1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھائی امجد کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از فنا, ‏12 جون 2006۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    آپ نے کھڑکی کے باہر دیکھا ہی نہیں اور بہت خوب کہہ دیا ؟
     
  2. زہرہ
    آف لائن

    زہرہ ممبر

    اَن سُنے لفظ

    کسی ریگزار کی دھوپ میں وہ جو قافلے تھے بہار کے
    وہ جو اَن کھلے سے گلاب تھے
    وہ جو خواب تھے میری آنکھ میں
    جو سحاب تھے تیری آنکھ میں
    وہ بکھر گئے، کہیں راستوں میں غبار کے !
    وہ جو لفظ تھے دمِ واپسیں
    میرے ہونٹ پر
    تیرے ہونٹ پر
    انہیں کوئی بھی نہیں سُن سکا
    وہ جو رنگ تھے سرِ شاخِ جاں
    تیرے نام کے
    میرے نام کے
    انہیں کوئی بھی نہیں چُن سکا۔

    (امجد اسلام امجد)
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    زہرہ جی ! اچھا کلام ہے۔ :)
     
  4. زہرہ
    آف لائن

    زہرہ ممبر

    نہ شکایتیں، نہ گلہ کرے
    کوئ ایسا شخص ہوا کرے
    جو میرے لیے ھی سجا کرے
    مجھ ھی سے باتیں کیا کرے

    کبھی روئے جائے وہ بے پناہ
    کبھی بے تحاشا اداس ھو
    کبھی چپکے چپکے دبے قدم
    میرے پیچھے آ کر ہنسا کرے

    میری قربتیں، میری چاہتیں
    کوئی یاد کرے قدم قدم
    میں طویل سفر میں ھوں اگر
    میری واپسی کی دعا کرے

    ( امجد اسلام امجد)
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    میرا خیال ہے یہ لڑی صرف میرے اور آپ کے لیے ہی ہے۔
    اس لیے ایک بار پھر آپ کے انتخاب کی تعریف کرتا ہوں۔

    بہت پیارا اور دلنشین کلام ہے۔ اور آپکا انتخاب بھی اعلیٰ ہے۔
     
  6. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    زہرہ جی ! بہت خوب انتخاب ہے آپ کا۔

    اور نعیم صاحب اطلاعاً عرض ہے کہ آپ کے علاوہ بھی یہاں اور بھی باذوق لوگ ہیں جو شاعری پڑھتے ہیں :)
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    خوشی ہوئی یہ بات جان کر :)
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    محبت کی اپنی الگ ہی زباں ہے
    محبت سے خردمندی اگر مشروط ہوتی تو
    نہ مجنوں دشت میں جاتا
    نہ کوئی کوہکن، عشرت گہِ خسرو سجانے کو
    کبھی تیشہ اٹھاتا
    اور
    نہ کوئی سوہنی کچے گھڑے پہ پار کرتی
    چڑھتے دریا کو
    نہ تم برباد کرتے اس طرح میری تمنا کو
    نہ میں الزام دیتا اپنی ناکامی پہ دنیا کو
    محبت سے خرد مندی اگر مشروط ہوتی تو

    (امجد اسلام امجد)
     
  9. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    اس جھیل کنارے پل دو پل

    امجداسلام امجد کی اس نظم کے بارے میں کیا خیال ہے، ہمیں تو بہت پسند آئی۔۔۔
    اس جھیل کنارے پل دو پل

    اس جھیل کنارے پل دو پل
    اک خواب کا نیلا پھول کھلے
    وہ پھول بہادیں لہروں میں
    اک روز کبھی ہم شام ڈھلے

    اس پھول کے بہتے رنگوں میں
    جس وقت لرزتا چاند چلے
    اس وقت کہیں ان آنکھوں میں
    اس بسرے پل کی یاد تو ہو
    ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
    اک شام کہیں آباد تو ہو

    پھر چاہے آنکھ دریچے سے
    یہ خواب گریزاں ہو جائیں
    پھر چاہے عمر سمندر کی
    ہر موج پریشاں ہو جائے
    پھر چاہے پھول کے چہرے کا
    ہر درد نمایاں ہو جائے

    اس جھیل کنارے پل دو پل
    وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
    ان جھیل سی گہری آنکھوں میں
    اک شام کہیں آباد تو ہو​
     
  10. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    بہت پیارا کلام ہے۔ بہت خوب
     
  11. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    :a180: :a98:
     
  12. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    واہ! ندیم بھائی! بہت پیارا کلام ہے۔

    زہرہ جی اور نعیم بھائی بھی امجد سلام امجد کی شاعری سے اچھا انتخاب ارسال کر رہے ہیں، بہت خوب!
     
  13. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    امجد اسلام امجد کی ایک نظم ہم بھی پیش کرتے ہیں

    عشق کا جادو

    میرا تمام فن، میری کاوش میرا ریاض
    اک ناتمام گیت کے مصرعے ہیں جن کے بیچ
    معانی کا ربط ہے نہ کسی قافیے کا میل
    انجام جس کا طے نہ ہو ایک ایسا کھیل
    میری متاع بس یہی جادو ہے عشق کا
    سیکھا ہے جس کو میں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ
    لیکن یہ ساحرِ عشق کا تحفہ عجیب ہے
    کُھلتا نہیں ہے کچھ کہ حقیقت میں کیا ہے یہ
    تقدیر کی عطا ہے یا کوئی سزا ہے یہ
    کس سے کہیں اے جان کہ یہ قصہ عجیب ہے
    کہنے کہ یوں تو عشق کا جادو ہے میرے پاس
    پر میرے دل کے واسطے اتنا ہے اسکا بوجھ
    سینے سے اک پہاڑ سا ہٹتا نہیں ہے یہ
    لیکن اثر کے باب میں ہلکا ہے اس قدر
    تجھ پہ اگر چلاؤں تو چلتا نہیں ہے یہ

    (امجد اسلام امجد)​
     
  14. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    کافی دنوں امجد اسلام امجد کی شاعری پڑھنے کو ملی۔ بہت خوب زاہرا جی
     
  15. زہرہ
    آف لائن

    زہرہ ممبر

    زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں
    وقت کی روانی ھے، بخت کی گرانی ھے
    سخت بے زمینی ھے،
    سخت لا مکانی ھے۔
    ہجر کے سمندر میں
    تخت اور تختے کی
    اک ہی کہانی ھے
    تم کو جو سنانی ھے
    بات گو ذرا سی ھے
    بات عمر بھر کی ھے
    عمر بھر کی باتیں کب
    دو گھڑی میں ہوتی ھیں
    درد کے سمندر میں
    ان گنت جزیرے ھیں
    بے شمار موتی ھیں
    آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
    بات اس دیے کی ھے
    بات اس گلے کی ھے
    جو لہوُ کی خلوت میں چور بن کے آتا ھے
    لفظ کی فصیلوں پر
    ٹوٹ ٹوٹ جاتا ھے
    زندگی سے لمبی ھے
    بات رت جگے کی ھے
    راستے میں کیسے ہو
    “بات تخلیے کی ھے“
    تخلیے کی باتوں میں
    گفتگو اضافی ھے
    پیار کرنے والوں کو
    اک نگاہ کافی ھے
    ہو سکے تو سن جاؤ
    اک دن اکیلے میں
    تم سے کیا کہیں جاناں
    اس قدر جھمیلے میں

    (امجد اسلام امجد)
     
  16. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    بہت خوب! زہرا جی!

    اچھا انتخاب ہے۔
     
  17. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    بہت خوب زاہرہ جی ۔ پیاری نظم ہے

    جھمیلے میں توواقعی ایسی بات نہیں کی جاتی
     
  18. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    بہت پیارا انتخاب ہے زاہرہ جی ! بہت خوب
     
  19. زہرہ
    آف لائن

    زہرہ ممبر

    سیلف میڈ لوگوں کا المیہ


    روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ھے
    زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو
    راہ سے ہٹانے میں
    ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
    خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں
    عمر کاٹ دیتے ھیں
    عمر کاٹ دیتے ھیں
    اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ھیں
    کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ھیں
    درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ھیں
    صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ھیں


    یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی خواہش کا
    کچھ صلہ نہیں ملتا
    مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا


    زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ھیں
    سب ھی ھاتھ آتی ھیں
    سب ھی مل بھی جاتی ھیں
    وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں


    یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے
    لیکن اس طرح جیسے
    قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
    اصل جو عبارت ھو ۔ ۔ پسِ نوشت ھو جائے

    فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ھیں
    ان کے صحنوں میں سورج ۔ ۔ دیر سے نکلتے ھیں


    (امجد اسلام امجد)
     
  20. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    زاہرا جی ! ایک بار پھر تعریف و ستائش کے بنڈلز آپ کی نذر۔

    مجھے اس لڑی کے موجد فنا جی سے پوچھنا ہے کہ ان کی اپنی عمر کیا ہے اور کس نسبت سے انہوں نے 65 سالہ امجد اسلام امجد کو “بھائی“ امجد لکھ دیا ؟؟

    انکل امجد بھی لکھ سکتے تھے
     
  21. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    چلیں آپ ان کو انکل کہہ دیا کریں۔
    اس میں پریشانی والی کیا بات ہے نعیم صاحب؟؟
     
  22. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    آنکھوں کو التباس بہت دیکھنے میں تھے
    کل شب عجیب عکس میرے آئینے میں تھے

    ہربات جانتے ہوئے دل مانتا نہ تھا
    ہم جانے اعتبار کے کس مرحلے میں تھے

    وصل و فراق دونوں ہیں اک جیسے ناگزیر
    کچھ لُطف اسکے قرب میں، کچھ فاصلے میں تھے

    چھو لیں اسے کہ دور سے بس دیکھتے رہیں
    تارے بھی رات میری طرح مخمصے میں تھے

    جگنو، ستارے، آنکھ، صبا ، تتلیاں، چراغ
    سب اپنے اپنے غم کے کسی سلسلے میں تھے

    امجد کتابِ جان کووہ پڑھتا بھی کس طرح
    لکھنے تھے جتنے لفظ ابھی حافظے میں تھے

    (امجد اسلام امجد)​
     
  23. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    [font=Arial, sans-serif]ساتھ تو اجنبی بھی چلتے ہیں۔[/font]

    اس نے مجھ سے کہا

    مرے ساتھی !

    تم کو مجھ سے جو ہے گلہ۔۔۔۔ کیا ہے ؟
    کبھی فرصت ملے تو یہ سوچو
    منزلیں کیوں ہیں ؟ فاصلہ کیا ہے ؟
    اپنے اپنے سفر پہ نکلے لوگ
    مشترک راستوں پہ چلتے ہیں
    ہمرہی کے حصار میں
    جتنے دن نکلتے ، چراغ جلتے ہیں
    اپنی اپنی امید کے در و بام
    زندگی کے سفر میں ملتے ہیں
    مستقل درد، عارضی آرام

    تم مرے ہم سفر تو ہو لیکن
    ہم کہیں بچھڑ بھی سکتے ہیں

    دیر تک اک طویل رستے پر
    ساتھ تو اجنبی بھی چلتے ہیں


    امجد اسلام امجد
     
  24. اقراء
    آف لائن

    اقراء ممبر

    چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
    کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے

    فصل گل آئی پھر اک بار اسیران ِ وفا
    اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

    ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
    دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے

    دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
    توُنے اک بات کہی لاکھ فسانے نکلے

    دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
    ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے

    میں نے امجد اسےُ بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
    وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے ۔

     
  25. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    دل کے دریا کو کسی روز اُتر جانا ہے
    اتنا بے سمت نہ چل، لوٹ کے گھر جانا ہے

    اُس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھر جاتی ہے
    جیسے پانا ہی اسے، اصل میں مر جانا ہے

    بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
    دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے

    کون اُبھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
    اس کو ہر طور سوئے دشتِ سحر جانا ہے

    میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
    وہ تو خوشبو ہے، اسے اگلے نگر جانا ہے

    وہ ترے حُسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
    ہر مسافر کو کسی گھاٹ اُتر جانا ہے


    (امجد اسلام امجد)​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں