1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

1مئی ۔مزدوروں کاعالمی دن

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 مئی 2008۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    یکم مئی پوری دنیا میں مزدوروں کے عالمی دن سے منایا جاتاہے ،جلسے اور ریلیاں نکالی جاتیں ہیں آئیں زرا اس دن کی جڑ تک جائیں کہ کب اور کیسے یہ دن شروع ہوا اور آج تک بچارے مزدوروں کو بنیادی حقوق ملے کہ نہیں
    مزدور تحریک بنیادی طور پر 1860ء سے شروع ہو چکی تھی جو مختلف جوروستم کے مراحل طے کرتے ہوئے 1886ء کو اسٹارک ہارویسٹر کے 80ہزار مزدوروں نے اپنے مطالبات حکومت تک پہنچانے کے لئے احتجاج شروع کیا۔ فیکٹریوں میں دوران کام مزدور محنت طلب کام کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے تھے اور مزدوروں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ تنخواہ میں اضافہ کیا جائے۔

    ان مطالبات کے سلسلے میں دوسرے روز یکم مئی 1886ء کو بھی شکاگو کے سارے کارخانوں میں مکمل ہڑتال رہی۔

    3مئی کو ہڑتالی مزدوروں نے بہت بڑا جلسہ کیا جس میں سرمایہ دار نے اپنا رنگ دکھایا، اس جلسے میں پولیس نے بلاوجہ فائرگ کی جس میں 5 مزدور ہلاک ہو گئے۔ان مزدوروں کی المناک موت پر 4 مئی کو شکاگو شہر کے مارکیٹ چوک ایک اور بڑا جلسہ اور مزدور ریلی ہوئی۔ مزدور لیڈروں نے اس جلسے میں 3 مئی کو ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ضمن میں احتجاجی تقاریر کیں۔ اسی اثناء میں ایک پولیس آفیسر کیپٹن بون اسلحہ سے لیس 180 سپاہیوں سمیت جلسہ گاہ میں داخل ہوا اور جلسہ ختم کرنے کا حکم دیا۔

    اس وقت جلسے کے آخری مقرر سیموئیول فلیڈن تقریر کر رہے تھے اور انکی تقریر کے دوران ہی جلسہ گاہ کے قریب ایک بم دھماکہ ہوا جس سے چند پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ کیپٹن بون نے طیش میں آکر مزدوروں پر گولیاں چلانے کا حکم دیا۔ دہشتگردانہ انداز کی فائرنگ سے مزدوروں کا خون سینوں سے نکل کر زمین پر بہنے لگا۔ ایک مزدور نے اپنی قمیض خون میں ڈبو کر اس کا جھنڈا بنا دیا (اسی وقت سے مزدوروں کے جھنڈے کا رنگ سرخ ہے) ۔

    ہر طرف خون ہی خون اور تڑپتی ہوئی لاشیں تھیں لیکن مزدوروں کے عزائم پختہ تھے خون سے تر جھنڈا لہرا رہا تھا۔اس سانحہ میں 11 مزدور ہلاک ہوئے جن میں دو عورتیں اور ایک بچہ بھی شامل تھا۔

    پولیس نے آٹھ مزدور لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ عدالتی کاروائی شروع ہوئی تو بیشمارعدالتی بد دیانتیاں سامنے آئیں۔ اس عدالت نے چار مزدور لیڈروں ، 1ڈی فیشر، 2 اینجل، 3اسپائر اور 4پرسٹر کو دہشتگرد قرار دے کر چار کو پھانسی اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی۔

    ان چاروں مزدوروں نے موت کو گلے لگایا، اسپائر نے کہا “ غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو ورنہ ان کی تلواریں بلند ہوں گی۔“
    اینجل کے الفاظ بھی امر ہوگئے “ تم ہمیں مار سکتے ہو مگر ہماری تحریک ختم نہیں کرسکتے“
    فیشر نے موت کی سزا تسلیم کرتے ہوئے کہا “ ہم خوش ہیں کہ ایک اچھے مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں“
    پریسٹر نے مرنے سے پہلے کہا “ تم اس آواز کو بند کر سکتے ہو لیکن وقت بتائے گا کہ ہماری خاموشی ہماری آواز سے زیادہ طاقتور ہو گی“


    یوں آج بھی ان مزدروں کی قربانی کی یاد میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے جلسے جلوس ہوتے ہیں۔ کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ لیکن بے چارا مزدرو آج بھی انہی مسائل کا شکار جن سے وہ آج سے صدیوں پہلے دوچار تھا
    پاکستان آج بھی دنیا کے اُن ممالک میں شامل ہے جہاں مزدور آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں
     
  2. زاہرا
    آف لائن

    زاہرا ---------------

    شمولیت:
    ‏17 نومبر 2006
    پیغامات:
    4,208
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    افسوس صد افسوس ۔
     
  3. مریم سیف
    آف لائن

    مریم سیف ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏15 جنوری 2008
    پیغامات:
    5,303
    موصول پسندیدگیاں:
    623
    ملک کا جھنڈا:
    افسوس۔۔ :rona:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں