1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏27 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    سب ہی چورن بیچتے ہیں کسی ایک کا نام بتاؤ جو چورن نہیں بیچتا
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    عمران خان چورن نہیں بیچتا
     
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    پھر وہ دانتوں کا منجھن بیچتا ہوگا
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  5. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مذہب کی سیاست ،،،، مذہب کا چورن بیچنے والے مولوی
     
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آپ کسی اور سے چیری کھائیے اگر مولانا کی چورن موافق نہیں
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    رائے محمد حسین کھرل

    اعتدال مولانا فضل الرحمن کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے کہ ہر معاملہ میں شدت پسندی اور تشدد ہمارا وتیرہ ٹھہرا ۔ مولانا فضل الرحمن کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جو مد مقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔ مولانا فضل الرحمن پر ہر حکومت میں شامل ہونے کا الزام زبانِ زد عام ہے. آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ کون کون سی حکومتوں میں مولانا شامل رہے۔ مولانا پہلی دفعہ 1988 کے الیکشن میں حصہ لے کر کامیاب قرار پاتے ہیں. اور اپنی پارلیمانی زندگی کا آغاز کرتے ہیں.
    1988 کے عام انتخابات اور بینظیر حکومت کا قیام.
    88کے انتخابات میں 207 کے ایوان میں پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی۔ پی پی پی 94، آئی جے آئی 56، جے یو آئی 7، پاکستان عوامی اتحاد 3، آزاد 40، اے این پی 2، بی این پی 2، اور ایک ایک نشست مزید تین چھوٹی جماعتوں کے حصے میں آئی. پی پی پی فاتح قرار پائی. بینظیر وزیراعظم منتخب ہوئیں اور جے یو آئی اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی۔
     
  8. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1988 کے صدارتی انتخابات
    مولانا فضل الرحمن نے نوابزادہ نصراللہ خان کا نام بطور صدارتی امیدوار کے پیش کیا تو مقتدر حلقوں میں کھلبلی مچ گئی. مولانا فضل الرحمن کی جی ایچ کیو میں طلبی ہوئی اور جنرل اسلم بیگ نے اپنے امیدوار غلام اسحاق خان کے مد مقابل نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کا نام پیش کرنے پر مولانا سے نہ صرف خفگی کا اظہار کیا بلکہ نام واپس لینے پر زور دیا، لیکن مولانا نہ مانے. بلکہ مولانا نے بینظیر کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن بینظیر نے صاف لفظوں میں انکار کر دیا اور کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھے بھی میرے باپ کی طرح لٹکا دیں؟ یوں بے نظیر نے تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، لیکن مولانا فضل الرحمن اپنی سیاست کے آغاز ہی سے مقتدر حلقوں کے لئے بھاری پتھر ثابت ہوئے۔
    بے نظیر کی حکومت کے چند ماہ بعد ہی اپوزیشن نے غلام مصطفی جتوئی کی سربراہی میں 'سی او پی' کے نام سے اتحاد قائم کیا جس نے حکومت کی ناقص پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ اس اتحاد میں مولانا بھی پیش پیش رہے۔ یہاں تک کہ جب بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس پر بحث کے دوران مولانا نے اسمبلی میں شاہکار خطاب کیا اور تحریک کے حق میں بھرپور دلائل دئیے۔ صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے محض 20 ماہ بعد بے نظیر حکومت کو چلتا کیا تو عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ٹھرا.
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1990 کے عام انتخابات
    90کے الیکشن میں مولانا فضل الرحمن تو کامیاب نہ ہوئے لیکن جے یو آئی 6 نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔ باقی پارٹی پوزیشن کچھ یوں تھی آئی جے آئی 106، پیپلز ڈیموکرٹیک الائنس 44، حق پرست گروپ 15، اے این پی 6، جے یو پی (نورانی) 3، آزاد 33، پاکستان نیشنل پارٹی 2، جمہوری وطن پارٹی 2،اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) فاتح ٹھہرا۔ نواز شریف وزیر اعظم منتخب ہوئے اور جے یو آئی اپوزیشن میں بیٹھی۔
    آئی جے آئی کا پس منظر یہ تھا کہ جنرل حمید گل کی درپردہ اور غلام مصطفی جتوئی کی بظاہر قیادت میں نو جماعتوں کو اکٹھا کیا گیا اور قومی خزانے سے اس کی پرورش کی گئی۔ بعدازاں جنرل اسد درانی اور دیگر نے مختلف مواقع پر اس کا اعتراف کیا۔ مہران بنک اسکینڈل کے نام سے جس کی بازگشت آج تک سنی جاتی ہے۔ بظاہر آئی جے آئی کا مقصد پی پی پی کی مخالفت اور حقیقتاً اس وقت کی مقتدر قوتوں کے چہتے اور جنرل ضیاالحق کے منہ بولے بیٹے نواز شریف کو بطور قومی قائد متعارف کرانا تھا۔ اور یہ خدمت جماعت اسلامی نے محاورتاً نہیں حقیقتاً میاں صاحب کو کندھوں پر اٹھا کر بخوبی سرانجام دی۔ آج کل کپتان کی خدمت اور آو¿ بھگت تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ جبھی تو اس دور میں سیاسی آنکھ کھولنے والے لیگی کارکن کے ہاں جماعت اسلامی کے حوالے سے نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمن معتوب ٹھہرتے ہیں۔ جی ہاں جنرل ضیاءکی آمریت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا نے اسٹیبلشمنٹ کی گود میں پرورش پانے والے اس اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس جرمِ انکار کی سزا مولانا کو 1990ءکے الیکشن میں شکست کی صورت میں برداشت کرنا پڑی اور آئی جے آئی کے منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف نے جے یو آئی کے خلاف ریشہ دوانیوں کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ ایک موقع پر جب جے یو آئی کے دونوں دھڑوں میں اتحاد ہوا تو شیخ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی پر اتحاد ختم کرنے کیلئے دباو¿ ڈالنے کو مولانا سمیع الحق کی قیادت میں پچیس علما کا وفد سرکاری طیارے سی 130 میں اسلام آباد سے رحیم یار خان پہنچا مگر سوائے رسوائی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ بہرحال ریشہ دوانیوں کی یہ کہانی اپنے اندر ایک طوالت رکھتی ہے۔
    مولانا فضل الرحمن حکومتوں کا حصہ تو نہیں رہے، لیکن جب بھی مشکل حالات میں حکمرانوں کو کوئی در نہ سوجھا، تابکے صائب مشوروں کیلئے مولانا کا وجود انہیں رحمت ایزدی نظر آیا۔ کیونکہ مولانا خواہ اپوزیشن میں ہی کیوں نہ ہوں، صائب مشورہ انہوں نے ہمیشہ امانت جانا اور اس پر مستزاد وہ قائدانہ صلاحیتیں جو ان پر ان کے والد بزرگوار کی طرح ودیعت خداوندی ہیں۔
    90 میں آئی جے آئی نے جے یو آئی سے وزارت عظمٰی کا ووٹ تو لیا، لیکن جے یو آئی کی ترجیحات کو عددی اکثریت کے گھمنڈ میں نہ صرف درخورِاعتنا نہ سمجھا بلکہ میاں صاحب کا رویہ مخاصمانہ رہا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے جے یو آئی کے حصے میں حکومتی اوچھے ہتھکنڈے آئے۔
     
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1993 کے انتخابات اور بینظیر حکومت کا قیام
    93کے انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام نے جے یو پی (نورانی) کے ساتھ مل کر "اسلامی جمہوری محاذ" کے نام سے اتحاد قائم کیا اور اسی اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا. جے یو پی تو کسی نشست پر کامیابی حاصل نہ کر سکی، مگر جے یو آئی کے حصے میں 4 نشستیں آئیں، مولانا فضل الرحمن اپنے آبائی حلقہ سے کامیاب ہوئے . 207 کے ایوان میں پی پی پی 89 نشستوں کے ساتھ فاتح قرار پائی، جونیجو لیگ نے 6 نشستوں کے ساتھ، آزاد 16 اراکین میں سے بیشتر، اور دیگر چھوٹی جماعتوں نے پی پی پی کی حمایت کی اور یوں بینظیر کی اتحادی حکومت وجود میں آئی۔ جمعیت علمائے اسلام نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھی بلکہ مسلم لیگ (ن )کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا ووٹ بھی دیا۔ نواز شریف کے سابقہ رویوں کی وجہ سے، اسے وزارت عظمٰی کا ووٹ دینے سے انکار کر کے پی پی پی کو ووٹ دینے کی بجائے وزارتِ عظمٰی کے الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا. اور یہی وہ جرم عظیم ہے جس پر اس دور کا مسلم لیگی آج تک جمعیت علمائے اسلام پر چیں بہ جبیں ہے۔ اسی حوالے سے جمعیت علمائے اسلام پر عورت کی حکمرانی کی حمایت کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ حالانکہ کوئی ایک موقع ایسا ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جمعیت علمائے اسلام نے عورت کو حکمرانی کے لئے ووٹ دیا ہو۔پارلیمانی نظام میں ووٹ دینے ہی کو حمایت کہتے ہیں ناں؟ جب ووٹ ہی نہیں دیا تو حمایت کیسی؟
    ہاں الرجال قوامون اعلی النساءجن کے ورد زباں تھا ان کی تاریخ میں جھانکیے وہ صالحین ضرور آپ کو محترمہ فاطمہ جناح کو65 کے صدارتی الیکشن میں ووٹ دیتے نظر آئیں گے۔
    یہ تاریخ کے ساتھ کیسا ظلم اور کھلا تضاد ہے،کہ جو1965میں عورت کو حکمرانی کے لئے ووٹ دیں او ر1990ءمیں قوم کو عورت کی حکمرانی کے خلاف وعیدیں سناتے پھریں وہ تو ٹھہریں پارسا اور جو عورت کو بطور منتظم صرف برداشت کریں (کہ آئین عورت کی حکمرانی پر پابندی نہیں لگتا) وہ معتوب۔
     
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1993 کے صدارتی انتخابات
    وفاقی شرعی عدالت کا استحکام. اسلامی نظریاتی کونسل کی فعالیت. کونسل میں جمعیت کی نمائندگی. آٹھویں ترمیم میں اسلامی دفعات کو بدستور برقرار رکھنا. آئندہ سینٹ الیکشن میں بلوچستان سے جمعیت علمائے اسلام کے امیدوار کی حمایت. سود کے متبادل اسلامی نظام معیشت کو رائج کرنا۔ منکر ختم نبوت ذکری فرقہ مسئلہ کے حل کیلئے ارکانِ پارلیمنٹ کے وفد کو مکران بھیجنا۔ جیسے دس نکاتی تحریری معاہدہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام نے فاروق لغاری کی حمایت کی۔ اسی موقع پر پی پی پی کی طرف سے دو وزارتوں کی پیشکش کے ساتھ جمعیت علمائے اسلام کو حکومت میں شمولیت کی دعوت ملی، جسے جمعیت علمائے اسلام نے قبول نہ کیا اور بدستور اپوزیشن میں رہی۔ اسی دور میں مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین رہے. جسے بعض معترضین حکومتی حصہ اور بعض نوازش خاصہ قرار دیتے ہیں.
    درحقیقت یا تو یہ پارلیمانی کمیٹی سسٹم سے نابلدیت کا نتیجہ ہے اور یا پھر بغض۔ آئیے پارلیمانی کمیٹی سسٹم کا تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔
    قائمہ کمیٹیاں متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، پارلیمانی جمہوریتوں میں کمیٹیوں کو پارلیمان کی آنکھ، کان، ہاتھ اور حتی کہ دماغ تک سمجھا جاتا ہے. یہ کمیٹیاں حکومت کا نہیں بلکہ پارلیمانی بندوبست کا حصہ ہوتی ہیں جو متعلقہ محکموں کے حوالے سے سفارشات اور نگرانی کے فرائض سرانجام دیتی ہیں۔ 1993 میں 32 اور اب قومی اسمبلی کی (ورکنگ) قائمہ کمیٹیوں کی تعداد 37 ہے جن میں ہر متعلقہ وزارت کی 30 کمیٹیوں کے علاوہ 5 غیر وزارتی اور اسمبلی رول 244 کی روشنی میں قائم دو اسپیشل کمیٹیاں شامل ہیں۔ جن میں شمولیت کے لئے تمام جماعتوں اور اراکین کو موقع دیا جاتا ہے کہ آپ کس کمیٹی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اسپیکر فیصلہ کرتا ہے اور اراکینِ کمیٹی چئیرمین کا چناو¿ کرتے ہیں۔ ان کمیٹیوں میں ”احزابِ اقتدار و اختلاف“ دونوں کو کام کا موقع دیا جاتا ہے۔
    مولانا فضل الرحمن کے ناقدین کو خبر ہو کہ نواز شریف کے دور حکومت میں قائد حزب اختلاف محترمہ بے نظیر اسی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی چیئرپرسن تھی اور بینظیر کے دور حکومت میں عین انہیں دنوں جب مولانا فضل الرحمن قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے، مسلم لیگ (ن)کے سرتاج عزیز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چئیرمین تھے۔
    حال ہی میں ملاحظہ کیجئے ۔موجودہ اپوزیشن میں متشدد ترین جماعت پی ٹی آئی کے اسد عمر چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار، گلزار خاں چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ، ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پبلک اکاو¿نٹ کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور بطور چیئرمین کمیٹی دستیاب سہولیات سے بھی مستفید ہو رہے ہیں مگر نہ تو انہیں مراعات سے استفادے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور نہ ہی حکومت کی حمایت کا الزام. آخر یہ دو پیمانے کیوں؟
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    1997 کے عام انتخابات
    1997 میں ن لیگ کے لئے بھاری مینڈیٹ کے حصول کا وہ طوفان اٹھا یا گیا، جس کے سامنے پی پی پی جیسی تناور جماعت اور بڑے بڑے مضبوط سیاست دان نہ ٹھہر سکے. نوابزادہ نصراللہ خان، اسفند یار ولی خان اور مولانا فضل الرحمن بھی اس الیکشن میں کامیاب نہ ہوئے۔ جے یو آئی کے حصے میں قومی اسمبلی کی صرف دو نشستیں آئیں۔ جبکہ ن لیگ کو قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہوئی۔ نواز شریف کسی دوسری جماعت سے اتحاد کے احتیاج کے بغیر بلاشرکت غیرے حکمران بنے۔
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    2002 کے قومی انتخابات
    1999 میں پرویز مشرف کے ہاتھوں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2001 میں بلدیاتی اور 2002 میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ جے یو آئی نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا۔ صوبہ سرحد میں واضح اکثریت کی بنیاد پر ایم ایم اے کی حکومت بنی جب کہ قومی اسمبلی میں ایم ایم اے کی جانب سے مولانا فضل الرحمن نے وزارت عظمٰی کے انتخاب میں حصہ لیا۔ 342 کے ایوان سے ظفر اللہ جمالی کو 172 ووٹ پڑے اور یوں وہ صرف ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم منتخب ہوئے، مولانا کو 86 اور امین فہیم کو 70 ووٹ ملے. مولانا اپوزیشن لیڈر قرار پائے۔
    یہی وہ دور تھا جب نوابزادہ نصراللہ خان، آصف زرداری، جاوید ہاشمی اور نواب اکبر خان بگٹی نے مولانا کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ سرحد، سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی لوگ اتحادی حکومتیں بنائیں گے۔ لیکن جب تمام معاملات طے پا گئے تو یہ خبر کسی طرح امریکی سفیر نینسی پاول تک پہنچ گئی۔ امریکہ نے پی پی پی کی جلاوطن سربراہ بے نظیر بھٹو پر دباو¿ ڈالا کہ ان کی جماعت اس اقدام سے باز رہے۔ اسی دور میں میں ایم ایم اے قیادت نے بھرپور مہم چلا کر پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر آمادہ کیا اور سترہویں ترمیم کی مشروط حمایت کی، جس پر بعد ازاں وہ مطعون ٹھہری کہ پرویز مشرف نے وعدہ کی پاسداری نہیں کی۔ حالانکہ اک مخصوص ڈگر پر رواں نظام زندگی کا دھارا موڑنا مقصود ہو تو مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مدنظر رکھتے ہوے قیادت غیر مقبول فیصلوں سے قطعاً خائف نہیں ہوتی۔ ویسے تو تاریخ عالم سے اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں. لیکن ہمارے لیے صلح حدیبیہ کا معاہدہ اِس حوالے سے مشعل راہ ہے۔ مستقبل کے ممکنہ خاکے کو مدنظر رکھ کر حالات کے جبر کے تحت اٹھایا گیا بابائے قوم کا ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہوسکتا ہے۔ سترہویں ترمیم یعنی ایل ایف او کی حمایت بھی ایم ایم اے کا ایک ایسا ہی فیصلہ تھا۔ جس کا پسِ منظر پرویز مشرف کا وردی اتارنے کا وہ وعدہ تھا جس کا اظہار اس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پوری قوم سے کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایم ایم اے قیادت کو اِس کا کریڈٹ دیا جاتا اور آمر پر پریشر بڑھایا جاتا لیکن میڈیا نے بوجوہ ایسی الٹی گنگا بہائی کہ ایم ایم اے کی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کردیا گیا اور آمر کو وعدہ فراموشی کا ماحول میسر آیا جس کا کسی نے نوٹس نہیں لیا اور یوں اس کے جرم پر پردہ ڈالا گیا۔
    2008 کے عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں قومی حکومت تشکیل پائی جس میں ق لیگ کے علاوہ تمام قومی جماعتیں شریک ہوئیں. بعدازاں پہلے ن لیگ اور عرصہ ڈیڑھ سال بعد جے یو آئی جس سے الگ ہو گئیں۔ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں جے یو آئی اپنے حصے کی 13 نشستوں کے ساتھ ن لیگ کی حکومت کا حصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی میں 1988 سے 2013 تک سات انتخابات ہوئے اور ان کے نتیجے میں حکومتوں نے وجود پایا۔ جمعیت علمائے اسلام ان سات میں سے صرف دو حکومتوں، سابقہ اور موجودہ میں شامل ہوئی جن میں سے ایک(سابقہ) کے ساتھ شراکت برقرار نہ رہ سکی۔
    یوں ہر حکومت کا حصہ ہونے کا طعنہ سراسر بہتان ہے. باوجودیکہ حکومت بنانا یا شریک حکومت ہونا قطعاً معیوب نہیں کیونکہ میدان سیاست کے کارِزار کی نبرد آزمائی سراسر لاحاصل ٹھہرے، اگر ایوان اقتدار تک رسائی مقصود نہ ہو۔ اعتدال مولانا فضل الرحمن کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور شاید یہی اعتدال قوم کے مجموعی مزاج کے خلاف ہے، کہ ہر معاملہ میں تشدد ہمارا وتیرہ ٹھہرا ۔ مولانا فضل الرحمن کی معتدل مزاجی ہی ان کے ہر حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا تاثر دیتی ہے کہ ہمارے ہاں مخالف وہ ہے جو مد مقابل کی ایسی تیسی صرف رویے اور لب و لہجے سے کرے نہ کہ دلیل سے۔

    ( مضمون ہذا کی تیاری کے لئے قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ سے استفادہ کیا گیا۔)
     
  14. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    آج سے بہت بہت پہلے انصار عباسی و ہمنوا حضرت مولانا کی کارستانیاں منظر عام پر لانے کا کارنامہ سر انجام دے چکے ہیں۔ جن میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جنرل مشرف کی مرضی سے فوجی زمین کے چھے ہزار سے زیادہ کنال کی الاٹمنٹ کا کارنامہ سب سے بڑا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں ان کے بارے میں
     
  15. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا صاحب کے بارے میں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ کہ یہ بندہ ہر حکومت میں شامل رہتا ہے۔ کیا آپ لوگوں نے کبھی سوچا ہے، کہ یہ بندہ اپنے لئے حکومت میں رہتا ہے، یا دین اسلام کی خدمت میں حکومت میں رہتا ہے۔۔ اور باقی عمران خان جیسا بھی ہے۔ ہے ایک نڈر بندہ جو کم از کم اپنے الفاظ اور کردار میں یکتا ہے۔ نہ کہ دوسروں کی طرح کرسی کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار۔ کبھی مولانا صاحب کے علاقے میں چکر لگاو۔ تو اپکو پتہ چلے۔ کہ کسطرح کے محلات ان لوگوں نے بنائیں ہیں۔ میں تو حیران پریشان ہوکر آیا تھا۔ کہ ایک مولانا جسکی نہ اپنی زمین تھی اور نہ ہی کچھ خاص بینک بیلنس۔ تو پھر کسطرح سے اس نے اتنی ترقی کر لی۔ میرے خیال سے کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔ باقی آپ لوگ سمجھ دار ہیں۔ خود ہی سمجھ لیں۔
     
  16. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہ سب پسند نہیں ھے
     
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ضروری نہیں کہ ہمیشہ پسند کی چیز ملے
     
  18. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    پسند کی مل جائے تو اچھا ھے ،،،
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا صاحب کو پسند کر لو
     
  20. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہ میرے بس میں نیں
     
  21. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    میں نے عمران خان صاحب کا ذکرکیا تو آپ کو انکی شادیوں پر اعتراض ہوا اور انکے خلاف ثبوت اکھٹے کرنے لگے
    میں نے مولاناصاحب کا ذکر کیا تو آپ کو اعتراض ہوا
    میں نے سراج الحق صاحب کا ذکر کیا تو آپ کو اعتراض ہوا
    میں نے زرداری صاحب کا ذکر کیا تو آپ کو اعتراض ہوا
    طاہرالقادری صاحب کا ذکر کیا توآپ کو اعتراض
    نواز شریف صاحب کا تو ذکر ہو نہیں کیا
    میں نے باچاخان کا ذکر کیا تو آپ کو اعتراض
    آخر آپ کیا چاہتے ہیں ؟
     
  22. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    سیاستدانوں سے نجات
     
  23. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مگر پاکستان کے لوگ بے وقوفی میں ناچتے ہوئے بے کرداروں کے پیچھے چل پڑے تو درد تو ہوتا ہے
     
  24. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا ساتواں بحری بیڑہ آہستہ، آہستہ ڈوب رھا ھے
     
  25. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  26. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  28. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود(1980-1895) ایک مذہبی رہنما اور سیاستدان تھے۔وہ کانگریس پارٹی کے سابقہ رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے بانی رکن تھے، بڑئے فخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ اور انکے ساتھی پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ مفتی محمود کی 1980 میں وفات کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے معاملے پر جھگڑا ہوگیا اور جمعیت کے دو گروپ بن گئے جس میں سے ایک کے سربراہ مفتی محمود کے صابزادے مولانافضل الرحمان بنے اور دوسرئے گروپ کے سربراہ مولانا سمیع الحق بنے۔ اب جمعیت علمائے اسلام کا ایک گروپ فضل الرحمان گروپ (ف)اور دوسرا سمیع الحق گروپ(س) کہلاتا ہے۔ ان دونوں گرپوں کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ دونوں دہشتگردوں کے حامی ہیں۔ آج تک دہشتگرد طالبان کے ہاتھوں پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں سمیت شہید ہونے والے 70 ہزار معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو مولانا فضل الرحمن نے کبھی بھی شہید نہیں سمجھا اور نہ کہا۔ نومبر 2013 کے اوائل میں دہشت گرد طالبان کا سرغنہ حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تو جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اْسے ’’شہید‘‘ قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ بھی حکیم اللہ محسود کو شہید سمجھتے ہیں؟‘‘ تو مولانا فضل الرحمن نے جواب میں کہا تھا کہ ’’اگر امریکہ کے ہاتھوں کوئی کْتا بھی مارا جائے تو میں اْس کْتے کو بھی ’’شہید‘‘ کہوں گا۔
     
  29. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مفتی محمود ایک انتہاہی خود غرض سیاستدان تھے، مخالف پاکستان تھے لیکن سارئے فائدئے اسی پاکستان سے اٹھائے۔ ان کے سپوت مولانا فضل الرحمان ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے بارئے میں صاف کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ابن الوقت سیاستدان ہیں، سیاسی گھٹ جوڑ اور مفادات کے حصول میں مولانا کا کوئی ثانی نہیں۔ مولانا کی سیاست مصلحت اور اقتدار کا دوسرا نام ہے، کسی زمانے میں انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھا چڑھا کر پاکستان میں اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے استعمال کیا اور کسی زمانے میں پاکستانی عسکریت پسندوں سے متعلق نرم رویہ رکھ کر مخالفین کو دھمکاتے رہے۔ مولانا کو پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ(ن) تک ہر جماعت کے اقتدارسے اپنا حصہ وصول کرنے کا ہنر آتا ہے۔ مولانا ایک طرف تو آصف علی زرداری سے اپنی دوستی کا دم بھرتے ہیں تودوسری طرف نواز شریف کی حکومت میں وہ کشمیر کمیٹی کے چیرمین ہیں جس کی مراعات ایک وفاقی وزیر کے برابر ہیں، انکی پارٹی کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالغفورحیدری سینٹ کے چیرمین ہیں اور بھی سرکاری پوسٹوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا قبضہ ہے۔
     
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مفتی محمود صاحب نے پاکستانی میں جس طرح اسلام کا جھنڈا اٹھا یا اور قادیانیت کو ذلیل و خوار کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے
    یہ تجھ جیسے عقل والے انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے
    مفتی محمود صاحب کے بارے میں اپنی بے ہودہ زبان استعمال کر کے آپ نے ثابت کیا کہ آپ ایک انتہائی درجے کے فضول سوچ رکھنے والے انسان ہو
     

اس صفحے کو مشتہر کریں