیادی حکم ہے۔

    حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ أَشْعَثَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، وَعَطَاءٍ ، قَالاَ فِي الأَسِيرِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ : يُمَنَّ عَلَيْهِ ، أَوْ يُفَادَى. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33922)

    حسن بصری اور عطا خراسانی (تابعین کے دو بڑے اور مشہور علماء) مشرکین کے قیدیوں کے متعلق کہا کرتے تھے، "یا تو انہیں بطور احسان رہا کیا جائے یا پھر ان سے فدیہ لے لیا جائے۔"

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ؛ فِي الأَسِيرِ : يُمَنَّ عَلَيْهِ ، أَوْ يُفَادَى بِهِ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33925)

    شعبی (تابعین کے ایک جلیل القدر عالم) قیدیوں کے متعلق کہا کرتے تھے، "یا تو انہیں بطور احسان رہا کیا جائے یا پھر ان سے فدیہ لے لیا جائے۔"

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ : نِسَاءٌ حَرَائِرُ أَصَابَهُنَّ الْعَدُوُّ ، فَابْتَاعَهُنَّ رَجُلٌ , أَيُصِيبُهُنَّ ؟ قَالَ : لاَ , وَلاَ يَسْتَرِقُّهُنَّ ، وَلَكِنْ يُعْطِيهِنَّ أَنْفُسَهُنَّ بِاَلَّذِي أَخَذَهُنَّ بِهِ ، وَلاَ يَزِدْ عَلَيْهِنَّ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 34203)

    ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے پوچھا، "آزاد خواتین اگر دشمن کے قبضے میں چلی جائیں اور دشمن سے انہیں مسلمانوں کا کوئی شخص خرید لے تو کیا وہ اس کی لونڈیاں بن جائیں گی؟" انہوں نے کہاِ "ہرگز نہیں، وہ بالکل لونڈی نہیں بنائی جائیں گی۔ ہاں جو رقم اس شخص نے ادا کی ہے، وہ ان خواتین (یا ان کے وارثوں یا بیت المال) سے لے لی جائے گی اور اس رقم میں کوئی منافع شامل نہیں کیا جائے گا۔"

    حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ أَبِي مُعَاذٍ ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ ؛ أَنَّهُ سَمِعَ الشَّعْبِيَّ ، يَقُولُ : مَا كَانَ مِنْ أُسَارَى فِي أَيْدِي التُّجَّارِ ، فَإِنَّ الْحُرَّ لاَ يُبَاعُ ، فَارْدُدْ إِلَى التَّاجِرِ رَأْسَ مَالِه. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33211)

    شعبی کہا کرتے تھے، "تاجروں کے ہاتھ میں جو قیدی ہیں، ان میں سے کسی آزاد کو نہ بیچا جائے۔ تاجر کو اس کی اصل رقم واپس کر دی جائے۔"

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ : حدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ فِي أَهْلِ الْعَهْدِ إِذَا سَبَاهُمَ الْمُشْرِكُونَ ، ثُمَّ ظَهَرَ عَلَيْهِمَ الْمُسْلِمُونَ ، قَالَ : لاَ يُسْتَرَقُّونَ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33939)

    (جلیل القدر تابعی عالم) ابراہیم نخعی (غیر مسلم) اہل عہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر دشمن مشرک انہیں غلام بنا لیں اور اس کے بعد وہ مسلمانوں کے قبضے میں آ جائیں تو انہیں غلام نہ بنایا جائے۔

    اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ان جنگی قیدیوں کو غلام بنایا ہی کیوں گیا؟ اس کا جواب سید قطب نے یہ دیا ہے کہ ایسا اسلام کے قانون کے تحت نہیں بلکہ اس دور کے بین الاقوامی قانون کے تحت کیا گیا۔ موجودہ دور میں جب بین الاقوامی قانون تبدیل ہو چکا ہے، تو جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت اسلام میں موجود نہیں ہے۔

    وقد سبق لنا في مواضع مختلفة من هذه الظلال القول بأنه كان لمواجهة أوضاع عالمية قائمة , وتقاليد في الحرب عامة . ولم يكن ممكنا أن يطبق الإسلام في جميع الحالات النص العام: (فإما منا بعد وإما فداء). . في الوقت الذي يسترق أعداء الإسلام من يأسرونهم من المسلمين . ومن ثم طبقه الرسول [ ص ] في بعض الحالات فأطلق بعض الأسارى منا . وفادى ببعضهم أسرى المسلمين , وفادى بعضهم بالمال . وفي حالات أخرى وقع الاسترقاق لمواجهة حالات قائمة لا تعالج بغير هذا الإجراء . فإذا حدث أن اتفقت المعسكرات كلها على عدم استرقاق الأسرى , فإن الإسلام يرجع حينئذ إلى قاعدته الإيجابية الوحيدة وهي: (فإما منا بعد وإما فداء) لانقضاء الأوضاع التي كانت تقضي بالاسترقاق . فليس الاسترقاق حتميا , وليس قاعدة من قواعد معاملة الأسرى في الإسلام . (سيد قطب، تفسير فی ظلال القرآن؛ سورة محمد 47:4)

    ہماری اس تفسیر "ظلال" میں مختلف مقامات پر یہ بحث گزر چکی ہے کہ (عہد رسالت اور خلفاء راشدین کے دور میں) غلام بنائے جانے کا معاملہ بین الاقوامی جنگی قانون کے تحت تھا۔ ہر قسم کے حالات میں اس عام صریح حکم کہ "قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو" پر عمل کرنا ناممکن تھا۔ (خاص طور پر) اس دور میں جب اسلام کے دشمن مسلمان قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا کرتے تھے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس پر عمل کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض حالات میں بعض قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دیا گیا۔ بعض قیدیوں کو مسلمان قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا گیا اور بعض قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا گیا۔ بعض ایسے حالات میں غلام بھی بنائے گئے جس کے بغیر چارہ ہی نہ تھا۔ اس کے بعد دنیا بھر کی افواج (اور حکومتیں) اس بات پر متفق ہو گئی ہیں کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنایا جائے گا تو مسلمان بھی اپنے اصل قانون کی طرف لوٹ جائیں گے کہ "قیدیوں کو احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر آزاد کر دو"۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب وہ حالات ہی ختم ہو چکے ہیں جن میں غلام بنائے جاتے تھے۔ اب غلام بنائے جانے کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور غلام بنا لیا جانا اسلام کا قانون نہیں ہے۔

    انسداد غلامی کی تحریک میں خلفاء راشدین کا کردار اور اس کے اثرات

    انسداد غلامی کی اس تحریک میں خلفاء راشدین کے کردار کا ایک پہلو تو ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ حضرات غلاموں کو دیے جانے والے تمام حقوق کے ضامن تھے۔ اگر کوئی آقا کسی غلام کو اس کا حق دینے میں ٹال مٹول کرتا تو غلاموں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ کسی بھی وقت آ کر خلیفہ سے شکایت کر سکیں اور ان کی شکایات پر خلیفہ فوراً حرکت میں آ جایا کرتے تھے۔ اس کی نوبت کم ہی آیا کرتی تھی کیونکہ آبادی کا بڑا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے قریبی صحابہ کا تربیت یافتہ تھا اور وہ خود ہی غلاموں کو ان کی آزادی سمیت وہ تمام حقوق دینے کو تیار تھے جس کی تفصیل ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں۔

    عرب میں غلامی کا مکمل خاتمہ

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غلامی کے خاتمے کے لئے ایک بہت بڑی پیش رفت کی گئی۔ آپ کے دور میں ایران، شام اور مصر کی طرف پیش قدمی جاری تھی جس کی وجہ سے خلافت اسلامیہ کی سرحدیں مسلسل پھیل رہی تھیں جبکہ عرب معاشرہ اب پوری طرح مستحکم ہو چکا تھا۔ عربوں میں اس وقت کسی قسم کی بغاوت موجود نہ تھی۔

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرب کی حدود میں غلامی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے یہ حکم جاری فرمایا کہ عرب کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جائے۔

    بِذَلِكَ مَضَتْ سُنَّةُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَمْ يَسْتَرِقَّ أَحَدًا مِنْ ذُكُورِهِمْ . وَكَذَلِكَ حَكَمَ عُمَرُ فِيهِمْ أَيْضًا حَتَّى رَدَّ سَبْيَ أَهْل الْجَاهِلِيَّةِ وَأَوْلاَدَ الإِْمَاءِ مِنْهُمْ أَحْرَارًا إِلَى عَشَائِرِهِمْ عَلَى فِدْيَةٍ يُؤَدُّونَهَا إِلَى الَّذِينَ أَسْلَمُوا وَهُمْ فِي أَيْدِيهِمْ . قَال : وَهَذَا مَشْهُورٌ مِنْ رَأْيِ عُمَرَ . وَرَوَى عَنْهُ الشَّعْبِيُّ أَنَّ عُمَرَ قَال : لَيْسَ عَلَى عَرَبِيٍّ مِلْكٌ . وَنُقِل عَنْهُ أَنَّهُ قَضَى بِفِدَاءِ مَنْ كَانَ فِي الرِّقِّ مِنْهُمْ.

    (ابو عبید، کتاب الاموال بحوالہ موسوعۃ الفقھیۃ الکويتیۃ)

    یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے ہی جاری ہو گئی تھی کہ اہل عرب کے مردوں کو غلام نہ بنایا جائے۔ اسی بات کا حکم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت جاری فرمایا جب انہوں نے مسلمانوں کے ہاں قید، اہل جاہلیت کے جنگی قیدیوں اور لونڈیوں کی اولادوں کو اہل اسلام کو فدیہ ادا کرنے کے بدلے آزاد کر کے اپنے قبائل میں جانے کی اجازت دے دی۔ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مشہور رائے ہے۔ شعبی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "عرب کو غلام نہ بنایا جائے گا۔" ان سے نقل کیا گیا ہے کہ کہ انہوں نے عرب میں موجود غلاموں کو فدیہ ادا کر کے آزاد کرنے کا فیصلہ دیا۔

    آپ عربوں کو شرم دلایا کرتے تھے کہ وہ اپنے بھائیوں ہی کو غلام بنائے ہوئے ہیں:

    وَلِذَلِكَ قَال عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : مِنَ الْعَارِ أَنْ يَمْلِكَ الرَّجُل ابْنَ عَمِّهِ أَوْ بِنْتَ عَمِّهِ . (ابن حجر، فتح الباری بحوالہ موسوعۃ الفقھیۃ الکويتیۃ)

    عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "یہ شرم کی بات ہے کہ کوئی شخص اپنے چچا کے بیٹے یا بیٹی کا مالک ہو۔

    اپنی شہادت کے وقت آپ نے یہ حکم جاری کیا کہ عرب معاشرے میں جتنے غلام موجود ہیں ان سب کو اس طرح سے آزاد کر دیا جائے کہ ان کی قیمت کی ادائیگی حکومت کے ذمہ ہو گی۔ اس کے بعد آئندہ عرب میں کوئی نیا غلام نہ بنایا جائے۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة عن زيد بن أبي رافع أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه كان مستندا إلى ابن عباس وعنده ابن عمر وسعيد بن زيد رضي الله عنهما فقال: اعلموا أني لم أقل في الكلالة شيئا، ولم أستخلف من بعدي أحد، وأنه من ادرك وفاتي من سبي العرب فهو حر من مال الله عز وجل

    فقال سعيد بن زيد: أما انك لو أشرت برجل من المسلمين لأتمنك الناس وقد فعل ذلك أبو بكر رضي الله عنه واتمنه الناس۔ فقال عمر رضي الله عنه قد رأيت من أصحابي حرصا سيئا۔ واني جاعل هذا الأمر إلى هؤلاء النفر الستة الذين مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض ثم قال عمر رضي الله عنه: لو أدركني أحد رجلين ثم جعلت هذا الأمر اليه لوثقت به سالم مولى أبي حذيفة وأبو عبيدة بن الجراح. (مسند احمد، باب عمر بن خطاب)

    زید بن ابو رافع کہتے ہیں کہ (اپنی شہادت کے وقت) سیدنا عمر، ابن عباس کو وصیت لکھوا رہے تھے اور ان کے پاس ابن عمر اور سعید بن زید (عمر کے بیٹے اور بہنوئی) رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ آپ نے فرمایا، "یہ بات اچھی طرح جان لو کہ کلالہ کے بارے میں میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکا اور نہ ہی میں اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر جا رہا ہوں۔ عرب میں موجود جنگی قیدیوں میں جو شخص بھی (بطور غلام) میری وفات کے وقت موجود ہو، اسے اللہ کے مال کے ذریعے آزاد کر دیا جائے۔

    سعید بن زید کہنے لگے، "کیا ہی اچھا ہو کہ آپ مسلمانوں میں سے کسی کو جانشین مقرر فرما دیں جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو جانشین بنایا تھا۔" عمر نے جواب دیا، "میں نے اس معاملے میں اپنے ساتھیوں میں خواہش دیکھی ہے۔ میں اس معاملے کو ان چھ افراد (علی، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد اور عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہم) کے سپرد کرنے والا ہوں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اپنی وفات کے وقت خوش تھے۔" اس کے بعد فرمانے لگے، "اگر ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم یا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ ہوتا تو میں اسے خلیفہ مقرر کر دیتا۔"

    قال الشافعی اخبرنا سفیان عن یحیی بن یحیی الغسانی، عن عمر بن عبدالعزیز، قال و اخبرنا سفیان عن رجل، عن شعبی ان عمر قال: لا یسترق العربی۔ (بیہقی، معرفۃ السنن والآثار، کتاب السیر، حدیث 17958)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اہل عرب کو غلام نہ بنایا جائے۔"

    رواہ الشافعی فی الام، و البیہقی فی سننہ الکبری، و جاء فی الاموال، ان الفاروق فدی کل رجل من اسری العرب باربع مئۃ درہم۔ و جاء فی الاموال و فی سنن البیہقی الکبری ان الفاروق عمر قال: لیس علی عربی ملک، و لسنا نازعی من ید رجل اسلم علیہ، و لکنا نقومھم الدیۃ خمسا من الابل للذی سباہ۔ وھذا بالنسبۃ لاسری العرب الذین وقعوا فی الاسر فی ظل جاھلیۃ۔ ثم ادرکھم الاسلام فاسلم مالکوھم۔ فکان علی کل اسیر من ھذا النوع ضرب علیہ الرق ان یدفع ھو، او یدفع ذروہ فدا، لمن یملکہ حرا الی عشیرتہ۔ (حاشیہ معرفۃ السنن والآثار، کتاب السیر، حدیث 17958)

    امام شافعی کتاب الام میں، بیہقی سنن الکبری میں اور (ابوعبید) کتاب الاموال میں بیان کرتے ہیں، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرب کے قیدیوں میں سے ہر ایک کا فدیہ 400 درہم ادا کیا۔ کتاب الاموال اور سنن الکبری میں بیان کیا گیا ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے فرمایا، " عرب میں غلامی نہیں رہے گی اور ہم ہر اسلام قبول کرنے والے کو اس کے آقا کی غلامی سے نکال لیں گے۔ ہم ہر غلام کا فدیہ پانچ اونٹ مقرر کریں گے۔ یہ عرب کے ان غلاموں کا معاملہ ہے جو کہ دور جاہلیت میں غلام بن گئے تھے، اس کے بعد وہ اور ان کے مالک مسلمان ہو گئے تھے۔ اس قسم کے ہر قیدی پر "غلام" کا اطلاق ہوتا ہے اور اسے اور اس کی اولاد کو فدیہ ادا کر کے آزاد کروایا جائے گا۔ اس کے بعد وہ آزاد ہو کر اپنے خاندان کی طرف جا سکیں گے۔

    فَأَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَن السُّلَمِىُّ أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْكَارِزِىُّ حَدَّثَنَا عَلِىُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِى حَصِينٍ عَنِ الشَّعْبِىِّ قَالَ : لَمَّا قَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : لَيْسَ عَلَى عَرَبِىٍّ مِلْكٌ وَلَسْنَا بِنَازِعِى مِنْ يَدِ رَجُلٍ شَيْئًا أَسْلَمَ عَلَيْهِ وَلَكِنَّا نُقَوِّمُهُمُ الْمِلَّةَ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ. قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ يَقُولُ هَذَا الَّذِى فِى يَدِهِ السَّبْىُ لاَ نَنْزِعُهُ مِنْ يَدِهِ بِلاَ عِوَضٍ لأَنَّهُ أَسْلَمَ عَلَيْهِ وَلاَ نَتْرُكُهُ مَمْلُوكًا وَهُوَ مِنَ الْعَرَبِ وَلَكِنَّهُ قَوَّمَ قِيمَتُهُ خَمْسًا مِنَ الإِبِلِ لِلَّذِى سَبَاهُ وَيَرْجِعُ إِلَى نَسَبِهِ عَرَبِيًّا كَمَا كَانَ. (بيهقى، سنن الكبرى؛ کتاب السير، حديث 18069)

    سیدنا عمر فاروق نے کھڑے ہو کر (خطبہ دیتے ہوئے) فرمایا، "عرب میں غلامی نہیں رہے گی اور ہم ہر اسلام قبول کرنے والے کو اس کے آقا کی غلامی سے نکال لیں گے۔ ہم ہر غلام کا فدیہ پانچ اونٹ مقرر کریں گے۔ ابو عبید کہتے ہیں کہ انہوں نے ان غلاموں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہم انہیں بلاعوض غلامی سے نہیں نکالیں گے لیکن چونکہ وہ اسلام قبول کر چکے ہیں اس وجہ سے انہیں غلام بھی نہیں رہنے دیں گے۔ یہ اہل عرب تھے، ان کا فدیہ ان کے مالکوں کے لئے پانچ اونٹ مقرر کیا گیا اور انہیں اپنے عرب خاندانوں میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے یہ واضح ہے کہ آپ نے ایسا عرب نسل کے لئے نہیں کیا بلکہ عرب معاشرے میں جو بھی غلام باقی رہ گئے تھے، انہیں آزاد کرنے کے لئے کیا۔ انہوں نے غلام کی آزادی کے لئے "عربیت" نہیں بلکہ "اسلام لانے" کی شرط لگائی تھی۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ اس وقت عرب میں جو غلام موجود تھے، وہ عرب ہی تھے۔

    بعد کے دور میں چونکہ مسلمانوں کے اندر نسل پرستی پھیل گئی تھی اس وجہ سے آپ کے اس فرمان کو کہیں بعد میں بعض لوگوں نے نسل پرستی کا مسئلہ بنا لیا اور کہنے لگے کہ اب عربوں کو غلام بنانا جائز نہیں ہے۔ جن افراد نے صرف قرآن مجید کی سورۃ حجرات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کا مطالعہ کیا ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی نسل کو کسی دوسری نسل پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم تمام انسانیت کی طرف مبعوث کئے گئے تھے اور جو بھی آپ پر ایمان لے آئے وہ دوسرے مسلمان بھائی کے برابر ہے۔

    اگر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے تو امید کی جا سکتی تھی کہ عرب معاشرے سے باہر بھی آپ غلامی کا خاتمہ کر دیتے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اصلاحات پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرم بن ضیاء العمری لکھتے ہیں:

    وقد كثر المكاتبون من الرقيق في خلافة عمر، فكانوا يساعدون تنفيذاً لأمر الله تعالى، كما أن الدولة كانت ترضخ للعبيد من الغنائم والعطاء، لتكون لهم مال يعملون بتنميته حتى يتحرروا من الرق. وقد ألزم سادتهم بتحريرهم إذا سددوا ما تعهدوا به من مال، وكان مقدار الفداء حسب مهارة العبد وقد يبلغ 40,000۔ درهم أحياناً. ولما تحسنت موارد بيت المال في خلافة عمر رضي الله عنه قدم وصيته - قبل موته - بتحرير جميع الأرقاء المسلمين في الدولة. (عمری، عصر الخلافۃ الراشدہ)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں غلاموں میں سے مکاتبت کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی۔ اللہ تعالی کے حکم کے نفاذ کے لئے حکومت مدد کیا کرتی تھی۔ یہ اسی طرح تھا کہ غنیمت اور وظائف میں غلاموں کو بھی حصہ دیا جاتا تھا تاکہ ان کے پاس مال آ جائے اور وہ ترقی کرتے ہوئے غلامی سے نجات حاصل کر کے آزاد ہو سکیں۔ ان کے آقاؤں پر یہ لازم تھا کہ معاہدے کے مطابق جب بھی غلام ادائیگی کر دے تو اسے آزاد کر دیا جائے۔ مکاتبت کے فدیے کی رقم کا تعین غلام کی صلاحیت و مہارت کے مطابق ہوا کرتا تھا جو بعض اوقات 40,000 درہم تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بیت المال کی حالت جب بہت بہتر ہو گئی تو انہوں نے اپنی وفات سے پہلے وصیت کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ملک میں موجود تمام مسلمان غلاموں کو آزاد کر دیا جائے۔

    آپ کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو آٹھ نو سال تک سکون سے کام کرنے کا موقع ملا لیکن فتوحات کے سیلاب کے باعث اس پر عمل کرنا ان کے لئے ممکن نہ رہا۔ اس کے بعد امت مسلمہ انارکی کا شکار ہو گئی اور سیدنا عثمان کا آخری اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا پورا دور ہی خانہ جنگی کی نظر ہو گیا۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب معاشرے کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا گیا۔ اس حکم کو غلط سمجھ لینے کے باوجود بعد میں بھی کم از کم یہ فائدہ تو ہوا کہ اس کے بعد عربوں کو غلام نہیں بنایا گیا۔

    عرب سے باہر موجود غلاموں سے متعلق اصلاحات

    خلفاء راشدین کے دور میں صرف اٹھارہ سال کے عرصے میں موجودہ دور کے عراق، ایران، افغانستان اور پاکستان کے کچھ علاقے، شام، اردن، فلسطین، لبنان، ترکی کے کچھ علاقے، مصر اور کچھ افریقی علاقے فتح ہو چکے تھے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ دنیا کے ان تمام علاقوں میں غلامی اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کی فتح کے ساتھ غلاموں کی ایک بہت بڑی آبادی اسلامی حکومت کے زیر نگیں آ گئی تھی۔ ان غلاموں کی تعداد لازماً کروڑوں میں ضرور رہی ہو گی۔

    اگر ان تمام غلاموں کو بیک وقت آزادی عطا کر دی جاتی تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ نکلتا کہ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار مردوں اور خواتین کا ایک بہت بڑا طبقہ وجود میں آ جاتا جو کہ چور، ڈاکو، بھکاری اور طوائف بن کر اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ ان غلاموں کی آزادی کے لئے بھی وہی طریق کار اختیار کیا گیا جو عرب میں موجود غلاموں کے لئے اختیار کیا گیا تھا۔ اسلام کی وہ تمام مراعات جن کا ذکر ہم پچھلے ابواب میں کر چکے ہیں، ان غلاموں کو بھی حاصل ہو گئیں۔

    فوری طور پر ان غلاموں کو بھی یہ حق حاصل ہو گیا کہ ان کے آقا ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ انہیں شادی کی اجازت دے دیں۔ ان کی عزت نفس کو قائم رکھیں۔ ان غلاموں کو وہ تمام قانونی اور معاشرتی حقوق حاصل ہو گئے جو انہیں پہلے حاصل نہ تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی آزادی کا دروازہ بھی کھل گیا۔

    اسلام قبول کرنے والے نئے غلاموں کو تو فوراً خرید کر آزاد کیا جانے لگا۔ اس کے علاوہ بھی ہر مسلم یا غیر مسلم غلام کو یہ حق حاصل ہو گیا کہ وہ مکاتبت کے ذریعے اپنی آزادی خود خرید سکے۔ مسلمانوں کو ان کا دین یہی ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے غلاموں کو بلامعاوضہ آزاد کر دیں۔ اس کے نتیجے میں کثیر تعداد میں ان مسلم و غیر مسلم غلاموں کو آزادی بھی نصیب ہونے لگی۔ خود خلفاء راشدین نے مثال قائم کرتے ہوئے کثیر تعداد میں ایرانی اور رومی غلام آزاد کئے۔

    یہی وجہ تھی کہ ان غلاموں نے بالعموم اسلامی فتوحات کا خیر مقدم کیا۔ تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ جنگ کے دوران دشمن کے غلام اسلامی لشکر سے آ ملے اور انہوں نے دشمن کی اہم معلومات اسلامی لشکر تک پہنچا دیں۔ اسی طرح بعض اوقات یہ غلام اسلامی لشکر کے گائیڈ کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ بسا اوقات یہ لوگ اسلامی لشکر کا راستہ صاف کرنے کے لئے پلوں وغیرہ کی تعمیر بھی کر دیا کرتے تھے۔

    خلافت راشدہ کے دور میں ایسا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ ان غلاموں کی بڑے پیمانے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کی گئی ہو۔ اگر انہیں منتقل کیا بھی گیا تو اس طریقے سے کہ ان کے خاندانوں میں کوئی تفریق پیدا نہیں کی گئی۔ عام طور پر ان غلاموں کو ان کی آبائی زمینوں ہی میں رکھا جاتا جہاں یہ زراعت کے عمل میں حصہ لیا کرتے تھے۔

    ایڈورڈ گبن بیان کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرتے ہی یہ غلام، سماجی رتبے کے اعتبار سے آزاد مسلمانوں کے برابر آ کھڑے ہوا کرتے تھے۔

    But the millions of African and Asiatic converts, who swelled the native band of the faithful Arabs, must have been allured, rather than constrained, to declare their belief in one God and the apostle of God. By the repetition of a sentence and the loss of a foreskin, the subject or the slave, the captive or the criminal, arose in a moment the free and equal companion of the victorious Moslems. (Edward Gibbon, The History of Decline & Fall of Roman Empire, http://www.ccel.org )

    افریقہ اور ایشیا کے کروڑوں نئے مسلمان، جو صاحب ایمان عربوں کے ساتھ شامل ہو جاتے، انہیں قید رکھنے کی بجائے آزاد کر دیا جاتا اگر وہ اس بات کا اعلان کر دیتے کہ وہ ایک خدا اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک کلمے کے دوہرانے اور ختنہ کروانے کے ساتھ ہی، آزاد یا غلام، قیدی یا مجرم، ایک لمحے ہی میں آزاد ہو کر فتح پانے والے مسلمانوں کے برابر آ کھڑے ہوا کرتے تھے۔
     
  19. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 12: اسلام کی انسداد غلامی کی مہم کے اثرات


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کی آزادی کی جو تحریک (Abolitionist Movement) شروع کی تھی، اس کے اثرات نہایت ہی مثبت نکلے۔ آپ کی اس تحریک کے نتیجے میں کثیر تعداد میں غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی۔ بے شمار غلاموں نے مکاتبت کے ذریعے آزادی حاصل کی۔ جو غلام باقی رہ گئے، ان کو ان کے معاشرتی، معاشی اور معاشرتی حقوق دیے گئے اور ان کے حقوق ان تک پہنچانے کو خلفاء راشدین نے اپنی ذمہ داری قرار دیا۔ انسداد غلامی کی اس مہم کے نتائج کو ہم حسب ذیل عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں۔

    · غلاموں کی آزادی کی تحریک کے صحابہ و تابعین پر اثرات

    · آزاد کردہ غلاموں سے متعلق اعداد و شمار

    · انسداد غلامی کی تحریک میں خلفاء راشدین کا کردار اور اس کے نتائج

    · غلاموں کے اسٹیٹس میں اضافے کے نتائج

    غلاموں کی آزادی کی تحریک کے صحابہ و تابعین پر اثرات

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم، آپ کے خاندان اور آپ کے قریبی ساتھیوں نے اپنے طرز عمل سے بکثرت غلام آزاد کرنے کی جو مثال قائم کی تھی، اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں غلاموں کو آزاد کرنے اور غلاموں میں آزادی حاصل کرنے کی زبردست تحریک پیدا ہوئی۔ یہاں ہم بطور مثال چند مشہور صحابہ کا ذکر کر رہے ہیں:

    ابوبکر صدیق

    سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو آپ کے پاس کثیر تعداد میں جمع کی گئی دولت موجود تھی۔ آپ نے اس دولت کا بڑا حصہ غلاموں کی آزادی پر صرف کیا۔ ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ غلام آزاد کرنے کی وجہ سے ان کا لقب "عتیق" مشہور ہو گیا تھا۔ انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ متعدد غلاموں کا ذکر اپنی سیرت کی کتاب میں کیا ہے۔ غلاموں کی آزادی کے پیچھے کیا مقصد کار فرما تھا، اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔

    حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ إسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ : اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ بِلاَلاً بِخَمْسِ أَوَاقٍ ، ثُمَّ أَعْتَقَهُ ، قَالَ : فَقَالَ لَهُ بِلاَلٌ : يَا أَبَا بَكْرٍ إِنْ كُنْتَ إنَّمَا أَعْتَقْتنِي لِتَتَّخِذَنِي خَازِنًا , فَاِتَّخِذْنِي خَازِنًا وَإِنْ كُنْت إنَّمَا أَعْتَقْتنِي لِلَّهِ فَدَعَنْي فَأَعْمَلُ لِلَّهِ ، قَالَ : فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ ، ثُمَّ قَالَ : بَلْ أَعْتَقْتُك لِلَّهِ. (مصنف ابن ابي شيبة، حديث 33002)

    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلال کو پانچ اوقیہ (چاندی) کے بدلے خریدا اور انہیں آزاد کر دیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ بلال مجھ سے کہنے لگے، "اے ابوبکر! اگر آپ نے مجھے (اپنے مال کا) خزانچی بنانے کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے خزانچی بنا دیجیے۔ اگر آپ نے مجھے اللہ کے لئے آزاد کیا ہے تو مجھے چھوڑ دیجیے کہ میں اللہ کے لئے عمل کروں۔" ابوبکر یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا، "میں نے تو آپ کو صرف اللہ ہی کے لئے آزاد کیا تھا۔"

    سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو چن چن کر کمزور غلام آزاد کرنےکا اتنا شوق تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے والد ابوقحافہ رضی اللہ عنہ (جو اس وقت اسلام نہ لائے تھے) کی تنبیہ کو بھی اہمیت نہ دی۔

    حدثنا أحمد بن سهل الفقيه ببخارا حدثنا صالح بن محمد بن حبيب الحافظ حدثنا سعيد بن يحيى الأموي حدثني عمي عبد الله بن سعيد عن زيادة بن عبد الله البكائي عن محمد بن إسحاق قال حدثني محمد بن عبد الله بن أبي عتيق عن عامر بن عبد الله بن الزبير عن أبيه قال قال أبو قحافة لأبي بكر أراك تعتق رقابا ضعافا، فلو إنك إذ فعلت ما فعلت أعتقت رجالا جلدا يمنعونك ويقومون دونك۔ فقال أبو بكر يا أبت إني إنما أريد ما أريد لما۔ نزلت هذه الآية فيه فأما من أعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسره لليسرى إلى قوله عز وجل { وما لأحد عنده من نعمة تجزى إلا ابتغاء وجه ربه الأعلى ولسوف يرضى } هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه. (مستدرک حاکم، حديث 3942)

    سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو قحافہ نے ابوبکر سے کہا، "میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت سے کمزور غلاموں کو آزاد کر رہے ہو۔ اگر تمہیں یہ کرنا ہی ہے تو جوان مردوں کو آزاد کرو جو تمہاری حفاظت کریں اور تمہاری حمایت میں کھڑے ہوں۔" ابوبکر نے کہا، "ابا جان! میں دنیاوی فائدے کے لئے ایسا نہیں کرتا" اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ "جس نے اپنا مال (اللہ کی راہ میں) خرچ کیا، اور پرھیزگاری اختیار کی، اور نیک بات کو سچ سمجھا، اس کے لئے ہم نیکی کو آسان کر دیں گے۔" (سورۃ والیل)

    عمر فاروق

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بکثرت غلام آزاد کئے اور اپنی عمر کے آخری حصے میں آپ کے پاس جو غلام موجود تھے، ان سب کو آزاد کر دیا۔ ( دیکھیے مسند احمد، باب عمر بن خطاب) نافع کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے اپنی زندگی میں ایک ہزار سے زائد غلام آزاد کئے۔ (دیکھیے مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ)

    غلاموں کو آزادی دیتے وقت آپ نے بحیثیت مسلمانوں کے لیڈر کے، ایسی مثالیں قائم کیں جو معاشرے کے دیگر افراد کے لئے قابل رشک تھیں۔ ایک مرتبہ تو ایسا ہوا کہ غلام کو آزادی دیتے وقت آپ کے پاس رقم نہ تھی۔ آپ نے اپنی بیٹی ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے قرض لے کر اپنے غلام کو یہ رقم دی کہ اس سے وہ کاروبار کر سکے۔ یہ سب آپ نے اپنی ذاتی حیثیت سے کیا۔ اس کے علاوہ بحیثیت خلیفہ آپ بیت المال سے غلام خرید کر آزاد کیا کرتے تھے اور ضرورت مند مکاتبوں کی مدد کیا کرتے تھے۔

    عثمان غنی

    سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال تھا۔ اللہ تعالی نے آپ کو بہت سی دولت سے نوازا تھا جسے آپ غلاموں کی آزادی پر خرچ کیا کرتے تھے۔ آپ کے آزاد کردہ غلام ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ہی وقت میں بیس غلام آزاد فرمائے۔ (مسند احمد، باب عثمان بن عفان) آپ خود بیان فرماتے ہیں:

    حَدَّثَنَا الْمِقْدَامُ بن دَاوُدَ الْمِصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَسْوَدِ النَّضْرُ بن عَبْدِ الْجَبَّارِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بن عَمْرٍو الْمَعَافِرِيُّ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا ثَوْرٍ النَّهْمِيَّ يُحَدِّثُ ، عَنْ عُثْمَانَ بن عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَقَدِ اخْتَبَأْتُ عِنْدَ رَبِّي عَشْرًا ، إِنِّي لَرَابِعُ أَرْبَعَةٍ فِي الإِسْلامِ ، وَمَا تَعَنَّيْتُ ، وَلا تَمَنَّيْتُ ، وَلا وَضَعْتُ يَمِينِي عَلَى فَرْجِي ، مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَا مَرَّتْ عَلَيَّ جُمُعَةٌ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلا وَأَنَا أَعْتِقُ فِيهَا رَقَبَةً ، إِلا أَنْ لا يَكُونَ عِنْدِي فَأَعْتِقَهَا بَعْدَ ذَلِكَ ، وَلا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلا إِسْلامٍ. (طبرانی؛ معجم الکبير)

    (جب باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا اور ان کے گھر کھانا اور پانی نہ پہنچنے دیا تو انہوں نے باغیوں سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا: میں دس ایسی باتیں چھپاتا رہا ہوں جو میرے رب ہی کو معلوم ہیں۔ میں چوتھا شخص ہوں جس نے اسلام قبول کیا، میں نے کبھی کسی پر ظلم نہیں کیا اور نہ ہی کسی چیز کی خواہش کی، نہ ہی میں نے کبھی اپنے دائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو چھوا ، جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی میں نے بیعت کی تو مجھ پر کوئی ایسا جمعہ نہیں گزرا ہے جب میں نے غلام آزاد نہ کیا ہو سوائے اس کے کہ میرے پاس کوئی غلام موجود ہی نہ ہو، میں نے نہ تو کبھی دور جاہلیت میں اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد بدکاری کا ارتکاب کیا ہے۔"

    سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تراسی برس کی عمر پائی۔ اس قبول کرنے کے وقت آپ کم وبیش پچپن برس زندہ رہے۔ اگر ہر جمعے کو غلام آزاد کرنے کا حساب لگایا جائے تو آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 2860 بنتی ہے۔ اس میں ایسے مواقع بھی آئے ہیں جب آپ نے ایک سے زائد غلاموں کو آزادی دی تھی۔ اس کی ایک مثال ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔

    علی المرتضی

    سیدنا علی المرتضی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کی زندگی زیادہ تر غربت میں گزری تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ زیادہ تر محنت مزدوری کر کے گزر بسر کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود ان میں غلاموں کو آزادی دینے کا بے پناہ جذبہ موجود تھا۔ غربت کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی تربیت اور آپ کے غلام آزاد کرنے کے شوق کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔

    أخبرنا عبيد الله بن سعيد ، قال : حدثنا معاذ بن هشام ، قال : حدثني أبي عن يحيى بن أبي كثير ، قال : حدثني زيد ، عن أبي سلام ، عن أبي أسماء الرحبي أن ثوبان مولى رسول الله صلى اللّه عليه وسلم حدثه قال جاءت ابنة هبيرة إلى رسول الله وفي يدها فطخ فقال كذا في كتاب أبي أي خواتيم ضخام فجعل رسول الله يضرب يدها۔ فدخلت على فاطمة بنت رسول الله تشكو إليها الذي صنع بها رسول الله صلى اللّه عليه وسلم۔ فانتزعت فاطمة سلسلة في عنقها من ذهب وقالت هذه أهداها إلي أبو حسن فدخل رسول الله صلى اللّه عليه وسلم والسلسلة في يدها فقال يا فاطمة أيغرك أن يقول الناس ابنة رسول الله وفي يدها سلسلة من نار ثم خرج ولم يقعد فأرسلت فاطمة بالسلسلة إلى السوق فباعتها واشترت بثمنها غلاما وقال مرة أخرى عبدا وذكر كلمة معناها فأعتقته فحدث بذلك وقال الحمد لله الذي نجى فاطمة من النار . (سنن الکبری از نسائی، کتاب الزينة، حديث 9378، مستدرک حاکم، حديث 4725)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ابن ہبیرہ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور ان کے ہاتھ میں موٹی سی انگوٹھی تھی۔ (اسے ناپسند فرماتے ہوئے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے ہاتھ پر (بطور تادیب ہلکی سی) ضرب لگائی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے اس عمل کی شکایت کرنے لگیں۔ وہ سیدہ سے کہہ رہی تھیں کہ آپ نے اپنے گلے میں سونے کی ایک چین کیوں پہن رکھی ہے؟

    سیدہ فاطمہ کہنے لگیں، "یہ چین تو مجھے (میرے خاوند) ابو الحسن علی رضی اللہ عنہ نے تحفتاً دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ان کے گھر میں داخل ہوئے تو سیدہ نے یہ زنجیر اتار کر ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ آپ نے ارشاد فرمایا، "اے فاطمہ! کیا تم یہ چاہتی ہو کہ لوگ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بیٹی کے ہاتھ میں آگ کی زنجیر ہے۔" یہ فرما کر آپ بغیر بیٹھے ان کے گھر سے نکل گئے۔ سیدہ نے وہ زنجیر بازار میں بھیجی اور اسے بیچ کر اس کا ایک غلام خریدا اور اسے آزاد کر دیا۔ آپ نے فرمایا، "اللہ کا شکر ہے جس نے فاطمہ کو اس آگ سے نجات دے دی ہے۔"

    عائشہ صدیقہ

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے بھی بکثرت غلام آزاد کرنے کی مثال قائم کی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تو غلاموں کی آزادی سے خصوصی دلچسپی تھی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زندگی میں آپ کے گھر والوں کے مالی وسائل بہت محدود تھے۔ آپ اپنے خاندان کے لئے ایسا مال کبھی قبول نہ فرماتے تھے جو کسی نے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کیا ہو۔ اس مال کو آپ نے ضرورت مندوں یا دین کی اشاعت کے لئے خرچ کرنے کا حکم دیا۔ ان محدود مالی وسائل کے باوجود کہ جب آپ کے گھر میں کئی کئی دن چولہا نہ جلتا تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ رضی اللہ عنہا نامی کنیز کو خرید کر آزد کیا۔ یہ حدیث، صحاح ستہ کی تمام کتب میں بہت سے مقامات پر موجود ہے۔ ایک مثال یہ ہے:

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهَا قَالَتْ : جَاءَتْ بَرِيرَةُ فَقَالَتْ : إنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ، فِي كُلِّ عَامٍ أُوْقِيَةٌ، فَأَعِينِينِى. فَقَالَتْ عَائِشَةُ : إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَنْكِ عَدَدْتُهَا, وَيَكُونَ لِي وَلاَؤُكِ فَعَلْتُ. فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا فَقَالَتْ لَهُمْ ذَلِكَ، فَأَبَوْا عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ مِنْ عِنْدِ أَهْلِهَا وَرَسُولُ اللَّهِ جَالِسٌ، فَقَالَتْ لِعَائِشَةَ إنِّي قَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِمْ ذَلِكَ فَأَبَوْا عَلَىَّ، إِلاَّ أَنْ يَكُونَ الْوَلاَءُ لَهُمْ. فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ r فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: « خُذِيهَا وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلاَءَ، فَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ». فَفَعَلَتْ عَائِشَةُ، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ : « أَمَّا بَعْدُ، فَمَا بَالُ رِجَالٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطاً لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ، مَا كَانَ مِنْ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِئَةَ شَرْطٍ، قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ، وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلاَءُ لِمَنْ أَعْتَقَ ». (موطاء مالک، کتاب العتق و الولاء، حديث 2265، بخاری، کتاب الشرائط، حديث 2729)

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زوجہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: بریرہ میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں، "میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی کے بدلے آزادی خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ہر سال ایک اوقیہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ میری کچھ مدد کیجیے۔" عائشہ نے فرمایا، "اگر وہ پسند کریں تو میں انہیں تمہاری طرف سے پوری قیمت اکٹھی ادا کر کے آزاد کر دوں اور تمہارا ولاء کا رشتہ مجھ سے قائم ہو جائے۔" بریرہ اپنے مالک کے پاس گئیں اور ان سے یہی بات کہی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔

    اب وہ واپس ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے پوری بات سیدہ عائشہ کو بتا دی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا، "لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرائط عائد کر رہے ہیں جن کی اجازت اللہ کے قانون میں نہیں دی گئی۔ جو شرط بھی اللہ کے قانون کے خلاف ہو، وہ باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہوں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ ہی کی شرائط سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں۔ ولاء کا رشتہ تو آزاد کرنے والوں کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔"

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء راشدین آپ کی ازواج مطہرات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے اور باقاعدگی سے انہیں وظائف بھیجا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان وظائف کو زیادہ تر غلاموں کی آزادی کے لئے خرچ کیا کرتی تھیں۔ دو مزید واقعات ملاحظہ فرمائیے:

    وَحَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ : تَوَفَّى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أبِي بَكْرٍ فِي نَوْمٍ نَامَهُ، فَأَعْتَقَتْ عَنْهُ عَائِشَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم رِقَاباً كَثِيرَةً. قَالَ مَالِكٌ : وَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ. (موطاء مالک، کتاب العتق و الولاء، حديث 2262)

    یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی) عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نیند کی حالت میں فوت ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ نے ان کی طرف سے کثیر تعداد میں غلام آّزاد کئے۔ مالک کہتے ہیں کہ یہ سب سے اچھی بات ہے جو اس ضمن میں میں نے سنی ہے۔

    حدثنا عبد الله بن يوسف: حدثنا الليث قال: حدثني أبو الأسود، عن عروة بن الزبير قال: كان عبد الله بن الزبير أحب البشر إلى عائشة بعد النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر، وكان أبر الناس بها، وكانت لا تمسك شيئا مما جاءها من رزق الله إلا تصدقت، فقال ابن الزبير: ينبغي أن يؤخذ على يديها، فقالت: أيؤخذ على يدي، علي نذر إن كلمته، فاستشفع إليها برجال من قريش، وبأخوال رسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة فامتنعت، فقال له الزهريون، أخوال النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عبد الرحمن بن الأسود ابن عبد يغوث، والمسور بن مخرمة: إذا استأذنا فاقتحم الحجاب، ففعل فأرسل إليها بعشر رقاب فأعتقهم، ثم لم تزل تعتقهم، حتى بلغت أربعين، فقالت: وددت أني جعلت حين حلفت عملا أعمله فأفرغ منه. بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3505)

    (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے) عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد (سیدہ کے بڑے بھانجے) عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما انہیں سب انسانوں سے زیادہ پیارے اور اچھے لگتے تھے۔ سیدہ کے پاس جو بھی اللہ کا رزق آتا وہ اسے (غرباء و مساکین پر) خرچ کر دیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ابن زبیر نے (مذاقاً) کہا، "ان کے ہاتھ کو روکنا پڑے گا۔" (جب سیدہ کو خبر ہوئی تو) آپ نے فرمایا، "کیا وہ میرا ہاتھ روکے گا؟ میں قسم کھاتی ہوں کہ اب اس سے بات نہ کروں گی۔"

    (عبداللہ ابن زبیر نے) قریش اور بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی رشتے داروں بنو زہرہ میں سے آپ کے رشتے کے ماموں عبدالرحمٰن بن اسود اور مسور بن مخرمہ کو ان کی خدمت میں معافی کی سفارش کے لئے بھیجا۔ انہوں نے ابن زبیر سے کہا، "جب سیدہ ہمیں اندر آنے کی اجازت دیں تو تم دوڑ کر ان کے پردے کے پیچھے گھس جانا (اور معافی مانگ لینا۔ ان کی اس حرکت اور بزرگوں کی سفارش پر سیدہ نے انہیں معاف کر دیا۔)

    ابن زبیر نے (آپ کو خوش کرنے کے لئے) آپ کے پاس دس غلام (آزاد کرنے کے لئے) بھیجے اور آپ نے انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد آپ (اسی قسم کے کفارے میں) مسلسل غلام آزاد کرتی رہیں یہاں تک کہ چالیس غلام آزاد کر دیے۔ آپ کہنے لگیں، "کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں قسم کھاتے ہوئے کوئی تعداد مقرر کر لیتی تو اب تک اس کام سے فارغ ہو چکی ہوتی۔"

    دیگر امہات المومنین

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین بھی غلام آزاد کیا کرتی تھیں۔ احادیث اور اسماء الرجال کے ذخیرے میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی کا ذکر ملتا ہے جسے انہوں نے آزاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مشہور تابعی عالم سلیمان بن یسار کو ان کے چار بھائیوں سمیت آزاد کیا تھا۔ اسی طرح سیدہ ام سلمہ و ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کے غلام آزاد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔

    حدثنا مسدد بن مسرهد، قال: ثنا عبد الوارث، عن سعيد بن جُمْهان، عن سفينة قال: كنت مملوكاً لأم سلمة فقالت: أعتقك وأشترط عليك أن تخْدُمَ رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم ما عشت، فقلت: وإن لم تشترطي عليّ ما فارقت رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم ما عشتُ، فأعتقتني واشترطت عليَّ. (سنن ابو داؤد، کتاب العتق ، حديث 3932)

    سفینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا غلام تھا۔ آپ مجھ سے کہنے لگیں، "میں تمہیں آزاد کرتی ہوں بشرطیکہ تم جب تک زندہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت کیا کرو۔" میں نے کہا، "اگر آپ یہ شرط نہ بھی رکھیں تب بھی میں جب تک زندہ ہوں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے جدائی برداشت نہ کروں گا۔" انہوں نے مجھے آزاد کر دیا اور یہ شرط برقرار رکھی۔

    دیگر صحابہ

    احادیث میں ایسے بہت سے صحابہ کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے محض اللہ تعالی کی رضا کے لئے غلام آزاد کئے۔ چند مزید واقعات پیش خدمت ہیں:

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عفان حدثنا حماد بن سلمة أنبأنا أبو غالب عن أبي أمامة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أقبل من خيبر ومعه غلامان فقال علي رضي الله عنه: يا رسول الله أخدمنا فقال: خذ أيهما شئت فقال: خر لي قال: خذ هذا ولا تضربه فإني قد رأيته يصلي مقبلنا من خيبر وإني قد نهيت عن ضرب أهل الصلاة وأعطى أبا ذر الغلام الآخر فقال: استوص به خيرا ثم قال: يا أبا ذر ما فعل الغلام الذي أعطيتك قال: أمرتني أن أستوص به خيرا فأعتقته. (مسند احمد، باب ابو امامة باهلی)

    ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جب خیبر سے واپس آئے تو آپ کے ساتھ دو غلام تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے، "یا رسول اللہ! ان میں سے ایک مجھے کام کے لئے دے دیجیے۔" آپ نے فرمایا، "جو تمہیں پسند ہے، لے لو۔" میں نے ایک کو پسند کیا تو آپ نے فرمایا، "اسے کبھی مارنا نہیں۔ میں نے واپسی پر اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور نماز پڑھنے والوں کو مارنے سے میں نے تمہیں منع کیا ہے۔"

    آپ نے دوسرا غلام ابوذر (غفاری) رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا، "میں تمہیں اس کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" کچھ عرصے بعد آپ نے پوچھا، "ابوذر! میں نے تمہیں جو غلام دیا تھا، تم نے اس کا کیا کیا؟" وہ بولے، "آپ نے مجھے اس کے ساتھ اچھے سلوک کی وصیت کی تھی، میں نے اسے آزاد کر دیا۔"

    حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، عن محمد بن بشر، عن إسماعيل، عن قيس، عن أبي هريرة رضي الله عنه: أنه لما أقبل يريد الإسلام، ومعه غلامه، ضل كل واحد منهما من صاحبه، فأقبل بعد ذلك وأبو هريرة جالس مع النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (يا أبا هريرة، هذا غلامك قد أتاك). فقال: أما إني أشهدك أنه حر، قال: فهو حين يقول: يا ليلة من طولها وعنائها * على أنها من دارة الكفر نجت. (بخاری، کتاب العتق، حديث 2530)

    ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے اسلام قبول کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے ساتھ ان کا ایک غلام بھی (اسلام قبول کرنے کے ارادے سے) چلا۔ یہ دونوں حضرات راستے میں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ (ابوہریرہ پہلے مدینہ پہنچ گئے) اور وہ بعد میں پہنچا تو ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا، "ابوہریرہ! تمہارا غلام بھی پہنچ گیا۔" وہ کہنے لگے، "میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ آج سے آزاد ہے۔" اس کے بعد انہوں نے شعر پڑھا، "آج کی رات بہت لمبی لیکن بہت پیاری ہے کیونکہ اس نے مجھے دار کفر سے نجات دی ہے۔"

    حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي عَمْرَةَ الأَنْصَاري : أَنَّ أُمَّهُ أَرَادَتْ أَنْ تُوصِيَ، ثُمَّ أَخَّرَتْ ذَلِكَ إِلَى أَنْ تُصْبِحَ فَهَلَكَتْ، وَقَدْ كَانَتْ هَمَّتْ بِأَنْ تُعْتِقَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقُلْتُ : لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَيَنْفَعُهَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْهَا، فَقَالَ الْقَاسِمُ إِنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : إِنَّ أُمِّي هَلَكَتْ، فَهَلْ يَنْفَعُهَا أَنْ أُعْتِقَ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : « نَعَمْ ». (موطا مالک، کتاب العتق والولاء، حديث 2261)

    عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ الانصاری بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ غلام آزاد کرنے کی وصیت کرنا چاہتی تھیں۔ اس میں کچھ تاخیر ہو گئی اور وہ وفات پا گئیں۔ عبدالرحمن نے قاسم بن محمد (بن ابوبکر صدیق) سے پوچھا، "اگر میں ان کی طرف سے غلام آزاد کروں تو کیا یہ ان کے لئے فائدہ مند ہو گا؟" قاسم کہنے لگے، "سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہی بات پوچھی تھی، "میری والدہ فوت ہو گئی ہیں۔ اگر میں ان کی جانب سے غلام آزاد کروں تو کیا انہیں اس کا فائدہ ہو گا؟" آپ نے فرمایا تھا، "بالکل ہو گا۔"

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا أبو نوح قراد قال أنبأنا ليث بن سعد عن مالك بن أنس عن الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن بعض شيوخهم أن زيادا مولى عبد الله بن عباد بن أبي ربيعة حدثهم عمن حدثه عن النبي صلى الله عليه وسلم أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم جلس بين يديه فقال: يا رسول الله إن لي مملوكين يكذبونني ويخونونني ويعصونني وأضربهم وأسبهم فكيف أنا منعهم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:

    بحسب ما خانوك وعصوك ويكذبوك وعقابك إياهم إن كان دون ذنوبهم كان فضلا لك عليهم۔ وإن كان عقابك إياهم بقدر ذنوبهم كان كفافا لا لك ولا عليك۔ وإن كان عقابك إياهم فوق ذنوبهم اقتص لهم منك الفضل الذي بقي قبلك۔ فجعل الرجل يبكي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ويهتف فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما له ما يقرأ كتاب الله ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال حبة من خردل أتينا بها وكفى بنا حاسبين۔ فقال الرجل: يا رسول الله ما أجد شيئا خيرا من فراق هولاء يعني عبيده إني أشهدك أنهم أحرار كلهم. (مسند احمد، باب عائشة)

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک صاحب آ کر آپ کے قریب بیٹھ گئے اور کہنے لگے، "یا رسول اللہ! میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے ہیں اور میری بات نہیں مانتے۔ میں نے انہیں مارا ہے اور برا بھلا کہا ہے۔ میں انہیں کس طریقے سے اس سے باز رکھوں۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:

    "اگر تم نے ان کی خیانت، نافرمانی اور جھوٹ کی نسبت کم سزا انہیں دی ہے تو یہ ان پر تمہاری مہربانی ہے۔ اگر تم نے ان کے جرائم کے مطابق سزا دی ہے تو معاملہ برابر برابر ہے۔ نہ تو تمہاری مہربانی ہے اور نہ ہی تم پر کوئی ذمہ داری ہے۔ اگر تم نے ان کے جرائم کی نسبت انہیں زیادہ سزا دی ہے تو پھر یاد رکھو کہ جتنی زیادتی تم نے کی ہے، اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔"

    (ان صاحب پر اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ) وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے زور زور سے رونے لگے۔ حضور نے فرمایا، "کیا تم اللہ کی کتاب میں نہیں پڑھتے کہ 'ہم قیامت کے دن میزان لگا دیں گے۔ کسی شخص پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ اگر کسی نے مٹی کے ذرے کے برابر بھی (نیکی یا برائی) کی ہو گی تو ہم اسے اس کا بدلہ دیں گے اور ہم حساب کرنے کے لئے کافی ہیں۔' " وہ شخص یہ سن کر کہنے لگا، "یا رسول اللہ! میرے لئے ان غلاموں کو چھوڑنے سے بہتر کوئی بات نہیں ہے۔ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ وہ سب کے سب آزاد ہیں۔"

    حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حدَّثَنَا هُرَيْمٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَدَّادٍ : أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ مَرَّ بِرَاعٍ يَرْعَى ، فَأَتَاهُ بِشَاةٍ فَأَهْدَاهَا لَهُ ، فَقَالَ لَهُ : حُرٌّ أَنْتَ أَمْ مَمْلُوكٌ ؟ فَقَالَ : مَمْلُوكٌ ، فَرَدَّهَا عَلَيْهِ ، فَقَالَ : إِنَّهَا لِي ، فَقِبَلهَا مِنْهُ ، ثُمَّ اشْتَرَاهُ وَاشْتَرَى الْغَنَمَ ، وَأَعْتَقَهُ وَجَعَلَ الْغَنَمَ لَهُ. (ابن ابی شيبة، حديث 23642)

    سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما ایک چرواہے کے پاس سے گزرے جو کہ بھیڑیں چرا رہا تھا۔ اس نے ایک بھیڑ ان کی خدمت میں تحفتاً پیش کی۔ آپ نے پوچھا، "تم آزاد ہو یا غلام ہو؟" اس نے کہا، "غلام ہوں۔" آپ نے بھیڑ اسے واپس کر دی۔ اس نے کہا، "یہ میری اپنی ہے۔" آپ نے تب اس کا تحفہ قبول فرما لیا۔ اس کے بعد آپ نے اس غلام کو پورے گلے سمیت خرید لیا اور اسے آزاد کر کے تمام بھیڑ بکریاں اسے تحفتاً دے دیں۔

    حدثنا علي بن حمشاذ ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل ثنا أحمد بن إبراهيم الدورقي حدثني أبو نعيم الفضل بن دكين ثنا زهير عن ليث عن مجاهد عن علي بن عبد الله بن عباس قال أعتق العباس عند موته سبعين مملوكا۔ (مستدرک حاکم، حديث 5402)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد عباس نے اپنی وفات کے وقت ستر غلاموں کو آزاد کیا۔

    یہ صرف چند واقعات ہیں۔ غلاموں کو آزاد کرنے کی مثالوں سے اسماء الرجال کی کتب بھری ہوئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے غلاموں کی آزادی کو ایک سماجی ادارے (Social Institution) کی شکل دے دی تھی۔ اس بات کو تمام انصاف پسند مغربی مورخین نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں ہم بطور مثال برطانیہ کے لیجنڈ مورخ ایڈورڈ گبن کے کچھ اقتباسات پیش کر رہے ہیں:

    A familiar story is related of the benevolence of one of the sons of Ali. In serving at table, a slave had inadvertently dropped a dish of scalding broth on his master: the heedless wretch fell prostrate, to deprecate his punishment, and repeated a verse of the Koran: "Paradise is for those who command their anger: " - "I am not angry: " - "and for those who pardon offences: " - "I pardon your offence: " - "and for those who return good for evil: " - "I give you your liberty and four hundred pieces of silver."

    (Edward Gibbon, The History of Decline & Fall of Roman Empire, http://www.ccel.org )

    علی کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے (حسن) کے حسن سلوک کی ایک کہانی بیان کی گئی ہے۔ کھانا پیش کرتے ہوئے ایک غلام سے اچانک پلیٹ گر گئی جس سے آقا پر ابلتا ہوا سالن گر گیا۔ لاپرواہ غلام نے اپنی سزا کو کم کروانے کے لئے نہایت عاجزی سے قرآن کی ایک آیت تلاوت کی، "جنت ان کے لئے ہے جو اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں۔" (حسن نے جواب دیا،) "مجھے غصہ نہیں آیا۔" (غلام کہنے لگا،) "اور وہ جو لوگوں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔" (حسن نے فرمایا،) "میں نے تمہارا قصور معاف کیا۔" (غلام نے آیت کا باقی حصہ تلاوت کیا،) "اور وہ جو برائی کے بدلے بھلائی کرتے ہیں۔" (حسن کہنے لگے،) "میں تمہیں آزاد کرتا ہوں اور چار سو درہم دیتا ہوں۔"

    بعد کے ادوار میں غلاموں کی آزادی کی تحریک کے اثرات

    غلاموں کی آزادی کی تحریک کے اثرات اس دور سے لے کر آج تک ہر دور میں برقرار رہے ہیں۔ غلاموں کی آزادی مسلمانوں کے ہاں مکمل اتفاق رائے کے ساتھ ایک نیکی رہی ہے۔ مسلمانوں کے نیک تو کیا برے لوگ بھی غلاموں کو آزاد کرتے رہے ہیں۔ ابن جوزی المنتظم میں بیان کرتے ہیں کہ بنو امیہ کے مشہور ظالم گورنر حجاج بن یوسف نے بھی مرتے وقت اپنے تمام غلاموں کو آزادی دے دی تھی۔

    کے ایس لال، جنہوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کے غلامی کے نظام کا نہایت ہی متعصبانہ اور یکطرفہ تجزیہ کرتے ہوئے بہت سے اسلامی قوانین اور تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا ہے، بیان کرتے ہیں:

    Manumission was widely practised in India for various reasons and causes. For instance, many are the blessings to those who fast during Ramzan, but if neglected intentionally the offender must expiate his guilt by the manumission of one male slave (ghulam) for every day that he broke the fast. Or, when the emperor Shahjahan was ill, his daughter liberated several slaves, made them walk round her father, and then sent them away to carry his infirmities with them. (K. S. Lal, Muslim Slave System, Chapter XI)

    مختلف وجوہات اور اسباب کی بنیاد پر غلاموں کی آزادی کا انڈیا میں عام معمول تھا۔ مثال کے طور پر، جو شخص رمضان میں روزے رکھے تو اس کے لئے بہت سے انعام ہوں گے لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر روزہ توڑ دے تو ہر روزے کے بدلے اسے ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔ اسی طرح جب شاہجہان بیمار ہوا تو اس کی بیٹی نے متعدد غلام آزاد کئے اور انہیں اپنے باپ کے گرد پھیرے لینے کا حکم دیا تاکہ وہ اس کی بیماری اپنے ساتھ لے جائیں۔

    شاہجہان کی بیٹی کی اس توہم پرستی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ یہ توہم پرستی مسلمانوں میں دیگر اقوام سے ہی آئی تھی۔

    موجودہ دور میں، جب غلامی ختم ہو چکی ہے، بہت سے مسلم ممالک بالخصوص عرب دنیا میں یہ عام معمول ہے کہ لوگ رمضان میں زکوۃ نکالتے وقت اس کا ایک حصہ ان افراد کے لئے مختص کر دیتے ہیں جو جرمانے وغیرہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جیل میں قید ہیں۔

    آزاد کردہ غلاموں سے متعلق اعداد و شمار

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور میں موجود کل آبادی، غلاموں اور آزاد کردہ غلاموں کی تعداد کے بارے میں بدقسمتی سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اعداد و شمار مرتب کئے جانےکا ذکر ملتا ہے جس میں انسانوں کے علاوہ زمین، باغات اور مویشیوں کی تعداد کا حساب بھی مرتب کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ ریکارڈ ہمیں دستیاب نہیں ہو سکا۔ یہ اعداد و شمار بھی یقیناً تھوڑے ہی عرصے میں تبدیل ہو گئے ہوں گے کیونکہ اس کے بعد فتوحات کے سیلاب کے نتیجے میں بہت سے ممالک اسلامی حکومت میں شامل ہو گئے تھے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی سرحدوں کے باعث اعداد و شمار کا ریکارڈ مرتب رکھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔

    ان اعداد و شمار کی عدم فراہمی کے باعث ہم نے خلافت راشدہ کے زمانے میں آزاد کردہ غلاموں کی تعداد اور معاشرے میں تناسب کا ایک نامکمل اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے جس کی تفصیلات ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔

    مسلمانوں کے ہاں ایک عجیب علم ایجاد ہوا ہے جس کی مثال دیگر اقوام میں نہیں ملی۔ اس علم کو "فن رجال" کہا جاتا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور ان کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ آپ سے منسوب ایک ایک بات کی چھان بین اور جانچ پڑتال کر کے ہی اسے قبول کیا جائے، اس وجہ سے انہوں نے حدیث بیان رکھنے والوں کے حالات زندگی (Biographies) کو مرتب کرنا شروع کر دیا تاکہ کسی قابل اعتماد شخص سے ہی حدیث کو قبول کیا جا سکے۔ پہلے پہل تو یہ فن زبانی روایات کی صورت میں محفوظ کیا گیا اور دوسری اور تیسری صدی ہجری میں اس پر باقاعدہ کتب لکھی جانے لگیں۔

    ہم نے ان کتب میں سے ابن سعد (وفات 230H / 844CE) کی کتاب طبقات الکبری کا انتخاب کر کے اس میں آزاد کردہ غلاموں کی تعداد کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کتاب کے انتخاب کی وجہ یہ ہے کہ اس میں احادیث بیان کرنے والے افراد کو ان کے اسلام قبول کرنے کے زمانے، سن پیدائش و سن وفات اور صحابہ کرام سے ان کی ملاقات کے اعتبار سے مختلف طبقات (Classes) میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اعداد و شمار مرتب کرنا ایک نسبتاً آسان کام ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں ہر طبقے کے آزاد کردہ غلاموں کو الگ سے بیان کیا گیا ہے۔ دیگر کتب رجال میں ان ناموں کو بالعموم حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان پر تحقیق کرنا ایک مشکل کام ہے۔ طبقات ابن سعد میں جن راویان حدیث کا نام دیا ہوا ہے اس کے مطابق جو نتائج سامنے آتے ہیں انہیں اس جدول میں بیان کیا گیا ہے:

    طبقہ
    کل تعداد
    آزاد کردہ غلام اور نیم غلام
    تناسب

    مہاجرین
    218
    61
    28%

    انصار
    512
    86
    17%

    کبار تابعین
    652
    172
    26%

    صغار تابعین
    238
    46
    19%

    کل تعداد
    1620
    365
    23%


    اب ہم ان سب کو الگ الگ تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

    مکہ کے رہنے والے مہاجر صحابہ

    اس گروپ میں وہ صحابہ شامل ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مکی زندگی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ ابن سعد نے ان کا ذکر تین طبقات میں کیا ہے۔ ایک تو وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ مدینہ ہجرت کی اور جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ دوسرا طبقہ ان مہاجرین پر مشتمل ہے جو بہت پہلے اسلام لے آئے اور انہوں نے پہلے حبشہ ہجرت کی اور پھر دوبارہ ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔ تیسرا طبقہ ان مہاجرین پر مشتمل ہے جو فتح مکہ سے پہلے اور غزوہ احد کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آئے۔

    ابن سعد نے مکہ کے رہنے والے ان صحابہ میں سے 218 صحابہ کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے 61 حضرات ایسے ہیں جو اسلام سے پہلے غلام یا نیم غلام کے درجے پر تھے۔ اسلام نے ان کا درجہ بلند کر کے انہیں آزاد کیا اور انہیں وہی رتبہ عطا کیا جو قدیم الاسلام صحابہ کو حاصل ہے۔ اس طرح سے مہاجرین مکہ میں آزاد کردہ غلاموں کا تناسب 28% ہے۔

    ان میں مشہور غلاموں میں زید بن حارثہ، بلال، صہیب، عامر بن فہیرہ، مہجع بن صالح اور خباب بن ارت رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ مشہور نیم غلاموں میں عبداللہ بن مسعود، عمار بن یاسر اور مقداد بن اسود رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہےکہ اسلام میں غلاموں کی بڑی تعداد کو کس قدر کشش محسوس ہوئی تھی۔

    انصار مدینہ

    ان میں وہ صحابہ شامل ہیں جو مدینہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کی بھرپور مدد کی اور انہیں مدینہ میں سیٹل ہونے میں مدد دی۔ انصار کی تقریباً پوری آبادی غزوہ احد سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی۔ ابن سعد نے ان میں سے 512 صحابہ کا ذکر کیا ہے جن میں سے 86 غلام یا نیم غلام تھے جنہیں آزادی نصیب ہوئی۔ ان کا تناسب 17% فیصد ہے۔ انصار کے ہاں نیم غلاموں کی تعداد مکمل غلاموں کی نسبت زیادہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ ایک زرعی علاقہ تھا اور یہاں مزارعوں کی تعداد زیادہ تھی۔ یہ لوگ اپنی زمینوں کے مالکوں کے ساتھ "حلیف" بن کر رہتے اور ان کے مولی کہلاتے۔

    بعد کے دور کے صحابہ

    ان صحابہ کے علاوہ ابن سعد نے کم و بیش 580 مزید صحابہ کا ذکر کیا ہے جن میں مکہ و مدینہ کے علاوہ دیگر قبائل اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے صحابہ شامل ہیں۔ ان میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور انہوں نے مدینہ ہجرت نہیں کی۔ اس گروپ میں مصنف نے صرف ان افراد کا ذکر کیا ہے جو کسی وجہ سے مشہور ہو گئے تھے۔ عام طور پر یہ لوگ اپنے قبائل کے سرکردہ افراد میں سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں آزاد کردہ غلاموں کا ذکر بہت کم ہے۔ اس وجہ سے ہم اس طبقے کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔

    تابعین کا دور اول

    تابعین کا دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات (11H / 632CE) سے شروع ہوتا ہے۔ ابن سعد نے تابعین کو سات طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے پہلا طبقہ وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا لیکن وہ آپ کی صحبت سے فیض یاب نہ ہو سکا تھا۔ ان لوگوں کو آپ کے خلفاء راشدین سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا تھا۔ دوسرا طبقہ ان تابعین کا ہے جو خلافت راشدہ کے دور میں پیدا ہو کر جوان ہوئے۔ ان حضرات کو اکثر صحابہ سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ ان میں سے اکثر حضرات کا زمانہ [11 - 100H / 632 - 718CE] کا ہے۔

    تیسرے اور چوتھے طبقے کے تابعین کو ان صحابہ سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا ہے جو عہد رسالت میں درمیانی عمر کے تھے۔ اس طبقے کے اکثر تابعین کا زمانہ [60 – 130H / 679 – 747CE] کے لگ بھگ ہے۔

    ابن سعد نے ان چار طبقات کے 512 تابعین کا ذکر کیا ہے جن میں سے 172 آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان آزاد کردہ غلاموں کا تناسب تمام تابعین میں 26% ہے۔

    تابعین کا دور ثانی

    بعد کے دور کے تابعین وہ ہیں جنہیں ان صحابہ سے ملاقات کا موقع ملا جو عہد رسالت میں ابھی بچے تھے اور اس کے بعد انہوں نے طویل عمر بھی پائی۔ اس طرح سے یہ تابعین وہ ہیں جنہیں صحابہ سے براہ راست تربیت یافتہ ہونے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ ان کو ابن سعد نے تین مزید طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ انہوں نے ان طبقات کے 238 تابعین کا ذکر کیا ہے جن میں 46 آزاد کردہ غلام ہیں۔ اس طرح سے آزاد کردہ غلاموں کا تناسب 19% ہے۔ ان میں سے خاص طور پر چھٹے طبقے [90 – 170H / 708 – 786CE] میں آزاد کردہ غلاموں کا تناسب 43% ہے۔

    مجموعی نتائج

    اگر ان تمام طبقات کے نتائج کو اکٹھا کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ و تابعین میں مدینہ کی تعلیم یافتہ آبادی کا 23% حصہ آزاد کردہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ واضح رہے کہ یہ تناسب صرف اور صرف ایک طبقے کا ہے جو کہ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی روایت میں حصہ لیا تھا۔ ان میں وہ آزاد کردہ غلام شامل نہیں ہیں جو زراعت، گلہ بانی، گھریلو صنعت اور تجارت میں مشغول رہے تھے۔ معاشرے کے ان طبقوں میں یقیناً آزاد کردہ غلاموں کا تناسب بہت زیادہ ہو گا کیونکہ ایسے غلاموں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔

    اگر سہولت کے لئے ہم یہ فرض کر لیں کہ اسلامی معاشرے میں آزاد کردہ غلام کل آبادی کا 25% تھے اور مدینہ کی آبادی 100,000 فرض کر لی جائے تو آزاد کردہ غلاموں کی تعداد صرف مدینہ شہر میں 25,000 بنتی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پورے عرب سے غلامی کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ اگر اس وقت کے عرب کی آبادی کو دس لاکھ بھی فرض کر لیا جائے تو آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 250,000 بنتی ہے۔

    اسلامی سلطنت کے مختلف حصوں میں آزاد کردہ غلاموں کے تناسب میں یقیناً فرق ہو گا۔ اگر بلوچستان کے ساحلوں سے لے کر مراکش تک پھیلی ہوئی اسلامی سلطنت کی آبادی کو اگر دس کروڑ بھی مان لیا جائے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام کی اصلاحات کے نتیجے میں کم از کم اڑھائی کروڑ غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی ہو گی۔

    اگر غلاموں کی آزادی کے اس پیٹرن کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم الاسلام صحابہ کے تقریباً تمام کے تمام غلام آزاد ہو چکے تھے۔ اس کے بعد تابعین کے دور اول میں بہت زیادہ غلام آزاد کئے گئے۔ تابعین کے دور ثانی میں اس تعداد میں کچھ کمی واقع ہو گئی تھی۔

    غلاموں کی خدمات کی قیمتوں سے بھی اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ تابعین کے دور ثانی تک پہنچتے پہنچتے معاشرے میں غلاموں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہو چکی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں ایک عام سے غلام کی خدمات کی قیمت 400-800 درہم کے لگ بھگ تھی۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہ کا بدل کتابت نو اوقیہ یعنی 360 درہم تھا (عمدۃ القاری)۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بدل کتابت 300 درہم تھا (فتح الباری)۔

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ قیمت 40,000 درہم تک پہنچ چکی تھی۔ ابو سعید المقبری رحمۃ اللہ علیہ اجلہ تابعین میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے مالک سے 40,000 درہم پر مکاتبت کی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس رقم کو ادا کرنے میں ان کی مدد کی تھی۔ (دیکھیے تابعین طبقہ اول) اسی طرح سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے افلح کو 40,000 درہم میں مکاتبت دی تھی اور پھر خود ہی اس مکاتبت کو منسوخ کر کے انہیں بغیر کسی رقم کے آزاد کر دیا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک غلام سے 35000 درہم پر مکاتبت کی تھی اور آخر میں اسے کچھ رقم معاف بھی کر دی تھی۔ (دیکھیے موطاء امام مالک، حدیث 2290)

    معاشیات کے قانون طلب و رسد کی رو سے کسی بھی سامان یا خدمات کی قیمت اتنی زیادہ بڑھ جانے کی وجوہات صرف دو ہی ہو سکتی ہیں؛ یا تو ان کی طلب (Demand) میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے اور یا پھر ان کی رسد (Supply) میں غیر معمولی کمی واقع ہو جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور تک طلب میں غیر معمولی اضافے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ اگرچہ ان کے دور میں بہت سے غیر آباد زمینوں کو آباد کیا گیا لیکن اس سے غلاموں کی طلب میں اتنا اضافہ نہیں ہو سکتا کہ ان کی قیمتیں چالیس گنا بڑھ جائیں۔ اس صورت میں واحد وجہ یہی رہ جاتی ہے کہ ان کی سپلائی میں غیر معمولی کمی واقع ہو چکی تھی۔

    غلاموں کی سپلائی میں کمی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جو غلام پہلے سے موجود تھے، وہ تو دھڑا دھڑ آزاد کئے جا رہے تھے جبکہ نئے غلام بنائے جانے پر تقریباً پابندی عائد ہو چکی تھی۔ نئے غلام بنائے جانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لیا جائے۔ اس صورت پر بھی بہت کم عمل کیا گیا اور اگر کبھی کسی بہت ہی سرکش دشمن کو غلام بنایا گیا تو اسے اطاعت قبول کر لینے پر آزاد کر دیا گیا۔ مفتوحہ ممالک میں جو غلام پہلے سے ہی موجود تھے، انہیں بالعموم مفتوحہ علاقوں ہی میں رکھا گیا تھا اور ان کی بڑے پیمانے پر منتقلی نہ کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں غلاموں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی۔

    غلاموں کے اسٹیٹس میں اضافے کے نتائج

    غلاموں کے اسٹیٹس میں اس اضافے کے نہایت مثبت اثرات مسلم معاشرے پر مرتب ہوئے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے مشہور مستشرق ڈینیل پائپس لکھتے ہیں:

    In reality, too, the first experiences of slaves in Islam were extremely good. For a variety of reasons, they filled important positions from the first years of Islam and participated extensively in its early civilization. Where else have "slaves made important contributions and exerted strong influences in the realms of politics and public administration, warfare, religion, arts and crafts, music, poetry, grammar, and learning in general? Slaves pervaded every area of activity, and their names ranked among the most celebrated of early Islamicate history and culture.

    (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    حقیقی زندگی میں اسلام میں غلاموں کا پہلا تجربہ آخری حد تک اچھا تھا۔ بہت سی وجوہات کی بنیاد پر، اسلام کے ابتدائی سالوں میں انہیں (معاشرے اور حکومت میں) اہم ترین عہدے دیے گئے اور انہوں نے ابتدائی تہذیب کی تعمیر میں گہرا کردار ادا کیا۔ (اسلام کے علاوہ) اور کس معاشرے میں ایسا ہے کہ غلاموں نے سیاست، حکومت، جنگ، مذہب، آرٹ، دستکاری، موسیقی، شاعری، گرامر اور عمومی تعلیم میں اتنا اہم کردار ادا کیا ہو؟ غلاموں نے انسانی زندگی کے ہر معاملے میں گہرا اثر و نفوذ حاصل کیا اور ان کے نام مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ اور ثقافت میں غیر معمولی شہرت اور مقام و مرتبے کے حامل ہو سکے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صحابہ نے غلاموں کا درجہ کس حد تک بلند کر دیا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یروشلم کے پادریوں کی فرمائش پر مدینہ سے یروشلم کا سفر کیا تو ان کے ساتھ صرف ایک اونٹ اور ایک غلام تھا۔ آپ نے اس غلام کے ساتھ اپنی باری مقرر کر لی کہ ہر شخص باری باری اونٹ پر بیٹھے گا اور دوسرا اس کی نکیل تھام کر چلے گا۔

    جب یروشلم کے قریب پہنچے تو غلام کی باری تھی۔ اس نے بھرپور اصرار کیا کہ آپ امیر المومنین ہیں، اچھا نہیں لگتا کہ ہم مفتوحین کے سامنے اس طرح جائیں کہ آپ اونٹ کی نکیل تھامے چل رہے ہوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غلام کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اس حالت میں شہر تک پہنچے کہ غلام تو اونٹ پر سوار ہے اور اس وقت کی متمدن دنیا کے پچاس فیصد رقبے کا حکمران اونٹ کی نکیل تھامے چل رہا ہے۔ آپ کے اس حسن سلوک کو دیکھتے ہوئے متعدد عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔

    یہ حقیقت ہے کہ اسلام کے آئیڈیل عہد میں آزاد کردہ غلاموں، نیم غلاموں اور ان کی آنے والی نسلوں میں بہت سے ایسے افراد پیدا ہوئے جن پر امت مسلمہ آج فخر کرتی ہے۔ ایسے چند افراد کے حالات زندگی ہم بطور مثال یہاں پر طبقات ابن سعد کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان حضرات کو مسلم معاشرے میں کیا مقام حاصل ہو چکا تھا۔ یہ وہ افراد ہیں جنہیں مسلمانوں کی تاریخ میں غیر معمولی مرتبہ و مقام حاصل ہے۔

    بلال بن رباح رضی اللہ عنہ

    بلال ایک حبشی غلام تھے۔ ان کا تعلق ایتھوپیا سے تھا۔ انہیں دور جاہلیت میں کسی وقت غلام بنا کر مکہ میں لا کر فروخت کر دیا گیا۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر ایمان لانے والوں کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔ ایمان لانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا آقا امیہ بن خلف ان پر جسمانی تشدد کرنے لگا۔

    مکہ کی گرمی میں جب درجہ حرارت 45 ڈگری سے زیادہ ہوا کرتا ہے، انہیں کھال میں لپیٹ کر تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا اور کہا جاتا، "کہو تمہارے رب لات اور عزی ہیں۔" آپ جواب میں کہتے، "احد، احد" یعنی میرا رب ایک ہی ہے۔ ان کی گردن میں رسی ڈال کر لڑکوں سے کہا جاتا کہ انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں۔ اس وقت بھی بلال کی زبان سے احد احد کے سوا اور کچھ نہ نکلتا۔

    سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال کو پانچ یا سات اوقیہ چاندی کے بدلے خرید کر خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ ہجرت کے بعد انہیں ابو رویحۃ الخثعمی رضی اللہ عنہ کا بھائی بنایا گیا۔ بلال نے ان کا حسن سلوک آخر تک نہ بھلایا۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا وظیفہ مقرر کیا تو انہوں نے اس وظیفے کو اپنے بھائی ابو رویحہ کو دینے کا مطالبہ کیا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ کو وہ مقام عطا کیا جس کے لئے آپ مشہور ہوئے اور وہ یہ کہ انہیں اسلام کی تاریخ کا پہلا فرد بنا دیا جس نے اذان دی تھی۔ آج بھی دنیا بھر کے لاکھوں موذن حضرت بلال کی نقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

    عید کے موقع پر بلال حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے اور آپ کے ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ آپ کے مقام اور مرتبے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نے ان کی شادی قریش کے ایک خاندان بنو زہرہ میں خود کروائی تھی۔ یہ اس وقت کیا گیا تھا جب عرب میں آزاد کردہ غلاموں اور بالخصوص افریقی غلاموں کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا۔

    فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بلال کو کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم دیا۔ مکہ کے لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار گزری کہ ایک آزاد کردہ غلام کو یہ مقام مل جائے کہ وہ کعبے کی چھت پر کھڑے ہوں لیکن آپ نے اس کی پرواہ نہ کی۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بلال کو اذان دینے کا حکم دیا تو بلال کہنے لگے، "اگر تو آپ نے مجھے اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا تھا تو مجھے جانے دیجیے۔ میں رسول اللہ کے بعد کسی کے لئے اذان نہیں دے سکتا۔" اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ شام جانے والے لشکر میں شامل ہو گئے اور شام کی فتح کے بعد وہیں آباد ہو گئے۔

    مسلم معاشرے میں بلال کے مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بھائی نے ایک عرب خاتون کو شادی کے لئے پیغام بھیجا۔ خاتون کے وارثوں نے کہا، "اگر آپ بلال کو لے آئیں تو ہم آپ کی شادی کرنے کے لئے تیار ہیں۔" بلال ان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے، "میں بلال ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ ہم دونوں حبشہ کے رہنے والے غلام تھے اور اپنی شکل و صورت اور دین کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم دونوں کو اللہ کی رضا کے لئے آزاد کیا۔ اگر آپ ہم سے رشتہ کرنے پر تیار ہوں تو آپ کی مرضی ہے اور اللہ کا شکر ہے۔ اگر آپ انکار کر دیں آپ کی مرضی۔ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔" ان لوگوں نے یہ کہہ کر رشتے کو قبول کر لیا کہ، "آپ کے بھائی سے رشتہ تو ہم ضرور ہی کریں گے۔"

    بلال کے عجز و انکسار کا یہ عالم تھا کہ جب لوگ ان کی تعریف کیا کرتے تو یہ کہا کرتے تھے، "میں تو ایک حبشی ہوں۔ ابھی کل تک تو میں ایک غلام تھا۔" آپ نے 20H / 640CE میں دمشق میں وفات پائی۔ آج بھی پوری دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے دل بلال کا نام سن کر محبت و عقیدت کے جذبات سے معمور ہو جایا کرتے ہیں۔

    سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ

    سالم ایک انصاری خاتون ثنیۃ بنت یعار رضی اللہ عنہا کے غلام تھے۔ انہوں نے ان کو آزاد کر دیا۔ ابوحذیفہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور ان کی شادی اپنی قریشی بھتیجی فاطمہ بنت ولید سے کر دی۔ سالم رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ آنے والے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے قرآن مجید سیکھ لیا تھا اور اس میں اتنے ماہر ہو چکے تھے کہ مہاجرین کے اولین گروہ ہجرت کر کے جب مدینہ میں آئے تو قبا کے مقام پر سالم ہی ان کی امامت کیا کرتے تھے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جن چار صحابہ کو قرآن کی تعلیم کے معاملے میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا تھا، ان میں سے ایک سالم بھی تھے۔ آپ صحابہ میں غیر معمولی مقام کے حامل تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے لیکن آپ اس سے بہت پہلے 12H / 633CE میں جنگ یمامہ میں شہید ہو چکے تھے۔

    آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی میراث کے مال کا ایک تہائی حصہ اللہ کی راہ میں، ایک تہائی غلاموں کو آزاد کرنے میں اور ایک تہائی آپ کے سابقہ مالکوں کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اس مال کو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بیت المال میں شامل کر دیا گیا۔

    ان حضرات کے علاوہ سیدنا زید بن حارثہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہما بھی ان غلاموں میں شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں آزاد ہوئے اور انہیں اسلامی تاریخ میں غیر معمولی شہرت نصیب ہوئی۔

    نیم غلاموں یا حلیفوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعود، مقداد بن الاسود اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہم کو تاریخ میں غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو صحابہ کے بڑے علماء میں سے ایک ہیں۔ سیدنا مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں شامل ہیں اور مسلم افواج کے ایک بڑے کمانڈر بنے۔ سیدنا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ، مسلم فوج کے ایک بڑے جرنیل اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔

    ام ایمن رضی اللہ عنہا

    یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی لونڈی تھیں۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کر دی۔ ان کی شادی کے وقت آپ نے فرمایا، "کون ہے جو ایک جنتی خاتون سے شادی کرنا چاہے۔" زید سے ان کے ہاں سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں اپنا ایک باغ بطور تحفہ دیا تھا۔

    انہیں مسلم معاشرے میں جو احترام حاصل ہوا، اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے بیٹے اسامہ کے آزاد کردہ غلام ابن ابی الفرات کو سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں ایک شخص نے جھگڑے میں ابن برکۃ کہہ دیا۔ برکۃ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا اصل نام تھا۔ قاضی شہر ابوبکر بن محمد بن عمرو نے اس جرم میں اس شخص کو ستر کوڑے کی سزا دی کہ اس نے ان کا نام لینے میں حقارت کا اظہار کیا تھا۔

    صحابیات میں جن دیگر لونڈیوں کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی، ان میں سیدہ عائشہ کی آزاد کردہ کنیز بریرہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔

    اب ہم تابعین میں سے چند مشہور حضرات کا بطور مثال ذکر کرتے ہیں جنہیں غلامی سے آزاد ہونے کے بعد مسلم معاشرے میں اعلی درجے کا مقام نصیب ہوا۔

    سلیمان بن یسار رحمۃ اللہ علیہ

    سلیمان ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے مکاتب تھے۔ ان کے چار بھائی سیدہ کے آزاد کردہ غلام تھے جن میں عطاء، عبدالملک اور عبداللہ رحمہم اللہ شامل تھے۔ مدینہ کے تابعین میں سات افراد علم دین میں غیر معمولی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے تھے جن میں سعید بن مسیب، عروۃ بن زبیر، ابوبکر بن حارث، عبیداللہ بن عتبہ، ، قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق، خارجہ بن زید اور سلیمان بن یسار رحمہم اللہ شامل تھے۔ مدینہ کے لوگ انہی سے آ کر دینی سوالات پوچھا کرتے تھے۔

    سلیمان کے علم و فضل کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جلیل القدر تابعی سعید بن مسیب سے اگر کوئی شخص سوال پوچھتا تو وہ کہتے، "سلیمان بن یسار کے پاس جاؤ، وہ سب لوگوں سے زیادہ بڑے عالم ہیں۔"

    سلیمان نے جلیل القدر صحابہ سیدنا زید بن ثابت، ابوہریرہ، ابو واقد اللیثی، ابن عمر، عبیداللہ، عبداللہ بن عباس، عائشہ اور میمونہ رضی اللہ عنہم سے احادیث روایت کی ہیں اور انہیں محدثین میں بہت بلند مقام ہے۔ آپ نے 107H / 725CE میں مدینہ میں وفات پائی۔

    عکرمہ مولی ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ

    عکرمہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام اور چہیتے شاگرد تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اکثر روایات انہی سے مروی ہیں۔ عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس اپنے غلاموں سے نہایت شفقت کا سلوک کیا کرتے تھے اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بہت توجہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ انہیں شادی کی بھرپور ترغیب دلایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے، "شادی کرو، کیونکہ اگر کوئی بندہ بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ اس سے ایمان کا نور ختم کر دیتا ہے۔" اسی محبت کے باعث ان کے غلام آزاد ہونے کے بعد بھی انہی کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔

    عکرمہ کو تابعین میں تفسیر کا سب سے بڑا عالم مانا جاتا ہے۔ تابعین انہیں علم کا سمندر قرار دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ بصرہ آئے اور گدھے پر سوار ہو کر بازار میں نکلے۔ لوگوں کو جب یہ علم ہوا کہ یہ عکرمہ ہیں تو لوگ ان کے گدھے کے گرد جمع ہو کر سوال کرنے لگے اور ان کے جوابات لکھنے لگے۔ رش اتنا بڑھ گیا کہ انہیں مکان کی چھت پر چڑھ کر مجمع سے خطاب کرنا پڑا۔ ان کے ہم عصر طاؤس کو کہنا پڑا، "اگر ابن عباس کے یہ آزاد کردہ غلام اس طرح احادیث بیان کرنے سے رک جائیں تو لوگ ان کی طرف سفر کر کے جایا کریں گے۔"

    اپنے ہم عصروں میں انہیں یہ مقام حاصل تھا کہ ایک مرتبہ ایک مجلس میں جلیل القدر تابعین علماء سعید بن مسیب، طاؤس، عطاء بن یسار اور عکرمہ رحمہم اللہ اکٹھے تھے اور عکرمہ کی تقریر کی باری تھی۔ ان کی تقریر کے دوران مجمع کی محویت کا یہ عالم تھا کہ ان کے سروں پر گویا پرندے بیٹھے ہیں اور وہ ذرا سا ہلے بھی تو یہ اڑ جائیں گے۔ انہوں نے 108H / 726CE میں وفات پائی۔

    تابعین کے دیگر جلیل القدر اہل علم میں طاؤس بن کیسان، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، یحیی بن ابی کثیر، محمد بن سیرین، نافع اور مکحول رحمۃ اللہ علیہم کے نام بہت مشہور ہیں۔ یہ سب کے سب آزاد کردہ غلام ہی تھے۔ یہ حضرات اپنے علمی مرتبے میں سلیمان بن یسار اور عکرمہ کے ہم پلہ تھے اور آج بھی ان حضرات کا بطور تابعی علماء بہت احترام کیا جاتا ہے۔ ابن قیم (691 - 751H / 1292 - 1350CE) لکھتے ہیں:

    وقال عبد الرحمن بن زيد بن أسلم: "لما مات العبادلة عبد الله بن عباس وعبد الله بن عمر وعبد الله بن عمرو ابن العاص صار الفقه في جميع البلدان إلى الموالي فكان فقيه أهل مكة عطاء ابن أبي رباح وفقيه أهل اليمن طاووس وفقيه أهل اليمامة يحيى بن أبي كثير وفقيه أهل الكوفة إبراهيم وفقيه أهل البصرة الحسن وفقيه أهل الشام مكحول وفقيه أهل خراسان عطاء الخراساني إلا المدينة فإن الله خصها بقرشي فكان فقيه أهل المدينة سعيد بن المسيب غير مدافع". (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم کہتے ہیں، جب سارے (صحابی جن کا نام) عبداللہ تھا، یعنی عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم فوت ہو گئے تو تمام شہروں میں فقہ (یعنی قانون کا علم) آزاد کردہ غلاموں کے پاس چلا گیا۔ اہل مکہ کے فقیہ عطاء بن ابی رباح ہوئے، یمن کے فقیہ طاؤس، یمامہ کے فقیہ یحیی بن ابی کثیر، کوفہ کے فقیہ ابراہیم نخعی، بصرہ کے فقیہ حسن بصری، شام کے فقیہ مکحول، اور خراسان کے فقیہ عطاء الخراسانی۔ صرف مدینہ کا استثنا رہا جہاں اللہ تعالی نے خاص طور پر قریشی فقیہ کو قائم رکھا۔ اہل مدینہ کے فقیہ بلا شرکت غیرے سعید بن مسیب تھے۔ (ان کے بعد ایک آزاد کردہ غلام سلیمان بن یسار کا درجہ تھا۔)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے غلاموں سے اولاد کی طرح محبت کیا کرتے تھے۔ عکرمہ سے آپ کی محبت خصوصی تھی۔ جب ابن عباس رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پوتے خالد بن یزید، جو کہ بہت بڑے سائنسدان تھے، نے عکرمہ کی خدمات ابن عباس کے بیٹے سے خرید لیا۔ وہ اپنے کسی علمی پراجیکٹ میں عکرمہ کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ عکرمہ کو یہ بات بہت بری لگی اور انہوں نے ابن عباس کے بیٹے سے سخت احتجاج کیا اور کہا: "تم نے اپنے باپ کا علم بیچ دیا۔" وہ بڑے شرمندہ ہوئے اور یہ ڈیل کینسل کر کے انہیں آزاد کر دیا۔

    ان حضرات کے علاوہ اگر کتب رجال کا جائزہ لیا جائے تو بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں آزاد کردہ غلاموں کو ذکر ان میں ملتا ہے جو بلند سماجی مرتبے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ان کی اولاد میں سے بہت سے جلیل القدر ائمہ پیدا ہوئے۔ ان تمام حضرات کو یہ سماجی مرتبہ اسی وجہ سے مل سکا ہے کہ دین اسلام نے غلاموں کو معاشرے کے سب سے نچلے طبقے سے اٹھا کر آزاد افراد کے برابر لا کھڑا کیا اور انہیں وہ سہولیات فراہم کیں جو ہر شخص کو حاصل تھیں۔
     
  20. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 13: اسلام اور نفسیاتی آزادی


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    دین اسلام نے جسمانی غلامی اور نیم غلامی کو ختم کرنے کے لئے جو اصلاحات کیں، ان کی تفصیل ہم پچھلے ابواب میں پڑھ چکے ہیں۔ اس باب میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اسلام نے دنیا میں نفسیاتی غلامی کے خاتمے کے لئے کیا کیا۔

    نفسیاتی غلامی: اسلام سے پہلے

    اسلام سے پہلے بھی دنیا بھر میں مذہبی طبقے کو اقتدار حاصل تھا۔ دنیا کے کم و بیش تمام ممالک ہی میں مذہبی طبقہ اس درجے میں موجود تھا کہ وہ حکومتی اور معاشرتی معاملات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت کو تھیو کریسی کہا جاتا تھا۔ اس دور میں دنیا کا غالب مذہب "شرک" تھا۔ کم و بیش دنیا بھر کے ممالک میں دیوی دیوتاؤں کی دیو مالا (Mythology) تخلیق کی گئی تھی۔ ریاست کے ہر شہری کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس دیو مالا پر ایمان لائے۔ اگر کوئی شخص مخصوص مذہبی عقائد سے مختلف نظریہ رکھنا چاہتا تو اسے مذہبی جبر کا شکار ہونا پڑتا اور اسے اس کے انحراف کے درجے اور شدت کے مطابق کوئی بھی سزا دی جا سکتی تھی۔

    دین شرک کے مقابلے میں دین توحید کے علمبردار اہل کتاب تھے جو یہودیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھے۔ یہ لوگ اگرچہ توحید ہی کے پیروکار تھے اور شرک کو ایک برائی ہی قرار دیا کرتے تھے لیکن غیر محسوس طریقے پر شرک ان کے اندر شخصیت پرستی کی صورت میں سرایت کر چکا تھا۔ یہودیوں نے سیدنا عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کو اور عیسائیوں نے سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا کا بیٹا قرار دے کر شرک کو اپنے مذہبی عقائد میں جگہ دے رکھی تھی۔

    اہل کتاب کے ہاں بھی ان کے مذہبی علماء اور صوفیاء کو وہی مقام حاصل ہو چکا تھا جو کہ اہل شرک کے ہاں ان کے مذہبی راہنماؤں کو حاصل تھا۔ ان کے ہاں مذہبی راہنماؤں کا یہ مقام اب بھی برقرار ہے البتہ ان کی سیاسی قوت کمزور پڑ چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے میں اس ذہنی غلامی کی کیا صورت موجود تھی، اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے:

    حدثنا الحسين بن يزيد الكوفي حدثنا عبد السلام بن حرب عن غطيف بن أعين عن مصعب بن سعد عن عدي بن حاتم قال : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وفي عنقي صليب من ذهب فقال يا عدي اطرح عنك هذا الوثن وسمعته يقرأ في سورة براءة { اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله } قال أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه. (ترمذی؛ کتاب التفسیر؛ حدیث 3095)

    سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آیا تومیرے گلے میں سونے کی ایک صلیب لٹک رہی تھی۔ آپ نے فرمایا، "اے عدی! اس بت کو اتار دو۔" میں نے آپ کو سورۃ توبہ کی یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا، "ان (اہل کتاب نے) اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور صوفیاء کو اس کا شریک بنا لیا تھا۔" اور فرمایا، "یہ لوگ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے مگر جب وہ کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو اسے حلال سمجھنے لگتے اور جب حرام قرار دیتے تو اسے حرام سمجھنے لگتے۔"

    اگر یہودی اور عیسائی حضرات کے اپنے مذہبی لٹریچر، خاص طور پر ان کے اولیاء کرام (Saints) کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو بعینہ یہی تصویر سامنے آتی ہے۔

    فکری آزادی کے معاملے میں اسلام کی اصلاحات

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے ذہنی آقا و غلام کے تعلق کی بجائے دوستانہ تعلق قائم فرمایا۔ جن معاملات میں اللہ تعالی کی جانب سے وحی نازل ہو جایا کرتی تھی، اس میں تو صحابہ سنتے اور اطاعت کرتے لیکن جہاں معاملہ دین کے کسی حکم کا نہ ہوتا، وہاں ان کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتی رائے سے مختلف رائے پیش کرنا بھی کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

    غور و فکر کی قرآنی دعوت

    اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ وحی کے معاملے میں بھی یہ معاملہ نہ تھا کہ لوگ اندھا دھند اس حکم کی پیروی میں لگ جائیں بلکہ انہیں اس پر کھلے ذہن سے غور و فکر کرنے کا حق حاصل تھا۔ قرآن مجید بار بار مسلمانوں کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اللہ کے احکامات کی حکمتیں جاننے کی تلقین کرتا ہے۔

    وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمّاً وَعُمْيَاناً. (الفرقان؛ 25:73)

    جب انہیں اللہ کی آیات سے نصیحت دلائی جاتی ہے تو وہ ان پر اندھے بہرے ہو کر نہیں گرتے۔

    إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِي الأَلْبَابِ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَاماً وَقُعُوداً وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. (اٰل عمران 3:190-191)

    آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے فرق میں اہل عقل کے لئے نشانیاں ہیں۔ (اہل عقل وہ ہیں جو ان نشانیوں کو دیکھ کر) کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، "اے ہمارے رب تو نے یہ سب بے کار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔"

    قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر یہ بیان ہوا ہے کہ نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو "اولوا الباب" یعنی صاحب عقل اور سوچنے سمجھنے والے لوگ ہیں۔

    آزادی اظہار سے متعلق رسول اللہ کا طرز عمل

    اختلاف رائے کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا طرز عمل یہ ہوا کرتا تھا کہ آپ مختلف رائے کو دبانے کی بجائے اس پر مثبت انداز میں غور و خوض فرماتے اور کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ اپنی رائے کی بجائے کسی صحابی کی رائے کو ترجیح دے دیا کرتے تھے۔ اگر آپ صحابہ کی رائے سے متفق نہ ہوتے تو انہیں مثبت انداز میں متفق کرنے کی کوشش فرماتے۔ اظہار رائے کی اس آزادی کی کچھ مثالیں ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صحابہ کو یہ واضح طور پر بتا دیا کہ صرف اور صرف دینی احکام سے متعلق ان پر آپ کی پیروی کرنا لازم ہے۔ دنیاوی امور میں وہ اپنے معاملات جیسے چاہے چلا سکتے ہیں بشرطیکہ اس سے دین کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔

    حدثنا عبدالله بن الرومي اليمامي وعباس بن عبدالعظيم العنبري وأحمد بن جعفر المعقري. قالوا: حدثنا النضر بن محمد. حدثنا عكرمة (وهو ابن عمار). حدثنا أبو النجاشي. حدثني رافع بن خديج قال: قدم نبي الله صلى الله عليه وسلم المدينة. وهم يأبرون النخل. يقولون يلقحون النخل. فقال "ما تصنعون؟". قالوا: كنا نصنعه. قال "لعلكم لو لم تفعلوا كان خيرا" فتركوه. فنفضت أو فنقصت. قال فذكروا ذلك له فقال "إنما أنا بشر. إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوا به. وإذا أمرتكم بشيء من رأي. فإنما أن بشر، انتم أعلم بأمر دنياكم" (مسلم، کتاب الفضائل، حديث 6127)

    سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجوروں کی پیوند کاری کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا، "تم لوگ یہ کیا کرتے ہو۔" وہ بولے، "ہم تو یہی کرتے آ رہے ہیں۔" آپ نے فرمایا، "اگر تم یہ نہ کرو تو ہو سکتا ہے کہ بہتر ہو۔" انہوں نے پیوند کاری چھوڑ دی جس کے نتیجے میں پیداوار کم ہو گئی۔ انہوں نے جب آپ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا، "میں تو ایک انسان ہوں (مگر اللہ کا رسول ہوں۔) اگر میں تمہیں دین سے متعلق کوئی حکم دو تو اس پر عمل کروں اور اگر اپنی رائے سے تمہیں کوئی بات کہوں تو میں انسان ہی ہوں۔ تم اپنے دنیاوی امور کو خود بہتر جانتے ہو۔"

    اس سے اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ بات محض عجز و انکسار کی وجہ سے ارشاد فرمائی۔ بہت سے دیگر واقعات سے یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ اور آپ کے صحابہ کا یہی معمول رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جنگی پلاننگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشورے سے کیا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید میں آپ کو اسی کا حکم دیا گیا تھا۔

    فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الأَمْرِ۔ (آل عمران 3:159)

    ان سے درگزر کرتے رہیے، ان کی بخشش کی دعا کرتے رہیے اور معاملات میں ان سے مشورہ کرتے رہیے۔

    وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ ۔ (شوری 42:38)

    (اہل ایمان تو وہ ہیں) جو اپنے رب کی پکار کا جواب دیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات کو مشورے سے چلاتے ہیں۔

    جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک مقام پر قیام کرتے ہوئے ایک جنگی حکمت عملی ترتیب دی لیکن اس کے بعد آپ نے ایک صحابی سیدنا حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کے مشورے پر اس جنگی حکمت عملی میں تبدیلی فرمائی۔

    قال الحباب بن المنذر يا رسول الله إن هذا المكان الذي أنت به ليس بمنزل انطلق بنا إلى أدنى ماء إلى القوم فإني عالم بها وبقلبها بها قليب قد عرفت عذوبة مائه لا ينزح ثم نبني عليه حوضا فنشرب ونقاتل ونعور ما سواه من القلب فنزل جبريل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال الرأي ما أشار به الحباب فنهض رسول الله صلى الله عليه وسلم ففعل ذلك۔ (طبقات ابن سعد، غزوہ بدر)

    حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، "یا رسول اللہ! جس مقام پر آپ ٹھہرے ہوئے ہیں، مناسب نہیں ہے۔ ہمیں نیچے پانی کی طرف چلنا چاہیے۔ میں اس جگہ سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ میٹھا پانی ہے۔ ہم پانی کا بہاؤ تبدیل کر کے اسے ایک حوض کی شکل دے لیں گے اور اس سے پانی پئیں گے، جنگ کریں گے اور صرف ہم ہی اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ جبریل اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس اترے اور کہنے لگے کہ حباب کی رائے درست ہے۔ آپ اٹھے اور آپ نے اسی رائے پر عمل کیا۔

    جنگ احد کے موقع پر آپ نے اپنی رائے کے خلاف نوجوان صحابہ کی رائے کے مطابق شہر سے باہر نکل کر مقابلہ فرمایا۔

    فكان رأي رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا يخرج من المدينة لهذه الرؤيا فأحب أن يوافق على مثل رأيه فاستشار أصحابه في الخروج فأشار عليه عبد الله بن أبي بن سلول أن لا يخرج وكان ذلك رأي الأكابر من المهاجرين والأنصار فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم امكثوا في المدينة واجعلوا النساء والذراري في الآطام فقال فتيان أحداث لم يشهدوا بدرا فطلبوا من رسول الله صلى الله عليه وسلم الخروج إلى عدوهم ورغبوا في الشهادة وقالوا اخرج بنا إلى عدونا فغلب على الأمر الذي يريدون الخروج۔ (طبقات ابن سعد، غزوہ احد)

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ نہ کیا جائے۔ آپ کے خواب کے مطابق یہی رائے پسندیدہ تھی۔ آپ نے اپنے صحابہ سے نکلنے کے بارے میں مشورہ کیا۔ عبداللہ بن ابی کا مشورہ یہ تھا کہ باہر نکل کر مقابلہ نہ کیا جائے اور مہاجرین و انصار کے بزرگوں کی رائے بھی یہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "مدینہ میں ٹھہرے رہو اور بچوں اور خواتین کو محفوظ مقام پر چھوڑ دو۔

    نئے نوجوان لڑکے جنہوں نے بدر کی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے۔ یہ لوگ شہادت کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ وہ بولے، "ہم دشمن کی طرف نکل کر چلیں۔" باہر نکل کر مقابلہ کرنے والوں کی رائے (کثرت رائے کے باعث) غالب ہو گئی (اور باہر نکل کر ہی مقابلہ کیا گیا۔)

    جنگ خندق میں ایک سابقہ غلام، سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا۔ جنگ کا یہ طریق کار سن کر صحابہ بہت حیران ہوئے کیونکہ جنگ کرنے کا یہ طریقہ عرب میں رائج نہیں تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے صحابہ کو اظہار رائے کی آزادی کس حد تک حاصل تھی اور اس میں آزاد، غلام اور مولی ہر شخص کو رائے دینے کا برابر حق حاصل تھا۔

    آپ نے جب سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ایک فوجی مہم کا امیر بنا کر بھیجا تو اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔ آپ نے انہیں کافر و مشرک یا گستاخ رسول قرار دینے کی بجائے انہیں مثبت انداز میں قائل فرمایا۔

    حدثنا إسماعيل: حدثنا مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا، وأمر عليهم أسامة بن زيد، فطعن الناس في إمارته، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (إن تطعنوا في إمارته فقد كنتم تطعنون في إمارة أبيه من قبل، وايم الله إن كان لخليفا للإمارة، وإن كان لمن أحب الناس لي، وإن هذا لمن أحب الناس إلي بعده). (بخاری، کتاب الفضائل، حديث 3730)

    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بنا کر بھیجا۔ لوگوں نے ان کے امیر ہونے پر اعتراض کیا تو نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا، "تم لوگ ان کی امارت پر اعتراض کر رہے ہو جبہ تم نے اس سے پہلے ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا۔ خدا کی قسم وہ امارت کے سب سے زیادہ اہل تھے۔ وہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پسند تھے اور ان کے بعد اسامہ مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے۔"

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کیا تو اس موقع پر انہیں اسلامی قانون کی حیثیت سے یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے خاوند سے علیحدگی حاصل کر لیں۔ وہ اپنے خاوند کو سخت ناپسند کرتی تھیں جبکہ ان کے خاوند ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان سے شادی کو باقی رکھنے کی سفارش کی جسے انہوں نے قبول نہیں کیا۔

    حدثنا محمد: أخبرنا عبد الوهاب: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس: أن زوج بريرة عبد أسود يقال له مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: (يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثا). فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (لو راجعته). قالت يا رسول الله تأمرني؟ قال: (إنما أنا أشفع). قالت: لا حاجة لي فيه. (بخاری، کتاب الطلاق، حديث 5283)

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بریرہ کے خاوند ایک سیاہ فام غلام تھے جن کا نام مغیث تھا۔ میں گویا اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے ہیں اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا، "عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ مغیث بریرہ سے کس قدر محبت کرتا ہے اور وہ اس سے کتنی نفرت کرتی ہے۔" آپ نے بریرہ سے فرمایا، "کاش تم علیحدگی کا یہ فیصلہ بدل دو۔" وہ پوچھنے لگیں، "یا رسول اللہ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟" آپ نے فرمایا، "نہیں میں تو سفارش کر رہا ہوں۔" وہ بولیں، "پھر مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔"

    بعض افراد نے قرآن مجید کی ایک آیت سے یہ مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم زیادہ غور و فکر کرنے اور سوالات کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ وہ آیت یہ ہے:

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ. (المائدہ؛ 5:100)

    اے ایمان والو! ان چیزوں کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرو جو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں، لیکن اگر تم ایسے وقت میں یہ سوالات کرو گے تو وہ تم پر واضح کر دی جائیں گی۔ اب تک جو تم نے کیا اسے اللہ نے معاف کر دیا اور وہ معاف کرنے والا اور بردبار ہے۔

    اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ دین اسلام میں غور و فکر ممنوع ہے، بالکل ہی غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث سے یہ بالکل ہی واضح ہے کہ اس آیت میں جن سوالات سے روکا گیا ہے، وہ ایک مخصوص نوعیت کے سوالات ہیں۔

    حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ: حدثنا سعيد: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (إن أعظم المسلمين جرماً، من سأل عن شيء لم يُحرَّم، فحُرِّم من أجل مسألته). (بخارى؛ كتاب الاعتصام؛ حديث 7289)

    سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، "سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جو حرام نہیں تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ حرام کر دی گئی۔"

    وعن أبي ثعلبة الخشني قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها وحرم حرمات فلا تنتهكوها وحد حدودا فلا تعتدوها وسكت عن أشياء من غير نسيان فلا تبحثوا عنها . (مشکوۃ؛ كتاب الاعتصام؛ حديث 197)

    سیدنا ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "اللہ نے کچھ فرائض لازم کئے ہیں، انہیں ضائع مت کرو۔ اس نے کچھ کام حرام قرار دیے ہیں، ان کے قریب بھی نہ جاؤ۔ اس نے کچھ حدود مقرر کی ہیں، ان کی خلاف ورزی مت کرو۔ لیکن اس نے کچھ چیزوں کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے، ان کے بارے میں تفتیش میں نہ پڑو سوائے اس کے کہ بھول کر کچھ کر گزرو۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مثبت غور و فکر سے کبھی نہیں روکا۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت ایسے سوالات سے منع فرمایا گیا جن کے نتیجے میں کوئی کام حرام ہو جائے اور امت مشکل میں پڑ جائے۔ اللہ تعالی نے جہاں خاموشی اختیار کی ہے، اس میں خاموش ہی رہنا چاہیے تاکہ لوگوں کے لئے انتخاب (Choice) کی آزادی برقرار رہے اور وہ اللہ تعالی کے ہاں اس معاملے میں مسئول نہ ہوں۔

    رہے مثبت سوالات، تو ان کے بارے میں قطعی کوئی ممانعت نہ تھی۔ احادیث کے پورے ذخیرے کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حلال و حرام کے مخصوص دائرے کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بکثرت سوال کیا کرتے تھے اور آپ انہیں ہر طرح سے مطمئن کر دیا کرتے تھے۔

    آزادی اظہار سے متعلق خلفاء راشدین کا طرز عمل

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء راشدین کا طرز عمل بھی یہی رہا۔ اس کی تفصیل کے لئے خلفاء راشدین کے طرز عمل کی کچھ مثالیں ہم بیان کر رہے ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے پہلے خطبے میں اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے فرمایا:

    أخبرنا عبيد الله بن موسى قال أخبرنا هشام بن عروة قال عبيد الله أظنه عن أبيه قال لما ولي أبو بكر خطب الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال أما بعد أيها الناس قد وليت أمركم ولست يخيركم ولكن نزل القرآن وسن النبي صلى الله عليه وسلم السنن فعلمنا فعلمنا اعملوا أن أكيس الكيس التقوى وأن أحمق الحمق الفجور وأن أقواكم عندي الضعيف حتى آخذ له بحقه وأن أضعفكم عندي القوي حتى آخذ منه الحق أيها الناس إنما أنا متبع ولست بمبتدع فإن أحسنت فأعينوني وإن زغت فقوموني. (طبقات ابن سعد، ذکر ابوبکر)

    جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے لوگوں سے خطاب فرمایا۔ اس میں انہوں نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا، "اے انسانو! مجھے آپ کے امور کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہے اور میں اس کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔ قرآن نازل ہوا اور نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سنت قائم فرمائی تو ہمیں دین کا علم ہوا۔ جان رکھیے کہ سب سے بہترین لباس، اللہ سے خبردار رہنے کا لباس ہے۔ تمام بے وقوفیوں میں سے سب سے بڑی بے وقوفی گناہ کرنا ہے۔

    آپ میں سے جو شخص سب سے زیادہ طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک اس وقت تک سب سے زیادہ کمزور ہے جب تک کہ میں اس سے (اس کے ذمے عائد) حق وصول نہ کر لوں۔ آپ میں سے جو شخص سب سے زیادہ کمزور ہے وہ میرے نزدیک اس وقت تک سب سے زیادہ طاقتور ہے جب تک میں اسے اس کا حق پہنچا نہ دوں۔ اے انسانو! میں تو (دین کی) پیروی کرنے والا ہوں نہ کہ کوئی بدعت پیدا کرنے والا۔ اگر میں اچھا کام کروں تو آپ میری مدد کیجیے گا اور اگر غلط راستہ اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دیجیے گا۔"

    اس خطبے کی آخری بات محض عجز و انکسار ہی نہ تھی بلکہ صحابہ کا عمل یہی تھا۔ ارتداد کے خلاف جنگی کاروائی ہو یا لشکر اسامہ کی روانگی، روم و ایران سے جنگ کا معاملہ ہو یا اپنے بعد آنے والے خلیفہ کی تقرری، ہر ہر معاملے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ کے مشورے سے ہی معاملات چلایا کرتے تھے اور تمام صحابہ کو کھلے عام اپنی رائے کے اظہار کی آزادی حاصل تھی۔

    سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی مثال قائم فرمائی۔ لوگوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جمعے کے خطبے کے دوران کھڑے ہو کر بھرے مجمع میں آپ کا احتساب کر سکیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ آپ دو چادروں پر مشتمل لباس پہن کر جمعہ کے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آ گئیں جبکہ ہم سب کو تو مال غنیمت میں سے ایک ایک چادر ملی ہے۔ آپ نے خود جواب دینے کی بجائے اپنے بیٹے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جواب دینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے اٹھ کر بتایا کہ میں نے اپنے حصے کی چادر اباجان کو دے دی ہے۔ آپ نے اعتراض کرنے والوں کو گستاخ قرار نہیں دیا۔

    ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے خواتین کے حق مہر کی رقم کی ایک حد مقرر کرنے کا ارادہ کیا۔ نماز جمعہ میں ایک خاتون نے اس سے سخت اختلاف کیا اور ان کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ آپ نے ان خاتون کو بھی گستاخ قرار نہیں دیا۔

    زمینوں کا انتظام کرنا ہو، جنگی تیاریاں کا معاملہ ہو، عوام کی فلاح و بہبود پر رقم خرچ کرنا ہو، مال غنیمت کی تقسیم ہو، ہر معاملے میں لوگوں کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل تھا۔ جو شخص صاحبین مجلس کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا، اسی کی رائے پر حکومتی فیصلہ نافذ ہو جاتا۔ آپ دوسروں کو اپنا احتساب کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔

    أخبرنا محمد بن عمر قال حدثني قيس بن الربيع عن عطاء بن السائب عن زادان عن سلمان أن عمر قال له أملك أنا أم خليفة فقال له سلمان إن أنت جبيت من أرض المسلمين درهما أو أقل أو أكثر ثم وضعته في غير حقه فأنت ملك غير خليفة فاستعبر عمر. (طبقات ابن سعد، ذکر عمر)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: "کیا میں بادشاہ ہوں یا خلیفہ؟" سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، "اگر آپ مسلمانوں کی زمین میں سے ایک درہم یا اس سے کم یا زیادہ وصول کرے اور اسے ناحق خرچ کریں تو آپ بادشاہ ہیں خلیفہ نہیں ہیں۔" عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر رونے لگے۔

    أخبرنا محمد بن عمر قال حدثني عبد الله بن الحارث عن أبيه عن سفيان بن أبي العوجاء قال قال عمر بن الخطاب والله ما أدري أخليفة أنا أم ملك فإن كنت ملكا فهذا أمر عظيم قال قائل يا أمير المؤمنين إن بينهما فرقا قال ما هو قال الخليفة لا يأخذ إلا حقا ولا يضعه إلا في حق فأنت بحمد الله كذلك والملك يعسف الناس فيأخذ من هذا ويعطي هذا فسكت عمر۔ (طبقات ابن سعد، ذکر عمر)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "مجھے یہ پتہ نہیں چلتا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ۔ اگر تو میں بادشاہ ہوں تو یہ بہت بڑا معاملہ ہے۔" کسی شخص نے کہا، "اے امیر المومنین! ان دونوں میں فرق ہے۔ خلیفہ وہ ہے جو سوائے حق کے (ٹیکس) وصول نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ناحق خرچ کرتا ہے۔ الحمد للہ آپ ایسے ہیں ہیں۔ بادشاہ تو لوگوں پر ظلم کر کے ٹیکس لیتا ہے اور اسے اپنی مرضی سے خرچ کرتا ہے۔" عمر یہ سن کر خاموش ہو گئے۔

    خلیفہ بننے کے بعد طویل عرصے تک آپ نے تنخواہ نہیں لی بلکہ اپنے مال سے خرچ کرتے رہے۔ جب آپ کا اپنا مال ختم ہو گیا تو پھر صحابہ سے مشورہ کیا کہ میں اپنے گھر کے خرچ کا کیا کروں؟ سیدنا عثمان اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کے مشورے کے مطابق آپ نے کھانے اور لباس کے لئے رقم بیت المال سے لینا شروع کی۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ اپنے دور خلافت میں عمر روزانہ دو درہم تنخواہ لیتے تھے اور میری تنخواہ ایک سو اسی درہم ہوا کرتی تھی۔

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں انہی کے مقرر کردہ جج قاضی شریح رحمہ اللہ کی عدالت میں ایک یہودی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دعوی کر دیا۔ آپ نے اپنے حق میں دو گواہ سیدنا حسن و قنبر رضی اللہ عنہما کو پیش کیا۔ جج نے ان دونوں کی گواہی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایک ان کا بیٹا تھا اور دوسرا آزاد کردہ غلام اور فیصلہ یہودی کے حق میں سنا دیا۔ یہودی نے یہ فیصلہ سن کر اسلام قبول کر لیا کہ انصاف کا یہ عالم ہے کہ قاضی ایک غیر مسلم کے حق میں خلیفہ وقت کے خلاف فیصلہ دے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خلیفہ وقت کے معاملے میں آزادی رائے کا یہ عالم تھا تو پھر دیگر بزرگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟

    اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام نے آباء پرستی، شخصیت پرستی اور فکری غلامی کے دیگر تمام بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اپنے پیروکاروں کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کر دیا۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ تین چار سو سال کے بعد امت مسلمہ اسی نفسیاتی غلامی کا بڑے پیمانے پر شکار ہو گئی جس سے نکالنے کی کوشش اسلام نے کی تھی۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
     
  21. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 14: مسلمانوں کے دور انحطاط میں غلامی (1)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    جس طرح بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت پر قائم نہ رہ سکے بالکل اسی طرح مسلمان بھی اللہ تعالی کے احکامات پر پوری طرح عمل پیرا نہ رہ سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے جلیل القدر صحابہ جب تک زندہ رہے، اس وقت تک مسلمان دین پر پوری طرح عمل پیرا رہے۔ صحابہ کرام کے آخری دور میں فتنوں کا آغاز ہوا۔ اس کی ابتدا اس طرح سے ہوئی کہ دین اسلام نے مسلمانوں کو شورائیت پر مبنی ایسا نظام (Participative Government) اختیار کرنے کا حکم دیا تھا جس میں حکومت مسلمانوں کے مشورے سے قائم ہو، مشورے سے اپنے کام سرانجام دے اور ان کے مشورے ہی سے ختم ہو۔

    جب تک خلافت راشدہ قائم رہی، تمام حکومتی معاملات اسی طرح چلائے جاتے رہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی چونکہ ان کے اردگرد جلیل القدر صحابہ ہی تھے، اس وجہ سے شورائیت کی یہی اسپرٹ برقرار رہی۔ ان کے بعد حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے اور خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کر دیا گیا۔

    بنو امیہ کے دور (41 – 133H / 661 – 750CE)میں غلامی

    سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کم و بیش دس سال کا عرصہ تو انارکی کا شکار ہو گیا۔ اس کے بعد بنو مروان نے ایک سخت گیر بادشاہت کا آغاز کیا جس میں حجاج بن یوسف جیسے ظالم گورنر کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا گیا۔ بعد کے ادوار میں بنو امیہ کے خاندان نے مسلمانوں کے بیت المال کو ذاتی جاگیر سمجھ کر خوب لوٹا اور اپنی دولت میں اضافہ بھی کرتے رہے۔

    ان کے دور میں انسانی آزادیوں پر متعدد پابندیاں عائد کی گئیں اور خواتین کا استحصال کیا گیا۔ لونڈیوں کے ساتھ ساتھ مسلم معاشروں میں ایک اور طبقے "غلمان" کا اضافہ بھی ہوا۔ یہ خوبصورت نوخیز غلام لڑکوں کا طبقہ تھا جسے فروغ دینے میں حکمرانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان لڑکوں کو بھی جنسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ محمد رضا الشیرازی بیان کرتے ہیں:

    أما الاستقلال وحرية القول فجاهد الأمويون في مقاومتهما وقيّدوا الألسنة بإرادتهم تقييداً شديداً فكان ذلك عظيماً على الذين تعوّدوا الحق والحرية فعاقبهم الأمويون جزاء حريتهم واستقلال أفكارهم بالعذاب الشديد، ومن لم يستطيعوا مقاومته جهاراً قتلوه سراً،۔۔۔۔۔۔ بدأت المرأة بتبديل طباعها في أيام الأمويين لأن العفة والغيرة أصابتها في ذلك العصر صدمة قوية بتكاثر الجواري والغلمان وانغماس بعض الخلفاء في الترف والقصف وانتشار الغناء والمسكر فتجرّأ الشعراء على التشبيب والتغزّل وتكاثر المخنّثون في المدن وتوسّطوا بين الرجال والنساء بالباطل، فأخذ الفساد يتفشّى بين الناس وضعفت غيرة الرجال وقلّت عفة الناس حتى كان الشعراء يتشبّبون ببنات الخلفاء۔۔۔۔ فيركبان على نجيبين ويلقيان الحاج فيتعرّضان للنساء وينشدان الأشعار لا يباليان أن تكون فيهن بنت الخليفة أو امرأته، والظاهر أنهم لم يكونوا يفعلون ذلك إلا لما يرون من ارتياح النساء إليه لأن المرأة تفتخر بأن يثني الشعراء على جمالها وإن لم يرض أهلها، فقد كان لعبد الملك بن مروان بنت أرادت الحج فخاف أن يشبّب بها ابن أبي ربيعة فاستكتب الحجاج إليه إن هو فعل ذلك أصابه بكل مكروه، فلما قضت حجها خرجت فمر بها رجل فقالت له: (من أنت؟) فقال: (من أهل مكة) قالت: (عليك وعلى بلدك لعنة الله) قال: (ولم ذاك؟) قالت: (حججت فدخلت مكة ومعي من الجواري ما لم تر الأعين مثلهن فلم يستطع الفاسق ابن أبي ربيعة أن يزودنا من شعره أبياتاً نلهو بها في الطريق من سفرنا) قال: (إني لا أراه إلا قد فعل) قالت: (فآتنا بشيء إن كان قاله ولك بكل بيت عشرة دنانير) فمضى إليه فأخبره فقال: (لقد فعلت ولكن أحب أن تكتم عليّ) وأنشده قصيدة قالها فيها. (محمد رضا الشیرازی، الآداب الاجتماعیۃ فی المملکۃ الاسلامیۃ، http://www.alshirazi.com)

    جہاں تک انسانی آزادی اور آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو امویوں نے اس پر قدغنیں لگانے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے زبانوں کو بند کرنے کے لئے شدید اقدامات کئے۔ یہ معاملہ ان لوگوں کے لئے سخت تھا جو حق بات کہنے اور آزادی کے قائل تھے۔ امویوں نے ان کی آزادی رائے کی خواہش کی پاداش میں انہیں سخت سزائیں دیں۔ جس شخص کو وہ کھلے عام نہیں روک سکتے تھے، اسے انہوں نے خفیہ طور پر قتل کروا دیا۔۔۔۔

    اموی دور میں خواتین کے مزاج میں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو چکی تھی۔ عفت و غیرت کے تصور کو اس دور میں شدید دھچکا لگا جس کی وجوہات میں لونڈیوں اور غلمانوں کی کثرت، بادشاہوں میں دکھاوے اور فضول خرچی کا فروغ، اور موسیقی اور شراب کی کثرت تھی۔ شاعر لوگ عاشقانہ غزلیں کہنے لگے۔ شہروں میں مخنث کثرت سے پھیل گئے اور مردوں اور خواتین کے درمیان واسطے کا سبب بنے۔ لوگوں میں فساد پھیلتا چلا گیا، مردوں کی غیرت کمزور پڑتی چلی گئی اور لوگوں میں عفت و عصمت کم ہوتی چلی گئی۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ شاعر شاہی خاندان کی عورتوں کے بارے میں غزلیں کہنے لگے۔

    شرفاء حج کے بعد خواتین کے ساتھ شعر و شاعری کی محفلوں میں شریک ہونے لگے۔ اس کی بھی پرواہ نہ رہی کہ ان میں بادشاہ کی بیٹی یا بیوی موجود ہے۔ ظاہری طور پر وہ یہ سب کچھ خواتین کی خوشنودی کے لئے کیا کرتے تھے کیونکہ عورتیں اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ شاعر ان کے حسن و جمال کی تعریف کر رہے ہیں اگرچہ ان کے گھر والے اسے پسند نہ بھی کریں۔

    عبدالملک بن مروان کی بیٹی نے حج کا ارادہ کیا تو بادشاہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ ابن ابی ربیعہ (نامی شاعر) کہیں اس کے بارے میں عشقیہ غزل نہ کہہ دے۔ اس نے حجاج (بن یوسف) کو حکم لکھوایا کہ اگر وہ یہ کام کرے تو اسے ہر طرح کی سخت سزا دی جائے۔ جب اس کی بیٹی حج کر کے فارغ ہوئی اور واپسی کے لئے نکلی تو ایک شخص اس کے پاس آیا۔ شہزادی نے پوچھا، "تم کون ہو؟" اس نے کہا، "مکہ کے رہنے والوں میں سے ایک۔" وہ بولی، "تم پر اور تمہارے شہر والوں پر اللہ کی لعنت ہو۔" اس نے پوچھا، "وہ کیوں؟" وہ بولی، "میں حج کے لئے مکہ میں داخل ہوئی اور میرے ساتھ میری وہ لونڈیاں بھی تھیں جن کی مثل کسی آنکھ نے نہیں دیکھی ہوگی۔ فاسق (شاعر) ابن ابی ربیعہ کیا اتنی صلاحیت بھی نہ رکھتا تھا کہ وہ کچھ ایسے شعر کہہ دیتا جن سے ہم دوران سفر لطف اندوز ہی ہوتے۔" وہ بولا، "میرے خیال میں وہ یہ کرنا چاہتا ہے۔" وہ بولی، "اگر اس نے کچھ شعر کہے ہیں تو وہ ہمیں دے، ہر شعر کے بدلے اسے دس دینار ملیں گے۔" اس نے جا کر ابن ابی ربیعہ کو یہ بات بتائی۔ وہ کہنے لگا، "میں نے یہ کر تو لیا ہے لیکن میری یہی خواہش ہے کہ یہ بات چھپا لی جائے کہ یہ شعر میرے ہیں۔" اس کے بعد اس نے اس شہزادی کے بارے میں قصیدہ کہا۔

    ایسا نہیں تھا کہ اس دور میں تمام کے تمام مسلمان ہی انحراف کا شکار ہو چکے تھے۔ ان میں جلیل القدر صحابہ و تابعین کی کمی نہ تھی جو انہیں اصل دین کی طرف لوٹنے اور نیکیاں کرنے کی ترغیب دلایا کرتے تھے۔

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، أَنَّهُ قَالَ : مَالِي أَرَى عُلَمَاءَكُمْ يَذْهَبُونَ ، وَأَرَى جُهَّالَكُمْ لاَ يَتَعَلَّمُونَ ، اعْلَمُوا قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ , فَإِنَّ رَفْعَ الْعِلْمِ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ ، مَالِي أَرَاكُمْ تَحْرِصُونَ عَلَى مَا تُكُفِّلَ لَكُمْ بِهِ ، وَتُضَيِّعُونَ مَا وُكِّلْتُمْ بِهِ ، لأَنَا أَعْلَمُ بِشِرَارِكُمْ مِنَ الْبَيْطَارِ بِالْخَيْلِ ، هُمَ الَّذِينَ لاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ دُبُرًا ، وَلاَ يَسْمَعُونَ الْقُرْآنَ إِلاَّ هَجْرًا ، وَلاَ يَعْتِقُ مُحَرَّرُهُمْ. (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 35748)

    سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ (d. 32H / 653CE) فرمایا کرتے تھے، "تمہیں کیا ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے علماء اٹھتے چلے جا رہے ہیں اور تمہارے غیر تعلیم یافتہ لوگ ان سے علم حاصل نہیں کرتے۔ ان سے سیکھ لو اس سے پہلے کہ علم ہی اٹھ جائے۔ علم علماء کی وفات کے ساتھ اٹھ جایا کرتا ہے۔ تمہیں کیا ہوا، میں دیکھتا ہوں کہ جتنا مال تمہاری کفالت کے لئے کافی ہے، تم اس سے زیادہ کا لالچ کرنے لگے ہو۔ تمہیں جس دولت (کو لوگوں تک پہنچانے) کا وسیلہ بنایا گیا ہے، تم اسے ضائع کرنے لگے ہو۔ میں تمہارے ان برے لوگوں کو جانتا ہوں جو گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ نماز کو آخری وقت میں ادا کرتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہیں تو اس پر توجہ نہیں دیتے اور اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کرتے۔

    یہ بنو امیہ کا دور ہی تھا جس میں کثیر تعداد میں آزاد کردہ غلام جلیل القدر علماء بن سکے۔ یہی مصلحانہ تحریک مسلمانوں میں زندہ رہی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہی بنو امیہ میں ایک صالح شخص سیدنا عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمۃ کو جب حکومت حاصل ہوئی تو انہوں نے خلافت راشدہ کی یاد کو تازہ کر دیا۔ انہوں نے حکومت حاصل کرتے ہی جو اقدامات کئے ان میں سے یہ اقدام خاص طور پر قابل غور ہے:

    و استخلف عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم أبو حفص بدير سمعان في اليوم الذي توفي فيه سليمان بن عبد الملك ، و أم عمر بن عبد العزيز أم عاصم بنت عاصم بن عمر بن الخطاب و اسمها ليلى ، فلما ولي عمر جمع وكلاءه و نساءه و جواريه فطلقهن و أعتقهن. (سیرت ابن حبان)

    سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد عمر بن عبدالعزیز بن مروان خلیفہ بنے۔ ان کی والدہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پوتی ام عاصم تھیں جن کا نام لیلی تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی عمر نے (بنو امیہ کے) تمام نمائندوں، خواتین اور لونڈیوں کو جمع کیا۔ انہوں نے (زبردستی بیاہی گئی) خواتین کو طلاق دلوائی اور (شاہی خاندان کی) لونڈیوں کو آزاد کر دیا۔

    افسوس کہ بنو امیہ نے اپنے اس جلیل القدر فرزند کو زندہ نہ رہنے دیا اور انہیں زہر دے کر شہید کر دیا۔ اس جرم کی پاداش میں بنو امیہ کا اقتدار زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔ ہشام بن عبدالملک نے اپنی ذہانت سے اس اقتدار کو سنبھالنے کی کوشش کی لیکن اس کے نااہل جانشینوں نے سب کچھ گنوا دیا۔ بغاوتوں پر بغاوتیں اٹھنے لگیں۔ نیک اور صالح لوگوں نے باغیوں کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں بنو امیہ اقتدار سے بے دخل ہوئے اور بنو عباس ان کی جگہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دور میں بنو امیہ کے ایک لائق شخص عبدالرحمٰن نے اندلس میں اپنی حکومت قائم کر لی اور حسن انتظام سے اس کو سلطنت عباسیہ کا ہم پلہ بنا دیا۔ یہ دونوں حکومتیں کئی سو سال تک باقی رہیں۔

    بنو امیہ اگرچہ ایک کرپٹ خاندان تھا لیکن اس میں نیک افراد کی کمی نہ تھی۔ اس میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے علاوہ کئی اور لائق بادشاہ جیسے ولید اور ہشام پیدا ہوئے۔ بنو امیہ کا یہ دور خلافت راشدہ اور خالص ملوکیت کے درمیان ایک عبوری دور سمجھا جاتا ہے۔ بنو عباس اپنی ابتدا میں تو کسی حد تک درست رہے اور ان میں ہارون رشید جیسے نیک بادشاہ پیدا ہوئے لیکن اس کے بعد انہوں نے بدترین ملوکیت کو جنم دیا اور لوگوں کو یہ کہنا پڑا کہ اس سے تو بنو امیہ ہی بہتر تھے۔

    خلفاء راشدین کے طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خلافت راشدہ کا یہ ادارہ مزید تیس چالیس سال تک قائم رہتا تو مسلم معاشرے کو غلامی سے مکمل چھٹکارا مل چکا ہوتا۔ افسوس ایسا نہ ہو سکا اور کاٹ کھانے والی جبری ملوکیت نے مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس ملوکیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلامی کے دم توڑتے ہوئے ادارے میں دوبارہ جان پڑ گئی۔

    بنو عباس(133 – 656H / 750 – 1258CE) اور بعد کے ادوار میں غلامی

    بنو عباس کا دور صحیح معنوں میں غلامی کے ارتقاء کا دور تھا۔ بنو عباس کے زوال کے بعد مختلف علاقوں میں مختلف خاندانوں نے اپنی حکومتیں قائم کر لیں اور اس کے بعد عباسی بادشاہ کا کام حکومت کے پروانے لکھنا اور ان حکومتوں کی تائید کرنا ہی رہ گیا۔

    تین چار سو سال کے اس پورے دور میں ایک طرف تو زرعی معیشت نے بھرپور ترقی کی اور دوسری طرف اشرافیہ کے طبقے شہوت پرستی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر مسلم ممالک سے لونڈیوں اور غلاموں کی امپورٹ کو بڑے پیمانے پر شروع کیا گیا۔ ابن کثیر، ابن جوزی اور مقریزی کی تواریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایک امیر کے ہاں کئی کئی ہزار غلام موجود ہوا کرتے تھے۔

    بنو عباس کے دور ہی میں چند ایسے سماجی ادارے وجود میں آئے جنہوں نے غلاموں کی طلب میں یک لخت اضافہ کر دیا۔ ان اداروں کے لئے کسی ایک بادشاہ کو مورد الزام ٹھہرایا درست نہ ہو گا کیونکہ یہ ادارے بنو عباس کے پورے دور میں مجموعی طور پر رواج پذیر ہوئے تھے۔ ان اداروں کی تفصیل یہ ہے:

    · غلاموں پر مشتمل فوج

    · بادشاہوں اور امراء کے حرم

    · مخنث غلاموں پر مشتمل پولیس

    · فوجی جاگیرداری کا نظام

    · بادشاہت کے تقدس کا نظریہ

    غلاموں پر مشتمل فوج

    بادشاہوں نے یہ اندازہ کر لیا تھا کہ آزاد افراد پر مشتمل افراد کی نسبت غلاموں پر مشتمل فوج ان کی بادشاہت کو قائم رکھنے میں زیادہ ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے غلاموں پر مشتمل افواج تشکیل دینا شروع کر دیں۔ اس سے پہلے اگرچہ غلام اپنے آقاؤں یا سابقہ آقاؤں کے ساتھ جنگوں میں حصہ لیا کرتے تھے لیکن سرکاری سطح پر غلاموں کی فوج کا تصور موجود نہ تھا۔ اس ادارے کا آغاز معتصم باللہ کے دور میں 213H / 828CE میں ترک غلاموں کی فوج سے ہوا۔ غلاموں پر مشتمل افواج کی تیاری کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈینیل پائپس لکھتے ہیں:

    On occasion, slaves not only provided faithful service but even excelled over free soldiers. Because they had usually lived through greater privations before enlistment, perhaps they could adjust more easily to the difficulties of military life, maintain higher morale, better exploit poor materials, serve free of competing civilian interests, resign themselves to long periods of compulsory service, and accustom themselves more readily to unquestioning obedience. "They understood discipline, fought with courage and honor to be free, adjusted to varying climates, and endured hard work.’’ Slaves also fought well because military service provided them with an opportunity to show their worth.

    (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    بہت سے مواقع پر غلاموں نے نہ صرف وفاداری کے ساتھ خدمات انجام دیں بلکہ انہوں نے آزاد فوجیوں کی نسبت بہتر خدمت کا مظاہرہ کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فوج میں آنے سے پہلے شدید غربت کا شکار رہتے تھے (اور فوج انہیں بہتر زندگی فراہم کرتی تھی)، وہ آسانی سے فوجی زندگی کی مشکلات میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے اور خراب میٹیریل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، سویلین مفادات کی سیاست سے وہ آزاد تھے، طویل لازمی فوجی خدمت کو قبول کرنا ان کے لئے زیادہ مشکل نہ تھا اور وہ بغیر سوال کئے اطاعت کرنا جانتے تھے۔ وہ ڈسپلن کو بہتر سمجھتے تھے، بہادری سے لڑتے تھے اور آزاد ہونے کی خواہش رکھتے تھے، مختلف موسموں میں باآسانی ایڈجسٹ ہو جایا کرتے تھے اور سخت محنت کے عادی تھے۔ غلام اس لئے بھی بہتر طریقے سے جنگ کیا کرتے ھتے کیونکہ اس سے انہیں اپنی قابلیت کا جوہر دکھانے کا موقع ملتا تھا (جس کے سبب انہیں آزادی بھی نصیب ہو جایا کرتی تھی۔)

    ان افواج میں بھرتی کے لئے افریقہ اور وسط ایشیا سے بچوں کو پکڑ کر یا ان کے والدین سے خرید کر لایا جاتا۔ یہ بچے زیادہ تر ان علاقوں سے تعلق رکھا کرتے تھے جہاں تمدن اس درجے تک نہیں پہنچا تھا جہاں مسلم دنیا کے بڑے اور آباد شہر پہنچ چکے تھے۔ ابن خلدون ان علاقوں کے رہنے والوں کو "وحشی" قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ایک طرف تو یہ لوگ زیادہ جفاکش اور محنتی ہوتے تھے اور دوسری طرف "شہر" جا کر آباد ہونے میں ان کے لئے بڑی کشش پائی جاتی تھی۔

    تربیت کے شروع میں ان بچوں کو معاشرے سے کاٹ کر ان کی مکمل برین واشنگ کر دی جاتی اور انہیں بادشاہ کا فرمانبردار فوجی بنایا دیا جاتا۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات اتاری جاتی کہ بادشاہ زمین پر خدا کا نائب ہے اور سب لوگوں کو اس کے وفادار غلام بن کر رہنا چاہیے۔ اس کے بعد ان رنگروٹوں کو اعلی درجے کی فوجی تربیت دی جاتی۔ بادشاہ ان پر اپنا خاص دست شفقت رکھتا۔ بعض سلاطین تو اپنے بیٹوں کی طرح ان کی تربیت کرتے۔ اپنی تربیت کی تکمیل پر یا ملٹری کیریئر کے دوران کسی اہم موقع پر ان لوگوں کو آزاد بھی کر دیا جاتا۔

    تیسری صدی میں ترک یعنی وسطی ایشیائی غلام اس حد تک طاقتور ہو چکے تھے کہ بادشاہ کو مسند اقتدار پر بٹھانا اور پھر اسے معزول کر کے قتل کر دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا تھا۔ عباسی سلطنت کے دور زوال میں مختلف ممالک کے سلاطین نے اپنی اپنی آزاد سلطنتیں قائم کر لی تھیں۔ بغداد کے بادشاہ، جو بزعم خود خلیفہ کہلاتا تھا، کا کام بس یہی رہ گیا تھا کہ وہ ان سلاطین کو خلعتیں جاری کرتا رہے اور یہ سلاطین اس کا نام جمعہ کے خطبہ میں لے لیا کریں۔

    ان بادشاہوں نے بھی عباسی سلطان کی طرز پر غلاموں پر مشتمل افواج تشکیل دیں۔ علامہ بدر الدین عینی نے اپنی کتاب "عقد الجمان" میں ساتویں صدی کے اختتام پر کثیر تعداد میں غلاموں کی افواج کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بالکل متوازی سلطنت اسپین میں بھی عبدالرحمٰن الداخل کے پوتے حکم بن ہشام (d. 206H) نے غلاموں کی افواج تیار کیں۔

    آہستہ آہستہ یہ افواج اس قدر طاقتور ہو گئیں کہ بعض ممالک میں انہوں نے ہی اقتدار پر قبضہ کر کے اپنے آقاؤں کے خاندان کو اس سے بے دخل کر دیا تھا۔ افغانستان کا غزنوی خاندان، ہندوستان کا خاندان غلاماں اور مصر کے مملوک سلاطین اس کی مثال ہیں۔

    اس قسم کے غلاموں کی حالت معاشرے کے دیگر غلاموں کی نسبت بہت بہتر تھی۔ غلاموں کے اقتدار کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے جمیکا یونیورسٹی کی محقق ڈاکٹر سلطانہ افروز لکھتی ہیں:

    To call such boys “slaves” in English is misleading. To many poor nomadic families in central Asia, and the eastern shores of the Black Sea, Egypt was envisioned as an earthly paradise, its street paved with gold and therefore “gladly sold their sons into the service of Muslim rulers. Generally speaking, a boy became a Mamluk when he was between ten and twelve, just old enough to take care of himself but was doubtless a perfect natural rider. He would be sold into the service of the reigning sultan or to one of the emirs, and put into a barrack or dormitory with other Marnlukes of his age. Besides receiving basic instruction in Islam and Arabic, all the boys would be drilled in the care and riding of horses, and trained in the use of weapons, which included the bow, lance, sword and mace on horseback. During the rigorous training period of eight to ten years, the Mamlukes developed a feeling of group solidarity that lasted the rest of their lives. Upon completing his military training, each maniluke received his liberation paper, a horse, and his fighting equipment.

    Even as a freedman, the Mamluke remained loyal to the sultan or emir who had trained and liberated him, to his teachers and proctors, and to the men who had gone through training with him. Each group of trainees tended to become a faction once within the army. The best among them became emirs and from 1250 on, Sultans of Egypt. In short, the men who had been trained as manilukes became the owners and trainers of new maniluke boys from central Asia or Circassia. The ties between master and Mamluke were almost like a family relationship. Few sons of Manilukes who got into the system ranked below the sultan’s and even the emir’s Manilukes. The succession to the sultanate was rarely hereditary. The Mamhike sultans usually rose through the ranks of the sultan’s Mamlukes. His fellow Mamluke comrades, in recognition of his military skill and political acumen, would appoint one from among them as a sultan. In short, Maniluke slavery under Muslim rulers of the Middle East was no disgrace. On the contrary, the relationship ranked far above mere hired service, to that of a family relationship. The Mamluke system gave the less fortunate an opportunity to rise to the highest level in society conforming with the Qur’anic statement that everyone is of the same human status.

    (Dr. Sultana Afroz, Islam & Slavery through the Ages: Slave Sultans & Slave Mujahids, http://gess.wordpress.com/2006/12/1...gh-the-ages-slave-sultans-and-slave-mujahids/ )

    ان (مملوک) لڑکوں کو انگریزی میں "سلیو" کہنا غلط ہو گا۔ وسطی ایشیا اور بحیرہ اسود کے مشرقی ساحلوں کے رہنے والے خانہ بدوش خاندانوں کے لئے مصر ایک دنیاوی جنت کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کی سڑکیں (ان کے نزدیک گویا) سونے کی بنی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بیٹوں کو مسلم حکمرانوں کی خدمت میں بخوشی بیچ دیا کرتے تھے۔ عام طور پر دس سے بارہ سال کی عمر میں ایک لڑکا، جب وہ اپنا آپ سنبھالنے کے قابل ہو جاتا، مملوک بن جاتا تھا۔ یہ لڑکے قدرتی طور پر گھڑ سوار ہوا کرتے تھے۔ اسے سلطان یا اس کے کسی گورنر کی فوجی خدمت کے لئے بیچ دیا جاتا جہاں وہ اپنی عمر کے دیگر ممالیک کے ساتھ بیرک میں رہنا شروع کر دیتا۔

    اسلام اور عربی زبان کی بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان لڑکوں کو پوری توجہ کے ساتھ فوجی تربیت دی جاتی جس میں گھڑ سواری اور تیر کمان، نیزہ بازی، شمشیر زنی وغیرہ جیسے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جاتی۔ آٹھ سے دس سال کی تربیت کے بعد، مملوکوں کی اپنے گروہ سے ایسی جذباتی وابستگی پیدا ہو جایا کرتی تھی جو باقی عمر ان کے ساتھ رہتی۔ فوجی تربیت کی تکمیل کے بعد، مملوک کو اس کی آزادی کا پروانہ، گھوڑا اور ہتھیار مل جایا کرتے تھے۔

    آزادی کے بعد بھی ایک مملوک اپنے سلطان یا امیر کا وفادار رہا کرتا تھا جس نے اسے تربیت دینے کے بعد اسے آزادی عطا کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے استاذ، مربی اور ساتھیوں کا وفادار بھی رہا کرتا تھا۔ تربیت پانے والے ممالیک کا ہر گروہ (batch) فوج کے اندر ایک سیکشن ہوا کرتا تھا۔ ان میں جو زیادہ باصلاحیت ہوتے، وہ امیر (گورنر) کے درجے تک ترقی پا لیتے جبکہ 1250ء کے بعد تو یہ مصر کے بادشاہ بھی ہونے لگے۔ مختصراً مملوک کے طور پر تربیت پانے والے وسطی ایشیا سے آنے والے نئے ممالیک کے مالک اور مربی بن جایا کرتے تھے۔

    مالک اور غلام کے درمیان تعلق کم و بیش خاندانی رشتے کی طرح ہوا کرتا تھا۔ بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ممالیک کے بیٹوں کا درجہ سلطان یا امیر کے دیگر مملوکوں سے نیچے ہو۔ بادشاہت بہت کم ہی وراثتاً منتقل ہوا کرتی تھی۔ مملوک سلطان غلامی کے مختلف درجوں سے ترقی کرتے ہوئے بادشاہ بنا کرتے تھے۔ مملوک سلطان کے دیگر غلام ساتھی، اس کی فوجی صلاحیت اور سیاسی تدبر کے پیش نظر ہی اس کا انتخاب بطور سلطان کیا کرتے تھے۔

    مختصر طور پر، مشرق وسطی کے مسلم حکمرانوں کے تحت مملوک غلامی کوئی ذلت کی چیز نہ تھی۔ اس کے برعکس ان کا اپنے آقاؤں سے تعلق محض تنخواہ دار سپاہیوں سے بڑھ کر خاندانی تعلق بن جایا کرتا تھا۔ ممالیک کا یہ نظام دراصل معاشرے کے پست طبقے کے ایک انسان کو اٹھا کر معاشرے کے بلند ترین مقام تک لے جانے کا نظام تھا جو کہ قرآن کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ ہر انسان ایک دوسرے کے برابر ہے۔

    اس کے بعد فاضل مصنفہ برصغیر میں شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک، التمش، بلبن اور رضیہ سلطانہ کی مثالیں بیان کرتی ہوئی لکھتی ہیں:

    Similar to the Mamluke and the Abbasid institutes which recognized human dignity and offered opportunities to the sons of the less fortunate to better themselves, the paternal care of the ruling masters in Afghanistan saw the production of great men from amongst their “owned” boys. The bonded men of a real leader often proved “the equals of their master.” The Muslim rulers found these able servants excellent advisors, gave them the highest posts, and at times rewarded them by marriage with their daughters…..

    The Slave Kings exemplified in schooling their daughters both in war and peace, thus ensuring their position of respect and prominent role in government affairs…..

    Evidently, the rule of the Muslim slaves in India was marked with an extraordinary degree of equality, justice, generosity and general prosperity. The greatness of the rulers was the result of their thorough grooming in Islamic virtues in their early days as “bonded” men or “sons” of the masters. Like the Manilukes, the leadership of the Delhi Sultanate was based on righteousness and meritocracy.

    (Dr. Sultana Afroz, Islam & Slavery through the Ages: Slave Sultans & Slave Mujahids, http://gess.wordpress.com/2006/12/1...gh-the-ages-slave-sultans-and-slave-mujahids/ )

    جس طرح مملوک اور عباسی سلطنتوں کے غلامی کے ادارے میں معاشرے کے پست طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بیٹوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے مواقع فراہم کئے جاتے تھے، اسی طرح افغانستان میں بھی حکمران آقاؤں نے غلام لڑکوں میں سے عظیم انسان پیدا کئے۔ اکثر اوقات کسی حقیقی لیڈر کے غلام نے خود کو اپنے آقا کے برابر ثابت کیا۔ مسلم حکمرانوں کو ان قابل خدام کی صورت میں بہترین مشیر میسر آئے۔ انہوں نے انہیں اعلی عہدے دیے اور بسا اوقات انعام کے طور پر ان کی شادیاں اپنی بیٹیوں سے بھی کر دیں۔۔۔۔

    غلام بادشاہوں نے بالعموم اپنی لڑکیوں کو بھی جنگ اور امن کی حالت میں تعلیم دینے کی مثال قائم کی جس کے نتیجے میں انہوں نے حکومتی معاملات میں اہم مقام اور مرتبہ حاصل کیا۔۔۔۔

    ہندوستان میں مسلم غلاموں کی حکومت کے ادوار میں مساوات، انصاف، احسان اور خوشحالی کی غیر معمولی مثالیں قائم کی گئیں۔ ان حکمرانوں کی اصل عظمت یہ تھی کہ انہیں اپنے دور غلامی میں آقاؤں کے بیٹوں کے طور پر اعلی اسلامی اخلاقیات کی تربیت دی جاتی تھی۔ (مصر کے) ممالیک کی طرح دہلی کی سلطنت کی بنیاد بھی نیکی اور میرٹ ہی پر تھی۔

    ان تمام فوائد اور اعلی اسٹیٹس کے باوجود یہ فوجی بہرحال غلام ہی ہوا کرتے تھے۔ فوجی غلاموں اور عام غلاموں میں فرق بیان کرتے ہوئے ڈینیل پائپس لکھتے ہیں:

    The military slave thus differs from other slaves in numerous ways: he alone is carefully selected, purposely acquired as a youth, trained and indoctrinated, then employed as a professional soldier. He joins the ruling elite and belongs to a corps of soldiers which can seize power under the right circumstances. Yet, despite these many differences between him and other kinds of slaves, he remains a true slave as long as his master controls him. One must not dismiss his slavery as a formality or as legal fiction.

    (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    فوجی غلام عام غلاموں سے کئی اعتبار سے مختلف ہے۔ اس کا انتخاب بڑی احتیاط سے کیا جاتا تھا۔ اسے کم عمری میں غلامی میں لے لیا جاتا، اس کی تربیت کی جاتی اور اس کی ذہن سازی کی جاتی، اور اس کے بعد اسے پیشہ ور فوجی کی حیثیت سے ملازم رکھا جاتا۔ وہ حکمران اشرافیہ کے طبقے کا حصہ بن جاتا اور فوجیوں کی ایسی کور سے تعلق رکھتا جو مناسب حالات میں حکومت پر قبضہ کرنے کی اہلیت رکھ سکتی تھی۔ اس کے اور عام غلاموں کے مابین اس قسم کے اور بہت سے فرق ہونے کے باوجود وہ بہرحال اس وقت تک غلام ہی ہوا کرتا تھا جب تک اس کا آقا اسے اپنے کنٹرول میں رکھتا۔ کسی شخص کو اس کی غلامی کو محض ایک رسمی کاروائی اور قانونی نکتہ رسی قرار نہیں دینا چاہیے۔

    یہ بات طے شدہ ہے کہ غلاموں کے اس استعمال کا، خواہ یہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، دین اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ بدعت، اسلام کے آئیڈیل دور کے اختتام کے ڈیڑھ سو برس بعد وجود پذیر ہونا شروع ہوئی تھی۔ اگرچہ ڈینیل پائپس اور بعض دیگر مستشرقین نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے اس کا رشتہ اسلام سے زبردستی قائم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین کے دور میں غلاموں کی فوج کے کسی ادارے کا سراغ نہیں ملتا۔

    اس کے برعکس ان غلاموں کی حالت زار کو بہتر بنانے میں اسلامی تعلیمات نے بہرحال اپنا کردار ادا کیا۔ چونکہ بادشاہ اور امراء بہرحال مسلمان تھے اور کسی حد تک دین پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے، اس وجہ سے غلاموں سے اچھے برتاؤ اور ان کی آزادی سے متعلق اسلام کی تعلیمات پر بھی کسی نہ کسی صورت میں عمل کیا جاتا رہا ہے۔ ایسا ضرور ہے کہ بادشاہوں نے اپنی ملک گیری کی ہوس اور فتوحات کے شوق کے لئے "اسلامی جہاد" کے نام کو غلط طور پر استعمال کیا ہے لیکن اس میں اسلام کا کوئی قصور قرار دینا علمی دیانت کے خلاف ہے۔

    بادشاہ اور امراء کے حرم

    حرم کے ادارے کا تصور مسلمانوں میں یونانی اور رومی سلطنتوں سے آیا۔ بادشاہ کو جو لڑکی پسند آ جاتی، اسے حرم میں داخل کر دیا جاتا۔ ان میں سے بعض خوش نصیب لڑکیوں کو ملکہ کی حیثیت حاصل ہو جایا کرتی تھی لیکن ان کی زیادہ تر تعداد لونڈیوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ اگر یہ معاملہ صرف بادشاہ تک ہی محدود رہتا تب بھی اس کے اثرات زیادہ نہ پھیلتے لیکن بادشاہ کی دیکھا دیکھی شہزادوں، وزراء، فوجی جرنیلوں، درباریوں اور بڑے تاجروں نے بھی اپنے حرم بنانے شروع کر دیے۔

    مسلم سلطنت کے ان علاقوں، جن میں حکومت کی رٹ مضبوط نہ ہوا کرتی تھی، کم سن بچیوں کو اغوا کر کے لونڈی بنایا جاتا۔ ان میں خاص طور پر وسط ایشیا کے ممالک جارجیا اور آذر بائیجان قابل ذکر ہیں جہاں کی خواتین بہت خوبصورت ہوا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں بھی خواتین کی بطور طوائف اسمگلنگ میں ان علاقوں کا ایک خاص کردار ہے۔ اس کے علاوہ غیر مسلم ممالک جیسے یورپ وغیرہ میں بھی بچیوں کو اغوا کر کے مسلم ممالک میں اسمگل کر دیا جاتا۔

    ان بچیوں کو تجربہ کار نخاس یا بردہ فروش ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں فروخت کر دیا کرتے تھے۔ فروخت ہوتے ہوتے یہ ان لوگوں کے ہاتھ میں آ جایا کرتی تھیں جن کا کام ہی ان بچیوں پر طویل المدت سرمایہ کاری کرنا ہوا کرتا تھا۔ ان لونڈیوں کی اعلی درجے کی تربیت کا اہتمام کیا جاتا اور انہیں شعر و ادب، موسیقی، رقص اور دیگر فنون لطیفہ کی تربیت دی جاتی۔ صنف مخالف کے جذبات کو ابھار کر اسے اپنے قابو میں لانے کی خاص تربیت ان لونڈیوں کو دی جاتی تھی۔ ان کے مربی عموماً ان سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اپنی انوسٹمنٹ کو واپس وصول بھی کرنا ہوا کرتا تھا۔

    جوان ہونے پر ان لونڈیوں کی بولیاں لگتیں اور شاہزادے اور رئیس ان کی خریداری میں ایک دوسرے کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ جو شخص سب سے زیادہ بولی دیتا وہ لونڈی کا مالک بن جایا کرتا تھا۔ بسا اوقات کچھ رئیس کسی لونڈی کے مربی کو اس کے بچپن ہی میں ایڈوانس رقم دے کر اس کی جوانی کی بکنگ کروا لیا کرتے تھے۔ لونڈی کی پہلی ازدواجی رات اسے دلہن بنایا جاتا اور اس کا مالک اس سے بطور سہاگ رات کے لطف اندوز ہوا کرتا تھا۔ یہ رسم آج بھی "نتھ اتروائی" کے نام سے جاری ہے۔ اس صورتحال کے معاشرے پر اثرات سے متعلق رضا الشیرازی لکھتے ہیں:

    وآل تكاثر الجواري وشيوع التسري إلى ذهاب الغيرة من قلوب الرجال حتى صاروا يتهادون الجواري الروميات والتركيات والفارسيات وهنّ أجمل صورة وأشرق وجهاً من نساء العرب. فبعد أن كان الرجل لا يعرف غير امرأته والمرأة لا تفكر في غير زوجها وهي واثقة بأمانته فإذا هو قد تشتّتت عواطفه بين عدة نساء فقلّت غيرته عليها، ولما رأته مشغولاً عنها قلَّت ثقتها به إلا من عصمها عقلها وشرفها، فلم ينضج التمدن في العصر العباسي حتى تنوسيت المرأة العربية في المدن وذهبت حريتها وغيرتها وصارت هي نفسها تهدي زوجها الجارية وتحبّب إليه التقرب منها لا يهمّها ذلك ولا تغار عليه. (محمد رضا الشیرازی، الآداب الاجتماعیۃ فی المملکۃ الاسلامیۃ)

    لونڈیوں کی کثرت ہوتی چلی گئی اور اس کے باعث مردوں کے دلوں سے غیرت نکلتی چلی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ ایک دوسرے کو لونڈیوں کا تحفہ دینے لگے جن میں رومی، ترکی اور ایرانی لونڈیاں شامل تھیں۔ یہ عرب عورتوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور ملائم چہرے کی حامل ہوا کرتی تھیں۔ پہلے مرد دوسروں کی خواتین کو نہ تو دیکھا کرتے تھے اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے جس کی وجہ سے خواتین محفوظ ہوا کرتی تھیں۔ جب خواتین کی کثرت ہو گئی تو غیرت کم ہوتی چلی گئی۔ جب کسی بیوی کے ساتھ اس کے خاوند کی مشغولیت میں کمی واقع ہو گئی تو اس کی عصمت، عقل اور شرف کے بارے میں مرد کی توجہ بھی کم ہوتی چلی گئی۔

    جیسے جیسے عباسی عہد میں تمدن ارتقاء پذیر ہوتا رہا، عرب شہروں میں خواتین نے بھی اپنی آزادی اور غیرت کو بھلا دیا۔ بسا اوقات خواتین خود اپنے شوہر کا قرب حاصل کرنے کے لئے اسے خوبصورت لونڈی کا تحفہ دینے لگیں۔ خاوند کا دوسری عورت سے ازدواجی تعلقات قائم کرنا ان کے لئے بڑا مسئلہ ہی نہ رہنے لگا اور نہ ہی ان کے لئے یہ بات حسد کا باعث رہنے لگی۔

    ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں جا بجا اس بات کا ذکر کیا ہے کہ خوبصورت رومی لونڈیاں امراء کے حرم میں موجود تھیں۔ اندلس اور ترکی کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں کے حماموں میں مرد اپنی لونڈیوں کو لے کر غسل کرنے کے لئے جاتے ہیں جہاں مرد و عورت ایک ہی بڑے سے ہال میں برہنہ ہو کر غسل کرتے ہیں۔ اس دور کے حمام کو آج کل کے مساج سینٹر اور بیوٹی پارلر سمجھ لیجیے۔ غرض یہ کہ جو کچھ آج عیاشی کے بڑے بڑے اڈوں پر ہو رہا ہے، وہی سب کچھ مسلم امراء کے حرم میں ہوا کرتا تھا۔

    حرم میں داخل ہونے کے بعد لونڈیوں کے ساتھ مختلف قسم کے حالات پیش آیا کرتے تھے۔ بعض لونڈیاں تیز طرار ہوتیں اور اپنے مالک کو قابو میں لے کر اس کے گھر کی مالکن بن بیٹھتیں۔ شاہزادوں اور بادشاہوں کی لونڈیاں بسا اوقات ان کے ہوش و حواس پر چھا کر مملکت کے امور کی نگہبان بن جایا کرتی تھیں۔ ابن الطقطقی کے بیان کے مطابق عباسی بادشاہ الھادی باللہ کو اس کی سوتیلی ماں کے حکم پر لونڈیوں ہی نے اس کا سانس بند کر کے قتل کیا تھا۔

    اسی طرح ابن طقطقی کے بیان کے مطابق آل بویہ کا حکمران عضد الدولہ ایک لونڈی کے عشق میں اتنا پاگل ہوا کہ امور سلطنت سے ہی غافل ہو گیا جس سے پوری سلطنت کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ اس کے بعد جب اسے ہوش آئی تو اس نے خود اپنے ہاتھ سے اسی لونڈی کو دریائے دجلہ میں ڈبو کر ہلاک کر دیا۔ اسی طرح مغلیہ دور میں انارکلی کی مثال سب کے سامنے ہے جس نے شہزادہ سلیم کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا لیکن جہاندیدہ بادشاہ اکبر نے شہزادے کو اس سے محفوظ رکھنے کے لئے اسے زندہ دیوار میں چنوا دینے کی سزا سنائی تھی۔ شہزادے صاحب اتنے دل پھینک واقع ہوئے تھے کہ جب بادشاہ بنے تو پھر بھی اپنی ملکہ نورجہاں کے مکمل کنٹرول میں رہے۔ اگر جہانگیر کے بعد دو اچھے کردار کے بادشاہ مغلیہ خاندان کو نہ ملتے تو مغلیہ سلطنت کا زوال سو برس پہلے ہی شروع ہو جاتا۔

    حرم کی جن لونڈیوں میں تیزی طراری کی صفت مفقود ہوا کرتی تھی، اول تو ان کا شاہی حرم تک پہنچنا ہی ناممکن تھا، اگر وہ یہاں تک پہنچ بھی جاتیں تو بادشاہ یا شہزادے کا دل ان سے جلد ہی بھر جاتا۔ اس کے بعد ان کی پوری زندگی ایک نہایت ہی بھیانک انتظار کا شکار ہو جاتی۔ جو زیادہ پارسائی کا مظاہرہ کرتیں، وہ ہسٹریا کی مریض بن جاتیں اور جو اپنی خواہشات پوری کرنے کے دوسرے راستے اختیار کرتیں، وہ شاہی عتاب کی زد میں آ کر موت سے ہمکنار ہوتیں۔

    کنیزوں میں محافظوں اور شاہی خاندان کے دوستوں کے ساتھ صنفی تعلقات استوار کر لینے کے واقعات بھی بکثرت ملتے ہیں۔ کسی کنیز سے دل بھر جانے کے بعد اسے کسی دوست یا افسر کو تحفتاً پیش کر دینے کا رواج بھی شاہی خاندانوں میں عام رہا ہے۔ بہت سی کنیزیں محلات کی اندرونی سازش میں مختلف بیگمات، شہزادوں اور شہزادیوں کے جاسوسوں کا کردار بھی ادا کیا کرتی تھیں۔ فریق مخالف کے غالب آ جانے کی صورت میں ان کی بقیہ زندگی پس زنداں گزرا کرتی تھی۔

    وزراء، امراء اور درباریوں کی کنیزوں کے ساتھ بھی ذرا کم تر سطح پر یہی معاملہ پیش آیا کرتا تھا۔ ان کی سیاست اپنے حرم کی حدود میں جاری رہتی۔ ان میں سے جو کنیز ذرا زیادہ تیز ہوتی، وہ ترقی پا کر کسی بادشاہ یا شہزادے کے حرم میں داخل ہو جاتی اور کچھ عرصہ دولت سمیٹنے کے بعد واپس اپنے مقام پر آ جاتی۔ افسوس کہ غلامی کے خاتمے کے بعد اب بھی حرم بنانے کا یہ سلسلہ مسلم دنیا میں جاری ہے جس میں لالچ، قانونی معاہدوں اور اغوا کے ذریعے لونڈیاں اور غلام بنائے جاتے ہیں۔

    لونڈیوں کے علاوہ ہم جنس پرست قسم کے امراء خوبصورت نوجوان لڑکے بھی اپنے حرم میں رکھ لیا کرتے تھے اور ان سے جنسی طور پر لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ ان لڑکوں کو "امرد" کہا جاتا تھا۔ ان لڑکوں کو بھی ناز و ادا دکھا کر اپنے شوقینوں کے صنفی جذبات کو بھڑکانے کی بھرپور تربیت دی جاتی تھی۔ جاحظ نے اپنے رسائل میں اپنے مخصوص ادیبانہ انداز میں ایسے لوگوں پر شدید تنقید کی ہے اور ان کی بدکاریوں پر کڑا محاسبہ کیا ہے۔ ابن بطوطہ نے جزیرہ مالی کے اپنے سفر میں شاہی دربار پر تنقید کی ہے جس میں خوبصورت لونڈیوں اور غلاموں کو عریاں کر کے کھڑا کیا جاتا تھا۔ لکھتے ہیں:

    Female slaves and servants who went stark naked into the court for all to see; subjects who groveled before the sultan, beating the ground with their elbows and throwing dust and ashes over their heads; royal poets who romped about in feathers and bird masks. (Ibn Batuta’s Trip, Part Twelve, Journey to West Africa, salam.muslimonline.com )

    لونڈیاں اور غلام دربار میں عریاں حالت میں کھڑے ہوتے تھے جہاں انہیں سب ہی دیکھتے تھے۔ بادشاہ کے ماتحت اس کے سامنے آ کر اپنے عجز و انکسار کا اظہار اس طرح سے کرتے کہ وہ اپنی کمانیں زمین پر مارتے اور راکھ اور خاک کو اپنے سر پر ڈالتے۔ شاہی شاعر پرندوں کے لباس پہنے ادھر ادھر گھوم رہے ہوتے تھے۔

    جیسا کہ شیرازی نے بیان کیا ہے مردوں کی اس شہوت پرستی کے اثرات عام آزاد خواتین پر بھی وقوع پذیر ہونے لگے۔ ایک مرد اگر خوبصورت لونڈیوں کے جھرمٹ میں ہر وقت رہے گا تو اس کے پاس اپنی بیوی کے لئے وقت کہاں بچ سکے گا۔ اس کے نتیجے میں بیوی اور دیگر لونڈیاں لازماً دیگر راستے تلاش کرے گی۔ اس صورتحال کا تجزیہ مشہور محدث ابن جوزی نے ان الفاظ میں کیا ہے:

    شكا لي بعض الأشياخ فقال : قد علت سني و ضعفت قوتي ، و نفسي تطلب مني شراء الجواري الصغار . و معلوم أنهن يردن النكاح و ليس في . و لا تقنع مني النفس بربة البيت إذ قد كبرت . فقلت له : عندي جوابان : أحدهما الجواب العامي ، و هو أن أقول : ينبغي أن تشغل بذكر الموت و ما قد توجهت إليه ، و تحذر من اشتراه جارية لا تقدر على أيفاء حقها فإنها تبغضك ، فإن أجهدت استعجلت التلف . وإن استبقيت قوتك غضبت هي ، على أنها لا تريد شيخاً كيف كان ۔۔۔۔‏ فاعلم أنها تعد عليك الأيام ، و تطلب منك فضل المال لتستعد لغيرك. و ربما قصدت حنفك ، فاحذر السلامة في الترك ، و لإقتناع بما يدفع الزمان .

    الجواب الثاني فإني أقول : لا يخلو أن تكون قادراً على الوطء في وقت أو لا تكون. فإن كنت لا تقدر فالأولى مصابرة الترك للكل. و إن كان يمكن الحازم أن يداري المرأة بالنفقة و طيب الخلق إلا أنه يخاطر .و إن كنت تقدر في أوقات على ذلك ، و رأيت من نفسك توقاً شديداً فعليك بالمراهقات فإنهن ما عرفن النكاح ، و ما طلبن بالوطء ، و اغمرهن بالإنفاق و حسن الخلق مع الإحتياط عليهن ، و المنع من مخالطة النسوة .و إذا اتفق وطء فتصبر عن الإنزال ريثما تقضي المرأة حاجتها .و اعتمد وعظها و تذكيرها بالآخرة ، و اذكر لها حكايات العشاق من غير نكاح ، و قبح صورة الفعل ، و لفت قلبها إلى ذكر الصالحين ، و لا تخل نفسك من الطيب و التزين و الكياسة و المداراة و الإنفاق الواسع .فهذا ربما حرك الناقة للمسير مع خطر السلامة .(ابن جوزی، صید الخاطر)

    مجھ سے بعض بوڑھے حضرات نے شکایت کی، "میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور میری قوت کمزور پڑ گئی ہے، پھر بھی میرا نفس نوجوان لونڈیوں کی خواہش کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں جبکہ میں اس قابل نہیں رہا۔ اگرچہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میرا نفس گھر والی پر قناعت کرنے کو تیار نہیں ہے۔"

    میں نے کہا، "میرے پاس دو جواب ہیں: ایک تو عام لوگوں کا جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ موت کو زیادہ یاد کرنے میں مشغول ہو جائیے اور اسی طرف اپنی توجہ رکھیے۔ اس بات سے محتاط رہیے کہ جو شخص لونڈی خریدتا ہے اور پھر اس کے حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو وہ اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اگر وہ (ازدواجی تعلقات کی ناکام) کوشش کرتا ہے تو یہ نفرت جلد پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی خواہش باقی رہ جائے تو اس کی نفرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لڑکیاں بوڑھوں کو پسند نہیں کرتیں۔ جان رکھیے کہ وہ اس کا بدلہ اس طرح لے گی کہ آپ سے مال بٹور کر کسی اور سے تعلق قائم کر لے گی اور آپ کا معاملہ ٹیڑھا کر دے گی۔ اس لئے اپنی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھیے اور اس کام کو ترک کر دیجیے اور اسی لذت پر قناعت کیجیے جو آپ پہلے حاصل کر چکے۔

    دوسرا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اس بات کو نہ بھولیے کہ اس وقت آپ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو اس کام کو مکمل طور پر چھوڑ کر اس پر صبر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر کوئی کسی عورت کو محض اخراجات اور اچھے تعلقات کا لالچ دے کر ایسا کرے گا بھی تو یہ خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ اگر آپ اس وقت بھی ایسا کرنے کے قابل ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے نفس میں نوجوان لڑکیوں کی شدید خواہش ہے تو ان (بے چاریوں) کو تو نکاح یا ازدواجی تعلق کی خواہش ہی نہیں ہے۔ ایسی لونڈیوں سے تو حسن سلوک کرنا چاہیے اور ان پر خرچ کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    اگر ان سے ازدواجی تعلقات قائم بھی کریں تو آپ کو انزال کو اس وقت تک روکنا چاہیے جب تک کہ خاتون کی ضرورت پوری نہ ہو جائے۔ (اس کے ساتھ ساتھ) خاتون کو آخرت کی یاد بھی دلاتے رہیے، نکاح سے ہٹ کر عشق کی برائی بیان کیجیے اور اسے عشاق کے (عبرت ناک انجام) کے واقعات سنائیے۔ اچھے لوگوں کے ذکر سے اس کے دل میں (نیکی کی) محبت پیدا کیجیے۔ اپنے لباس اور شکل و صورت کا خیال رکھیے، اس سے اچھا سلوک کیجیے، اس کی ضروریات کا خیال رکھیے اور اس پر خرچ کرنے میں وسعت سے کام لیجیے۔ اس طریقے سے امید ہے کہ آپ خطرہ مول لینے کے ساتھ ساتھ زندگی کی گاڑی کو کھینچ لیں گے ۔

    ایک طرف تو شہوت پرستی کا یہ سلسلہ مسلمانوں کے ہاں جاری تھا اور دوسری طرف ان کے ہاں اس کے بالکل متوازی ایک تحریک چل رہی تھی جس کا مقصد انہیں دنیا پرستی اور شہوت پرستی سے دور کرنا تھا۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر "مذہبی راہنماؤں کے کردار" کے تحت بیان کریں گے۔

    مخنث (Eunuchs) غلاموں پر مشتمل پولیس

    شاہی خاندانوں نے اتنے بڑے بڑے حرم بنا لئے تھے کہ ان میں ہزاروں کی تعداد میں لونڈیاں موجود رہا کرتی تھیں۔ حرم کا مالک، خواہ کتنے ہی کشتے اور معجون وغیرہ کھا کر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنے کی کوشش کرے، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں موجود خواتین کو جنسی اور نفسیاتی اعتبار سے مطمئن کر سکے۔ حرم رکھنے کا لازمی نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ یہ خواتین اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے متبادل راستے تلاش کریں۔ یہ بات شاہی خاندانوں کو گوارا نہ تھی۔

    شاہی خاندانوں کے لئے مشکل یہ تھی کہ اگر وہ حرم کی حفاظت پر محافظ مقرر کرتے ہیں تو یہی محافظ ان کی جھوٹی عزت کے لٹیرے بن جائیں گے۔ خواتین کی فوجی تربیت اتنی عام نہ تھی کہ ان پر فوجی خواتین کو ہی محافظ بنا دیا جائے۔ مسلمان بادشاہوں کو یونانی معاشرے سے اس مسئلے کا حل مل گیا۔ وہ حل یہ تھا کہ مخنثوں پر مشتمل ایک پولیس تشکیل دی جائے اور حرم کی حفاظت کا کام اس پولیس کے سپرد کر دیا جائے۔

    قدرتی طور پر مخنث اتنی بڑی تعداد میں پیدا نہیں ہوتے کہ ان کی ایک باقاعدہ پولیس فورس تشکیل دی جا سکے۔ اب ایک ہی صورت باقی رہ جاتی تھی اور وہ یہ کہ مردوں کو خصی کر کے مخنث بنایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ اسلام میں کسی مرد یا خاتون کو مخنث بنانا قطعی حرام ہے۔ بعض راہبانہ مزاج رکھنے والے صحابہ نے ایسا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔

    ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ یہ کام مسلم سلطنتوں کی حدود سے باہر انجام دیا جانے لگا۔ بردہ فروشوں نے افریقہ، وسط ایشیا اور یورپ کے غیر مسلم ممالک کے بردہ فروشوں سے تعلقات قائم کر لئے۔ یہ لوگ اپنے ہاں کے غلاموں اور جنگی قیدیوں کو مخنث بنا کر انہیں مسلم ممالک کی طرف اسمگل کر دیتے۔ چونکہ یہ سارا کاروبار بادشاہوں کی خواہش سے ہوا کرتا تھا اس وجہ سے اس پر حکومت کی جانب سے کوئی پابندی عائد نہ تھی۔ ان مخنثین کو کس قدر تکلیف سے گزرنا پڑتا تھا، اس کا اندازہ اون علیک شہادۃ کے اس بیان سے ہوتا ہے:

    The most expensive enslaved group in Arabian societies were the eunuchs who were castrated men drawn from Europe but also Darfur, Abyssinia, Korodofan and other African nations. Ironically because of their lack of sexual function they obtained great privileges while the women's privileges were due to their sexuality. Eunuchs were generally made by Coptic priest in Egypt but also a group of Arabs know as the Chamba. Young boys, victims from raids and wars were subjected to the horrid monstrous unspeakable inhumane process of castration without anaesthesia which had a 60% mortality. To stop the bleeding hot coals were casted into the naked wound, which was followed by the most blood curdling alien scream a human could make. The price for surviving this ungodly brutal act was a life of influence and luxury; silk garments, Arabian thoroughbreds, jewels, were bestowed on them to reflect the wealth of their masters . Strangely eunuchs were both distinguished and greatly revered as elites in Arab society, despite being enslaved. (Owen Alik Shahadah, Islam & Slavery )

    عرب معاشروں میں غلاموں کا سب سے مہنگا طبقہ زبردستی مخنث بنائے گئے خواجہ سراؤں کا تھا جو کہ یورپ، دارفور، حبشہ، کاردوفان اور دیگر افریقی اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھا۔ غیر متوقع طور پر انہیں خواتین کی نسبت زیادہ مراعات حاصل ہوا کرتی تھیں کیونکہ یہ وہ جنسی کام نہیں کر سکتے تھے جو خواتین کر سکتی تھیں۔ عام طور پر مصر میں قبطی پادری مخنث بنانے کا عمل سرانجام دیتے تھے لیکن عربوں میں سے بھی ایک گروہ ایسا کیا کرتا تھا جو کہ "شمبا" کہلاتا تھا۔

    نوجوان لڑکوں کو، جنہیں اغوا کر کے یا جنگوں میں شکار کیا جاتا تھا، بغیر بے ہوش کئے ایک ناقابل بیان، غیر انسانی اور خوفناک آپریشن کے ذریعے مخنث بنایا جاتا تھا۔ اس عمل میں عام طور پر ساٹھ فیصد لڑکے ہلاک ہو جاتے تھے۔ خون روکنے کے لئے دہکتے کوئلے زخموں پر لگا دیے جاتے تھے جس سے وہ انسان ایک خونی چیخ مارتا تھا۔ اس ظالمانہ اور وحشیانہ فعل کے بدلے ایسا کرنے والوں کو اثرورسوخ، عیاشی، ریشمی خلعتیں، جانور، ہیرے جواہرات عطا کئے جاتے تھے جو ان کی دولت میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر یہ خواجہ سرا غلامی کے باوجود عرب معاشرے میں ممتاز اور اعلی مقام کے حامل ہوا کرتے تھے۔

    کم و بیش یہی تفصیلات ایڈم متز نے بھی بیان کی ہیں۔ یہ مخنث محض حفاظت کا کام ہی سرانجام نہ دیا کرتے تھے بلکہ محلاتی سازشوں میں بسا اوقات نہایت اہم کردار ادا کرتے تھے۔ بعض ہم جنس پرست قسم کے شہزادے ان سے بھی جنسی اعتبار سے لطف اندوز ہوا کرتے۔ ابن کثیر نے "البدایۃ و النہایۃ" میں چند ایسے عباسی بادشاہوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنے گرد بکثرت خوبصورت مخنث رکھے ہوئے تھے۔ بعض مخنث اعلی درجے کے موسیقار اور رقاص بھی ہوا کرتے تھے اور اپنے فن سے امراء کا دل بہلایا کرتے تھے۔ بعض خواجہ سراؤں کو اعلی عہدوں سے بھی نوازا جاتا۔ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں:

    (ہارون) رشید کے بعد پہلا خلیفہ جس نے غلاموں کی زیادہ قدر کی اور خواجہ سراؤں کو بڑی بڑی قیمتیں دے کر حاصل کیا، امین تھا۔ وہ ہمیشہ انہی سے سارے کام لیتا تھا اور انہی کے ذریعہ سے احکام جاری ہوتے تھے۔ ان میں ایک خاص طبقہ جرادی کے نام سے موسوم تھا اور دوسرا حبشیوں کا طبقہ غرابی کے نام سے۔ امین کا شغف غلاموں کے ساتھ کسی خاص ملکی یا سیاسی مصلحت کی بناء پر نہ تھا بلکہ محض تفریح اور عیش و نشاط کے سلسلے میں تھا۔ مامون، معتصم اور واثق کے زمانہ میں خواجہ سراؤں کو کوئی اقتدار حاصل نہیں ہوا۔

    جب متوکل کے زمانہ میں اور اس کے بعد ترکوں (یعنی ترک غلاموں کو) عروج حاصل ہوا اور خلفاء کی موت و زیست ترکوں کے ہاتھ میں آ گئی تو خواجہ سراؤں اور غلاموں کے ساتھ خلفاء کی خصوصیت بڑھنے لگی کیونکہ قصر کے اندر انہی سے ہر وقت واسطہ رہتا تھا، اور انہی کی امداد کا انہیں سہارا تھا۔

    یہ لوگ اپنے آقا کے ساتھ بہت وفاداری کرتے تھے اور سیاسی اور ملکی مصالح سے کوئی واسطہ نہ رکھتے تھے۔ چنانچہ رفتہ رفتہ خلفاء کا یہ دستور ہو گیا کہ وہ غلاموں کی تعداد بڑھانے لگے اور انہی سے تمام معاملات میں مشورہ لینے لگے، اور رفتہ رفتہ ان کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ انہی کو فوج کی سیادت اور صوبوں کی گورنری بھی ملنے لگی۔۔۔۔ان کا اقتدار رفتہ رفتہ اس قدر بڑھ گیا کہ خلیفہ کی ہستی بے کار ہو گئی۔ یہ جو چاہتے خلیفہ کو مجبور کر کے کرا لیتے ورنہ اسے مقید کر دیتے۔ (نیاز فتح پوری، تاریخ دولتین)

    ہندوستان میں مسلمانوں کے دور زوال میں چند ایسے بادشاہوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو نسوانی رجحان کے حامل تھے اور بسا اوقات دربار میں زنانہ لباس اور زیور پہن کر بھی آ جایا کرتے تھے اور خواتین کی بجائے مردوں سے صنفی تعلقات رکھنے کو ترجیح دیا کرتے تھے۔

    خواجہ سراؤں کو محلات میں ایسا آزادانہ مقام حاصل ہو چکا تھا کہ حرم کی بیگمات اور لونڈیاں بھی بسا اوقات اپنی ناآسودہ خواہشات سے مجبور ہو کر انہی پر اکتفا کرنے پر مجبور ہو جایا کرتی تھیں۔

    کسی شخص کو خصی کرنا مثلہ کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام میں یہ حرام قطعی ہے جس پر پوری امت کا اتفاق رائے ہے۔ اسلام میں نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کو خصی کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ مسلم مصلحین نے مخنثین کے اس طبقے اور ان کے استعمال پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ان پر انحصار نہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ ان کی تحریک کو مسلم معاشروں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی لیکن پھر بھی کسی نہ کسی صورت میں یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    بعض مذہبی بادشاہوں نے اس کے خلاف عملی اقدامات بھی کئے۔ ساقی مستعد خان، اورنگ زیب عالمگیر کے ایک اقدام کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    (1668CE) The Emperor ordered the Subahdars and faujdars of the provinces of Allahabad and Oudh to search for and send manacled and fettered to the Court those men who castrated children and to regard it as a peremptory order that no one should be allowed to engage in this wicked practice. (Saqi Mustaid Khan, Maasir ul Alamgiri,translated by Jadunath Sarkar, www.archive.net )

    1668ء میں شہنشاہ (اورنگ زیب) نے الہ آباد اور اودھ کے صوبے داروں اور فوج داروں کو حکم دیا کہ وہ ان افراد کو تلاش کریں جو بچوں کو مخنث بناتے ہیں اور انہیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر دربار میں لائیں۔ اسے ناقابل تنسیخ حتمی حکم سمجھا جائے کہ کسی کو اس مکارانہ عمل کی اجازت ہرگز نہ دی جائے۔

    فوجی جاگیرداری کا نظام

    دور ملوکیت میں ایک اور سماجی ادارے نے فوجی ضروریات کے تحت جنم لیا۔ بادشاہ کو اپنی ملوکیت برقرار رکھنے کے لئے مضبوط فوجی ڈھانچے کی ضرورت ہوا کرتی تھی۔ ایک مضبوط اور وفادار فوج برقرار رکھنے کے لئے بادشاہ اپنے علاقوں کو اہم جرنیلوں کو گورنر بنا کر ان میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ شاہی خاندان کے اہم لوگوں کو بادشاہ مختلف علاقوں کا گورنر مقرر کرتا۔

    یہ گورنر بادشاہ کے غلام سمجھے جاتے تھے۔ یہ گورنر اپنے پورے علاقے کو اہم جرنیلوں، وزراء اور درباریوں میں بطور جاگیر تقسیم کر دیتا۔ یہ بڑے جاگیردار گورنر کے غلام ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح سے بڑی جاگیروں کو تقسیم کر کے انہیں چھوٹے جاگیرداروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ یہ چھوٹے جاگیردار بڑے جاگیردار کے غلام ہوا کرتے تھے اور عام لوگ ان چھوٹے جاگیرداروں کے غلام ہوا کرتے تھے۔

    معاشرے کی اس مخروطی تنظیم (Hierarchical Organization) کے نتیجے میں تہہ در تہہ غلامی نے جنم لیا۔ درمیانی درجے کے افراد اگرچہ غلام سمجھے جاتے تھے لیکن عملی طور پر وہ اپنی زندگیوں میں آزاد تھے۔ سب سے بری حالت معاشرے کے سب سے پست طبقے کی تھی۔ ان سے ان کے جاگیردار نہایت سختی سے پیش آیا کرتے تھے۔ ان کی محنت کا بڑا حصہ جاگیردار لے جاتے اور انہیں کسمپرسی کی زندگی میں چھوڑ جایا کرتے تھے۔ جنگ کی صورت میں ہر جاگیردار کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ اپنے علاقے سے ایک فوج لے کر بادشاہ کی فوج میں شامل ہو۔ جب ایک بادشاہ کی جگہ دوسرا آتا تو وہ پہلے بادشاہ کے وفاداروں کی جگہ اپنے حامیوں کو جاگیریں تقسیم کر دیا کرتا تھا۔

    فوجی جاگیرداری کا یہ نظام عالم اسلام کے چند علاقوں میں رواج پذیر رہا ہے۔ بعض علاقوں میں یہ ظلم کی انتہائی صورت میں موجود رہا ہے جبکہ ان علاقوں میں جہاں مرکزی حکومت کی رٹ مضبوط ہوا کرتی تھی، اس نظام سے بہت زیادہ ظالمانہ شکل اختیار نہیں کی۔

    بادشاہوں کے تقدس کا نظریہ

    بنو عباس نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کے لئے بادشاہت، جسے وہ خلافت راشدہ کی نقل میں "خلافت" کہا کرتے تھے، کے تقدس کا نظریہ ایجاد کیا۔ بنو امیہ کے دور تک بادشاہ عام لوگوں کی دسترس میں ہوا کرتا تھا۔ جمعہ کا خطبہ دینا بادشاہ یا اس کے نائب کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ بنو عباس نے اس رسم کو موقوف کر کے جمعہ کا خطبہ مذہبی طبقے کے حوالے کیا اور بادشاہ خود عوام کی دسترس سے باہر ہو گیا۔

    جعلی احادیث گھڑ کر بادشاہ کو خدا کا نائب قرار دیا گیا اور اس سے بغاوت کو خدا سے بغاوت قرار دیا گیا۔ بادشاہ پر تنقید خدا پر تنقید قرار پائی۔ اس طریقے سے قانونی غلامی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی غلامی کا ادارہ وجود میں آیا۔ بادشاہت کے اس نظریے کی بدولت ایسی عمومی فضا پیدا ہوئی جس نے غلامی کو مسلم دنیا میں ایک قابل قبول سماجی ادارہ بنا دیا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب مغربی اقوام نے ترکی کی نام نہاد "خلافت" اور حقیقتاً بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔

    غلاموں کی بغاوت

    جنوبی عراق میں 255 – 269H / 868-883CE میں غلاموں کی ایک عظیم بغاوت وقوع پذیر ہوئی جو مسلم تاریخ میں غلاموں کی واحد بغاوت ہے۔ اس تحریک کو تشکیل دینے میں بہت سے عوامل نے اپنا کردار ادا کیا۔ دجلہ و فرات کے ڈیلٹا میں بکثرت سیلاب آنے کی وجہ سے آبادی کا بڑا حصہ علاقے کو چھوڑ گیا تھا۔ جاگیرداروں نے اس کا حل یہ نکالا کہ مشرقی افریقہ یا زنجبار کے علاقے سے کثیر تعداد میں غلام پکڑ کر یہاں لے آئے اور ان سے جبری مشقت لینے لگے۔ ان غلاموں کی حالت بہت خراب تھی کیونکہ انہیں نہایت سنگین موسمی حالات میں کام کرنا پڑتا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لنڈا شیفر لکھتی ہیں:

    The Arabs were the first to import large numbers of enslaved Africans in order to produce sugar. Fields in the vicinity of Basra, at the northern end of the Persian Gulf, were the most important sugar-producing areas within the caliphates, but before this land could be used, it had to be desalinated. To accomplish this task, the Arabs imported East African (Zanj) slaves. This African community remained in the area, where they worked as agricultural laborers. The famous writer al Jahiz, whose essay on India was quoted earlier, was a descendant of Zanj slaves. In 869, one year after his death, the Zanj slaves in Iraq rebelled. It took the caliphate fifteen years of hard fighting to defeat them, and thereafter Muslim owners rarely used slaves for purposes that would require their concentration in large numbers. (Lynda Shaffer, Southernization)

    عرب وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے افریقیوں کو غلام بنا کر گنے کی کاشت کے لئے امپورٹ کیا۔ خلیج فارس کے شمالی کنارے پر بصرہ کے اطراف میں کھیتوں میں کاشت کاری کے لئے ضروری تھا کہ پہلے زمین کو سمندری اثرات سے پاک کیا جائے۔ افریقی کمیونٹی اس علاقے میں رہی جہاں یہ زرعی مزدوروں کے طور پر کام کرتے رہے۔ مشہور مصنف الجاحظ، جن کا حوالہ انڈیا سے متعلق مضمون میں دیا جا چکا ہے، انہی زنگی غلاموں کی اولاد تھے۔ 869 میں، جاحظ کی وفات کے ایک سال بعد، عراق میں زنگی غلاموں نے بغاوت کر دی۔ انہیں شکست دینے کے لئے حکومت کو پندرہ سال تک سخت جنگ لڑنا پڑی۔ اس کے بعد مسلمان آقاؤں نے کبھی بھی غلاموں کو ایسے کاموں میں استعمال نہ کیا جس کے نتیجے میں ان کی بڑی تعداد ایک ہی علاقے میں رہنے لگ جائے۔

    جاگیرداروں کے اس ظلم و ستم کے نتیجے میں بغاوت نے جنم لیا۔ غلاموں کو علی بن محمد کی صورت میں ایک لیڈر مل گیا جو کہ خود آزاد تھے۔ علی بن محمد نے یہ دعوی کیا کہ وہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ وہ خارجی نظریات سے متاثر تھے۔ انہوں نے شہر شہر اور گاؤں گاؤں کا سفر کر کے غلاموں کو بغاوت پر آمادہ کیا۔ بغاوت کا آغاز بصرہ سے ہوا۔ یہ عباسی سلطان مہتدی باللہ کا زمانہ تھا۔ آہستہ آہستہ بغاوت پورے جنوبی عراق میں پھیلتی چلی گئی۔ غلاموں نے گوریلا طرز کی کاروائیاں شروع کر دیں۔ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی اس بغاوت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    علی نامی ایک شخص نے اپنے آپ کو اس سے چند روز پیشتر علوی ظاہر کر کے اول بحرین میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، پھر احسا چلا آیا، وہاں بھی اپنے آپ کو علوی بتایا۔۔۔۔آخر بغداد میں اس نے چند غلاموں کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کو ہمراہ لے کر بصرہ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو زنگی غلام ہمارے پاس چلا آئے گا وہ آزاد ہے۔ اس اعلان کو سن کر زنگی غلاموں کا انبوہ کثیر اس کے گرد جمع ہو گیا۔

    ان غلاموں کے آقا جب علی کے پاس آئے اور اپنے غلاموں کی نسبت اس سے گفتگو کرنی چاہی تو علی نے اشارہ کر دیا۔ زنگیوں نے اپنے آقاؤں کو فوراً گرفتار کر لیا۔ پھر علی نے ان کو چھوڑ دیا۔ علی کے جھنڈے کے نیچے زنگی غلاموں کی جمعیت ہر روز ترقی کرتی رہی اور علی ان کو ملک گیری اور تیغ زنی کی ترغیب اپنی پرجوش تقریروں سے دیتا رہا۔ پھر قادسیہ اور اس کے نواح کو لوٹ کر بصرہ کی طرف آیا۔ اہل بصرہ نے مقابلہ کیا مگر شکست کھائی۔ اس کے بعد بصرہ والوں نے بار بار مقابلہ کی تیاری کی اور ہر مرتبہ شکست ہی کھائی۔

    کم وبیش یہی تفصیل طبری، مسعودی اور ابن خلدون نے بھی بیان کی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں غلاموں نے مختلف علاقوں میں اکٹھا ہو کر قلعہ بندی شروع کر دی۔ انہوں نے اپنا ایک دارالحکومت بھی بنا لیا تھا جس کا نام انہوں نے "المختارہ" رکھا تھا۔ ڈاکٹر شوقی ابوخلیل نے اپنے اٹلس میں اس دارالحکومت کا مقام بصرہ کے قریب دکھایا ہے۔

    زنگیوں نے آبادیوں پر حملے شروع کر دیے۔ انہوں نےعام لوگوں کی سپلائی لائن کو اس طرح منقطع کیا کہ لوگوں کو کتے ذبح کر کے کھانا پڑے۔ ان کے لیڈر علی بن محمد نے نبوت کا دعوی بھی کر دیا۔ بادشاہ نے ایک بڑی فوج غلاموں کے مقابلے پر بھیجی جسے "الموافقین" کہا جاتا ہے۔ اس فوج نے طویل عرصے میں غلاموں کی مختلف ٹکڑیوں کو شکست دے کر ان کے لیڈروں کو سرعام سخت سزائیں دیں۔ المختارہ کو فتح کر کے غلاموں کو دوبارہ ان کے مالکوں کی طرف لوٹایا گیا اور بغاوت کا قلعہ قمع کر دیا گیا۔

    اس بغاوت کے بعد مسلم دنیا میں غلاموں کی کسی اور بغاوت کا سراغ نہیں ملتا۔ اس بغاوت کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اس کے بعد غلاموں پر کام کا بوجھ کم کر دیا گیا اور ان سے اچھا سلوک کیا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ عراق کے غلاموں نے بھی ترقی کر کے مزارعوں یا نیم غلاموں کی شکل اختیار کر لی۔ اس بغاوت پر تبصرہ کرتے ہوئے ولیم کلارنس لکھتے ہیں۔

    The leaders of the famous Iraqi servile rebellion of 869-83 did not seek to abolish slavery. Rather they sought to subject to servitude those who had unjustly deprived the common people of their fair share of the economic and social fruits of the Islamic religious revolution. (Islam & Slavery)

    عراق کی مشہور غلاموں کی بغاوت کا مقصد غلامی کا خاتمہ نہ تھا۔ اس کی بجائے اس بغاوت کی اصل وجہ اسلام کے مذہبی انقلاب سے ملنے والے معاشی اور معاشرتی فوائد میں غلاموں کو شریک نہ کیا جانا تھا۔

    نائیگل ڈی فرلونج اس تحریک کے مختلف عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

    The Zanj revolt was more than a revolt. Emerging amidst the confluence of political, economic, religious, social, racial, and ideological factors, the Zanj revolt is a conflict that reflects several interpretations, including rebellion, uprising, revolution and collective movement. (Revisiting the Zanj and Re-Visioning Revolt: Complexities of the Zanj Conflict)

    زنگی بغاوت، محض ایک بغاوت سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ تھی۔ اس نے بہت سے سیاسی، معاشی، مذہبی، سماجی، نسلی اور نظریاتی عوامل کے آمیزے میں سے جنم لیا۔ زنگی بغاوت ایک ایسا جھگڑا تھا جس کی متعدد توجیہات کرتے ہوئے اسے بغاوت، بلند ہونے کی کوشش، انقلاب اور اجتماعی جدوجہد کا نام دیا گیا ہے۔
     
  22. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 14: مسلمانوں کے دور انحطاط میں غلامی (2)

    سلطنت عثمانیہ (698 – 1341H / 1299 – 1923CE) میں غلامی


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    سلطنت عثمانیہ میں بھی غلامی کو اسی طرح ادارے کی شکل میں برقرار رکھا گیا جیسا کہ اس کی پیشرو عباسی سلطنت میں غلامی موجود رہی تھی۔ عثمانیوں کے دور میں 1908ء تک غلامی کے ادارے کا سراغ ملتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق استنبول کی آبادی کا 20% حصہ غلاموں پر مشتمل تھا۔ عثمانی ترکوں نے غلاموں کی فوج کے ادارے کو ایک خاص شکل دی اور اسے "دیوسرم (Devsirme)" کا نام دیا۔

    اس نظام کے مطابق مشرقی یورپ میں بلقان کے علاقے کے لوگوں کے بچوں پر ٹیکس مقرر کیا گیا۔ اس ٹیکس کی صورت یہ تھی کہ ہر خاندان پر اس کے بچوں کی تعداد کے اعتبار سے شرح مقرر کی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو فوجی خدمات کے لئے بھیجیں۔ اس طریقے سے جو بچے حاصل ہوتے، انہیں مسلمان بنا کر ان کی کڑی فوجی تربیت دی جاتی۔ یہ فوجی سلطان کے ذاتی غلام سمجھے جاتے تھے۔

    غلامی کے باوجود ان فوجیوں کو ترک معاشرے میں اہم مقام حاصل تھا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد مختلف افراد کو ان کے ذہنی رجحان کے پیش نظر چار شعبوں میں سے کسی ایک میں بھیج دیا جاتا۔ یہ شعبے شاہی محل، تصنیف و تالیف، مذہبی خدمات اور فوجی خدمات پر مشتمل تھے۔ سوار فوج کو "کپی کولو سواری (Kapikulu Suvari)" کا نام دیا جاتا اور پیدل فوج کو "جینی سری (Yeni Ceri)" کا نام دیا جاتا۔ ان فوجیوں کے اعلی سماجی رتبے کے باعث بسا اوقات عیسائی والدین خود اپنے بچوں کو اس فوج میں شامل کروا دیا کرتے تھے۔

    سولہویں صدی میں غیر مسلموں کے بچوں کو اس فوج میں لیا جانا کم کر دیا گیا اور اس فوج میں آزاد افراد کو بھی شامل کیا جانے لگا۔ اس ادارے سے قطع نظر عثمانی معاشرے میں غلاموں کی حالت کم و بیش مسلم دنیا کے دوسرے علاقوں جیسی ہی تھی۔

    غلاموں کی بین الاقوامی تجارت

    جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ صحابہ و تابعین کے زمانے میں غلامی کے ادارے کا بڑی حد تک خاتمہ ہو چکا تھا۔ غلاموں کی خدمات کی منتقلی بھی زیادہ تر مقامی نوعیت کی تھی۔ اگر ایک شخص کو غلام کی ضرورت نہ رہتی تو وہ اس کی خدمات کو کچھ رقم کے عوض اپنے شہر ہی میں دوسرے شخص کو منتقل کر دیتا۔ بڑے پیمانے پر غلاموں کی ایک شہر سے دوسرے شہر منتقلی کا رواج موجود نہ تھا۔

    اسلام کی اصلاحات کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد میں غیر معمولی کمی کے نتیجے میں ان کی قیمتوں میں چالیس گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد بنو عباس کے دور میں حرم، غلاموں پر مشتمل فوج اور مخنث پولیس کے قیام کے نتیجے میں غلاموں کی ڈیمانڈ میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کے اس فرق کے نتیجے میں غلاموں کی ایک بین الاقوامی منڈی نے جنم لیا۔ لوئیس برنارڈ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    In one of the sad paradoxes of human history, it was the humanitarian reforms brought by Islam that resulted in a vast development of the slave trade inside, and still more outside, the Islamic empire. (Race & Slavery in Middle East)

    انسانی تاریخ کا یہ افسوس ناک المیہ ہے کہ اسلام نے (غلاموں سے متعلق) جو انسانی نوعیت کی اصلاحات کیں، ان کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر غلاموں کی تجارت وجود میں آئی۔ یہ مسلمانوں کی سلطنت کے اندر بھی تھی لیکن اس سے زیادہ اس کی حدود سے باہر بھی تھی۔

    غیر مسلم ممالک میں چونکہ بکثرت غلام پہلے سے ہی موجود تھے، اس وجہ سے بردہ فروشوں نے ان علاقوں سے غلاموں کو مسلم ممالک میں پہنچانا شروع کر دیا۔ غلاموں کی تربیت کے لئے باقاعدہ اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں ایک طرف لونڈیوں اور خوبصورت لڑکوں کو شعر و ادب، موسیقی اور رقص کی تربیت دی جاتی اور دوسری طرف غلاموں اور ہیجڑوں کو فوجی تربیت دی جاتی۔ غلام بنانے اور انہیں خصی کرنے کا عمل غیر مسلم ممالک یا پھر مسلم سلطنتوں کے دور دراز علاقوں میں انجام دیا جاتا اور انہیں بڑے بڑے مسلم شہروں میں لا کر فروخت کر دیا جاتا۔

    اس پورے عمل کے نتیجے میں غلاموں کی بین الاقوامی تجارت وجود میں آئی۔ افریقہ، وسط ایشیا اور یورپ غلاموں کی سپلائی کا مرکز تھے اور مسلم ممالک میں ان کی ڈیمانڈ موجود تھی۔ یہ ڈیمانڈ تاریخ کے تمام ادوار میں برقرار رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم ممالک میں غلاموں کی آزادی کا باقاعدہ ادارہ موجود رہا ہے۔ اللہ کی رضا کے لئے غلام آزاد کرنا مسلمانوں کے ہاں ہمیشہ ایک نیکی سمجھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مکاتبت کا ادارہ بھی ان کے ہاں موجود رہا۔ ان عوامل کے نتیجے میں مسلمان غلام آزاد کرتے رہتے اور ان کی کمی کو پورا کرنے کے لئے باہر سے مزید غلام امپورٹ کر لیتے۔

    ایڈم متز نے جرمن زبان میں چوتھی صدی ہجری کے مسلم معاشروں کے تفصیلی حالات نہایت ہی دیانتداری سے بیان کئے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس دور کی مسلم دنیا کے بڑے شہروں میں غلاموں کے بڑے بڑے بازار (سوق الرقیق) وجود پذیر ہو چکے تھے اور بردہ فروشوں (نخاسین) کا طبقہ بڑے پیمانے پر یہ کام کر رہا تھا۔ ہمارے پیش نظر ان کی کتاب کا عربی ترجمہ ہے۔ لکھتے ہیں:

    و فی القرن الرابع الھجری کانت مصر و جنوب جزیرۃ العرب و شمال افریقیہ اکبر اسواق الرقیق السود؛ و کانت قوافل ھذہ البلاد تجلب الذھب و العبید من الجنوب؛ ۔۔۔۔ اما فی سائر المملکۃ الاسلامیۃ فقد اقتصر المسلمون فی العبید البیض علی الترک و علی الصقالبہ۔۔۔۔۔اما الطریق الثانی الذی کان یاتی منہ رقیق الصقالبۃ، فقد کان یخترق المانیا الی الاندلس و الی الموانیء البحریۃ بایطالیا و فرنسا۔ و کان اغلب تجار الرقیق فی اوربا من الیھود۔۔۔۔ و الطریق الثالث لتجارۃ الرقیق یسیر من بلاد الرقیق فی لغرب۔ و کانت ھذہ البلاد بسبب حروبھا مع الالمان کثیرۃ الانتاج لھذۃ البضاعۃ الانسانیۃ۔ (ایڈم متز؛ الحضارۃ الاسلامیۃ فی القرن الرابع الھجری، فصل 11)

    چوتھی صدی ہجری میں مصر، جزیرہ نما عرب کے جنوبی حصے اور شمالی افریقہ میں سیاہ فام غلاموں کے بڑے تجارتی مراکز قائم ہو چکے تھے۔ ان شہروں کے قافلے جنوب سے سونا اور غلام لے کر آیا کرتے تھے۔ مسلم دنیا کے باقی ممالک میں مسلمانوں نے ترکی اور وسط ایشیا کے سفید فام غلاموں پر اکتفا کیا ہوا تھا۔۔۔۔دوسرا تجارتی راستہ وہ تھا جس سے جنوبی اور وسطی یورپ کے غلام لائے جاتے تھے۔ یہ غلام جرمنی سے لے کر اسپین اور اٹلی سے لے کر فرانس کی بندرگاہوں سے لائے جاتے تھے۔ غلاموں کی اس تجارت کا غالب حصہ سود خور یہودیوں کے قبضے میں تھا۔۔۔۔غلاموں کی تجارت کا تیسرا راستہ (شمال) مغربی ممالک کے جنگی قیدیوں کا تھا۔ ان ممالک میں جرمنوں (اور روسیوں وغیرہ) کی بہت سی جنگیں جاری تھیں جن کے نتیجے میں یہ انسانی پراڈکٹ پیدا ہوتی تھی۔

    متز نے اپنی کتاب میں غلاموں کے تجارتی مرکز کا باقاعدہ ڈیزائن بیان کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس دور میں بھی بردہ فروشوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا اور انہیں معاشرے کا ایک غلط کار طبقہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ لوگ لونڈیوں اور غلاموں کو اس تجارتی مرکز میں اس طریقے سے پیش کیا کرتے تھے کہ ان کے عیب چھپ جائیں۔ ادھیڑ عمر لونڈیوں کا خاص طور پر میک اپ وغیرہ کر کے انہیں جوان بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ انہیں یہ حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے ناز و ادا سے خریدار کو مسحور کرنے کی کوشش کریں تاکہ بردہ فروش کو ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت میسر آ سکے۔ ان بازاروں میں ہندوستانی اور افغانی لونڈیوں کی خاص ڈیمانڈ ہوا کرتی تھی۔

    تھامس آرنلڈ مسلم اسپین میں غلاموں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت سے متعلق بیان کرتے ہیں:

    The purchase of a slave was not so simple a transaction as is often imagined. It had to be concluded in the presence of a notary, and the purposes for which a female slave was required, as well as her capabilities and treatment, were carefully considered. Women enjoyed more freedom and more consideration under the Umayyads in Spain than under the Abbasids of Baghdad. (Thomas Arnold, The Legacy of Islam)

    عام خیال کے برعکس غلام خریدنے کا طریق کار سادہ نہ تھا۔ غلام کی خرید و فروخت کے وقت سرکاری عہدے دار کا موجود ہونا ضروری تھا۔ لونڈی کو خریدنے کے مقصد، اس کی صلاحیتیں اور اس کے ساتھ سلوک کو احتیاط سے دیکھا جاتا تھا۔ بغداد کے عباسیوں کے مقابلے میں اسپین کے امویوں کی سلطنت میں خواتین کو زیادہ آزادی حاصل تھی۔

    غلاموں سے متعلق مذہبی راہنماؤں کا کردار

    مسلم علماء کے چار رویے

    غلاموں سے متعلق مسلمانوں کے مذہبی راہنماؤں کے کردار کو سمجھنے سے پہلے ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہو گا کہ بنو عباس کے عہد میں مسلمانوں کے مذہبی راہنماؤں کا شاہی حکومت کے بارے میں کیا رویہ موجود تھا۔ اگر ہم تفصیل سے ان کے رویوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں علماء چار گروہوں میں تقسیم ہو چکے تھے:

    · پہلا گروہ ان مفاد پرست راہنماؤں کا تھا جو بادشاہوں سے مالی مفادات کے حصول کے لئے ان کی ہر بات کے مطابق دین کو ڈھالنے کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔ یہ لوگ دربار سے وابستہ ہوا کرتے۔ بادشاہ کی مرضی کے مطابق فتوی جاری کرتے، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے اور شاہی حکم کے مطابق دینی احکام میں تحریف سے بھی گریز نہ کیا کرتے تھے۔

    · دوسرا گروہ ان مذہبی راہنماؤں کا تھا جو بالعموم سرکاری ملازمتوں سے وابستہ تھے۔ یہ لوگ علوم دینیہ بالخصوص فقہ کی تکمیل کے بعد عدلیہ، احتساب اور پولیس وغیرہ کے محکموں سے وابستہ ہو جایا کرتے تھے۔ اپنی اصل میں تو یہ دین سے مخلص تھے لیکن ان میں وہ اخلاقی جرأت مفقود تھی جس کے باعث یہ حکومت کے منکرات کے خلاف آواز بلند کر سکتے۔ یہ حضرات اکثر اوقات یہ کوشش کیا کرتے تھے کہ اپنے دائرہ کار میں جس حد تک ہو سکے، نیکی کو فروغ دیں اور برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ معاشرے کی مجموعی سطح پر برائیوں کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ان کے لئے عملاً ممکن نہ تھا۔

    · تیسرا گروہ ان مخلص مذہبی راہنماؤں کا تھا جو اگرچہ حکومت سے کسی درجے میں وابستہ ہوا کرتے تھے لیکن ان کے نزدیک اصل اہمیت حق بات کی ہوا کرتی تھی۔ ایسے حضرات بادشاہ کے قریب ہو کر اس کے نظام حکومت کو جس حد تک ممکن ہو، دین کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر یہ بادشاہ کے سامنے بھی کلمہ حق کہنے سے گریز نہ کیا کرتے تھے۔ اگر بادشاہ اچھی طبیعت کا مالک ہوتا تو وہ ان کی باتوں کا اثر قبول کرتا ورنہ ان میں سے بہت سے اہل علم کو پس زنداں ڈال کر تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا۔

    · چوتھا گروہ ان مخلص مذہبی راہنماؤں کا تھا جنہوں نے ہر حال میں حکومت سے دوری اختیار کی۔ انہوں نے خود کو علمی کاموں میں اتنا مشغول کر لیا کہ ان کے لئے حکمرانوں کے پاس جانے اور اس سے تعلق رکھنے کا وقت ہی نہ بچا۔ اگر انہیں حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ سونپنے کی کوشش بھی کی گئی تب بھی انہوں نے انکار ہی کیا اور اس جرم کی پاداش میں بسا اوقات سزا بھی برداشت کی۔

    ان چاروں گروہوں میں سے پہلے کو چھوڑ کر باقی تینوں طبقات مخلص علماء پر مشتمل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تیسرے اور چوتھے گروہ کے علماء کی تعداد میں کمی واقع ہوتی چلی گئی اور زیادہ تر علماء دوسرے یا پہلے گروہ سے تعلق رکھنے لگے۔ تیسرے اور چوتھے طبقے کے ایک گروہ نے دینی فکر کو سیاسی اثرات سے پاک رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے باوجود یہ حضرات بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے، جس کی وجہ سے کسی حد تک یہ اپنے معاشی اور معاشرتی حالات سے متاثر ہوئے، جس کے اثرات ان کی فکر پر بھی اثر پذیر ہوئے۔

    یہ بات غیر ضروری ہے کہ ان میں سے ہر طبقے کے اہل علم کے نام پیش کئے جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شخصیتوں سے متعلق افراط و تفریط کے رویے پیدا ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی شخصیت کسی گروہ میں محترم سمجھی جاتی ہو، تو اس کی ہر بات کو سوچے سمجھے بغیر مان لینے کا رجحان ہمارے ہاں موجود ہے، خواہ وہ بات اسلام کی تعلیمات کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اگر وہ شخصیت مخالف فرقے یا مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہو تو اس کی ہر بات کو رد کر دینے کا رجحان ہمارے ہاں موجود ہے اگرچہ اس کی بات اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں شخصیات کا ذکر کئے بغیر ان کے نقطہ ہائے نظر کو بیان کریں گے تاکہ شخصی تعصب بات کو سمجھنے میں حائل نہ ہو۔

    چوتھے طبقے کے علماء کا حکومت سے دور رہنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی جگہ پہلے اور دوسرے طبقے کے راہنماؤں نے لے لی۔ تیسرے طبقے کے علماء بہت ہی کم تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی حکومتیں اسلام سے دور ہوتی چلی گئیں۔ اس صورتحال کا تجزیہ مسلم علماء کے برعکس دور جدید کے مستشرقین نے نہایت دقت نظر سے کیا ہے۔ ڈینیل پائپس۔۔۔ گرون بام، ابن خلکان، گوئٹے، ہڈسن، بولیٹ ۔۔۔ وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

    Muslim subjects responded to troublesome realities by withdrawing from politics and warfare. They avoided the blatant nonimplementation of Islamic goals in the public sphere by re-treating into other domains, where Islam had much greater success. Not all Muslim subjects withdrew, of course, but insofar as an Islamicate pattern existed, Islam caused its believers not to participate in public affairs. As a result of the unattainable nature of Islamic public ideals, Muslim subjects in premodern times relinquished their political and military power.

    The ulama’ did their best to avoid serving as qadis; some Sufis refused "to touch funds coming from an amir, on the ground that they represented illicit gains";….

    In the 13th century courageous jurists in Egypt declared prayer in a cemetery chapel, which the Sultan had erected, as not permitted, on account of the inhumane methods used during its construction. A tacit, boycott-like opposition to the government existed in certain pious circles of the early Islamic Middle Ages, when any money coming from the government was considered religiously forbidden property. It is even reported that some pious people considered it forbidden to drink water from a canal dug by the government, or to fasten their bootlaces at the light of a lamp belonging to the government.

    The reputations of Muslim authorities who did serve the rulers suffered as a result; the trustworthiness of Abi Yousuf (d. 182/798), author of Kitab al-Kharaj, came into doubt because he worked for the government. A number of prominent Muslim ethical and religious writers, such as Abu’l-Layth as-Samarqandi (d. 373/983) and Abu’l-H.amid al-Ghazali (d. 505/1111) discussed the problems entailed in dealing with rulers. Islamicate writings widely reflected this attitude to government. Further, Muslim subjects and rulers alike internalized this attitude, making it a normative pattern of behavior; all agreed that Muslim subjects should not become involved in public affairs…..

    None of them (Muslim subjects) had coercive powers--they could not tax, raise armies, nor claim a monopoly on violence. Some of them might occasionally mobilize on a local scale, but none could challenge the rulers. They absorbed energies which otherwise would have gone into politics….

    Withdrawal by Muslim subjects created a power vacuum which opened Islamicate public life to domination by others. Armies became the playthings of nonsubjects; one succeeded another with hardly any reference to the subject populations. (Daniel Pipes, Slavery Soldiers & Islam, www.danielpipes.com )

    اسلام پر عمل کرنے والے مسلمانوں نے ان مشکلات کے ردعمل میں سیاست اور جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ انہوں نے حکومتی دائرے میں اسلام کے مقاصد پر عمل درآمد نہ کئے جانے پر اپنی قوتیں دیگر میدانوں میں لگا دیں جہاں اسلام کو بڑی کامیابی مل سکی۔ یقیناً تمام دین دار مسلمانوں نے تو گوشہ نشینی نہ اختیار کی مگر یہی رجحان ان کے ہاں غالب رہا کہ اسلام ہی کی وجہ سے اس کے ماننے والے حکومتی معاملات سے علیحدہ ہو گئے۔ حکومتی معاملات میں اسلام کے آئیڈیلز کے قابل حصول نہ ہونے کے سبب قرون وسطی کے دین دار مسلمانوں نے اپنی سیاسی اور فوجی قوت کھو دی۔۔۔۔۔

    علماء نے قاضی کے عہدے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بعض صوفیاء نے حکمران کی طرف سے آنے والی رقم کو چھونے سے بھی انکار کر دیا کیونکہ یہ غیر اخلاقی فوائد کے لئے دی جاتی تھی۔۔۔۔

    تیرھویں صدی میں مصر میں باہمت فقہاء نے بادشاہ کی تعمیر کردہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا کیونکہ اس کی تعمیر میں غیر انسانی طریقے استعمال کئے گئے تھے۔ قرون وسطی کے مسلم علاقوں کے بعض مذہبی حلقوں میں بائیکاٹ کی طرز پر حکومت کے خلاف ایک خاموش اپوزیشن بھی موجود رہی جب حکومت سے حاصل شدہ رقم کو مذہبی طور پر حرام قرار دیا گیا۔ یہ بھی ملتا ہے کہ بعض نیک لوگ حکومت کی کھودی ہوئی نہر سے پانی پینے کو جائز نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی حکومت کی ملکیت کسی مشعل کی روشنی میں اپنے جوتوں کے تسمے باندھنے کو پسند کرتے تھے۔

    ایسے مسلم علماء، جو حکومتی سروس کا حصہ بنتے تھے، کی ساکھ بری طرح متاثر ہوا کرتی تھی۔ (ابن خلکان کے مطابق) کتاب الخراج کے مصنف (قاضی) ابو یوسف (d.182H / 798CE) کی دیانت پر شک کیا گیا کیونکہ وہ حکومت کے لئے (بطور چیف جسٹس) کام کیا کرتے تھے (اگرچہ وہ ایک نہایت ہی دیانت دار عالم تھے۔) مسلمانوں کے بہت سے مذہبی اور اخلاقی موضوعات پر لکھنے والے، جیسے ابواللیث سمرقندی (d. 373H / 983CE) اور ابو حامد الغزالی (d. 505H / 1111CE) نے حکمرانوں کے ساتھ تعلق کے مسائل بیان کئے ہیں۔ دین دار مسلمانوں کی تحریریں حکومت کے ساتھ ان کے رویوں سے متعلق بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ اس کے بعد، دین دار مسلمان اور حکمران دونوں نے ذہنی طور پر اس بات کو متفقہ طور پر قبول کر لیا کہ دین دار مسلمان اجتماعی معاملات میں شریک نہیں ہوں گے۔۔۔

    ان دین دار مسلمانوں میں سے کسی کے پاس ڈنڈے کی طاقت نہیں تھی۔ وہ نہ تو ٹیکس وصول کر سکتے تھے، نہ ہی فوج تیار کر سکتے تھے اور نہ ہی تشدد کا راستہ اختیار کر سکتے تھے۔ ان میں سے کچھ مقامی سطح پر لوگوں کو متحرک تو کر سکتے تھے لیکن حکمرانوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ان میں سے کوئی نہ تھا۔ (اپنے سماجی اور علمی کاموں میں) انہوں نے وہ توانائیاں استعمال کر لیں جو کہ بصورت دیگر سیاست میں استعمال ہوتیں۔۔۔۔

    دین دار مسلمانوں کی اس گوشہ نشینی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں طاقت کا ایسا خلا پیدا ہوا جسے دوسرے (غیر مذہبی لوگوں) نے پورا کیا۔ افواج غیر مذہبی لوگوں کے ہاتھ میں کھلونا بن گئیں جن کی لڑائیوں کے نتیجے میں، مذہبی مسلمانوں سے قطع نظر، ایک کے بعد دوسرا برسر اقتدار آ جایا کرتا تھا۔

    بحیثیت مجموعی، پائپس کے اس تجزیے سے، سوائے خط کشیدہ الفاظ کے ہم اتفاق کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کے دین دار طبقے کے اجتماعی معاملات سے دور ہونے کی وجہ "اسلام" نہیں تھی۔ اسلام نے ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنے کو سب سے بڑا جہاد قرار دیا ہے البتہ جو لوگ اس کی ہمت اور استطاعت نہ رکھتے ہوں، انہیں خاموش رہنے کی رخصت بھی دی گئی ہے۔ تیسری صدی ہجری تک مسلم علماء میں کلمہ حق ادا کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کا بھرپور رجحان رہا ہے۔ اگرچہ بعد کی صدیوں میں یہ معاملہ کمزور پڑ گیا لیکن ان میں صعوبتیں جھیل کر کلمہ حق ادا کرنے والے افراد بہرحال موجود رہے ہیں۔

    ان سے ہمارا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ اسلام کے اجتماعی آئیڈیلز ہرگز ہرگز ناقابل حصول نہیں ہیں۔ یہ آئیڈیلز اعلی ترین اخلاقیات پر مبنی ہیں جنہیں کوئی بھی معاشرہ، جو اخلاقی اعتبار سے ایک مناسب مقام پر ہو، اختیار کر سکتا ہے۔

    غلامی سے متعلق دینی احکامات میں تحریف

    غلامی سے متعلق علماء کے ہاں دو رویے موجود رہے ہیں۔ پہلے اور دوسرے طبقے کے علماء نے بنی اسرائیل کے علماء کی طرح غلاموں کی آزادی سے متعلق احکامات کا اثر محدود کرنے کی کوشش کی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ طبقہ تورات کے برعکس قرآن مجید میں کوئی اضافہ تو نہ کر سکا لیکن انہوں نے قرآن مجید کی اصلاحات کا اثر کم کرنے کی کچھ اور طریقوں سے کوشش کی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہو گا کہ ایسا انہوں نے جان بوجھ کر غلامی کی حمایت میں کیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ علماء اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوئے اور لاشعوری طور پر اس کے اثرات ان کے نظریات میں شامل ہو گئے۔ اس کی بعض تفصیلات یہ ہیں:

    مکاتبت کے وجوب کی استحباب میں تبدیلی

    قرآن مجید میں واضح طور پر مکاتبت کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کوئی غلام آزادی کا طالب ہو تو اس سے مکاتبت کرنا اس کے مالک کے لئے لازم ہے۔ خلفاء راشدین بالخصوص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکاتبت کا یہ حکم "فرض" کے درجے میں تھا۔ اس حکم کو قرآن سے خارج تو نہ کیا جا سکا لیکن ایک گروہ نے اسے "فرض" کے درجے سے گرا کر "مستحب" قرار دے دیا۔ اب یہ بات آقا کے لئے بہتر قرار پائی کہ وہ غلام کو مکاتبت دے دے لیکن اگر وہ ایسا کرنے پر تیار نہ ہو تو غلام کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ صبر شکر سے غلامی کی زندگی بسر کرتا رہے۔ اس طریقے سے مکاتبت کے اس انقلابی قانون کو غیر موثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

    غلاموں کی شادیوں کے وجوب کی استحباب میں تبدیلی

    قرآن مجید میں واضح طور پر غلاموں کی شادیاں کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل سے یہ بات پوری طرح ثابت ہے کہ حکم بھی "فرض" کے درجے میں تھا۔ صحابہ کرام کے غلام تو اگر شادی نہ بھی کرنا چاہتے تو وہ خود انہیں شادی کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ایک گروہ نے اس "فرض" کو بھی "مستحب" میں تبدیل کر دیا۔ اس طریقے سے یہ آقا کی مرضی قرار پائی کہ وہ چاہے تو غلام کی شادی کرے اور چاہے تو اسے بدکاری کرنے کے لئے چھوڑ دے۔

    غلاموں کی آزادی کی تحریک کی شدت کا برقرار نہ رکھنا

    احادیث کا مطالعہ کرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پہلے سے موجود غلاموں کو آزاد کرنے کی ایک زبردست تحریک پیدا کی تھی۔ پورے معاشرے میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا تھا کہ وہ خود اپنے غلاموں کو آزاد کریں۔ تحریک میں یہ شدت بعد کے ادوار میں کمزور پڑتی نظر آتی ہے۔ اس موقع پر یہ مذہبی راہنماؤں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس تحریک کو کمزور پڑتا دیکھ کر اس میں شدت پیدا کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں کیا گیا۔ تیسرے اور چوتھے طبقے کے بعض علماء نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی لیکن انہیں معاشرے کی بھرپور حمایت حاصل نہ ہو سکی۔

    جسمانی تشدد کی صورت میں آزادی کے قانون میں تبدیلی

    احادیث سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلاموں پر جسمانی تشدد کی قطعی ممانعت کر دی گئی تھی اور ایسا کرنے کی صورت میں غلام کو آزاد کر دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس حکم کو "فرض" کے درجے سے گرا کر "مستحب" کے درجے پر لایا گیا۔ ایسا تشدد جس میں غلام کے جسم کا کوئی حصہ ضائع ہو جائے تو اس صورت میں غلام کی آزادی کو واجب ہی سمجھا گیا ہے۔

    غلام کے مال کی حرمت کے قانون میں تبدیلی

    احادیث و آثار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ عہد رسالت و صحابہ میں غلام اپنی کمائی ہوئی دولت کے مالک ہوا کرتے تھے۔ بعد کے ادوار میں غلام سے یہ حق چھین لیا گیا۔ اس کی تفصیل بھی ہم آخری باب میں بیان کریں گے۔

    لونڈیوں کے حقوق میں کمی

    ایک طبقے کی جانب سے لونڈیوں کے بعض حقوق میں تخفیف کی گئی۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بیوی یا لونڈی دونوں سے ازدواجی تعلقات میں عزل کو ناپسند کیا ہے۔ اس حکم کو تبدیل کر کے اس طرح سے کر دیا گیا کہ "بیوی سے عزل صرف اس کی اجازت سے ہی جائز ہے جبکہ لونڈی سے عزل بغیر اجازت کے جائز ہے۔" معلوم نہیں کہ اس نقطہ نظر کے حامل حضرات نے لونڈی کو جنسی طور پر ناآسودہ رکھنے کو کیسے جائز قرار دے دیا جس کا نتیجہ سوائے بدکاری کے فروغ کے اور کچھ نہیں نکل سکتا۔ اس پر مزید بحث ہم نے کتاب کے آخری حصے میں پیش کریں گے۔

    غلام کی بجائے آقا کی طرف جھکاؤ

    قرآن مجید، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے جہاں کہیں بھی غلام اور آقا کے باہمی حقوق سے متعلق کوئی صورت پیش کی گئی تو ان کے فیصلے میں جھکاؤ واضح طور پر غلام کے حقوق کی طرف ہے کیونکہ یہ کمزور طبقہ تھا۔ بعد کے ادوار میں ایسی صورتیں پیش آئیں جن میں قرآن و سنت میں حکم کی عدم موجودگی کے باعث علماء کو اجتہاد کرنا پڑا۔

    بعض علماء کے اجتہادات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فیصلے میں غلام کے حقوق کو نظر انداز کر کے آقا کے حقوق کی پاسداری کو فوقیت دی گئی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غلاموں میں اجتماعی مکاتبت رواج پذیر ہو گئی تھی جو کہ مکاتبت کی انشورنس کی ایک شکل تھی۔ اس صورت میں غلام مل کر مکاتبت کرتے۔ اگر کوئی غلام رقم ادا کرنے سے بیماری یا کسی اور وجہ سے عاجز ہو جاتا تو اس کی رقم اس کے باقی ساتھی ادا کیا کرتے تھے۔

    عقل و فطرت اور قرآن و سنت کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک غلام کے دوران مکاتبت فوت ہو جانے کی صورت میں اس کے قابل ذمہ رقم کو ساقط کر دیا جاتا لیکن ایک طبقے کی جانب سے اس رقم کی ادائیگی بھی باقی ماندہ غلاموں کے ذمے لازم قرار دے دی گئی۔

    غلاموں سے ہم جنس پرستانہ عمل کو ناقابل تعزیر جرم قرار دیا جانا

    دور قدیم کے تمام فقہا اس بات پر متفق تھے کہ ہم جنس پرستی ایک حرام فعل ہے اور بدکاری کی طرح اس کا ارتکاب کرنے والے کو بھی حکومت کی جانب سے سزا دی جائے گی۔ چوتھی صدی کے بعض فقہاء نے غلام لڑکوں کے ساتھ ہم جنس پرستانہ تعلق رکھنے کو ناقابل تعزیر جرم قرار دے دیا۔ اس کا معنی یہ تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں حکومت اس فعل کے مرتکب کو کوئی سزا نہیں دے گی۔

    قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں غلامی

    ہندوستان کے بعض قاضیوں نے اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس سول لاء میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں غلام بنا لینے کو اپنے نام نہاد شرعی قانون میں جائز قرار دیا۔ اس کی تفصیل علی گڑھ یونیورسٹی اسٹڈیز ان ہسٹری کی تحریر کردہ کتاب “Administration of Justice in Medieval India” میں بیان کی گئی ہیں۔
     
  23. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 14: مسلمانوں کے دور انحطاط میں غلامی (3)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مسلم مصلحین کا غلامی سے متعلق کردار

    غلامی کے حامی مذہبی راہنماؤں کے اقدامات کی چند مثالیں ہم نے یہاں پیش کی ہیں۔ اس کے برعکس اہل علم کا ایسا طبقہ بھی ہر دور میں موجود رہا ہے جنہوں نے غلامی سے متعلق دین اسلام کی تعلیمات پر ٹھیک طریقے سے عمل کرنے کی ترغیب دی۔ اگر انہوں نے کہیں بگاڑ پیدا ہوتا دیکھا تو اس کی بھرپور مخالفت کی اور لوگوں کو دین کی اصل تعلیمات پر عمل کرنے کی ترغیب دی۔

    ایسا ضرور ہے کہ ان اہل علم کی جانب سے بگاڑ کی صورت میں کسی مسلح جدوجہد کا سراغ ہمیں مسلمانوں کی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنو امیہ کی کرپشن کے خلاف جب بغاوتی تحریکیں اٹھیں تو نیک لوگوں کی طرف سے بالعموم ان کا ساتھ دیا گیا۔ جب یہ تحریکیں کامیاب ہوئیں اور بنو امیہ کی جگہ بنو عباس برسر اقتدار آئے تو معلوم ہوا کہ وہ اخلاقی اور دینی اعتبار سے مجموعی طور پر بنو امیہ سے بھی بدتر تھے۔

    اس تجربے سے مسلمانوں کے مصلحین نے یہ سبق سیکھا کہ مسلح بغاوت ایک چھوٹی برائی کو ختم کر کے اس سے بڑی برائی کو جنم دیتی ہے۔ انہوں نے اس کے بعد سے معاشرتی اصلاح اور مظلومانہ جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جس کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اس ضمن میں مشہور مصلحین کے غلامی سے متعلق اقدامات کی تفصیل یہ ہے:

    ابو درداء رضی اللہ عنہ

    دور صحابہ و تابعین میں جلیل القدر اہل علم عوام الناس میں پیدا ہونے والی دنیا پرستی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں کی طرف توجہ دلایا کرتے تھے اور انہیں نیکیوں کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ ان میں غلاموں کو آزادی دینے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

    حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، أَنَّهُ قَالَ : مَالِي أَرَى عُلَمَاءَكُمْ يَذْهَبُونَ ، وَأَرَى جُهَّالَكُمْ لاَ يَتَعَلَّمُونَ ، اعْلَمُوا قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ , فَإِنَّ رَفْعَ الْعِلْمِ ذَهَابُ الْعُلَمَاءِ ، مَالِي أَرَاكُمْ تَحْرِصُونَ عَلَى مَا تُكُفِّلَ لَكُمْ بِهِ ، وَتُضَيِّعُونَ مَا وُكِّلْتُمْ بِهِ ، لأَنَا أَعْلَمُ بِشِرَارِكُمْ مِنَ الْبَيْطَارِ بِالْخَيْلِ ، هُمَ الَّذِينَ لاَ يَأْتُونَ الصَّلاَةَ إِلاَّ دُبُرًا ، وَلاَ يَسْمَعُونَ الْقُرْآنَ إِلاَّ هَجْرًا ، وَلاَ يَعْتِقُ مُحَرَّرُهُمْ. (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 35748)

    سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ (d. 32H / 653CE) فرمایا کرتے تھے، "تمہیں کیا ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے علماء اٹھتے چلے جا رہے ہیں اور تمہارے غیر تعلیم یافتہ لوگ ان سے علم حاصل نہیں کرتے۔ ان سے سیکھ لو اس سے پہلے کہ علم ہی اٹھ جائے۔ علم علماء کی وفات کے ساتھ اٹھ جایا کرتا ہے۔ تمہیں کیا ہوا، میں دیکھتا ہوں کہ جتنا مال تمہاری کفالت کے لئے کافی ہے، تم اس سے زیادہ کا لالچ کرنے لگے ہو۔ تمہیں جس دولت (کو لوگوں تک پہنچانے) کا وسیلہ بنایا گیا ہے، تم اسے ضائع کرنے لگے ہو۔ میں تمہارے ان برے لوگوں کو جانتا ہوں جو گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ نماز کو آخری وقت میں ادا کرتے ہیں۔ قرآن کو سنتے ہیں تو اس پر توجہ نہیں دیتے اور اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کرتے۔

    عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ

    تابعین کے مشہور عالم سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ (62 – 101H / 682 – 720CE) کو جب حکومت ملی تو انہوں نے سب سے پہلے شاہی خاندان کی جمع کردہ لونڈیوں کو آزاد کرنے کا حکم جاری فرمایا۔ آپ کی اپنی لونڈیاں آپ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ آپ نے انہیں بھی آزاد ہونے کا اختیار دے دیا جس پر انہوں نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا۔

    و استخلف عمر بن عبد العزيز بن مروان بن الحكم أبو حفص بدير سمعان في اليوم الذي توفي فيه سليمان بن عبد الملك ، و أم عمر بن عبد العزيز أم عاصم بنت عاصم بن عمر بن الخطاب و اسمها ليلى ، فلما ولي عمر جمع وكلاءه و نساءه و جواريه فطلقهن و أعتقهن. (سیرت ابن حبان)

    سلیمان بن عبدالملک کی وفات کے بعد عمر بن عبدالعزیز بن مروان خلیفہ بنے۔ ان کی والدہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی پوتی ام عاصم تھیں جن کا نام لیلی تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی عمر نے (بنو امیہ کے) تمام نمائندوں، خواتین اور لونڈیوں کو جمع کیا۔ انہوں نے (زبردستی بیاہی گئی) خواتین کو طلاق دلوائی اور (شاہی خاندان کی) لونڈیوں کو آزاد کر دیا۔

    حدثنی بعض خاصۃ عمر بن عبدالعزیز انہ حین افضت الیہ الخلافۃ ، سمعوا فی منزلہ بکاء عالیا ، فسئل عن البکاء، فقیل: ان عمر بن عبدالعزیز قد خیر جواریہ، فقال: انہ قد نزل بی امر قد شغلنی عنکن، فمن احب ان اعتقہ اعتقتہ، و من اراد ان امسکہ امسکتہ ، و لم یکن منی الیھا شییء۔ جبکین یاسا منہ، رحمہ اللہ۔ (ابن جوزی، سیرت عمر بن عبدالعزیز)

    عمر بن عبدالعزیز کے قریبی لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ خلیفہ بنے تو ان کے گھر سے رونے کی اونچی آوازیں سنائی دیں۔ اس کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی لونڈیوں کو (آزاد ہونے کا) اختیار دیا اور فرمایا، "مجھ پر اب ایسی ذمہ داری آ گئی ہے کہ میں تمہارے حقوق پورے نہیں کر سکتا۔ تم میں سے جو آزادی حاصل کرنا چاہے تو وہ آزاد ہے، اور جو میرے گھر میں رہنا چاہے وہ رہے لیکن میں اس کے حقوق پورے نہیں کر سکوں گا۔" اللہ ان پر رحم فرمائے کہ اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی لونڈیاں رونے لگیں۔

    اس کے علاوہ آپ نے ایسے اقدامات کئے جن کے نتیجے میں دشمن ممالک میں قید مسلم اور غیر مسلم غلاموں کو رہائی نصیب ہوئی۔

    حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي الْجُوَيْرِيَةِ ، وَعَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ ؛ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَدَى رَجُلاً مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ جَرْمٍ مِنْ أَهْلِ الْحَرْبِ بِمِئَةِ أَلْفٍ. (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الجہاد، حدیث 33923)

    عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کے ایک فوجی کا ایک لاکھ جرمانہ ادا کر کے اسے آزاد کروایا۔

    A document of the time of the Umaiyad caliph 'Umar ibn 'Abdal-'Aziz (reported by Ibn Sa'd) says that the payment of the ransoms by the Muslim government includes liberating even the non-Muslim subjects who would have been made prisoners by the enemy. (Dr. Hamidullah, Introduction to Islam)

    اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (علیہ الرحمۃ) کے دور کے ایک سرکاری کاغذ کے مطابق جسے ابن سعد نے بیان کیا ہے، مسلمان حکومت کو اپنے ایسے غیر مسلم شہریوں کا فدیہ ادا کرنا چاہیے جو کہ دشمن کی قید میں ہوں۔

    الجاحظ

    بنو عباس کے عہد میں جب بڑی تعداد میں افریقی غلاموں کو مسلم دنیا میں امپورٹ کیا گیا اور حرم اور مخنث پولیس کے ادارے قائم ہوئے تو ابو عثمان عمرو بن البحر الکنانی مشہور بہ الجاحظ (164 - 255H / 781 - 868CE) وہ پہلے عالم تھے جنہوں نے اس کے خلاف اپنے مخصوص انداز میں آواز بلند کی۔ جاحظ خود افریقی غلاموں کی اولاد تھے۔ اپنے علم و فضل کے باعث انہیں عباسی بادشاہوں کا قرب حاصل ہو چکا تھا۔ انہوں نے مولویانہ انداز میں وعظ و نصیحت کرنے کی بجائے ادیبانہ انداز میں رسائل لکھنا شروع کئے جو کہ عربی ادب کا شاہکار مانے جاتے ہیں۔ ان رسائل میں انہوں نے غلاموں کی نفسیات میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی۔

    وله أن يجعل من عباده من شاء عربياً ومن شاء عجمياً ومن شاء قرشيَّاً ومن شاء زنجياً كما له أن يجعل من شاء ذكراً ومن شاء أنثى ومن شاء خنثى ۔۔۔۔۔ وإذا كان الخراساني مولىً والمولى عربي فقد صار الخراساني والبنوي والمولى والعربي شيئاً واحداً‏.‏ ‏ (رسائل الجاحظ، رسالة الحنين إلى الأوطان)

    وہی اللہ ہے نے جس نے اپنے بندوں میں سے جسے چاہا عرب بنا دیا اور جسے چاہا عجمی بنا دیا، جسے چاہا قریشی بنا دیا اور جسے چاہا زنگی (افریقی) بنا دیا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا کہ اس نے جسے چاہا مرد بنا دیا، جسے چاہا عورت بنا دیا، اور جسے چاہا مخنث بنا دیا۔۔۔۔ اگر غلام خراسانی ہو اور مالک عربی ہو تب بھی درحقیقت خراسانی، بنوی، غلام اور عرب ایک ہی چیز تو ہیں۔

    والزنجي مع حسن الخلق وقلة الأذى لا تراه أبداً إلا طيب النفس ضحوك السّنّ حسن الظّنّ‏.‏ وهذا هو الشرف‏.‏‏ (رسائل الجاحظ، كتاب فخر السودان على البيضان)

    زنگی (افریقی) اپنی اچھی تخلیق اور دوسروں کو اذیت میں مبتلا نہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ہمیشہ اچھی شخصیت کا مالک پائیں گے، ان کا چہرہ ہنستا مسکراتا ہو گا اور وہ (دوسروں کے بارے میں) اچھا گمان رکھتے ہوں گے۔ یہی ان کا شرف ہے۔

    وقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ ‏"‏ بُعثت إلى الأحمر والأسود ‏"‏‏.‏ وقد علمت أنه لا يُقال للزِّنج والحبشة والنُّبة بيضٌ ولا حمر وليس لهم اسمٌ إلا السُّود‏.‏ وقد علمنا أن الله عزّ وجل بعث نبيه إلى الناس كافة وإلى العرب والعجم جميعاً‏.‏ فإذا قال‏:‏ ‏"‏ بُعثت إلى الأحمر والأسود ‏"‏ ولسنا عنده حُمرٌ ولا بيض فقد بُعث إلينا فإنما عنانا بقوله ‏"‏ الأسود ‏"‏‏.‏ ولا يخرج الناس من هذين الاسمين فإن كانت العرب من الأحمر فقد دخلت في عداد الروم والصَّقالبة وفارس وخراسان‏.‏ وإن كانت من السُّود فقد اشتَّق لها هذا الاسم من اسمنا‏.‏

    وإذا كان النبي صلى الله عليه وسلم يعلمأن الزِّنج والحبشة والنوبة ليسوا بحمرٍ ولا بيض وأنهم سود وقد بعثه الله تعالى إلى الأسود والأحمر فقد جعلنا والعرب سواء ونكون نحن السُّود دونهم‏.‏ فإن كان اسم أسود وقع علينا فنحن السُّودان الخُلَّص والعرب أشباه الخُلَّص‏.‏ فنحن المتقدِّمون في الدَّعوة‏.‏ ‏ ‏ (رسائل الجاحظ، کتاب فخر السودان على البيضان)

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "میں سرخ و سیاہ (ہر ایک) کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔" آپ جانتے ہی ہیں کہ زنج، حبشہ اور نوبیہ کے لوگوں کو سفید یا سرخ تو نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا نام سوائے "سیاہ" کے اور کچھ نہیں ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے نبی کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے جن میں عرب و عجم سب ہی شامل ہیں۔ جب آپ نے یہ فرمایا کہ " میں سرخ و سیاہ (ہر ایک) کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں" اور آپ کے پاس کوئی سرخ یا سفید لوگ موجود نہ تھے تو اس کا معنی یہی ہے کہ آپ اپنے فرمان "الاسود" کے تحت ہم سیاہ لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ ان دونوں ناموں سے انسانوں (کی کسی قسم کو بھی خارج نہیں کیا جا سکتا۔) سرخ میں عربوں کے علاوہ روم، سسلی، ایران اور خراسان کے لوگ سبھی شامل ہیں۔ جہاں تک "سیاہ فام" کا تعلق ہے تو یہ نام ہمارے ہی نام سے نکلا ہے۔

    نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم زنگی، حبشی اور نوبی افراد کو تعلیم دیا کرتے تھے اور یہ لوگ نہ تو سرخ اور نہ ہی سفید تھے بلکہ سیاہ فام تھے۔ اللہ نے آپ کو سرخ و سیاہ ہر ایک کی طرف مبعوث فرمایا۔ ہم اور عرب ایک دوسرے کے برابر ہیں کیونکہ ہم ہی ان کے علاوہ سیاہ فام ہیں۔ جب "سیاہ فام" کے نام کا اطلاق ہم پر ہوتا ہے تو ہم ہی خالص سیاہ فام ہیں اور عرب خالص سیاہ یا سفید فام نہیں ہیں۔ اس وجہ سے ہم لوگ آپ کی دعوت کے پہلے مخاطب ہیں۔

    اپنے رسالے "مناقب الترک" میں انہوں نے ترک غلاموں کی خصوصیات بیان کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے اخلاقی زوال سے متعلق متعدد رسائل لکھے جن میں "المعاش و المعاد او اخلاق المحمودۃ و الذمومۃ"، "فصل ما بین العداوۃ و الحسد"، "ذم اخلاق الکتاب" شامل ہیں۔

    انہوں نے لونڈیوں اور خوبصورت لڑکوں کے شوقین حضرات کے بارے میں ایک رسالہ "مفاخرۃ الغلمان و الجواری" لکھا۔ اس رسالے میں انہوں نے لطیف انداز میں ایسے لوگوں پر طنز کیا ہے۔ یہ رسالہ اگرچہ عربی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے لیکن ہم جان بوجھ کر اس کا کوئی اقتباس پیش نہیں کر رہے کیونکہ اردو میں اس کا ترجمہ فحش نگاری کے ضمن میں سمجھا جائے گا۔ اس رسالے میں انہوں نے ہم جنس پرستوں اور مخنثوں کی نفسیات کی ایسی تصویر کشی کی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف اعلی درجے کے ماہر نفسیات ہیں۔

    اپنے رسالے "القیان" میں انہوں نے رقص و موسیقی کے میدان میں لونڈیوں کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ واعظانہ اور مولویانہ انداز میں نہیں کیا بلکہ ادیبانہ انداز میں ہلکی پھلکی گفتگو کی ہے۔

    مغربی مورخین کا خیال ہے کہ جاحظ ہی کے کام نے افریقی یا زنگی غلاموں کی نفسیات میں غیر معمولی تبدیلی پیدا کی۔ انہوں نے ان غلاموں میں ایسا شعور پیدا کیا جس کے نتیجے میں ان میں آزادی کی زبردست خواہش پیدا ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب علی بن محمد نے اعلان کیا کہ جو غلام میرے پاس آ جائے گا، وہ آزاد ہے تو یہ سب فرار ہو کر اس کے پاس جا پہنچے اور اس مشہور زنگی بغاوت نے جنم لیا جس کی تفصیل ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔ اس بغاوت کا آغاز جاحظ کی وفات کے ایک سال بعد ہوا تھا۔

    ابو یعلی الفراء

    مسلمانوں کے نیک لوگ، جب غلاموں پر تشدد دیکھتے تو انہیں اس سے منع کیا کرتے تھے۔ قاضی ابو یعلی الفراء (210 -307H / 825 - 919CE) نے حکمرانوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ غلاموں پر تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔ ابن منصور کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    قال في رواية ابن منصور، في الرجل يضرب رقيقه، قال: إي والله، يؤدبه على ترك الصلاة، وعلى المعصية، ويعفو عنه فيما بينه وبينه".‏ (ابو یعلی الفراء، الاحکام السلطانیہ)

    ابن منصور کی روایت میں ہے کہ ایک شخص اپنے غلام کو مار رہا تھا۔ انہوں نے کہا، "اے! اسے نماز چھوڑنے یا گناہوں میں مبتلا ہونے پر سزا تو دو مگر تمہارے اور اس کے درمیان جو معاملہ ہے، اس پر معاف کرتے رہو۔

    غلاموں کے حقوق سے متعلق امام احمد بن حنبل کی رائے بیان کرتے ہوئے ابو یعلی مزید لکھتے ہیں:

    وقد قال أحمد في رواية عبد الله "حق المملوك يشبعه ويكسوه. ولا يكلفه ما لا يطيق. وإذا بلغ المملوك زوجه، فإن أبى تركه". وقال في رواية حرب: وقد سئل " هل يستعمل المملوك بالليل؟ قال: لا يسهره ولا يشق عليه ويخفف عنه".‏ (ابو یعلی الفراء، الاحکام السلطانیہ)

    احمد (بن حنبل) عبداللہ کی روایت میں کہتے ہیں، "غلام کا حق یہ ہے کہ اسے پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے اور لباس فراہم کیا جائے۔ اسے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ جب غلام اپنی بیوی (یا خاوند) کے پاس جانا چاہے تو اسے چھوڑ دیا جائے۔ حرب کی روایت میں ہے کہ ان سے پوچھا گیا، "کیا غلام سے رات کو خدمت لی جا سکتی ہے؟" انہوں نے کہا، "اسے روک کر نہ رکھا جائے، نہ ہی اس پر سختی کی جائے اور اس کا بوجھ کم کیا جائے۔"

    ويأخذ السادة بحقوق العبيد والإماء، وأن لا يكلفوهم من الأعمال ما لا يطيقون.‏ (ابو یعلی الفراء، الاحکام السلطانیہ)

    مالکوں سے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق لئے جائیں گے۔ انہیں ان کاموں پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔

    ابو الحسن الماوردی

    ابو الحسن الماوردی (364 - 450H / 974 - 1058CE) چوتھی اور پانچویں صدی کے ایک بڑے عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے بادشاہت کے ادارے کو اخلاقی حدود کا پابند کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہیں شاہی دربار میں اہم مقام حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے مقام اور مرتبے کو مثبت انداز میں استعمال کیا۔ ایک طرف تو انہوں نے "احکام السلطانیہ" لکھ کر نظام حکومت کی اصلاح کی اور دوسری طرف "نصیحۃ الملوک" لکھ کر بادشاہ کو اخلاقیات پر کاربند رکھنے کی کوشش فرمائی۔ نظام حکومت کے قوانین و ضوابط بیان کرتے ہوئے غلاموں سے متعلق لکھتے ہیں:

    ويأخذ السادة بحقوق العبيد والإماء وأن لا يكلفوا من الأعمال ما لا يطيقون، وكذلك أرباب البهائم يأخذه بعلوفتها إذا قصروا وأن لا يستعملوها فيما لا تطيق.‏ (ماوردی، احکام السلطانیہ)

    مالکوں سے غلاموں اور لونڈٰوں کے حقوق وصول کئے جائیں گے اور ان سے ایسا کوئی کام نہیں لیا جائے گا جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح جانوروں کے مالکان کو ان کے چارے کی فراہمی کا پابند کیا جائے گا اگر (عام چراگاہوں میں) چارہ کم پڑ جائے۔ جانوروں سے بھی کوئی ایسا کام نہیں لیا جائے گا جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے۔

    حکومتی محصولات کے خرچ سے متعلق لکھتے ہیں۔

    والسهم الخامس سهم الرقاب وهو عند الشافعي وأبي حنيفة مصروف في المكاتبين يدفع إليهم قدر ما يعتقون به. وقال مالك يصرف في شراء عبيد يعتقون.‏ (ماوردی، احکام السلطانیہ)

    امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک (حکومت کی آمدنی یعنی زکوۃ میں) پانچویں مد مکاتبین کو ادا کی جانے والی اتنی رقم ہے جس سے وہ اپنی آزادی خرید سکیں۔ امام مالک کے نزدیک اس رقم سے غلام خرید کر انہیں آزاد کیا جائے گا۔

    اس دور میں احتساب کا محکمہ کس طریقے سے کام کرتا تھا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ماوردی لکھتے ہیں:

    قد مر إبراهيم بن بطحاء ولي الحسبة بجانبي بغداد بدار أبي عمر بن حماد وهو يومئذ قاضي القضاة فرأى الخصوم جلوساً على بابه ينتظرون جلوسه للنظر بينهم وقد تعالى النهار وجرت الشمس، فوقف واستدعى حاجبه وقال: تقول لقاضي القضاة الخصوم جلوس على الباب وقد بلغتهم الشمس وتأذوا بالانتظار، فإما جلست لهم أو عرفتهم عذرك فيصرفوا غدا ًويعودوا، وإذا كان في سادة العبيد من يستعملهم فيما لا يطيقون الدوام عليه كان منعهم والإنكار عليهم موقوفاً على استعداد العبيد على وجه الإنكار والعظة فإذا استعدوه منع حينئذ وزجر.‏ (ماوردی، احکام السلطانیہ)

    ابراہیم بن بطحاء جو کہ بغداد کے اطراف میں محکمہ احتساب کے سربراہ تھے، ابو عمر بن حماد کے گھر کے پاس سے گزرے جو کہ اس وقت قاضی القضاۃ (یعنی چیف جسٹس) تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ مقدمے کے فریقین (جو کہ غالباً آقا و غلام تھے) جسٹس کے گھر کے دروازے پر بیٹھے ان کی توجہ کے منتظر تھے جبکہ دن نکل چکا تھا اور سورج بلند ہو چکا تھا۔

    محتسب رکے اور انہوں نے حاجب (یعنی عدالت کے فرنٹ آفیسر) کو بلایا اور کہا، "چیف جسٹس صاحب کو کہیے کہ مقدمے کے فریقین ان کے انتظار میں دروازے پر دھوپ میں بیٹھے ہیں اور انتظار کی تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ اب یا تو ان کے پاس آ کر مقدمے کی کاروائی کیجیے یا پھر انہیں اپنی مجبوری بتا دیجیے تاکہ یہ آج واپس چلے جائیں اور بعد میں دوبارہ آ جائیں۔ اگر (ان فریقین میں سے) غلام کا آقا اس سے ایسا کام لینا چاہتا ہے جسے مستقل طور پر کرنا اس کے لئے ممکن نہیں ہے تو اسے منع کر دیا جائے اور اس کا حق صرف اتنا ہی مقرر کیا جائے جتنی کہ غلام طاقت رکھتا ہے۔ درست طریقہ یہ ہے کہ غلام کو کام نہ کرنے پر صرف اسی وقت سزا دی جائے جب وہ واقعتاً اس کی صلاحیت رکھتا ہو۔

    ماوردی نے اپنے اختیارات کے دائرے میں رہتے ہوئے نہ صرف غلاموں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے حکمرانوں اور اشرافیہ کے طبقے کو نصیحت کرتے ہوئے ان کی شہوت پرستی کی طرف توجہ دلائی اور انہیں اس سے اجتناب کی تلقین فرمائی۔

    و لیس یبعث علیہ الا الشیطان و سوء العادۃ۔۔۔۔۔۔من تزوج النساء مثنی و ثلاث و رباع، و استبدال زوج مکان زوج، الی ما لا غایۃ لہ، و شراء الاماء و تسری الجواری، الی ما تبلغ الیہ الطاقۃ و تنتھی الیہ الھمۃ. (ماوردی، نصیحۃ الملوک)

    اس شخص کی طرف سوائے شیطان اور بری عادتوں کے اور کوئی نہیں آتا جو دو دو، تین تین، چار چار خواتین سے شادی کرتا ہے اور بغیر کسی وجہ کے بیوی پر بیوی بدلتا جاتا ہے، لونڈیاں خریدتا جاتا ہے اور کنیزیں اکٹھی کرتا جاتا ہے جن کی ضروریات پوری کرنے کی نہ تو اس میں طاقت ہے اور نہ ہی ہمت۔

    مسلم اشرافیہ میں شہوت پرستی اور اس کے نتیجے میں بننے والے حرم کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں ماوردی صرف اکیلے ہی نہ تھے۔ بہت سے دیگر اہل علم اس معاملے میں اپنی اپنی صلاحیت اور مرتبے کے لحاظ سے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔

    شہوت پرستی کے خلاف مصروف جہاد اہل علم

    اس ضمن میں جو لوگ مشہور ہوئے، ان میں ابو داؤد سجستانی (d. 275H / 888CE) نے "کتاب الزھد"، ابن ابی الدنیا (d. 281H / 894CE) نے اپنی کتاب "الفوائد و الزھد"، بیہقی (d. 458H / 1065CE) نے "کتاب الزھد"، اور غزالی (d. 505H / 1111CE) نے "کیمیائے سعادت"، "مکاشفۃ القلوب" اور "احیاء العلوم" تصنیف کیں۔

    یہ مہم ان حضرات کی صرف تحریروں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ان کے وعظ میں بشمول حکمران طبقے کے ہزاروں افراد شریک ہوتے اور اپنی اصلاح کیا کرتے۔ نہ صرف یہ حضرات بلکہ علماء، صوفیاء اور واعظین کا ایک بہت بڑا طبقہ تھا جو یہی کام کر رہا تھا۔ اس مہم میں شہوت پرستی کو خاص نشانہ بنایا گیا اور اشرافیہ کے طبقے میں لونڈیاں اکٹھی کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ یہاں ہم ان میں سے صرف دو حضرات کا بطور مثال ذکر کر رہے ہیں۔

    ابو حامد الغزالی

    غزالی نے اپنی تصانیف میں شہوت پرستی سے دور رہنے، غلاموں کو آزاد کرنے اور جب تک وہ غلام ہیں، ان سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔ "احیاء العلوم" میں انہوں نے "حقوق المملوک" کے نام سے باقاعدہ ایک باب لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ احادیث نقل کی ہیں جو غلاموں کے حقوق سے متعلق ہیں۔ یہ احادیث بیان کرنے کے ساتھ ساتھ لکھتے ہیں:

    اعلم ان ملک النکاح قد سبقت حقوقہ فی آداب النکاح۔ فاما ملک الیمین فہو ایضا یقتضی حقوقا فی المعاشرۃ لا بد من مراعاتھا فقد کان من آخر ما اوصی بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔فجملۃ حق المملوک ان یشرکہ فی طعمتۃ و کسوتہ و لا یکلفہ فوق طاقتہ و لا ینظر الیہ بعین الکبر و الازداء و ان یعفو عن زلتہ و یتفکر عند غضبہ علیہ بہفوتہ او بجنایتہ فی معاصیۃ و جنایتہ علی حق اللہ تعالی و تقصیرہ فی طاعتہ مع ان قدرۃ اللہ علیہ فوق قدرتہ۔ (غزالی، احیاء العلوم الدین)

    یہ بات جان رکھیے کہ جیسے نکاح کے تعلق کے حقوق ہم آداب النکاح میں بیان کر چکے ہیں ویسے ہی لونڈیوں اور غلاموں کے معاشرتی حقوق بھی ہیں جن کے تحت انہیں مراعات حاصل ہیں۔ (اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی آخری وصیت انہی سے متعلق فرمائی۔ غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ انہیں کھانے اور لباس میں شریک کیا جائے، ان پر ان کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، انہیں تکبر اور حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ ان کی غلطیوں کو معاف کیا جائے۔ حقوق اللہ یا آقا کی بات ماننے سے متعلق ان سے جو غلطی سرزد ہو جائے، اس پر مالک کو سوچنا چاہیے کہ اللہ کو اس پر اس سے زیادہ قدرت ہے جو اس شخص کو غلام پر حاصل ہے۔

    "منکرات الضیافۃ" کے باب میں امام غزالی اپنے زمانے کی دعوتوں میں موجود برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    و منہا سماع الاوتار او سماع القینات۔ و منہا اجتماع النساء علی السطوح للنظر الی الرجال مہما کان فی الرجال شباب یخاف الفتنہ۔ (غزالی، احیاء العلوم الدین)

    ان دعوتوں میں موسیقی اور مغنیہ (اور رقاصہ) لونڈیوں کے گانے ہوتے ہیں۔ ان میں خواتین اونچی جگہ بٹھائی جاتی ہیں جہاں وہ مردوں کو دیکھتی ہیں جن میں (خوبصورت) نوجوان بھی ہوتے ہیں۔ اس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔

    احیاء العلوم اور دیگر کتب میں انہوں نے شہوت پرستی کی بھرپور مذمت کی ہے اور شہوت کا زور توڑنے کے مختلف طریقے بیان کیے ہیں جن میں نفلی روزے رکھنا اور اپنی خوراک پر کنٹرول کرنا شامل ہے۔

    ابن جوزی

    ابن جوزی (d. 597H / 1200CE) نے دنیا پرستی اور شہوت پرستی کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ وہ اپنے وعظوں میں لوگوں بالخصوص اشرافیہ کے طبقے کی اصلاح کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس ضمن میں انہوں نے "صید الخاطر" اور "تلبیس ابلیس" تصانیف چھوڑی ہیں۔ مخاطبین کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ جس دقت نظر سے نصیحت کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس مکالمے سے ہوتا ہے:

    شكا لي بعض الأشياخ فقال : قد علت سني و ضعفت قوتي ، و نفسي تطلب مني شراء الجواري الصغار. و معلوم أنهن يردن النكاح و ليس في . و لا تقنع مني النفس بربة البيت إذ قد كبرت . فقلت له : عندي جوابان : أحدهما الجواب العامي ، و هو أن أقول : ينبغي أن تشغل بذكر الموت و ما قد توجهت إليه ، و تحذر من اشتراه جارية لا تقدر على أيفاء حقها فإنها تبغضك ، فإن أجهدت استعجلت التلف . وإن استبقيت قوتك غضبت هي ، على أنها لا تريد شيخاً كيف كان ۔۔۔۔‏ فاعلم أنها تعد عليك الأيام ، و تطلب منك فضل المال لتستعد لغيرك. و ربما قصدت حنفك ، فاحذر السلامة في الترك ، و لإقتناع بما يدفع الزمان .

    الجواب الثاني فإني أقول : لا يخلو أن تكون قادراً على الوطء في وقت أو لا تكون. فإن كنت لا تقدر فالأولى مصابرة الترك للكل. و إن كان يمكن الحازم أن يداري المرأة بالنفقة و طيب الخلق إلا أنه يخاطر .و إن كنت تقدر في أوقات على ذلك ، و رأيت من نفسك توقاً شديداً فعليك بالمراهقات فإنهن ما عرفن النكاح ، و ما طلبن بالوطء ، و اغمرهن بالإنفاق و حسن الخلق مع الإحتياط عليهن ، و المنع من مخالطة النسوة .و إذا اتفق وطء فتصبر عن الإنزال ريثما تقضي المرأة حاجتها .و اعتمد وعظها و تذكيرها بالآخرة ، و اذكر لها حكايات العشاق من غير نكاح ، و قبح صورة الفعل ، و لفت قلبها إلى ذكر الصالحين ، و لا تخل نفسك من الطيب و التزين و الكياسة و المداراة و الإنفاق الواسع .فهذا ربما حرك الناقة للمسير مع خطر السلامة .(ابن جوزی، صید الخاطر)

    مجھ سے بعض بوڑھے حضرات نے شکایت کی، "میری عمر زیادہ ہو گئی ہے اور میری قوت کمزور پڑ گئی ہے، پھر بھی میرا نفس نوجوان لونڈیوں کی خواہش کرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہیں جبکہ میں اس قابل نہیں رہا۔ اگرچہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں مگر میرا نفس گھر والی پر قناعت کرنے کو تیار نہیں ہے۔"

    میں نے کہا، "میرے پاس دو جواب ہیں: ایک تو عام لوگوں کا جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ موت کو زیادہ یاد کرنے میں مشغول ہو جائیے اور اسی طرف اپنی توجہ رکھیے۔ اس بات سے محتاط رہیے کہ جو شخص لونڈی خریدتا ہے اور پھر اس کے حقوق کی ادائیگی نہیں کر پاتا تو وہ اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔ اگر وہ (ازدواجی تعلقات کی ناکام) کوشش کرتا ہے تو یہ نفرت جلد پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر اس کی خواہش باقی رہ جائے تو اس کی نفرت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے لڑکیاں بوڑھوں کو پسند نہیں کرتیں۔ جان رکھیے کہ وہ اس کا بدلہ اس طرح لے گی کہ آپ سے مال بٹور کر کسی اور سے تعلق قائم کر لے گی اور آپ کا معاملہ ٹیڑھا کر دے گی۔ اس لئے اپنی سلامتی کو ملحوظ خاطر رکھیے اور اس کام کر ترک کر دیجیے اور اسی لذت پر قناعت کیجیے جو آپ حاصل کر چکے ہیں۔

    دوسرا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ اس بات کو نہ بھولیے کہ اس وقت آپ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر آپ اس قابل نہیں ہیں تو اس کام کو مکمل طور پر چھوڑ کر اس پر صبر کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر کوئی کسی عورت کو محض اخراجات اور اچھے تعلقات کا لالچ دے کر ایسا کرے گا بھی تو یہ خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ اگر آپ اس وقت بھی ایسا کرنے کے قابل ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے نفس میں نوجوان لڑکیوں کی شدید خواہش ہے تو ان (بے چاریوں) کو تو نکاح یا ازدواجی تعلق کی خواہش ہی نہیں ہے۔ ایسی لونڈیوں سے تو حسن سلوک کرنا چاہیے اور ان پر خرچ کرتے ہوئے احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

    اگر ان سے ازدواجی تعلقات قائم بھی کریں تو آپ کو انزال کو اس وقت تک روکنا چاہیے جب تک کہ خاتون کی ضرورت پوری نہ ہو جائے۔ (اس کے ساتھ ساتھ) خاتون کو آخرت کی یاد بھی دلاتے رہیے، نکاح سے ہٹ کر عشق کی برائی بیان کیجیے اور اسے عشاق کے (عبرت ناک انجام) کے واقعات سنائیے۔ اچھے لوگوں کے ذکر سے اس کے دل میں (نیکی کی) محبت پیدا کیجیے۔ اپنے لباس اور شکل و صورت کا خیال رکھیے، اس سے اچھا سلوک کیجیے، اس کی ضروریات کا خیال رکھیے اور اس پر خرچ کرنے میں وسعت سے کام لیجیے۔ اس طریقے سے آپ کچھ خطرہ مول لے کر زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ سکتے ہیں۔

    ابن جوزی کے دور میں مسلمانوں کے امیر طبقے میں رقص و سرور کی محفلیں عام ہو چکی تھیں۔ ان محفلوں میں لوگ اپنی لونڈیوں کو بطور مغنیہ یا رقاصہ کے پیش کرتے تھے۔ اس پر گرفت کرتے ہوئے ابن جوزی لکھتے ہیں:

    أبي الطيب الطبري قال أما سماع الغناء من المرأة التي ليست بمحرم فان أصحاب الشافعي قالوا لا يجوز سواء كانت حرة أو مملوكة قال وقال الشافعي وصاحب الجارية إذا جمع الناس لسماعها فهو سفيه ترد شهادته ثم غلظ القول فيه فقال وهو دياثة۔ قال المصنف رحمه الله وإنما جعل صاحبها سفيها فاسقا لأنه دعا الناس إلى الباطل ومن دعا إلى الباطل كان سفيها فاسقا.‏ (ابن جوزی، تلبیس ابلیس)

    ابو طیب الطبری کہتے ہیں کہ امام شافعی کے ساتھیوں کی رائے کے مطابق کسی نامحرم خاتون سے گانا سننا جائز نہیں ہے خواہ وہ آزاد ہو یا لونڈی۔ شافعی کی رائے یہ ہے کہ جو شخص اپنی لونڈی کا گانا سنانے کے لئے لوگوں کو جمع کرتا ہے وہ نہایت ہی بے وقوف ہے اور ایسے شخص کی گواہی عدالت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی رائے میں مزید شدت پیدا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بے غیرت (دیوث) ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ اس لونڈی کا مالک بے وقوف اور فاسق ہے کیونکہ وہ ایک غلط کام کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ جس نے غلط کام کی طرف بلایا، وہ بے وقوف اور گناہ گار ہے۔

    عبدالرحمٰن بن نصر الشیرزی

    عبدالرحمٰن بن نصر الشیرزی (d. 589H / 1193CE) نے محکمہ احتساب کے قواعد و ضوابط سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے۔ ان کے دور میں بردہ فروشی کا کاروبار بہت بڑھ چکا تھا اور لوگوں کو اغواء کر کے غلام بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں۔

    يَكُونُ النَّخَّاسُ ثِقَةً أَمِينًا عَادِلًا، مَشْهُورًا بِالْعِفَّةِ وَالصِّيَانَةِ؛ لِأَنَّهُ يَتَسَلَّمُ جِوَارِي النَّاسِ وَغِلْمَانِهِمْ، وَرُبَّمَا اخْتَلَى بِهِمْ فِي مَنْزِلِهِ. وَيَنْبَغِي أَلاَ يَبِيعَ [النَّخَّاسُ] لِأَحَدٍ جَارِيَةً وَلاَ عَبْدًا حَتَّى يَعْرِفَ الْبَائِعَ، أَوْ يَأْتِيَ بِمَنْ يَعْرِفُهُ، وَيَكْتُبُ اسْمَهُ وَصِفَتَهُ فِي دَفْتَرِهِ، لِئَلاَ يَكُونَ الْمَبِيعُ حُرًّا، أَوْ مَسْرُوقًا. وَلاَ يَجُوزُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْجَارِيَةِ وَوَلَدِهَا۔ ‏ (شیرزی، نھایۃ الرتبۃ فی طلب الحسبۃ)

    بردہ فروش (کے بارے میں تحقیقات کی جائیں کہ وہ) قابل اعتماد اور دیانت دار ہو۔ اس کی عفت و عصمت اور خدمات مشہور ہوں کیونکہ وہی لوگوں کے لئے لونڈی اور غلمان لاتا ہے اور ان کے ساتھ اپنے گھر میں اکیلا ہوتا ہے۔ کوئی بردہ فروش اس وقت تک کسی لونڈی یا غلام کی خدمات فروخت نہ کرے جب تک کہ جس سے اس نے غلام کو خریدا ہو، وہ اسے جانتا نہ ہو یا کسی ایسے شخص کو نہ جانتا ہو جو اسے جانتا ہو۔ وہ اس کا نام اور دیگر کوائف اپنے رجسٹر میں لکھ لے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کسی آزاد کو پکڑ کر یا اغوا کر کے غلام نہ بنا لیا جائے۔ اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ لونڈی اور اس کے بچے میں علیحدگی کروا دے۔

    ابن الاخوۃ

    ایک اور محتسب ابن الاخوۃ (729H / 1329CE) انہی قوانین میں اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    وَلَا يَجُوزُ بَيْعُ الْجَارِيَةِ أَوْ الْمَمْلُوكِ إذَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ لِأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ كَمَا سَبَقَ إلَّا أَنْ يَتَبَيَّنَ أَنَّ الْمَمْلُوكَ لَيْسَ بِمُسْلِمٍ ، وَيَحْرُمُ بَيْعُ الْجَارِيَةِ لِمَنْ يَتَّخِذُهَا لِلْغِنَاءِ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ وَالْمُغَنِّيَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ } وَفِي هَذَا أُنْزِلَتْ { وَمِنْ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ }۔ ‏ (ابن الاخوۃ، نھایۃ الرتبۃ فی طلب الحسبۃ)

    جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کسی مسلمان لونڈی یا غلام کی خدمات کو اہل ذمہ (یعنی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں) کے ہاتھ نہ بیچا جائے سوائے اس کے کہ یہ معلوم ہو کہ وہ لونڈی یا غلام غیر مسلم ہے۔ کسی لونڈی کی خدمات کو گانے بجانے کے لئے منتقل نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "گانے والے لونڈیوں کو نہ تو بیچو اور نہ ہی خریدو، نہ ہی انہیں اس کی تربیت دو۔ ان کی خدمات کی تجارت میں کوئی خیر نہیں ہے اور ان کی کمائی حرام ہے۔" اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، "لوگوں میں سے جو بے کار چیزیں خریدتے ہیں۔"

    حافظ ذہبی

    حافظ ذہبی (663 - 748H / 1263 - 1347CE) نے کتاب الکبائر میں غلاموں کو خصی بنانے کو ایک بہت بڑا گناہ قرار دیتے ہوئے اس کا شمار گناہ کبیرہ کی فہرست میں کیا ہے۔

    ابن تیمیہ

    ابن تیمیہ (1263 - 1328CE / 661 - 728H) نے اپنے زمانے میں معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ انہوں نے اس ضمن میں بہت سے مقالات لکھے جن کا مجموعہ "مجموعۃ الفتاوی" کے نام سے مشہور ہے۔ اعلی اخلاقیات سے متعلق لکھتے ہیں:

    { أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا } . وَيَنْدُبُونَ إلَى أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَك ، وَتُعْطِيَ مَنْ حَرَمَك ، وَتَعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَك ؛ وَيَأْمُرُونَ بِبِرِّ الْوَالِدَيْنِ ، وَصِلَةِ الْأَرْحَامِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْإِحْسَانِ إلَى الْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالرِّفْقِ بِالْمَمْلُوكِ ؛ وَيَنْهَوْنَ عَنْ الْفَخْرِ.‏ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    "مومنین میں سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔" اس میں ان باتوں کو مستحسن قرار دیا گیا ہے: جو تم سے تعلق کاٹے، تم اس سے تعلق جوڑنے کی کوشش کرو، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو، جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کر دو۔ والدین سے نیکی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رشتے داروں سے تعلق رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پڑوسیوں سے حسن سلوک، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں سے احسان اور غلاموں سے محبت کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور (ان کے مقابلے پر) فخر سے منع کیا گیا ہے۔

    وَالتَّعَاوُنِ عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَالْإِحْسَانِ إلَى الْجَارِ وَالْيَتِيمِ وَالْمِسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَالصَّاحِبِ وَالزَّوْجَةِ وَالْمَمْلُوكِ وَالْعَدْلِ فِي الْمَقَالِ وَالْفِعَالِ۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    جن معاملات میں تعاون کرنا چاہیے ان میں نیکی، تقوی اور پڑوسیوں، یتیموں، مساکین، مسافروں، مالک، بیوی اور غلام سے احسان کا رویہ رکھنا اور قول و فعل میں عدل قائم رکھنا شامل ہے۔

    انْفَكَّ مِنْهُ كَالْأَسِيرِ وَالرَّقِيقِ الْمَقْهُورِ بِالرِّقِّ وَالْأَسْرِ . يُقَالُ : فَكَكْت الْأَسِيرَ فَانْفَكَّ وَفَكَكْت الرَّقَبَةَ . قَالَ تَعَالَى { وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ } { فَكُّ رَقَبَةٍ } وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ الَّذِي رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ : { عُودُوا الْمَرِيضَ وَأَطْعِمُوا الْجَائِعَ : وَفُكُّوا الْعَانِي } . (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    (زکوۃ کی رقم سے) قیدیوں اور ظلم کا شکار غلاموں کو آزادی دلائی جائے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے "میں نے قیدی یا غلام کو آزاد کروایا۔" اللہ تعالی نے فرمایا، "تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گھاٹی کیا ہے، غلاموں کو آزاد کروانا۔" نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ارشاد فرمایا، "مریض کی عیادت کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور غلاموں کو آزاد کرواؤ۔"

    ظلم کا شکار ہونے والے غلاموں کو آزاد کروانے کو ابن تیمیہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری قرار دیتے ہیں:

    وَكَذَلِكَ افْتِكَاكُ الْأَنْفُسِ الرَّقِيقَةِ مِنْ يَدِ مَنْ يَتَعَدَّى عَلَيْهَا وَيَظْلِمُهَا فَإِنَّ الرِّقَّ الْمَشْرُوعَ لَهُ حَدٌّ فَالزِّيَادَةُ عَلَيْهِ عُدْوَانٌ . وَيَدْخُلُ فِي ذَلِكَ افْتِكَاكُ الزَّوْجَةِ مِنْ يَدِ الزَّوْجِ الظَّالِمِ ؛ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    ایسے غلاموں کو آزاد کروانے کا معاملہ بھی اسی طرح (ضروری) ہے جن پر ظلم کیا جا رہا ہو۔ وہ بے چارہ پہلے ہی غلام ہے اور اس پر مزید زیادتی کی جا رہی ہے۔ اسی میں ایسی خاتون کو آزاد کروانا بھی شامل ہے جس سے اس کا شوہر ظلم کرتا ہو۔

    سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام بنائے جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اس سے آزاد کو غلام بنا لینے پر استدلال کرتے ہوئے ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

    فَأُولَئِكَ أَخْرَجُوهُ مِنْ إطْلَاقِ الْحُرِّيَّةِ إلَى رِقِّ الْعُبُودِيَّةِ الْبَاطِلَةِ بِغَيْرِ اخْتِيَارِهِ۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    (سیدنا یوسف علیہ الصلوۃ و السلام کے واقعے کا اہل علم نے) ناجائز غلامی کے باطل ہونے اور ایسے شخص کو آزاد کر دینے پر اطلاق کیا ہے۔

    ابن تیمیہ کے زمانے میں لوگ لونڈیوں کی محبت میں مبتلا ہو کر درحقیقت ان کے غلام بن رہے تھے۔ انہیں تنبیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    فَالرَّجُلُ إذَا تَعَلَّقَ قَلْبُهُ بِامْرَأَةٍ وَلَوْ كَانَتْ مُبَاحَةً لَهُ يَبْقَى قَلْبُهُ أَسِيرًا لَهَا تَحْكُمُ فِيهِ وَتَتَصَرَّفُ بِمَا تُرِيدُ ؛ وَهُوَ فِي الظَّاهِرِ سَيِّدُهَا لِأَنَّهُ زَوْجُهَا . وَفِي الْحَقِيقَةِ هُوَ أَسِيرُهَا وَمَمْلُوكُهَا ؛۔۔۔۔۔۔ فَالْحُرِّيَّةُ حُرِّيَّةُ الْقَلْبِ وَالْعُبُودِيَّةُ عُبُودِيَّةُ الْقَلْبِ كَمَا أَنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَإِنَّمَا الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ }. (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    ایسا شخص جس کا دل کسی عورت میں اٹکا ہوا ہے اور اگرچہ اس سے ازدواجی تعلقات رکھنا اس کے لئے جائز بھی ہے تب بھی اس کا دل اس کا قیدی بن جاتا ہے اور اس کی منشاء و مرضی کے مطابق ہی وہ عمل کرنے لگتا ہے۔ ظاہر میں تو وہ آقا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا خاوند ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کا قیدی اور غلام بن جاتا ہے۔ حقیقی آزادی تو ذہنی آزادی ہے اور حقیقی غلامی ذہن ہی کی غلامی ہے۔ یہ وہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے "نفس کی بے نیازی" قرار دیا ہے اور فرمایا ہے، "غنی وہ نہیں جس کے پاس بہت زیادہ مال ہو بلکہ غنی وہی ہے جس کا دل غنی ہے۔"

    اپنے زمانے کی رقص و موسیقی کی محفلوں سے متعلق لکھتے ہیں:

    وَأَمَّا " الْفَوَاحِشُ " فَالْغِنَاءُ رُقْيَةُ الزِّنَا وَهُوَ مِنْ أَعْظَمِ الْأَسْبَابِ لِوُقُوعِ الْفَوَاحِشِ وَيَكُونُ الرَّجُلُ وَالصَّبِيُّ وَالْمَرْأَةُ فِي غَايَةِ الْعِفَّةِ وَالْحُرِّيَّةِ حَتَّى يَحْضُرَهُ فَتَنْحَلُّ نَفْسُهُ وَتَسْهُلُ عَلَيْهِ الْفَاحِشَةُ وَيَمِيلُ لَهَا فَاعِلًا أَوْ مَفْعُولًا بِهِ أَوْ كِلَاهُمَا كَمَا يَحْصُلُ بَيْنَ شَارِبِي الْخَمْرِ وَأَكْثَرُ .‏ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    "فواحش" سے مراد گانا بجانا ہے جو بدکاری کی طرف مائل کرے۔ یہی فحش کاموں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ مرد، بچے اور خواتین عفت و عصمت اور آزادی کے طالب ہوتے ہیں لیکن پھر یہ لوگ فحش کاموں میں اپنی جان کو ڈال لیتے ہیں اور ان کی طرف بطور فاعل یا مفعول کے اس طرح مائل ہو جاتے ہیں جیسا کہ شراب پینے والے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    ابن تیمیہ کے زمانے میں خوبصورت غلاموں اور مخنثین سے بدکاری بھی رواج پذیر ہو چکی تھی۔ ایسے لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    وَالرَّجُلُ الَّذِي يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ بِمَمْلُوكِ أَوْ غَيْرِهِ هُوَ زَانٍ. وَلِهَذَا يَكْثُرُ فِي نِسَاءِ اللُّوطِيَّةِ مَنْ تَزْنِي بِغَيْرِ زَوْجِهَا وَرُبَّمَا زَنَتْ بِمَنْ يتلوط هُوَ بِهِ مُرَاغَمَةً لَهُ وَقَضَاءً لِوَطَرِهَا وَكَذَلِكَ الْمَرْأَةُ الْمُزَوَّجَةُ بِمُخَنَّثِ يُنْكَحُ كَمَا تُنْكَحُ هِيَ مُتَزَوِّجَةٌ بِزَانٍ بَلْ هُوَ أَسْوَأُ الشَّخْصَيْنِ حَالًا فَإِنَّهُ مَعَ الزِّنَا صَارَ مُخَنَّثًا مَلْعُونًا عَلَى نَفْسِهِ لِلتَّخْنِيثِ غَيْرُ اللَّعْنَةِ الَّتِي تُصِيبُهُ بِعَمَلِ قَوْمِ لُوطٍ. فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَنَ مَنْ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ وَثَبَتَ عَنْهُ فِي الصَّحِيحِ أَنَّهُ لَعَنَ الْمُخَنَّثِينَ مِنْ الرِّجَالِ والمترجلات مِنْ النِّسَاءِ وَقَالَ { أَخْرِجُوهُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ . } وَكَيْفَ يَجُوزُ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَتَزَوَّجَ بِمُخَنَّثِ قَدْ انْتَقَلَتْ شَهْوَتُهُ إلَى دُبُرِهِ ؟ فَهُوَ يُؤْتَى كَمَا تُؤْتَى الْمَرْأَةُ وَتَضْعُفُ دَاعِيَتُهُ مِنْ أَمَامِهِ. (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    جو شخص اپنے غلام یا کسی اور سے ہم جنس پرستی کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ زنا کار ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسی عورتیں بھی ہیں جو اپنے خاوند کے علاوہ کسی اور مرد سے ازدواجی تعلقات قائم کرتی ہیں جو انہیں غیر فطری تعلقات پر مجبور کر کے ان سے اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔ یہی حال اس عورت کا ہے جو کسی مخنث سے شادی کر لیتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ کسی بدکار مرد سے شادی کر لے۔ مخنث تو ایسے ملعون ہوتے ہیں جو اسی لعنت میں مبتلا ہوتے ہیں جس میں سیدنا لوط علیہ السلام کی قوم مبتلا تھی۔

    اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ہم جنس پرستوں پر لعنت فرمائی اور صحیح حدیث کے مطابق آپ نے زنانہ رجحان رکھنے والے مردوں اور مردانہ رجحان رکھنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی۔ آپ نے حکم دیا کہ ایسے لوگوں کو اپنی بستیوں سے نکال دو۔ کسی عورت کے لئے یہ کیسے جائز ہے کہ وہ مخنث سے شادی کرے جو اپنی شہوت کو صرف غیر فطری طریقے ہی سے پورا کر سکتا ہے۔ وہ تو خود عورت کی طرح مفعول ہوتا ہے اور اپنے اگلے حصے میں جنسی خواہش نہیں رکھتا

    ابن تیمیہ سے کسی ظالم گروہ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو ان کا جواب کیا تھا، ملاحظہ فرمائیے:

    عَنْ قَوْمٍ ذَوِي شَوْكَةٍ مُقِيمِينَ بِأَرْضِ وَهُمْ لَا يُصَلُّونَ الصَّلَوَاتِ الْمَكْتُوبَاتِ.... وَإِذَا أَسَرَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بَاعُوا أَسْرَاهُمْ لِلْإِفْرِنْجِ . وَيَبِيعُونَ رَقِيقَهُمْ مِنْ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ لِلْإِفْرِنْجِ عَلَانِيَةً وَيَسُوقُونَهُمْ كَسُوقِ الدَّوَابِّ . وَيَتَزَوَّجُونَ الْمَرْأَةَ فِي عِدَّتِهَا . وَلَا يُوَرِّثُونَ النِّسَاءَ ..... فَهَلْ يَجُوزُ قِتَالُهُمْ وَالْحَالَةُ هَذِهِ ؟ نَعَمْ ، يَجُوزُ ؛ بَلْ يَجِبُ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِينَ قِتَالُ هَؤُلَاءِ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ)

    کیا ایسے لوگوں سے جنگ کی جائے جو طاقتور ہوں اور (مسلم سلطنت کی) زمین پر رہتے ہوں، فرض نماز نہ ادا کرتے ہوں اور ۔۔۔۔ لوگوں کو قیدی بنا کر انہیں فرنگیوں (Europeans) کے ہاتھ بیچ ڈالتے ہوں، اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو بھی فرنگیوں کے ہاتھ بیچتے ہوں اور ان کے ہاں مویشی منڈی کی طرح بردہ فروشی کے بازار ہو، وہ خواتین سے دوران عدت شادی کر لیتے ہوں اور خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دیتے ہوں ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ (جواب دیا) نہ صرف ان سے جنگ کرنا جائز ہے بلکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ایسے لوگوں سے (مسلمانوں کی حکومت) باقاعدہ جنگ کرے۔

    غلاموں کے بچوں کی آزادی سے متعلق امام احمد بن حنبل کا قول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    قال أحمد : إذا تزوج العبد حرة عتق نصفه . ومعنى هذا ، أن أولاده يكونون أحراراً وهم فرعه ، فالأصل عبد وفرعه حر والفرع جزء من الأصل .‏ (ابن تیمیہ، السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعیۃ)

    احمد بن حنبل کہتے ہیں، "جب کوئی غلام کسی آزاد خاتون سے شادی کر لے تو اس کا نصف آزاد ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس غلام کی اولاد آزاد ہو گئی کیونکہ وہ اسی کی ایک شاخ ہے۔ تنا تو غلام ہے لیکن شاخیں آزاد ہیں اور شاخ تو تنے کا ایک حصہ ہی ہے۔"

    ابن قیم

    ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم (691 - 751H / 1292 - 1350CE) نے غلاموں سے متعلق بہت سی اصلاحات پر زور دیا۔ غلاموں اور لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنے سے متعلق ابن قیم لکھتے ہیں:

    وأما إذا استكرهها فإن هذا من باب المثلة فإن الإكراه على الوطء مثلة فإن الوطء يجري مجرى الجناية ولهذا لا يخلو عن عقر أو عقوبة ولا يجري مجرى منفعة الخدمة فهي لما صارت له بإفسادها على سيدتها أوجب عليه مثلها كما في المطاوعة وأعتقها عليه لكونه مثل بها. قال شيخنا: "ولو استكره عبده على الفاحشة عتق عليه ولو استكره أمة الغير على الفاحشة عتقت عليه وضمنها بمثلها ".‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    اگر کوئی اپنی لونڈی کو بدکاری کرنے پر مجبور کرے تو یہ ایک طرح کا "مثلہ (یعنی جسم بگاڑنا)" ہی ہے۔ ازدواجی تعلقات پر زبردستی مجبور کرنا سزا کا موجب ہے۔ ایسے شخص کو جرمانے یا سزا کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہ خدمت کا فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کا استحصال ہے جس کے نتیجے میں اس پر لازم ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے اور اس کی جگہ دوسری لونڈی لے آئے۔ ہمارے شیخ (ابن تیمیہ) کہتے ہیں، "اگر کوئی اپنے غلام (یا لونڈی) کو فحش کام پر مجبور کرتا ہے تو اسے آزاد کر دیا جائے۔ اگر وہ کسی دوسرے کی لونڈی کو فحش کام پر مجبور کرتا ہے تو پھر وہ آزاد ہو جائے گی اور اس کے مثل (یا اس کی قیمت) مالک کو ادا کرے۔"

    لونڈیوں پر بری نظر رکھنے اور انہیں بدکاری کے لئے استعمال کرنے سے متعلق ابن القیم لکھتے ہیں:

    وأما تحريم النظر إلى العجوز الحرة الشوهاء القبيحة وإباحته إلى الأمة البارعة الجمال فكذب على الشارع فأين حرم الله هذا وأباح هذا والله سبحانه إنما قال {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ} ولم يطلق الله ورسوله للأعين النظر إلى الإماء البارعات الجمال وإذا خشي الفتنة بالنظر إلى الأمة حرم عليه بلا ريب۔ ‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    کسی آزاد بوڑھی خاتون پر بھی بری نیت سے نظر ڈالنا (سب کے نزدیک) برائی ہے۔ جو لوگ خوبصورت لونڈی پر نظر ڈالنے کو جائز سمجھتے ہیں وہ شارع صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ منسوب کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے کہاں (آزاد خاتون کو دیکھنے کو) حرام قرار دیا ہے اور (لونڈی کو دیکھنے کو) جائز قرار دیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے تو فرمایا، "مومنین سے کہیے کہ وہ اپنی نظروں کو باحیا رکھیں۔" اللہ اور اس کے رسول نے اس کا اطلاق اگرچہ لونڈیوں پر نہیں کیا ہے لیکن اگر فتنے (یعنی شہوت) کا اندیشہ ہو تو لونڈی کو نظر بھر کر دیکھنا بغیر کسی شک کے حرام ہے۔

    غلاموں پر تشدد سے متعلق لکھتے ہیں:

    أن من مثل بعبده عتق عليه وهذا مذهب فقهاء الحديث وقد جاءت بذلك آثار مرفوعة عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه كعمر ابن الخطاب وغيره.‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    جس نے اپنے غلام کے جسم کو بگاڑا، اس پر لازم ہے کہ وہ اسے آزاد کر دے۔ فقہاء حدیث کا یہی نقطہ نظر ہے اور اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ جیسے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایات موجود ہیں۔

    ابن القیم ایک حدیث بیان کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ غلام پر تشدد کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دیا جائے۔

    حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا عبد الرزاق أخبرني معمر أن ابن جريج أخبره عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن عبد الله بن عمرو بن العاص أن زنباعا أبا روح وجد غلاما له مع جارية له فجدع أنفه وجبه فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال من فعل هذا بك قال زنباع فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم فقال ما حملك على هذا فقال كان من أمره كذا وكذا فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعبد إذهب فأنت حر فقال يا رسول الله فمولى من أنا قال مولى الله ورسوله فأوصى به رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين قال فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء إلى أبي بكر فقال وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم نجري عليك النفقة وعلى عيالك فأجراها عليه حتى قبض أبو بكر فلما استخلف عمر جاءه فقال وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم قال نعم أين تريد قال مصر فكتب عمر إلى صاحب مصر أن يعطيه أرضا يأكلها.‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ابو روح زنباع نے اپنے ایک غلام کو ایک لونڈی کے ساتھ مشغول پایا تو انہوں نے اس کی ناک کاٹ دی۔ اسے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ آپ نے پوچھا، "یہ کس نے کیا ہے؟" بتایا گیا، "زنباع نے۔" آپ نے زنباع کو بلایا اور فرمایا، "تم سے ایسا کرنے کے لئے کس نے کہا تھا؟" اس کے بعد آپ نے غلام سے فرمایا، "تم تو جاؤ، تم آزاد ہو۔" اس نے پوچھا، "یا رسول اللہ! میری ولاء کا رشتہ کس سے قائم ہو گا؟" فرمایا، "اللہ اور اس کے رسول سے۔" اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس کے بارے میں مسلمانوں کو وصیت فرمائی۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وفات کے بعد وہی غلام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حضور کی وصیت بیان کی۔ آپ نے فرمایا، "ہاں، ہم تمہارے اور تمہارے اہل و عیال کے اخراجات کے لئے وظیفہ جاری کریں گے۔" اس کے بعد انہوں نے یہ وظیفہ جاری کر دیا۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو وہ پھر ان کے پاس آیا اور یہی وصیت بیان کی۔ انہوں نے فرمایا، "بالکل ٹھیک! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟" وہ کہنے لگا، "مصر میں۔" سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر کو حکم جاری کیا کہ اسے اتنی (سرکاری) زمین دے دی جائے جسے کاشت کر کے وہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کر سکے۔

    چونکہ غلام فطری طور پر اپنے آقا کے افکار و نظریات سے متاثر ہوتا ہے اور آزادانہ انداز میں سوچنا سمجھنا، اس کے لئے مشکل ہوتا ہے، اس وجہ سے مسلمانوں کے ہاں یہ عام معمول رہا ہے کہ وہ مسلمان غلام کو غیر مسلم آقا کی ملکیت میں جانے نہیں دیا کرتے تھے۔ اگر کسی غیر مسلم آقا کا غیر مسلم غلام، اسلام قبول کر لیتا تو اسے عام طور پر خرید کر آزاد کر دیا جاتا تھا۔ اس ضمن میں ابن القیم لکھتے ہیں:

    وقد نص الإمام أحمد على منع أهل الذمة أن يشتروا رقيقا من سبي المسلمين وكتب بذلك عمر بن الخطاب إلى الأمصار واشتهر ولم ينكره منكر فهو إجماع من الصحابة۔‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    امام احمد بن حنبل نے مسلمان غلاموں کو اھل ذمہ (غیر مسلموں) کے ہاتھ بیچنے سے منع کیا ہے۔ یہ حکم سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں کو لکھ کر بھیجا تھا اور اسے مشہور کر دیا تھا۔ اس کا انکار کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ اس پر صحابہ کا اتفاق رائے ہے۔

    ابن القیم غلاموں کی آئندہ آنے والی نسلوں کو غلامی سے محفوظ رکھنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    إذا خاف العنت ولم يجد طول حرة وكره رق أولاده فالحيلة في عتقهم أن يشترط على السيد أن ما ولدته زوجته منه من الولد فهم أحرار فكل ولد تلده بعد ذلك منه فهو حر ويصح تعليق العتق بالولادة كما لو قال لأمته كل ولد تلدينه فهو حر قال ابن المنذر ولا أحفظ فيه خلافا.‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    اگر کسی شخص کو یہ خوف ہو کہ وہ بدکاری میں مبتلا ہو جائے گا اور آزاد خاتون سے شادی کرنا وہ افورڈ نہ کر سکتا ہو اور یہ بات بھی اسے ناپسند ہو کہ اس کی اولاد غلام ہو تو انہیں آزاد کروانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ لونڈی کے مالک سے شرط رکھے کہ اس کی جو اولاد اس لونڈی میں سے ہو گی، وہ آزاد ہو گی۔ اس کے بعد جو بھی بچے پیدا ہوں گے، وہ آزاد ہوں گے۔ ولادت کے وقت آزادی کی شرط بالکل درست ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی لونڈی سے کہے، "تمہارا ہر بچہ آزاد ہو گا۔" ابن المنذر کہتے ہیں کہ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

    مسلم حکومتوں میں یہ معمول رہا ہے کہ بطور ٹیکس مسلمان شہریوں سے زکوۃ اور غیر مسلم شہریوں سے جزیہ وصول کیا جاتا تھا۔ حکومت کے لئے دفاعی خدمات انجام دینا صرف اور صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی جبکہ جزیہ کی ادائیگی کے بدلے غیر مسلموں کو اس خدمت سے مستثنی قرار دے دیا جاتا تھا۔ ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ جزیے کی رقم غیر مسلم شہری کی مالی حالت کے پیش نظر طے کی جاتی تھی۔ غیر مسلم غلاموں کو قطعی طور پر جزیہ کی ادائیگی سے مستثنی کر دیا گیا تھا۔ ابن القیم اس طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

    قال: أبو طالب سألت أبا عبد الله عن العبد النصراني عليه جزية قال: ليس عليه جزية. وقال: في موضع آخر قلت فالعبد ليس عليه جزية لنصراني كان أم لمسلم كما قال: أبو محمد رضي الله عنه. وقال: عبد الله بن أحمد سألت أبي عن رجل مسلم كاتب عبدا نصرانيا هل تؤخذ من العبد الجزية من مكاتبته؟ فقال: إن العبد ليس عليه جزية والمكاتب عبد ما بقي عليه درهم.‏ (ابن قیم، اعلام الموقعین)

    ابوطالب کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ سے عیسائی غلام کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس پر بھی جزیہ عائد کیا جائے گا؟ انہوں نے کہا، "نہیں، اس کے ذمے کوئی جزیہ نہیں ہے۔" دوسری جگہ انہوں نے فرمایا، "عیسائی غلام پر مسلمان کی طرح جزیہ نہیں ہے۔" ایسی ہی بات ابومحمد کہتے ہیں، "عبداللہ بن احمد نے اپنے والد (احمد بن حنبل) سے ایسے عیسائی غلام کے بارے میں پوچھا جس نے اپنے مسلمان آقا سے مکاتبت کی ہو کہ کیا اس غلام سے دوران مکاتبت جزیہ لیا جائے گا؟" انہوں نے فرمایا، "غلام پر کوئی جزیہ نہیں ہے۔ مکاتب پر اس وقت تک غلام کے احکام ہی جاری ہوں گے جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے۔"

    ابن بطوطہ

    ابن بطوطہ (d. 1377CE) نے اپنے سفرنامے میں جابجا مسلمانوں میں پھیلی ہوئی غلامی اور بے حیائی پر توجہ دلائی ہے۔ ترکی کے سفرنامے میں لکھتے ہیں:

    "The inhabitants of this city make no effort to stamp out immorality - indeed, the same applies to the whole population of these regions. They buy beautiful Greek slave-girls and put them out to prostitution, and each girl has to pay a regular due to her master. I heard it said there that the girls go into the bath-houses along with the men, and anyone who wishes to indulge in depravity does so in the bath-house and nobody tries to stop him. I was told that the [governor] in this city owns slave-girls employed in this way."

    اس شہر کے باشندے اس بداخلاقی کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہی معاملہ ان علاقوں کی پوری آبادی کا ہے۔ یہ لوگ خوبصورت یونانی لونڈیاں خریدتے ہیں اور انہیں قحبہ گری پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہر لونڈی نے ایک متعین رقم اپنے آقا کو دینا ہوتی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ یہ لڑکیاں مردوں کے ساتھ حماموں میں جاتی ہیں اور جو شخص ان کے ساتھ بدکاری کرنا چاہتا ہے، وہ حمام ہی میں ایسا کر گزرتا ہے اور اسے کوئی نہیں روکتا۔ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اس شہر کے گورنر تک نے اپنی لونڈیوں کو اسی کام پر لگا رکھا ہے۔

    ہر دور میں مسلمانوں کے اندر ایسے اہل علم رہے ہیں جنہوں نے غلاموں سے متعلق اصلاحات پر زور دیا۔ بدقسمتی سے ہمارے دیگر اہل علم کے نزدیک کچھ اور مسائل زیادہ اہمیت اختیار کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں غلامی کے خاتمے اور انسانی حقوق کا وژن ان کے ہاں اس درجے میں نہ رہا جس کی تلقین اسلام نے انہیں کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا کے آزاد لوگ بھی نفسیاتی غلامی کا شکار ہو گئے۔ اس کی تفصیل ہم اگلے ابواب میں بیان کریں گے۔
     
  24. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 14: مسلمانوں کے دور انحطاط میں غلامی (4)


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مسلم ممالک میں غلاموں کی مجموعی حالت

    مسلمانوں کے مذہبی راہنماؤں کی کوششوں کے نتیجے میں مسلم ممالک میں اگرچہ غلامی مکمل طور پر نہ ختم ہو سکی لیکن غلاموں کی مجموعی حالت دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہتر رہی ہے۔ ایسا ضرور رہا ہے کہ ایک علاقے کے غلاموں کی حالت دوسرے علاقے کے غلاموں سے بہتر رہی ہو۔ اسی طرح ایک طبقے کے غلاموں کی حالت دوسرے طبقے کے غلاموں سے بہتر رہی ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ہم غیر مسلم تاریخ دانوں اقتباسات پیش کرتے چلیں۔ لوئیس برنارڈ لکھتے ہیں:

    The common view of Islamic slavery as primarily domestic and military may therefore reflect the bias of our documentation rather than the reality. There are occasional references, however, to large gangs of slaves, mostly black, employed in agriculture, in the mines, and in such special tasks as the drainage of marshes. Some, less fortunate, were hired out by their owners for piecework. These working slaves had a much harder life. The most unfortunate of all were those engaged in agricultural and other manual work and large-scale enterprises, such as for example the Zanj slaves used to drain the salt flats of southern Iraq, and the blacks employed in the salt mines of the Sahara and the gold mines of Nubia. These were herded in large settlements and worked in gangs. Large landowners, or crown lands, often employed thousands of such slaves.

    While domestic and commercial slaves were relatively well-off, these lived and died in wretchedness. Of the Saharan salt mines it is said that no slave lived there for more than five years. The cultivation of cotton and sugar, which the Arabs brought from the East across North Africa and into Spain, most probably entailed some kind of plantation system. Certainly, the earliest relevant Ottoman records show the extensive use of slave labor in the state-maintained rice plantations. Some such system, for cultivation of cotton and sugar, was taken across North Africa into Spain and perhaps beyond. While economic slave labor was mainly male, slave women were sometimes also exploited economically. The pre-lslamic practice of hiring out female slaves as prostitutes is expressly forbidden by Islamic law but appears to have survived nonetheless.

    The military slaves were in a sense the aristocrats of the slave population. By far the most important among these were the Turks imported from the Eurasian steppe, from Central Asia, and from what is now Chinese Turkistan. A similar position was occupied by Slaves in medieval Muslim Spain and North Africa and, later, by slaves of Balkan and Caucasian origin in the Ottoman Empire. Black slaves were occasionally employed as soldiers, but this was not common and was usually of brief duration.

    Certainly the most privileged of slaves were the performers. Both slave boys and slave girls who revealed some talent received musical, literary, and artistic education. In medieval times most singers, dancers, and musical performers were, at least in origin, slaves. Perhaps the most famous was Ziryab, a Persian slave at the court of Baghdad who later went to Spain, where he became an arbiter of taste and is credited with having introduced asparagus to Europe. Not a few slaves and freedmen have left their names in Arabic poetry and history.

    In a society where positions of military command and political power were routinely held by men of slave origin or even status and where a significant proportion of the free population were born to slave mothers, prejudice against the slave as such, of the Roman or American type, could hardly develop. (Race & Slavery in Middle East)

    مسلمانوں کے ہاں موجود غلامی خواہ وہ فوجی نوعیت کی ہو یا سول نوعیت کی، سے متعلق جو مواد ہمارے پاس موجود ہے، وہ غیر جانبدارانہ نہیں ہے اس وجہ سے ممکن ہے کہ یہ متعصبانہ ہونے کی وجہ سے حقیقت کی صحیح نشاندہی نہ کرتا ہو۔ مختلف مقامات پر ایسے غلاموں کے گروہوں کا ذکر ملتا ہے جو زیادہ تر سیاہ فام تھے اور انہیں زراعت اور کان کنی کے علاوہ مخصوص کاموں جیسے پانی کی نکاسی وغیرہ میں استعمال کیا جاتا تھا۔ بعض بدقسمتوں سے ان کے آقا دستکاری کا کام لیتے تھے۔ ان کی زندگیاں نسبتاً زیادہ سخت تھیں۔

    ان میں سب سے زیادہ بدقسمت وہ غلام تھے جو زراعت یا صنعت میں ہاتھ سے کام کرنے پر مجبور تھے۔ مثال کے طور پر زنجبار کے (افریقی) غلام جو جنوبی عراق میں سیلابی علاقوں میں کام کرتے تھے، یا وہ افریقی غلام جو صحارا میں نمک کی کانوں میں اور نوبیا میں سونے کی کانوں میں کام کیا کرتے تھے۔ یہ بڑی تعداد میں گنجان جگہوں پر رکھے جاتے اور گروہوں کی صورت میں کام کیا کرتے تھے۔ بڑے زمیندار یا جاگیردار اس قسم کے ہزاروں غلاموں کے مالک ہوا کرتے تھے۔

    گھریلو اور تجارت کاموں میں استعمال کئے جانے والے غلاموں کی حالت نسبتاً بہتر تھی البتہ (زراعت اور کان کنی میں کام کرنے والے غلام) بھیانک زندگی گزارتے تھے۔ صحارا کی نمک کی کانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں کوئی غلام پانچ سال سے زیادہ نہیں رہا۔ عرب مشرقی ممالک سے کپاس اور گنے کی کاشت کا نظام شمالی افریقہ اور اسپین میں لے کر آئے۔ سلطنت عثمانیہ کے اولین ریکارڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی ملکیت چاول کے کھیتوں میں بکثرت غلام کام کرتے تھے۔ کپاس اور گنے کی شمالی افریقہ، اسپین اور دیگر ممالک میں ہوتی تھی۔

    معاشی مقاصد کے لئے زیادہ تر مرد غلاموں کو استعمال کیا جاتا تھا اور بسا اوقات ان کا معاشی استحصال بھی کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو عصمت فروشی کے لئے استعمال کرنے کا عمل جو اسلام سے پہلے جاری تھا، اگرچہ اسلامی قانون میں سختی سے حرام کر دیا گیا تھا لیکن پھر بھی یہ (مسلم معاشروں میں) موجود رہا ہے۔

    فوجی غلام ایک اعتبار سے معاشرے کا مراعات یافتہ طبقہ تھے۔ ان میں سب سے اہم ترک غلام تھے جو یورپ اور ایشیا کے میدانی علاقوں، وسطی ایشیا اور چینی ترکستان کے علاقوں سے لائے جاتے تھے۔ کم و بیش یہی صورتحال مسلم اسپین، شمالی افریقہ اور بعد میں سلطنت عثمانیہ میں برقرار رہی ہے جس میں بلقان اور قفقاز کے علاقے سے فوجی غلام لائے جاتے تھے۔ سیاہ غلاموں کو بھی بسا اوقات فوج میں ملازمت دی گئی لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا اور اگر ہوتا بھی تھا تو مختصر مدت کے لئے۔

    غلاموں کا سب سے زیادہ مراعات یافتہ طبقہ پرفارم کرنے والے غلام تھے۔ باذوق غلام لڑکے اور لڑکیوں کو موسیقی، ادب اور آرٹ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ قرون وسطی کے زیادہ تر گویے، رقاص اور موسیقار زیادہ تر، کم از کم اپنی اصل میں غلام ہی تھے۔ شاید ان میں زریاب سب سے زیادہ مشہور ہے، جو کہ ایک ایرانی غلام تھا۔ اسے بغداد کے دربار میں لایا گیا اور اس کے بعد یہ اسپین چلا گیا۔ یہاں یہ کھانا پکانے میں غیر معمولی منصب پر فائز ہوا اور اس نے یورپ میں اسپیریگس (ایک خاص پودا) کو رواج پذیر کیا۔ عرب شاعری اور تاریخ میں شہرت پانے والے غلاموں اور آزاد کردہ غلاموں کی تعداد کم نہیں ہے۔

    ایک ایسے معاشرے میں جہاں فوجی اور سیاسی طاقت ان لوگوں کے پاس رہی ہو جو یا تو غلاموں کی نسل میں سے تھے یا خود غلام تھے، اور جہاں آزاد آبادی کا بڑا حصہ غلام ماؤں کی اولاد ہو، غلاموں سے متعلق اس تعصب کے پیدا ہونے کا امکان بہت کم ہے جو روم یا امریکہ میں موجود تھا۔

    ولیم کلارنس لکھتے ہیں:

    Tens of millions of people were placed under the Muslim yoke over the centuries, and yet servitude remains marginal to general accounts of Islamic history. The consensus is that slaves consisted mainly of female domestics and concubines. Some concubines rose to positions of considerable wealth and power, as did male officers and officials. Manumission was common, and servitude left little social trace. Where rural slavery existed, it took the form of forced family colonisation, rather than gangs of male workers typical of Western estates….

    It is undeniable that servitude in Islam exhibited distinctive traits, but it still remained recognisably a slave system. As in Roman law, these were people reduced to the status of livestock, who could be freely sold, ceded, inherited and so forth. Their humanity was recognised to a greater degree than in the Roman case, constraining the owners' rights in legal terms. However, this was a difference of degree, not of kind, and it was reflected in the evolution of Christian and Jewish servitude. Moreover, the extreme privacy of the Muslim harem made it difficult to enforce legal constraints on owners….

    Even those who converted to Islam after being reduced to servitude were not freed in terms of the shari'a, but custom might be more lenient on this point, especially for second-generation slaves. Turkic custom even enshrined the Hebrew notion that a slave, especially a male sharing the true faith, should be freed after seven years. Certain ethnic groups were also be deemed to be protected from slavery, such as Arabs, Somalis and Javanese. However, custom might also allow for self-enslavement, the sale of children, and enslavement for debts and crimes, all banned in the shari'a. (Islam & Slavery)

    مسلم حکومتوں کے تحت کروڑوں کی تعداد میں افراد صدیوں سے موجود رہے ہیں لیکن مسلمانوں کی تاریخ میں جبری مشقت کا حصہ بہت ہی کم رہا ہے۔ اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ غلاموں کی بڑی تعداد گھریلو خادماؤں اور لونڈیوں پر مشتمل رہی ہے۔ ان میں سے کچھ لونڈیاں دولت اور طاقت کے اعلی مناصب حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں اور یہی معاملہ مرد (غلام) افسروں اور ملازموں کا بھی ہے۔

    غلاموں کو آزادی دینا عام معمول رہا ہے اور جبری مشقت کا سراغ بہت ہی کم ملتا ہے۔ جہاں جہاں دیہی علاقوں میں غلامی موجود رہی ہے، اس میں غلاموں کے پورے کے پورے خاندان موجود رہے ہیں (یعنی غلاموں کو بیوی بچے رکھنے کی اجازت تھی)، مغربی ممالک کی طرح صرف مرد غلاموں کے بڑے بڑے گروہ موجود نہیں رہے۔ اس بات سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ہاں غلامی کا نظام موجود رہا ہے اگرچہ اس کی خصوصیات مختلف ہیں۔

    رومی قانون میں تو غلاموں کو جانوروں کے درجے میں گرا دیا گیا تھا جنہیں بغیر کسی رکاوٹ کے بیچا جا سکتا تھا، تحفے میں دیا جا سکتا تھا، وراثت میں منتقل کیا جا سکتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ (مسلم معاشروں میں) روم کی نسبت انسانیت کو اہمیت دی گئی ہے جس میں آقا کے حقوق کو قانونی طور پر محدود کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ، یہودی اور عیسائی غلامی میں بھی جو ارتقاء موجود ہے، وہ اس سے شدت میں مختلف ہے لیکن اسی قسم کا ہے۔ مسلمانوں کے حرم کو شدت سے چھپا کر رکھا جاتا تھا اس وجہ سے قانونی احکامات کو آقاؤں پر نافذ کرنا عملاً مشکل رہا ہے۔

    جو لوگ غلامی میں آ جانے کے بعد اسلام قبول کر لیتے، شرعی قانون (شاہی قانون کہنا زیادہ مناسب ہو گا) کے مطابق آزاد نہیں ہوتے تھے لیکن اس مقام پر خاص طور پر دوسری نسل کے غلاموں کے لئے رسم و رواج کافی نرم تھے۔ ترکوں میں عبرانیوں کی طرح یہ ایک مقدس رسم موجود تھی کہ ہم مذہب غلام کو خاص طور پر سات سال کی خدمت کے بعد آزاد کر دیا جائے۔ کچھ مخصوص نسلی گروہ جیسے عرب، صومالی اور جاوا کے رہنے والوں کو خاص طور پر غلامی سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس خود کو غلام بنا کر بیچنا، بچوں کو فروخت کر دینا اور جرائم یا قرض کی صورت میں غلام بنانا اگرچہ شریعت میں ممنوع تھا لیکن بہرحال رسم و رواج کی صورت میں موجود تھا۔

    ایسا نہیں تھا کہ پوری مسلم دنیا میں ہر دور میں یہ صورتحال موجود رہی ہو۔ “Administration of Justice in Mideval India” کے مصنفین نے اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں عدل و انصاف اور غلاموں کے حقوق کی پاسداری کا ذکر کیا ہے۔ ان کے دور میں ایک قاضی نے اپنی دو لونڈیوں کو قتل کر دیا تھا۔ جب گورنر کے حکم سے تحقیقات کروائی گئیں تو اس قاضی نے بادشاہ کی سزا سے بچنے کے لئے خود کشی کر لی تھی۔

    کے ایس لال جنہوں نے غلامی کے ادارے کو متعصبانہ طور پر اسلام سے منسوب کیا ہے، نے غیاث الدین بلبن کے دور کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس میں بلبن نے اپنے گورنر ملک بقبق کو اس جرم میں پانچ سو کوڑوں کی سزا سنائی جس نے اپنے ایک غلام کو قتل کر دیا تھا۔ بلبن نے گورنر کے ساتھ ساتھ اپنے ان جاسوسوں کو سزا بھی دی جنہوں نے اس واقعے کی رپورٹ بادشاہ کو نہ بھیجی تھی۔

    مسلم ممالک میں نیم غلامی

    قرون وسطی کے بادشاہوں نے فوجی جاگیرداری کا جو نظام وضع کیا تھا، اس کی بدولت مسلم ممالک میں مزارعوں کی نیم غلامی نے جنم لیا۔ یہ لوگ قانونی طور پر غلام نہیں بلکہ "آزاد" تھے لیکن عملی طور پر یہ غلام ہی تھے۔ ان کے لئے لازم تھا کہ یہ سارا سال جاگیردار کی زمینوں پر کام کریں۔ ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی جاگیردار کے ذمے تھے جو انہیں بس اتنی خوراک فراہم کر دیا کرتا تھا کہ ان کے ہاں جسم و روح کا رشتہ برقرار رہے۔

    جاگیردار ان سے نہ صرف کھیتوں میں کام لیتا بلکہ اس کی ہر طرح کی خدمت ان کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ مزارعوں کی بیویوں کو جاگیردار کی حویلیوں میں کام کرنا پڑتا اور بسا اوقات جاگیردار کے لئے اپنی عصمت کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا۔ خدمات کے علاوہ مزارعوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوا کرتی تھی کہ وہ جاگیردار کو مختلف رسومات کے موقع پر تحائف بھی پیش کریں۔ ان پر مختلف قسم کے ٹیکس بھی لگا دیے جاتے۔

    اس تمام معاشی استحصال کے نتیجے میں مزارعے اکثر جاگیردار سے قرض لینے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے جس کے نتیجے میں ان پر سود در سود کی صورت میں اتنا قرض چڑھ جاتا کہ اس کی ادائیگی ان کی آنے والی نسلوں کے لئے بھی ممکن نہ رہتی۔ مزارعے کے مرنے کے بعد اس کے تمام قرضے اس کی اولاد کو منتقل ہو جاتے۔ اس طریقے سے نسل در نسل غلامی کا سلسلہ جاری رہتا۔

    غلامی کی یہ قسم مسلم دنیا کے بہت سے ممالک میں آج بھی موجود ہے۔ اس سے متعلق اتنا کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے کہ مزید تفصیلات کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں جنوبی پنجاب اور سندھ کے دیہات میں جا کر آج بھی اس غلامی کا مشاہدہ آنکھوں سے کیا جا سکتا ہے۔

    خلاصہ بحث

    مندرجہ بالا بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ غلاموں کے بعض طبقات کی حالت اچھی نہ تھی لیکن بہرحال غلاموں کے ایسے طبقات بھی موجود تھے جو معاشرے میں اعلی مقام رکھتے تھے۔ اگر مسلم معاشرے میں موجود غلاموں کا تقابل اپنے ہم عصر غیر مسلم معاشروں میں موجود غلاموں سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مسلم معاشروں میں، اپنے دین سے انحراف کے باوجود، غلاموں کی حالت بہرحال یورپ اور امریکہ میں موجود غلاموں سے بہت بہتر تھی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں پوری تاریخ میں ہمیں غلاموں کی صرف ایک ہی بغاوت کا سراغ ملتا ہے۔

    مکمل غلامی سے قطع نظر مسلم معاشروں میں نیم غلامی اور نفسیاتی غلامی اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود رہی ہے۔

    ہمارے تاریخ دان بالعموم مسلم بادشاہوں کی بداعمالیوں کا جواز پیش کرنے کے لئے ان کا تقابل غیر مسلم بادشاہوں سے کرتے ہیں۔ یہ طریق کار ہماری نظر میں بالکل غلط ہے۔ مسلمان "خیر امت" ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ اس دعوے کو درست اسی صورت میں ثابت کیا جا سکتا ہے جب مسلمانوں کے عمل کا تقابل ان کے اپنی دین کی تعلیمات سے کیا جائے۔ اپنے اسلاف کے ہر اچھے برے عمل کی تائید وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اخلاقی جرأت سے خالی ہوں۔

    نہایت افسوس اور شرمندگی کے ساتھ ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ صحابہ و تابعین کے دور کو چھوڑ کر، مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی غلامی کے باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کے اہم حصے کو چھوڑ دیا۔ صحابہ و تابعین کے زمانے میں اسلام کی اصلاحات کے نتیجے میں غلاموں کی تعداد میں جو غیر معمولی کمی واقع ہو چکی تھی، اس وقت اگر مسلمان حکمران غلاموں کی امپورٹ پر مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے ایسا کرنے والے بردہ فروشوں کو عبرت کا نشان بنا دیتے تو مسلمانوں کے ہاں اہل مغرب سے 1200 برس قبل ہی غلامی کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔

    اس معاملے میں ہمارے مذہبی راہنماؤں کا کردار بھی کچھ قابل رشک نہیں رہا۔ اگر مذہبی راہنما ہی اس وقت اتفاق رائے کے ساتھ ایک تحریک پیدا کرتے ہوئے حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جاتے اور ان کے تشدد کا اسی طرح نشانہ بنتے جیسا کہ انہوں نے اور معاملات میں کیا تو غلامی اگر مکمل ختم نہ بھی ہو پاتی لیکن اس کے اثرات کو بڑی حد تک کم کر دیا جاتا۔ ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی بڑی تعداد خود نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکی تھی اور ان کے نزدیک "غلام ہونا" کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔

    اگلے ابواب میں ہم قرون وسطی میں یورپ اور امریکہ میں موجود غلامی کا جائزہ لیں گے۔ مسلم معاشرے کے غلاموں سے مغربی ممالک کے غلاموں کے تقابل کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم مسلم تہذیب کی مغربی تہذیب پر فوقیت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو تاریخ کا مطالعہ متعصبانہ طریقے پر کرتے ہوئے اپنی قوم کی برتری اور دوسری قوم کی کمتری ثابت کرنے کو اپنا مشن قرار دے دیتے ہیں۔ درست طرز عمل یہ ہے کہ غلطی جہاں ہماری اپنی ہو، اسے کھلے دل سے قبول کیا جائے اور اگر دوسرے کی ہو تو احسن انداز میں اس کی نشاندہی کر دی جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غلامی سے متعلق دنیا کی تمام اقوام نے ہی اپنے جیسے انسانوں پر ظلم کیا ہے۔

    مسلم تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلم معاشروں میں جہاں جہاں غلاموں سے اچھا سلوک کیا گیا اس میں مسلمانوں کا کمال صرف یہی تھا کہ انہوں نے اس معاملے میں اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کیا تھا۔ جہاں جہاں غلامی کو برقرار رکھا گیا اور غلاموں سے برا سلوک کیا گیا تو ایسا مسلمانوں کے اپنے دین سے انحراف کے نتیجے میں کیا گیا۔

    مسلم اور مغربی معاشروں کے اس تقابل کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے جن کی بدولت غلاموں کی آزادی کی حالیہ تحریک مسلم معاشروں کی بجائے مغربی معاشروں میں پیدا ہو کر کامیاب بھی ہو گئی؟ ان تفصیلات میں جانے سے پہلے ضروری ہے کہ مسلم دنیا میں نفسیاتی غلامی پر بھی ایک تفصیلی بحث پیش کر دی جائے۔
     
  25. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 15: مسلم دنیا میں ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی (Intellectual Slavery)


    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    مسلم دنیا میں نفسیاتی غلامی کا ارتقاء

    خلفاء راشدین سے لے کر بعد کے ادوار کے مسلم حکمران، اگرچہ بادشاہ تھے لیکن بالعموم علم کے دلدادہ اور قدردان تھے۔ مامون الرشید جیسے چند ایک حکمرانوں کو چھوڑ کر کسی حکمران نے مسلمانوں کو نظریاتی اور فکری طور پر غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ان کے ہاں "آزادی فکر" اور "آزادی اظہار رائے" ایک بڑی قدر کے طور پر موجود تھی اور اس کے لئے ان کے ارباب فکر و نظر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہا کرتے تھے۔

    بعد کی صدیوں میں دو ایسی تبدیلیاں وجود پذیر ہوئے جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں فکری اور نظریاتی غلامی کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ایک تبدیلی تو اندھی تقلید کا فروغ تھا اور دوسرا استاذ و شاگرد یا پیر و مرید کے تعلقات میں تبدیلیوں کا۔ ان دونوں اداروں پر تبصرہ کرنے کا مقصد کسی کی تردید یا تائید نہیں ہے۔ ہم یہ تفصیلات محض ایک تاریخی ریکارڈ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔

    اندھی تقلید

    لفظ "تقلید" کا معنی ہے پیروی کرنا۔ اصطلاحی مفہوم میں مسلمانوں کے ہاں تقلید کا معنی یہ رہا ہے کہ قرآن و سنت میں خود غور و فکر کرنے کی بجائے قدیم دور کے اہل علم جو کام کر گئے، دلیل جانے بغیر اس کی پیروی کی جائے۔ چوتھی صدی ہجری میں یہ طے پایا کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ چار مشہور مکاتب فکر یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی میں سے کسی ایک مکتب فکر کا انتخاب کر لے اور اس کی پیروی کرنا شروع کر دے۔

    تقلید کے سماجی ادارے کا آغاز اور ارتقاء کس طرح سے ہوا۔ اس موضوع پر شاہ ولی اللہ (1702-1762CE) نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب، "حجۃ اللہ البالغہ" میں ایک پورا باب تحریر کیا ہے۔ پہلی تین صدیوں کے مسلمانوں کی روش کے بارے میں شاہ صاحب لکھتے ہیں:

    اعلم ان الناس قبل المائۃ الرابعۃ غیر مجمعین علی التقلید الخالص لمذھب واحد بعینہ۔ قال ابو طالب المکی فی قوت القلوب: "ان الکتب و المجموعات محدثۃ، و القول بمقالات الناس و الفتیا بمذھب الواحد من الناس، واتخاذ قولہ و الحکایۃ لہ من کل شییء و التفقہ علی مذھبہ۔ لم یکن الناس قدیما علی ذلک فی القرنین الاول و الثانی انتھی۔

    اقول: و بعد القرنین حدث فیھم شییء من التخریج، غیر ان اھل المائۃ الرابعۃ لم یکونوا مجتمعین علی التقلید الخالص علی مذھب واحد و التفقہ لہ و الحکایۃ لقولہ، کما یظھر من التتبع، بل کان فیھم العلماء و العامۃ، و کان من خبر العامۃ انھم کانوا فی المسائل الجماعیۃ التی لا اختلاف فیھا بین المسلمین او جمھور المجتھدین لا یقلدون الا صاحب الشرع، و کانوا یتعلمون صفۃ الوضوء و الغسل و الصلاۃ و الزکاۃ و نحو ذلک من آبائھم او معلمی بلدانھم، فیمشون حسب ذلک، و اذا وقعت لھم واقعۃ استفتوا فیھا ای مفت وجدوا من غیر تعیین مذھب۔

    و کان من خبر الخاصۃ انہ کان اھل الحدیث منھم یشتغلون بالحدیث، فیخلص الیھم من احادیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم و آثار الصحابۃ ما لا یحتاجون معہ الی شییء آخر فی المسالۃ، من حدیث مستفیض او صحیح قد عمل بن بعض الفقھاء، و لا عذر لتارک العمل بہ، او اقوال متظاھرہ لجمھور الصحابۃ و التابعین مما لا یحسن مخالفتھا، فان لم یجد فی المسالۃ ما یطمئن بہ قلبہ، لتعارض النقل و عدم وضوح الترجیح و نحو ذلک، رجع الی کلام بعض من مضی من الفقھاء، فان وجد قولین اختار اوثقھما، سوا کان من اھل امدینۃ او من اھل الکوفۃ، و کان اھل التخریج منھم یخرجون فیما لا یجدونہ مصرحا، و یجتھدون فی المذھب، و کان ھولاء ینسبون الی مذھب احدھم فیقال، "فلان شافعی، و فلاں حنفی"۔ و کان صاحب الحدیث ایضا قد ینسب الی احد المذاھب لکثرۃ موافقتہ لہ، کالنسائی و البیھقی ینسبان الی الشافعی، وکان لا یتولی القضاء و لا الافتاء الا مجتھد لہ، ولا یسمی الفقیہ الا مجتھدا۔ (حجۃ اللہ البالغہ، باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ و بعدھا)

    یہ جان لیجیے کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی خاص مکتب فکر کی تقلید کرنے پر متفق نہ تھے۔ قوت القلوب میں ابو طالب مکی کہتے ہیں، "یہ کتابیں، مجموعے سب نئی چیز ہیں۔ لوگوں کی آراء کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنا، لوگوں میں سے کسی ایک شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فتوی دینا، اپنے امام کی رائے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، ہر چیز میں اسی کی رائے کو بیان کرنا اور اسی کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا (اور دوسرے نقطہ نظر کو سمجھنے سے اجتناب کرنا) پہلی اور دوسری صدی میں لوگوں کا رواج نہ تھا۔"

    میری (شاہ ولی اللہ کی) رائے یہ ہے کہ بعد کی صدیوں میں ایک نئی چیز پیدا ہوئی جسے "تخریج" کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ (علمی تاریخ کے) مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی تک کے اہل علم کسی خاص امام کے مکتب فکر کی تقلید کرنے، اسی میں غور و فکر کرنے اور اسی کو بیان کرتے رہنے کے معاملے میں متفق نہ تھے۔ ان میں علماء اور عام لوگ ہوتے تھے۔ جہاں تک تو عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ ان معاملات میں جن میں مسلمانوں یا مجتہدین کی اکثریت میں اتفاق رائے تھا، وہ سوائے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کسی کی تقلید نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ وضو، غسل، نماز، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ اپنے والدین یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب انہیں کوئی مخصوص مسئلہ پیش آتا تو جو بھی (صاحب علم) مفتی انہیں ملتا، بغیر کسی مکتب فکر کی تخصیص کے، وہ اس سے سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔

    جہاں تک خاص (علماء) کا تعلق ہے تو ان میں حدیث کے ماہرین بھی تھے۔ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کے آثار موجود تھے۔ انہیں حدیث سے استفادہ کرنے کے علاوہ، جن پر بعض فقہا بھی عمل کرتے ہوں، کسی اور سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان کے لئے اس حدیث یا صحابہ و تابعین کی اکثریت کی رائے پر عمل ترک کر دینے کے لئے کوئی عذر نہیں تھا اور نہ ہی اسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔

    جب ان کے پاس کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں (موجود آراء پر) ان کا دل مطمئن نہ ہوتا ، جیسے آراء کے نقل کرنے میں تضاد پایا جاتا یا کسی ایک رائے کو ترجیح دینا واضح نہ ہوتا، تو وہ ماضی کے فقہاء کے نقطہ ہائے نظر کی طرف رجوع کرتے۔ اگر انہیں دو نقطہ ہائے نظر مل جاتے تو وہ ان میں سے صحیح ترین کو اختیار کر لیتے خواہ وہ مدینہ کے کسی عالم کا نقطہ نظر ہوتا یا کوفہ کے (یا کسی اور شہر کے)۔

    ان میں اہل تخریج بھی موجود تھے۔ جب انہیں کسی مسئلے میں واضح بات نہ ملتی تو وہ کسی مخصوص مکتب فکر کے دائرے میں ہی رہ کر اجتہاد کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگ کسی مخصوص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے یا فلاں حنفی ہے۔ ان میں بعض حدیث کے ماہرین بھی کسی ایک مکتب فکر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اکثر آراء اس مکتب فکر کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر امام نسائی اور امام بیہقی کو شافعی مکتب فکر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عدالت کے جج اور مفتی کے منصب پر جو فائز ہوتے تھے، ان کا مجتہد ہونا ضروری تھا اور مجتہد سے کم درجے کے کسی شخص کو فقیہ کا نام نہ دیا جاتا تھا۔

    اس طرز عمل میں بعد کی صدیوں میں کیا تبدیلی واقع ہوئی، اس کی تفصیل شاہ صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

    ثم بعد ھذہ القرون کان اناس آخرون ذھبو یمینا و شمالا، و حدث فیھم امور، منھا الجدل و الخلاف فی علم الفقہ۔ و تفصیلہ، علی ما ذکرہ الغزالی، انہ لما انقرض عھد الخلفاء الراشدین المھدیین افضت الخلافۃ الی قوم تولوھا بغیر استحقاق و الا استقلال بعلم الفتاوی و الاحکام، فاضطروا الی الاستعانۃ بالفقھاء و الی استصحابھم فی جمیع احوالھم، و قد بقی من العلماء من ھو مستمر علی الاطراز الاول و ملازم صفو الدین، فکانو اذا طلبوا ھربوا و اعرضوا، فرای اھل تلک الاعصار عز العلماء و اقبال الائمۃ علیھم مع اعراضھم، فاشرابوا بطلب العلم توصلا الی نیل العز و درک الجاہ، فاصبح الفقھا بعد ان کانوا مطلوبین طالبین، وبعد ان کانوا اعزۃ بالاعراض عن السلاطین اذلۃ بالاقبال علیھم، الا من وفقہ اللہ۔

    و قد کان من قبلھم قد صنف الناس فی علم الکلام و اکثروا القال و القیل و الایراد و الجواب و تمھید طریق الجدل، فوقع ذلک منھم بموقع من قبل ان کان من الصدور و الملوک من مالت نفسہ الی المناظرۃ فی الفقہ و بیان الاولی من مذھب الشافعی و ابی حنیفۃ رحمہ اللہ، فترک الناس الکلام و فنون العلم، واقبلوا علی المسائل الخلافیۃ بین الشافعی و ابی حنیفۃ رحمہ اللہ علی الخصوص، و تساھلوا فی الخلاف مع مالک و سفیان و احمد بن حنبل وغیرہھم۔ و زعموا ان غرضھم استنباط دقائق الشرع و تقریر علل المذھب و تمھید اصول الفتاوی، و اکثروا فیھا التصانیف و الاستنباطات، و رتبوا فیھا انواع المجادلات و التصنیفات و ھم مستمرون علیہ الی الآن، و لسنا ندری ما الذی قدر اللہ تعالی فیما بعدھا من الاعصار۔ انتھی حاصلہ۔

    و منھا انھم اطمانوا بالتقلید، و دب التقلید فی صدورھم دبیب النمل و ھم لا یشعرون، و کان سبب ذلک تزاحم الفقھاء و تجادلھم فیما بینھم، فانھم لما وقعت فیھم المزاحمۃ فی الفتوی کان کل من افتی بشییء نوقض فی فتواہ و رد علیہ، فلم ینقطع الکلام الی بمسیر الی تصریح رجل من المتقدمین فی المسالۃ۔

    و ایضا جور القضاۃ، فان القضاۃ لما جار اکثرھم و لم یکونوا امناء، لم یقبل منھم الی ما لا یریب العامۃ فیہ، و یکون شیئا قد قیل من قبل۔

    و ایضا جھل روؤس الناس، و استفتاء الناس من لا علم لہ بالحدیث و لا بطریق التخریج، کما تری ذلک ظاھرا فی اکثر المتاخرین، و قد نبہ علیہ ابن الھمام وغیرہ، وفی ذلک الوقت یسمی غیر المجتھد فقیھا۔

    و منھا ان اقبل اکثرھم علی التعمقات فی کل فن، فمنھم من زعم انہ یوسس علم اسماء الرجال و معرفۃ مراتب الجرح و التعدیل، ثم خرج من ذلک الی التاریخ قدیمہ و حدیثہ، و منھم من تفحص عن نوادر الاخبار و غرائبھا و ان دخلت فی حد الموضوع، و منھم من کثر القیل و القال فی اصول الفقہ، و استنبط کل لاصحابہ قواعد جدلیۃ، فاورد فاستقصی و اجاب و تفصی و عرف و قسم فحور، طول الکلام تارۃ و تارۃ اخری اختصر، و منھم من ذھب الی ھذا بفرض الصور المستبعدۃ التی من حقھا الا یتعرض لھا عاقل، و بفحص العمومات و الایماءات من کلام المخرجین فمن دونھم مما لا یرتضی استماعہ عالم و لا جاھل۔۔۔۔

    فنشات بعدھم قرون علی التقلید الصرف لا یمیزون الحق من الباطل و لا الجدل عن استنباط، فالفقیہ یومئذ ھو الثرثار المتشدق الذی حفظ اقوال الفقھاء قویھا و ضعیفھا من غیر تمییز، و سردھا بشقشقۃ شدقیہ۔ و المحدث من عد الاحادیث صحیحھا و سقیما و ھذھا کھذ الاسمار بقوۃ لحییہ۔ و لا اقول: کان ذلک کلیا مطردا، فان اللہ طائفۃ من عبادہ لا یضرھم من خذلھم، و ھم حجۃ اللہ فی ارضہ و ان قلوا۔ و لم یات قرن بعد ذلک الا و ھو اکثر فتنۃ و اوفر تقلیدا و اشد انتزاعا للامانۃ من صدور الرجال، حتی اطمانوا بترک الخوض فی امر الدین و بان یقولا: إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُهْتَدُونَ (زخرف 43:22) ۔۔۔۔

    ان ھذہ المذاھب الاربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامۃ، او من یعتد بہ منھا، علی جواز تقلیدھا الی یومنا ھذا، و فی ذلک من المصالح ما لا یخفی، لا سیما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھا الھمم جدا، و اشربت النفوس الھوی و اعجب کل ذی رای برایہ۔ فما ذھب الیہ ابن حزم حیث قال: "التقلید حرام، لا یحل لاحد ان یاخذ قول احد غیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا برھان۔"۔۔۔۔۔

    فان ھولاء الفقھا کلھم قد نھوا عن تقلید غیرھم، فقد خالفھم من قلدھم، و ایضا فما الذی جعل رجلا من ھولاء او من غیرھم اولی ان یقلد من عمر بن الخطاب او علی ابن ابی طالب او ابن مسعود او ابن عمر او ابن عباس او عائشۃ ام المومنین رضی اللہ تعالی عنھم؟ فلو ساغ التقلید لکان کل واحد من ھولاء احق بان یتبع من غیرہ۔ انتھی۔۔۔۔

    و فیمن یکون عامیا و یقلد رجلا من الفقھاء بعینہ و یری انہ یمتنع من مثلہ الخطا و ان ما قالہ ھو الصواب لبتۃ و اضمر فی قبلہ لا یترک تقلیدہ و ان ظھر الدلیل علی خلافہ، و ذلک ما رواہ الترمذی عن عدی بن حاتم انہ قال: " اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَاباً مِنْ دُونِ اللَّهِ (توبہ 9:31)" سمعتہ، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقرا: قال: انھم لم یکونوا یعبدونھم، و لکنھم کانوا اذا احلوا لھم شیئا استحلوہ، و اذا حرموا علیھم شیئا حرموہ۔

    و فیمن لا یجوز ان یستفتی الحنفی مثلا فقیھا شافعیا و بالعکس، و لا یجوز ان یقتدی الحنفی بامام شافعی مثلا، فان ھذا قد خالف اجماع القرون الاولی، و ناقض الصحابۃ و التابعین، ولیس محلہ۔(حجۃ اللہ البالغہ، باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ و بعدھا)

    ان ادوار کے بعد کے لوگ ادھر ادھر جانے لگے۔ ان میں نئے نئے امور پیدا ہوئے۔ ان میں علم فقہ کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل غزالی کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا تو حکومت ان لوگوں کو مل گئی جو احکام اور فتاوی کے معاملے میں نااہل اور کمزور تھے۔ یہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ (حکومت چلانے کے لئے) فقہاء سے مدد طلب کریں اور ہر طرح کی صورتحال میں انہیں اپنا ساتھی بنائیں۔

    (اس دور میں) ایسے علماء موجود تھے جو پرانے طریق کار پر قائم تھے اور دین کی عزت برقرار رکھنے کو لازم سمجھتے تھے۔ جب انہیں (حکومتی معاملات میں) طلب کیا جاتا تو وہ ادھر ادھر ہو کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے۔ (دنیا داری سے) اس اعراض کی وجہ سے اس دور کے علماء اور ائمہ کی عزت اور مرتبہ برقرار رہا۔ بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو جاہ و منصب اور عزت حاصل کرنے کے لئے علم حاصل کرنے لگے۔ اس کے بعد فقہاء مطلوب کی بجائے طالب بنتے چلے گئے اور وہ لوگ جو بادشاہوں سے دور رہنے کی وجہ سے معزز تھے، اب ان کے گرد اکٹھا ہونے کی وجہ سے ذلت کا شکار ہو گئے سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے (بچنے کی) توفیق دی۔

    ان سے پہلے ایسے لوگ تھے جنہوں نے علم الکلام (عقائد کے فلسفے کا علم) میں تصانیف مرتب کیں۔ یہ لوگ اس علم سے متعلق مختلف آرا اکٹھا کرنے، ان کا حوالہ دینے، سوال جواب کرنے، اور بحث و مباحثے کا طریق کار طے کرنے میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں جو کام سینہ بہ سینہ ہو رہا تھا وہ منظر عام پر آنے لگا۔

    بادشاہوں نے اپنی تفریح کی خاطر فقہ خاص طور پر امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے مذہب سے متعلق بحث مباحثوں کو فنانس کر کے ان کی (حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔) لوگوں نے علم کلام اور دیگر علمی فنون کو چھوڑ دیا اور شافعی و حنفی مکاتب فکر کے اختلافی مسائل میں اسپیشلائز کرنے لگے۔ انہوں نے امام مالک، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ وغیرہ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ شریعت میں گہرے نکات کو تلاش کیا جائے، مختلف مکاتب فکر کی خامیوں کو بیان کیا جائے اور فتوی دینے کے علم کے اصولوں کو مرتب کیا جائے۔

    وہ لوگ اس معاملے میں نتائج اخذ کرنے اور تصنیف و تالیف میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس میں انہوں نے بہت سی اقسام کے بحث و مباحثے اور تصنیفات مرتب کیں اور آج تک یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی (کے دین کو نازل کرنے) کا مقصد یہی تھا جو کچھ بعد کے ادوار میں ہوتا رہا۔ بہرحال یہی ہوتا رہا۔

    ان میں سے بعض وہ لوگ تھے جو (اندھی) تقلید پر مطمئن ہو گئے۔ لاشعوری طور پر تقلید چیونٹی کی رفتار سے ان کے سینوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ اس کا سبب فقہاء کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور آپس میں (غیر ضروری) بحث مباحثہ کرنا تھا۔ جب بھی کوئی ایک شخص اپنا نقطہ نظر بیان کرتا تو دوسرا اس کے بالکل الٹ فتوی جاری کر کے اس کی تردید کرنے لگ جاتا۔ اس پر ان کا مناظرہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ کوئی شخص قدیم علماء میں سے کسی کی واضح رائے سامنے نہ رکھ دیتا۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک وجہ عدالتی ججوں کا ظلم و ستم بھی تھا۔ جب قاضیوں نے غیر منصفانہ فیصلے کرنا شروع کر دیے اور وہ (پیشہ ورانہ) دیانت داری چھوڑتے چلے گئے تو ان کے ان فیصلوں کو قبول نہ کیا جانے لگا جو اس سے پہلے کئے گئے عدالتی فیصلوں کے مطابق نہ تھے۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک اور وجہ لوگوں کے مذہبی راہنماؤں کی جہالت بھی تھی۔ لوگ ان لوگوں سے فتوی طلب کرنے لگے جنہیں نہ تو حدیث کا علم تھا اور نہ ہی تخریج کے طریق کار (پہلے سے موجود قوانین کو نئی صورتحال پر منطبق کرنے کا طریق کار) کا علم تھا۔ یہ چیز آپ بعد کے دور کے لوگوں میں عام دیکھ سکتے ہیں۔ ابن ھمام وغیرہ نے اسی پر متنبہ کیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب غیر مجتہد لوگ، فقیہ کہلائے جانے لگے۔

    ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر فن میں (ضرورت سے زیادہ) گہرائی میں جانے کی کوشش کی۔ ان میں وہ بھی تھے جو اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے فنون کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ قدیم اور جدید تاریخ (سے متعلق روایات) جمع کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے عجیب و غریب روایات (ہی کو اپنا مقصد بنا کر ان) کی چھان بین شروع کر دی اگرچہ وہ محض جعلی روایت ہی کیوں نہ ہو۔

    ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اصول الفقہ میں (غیر ضروری) بحث و مباحثہ کرنے لگے۔ ہر ایک نے (اپنے اپنے مکتب فکر کے بڑے لوگوں کے نتائج فکر سے ان کے) طریق کار سے متعلق قواعد و ضوابط اخذ کرنا شروع کر دیے۔ یہ لوگ انہی معاملات کو اکٹھا کرنے، ان کی چھان بین کرنے، ان سے متعلق سوال و جواب تیار کرنے اور بے جا قسم بندی (Classification) کرنے میں مشغول ہو گئے۔ کبھی اس پر طویل بحثیں کرتے اور کبھی مختصر۔

    ان میں سے وہ بھی تھے جنہوں نے ایسی خیالی صورت حال فرض کرنا شروع کیں جنہیں اگر کوئی عقل مند سوچے تو اسے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ محسوس ہو گا۔ وہ تخریج کے ماہرین کے طرز بیان سے ایسے ایسے نکات اور عمومی نتائج (Generalized Conclusions) اخذ کرنے لگ گئے جنہیں سن کر نہ تو کسی عالم اور نہ ہی جاہل کا ذہن مطمئن ہو سکتا ہے۔۔۔۔

    اس کے بعد خالص تقلید کا دور شروع ہوا۔ اب لوگ نہ تو حق اور باطل میں فرق نہ کرنے لگے اور نہ ہی احکام اخذ کرنے اور ان پر بحث و مباحثہ کرنے میں کوئی تفریق کرنے لگے۔ اب فقیہ اس شخص کا نام ہو گیا جو زیادہ بولتا اور غیر محتاط طریقے سے بحث کرتا ہو، قدیم علماء کی مضبوط اور کمزور آراء میں کسی فرق کے بغیر یاد کرلے اور اسے پورے جوش و خروش کے ساتھ بیان کر دے۔ محدث اس شخص کو کہا جانے لگا جو صحیح و کمزور ہر طرح کی احادیث کو یاد کر لے اور انہیں بغیر سوچے سمجھے زور و شور سے اپنے جبڑوں کی طاقت سے بیان کرنے لگ جائے۔

    میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا ہی ہو گیا تھا۔ اللہ کے بندوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے ایسے لوگوں کی جہالت سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد میں کم ہوں لیکن زمین میں اللہ کی حجت ہوا کرتے ہیں۔

    اس کے بعد کے زمانوں میں فتنوں کی کثرت ہو گئی، اندھی تقلید عام ہو گئی اور لوگوں کے سینوں سے دیانت داری نکلتی چلی گئی۔ لوگوں کو اس بات پر پورا اطمینان ہو گیا کہ دین کے امور میں غور و خوض کو ترک کر دینا چاہیے۔ (گویا یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ) وہ کہنے لگے، "ہم نے اپنے آبا ؤ اجداد کو اس طریقے پر پایا ہے اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ (قرآن، سورۃ زخرف 43:22)

    اس وقت سے لے کر آج تک ان چار مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) جن کے مسائل کو تحریر کر دیا گیا تھا، کے متعلق امت کا اتفاق رائے ہو گیا کہ جو جس مسلک کی چاہے، تقلید کرنا شروع کر دے۔ اس میں بھی کچھ ایسی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں۔ اس دور میں جب عزم و ارادے میں بہت کمزوری واقع ہو گئی تھی، لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے عادی ہو گئے تھے اور ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق ہی رائے پسند کرنے لگا (تو تقلید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔)

    ابن حزم نے (اس معاملے میں اختلاف کرتے ہوئے) کہا، "تقلید حرام ہے۔ کسی شخص کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرے۔۔۔۔جہاں تک ان فقہا (یعنی امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی تقلید سے منع کیا تھا۔ جس نے ان کی تقلید کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ اگر ان میں سے ہی کسی شخص کی تقلید کرنا ضروری ہوتا تو پھر سیدنا عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، یا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کیا اس بات کے زیادہ مستحق نہیں ہیں کہ ان ہی کی تقلید کر لی جائے؟ اگر تقلید جائز ہوتی تو کسی اور کی بجائے ان میں سے ایک کی تقلید کرنا زیادہ درست ہوتا۔" (ابن حزم کی بات ختم ہوئی۔)

    ان میں سے بعض عام لوگ ہوتے ہیں جو فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی اور جو کچھ اس نے کہہ دیا وہ مطلقاً درست ہے۔ وہ کسی صورت اس عالم کی تقلید کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے اگرچہ اس کے خلاف واضح دلیل بھی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ امام ترمذی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ آیت سنی، "انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے سوا شریک بنا لیا تھا۔" اس کے بعد آپ نے فرمایا، "وہ ان علماء و مشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے تو یہ بھی اسے حلال قرار دے دیتے اور جب اسے حرام کہتے تو یہ بھی اسے حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔

    ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حنفی کسی شافعی عالم سے سوال پوچھ لے یا کوئی شافعی کسی حنفی عالم سے سوال پوچھ لے۔ وہ حنفی کے لئے شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو غلط سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات پہلی صدیوں کے اتفاق رائے اور صحابہ و تابعین کے نقطہ نظر کے خلاف ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

    اندھی تقلید کی یہ روش صرف عام لوگوں تک محدود نہ رہی بلکہ اس کا شکار وہ لوگ بھی ہو گئے جو عالم دین ہونے کے دعوے دار تھے۔ اس کے بعد یہ طرز عمل صرف مذہب تک ہی محدود نہ رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات تمام علوم و فنون میں پھیلتے چلے گئے۔ نہ صرف فقہ کے ائمہ، بلکہ منطق، فلسفہ، تاریخ، جغرافیہ، کیمسٹری، بائیولوجی جیسے دنیاوی علوم کے قدیم مفکرین مقدس حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔ ان مفکرین سے اختلاف رائے رکھنا ایک جرم قرار پایا اور جس نے ایسا کرنے کی کوشش کی، اسے بھی کافر و ملحد قرار دیا جانے لگا۔ مشہور فلسفیوں اور سائنسدانوں جیسے غزالی، ابن رشد اور ابن سینا کو کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا۔ خود شاہ ولی اللہ، جو کہ ایک بڑے صوفی عالم تھے، پر اس الزام کے تحت کفر کا فتوی لگا دیا گیا کہ انہوں نے فارسی میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی جرأت کی تھی۔

    یہ روش آج تک برقرار ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی مدارس کے سلیبس "درس نظامی" میں قرون وسطی کے فلسفے اور منطق کی کتب صدرا، میبذی، شمس البازغۃ، ایساغوجی، مرقاۃ، شرح تہذیب اور سلم العلوم کو عملی طور پر وہی تقدس حاصل رہا ہے جو بخاری و مسلم کو حاصل ہے۔

    اس صورتحال کا اگر عیسائی دنیا سے تقابل کیا جائے تو مسلمانوں کے ہاں یہ فرق ضرور رہا ہے کہ اکثریت کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والوں پر معاشرتی سطح پر تو جبر کیا گیا لیکن حکومتی سطح پر ان کے خلاف کاروائی بہت ہی کم کی گئی۔ اس کے برعکس عیسائی دنیا میں ایسے مفکرین کو انکوئزیشن کی عدالتوں کے ذریعے قانونی سزا دی جاتی تھی۔ اس کی تفصیل ہم اگلے باب میں بیان کریں گے۔

    پچھلے ڈیڑھ سو سال کے مسلمانوں کی فکر کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کورانہ تقلید کا یہ طرز زندگی اب رو بہ زوال ہو رہا ہے۔

    استاذ و شاگرد اور مرشد و مرید کے نئے تعلقات

    اسلام میں تزکیہ نفس یعنی شخصیت کی اصلاح اور تربیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن مجید انسانوں کے تزکیہ نفس ہی کو اپنے انبیاء و رسل کی دنیا میں آمد کا مقصد قرار دیتا ہے۔ مذہب کا بنیادی مقصد ہی تزکیہ نفس ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی پوری سیرت کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمہ وقت اپنے اصحاب کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے اور ان کی تعمیر شخصیت میں اہم ترین کردار ادا کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا اپنے صحابہ سے تعلق "مرشد کی غلامی" پرمبنی نہ تھا بلکہ آپ کا رویہ اپنے صحابہ سے دوستانہ اور برادرانہ تھا۔ اسلام کے اس "تزکیہ نفس" کے تصور ہی کو بعد کے ادوار میں بہت سے لوگوں نے "اسلامی تصوف" کا نام دیا۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ نے اگلی نسل کی تعمیر شخصیت میں اپنا کردار ادا کیا۔ صحابہ کے تربیت یافتہ تابعین نے یہی معاملہ اپنی اگلی نسل کے ساتھ کیا اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ دور صحابہ میں تعمیر شخصیت کے لئے کسی ایک استاذ یا مرشد سے وابستہ ہونے کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ لوگ ایک صحابی کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے قرآن و حدیث سیکھتے۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کے پاس جا کر ان سے بھی قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کر لیا کرتے تھے۔ قرآن و سنت کی اسی تعلیم کے ذریعے ان کا تزکیہ کیا جاتا تھا۔ بہت سے لوگ تو دور دراز علاقوں سے سفر کر کے دوسرے شہروں کے علماء صحابہ و تابعین کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان صحابہ و تابعین کا آپس میں تعلق محبت، دوستی اور برادرانہ تعلقات پر مبنی ہوا کرتا تھا۔

    مسلم حکومتوں نے معیشت بہتر بنانے پر پوری توجہ دی جس کے نتیجے میں مسلم دنیا میں دولت کی ریل پیل ہو گئی اور لوگ مال و دولت کی دوڑ میں دین سے غافل ہوتے چلے گئے۔ اس کے ردعمل میں مسلمانوں کے ہاں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دنیا سے بے رغبتی اور دین سے قربت اختیار کی جائے اور اپنی شخصیتوں کا تزکیہ کیا جائے۔

    فتوحات کے نتیجے میں جو ممالک اسلامی سلطنت کا نتیجہ بنے وہاں ان قوموں کے اپنے تصوف یا صوفی ازم کی ایک مضبوط روایت پہلے سے موجود تھی۔ ایک طرف ایرانی تصوف تھا اور دوسری طرف مسیحی راہبانیت۔ کچھ عرصے میں ہی مسلمانوں کی تزکیہ نفس کی تحریک میں عجمی اثرات داخل ہونا شروع ہو گئے۔ ایران اور وسط ایشیا میں ایرانی تصوف، ترکی میں مسیحی راہبانیت اور ہندوستان میں ہندی تصوف نے تزکیہ نفس کی تحریک میں بے شمار ایسے اثرات داخل کر دیے جو کہ اسلام میں بالکل ہی اجنبی تھے۔ موجودہ دور میں ہمیں "تصوف" کے نام پر جو کچھ ملتا ہے، اس میں اگرچہ کچھ حصہ اسلام کے تزکیہ نفس کا ہے لیکن اس میں ایرانی، ہندوستانی اور ترکی تصوف کا عنصر اب غالب آ چکا ہے۔

    اس کتاب کا موضوع چونکہ تصوف نہیں بلکہ غلامی ہے، اس وجہ سے ہم یہاں مروجہ تصوف کے صرف اس پہلو کا جائزہ لیں گے جس نے نفسیاتی غلامی کو فروغ دیا۔ مروجہ تصوف کے تمام سلسلوں میں یہ عقیدہ متفقہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی "ایک ہی مرشد" کو اپنا راہنما بنائے، اس سے تربیت حاصل کرے اور اس کی نگرانی میں تصوف اور سلوک کی منازل طے کرے۔

    پیری مریدی کے اس تعلق کی تفصیل بیان کرنے کے لئے ہمیں تاریخ میں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے برصغیر میں تصوف کی روایت اتنی مضبوط ہے کہ ہم ان تفصیلات کو قریبی دور کے صوفی علماء کی کتب میں دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ہاں دلائل کی بجائے شخصیات کی بنیاد پر حق و باطل کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ہم جان بوجھ کر شخصیات کے ناموں اور حوالوں کو حذف کر رہے ہیں تاکہ کسی قسم کا تعصب قارئین کو متاثر نہ کر سکے۔ برصغیر کے ایک بہت بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں:

    بیعت ارادت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقا اپنا حاکم و متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکھے۔ اس کے لئے مرشد کے بعض احکام، یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔

    انہی عالم کی خدمت میں کسی نے پیر کامل کے کچھ حقوق و آداب تحریر کر کے تصحیح کے لئے پیش کئے تو انہوں نے ان تمام حقوق کو صحیح اور قرآن عظیم، احادیث شریفہ، کلام علماء اور ارشادات اولیاء سے ثابت شدہ قرار دیا اور فرمایا کہ اکابر نے اس سے بھی زائد آداب لکھے ہیں۔ ان آداب کی تفصیل یہ ہے:

    · یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی مرشد سے حاصل ہو گا اور اگر دوسری طرف توجہ کرے گا تو مرشد کے فیوض و برکات سے محروم رہے گا۔

    · ہر طرح مرشد کا مطیع (فرمانبردار) ہو اور جان و مال سے اس کی خدمت کرے کیونکہ بغیر محبت پیر کے کچھ نہیں ہوتا اور محبت کی پہچان یہی ہے۔

    · مرشد جو کچھ کہے، اس کو فوراً بجا لائے اور بغیر اجازت اس کے فعل کی اقتدا (پیروی) نہ کرے۔ کیونکہ بعض اوقات وہ (یعنی مرشد) اپنے ھال و مقام کے مناسب ایک کام کرتا ہے (مگر ہو سکتا ہے)، کہ مرید کو اس کا کرنا زہر قاتل ہے۔

    · جو ورد و وظیفہ مرشد تعلیم کرے، اس کو پڑھے اور تمام وظیفے چھوڑ دے۔ خواہ اس نے اپنی طرف سے پڑھنا شروع کیا یا کسی دوسرے نے بتایا ہو۔

    · مرشد کی موجودگی میں ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔

    · یہاں تک سوائے فرض و سنت کے نماز نفل اور کوئی وظیفہ اس کی اجازت کے بغیر نہ پڑھے۔

    · حتی الامکان ایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ اس کا سایہ مرشد کے سایہ پر یا اس کے کپڑے پر پڑے۔

    · اس کے مصلے (یعنی جائے نماز) پر پاؤں نہ رکھے۔

    · مرشد کے برتنوں کو استعمال میں نہ لاوے۔

    · اس کے سامنے نہ کھانا کھائے نہ پیئے اور نہ وضو کرے، ہاں اجازت کے بعد مضائقہ نہیں۔

    · اس کے روبرو (یعنی سامنے) کسی (اور) سے بات نہ کرے بلکہ کسی کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔

    · جس جگہ مرشد بیٹھتا ہو اس طرف پیر نہ پھیلائے، اگرچہ سامنے نہ ہو۔

    · اور اس طرف تھوکے بھی نہیں۔

    · جو کچھ مرشد کہے اور کرے، اس پر اعتراض نہ کرے کیونکہ جو کچھ وہ (یعنی مرشد) کرتا ہے اور کہتا ہے (اس کی) اگر کوئی بات سمجھ نہ آوے تو حضرت موسی و خضر علیہما السلام کا قصہ یاد کر لے۔

    · اپنے مرشد سے کرامت کی خواہش نہ کرے۔

    · اگر کوئی شبہ دل میں گزرے تو فوراً عرض کرے اور اگر وہ شبہ حل نہ ہو تو اپنے فہم (یعنی عقل کی کمی) کا نقصان سمجھے اور اگر مرشد اس کا جواب نہ دے تو جان لے کہ میں اس جواب کے لائق نہ تھا۔

    · اپنے خواب میں جو کچھ دیکھے وہ مرشد سے عرض کرے اور اگر اس کی تعبیر ذہن میں آوے تو اسے بھی عرض کرے۔

    · بے ضرورت اور بے اذن (بغیر اجازت) مرشد سے علیحدہ نہ ہو۔

    · مرشد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے اور بآواز اس سے بات نہ کرے اور بقدر ضرورت مختصر کلام کرے اور نہایت توجہ سے جواب کا منتظر رہے۔

    · اور مرشد کے کلام کو دوسرے سے اس قدر بیان کرے جس قدر لوگ سمجھ سکیں اور جس بات کو یہ لوگ نہ سمجھیں گے تو اسے بیان نہ کرے۔

    · مرشد کے کلام کو رد نہ کرے اگرچہ حق مرید ہی کی جانب ہو بلکہ اعتقاد کرے کہ شیخ کی خطا میرے صواب (یعنی درستی) سے بہتر ہے۔

    · کسی دوسرے کا سلام و پیام شیخ سے نہ کہے (یہ عام مریدین کے لئے ہے جس کو بارگاہ مرشد میں ابھی منصب عرض معروض و دیگران حاصل نہ ہو۔ ایسوں سے اگر کوئی سلام کے لئے عرض کرے تو عذر کرے کہ حضور میں مرشد کریم کی بارگاہ میں دوسرے کی بات عرض کرنے کے ابھی قابل نہیں)۔

    · جو کچھ اس کا حال ہو، برا یا بھلا، اسے مرشد سے عرض کرے کیونکہ مرشد طبیب قلبی ہے، اطلاع ہونے پر اس کی اصلاح کرے گا۔

    · مرشد کے کشف پر اعتماد کر کے سکوت نہ کرے۔

    · اس کے پاس بیٹھ کر وظیفہ میں مشغول نہ ہو۔ اگر کچھ پڑھنا ہو تو اس کی نظر سے پوشیدہ بیٹھ کر پڑھے۔

    · جو کچھ فیض باطنی اسے پہنچے، اسے مرشد کا طفیل سمجھے۔ اگر خواب میں یا مراقبہ میں دیکھے کہ دوسرے بزرگ سے پہنچا، تب بھی یہ جانے کہ مرشد کا کوئی وظیفہ اس بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔

    ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:

    مرشد کے حقوق مرید پر شمار سے افزوں ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے۔ اس کی رضا کو اللہ عزوجل کی رضا اور اس کی ناخوشی کو اللہ عزوجل کی ناخوشی جانے۔ اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے، اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے) مرشد ہی کی عطا اور انہیں کی نظر کی توجہ کا صدقہ جانے۔ مال، اولاد، جان سب ان پر تصدق (وار دینے) کرنے کو تیار رہے۔

    ان کی جو بات اپنی نظر میں خلاف شرعی بلکہ معاذ اللہ (گناہ) کبیرہ معلوم ہو، اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔جو وہ حکم دیں "کیوں" نہ کہے، دیر نہ کرے، سب کاموں میں اسے تقدیم (اولیت) دے۔۔۔۔۔جب ایسا ہو گا تو ہر وقت اللہ عزوجل و سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم و مشائخ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی مدد زندگی میں، نزع میں، قبر میں، حشر میں، میزان پر، پل صراط پر، حوض کوثر پر ہر جگہ اس کے ساتھ رہے گی۔

    انہی عالم نے اپنی ایک اور کتاب میں مرشد کامل کی جو شرائط بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرشد اعلانیہ فاسق نہ ہو اور شریعت کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ یہ بات سمجھنا بہرحال مشکل ہے اوپر بیان کردہ ادب نمبر 14 ، 16 اور 21 پر عمل کرتے ہوئے یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ مرشد کامل اعلانیہ فاسق ہیں یا نہیں۔

    اگر مرشد کوئی خلاف شریعت بات کریں گے بھی تو مرید پر لازم ہے کہ وہ اسے حضرت موسی و خضر علیہما السلام کے واقعے کی طرح سمجھ کر ان کی غلطی کو اپنی صحیح بات سے بہتر سمجھے۔ اس کے جواب میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مرشد کی یہ Assessment مرید بننے سے پہلے کرنا ضروری ہے، مرید بننے کے بعد تو بس "مردہ بدست زندہ" والا معاملہ ہونا چاہیے۔

    اس پر مزید ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرید کے اپنے مرشد کی بیعت میں داخل ہو جانے کے بعد کیا یہ اس مرید کی برکت ہو گی کہ مرشد صاحب آئندہ کے لئے ہر قسم کی گمراہی اور فسق و فجور سے محروم ہو جائیں گے۔ اگر انہیں گمراہیوں اور گناہوں سے بچانے میں مرید کا کوئی ہاتھ نہیں ہے تو پھر اس کے بیعت کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ایسی صورت میں موجودہ یا آئندہ کسی مرشد کی بھی Assessment کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور آنکھیں بند کر کے جو پیر صاحب پہلے نظر آ جائیں، ان کی بیعت کر لینی چاہیے؟ اس سوال کا جواب ہمیں اہل تصوف کے کسی حلقے سے نہیں مل سکا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ عملی دنیا میں بہت سے ایسے پیروں، جنہیں شریعت کو اہمیت دینے والے صوفیاء بھی فاسق و فاجر سمجھتے ہوں گے، کی خلاف شریعت باتوں کو ان کے مرید حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام سے تشبیہ دے کر ان کی غلطی کو اپنی صحیح بات سے بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کے لئے اپنے ہی ائمہ کے بیان کردہ ان آداب کی روشنی میں ضروری ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بہت سے ایسے پیر صاحبان جو اپنی مریدنیوں سے بدکاری کا کھلے عام ارتکاب بھی کرتے ہیں، ان کے مرید ان کے اس عمل کو بھی نعوذ باللہ حق بجانب سمجھتے ہیں۔ ان حقوق کے علاوہ فاضل مصنف مرشد کے مزید آداب بھی بیان فرماتے ہیں:

    · مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔

    · باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے۔

    · کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔

    · اس کے سامنے ہنسنا منع ہے۔

    · اس کی بغیر اجازت بات کرنا منع ہے۔

    · اس کی مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے۔

    · اس کی غیبت (یعنی عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے۔

    · اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں۔

    · اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے۔

    · اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے۔

    · اس کی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔

    · اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان و مال کو اسی کا سمجھے۔

    اہل تصوف کے نقطہ نظر کے مطابق "فنا فی اللہ" کی منزل تک پہنچنے کے لئے ایک مرید کو پہلے "فنا فی الشیخ" اور اس کے بعد "فنا فی الرسول" کے مقامات سے گزرنا ضروری ہے۔ فنا فی الشیخ کے مقام کے بارے میں ایک صوفی مصنف بیان کرتے ہیں:

    اللہ عزوجل کا مقرب بننے کا اعلی و عظیم انعام پانے (یعنی فنا فی الرسول صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم ہو کر فنا فی اللہ عزوجل ہونے) کی پہلی سیڑھی فنا فی الشیخ ہے۔ یعنی سالک اپنے آپ کو مرشد سے الگ نہ سمجھے۔ بلکہ خیال کرے، کہ میرے جسم کی حرکت و سکون میرے مرشد ہی کے اختیار میں ہے۔ اور میرا مرشد ہی مجھے سمجھ سکتا ہے۔ اور ظاہر و باطن کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اپنے طور طریقوں سے یہ ظاہر کرے، کہ اپنے وجود پر اس کا کوئی اختیار نہیں اور طرز عمل میں ریاکاری اور خود پسندی سے بالکل دور رہے۔ (مگر یہ یاد رہے) کہ فنا فی الشیخ کی پہلی منزل تصور مرشد کا مکمل قائم ہونا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ تصور مرشد مریدین کی ترقی کے لئے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔۔۔۔

    یاد رہے! کہ جب تک مرید اپنے مرشد کی ذات میں اپنے آپ کو گم نہیں کر لے گا۔ آگے راستہ نہیں پا سکے گا۔ تصور مرشد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے مرید کو چاہیے کہ اپنے دل میں مرشد کی محبت کو خوب بڑھائے۔ جتنی محبت زیادہ ہو گی، اتنا ہی مرشد کے تصور میں آسانی ہو گی۔ مرشد کی ذات کو اپنی سوچ کا محور بنانے کی کوشش کرے، مرشد کامل کے ہر ہر انداز، ہر ہر عادت اور ان کے ہر عمل کو بغور دیکھے اور اسے خود بھی اپنانے کی کوشش کرے۔ ہر وقت اس کے گمان میں مرشد کا جلوہ سمایا رہے۔ چلے تو ان کے انداز میں، بیٹھے تو سوچے کہ میرے مرشد اس طرح بیٹھتے ہیں، کھانا کھائے تو ان کا انداز اپنائے۔ جہاں موقع ملے مرشد کی باتیں بیان کرے، ان کے ملفوظات شریف کی اشاعت کرے، ان سے ظاہر ہونے والی برکتوں کا خوب تذکرہ کرے! کہ یہ پیر و مرشد سے محبت کی دلیل ہے۔

    تصور مرشد کا طریقہ وہ اپنے ائمہ کے حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:

    خلوت (یعنی تنہائی) میں آوازوں سے دور، رو بہ مکان شیخ (یعنی مرشد کے گھر کی طرف منہ کر کے)، اور وصال ہو گیا ہو تو، جس طرف مزار شیخ ہو ادھر متوجہ بیٹھے۔ محض خاموشی، باادب، بکمال خشوع و خضوع، صورت شیخ کا تصور کرے اور اپنے آپ کو ان کے حضور جانے، اور یہ خیال جمائے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے انوار و فیض، شیخ کے قلب پر فائض ہو رہے ہیں۔ اور میرا قلب، قلب شیخ کے نیچے، بحالت دریوزہ گری (یعنی گداگری) میں لگا ہوا ہے۔ اور اس میں سے، انوار و فیوض، ابل ابل کر، میرے دل میں آ رہے ہیں۔

    اس تصور کو بڑھائے، یہاں تک کہ جم جائے اور تکلف کی حاجت نہ رہے۔ اس کی انتہا پر، صورت شیخ (یعنی پیرومرشد کا چہرہ مبارک) خود متمثل ہو کر مرید کے ساتھ رہے گی۔ اور ان شاء اللہ عزوجل (اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا سے) ہر کام میں مدد کرے گی۔ اور اس راہ میں جو مشکل اسے پیش آئے گی اس کا حل بتائے گی۔

    یہ تمام معاملات اہل تصوف کے کسی ایک مکتب فکر تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ یہ تصوف کی متفق علیہ روایت کا حصہ رہے ہیں۔ اہل تصوف کے دوسرے مکتب فکر کے ایک اہم صوفی بزرگ بیان فرماتے ہیں:

    ملا علی قاری شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں۔ من اعترض علی شیخہ و نظر الیہ احتقارا فلا یفلح ابدا۔ جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا وہ کبھی فلاح نہیں پا سکتا۔۔۔۔جملہ اہل اللہ کی دو رکعات ہماری لاکھ رکعات سے افضل ہیں۔ ان کا سونا ہمارے جاگنے سے بہتر ہے، ہمارے تہجد و اشراق و اوابین سے افضل ہے۔ حضرت حاجی صاحب فرماتے تھے کہ عارف کی دو رکعات غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہیں۔ اللہ والوں پر اعتراض کرنے والے محروم رہتے ہیں۔

    ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں:

    لیکن آہ! لوگوں نے اللہ والوں کو نہیں پہنچانا کہ اللہ والوں کی غلامی سے کیا ملتا ہے۔۔۔۔۔تو آج میں آپ لوگوں کو شارٹ کٹ راستہ بتاتا ہوں کہ دنیا میں جس ولی اللہ سے یا ان کے غلاموں سے مناسبت ہو، اس کی خدمت اور محبت کرو مگر اخلاص کے ساتھ۔ اللہ کے یہاں محبت وہی مقبول ہے جو اتباع کے ساتھ ہو، شیخ کے مشورے پر جان کی بازی لگا دو، اخلاص کے ساتھ، اللہ کے لئے۔

    فاضل مصنف نے اس مقام پر اپنے واقعات بیان کیے ہیں جن میں وہ اپنے مرشد کے لئے محبت و اطاعت کی مثال قائم کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے مرشد کے لئے تہجد کے وقت پانی گرم کرنے کا اہتمام نہیں تھا۔ فاضل مصنف نے رات کے اول وقت میں پانی گرم کروایا اور پانی کے اس برتن کو بند کر کے گدے میں لپیٹ کر ساری رات اپنے پیٹ کے نیچے دبا کر جاگتے رہے تاکہ یہ پانی گرم رہے۔

    اسی طرح وہ سخت گرمی میں تپتی لو کے دوران وہ شیخ کے وضو کے لئے لوہے کا گھڑا سر پر رکھ کر ایک میل سے پانی لاتے رہے۔ ان کے شیخ دوپہر ایک بجے ناشتہ کیا کرتے تھے۔ فاضل مصنف صبح فجر سے لے کر ایک بجے تک فاقے سے رہا کرتے تھے تاکہ کہیں ناشتہ مرشد سے پہلے نہ ہو جائے۔ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کے مرشد نے انہیں ایسا کرنے سے روکا یا نہیں۔ اس محبت بھری غلامی کی ایسی بیسیوں مثالیں اہل تصوف کے تمام مکاتب فکر میں ملتی ہیں۔

    اوپر بیان کردہ دونوں مکاتب فکر میں فرق صرف یہ ہے کہ دوسرے مکتب فکر کے مطابق مرشد کے انتقال کے بعد اس کے فیض کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کسی دوسرے کو مرشد بنا لیا جائے۔ فاضل مصنف بیان فرماتے ہیں:

    ایسے ہی شیخ کے انتقال کے بعد باجماع صوفیا و اولیاء دوسرا شیخ تلاش کرنا بھی واجب ہے۔۔۔ ایک آدمی کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول سے نکال رہا ہے۔ کھینچنے والا اپنے ڈول میں رسی باندھ کر کنویں میں ڈالتا ہے اور گرے ہوئے ڈولوں کو اپنے ڈول میں پھنسا کر باہر کھینچ لیتا ہے کہ اس کا انتقال ہو گیا۔ اب اس کا ڈول کنویں میں گرے ہوئے ڈولوں کو نہیں نکال سکتا چاہے گرے ہوئے ڈول اسے سے کتنا چپٹے رہیں۔ ان کو نکالنے کے لئے دوسرا زندہ آدمی آئے اور وہ اپنا ڈول ڈالے تب نکل سکیں گے۔ شیخ کے انتقال کے بعد لاکھ اس کی قبر پر مراقبہ کرتے رہو اصلاح نہیں ہو سکتی۔ لہذا مولانا رومی نے فرمایا کہ زندہ شیخ تلاش کرو کیونکہ انتقال کے بعد اس کا روحانی تعلق ختم ہو گیا۔

    یہ تمام معاملات محض کتابوں ہی میں لکھے نہیں ہوئے بلکہ صوفی سلسلوں میں ان پر پورے دل و جان سے عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جو صاحب مشاہدہ کرنا چاہیں وہ اہل تصوف کی کسی بھی مجلس میں شریک ہو کر اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

    اہل تصوف کے ان اقتباسات کو پیش کرنے کے بعد یہ بیان کرنا کچھ بہت زیادہ ضروری نہیں ہے کہ تصوف سے وابستگی کے نتیجے میں رضا کارانہ غلامی (Voluntary Slavery) کی وہ شکل وجود میں آتی ہے، جس کے سامنے قانونی غلامی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ مریدین اپنے مرشد کے سامنے خود کو حقیر ترین سمجھتے ہوئے ان کے ہر ہر اشارے پر عمل کرنے کو جس طرح تیار رہتے ہیں، اس کی مثال ہمیں قانونی غلامی یا جاگیردارانہ نظام میں نہیں مل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مریدین خود کو "سگ فلاں مرشد" یعنی " فلاں مرشد کا کتا" کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

    تصوف کی یہ تحریک مسلم معاشروں میں کوئی اجنبی تحریک نہ رہی تھی۔ قرون وسطی میں یہ تحریک مسلم معاشروں پر غیر معمولی طور پر اثر انداز ہوئی۔ پچھلے ایک ہزار برس میں ترکی سے لے کر برصغیر تک بلامبالغہ اربوں مسلمان اس تحریک کا حصہ بنے اور یہ سلسلہ آج تک پوری قوت اور شان و شوکت کے ساتھ جاری ہے۔ تصوف کی اس تحریک میں عام طور پر کم ذہین یا اوسط ذہانت کے افراد شامل ہوئے لیکن استثنائی طور پر یہ تحریک مسلم تاریخ کے بعض ذہین ترین افراد جیسے امام غزالی اور شاہ ولی اللہ کو بھی متاثر کر کے اپنا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

    خلاصہ بحث

    پچھلے ایک ہزار برس سے مسلم دنیا کا سوچنے سمجھنے اور لکھنے بولنے والا ذہین طبقہ تقلید اور عوام الناس کا طبقہ تصوف کے ذریعے نفسیاتی غلامی میں مبتلا رہا ہے۔ مسلم دنیا کی پوری تاریخ میں ایسے افراد کی شدید کمی رہی ہے جنہوں نے طے شدہ دائرے سے ہٹ کر سوچنے (Thinking outside the box) کی کوشش کی ہو۔ بعض جلیل القدر اہل علم نے کسی حد تک روایتی طریقے سے ہٹ کر غور و فکر کی کوشش کی لیکن ان حضرات کی فکر کو بالعموم مسلم معاشروں میں قبول عام حاصل نہیں ہوا۔

    ان سب حضرات کو اپنی زندگیوں میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں سے بہت سے حضرات کو کافر و مرتد قرار دے کر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ ایک طبقہ غیر روایتی طرز فکر سے متاثر ہوا بھی لیکن اس کا اثر مسلم معاشروں میں بالعموم محدود رہا ہے۔ ایسا ضرور رہا ہے کہ عیسائی دنیا کے برعکس ہمارے ہاں "آزادی فکر" کو قانون اور ڈنڈے کی طاقت سے نہیں بلکہ زیادہ تر شخصیتوں کی طاقت سے محدود کیا گیا ہے۔

    اس تفصیل سے پوری طرح یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسلم دنیا میں غلامی کے خاتمے کی کوئی تحریک شروع کیوں نہ ہو سکی؟ جب معاشرے کے ذہین ترین طبقے سے لے کر عام آدمی تک ہر شخص نفسیاتی غلامی میں نہ صرف مبتلا ہو بلکہ اس غلامی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتا ہو تو یہ خیال کسے سوجھ سکتا ہے کہ وہ غلامی کے خاتمے کی بات کرنے کی جرأت کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشروں میں اگرچہ غلامی کے خاتمے کی کمزور اندرونی تحریکیں موجود رہی ہیں لیکن فیصلہ کن طریقے پر غلامی کا خاتمہ اہل مغرب کے دباؤ پر ہی کیا گیا ہے۔

    اگلے ابواب میں ہم اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ مغربی معاشروں میں وہ کیا محرکات تھے جن کے نتیجے میں وہاں غلامی کے خاتمے کی تحریک شروع ہوئی۔
     
  26. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 16: قرون وسطی کے مغربی ممالک میں غلامی


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    قرون وسطی کے مغربی معاشروں میں غلامی کا ادارہ نہ صرف موجود تھا بلکہ یہ اپنی اسی شکل میں موجود تھا جس کی تفصیلات ہم سلطنت روما کے باب میں بیان کر چکے ہیں۔ یورپ کی پوری تاریخ میں جنگی قیدیوں کو غلام بنا کر ان سے بہیمانہ سلوک کیا جاتا رہا۔ انسانوں سے حسن سلوک کی عیسائی تعلیمات کے زیر اثر آہستہ آہستہ یہ ادارہ بہتر ہو کر مزارعت کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔ بعد کے ادوار میں غلامی کے ادارے میں ایک انقلاب رونما ہوا جو کہ یورپ کی بڑھتی ہوئی بحری قوت کا نتیجہ تھا۔ زیادہ بہتر ہو گا کہ اس کی تفصیلات کو ہم مغرب کے اپنے محققین کے الفاظ میں بیان کر دیں۔

    قدیم یورپ میں غلامی

    یورپ کے علاقے اسکنڈے نیویا (یعنی فن لینڈ، ناروے، سویڈن اور ڈنمارک) میں غلامی کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مغربی مصنف لکھتے ہیں:

    Slave catching and slave trade was one of the main occupations of the Vikings. Swedish Vikings, the Varangians or Rus, established strongholds and founded the first Russian state, Kievan Rus' during their trade and Slave catching operations. The Arab traveller Ibn Rustah recounts how they terrorized the Slavs and treated them like cattle. This trade was part of making the ethnic label Slav the name for "slave".

    "As for the Rus [Swedes], they live on an island … that takes three days to walk round and is covered with thick undergrowth and forests; … They harry the Slavs, using ships to reach them; they carry them off as slaves and … sell them. They have no fields but simply live on what they get from the Slav's lands … When a son is born, the father will go up to the newborn baby, sword in hand; throwing it down, he says, 'I shall not leave you with any property: You have only what you can provide with this weapon.'" (National Geographic, March 1985)

    In Scandinavia, a thrall was cheaper than cattle, a question of supply and demand. A child born by a thrall woman (a Thir) was a thrall by birth, whereas a child born by a free woman was a free person even if the father was a thrall. The most dishonourable way of becoming a thrall was by debt, and it was the first kind of thralldom to be forbidden. (Adam Wilson, Chief Executive Activist, http://www.downbound.com/Slavery_s/29.htm )

    غلاموں کو پکڑنا اور ان کی تجارت کرنا وائکنگز (اسکنڈے نیویا کے قرون وسطی کے باشندے) کے بڑے پیشوں میں سے ایک تھا۔ سویڈن کے وائکنگ، جو کہ وارنجینز یا رس کہلاتے تھے، نے غلام پکڑنے اور ان کی تجارت کے دوران ہی ایک مضبوط حکومت قائم کی اور پہلی روسی سلطنت "کیوان رس" کی بنیاد رکھی۔ عرب سیاح ابن رستہ نے ان طریقوں کا ذکر کیا ہے جن کی مدد سے وہ سلاوز (یعنی مشرقی یورپ کے باشندوں) کو خوفزدہ کرتے تھے اور ان سے مویشیوں کا سا سلوک کیا کرتے تھے۔ اس تجارت کی وجہ سے ہی لفظ "سلاو" ، "سلیو" میں تبدیل ہو گیا (جس کا معنی غلام ہے۔ ابن رستہ لکھتے ہیں:)

    "رس ایک جزیرے پر رہتے ہیں جو کہ گھنے پودوں اور جنگلات سے بھرا ہوا ہے اور تین دن میں اس کے گرد چکر لگایا جا سکتا ہے۔ یہ "سلاوز" کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ ان تک پہنچنے کے لئے بحری جہاز استعمال کرتے ہیں۔ انہیں پکڑ کر غلام بناتے ہیں اور پھر بیچ ڈالتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی کھیت نہیں ہیں۔ ان کی گزر بسر صرف اس پر ہوتی ہے جو وہ سلاووں کی زمین سے حاصل کرتے ہیں۔ جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا باپ تلوار لے کر اس کے پاس جاتا ہے اور اسے بچے کے پاس پھینک کر کہتا ہے، 'میں تمہارے لئے کوئی جائیداد نہیں چھوڑوں گا بلکہ صرف تمہیں یہ اسلحہ دوں گا جس سے تم اپنی روزی روٹی کما سکو گے۔' " (نیشنل جیوگرافی، مارچ 1985)

    اسکنڈے نیویا میں ایک غلام کی قیمت مویشی سے بھی کم تھی جو کہ ڈیمانڈ اور سپلائی کے قانون کی وجہ سے تھی۔ لونڈی کا بچہ بھی پیدائشی غلام ہوتا جبکہ آزاد عورت کا بچہ آزاد ہوتا اگرچہ اس کا باپ غلام ہی کیوں نہ ہوتا۔ غلام بنائے جانے کا سب سے برا طریقہ یہ تھا کہ مقروض کو غلام بنا لیا جائے۔ غلامی کی اس قسم کو سب سے پہلے ممنوع قرار دیا گیا۔

    کولمبیا الیکٹرانک انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگار تاریخ کے مختلف ادوار میں غلاموں کی صورتحال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

    The introduction of Christianity toward the end of the Roman Empire had no effect on the abolition of slavery, since the church at that time did not oppose the institution. However, a change in economic life set in and resulted in the gradual disappearance of the agricultural slaves, who became, for all practical purposes, one with the coloni (tenant farmers who were technically free but were in fact bound to the land by debts). This process helped prepare the way for an economy in which the agricultural slave became the serf.

    The semifreedom of serfdom was the dominant theme in the Middle Ages, although domestic slavery (and, to some extent, other forms) did not disappear. The church began to encourage manumission, while ignoring the fact that many slaves were attached to church officials and church property. Sale into slavery continued to be an extreme punishment for serious crimes.

    Slavery flourished in the Byzantine Empire, and the pirates of the Mediterranean continued their custom of enslaving the victims of their raids…… In Western Europe slavery largely disappeared by the later Middle Ages, although it still remained in such manifestations as the use of slaves on galleys. In Russia slavery persisted longer than in Western Europe, and indeed the serfs were pushed into the classification of slavery by Peter the Great.

    (The Columbia Electronic Encyclopedia, http://www.infoplease.com/ce6/bus/A0861124.html )

    سلطنت روم میں عیسائیت کے آغاز سے لے کر سلطنت کے اختتام تک غلامی کے خاتمے پر کوئی اثر نہ پڑ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چرچ نے اس وقت (موسوی شریعت کے برعکس) غلامی کے ادارے کی مخالفت نہ کی تھی۔ معاشی زندگی میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کے نتیجے میں زرعی غلام تدریجاً ختم ہوتے چلے گئے۔ عملی طور پر، تکنیکی اعتبار سے تو یہ کسان آزاد تھے لیکن یہ اپنے قرضوں کے باعث زمین سے جڑے ہوئے تھے۔ اس طریقے سے ایسی معیشت وجود پذیر ہوئی جس میں زرعی غلاموں کی جگہ مزارعوں نے لے لی۔

    قرون وسطی میں مزارعوں کی نیم غلامی کا تصور غالب رہا ہے۔ گھریلو غلامی اور اس کی دیگر شکلیں بہرحال ختم نہ ہو سکیں۔ چرچ نے غلاموں کو آزادی دینے کی حوصلہ افزائی کی لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ بہت سے غلام تو چرچ کی جائیداد اور چرچ کے ملازموں سے وابستہ ہیں۔ بہت سے جرائم کی سزا کے طور پر غلام بنائے جانے کی رسم بھی موجود رہی۔

    بازنطینی سلطنت میں غلامی پھلتی پھولتی رہی اور بحیرہ روم کے حملہ آوروں نے اپنے شکاروں کو غلام بنا لینے کی رسم جاری رکھی۔۔۔۔ مغربی یورپ میں قرون وسطی کے آخر کے ادوار میں غلامی ختم ہونا شروع ہو گئی تھی مگر یہ کچھ جگہوں پر باقی رہ گئی جیسے بحری جہازوں میں غلاموں کو بطور ملاح استعمال کیا جاتا رہا۔ روس میں مغربی یورپ کی نسبت غلامی زیادہ عرصہ چلی اور پیٹر اعظم کے حکم کے تحت مزارعوں کو زبردستی غلام بنایا گیا۔

    مذہبی بنیادوں پر غلامی

    یورپ میں مذہبی بنیادوں پر غلامی کی رسم موجود رہی ہے۔ مذہبی راہنماؤں کے حکم سے یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے ان فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر، جو کلیسا سے کسی درجے میں اختلاف رکھتے تھے، حملہ کیا اور انہیں وسیع تعداد میں قتل کرنے کے بعد باقی بچ جانے والوں کو غلام بنا لیا گیا۔

    یہودیوں کی غلامی

    پہلی صلیبی جنگوں میں مذہبی راہنماؤں نے عوام کو مسلمانوں کے خلاف مشتعل کیا اور مقدس سرزمین کو ان کافروں سے پاک کروانے کے لئے مذہبی جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ مذہبی جوش سے بھرے ہوئے جرمنوں اور فرانسیسیوں کی جو فوج تیار ہوئی، اس کا ابتدائی نشانہ مسلمانوں کی بجائے یہودی بنے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وکی پیڈیا کے مقالہ نگار لکھتے ہیں؛

    The preaching of the First Crusade inspired an outbreak of anti-Semitism. In parts of France and Germany, Jews were perceived as just as much an enemy as Muslims: they were thought to be responsible for the crucifixion, and they were more immediately visible than the distant Muslims. Many people wondered why they should travel thousands of miles to fight non-believers when there were already non-believers closer to home…..

    After the success of the First Crusade in the Holy Land, the Jews in Jerusalem were either slaughtered along with the Muslims, or expelled and forbidden from living in the city, unlike the traditional Islamic tolerance - at the price of a tax - for Christians and Jews.

    (Wikipedia, http://en.wikipedia.org/wiki/Persecution_of_Jews_in_the_First_Crusade )

    پہلی صلیبی جنگ کی تبلیغ کے نتیجے میں اینٹی سامیت (سام کی نسلوں کو تباہ کرنے کا نظریہ) نے جنم لیا۔ فرانس اور جرمنی میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر کا دشمن سمجھا گیا۔ انہیں مسیح کو صلیب دینے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ چونکہ یہ لوگ دور رہنے والے مسلمانوں کی نسبت زیادہ قریب تھے، اس وجہ سے بہت سے لوگوں نے یہ سوچا کہ کافروں سے جنگ کرنے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کیوں کیا جائے جبکہ کافر تو اپنے گھر کے قریب ہی موجود ہیں۔۔۔۔

    مقدس سرزمین میں پہلی مقدس جنگ کے اختتام پر، یروشلم کے یہودیوں کو یا تو مسلمانوں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا، یا پھر انہیں جلا وطن کر کے شہروں میں رہنے سے منع کر دیا گیا۔ یہ روایتی اسلامی رواداری کے برعکس تھا جس میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیہ کی ادائیگی کے بدلے (آزاد رہنے کی اجازت تھی۔)

    اس جنگ کا نقشہ کھینچتے ہوئے آگسٹ سی کرے لکھتے ہیں:

    But Emico and the rest of his band held a council and, after sunrise, attacked the Jews in the hall with arrows and lances. Breaking the bolts and doors, they killed the Jews, about seven hundred in number, who in vain resisted the force and attack of so many thousands. They killed the women, also, and with their swords pierced tender children of whatever age and sex. The Jews, seeing that their Christian enemies were attacking them and their children, and that they were sparing no age, likewise fell upon one another, brother, children, wives, and sisters, and thus they perished at each other's hands. Horrible to say, mothers cut the throats of nursing children with knives and stabbed others, preferring them to perish thus by their own hands rather than to be killed by the weapons of the uncircumcised.

    From this cruel slaughter of the Jews a few escaped; and a few because of fear, rather than because of love of the Christian faith, were baptized. With very great spoils taken from these people, Count Emico, Clarebold, Thomas, and all that intolerable company of men and women then continued on their way to Jerusalem.

    (Mideval Source Book, http://www.fordham.edu/halsall/source/1096jews.html )

    (صلیبی مجاہد) ایمیکو اور اس کے ساتھیوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور سورج نکلتے ہی انہوں نے تیروں اور نیزوں سے اس ہال پر حملہ کر دیا (جس میں بشپ نے یہودیوں کو پناہ دی تھی)۔ دروازوں اور ان کے بولٹس کو توڑتے ہوئے انہوں نے سات سو یہودیوں کو قتل کر دیا جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں موجود اس فوج کے راستے میں مزاحمت کی تھی۔ انہوں نے خواتین کو بھی قتل کیا اور ان کی تلواروں نے ہر عمر اور جنس کے بچوں کے ٹکڑے اڑا دیے۔

    یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے صلیبی دشمن ان کے بچوں پر حملہ کر رہے ہیں اور کسی عمر کے بچے کو بھی معاف نہیں کر رہے تو وہ ایک دوسرے کے اوپر گرتے چلے گئے۔ بھائی، بچے، بیویاں، بہنیں، انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہ ایک خوفناک بات ہے کہ ماؤں نے اپنے دودھ پیتے بچوں کا گلا خود چھریوں سے کاٹ ڈالا اور ایک دوسرے کے (خنجر و نیزے) گھونپ دیے۔ وہ اس بات کو ترجیح دیتے تھے کہ غیر ختنہ شدہ افراد کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ اپنے ہاتھوں ہی سے مرا جائے۔

    اس ظالمانہ قتل سے بعض یہودی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور بعض عیسائی مذہب کی محبت میں نہیں بلکہ خوف کی وجہ سے بپتسمہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ان لوگوں سے بے پناہ مال غنیمت لوٹنے کے بعد، کاؤنٹ ایمیکو، کلیئر بورڈ، تھامس اور مردوں و عورتوں کی غیر روادار جماعت نے یروشلم تک یہی عمل جاری رکھا۔

    مسلمانوں کی غلامی

    سینڈرسن بیک صلیبی جنگوں کے بڑے لیڈروں ریمنڈ اور بوھمنڈ کے کارنامے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    Raymond captured Albara; even though they had capitulated, all the Muslims were either killed or sold as slaves…. Raymond's and Bohemond's forces besieged Maarat an-Numan. Bohemond promised the defenders refuge; but the men were slaughtered, and the women and children were enslaved. Bohemond tried to spread terror by killing prisoners and roasting their heads.

    (Sanderson Beck, Ethics of Civilizations, http://san.beck.org/AB18-Crusaders.html#1 )

    البرا پر قبضہ کرنے کے بعد، اگرچہ وہاں کے باشندوں نے ہتھیار ڈال کر صلح کر لی تھی، تمام مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا یا پھر انہیں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔۔۔۔ ریمنڈ اور بوھمنڈ کی افواج نے مرآۃ النعمان کا محاصرہ کر لیا۔ بوھمنڈ نے محصورین کو معاف کرنے کا اعلان کی لیکن ان کے مردوں کو ذبح کر دیا گیا اور خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا۔ بوھمنڈ نے قیدیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے سروں کو بھون کر خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی۔

    ایڈورڈ گبن لکھتے ہیں:

    In the double city of Mopsuestia, which is divided by the River Sarus, two hundred thousand Moslems were predestined to death or slavery, a surprising degree of population, which must at least include the inhabitants of the dependent districts. (Edward Gibbon, The History of Decline& Fall of Roman Empire, http://www.ccel.org )

    میسو پوٹیمیا کے جڑواں شہر میں، جس کے درمیان سے دریائے سارس گزرتا ہے، دو لاکھ مسلمانوں کو موت یا غلامی کی سزا سنائی گئی جو کہ حیرت انگیز طور پر آبادی کا بڑا حصہ تھا جس میں کم از کم ان ضلعوں کی پوری آبادی شامل تھی۔

    پہلی صلیبی جنگ میں یروشلم کی فتح کی منظر کشی کرتے ہوئے آگسٹ کرے لکھتے ہیں:

    The battle raged throughout the day, so that the Temple was covered with their blood. When the pagans had been overcome, our men seized great numbers, both men and women, either killing them or keeping them captive, as they wished.

    (August C. Krey, http://www.fordham.edu/halsall/source/gesta-cde.html#jerusalem2 )

    جنگ پورا دن جاری رہی اور بیت المقدس ان کے خون سے بھر گیا۔ جب کفار (مسلمانوں) پر قابو پا لیا گیا تو ہمارے مردوں نے ان کے مردوں اور عورتوں کو کثیر تعداد میں گرفتار کر لیا اور اپنی اپنی خواہش کے مطابق انہیں یا تو قتل کر دیا گیا اور یا پھر غلام بنا لیا گیا۔

    تیرہویں صدی کے آغاز میں یورپ میں بچوں کی ایک تحریک پیدا ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے کے لئے بچوں کا ایک بہت بڑا گروہ مارچ کرتا ہوا یروشلم تک جائے۔ بہت سے بچوں نے حلف اٹھا کر اس تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ یہ تحریک ناکام رہی اور اس میں شامل بچوں کو افریقیوں کے علاوہ خود یورپیوں نے بھی غلام بنا لیا۔

    Accounts vary concerning what happened next, but all agree that few of the kids made it home. Some say one group went to Rome, where the pope released many of them from their crusaders' vows. Some may have been sold into slavery, others shipwrecked. (Cecil Adams, http://www.straightdope.com/columns/040409.html )

    اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ان میں سے بہت کم بچے اپنے گھروں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک گروہ روم چلا گیا جہاں پوپ نے انہیں ان کے صلیبی حلف سے آزاد کیا۔ بعض بچوں کو غلامی میں فروخت کر دیا گیا ہو گا اور بعض جہازوں سمیت سمندر میں ڈوب گئے ہوں گے۔

    صلیبی جنگوں کے کئی سو سال بعد اندلس کی فتح کے بعد اسپین کے مسلمانوں کو بھی کثیر تعداد میں غلام بنا لیا گیا۔

    In Spain and Portugal, where the reconquest of the peninsula from the Moors in the 15th century created an acute shortage of labour, captured Muslims were enslaved. (The Free Dictionary, http://encyclopedia.farlex.com/Chattel slaves )

    اسپین اور پرتگال کے جزیرہ نما کو جب موروں (ہسپانوی مسلمانوں) سے پندہرویں صدی میں خالی کروایا گیا تو اس کے نتیجے میں مزدوروں کی بہت کمی واقع ہو گئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو غلام بنا لیا گیا۔

    اہل مغرب کی مذہبی و نفسیاتی غلامی

    قرون وسطی کے یورپ میں غلامی کی ایک ایسی قسم پائی جاتی تھی جس کی مثال دیگر اقوام میں کم ہی ملتی ہے۔ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں اس قسم کی غلامی کسی حد تک مسلم ممالک میں بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کی نوعیت اور شدت قرون وسطی کے یورپ کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔

    انکوئزیشن کے ادارے کا قیام

    بنیادی طور پر یہ غلامی کلیسا کی فکری اور نظریاتی بالادستی کی بنیاد پر قائم تھی۔ پورے یورپ کے عیسائی بھی اس غلامی کا شکار تھے۔ پوپ کا حکم حتمی درجہ رکھتا تھا اور اس سے اختلاف رائے رکھنے والے شخص کو مرتد قرار دے کر اسے مذہبی عدالتوں (Inquisition Courts) کے ذریعے سزا دی جایا کرتی تھی۔ ان عدالتوں کا مقصد ہر قسم کے مذہبی انحراف کو روکنا تھا۔ مشہور سائنسدانوں اور مفکرین، جن میں گلیلیو، برونو، سریمونینی وغیرہ شامل تھے، ان عدالتوں کا شکار بنے۔ اس کی کچھ تفصیلات ہم یہاں بیان کر رہے ہیں۔ البرٹ وان ھلڈن نے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں فرقوں کے نظریات سے بالاتر ہو کر انکوئیزیشن کی تاریخ بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    The Inquisition was a permanent institution in the Catholic Church charged with the eradication of heresies. Unlike many other religions (e.g., Buddhism, Judaism), the Catholic Church has a hierarchical structure with a central bureaucracy. In the early years of the church, there were several competing sects that called themselves Christian. But after the Emperor Constantine I (280-337 CE) made Christianity the state religion of the Roman Empire and the local administrative structures were pulled together into one hierarchy centered in Rome, doctrinal arguments were settled by Church Councils, beginning with the Council of Nicea in 325 (which formulated the Nicean Creed). Those whose beliefs or practices deviated sufficiently from the orthodoxy of the councils now became the objects of efforts to bring them into the fold. Resistance often led to persecution.

    Heresies (from L. haeresis, sect, school of belief) were a problem for the Church from the beginning. In the early centuries there were the Arians and Manicheans; in the Middle Ages there were the Cathari and Waldenses; and in the Renaissance there were the Hussites, Lutherans, Calvinists, and Rosicrucians. Efforts to suppress heresies were initially ad hoc. But in the Middle Ages a permanent structure came into being to deal with the problem. Beginning in the 12th century, Church Councils required secular rulers to prosecute heretics.

    In 1231, Pope Gregory IX published a decree which called for life imprisonment with salutary penance for the heretic who had confessed and repented and capital punishment for those who persisted. The secular authorities were to carry out the execution. Pope Gregory relieved the bishops and archbishops of this obligation, and made it the duty of the Dominican Order, though many inquisitors were members of other orders or of the secular clergy. By the end of the decade the Inquisition had become a general institution in all lands under the purview of the Pope. By the end of the 13th centuries the Inquisition in each region had a bureaucracy to help in its function.

    The judge, or inquisitor, could bring suit against anyone. The accused had to testify against himself/herself and not have the right to face and question his/her accuser. It was acceptable to take testimony from criminals, persons of bad reputation, excommunicated people, and heretics. The accused did not have right to counsel, and blood relationship did not exempt one from the duty to testify against the accused. Sentences could not be appealed. Sometimes inquisitors interrogated entire populations in their jurisdiction.

    The inquisitor questioned the accused in the presence of at least two witnesses. The accused was given a summary of the charges and had to take an oath to tell the truth. Various means were used to get the cooperation of the accused. Although there was no tradition of torture in Christian canon law, this method came into use by the middle of the 13th century. The findings of the Inquisition were read before a large audience; the penitents abjured on their knees with one hand on a bible held by the inquisitor. Penalties went from visits to churches, pilgrimages, and wearing the cross of infamy to imprisonment (usually for life but the sentences were often commuted) and (if the accused would not abjure) death.

    Death was by burning at the stake, and it was carried out by the secular authorities. In some serious cases when the accused had died before proceedings could be instituted, his or her remains could be exhumed and burned. Death or life imprisonment was always accompanied by the confiscation of all the accused's property.

    Abuses by local Inquisitions early on led to reform and regulation by Rome, and in the 14th century intervention by secular authorities became common. At the end of the 15th century, under Ferdinand and Isabel, the Spanish inquisition became independent of Rome. In its dealings with converted Moslems and Jews and also illuminists, the Spanish Inquisition with its notorious autos-da-fé represents a dark chapter in the history of the Inquisition. In northern Europe the Inquisition was considerably more benign: in England it was never instituted, and in the Scandinavian countries it had hardly any impact.

    Pope Paul III established, in 1542, a permanent congregation staffed with cardinals and other officials, whose task it was to maintain and defend the integrity of the faith and to examine and proscribe errors and false doctrines. This body, the Congregation of the Holy Office, now called the Congregation for the Doctrine of the Faith, part of the Roman Curia, became the supervisory body of local Inquisitions. The Pope himself holds the title of prefect but never exercises this office. Instead, he appoints one of the cardinals to preside over the meetings. There are usually ten other cardinals on the Congregation, as well as a prelate and two assistants all chosen from the Dominican order.

    The Holy Office also has an international group of consultants, experienced scholars of theology and canon law, who advise it on specific questions. In 1616 these consultants gave their assessment of the propositions that the Sun is immobile and at the center of the universe and that the Earth moves around it, judging both to be "foolish and absurd in philosophy," and the first to be "formally heretical" and the second "at least erroneous in faith" in theology. This assessment led to Copernicus's De Revolutionibus Orbium Coelestium to be placed on the Index of Forbidden Books, until revised and Galileo to be admonished about his Copernicanism. It was this same body in 1633 that tried Galileo.

    (Albert Van Helden, The Galileio Project, http://galileo.rice.edu/chr/inquisition.html )

    انکوئزیشن، کیتھولک چرچ کا ایک مستقل ادارہ تھا جس کا مقصد انحراف کا خاتمہ کرنا تھا۔ یہودیت اور بدھ مذہب جیسے دیگر مذاہب کے برعکس کیتھولک چرچ میں مرکزی بیوروکریسی کے ساتھ ایک مخروطی تنظیمی ڈھانچہ (Hierarchy) موجود تھا۔ چرچ کے ابتدائی سالوں میں عیسائی کہلانے والے بہت سے فرقے موجود تھے جو ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے۔

    شہنشاہ قسطنطین (280-337CE) کے بعد عیسائیت سلطنت روما کا سرکاری مذہب قرار پائی اور مقامی تنظیموں کو اکٹھا کر کے ایک ہائیرارکی کی شکل دے دی گئی جس کا مرکز روم میں تھا۔ علم کلام (عقائد) سے متعلق مباحث کا فیصلہ چرچ کی کونسلیں کرنے لگیں۔ اس کا آغاز 325ء میں کونسل آف نائسیا سے ہوا جس نے نائسین عقائد کو تشکیل دیا۔ جن فرقوں کے عقائد یا اعمال میں کونسلوں کے عمومی نظریات سے انحراف پیدا ہو جاتا تو یہ انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کشش کرتے۔ اس مذہبی جبر کے خلاف اکثر اوقات مزاحمت بھی پیدا ہو جایا کرتی تھی۔

    انحراف شروع ہی سے چرچ کے لئے ایک مسئلہ رہا تھا۔ شروع کی صدیوں میں آرینزم اور مانی ازم کے فلسفے، قرون وسطی میں کتھاری اور والڈن ازم کے نظریات، اور رینی ساں کے دور میں ہسی، لوتھر، کیلون اور روزی کروشن ازم کے فرقے موجود رہے ہیں۔ منحرف نظریات کو دبانے کی کوششیں شروع میں عارضی نوعیت کی تھیں لیکن قرون وسطی میں ایک مستقل ادارہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بنا دیا گیا۔ بارہویں صدی کی ابتدا میں چرچ کی کونسلوں نے حکمرانوں سے منحرف نظریات کے حاملین کو سزا دینے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

    1231ء میں پوپ گریگوری نہم نے ایک فتوے میں اعتراف اور توبہ کرنے والے منحرفین کے لئے توبہ کے ساتھ ساتھ عمر قید اور انحراف پر قائم رہنے والوں کے لئے موت کی سزا کا حکم جاری کیا۔ اس سزا پر عمل درآمد دنیاوی حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ پوپ گریگوری نے بشپ اور آرک بشپ حضرات کو اس ذمہ داری سے مستثنی قرار دیتے ہوئے اسے ڈومینیکن سلسلے کے مبلغین کے ذمہ لگا دیا، اگرچہ احتساب کرنے والوں میں سے بہت سے دوسرے سلسلوں یا حکومتی علماء کے گروہوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس عشرے کے اختتام تک انکوئزیشن ایک عام ادارہ بن چکا تھا جس کا اطلاق ان تمام ممالک پر ہوتا تھا جو پوپ کے ماتحت سمجھے جاتے تھے۔ تیرہویں صدی کے اختتام تک ہر علاقے میں انکوئزیشن کی خدمات انجام دینے کے لئے ایک بیوروکریسی وجود میں آ چکی تھی۔

    جج یا احتساب کرنے والے کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ کسی کے خلاف بھی مقدمہ شروع کر دے۔ مدعی علیہ کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے خلاف گواہی دے اور اسے یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ مدعی کا مقابلہ کرے یا اس پر اعتراض کرے۔ (مدعی کے حق میں) مجرموں، بری شہرت رکھنے والے افراد، ملعون قرار دیے جانے والے افراد اور مرتدوں کی گواہی کو بھی قبول کر لیا جاتا تھا۔ مدعی علیہ کو مشورہ کرنے کا حق بھی حاصل نہ تھا اور اس کے خونی رشتے داروں کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اس کے خلاف گواہی دیں۔ جج کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی نہ کی جا سکتی تھی۔ بعض جج اپنے علاقے کی پوری آبادی سے تفتیش کیا کرتے تھے۔

    جج، مدعی علیہ پر دو گواہوں کی موجودگی میں جرح کرتا۔ مدعی علیہ کو اس کے جرائم کا خلاصہ دیا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ وہ سچ بولنے کی قسم کھائے۔ اس کا تعاون حاصل کرنے کے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے تھے۔ اگرچہ عیسائیت کے کینن قانون میں تشدد کی روایت موجود نہ تھی لیکن تیرہویں صدی کے وسط میں یہ طریقہ بھی استعمال کیا جانے لگا۔

    تفتیش کے نتائج ایک بڑے مجمع کے سامنے پڑھ کر سنائے جاتے۔ توبہ کرنے والے شخص کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنا گھٹنا ٹیک کر اور ایک ہاتھ بائبل پر رکھ کر توبہ کرے جو جج نے تھامی ہوتی تھی۔ (انحراف کی نوعیت کے مطابق) دی جانے والی سزاؤں میں گرجے میں عبادت، مقدس مقامات کی زیارت اور سزا یافتہ افراد کے لئے مخصوص صلیب پہننے سے لے کر قید کی سزا شامل ہوتی تھی۔ یہ عام طور پر عمر قید کی سزا ہوتی لیکن اکثر اوقات توبہ کے نتیجے میں سزاؤں میں تخفیف کر دی جاتی تھی۔ اگر مدعی علیہ توبہ کرنے پر تیار نہ ہوتا تو اسے موت کی سزا دے دی جاتی تھی۔

    موت کی سزا عام طور پر کھمبے سے لٹکا کر جلا دینے کی صورت میں دی جاتی تھی اور اس پر عمل درآمد دنیاوی حکمران کروایا کرتے تھے۔ سنگین انحراف کی صورت میں اگر کوئی شخص تفتیش کے دوران مر جاتا تو اس کی باقیات کو قبر سے اکھاڑا اور جلایا جا سکتا تھا۔ موت یا عمر قید کی سزا کے ساتھ ہمیشہ مدعی علیہ کی جائیداد کو ضبط کر لیا جاتا۔

    مقامی انکوئزیشن میں بے اعتدالیوں کی صورت میں، پہلے تو رومی حکمرانوں نے اس کی اصلاح کرنے اور اسے قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کی لیکن چودہویں صدی میں انہوں نے اس عمل میں دخل اندازی بھی شروع کر دی تھی۔ پندہرویں صدی میں فرڈینینڈ اور ازابیل (اندلس میں مسلم حکومت کا خاتمہ کرنے والا حکمران جوڑا) کے دور میں اسپین کی انکوئزیشن، رومی انکوئزیشن سے علیحدہ ہو گئی۔ اسپینی انکوئزیشن نے مسلمانوں، یہودیوں اور الیومینسٹ فرقے کے ساتھ جو سلوک کیا وہ انکوئزیشن کی تاریخ کا سب سے تاریک باب ہے۔ شمالی یورپ میں البتہ انکوئزیشن کافی بے ضرر رہی ہے۔ انگلینڈ میں اس نے کبھی ادارے کی شکل اختیار نہیں کی اور اسکنڈے نیوین ممالک میں تو اس کا شاید ہی کوئی اثر ہوا ہو۔

    1542ء میں پوپ پال سوئم نے ایک مستقل مذہبی ادارہ قائم کیا جس میں کارڈینل (کیتھولک چرچ کی اعلی ترین کونسل کے ممبر) اور دوسرے افسران کام کرتے تھے۔ ان کا کام ہی مذہب کی حفاظت اور غلط اور گمراہ کن نظریات کا خاتمہ کرنا تھا۔ یہ ادارہ پہلے "مقدس آفس کا ادارہ" کہلاتا تھا، پھر اس کا نام "فلسفہ ایمان کا ادارہ" ہو گیا اور یہ رومی چرچ کی اعلی ترین کونسل کا حصہ بن گیا۔ اگرچہ پوپ خود اس کے سربراہ کا ٹائٹل رکھتے تھے لیکن وہ اسے چلانے میں عملی حصہ نہ لیتے تھے۔ اس کی بجائے وہ کسی ایک کارڈینل کو اس ادارے کی میٹنگ کی صدارت کے لئے نامزد کر دیتے۔ اس کے علاوہ اس کمیٹی میں عام طور پر دس مزید کارڈینل، ایک سینئر پادری اور اس کے دو نائبین ہوا کرتے تھے جن کا انتخاب ڈومینکن سلسلے میں سے ہوتا تھا۔

    مقدس آفس کے ساتھ ماہرین کا ایک بین الاقوامی گروہ بھی ہوا کرتا تھا جو فلسفہ مذہب اور کینن کے قانون کے تجربہ کار ماہرین پر مشتمل ہوتا تھا۔ ان ماہرین سے مخصوص سوالات کے سلسلے میں رائے لی جاتی تھی۔ 1616ء میں ان ماہرین نے فتوی جاری کیا: یہ نظریہ کہ "سورج ساکن ہے اور کائنات کا مرکز ہے اور زمین اس کے گرد گردش کرتی ہے" ایک احمقانہ اور نامعقول فلسفیانہ نظریہ ہے۔ انہوں نے ایک تو اسے "ملحدانہ" نظریہ قرار دیا اور پھر اسے مذہبی فلسفے کی روشنی میں "کم از کم غلط" قرار دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوپرنیکس کی کتاب کو ممنوعہ کتب کی فہرست میں شامل کر لیا گیا جب تک کہ اسے تبدیل نہ کر دیا جائے۔ گلیلیو کو کوپرنیکس کے نظریے پر یقین رکھنے کے جرم میں سخت وارننگ دی گئی۔ یہی وہ ادارہ تھا جس نے 1633ء میں گلیلیو سے عدالتی تفتیش کی تھی۔

    زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ اس موقع پر کیتھولک حضرات کا نقطہ نظر بھی پیش کر دیا جائے۔ کیتھولک فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب علم کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں لکھتے ہیں:

    During the first three decades of the thirteenth century the Inquisition, as the institution, did not exist. But eventually Christian Europe was so endangered by heresy, and penal legislation concerning Catharism had gone so far, that the Inquisition seemed to be a political necessity. That these sects were a menace to Christian society had been long recognized by the Byzantine rulers.

    As early as the tenth century Empress Theodora had put to death a multitude of Paulicians, and in 1118 Emperor Alexius Comnenus treated the Bogomili with equal severity, but this did not prevent them from pouring over all Western Europe. Moreover these sects were in the highest degree aggressive, hostile to Christianity itself, to the Mass, the sacraments, the ecclesiastical hierarchy and organization; hostile also to feudal government by their attitude towards oaths, which they declared under no circumstances allowable.

    Nor were their views less fatal to the continuance of human society, for on the one hand they forbade marriage and the propagation of the human race, and on the other hand they made a duty of suicide through the institution of the Endura (see CATHARI). It has been said that more perished through the Endura (the Catharist suicide code) than through the Inquisition. It was, therefore, natural enough for the custodians of the existing order in Europe, especially of the Christian religion, to adopt repressive measures against such revolutionary teachings….

    It was certainly customary to grant the accused person his freedom until the sermo generalis, were he ever so strongly inculpated through witnesses or confession; he was not yet supposed guilty, though he was compelled to promise under oath always to be ready to come before the inquisitor, and in the end to accept with good grace his sentence…..

    Curiously enough, torture was not regarded as a mode of punishment, but purely as a means of eliciting the truth. It was not of ecclesiastical origin, and was long prohibited in the ecclesiastical courts. Nor was it originally an important factor in the inquisitional procedure, being unauthorized until twenty years after the Inquisition had begun. It was first authorized by Innocent IV in his Bull "Ad exstirpanda" of 15 May, 1252, which was confirmed by Alexander IV on 30 November, 1259, and by Clement IV on 3 November, 1265…..

    But one of the difficulties of the procedure is why torture was used as a means of learning the truth. On the one hand, the torture was continued until the accused confessed or intimated that he was willing to confess. On the other hand, it was not desired, as in fact it was not possible, to regard as freely made a confession wrung by torture….

    Most of the punishments that were properly speaking inquisitional were not inhuman, either by their nature or by the manner of their infliction. Most frequently certain good works were ordered, e.g. the building of a church, the visitation of a church, a pilgrimage more or less distant, the offering of a candle or a chalice, participation in a crusade, and the like. Other works partook more of the character of real and to some extent degrading punishments, e.g. fines, whose proceeds were devoted to such public purposes as church-building, road-making, and the like; whipping with rods during religious service; the pillory; the wearing of coloured crosses, and so on. The hardest penalties were imprisonment in its various degrees, exclusion from the communion of the Church, and the usually consequent surrender to the civil power.….

    Officially it was not the Church that sentenced unrepenting heretics to death, more particularly to the stake.

    (Catholic Encyclopedia, Inquisition, http://www.newadvent.org/cathen/08026a.htm )

    تیرہویں صدی کی پہلے تین عشروں میں انکوئزیشن، بطور ادارہ موجود نہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ عیسائی یورپ کو مذہبی انحراف سے خطرہ محسوس ہوا۔ کیتھرزم (ایک عیسائی فرقہ) کے خلاف سزاؤں پر مشتمل قانون سازی اتنی دور تک چلی گئی کہ انکوئزیشن کو ایک سیاسی ضرورت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ یہ فرقے عیسائی معاشرے کے لئے ایک خطرہ تھے جسے ایک طویل عرصے سے بازنطینی حکمران قبول کئے ہوئے تھے۔

    دسویں صدی میں ملکہ تھیوڈورا نے پالیشین فرقے (ایک عیسائی فرقہ) سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کو موت کی سزا دی۔ 1118ء میں شہنشاہ الیکسس کامنینس نے بوگومیلی فرقے (ایک اور عیسائی فرقہ) کے ساتھ ایسا ہی سخت سلوک کیا لیکن یہ معاملہ پورے مغربی یورپ میں نہ پھیل سکا۔ اس کے علاوہ یہ فرقے بہت شدت پسند تھے اور عیسائیت، اس کی عبادات و رسومات اور چرچ کی تنظیم کے دشمن تھے۔ یہ فرقے مقامی جاگیردارانہ حکومتوں کے بھی دشمن تھے۔ ان کی دشمنی کا اظہار اپنے حلف سے متعلق ان کے رویے سے ہوتا ہے۔ انہوں نے فتوی جاری کیا کہ جاگیرداری کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔

    ان کے عقائد و نظریات انسانی معاشرے کو جاری رکھنے کے بھی خلاف تھے۔ انہوں نے ایک طرف شادی کی ممانعت کی اور نسل انسانی کو پھیلانے سے روکا اور دوسری طرف انہوں نے اندورا (کتھاری فرقے کا خودکشی کرنے کا قانون) کے ادارے کے ذریعے خودکشی کو فرض قرار دیا۔ یہ کہا جاتا ہے اندورا کے قانون کے تحت جتنے لوگ موت سے ہمکنار ہوئے ان کی تعداد ان سے زیادہ ہے جو انکوئزیشن کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ اس وجہ سے یہ ایک فطری بات یہ تھی کہ یورپ کا نظام، خاص طور پر عیسائی مذہب، ان انقلابی تعلیمات کے خلاف اقدامات کرتا۔

    یہ بات یقینی ہے کہ مدعی علیہ کو اس وقت تک آزادی دی جاتی تھی جب تک کہ اس کا جرم (یعنی مختلف عقائد) گواہی یا اعتراف کی صورت میں مضبوطی سے ثابت نہ ہو جائے۔ اسے اب بھی سزا نہ دی جاتی تھی بلکہ اسے حلف کے تحت یہ وعدہ کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ جج کے سامنے آنے کے لئے ہمیشہ تیار رہے گا اور آخر میں اس کے فیصلے کو سچے دل سے تسلیم کر لے گا۔

    یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ تشدد سزا کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ صرف سچ اگلوانے کے لئے کیا جاتا تھا۔ اپنی اصل میں بھی یہ چرچ کی روایت نہ تھی بلکہ لمبے عرصے تک چرچ کی قائم کردہ عدالتوں میں تشدد ممنوع رہا ہے۔ اپنی اصل میں، تشدد تفتیشی عمل میں کوئی خاص اہمیت بھی نہ رکھتا تھا اور انکوئزیشن کے آغاز کے بعد بیس سال تک اس کی اجازت بھی نہیں تھی۔ تشدد کی سب سے اجازت انوسینٹ چہارم نے 15 مئی 1252ء کو دی جس کی توثیق بعد میں الیگزنڈر چہارم نے 30 نومبر 1259ء کو اور کلیمنٹ چہارم نے 3 نومبر 1265ء کو کی۔

    اس عمل میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تشدد کو سچائی اگلوانے کے لئے استعمال ہی کیوں جاتا تھا۔ ایک طرف تو تشدد اس وقت تک کیا جاتا تھا جب تک کہ مدعی علیہ (منحرف عقائد و اعمال کا) اعتراف نہ کر لے یا پھر یہ اشارہ نہ دے دے کہ وہ اعتراف کرنے کے لئے تیار ہے۔ دوسری طرف تشدد کوئی بہت پسندیدہ ذریعہ بھی نہ تھا کیونکہ تشدد کے ذریعے کروایا گیا اعتراف بہرحال آزادانہ اعتراف تو نہیں سمجھا جا سکتا۔

    انکوئزیشن کی زیادہ تر سزائیں اپنی نوعیت یا طریق کار کے اعتبار غیر انسانی نہیں تھیں۔ اکثر اوقات تو (بطور سزا) نیک کام کا ہی حکم دیا جاتا جیسے گرجے کی تعمیر، گرجے میں حاضری، قریب یا دور واقع کسی مقدس مقام کی زیارت، (لوگوں کو) موم بتی یا پیالہ پیش کرنا (یعنی چرچ میں خدمت)، مذہبی جنگ میں شریک ہونا وغیرہ وغیرہ۔

    دیگر سزاؤں میں کسی حد تک حقیقی نقصان یا تذلیل کا پہلو پایا جاتا ہے جیسے جرمانے جو کہ سماجی مقاصد جیسے گرجے یا سڑک کی تعمیر وغیرہ کے لئے استعمال ہوتے تھے، عبادت کےدوران چھڑی سے پٹائی، عوام کے سامنے ستون سے باندھ دینا، رنگین صلیب پہننا وغیرہ وغیرہ۔ سب سے سخت سزا قید کرنا ہوتی تھی جس کے مختلف درجات تھے۔ چرچ کی کمیونٹی سے انخلاء بھی سخت سزا ہوتی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ وہ شخص قانون کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہو جایا کرتا تھا۔ رسمی طور پر چرچ، توبہ نہ کرنے والے منحرفین کو لٹکا کر موت کی سزا نہیں دیا کرتا تھا

    کیتھولک انسائیکلوپیڈیا نے انکوئزیشن کو حق بجانب ثابت کرنے کی جو کوشش کی ہے، اس سے کم از کم یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ چرچ کے طے شدہ عقائد و اعمال سے انحراف کرنے والوں کو بہرحال تفتیش کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا۔ اگرچہ انکوئزیشن کے ابتدائی ادوار میں دوران تفتیش تشدد نہیں کیا جاتا تھا لیکن بعد میں یہ اس عمل کا اگرچہ ناپسندیدہ ہی سہی، لیکن حصہ بن گیا۔

    توبہ کی صورت میں بھی منحرفین کو کچھ سزا دی جاتی تھی اور توبہ نہ کرنے والوں کو موت کی سزا دے دی جاتی تھی۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بہرحال مذہبی جبر (Religious Persecution) یا نفسیاتی غلامی کی صورتحال موجود تھی اور لوگوں کو اپنے مذہب کے بارے میں اختیار حاصل نہ تھا۔

    اسپین میں انکوئزیشن کا ادارہ

    جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اسپین کی انکوئزیشن، رومی انکوئزیشن سے مختلف تھی اور رومی انکوئزیشن نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ اس سے متعلق موصوف مقالہ نگار لکھتے ہیں:

    The Spanish Inquisition, however, properly begins with the reign of Ferdinand the Catholic and Isabella. The Catholic faith was then endangered by pseudo-converts from Judaism (Marranos) and Mohammedanism (Moriscos). On 1 November, 1478, Sixtus IV empowered the Catholic sovereigns to set up the Inquisition…..

    In Spain, however, it remained operative into the nineteenth century. Originally called into being against secret Judaism and secret Islam, it served to repel Protestantism in the sixteenth century, but was unable to expel French Rationalism and immorality of the eighteenth……

    Torture was applied only too frequently and too cruelly, but certainly not more cruelly than under Charles V's system of judicial torture in Germany.

    (Catholic Encyclopedia, Inquisition, http://www.newadvent.org/cathen/08026a.htm )

    اسپینی انکوئزیشن کا آغاز کیتھولک حکمران فرڈینینڈ اور ازابیلا سے ہوا۔ کیتھولک مذہب کو یہودیت اور محمڈن ازم (اسلام) سے بظاہر عیسائی ہوجانے والوں سے خطرہ لاحق تھا۔ یکم نومبر 1478ء کو سکسٹس چہارم نے کیتھولک حکمرانوں کو انکوئزیشن کی عدالتیں قائم کرنے کی اجازت دی۔

    اسپین میں انکوئزیشن انیسویں صدی تک چلی ہے۔ اپنی اصل میں یہ خفیہ یہودیت اور خفیہ اسلام کے خلاف تھی اور اس نے سولہویں صدی میں پروٹسٹنٹ ازم کو پیچھے دھکیلنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا لیکن یہ فرانسیسی عقلیت پسندی اور اٹھارہویں صدی کے اخلاقی انحطاط کو باہر نکالنے میں ناکام رہی۔

    (اس انکوئزیشن کے دوران اگرچہ تشدد کا استعمال بہت زیادہ اور بہت ظلم کے ساتھ کیا جاتا تھا لیکن یہ یقیناً جرمنی کے چارلس پنجم کے عدالتی تشدد کے نظام کی نسبت کم ظالمانہ ہوا کرتا تھا۔

    اس انکوئزیشن اور مذہبی جبر کے رد عمل میں یورپ میں آزادی فکر کی تحریک پیدا ہوئی جس نے آگے چل کر نہ صرف مذہبی غلامی بلکہ ہر قسم کی غلامی کے خاتمے کی راہ ہموار کی۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے لیکن بہتر ہو گا کہ پہلے افریقیوں کی غلامی کا جائزہ لے لیا جائے۔

    افریقی غلاموں کی اٹلانٹک تجارت

    کولمبیا الیکٹرانک انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگار افریقیوں کو غلام بنائے جانے کے ارتقا سے متعلق لکھتے ہیں:

    A revolution in the institution of slavery came in the 15th and 16th cent. The explorations of the African coast by Portuguese navigators resulted in the exploitation of the African as a slave, and for nearly five centuries the predations of slave raiders along the coasts of Africa were to be a lucrative and important business conducted with appalling brutality. The British, Dutch, French, Spanish, and Portuguese all engaged in the African slave trade. Although Africans were, as early as 1440, brought back to Portugal, and although subsequent importations were large enough to change distinctly the ethnography of that country, it was not in Europe that African slavery was to be most profitable and widespread, but in the Americas, where European exploitation began at the end of the 15th cent.

    The first people to be enslaved by the Spanish and Portuguese in the West Indies and Latin America were the Native Americans, but, because the majority of Native American slaves either revolted or escaped, other forms of forced labor, akin to serfdom, were introduced (see repartimiento and encomienda). The resistance of the Native Americans to slavery only increased the demand for Africans to replace them. Africans proved to be profitable laborers in the Caribbean islands and the lowlands of the South American mainland. In the colder highlands Native American slavery or quasi-slavery continued; long after the introduction of the first Africans the Paulistas (inhabitants of the city and state of São Paulo, Brazil) continued their slave raids against the Native Americans of the Brazilian hinterlands. But African slavery gradually became dominant.

    The first Africans arrived in the British settlements on the Atlantic coast when they were traded or sold for supplies by a Dutch ship at Jamestown, Va., in 1619. They may have been indentured servants, but by the 1640s lifetime servitude existed in Virginia, and slavery was acknowledged in the laws of Massachusetts. The raising of staple crops—coffee, tobacco, sugar, rice, and, much later, cotton—and the rise of the plantation economy made the importation of slaves from Africa particularly valuable in the Southern colonies of North America.

    The slave trade moved in a triangle; setting out from British ports, ships would transport various goods to the western coast of Africa, where they would be exchanged for slaves. The slaves were then brought to the West Indies or to the colonies of North or South America, where they were traded for agricultural staples for the return voyage back to England. Later, New England ports were included in this last leg. The number of slaves in the colonies increased until in some (notably French Saint-Domingue, the modern Haiti) they constituted a majority of the population. In America by the date of the Declaration of Independence (1776) about one fifth of the population was enslaved.

    (The Columbia Electronic Encyclopedia, http://www.infoplease.com/ce6/bus/A0861124.html )

    غلامی کے ادارے میں پندھرویں اور سولہویں صدی میں ایک انقلاب پیدا ہوا۔ پرتگیزی ملاحوں نے افریقی ساحلوں کو دریافت کرنے کی جو مہم شروع کی تھی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افریقیوں کو غلام بنایا جانے لگا۔ اگلی پانچ صدیوں تک حملہ آور افریقی ساحلوں پر غلام بنانے کے لئے جاتے رہے اور یہ عمل ایک نفع بخش اور اہم کاروبار بن گیا جس میں ظلم کا عنصر نمایاں تھا۔

    انگریز، ڈچ، فرنچ، ہسپانوی اور پرتگیزی سب کے سب افریقی غلاموں کی تجارت میں شریک ہو گئے۔ 1440ء کے زمانے میں بھی افریقی پکڑ کر پرتگال لائے جاتے۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ کسی بھی ملک میں نسلی تناسب تبدیل کر دینے کے لئے کافی تھی۔ صرف یورپ ہی نہیں بلکہ امریکہ میں بھی افریقی غلامی سب سے زیادہ وسیع اور منافع بخش کاروبار بن گیا جس کی مہم جوئی یورپی اقوام نے پندہرویں صدی میں شروع کر دی تھی۔

    ہسپانویوں اور پرتگیزیوں نے ویسٹ انڈیز اور لاطینی امریکہ میں جن لوگوں کو سب سے پہلے غلام بنایا وہ امریکہ کے قدیم باشندے تھے۔ قدیم امریکی غلاموں کی اکثریت نے چونکہ بغاوت یا فرار کا راستہ اختیار کیا تھا (اور مارے گئے تھے)، اس وجہ سے مزارعت سمیت، جبری مشقت کی دیگر اقسام کو بھی امریکہ میں متعارف کروایا گیا۔ قدیم امریکیوں کی بغاوت کے نتیجے میں افریقیوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا۔ جزائر کیریبین اور جنوبی امریکہ کے مین لینڈ کے زیریں علاقوں میں افریقی غلام منافع بخش مزدور ثابت ہوئے۔ شمالی امریکہ کے بلند علاقوں میں قدیم امریکیوں کی غلامی یا نیم غلامی جاری رہی۔ افریقیوں کے غلام بنائے جانے کے آغاز کے بہت عرصہ بعد تک برازیل کے شہر ساؤ پاؤلو کے باشندے پاؤلیستاز نے برازیل میں حملہ کر کے قدیم امریکیوں کو غلام بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہرحال افریقیوں کی غلامی کا عنصر بتدریج غالب ہوتا چلا گیا۔

    1619ء میں افریقی غلاموں کی پہلی کھیپ جو برطانوی علاقوں میں پہنچی، وہ ایک ڈچ جہاز کے ذریعے جیمز ٹاؤن میں لائی گئی۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں متعین مدت کے غلام بھی شامل ہوں لیکن 1640 کے عشرے میں ورجینیا میں ساری عمر کی غلامی رواج پذیر ہو چکی تھی اور میساچوسٹس کے قانون میں غلامی کو جائز قرار دے دیا گیا تھا۔ بنیادی فصلوں جیسے کافی، تمباکو، گنا، چاول اور اس کے بعد کپاس کی بڑھتی ہوئی کاشت کاری نے شمالی امریکہ کی جنوبی کالونیوں میں افریقہ سے غلاموں کی امپورٹ کو نفع بخش بنا دیا۔

    غلاموں کی تجارت نے ایک مثلث کی شکل اختیار کر لی۔ برطانیہ کی بندرگاہوں نے بحری جہاز سامان بھر کر افریقہ کے مغربی ساحلوں کی طرف جاتے اور اس سامان کے بدلے غلام خریدتے۔ ان غلاموں کو ویسٹ انڈیز یا شمالی و جنوبی امریکہ کی برطانوی کالونیوں میں لایا جاتا۔ یہاں سے ان غلاموں کے بدلے زرعی اجناس خریدی جاتیں جنہیں لاد کر واپس انگلینڈ کا سفر کیا جاتا۔ بعد میں (امریکہ کے علاقے) نیو انگلینڈ کی بندرگاہیں بھی اس کام میں استعمال ہونے لگیں۔ ان کالونیوں میں غلاموں کی تعداد بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ یہ آبادی کا اکثریتی حصہ بن گئے۔ 1776ء میں امریکہ کے اعلان آزادی کے وقت آبادی کا پانچواں حصہ غلام تھا۔

    فری ڈکشنری کے مقالہ نگار بیان کرتے ہیں کہ یورپ میں مفتوحین کو غلام بنانے کی رسم موجود تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جدید غلامی کے ارتقاء کی تفصیلات بیان کرتے ہیں:

    In Spain and Portugal, where the reconquest of the peninsula from the Moors in the 15th century created an acute shortage of labour, captured Muslims were enslaved. They were soon followed by slaves from Africa, imported by the Portuguese prince Henry the Navigator after 1444. Slaves were used for a wide range of tasks, and a regular trade in slaves was established between the Gulf of Guinea in West Africa and the slave markets of the Iberian peninsula.

    Slavery became of major economic importance after the 16th century with the European conquest of South and Central America. Needing a labour force, but finding the indigenous inhabitants unwilling or unable to cooperate, the Spanish and Portuguese conquerors used ever-increasing numbers of slaves brought from Africa. Although slavery already existed in Africa, the status and relationship of African slaves to their African masters were very different from chattel slaves. Slaves in Africa were considered part of the extended family of their masters and held a status similar to children or wards. The function of indigenous African slavery was to increase the size of a family or clan rather than to perform labour or to serve as a material asset.

    The rise of European capitalism directly influenced the slave trade. American plantation colonies grew and prospered using slaves as a labour force. These slaves had a great impact on the sugar and coffee plantations. A lucrative triangular trade was established - alcohol, firearms, and textiles were shipped from Europe to be traded for slaves in Africa, and the slaves would then be shipped to South or Central America where they would be traded for staples (such as molasses and later raw cotton). In 1619 the first black slaves landed in an English colony in North America (at Jamestown, Virginia). At first few slaves arrived from Africa, and their status as slaves was not legally defined. During the mid 17th century the colonies established the legal status of slavery, and increasing numbers of slaves from Africa were used in the South on coffee, tobacco, sugar, and rice plantations. After the invention of the cotton gin (1793), the demand for slaves soared, so much so that the slave populations of some states exceeded the free populations. Africans were also taken to Europe to work as slaves and servants.

    The vast profits from the slave trade to the Americas became a major element in the British economy and the West Indian trade in general. It has been estimated that the British slave trade alone shipped 2 million slaves from Africa to the West Indies between 1680 and 1786. The number of slaves shipped to the Americas in 1790 alone may have exceeded 70,000. According to another estimate, during the nearly 400 years of the slave trade, a total of 15 million Africans were sold into slavery and some 40 million more lost their lives in transit.

    Slaves were usually outsiders, removed from their own cultures but denied assimilation into their new ones. In the USA, treatment of slaves varied. Although they were entitled to some rights, such as support during periods of illness and in old age, they were often denied basic human dignities. The slave trade meant forced relocation and the breakup of families, including children from parents. Nevertheless, slaves retained some cultural elements from Africa, such as religious practices, music, and food. Some of these have survived and are evident in African-American culture.

    (The Free Dictionary, http://encyclopedia.farlex.com/Chattel slaves )

    اسپین اور پرتگال کے جزیرہ نما کو جب موروں (ہسپانوی مسلمانوں) سے پندہرویں صدی میں خالی کروایا گیا تو اس کے نتیجے میں مزدوروں کی بہت کمی واقع ہو گئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو غلام بنا لیا گیا۔ اس کے بعد جلد ہی افریقہ سے غلام لائے جانے لگے جس کا آغاز پرتگیز شہزادے ہنری نے 1444ء میں کیا۔ غلاموں کو بہت سے کاموں میں استعمال کیا جانے لگا۔ مغربی افریقہ میں خلیج گنی اور جزیرہ نما آئبیریا (اسپین اور پرتگال پر مشتمل یورپ کا جنوب مغربی کونہ) کی غلاموں کی مارکیٹوں کے درمیان تجارت کا ایک مستقل سلسلہ شروع ہو گیا۔

    سولہویں صدی میں جنوبی اور وسطی امریکہ کی یورپی فتوحات کے ساتھ ساتھ غلامی کی معاشی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ ان فاتحین کو مزدوروں کی ضرورت تھی لیکن اصل امریکی باشندے (ریڈ انڈینز) ان سے تعاون کے لئے تیار نہ تھے۔ اس وجہ سے اسپینی اور پرتگیزی فاتحین نے افریقہ سے غلام لا کر انہیں استعمال کرنا شروع کر دیا۔

    اگرچہ غلامی افریقہ میں پہلے سے ہی موجود تھی لیکن افریقی آقا اور افریقی غلام کا تعلق اس (امریکی) غلامی سے بہت مختلف تھا جس میں غلاموں کو بے جان مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ افریقی غلام اپنے آقاؤں کے خاندان کا حصہ سمجھے جاتے تھے اور ان سے اپنی اولاد جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ افریقہ کی غلامی کا مقصد ایک بے جان اثاثے کی طرح کمانے کی بجائے خاندان یا قبیلے کی تعداد میں اضافہ کرنا تھا۔

    یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقاء نے غلاموں کی تجارت پر گہرا اثر مرتب کیا۔ امریکی زرعی کالونیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور غلاموں کو لیبر فورس کے طور پر استعمال کرنے کے نتیجے میں سرمایہ دار خوشحال ہوتے چلے گئے۔ ان غلاموں نے گنے اور کافی کے پودوں کی کاشت پر بڑا اثر مرتب کیا۔ ایک منافع بخش تجارتی تکون قائم ہو گئی۔ شراب، آتشیں اسلحہ اور کپاس کی مصنوعات کو یورپ سے افریقہ بھیجا جاتا جہاں وہ ان مصنوعات کے بدلے غلام خریدتے۔ ان غلاموں کو جنوبی یا وسطی امریکہ میں بھیج دیا جاتا جہاں ان کے بدلے زرعی اجناس جیسے کپاس یا گنے کی پراڈکٹس خرید کر انہیں یورپ بھیج دیا جاتا۔

    1619ء میں غلاموں کی پہلی کھیپ شمالی امریکہ میں جیمز ٹاؤن، ورجینیا کے مقام پر اتری۔ شروع شروع میں ان کا قانونی اسٹیٹس متعین نہ تھا۔ سترہویں صدی میں ان کالونیوں میں غلامی کو قانونی درجہ عطا کیا گیا اور افریقہ سے آنے والے غلاموں کو جنوبی علاقوں میں کافی، تمباکو، گنے اور چاول کی کاشت میں استعمال کیا جانے لگا۔ 1793ء میں کاٹن جننگ مشین کی ایجاد کے بعد، غلاموں کی ڈیمانڈ میں اس تیزی سے اضافہ ہونے لگا کہ بعض ریاستوں میں ان کی تعداد آزاد آبادی کی نسبت زیادہ ہو گئی۔ افریقیوں کو یورپ میں بھی غلاموں اور خدمت گاروں کے طور پر لایا جانے لگا۔

    براعظم امریکہ کی غلاموں کی تجارت نے خاص طور پر اور ویسٹ انڈیز کی تجارت نے عمومی طور پرطانوی معیشت کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 1680 – 1786CE کے درمیانی عرصے میں اکیلے انگریزوں نے بیس لاکھ سے زائد غلاموں کو افریقہ سے ویسٹ انڈیز منتقل کیا تھا۔ صرف 1790ء میں 70,000 سے زائد غلاموں کو امریکہ منتقل کیا گیا۔ ایک اور اندازے کے مطابق، غلاموں کی تجارت کے ان چار سو برس میں ڈیڑھ کروڑ افریقیوں کو غلام بنا کر بیچا گیا اور تقریباً چار کروڑ افراد منتقلی کے دوران ہی ہلاک ہوئے۔

    غلام بیرون ملک سے لائے گئے تھے۔ انہیں ان کے اپنے معاشروں سے کاٹ دیا گیا تھا لیکن انہیں نئے معاشرے میں بھی قبول نہیں کیا گیا تھا۔ امریکہ میں غلاموں کے ساتھ مختلف طریقوں سے معاملہ کیا گیا۔ اگرچہ انہیں بیماری اور بڑھاپے میں علاج جیسے کچھ حقوق دیے گئے لیکن اکثر اوقات انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ غلاموں کی اس تجارت میں بچوں کو ان کے والدین سے جدا کر کے جبراً انہیں دوسرے علاقوں میں منتقل کیا جاتا۔ بہرحال غلاموں نے افریقی ثقافت کے کچھ اجزا جیسے مذہبی رسومات، موسیقی اور خوراک کو باقی رکھا اور ان میں سے جو باقی بچے، انہیں ہم افریقی امریکی کلچر کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کالونیل ازم

    سولہویں سے انیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں انگریز، فرانسیسی، ڈچ، جرمن، بلجیئنز، ہسپانوی اور پرتگیزی اقوام دنیا کے اطراف میں پھیل گئیں۔ اس عمل میں برطانیہ اور فرانس سب سے آگے تھے۔ اپنی بحری طاقت کی بدولت انہوں نے امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں اپنی نو آبادیاں قائم کر لیں۔ آہستہ آہستہ یہ ان ممالک کی سیاست میں دخیل ہو کر ان ممالک پر حکومت کرنے لگے۔ یہ ایک اجتماعی غلامی کا نظام تھا۔

    یورپی اقوام نے اپنے اقتدار کے دوران اپنے مقبوضات کی قدرتی اور انسانی دولت کو جی بھر کر لوٹا۔ صنعتی انقلاب کے بعد مقبوضہ علاقوں کی معدنی اور زرعی دولت کو بحری جہازوں میں بھر بھر کر یورپ لے جایا جاتا اور وہاں سے تیار شدہ مال کو مقبوضہ ممالک کے عوام کو مہنگے داموں فروخت کر دیا جاتا۔ اس طرز عمل کے باعث یورپی اقوام امیر سے امیر تر اور مقبوضہ ممالک غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔

    مفتوحہ ممالک میں آزادی کی تحریکیں کالونیل ازم کے ہر دور میں جاری رہیں۔ اس قسم کی غلامی سے چھٹکارا پانے کی سب سے پہلی مہم امریکہ میں کامیاب ہوئی۔ ایشیا اور افریقہ کی نو آبادیاں بدستور دو صدیوں تک یورپ کے شکنجے میں جکڑی رہیں۔ دنیا کے اقتدار کے حصول کی اس دوڑ کے نتیجے میں بیسویں صدی کے نصف اول میں یورپی قوتوں کے مابین زبردست تصادم پیدا ہوا جس نے دو عالمی جنگوں کی شکل اختیار کر لی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی اقوام اس قابل نہ رہیں کہ وہ ایشیائی اور افریقی ممالک پر اپنا قبضہ برقرار رکھ سکتیں چنانچہ انہیں اپنے مقبوضات کو آزادی دینا ہی پڑی۔

    قرون وسطی کے مسلم معاشروں میں موجود غلامی کا مغربی غلامی سے تقابلی جائزہ

    جیسا کہ ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں کہ مسلم معاشروں میں غلامی کی جو دوسری لہر پیدا ہوئی، وہ دین اسلام کی تعلیمات سے انحراف کا نتیجہ تھی۔ اس انحراف کے باوجود مسلم معاشروں میں موجود غلامی، اہل مغرب کی غلامی سے بہت مختلف تھی۔

    بی بی سی ٹیم کے مقالہ نگاروں نے قرون وسطی کے مسلم معاشروں کی غلامی کا مغربی غلامی سے تقابل کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے قانون یا طرز عمل کو بارہا "اسلام" کہہ کر پکارا ہے جبکہ اس قانون یا طرز عمل کا اسلام کے اصل مآخذ کے عین مطابق ہونا ضروری نہیں۔ اس وجہ سے ہم نے ترجمے میں بعض مقامات پر لفظ "اسلام" کا ترجمہ "مسلمانوں کا قانون" کیا ہیں۔ لکھتے ہیں:

    · The Atlantic trade lasted from the 15th to 19th centuries, the Eastern trade from the 7th or 9th century to the 20th

    · Under Islam slaves were considered people first, and then property. In the Atlantic trade slaves were considered property not people, and often just regarded as units of productive labour

    · Islamic law laid down considerable protection for slaves; those taken for the Atlantic trade had very little protection

    · Islamic law only permitted those conquered in legitimate warfare to be enslaved, all other methods being illegal - although this was often ignored - whereas the Atlantic trade enslaved anyone who had commercial value

    · In Islam, slave-owners were forbidden to take young children from their mothers, something common in the Atlantic trade

    · The owner-slave relationship could be kinder in Islam than in the Atlantic trade, and often more personal

    · Islam recommends the freeing of slaves in itself as a 'good' religious act and says that slaves who convert to Islam should be freed. Zakat (the requirement for charity) was used by Muslim states to free slaves. There were many other avenues whereby a slave could be freed, for example as expiation for irregularities in other religious rituals; as a result many more slaves were freed than in the Atlantic trade

    · Under Islamic law a slave could take his/her master to the Islamic courts to address a grievance, and the judge had the right to grant freedom against the master's wishes and/or other compensations; there was no such protection for slaves taken by the Atlantic trade

    · Islam permitted slaves to attain high office; those taken for the Atlantic trade stayed at the bottom of society

    · In the Atlantic trade there were two males to every female; in the Islamic trade, there were two females to every male

    · Islam permitted women to be enslaved for sexual purposes, although not for prostitution

    · Africans were enslaved in the Atlantic trade to work on an industrial scale in agricultural labour; in the Islamic trade they had a far wider variety of roles

    · The Atlantic trade only involved black Africans; Muslim slavery involved many racial groups

    · Slavery in the Atlantic trade was highly racist, something prohibited in Islam where there was much less institutionalised racism. Both masters and slaves had a wide range of colours and backgrounds; the result is that former slaves became absorbed into the Islamic world, while former slaves remained a discriminated-against underclass in the USA until comparatively recently

    · The nature of the Atlantic trade and therefore the survival of racism in the West has been one of segregation. There wasn't this separation in Islam. Whites didn't push blacks off the pavement. They didn't forbid restaurants to serve them. I don't think that there's any disputing that slavery was a more benevolent institution in Islam than it was in the West.

    (http://www.bbc.co.uk/religion/religions/islam/history/slavery_print.html )

    · بحر اوقیانوس کی غلاموں کی تجارت پندہرویں سے انیسویں صدیوں کے درمیان موجود رہی ہے جبکہ غلاموں کی مشرقی تجارت ساتویں یا نویں صدی سے بیسویں صدی تک موجود رہی ہے۔

    · مسلمانوں کے قانون میں غلاموں کو پہلے انسان اور اس کے بعد جائیداد سمجھا جاتا رہا ہے۔ مغربی تجارت میں غلاموں کو انسان کی بجائے محض ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا۔ اکثر انہیں پیداواری صلاحیت رکھنے والی محنت سے تشبیہ دی جاتی تھی۔

    · مسلمانوں کے قانون نے غلاموں کو کافی تحفظ مہیا کیا ہے جو کہ اٹلانٹک تجارت میں نظر نہیں آتا۔

    · مسلمانوں کے قانون نے صرف اور صرف جائز جنگ میں دشمن کو غلام بنانے کی اجازت دی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں غلام بنانے کے تمام طریقوں کو ممنوع قرار دیا ہے البتہ اس اصول کو اکثر اوقات نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ اٹلانٹک تجارت میں ہر اس شخص کو غلام بنا لیا جاتا رہا ہے جس کی کچھ کمرشل ویلیو ہوتی۔

    · اسلام میں، غلاموں کو مالکوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ ماؤں سے ان کے بچوں کو چھین سکیں۔ اٹلانٹک تجارت میں یہ ایک عام معمول رہا ہے۔

    · مسلمانوں کے ہاں اٹلانٹک تجارت کے برعکس آقا اور غلام کا تعلق زیادہ ذاتی نوعیت کا اور رحم دلی پر مبنی رہا ہے۔

    · اسلام غلام آزاد کرنے کو بذات خود ایک اچھا مذہبی عمل قرار دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ جو غلام اسلام قبول کر لیں، انہیں آزاد کر دیا جائے۔ زکوۃ (یعنی لازمی خیرات) کو مسلم حکومتیں غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہیں۔ ایسے مواقع بھی موجود رہے ہیں جن میں غلام کو آزاد کر دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مذہبی رسومات میں غلطیوں کے کفارے کے طور پر غلام آزاد کرنے کا حکم موجود ہے۔ ان طریقوں سے غلاموں کی جس تعداد نے آزادی حاصل کی ہے، اس کی تعداد اٹلانٹک تجارت کے آزاد کردہ غلاموں سے کہیں زیادہ ہے۔

    · اسلامی قانون میں کوئی غلام اپنے آقا کی جانب سے تکلیف پہنچنے پر اس کے خلاف اسلامی عدالتوں میں مقدمہ چلا سکتا ہے اور جج کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آقا کی مرضی کے خلاف غلام کو آزادی دے دے یا اس آقا پر کوئی اور جرمانہ عائد کر دے۔ اٹلانٹک تجارت میں غلاموں کو ایسا کوئی تحفظ نہیں دیا گیا۔

    · اسلام غلاموں کو معاشرے میں اعلی ترین عہدہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اٹلانٹک تجارت میں غلام معاشرے کا پست ترین طبقہ ہی رہے ہیں۔

    · اٹلانٹک تجارت میں مرد غلاموں کی تعداد خواتین سے دوگنا رہی ہے جبکہ مسلمانوں کے ہاں، خواتین غلاموں کی تعداد مردوں سے دوگنا رہی ہے۔

    · مسلمانوں کا قانون کسی خاتون غلام سے صرف ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس سے عصمت فروشی کروانے کی نہیں۔

    · اٹلانٹک تجارت میں زراعت میں بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کے لئے لوگوں کو غلام بنایا گیا جبکہ مسلمانوں کے ہاں انہیں مختلف کاموں میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    · اٹلانٹک تجارت میں صرف سیاہ فام افریقی ہی غلام تھے جبکہ مسلمانوں کے ہاں بہت سی نسلوں سے تعلق رکھنے والے غلام موجود تھے۔

    · اٹلانٹک تجارت کی غلامی بڑے درجے میں نسل پرستی پر مبنی تھی جبکہ اسلام میں نسل پرستی سختی سے منع ہے۔ مسلمانوں کے ہاں نسل پرستی کو بہت ہی کم درجے میں سماجی ادارے کی شکل دی گئی ہے۔ آقا اور غلام سب ہی مختلف رنگ اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے ہوا کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ سابقہ غلام باآسانی مسلم معاشرے میں جذب ہو جایا کرتے تھے۔ اس کے برعکس امریکہ میں موجودہ دور تک سابقہ غلام معاشرے میں ایک الگ طبقے کی صورت میں موجود ہیں۔

    · اٹلانٹک تجارت کی صورت یہ تھی کہ اس کے نتیجے میں مغرب میں نسلی امتیاز پیدا ہوا۔ مسلمانوں کے ہاں یہ امتیاز نہیں تھا۔ ان کے ہاں کوئی سفید فام، سیاہ فام کو اپنے احاطے سے نہیں نکال سکتا۔ وہ ہوٹلوں میں انہیں کھانا مہیا کرنے سے نہیں روک سکتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس بارے میں کوئی اختلاف موجود ہے کہ مسلمانوں کے ہاں غلامی، مغرب کی نسبت ایک ایسا ادارہ تھی جس میں احسان کا عنصر غالب تھا۔

    ان نکات میں یہ اضافے بھی کئے جا سکتے ہیں۔

    · مزارعوں کی نیم غلامی کی جو صورت مغرب میں رائج تھی، کم و بیش وہی صورت مسلمانوں کے ہاں بھی رائج رہی ہے۔ مسلم جاگیرداروں کا سلوک بھی بالعموم اپنے مزارعوں سے وہی رہا ہے جو مغربی جاگیرداروں کا اپنے مزارعوں سے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ مسلم جاگیرداروں میں جو لوگ کسی حد تک نیکی کی طرف مائل ہوتے تھے، وہ اپنے مزارعوں سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کی بہرحال مسلم معاشروں میں کمی نہیں رہی ہے۔ یہ وہ جاگیردار تھے جن کی وفات پر ان کے وارثوں سے زیادہ ان کے مزارعے رویا کرتے تھے۔

    · مسلم اور عیسائی دنیا کی فکری و نظریاتی غلامی میں فرق یہ تھا کہ اگرچہ دونوں کے ہاں ایک مذہبی طبقہ موجود رہا ہے جو ہر نئی فکر کو دبانے کے لئے کوشاں رہا ہے لیکن عیسائی دنیا میں اس طبقے کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ جس کسی نے کلیسا کی فکر سے معمولی درجے میں بھی انحراف کیا، اسے انکوئزیشن کی عدالتوں کے ذریعے سخت سزا دی گئی۔ مسلم معاشروں میں معاملہ کفر و الحاد کے فتووں تک ہی محدود رہا اور حکومتی سطح پر بالعموم بڑی کاروائیوں سے اجتناب کیا جاتا رہا۔ البتہ کفر کے ان فتووں کو بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ فتوے متعلقہ شخص کا مکمل سماجی بائیکاٹ کر دیا کرتے تھے جس کی تکلیف شاید حکومتی سزا سے کچھ زیادہ ہی ہو گی۔
     
  27. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 17: غلامی کے خاتمے کی عالمی تحریک


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    تیرہویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کا یورپ تضادات کا مجموعہ رہا ہے۔ ایک طرف یہاں چرچ کی جانب سے انکوئزیشن کے ادارے نے لوگوں کو نفسیاتی غلامی پر مجبور کیا اور دوسری طرف اس کے رد عمل میں آزادی فکر کی ایک عظیم تحریک نے جنم لیا۔ ایک طرف یورپی اقوام ایشیا، امریکہ اور افریقہ کے عوام کو غلام بنا کر ان کے وسائل لوٹتی رہیں اور دوسری طرف خود یورپ میں غلاموں کی آزادی کی تحریک پیدا ہوئی۔ ایک طرف جنوبی یورپ کے ممالک جیسے اٹلی اور اسپین میں مذہبی انتہا پسندی کی سی کیفیت رہی اور دوسری طرف مغربی یورپ کے ممالک جیسے فرانس اور برطانیہ میں پروٹسٹنٹ ازم، انلائٹنمنٹ، اور آزادی فکر کی تحریکیں پنپتی رہیں۔ اس باب میں ہم یورپ سے آغاز کرتے ہوئے دنیا بھر میں غلامی کے خاتمے کی تحریک کا جائزہ لیں گے۔

    یورپ میں آزادی فکر کی تحریک

    یورپ میں آزادی فکر کی تحریک کا آغاز سترہویں صدی عیسوی کے ابتدائی سالوں میں ہوا۔ انکوئزیشن کی عدالت نے جب جیارڈانو برونو کو 1600ء موت کی سزا سنائی تو اس کے نتیجے میں پورے یورپ میں ایک فطری ردعمل پیدا ہوا۔ برونو کا جرم یہ تھا کہ مذہب اور کائنات سے متعلق ان کے عقائد چرچ کے عقائد سے مختلف تھے۔ الزامات ثابت ہونے کے بعد برونو سے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر انکوئزیشن کی عدالت نے برونو کو موت کی سزا دے دی۔

    برونو اور دیگر فلسفیوں کو دی جانے والی سزاؤں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورے یورپ میں چرچ کے خلاف ردعمل کی تحریک پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس تحریک کی رفتار شروع میں کافی سست تھی۔ سترہویں صدی کے اختتام تک "آزاد مفکر (Free Thinker)" کی اصطلاح برطانیہ میں وجود میں آ چکی تھی۔ 1697ء میں ولیم مولینکس اور 1713ء میں انتھونی کولنس کی آزاد فکر سے متعلق تحریریں یورپ میں مقبولیت اختیار کرنے لگیں۔ فرانس میں یہ تحریک کچھ عرصہ بعد مضبوط ہوئی اور اس پر پہلی باقاعدہ تحریر 1765ء میں منظر عام پر آئی۔ اس دور کے مشہور فلسفی ایمانویل کانٹ لکھتے ہیں:

    For enlightenment of this kind, all that is needed is freedom. And the freedom in question is the most innocuous form of all freedom to make public use of one's reason in all matters. But I hear on all sides the cry: Don't argue! The officer says: Don't argue, get on parade! The tax-official: Don't argue, pay! The clergyman: Don't argue, believe! (Only one ruler in the world says: Argue as much as you like and about whatever you like, but obey!). (Immanuel Kant; What is Enlightenment?)

    اس قسم کی روشن خیالی کے لئے سب سے زیادہ ضرورت آزادی کی ہے۔ زیر بحث آزادی، ہر قسم کی آزادیوں کی سب سے بے ضرر قسم ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں انسانی عقل کو کھلے عام استعمال کیا جائے۔ لیکن میں ہر طرف سے یہی پکار سنتا ہوں، "بحث نہیں کرو۔" (فوجی) آفیسر کہتا ہے، "بحث نہیں کرو، پریڈ پر چلو۔" ٹیکس وصول کرنے والا کہتا ہے، "بحث نہیں کرو، ٹیکس ادا کرو۔" مذہبی راہنما کہتا ہے، "بحث نہیں کرو، (میری بات پر) ایمان لاؤ۔" دنیا میں صرف ایک حکمران ایسا ہے جو کہتا ہے، "جتنی چاہے بحث کرو اور جس موضوع پر چاہو بحث کرو لیکن میری اطاعت بہرحال کرو۔"

    انگلینڈ کی نسبت فرانس کی تحریک میں الحاد یعنی خدا کے انکار کا پہلو زیادہ نمایاں تھا۔ یہ خیالات یورپ بھر میں پھیلتے چلے گئے۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں یہ تحریک جرمنی میں کافی مضبوط ہو چکی تھی۔ 1848ء میں جرمن انقلاب کے بعد آزاد مفکرین جن میں دہریے اور ملحدین بھی شامل تھے کی بڑی تعداد جرمنی سے ہجرت کر کے امریکہ کے علاقے ٹیکساس میں آ کر آباد ہو گئی جس کے نتیجے میں اس تحریک کے اثرات امریکہ تک بھی پہنچے۔

    یورپ میں آزادی فکر کی تحریک کا ایک بڑا نتیجہ انقلاب فرانس کی صورت میں نکلا جس کے نتیجے میں یہاں بادشاہت کا خاتمہ اور جمہوریت کا ارتقا ہوا۔ اس عامل نے بھی غلامی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

    کیپیٹل ازم اور غلامی

    اٹھارہویں اور انیسویں صدیوں میں یورپ کی معیشت میں ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی جس نے غلامی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ تبدیلی صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) کہلاتی ہے۔ اس سے پہلے یورپ کی معیشت بھی ایک زرعی معیشت تھی جسے چلانے کے لئے جاگیردارانہ نظام اپنے تمام تر ظلم و ستم کے ساتھ موجود تھا۔ زیادہ تر یورپی ممالک میں کھیت کسی فیوڈل لارڈ کی جاگیر ہوا کرتے تھے اور ان کھیتوں پر کام کرنے والے لوگ اس لارڈ کے غلام یا نیم غلام ہوا کرتے تھے۔

    صنعتی انقلاب کے بعد یورپ اور اس کی کالونی امریکہ میں بڑے پیمانے پر صنتعیں لگانے کا عمل شروع ہوا۔ ان صنعتوں میں بڑی تعداد میں کارکنوں کی ضرورت پڑی۔ یہ کارکن زرعی فارموں میں بطور غلام موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داروں نے ان کارکنوں کے حصول کے لئے غلامی کے خاتمے کی تحریک کا بالعموم ساتھ دیا۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ سرمایہ داروں نے فرار ہونے والے غلاموں کو اپنی فیکٹریوں میں پناہ دی۔ سرمایہ دار ایسا غلاموں کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لئے کر رہے تھے۔

    اس دور میں زرعی سیکٹر کے لئے مشینوں کی ایجاد کے بعد غلام رکھنے کی لاگت، مشین سے زیادہ پڑنے لگی جس نے غلامی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ غلام کے مقابلے میں آزاد ورکر کی پیداواری صلاحیت زیادہ تھی کیونکہ غلام کے مقابلے میں آزاد ورکر، دولت کمانے کے لئے زیادہ متحرک (Motivated) ہوا کرتا تھا۔ ایوسے ڈومر (d. 1970CE) نے اپنی تحریر The Causes of Slavery & Serfdom: A Hypothesis غلامی کے خاتمے کی یہی وجوہات بیان کی ہیں۔

    سرمایہ داری کے فروغ نے ایک اور قسم کی غلامی کو جنم دیا۔ مزدور کو اگرچہ ایک جگہ کام چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی اجازت تھی لیکن اس کےباوجود اس کی حالت زرعی غلام سے بھی بدتر ہوتی چلی گئی۔ کھلے کھیتوں میں اپنی مرضی کے اوقات میں کام کرنے کی نسبت بند فیکٹری میں غیر صحت مند ماحول میں طویل اوقات کے لئے کام کرنا نہایت تکلیف دہ عمل تھا۔ اس وقت کے صنعتی مزدوروں کی حالت زار کا اندازہ کارل مارکس کی کتاب "داس کیپیٹیل" سے لگایا جا سکتا ہے۔

    ان مزدوروں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لئے سوشلسٹ تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے یقیناً یہ بڑی کامیابی حاصل کی کہ مزدوروں کو میڈیکل، چھٹی، اچھی تنخواہیں اور دیگر سہولیات فراہم کر دی گئیں البتہ جہاں یہ تحریک کامیاب ہوئی وہاں اس نے ایک اور قسم کی بدترین غلامی کو جنم دیا۔

    کمیونزم اور غلامی

    کمیونسٹ تحریک کو جب روس اور چین میں اقتدار ملا تو انہوں نے غلامی کی ایک بدترین شکل کو جنم دیا جس میں پوری پوری اقوام کو کمیونسٹ پارٹی کا غلام بنا لیا گیا۔ اس غلامی میں انسانوں کو جن حقوق سے محروم کیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے:

    · انسانوں کو ذاتی جائیداد رکھنے کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ہر شخص کی ملکیت میں جو پراپرٹی تھی، اسے حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا۔

    · صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت، کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی اجازت دی گئی۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت یا نظریے کی بنیاد رکھ سکے۔

    · سرکاری نظریے اور اقدامات پر تنقید کرنے کا حق چھین لیا گیا اور آزادی اظہار کا خاتمہ کر دیا گیا۔

    · لوگوں کی جان، مال اور عزت کے خلاف کاروائی کرنے کا حق سوویت انٹیلی جنس ایجنسی (KGB) کو دے دیا گیا۔

    · جوزف اسٹالن کے دور میں کثیر تعداد میں ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا جن کے بارے میں یہ شبہ موجود تھا کہ وہ کمیونزم نظام سے ذرا سا بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ اسٹالن کے دور میں جن افراد کا موت کی سزا دی گئی، ان کا اندازہ 8,000,000 سے لے کر 50,000,000 تک لگایا گیا ہے۔ درست اندازہ لگانا اس وجہ سے ممکن نہیں ہے کہ سوویت حکومت کے ریکارڈز تک کسی کو رسائی حاصل نہ تھی۔

    · بسا اوقات پوری پوری کمیونٹی کو چند افراد کے جرائم کی سزا دی گئی۔ ان میں جرمن، یونانی، تاتار اور چیچنی کیمونٹیز شامل ہیں۔

    · آزادی اظہار پر ہر طرح کی پابندیاں عائد کی گئیں اور سینسر شپ کو سختی سے نافذ کیا گیا۔

    · عوام الناس پر اکٹھا ہو کر اجتماع کرنے یا کوئی تنظیم بنانے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔

    · مذہب پر پابندی عائد کر کے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بری طرح کچل دیا گیا۔ ان میں عیسائی، مسلمان، یہودی اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

    · حکومت کی اجازت کے بغیر کسی شخص کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔ بعض شہروں کو "بند شہر" قرار دے کر ان میں داخلے کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

    · کمیونسٹ چین میں روس کی نسبت صورتحال کچھ بہتر تھی اور لوگوں پر روس کی نسبت کم پابندیاں عائد کی گئیں۔ مذہب کی اجازت دے دی گئی لیکن اس پر بہت سی دیگر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ سیاسی آزادی کو تقریباً ختم کر دیا گیا۔ ہر خاندان پر پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ ایک سے زائد بچہ پیدا نہیں کر سکتے۔ آزادی اظہار کی اجازت پورے کمیونسٹ دور میں موجود نہیں رہی۔

    · کمیونسٹ غلامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نظام کی جو باقیات ابھی تک کیوبا میں موجود ہیں، ان میں انسانوں پر اس قدر جبر روا رکھا گیا ہے کہ اپریل 2008ء تک یہاں کے عوام کو کمپیوٹر رکھنے کی اجازت حاصل نہ تھی۔

    مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کمیونسٹ تحریک نے سرمایہ دارانہ ممالک میں مزدوروں کو بہت سے حقوق دلا کر انہیں غلامی سے بڑی حد تک آزاد کر دیا ہے لیکن کمیونسٹ ممالک میں اس تحریک نے تاریخ کی بدترین غلامی کو جنم دیا۔

    جدید مغربی دنیا میں غلامی کے خاتمے کی تحریک

    آزادی فکر کی تحریک کے نتیجے میں مختلف معاشروں میں چرچ کی گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی اور "آزادی فکر" اور "آزادی اظہار رائے" بڑی اقدار کے طور پر ابھریں۔ جب "فکر کی آزادی" معاشرے کی ایک بڑی قدر بن جائے تو اس کے نتیجے میں خود بخود "جسم کی آزادی" کا بھی ایک مثبت قدر بننا بعید از قیاس نہیں ہے۔ ان عوامل کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں غلاموں کی آزادی کی تحریک شروع ہوئی جس کے واقعات کو ہم برطانوی محقق، بریکن کیری کی "سلیوری ٹائم لائن" کے حوالے سے بیان کریں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے ماخذوں میں افریقہ آن لائن اور پبلک براڈکاسٹنگ سروس شامل ہیں۔ ان اداروں کے لنک یہ ہیں:

    · بریکن کیری: http://www.brycchancarey.com/slavery/chrono1.htm

    · افریقہ آن لائن: http://www.africanaonline.com/slavery_timeline.htm

    · پبلک براڈکاسٹنگ سروس: http://www.pbs.org/wnet/slavery/timeline/index.html

    دنیا بھر میں غلامی کے خاتمے کی ٹائم لائن کچھ یوں ہے:

    · 1335ء میں اسکنڈے نیویا کے ممالک میں غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ اس کے باوجود یہاں کئی صدیوں تک غلامی موجود رہی ہے۔

    · 1400ء میں یورپ کے باقی حصوں میں میں روایتی غلامی اور نیم غلامی موجود تھی۔

    · 1441ء میں افریقی غلاموں کی تجارت کا آغاز ہوا۔

    · 1492ء میں سقوط غرناطہ کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کی کثیر تعداد کو غلام بنا لیا گیا۔

    · 1492ء ہی میں کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔

    · 1510ء میں افریقی غلاموں کو نئی دنیا یعنی شمالی و جنوبی امریکہ بھیجنے کا عمل شروع ہوا۔

    · 1522ء میں غلاموں کی پہلی بغاوت وقوع پذیر ہوئی۔

    · 1571ء میں فرانس کے ایک شہر بورڈیاکس میں مقامی پارلیمنٹ نے شہر میں موجود تمام سیاہ فام اور مسلمان غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم جاری کیا۔

    · 1600ء میں اسپین کے بادشاہ فلپ سوئم نے ہسپانوی کالونیوں میں ریڈ انڈین غلاموں کے استعمال کو ختم کرنے کا حکم دیا۔

    · 1604ء اور اس کے بعد کے سالوں میں شیکسپئر کے غلامی سے متعلق ڈراموں نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔

    · 1652ء میں “Religious Society of Friends” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ لوگ عرف عام میں کویکر (Quakers) کہلاتے تھے۔ اس کے بانی کا نام جارج فاکس ہے۔ یہ مذہبی عیسائیوں کا ایک گروہ تھا جو موجودہ مذہبی فرقوں سے مطمئن نہ تھے۔ اگرچہ ابتدائی ایام میں اس تحریک کو مذہبی جبر کا سامنا کرنا پڑا لیکن جلد ہی یہ تحریک پورے یورپ اور امریکہ میں پھیلتی چلی گئی۔ اس تحریک نے بعد میں غلامی کے خاتمے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

    · 1671ء میں جارج فاکس اور ان کے ساتھی ولیم ایڈمنڈسن نے بارباڈوس کا دورہ کیا۔ یہاں انہوں نے کھیتوں میں کام کرنے والے غلاموں کے مالکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے غلاموں سے انسانی سلوک کریں اور انہیں نرمی سے عیسائیت کی تبلیغ کریں۔ اس تنبیہ کے نتیجے میں ایک بڑا جھگڑا پیدا ہوا۔

    · 1676ء میں جارج فاکس نے اپنی کتاب شائع کی جس میں انہوں نے غلاموں سے انسانی سلوک کرنے کی ترغیب دی۔ یہ کتاب یورپ اور امریکہ میں بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بعد غلامی کے خلاف بہت سے حلقوں کی جانب سے کتب تواتر سے منظر عام پر آنے لگیں۔

    · 1705ء میں فرار ہو جانے والے غلاموں کو نیویارک کی ریاست نے موت کی سزا دینے کا قانون بنایا۔ اس کے بعد مختلف ریاستوں میں غلاموں سے متعلق قوانین سخت ہوتے چلے گئے اور ان سے بہت سے حقوق چھین لئے گئے۔ ان قوانین میں غلاموں کو ایک بے جان جائیداد قرار دیا گیا۔

    · 1712ء میں پنسلوانیا نے غلاموں کی امپورٹ پر پابندی عائد کر دی۔ اسی سال غلاموں کی بغاوت بھی ہوئی جس میں انیس باغیوں کو موت کی سزا دے دی گئی۔

    · 1723ء میں ورجینیا میں غلاموں کو آزادی دینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    · 1723ء ہی میں روس میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔

    · 1730-1750ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ میں غلاموں کی تعداد آزاد افراد کی نسبت زیادہ ہو گئی۔

    · 1739ء میں جنوبی کیرولینا میں غلاموں کی ایک اور بڑی بغاوت ہوئی جس میں 40 سیاہ فام اور 20 سفید فام افراد مارے گئے۔

    · 1758ء میں کویکرز نے اپنے ممبرز پر یہ پابندی عائد کر دی کہ وہ غلام نہیں رکھ سکیں گے۔

    · 1775ء میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی پہلی سوسائٹی کا قیام عمل میں آیا۔

    · 1776ء میں امریکہ، برطانوی غلامی سے آزاد ہو گیا۔

    · 1783ء کے بعد برطانیہ میں غلامی کے خاتمے کی تحریک زور پکڑتی گئی۔ اگلے دو عشروں میں کویکر اور دیگر تحریکوں نے غلامی پر پابندی عائد کرنے کی زبردست مہم چلائی۔

    · 1784ء میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے حامیوں کی پیش کردہ تجویز کو مسترد کر دیا گیا کہ 1800ء کے بعد غلامی کو مکمل ختم کر دیا جائے۔ اس کے بعد کے عرصے میں مختلف ریاستوں میں کچھ قانون بنائے گئے جن میں کچھ غلاموں کے حق میں اور کچھ ان کے خلاف تھے۔

    · 1791ء میں فرانس میں غلامی کے خاتمے کا قانون بنایا گیا لیکن 1802ء میں اسے منسوخ کر کے دوبارہ غلامی کی اجازت دے دی گئی۔

    · 1793ء میں امریکہ میں ایک قانون منظور ہوا جس کے تحت فرار ہو جانے والے غلاموں کو پکڑنے کی کوششوں میں ڈالی جانے والی رکاوٹوں کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔

    · 1800-1850ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ میں غلاموں کی بہت سی بغاوتیں ہوئیں۔ غلاموں کے فرار میں اضافہ ہوا۔ ان میں سے بہت سے غلام کینیڈا میں جا کر چھپ گئے اور کینیڈا کی حکومت نے انہیں پکڑ کر واپس کرنے سے انکار کر دیا۔ اس عرصے میں مختلف ریاستوں میں قانون سازی کا عمل جاری رہا جن میں کچھ قوانین غلاموں کے حق میں اور کچھ ان کے خلاف تھے۔ بعض ریاستوں میں غلاموں کو آزادی دینے کی اجازت دے دی گئی۔ اسی دوران مختلف ریاستوں میں "اینٹی غلامی" سوسائٹیوں کا قیام عمل میں لایا جاتا رہا۔ بعض ریاستوں میں غلامی پر پابندی عائد کی جانے لگی۔

    · 1807ء میں برطانیہ میں غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس کے بعد غلاموں کو لانے والے بحری جہازوں کے کپتانوں پر سو پاؤنڈ فی غلام جرمانہ عائد کیا جانے لگا۔

    · 1807ء ہی میں جرمنی میں غلامی پر پابندی لگا دی گئی۔

    · 1808ء میں امریکہ میں افریقہ سے غلاموں کی امپورٹ پر پابندی عائد کر دی گئی البتہ ان کی اسمگلنگ اس کے بعد بھی جاری رہی۔

    · 1807-35ء کے عرصے میں برازیل کے علاقے باھیہ میں مسلمان افریقی غلاموں نے ایک بڑی بغاوت پیدا کی۔ انہوں نے اسے جہاد قرار دیا۔ اس میں غلاموں کے ساتھ ساتھ آزاد مسلمان بھی شریک ہوئے۔ یہ بغاوت کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کی تفصیلات محمد شریف بن فرید نے اپنی کتاب “Bahia Slave Revolt” میں بیان کی ہیں۔

    · 1819ء میں ورجینیا کی ریاست نے غلام یا آزاد، سیاہ فام افراد کو تعلیم دینے پر پابندی عائد کر دی۔ اسی اثنا میں بعض دیگر ریاستوں جیسے جارجیا وغیرہ میں غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    · 1833ء میں برطانیہ میں غلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق برطانوی کالونیوں بشمول ہندوستان، پر بھی ہوتا تھا لیکن وہاں غلامی کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔

    · 1835ء میں امریکہ میں غلامی کے خاتمے سے متعلق لٹریچر شائع کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    · 1849-50ء میں امریکہ میں غلاموں میں فرار ہو کر ان ریاستوں میں جانے کا رجحان رہا جہاں غلامی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

    · 1850ء ہی میں فرانس میں غلامی پر دوبارہ پابندی عائد کر دی گئی لیکن افریقہ میں فرانسیسی نو آبادیوں میں غلامی اس کے بعد بھی جاری رہی۔

    · 1852ء میں امریکہ میں غلاموں کی حالت زار سے متعلق ایک ناول شائع ہوا جس کی تین لاکھ کاپیاں بہت کم عرصے میں فروخت ہو گئیں۔

    · 1857ء میں امریکی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سیاہ فام امریکی شہری نہیں ہو سکتے اور کانگریس کو غلامی کے خلاف قانون سازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

    · 1860ء کے عشرے میں امریکہ کی خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ٹیکساس نے غلاموں کو آزادی دینے کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ خانہ جنگی میں بعض افواج نے غلاموں کو بطور فوجی قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن بعض افواج نے انہیں اپنا حصہ بنا لیا۔ ابرہام لنکن امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور انہوں نے غلامی کے خاتمے کا منصوبہ پیش کیا۔

    · 1861ء میں روس میں مزارعوں کی آزادی کی اصلاح کو نافذ کیا گیا۔

    · 1865ء میں امریکی آئین میں تیرہویں ترمیم کے ذریعے غلامی کے خاتمے کا مکمل اعلان کر دیا گیا۔ اس قانون کا اثر نہ صرف امریکہ میں ہوا بلکہ اس نے آنے والے وقت میں دنیا کے بہت سے حصوں میں بھی غلامی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ افسوس ابرہام لنکن کے جانشین موجودہ دور میں دیگر اقوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کے انہیں غلام بنانے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کے عروج و زوال کے قانون کے تحت بعید نہیں کہ اس جرم کی پاداش میں اگلے چند عشروں میں انہیں سپر پاور کی حیثیت سے معزول کر دیا جائے۔

    · 1888ء میں برازیل میں غلامی کے مکمل خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سے پہلے 1871ء میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اب سے غلاموں کے جو بچے بھی پیدا ہوں گے وہ آزاد ہوں گے۔

    · 1910ء میں چین میں غلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا لیکن اس کے بیس سال بعد بھی غلام بچوں کی بڑی تعداد چین میں موجود تھی۔

    · 1948ء میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت غلامی کی ہر حالت کو ممنوع قرار دیا گیا۔

    ان تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کے ادارے کا خاتمہ کوئی آسان عمل نہ تھا۔ غلامی کے خاتمے کی تحریک کو یورپ اور امریکا میں بھی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کے بعد جا کر کہیں غلامی کا قانون کی حد تک خاتمہ ممکن ہو سکا ہے۔ جہاں تک غیر قانونی غلامی اور نیم غلامی کا تعلق ہے تو یہ دنیا میں اب بھی موجود ہے۔

    موجودہ مغربی معاشروں میں غلاموں کی اب چھٹی ساتویں نسل موجود ہے لیکن آج تک وہ اپنے معاشروں میں جذب نہیں ہو سکے۔ ایک افریقی امریکی مصنفہ ڈاکٹر روزی ملیگن لکھتی ہیں:

    The implications an the after-effects of slavery, did a lot of damage to both the minds and the economy of colored people even years after slavery. Racism still flourishes in society. Unfortunately, it is one of those predicaments Blacks have to face in their economic struggle….. Things have changed and times are different, but many Blacks today are suffering from the after-effects of the struggle for justice.....

    Our outcry of racism has emotionally crippled us as we continue to suffer from a self-imposed inferiority complex, complacency, and impotence of action. Everybody knows we must develop a strong economic base through networking and being dedicated to successful strategies in business. We must get rid of this slave mentality to free our minds from cognitive blindness, and mental paralysis. These are serious diseases causing lack of progress for Black people.

    (Dr. Rosie Milligan, Solutions to Black Predicaments: Changing the Mindset of People in Mental Slavery!)

    غلامی کے بعد کے اثرات نے رنگ دار نسل کے لوگوں کے ذہنوں اور معاش کو غلامی کے بہت عرصے بعد بھی تباہ کئے رکھا ہے۔ معاشرے میں اب بھی نسل پرستی موجود ہے۔ بدقسمتی سے یہ ان نحوستوں میں سے ایک ہے جن کا سامنا ایک سیاہ فام کو اپنی معاشی جدوجہد میں کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔ چیزیں بدل چکی ہیں اور وقت مختلف ہے لیکن بہت سے سیاہ فام آج بھی انصاف کے حصول کی جدوجہد کے بعد کے نتائج کو بھگت رہے ہیں۔۔۔

    نسل پرستی کی پکار نے ہمیں جذباتی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور ہم مسلسل خود پر مسلط احساس کمتری، احساس محرومی اندرونی کمزوری کا شکار ہیں۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ہمیں تعلقات بڑھانے کے ذریعے اور کاروبار میں کامیاب حکمت عملی اختیار کرنے کے ذریعے اپنی معاشی بنیاد کو مضبوط بنانا ہے۔ ہمیں غلامانہ ذہنیت سے نجات حاصل کرنا ہو گی تاکہ ہمارے دماغ نفسیاتی اندھے پن اور ذہنی جمود سے آزاد ہو سکیں۔ یہ وہ سنگین بیماریاں ہیں جو سیاہ فام افراد کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

    جدید مسلم دنیا میں غلامی کے خاتمے کی تحریک

    جدید مسلم دنیا میں غلامی کے خاتمے کے لئے چند عوامل نے اہم کردار ادا کیا۔ ان عوامل میں سب سے اہم اور فیصلہ کن عامل یہ تھا کہ مغرب میں غلاموں کی آزادی کی تحریک کا اثر یورپی اقوام کی نوآبادیات پر بھی پڑا۔ 1844ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر میں غلامی کے خاتمے کا ایکٹ نافذ کیا۔ یہی کام مصر میں انہوں نے 1896ء میں کیا۔ جن ممالک میں ان کی نوآبادیات قائم نہیں تھیں وہاں انہوں نے متعلقہ حکومتوں پر دباؤ ڈال کر انہیں اس بات کے لئے مجبور کیا کہ وہ غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیں۔

    غلامی کے خاتمے میں اگرچہ مغربی دباؤ نے اہم ترین اور فیصلہ کن کردار ادا کیا مگر یہ بات درست نہیں ہے کہ اس میں مسلم معاشروں کے اندر کوئی اندرونی دباؤ موجود نہ رہا تھا۔ انیسویں صدی کی مسلم فکر میں غلامی سے متعلق سوچ گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان میں سے بعض کی طرف بی بی سی کے مقالہ نگار نے بھی اشارہ کیا ہے۔ ان تبدیلیوں کی تفصیل یہ ہے:

    · غلاموں کی اٹلانٹک تجارت کے خاتمے نے بعض مسلم مفکرین میں غیرت پیدا کی کہ غیر مسلم تو اپنے غلاموں کو آزاد کر رہے ہیں جبکہ مسلمان اپنے دین کی تعلیمات کے باوجود انہیں بدستور غلامی بنائے رکھے ہوئے ہیں۔

    · بعض مفکرین نے انسانی مساوات کے اسلامی تصور کو وہی اہمیت دینا شروع کر دی جسے ایک عرصے سے مسلمانوں کے ذہین لوگ بھلا چکے تھے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں غلامی کے ایک غیر انسانی ادارہ ہونے کا تصور پیدا ہوا۔

    · جب تک مسلمان دوسروں کو غلام بناتے رہے، انہیں یہ اندازہ نہ ہوا کہ غلامی کتنی بری چیز ہے لیکن جب یورپی اقوام نے آ کر انہیں غلام بنایا، تب انہیں اس کی شناعت کا اندازہ ہوا۔ مسلمانوں کے قوم پرست مفکرین نے یورپی اقوام کے کالونیل ازم کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی تحریک شروع کی۔ ان کے نزدیک مسلم ممالک میں غلامی، اینٹی کالونیل ازم کی تحریک کے خلاف تھی۔ اس تصور کی بائی پراڈکٹ کے طور پر اینٹی غلامی تحریک بھی پیدا ہوئی۔

    · مسلمانوں کے جدیدیت پسند مفکرین نے محسوس کیا کہ غلامی، دور جدید سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ان میں سے جو لوگ مغربی اقوام کے مقلد بنے، انہوں نے مغربی اقوام کی تقلید میں غلامی کے خاتمے پر زور دینا شروع کیا۔

    · یورپی اقوام کے صنعتی انقلاب کے اثرات مسلم دنیا تک پہنچنا شروع ہوئے جن کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ وہی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئیں جن کی سرمایہ دارانہ نظام کو ضرورت تھی۔ لوگ دیہات کو چھوڑ کر شہروں کا رخ کرنے لگے۔ زرعی مزدوروں کی جگہ صنعتی مزدوروں کی ضرورت پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کا زوال شروع ہوا۔ اس عامل نے بھی غلامی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔

    مسلم دنیا میں غلامی کے خاتمے کی ٹائم لائن کی تفصیلات یہ ہیں:

    · 1810ء کے عشرے میں افریقہ کے وسطی علاقوں بالخصوص نائجر اور نائجیریا میں "سکوٹو خلافت" قائم ہوئی۔ یہ خلافت غلاموں کی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہوئی اور انہوں نے اسلامی شریعت کو اپنا منبع قرار دیا۔ اس کے لیڈر عثمان ڈان فوڈیو تھے۔ اس خلافت نے غلاموں کو امریکہ ایکسپورٹ کرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس ریاست میں افریقی غلاموں کی صورتحال میں کافی بہتری پیدا ہوئی مگر غلاموں کی تجارت کا مکمل خاتمہ نہ کیا جا سکا۔ بعد میں یہ خلافت برطانوی افواج کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوئے ختم ہو گئی۔

    · 1844ء میں برطانوی حکومت نے برصغیر پاک و ہند میں غلامی کے خاتمے کا قانون پاس کیا۔

    · 1846ء میں تیونس پہلا مسلم ملک تھا جہاں غلامی کا خاتمہ کر کے اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    · 1847ء میں سلطنت عثمانیہ کے ایک حکم کے تحت خلیج فارس میں غلاموں کی تجارت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

    · 1857ء میں افریقی غلاموں کی تجارت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

    · 1864ء میں جارجیا اور آذر بائیجان کے علاقوں سے بچوں کو غلام بنا کر لانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

    · 1867ء میں سلطنت عثمانیہ نے روس میں موجود غلاموں کو اپنی آزادی خریدنے میں مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

    · 1876ء میں سلطنت عثمانیہ میں بھی غلامی کو ممنوع قرار دے دیا گیا لیکن عملی طور پر غلامی سلطنت کے مختلف علاقوں میں موجود رہی۔ 1908ء تک استنبول میں غلام بیچے جاتے رہے۔

    · 1880-87ء کے دوران سلطنت عثمانیہ نے برطانیہ سے متعدد معاہدے کئے جن کی رو سے غلاموں کی تجارت کو تدریجاً ختم کیا جانا تھا۔

    · 1923-24ء میں عراق اور افغانستان میں غلامی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد ایران میں بھی غلامی ممنوع قرار پائی۔ سوڈان میں بھی غلامی کو ختم کرنے کا قانون بنایا گیا لیکن عملی طور پر اسے ختم کرنا آج تک ممکن نہیں ہو سکا۔

    · 1952-1970ء درمیانی عرصے میں خلیج کی عرب ریاستوں میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔

    · 1990ء میں قاہرہ میں مسلم ممالک کے وزراء خارجہ کی ایک کانفرنس میں متفقہ طور پر غلامی کو غیر قانونی اور غیر اسلامی قرار دے دیا گیا۔

    · 2003ء میں نائیجر میں غلام رکھنے کو جرم قرار دیا گیا۔ اس سے پہلے اگرچہ یہاں فرانسیسی قانون کے تحت سرکاری طور پر غلامی کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا لیکن عملی طور پر غلامی موجود تھی۔

    · 2007ء میں موریطانیہ نے بھی غلام رکھنے کو جرم قرار دیا۔ یہ غلامی کے خلاف اقدام کرنے والا آخری ملک تھا۔

    یہ درست ہے کہ مسلم معاشروں میں غلامی کے حالیہ خاتمے میں فیصلہ کن کردار مغربی اثر نے ادا کیا ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ مسلم معاشرے میں غلامی کے خلاف کوئی تحریک سرے سے موجود ہی نہ رہی تھی۔ کلارنس اسمتھ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

    Opposition to slavery did not begin as a result of Western influence, as is so often assumed, for the Druzes abolished slavery in the eleventh century. However, they were such a heterodox Isma'ili sect as to have little or no impact on the wider community. They were in any case confined to the mountains of Greater Syria.

    More striking, albeit less radical, were notable reforms in the 'gunpowder empires' that arose from the sixteenth century. At best, in the case of Akbar, Mughal emperor of India from 1556 to 1605, there was a possibility that slavery might have withered away, if his reforms had been continued. At worst, the questioning of forms of enslavement and slave use, from Timbuktu to Sulawesi, became part of a tradition that later reformers could draw upon.

    The emergence of fully-fledged Islamic abolitionism from the 1870s was no mere response to Western pressure. Reformers of various kinds returned to the original texts of the faith, especially the Qur'an, as part of a broader movement of revival and renewal. Rather to their surprise, they discovered that the foundations for slavery in holy writ were extremely shaky, not to say non-existent. The Qur'an nowhere explicitly allowed the making of any new slaves by anybody save the Prophet himself, and called repeatedly for the manumission of existing slaves.

    The Hadith literature was scarcely more supportive of slavery, and many reformers queried the authenticity of some of these traditions. The entire edifice of slavery, accounting for a third of the compendium of holy law most used in Inner and South Asia, was found to be built on a cumulative set of dubious exegetical exercises.

    The reformers split into four broad groups. In more rural and remote areas, some ulama, usually with a Sufi background, evolved a quasi-abolitionist stance. In its most extreme form, as enunciated by Ahmad b. Khalid al-Nasiri of Salé in Morocco, no wars since the times of the companions of the Prophet could be dignified with the epithet of holy, and thus no slaves had been taken legitimately after those early years. As unbroken servile descent from the slaves of that time could not be proven, all slaves should be freed. Musa Kamara later spread such notions in West Africa.

    An even more radical version of liberation emerged from millenarian Mahdist movements. One, based in what are today Nigeria and Niger in the 1900s, called for the root and branch abolition of slavery. This was part of the process of filling the earth with justice prior to the imminent last judgement. Other millenarian movements were rarely so explicit, but often contained an emancipatory potential.

    Gradualist modernists were often more urban and middle class, and less likely to be drawn from the ranks of the ulama. They became more numerous and influential as the twentieth century progressed. They were particularly inspired by Sayyid Amir 'Ali, a Shi'i lay reformer from Bengal, and Muhammad 'Abduh, grand mufti of Egypt. They argued that the Prophet personally opposed slavery. However, he risked losing his following had he explicitly banned the institution. Since the infidel had adopted abolition, the time was now ripe for the command of God and the desire of his messenger to be fulfilled.

    Radical modernists, in contrast, held that the Prophet had openly prohibited the making of new slaves, and ordered the freeing of existing ones. Subsequent generations of Muslims had therefore sinned grievously by failing to heed his commands. Indeed, this might have been one of the reasons for which the infidel had become so powerful relative to the believers. The early torchbearers of this strand of abolitionism were Sayyid Ahmad Khan and Maulvi Chiragh Ali, in India, and Musa Jarulla Bigi, in Russian Tatarstan. The Lahori branch of the Ahmadiyya took a similar position, but its 'heretical' status limited its influence….

    Emancipatory legislation was pushed through by a combination of Western colonial governments, puppet Islamic rulers, and secularist Muslim politicians, but there was a wide gulf between the law and social reality. As with narcotics, it was one thing to proclaim an international campaign, and quite another thing to enforce it. Ultimately, an Islamic dynamic of renewal and reform spawned varieties of abolition, which turned the shadow of legislation into a lived reality. Where this failed to happen, slavery persisted, typically in the Sahelian belt from Mauritania, through the Sudan and the Arabian Peninsula, to the confines of Iran, Pakistan and Afghanistan. (William G. Clarence-Smith, Islam & Slavery)

    (مسلم معاشروں میں) غلامی کی مخالفت، عام خیال کے برعکس، مغربی اثرات کا نتیجہ نہیں ہے۔ (شام و لبنان کے) دروز فرقے نے گیارہویں صدی میں اپنے اندر غلامی کا خاتمہ کر لیا تھا۔ اگرچہ یہ لوگ، عام مسلمانوں سے ہٹا ہوا ایک اسماعلی فرقہ ہیں اس وجہ سے ان کا اثر وسیع کمیونٹی میں نہ پھیل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اثر عظیم تر شام (یعنی موجودہ شام، اردن، فلسطین اور لبنان پر مشتمل علاقہ) کے پہاڑوں ہی میں محدود رہا ہے۔

    بارود استعمال کرنے والی سلطنتوں میں سولہویں صدی میں جو اصلاحات کی گئی ہیں، وہ اگرچہ زیادہ فرق نہیں پیدا کر سکیں لیکن چونکا دینے والی ضرور ہیں۔ ان اصلاحات میں سب سے بہتر معاملہ انڈیا کے مغل شہنشاہ اکبر (1556-1605CE) کا ہے۔ یہ ممکن تھا کہ اگر اس کی اصلاحات کا تسلسل جاری رہتا تو اس کے دور میں غلامی کا خاتمہ ہو جاتا۔ ان اصلاحات کا کم سے کم پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں ٹمبکٹو (نائیجر) سے لے کر سولاوسی (انڈونیشیا) تک کے مصلحین میں یہ روایت موجود رہی ہے کہ انہوں نے غلاموں کے استعمال اور غلام بنائے جانے کی شکلوں پر اعتراض کر کے ان کی طرف توجہ دلائی ہے۔

    مسلمانوں کے ہاں غلامی کے خاتمے کی جو تحریک 1870 کے عشرے سے شروع ہوئی، یہ صرف اور صرف مغربی دباؤ کا نتیجہ نہ تھی۔ مختلف قسم کے مصلحین نے تجدید و اصلاح کی تحریک کے حصے کے طور پر مذہب کے اصل مآخذ بالخصوص قرآن کی طرف رجوع کیا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مقدس ماخذوں میں غلامی کی بنیادیں اگر غائب نہیں تو بہرحال بہت کمزور ہیں۔ قرآن نے کہیں یہ اجازت نہیں دی کہ پیغمبر کے سوا کوئی اور نئے غلام بنا سکتا ہے۔ اس نے بار بار پہلے سے موجود غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ہے۔

    حدیث کے لٹریچر میں غلامی کی حمایت میں بہت کم مواد ملتا ہے اور ان روایات کے مستند ہونے پر بہت سے مصلحین نے اعتراض کیا ہے۔ غلامی کی پوری عمارت جو فقہ کے تہائی حصے کے قوانین پر کھڑی ہے اور جس کا استعمال وسطی اور جنوبی ایشیا میں کیا جاتا رہا ہے، محض اجتہاد اور قیاس کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے۔

    مصلحین کو چار گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ (پہلا گروہ) دیہی اور دور دراز علاقوں میں، صوفیانہ بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھنے والے کچھ علماء کا ہے جن میں غلامی کے خاتمے کا نقطہ نظر ارتقاء پذیر ہوا۔ اس کی سب سے شدید شکل وہ ہے جو مراکش کے احمد بن خالد النصیری نے بیان کی ہے کہ چونکہ رسول اللہ کے صحابہ سے لے کر آج تک کی کسی جنگ کو مقدس جہاد کا نام نہیں دیا جا سکتا، اس وجہ سے ان جنگوں میں جن لوگوں کو غلام بنایا گیا، وہ قانونی طور پر غلام نہیں ہیں۔ چونکہ عہد رسالت سے لے کر آج تک کے غلاموں کے درمیان کوئی نسلی زنجیر موجود نہیں ہے اس وجہ سے تمام غلاموں کو آزاد کر دینا چاہیے۔ مغربی افریقہ میں بعد میں موسی کمارا نے یہی نظریات پیش کئے۔

    (دوسرا گروہ) ہزار سال کے بعد مہدی کی آمد پر یقین رکھنے والی تحریکوں کا ہے جن میں غیر روایتی نظریات پیدا ہوئے۔ ان میں سے ایک تحریک جو 1900 کے عشرے میں نائیجیریا اور نائیجر میں موجود رہی ہے، اس نے غلامی کی بنیاد اور اقسام کو ختم کر دینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس مطالبے کو قیامت سے پہلے زمین کو عدل سے بھر دینے کے عمل کا حصہ قرار دیا۔ دیگر مہدوی تحریکوں میں اگرچہ یہ بات واضح طور پر نہیں کہی گئی لیکن ان میں بھی غلاموں کو آزادی دینے کا پوٹینشل موجود تھا۔

    (تیسرا گروہ) تدریجی اصلاح کے حامی متجددین کا ہے۔ یہ اکثر اوقات شہری اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اور (روایتی) علماء کے طبقے سے کم ہی تعلق رکھتے تھے۔ بیسویں صدی کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کا اثر بڑھتا گیا۔ یہ لوگ خاص طور پر بنگال سے تعلق رکھنے والے شیعہ مصلح سید امیر علی اور مصر کے مفتی اعظم محمد عبدہ کے خیالات سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے دلائل پیش کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ذاتی طور پر غلامی کی مخالفت کی ہے۔ اگر آپ کو لوگوں کے اسلام چھوڑ جانے کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ اس پر واضح الفاظ میں پابندی عائد فرما دیتے۔ اب چونکہ غیر مسلموں نے غلاموں کو آزادی دینے کا راستہ اختیار کر لیا ہے، اس وجہ سے اب وہ وقت ہے کہ خدا کے حکم کو زندہ کیا جائے اور اس کے پیغمبر کی منشاء کو پورا کیا جائے۔

    (چوتھا گروہ) شدت پسند متجددین کا ہے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے واضح طور پر نئے غلام بنانے کو حرام قرار دیا ہے اور پہلے سے موجود غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ مسلمانوں کی بعد کی نسلوں نے آپ کے احکام کی خلاف ورزی کر کے ایک عظیم گناہ کیا ہے۔ درحقیقت یہی وہ وجہ ہے کہ غیر مسلم، اہل ایمان کی نسبت زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے ذریعے غلامی کے خاتمے کے علمبردار انڈیا میں سرسید احمد خان اور مولوی چراغ علی تھے جبکہ روسی تاتارستان میں یہ نقطہ نظر موسی جار اللہ بیگ نے پیش کیا۔ احمدیوں کی لاہوری جماعت نے بھی یہی نقطہ نظر اختیار کیا لیکن اس کے "مرتد" ہونے کے درجے نے اس کے اثر و رسوخ کو محدود کر دیا۔۔۔۔

    (مسلم ممالک میں غلاموں کی) آزادی سے متعلق قانون سازی کے پیچھے مغرب کی کالونیل حکومتوں، کٹھ پتلی مسلم حکمرانوں اور سیکولر مسلم سیاستدانوں کا ہاتھ تھا لیکن قانون اور سماجی حقیقت کے درمیان ایک وسیع خلیج برقرار رہی۔ یہ بالکل منشیات ہی کی طرز کا معاملہ ہے کہ ایک چیز اس کے خلاف بین الاقوامی مہم ہے اور دوسری چیز اس پر حقیقی عمل درآمد کروانا ہے۔ مسلمانوں کی تجدید و احیائے دین کی کوششوں کے نتیجے میں غلاموں کی آزادی کی مختلف شکلیں وجود میں آئیں جس کے نتیجے میں قانون سازی کے اثرات زندہ معاشرے میں رونما ہوئے۔ جہاں ایسا نہ ہو سکا، وہاں (باوجود قانون سازی کے) غلامی موجود رہی (اور کافی عرصے میں جا کر ختم ہوئی۔) مثال کے طور پر افریقہ کی سواحلی پٹی جس میں موریطانیہ، سوڈان، جزیرہ نما عرب، ایران، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔

    دور جدید کے مسلم معاشروں کو ہم بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک تو قدیم عربی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات اور دوسرے دنیاوی تعلیم پانے والے جدید تعلیم یافتہ حضرات۔ کلارنس اسمتھ نے مسلم معاشروں میں غلامی کے خلاف تحریک چلانے والے جن چار گروہوں کا ذکر کیا ہے، ان کے نقطہ ہائے نظر میں استدلال کی کچھ کمزوریاں موجود تھیں۔ اس وجہ سے ان کا اثر صرف دوسرے طبقے پر رونما ہوا۔ پہلے طبقے پر ان تحریکوں کا شروع میں تو کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ ان متجددین کو بالعموم کافر، ملحد، مرتد اور گمراہ ہی قرار دیا گیا۔

    اب سے سو برس پہلے کے روایتی علماء کے لئے غلاموں کی موجودگی کوئی مسئلہ ہی نہ تھی۔ جب ان تحریکوں کے ذریعے انہیں اس طرف توجہ دلائی گئی تب انہیں علم ہوا کہ "ارے!!! انسانوں کو حقوق دلوانا اور غلاموں کی آزادی کی جدوجہد بھی کرنے کا کوئی کام ہے۔" اس کے بعد روایتی علماء کے طبقے میں سے بھی ایسے اہل علم پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے غلامی کے ادارے کو ختم کرنے کی حمایت کی اور اس ضمن میں اسلام کا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی۔ ایسے اہل علم کی تعداد بہرحال بہت کم ہے۔

    عہد رسالت اور جدید مغربی معاشروں میں غلاموں کی آزادی کی تحریک کا تقابلی جائزہ

    اگر ہم مغربی معاشروں میں موجود غلاموں کی آزادی کی تحریک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے عہد میں موجود غلامی کی آزادی کی تحریک سے تقابل کریں تو یہ نکات سامنے آتے ہیں:

    · مغربی معاشروں میں غلاموں کی آزادی کی جدوجہد کو ایک طویل مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس مزاحمت کے پیچھے اس طبقے کا ہاتھ تھا جس کا کام ہی غلام بنانا، انہیں بیچنا اور ان سے خدمت لینا تھا۔ عہد رسالت و صحابہ میں حیرت انگیز طور پر غلاموں کی آزادی کی تحریک کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صحابہ کرام کے آخری دور میں خانہ جنگیوں کی بھرمار ہے لیکن ان میں سے ایک خانہ جنگی بھی غلامی کی حمایت یا مخالفت میں نہیں ہے۔

    · مغربی معاشروں نے بالعموم غلاموں کو آزادی دینے کے لئے بنیادی طور پر قانون کی طاقت کو استعمال کیا۔ عہد رسالت و خلفاء راشدین میں غلاموں کو آزادی دینے کے لئے مذہب کی طاقت کو استعمال کیا گیا۔ قانون کی طاقت اس معاملے میں ایک مددگار کے طور پر تو موجود تھی لیکن اس سلسلے میں حکومتی قوت کا استعمال کرنے کی عملی ضرورت بہت ہی کم پیش آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں آزاد کردہ غلاموں اور ان کے سابقہ آقاؤں کے مابین محبت کا تعلق پایا جاتا ہے وہ مغربی معاشروں میں آزاد کردہ غلاموں اور ان کے آقاؤں کی نسلوں میں ڈیڑھ سو برس کے بعد بھی استوار نہیں ہو سکا۔

    · غلاموں کی آزادی کی مغربی تحریک میں ایک بڑا کردار اس عامل کا ہے کہ یورپی معاشرے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جاگیردارانہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سرمایہ داروں کو وسیع تعداد میں صنعتی کارکنوں کی ضرورت تھی جن پر جاگیردارانہ نظام قبضہ کئے ہوئے بیٹھا تھا۔ عہد رسالت و صحابہ کے معاشی نظام کی ایسی کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں معاشی عوامل غلامی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گلہ بانی کرنے والے عرب بدو عراق اور شام کی زرخیز زمینوں میں کھیتی باڑی کرنے لگے تھے لیکن اس سے غلامی کے ادارے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

    · غلاموں کی آزادی کی مغربی تحریک قانونی اعتبار سے دنیا بھر میں غلاموں کو قانونی آزادی دینے میں کامیاب ہو گئی ہے لیکن یہ تحریک نیم غلامی کو ابھی تک مغربی معاشروں میں بھی ختم کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ پست طبقوں کے اسٹیٹس کو بلند کرنے میں اگرچہ معاش کی حد تک مغربی اقوام کو کسی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن معاشرتی درجہ بلند کرنے میں قانون سازی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی سطح پر ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔ عہد رسالت و صحابہ میں غلاموں کو نہ صرف قانونی آزادی ملی بلکہ انہیں اپنا معاشی و معاشرتی اسٹیٹس بلند کرنے میں بھی ایسی کامیابی نصیب ہوئی جس کے نتیجے میں یہ لوگ صحابہ و تابعین کے جلیل القدر اہل علم میں شمار ہوئے۔

    · غلاموں کی آزادی کی موجودہ تحریک کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے خلاف اس وقت دنیا میں کوئی بڑی کاؤنٹر ابالیشن موومنٹ موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے امید کی جا سکتی ہے کہ کم از کم یہ تحریک اب رول بیک نہیں ہو گی اور دنیا میں غلامی کے ادارے کو دوبارہ شروع نہیں کیا جائے گا۔ عہد رسالت و صحابہ کی تحریک کے نتیجے میں جب غلاموں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہو گئی تو مسلم دنیا میں غلاموں میں اضافے کی ایک کاؤنٹر ابالیشن تحریک پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں غلاموں کو امپورٹ کر کے لایا جانے لگا۔ یہ مسلم معاشرے کا ایک منفی پہلو رہا ہے۔

    مغربی اور مسلم معاشروں میں غلامی کے خاتمے کی تحریک کا تقابلی جائزہ

    اگر غلاموں کی آزادی کی اس مغربی تحریک کا ان کے ہم عصر مسلم معاشروں سے تقابل کیا جائے تو ایک مختلف صورتحال سامنے آتی ہے۔

    · اہل مغرب کے ہاں غلاموں کی حالت زار بہت ہی خراب تھی۔ ان پر ظلم و ستم نے ایک طرف ان غلاموں کو فرار اور بغاوت پر مجبور کیا اور دوسری طرف معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں اس ظلم اور جبر کے خلاف ایک عظیم تحریک پیدا کی۔ مسلم معاشروں میں چونکہ غلاموں پر بہت زیادہ ظلم و ستم نہیں کیا گیا اور کچھ استثنائی امور کو چھوڑ کر عمومی طور پر مسلمانوں نے غلاموں سے حسن سلوک سے متعلق اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کیا ہے، اس وجہ سے یہاں نہ تو غلاموں کو فرار اور بغاوت پر مجبور ہونا پڑا ہے اور نہ ہی معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں کوئی بڑی تحریک پیدا ہو سکی ہے۔ اس کے علاوہ مسلم دنیا میں مکاتبت کا ادارہ بھی موجود رہا ہے۔ جو غلام آزادی حاصل کرنا چاہتا، اس کے لئے اپنی آزادی کو خود خریدنے کا راستہ کھلا رہا ہے۔

    · اہل مغرب کے ہاں تین صدیوں کی انکوئزیشن اور مذہبی جبر کے رد عمل میں "آزادی فکر" کی ایک غیر معمولی تحریک پچھلی چار صدیوں سے موجود ہے۔ مسلم معاشروں میں ان صدیوں میں بالعموم اسٹیٹس کو برقرار رکھنے، اجتہاد کا دروازہ بند کئے رکھنے اور دینی اور دنیاوی ہر میدان میں تقلید کی روش اختیار کئے رکھنے کا رجحان غالب رہا ہے۔ اگر اس رجحان کے خلاف کسی نے چلنے کی کوشش کی بھی ہے تو اسے معاشرے میں قبول عام حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ یہی وجہ ہے یہاں اس قسم کی کوئی تحریک بڑے پیمانے پر نہیں پھیل سکی۔ مسلم معاشروں میں مذہبی جبر کو بھی بالعموم قانونی شکل نہیں دی گئی بلکہ اسے معاشرتی سطح پر رکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کے ردعمل میں آزادی فکر کی کوئی تحریک پیدا نہیں ہو سکی۔

    · اہل مغرب صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجے میں غلامی اور نیم غلامی کو ختم کرنے کی ایک بڑی معاشرتی ضرورت پیدا ہو گئی لیکن مسلم دنیا میں جاگیردارانہ نظام کی قوت اب بھی کافی حد تک باقی ہے اور نیم غلامی کے خاتمے میں یہ ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

    · اہل مغرب نے بڑی حد تک معاشی اعتبار سے سابقہ اور نیم غلاموں کی حالت کو بہتر بنا لیا ہے۔ مسلم معاشرے ان سے اس معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔

    · اہل مغرب کے ہاں نسل پرستی اب بھی ایک خوفناک درجے میں موجود ہے لیکن مسلم دنیا میں نسل پرستی کے اثرات بہت ہی کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ غلاموں کی اولادیں مغربی دنیا میں اب بھی نسل پرستی کا شکار ہیں جبکہ مسلم دنیا میں سابقہ غلاموں کی اولاد کو شاید ہی یہ معلوم ہو گا کہ ان کے آبا و اجداد کبھی غلام ہوا کرتے تھے۔
     
  28. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 18: موجودہ دور میں جسمانی غلامی اور اس کا سدباب


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    موجودہ دور میں اگرچہ غلامی قانونی اعتبار سے ختم کر کے اس پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن بہت سے ممالک میں غیر قانونی غلامی بہرحال موجود ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اور بالخصوص مسلم ممالک میں جاگیردارانہ غلامی یا نیم غلامی بھی بہرحال موجود ہے اور اس کی قوت بھی ابھی تک برقرار ہے۔ اس کے علاوہ ذہنی و نفسیاتی غلامی بھی مسلم دنیا میں اپنی پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ اس باب میں ہم خاص طور پر مسلم دنیا میں موجود مختلف اقسام کی غلامی کا جائزہ لیں گے اور اس کے سدباب کے طریقوں پر بحث کریں گے۔

    ہمارے ہاں ایک غلط نظریہ رواج پا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی برائی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حکومت پر قبضہ کر کے قانون کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے برائی کا خاتمہ کیا جائے۔ اس نظریے کے پیش نظر مسلم مصلحین کی ایک بڑی تعداد سیاسی میدان میں کود پڑی۔ حکومت تو ان کے ہاتھ نہ آئی لیکن انہوں نے غیر حکومتی میدان میں تجدید و احیائے دین کے بہت سے مواقع ضائع کر دیے ہیں۔

    ہم اس بات کے قائل ضرور ہیں کہ سیاسی مزاج رکھنے والے نیک لوگوں کو اس میدان کو کرپٹ اور موقع پرست سیاستدانوں کے لئے کھلا نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمیں اختلاف صرف اس بات سے ہے کہ جو لوگ معاشرتی سطح پر برائی کے خلاف جدوجہد میں نہایت ہی اعلی کردار ادا کر سکتے ہوں، انہیں سیاست کے لئے معاشرتی جدوجہد کے اس میدان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ دور جدید میں بے شمار انقلابات پیدا ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں معاشرتی سطح پر ایسے ادارے وجود میں آ چکے ہیں جن کی قوت حکومت کی قوت سے اگر زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ ان اداروں کو بدقسمتی سے خیر کے داعی اس طریقے سے استعمال نہیں کر رہے جس طرح سے انہیں برائی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ ہم موجودہ غلامی کے سدباب سے متعلق جو اقدامات اس باب میں پیش کر رہے ہیں، ان کا تعلق زیادہ تر معاشرتی سطح سے ہے۔ ہر قسم کی غلامی کے سدباب سے متعلق تجاویز میں اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ عہد رسالت کی قائم کردہ سنت کے مطابق پہلے سے موجود غلاموں اور آئندہ بنائے جانے والے غلاموں سے متعلق ہمیں مختلف طرز کے اقدامات کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ہر قسم کی غلامی میں اس تقسیم کو ملحوظ رکھا ہے۔

    غلامی کی مخفی صورتیں

    موجودہ دور میں غلامی اور نیم غلامی کی درج ذیل شکلیں پائی جاتی ہیں:

    · غیر قانونی غلامی

    · جاگیردارانہ غلامی

    · سرمایہ دارانہ غلامی

    · جیل کے قیدیوں کی غلامی

    · ذہنی و نفسیاتی غلامی

    ان میں سے جسمانی غلامی کو ہم اس باب میں جبکہ نفسیاتی غلامی کو اگلے ابواب میں بیان کریں گے۔

    غیر قانونی غلامی

    غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو سبز باغ دکھا کر ترقی یافتہ ممالک میں لا کر انہیں غلام بنانے کا سلسلہ پچھلے دو عشروں سے اپنے عروج پر ہے۔ یورپی کونسل کے ایک اندازے کے مطابق اس صنعت کا ٹرن اوور 42.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بردہ فروشوں کا ایک عالمی نیٹ ورک پوری دنیا بالخصوص پس ماندہ ممالک (جن میں زیادہ تر مسلم ممالک شامل ہیں) میں کام کر رہا ہے۔

    غلام بنائے جانے کے طریقے

    بردہ فروش مختلف افراد کو جن طریقوں سے گرفتار کرتے ہیں، اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

    · بہت سے سادہ لوح افراد، جن کا تعلق بالعموم دیہات یا چھوٹے شہروں سے ہوتا ہے، کو بالعموم انہی کے جاننے والوں کے ذریعے سبز باغ دکھائے جاتے ہیں کہ ہم تمہیں فلاں ملک میں لے جا کر ملازمت دلوائیں گے۔ جو تنخواہ انہیں بتائی جاتی ہے، وہ اس آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو یہ افراد اپنے ممالک میں کما رہے ہوتے ہیں۔

    · بچوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اس کے لئے اغوا کاروں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک دنیا میں موجود ہے جو بالخصوص رش کے مقامات جیسے میلوں، بازاروں، مزارات اور دیگر مذہبی مقامات سے بچوں کو اغوا کر کے آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ یہ بچے متعدد ہاتھوں میں فروخت ہوتے ہوئے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بکتے چلے جاتے ہیں۔

    · بعض بچوں کو ان کے غریب والدین سے خرید لیا جاتا ہے۔

    · بعض اوقات غریب والدین کے بچوں کو قانونی طور پر گود لیا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں غلام بنا لیا جاتا ہے۔

    · بعض بالغ افراد کو اغوا کر کے انہیں غلام بنا لیا جاتا ہے اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے بعض افراد کو نشہ آور ادویات پلا کر انہیں اپنے کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے۔

    · بعض لوگ بذات خود، اچھے مستقبل کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکہ، یورپ، جاپان اور مشرق وسطی کا وزٹ ویزا حاصل کر کے ان ممالک میں جا کر غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ افراد بالعموم مختلف افراد کے ہاتھوں میں جا کر عملاً غلام بن جاتے ہیں۔ سعودی عرب میں عمرے کا ویزا حاصل کر کے غائب ہو جانے کا رواج بہت زیادہ ہے۔

    · ان افراد میں سے جو پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں وہ سرکاری طور پر جیل میں رکھ کر غلام بنا دیے جاتے ہیں۔ بعض ممالک کی حکومتیں ان سے کچھ عرصہ خدمت لینے کے بعد انہیں رہا کر کے ان کے اپنے ممالک میں بھیج دیتی ہیں جہاں کی حکومتیں انہیں پھر جیل میں قید کر دیتی ہیں۔

    · نوجوان ہوتی ہوئی لڑکیوں سے محبت کا ناٹک رچایا جاتا ہے۔ ان کے محبوب، صنف نازک کو لبھانے کے تمام ہتھکنڈوں کے لئے پوری طرح تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو گھر سے بھاگنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ خاص طور پر جو لڑکیاں اپنے گھریلو حالات سے تنگ ہوتی ہیں، انہیں گھر سے بھگا کر لے جانا آسان ہوتا ہے۔ ان لڑکیوں کو اپنے گھروں سے زیورات وغیرہ لانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جب وہ یہ کر بیٹھتی ہیں تو ان کے محبوب زیور اور رقم حاصل کر کے اور ان کا جنسی استحصال کرنے کے بعد انہیں اگلے ہاتھوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ان لڑکیوں کی زندگی ہاتھ در ہاتھ فروخت ہوتے ہی گزرتی ہے۔

    · جو خواتین پہلے سے ہی عصمت فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیں، ان کی پیدا ہونے والی ناجائز بیٹیوں اور اب بیٹوں کو بھی عصمت فروشی کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے جنسی غلامی کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔

    اس تجارت کے حجم کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے چھ سے آٹھ لاکھ افراد امریکہ میں لائے جاتے ہیں۔ ان میں ستر فیصد تعداد خواتین اور پچاس فیصد بچوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    جنوب مشرقی ایشیا میں فلپائن اور تھائی لینڈ سے تین لاکھ کے قریب خواتین اور بچوں کو غلام بنا کر جاپان اور امریکہ میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ عراقی جنگ کے بعد پچاس ہزار سے زائد خواتین صرف شام کے اندر عصمت فروشی پر مجبور ہوئیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آزادہ شدہ روسی ریاستوں میں سے بے شمار خواتین کو عصمت فروشی کے لئے اسمگل کیا گیا۔ دو لاکھ نیپالی لڑکیوں کو بھارت میں غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ یورپ کے جنگ زدہ علاقوں جیسے بوسنیا اور کوسوو میں کثیر تعداد میں لوگوں کو غلام بنایا گیا۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے لاکھوں افراد مغربی ممالک اور مشرق وسطی میں غلامی پر مجبور ہیں۔

    بہت سے افریقی ممالک میں مذہبی غلامی کا سلسلہ بھی ابھی باقی ہے اور نوجوان بچیوں کو مندروں میں غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تجارت دنیا بھر کے ممالک کے قانون میں جرم قرار دی گئی ہے لیکن یہ نیٹ ورک تیزی سے پوری دنیا میں نہ صرف کام کر رہا ہے بلکہ پھیلتا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سوزان میئرز لکھتی ہیں:

    Women and children of both sexes are trafficked into prostitution all over the rich world from the Balkans, Russia and other poor areas around the globe.…. All agree, however, that child and forced prostitution are forms of contemporary slavery. These are the victims of the growing global sex industry….

    Children are liable to many forms of exploitation. Most tragic are the little girls sold into prostitution whose families will not take them back if they contract aids. Children are also victims of sex tourism, pornography, illegal adoption, and even deliberate mutilation so that they can make money begging. Child soldiers have been forced into warlord and rebel armies as small wars have proliferated. Some have been made to commit atrocities, as in Sierra Leone. Girls are also captured as ‘wives’ or servants for warlords and their followers. Little boys are imported into Arabia and tied onto camels as jockeys for camel races in the Gulf States.

    Desperate parents from Roumania bring their teenage sons to Italy and hire them out prostitutes.74 Thousands of children work in hazardous and unhealthy conditions – the victims of poverty, debt bondage and sometimes of trafficking. A serious problem is that traffickers are constantly becoming more sophisticated and tapping new fields. Thus whole families in Moldavia are being offered jobs in Poland and end up in servitude in Warsaw. (Suzanne Meirs, Solution for Abolition)

    خواتین، بچوں اور بچیوں کو بلقان، روس اور دنیا کے دیگر غریب علاقوں سے امیر دنیا میں عصمت فروشی کے لئے لایا جاتا ہے۔۔۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ جبری عصمت فروشی اور بچوں کی عصمت فروشی دور جدید کی غلامی ہی کی صورتیں ہیں۔ یہ خواتین اور بچے دنیا کی پھیلتی ہوئی سیکس انڈسٹری کے شکار ہیں۔

    بچوں کا کئی طریقوں سے استحصال کیا جاتا ہے۔ سب سے بری حالت ان لڑکیوں کی ہوتی ہے جنہیں عصمت فروشی کے لئے بیچ دیا جاتا ہے اور اگر انہیں ایڈز لاحق ہو جائے اور ان کے خاندان بھی انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بچے سیکس ٹورازم، پورنو گرافی، غیر قانونی طریقے سے گود لینے اور بھیک مانگنے کے لئے اعضا کے کاٹ دیے جانے کا شکار بھی ہوتے ہیں۔

    جیسے جیسے دنیا میں چھوٹی چھوٹی (گوریلا) جنگیں پھیلتی جا رہی ہیں، ویسے ویسے بچوں کو زبردستی سپاہی بنا کر وار لارڈز کی بغاوتی تحریکوں کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض بچوں کو تو، جیسے سائرا لیون میں، انتہا درجے کی بربریت کرنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے۔ وار لارڈز اور ان کے ساتھی بچیوں کو اغوا کر کے انہیں بطور خادمہ یا بیوی کے رکھتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو بعض عرب ممالک میں لا کر اونٹوں پر باندھ کر ریس میں دوڑایا جاتا ہے۔

    غلاموں سے سلوک

    غیر قانونی غلاموں کو چونکہ کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا ہے اس وجہ سے ان سے ایسا سلوک کیا جاتا ہے جسے بیان کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مردوں سے بالعموم ایسے سخت کام لئے جاتے ہیں جنہیں کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں ہے۔ سخت گرمی اور شدید برفباری میں انہیں بھاری وزن اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

    بہت سے صحت مند مردوں کے گردے اور دیگر اعضا نکال کر انہیں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ انہیں بس اتنا کھانا دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے جسم و روح کا تعلق برقرار رہے اور ان سے جبری مشقت لی جاتی رہے۔ انہیں کوڑے مار مار کر مزدوری کروائی جاتی ہے۔ ان سے بغیر کسی چھٹی کے سولہ سولہ گھنٹے مزدوری کروائی جاتی ہے۔ بہت سے ایجنٹ ویران جزیروں پر ایسے افراد کو چھوڑ کر فرار بھی ہو جاتے ہیں جہاں یہ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    خواتین غلاموں کی حالت ان سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق خواتین کا دو تہائی حصہ اس غلامی کے بعد عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ ان میں سے پچھتر فیصد خواتین وہ ہوتی ہیں جن کی عصمت اس سے پہلے محفوظ ہوتی ہے۔ ان خواتین کو دھندے پر لگانے سے پہلے انہیں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے شہر جیسے ٹوکیو، سنگاپور، بنکاک، دوبئی، بمبئی، استنبول، لندن، پیرس اور نیویارک اس قسم کی طوائفوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

    سب سے نازک معاملہ بچوں کی غلامی کا ہے۔ ان بچوں سے شدید جبری مشقت کروائی جاتی ہے اور انہیں اجتماعی طور پر ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض بچوں کو اونٹ دوڑ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہم جنس پرستی کے فروغ کے بعد مغربی ممالک میں ایسے بچوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خواتین اور بچوں کے اس جنسی استحصال کے نتیجے میں ان میں ایڈز پھیلتی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنی جوانی ہی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ایک دردناک موت سے ہمکنار جاتے ہیں۔

    جاگیردارانہ غلامی

    دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ معاشروں کے برعکس ہمارے یہاں اکیسویں صدی میں جاگیردارانہ نظام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ غریب مزارعوں اور ہاریوں کو ان کی شب و روز خدمات کا اتنا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا جس سے وہ اپنی صرف بنیادی ضروریات ہی پوری کر سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ صرف روٹی کے حصول کے لئے بھاری شرح سود پر قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

    اس قرض کی عدم ادائیگی نہ صرف ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کو غلام بنا دیتی ہے بلکہ انہیں نہایت ہی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ جب تک دباؤ برداشت کر سکتے ہیں، کرتے ہیں لیکن جب پانی حد سے گزر جاتا ہے تو خودکشی پر مجبور ہو کر اپنے قرضے آنے والی نسل کو منتقل کر جاتے ہیں۔ جاگیرداروں کی نجی جیلوں کی تفصیلات اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔

    خوش قسمتی سے اس ظلم کے خلاف ہمارے معاشرے میں ایک مضبوط آواز موجود ہے لیکن افسوس کہ اس آواز میں مذہبی طبقے کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر مذہبی طبقہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور سود خوروں کے خلاف "فاذنوا بحرب من اللہ و رسولہ" کا مطالبہ حکومت کے سامنے پیش کرے تو اس ظلم کی شدت میں کم از کم بڑی حد تک کمی کی جا سکتی ہے۔

    سرمایہ دارانہ غلامی

    بیسویں صدی کے نصف اول میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کو کمیونزم کے ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا تھا، اس وجہ سے دنیا بھر میں مزدوروں اور ملازموں کی حالت میں نمایاں بہتری سامنے آئی۔ ملازمین کے اوقات کار مقرر کئے گئے۔ ان کی چھٹی کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ انہیں میڈیکل کی سہولت مہیا کی گئی۔ پنشن اور پراویڈنٹ فنڈ کی سہولتوں پر ملازمین کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ ملازمین کو نوکری کی حفاظت کی گارنٹی دی گئی۔

    بیسویں صدی کے آخر میں جیسے ہی کمیونزم کا خطرہ ٹلا، تو سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر خباثتیں، جن پر پہلے پردہ پڑا ہوا تھا، منظر عام پر آ گئیں۔ ملازمین کے قانونی حقوق اگرچہ ختم نہ کئے جا سکے لیکن ان سے فرار کی دو راہیں دنیا بھر کے ممالک میں نکالی جا چکی ہیں۔ ایک تو یہ کہ "ایگزیکٹو کلاس" کو لیبر لاء سے مستثنی قرار دے دیا گیا حالانکہ یہ بے چارے ذرا اچھے درجے کے ملازم ہی ہیں اور دوسرے "کنٹریکٹ ملازمین" کا متبادل طبقہ وجود میں لایا گیا۔

    ان طریقوں سے سرمایہ دار طبقہ اب مستقل ملازمین کی بجائے کنٹریکٹ ملازمین پر انحصار کرتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں کریڈٹ کارڈز اور پرسنل لونز کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ حالیہ عشرے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں جو مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے، اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ نکلے گا کہ غربت بڑھتی چلی جائے گی، امیر امیر سے امیر تر اور غریب قرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس طریقے سے غلامی کے ادارے کو دوبارہ زندہ کر دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ صورتحال یہی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب سرمایہ داری کا عفریت وہی صورت اختیار کرتا چلا جائے گا جس کی تصویر کارل مارکس نے اپنی کتاب میں کھینچی ہے۔

    موجودہ دور میں دیکھیے تو ایگزیکٹو کلاس کے اعلی تعلیم یافتہ ملازمین کی حالت بھی غلاموں کی سی ہے۔ انہیں بہترین تنخواہیں، سہولیات، بزنس کلاس کے سفر، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام اور اس قسم کی درجنوں تعیشات حاصل ہیں لیکن ان سے ان کی اپنی زندگی کو انجوائے کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ان بے چاروں کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی گزار سکیں۔ بارہ سے چودہ گھنٹے کام کرنے کے بعد جب تھک ہار کر یہ گھر آتے ہیں تو اس وقت بھی موبائل پر باس کی دھڑا دھڑ کالز ان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔

    ان حضرات کو میڈیکل کی بہترین سہولیات تو میسر ہوتی ہیں لیکن بیماریوں کو پیدا ہونے سے روکنے کے لئے ورزش کا وقت ان کے پاس نہیں ہوتا۔ اس طبقے پر کام کا دباؤ بے پناہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں شوگر، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور دل کی بیماریاں عام ہیں۔ اس ڈپریشن کو دور کرنے کے لئے یہ حضرات پھر شراب و شباب میں پناہ ڈھونڈنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرے میں برائیوں کو فروغ ملتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ جب اعلی تعلیم یافتہ ایگزیکٹوز کا یہ حال ہے تو پھر کم تعلیم یافتہ ملازمین کا کیا حال ہوگا۔

    دنیا کا یہ اصول ہے کہ "اللہ تعالی کسی بھی قوم یا طبقے کی حالت اس وقت تک بہتر نہیں بناتا جب تک وہ خود اپنی حالت بہتر نہ بنائیں۔" اس اصول کے تحت استحصال کا شکار ہونے والے ملازمین کو اپنی جدوجہد کا آغاز خود کرنا پڑے گا۔ چونکہ ہمارا سرمایہ دار طبقہ مغرب کی اندھا دھند پیروی میں فخر محسوس کرتا ہے، اس وجہ سے مناسب ہو گا کہ حالیہ برسوں میں اہل مغرب کے ہاں ملازمت کے ادارے میں جو مثبت تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں، انہیں ملازمین کا طبقہ اپنی زندگی بہتر بنانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کی ذمہ داری سب سے پہلے ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو مختلف کمپنیوں میں اعلی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔

    اہل مغرب کے ہاں ملازمت کے ادارے میں دو طرح کی مثبت تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ حقیقی آفس کو اب "ورچوئل آفس(Virtual Office) " میں تبدیل کیا جا سکے۔ سرمایہ دار، ملازمین کے فائدے کے لئے نہیں بلکہ اپنے فائدے کے لئے اس سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

    تنظیمی کرداریت (Organisational Behaviour) کی متعدد تحقیقات یہ ثابت کر چکی ہیں کہ سوٹ پہن کر سخت ڈسپلن میں کام کرنے کی نسبت گھر میں آرام دہ ماحول میں کام کرنے والے کارکنوں کی پیداواری صلاحیت (Productivity) کہیں بہتر ہوتی ہے اور وہ کم وقت میں زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ اس طریقے سے مہنگے ترین دفاتر کا کرایہ بھی بچایا جا سکتا ہے۔ پیداواری صلاحیت میں اضافے سے حاصل ہونے والی آمدنی اور کرایے کی بچت سے ورچوئل آفس والی کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    دوسری تبدیلی کا تعلق اوقات کار (Working Hours) سے ہے۔ انسانی نفسیات کا مطالعہ یہ ثابت کر چکا ہے کہ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ مختلف انسانوں کے سونے جاگنے اور کام کرنے کی عادات میں فرق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے مغربی ممالک میں ملازمین کو اوقات کار میں لچک (Flexible Hours) کی سہولت دی جار ہی ہے۔ اگر کوئی شخص صبح کے وقت میں بہتر کام کر سکتا ہے تو وہ جلد آ جائے اور جلد چلا جائے۔ جو شخص دوپہر اور شام میں بہتر کام کر سکتا ہے، وہ دیر سے آئے اور دیر سے جائے۔ دن میں کچھ ایسے اوقات مقرر کر دیے گئے ہیں جن میں ہر شخص کا دفتر میں موجود رہنا ضروری ہے۔ اس نظام کے نتائج یہ ہیں کہ کاروباری ادارے کی مجموعی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے جس کا براہ راست مثبت اثر کمپنیوں کے منافع پر پڑا ہے۔

    اگر ملازمین کا طبقہ ان اصلاحات کو اپنے معاشرے میں بھی متعارف کروا دے تو اس کے نتیجے میں ان کی اپنی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔

    جیل کے قیدیوں کی غلامی

    جیل کے ادارے کی صورت میں کثیر تعداد میں غلام دنیا بھر میں موجود ہیں۔ جیل کے قیدیوں کو دی جانے والی سزا عملاً ان کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کو بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ جیلیں جرم کی نرسریاں بن چکی ہیں اور پہلی مرتبہ سزا پانے والے افراد جو کسی نازک لمحے میں جرم کر بیٹھتے ہیں، عادی اور پیشہ ور مجرموں کے ساتھ رہ کر مکمل مجرم بن جاتے ہیں۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا سے سزائے موت، جو انسانیت کو قاتلوں اور دہشت گردوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے، کے خاتمے کے لئے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں تو ایک بڑی تحریک چلا رہی ہیں لیکن جیل کی سزا کے خاتمے کے لئے دنیا بھر میں کوئی تحریک موجود نہیں ہے حالانکہ یہ غلامی ہی ایک صورت ہے۔

    ہمیں یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ جیل کی سزا کو صرف اور صرف عادی مجرموں کے لئے مخصوص کر دینا چاہیے۔ ایسے مجرم، جنہوں نے مختلف قسم کے نفسیاتی دباؤ کے تحت پہلی مرتبہ کوئی جرم کیا ہو، کے لئے جیل کی سزا کو "کمیونٹی ورک" میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ کمیونٹی ورک کا یہ تصور دنیا کے بہت سے ممالک میں موجود ہے۔ جو شخص عادی مجرم نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے اس کا خاندان موجود ہوتا ہے اور عادی مجرموں کے برعکس اس کے فرار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ کمیونٹی ورک کی سزا کا فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی پیدا ہوگی۔ مجرم کو اس کے جرم کی سزا بھی مل جائے گی اور اس کی سزا میں اس کے بیوی بچے بھی شریک نہ ہوں گے۔

    اب ہم مخفی غلامی کی ان صورتوں کے خاتمے کی چند تجاویز پیش کریں گے۔

    مخفی غلامی کے خاتمے کا طریق کار

    ہمارے ہاں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ہم ہر برائی کے خاتمے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود مطمئن ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی اکثر حکومتیں ان افراد کے قبضے میں ہیں جنہیں مذہب اور انسانی اخلاقیات سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ یہ انسان نما بھیڑیوں کا ایسا غول ہے جو ہم پر مسلط ہے۔

    عام لوگ جب حکومت پر ذمہ داری عائد کر کے مطمئن ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج نہایت بھیانک نکلتے ہیں۔ عام لوگوں کے انسانیت کے کام آنے سے جو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، ہم ان سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر ہماری حکومتیں اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتیں تو ہمارا فرض ہے کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں، کر گزریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں اور زیردست طبقوں سے متعلق اپنی اصلاحات کے لئے مدینہ میں حکومت ملنے کا انتظار نہیں کیا تھا بلکہ مکی زندگی ہی میں آپ اپنے صحابہ کے ساتھ غلاموں کی آزادی کی تحریک شروع کر چکے تھے۔

    جو افراد پہلے سے ہی اس قسم کی غلامی میں موجود ہیں، انہیں آزادی دلوانے کی ذمہ داری درجہ بدرجہ ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو معاشرے میں بہتر مقام کے حامل ہیں۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری معاشرے کے باقی افراد پر عائد ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنا کردار مختلف طریقوں سے ادا کر سکتے ہیں۔

    ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ ہماری اولاد مستقبل میں کسی بھی قسم کی غلامی کا شکار ہو جائے لیکن ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ انسانیت کے یہ دشمن اگر اسی طرح کام کرتے رہے تو معلوم نہیں کس وقت ہمارے کسی بچے یا بچی کو غلام بنا لیا جائے۔ اگر ہم حقیقتاً یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اس قسم کی غلامی سے محفوظ رہیں تو ہمیں اپنے معاشروں میں ہمہ جہتی نوعیت کی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ان اصلاحات میں مذہبی، قانونی، سیاسی، سماجی، معاشی ہر نوعیت کی اصلاحات شامل ہیں۔ اس ضمن میں چند تجاویز ہم بیان کر رہے ہیں جو ہر قسم کی غلامی کے خاتمے کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

    انسانی حقوق کے لئے مذہبی طبقے کی بیداری

    غلامی کی ہر قسم کے مکمل خاتمے کے لئے سب سے پہلے ہمیں اپنے مذہبی طبقے کو انسانی آزادی کے لئے متحرک اور بیدار کرنا ہو گا۔ بدقسمتی سے ہمارا مذہبی طبقہ دین اسلام کی واضح تعلیمات کے برعکس انسانی آزادی سے متعلق مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ ہر مذہبی گروہ نے چند غیر اہم ایشوز کو غیر ضروری اہمیت دی ہوئی ہے اور وہ ان کے لئے جدوجہد میں مصروف ہے۔ اگر ان ایشوز پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کا زیادہ تر حصہ نان ایشوز پر مشتمل ہے۔ انسانی آزادی مذہبی طبقے کی ترجیحات کی فہرست میں دور دور تک کہیں موجود ہی نہیں ہے۔

    انسانی حقوق سے متعلق مذہبی طبقے کی غفلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ معمولی معمولی مسائل پر تو ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سڑکیں بلاک کی جاتی ہیں، لوگوں کو جہاد اور قتال کے لئے تیار کر لیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں چند خواتین کو جب معاشرے کے مقتدر طبقات کی جانب سے اجتماعی زیادتی کا نتیجہ بنایا گیا تو اس کے نتیجے میں، چند علماء کے سوا، کسی کے کان پر جوں نہ رینگی۔ ہمیں یقین ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اگر آج کے معاشرے میں موجود ہوتے تو وہ ان مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیتے لیکن افسوس کہ آپ کے دین کے علم برداروں کی اکثریت نے اس معاملے میں معمولی بیان بازی کو بھی ضروری نہ سمجھا۔

    افسوس کہ حدود آرڈیننس کے تحفظ کے لئے تو اپنا خون بہا دینے کا عہد کیا گیا لیکن قرآن کی قائم کردہ حدود کے ان حقیقی مجرموں کو فساد فی الارض کی سزا دینے کا معمولی درجے میں بھی کوئی مطالبہ کسی مذہبی حلقے کی جانب سے سامنے نہ آیا۔ اگر کسی نے ہلکا پھلکا رسمی بیان دے بھی دیا تو کوئی تحریک حکومت کو مجبور کرنے کے لئے پیدا نہ کی گئی۔ اس کے برعکس اس سے کہیں معمولی معاملات پر ملکی معیشت کا پہیہ جام کر دینے کی حمایت کر دی گئی۔

    مذہبی طبقے کی جانب سے انسانی حقوق کے معاملے میں غفلت کے دو نقصانات سامنے آ رہے ہیں۔ بڑا نقصان یہ ہے کہ ان کی بدولت جدید تعلیم یافتہ طبقہ معاذ اللہ دین اسلام سے بے زار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام کا مقصد تو نعوذ اللہ انسانی آزادی پر پابندیاں عائد کرنا ہے۔ اسلام کو انسانی آزادیوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اس غلط فہمی میں جہاں ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے کی مذہبی امور کے بارے میں جہالت کا قصور ہے، وہاں ہمارا مذہبی طبقہ بھی اس معاملے میں پورا قصور وار ہے جس نے دین اسلام کی ان اعلی و ارفع تعلیمات کو جدید تعلیم یافتہ طبقے کے سامنے ان کی زبان میں پیش کرنے میں غفلت کا ثبوت دیا ہے۔

    انسانی حقوق سے متعلق مذہبی طبقے کی اس غفلت کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی تحریک سیکولر یا دنیا دار طبقے کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ یہ طبقہ ایک طرف تو مخلص افراد کی کمی کا شدید شکار ہے۔ زیادہ تر افراد کا کام اندرون و بیرون ملک سے چندے حاصل کر کے اس سے اپنی جائیدادوں کی تعمیر ہی رہ گیا ہے۔ دوسری طرف یہ طبقہ عوام الناس کا اعتماد جیتنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ ہمارے مذہبی راہنماؤں کی اپیل پر تو لوگ اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جبکہ غیر مذہبی راہنما بالعموم عام لوگوں کے جذبات کو متحرک کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مغربی معاشروں کے برعکس ہمارے ہاں انسانی حقوق کے لئے بہت کم کام ہو سکا ہے۔

    مثال کے طور پر برصغیر میں انگریز کے اقتدار سے پہلے تمام دینی مدارس کی مالیات کی ذمہ داری حکومت کے سپرد تھی۔ انگریزی اقتدار کے نتیجے میں ان مدارس کی فنانسنگ کا سلسلہ تقریباً بند ہو گیا۔ اس موقع پر ہمارے مذہبی طبقے نے یہ عہد کیا کہ اگر حکومت ان کی مدد نہیں کر سکتی تو وہ خود اپنے علوم کو زندہ رکھیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری قوم ان کی مدد کے لئے تیار ہو گئی۔ درختوں کے نیچے بیٹھ کر قال اللہ و قال الرسول کی صداؤں سے شروع ہونے والے تعلیمی ادارے اب اتنے بڑے نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو کہ چھوٹے سے چھوٹے دیہات کے مدرسوں سے لے کر تدریس علم کی بڑی بڑی بڑی یونیورسٹیوں تک پھیلا ہوا ہے۔

    ہمیں یقین ہے کہ اگر ہمارے مذہبی علماء اسی جذبے کے ساتھ انسانی حقوق کے لئے نکلیں تو چند ہی سالوں میں وہ اس درجے کے نتائج پیدا کرنے کا پوٹینشل رکھتے ہیں جس کا عشر عشیر بھی سیکولر این جی اوز کو حاصل نہیں ہے۔

    رہا یہ سوال کہ مذہبی طبقے کو قائل کیسے کیا جائے کہ انسانی حقوق کی جدوجہد بھی کرنے کا کوئی کام ہے۔ اس ضمن میں سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو وہ آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی وہ احادیث، جو انسانی حقوق سے متعلق ہیں کو عام کیا جائے۔ ہر ہر طریقے سے ان آیات و احادیث کو معاشرے میں پھیلایا جائے اور مذہبی طبقات کو ان آیات و احادیث کے ذریعے یاد دہانی کروائی جائے کہ ان کے کرنے کا کام اصل میں یہ ہے، جسے وہ ایک طویل عرصے سے نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔

    انسانی آزادیوں سے متعلق قرآن مجید کی آیات تو معروف و مشہور ہیں۔ اس کتاب میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ غلامی کے خاتمے اور آزادی کی حمایت میں جس قدر احادیث ہمیں مل سکی ہیں، کم از کم متن کی حد تک ہم نے انہیں یہاں درج کر دیا ہے۔ ان کی مزید اسناد کی تخریج حدیث کی کتب میں کی جا سکتی ہے۔

    اللہ تعالی کے احکامات کی موجودگی میں اب مذہبی طبقات پر فرض کے درجے میں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں میں "فک رقبۃ" یعنی غلاموں کی آزادی کی مہم چلائیں۔ آزادی کو ایک اسلامی "قدر" کے طور پر متعارف کروایا جائے۔ لوگوں کو اس بات پر تیار کیا جائے کہ وہ ان غلاموں کی آزادی کے لئے کام کریں۔

    آزادی فکر کا فروغ

    ہر قسم کی غلامی کے مکمل خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشروں میں آزادی فکر کو ایک مثبت قدر بنا کر پیش کریں۔ موجودہ غلامی کے خاتمے اور آئندہ غلامی کے ادارے کے احیاء سے بچنے کے لئے ہمیں، ملحدین کی آزادی اظہار کی اپروچ کی اس غلطی کو واضح کرتے ہوئے اپنے معاشروں میں آزادی فکر کے اسلامی تصور کو فروغ دینا ہو گا۔ اس کی مزید تفصیل آگے میں آ رہی ہے۔

    سول سوسائٹی کا کردار

    مسلم معاشروں میں سول سوسائٹی ایک ابھرتا ہوا طبقہ ہے۔ قدیم زمانے میں اشرافیہ جاگیرداروں، درباریوں اور فوجی جرنیلوں پر مشتمل طبقے کا نام تھا۔ اب اس طبقے میں عدلیہ، میڈیا، مذہبی تنظیمیں، سیاسی تنظیمیں اور سماجی تنظیمیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ سول سوسائٹی کا درست کردار متعین کیا جائے۔ سول سوسائٹی سے متعلق افراد، جو معاشرے میں تھوڑا بہت بھی اثر و رسوخ رکھتے ہوں، غلامی کی موجودہ صورتوں کے خلاف جہاد میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

    جن لوگوں کو ایسے غلاموں سے متعل علم ہو، وہ فوری طور پر پولیس اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو اطلاع دیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کے ہاں پولیس کا نظام کافی ترقی یافتہ ہے۔ اس پر مستزاد ان کے ہاں عدلیہ اور میڈیا کی صورت میں دو ایسے ادارے موجود ہیں جو حکومت کا احتساب کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو مجرم گروہوں کی طرف سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہو تب بھی وہ خفیہ کال یا ای میل کے ذریعے پولیس اور میڈیا تک اطلاع پہنچا سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں جہاں، یہ ادارے اتنے فعال نہیں، وہاں بھی کم از کم پولیس اور میڈیا کو اطلاع دے کر اپنا فرض تو پورا کیا جا سکتا ہے۔

    صاحب ثروت افراد اگر کسی شخص کو غلامی سے رقم دے کر آزاد کروا سکتے ہیں تو وہ ایسا کر گزریں۔ اس طریقے سے عموماً ان غلاموں کو آزاد کروایا جا سکتا ہے جو قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جبری مشقت کا شکار ہیں۔ اس مقصد کے لئے بہت زیادہ امیر ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ اپر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص بھی باآسانی سال یا دو سال میں ایسے ایک فرد کی رہائی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہر شخص کو یہ تلقین کی جانے چاہیے کہ اگر اس نے ایسے ایک غلام کو بھی آزاد کروا دیا تو اللہ تعالی اسے اس کے بدلے جہنم سے آزاد کر دے گا۔

    قانون کے پیشے سے وابستہ افراد کو اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ نیکی کا شوق رکھنے والے وکلاء کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے سال میں کچھ مقدمات ایسے افراد کے لئے مفت لڑنے کی روایت قائم کرنی چاہیے۔ جج حضرات کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جس قدر سہولیات فراہم کر سکتے ہوں، کر گزریں۔

    میڈیا سے وابستہ افراد کو بھی خاص کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے معاملات جن میں جبری مشقت عام ہو، کو خاص کوریج دی جائے اور حکومتی عہدے داروں پر اس سلسلے میں دباؤ برقرار رکھا جائے۔ خوش قسمتی سے مغربی اور مسلم ممالک کا میڈیا اس معاملے میں اپنا کردار بخوبی ادا کر رہا ہے۔ اس کردار کو مزید بہتر بنانے اور پھر اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

    انسانوں کی آزادی کے لئے جو غیر سرکاری ادارے (NGOs) واقعتاً کام کر رہے ہیں، ان سے بھرپور مالی اور عملی تعاون کیا جائے۔ نوجوان ہر سال چھٹیوں میں کچھ دن ان اداروں کے ساتھ کام کرنے کے لئے وقف کر دیں۔ ملازمت کرنے والے اور کاروباری افراد بھی کچھ نہ کچھ وقت نکال کر ان اداروں کے ساتھ کام کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے ادارے عام طور پر کام کرنے کی بجائے چندے بٹورنے اور ان سے اداروں کے مالکان کی جائیداد میں اضافہ کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے پر ہمیں ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جو واقعتاً خلوص نیت سے کام کرنے پر تیار ہوں۔ اس کے علاوہ کرپٹ این جی اوز کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔

    یہاں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ بہت سے مخلص مذہبی اور سماجی اداروں میں ایک فتنہ یہ بھی پیدا ہو چکا ہے کہ عوام الناس سے حاصل کردہ چندوں کو غیر ضروری اخراجات پر صرف کیا جاتا ہے اور اس طرح یہ رقم اصل حقدار تک پہنچنے کی بجائے ضائع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دفاتر کے کرایوں اور ایڈورٹائزنگ پر بے جا رقم خرچ کی جاتی ہے۔ موجودہ دور میں معلوماتی انقلاب (Information Revolution) کے بعد دفاتر وغیرہ پر رقم خرچ کرنے کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ مذہبی اور سماجی اداروں کے مخلص کارکن ایک دوسرے سے فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ اداروں کے ریکارڈ کو بھی ویب بیسڈ کیا جا سکتا ہے اور اس پر کچھ خاص خرچ بھی نہیں آتا۔

    اس وقت ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے اسی روایت کو زندہ کریں کہ وہ لوگ درخت کے نیچے بیٹھ کر بھی دین کی خدمت کرتے رہتے تھے اور بڑی بڑی عمارتوں اور دیگر اللے تللوں کی خواہش میں نہ رہتے تھے۔ اگر ہم میں بھی وہی جذبہ پیدا ہو جائے تو جو کچھ ہے اور جہاں ہے، کی بنیاد پر دین اور انسانیت کی بہت بڑی خدمت، نہایت ہی کم خرچ میں کی جا سکتی ہے۔

    ہماری رائے میں مخلص لوگوں کو امراء سے فنڈز اکٹھے کر کے ضرورت مندوں کو دینے کی روش کو بھی ترک کر دینا چاہیے۔ اس کی بجائے انہیں ضرورت مند افراد اور صاحب حیثیت افراد کے درمیان رابطے کا کام کرنا چاہیے۔ جو شخص اللہ کی راہ میں کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے، جب وہ خود تحقیق کر کے اپنے ہاتھ سے کسی ضرورت مند کی مدد کرے گا تو اس کے نتیجے میں انسانیت کی خدمت کرنے والوں کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔

    جو تجاویز ہم نے پیش کی ہیں، ان پر عمل کرنے کے لئے انسان کا بہت اعلی عہدے پر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر شخص اپنی اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

    سیکس ایجوکیشن

    جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ زیادہ تر لڑکیوں کے گھر سے بھاگنے کی وجہ ان کے گھریلو حالات اور صنفی معاملات سے ناواقفیت ہوتی ہے۔ انہی لڑکیوں کو عصمت فروشی کا دھندہ کرنے والے پکڑ کر غلام بنا لیتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارا معاشرہ بہت افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طرف تو ہمارے ہاں لڑکے اور لڑکی کا تعلق ایک ناقابل معافی جرم ہے لیکن دوسری طرف انہیں اس معاملے میں مناسب تربیت کی فراہمی کا کوئی سلسلہ ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔

    والدین اور اساتذہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے والے لڑکے لڑکیوں کو مناسب انداز میں تعلیم دیں۔ ہمارے ہاں باپ اور بیٹے اور ماں اور بیٹی میں جو ایک نامعقول سا حجاب پایا جاتا ہے، اس کے نتائج بہت بھیانک نکل رہے ہیں۔

    اگر والدین اور اساتذہ ایسا نہیں کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ان کی اولاد اپنے دوستوں اور انٹرنیٹ سے یہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے گی جس کے نتیجے میں انہیں غلط معلومات حاصل ہوں گی۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا کہ معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی چلی جائے گی۔ اگر ہم اپنی اولاد کو بردہ فروشوں کا غلام بننے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا پڑے گا۔

    ہمارے ہاں ایک اور غلط رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آ جائے تو پھر اسے قبول نہیں کیا جاتا بالخصوص اگر وہ لڑکی ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو لڑکیاں جوانی کی ابتدائی منزل میں والدین کی عدم تربیت کے باعث کوئی غلط اقدام کر بیٹھتی ہیں، اور اس کے بعد اپنے کئے پر پشیمان بھی ہوتی ہیں، انہیں خود ان کے والدین اور معاشرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ ہم ہی لوگ ہیں جو اس کے بعد انہیں برائی کی دلدل میں اترے رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس ضمن میں واضح تلقین فرمائی ہے کہ ایسی کسی صورت میں مجرم کو توبہ کا موقع دیا جائے اور معاملہ کو جس حد تک ممکن ہو عدالت سے دور رکھا جائے۔ متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ بدکاری کے کسی مجرم نے خود آ کر بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے سامنے اعتراف کر لیا تو آپ نے رخ انور دوسری طرف کر کے اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔ جب اس نے چار مرتبہ اعتراف کر لیا تو پھر آپ نے یہ تحقیق کی کہ کہیں یہ پاگل تو نہیں ہے۔ تب جا کر آپ نے اس پر سزا نافذ کی۔ اسی اسوہ حسنہ کو زندہ کرتے ہوئے ہمیں اپنوں کو معاف کر دینا سیکھنا ہو گا۔

    کرپشن کا خاتمہ

    غیر قانونی غلامی کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ تمام مسلم ممالک میں غلامی کے ادارے کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود حکومتوں کی عین ناک کے نیچے یہ کاروبار جاری ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ کرپشن ہمارے معاشروں میں زہر کی طرح سرایت کی ہوئی ہے۔ ہر طرف رشوت اور سفارش کا دور دورہ ہے۔ کوئی کام بغیر رشوت کے ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

    کرپشن صرف جذباتی تقریروں سے ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ ہمارے معاشروں میں اس درجے میں موجود ہے کہ اس کے خاتمے کا کوئی شارٹ ٹرم حل موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے ہمیں وہ حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی جو سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے بنی اسرائیل میں سے غلامی کے دور کی باقیات نکالنے کے لئے کی تھی۔ انہوں نے نئی نسل کو اللہ تعالی کے احکام کے مطابق تربیت دینے کی حکمت عملی اختیار فرمائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی عرصے میں ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو دور غلامی کی کرپشن سے پاک تھی۔ اس کام کو بھی حکومت کے ذمے لگانے کی بجائے ہمیں خود آگے آ کر، اپنی اپنی استعداد کے مطابق، یہ ذمہ داری سنبھالنا ہو گی۔

    غربت کا خاتمہ

    غیر قانونی غلامی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ ہمارے ممالک کو اللہ تعالی نے بھرپور قدرتی اور انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ کرپشن کی بدولت ان وسائل کا بڑا حصہ ایک مخصوص طبقے کے حصے میں چلا جاتا ہے اور بہت کم عوام الناس کے حصے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہترین انسانی وسائل ہجرت کر کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف جا رہے ہیں۔ اعلی تعلیم یافتہ افراد تو قانونی طریقے سے امیگریشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن کم تعلیم یافتہ افراد کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ ایجنٹوں کے ہاتھوں یرغمال بنیں۔

    معیشت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کرنا تو خیر حکومت ہی کا کام ہے لیکن اس عمل میں عام لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ صاحب ثروت ہیں اور خدا کا خوف رکھتے ہیں تو اپنے ملازمین کو کم از کم اتنی تنخواہ تو دیجیے جس سے ان کی بنیادی ضروریات اس درجے میں پوری ہو سکیں جس میں آپ اپنے گھر والوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اگر آپ ہنر مند ہیں تو سال میں کم از کم ایک ہی غیر ہنر مند شخص کو ہنر مند بنا دیں تاکہ وہ اپنے خاندان کی حد تک غربت کا خاتمہ کر سکے۔ اگر آپ تاجر ہیں تو غریب خواتین کی دستکاریوں کے اتنے دام ادا کیجیے کہ وہ اپنے گھر کا خرچ چلا سکیں۔ اگر آپ کے پاس کچھ فالتو رقم موجود ہے تو کسی غریب شخص کو بطور قرض دے دیجیے کہ وہ اس سے اپنے کاروبار کا آغاز کر سکے۔

    حکومتی سطح پر غربت کے خاتمے کا ایک حل تو کمیونزم نے تجویز کیا تھا کہ تمام وسائل کو سرکاری قبضے میں لے لیا جائے۔ ستر سالہ تجربے سے اس نظام کی حماقت اس حد تک واضح ہو چکی ہے کہ کوئی احمق ہی اب کمیونزم کو غربت کے خاتمے کا حل سمجھتا ہو گا۔ غربت کے خاتمے کا حل وہی ہے جو چودہ سو برس پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے معاشرے میں نافذ کیا تھا اور کسی حد تک اسے موجودہ دور کے مغربی ممالک نے "ویلفیئر اسٹیٹ" کے تصور میں عملاً رائج کیا ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غربت کے خاتمے کے لئے جو اقدامات کیے اس کی تفصیل آپ باب 8 میں دیکھ سکتے ہیں۔

    انارکی اور جنگ کا خاتمہ

    ہمیں اس بات کو ایمان کی حد تک مان لینا چاہیے کہ اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو غلامی سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں امن قائم رکھنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تمام ایشوز اہم ہیں لیکن اگر اہم نہیں ہے تو وہ "امن" ہے۔ کسی بھی معاشرے میں جب لاقانونیت جنم لیتی ہے تو وہ سب سے پہلے کاروبار اور ملازمتوں کو ختم کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھوک پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھوک اتنی ظالم چیز ہے کہ اس کے لئے انسان پہلے مرحلے پر اپنی اولاد اور دوسرے مرحلے پر خود کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

    موجودہ دور میں اس کی مثالیں ہمارے اپنے مسلم ممالک میں موجود ہیں۔ عراق سے لاکھوں کی تعداد میں خواتین اور بچے اپنے ہمسایہ ممالک میں موجود ہیں۔ ان خواتین، جن میں کم عمر لڑکیاں بھی شامل ہیں، کے پاس اپنی بھوک مٹانے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ یہ جنسی درندوں کے ہاتھوں پامال ہوتی رہیں۔ جن احباب نے بھی عراق کے ہمسایہ ممالک کا سفر کیا ہے وہ یہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ لبنان اور فلسطین کی صورتحال بھی یہی ہے۔ افغانستان میں کم عمر لڑکوں کی کثیر تعداد جسم فروشی پر مجبور ہے۔ یہ سب کے سب پیشہ ور طوائف نہیں ہیں بلکہ سب کے سب شریف گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بچے ہیں جو آخری حد تک مجبور ہو جانے کے بعد اس حال تک پہنچے ہیں۔ یہی صورتحال اب پاکستان میں عام ہوتی جا رہی ہے۔

    حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو، اس کا ظلم ایک دائرے ہی میں محدود رہتا ہے۔ حکومت کی رٹ اگر طاقتور ہو تو وہ مجرم گروہوں کو ایک حد سے آگے کا موقع نہیں دیتی۔ جیسے ہی حکومت کی رٹ کمزور پڑتی ہے، مجرم گروہ اپنی پوری قوت سے معاشرے میں سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔ مردوں کو غلام بنا کر مکروہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور خواتین کو عصمت فروشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے، اس کے ظلم کے خلاف عوام کو بیدار کرنے اور ظلم کے خاتمے کے لئے پرامن جدوجہد کی اجازت دی ہے لیکن مسلح بغاوت کے بارے میں آپ نے سختی نے منع فرمایا۔

    حدثنا محمد بن المثنى ومحمد بن بشار. قالا: حدثنا محمد بن جعفر. حدثنا شعبة عن سماك بن حرب، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن أبيه. قال: سأل سلمة بن يزيد الجعفي رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: يا نبي الله! أرأيت إن قامت علينا أمراء يسألونا حقهم ويمنعونا حقنا، فما تأمرنا؟ فأعرض عنه. ثم سأله فأعرض عنه. ثم سأله في اثانية أو في الثالثة فجذبه الأشعث بن قيس. وقال (اسمعوا وأطيعوا. فإنما عليهم ما حملوا وعليكم ما حملتم). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4782)

    سیدنا سلمہ بن یزید الجعفی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، "یا نبی اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہو جائیں جو اپنا حق تو ہم سے وصول کریں لیکن ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو آپ اس معاملے میں ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟" آپ نے اس بات پر رخ انور پھیر لیا۔ انہوں نے دوبارہ سوال کیا لیکن آپ نے پھر منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری یا تیسری مرتبہ پھر پوچھا تو سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور فرمایا، "سنو اور اطاعت کرو۔ ان پر ان کے اعمال کی ذمہ داری ہے اور تم پر تمہارے اعمال کی۔"

    حدثني محمد بن المثنى. حدثنا أبو الوليد بن مسلم. حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. حدثني بسر بن عبيدالله الحضرمي؛ أنه سمع أبا إدريس الخولاني يقول: سمعت حذيفة بن اليمان يقول: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير. وكنت أسأله عن الشر. مخافة أن يدركني. فقلت: يا رسول الله! إنا كنا في جاهلية وشر. فجاءنا الله بهذا الخير. فهل بعد هذا الخير شر؟ قال (نعم) فقلت: هل بعد ذلك الشر من خير؟ قال (نعم. وفيه دخن). قلت: وما دخنه؟ قال (قوم يستنون بغير سنتي. ويهدون بغير هديي. عرف منهم وتنكر). فقلت: هل بعد ذلك الخير من شر؟ قال (نعم. دعاة على أبواب جهنم. من أجابهم إليها قذفوه فيها). فقلت: يا رسول الله! صفهم لنا. قال (نعم. قوم من جلدتنا. ويتكلمون بألسنتنا) قلت: يا رسول الله! فما ترى إن أدركني ذلك! قال (تلزم جماعة المسلمين وإمامهم) فقلت: فإن لم تكن لهم جماعة ولا إمام؟ قال (فاعتزل تلك الفرق كلها. ولو أن تعض على أصل شجرة. حتى يدركك الموت، وأنت على ذلك). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4784)

    سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے خیر سے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ سے شر کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ میں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت اور برائی میں تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ہمیں بھلائی میں داخل کیا۔ کیا اس کے بعد پھر برائی ہوگی؟ آپ نے فرمایا، "ہاں"۔ میں نے عرض کیا، "کیا اس کے بعد پھر بھلائی آئے گی؟" آپ نے فرمایا، "ہاں، لیکن اس میں کچھ دھواں سا ہو گا۔" میں نے عرض کیا، "وہ دھواں سا کیا ہوگا؟

    آپ نے فرمایا، "ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میری ہدایت کے مطابق عمل نہیں کریں گے۔ ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور برائی بھی ہو گی۔" میں نے عرض کیا، "کیا اس خیر کے بعد پھر برائی پیدا ہو جائے گی؟" فرمایا، "ہاں۔ لوگ جہنم کے دروازوں کی طرف بلائیں گے اور جو ان کی بات مان لے گا، اسے جہنم تک پہنچا کر دم لیں گے۔" عرض کیا، "ان کی کچھ مزید خصوصیات بیان فرمائیے۔" فرمایا، "ان کی شکل و صورت ہماری جیسی ہی ہوگی اور وہ ہماری زبان ہی بولیں گے۔"

    میں نے عرض کیا، "اگر میرا واسطہ ان لوگوں سے پڑ جائے تو میں کیا کروں؟" فرمایا، "مسلمانوں کی جماعت (حکومت) اور ان کے حکمران کی پیروی کرو۔" عرض کیا، "اگر حکومت اور حکمران ہی نہ رہیں (یعنی انارکی پیدا ہو جائے)۔" فرمایا، "ہر فرقے سے الگ ہو کر رہو خواہ اس کے لئے تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ اور مرتے دم تک ایسا ہی کرو (یعنی ہر صورت فتنہ و فساد اور انارکی سے دور رہو۔)"

    اسی حدیث کی دوسری روایت میں بعض پہلوؤں کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔

    وحدثني محمد بن سهل بن عسكر التميمي. حدثنا يحيى بن حسان. ح وحدثنا عبدالله بن عبدالرحمن الدارمي. أخبرنا يحيى (وهو ابن حسان). حدثنا معاوية (يعني ابن سلام). حدثنا زيد بن سلام عن أبي سلام. قال: قال حذيفة بن اليمان: قلت: يا رسول الله! إنا كنا بشر. فجاء الله بخير. فنحن فيه. فهل من وراء هذا الخير شر؟ قال (نعم) قلت: هل من وراء ذلك الشر خير؟ قال (نعم) قلت: فهل من وراء ذلك الخير شر؟ قال (نعم) قلت: كيف؟ قال (يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي. وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس) قال قلت: كيف أصنع؟ يا رسول الله! إن أدركت ذلك؟ قال (تسمع وتطيع للأمير. وإن ضرب ظهرك. وأخذ مالك. فاسمع وأطع). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4785)

    سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! ہم لوگ غافل تھے، پھر اللہ نے ہمیں خیر عطا فرمائی۔ اب ہم خیر کی حالت میں ہیں۔ کیا اس خیر کے بعد برائی بھی ہے؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "کیا اس برائی کے بعد پھر خیر ہو گا۔" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "پھر اس خیر کے بعد برائی ہوگی؟" فرمایا، "ہاں۔" عرض کیا، "وہ کیسی ہوگی؟" فرمایا، "میرے بعد ایسے حکمران پیدا ہوں گے جو میری ہدایت کی پیروی نہ کریں گے۔ وہ میری سنت پر عمل نہ کریں گے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے جسم انسانوں کے اور دل شیطانوں کے ہوں گے۔" میں نے عرض کیا، "یا رسول اللہ! اگر میرا سامنا ان سے ہو جائے تو اس وقت میں کیا کروں؟" فرمایا، "حکمران کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے بھی لگائے۔"

    وحدثنا شيبان بن فروخ. حدثنا عبدالوارث. حدثنا الجعد. حدثنا أبو رجاء العطاردي عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال (من كره من أميره شيئا فليصبر عليه. فإنه ليس أحد من الناس خرج من السلطان شبرا، فمات عليه، إلا مات ميتة جاهلية). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4791)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"

    حکومت کی اطاعت اس کی غلامی کا نام نہیں ہے۔ ان احدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ حکومت کی برائیوں پر لوگ دم سادھ کر بیٹھے رہیں بلکہ ان برائیوں کو برائی سمجھنا اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کے خلاف آواز اٹھانا نیک لوگوں کی ذمہ داری ہے۔

    حدثنا داود بن رشيد. حدثنا الوليد (يعني ابن مسلم). حدثنا عبدالرحمن بن يزيد بن جابر. أخبرني مولى بني فزازة (وهو زريق بن حيان)؛ أنه سمع مسلم بن قرظة، ابن عم عوف بن مالك الأشجعي، يقول: سمعت عوف بن مالك الأشجعي يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول (خيار أئمتكم الذين تحبونهم ويحبونكم. وتصلون عليهم ويصلون عليكم. وشرار أئمتكم الذين تبغضونهم ويبغضونكم. وتلعنونهم ويلعنونكم) قالوا قلنا: يا رسول الله! أفلا ننابذهم عند ذلك؟ قال (لا. ما أقاموا فيكم الصلاة. لا ما أقاموا فيكم الصلاة. ألا من ولى عليه وال، فرآه يأتي شيئا من معصية الله، فليكره ما يأتي من معصية الله، ولا ينزعن يدا من طاعة). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4805)

    سیدنا عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا، "تمہارے بہترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں۔ تم ان کے لئے دعا کرو اور وہ تمہارے لئے دعا کریں۔ تمہارے بدترین حکمران وہ ہوں گے جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے عرض کیا، "ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔" فرمایا، "نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں۔ لیکن جب تم اپنے حکمرانوں میں اللہ تعالی کی کوئی نافرمانی ہوتی دیکھو تو اسے برائی ہی سمجھتے رہو البتہ اس کی اطاعت سے ہاتھ مت کھینچو (کیونکہ اس سے پہلے سے زیادہ بڑی برائی یعنی انارکی جنم لے گی۔)

    یہی وجہ ہے کہ آپ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل ترین جہاد قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تاکید فرما دی کہ اس سے مسلح بغاوت کا راستہ اختیار نہ کی جائے بلکہ مظلومانہ انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھی جائے۔

    ہمارے زمانے میں دین سے جو انحراف پیدا ہوا ہے اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے واضح ارشادات کے مطابق ہم لوگ ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی بجائے ان سے مسلح تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ ہمارے تمام معاشرے یکے بعد دیگرے انتشار کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔وار لارڈز کا طبقہ لوگوں کو اپنا غلام بنا رہا ہے اور ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی عفت و عصمت نیلام کرنا پڑے گی۔ فلسطین، عراق، افغانستان اور اب خدانخواستہ پاکستان کی بہنیں اور بیٹیاں ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔

    اس نوبت تک پہنچنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم ظالم حکمرانوں کے ظلم پر صبر کریں اور ان کے خلاف کلمہ حق بلند کرتے رہیں خواہ اس کے لئے ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق درختوں کی جڑیں چبا کر گزارا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

    سماجی امتیاز کا خاتمہ

    غیر قانونی غلامی کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشروں میں موجود سماجی امتیاز ہے۔ دور جاہلیت کی طرح ہمارے ہاں بالعموم ہاتھ سے کام کرنے والوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے پرعزم نوجوان بھی اپنے معاشرے میں ایسا کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتے۔ یہی نوجوان جب مغربی اور عرب معاشروں میں جا کر آباد ہوتے ہیں تو وہ پٹرول پمپ پر کام کرنے سے لے کر ٹیکسی چلانے تک ایسے تمام کام کر لیتے ہیں۔ اپنے معاشرے میں یہ سب کام نہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ انہیں وہ عزت نہیں دیتا جس کے وہ حق دار ہیں۔

    اس امتیاز کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ عمومی غربت کا شکار رہتے ہیں اور اپنی حالت بہتر بنانے کے لئے غیر قانونی طریقوں سے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرنے کی کوشش میں بردہ فروشوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔

    قانونی نظام کی اصلاح

    ہمارے ہاں قانونی نظام اس طرح سے تشکیل دیا گیا ہے کہ اس میں بے گناہ اور شریف شہری کی گردن تو آسانی سے پھنس جاتی ہے لیکن بڑے بڑے مگرمچھ اور بردہ فروش محفوظ رہ جاتے ہیں۔ اس نظام کی اصلاح بنیادی طور پر تو حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن عوام بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

    سیکس ورکرز سے متعلق اصلاحات

    سیکس ورکرز سے متعلق بڑے پیمانے پر معاشرتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر یہ بھی حکومت ہی کا کام ہے لیکن معاشرے کے افراد کو اپنی اپنی سطح پر اس ضمن میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس پیشے سے منسلک خواتین اور بچوں کی بہت کم تعداد ہو گی جو اپنی خوشی سے اس پیشے سے وابستہ ہو گی۔ یہ خواتین بالعموم اپنے سرپرستوں اور دلالوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے دباؤ کے تحت اس پیشے کو جاری رکھتی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ عمر کے کسی حصے میں بھی جب ایسی خاتون اپنی سابقہ زندگی سے توبہ کر کے شریفانہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو معاشرہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔

    یہی معاملہ ایسی خواتین کی معصوم بچیوں کا ہوتا ہے جو کسی طرح بھی اس پیشے سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ ان خواتین کو غلامی کی اس زندگی سے نجات دلانے کے لئے معاشرے کے مختلف طبقات خاص طور پر میڈیا، طب اور قانون کے پیشوں سے وابستہ افراد اور سول سوسائٹی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہمیں حکومت سے خاص طور پر مطالبہ کرنا ہوگا کہ اس پیشے کے محافظوں اور دلالوں پر "فساد فی الارض" کی قرآنی سزا نافذ کر کے انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے کیونکہ یہ لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔
     
  29. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 19: موجودہ دور میں نفسیاتی غلامی
    ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    موجودہ دور میں مسلم معاشرے بالعموم نفسیاتی غلامی کے سخت شکنجے میں مبتلا ہیں۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ نفسیاتی غلامی، غلامی کی ایسی صورت ہے جس میں قانونی اور معاشرتی طور پر تو کوئی شخص بالکل آزاد ہوتا ہے لیکن وہ کسی شخصیت کی متاثر ہو کر یا متاثر کر دیے جانے کے نتیجے میں اس کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ اب اس شخص کی اپنی کوئی سوچ اور فکر باقی نہیں رہ جاتی۔ اس کے نظریات وہی ہو جاتے ہیں جو اس کے فکری آقا کے نظریات ہیں۔ وہ اپنے ذہن کی بجائے اپنے آقا کے ذہن سے سوچنے لگتا ہے۔ اس کا آقا اسے جنت میں لے جائے یا جہنم میں، اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

    انسان اپنی فطرت میں آزاد پیدا ہوا ہے۔ یہ آزاد رہنا چاہتا ہے لیکن بعض طالع آزما افراد انہیں اپنی ذہنی غلامی میں دھکیل دیتے ہیں۔ بعض انسان فطرتاً حساس ہوتے ہیں اور کسی کا اثر قبول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ذہنی غلام بنانے والوں کا خاص شکار ہوتے ہیں۔ ذہنی غلام بنانے والے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک اچھا بھلا ہوشیار شخص آہستہ آہستہ ان کے نرغے میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

    ضروری نہیں کہ غلام بنانے والے تمام افراد انہیں شعوری طور پر غلام بنانا چاہتے ہوں۔ ان میں سے بعض لوگ دین اور انسانیت سے مخلص بھی ہوتے ہیں لیکن وہ لاشعوری طور پر دوسروں کو اپنا ذہنی غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔

    فکری غلام بنائے جانے کا طریق کار

    انسانوں کو ذہنی غلامی میں دھکیلنے کے جو طریق ہائے کار استعمال کئے جاتے ہیں، وہ وہی ہیں جو دنیا بھر میں برین واشنگ کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ان طریق ہائے کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے تاکہ قارئین اس طریق کار سے اچھی طرح واقف ہو جائیں کہ ان کے راہنما ان کی کس طرح سے برین واشنگ کیا کرتے ہیں۔

    یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ تمام کے تمام راہنما ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض راہنما لوگوں کی برین واشنگ کرتے ہیں اور بعض اسے برا سمجھتے ہیں۔ جو لوگ برین واشنگ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، وہ کسی مخصوص مکتب فکر، مسلک، فرقے، قوم یا مذہب تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ہر فرقے اور ہر قوم میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو برین واشنگ کے ذریعے لوگوں کو اپنا فکری غلام بنانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

    یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا لیڈر کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ یہ کام ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ جس گروہ سے وابستہ ہیں، اس میں ان تفصیلات کا عملی مشاہدہ خود کریں اور دیکھیں کہ انہیں بے وقوف کس طرح بنایا جاتا ہے۔ فکری غلام بنائے جانے کے طریق ہائے کار کو ہم ان عنوانات میں تقسیم کر سکتے ہیں:

    · مذہبی راہنما کو مقدس بنائے جانے کی مہم

    · مقربین خاص کی ٹیم کی تیاری

    · مقدس مشن کی تخلیق

    · اپنے پیغام کو خدا کا پیغام بنا کر پیش کرنے کا عمل

    · عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی

    · اختلاف رائے کی مخالفت

    · "مخالفین" کی تخلیق

    · برین واشنگ کا طریق کار

    · برین واشنگ کے لئے مذہب کا استعمال

    · نفسیاتی غلامی کی آئندہ نسلوں کو منتقلی

    مذہبی راہنما کو مقدس بنائے جانے کی مہم

    نفسیاتی غلامی کا آغاز اس طریقے سے کیا جاتا ہے کہ کسی ایک شخص کو غیر معمولی اہمیت دے دی جاتی تھی۔ یہ شخص عموماً کسی حلقے، جماعت، مدرسے، تنظیم یا فرقے کا سربراہ یا روحانی پیشوا ہوتا ہے۔ لازمی طور پر یہ جس شخص کو راہنما کا درجہ دیا جاتا ہے، اس کی شخصیت میں بذات خود کچھ اچھی صفات پائی جاتی ہیں۔ ان صفات کے علاوہ اس شخص کے ساتھ کچھ اور صفات بھی منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں۔

    لوگوں کو راہنما سے متاثر کرنے کے لئے ایک پراپیگنڈا مشینری کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ جو لوگ اس سے متاثر ہونے لگیں، انہیں سختی سے تلقین کی جاتی ہے کہ وہ صرف اسی راہنما کی تقاریر سنیں، اسی کی کتب پڑھیں اور کسی اور جانب دیکھیں بھی نہیں۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو وہ حضرت جی کے فیض سے محروم رہیں گے۔ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ "حق" وہی ہے جو ہمارے اس راہنما نے دریافت کر لیا ہے اور اس کے علاوہ اور جو بھی لوگ ہیں، اگرچہ وہ کتنے بھی اچھے ہیں، لیکن ان میں ہمارے راہنما جیسی بات نہیں ہے۔

    بعض حلقے جو شخصیت پرستی سے بچنے کا دعوی کرتے ہیں، ان کے ہاں عام طور پر ایک شخصیت کی بجائے متعدد شخصیات کی پروموشن کی مہم چلائی جاتی ہے۔ ایسے حلقوں کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ اگر دو راہنماؤں میں اختلاف پیدا ہو جائے تو ہر راہنما اپنے اپنے پیروکاروں کو لے کر جماعت کو تقسیم کر دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم گروہوں میں ایک سے زائد شخصیات پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔

    اپنی شخصیت کو مزید موثر بنانے کے لئے مذہبی راہنما یہ کام کرتے ہیں کہ وہ نہایت ہی عجز و انکسار کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ "میں تو کچھ بھی نہیں۔ یہ سب میرے فلاں استاذ، شیخ، مرشد کا فیض ہے۔" بسا اوقات یہ حضرات قدیم زمانے کی کسی بڑی شخصیت جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم، کسی صحابی یا بڑے عالم سے اپنے تعلق کا دعوی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو فلاں ہستی کے خوشہ چین ہیں اور انہی کے نظریات کو پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات تو اس ہستی سے بذریعہ کشف براہ راست تعلق کا دعوی کرتے ہیں اور جو نسبتاً معقولیت پسند (Rational) ہوتے ہیں، وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ میں، اس ہستی کی کتابوں سے یہ نظریات حاصل کر کے پیش کر رہا ہوں۔

    مقربین خاص کی ٹیم کی تیاری

    کسی راہنما کے لئے یہ ایک مشکل کام ہوتا ہے کہ وہ اجتماعات میں اپنی تعریف خود کرے اگرچہ بعض راہنما یہ بھی کر گزرتے ہیں۔ اس وجہ سے شخصیت کو مقدس بنانے کی مہم کے لئے ایک باقاعدہ پروپیگنڈا ٹیم تیار کی جاتی ہے۔ اس ٹیم کے اراکین کو راہنما کے "مقرب خاص" یا قریبی ساتھی کا نام دیا جاتا ہے۔

    اس ٹیم کے اراکین عام اجتماعات، تنظیمی اجلاسوں، نجی محفلوں غرض ہر جگہ حضرت جی کے تقوی، شخصی اوصاف اور کرامات کا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات سنائے جاتے ہیں کہ جس سے لوگ جھوم اٹھیں۔ جو لوگ اس شخصیت سے متاثر ہوتے ہیں، وہ بذات خود اس مہم کا حصہ بنتے ہوئے انہی واقعات اور کرامات کو دوسروں تک سینہ بہ سینہ منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس ہستی کی کرامات کو تواتر کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔

    راہنما کی ہستی کو بالعموم عوام سے دور کر کے، اس کے اور عام لوگوں کے درمیان تقدس کا ایک ہالہ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ اس راہنما سے رابطہ کرنا کسی عام مرید کے لئے ممکن نہیں رہتا بلکہ یہ صرف "مقربین خاص" کے حلقے سے توسط سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ مقربین خاص کا یہ گروہ راہنما کی بھی راہنمائی کرتے ہوئے اسے بتاتا ہے کہ اسے کس طریقے سے عوام کے سامنے پیش ہونا ہے۔ کس کے سامنے کس بات کا خیال رکھنا ہے۔ کس کے سامنے کون سی بات کرنی ہے اور کون سی نہیں کرنی۔ راہنما کی ذاتی زندگی کو عام لوگوں کی نظر سے مکمل طور پر اوجھل کر دیا جاتا ہے۔

    راہنما سے وابستہ عجیب و غریب اور محیر العقول کرامتیں تخلیق کی جاتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی واقعہ محض اتفاق سے بھی پیش آ جائے تو مقربین خاص کی ٹیم اسے بھی اپنے راہنما کی کرامت قرار دیتے ہوئے اس کا بھرپور پراپیگنڈا کرتے ہیں۔

    یہ حضرات جان بوجھ کر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کو بھی یہ اختیار نہیں دیا تھا کہ وہ جب چاہے معجزہ دکھا دیں۔ ان کے معاملے میں بھی اللہ تعالی اپنی مرضی سے ہی معجزے کو ان کے ہاتھ پر ظاہر کرتا تھا۔ اس معجزے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ یہ واقعتاً خدا کا سچا رسول ہے۔ ختم نبوت کے بعد اب کوئی نبی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے کہ اللہ کے کسی نیک بندے کے ساتھ کبھی کوئی محیر العقول واقعہ پیش آ جائے لیکن ان کرامتوں کا پیش کرنا اس نیک بندے کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا کہ وہ جب چاہے، کوئی بٹن دبا کر کرامت دکھا دے۔

    مذہبی راہنماؤں کا ظاہری مشن اور خفیہ ایجنڈا

    راہنما بالعموم کسی نہایت ہی اعلی مقصد جیسے دعوت دین، عوام کی فلاح و بہبود وغیرہ کو اپنا مشن قرار دے کر اپنے پیروکاروں کو متحرک کرتا ہے۔ بہت مرتبہ وہ راہنما خود کبھی تو حقیقی اور کبھی مصنوعی عجز و انکسار کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ اس مشن کا نہایت ہی ادنی خادم ہے اور اس مشن کے لئے اگر اس کی جان بھی چلے جائے تو اسے پرواہ نہیں۔

    اس ظاہری مشن سے ہٹ کر ایک "خفیہ مشن" بھی ہوتا ہے۔ اس خفیہ مشن کو نہ تو کہیں تحریر کیا جاتا ہے اور نہ ہی بیان کیا جاتا ہے لیکن تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام کارکن اس خفیہ مشن کے بارے میں علم رکھتے ہیں اور اسی کے حصول کی جدوجہد میں شریک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سی تحریکوں میں ظاہری مشن "اسلام کی تبلیغ" ہوتا ہے لیکن اس کے پردے میں "اپنے نظریات اور مسلک کی تبلیغ" حقیقی مشن کے طور پر موجود ہوتی ہے۔ عقل رکھنے والا کوئی بھی شخص ان تحریکوں کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار کر اس خفیہ مشن سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔

    اپنے پیغام کو خدا کا پیغام بنا کر پیش کرنے کا عمل

    اس کے بعد وہ راہنما قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور قدیم بزرگوں کے حوالے پیش کر کر کے بتاتا ہے کہ جو بات میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، وہ خدا کا پیغام ہے۔

    علم دین پر اجارہ داری

    راہنما کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کے دعوی کو پرکھنے کے لئے قرآن و سنت کا مطالعہ کرنا شروع کر دے۔ اس وجہ سے علم کا رجحان رکھنے والے افراد کے لئے بطور خاص یہ تاکید کی جاتی ہے کہ خبردار! قرآن کا مطالعہ نہ کرنا ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے۔ قرآن کا مطالعہ کرنے کے لئے اکیس علوم پر کامل عبور حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر تم نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو پھر صرف اور صرف اپنے ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے کسی عالم کی زیر نگرانی ایسا کرو۔

    جب وہ شخص ایسا کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں اسی راہنما کے پیروکار وہ عالم، قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اس راہنما کے عقائد و نظریات کے مطابق ڈھال کر اسے تعلیم دیتے ہیں۔ اس موضوع پر ہم اپنی بات کرنے کی بجائے پچھلی صدی کے ایک بڑے عالم اور مورخ کے الفاظ ہی نقل کر رہے ہیں:

    اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد الہی 'بلغ ما انزل الیک' کی تعمیل میں تبلیغ اسلام اور تبلیغ حق کو ہرگز ہرگز مخصوص حلقوں تک ہی محدود نہیں رکھا اور ادنی سے ادنی قابلیت کے لوگوں پر بھی تعلیم اسلام کا دروازہ اسی طرح کھلا رہا جیسا کہ اعلی سے اعلی قابلیت کے لوگوں پر کھلا ہوا تھا۔ اسلام نے حقیقی مساوات قائم کر کے سب کے لئے یکساں تقرب الہی کے راستے کھول دیے۔ بنی اسرائیل نے اپنے آپ کو دوسری اقوام سے نسبی طور پر بھی برتر و بہتر قرار دیا۔ ہندوستان میں برہمنوں نے مذہب کو اپنی ملکیت بنا کر دوسری اقوام کو عبادات اور اعمال مذہبی میں اپنا دست نگر اور محکوم رکھنے کا نہایت زبردست انتظام کیا۔

    ہندوستان کے مسلمان جو اپنی بہت سے باتوں میں ہندوستان اور ہندوؤں کا اثر قبول کر چکے ہیں، وہ اثر مجلسوں، میلوں، شادی غمی کی تقریبوں میں بہت نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ نفس پرست ائمہ مساجد اور زر طلب معلمین مکاتب بھی ہندوستان کے برہمنوں کی بہت سی باتوں کے چرا لینے میں کامیاب ہو گئے۔

    کھانے پر فاتحہ دینا اور امام مسجد کے سوا فاتحہ خوانی دوسرے کا حق نہ ہونا۔۔۔۔مردہ کی بخشش کے لئے امام صاحب کی بیش قرار اجرت کے ساتھ قرآن خوانی، قبر پر بیٹھ کر مردہ کو جمعہ سپرد کرنا اور اس کا معاوضہ۔۔۔۔۔مسجد میں گھی کا چراغ اور اس کے ساتھ پیسے، مسجد کا طاق بھرنا وغیرہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں مراسم ہیں جو برہمنوں کی آمدنیوں کو دیکھ دیکھ کر انہی کی طرح اسلامی لباس میں ہندوستانی مسلمانوں کے نام نہاد ائمہ مساجد اور معلمین مکاتب نے مسلمانوں میں رواج دے کر برہمنوں کی طرح اپنی پروہتائی قائم کر لی اور ان حافظوں، میاں صاحبوں اور پیر جیوں کے بغیر یہ بدعیہ مراسم ادا ہی نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ ضرب المثل ہے کہ "ملا ہی کی ماری حلال ہوتی ہے۔"

    یہ رنگ دیکھ کر بلند مرتبہ علماء و فقہا بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر برہمنوں کی ڈگر پر چل نکلے اور علم دین کو اپنی ملکیت بنانے پر آمادہ نظر آنے لگے۔ سب سے زیادہ وجوب تقلید شخصی سے امداد لی گئی۔ پھر اکابر پرستی کو لازم قرار دیا گیا۔ پھر فتووں میں یہ التزام کیا گیا کہ کنز و قدوری و شامی و ہدایہ وغیرہ کتب کے حوالے عربی الفاظ میں درج کر کے ان کے ترجمے ساتھ ہی درج کرنے سے اعراض کیا گیا کہ عام مسلمان ان فقہی کتابوں کے الفاظ کا مطلب نہ سمجھ سکیں اور ان کو چون و چرا کا موقع نہ مل سکے۔

    اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں افہام تفہیم کے درپے ہو تو سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ تم نے علم کس سے پڑھا ہے اور تمہارے پاس سند ہے یا نہیں۔ اگر مولویت کی سند نہیں رکھتا تو وہ قابل خطاب نہیں حالانکہ ان سند یافتہ جاہلوں کی جہالت سے بڑھ کر نقصان رساں جہالت کا نمونہ تلاش کرنا آسان نہیں۔ ان لوگوں کی سب سے زیادہ اذیت رساں اور ملعون کوشش یہ ہے کہ یہ فہم قرآن سے لوگوں کو دور و مہجور رکھنا چاہتے اور علوم قرآن کی اشاعت کو اپنی موت سمجھتے ہیں۔

    اب سے قریباً دو سو سال (اور اب تین سو سال) پیشتر اسی ہندوستان میں مولویوں نے حضرت شاہ ولی اللہ کے خلاف کفر کا فتوی صرف اس لئے صادر کیا تھا کہ انہوں نے قرآن مجید کا فارسی زبان میں کیوں ترجمہ کیا اور عام لوگوں کو مطالب قرآنیہ کے سمجھنے کا موقع کیوں بہم پہنچایا۔ اب وہ حالت تو بحمد اللہ باقی نہیں رہی لیکن اب اسی کی مانند دوسری چیز یہ موجود ہے کہ ترجمہ میں تقلید کیوں نہیں کی گئی ۔۔۔۔ تدبر فی القرآن اور تفسیر بالرائے میں فرق نہ کر کے نام نہاد مولویوں نے تدبر فی القرآن کو گناہ عظیم قرار دے رکھا ہے۔ (اکبر شاہ خان نجیب آبادی، معیار العلماء)

    عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی

    عقل کے استعمال کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور اس نظریے کو بار بار بیان کیا جاتا ہے کہ شیطان اپنی عقل کے باعث گمراہ ہوا۔ اگر تم نے عقل کو استعمال کیا تو تم بھی گمراہ ہو جاؤ گے۔ یہ حضرات شاید یہ نہیں جانتے کہ شیطان عقل کو استعمال کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تکبر کے جذبے کے باعث گمراہ ہوا۔ اگر وہ عقل استعمال کر لیتا تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں مردود نہ ٹھہرتا۔

    عجیب بات یہ ہے کہ یہ حضرات اپنے پیروکاروں کو تو عقل کے استعمال سے روکتے ہیں مگر خود ہر معاملے میں اپنی عقل کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے پیروکار بھی اگر اپنی عقل کو ان حضرات کی پیروی میں ان ہی کے خفیہ مشن کے لئے استعمال کیا جائے تو اس شخص کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی عقل کو اس راہنما کے نظریات کا کسی دوسرے راہنما کے نظریات سے تقابل کرنے کے لئے استعمال کرے تو اس پر گمراہی سے لے کر کفر، ارتداد اور الحاد کے فتوے عائد کر دیے جاتے ہیں۔

    اختلاف رائے کی مخالفت

    پیروکاروں کے ذہنوں میں یہ بات اتاری جاتی ہے کہ راہنما سے اختلاف رائے کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ جو شخص ایسا کرے گا، وہ جہنم کا سزاوار ہو گا۔ اختلاف رائے کو اتحاد کا مخالف قرار دے کر اس پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ راہنما کی آراء کو مقدس قرار دے دیا جاتا ہے اور اس سے معمولی سا اختلاف رائے بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی شخص ذرا سا بھی اختلاف رائے کر لے تو اس کے خلاف طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اسے نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ راہنما کی ناراضی سے لے کر حلقے سے اخراج کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو تو حلقے کے بھائیوں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    "مخالفین" کی تخلیق

    ان حضرات کی دعوت کی ایک خاصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس میں کسی مخصوص شخص، گروہ، فرقے، ملک، یا مذہب کو مصنوعی طور پر اپنا ہدف بنا لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف تقریروں اور تحریروں کی صورت میں الفاظ کا ایک طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ جو الزام کچھ حقیقت کے حامل ہوتے ہیں، ان میں زبردست مبالغہ کر کے ان کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں جو حقیقتاً کوئی وجود نہیں رکھتے۔ اس عمل کو "فلاں کے خلاف جہاد" کا مقدس نام دے دیا جاتا ہے۔

    برین واشنگ کا عملی نظام

    راہنما کی شخصیت کے بے پناہ تقدس اور نظریاتی فریم ورک کو رگوں میں اتارنے سے پیروکاروں کی برین واشنگ کر کے انہیں راہنما کا مکمل غلام بنا لیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریق ہائے کار اختیار کئے جاتے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:

    تربیتی نشستیں

    راہنما سے وابستہ افراد کی مخصوص تربیتی نشستیں منعقد کی جاتی ہیں۔ یہ نشستیں بند ماحول میں کی جاتی ہیں۔ ان نشستوں میں خصوصی طور پر باہر کے افراد، جو اس راہنما سے متاثر نہیں ہیں، کو شریک ہونے سے روکا جاتا ہے۔

    ان نشستوں میں فلموں کے سیٹ کی طرز پر ایک تصوراتی (Fantastic) سا ماحول تخلیق کیا جاتا ہے جو پیروکاروں پر غیر معمولی لاشعوری اثر پیدا کرتا ہے۔ مختلف علامتوں (Symbols) کو بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ سلوگنز کے بینر ہر طرف لٹکائے جاتے ہیں۔ شرکاء کے سونے، جاگنے، اٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے اور حتی کہ استنجا کرنے کو نشستوں کے منتظمین کنٹرول کرتے ہیں اور یہ سارا عمل "ضبط نفس" یا ڈسپلن کے نام پر ہوتا ہے۔

    خاص مبلغین کے بیانات

    تربیتی نشستوں اور ان کے علاوہ دیگر مواقع پر راہنما کے مقربین خاص کے حلقے سے تعلق رکھنے والے خاص مبلغین کی تقاریر کروائی جاتی ہیں جن میں ظاہری و خفیہ مشن کی تفصیلات، راہنما کی شخصیت سے متعلق پروپیگنڈا اور قدیم لٹریچر کے حوالوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔

    ان تقاریر کی خاص بات یہ ہے کہ سینیئر ساتھیوں کو پہلے سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ راہنماؤں کے بیانات کے دوران، خواہ مصنوعی طور پر ہی سہی، "سبحان اللہ، سبحان اللہ" کہہ کر یہ مظاہرہ کریں کہ ان کی بات کا زبردست اثر ہو رہا ہے۔ یہ چیز نئے آنے والے افراد پر زبردست اثر پیدا کرتی ہے۔ بہت سے مذہبی حلقوں میں اگرچہ موسیقی کے آلات کو گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن نثری تقریر کے ساتھ ساتھ بغیر آلات کے شعر و نغمہ کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ موسیقی کا اثر جذبات پر زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

    مکمل معلومات کی عدم فراہمی

    اس تحریک کے مختلف اجتماعات اور نشستوں میں عام طور پر حقائق کی بجائے فینٹسی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتیں بلکہ ادھوری بات بتائی جاتی ہے جو تصویر کا صرف ایک رخ ہی پیش کرتی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ کبھی بھی نہیں دکھایا جاتا جو تحریک کے اصل مقاصد سے مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ عقلی و منطقی دلائل اگر بیان بھی کئے جاتے ہیں تو ان پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا بلکہ اس کی بجائے واقعات کے بیان کر کے اور ان کی ویڈیوز دکھا کر ان کی اندھی تقلید پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔

    سماجی ری انفورسمنٹ (Social Reinforcement) اور جذباتی بلیک میل

    حلقے یا تحریک کے پیروکاروں میں زبردست محبت و انس پیدا کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ اس طریقے سے ان سب کارکنوں کو چھوٹے چھوٹے خاندانوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جو ایک ہی بڑے خاندان کا حصہ ہوتے ہیں۔ سادہ لوح پیروکار ایک دوسرے کی حقیقی برادرانہ محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ چالاک لیڈر مصنوعی طور پر ان سے محبت کا ناٹک رچاتے ہیں۔

    اگر کوئی پیروکار تحریک کے اصل مقاصد (ظاہری مشن نہیں) سے انحراف کی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی تو اس کی غلطی پر سخت افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے، کبھی اس کے جرم پر ٹسوے بہائے جاتے ہیں اور کبھی اس کا سماجی بائیکاٹ کر دیا جاتا ہے۔

    بعض غلطیوں پر حضرت جی ناراض ہوجاتے ہیں اور ان کے پیروکار، اس ناراضی کے بھیانک نتائج کا ایسا پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ پیروکار راہنما کے قدموں میں گر جاتا ہے، گڑگڑاتا ہے اور ندامت کے آنسوؤں سے اپنی غلطی کو دھونے کی کوشش کرتا ہے۔ شروع شروع میں مقربین خاص غلطی کر کے معافی مانگنے کا ڈرامہ رچا کر لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہیں اور اس کے بعد سچے پیروکار پورے خلوص سے یہ سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔

    انتہائی صورتوں میں ایسے شخص کو برادری سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ یہ تمام سزائیں پیروکاروں کے لئے جذباتی طور پر اتنے بڑے دھچکے کا باعث ہوتی ہیں کہ پیروکاروں کی اکثریت ان سے عبرت پکڑتے ہوئے معمولی سے انحراف کا خیال بھی دل میں نہیں لاتی۔

    عقل کی بجائے جذباتیت کو اپیل

    عام طور پر راہنما، اپنے پیروکاروں کی عقل کی بجائے ان کے جذبات کو اپیل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو عقلی طور پر اپنی بات پر قائل کرنے کے لئے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے جو ان حضرات کا کمزور پہلو ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ بڑا آسان کام ہوتا ہے کہ کسی کے مخصوص جذبات جن میں غیرت، غصہ، محبت، عقیدت، سیکس وغیرہ شامل ہیں، انہیں بھڑکا کر اس پیروکار کو اپنے مکمل کنٹرول میں لے لیا جائے۔

    پیروکار کے جذبے کو تحریک دینے کے لئے مختلف مناظروں یا میدانوں میں اپنی فتوحات اور مخالف کی شکست کے واقعات کو نمک مرچ لگا کر بیان کیا جاتا ہے۔ یہ کام مقربین خاص کا حلقہ زبردست انداز میں اور راہنما عجز و انکسار کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔

    اہم لوگوں سے خصوصی ملاقات

    ہر گروہ میں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو دینی یا دنیاوی اعتبار سے اہم مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی بات کو پہنچانے کی عام طور پر اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زیر تربیت افراد کی ایسے اہم لوگوں سے خصوصی ملاقات کروائی جاتی ہے۔

    یہ ملاقات گو کہ ون ٹو ون ہوتی ہے لیکن دوستانہ سطح پر نہیں ہو رہی ہوتی۔ اس اہم شخصیت کی اوقات اور حیثیت کے مطابق اس کا ایک امیج پہلے ہی زیر تربیت فرد کے ذہن میں اتارا جا چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شخص ملاقات سے پہلے ہی اس شخصیت سے مرعوب اور متاثر ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ملاقاتیں بہت موثر ثابت ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص زیادہ اہمیت کا حامل ہو جائے تو اس کی بڑے راہنما سے خصوصی ملاقات کا اہتمام بھی کر دیا جاتا ہے اور اسے اس شخص کی خدمات کا انعام قرار دے دیا جاتا ہے۔

    وفاداری کا امتحان

    مختلف درجے کے راہنما کبھی کبھار اپنے پیروکاروں کی وفاداری کا امتحان بھی لے لیتے ہیں۔ اس امتحان میں انہیں یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ واقعی اپنے راہنما کے وفادار ہیں۔ یہ امتحان چھوٹی موٹی قربانیوں سے لے کر جان کی قربانی پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہٹلر نے اپنے فوجی دستوں سے جان کی قربانی لے کر ان کا امتحان لیا تھا۔ ہمارے مذہبی راہنماؤں کے ہاں بھی اس کی مثالیں کم نہیں ہیں۔ موجودہ دور میں خود کش حملے اسی قربانی کی انتہائی صورت ہے۔

    نام کی تبدیلی

    اپنے پیروکاروں کو نفسیاتی طور پر اپنا مطیع بنانے کے لئے بعض راہنما ان کے اچھے اچھے نام تک تبدیل کر دیتے ہیں۔ نفسیات کو اس طریقے سے مسخ کر دیا جاتا ہے کہ وہ پیروکار بھی فخر سے اپنا نیا نام دوستوں کو بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ میرے حضرت کا مجھ پر کرم ہے کہ انہوں نے نام بدلنے کے لئے میرا انتخاب فرمایا۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ پیروکار کی پرانی شخصیت کو ختم کر کے ایک بالکل نئی شخصیت پیدا کی جائے جو راہنما کی مکمل نفسیاتی غلام ہو۔

    اس موقع پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بعض صحابہ کے نام تبدیل فرمائے تھے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے کبھی کسی صحابی کا اچھا نام تبدیل نہیں کیا۔ استثنائی طور پر چند ایک واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں کسی شخص کے نام میں شرک یا کوئی اور اخلاقی برائی پائی جاتی تھی۔ اس صورت میں آپ نے اسے اپنا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیا تاکہ نام سے اس اخلاقی برائی یا شرک کے پہلو کو دور کیا جا سکے۔

    سوالات کی حوصلہ شکنی

    بہت سے گروہوں میں زیادہ سوالات پوچھنے اور بول چال پر پابندی بھی عائد کر دی جاتی ہے۔ زیادہ سوال کرنے کو پسند تو شاید ہی کسی حلقے میں کیا جاتا ہو۔ جس سوال کا جواب راہنما نہ دے سکتے ہوں، اس سوال کو "احمقانہ" قرار دے دیا جاتا ہے اور جس سوال کا جواب ان کے پاس موجود ہو، اس کا بڑھ چڑھ کر جواب دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو سوچنے کی زیادہ عادت نہ پڑے اور عقل کو استعمال کر کے ان کے پیروکار کہیں کسی اور ہی طرف نہ نکل جائیں۔

    معاشرے سے قطع تعلق

    لوگوں کو عام طور پر ان کے پرانے ماحول، جیسے والدین، اساتذہ، دوستوں اور رشتے داروں سے کاٹ کر نئے حلقے کا حصہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسے شخص کے لئے پرانے رشتوں کی اہمیت کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور نئے رشتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس گروہ سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کسی فرد سے معمولی سا تعلق رکھنا "گناہ کبیرہ" قرار دے دیا جاتا ہے۔ بعض گروہوں میں تو مختلف نقطہ نظر رکھنے والے کو سلام کرنے یا اس سے مصافحہ کرنے کی صورت میں نکاح ٹوٹ جانے کا فتوی تک دے دیا جاتا ہے۔

    مخصوص وضع قطع

    بعض گروہوں میں یہ طریق کار اختیار کیا جاتا ہے کہ پیروکاروں کو ایک مخصوص وضع قطع اختیار کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گروہ معاشرے کے باقی حصوں سے الگ ہو کر ایک مخصوص شناخت حاصل کر لے۔ اس وضع قطع کو سنت ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے اور اس سے مختلف کسی بھی سنت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

    اگر کوئی پیروکار ایک مرتبہ اس وضع قطع کو اختیار کر لے تو پھر اس سے چھٹکارا اسے موت کی صورت میں ہی مل سکتا ہے۔ بلکہ بعض حلقوں میں تو یہ ترغیب دلائی جاتی ہے کہ اسے کفن بھی اسی وضع قطع میں دیا جائے۔ اگر کوئی پیروکار اس وضع قطع کی خلاف ورزی کرے تو سماجی ری انفورسمنٹ کے طریقوں سے اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اس صورت کو دوبارہ اختیار کرے۔

    برین واشنگ کے لئے مذہب کا استعمال

    بہت سے مذہبی راہنما لوگوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنانے کے لئے اکثر اوقات مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریق کار صرف کسی مخصوص مذہب تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہر مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے راہنما اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے۔ مسلمانوں کے راہنما لوگوں کو فکری غلام بنانے کے لئے مذہب کو جن طریقوں سے استعمال کرتے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:

    خدا اور بندے کے درمیان واسطے کا تصور

    یہ تصور دنیا کے بہت سے مذاہب میں موجود ہے کہ بندہ، اپنے خدا سے براہ راست رابطہ نہیں کر سکتا بلکہ ایسا کرنے کے لئے اسے کسی اللہ والے کا سہارا لینا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ ہر شخص اللہ تعالی کے حضور دعا کر سکتا ہے، گڑگڑا کر توبہ کر سکتا ہے، اپنی حاجات کو صرف اور صرف اسی سے مانگ سکتا ہے لیکن اس سے قطع نظر بہت سے گروہوں میں اس نظریے کو پروان چڑھایا گیا کہ ایسا کرنا کافی نہیں ہے بلکہ کسی اللہ والے کا دامن پکڑنا ضروری ہے۔

    یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ قرآن و سنت اگرچہ اہم تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔ اللہ تعالی کا حقیقی فیضان اس کے علاوہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے لے کر آج تک بزرگان دین کی زنجیر کے سینوں میں سے منتقل ہوتا ہوا آ رہا ہے۔ آج کے دور میں ان بزرگوں میں سب سے بہتر "ہمارے حضرت" ہیں۔ ان کی بیعت کر کے ان کی غلامی کا طوق پہن لیجیے تو یہ فیضان حاصل ہو جائے گا۔

    اطاعت امیر کی احادیث کا استعمال

    بہت سے مذہبی راہنما لوگوں کو اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے اطاعت امیر سے متعلق احادیث کو ان کے سیاق و سباق سے ہٹا کر اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے مسلم امت کو انارکی اور لاقانونیت سے بچانے کے لئے حکومت کی اطاعت کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ صریحاً کفر کا ارتکاب نہ کرے۔ یہ احادیث ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔

    عہد صحابہ و تابعین میں لفظ "امیر" یا "اولو الامر" سے مراد ہمیشہ حکمران ہی سمجھا جاتا ہے اور لفظ "جماعت" کا معنی حکومت ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے آخری دور میں مسلمانوں کے ہاں جو دو فرقے پیدا ہوئے، ان میں سے چھوٹے فرقے کا نام اھل التشیع (یعنی گروہ کے پیروکار) اور بڑے فرقے کا نام اھل السنۃ و الجماعۃ (یعنی سنت اور حکومت کے پیروکار) رکھا گیا۔

    جب سیدنا حسن و معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین صلح کے نتیجے میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور مضبوط حکومت قائم ہوئی تو اس کا نام "عام الجماعۃ" یعنی جماعت کا سال رکھا گیا۔ ہم یہاں صحیح مسلم کی صرف دو حدیث دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث میں لفظ "جماعت" اور دوسری میں لفظ "سلطان" آیا ہے جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جماعت کا معنی حکومت ہی ہوتا ہے۔

    حدثنا حسن بن الربيع. حدثنا حماد بن زيد عن الجعد، أبي عثمان، عن أبي رجاء، عن ابن عباس، يرويه. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من رأى من أميره شيئا يكرهه، فليصبر. فإنه من فارق الجماعة شبرا، فمات، فميتة جاهلية). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4790)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی جماعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"

    وحدثنا شيبان بن فروخ. حدثنا عبدالوارث. حدثنا الجعد. حدثنا أبو رجاء العطاردي عن ابن عباس، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال (من كره من أميره شيئا فليصبر عليه. فإنه ليس أحد من الناس خرج من السلطان شبرا، فمات عليه، إلا مات ميتة جاهلية). (مسلم، كتاب الامارة، حديث 4791)

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "جسے اپنے امیر کی کوئی بات ناگوار گزرے، وہ اس پر صبر کرے (یعنی بغاوت نہ کرے۔) جو شخص بھی حکمران کی اطاعت سے بالشت بھر بھی نکلے گا، وہ جاھلیت کی موت مرے گا۔"

    جنت اور جہنم کے عقیدے کا استعمال

    قرآن مجید نے جنت کا مستحق ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو اللہ، اس کے رسولوں اور آخرت پر ایمان لائیں اور اپنی عملی زندگی میں اخلاقی اصولوں اور ان کی بنیاد پر نازل کردہ شریعت کی پیروی کریں۔ مذہبی راہنما اس نظریے کو اپنے حق میں اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس کے بعد اس راہنما کی اطاعت کی صورت میں جنت اور اس کی نافرمانی کی صورت میں جہنم لازم ہو جاتی ہے۔ "میں گناہ گار ہوں" کے نظریے کا بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں۔ اگر وہ نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو حضرت جی سے وابستہ ہو جائیں ورنہ ان کا مقدر جہنم ہو گی۔

    اعتراف اور توبہ

    کیتھولک عیسائیوں میں مذہبی راہنما کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کر کے اس کے توسط سے توبہ کرنے کا تصور موجود ہے۔ اسلام میں اعتراف کا کوئی تصور تو موجود نہیں ہے لیکن بعض مذہبی راہنماؤں نے اجتماعی توبہ کی صورت میں یہ سلسلہ مسلمانوں کے ہاں بھی جاری کر رکھا ہے۔

    بہت سے مذہبی راہنما اپنے پیروکاروں میں عجز و انکسار پیدا کر کے اس عاجزی کو اپنے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ پیروکاروں کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ وہ گناہ گار ہیں۔ اس وجہ سے انہیں توبہ کرنی چاہیے۔ اللہ تعالی یونہی کسی کو معاف کر دے، اس کا امکان کافی کم ہے۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ حضرت جی کے توسط سے توبہ کی جائے۔ اس طرح سے اس کی قبولیت کا امکان زیادہ ہے۔ پیروکاروں کے اجتماعات میں ان سے کہا جاتا ہے کہ راہنما توبہ کروائیں گے، ہر شخص اپنے اپنے گناہوں کو یاد کر کے اشک باری اور توبہ کرے۔

    اس اشک باری اور توبہ کے نتیجے میں شرکاء کو یقینی طور پر روحانی لطف اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اس روحانی لطف کو اللہ تعالی سے تعلق قائم کرنے کی بجائے راہنما کی ذات سے تعلق مضبوط کرنے کے لئے استعمال کر لیا جاتا ہے۔ پیروکاروں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکیزگی انہیں اس راہنما کی بدولت حاصل ہوئی ہے اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اگلی محفل میں آنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تنہائی میں اپنے رب کے سامنے گڑگڑا کر اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کرے تو شاید اسے اس محفل کی نسبت زیادہ ہی پاکیزگی حاصل ہو جائے گی۔

    روحانی تجربات

    دنیا کے بہت سے مذاہب میں لوگ راہنما کے زیر تربیت روحانی تجربات حاصل کرتے ہیں جن میں کشف، اچھے خواب، انبیاء کرام علیہم السلام کا دیدار، فرشتوں کا نزول، مقدس مقامات کی روحانی زیارت وغیرہ شامل ہے۔ اس کے لئے یہ راہنما مخصوص ماحول میں مختلف نفسی علوم جیسے ہپناٹزم اور ٹیلی پیتھی کے ذریعے پیروکاروں کے ذہن پر اثر انداز ہو کر انہیں روحانی تجربات سے گزارتے ہیں جن میں مقدس مقامات جیسے خانہ کعبہ یا روضہ انور کا دیدار شامل ہوتا ہے۔

    ایک صاحب کو میں نے خود دیکھا کہ وہ اپنے پیروکاروں میں مقدس مقامات کی زیارت کی اتنی تڑپ پیدا کر دیتے تھے کہ ان پیروکاروں کے تصور میں چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے مقدس مقامات کی شبیہ رہتی تھی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ انہیں کبھی کبھار خواب میں یہی مقدس مقامات نظر آ جاتے۔ اس زیارت کو یہ لوگ "حضرت جی کا فیض" قرار دیا کرتے تھے۔ جس مرید کے ذہن پر ان کا اثر قائم ہو جائے، وہ خوش نصیب قرار پاتا ہے اور باقی افراد "دیدار کی بھیک کب بٹے گی؟" کی تڑپ لئے اگلی محفل کا انتظار کرتے ہیں۔

    نفسیاتی غلامی کی اگلی نسلوں کو منتقلی

    صرف پیروکاروں ہی کو غلام بنا لینے پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی راہنما کی محفلوں میں لایا کریں۔ اس طریقے سے برین واشنگ کا یہ عمل کچی ذہن کے بچوں پر بھی دوہرایا جاتا ہے۔

    نفسیاتی غلامی کو فروغ دینے کے اس عمل کی بہت سی تفصیلات ابھی باقی ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ تفصیلات بیان کرنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ لوگ اپنے مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے مکر و فریب سے آگاہ ہو کر ان سے بچ سکیں۔
     
  30. زین
    آف لائن

    زین ممبر

    شمولیت:
    ‏12 اپریل 2011
    پیغامات:
    2,361
    موصول پسندیدگیاں:
    9
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    باب 20: نفسیاتی غلامی کا سدباب


    ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    ہمارے ہاں نفسیاتی غلامی اس درجے میں پھیلی ہوئی ہے کہ مذہبی افراد کا کوئی طبقہ اور کوئی فرقہ بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں کسی راہنما کو 'حضرت' کہا جاتا ہے، کہیں وہ 'شیخ' کہلاتا ہے، کہیں اسے 'استاذ' قرار دیا جاتا ہے اور کہیں اس کا لقب 'پیر' ہے۔ جو لوگ دوسروں کو کسی کی نفسیاتی غلامی سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اس کے لئے بالعموم مناظرے اور بحث مباحثے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

    ہماری ناقص رائے میں نفسیاتی غلامی کو ختم کرنے کا یہ طریقہ نہایت ہی غیر موثر اور بے کار ہے۔ اس طریقے سے کسی شخص کو نفسیاتی غلامی سے نکالا تو نہیں جا سکتا البتہ اسے اپنی روش پر مضبوط ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بحث مباحثے کے ذریعے صرف اور صرف اس شخص کو تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی دوسرے کا فکری غلام نہ ہو بلکہ صرف اور صرف دلائل کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر تشکیل دیتا ہو۔ جو شخص کسی کا فکری غلام بن چکا ہو، اسے اس گڑھے سے نکالنے کے لئے ایک طویل اور صبر آزما عمل کی ضرورت ہے جسے علم نفسیات میں "ڈی کنڈیشنگ (Deconditioning)" کہا جاتا ہے۔

    نفسیاتی غلامی کے سدباب کے لئے جن بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے، انہیں ہم ان عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں:

    · آزادی فکر کی تحریک

    · مخلص اور مفاد پرست راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت

    · دینی تعلیم میں درکار اصلاحات

    · ڈی کنڈیشنگ کا عمل

    ان میں سے پہلے تین اقدامات کا تعلق اس بات سے ہے کہ جو افراد ابھی نفسیاتی غلامی سے محفوظ ہیں، انہیں مستقبل میں کسی بھی راہنما کا فکری غلام بننے سے روکا جائے۔ چوتھے اقدام کا تعلق ان افراد سے ہے جو کسی شخصیت کی نفسیاتی غلامی کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔

    آزادی فکر کی تحریک

    ہر قسم کی غلامی کے مکمل خاتمے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشروں میں آزادی فکر کو ایک مثبت قدر بنا کر پیش کریں۔ ہمارے ہاں سیکولر طبقات پہلے ہی فکری آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ان کے ہاں یہ تحریک علی وجہ البصیرت نہیں بلکہ مغرب کی اندھی تقلید پر مشتمل ہے۔ موجودہ دور میں مذہبی طبقے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ صحابہ و تابعین کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے فکری آزادی کی تحریک شروع کریں۔ جیسا کہ ہم پچھلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ اسلام میں آزادی فکر کا تصور، مغربی تصور سے کافی مختلف ہے۔

    اسلامی اور مغربی آزادی فکر میں فرق

    موجودہ مغرب کی آزادی فکر کا نظریہ بنیادی طور پر ایک "بے خدا" کائنات کے تصور کی بنیاد پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کسی چیز کے "مقدس" ہونے کا تصور موجود نہیں ہے۔ اسلامی نظریے کے مطابق یہ کائنات ایک خدا نے تخلیق کی ہے۔ ہمارے لئے اس خدا کی کتب، اس کی عطا کردہ اخلاقیات اور اسی کی عطا کردہ شریعت مقدس ہیں۔ شریعت کے مقدس ہونے کا معنی یہ نہیں ہے کہ اس کے بارے میں غور و فکر کرنا ہی ممنوع ہے۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ میں شریعت پر غور و فکر اور اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی ایک مضبوط روایت موجود رہی ہے۔

    اللہ تعالی کی دی ہوئی شریعت بہت مختصر اور آسان ہے۔ اس پر کوئی اعتراض کرنا انسانی عقل کے لئے سرے سے ممکن ہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں مستشرقین اور مسلمانوں کے سیکولر ذہن رکھنے والے افراد کی جانب سے شریعت پر جو عقلی اعتراضات کئے جاتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی شریعت پر نہیں بلکہ انسانوں کے کام پر کئے گئے ہیں۔

    علم فقہ، جسے اسلامی قانون بھی کہا جاتا ہے، پورے کا پورا اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت نہیں ہے۔ یہ خدائی شریعت کو سمجھنے کی انسانی کاوشوں کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا جس میں بہرحال غلطی کا امکان موجود ہے۔ میں نے خاص طور پر ان اعتراضات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور ان کی تفصیل انشاء اللہ میں کسی اور کتاب میں بیان کروں گا۔ جن نتائج پر میں پہنچا ہوں، مختصراً ان کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی فقہی قانون پر عقلی اعتراض صرف اور صرف اسی صورت میں کئے جا سکتے ہیں جب:

    · کوئی قانون قرآن و سنت کی بجائے کسی مجتہد کے ذاتی اجتہاد پر مبنی ہو۔

    · قرآن مجید کی کسی آیت کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر یا کسی حدیث کو اس کے موقع و محل اور سیاق و سباق سے ہٹا کر سمجھنے کے نتیجے میں کوئی قانون اخذ کیا گیا ہو۔

    · شریعت کے کسی حکم پر غلط طور پر قیاس کرتے ہوئے کوئی قانون اخذ کر لیا جائے۔

    · رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی بجائے فقہاء کی آراء کو ترجیح دیتے ہوئے قانون سازی کی جائے۔

    اسلامی شریعت کے بارے میں بھی قرآن مجید مسلمانوں کو غور و فکر کرتے رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ مختصر سی شریعت کے اس دائرے کے علاوہ دنیا جہان کے موضوعات سے متعلق مسلمانوں کو مکمل آزادی دی گئی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی فکر کے گھوڑوں کو دوڑائیں۔ قرآن مجید نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دیتا ہے بلکہ بار بار اسی کی تلقین کرتا ہے۔

    مغرب کی "آزادی اظہار" اور اسلام کی عطا کردہ "آزادی اظہار" میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام کی آزادی اظہار کا تصور اخلاقی حدود کا پابند ہے۔ آزادی کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہر شخص اس حد تک آزاد ہے کہ وہ دوسرے کی آزادی میں مداخلت نہ کرے۔ اہل مغرب کے ہاں آزادی اظہار کے نام پر دوسروں کی آزادی میں مداخلت کی جاتی ہے جس کا اظہار ان کے ہاں دوسرے مذاہب اور ان کی مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسلام میں کسی بھی فکر پر علمی تنقید اور جرح و تعدیل کی اجازت تو ہے لیکن کسی مذہب یا فلسفے اور اس کی مقدس شخصیات سے متعلق کسی بدتمیزی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔

    مغرب کی آزادی اظہار نے خاص طور پر مرد و زن کے تعلق سے متعلق بے جا افراط سے کام لیا ہے جس کے مظاہر ان کے ہاں ساحلوں پر ملتے ہیں۔ اس قسم کی آزادی اظہار کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہ معاملہ اب ان کا پرائیویٹ معاملہ نہیں بلکہ دوسروں کی آزادی میں مداخلت بن جاتا ہے۔ اسی حقیقت کو سنگاپور کے عظیم راہنما 'لی کو آن یو' انے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ "اگر کوئی مرد و زن سرعام ازدواجی تعلق قائم کریں تو یہ ان کا پرائیویٹ معاملہ نہیں رہتا بلکہ پبلک معاملہ بن جاتا ہے۔" ملحدین کی آزادی اظہار کی اپروچ کی غلطی بنیادی طور پر یہ ہے کہ وہ اس کا اندھا دھند استعمال کرتے ہوئے دوسروں کی آزادی میں مداخلت کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔

    آزادی فکر کے لئے درکار عملی اقدامات

    موجودہ نفسیاتی غلامی کے خاتمے اور آئندہ اس کے احیاء سے بچنے کے لئے ہمیں اپنے معاشروں میں آزادی فکر کے اسلامی تصور کو فروغ دینا ہو گا۔ اس ضمن میں جو اصلاحات درکار ہیں، وہ بنیادی طور پر یہ ہیں:

    · آزادی فکر کو ایک بڑی قدر (Value) کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔

    · مذہبی راہنما، سماجی مفکرین اور میڈیا آزادی فکر کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

    · پورے شعور کے ساتھ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ نفسیاتی غلامی ایک برائی ہے جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ نفسیاتی غلامی کے خاتمے کے لئے معاشرے کا ذہین طبقہ متحرک ہو جائے۔

    · نئی نسل کی تربیت اس طریقے سے کی جائے کہ وہ اپنی عقل کو استعمال کرنے والی بنے۔ اس کے لئے تعلیمی نظام میں زبردست اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔

    اپنے وسائل کی حد تک ہم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ جن قارئین نے میری دیگر تحریروں کا مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ میں اپنی ہر تحریر میں قارئین کی نفسیاتی آزادی کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ یہی کوشش اگر دوسرے لوگ بھی کرنا شروع کر دیں تو نفسیاتی و فکری آزادی کا یہ عمل تیز ہوتا چلا جائے گا۔

    مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت

    سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام الناس میں مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں مذہبی حلقوں کی جانب سے بہت ہی کم لکھا اور بولا گیا ہے۔ بعض سیکولر ذہن کے افراد نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے مقاصد مختلف ہونے کی وجہ سے عام لوگوں میں ان کا اثر بہت ہی محدود رہا ہے۔

    یہاں پر ہم مخلص اور مفاد پرست مذہبی راہنماؤں میں فرق کرنے کے کچھ طریقے بیان کر رہے ہیں۔ جو احباب عام لوگوں کو نفسیاتی غلامی سے نجات دلانے میں دلچسپی محسوس کرتے ہوں، ان سے گذارش ہے کہ اگر وہ ان طریقوں کو درست سمجھتے ہوں تو انہیں جس طریقے سے بھی ممکن ہو، دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔

    مخلص اور غیر مخلص مذہبی راہنماؤں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ مفاد پرست راہنماؤں کے برعکس مخلص راہنما کسی پیروکار کا کبھی جذباتی، نفسیاتی، سماجی اور معاشی استحصال نہیں کرتے بلکہ اپنی زندگی کو انہیں فائدہ پہنچانے کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

    · مفاد پرست راہنما ایک ظاہری اور ایک خفیہ ایجنڈا رکھتے ہیں۔ ان کی کاوشوں کا محور خفیہ ایجنڈا ہوا کرتا ہے۔ مخلص راہنما کے تمام مقاصد واضح اور متعین ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں پایا جاتا۔ وہ جو بات کرتے ہیں، صاف انداز میں کرتے ہیں اور ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔

    · مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو اپنا فکری غلام بنانے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کی تفصیل ہم بیان کر چکے ہیں۔ اس کے برعکس مخلص راہنما کبھی کسی شخص کو اپنا غلام بنانے کے لئے کوئی ہتھکنڈا استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ انہیں آزادی فکر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنما خود یا ان کے مقربین کی ٹیم، اپنے پیروکاروں کو فکری غلام بنانے کے لئے ہمیشہ انہیں یہی تلقین کرتے ہیں کہ وہ کسی مختلف نقطہ نظر رکھنے والے عالم کی تقریر نہ سنیں اور نہ ہی ان کی تحریریں پڑھیں ورنہ وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ مخلص راہنما اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ لوگوں کو دونوں نقطہ ہائے نظر کو سمجھنا چاہیے اور جو نقطہ نظر انہیں قرآن و سنت کے قریب لگے، اسے اختیار کر لینا چاہیے۔

    · مفاد پرست راہنما اپنی بات کو خدا کے حکم کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کرنے کو گمراہی، کفر اور الحاد قرار دیتے ہیں۔ مخلص راہنما اپنی بات کو، اگرچہ وہ واقعتاً خدا کا حکم ہی ہو، اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ "میری سمجھ کے مطابق خدا کا حکم یہی ہے۔ اگر آپ بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں تو اس پر عمل کیجیے۔"

    · مفاد پرست راہنماؤں کے گرد مفاد پرست "مقربین خاص" کی ایک ٹیم ہوتی ہے جو ہر ہر موقع پر اپنے شیخ کی پروموشن میں مشغول ہوتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے گرد ایسی کوئی ٹیم موجود نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد اور پیروکار بھی انہیں بس "ایک انسان اور ایک عالم" سمجھتے ہیں اور ان کی شخصیت کو کبھی حق و باطل کا معیار قرار نہیں دیتے۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے گرد مقربین خاص کو حلقہ انہیں عوام سے دور رکھتا ہے۔ ان کی شخصیت کے گرد پردے ڈال کر انہیں پراسرار بنا دیا جاتا ہے۔ مخلص راہنماؤں کے گرد ایسا کوئی حلقہ نہیں ہوتا اور یہ حضرات عوام سے گھل مل کر رہتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنما بعض اوقات کسی بڑی شخصیت کی روح سے اپنے روحانی تعلق کا دعوی کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما ایسا کوئی دعوی نہیں کرتے۔ وہ بڑی شخصیات سے صرف حسی ذرائع جیسے ان کی کتب کے مطالعے وغیرہ کے ذریعے استفادہ کرنے کا دعوی کرتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کی کرامتوں کو بھرپور پراپیگنڈا کیا جاتا ہے لیکن مخلص راہنماؤں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے حلقوں میں عقل کی بہت مخالفت کی جاتی ہے اور جذبات کو ہر طریقے سے ابھارا جاتا ہے۔ اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ لوگ اپنی عقل پر اعتماد کرنے کی بجائے راہنما کی عقل پر اعتماد کریں۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں عقل کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ لوگوں کو علم سے وابستہ کر کے انہیں اس ذہنی سطح پر لایا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی عقل کو استعمال کر کے صحیح و غلط کا فیصلہ کریں۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں کسی مخصوص شخص یا گروہ کو مخالف قرار دے کر اس کی تردید، تفسیق اور تکفیر میں ساری توانائیاں صرف کی جاتی ہیں۔ مخلص راہنما کسی مخصوص شخص یا گروہ کو نہیں بلکہ ان نظریات اور اعمال کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو ان کے خیال میں غلط ہوتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں "واقعات" کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں دلائل کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے تاکہ عام لوگوں کی ذہنی سطح کو بلند کر کے انہیں اپنی عقل استعمال کرنے کی عادت ڈالی جا سکے۔

    · مفاد پرست راہنما کبھی پوری معلومات نہیں دیتے۔ ان کے ہاں تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا جاتا ہے اور دوسرے رخ کو اس طرح سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں تصویر کے دونوں رخ پیش کئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ تصویر کا دوسرا رخ چھپانے کی بجائے اسے عوام کے سامنے پیش کر کے دلائل کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس میں کیا غلطی پائی جاتی ہے۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں اختلاف رائے ایک جرم سمجھا جاتا ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں اختلاف رائے ایک قدر (Value) کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے کسی پیروکار سے کسی غلطی کی صورت میں شدید ردعمل سامنے آتا ہے اور راہنما کی ناراضی سے لے کر برادری سے اخراج تک ہر ذریعے سے اس شخص کو صحیح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں کسی پیروکار کی غلطی کی صورت میں اسے نرمی اور محبت سے توجہ دلائی جاتی ہے، دلائل دیے جاتے ہیں اور اگر پھر بھی معاملہ درست نہ ہو تو اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    · مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں سے محبت کا مصنوعی سا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کسی انحراف کی صورت میں اسے بھرپور انداز میں جذباتی طور پر بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ محبت اس وقت اڑنچھو ہو جاتی ہے جب راہنما سے کسی مسئلے پر اختلاف کر لیا جائے۔ مخلص راہنما کا اپنے پیروکاروں سے تعلق محض خلوص پرمبنی ہوتا ہے۔ ان کے ہاں جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کا تصور موجود نہیں ہوتا۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے حلقوں میں جذباتیت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ مخلص راہنما بالعموم جذباتیت سے پرھیز کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں کبھی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو ایسا بالعموم کسی ثابت شدہ نیکی جیسے نماز، زکوۃ وغیرہ کی ترغیب کے لئے کیا جاتا ہے۔ ان کے ہاں خاص طور پر اختلافی امور میں صرف دلائل کا تبادلہ کیا جاتا ہے اور جذباتیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

    · مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تربیتی نشستوں میں بالخصوص اور عام زندگی میں بالعموم پیروکاروں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، اٹھنے، بیٹھنے، لباس پہننے، استنجا کرنے غرض ہر قسم کے معاملات میں راہنما کی دی گئی ہدایات کی پیروی کریں۔ مخلص راہنما کبھی اپنے پیروکاروں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان کا پیروکار اپنی پرانی شناخت بھلا کر نئی شناخت کو قبول کر لے۔ اسی وجہ سے وہ اکثر اوقات اپنے پیروکاروں کا نام بھی تبدیل کر دیتے ہیں۔ مخلص راہنما کبھی ایسا نہیں کرتے۔ ہاں اگر کسی شخص کے نام میں کوئی اخلاقی خرابی موجود ہے، تب وہ اسے مشورہ دے دیتے ہیں کہ وہ خود اپنا نام تبدیل کر لے۔

    · مفاد پرست راہنما اپنے پیروکاروں کو معاشرے سے کاٹ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انہیں ایک خاص وضع قطع اختیار کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ پیروکاروں کے ذہن میں یہ بات اتاری جاتی ہے کہ راہنما روحانی باپ ہے اور اس کا درجہ حقیقی باپ سے بھی زیادہ ہے۔ حقیقی بھائیوں کی جگہ روحانی بھائیوں کا رشتہ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مخلص راہنما ایسا نہیں کرتے بلکہ وہ دلوں کو ملانے کا کام کرتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں چونکہ جذباتیت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اس وجہ سے ان کے حلقوں میں ایک تصوراتی (Fantastic) سا ماحول موجود ہوتا ہے۔ لوگ عموماً حقیقت سے فرار حاصل کر کے اس تصوراتی ماحول میں خوش ہو جاتے ہیں۔ مخلص راہنما لوگوں کو حقیقت پسند بناتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنما لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے بالعموم اپنی مجلسوں میں فلموں کے سیٹ کی طرز پر مصنوعی سا ماحول تشکیل دیتے ہیں۔ سینئر پیروکاروں کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ جونیئر پیروکاروں کے سامنے متاثر کن طرز عمل کا مظاہرہ کریں۔ مخلص راہنماؤں کے ہاں مصنوعی چیزوں کی بجائے عام طور پر دلائل سے متاثر کیا جاتا ہے۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں سوالات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں سوالات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

    · مفاد پرست راہنما اپنے الفاظ یا عمل کے ذریعے خود کو خدا اور بندے کے درمیان ایک واسطہ قرار دیتے ہیں جبکہ مخلص راہنما خود کو اللہ کا ایک حقیر بندہ قرار دیتے ہوئے محض ایک معلم یا استاذ کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنما اپنی ذاتی حیثیت بنانے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما ایسا نہیں کرتے۔

    · مفاد پرست راہنما نفسی علوم کو رعب جمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں جبکہ مخلص راہنما اس سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔

    · مفاد پرست راہنماؤں کے ہاں ان کے کسی پیروکار کی دینی یا دنیاوی کامیابی کو "حضرت کا کرم" قرار دیا جاتا ہے جبکہ مخلص راہنماؤں کے ہاں اسے صرف اور صرف "اللہ کا کرم" قرار دیا جاتا ہے۔

    یہاں یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ اگر ان میں سے کوئی ایک آدھ بات استثنائی طور پر اگر کسی راہنما میں پائی بھی جائے تو اس پر فوری طور پر مفاد پرست ہونے کا فتوی نہیں لگا دینا چاہیے۔ ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس راہنما کو اس طرف توجہ دلا دینی چاہیے کہ اس معاملے میں اس کا طرز عمل مفاد پرست لیڈروں جیسا ہے۔ اگر اس کے پاس اس طرز عمل کی کوئی معقول توجیہ موجود ہو اور وہ خوشدلی سے اپنے طرز عمل میں تبدیلی کا فیصلہ کر لے تو یقیناً وہ راہنما، مخلص ہی ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ بھڑک اٹھے اور توجہ دلانے والے کو بے نقط سنائے تو پھر جان لینا چاہیے کہ وہ لیڈر مخلص نہیں ہے۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی ابتدا میں مخلص ہو اور بعد میں وہ کسی وجہ سے مفاد پرستانہ کردار ادا کرنے لگ جائے۔ اس وجہ سے مذہبی راہنماؤں پر، خاص طور پر، نظر رکھنی چاہیے اور ان کی غلطیوں پر انہیں تنہائی میں بروقت توجہ دلانی چاہیے تاکہ وہ اپنی اصلاح کر سکیں۔ اس مسلسل چھان بین کی وجہ یہ ہے کہ ایک عام آدمی کی غلطی کا نقصان تو صرف اسے ہی پہنچے گا جبکہ مذہبی راہنما کی غلطی کا اثر بہت سے لوگوں تک پہنچے گا۔

    اس میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمیں اجتہادی غلطی اور کردار کی غلطی میں فرق کرنا چاہیے۔ اگر مذہبی راہنما درست نیت کے ساتھ، دلائل کی بنیاد پر کسی مسئلے کے بارے میں کوئی غلط رائے قائم کر بیٹھتا ہے تو یہ اجتہادی غلطی ہے۔ اجتہادی غلطی کا موجود ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مشہور حدیث کے مطابق مجتہد کو اس غلطی پر بھی اجر ملے گا۔ کردار کی غلطی سے مراد یہ ہے کہ وہ شخص ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنے لگ جائے جس کے نتیجے میں لوگ اس کے فکری غلام بننا شروع ہو جائیں۔ ایسی صورت میں اس راہنما کو فوراً توجہ دلانی چاہیے کیونکہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔

    نظام تعلیم میں درکار اصلاحات

    ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ تعالی کی صحیح ہدایت قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جاری کردہ سنت کی صورت میں موجود ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عطا کردہ ہدایت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہمارے پاس حدیث کی صورت میں موجود ہے۔ ان احادیث کے بارے میں ہمارے پاس ایسا معیار بھی موجود ہے جس کی مدد سے صحیح و موضوع یعنی اصلی اور جعلی احادیث میں فرق کیا جا سکے۔

    اس کے بعد قرآن و سنت کو سمجھنے کی کاوشوں کے سلسلے میں چودہ سو سال کے اہل علم کے علمی کام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ان سب وسائل کے ہوتے ہوئے کمی صرف اس بات کی ہے کہ دین کے طالب علموں اور عام لوگوں کو اس ذخیرے تک صحیح معنوں میں رسائی فراہم کر دی جائے۔ ظاہر ہے جو لوگ دین کا علمی مطالعہ کرنے کا ذوق رکھتے ہوں، ان میں یہ کام زیادہ اچھے طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ عام لوگوں کو بالعموم غیر رسمی (Informal) طریقے سے دین کی تعلیم دی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی کچھ اصلاحات کو نافذ کیا جا سکتا ہے۔

    قرآن و سنت کی صحیح تعلیم کے لئے ہمیں دینی تعلیم کے رسمی اور غیر رسمی نظام میں ہمہ جہت تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام میں مجوزہ تبدیلیوں پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ یہاں پر ہم دیگر اہل علم کی تجاویز پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی نئی بات کرنے کی بجائے صرف انہی مجوزہ تبدیلیوں کا ذکر کریں گے جن کا تعلق ذہنی غلامی کے خاتمے سے ہے۔ وہ تبدیلیاں یہ ہیں:

    · عربی کی تعلیم

    · قرآن کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی ضرورت

    · حدیث کی تعلیم میں نقد حدیث کی اہمیت

    · تقابلی مطالعے کا طریق تعلیم

    · جدید دنیاوی علوم کی تعلیم

    · دینی تعلیم کی سرٹیفیکیشن کا آن لائن نظام

    عربی کی تعلیم

    نفسیاتی غلامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض مذہبی راہنما قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث کی عربی عبارت سنا کر اس کے ترجمے میں من پسند تبدیلیاں کر کے عام لوگوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ علوم دینیہ کے طلباء کے اندر عربی زبان میں اعلی درجے کی مہارت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے کے لٹریچر کا مکمل مطالعہ کروانے کی ضرورت ہے۔

    عام لوگوں کو بھی عربی زبان سے اتنی واقفیت کروا دینا ضروری ہے کہ کوئی شخص انہیں کم از کم دھوکا نہ دے سکے۔ اس مقصد کے لئے صرف و نحو (گرامر) کے ذریعے زبان سکھانے کا طریقہ ہمارے نزدیک بالکل ہی بے کار ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف بوریت پیدا ہوتی ہے بلکہ زبان کی ذخیرہ الفاظ (Vocabulary) اور اسالیب (Styles) کو بھی احسن انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ بہترین طریقہ وہ ہے جس پر عرب ممالک میں عربی زبان کی تعلیم جاتی ہے۔ اس کے مطابق عربی زبان کو بحیثیت ایک زبان کے پڑھایا جائے اور لٹریچر کا مطالعہ کرواتے ہوئے گرامر کے قواعد ذہن نشین کروائے جائیں۔

    قرآن کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی ضرورت

    ہمارے ہاں بدقسمتی سے دینی تعلیم کے نظام میں قرآن مجید کو محور کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ مدارس میں تعلیم کا آغاز صرف و نحو سے کروایا جاتا ہے۔ اس کے بعد قرون وسطی کے منطق اور فلسفے کی تعلیم پر کئی سال ضائع کر دیے جاتے ہیں۔ فقہ کے کسی مخصوص مسلک کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز عام طور پر دوسرے سال میں کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ چھ سات سال تک چلتا رہتا ہے۔ قرون وسطی کے علم کلام کی بحثیں بھی عام طور پر تیسرے یا چوتھے سال میں پڑھا دی جاتی ہیں۔ قرآن مجید کی تعلیم کا آغاز عام طور پر پانچویں سال میں کیا جاتا ہے۔

    اس پورے عمل کے نتیجے میں طالب علم جب تک قرآن کے مطالعے پر پہنچتا ہے، اس وقت تک وہ فقہ یا علم کلام کے کسی مسلک کے بارے میں اچھا خاص متعصب ہو چکا ہوتا ہے۔ اب وہ قرآن مجید کو اپنے مخصوص نظریات کی عینک سے دیکھتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قرآن مجید کی حقیقی راہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر طالب علموں کو قرآن پڑھانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس سے اپنے فقہی یا کلامی مسلک کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔

    اس طرز تعلیم کا نقصان یہ ہے کہ ہمارے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کو معاذ اللہ ثانوی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ اس کے برعکس منطق اور فقہ کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے اس طرز عمل کے نتیجے میں نفسیاتی غلام جنم نہیں لیں گے تو اور کیا ہو گا۔

    ہمیں قرآن مجید کو دینی تعلیم کا محور بنانے کی مہم شروع کرنا ہو گی۔ قرآن کی بنیادی تعلیم کا آغاز ابتدائی جماعتوں ہی میں ہو جانا چاہیے اور صرف اس کی عبارت کو بے سوچے سمجھے بغیر پڑھ لینے کی بجائے سوچ سمجھ کر پڑھنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ عربی زبان کی تعلیم میں قرآن کو بطور ایک شہ پارہ ادب پڑھایا جانا چاہیے۔ فقہ کی تعلیم میں قرآن کو اولین ماخذ کی حیثیت سے پڑھایا جانا چاہیے اور احکام سے متعلق آیات پر خاص توجہ دی جانی چاہیے۔ علم کلام کی تعلیم میں بھی قرآن کو یہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ حدیث کی تعلیم میں سنت اور حدیث کو قرآن کے عملی اطلاق کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ اس طریقے سے قرآن ہی کو تمام علوم پر میزان، فرقان اور مھیمن کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے۔

    عام لوگوں کو ان کی اپنی زبانوں میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیم یعنی عقائد، اخلاقیات اور شریعت سے آگاہ کروایا جانا ضروری ہے۔ اس بنیادی قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں عربی زبان سکھانے کے لئے بھی قرآن کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

    حدیث کی تعلیم میں نقد حدیث اور سیاق و سباق کی اہمیت

    ہمارے معاشروں میں نفسیاتی غلامی کا ایک بہت بڑا سبب موضوع یعنی جعلی احادیث کی نشر و اشاعت ہے۔ ہماری تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب بڑے پیمانے پر ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے جعلی احادیث گھڑ گھڑ کر انہیں معاشرے میں پھیلانے کی مذموم کوشش کی۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ احادیث کے ذریعے لوگوں کو اپنے فرقے کا نفسیاتی غلام بنایا جا سکے۔ اللہ تعالی اپنی رحمت فرمائے محدثین پر جن کی غیر معمولی کاوشوں کے نتیجے میں احادیث کی جانچ پڑتال اور ان کو پرکھنے سے متعلق معلومات کا ایسا ذخیرہ وجود میں آیا جس کی مثال کسی قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

    ضرورت اس امر کی ہے کہ حدیث اور اس سے متعلقہ علوم کو دین کے طالب علموں کو تفصیل سے پڑھایا جائے، ان کی عملی مشق کروائی جائے اور دورہ حدیث کی شکل میں خانہ پری کرنے سے گریز کیا جائے۔ الحمد للہ بہت سے دینی مدارس میں اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ عام لوگوں کو حدیث کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اس سے خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کن کن جعلی احادیث کو استعمال کر کے لوگوں کو اپنا نفسیاتی غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    احادیث کو سمجھنے میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثر اوقات راوی پوری حدیث کا صرف ایک حصہ بیان کر دیتے ہیں جس کے باعث ایک بات جو کسی مخصوص صورتحال کے لئے کہی گئی ہوتی ہے، کا قیامت تک کے لئے عمومی اطلاق کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کو سمجھنے کے لئے اس کا سیاق و سباق اور موقع محل نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی حدیث کے تمام طرق (یعنی مختلف ذرائع سے پہنچنے والی حدیث) کو اکٹھا کر کے اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔

    تقابلی مطالعے کا طریق تعلیم

    ہمارے ہاں علم فقہ اور علم الکلام کی تعلیم کا طریق کار بالعموم یہ ہے کہ ہر مدرسے کا تعلق کسی مخصوص فقہی اور کلامی مسلک سے ہوتا ہے۔ دوران تعلیم ابتدائی سالوں میں اسی مسلک کی کتب پڑھائی جاتی ہیں اور برین واشنگ کے ذریعے طلباء کو اسی مسلک کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے مسالک کے کچھ مباحث اس مسلک کے اپنے علماء کی کتب کی بجائے، ان کے رد میں لکھی گئی کتب کے ذریعے پڑھائے جاتے ہیں جس سے ان مسالک کی کمزوریاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس طریق کار سے تنگ نظر اور متعصب اسکالرز کی فوج تیار کر لی جاتی ہے جن کا مقصد عملی زندگی میں اپنے مسلک کا دفاع اور دوسرے مسلک کی تردید ہی ہوتا ہے۔

    تعلیم کا بہترین طریقہ وہ ہے جو غیر متعصب اداروں میں رائج ہے۔ اس طریق کار کے مطابق تمام قابل ذکر فقہی اور کلامی مسالک کی تعلیم ان کی اپنی کتب کے ذریعے "جیسا کہ وہ ہیں" کی بنیاد پر دی جائے اور ہر مسلک کے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کو بلاتعصب بیان کر دیا جائے۔ طالب علموں کو اس بات کی تربیت دی جائے کہ وہ دلائل کی بنیاد پر مختلف مسالک کا ایک دوسرے سے موازنہ کر سکیں اور جس معاملے میں جو نقطہ نظر بہتر ہو، اسے اختیار کر سکیں۔

    اس معاملے کو صرف مسلمانوں کے اندر کے مسالک تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دیگر مذاہب اور ان کے مختلف مکاتب ہائے فکر کے علاوہ سیکولر نظام ہائے حیات کا تقابلی مطالعہ بھی اسے طریقے پر کیا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کی بات کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کیا جائے بلکہ جو جیسا ہے، اسے اسی طرح سمجھا جائے۔ اس طرح ہمارے اندر وسعت نظری پیدا ہو گی اور تعصب اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے گا۔

    اس طریق کار کی طرف روایتی علماء کے متوجہ نہ ہونے کے اسباب ہمارے خیال میں دو ہیں۔ ایک وجہ تو وہ مسلکی تعصب ہے جس نے دین مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں "نامعلوم چیز کا خوف (Xenophobia)" بہت وسیع پیمانے پر پھیلا جاتا ہے۔ بہت سے علماء اس بات سے خوف محسوس ہیں کہ اگر انہوں نے دیگر مذاہب اور سیکولر نظام ہائے حیات کا مطالعہ شروع کر دیا تو نجانے کیا ہو جائے؟ کہیں ہمارے لوگ دوسرے نقطہ نظر کی طرف نہ چلے جائیں۔

    جن اہل علم نے یہ تقابلی مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ ایسا کرنے سے کوئی مضر اثرات پیدا نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام بڑے مذاہب اپنی اصل میں اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ مذاہب ہی ہیں۔ چونکہ ان مذاہب میں بعد کے مختلف ادوار میں تحریف اور تغیر و تبدیل کیا جاتا رہا ہے، اس وجہ سے ان میں بہت سی ایسے عقائد و اعمال شامل ہو چکے ہیں جو سراسر نامعقولیت پر مبنی ہیں۔

    اسی طرح سیکولر نظام ہائے حیات میں بہت سے ایسے خلا موجود ہیں، جن کی بدولت انہیں کبھی اسلام پر فوقیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دین اسلام خدائی فکر (Divine Intellect) پر مبنی ہے جبکہ یہ نظام ہائے حیات انسانی عقل (Human Intellect) پر مبنی ہیں۔ اس وجہ سے ہم پورے وثوق اور اطمینان سے کہہ سکتے ہیں ان فلسفوں کے مطالعے سے انسان کا اسلام پر اعتماد پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر خوف کو دل سے نکال کر سب چیزوں کا تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے۔

    جدید دنیاوی علوم کی تعلیم

    دنیاوی علوم اگرچہ مذہب سے براہ راست تعلق نہیں رکھتے ہیں لیکن یہ مذہب کے دنیاوی معاملات پر اطلاق کرنے میں بڑے ممد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہمارا دین ہمیں سود سے منع کرتا ہے۔ اب اگر ہم دنیا میں ایسا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں جو سود سے پاک ہو تو ہمیں معاشیات کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ ہمارے قدیم اہل علم اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے دور کے دنیاوی علوم منطق اور فلسفہ کو نصاب میں داخل کر رکھا تھا۔

    موجودہ دور میں دین کے طالب علموں کے لئے جو دنیاوی علوم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ان میں عمرانیات، معاشیات، سیاسیات، نفسیات اور جدید فلسفہ شامل ہیں۔ یہ سب علوم قدیم نصاب میں "فلسفہ" کے عنوان کے تحت پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں ان علوم کو درمیانی سطح تک دین کے طالب علموں کو پڑھا دیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ فزکس، کیمسٹری، بائیولوجی اور ریاضی کی مبادیات کو ان کے نصاب میں داخل کیا جانا چاہیے۔ دور جدید میں دعوت دین کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وجہ سے اس علم کے تازہ ترین مباحث کو بھی دین کے طالب علموں کے نصاب کا حصہ بنا دیا جانا چاہیے۔

    ان علوم کو پڑھنے سے ذہن میں وسعت پیدا ہو گی، نامعقول تصورات کا خاتمہ ہو گا اور اس کے نتیجے میں طالب علموں کو تعصبات اور نفسیاتی غلامی سے نجات مل سکے گی۔

    دینی تعلیم کی آن لائن سرٹیفیکیشن کا نظام

    دنیا بھر میں مختلف پیشوں کے ماہرین تیار کرنے کے لئے بہت سی سرٹیفیکیشنز کا سلسلہ موجود ہے۔ یہ سرٹیفیکشنز پروفیشنل باڈیز جاری کرتی ہیں۔ اس کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو انٹرنیٹ کے ذریعے نصابی مواد مہیا کر دیا جاتا ہے۔ طلباء اپنے طور پر اس مواد کا مطالعہ کر لیتے ہیں یا پروفیشنل باڈی ان کے لئے مختلف شہروں میں باقاعدہ کلاسز کا سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔

    دنیا بھر کے مختلف شہروں میں پروفیشنل باڈی کے زیر انتظام آن لائن امتحان منعقد کیا جاتا ہے۔ امتحان میں کامیابی کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے کے لئے کسی ادارے میں پروفیشنل تربیت بھی ضروری ہوتی ہے۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد طلباء کو سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور انہیں پروفیشنل باڈی کا ممبر بنا لیا جاتا ہے۔ اپنے ممبران کے علم کو اپ ٹو ڈیٹ رکھنے کے لئے پروفیشنل باڈیز ان سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ مسلسل تعلیم و تربیت (Continuous Professional Education) کے ذریعے اپنے علم کو اپ ڈیٹ کرتے رہیں۔

    یہ طریقہ ابھی تک اسلامی علوم کی تعلیم کے لئے وسیع پیمانے پر استعمال نہیں کیا گیا۔ بحرین میں اسلامک بینکنگ انڈسٹری کے لئے ماہرین تیار کرنے کی غرض سے "ھیئۃ المحاسبۃ و المراجعۃ للمؤسسات المالیۃ الاسلامیۃ" یعنی “Accounting & Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI)” کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اس تنظیم کے تحت Certified Islamic Professional Accountants اور Certified Sharia Auditor & Advisor کے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ یہ پروگرام بھی تادم تحریر بحرین تک ہی محدود ہیں۔ اسی طرح لندن میں Academy for International Modern Studies نے بھی اسی قسم کے کچھ پروگرام شروع کئے ہیں۔

    ضروری ہے کہ تمام اسلامی علوم کے لئے اسی طرز کی سرٹیفیکیشنز کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اگر کوئی ادارہ اس سلسلے میں پیش رفت کرنا چاہے تو راقم الحروف کی خدمات بغیر کسی معاوضہ کے حاضر ہیں۔

    ہمیں یقین ہے کہ علم کے فروغ کے ساتھ ساتھ جہالت اور تعصبات کا خاتمہ ہوگا، فاصلے ختم ہوں گے اور نفسیاتی غلامی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

    ڈی کنڈیشنگ کا عمل

    نفسیاتی غلامی کے خاتمے کی جو تجاویز ہم نے اوپر بیان کی ہیں، ان تجاویز کا تعلق نئی نسل کے ان افراد سے ہے جو ابھی تک نفسیاتی غلامی میں مبتلا نہیں ہوئے۔ یہ تجاویز ان افراد کو نفسیاتی غلامی میں جانے سے روکنے کے لئے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو کسی بھی قسم کی نفسیاتی غلامی کا پہلے ہی شکار ہو چکے ہیں، انہیں اس سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے، جو بعض ماہرین نفسیات کی اصطلاح میں "ڈی کنڈیشنگ (Deconditioning)" کہلاتا ہے۔

    ڈی کنڈیشنگ سے ہماری مراد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے کسی بھی ایسے شخص کو جو کہ نفسیاتی طور پر غلام بنایا جا چکا ہو، ایک طویل عرصے میں اس کی نارمل آزاد حالت تک لانے کی کوشش کی جائے۔ اب ہم اس عمل کی تفصیل بیان کرتے ہیں:

    ڈی کنڈیشنگ: نفسیاتی غلام کی آزادی کا عمل

    ڈی کنڈیشنگ کے عمل کے نتیجے میں صرف انہی افراد کو نفسیاتی غلامی سے آزاد کروانے کی کوشش کی جا سکتی ہے جو اپنے اندر آزاد ہونے کا پوٹینشل رکھتے ہوں۔ جس شخص میں یہ پوٹینشل موجود نہ ہو، اسے آزاد کروانا بہت مشکل ہے۔ آزاد ہونے کے پوٹینشل کا معنی یہ ہے کہ کسی ایسےشخص میں، جو اگرچہ عارضی طور پر نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکا ہو، کچھ خصوصیات پائی جاتی ہوں:

    · اس شخص میں حق پرستی کے لئے ایک خاص حمیت اور غیرت پائی جاتی ہو۔ وہ حق سے وابستہ رہنا چاہتا ہو۔ وہ کسی فکر سے وابستہ صرف اسی لئے ہوا ہو کہ یہ فکر اس کے خیال میں 'حق' ہو۔

    · وہ شخص اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنا چاہتا ہو۔ اس کے برعکس مکمل طور پر ذہنی غلام شخص، اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جواب تلاش کرنے کی زحمت نہیں کرتا۔ وہ بیک وقت متضاد باتوں کو مانتا رہتا ہے اور اپنے ذہن کو مختلف خانوں میں بانٹ کر رکھتا ہے۔ اگر اس کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے شیطان کا وسوسہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔

    · اس شخص کے لئے اپنے افکار میں تضاد قابل برداشت نہ ہو۔ مثال کے طور پر وہ یہ نہ مان سکتا ہو کہ کوئی چیز ایک ہی وقت میں بالکل سیاہ اور بالکل سفید بھی ہو سکتی ہے۔ عملی زندگی میں اس کی مثال یہ ہے کہ اس کے لئے یہ ماننا بہت مشکل ہو کہ اس کے راہنما میں کوئی اخلاقی خرابی بھی پائی جاتی ہے اور اس کے باوجود اسے اپنے راہنما کی پیروی کرنا چاہیے۔

    جس شخص میں آزاد ہونے کا یہ پوٹینشل پایا جائے، اس کا نفسیاتی غلامی سے آزاد ہونا ممکن ہے۔ اس کی عملی صورت عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ یا حادثہ پیش آ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے ذہن میں ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ تضاد کی یہ کیفیت اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ وہ اس تضاد کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب اس میں ناکام رہتا ہے تو وہ فکری غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس بات کی وضاحت ہم ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں۔

    ایک صاحب کسی بڑے پیر کے مرید تھے اور اس سے نہایت عقیدت رکھتے تھے۔ یہ عقیدت اتنی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی کہ اس کے باوجود، کہ ان کے پیر کو بدکاری کی عادت تھی اور اس معاملے میں وہ اپنی کسی مریدنی کو بھی نہیں چھوڑتا تھا، وہ صاحب اس پیر سے عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے پیر نے ان کے ذہن میں یہ ڈال رکھا تھا کہ اللہ والے جو کچھ بھی کریں، ان کے لئے جائز ہوتا ہے۔

    ایک مرتبہ پیر نے انہی صاحب کی بہن کو، جو خود اس کی مرید تھی، ورغلا کر اس کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کر لیا۔ اب ان صاحب کو کچھ ہوش آیا۔ وہ ایک عالم دین کے پاس آئے اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ عالم نے انہیں بتایا کہ تمہارا پیر تو کھلا شیطان ہے۔ اب ان صاحب کے ذہن کی دھند چھٹنا شروع ہوئی اور ان کے ذہن کی ڈی کنڈیشنگ کے عمل کا آغاز ہوا۔ غلامی ان کی نفسیات میں اس حد تک رچ بس چکی تھی کہ ڈی کنڈیشنگ کا یہ عمل کئی ماہ جاری رہا اور اس کے بعد انہوں نے پیر کی بیعت توڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بسا اوقات کوئی شخص، اپنے راہنما کی ذات کی بجائے اس کے تصورات اور دعوت میں موجود کسی خامی کے بارے میں یہ جان لیتا ہے کہ یہ واقعتاً خامی ہی ہے۔ اس سے پہلے وہ اس خامی کو خامی نہیں سمجھ رہا ہوتا۔ اس کے بعد اس کے ذہن میں راہنما کی ذات پر جو اعتماد قائم تھا، وہ باقی نہیں رہتا۔ اب وہ راہنما کے ایک ایک نظریے کو لے کر اس کا تجزیہ کرنا شروع کرتا ہے، اس کا تقابل دوسرے راہنماؤں کے نظریات سے کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنے راہنما کی غلطیوں سے واقف ہوتا چلا جاتا ہے۔

    اس عمل میں آہستہ آہستہ غلامی کا خول ٹوٹنا شروع ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی جال کی گرہیں یکے بعد دیگرے کھلتی چلی جا رہی ہیں۔ پرانے تصورات کی شکست و ریخت کا عمل شروع ہوتا ہے اور ان کی جگہ نئے تصورات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں وہ کچھ عرصے میں وہ نفسیاتی غلامی سے آزاد ہوتا چلا جاتا ہے۔

    ڈی کنڈیشنگ کا یہ عمل آسان نہیں ہوتا۔ جو شخص ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے گزر رہا ہو، بسا اوقات اس کی کیفیت ایک ایسی خاتون کی سی ہوتی ہے جو درد زہ میں مبتلا ہو۔ اسے بیک وقت دو متضاد باتوں کا ماننا پڑتا ہے۔ بعض لوگ اس اذیت سے بچنے کے لئے اپنے ذہن کو خانوں میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ ایک بات ایک جگہ اور اس کی متضاد دوسری بات دوسری جگہ۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ان باتوں کے تضاد پر زیادہ سوچنا نہ پڑے۔ عارضی طور پر تو اس طریقے سے کام چلانا ممکن ہوتا ہے لیکن طویل عرصے تک اس کیفیت کو برداشت کرنا ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے۔

    بعض لوگ تو ان کیفیات کو برداشت نہ کر سکنے کے باعث مستقل نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ جن افراد میں قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے، وہ بالآخر اس مہم سے سرخرو ہو کر نکلتے ہیں جس کے انعام کے طور پر انہیں نفسیاتی آزادی نصیب ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص شعوری طور پر ڈی کنڈیشنگ کے عمل سے گزر رہا ہو تو وہ اس کیفیت سے بھرپور لطف اندوز ہوتا ہے۔

    ڈی کنڈیشنگ کا اس عمل کا دورانیہ ہر شخص میں مختلف ہوتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں چونکہ اس عمل سے دو مرتبہ گزرنے کا موقع ملا ہے، اس وجہ سے میں اپنا تجربہ بیان کر سکتا ہوں کہ پہلی مرتبہ اس عمل میں مجھے چھ سال اور دوسری مرتبہ پانچ سال کا عرصہ لگا۔ پہلی مرتبہ کی ڈی کنڈیشنگ بہت تکلیف دہ ثابت ہوئی جبکہ دوسری مرتبہ میں نے اس عمل کو بھرپور انجوائے کیا تھا۔

    ڈی کنڈیشنگ کے عمل کے اختتام پر انسان اپنے بہت سے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو جاتا ہے۔ اس کی جگہ نئے تصورات قائم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانے دوستوں سے رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں اور نئے دوستوں کے ساتھ رشتے استوار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پرانی اقدار ایک ایک کر کے بکھرتی چلی جاتی ہیں اور نئی اقدار جنم لینے لگتی ہیں۔ مختلف واقعات کی توجیہ کرنے کا پرانا طریقہ ختم ہوتا چلا جاتا ہے اور اب واقعات کو نئے تناظر میں دیکھا جانے لگتا ہے۔

    ڈی کنڈیشنگ سے متعلق داعی حق کا کردار

    میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کسی شخص میں ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کرنے کے لئے بحث و مناظرے کا طریقہ کار بالکل ہی بے کار اور لایعنی ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جس کے ذہن میں مناظرے کے ذریعے ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کیا جا سکے۔ دین کے بہت سے پرجوش داعی، جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا مخاطب چند گھنٹوں میں تبدیل ہو کر ان کا نقطہ نظر قبول کر لے، مناظرے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور جب وہ اس میں بری طرح ناکام رہتے ہیں تو پھر مخاطب سے لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں۔ میری رائے میں ایک ایسا شخص (جسے ہم داعی کہیں گے)، جو کسی کا نفسیاتی غلام نہیں ہے، کو اپنے کسی نفسیاتی غلامی کے شکار بھائی (جسے ہم مخاطب کہیں گے) کو اس سے نکالنے کے لئے ان راہنما اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

    · داعی حق کے لئے اپنی نیت میں اخلاص پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس کی دعوت کا مقصد کسی شخص کو گھیر گھار کر اپنے نقطہ نظر پر قائل یا لاجواب کرنا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جس بات کو وہ درست سمجھتا ہے، اسے احسن انداز میں اپنے دوسرے بھائی تک پہنچا دے۔ داعی کو اپنے مخاطب کا خیر خواہ ہونا چاہیے۔

    · داعی کو اپنے آپ کو اس بات کے لئے تیار رکھنا چاہیے کہ اگر اس کی بجائے اس کا مخاطب ہی حق بات پر ہو تو وہ اسے ماننے کے لئے کھلے ذہن سے تیار ہو۔

    · داعی حق کو پہلے اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہیں خود تو کسی اور راہنما کا نفسیاتی غلام تو نہیں ہے۔

    · داعی کو کبھی بھی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ڈی کنڈیشنگ کا عمل بسا اوقات سالوں پر محیط ہوتا ہے۔

    · داعی کو کبھی بھی اپنے مخاطب یا اس کے راہنما کو ڈائرکٹ تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ضد کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ ضد، انانیت اور ہٹ دھرمی کے نتیجے میں مخاطب کی نفسیاتی غلامی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

    · داعی کو چاہیے کہ وہ مخاطب کی شخصیت میں حق پرستی کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ بہت سے لوگ حق پرستی کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ اپنے راہنما اور اس کے نظریات سے چمٹے ہوئے رہتے ہیں۔ ان ڈائرکٹ مثالوں کے ذریعے، جن کا زیر بحث راہنما اور اس کے نظریات سے کوئی تعلق نہ ہو، داعی کو مخاطب کی شخصیت میں حق پرستی کا حقیقی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب حق پرستی کا جذبہ بیدار ہو جائے گا تو پھر خود بخود وہ شخص اپنے راہنما کی نفسیاتی غلامی سے آزاد ہونا شروع ہو جائے گا۔

    · ڈی کنڈیشنگ کے عمل کو شروع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مخاطب کے سامنے ان ڈائرکٹ طریقے سے کچھ ایسے سوالات رکھے جائیں جس سے اس کے ذہن میں برف پگھلنے کا عمل شروع ہو سکے۔ سوالات کو مخاطب کے سامنے براہ راست رکھنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی بجائے ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ داعی، اپنے مخاطب کو آزاد ذہن کے حامل علماء کی کتب پڑھنے کے لئے دے۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ کتاب کے مصنف بذات خود کسی اور راہنما کے فکری غلام نہ ہوں۔

    · ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر مخاطب کی ملاقات کسی ایسے تیسرے شخص سے کروا دی جائے جو مخاطب کے کسی نظریے کے باعث شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہوا ہو تو وہ شخص خود ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کروا سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صاحب اپنے فرقے کے شدید نفسیاتی غلام تھے۔ ان کے فرقے میں طلاق کا قانون بہت سخت تھا۔ ایک مرتبہ ان کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو جذبات میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اب اس کے بچوں کا مسئلہ اس کے سامنے تھا۔ اس شخص کے احساسات نے ان صاحب کے اندر ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع کر دیا جس کی بدولت وہ آہستہ آہستہ اپنے فرقے سے بیزار ہوتے چلے گئے اور بالآخر آزاد طرز فکر کی منزل تک پہنچ گئے۔

    · ڈی کنڈیشنگ کا عمل شروع ہو جانے کے بعد داعی کو اپنے مخاطب کے سر پر مسلط نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ اسے مخاطب کو تبدیل ہونے کے لئے طویل وقت دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں دوستی اور خلوص کا تعلق استوار رکھنا چاہیے۔

    ڈی کنڈیشنگ کے بعد کے نفسیاتی اتار چڑھاؤ

    جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ ڈی کنڈیشنگ کسی بھی نفسیاتی غلام کے لئے ایک تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ جب یہ عمل مکمل ہوتا ہے تو مخاطب کسی بھی بات کو تسلیم کر لینے سے پہلے ایک "خالی پیریڈ" سے گزرتا ہے۔ اس عرصے میں اس کے نظریات بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد اس کے نظریات میں ایک ٹھہراؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

    ایک حق پرست کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ اگرچہ اس کے نظریات میں کسی وقت ٹھہراؤ بھی پیدا ہو جائے لیکن اگر اس کے بعد کبھی بھی اسے اس کی غلطی کی طرف توجہ دلائی جائے تو اسے ہر حال میں حق کو قبول کر لینا چاہیے۔

    اگر ان امور کا خیال رکھا جائے تو ہم اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کی بڑی حد تک مدد کر سکتے ہیں جو کسی بھی درجے میں نفسیاتی غلامی کا شکار ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں