1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

”قطرہ قطرہ قلزم“ سے اقتباس۔

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از خانمجان, ‏7 فروری 2011۔

  1. خانمجان
    آف لائن

    خانمجان ممبر

    شمولیت:
    ‏4 فروری 2011
    پیغامات:
    7
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    جمہوریت ایک ایسا نظامِ سیاست ہے،جس کی تعریف بس سے باہر ہے۔ دنیا والوں کے ہاں اس کی تعریف یہ ہے کہ عوام کی لائی ہوئی،عوام کی حکومت،عوام کی خاطر۔ اگر دینی معاشرے میں طرزِ حکومت کی تعریف مقصود ہو،تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دینی حکومت دراصل اللہ کی حاکمیّت،اللہ کے بندوں پر،اللہ کی خاطر۔ دونوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔ جمہوریت اپنے تمام تر فوائد کے باوجود کبھی دینی حکومت نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا دینی معاشرے میں جمہوری طرزِحکومت کا قیام ناممکن ہی نہیں،نامناسب اور ناروا ہے۔اوّل تو اللہ کا ہونا ہی انسانوں کے ووٹوں سے نہیں۔ اللہ خود جمہوریت کے مزاج سے بہت بلند ہے۔ لوگ مانیں یانہ مانیں،وہ اللہ ہے۔ اللہ کے پیدا کیے ہوئے انسان اللہ کو نہیں مانتے، اُس کی حاکمیت کو اور اس کے اقتدارِاعلیٰ کو فرق نہیں پڑتا۔ زمین وآسمان کے لشکر باغی بھی ہوجائیں،تو بھی اللہ مالک رہتا ہے،خالق رہتا ہے،مالکُ الملک رہتا ہے۔ فانی مخلوق کو باقی رہنے والی ذاتِ مطلق کے وجود اور اُس کی حکومت کے بارے میں ووٹ دینے کا حق ہی کیا ہے؟کسی انسان کی مرضی ہو یا نہ ہو،اللہ اللہ ہی ہے حی ّ وقیوم،قائم ودائم،اعلیٰ وارفع،قیّم،قدیم۔ اللہ کا مزاج جمہوریت سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی اکثریت کے سامنے جواب دہ نہیں۔ جبھی تو وہ اللہ ہے۔ اللہ تو اللہ ہے ہی سہی،اللہ کے پیغمبر بھی انسانوں کے ووٹ اور کثرتِ رائے سے نہیں بنتے۔ جس طرح اللہ اللہ ہے،اُسی طرح پیغمبر بھی پیغمبر ہی ہے۔ کثرتِ رائے کا کسی نبی کی نبوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ تو پیغمبروں کی بات ہے۔ اب ذرا غور کریں پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں۔ آپ امام الانبیاءہیں اور آپ کا مرتبہ نبیوں کے ووٹ کا محتاج نہیں۔آپ جو کچھ بھی ہیں،انسانوں کی رائے سے نہیں،اپنے خدا داد مرتبے سے ہیں۔اگر کوئی شخص آپ جیسی صفات بھی رکھتا ہو اور اُس کے ماننے والوں کی کثیر تعداد بھی ہو، تو بھی اُس کا مرتبہ آپ کے مرتبے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ زیادہ سے زیادہ وہ آپ کا امتی ہونے کا شرف حاصل کرسکتا ہے۔ پیغمبر انسانوں کی رائے یا اپنی صفات کے بل بوتے پر پیغمبر نہیں۔ وہ اللہ کے فیصلے سے پیغمبر ہیں۔ اللہ کے دیے ہوئے مرتبے سے،انسانوں کی رائے یا فرشتوں کی کثرتِ رائے سے نہیں۔ ذاتِ مطلق کی مرضئی مطلق سے آپ پیغمبر ہیں۔ آپ کا مقام انسانوں کا دیا ہوا نہیں،اللہ کی عطا سے ہے۔پیغمبر کے پیغمبر ہونے میں جمہوریت کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں۔ آئیے اسلام کی طرف۔ مسلمانوں کی رائے سے دینِ اسلام ،اسلام نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے،اسلام اسلام ہے۔ یہ دین کثرتِ رائے کے احترام سے دین نہیں بنا۔ یہ اللہ کے حکم سے ہے۔ اللہ کی مرضی سے، اللہ کی عطا سے،اللہ کے فیصلے سے۔ جمہوریت کا اس میں دور تک دخل نہیں۔ اگر دنیا کی کثیر آبادی غیر مسلم ہو،تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ اسلام خدانخواستہ غلط دین ہے۔ اسلام سچا دین ہے۔ اسلام کے ماننے والے اقلیت میں ہوں،تب بھی یہ سچا ہے۔ اس کے ماننے والے ختم بھی ہوجائیں،تو بھی یہ دین سچا دین ہے۔ جمہوریت دین کے معاملے میں دخل نہیں دے سکتی۔اسلام سے پہلے جتنے دین تھے، انہیں جمہوری رائےعامہ کے حوالے کرکے ختم کردیا گیا۔ انہیں کثرتِ رائے اور مطلب پرست حکمرانوں نے ہی ختم کیا۔ اسلام نہ کبھی بادشاہ کے فیصلے سے بدل سکتا ہے،نہ عوام کی کثرتِ رائے سے۔ اسلام میں کسی مارٹن لوتھر کی گنجائش ہی نہیں۔ اِس دین کو ”دینِ الہٰی“ بنانے کا مشورہ دینے والے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق کردئیے گئے۔ اِس دین میں نہ کوئی ترمیم ہوسکتی ہے نہ تخفیف، یہ ہے ویسے کا ویسا جیسے تھا۔ کثرتِ رائے کو احکامِ دین کے تابع رہنا پڑے گا۔ جمہوریت اور”دینیت“ ہم سفر نہیں۔ اگر عوام کی کثیر تعداد صداقت سےعاری ہو، تو دینی نظامِ صداقت کے لیے ووٹ کون دے گا؟ جھوٹے معاشرے میں سچا انسان کس سے ووٹ مانگے گا؟روٹی، کپڑے اورمکان کے نام پر جو جمہوریت قائم ہوئی تھی، اس کا عمل اور اس کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں۔ اسلام کے نام پر جمہوریت کا قیام دراصل اسلام اور جمہوریت دونوں سے مذاق ہے۔ اسلام اسلام ہے اور جمہوریت جمہوریت۔ اسلام صداقت پر مبنی ہے اور صداقت اکثریت میں نہیں۔ جمہوریت اکثریت کی حکومت ہے اور اکثریت دین سے بیزار ہے۔غور طلب بات ہے کہ جمہوریت کے ذریعے دینی معاشرہ کیسے قائم ہوگا؟ دینی حکومت کیونکر قائم ہوگی؟ اگر اکثریت غلط فیصلہ کرے، تو انجام دین کے حق میں کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر یزید اور اُس کے ساتھی اکثریت میں ہوں، تو بھی صداقت امامِ عالی مقام(علیہ السلام) کےعمل میں ہے۔ یہی بات تو یزید کے ماننے والوں کو سمجھ میں نہیں آئی کہ حسین(علیہ السلام) تنہا ہے اور سچا ہے۔ یزیدی اکثریت میں ہیں اور جھوٹے ہیں۔ اُن کی حکومت ہے اور وہ جھوٹے ہیں۔صداقت اور امامت کے کربلا سے گزرنے کی وجہ ہی یہی ہے کہ اکثریت والے کثرتِ رائے کی وجہ سے بھول گئے کہ اسلام کثرتِ رائے کی بات نہیں، اطاعت و محبت ِ مصطفی کی بات ہے۔ اللہ سے محبت،حضور کی اطاعت میں ہے اور حضور کی محبت اللہ کی اطاعت میں ہے۔ اگر ووٹ کو ضرورت بنا دیا گیا تو سچ اور جھوٹ کی تقسیم ختم سی ہو جائے گی ، ایک قادیانی کا ووٹ ایک مفتی دین کے ووٹ کے برابر ہو جائے گا، غضب ہو جائے گا، جھوٹا ووٹ سچے ووٹ کے برابر۔۔۔ !آج تک اسلام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ لوگوں سے رائے مانگی جاتی رہی۔ ورنہ مسلمانوں پر اسلام کے نافذ نہ ہونے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اللہ کے بندوں پر اور اللہ کے ماننے والوں پر،اللہ کے دین کو نافذ نہ کرنے کی وجہ؟ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلطی ضرور موجود ہے۔ کیا جمہوریت اس غلطی کو دریافت کرکے اسے دور کرے گی؟ قطعاً نہیں ۔ جمہوریت اپنا نفاذ کرے گی، دین کا نہیں اور نتیجہ کیا ہوگا؛ اس کا سمجھنا مشکل نہیں۔جمہوریت کا سفر جلسوں کا سفر ہے، جلوسوں کا سفر ہے،تقریروں کا سفر ہے،جھوٹ سچ ملا کر بولنے کا سفر ہے، حکومتِ سابقہ کی مخالفت کا سفر ہے، گٹھ جوڑ اور توڑ پھوڑ کا سفر ہے۔ جس طرح امن دو جنگوں کے درمیانی وقفے کا نام ہے، اسی طرح کہیں جمہوریت مارشل لاء اورمارشل لاء کے درمیانی عرصے کا نام نہ ہو۔ جمہوریت جوہر شناس نہیں۔ جمہوریت صرف مقدار کی قائل ہے، معیار کی نہیں۔جمہوریت سقراط کو زہر پلاتی ہے، منصور کو سُولی چڑھاتی ہے، عیسیٰ کا احترام نہیں کرتی۔ جمہوریت کے ذریعے کوئی مفکر ،امام ،دانشور، عالمِ دین، ولی یا مردِحق آگاہ برسرِ اقتدار نہیں آسکتا اور جو لوگ جمہوریت کے مہنگے راستوں سے ایوانِ اقتدار میں آتے ہیں اُن کو دینی حکومت کے قیام سے کیا غرض! جب تک عوام میں حق پسند ،حق طلب اور حق آگاہ لوگوں کی کثرت نہ ہو، جمہوریت ایک خطرناک کھیل ہے!!
    واصف علی واصف کی کتاب ”قطرہ قطرہ قلزم“ سے اقتباس۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں