1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

181 ممبر قومی اسمبلی نے ایک پیسہ بھی ٹیکس جمع نہیں کروایا

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از محسن ندیم, ‏12 مارچ 2013۔

  1. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    دی نیوز انویسٹی گیشن ونگ کے عمر چیمہ نے حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تمام ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں اور اراکین سینیٹ کے وہ انکم ٹیکس گوشوارے حاصل کئے جو ہمارے پارلیمنٹرینز نے خود حلفیہ طور پر گزشتہ جنرل الیکشن کے موقع پر الیکشن کمیشن کو جمع کرائے تھے۔ ان دستاویزات پر نظر دوڑائیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے اور بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ آخر پاکستان میں ٹیکس کلچر کیوں نہیں پنپتا، کون ٹیکس ریفارمز کے اصل مخالف ہیں اور آخر کیا وجہ ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو خود مختار ادارہ نہیں بنایا جاتا۔ سرشرم سے اس لئے جھکتا ہے کہ کس قسم کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہم نے اپنا مستقبل سونپ دیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر کس طرح غریب عوام کا استحصال کیا جا رہا ہے اور کس بے دردی سے عوام سے ان کے خون پسینہ کی کمائی کو نچوڑ نچوڑ کر امراء، اشرافیہ اور اہل اقتدار پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی پارٹی ہو اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں۔ ان کی تقریریں سنیں تو لگتا ایساہے کہ سارے زمانے کا درد انہی کے دلوں میں ہے اور شاید ان پارلیمنٹرینز سے زیادہ کوئی محب الوطن نہیں، مگر ذرا غور فرمائیے کہ ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے کھانے والے ہمارے حکمران اور ممبران پارلیمنٹ خود کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔
    تحقیق کے مطابق 2007 میں جمع کرائے گئے انکم ٹیکس کے متعلق قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام اراکین میں سے 61 فیصد نے یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے ایک پیسہ بھی انکم ٹیکس کی ضمن میں قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان میں سے کسی بھی فرد کو اُس پورے سال ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ انکم نہ ہوئی۔ 39 فیصد اراکین جنہوں نے انکم ٹیکس دیا ان میں محض 9 فیصد نے ایک لاکھ یا ایک لاکھ سے زیادہ انکم ٹیکس قومی خزانے میں جمع کرایا۔
    کل اراکین کی تعداد 1170 میں سے 707 نے ایک پیسہ بھی انکم ٹیکس نہیں دیا، تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے 342 اراکین میں سے 181 ایم این ایز نے کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔ بقیہ 161 قومی اسمبلی ممبران میں سے صرف 43 اراکین نے ایک لاکھ یا اس سے زائد انکم ٹیکس سال 2007 میں جمع کرایا۔ سینیٹ کے کل 100 اراکین میں سے 48 سینیٹرز نے ایک پیسہ انکم ٹیکس نہیں دیا جبکہ بقیہ 52 میں سے صرف 19 سینیٹر نے ایک لاکھ یا اس سے زائد سالانہ انکم ٹیکس دیا۔ پنجاب اسمبلی کے کل 371 اراکین میں سے 209 ممبران نے کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔ 162 انکم ٹیکس دہندگان میں محض 34 اراکین پنجاب اسمبلی نے ایک لاکھ یا اس سے زائد سالانہ انکم ٹیکس قومی خزانہ میں جمع کرایا۔ اراکین سندھ اسمبلی کی کل تعداد 168 میں سے 123 ممبران نے کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔ بقیہ 45 اراکین میں سے صرف 5 فیصد نے ایک لاکھ روپے یا اس سے زائد سالانہ انکم ٹیکس دیا۔ خیبر پختونخواہ میں کل ممبران کی تعداد 124 ہے مگر انکم ٹیکس دینے و الوں کی تعداد صرف 29 ہے۔ اس صوبے میں الیکشن کے وقت صرف تین ایسے اراکین تھے جنہوں نے ایک لاکھ سے زیادہ انکم ٹیکس کے طور پر دیا۔ بلوچستان اسمبلی میں کل 65 اراکین میں سے 51 ممبران نے اس سال کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا جبکہ اس صوبائی اسمبلی میں صرف ایک رکن ایسا ہے جس نے اس سال ایک لاکھ روپے سے زائد رقم انکم ٹیکس کے طور پر جمع کروائی۔ ایک اندازہ کے مطابق ایک رکن قومی اسمبلی پر لاکھوں روپے مہینے کا خرچ ہوتا ہے جبکہ وزیر اعظم، وزراء، وزرائے اعلیٰ وغیرہ پر اربوں روپے قومی خزانہ سے سالانہ خرچ کئے جاتے ہیں۔ آئیں دیکھیں کہ ہمارے بڑے بڑے پارلیمنٹیرینز نے اُس سال کتنا انکم ٹیکس دیا۔
    وزیراعظم پاکستان اور ملتان کے مخدوم زادے یوسف رضا گیلانی اور ان کے 25 وفاقی وزراء نے 2007 میں قومی خزانے میں ایک دھیلا بھی انکم ٹیکس کے ضمن میں جمع نہیں کروایا۔ان میں ایسے وزراء بھی شامل ہیں جو کروڑوں، اربوں کے مالک ہیں۔ انکم ٹیکس نہ دینے والوں میں مخدوم امین فہیم، نذرمحمد گوندل، عبدالقیوم جتوئی، مخدوم شہاب الدین، رحمن ملک، میاں منظور وٹو، ہمایوں کرد، شہباز بھٹی، اسرار اللہ زہری، غلام احمد بلور، حامد سعید کاظمی، اعظم سواتی، لال محمد خان، نجم الدین خان، عطاء الرحمن، شاہد حسین بھٹو، نور الحق قادری،ارباب محمد ظاہر، غلام فرید کاٹھیا، حنا ربانی کھر، طارق انیس، ڈاکٹر آیت اللہ درانی اور صمصام بخاری شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پانچ وزراء ایسے ہیں جنہوں نے پچھلی اسمبلی میں بحیثیت ممبر وصول ہونے والی تنخواہ پر ٹیکس دیا مگر اپنے ذاتی کاروبار اور منافع سے ایک پیسہ انکم ٹیکس ادا نہ کیا۔ ان وزراء میں راجہ پرویز اشرف، ثمینہ خالد گھرکی، پیر آفتاب، شاہد جیلانی اور امتیاز صفدر وڑائچ شامل ہیں۔
    ٹیکس چوری اور کرپشن کی بات کرنے والے قمر الزمان کائرہ نے صرف 7999 روپے انکم ٹیکس جمع کرایا۔ کچھ دوسرے وزراء میں سید ممتاز گیلانی نے 1203 روپے، ملک عماد اعوان نے 8064 روپے اور رانا فاروق سعید نے 2280 روپے سالانہ انکم ٹیکس دیا۔ کروڑوں میں فیس لینے والے بابر اعوان بھی ایک لاکھ سے کم انکم ٹیکس دینے والوں میں شامل ہیں۔ وفاقی کابینہ میں صرف 13ایسے وزراء شامل ہیں جنہوں نے 50000 سے ایک لاکھ کے درمیان انکم ٹیکس دیا۔ ویسے خبروں میں زیادہ نظر نہ آنے والے وزراء مسعود عباس دو کروڑ اور شگفتہ جمانی 24 لاکھ روپے انکم ٹیکس جمع کرا کر نمایاں رہے۔
    اصولوں کے علمبردار اور ولی باغ کے سپوت اسفند یار ولی اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی انکم ٹیکس کے ضمن میں ایک دھیلا قومی خزانہ میں جمع نہیں کروایا۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے 39120 روپے انکم ٹیکس دیا جبکہ چوہدری پرویزالٰہی نے اس سال 98832 روپے انکم ٹیکس جمع کروایا۔ چوہدری شجاعت علی نے 2007 میں 682500روپے انکم ٹیکس جمع کروایا۔
    وفاق میں اگر وفاقی حکومت کے سربراہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2007 میں ایک پیسہ انکم ٹیکس کے طور پر قومی خزانہ میں جمع نہیں کروایا تو صوبائی وزرائے اعلیٰ کی صورتحال بھی محض شرمندگی کے علاوہ کچھ نہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف اور خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے 2007 میں کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا احسان کہ انہوں نے 225 روپے انکم ٹیکس دیا۔ اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے 2008 میں 1492 روپے انکم ٹیکس جمع کر قوم پر مہربانی کی۔
    یہ سب کچھ پڑھ کر کیا ایسا نہیں لگتاکہ انکم ٹیکس دینے والے لوگ بے وقوف اور ٹیکس چور عقلمند ہیں۔ جب اسمبلیوں میں اور اونچے اونچے ایوان اقتدار میں بیٹھنے والے خود ٹیکس چوری کرتے ہوں تو پھر عام لوگوں سے یہ توقع کیوں کی جائے کہ وہ حکومت کو ٹیکس ادا کریں۔ ان حالات میں موجودہ پارلیمنٹ اور حکمرانوں سے اس بات کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے امراء اور اشرافیہ سے ایمانداری کے ساتھ ٹیکس وصول کر کے غریب عوام اور متوسط طبقوں پر خرچ کریں گے۔ ایسے حکمرانوں کا سارا زور کیوں کرIndirect ٹیکسوں پر نہ ہو۔ ان کو کیا فکر کہ indirect ٹیکسوں کے ذریعے پیدا ہونے والی مہنگائی سے عوام کی کیا حالت ہو چکی ہے۔ آر جی ایس ٹی کے نفاذ سے اگرچہ بڑے بڑے کاروباری لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کئے جانے کا امکان ہے مگر یہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے جب اسمبلیوں اور بڑے بڑے حکومتی عہدوں پر بیٹھنے والے سیاسی رہنما خود ٹیکس نہ دیتے ہوں۔ اس تناظر میں اگر کوئی عام شخص یا کاروباری طبقہ اس وجہ سے انکم ٹیکس دینے سے انکاری ہے کہ حکمران طبقہ اور سیاستدان خود ٹیکس دینے کی بجائے قومی خزانے کو لوٹنے میں لگے ہیں اور عوام کی فلاح کے لئے کچھ نہیں کرتے تو ایسی توجیہات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان پہلے ہی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں ٹیکس دہندگان کی شرح انتہائی کم ہے۔ ٹیکس ریفارمز کی بہت بات کی جاتی ہے مگر ایسی حکومتیں اور اسمبلیاں جو خود ٹیکس نادہندگان سے بھری پڑی ہوں کیسے ایسے کسی ریفارمز کے نفاذ میں مخلص ہو سکتی ہیں۔ عوام کا خون چوسنے والوں سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو اس طرح خود مختار بنا دیں گے کہ وہ طاقتور سے طاقتور ٹیکس چور کو بھی پکڑ سکے۔
    http://e.jang.com.pk/03-12-2013/lahore/pic.asp?picname=1535.gif
     
  2. محسن ندیم
    آف لائن

    محسن ندیم ممبر

    شمولیت:
    ‏24 نومبر 2011
    پیغامات:
    196
    موصول پسندیدگیاں:
    45
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
     
    پاکستانی55 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    ان کو ووٹ دے کر اسمبلی میں لایا گیا تو یہ اسی طرح لوٹ مار کریں گے
     

اس صفحے کو مشتہر کریں