1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھائی امجد کی شاعری

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از فنا, ‏12 جون 2006۔

  1. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
    تیرے میرے اَبد کا کنارہ ہے یہ
    استعارہ ہے یہ
    روپ کا داؤ ہے
    پیارکا گھاؤ ہے
    جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
    صبح دم جس گھڑی، پھول کی پنکھڑی
    اوس کا آئنہ جگمگانے لگے
    ایک بھنورا وہیں، دیکھ کر ہرکہیں
    شاخ کی اوٹ سے،سر اٹھانے لگے
    پھول،بھنورا،تلاطم ہے، ٹھہراؤ ہے
    جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
    خواب کیا کیا چنے،جال کیا کیا بُنے
    موج تھمتی نہیں،رنگ ُرکتے نہیں
    وقت کے فرش پر،خاک کے رقص پر
    نقش جمتے نہیں،اَبر جُھکتے نہیں
    ہر مسافت کی دُوری کا ِسمٹاؤ ہے
    جو کچھ بھی ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
    امجد اسلام امجد
     
  2. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اپنی حد میں ۔۔۔۔۔

    اتنا بھی نہ پھیلو کہ ۔۔۔۔۔۔۔
    سمٹنا مشکل ہو جائے
    اور سچی مُچی
    تیرے عشق میں میری جان فنا ہو جائے
    ابھی تو سمندری جانا ہے
     
  3. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    محبت ایسا نغمہ ہے

    محبت ایسا نغمہ ہے
    ذرا بھی جھول ہو َلے میں
    تو ُسر قائم نہیں ہو تا

    محبت ایسا شعلہ ہے
    ہوا جیسی بھی چلتی ہو
    کبھی مد ھم نہیں ہوتا

    محبت ایسا رشتہ ہے
    کہ جس میں بندھنے والوں کے
    دلوں میں غم نہیں ہوتا

    محبت ایسا پودا ہے
    جو تب بھی سبز رہتا ہے
    کہ جب موسم نہیں ہوتا

    محبت ایسا رستہ ہے
    اگر پیروں میں لرزش ہو
    تو یہ محرم نہیں ہوتا

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا
     
  4. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بلے بلے شاوا بھئی شاوا
     
  5. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    نہ تھی روشنی کسی آنکھ میں کسی خواب کی
    یہ عجیب شا ِم فراق تھی
    لب بے نوا کے حصار میں کہیں ایک حرف دعا نہ تھا
    وہ فشار تھا مری روح میں کہیں جیسے کوئی خدا نہ تھا
    فقط ایک چشم جمال نے مرے خیال کو بدل دیا
    رہ بے چراغ اجال دی مرے چار ُسو کو بدل دیا
     
  6. طاہرہ مسعود
    آف لائن

    طاہرہ مسعود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    293
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب سب کا سب انتخاب لاجواب ہے۔
    خوش رہیں :D
     
  7. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    تھینکس
     
  8. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    الجھن

    وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
    نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی
    لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا ہوا
    جبیں پہ بزم مروت سجی سجائی ہوئی
    ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
    تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی
    بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
    گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی
    کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے وہ
    فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی
     
  9. محمود
    آف لائن

    محمود ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جون 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    Re: الجھن

    کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے وہ
    فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی


    واہ کیا بات ہے۔ یہ سلسلہ جاری رکھئیے۔
     
  10. ساجدحسین
    آف لائن

    ساجدحسین ممبر

    شمولیت:
    ‏25 مئی 2006
    پیغامات:
    182
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اے ہمالہ! داستاں اس وقت کي کوئي سنا
    مسکن آبائے انساں جب بنا دامن ترا
     
  11. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    سب سے اچھے لفظ

    سب سے اچھے لفظ
    میں صبح و شام لکھتا ہوں
    زمیں پر جس قدر اچھی زبانیں بولیں جاتی ہیں
    میں اُن سے حرف چُنتا ہوں
    اور تمہارا نام لکھتا ہوں
     
  12. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    کوئی زنجیر ہو۔۔۔

    کوئی زنجیر ہو۔۔۔
    کوئی زنجیر ہو،
    آہن کی، چاندی کی،روایت کی،
    محبت توڑ سکتی ہے!

    یہ ایسی ڈھال ہےجس پر
    زمانے کی کسی تلوار کا لوہا نہیں چلتا!
    یہ ایسا شہر ہے جس میں
    کسی آمر، کسی سلطان کا سکہ نہیں چلتا!
    اگر چشمِ تماشا میں ذرا سی بھی ملاوٹ ہو!
    یہ آئینہ نہیں چلتا
    یہ ایسی آگ ہے جس میں
    بدن شعلوں میں جلتے ہیں تو رُوحیں مسکراتی ہیں
    یہ وہ سیلاب ہے جس کو
    دلوں کی بستیاں آواز دے کر خود بُلاتی ہیں
    یہ جب چاہے کسی بھی خواب کی تعبیر مل جائے
    جو منظر بجھ چُکے ہیں ان کو بھی تنویر مل جائے
    دعا، جو بے ٹھکانہ تھی، اسے تاثیر مل جائے
    کسی رستے میں رستہ پوچھتی تقدیر مل جائے
    محبت روک سکتی ہے سمے کے تیز دھارے کو!
    کسی جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو!
    محبت روک سکتی ہے، کسی گرتے ستارے کو!
    یہ چکنا چور آئینے کے ریزے جوڑ سکتی ہے
    جدھر چاہے یہ باگیں موسموں کی موڑ سکتی ہے
    کوئی زنجیر ہو، اس کو محبت توڑ سکتی ہے
     
  13. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
  14. بقا
    آف لائن

    بقا ممبر

    شمولیت:
    ‏11 جون 2006
    پیغامات:
    16
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت شاندار، بہت عمدہ
    شاعری میں آپ اتنا اچھا شغف رکھتے ہیں
    کچھ اچھا کلام مزید لکھیے گا
     
  15. لاحاصل
    آف لائن

    لاحاصل ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2006
    پیغامات:
    2,943
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    فنا صاحب واقعی بہت اچھا انتخاب ہے آپ کا
     
  16. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    بہت شکریہ آپ سب احباب کا اور آپ کی حوصلہ افزائی کا
     
  17. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    مرے چار سُو جو کھلا رہا وہ جمال تو کوئی اور تھا!
    مرے خواب جس میں الجھ گئے وہ خیال تو کوئی اور تھا!
    یہاں کس حساب کو جوڑتے
    مرے صبح و شام بکھر گئے!
    جو ازل کی صبح کیا گیا وہ سوال تو کوئی اور تھا!
    جسے تیرا جان کے رکھ لیا وہ ملال تو کوئی اور تھا!
     
  18. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جاگتی آنکھوں کا ہر بھید پتہ ہے اس کو
    یہ الگ بات ہے کچھ منہ سے نہیں بولتی رات
    شہر در بند سے ٹکرا کر فنا ہو جاتے رات
    ہم پہ یہ ریشمی باہیں نہ اگر کھولتی رات
     
  19. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
  20. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    اسے بھول جا

    امجد کی ایک بہت خوبصورت غزل کی چند اشعار

    میں تو گم تھا تیرے دھیان میں
    تیری سوچ تیرے گمان میں
    صبا کہہ گئی میرے کان میں
    میرے ساتھ چل، اسے بھول جا

    تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
    کسی آنکھ میں نہیں اشک غم
    تجھے زندگی نے بھلا دیا
    تو بھی مسکرا اسے بھول جا​
     
  21. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بات امجد کی چل نکلی تو ان کی ایک غزل حاضر ہے۔

    محبت ایسا نغمہ ہے
    ذرا بھی جھول ہے لَے میں
    تو سُر قائم نہیں ہو تا

    محبت ایسا شعلہ ہے
    ہوا جیسی بھی چلتی ہو
    کبھی مدھم نہیں ہوتا

    محبت ایسا رشتہ ہے
    کہ جس میں بندھنے والوں کے
    دلوں میں غم نہیں ہوتا

    محبت ایسا رستہ ہے
    اگر پیروں میں لرزش ہو
    تو یہ محرم نہیں ہوتا

    محبت ایسا پودا ہے
    جو تب بھی سبز رہتا ہے
    کہ جب موسم نہیں ہوتا

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا

    (امجد اسلام امجد)​
     
  22. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
  23. زہرہ
    آف لائن

    زہرہ ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    38
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ستارے جو چمکتے ہیں کسی کی چشمِ حیران میں
    ملاقاتیں جو ہوتی ھیں جمالِ ابرِِ باراں میں
    یہ نا آباد وقتوں میں دلِ ناشاد میں ہوگی
    محبت اب نہیں ہو گی یہ کچھ دن بعد میں ہو گی
    گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہو گی۔ ۔ ۔۔۔
     
  24. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب زہرہ جی ! دل کو چھو لینے والا کلام ہے
     
  25. عبدالجبار
    آف لائن

    عبدالجبار منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    8,595
    موصول پسندیدگیاں:
    71
  26. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
    اتنا بےسمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے

    اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
    جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے

    میں کِھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
    وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے

    وہ تیرے حسن کا جادو ہو کہ میرا غمِ دل
    ہر مسافر کو اسی گھاٹ میں اتر جانا ہے
     
  27. ندیم علی
    آف لائن

    ندیم علی ممبر

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    88
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    منیر نیازی

    وہ، بہت خوب، منیر نیازی کی غزل ہے نا یہ، ویسے یہ لڑی تو امجد اسلام کی شاعری کے لیے ہے نہ
     
  28. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نہیں ندیم بھائی ۔۔ یہ امجد اسلام امجد ہی کا کلام ہے۔
    زہرہ جی ٹھیک ہیں
     
  29. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ارے واہ، بہت خوب، نہایت عمدہ کلام۔
    آپ احباب کی آمد نے تو اس لڑی کو چار چاند لگا دئیے
    مزید لکھئیے گا اور ہم بھی کوشش کریں گے (انشااللہء)
     
  30. فنا
    آف لائن

    فنا ممبر

    شمولیت:
    ‏8 جون 2006
    پیغامات:
    238
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    اگر کبھی میری یاد آئے
    تو چاند راتوں کی نرم دل گیر روشنی میں
    کسی ستارے کو دیکھ لینا
    اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے تو
    یہ جان لینا، وہ استعارہ تھا میرے دل کا،
    اگر نہ آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
    تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹوٹے
    وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
    اگر کبھی میری یاد آئے
    گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
    میں خشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
    مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
    میں اوس قطروں کے آئنوں میں تمہیں ملوں گا
    اگر ستاروں میں،اوس قطروں میں، خشبوؤں میں نہ پاؤ مجھ کو
    تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
    میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
    کہیں پہ روشن چراغ دیکھوں تو جان لینا
    کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
    تم اپنے ہاتھوں سے اُن پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
    میں خاک بن کر سمندروں میں ملوں گا
    کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہرُک کے تم کو صدائیں دوں گا
    سمندروں کے سفر پہ نکلوں تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں