“تُم ھو“آسماں تُم ھو زمیں تُم ھو ھے یقیں اِن میں کہِیں تُم ھو جس جگہ خُوشبُو برستی ھے ہم جانتے ہیں وہیں تُم ھو ہم محبت سے جسے چاہیں وہ محبت کا نگیں تُم ھو تعریف ھو نہ سکے تیری جانِ مَن اِتنی حسِیں تُم ھو روشنی جس کی رھے ھر سُو وہ حسِیں نُورِ جبیں تُم ھو دِل چِیر ڈالُوں رقیبوں کے جو پتا ھو کہ یہیں تُم ھو جو طلب میری بڑھا ڈالے وہ صدائے نغمگیں تُم ھو بے فکر ہیں ہم تُجھے دے کر اب مِرے دِل کے امِیں تُم ھو ھے تِرا گھر تو دِلِ سُلطاں ہاں مِرے دِل کے مکِیں تُم ھو ۔
سلطان صاحب بہت خوب آپ کی دوسری غزل پڑھی ہے بہت پسند آئی ہے۔ خصوصا ان میں نغمگی بہت عمدہ ہے۔ اور وہ کون ہے جس کے لیے اتنی خوبصورت غزل لکھی ہے :lol:
عبدالجبار صاحب، ثناء صاحبہ، اشرف نقوی صاحب، السلامُ علیکم! آپ سب دوستوں کی ریپلائیز اور تبصروں کیلئے جزاک اللہ۔ ثناء صاحبہ! آپ نے جو سوال پوچھا ھے اُسکا جواب یہ ھے کہ: میں اِک ساز تھا بےصدا مگر وہ بن گئی ھے آواز مِری میرا فخر وہ ھے مان مِرا اُس کی محبت پرواز مِری اِس سے زیادہ اب کیا کہُوں وہ زندگی کی تگ و تاز مِری۔ والسلام اللہ نگہبان