1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

قائد ملت اسلامیہ مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏27 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امریکی ڈرون حملو ں میں مسلمان شہید ہوئے ہیں کوئی خبیث نہیں مارا گیا آج تک ورنہ پارلیمنٹ ہاؤس پر ضرور یہ حملہ ہوتا
     
  2. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا فضل الرحمن نے ھی کہا تھا ،،،،،، امریکہ کے ہاتھوں کوئی کْتا بھی مارا جائے تو میں اْس کْتے کو بھی ’’شہید‘‘ کہوں گا ،،،،،
     
  3. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ممتاز عالمِ دین، معروف مقرر اور جمیعت علمائے اسلام کے سابق صوبائی سربراہ مولانا محمد امیر عرف مولانا بجلی گھر طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 85 برس تھی اور انہوں نے پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون!
    مولانا بجلی گھر مفتی محمود کے قریبی رفقاء میں سے تھے اور وہ اپنی تقریروں میں مزاحیہ رنگ میں کی جانے والی تنقید کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) اور تحریکِ بحالیء جمہوریت (ایم آر ڈی) میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
    مولانا بجلی گھر مغربی طرزِ جمہوریت کے شدید مخالفین اور ناقدین میں سے تھے اور اسی بناء پر انہوں نے کبھی بھی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ 1993ء میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کا ساتھ دینے پر انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
    ان کی نمازِ جنازہ قیوم اسٹیڈیم پشاور میں ادا کی گئی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
     
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امریکہ اسلام دشمنی میں کسی کو مارے اور مرنے والا اسلام کی سربلندی کے لیے شہید ہوا تو آپ کی نظر میں اسکا کیا مقام ہے؟
    پاکستان میں شہید ہونے والوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہو جو امریکی ڈرون حملوں میں شہید ہوئے؟
    تم تو خود حب الوطن پاکستان کی بجائے امریکہ کے حمایتی نظر آتے ہو
    آپ کو جو شہید ہوئے انکا کوئی غم نہیں
    بس فکر ہے تو بیانات کی کہ آپ کے مخالف کے بیان کیا ہیں
    شرم آنی چاہیے ایسے لوگوں کو جن کی نظر میں پاکستان کے معصوم بچوں خواتین اور ان لوگوں کے خون کی قیمت پانی سے کم تر ہے جو امریکی حملوں میں شہید ہوئے.

    تعصب کے چشمے پہن کر صرف سیاست پر بحث کرنے والے اور معصوم شہداء کے خون کا مذاق اڑانے والوں کے گھروں پر اللہ کرے ایسے بم گرے کہ انکی نسلیں یاد رکھیں
     
  5. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    ایتھے رکھ۔ ،،،
    اور وہ جو کسی دعوت میں امریکی سفیر سے پاکستان کی صدارت کی بھیک مانگ رہا تھا ، اسکا تذکرہ نہیں ہے اس رنگین خبر میں۔۔

    ایک وقت تھا کہ لوگ رشوت کی حرام کمائی کو طنزاً فضل ربی یعنی رب کا فضل کہا کرتے تھے۔ نہ جانے یہ حسن اتفاق ہے یا سوئے اتفاق کہ ہمارے ممدوح مولانا فضول کو بھی یار لوگ رحمن کا فضل قرار دیتے ہیں۔ مولانا اپنے ارادے کے پکے مگر قول کے قدرے کچے ہیں۔ کرتے وہی ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ مگر جلسے جلوسوں اور سیاسی اجلاسوں میں ایسی باتیں بھی کرتے پائے جاتے ہیں جو عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہوتی ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ کہ ہم عوام کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں، گو زمینی حقائق نے ہمیں ان پر عمل درآمد کا موقع نہیں دیا۔
    مولانا فضول ہل من مزید کی ایک عملی تصویر ہیں۔ نہ صرف خوش خوراک ہیں، بلکہ خوش گفتار بھی۔ ہر دو کام بے تکان کرتے ہیں اور موقع محل دیکھے بغیر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے بھی لیتے ہیں اور قائد حزب اختلاف بھی کہلوانے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ صنف نازک کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی نہیں کا مطلب بھی ہاں ہوتا ہے۔ موصوف کا تعلق چونکہ صنف مخالف سے ہے، اس لئے موصوف اگر ہاں بھی کہہ رہے ہوں تو اس کا مطلب ناں ہی سمجھا جاتا ہے۔ اسمبلیوں سے بروقت استعفیٰ دینا ہو یا مشرف کی زیر نگرانی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا، برسر مجلس ان کی ہر دو ہاں کا مطلب ناں ہی تھا، جو انہوں نے عملاً ثابت بھی کر دکھایا۔ آپ ایک دینی خانوادے سے تعلق رکھنے کے سبب شاعروں کے خیالات کے حامی نہیں۔ اسی لئے آپ، نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ع کے قطعا قائل نہیں۔ آپ ہمیشہ ایسے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے خدا بھی ملے اور وصال صنم میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ قاضی سے بھی رشتہ برقرار رہے اور بی بی بے مثال بھی اندرون خانہ خوش رہیں۔ طالبان سے بھی رابطہ برقرار رہے اور امریکہ بہادر کے لئے بھی قابل قبول نظر آئیں۔ اپوزیشن کے لیڈر بھی بنے رہیں اور مشرف حکومت کے نور نظر بھی۔
     
  6. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا فضول پاکستان میں ایک نئی طرز سیاست کے بانی ہیں۔ ایسی سیاست جس میں چت بھی اپنی ہو اور پٹ بھی اپنی۔ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن میں شامل رہنے کا ہنر آپ ہی کی ایجاد کردہ ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے حکومت کے خلاف جلسے جلوس نکالنا ہو یا اپوزیشن لیڈر رہتے ہوئے حکومت وی وی آئی پی پروٹوکول بمع سہولیات سے استفادہ کرنا، یہ ہنر آپ سے قبل کسے آتا تھا؟ یہ آپ ہی کی سیاسی بصیرت کا کمال ہے کہ ایک طرف دینی جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی قائم ہے تو دوسری طرف سیکولر پارٹیوں سے انڈر اسٹینڈنگ بھی جاری ہے۔ اگر دیگر سیاسی جماعتیں بھی مولانا فضول کے نقش قدم پر چلنے کا عزم کر لیں تو پاکستانی سیاست سے محاذ آرائی کا یکسر خاتمہ ہو سکتا ہے۔ انتخابات جیتنے والی پارٹیاں اقتدار کے اندر اور ہارنے والی پارٹیاں اقتدار سے باہر رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹ سکتی ہیں۔ نہ حکومت کو اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کرنے اور ان کے جلسے جلوسوں پر لاٹھی چارج اور گولیاں چلانے کی ذحمت ہو گی نہ اپوزیشن کو لاٹھی گولی کھانے اور جیل جانے کی مشقت برداشت کرنی پڑے گی۔ ہر دو گروپ، ہر دو صورتحال میں مل جل کر مزے میں رہیں گے۔
    البتہ اس طرز سیاست میں عوام کا کوئی ذکر نہ ہو گا۔ عوام کا کام صرف انہیں ووٹ دے کر باری باری برسراقتدار اور فرینڈلی اپوزیشن بنانا ہو گا۔ وہ جلسے جلوسوں کی رونق بڑھا سکتے ہیں اور اپنے خون پسینے کی کمائی سیاست اور اہل سیاست کی نذر کر سکتے ہیں۔ عوام ہر دو انتخابات کے درمیان حسب سابق اپنی روٹی روزی کی فکر میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں، تاکہ انکی نگاہ حزب اقتدار و حزب اختلاف کے رہنماؤں کی طرف نہ اٹھنے پائے۔ مولانا فضول کی فضول سیاست زندہ بات۔
    کی قاضی نے سیاست، اگرچہ اصول کی سی
    مگر وہ بات کہاں مولانا فضول کی سی
     
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تمام قوتوں کو امن کا پیغام دینا چاہتا ہوں،ظلم وجبر کی تاریک راتیں ختم امن کی صبح طلوع ہو چکی ہے،قبائلی عوام پر اسلام آباد سے فیصلے مسلط کرنے کی بجائے عوامی رائے کا احترام کیا جائے.
    مولانا فضل الرحمان
    [​IMG]
     
  8. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    یہ ساری باتیں آپ جناب مولانا فضل الرحمن صاحب کو بتایں ،،،، مولانا صاحب کی کرپشن کے دفاتر لکھنے کے لیے شب و روز محنت کی ضرورت ہے تھوڑا انتظار کر لیا جائے تو بہت کچھ سامنے آ جائے گا۔
     
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    جمعیت علماء اسلام کی قیادت وسرپرستی مختلف ادوار میں شیخ الاسلام پاکستان حضرت مولاناشبیر احمد عثمانی ؒ ، شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری ؒ ، حافظ الحدیث حضرت مولانا عبد اللہ درخواستی ؒ ، مفکر اسلام فقیہ ملت مولانا مفتی محمود ؒ، مجاہد ملت حضرت مولاناغلام غوث ہزاروی ؒ ، قطب الاقطاب حضرت مولانا خواجہ خان محمد ؒ ، پیر طریقت حضرت مولانا عبد الکریم قریشی ؒ ، خطیب اسلام حضرت مولانا محمد اجمل خان ؒ، استاذ العلماء حضرت مولانا سید حامد میاں ؒ ، عارف باللہ حضرت مولانا سراج احمد دین پوری ؒ ، یاد گار اسلاف حضرت مولانا محمد عبد اللہ ؒ کے حصہ میں آئی ۔قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ اور حضرت مولانا عبد الغفور حیدری صاحب مدظلہ کی قیادت میں جمعیت خداکی دھرتی پر خداکے نظام کے لئے آج بھی مصروف عمل ہے۔
     
  11. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کچھ دن پہلے ڈاکٹر اجمل نیازی نے مولانا فضل الرحمان پرایک مزاحیہ کالم لکھا یہ حسب ذیل ہے۔

    کامیاب اداکارہ مسرت شاہین نے بڑے دھڑلے سے اعلان کیا ہے کہ میں مولانا فضل الرحمن کے مقابلے میں الیکشن لڑوں گی اور جیت کے دکھاوں گی۔ میرے خیال میں پچھلے چار برسوں کی سیاست میں یہ سب سے بڑا بیان ہے۔ بھارتی میڈیا فیم فنکارہ وینا ملک اگر یہ اعلان کر دیں کہ وہ رحمن ملک کے خلاف الیکشن لڑیں گی تو اور بھی بہت سی بہادر خواتین سیاستدان نکل آئیں گی جو اس سیاسی بغاوت کی نئی تاریخ لکھیں گی۔ شیری رحمن نے بھی رحمن ملک کے خلاف احتجاجاً استعفیٰ دیا تھا کہ وہ میری وزارت میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ امریکہ میں سفیر نہ بنائی جاتی تو وہ یقینا رحمن ملک کے خلاف الیکشن لڑتی اور جیت جاتی۔ کسی آدمی سے پوچھا گیا کہ رحمن ملک اور وینا ملک کے درمیان اصلی ملک کون ہے۔ اس نے کہا کہ وینا ملک کے بارے میں تو مجھے یقین نہیں ہے البتہ رحمن ملک واقعی ملک صاحب ہیں کہ وہ میرے سامنے ملک بنے ہیں۔ مسرت شاہین بڑی زندہ دل اور دلچسپ خاتون ہیں۔ ملکہ¿ ترنم نورجہاں کے بعد جس عورت کی محفل مزیدار ہوتی ہے وہ مسرت شاہین ہیں۔ وہ مردانہ انداز میں زندگی گزارتی ہیں۔ مولانا صاحب کو ڈر اس کی مردانگی سے لگتا ہے۔ وہ ایسی عورتوں کی دیوانگی سے بھی ڈرتے ہیں۔ مولانا تو ان پٹھان مولویوں میں سے ہیں جو عورتوں کو ووٹ دینے کا حق بھی دینے کیلئے تیار نہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ اگر سب عورتوں نے یہ فتویٰ لے لیا کہ وہ کسی عورت امیدوار کو ووٹ ڈال سکتی ہیں تو مسرت کی جیت یقینی ہے۔ مسرت شاہین نے مفتی صاحب سے بھی رابطہ کر لیا ہے۔ یہ چیلنج عمران کیلئے بھی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کیلئے ایک منصوبہ مسرت شاہین نے تیار کر لیا ہے۔ مسرت شاہین کی ایک محفل میں مجھے ٹی وی اینکر برادرم ڈاکٹر محمود لے گئے تھے۔ بہت اچھی گپ شپ بلکہ کھپ شپ رہی مگر ڈاکٹر محمود نے مجھے مسرت شاہین کا انٹرویو کرنے سے منع کر دیا۔ اس کی وجہ وہی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود دوستوں کا دوست ہے اور وہ دوستوں کے ارادوں اور منصوبوں سے بھی واقف ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑا ماہر ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہے۔ تب بھی مسرت شاہین بہت سرگرم اور مستعد تھی۔ وہ ضمنی الیکشن لڑنا چاہتی تھی۔ اس کی شرط صرف یہ تھی کہ وہ کسی مرد کے مقابلے میں الیکشن لڑیں گی اور یہ بھی چاہتی تھی کہ وہ مولانا ہی ہوں۔

    مرحوم بھائی اور بہت عظیم فنکار دلدار بھٹی مسرت شاہین کا بہت قائل تھا اور اس کی رنگا رنگ صلاحیتوں سے بڑا متاثر تھا۔ ایک محفل میں جہاں مستقل وزیر اطلاعات شیخ رشید مہمان خصوصی تھا۔ وہاں مسرت شاہین نے خاص طور پر میری سفارش کرائی کہ دلدار بھٹی میرے بارے میں کوئی ایسا جملہ نہ کہہ دے جس سے شرمندگی اٹھانا پڑے کیونکہ میں ایک سیاستدان بھی ہوں اور مولانا فضل الرحمن کو شکست دینا چاہتی ہوں۔ دلدار نے بڑے ادب سے مسرت شاہین کو بلایا۔ اتنا احترام دیکھ کر ہال میں کسی نے تالی بھی نہ بجائی۔ مگر مسرت مطمئن ہوئی کہ بچت ہو گئی۔ جب وہ ایوارڈ لے کر جانے لگی تو دلدار بھٹی نے کہا یہ تھی مشہور اداکارہ اور سیاستدان مسرت شاہین جو آتے ہوئے اچھی لگ رہی تھی اور جاتے ہوئے تو اور بھی اچھی لگ رہی تھی۔ سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔

    مولانا فضل الرحمن واقعی مسرت شاہین سے ڈرتے ہیں۔ ایک تو وہ اسلئے پریشان ہیں کہ اب عورتوں نے بھی اپنا نام شاہین رکھنا شروع کر دیا ہے اور یہ علامہ اقبال کی توہین ہے۔ مسرت شاہین کے اعلان کے بعد انہوں نے کہا کہ سیاست میں سے شائستگی ختم ہو چکی ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو چور اور ڈاکو کہا جاتا ہے۔ مولانا یہ تو دیکھیں کہ یہ کون کہتا ہے وہی لوگ جن کی چوری ہوتی ہے۔ جن کے گھروں میں ڈاکہ پڑتا ہے۔ ان کیلئے تحریک انصاف کے چیئرمین اور محبوب سیاستدان عمران خان نے کہا کہ نوازشریف نظام اور مولانا فضل الرحمن اسلام کا نعرہ لگا کر صدر زرداری کو سپورٹ کرتے رہے۔ بیسویں ترمیم پر پھر ”مُک مُکا“ ہو رہا ہے۔ یہ ”مُک مُکا“ مولانا نے اور نوازشریف نے اٹھارویں ترمیم پر بھی کیا تھا۔ کرپشن کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ میمو گیٹ پر بڑی سازش ہوئی ہے۔ نوازشریف کالا کوٹ پہن کر وکیل بن کر سپریم کورٹ گئے پھر نجانے کہاں چلے گئے۔ اب امریکہ کے ساتھ صلح صفائی ہو رہی ہے مگر ملک کا صفایا ہو رہا ہے۔

    فضل الرحمن نے اسلام بیچ کر جتنا مال بنایا ہے کسی اور نے نہیں بنایا۔ یہ باتیں پہلے عمران نے مولانا کے بارے میں نہیں کہی تھیں۔ یقیناً مسرت شاہین کے اعلان انتخاب کے بعد یہ موقع عمران کو ملا ہے۔ جس طرح جاوید ہاشمی کے آنے کے بعد عمران کی جان میں جان آئی تھی۔ مسرت شاہین کے اس اعلان کے بعد کہ وہ تحریک انصاف میں تحریک مساوات ضم کرنا چاہتی ہے۔ ایک بڑا سنہری موقع ہے۔ یہ اصغر خان کی تحریک استقلال سے بڑا سیاسی واقعہ ہو گا۔ ماں کا انصاف تو یہ ہے کہ جس بچے کے پاس زیادہ ہے۔ اس سے لے لیا جائے اور اسے دے دیا جائے جس کے پاس کم ہے۔ ہمارے ہاں تو الٹا ہو رہا ہے۔ یہاں ان کو دیا جا رہا ہے جن کے پاس بہت زیادہ ہے اور ان سے چھینا جا رہا ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ میں نے مسرت شاہین کو خاں نہیں کہا۔ ایک بات بڑے پتے کی مسرت نے کہی ہے جو عمران سے زیادہ ہارون الرشید کے غور کرنے کی ہے کہ جب تک ملک میں مسادات نہیں ہو گی انصاف نہیں ہو گا۔ عمران انصاف لانا چاہتے ہیں تو مساوات لانا ہو گی اور اس کیلئے تحریک مساوات کی چیئرمین مسرت شاہین کو خوش آمدید کہنا ہو گا۔

    اس حوالے سے میری گزارش حفیظ اللہ خان سے بھی ہے کہ وہ جاوید ہاشمی کی طرح مسرت شاہین کیلئے بھی کوشش کریں۔ مسرت نے کہا کہ وہ سو فیصد سیاست کے راز نہیں سیکھ سکیں۔ ننانوے فیصد تو سیکھ چکی ہیں اور ان کا پتہ مولانا فضل الرحمن اور عبدالغفور حیدری کو چل گیا ہے۔ مسرت نے کہا کہ عمران سے میرا الائنس ہو سکتا ہے ورنہ ان کے خلاف بھی مجھے الیکشن لڑنا پڑے گا۔ یہ دھمکی نہیں بلکہ دھماکہ ہے۔ برادرم ہارون الرشید نے چونکہ داڑھی رکھی ہوئی ہے اسلئے انہیں خاص طور پر احتیاط کرنا چاہئے۔

    مولانا آج کل بڑے چلے کر رہے ہیں اور اس حرکت کو آج کل عمران کا مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ مولانا کے حواری کہہ رہے ہیں کہ کراچی میں ہمارا جلسہ عمران کے جلسے سے بڑا تھا۔ اگر مسرت شاہین ڈیرہ اسماعیل خاں میں جلسہ کرنے کا اعلان کریں اور عمران خان اس کی صرف تائید کر دیں تو اس کے مقابلے میں مولانا جلسہ نہیں کر سکیں گے بلکہ کریں گے بھی نہیں۔

    آخر میں ایک بات یاد آئی جو پنجاب یونیورسٹی کے دانشور بہادر وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے اعزاز میں ایک استقبالیہ اکرم چودھری نے دیا تھا۔ ناصر اقبال خاں نے اس کیلئے بہت تعاون کیا۔ وہاں مذہبی پروگرام کے اینکر رفیق احمد بھی تھے۔ مسرت شاہین اور مولانا کا ذکر ہوا تو اوریا مقبول جان نے ایک واقعہ سنایا جو خود انہوں نے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی سے سنا ہے۔ مولانا نیازی مفتی محمود سے ملنے گئے۔ ایک نوجوان بار بار کمرے میں داخل ہوتا اور مفتی صاحب اسے بھگا دیتے۔ مولانا نیازی نے پوچھ لیا کہ مفتی صاحب یہ نوجوان کون ہے۔ انہوں نے فرمایا یہ میرا بیٹا فضل الرحمن ہے اور یہ پیسے لے کر میرے خلاف مخبری کرتا ہے۔

    حوالہ
    روزنامہ نوائے وقت
     
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا کی عزت اچھالنے والے بھی آپ کی طرح آسمان سے آئے ہوئے فرشتے ہونگے
    جن کا نا قوم کا پتہ نا قبیلے کا
    اور نیازی نام سن کے ہی میرے ذہن میں دوغلے غداروں کا ٹولہ گھومنے لگتا ہے
    جس کو آج تک ہم بھگت رہے ہیں
     
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دستورجمعیت علماء اسلام پاکستان
    جمعیت علماء اسلام کا قیام جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں لایا گیا وہ اتنے کامل اور مکمل ہیں کہ ان میں کسی دور میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، البتہ بعض انتظامی امور میں نئے پیدا شدہ حالات کی وجہ سے بعض ترامیم کی ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے ۔خصوصا” مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ؒ کی رحلت کے بعد حالات تیزی سے تغیر پذیر ہو ئے ۔ ان احوال کی وجہ سے وقتاٌفوقتاٌ ترامیم کایہ سلسلہ ضروری سمجھا گیا ۔ 8نومبر 1982ء حضرت مولانا عبدالکریم قریشی صاحب ؒ بیر شریف اور حضرت خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں ترامیم منظور کی گئیں۔ 9/10/11 نومبر 1992ء کو مدرسہ قاسم العلوم شیرانوالہ گیٹ لاہور میں ہونے والے مجلس عمومی کے اجلاس میں دستوری ترامیم کی ضرورت محسوس کی گئی ، البتہ دستور میں ترامیم واضافے کاکام مرکزی شوریٰ کے سپرد کر دیاگیا ۔
    22/23 مارچ 1994ء کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب ؒ کی صدارت میں مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدظلہ کی تجویز پر حضرت مولانا عبداللہ صاحبؒ بکھر کی صدارت میں ایک دستوری کمیٹی تشکیل دی گئی ۔
    یہ ترامیم 23/24 اپریل 1994ء کو جامعہ مدنیہ لاہور میں قائم مقام امیر حضرت مولانا اجمل خان صاحب کی صدارت میں ہونےوالے شوریٰ کے اجلاس میں منظورکی گئیں۔
    25/26 مئی 1997ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں دستور کاازسرنو جائزہ لینے کے لئے مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کمیٹی نے محنت شاقہ کے بعد یکم تا 4 نومبر 1997ء کو جامعہ مطلع العلوم کوئٹہ میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ان ترامیم کی منظوری دی ۔ 9/10/11 جون 2001ء کو جامعہ اسلامیہ شاہ ولی اللہ قلات میں ہونے والے مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں دستوری ترامیم کاازسرنو جائزہ لیا گیا اور شوریٰ میں مسلسل 2 دن دستور کی ایک ایک شق پر تفضیلی بحث و تخمیص کے بعد ترامیم کی منظوری دی گئی ۔
    12/13 جون 2001 ء کو قلات بلوچستان میں ہونے والے مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس میں شوریٰ کی منظورکردہ ان ترامیم کو توثیق کے لئے پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔ تاہم بعد کے پیش آمدہ حالات کے پیش نظر دستور میں چند ترامیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے 22/23/24 مئی 2004ء کو نتھیاگلی ضلع ایبٹ آباد میں مرکزی مجلس شوریٰ اور چاروں صوبائی عاملہ جات کے مشترکہ اجلاس میں مرکزی ناظم عمومی مولانا عبدالغفور حیدری کی سربراہی میں چاروں صوبائی نظمائے عمومی کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ اس کا اجلاس 2 اگست 2004ء کو اسلام آباد میں زیر صدارت مولانا عبد الغفور حیدری منعقد ہوا۔ اس میں ڈاکٹر خالد محمود سومرو ، مفتی عبد الستار ، مولانا گل نصیب خان ، مولانا تاج محمد خان ، اور خواجہ محمد زاہد نے خصوصی طور پر شرکت کی ۔
    کمیٹی نے چند دستوری ترامیم مرتب کیں ۔ بعد میں ان تجاویز کو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس 20/21 دسمبر 2004ء میں پیش کیا گیا ۔ حتمی منظوری کےلئے ان ترمیم کو مجلس عمومی کےاجلاس منعقدہ 10فروری 2005ء میں پیش کیا گیا ۔ معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دی گئی ۔
    مرکزی مجلس عمومی کا اجلاس جو 23/24 جمادی الثانی 1430ھ بمطابق 18/19 اپریل 2009 کو جامعہ مدنیہ لاہور میں امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا میں ایک بار پھر دستور میں ترامیم کےحوالے سے فاضل ارکین نے زبانی اور تحریری اراء پیش فرمائیں طویل بحث کے بعد مرکزی مجلس عمومی نے دستور میں ترامیم کا اختیار مرکزی مجلس شوریٰ کو دے دیا ۔ 6 شعبان المعظم 1430ھ بمطابق 26 جولائی 2009 ء کو اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں آٹھ رکنی دستوری کمیٹی تشکیل دی کمیٹی کا اجلاس 12/13 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 1/2 نومبر 2009 ء کو اسلام آباد میں مولانا عبد الغفور حیدری کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کمیٹی کے اراکین مرکزی ناظم ملک سکندر خان ایڈووکیٹ مرکزی ناظم اطلاعات مولانا محمد امجد خان مرکزی ناظم مالیات الحاج شمس الرحمٰن شمسی بلوچستان کے ناظم عمومی مولانا مفتی عبدالستار سندھ کے ناظم عمومی مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومرو ؒ خیبر پختونخواہ کےناظم عمومی مولانا شجاع الملک پنجاب کے ناظم عمومی مولانا افتخار حقانی نے ٓشرکت کی ملک بھر سے آنے والی قیمتی اراء کی روشنی میں ایک مسودو مرتب کیا گیا جو مجلس شوریٰ کے اجلاس جو اسلام آباد میں 14/15 ذیقعدہ 1430ھ بمطابق 3/4 نومبر 2009 ء کو امیر مرکزیہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب مدظلہ کی صدارت میں منعقد ہوا میں پیش کیا گیا معمولی ترامیم کے بعد دستور کو آخری شکل دے دی گئی جو آپ حضرات کے سامنے ہے. اللہ تعالیٰ اس اہم کا م کے لیے سعی کرنے والے حضرات کو جزائے خیر عطاء فرمائے اور دستور کو جماعت کی ترقی کاباعث بنائے آمین ۔
    (مولانا) عبدالغفور حیدری
    ناظم عمومی جمعیت علماء اسلام پاکستان
     
  14. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:

    مفتی محمود ایک انتاہی خود غرض سیاستدان تھے، مخالف پاکستان تھے لیکن سارئے فائدئے اسی پاکستان سے اٹھائے۔ ان کے سپوت مولانا فضل الرحمان ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے بارئے میں صاف کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ابن الوقت سیاستدان ہیں، سیاسی گھٹ جوڑ اور مفادات کے حصول میں مولانا کا کوئی ثانی نہیں۔ مولانا کی سیاست مصلحت اور اقتدار کا دوسرا نام ہے، کسی زمانے میں انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھا چڑھا کر پاکستان میں اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے استعمال کیا اور کسی زمانے میں پاکستانی عسکریت پسندوں سے متعلق نرم رویہ رکھ کر مخالفین کو دھمکاتے رہے۔ مولانا کو پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ(ن) تک ہر جماعت کے اقتدارسے اپنا حصہ وصول کرنے کا ہنر آتا ہے۔ مولانا ایک طرف تو آصف علی زرداری سے اپنی دوستی کا دم بھرتے ہیں تودوسری طرف نواز شریف کی حکومت میں وہ کشمیر کمیٹی کے چیرمین ہیں جس کی مراعات ایک وفاقی وزیر کے برابر ہیں، انکی پارٹی کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالغفورحیدری سینٹ کے چیرمین ہیں اور بھی سرکاری پوسٹوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا قبضہ ہے۔
     
  15. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا کاروباربھی مسافر بس کے اس دوکاندار کی طرح ہے جو لوگوں کو اپنا ہاجمولہ بیچ کر کامیاب رہتا ہےاسی طرح مولانا اور مولانا کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) مذہب کا چورن بیچتے ہیں، 2002 کے انتخابات سے اب تک مولانا کی جماعت کا انتخابی نشان ’’کتاب‘‘ ہے جس سے مولانا عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کا انتخابی نشان ’’قران شریف‘‘ ہے، ایک مرتبہ الیکشن کمیشن نے اس کتاب کے نشان میں کچھ تبدیلی کی تو مولانا نے اسقدر شور کیا کہ الیکشن کمیشن کو اپنی تبدیلی واپس لینی پڑی۔ہر انتخابات سے پہلے مولانا مذہب کی دوکانداری شروع کردیتے ہیں، مولانا اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے یہ تو پہلے ہی جانچ لیتے ہیں کہ اگلی مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر کون سی جماعت بیٹھے گی، لہذا ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اس جماعت سے انتخابی اتحاد کرلیں جو عام طور پر نہیں ہوتا، لہذا پھر مولانا اپنی مذہب کی دوکانداری شروع کرتے ہیں، مولانا کی دوکانداری کا خاص حدف صوبہ خیبر پختونخواہ اورصوبہ بلوچستان ہوتے ہیں، جہاں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے، مولانا کی جماعت مذہب کے نام پر مختلف عنوانوں سے کانفرنس کرتی رہی ہے۔ 2001 سے 2017 تک جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مندرجہ ذیل کانفرنسں کروائی ہیں:۔
    اپریل 2001 ’’عالمی دیوبند کانفرنس‘‘ ہدف 2002 کے انتخابات تھے۔
    دسمبر 2007 ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ ہدف 2008 کے انتخابات تھے۔
    مارچ 2013 ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ ہدف 2013 کے انتخابات تھے۔
    اپریل 2017 ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ ہدف 2018 کے انتخابات اور بھی بہت کچھ۔


    اگلے سال چونکہ انتخابات ہونے ہیں اس لیےاپریل 2017 میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 7 تا 9 اپریل ایک تین روزہ سیاسی میلے کاانعقادصوبہ خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں کیا ،اس سیاسی میلے کو جمعیت علمائے اسلام(ف) نے ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کا نام دیا، اس تین روزہ اجتماع کو ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے نام دینے پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے کیونکہ تاریخ سے باعلم لوگ جانتے ہیں کہ 28دسمبر 1919 کو امرتسر میں مولانا عبدالباری فرنگی محل کی صدارت میں علماء کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں جمعیت علمائے ہندکی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے بعد شاید 1941 میں پاکستان مخالف علما ء کی سیاست کو کنڑول کرنے کےلئے مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام نامی ایک اورمذہبی جماعت کی بنیاد ڈالی جو تحریک پاکستان کے حامی تھی۔ 28دسمبر 1919 کو بنے والی جمعیت علمائے اسلام کی عمر ابھی 98 سال ہے، جبکہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علمائے اسلام کی عمر 76 سال ہے اوررہی بات مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کی تو وہ سو سال سے بہت دور ہیں، اب اگر مولانا یہ کہیں کہ ہجری کلینڈر سے سو سال ہوگے تو مولانا کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں انگلش کلینڈر چلتا ہے اور وہ بھی تمام کام انگلش کلینڈر کے مطابق کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جمعیت علمائے اسلام (ف) سوسال کی ہوگئی یہ زیادہ بہتر طریقے سے مولانا فضل الرحمن ہی بتا سکیں گئے کیونکہ مولانا سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اپنے مفاد کے لیے کب کیا کرنا چاہیے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ: اس مضمون کے دو حصے ہیں یہ پہلا حصہ تھا۔
     
  16. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا فضل الرحمان کو شاید وہی لوگ ووٹ دیں جو کسی مذہبی وابستگی کے باعث ان کی ہمایت کرتے ہیں۔ رہی بات ان لوگوں کی جو غیر جانبدار ہیں ان کی نظر میں مولانا کا سابق ریکارڈ موجود ہے سو کوئی عقل کا اندھا ہی ان کو ووٹ دے گا کہ ان کا مطمحِ نظر کرسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اور وہ کرسی کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔
     
  17. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    میرا ووٹ بھی انشاء اللہ عمران خان کے حق میں ہوگا
     
  18. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا کے ہاتھ میں یہ اسلام والا لولی پاپ اچھا لگا ہے۔ جب چاہا اس کا استعمال کرتے ہوئے فائدہ اٹھا لیا۔ پچھلے چار سال سے اس گھٹیا حکومت کا حصہ رہنے والے یہ صاحب اب الیکشن کا تقاضا جانے کس منہ سے کر رہے ہیں۔ کم زور عقائد اور جہلا کی اس ملک میں کثیر تعداد موجود ہے جو مولانا کو ووٹ دیں گے۔ البتہ صاحب شعور غلطی سے بھی ان کو ووٹ دینے والے نہیں۔
     
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مطمحِ نظر ................. سیلیس اردو میں بتائیے
     
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کل تک تو انکو بھی گالیاں دے رہے تھے
    نکالوں آپ کا سابقہ ریکارڈ کیا؟
    آپ بغیر پیندے کے لوٹے ہو
    میں تو نہ سیاست دان ہوں نا حمایتی میں تو سب کی اچھائیاں نکال نکال کر شئیر کرتی ہوں
     
  21. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے تین روزہ اجتماع کا اصل مقصد تو 2018کے انتخابات میں کامیاب ہوکر صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنی حکومت قائم کرنا ہے، لیکن اس کانفرنس کے منعقد ہونے کے بعد پتہ چلا کہ اس کانفرنس کے دو اور بڑئےمقاصدتھے، جو اس کانفرنس میں بڑئے واضع طور پر نظر آئے:۔
    پہلا مقصد: طالبان دہشتگردوں کو بغیر کسی پوچھ گچھ یاسزا کے پاکستانی معاشرئے کا حصہ بنانا۔
    دوسرا مقصد: سعودی عرب کو جنرل راحیل شریف اور پاک فوج کی فراہمی۔

    صد سالہ جمیت کانفرنس کے اعلان یا اس کے بعد کانفرنس سے پہلے تک کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ اس کانفرنس کا پہلا مقصد70 ہزار بے گناہ انسانوں کے قاتلوں طالبان دہشتگردوں کو بغیر کسی پوچھ گچھ یاسزا کے پاکستانی معاشرئے کا حصہ بنانا ہوگا۔ کانفرنس کے شرکا نےاپنی اس بات کو کہنے کےلیے 6 اپریل کا دن چنا، اس دن لوگوں کا زیادہ دھیان سعودی وفد کی طرف تھا۔ 6 اپریل کوجمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفورحیدری جوپاکستان کی سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین بھی ہیں پشاورپریس کلب میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران طالبان دہشتگردوں کو اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی ، ان کا کہنا تھا کہ ”ہم طالبان کو جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں”۔ مولانا کی اس پیشکش کے جواب میں ، میں نے ایک مضمون ’’جےیو آئی (ف) کی بلی تھیلےسے باہر‘‘ لکھا تھا جس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اس پیشکش کا بھرپورجواب دیا تھا، اس مضمون میں ایک جگہ لکھا ہےکہ ’’مولانا عبدالغفورحیدری جن طالبان دہشتگردوں کےہمدردبنے ہوئے ہیں، ان کے سہولت کار بھی ہیں اور اب ان کو اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرنا چاہتے وہ اب تک 70 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو مار چکے ہیں‘‘۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری کی قاتلوں کی اس پیشکش کے بارئے میں شاید یہ کہا جاسکتا ہے کہ درحقیقت جمعیت علمائے اسلام (ف) طالبان دہشتگردوں کا ہی ایک سیاسی دھڑا ہے۔ طالبان دہشتگرد گذشتہ سال سے اب تک دو ملٹری آپریشن کی وجہ سے ختم تو نہیں ہوئے ہیں لیکن وہ کافی کمزور ہوچکے ہیں اس لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) اب اُن دہشتگردوں کوبچانے کا راستہ تلاش کررہی ہے ۔ یہ تھا جمعیت علمائے اسلام (ف) کی صد سالہ جمیت کانفرنس کا پہلا مقصد کہ وہ اپنے دہشتگرد بھائیوں کو کیسے بچائے۔

    صد سالہ جمیت کانفرنس کے اعلان سے یہ تو سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کانفرنس میں سعودی عرب سے امام کعبہ اور سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیربھی شامل ہونگے، کانفرس کے منتظمین کا پروگرام ایسا تھا کہ اس کانفرنس میں زیادہ سےزیادہ لوگوں کو جمع کرکے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان نے کانفرنس کے پہلے دن جمعہ کو امام کعبہ سے جمعہ کی نمازپڑھوائی، بلا شبہ امام کعبہ کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں تعداد ہزاروں میں تھی ۔ ایک عام مسلمان کی خواہش ہوتی ہے کہ عمرہ یا حج کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جائے اور وہاں جاکر حرمین شرفین کے اماموں کے پیچھے اپنی نمازیں ادا کرئے، لیکن غربت کی وجہ سے شاید ہر ایک کے لیےایسا ممکن نہیں ہوتا ہے لہذا وہ اپنی مذہبی پیاس کوآئے ہوئے امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھ کر پوری کرلیتا ہے، اور مذہبی سوداگر عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سب ان کے سیاسی میلے میں شرکت کرنے آئے ہیں۔سعودی وزیر اور امام کعبہ دونوں سعودی حکومت کی اجازت سے آئے تھے۔ مولانا فضل الرحمان کا مقصد امام کعبہ کے زریعے عوام کا بڑا ہجوم دکھاکر سیاسی فائدہ اٹھانا تھا جبکہ سعودی وزیر اور امام کعبہ کا اس سیاسی میلے میں شرکت کا مقصد قطعی یہ نہیں تھا کہ وہ صرف نمازیں پڑھایں بلکہ ان کی آمد کا مقصدسعودی عرب کے سیاسی اور عسکری مفادات کا حصول تھا۔ معزز مہمانوں نےاس سیاسی کانفرنس میں پاکستان اور سعودی حکومتوں کی مرضی سے شرکت کی تھی۔

    سعودی وزیر اور امام کعبہ کے آنے کا مقصد تھا کہ ’’سعودی عرب کی قیادت میں بنے ہوئے 39 ملکوں کے’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ کی سربراہی سابق پاکستانی فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کریں اور سعودی عرب جن ملکوں کےخلاف ہے ان کے ساتھ فوجی جنگ میں پاکستانی فوج لڑئے‘‘۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بھی مذہب کا استمال ہوا ۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’ایک اسلامی فوجی اتحاد سعودی عرب کی سربراہی میں تشکیل دیاگیا جس میں پاکستان اور سعودی عرب دونوں شامل ہیں۔ بقول ان کے اس پلیٹ فارم پر مسلمان ملک یکجا ہوگئے ہیں، دنیا میں دہشت گردی اور فساد کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، جو دشمن بھی سامنے آئے گا اسلامی فوجی اتحاد اس کا مقابلہ کریگا۔امام کعبہ شیخ صالح بن ابراہیم آل طالب کا کہنا تھا کہ دین اسلام سلامتی اور امن کا دین ہے اور اس کا کسی دہشتگردی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،دہشت گردی کا سبب اسلام کی غلط تشریح ہے، پاکستان عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز ہے، امت کو متحد ہوکر مقدس مقامات کی حفاظت کرنا ہوگی، دہشت گردی ملک کی معیشت کو تباہ کرتی ہے، تمام علماء دہشت گردی کیخلاف کھڑے ہیں۔ امام کعبہ نے مزید کہا کہ پاکستان امت مسلمہ کی حفاظت کیلئے بھرپور کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امام کعبہ نے یہ بھی کہا کہ جنرل راحیل شریف دہشتگردی کی صورتحال کو سمجھتے ہیں اس لئے ان کا کردار اہم ہے اور وہ مسلم دنیا میں امن لائیں گے،فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد کسی بھی جگہ کام کرسکتا ہے اور راحیل شریف کا فوجی اتحاد کا سربراہ بننا پاکستانیوں کیلئے قابل فخر ہے‘‘۔

    سات سے نو اپریل کے اجتماع میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے زریعےمذہب کے نام پر اپنی دوکان سجائی اوراپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا،اس کانفرنس میں سعودی مہمانوں کو لانے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اسلام کی سچی پیروکار ہے۔ عام لوگ پوچھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کا بظاہر کوئی زریعہ معاش نہیں ہے، پھر بھی پجیرومیں گھومتے ہیں،اچھا کھاتے ہیں اور اچھا پہنتے ہیں، کیسے؟ان لوگوں کےلیےجواب یہ ہے کہ مولانا مذہبی چورن بیچنے کے اچھے دوکاندار ہیں۔سعودی مہمانوں کا اس سیاسی میلے میں آنے کا اپنا مقصد تھا وہ صرف نمازیں پڑھانا ہی نہیں تھا بلکہ ان کا اصل مقصدپاکستانی عوام کو اس بات پر قائل کرنا تھا کہ اسلام کے نام پر پاکستانی فوج کو سعودی عرب کی جنگ لڑنی چاہیے، جبکہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر معزز امام کعبہ نے شاید بحالت مجبوری کانفرس کے آخری دن دعا فرمائی جو مولانا فضل الرحمان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی معاشی اور سیاسی ضرورت تھی ورنہ یہ سعودی عرب کی سرکاری پالیسی کے خلاف تھی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف تو اپنی نئی ملازمت پر پہنچ چکے ہی، لیکن اگر نواز شریف حکومت نے سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کے لیے پاکستانی فوج کو بھیجا تو یہ پاکستان کی بدقسمتی ہوگی۔ مسلم ممالک کی تعداد 57 ہے جبکہ سعودی عرب کے مطابق اس اتحاد میں اب تک 41 ممالک شامل ہوئے ہیں۔ سعودی قیادت میں بننے والے ’’اسلامی فوجی اتحاد‘‘ میں ایران، عراق، شام اور دیگر شیعہ مسلک کے حامل ملک شامل نہیں ہیں اور پاکستان کےلیے یہ صورتحال کسی طور مناسب نہیں۔ ہمارئے دو پڑوسی بھارت اور افغانستان تو ہمارئے کھلے مخالف ہیں، ایک پڑوسی ایران بھی ہے جو پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی طرف جھکتا جارہا ہے۔ طالبان اور دوسرئے دہشتگرد ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں اس کے باوجود اگر پاکستان سعودی عرب کے فوجی اتحاد میں شامل ہوکر مشرق وسطی میں ہونے والی لڑائیوں میں شرکت کرتا ہے تو یہ پاکستانی حکمرانوں کی ایک بہت بڑی غلطی ہوگی ۔

    نوشہرہ میں 7 سے9 اپریل کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ کا اصل مقصد 2018 کے انتخابات کی تیاری اور اس کے ساتھ ہی دو بڑئے مقاصد اور بھی تھے، طالبان دہشتگردوں سے اپنی وفاداری کا اظہار اور سعودی عرب کے عسکری مقاصد کی مدد۔یہ کانفرنس جو جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ یوم تاسیس کے طور پر منائی گئی عوام کے ساتھ ایک کھلا دھوکا تھا ، کیونکہ ابھی سو سال مکمل نہیں ہوئے ہیں، باقی رہامولانا اورسعودی وفد کا مذہب کی آڑ میں پاکستانی عوام کا شکار تو پاکستانی عوام اب اس کھیل سے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ 7 سے9 اپریل کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ’’صدسالہ جمیت کانفرنس‘‘ دراصل کچھ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیےایک سیاسی میلہ تھا اور کچھ نہیں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ: اس مضمون کے دو حصے ہیں یہ دوسرا اور آخری حصہ تھا ۔
     
  22. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    کم از کم کرپٹ تو نیں ھے عمران خان
     
  23. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    میرا ایک سوال ہے مولانا ڈیزل سے۔۔۔
    اگر امریکہ خود کو مار ڈالے تو وہ کیا کہلائے گا؟؟؟

    تصویر کا صرف اور صرف ایک ہی رخ ہے وہ یہ کہ قاتل کون ، وہ ہیں وہ لوگ جو خود قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ آپ کی امریکہ کو شامل کرنے کی کوشش بالکل بے کار ہے۔ یہاں بات ہورہی ہے کتے کو شہید قرار دینے کی۔ وہ بھی ان طالبان ظالمان کے پس منظر میں جو پاکستانیوں کے قاتل ہیں۔ امریکی تو ان قاتلوں نے ایک بھی نہیں مارا۔
     
  24. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:

    اگر یہ ظالم شہید ہے۔ ۔ ۔ تو یقینا اس کے ہاتھوں قتل ہونے والے کرنل امام اور پاک فوج کے جوان یقینا مولانا فضلو کی نظر ٰ میں "مردار" ہی ہوں گے۔۔۔ چونکہ شہید کے مقابلے میں یہی کہا جا سکتا ہے۔۔۔
    اور ہاں وہ عوام بھی ان کی نظر میں "مردار" ہوں گے یقینا جو ان کے خودکش حملوں میں مارے گئے۔۔۔
    اللہ کسی کو عقل کا اندھا نہ کرے۔ آمین

    مولانا فضلو واجب القتل ھے
     
  25. ناصر إقبال
    آف لائن

    ناصر إقبال ممبر

    شمولیت:
    ‏6 دسمبر 2017
    پیغامات:
    1,670
    موصول پسندیدگیاں:
    346
    ملک کا جھنڈا:
    خبر ہے کہ ’’ جمعیت علماء اسلام(ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے ایک صحافی کے اس سوال کے جوا ب میں کہ ’’ کیا حکیم اللہ محسود ہلاک ہوا ہے یا شہید؟ کہا ’’ امریکہ اگر کسی کتے کو بھی ہلاک کردے تو میں اسے بھی شہید ہی کہوں گا‘‘مولانا صاحب کے اس بیان یا فتوے کواُن کا ’’اجتہاد‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے۔اب مولانا فضل الرحمن اور دوسرے علماء دین سے پوچھا جاسکتا ہے کہ’’ فرض کیا پاکستان کے کسی گلی محلے میں گھومنے پھرنے والا یا کوئی پالتو کُتا کسی امریکی سیّاح،مہمان یا سفارت کار کو کاٹ لے اور وہ امریکی اُس کتے کے کاٹنے سے مر جائے تو کیا اُس کتے کو ’’ غازی‘‘ کہاجاسکتا ہے ؟۔ہمارے یہاں گھوڑے کو تو پہلے ہی ’’غازی مرد‘‘ کہاجاتا ہے۔
    عام طورپر کُتے کو ناپاک جانور سمجھاجاتا ہے،لیکن ’’ اصحابِ کہف‘‘ کے کُتے کو قابلِ عزت سمجھاجاتاہے۔اصحاب کہف( وہ سات اشخاص) جو دقیانوس بادشاہ کے خوف سے غار میں چھپ کر تین سو نو برس تک سوتے رہے۔مولوی نور الحسن نیّر نے اپنی ’’نوراللغات‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ علماء نے اصحاب کہف کے کُتے کو انسان کے زمرے میں داخل کیا ہے‘‘ بہرحال مولانا فضل الرحمن کی طرف سے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کیا امریکی حملے سے ’’ شہید‘‘ ہونے والے کُتے کی نمازِ جنازہ اور باقاعدہ تجہیزو تکفین بھی ہوگی؟۔
     
  26. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاء اللہ آپ کی سوچ کو سلام

    امریکی مجاہدین امریکی غازی ڈرون کے ذریعے جن معصوم بچوں اور خواتین کا خون بہا رہے ہیں
    وہ آپ کی نظر میں دہشت گرد ہیں اور امریکہ یہاں پاکستان میں آکر ڈرون کے ذریعے اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشاں ہیں
    واہ واہ واہ

    آپ جن کا ذکر کر رہے ہیں وہ پاکستان کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ امریکی ٹریڈ سینٹر کا بدلہ لینے کے لیے وزیر ستان کو نشانہ پر لیا ہوا ہے
    اور پاکستان نے اپنی سلامتی اور بقا کو داؤ پر لگا کر چند ڈالروں کے لیے اپنوں کے قتل کی اجازت دی ہوئی ہے

    الحمد اللہ پاک آرمی نے بہت اچھی طرح اپنا کردار نبھایا ہے اور پاکستان میں انڈین اسرائیلی اور امریکی ایجنڈے پر کام کرنے والوں کا صفایا کیا ہے

    پاکستان کو صلہ مل رہا ہے اب امریکہ سے کہ پاکستان کو اب بلیک لسٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
     
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    لعنت ہو ایسے پاکستانیوں پر جو معصوم پاکستانی خواتین اور بچوں کو امریکی چمچہ گیری میں دہشت گرد گردانتے ہیں
    مساجد مدارس پر حملے سینکڑوں بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے
    خدا کرے کہ ایک ڈرون اس شخص کے بچوں پر گرے جو معصوموں کے خون کا مذاق اڑا تے ہیں
    حال ہی میں قندوز میں 450 دہشت گردوں پر افغانستان میں حملہ ہوا جن میں 101 حفاظ بچے تھے
    جو امریکن ٹریڈ سینٹر پر حملے میں شامل تھے
    فتح کا جشن آپ بھی مناؤ
     
  28. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    امریکا نے 2008 میں پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ کے گاؤں ڈمہ ڈولا میں بھی ایک مدرسے پر ڈرون حملہ کیا جس کے نتیجے میں 90 کے قریب بچے شہید ہو گئے تھے جب کہ پاکستان میں اب تک ہزاروں معصوم اور بے گناہ افراد ڈرون حملوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
     
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2010ء میں امریکی ڈرون جملوں سے 900افرادہلاک ہوئے ہیں
     
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    اکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2010ء میں امریکی ڈرون جملوں سے 900افرادہلاک ہوئے ہیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں