1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از واصف حسین, ‏21 اپریل 2011۔

  1. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:

    شاعر
    قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
    منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
    محفل نظم حکومت، چہرۂ زیبائے قوم
    شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
    مبتلائے درد کوئی عُضو ہو روتی ہے آنکھ
    کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
     
  2. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    شا عر
    جوئے سرود آفریں آتی ہے کوہسار سے
    پی کے شرابِ لالہ گوں میکدئہ بہار سے
    مست مۓ خرام کا سن تو ذرا پیام تو
    زندہ وہی ہے کام کچھ جس کو نہیں قرار سے
    پھرتی ہے وادیوں میں کیا دختر خوش خرامِ ابر
    کرتی ہے عشق بازیاں سبزئہ مرغزار سے
    جامِ شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتی ہے
    پست و بلند کرکے طے کھیتوں کو جا پلاتی ہے
    شاعر دل نواز بھی بات اگر کہے کھری
    ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرعِ زندگی ہری
    شانِ خلیل ہوتی ہے اس کے کلام سے عیاں
    کرتی ہے اس کی قوم جب اپنا شعار آزری
    اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
    خونِ جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری
    گلشن دہر میں اگر جوئے مۓ سخن نہ ہو
    پھول نہ ہو، کلی نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو​
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    یوم اقبال رح کی مناسبت سے اچھی شئیرنگ ہے۔
     
  4. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    نہ دیر میں نہ حرم میں خودی کی بیداری
    کہ خاوراں میں ہے قوموں کی روح تریاکی
    اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے
    بری ہے مستئ اندیشہ ہائے افلاکی
    تری نجات غم مرگ سے نہیں ممکن
    کہ تو خودی کو سمجھتا ہے پیکر خاکی
    زمانہ اپنے حوادث چھپا نہیں سکتا
    ترا حجاب ہے قلب و نظر کی ناپاکی
    عطا ہوا خس و خاشاک ایشیا مجھ کو
    کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی!
    :222: :222: :222: :222: :222: :222: :222: :222: :222:
     
  5. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    تن بہ تقدیر
    ضرب کلیم

    اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
    جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر
    'تن بہ تقدیر' ہے آج ان کے عمل کا انداز
    تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
    تھا جو 'ناخوب، بتدریج وہی ' خوب' ہوا
    کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
     
  6. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    معراج
    ضرب کلیم


    دے ولولۂ شوق جسے لذت پرواز
    کر سکتا ہے وہ ذرّہ مہ و مہر کو تاراج
    مشکل نہیں یاران چمن ! معرکہ باز
    پر سوز اگر ہو نفس سینۂ دراج
    ناوک ہے مسلماں ، ہدف اس کا ہے ثریا
    ہے سر سرا پردۂ جاں نکتہ معراج
    تو معنیِ و النجم ، نہ سمجھا تو عجب کیا
    ہے تیرا مد و جزر ابھی چاند کا محتاج
     
  7. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    زمین و آسماں
    ضرب کلیم


    ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
    اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
    ہے سلسلۂ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں
    اے سالک رہ! فکر نہ کر سود و زیاں کا
    شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی
    تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!
     
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    مسلمان کا زوال
    ضرب کلیم


    اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
    جو فقر سے ہے میسر، تو نگری سے نہیں
    اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور
    قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
    سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے
    زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
    اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
    قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں
     
  9. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    شکر و شکایت
    ضرب کلیم



    میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شکر ہے تیرا
    رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہوت سے پیوند
    اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
    لاہور سے تا خاک بخارا و سمرقند
    تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں
    مرغان سحر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
    لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے
    جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند
     
  10. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    ملائے حرم
    ضرب کلیم


    عجب نہیں کہ خدا تک تری رسائی ہو
    تری نگہ سے ہے پوشیدہ آدمی کا مقام
    تری نماز میں باقی جلال ہے، نہ جمال
    تری اذاں میں نہیں ہے مری سحر کا پیام
     
  11. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    توحید
    ضرب کلیم



    زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
    آج کیا ہے، فقط اک مسئلۂ علم کلام
    روشن اس ضو سے اگر ظلمت کردار نہ ہو
    خود مسلماں سے ہے پوشیدہ مسلماں کا مقام
    میں نے اے میر سپہ! تیری سپہ دیکھی ہے
    'قل ھو اللہ، کی شمشیر سے خالی ہیں نیام
    آہ! اس راز سے واقف ہے نہ ملا، نہ فقیہ
    وحدت افکار کی بے وحدت کردار ہے خام
    قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
    اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
     
  12. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    صبح
    یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
    نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
    وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
    ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
     
  13. واصف حسین
    آف لائن

    واصف حسین ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏3 جولائی 2006
    پیغامات:
    10,073
    موصول پسندیدگیاں:
    1,807
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    تقدیر
    نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت
    ہے خوار زمانے میں کبھی جوہر ذاتی
    شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں
    تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی
    ہاں، ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو
    تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی
    ’ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی
    براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی!‘
     
  14. ملک بلال
    آف لائن

    ملک بلال منتظم اعلیٰ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 مئی 2010
    پیغامات:
    22,418
    موصول پسندیدگیاں:
    7,511
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: 21 اپریل کے حوالے سے کلام اقبال سے اقتباس

    اپنی ذات پہچان لینا ہی علامہ اقبال کا وہ فلسفہ خود شناسی ہے جسے انہوں نے فلسفہ خودی کا نام دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال کی تمام تر شاعری خواہ فارسی میں ہو یا اردو میں ، ہمیں محبت اور امن کا پیغام دیتی ہے۔
    خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
    میں اس کا بندہ بنوں کا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔
    لیکن یہ مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان زیر آسمان اس آب و گل کی مادی دنیا سے نکل کر عالم ارواح کی ازلی اور ابدی زندگی سے اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ تواس میں ایسی روحانیت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پردہ داری ہاے عشق کے تمام راز محبت افشاں ہو جاتے ہیں۔ پھر زیر آسماں اپنی جولان گاہ سے نکل کر عشق اور محبت کی لازوال اقدار سے آشنا ہو جاتا ہے
    سرِ دست ابھی اقبال کا ایک کلام یاد آ رہا ہے جو پیش خدمت ہے۔ ساتھ میں خان صاحب کی آواز میں سنیں۔


    [​IMG]

    لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
    ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی

    تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
    اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی

    مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
    شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی

    شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
    رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

    عشق کی تیغ جگردار اڑا لی کس نے
    علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

    سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
    ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی

    تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
    ترے پیمانے میں ہے ماہ تمام اے ساقی


    [​IMG]


     

اس صفحے کو مشتہر کریں