1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از زین, ‏23 جون 2011۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

    السلام علیکم۔ اچھا مضمون ہے۔ اللہ تعالی مضمون نگار کو اسکی نیت کے مطابق اجر دے۔ آمین
    آخری قسط میں مضمون نگار "مذہبی نفسیاتی غلامی " سے چھٹکارے کے بظاہر دلکش عنوان کے تحت سعودی عرب میں گذشتہ صدی ڈیڑھ صدی سے پیدا شدہ ایک مخصوص طبقے کی فکر کو عام کرنے اور امت مسلمہ کے سوادِ اعظم کا تیرہ چودہ سو سال سے قائم عقیدہ و مسلک کے خلاف دل کی بھڑاس نکال کر بذات خود تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔
    جس روحانی لگاؤ اور محبت کو انہوں نے "مذہبی نفسیاتی غلامی " کا عنوان دیا ہے۔ یہ تعلق دراصل خود اصحاب کرام رضوان اللہ عنھم کا پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھا ۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان چھڑکتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن مبارک زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ چہرے اور جسم پر مل لیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گیسو ترشواتے تو گیسو مبارک زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ ایک دوسرے سے چھین چھین کر موئے مبارک سنبھال لیتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے تو وضو کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے۔ کیا اس سے بڑی بھی روحانی و نفسیاتی غلامی کی کوئی مثال ہوگی ؟
    کیا ایسا عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کی سنت نہیں ؟
    کیا انہیں قرآن کی خبر نہ تھی ؟ کیا انہیں‌عربی نہ آتی تھی ؟ کیا وہ بھی قرآن و سنت پر معاذ اللہ "علمائے کرام کی فقہ "کو ترجیح دینے والے تھے ؟ اس زمانے میں‌تو ابھی فقہ ڈویلپ بھی نہ ہوئی تھی ۔
    پھر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم بعد میں ایک دوسرے کے احترام میں باہم ہاتھ چومتے۔ باہم ماتھے چومتے۔ تابعین اپنے سے بلند مرتبہ اصحاب کے احترام میں ہوتے۔ امام مسلم رح۔ امام بخاری کو "استاذ المحدثین " بلا کر ان کے ہاتھ چومنے کی سعادت حاصل کرتے۔ اولیائے کرام، صوفیائے کرام اپنے بزرگوں کے ادب و احترام میں لازوال مثالیں قائم کرتے آئے ہیں۔
    مضمون نگار کے سعودی طریقہ تعلیم کی سفارشات کی روشنی میں کیا وہ سب کے سب "مذہبی و نفسیاتی غلامی " کا شکار تھے۔ اورموجودہ دور کے بےادب ، روکھے ، خشک دین کا پرچار کرنے والے جو رب کے حضور صرف فرض نماز پڑھ کر 2 رکعت سنت پڑھنا بھی روا نہیں‌رکھتے۔ رب سے مانگنے کا درس دینے والے نماز کے بعد اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا تک نہیں‌مانگتے۔ سعودی کنگ کے سامنے جھک جھک اور بچھ بچھ جانے والے ، علمائے دین کے سامنے اکڑنے کا درس دیتے ہیں ۔۔۔ کیا اس اسلام کا پرچار کرنا چاہ رہے ہیں ؟
    کاش اللہ پاک ہمیں‌تعصب سے بالاتر ہوکر دین کی تبلیغ کا جذبہ عطا کر دے۔ آمین ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں