1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘‘ سے نہر سویز تک ...طیبہ بخاری

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏13 اپریل 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ’’ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘‘ سے نہر سویز تک ...طیبہ بخاری

    اس نہر کی کھدائی میں سوا لاکھ مصریوں نے موت کو گلے لگایا
    نہر سویزکا نام تو سب نے سنا ہوگا ، اس کی مختصراً تاریخ بیان کی جائے تو یہ مصر کی ایک سمندری گزرگاہ ہے جو بحیرہ ٔروم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے اس کے بحیرہ ٔروم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرۂ قلزم کے کنارے پر سوئز شہر موجود ہے۔ یہ نہر 163 کلومیٹر طویل اور کم از کم 300 میٹر چوڑی ہے، اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیاء کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ ا سکی تعمیر کے آغاز کے بارے میں دو حوالے ملتے ہیں ، ایک جگہ تاریخ 25اپریل 1859ء اور دوسری جگہ 25ستمبر 1859ء ملتی ہے، اس نہر کی تعمیر کیلئے شروع میں ہزاروں یورپی کارکن لائے گئے پھر جب وہ بھی کم پڑ گئے، تو اس دور کے مصری حکمران محمد سعید نے 1861ء میں بالائی مصر سے مزید تقریباً 10 ہزار کارکنوں کو زبردستی بلوایا، جنہوں نے اس منصوبے میں مدد کی۔ اس کے ایک سال بعد اس پروجیکٹ پر کام کرنے کیلئے مزید 18 ہزار کارکن بلانا پڑے نہر سویز کی کھدائی کے بارے میں بہت سی زبانوں میں کافی مواد موجود ہے۔ مستند معلومات کے مطابق اس نہر کی کھدائی میں1 ملین مصریوں نے حصہ لیا جن میں1 لاکھ 20 ہزار مزدورمختلف حادثات میں کھدائی کے دوران لقمۂ اجل بنے۔ اس نہر کی کھدائی کا سلسلہ 10 سال تک دن رات جاری رہا۔پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک بڑی تقریب کے ساتھ اس نہر کا افتتاح17 نومبر 1869ء کوہوا ، نہر کے باقاعدہ افتتاح کے وقت مصری حکمران اسماعیل پاشا کا یہ جملہ تاریخ کیسے بھلا سکتی ہے کہ ''میرا ملک اب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا، میں نے اسے یورپ کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔‘‘
    عالمی سطح پر فن تعمیرات کا عجوبہ کہلانے اور دو سمندروں کو جوڑنے والی نہر سویز کے افتتاح کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن مصر کا اپنی اس ریاستی ملکیت پر انحصار آج تک کم نہیں ہوا بلکہ ہر گزرتے دن کیساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ اس نہرکے قومیائے جانے کی تاریخ بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے ، مختصراً ذکر کریں تو بحیرۂ روم اور بحیرہ ٔاحمر نامی دو سمندروں کو ملانے والے اور انسانوں کے تعمیر کردہ اس آبی راستے کو اکتوبر 1956ء میں اس دور کے مصری صدر جمال عبدالناصر نے ریاستی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا، اس پر مصر میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے لیکن یورپ میں ناامیدی، مایوسی اور ناراضی کے ملے جلے ردعمل نے جنم لیا۔ مصر میں قومیائے جانے سے پہلے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ شروع میں برطانیہ اور فرانس نے اس دور کی قاہرہ حکومت کو مذاکرات کے ذریعے اس اقدام سے روکنے کی بہت کوشش کی ، مذاکراتی کوششوں کی ناکامی کے بعد برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے مصر کے سویز کینال والے علاقے پر قبضہ کر لیا جس کے بعد معاملہ تنازعے کی صورت میں اقوام متحدہ تک جا پہنچا ۔ امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے باعث فرانسیسی، برطانوی اور اسرائیلی دستے اس مصری علاقے سے واپسی پر مجبور ہو ئے۔
    نہر سویز کا بحران مصر کے 40 جہاز ڈوبنے پر اس وقت ختم ہوا جب امریکہ، روس، اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو واپس جانے پر مجبور کیا۔1967 ء میں نہر کو بری طرح ان 6 روز کے دوران نقصان پہنچا جس میں مصر اور عرب ممالک نے اسرائیل کا مقابلہ کیا۔دونوں جانب فوجوں کی جانب سے ڈیرے ڈالنے کی وجہ سے یہ 1973 ء کی جنگ یوم کیپور تک بند رہی۔مصر نے جنگ یوم کیپور کے بعد نہر سویز کا مکمل کنٹرل حاصل کیا اور جون 1975 ء میں اس کو دوبارہ کھول دیا۔
    193 کلومیٹر (120 میل) لمبا یہ آبی راستہ سویز کینال اتھارٹی کی ملکیت اور مصر کیلئے زر مبادلہ کا اہم ذریعہ ہے۔ نہرسویز یورپ اور ایشیاء کے درمیان تیز ترین روٹ سمجھا جاتا ہے جہاں سے عالمی بحری ٹریفک کا 15 فیصد گزرتا ہے۔ اس نہر کی وجہ سے صرف مصر ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں حیران کن تبدیلیاں آئیں ،نہر سویز کی تعمیر نے اس دور کے مصر کو یکسر بدل کر رکھ دیا نہر کنارے آباد ہونیوالے شہروں میں سے پورٹ سعید ایسا بڑا تجارتی مرکز بنا جس کا رابطہ ساری دنیا کے تجارتی نیٹ ورک سے قائم ہو گیا شروع میں اس نہر کو ''ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘‘ کا نام دیا گیا کیونکہ اس کی وجہ سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ تقریباً 20 ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر رہ گیا تھا۔ اس سے جہاز رانی کی بین الاقوامی صنعت کو بہت ترقی ملی۔
    نہر سویز کو مزید چوڑا کرنے کے منصوبے پر کام 2015ء میں مکمل ہوا اس کے بعد سے اس آبی راستے کی ٹرانسپورٹ کی اہلیت دگنی ہوگئی پہلے اگر روزانہ تقریباً صرف 49 بحری جہاز ہی اس نہر سے گزر سکتے تھے تو آج یہ تعداد 100 ہو گئی ہے۔مصر کیلئے یہ نہر مالیاتی حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے، مالی سال 2018ء اور 2019ء میں قاہرہ کو اس سے ہونے والی آمدنی کا تخمینہ تقریباً 6 بلین ڈالرز لگایا گیا تھا۔
    گذشتہ ماہ کے آخری عشرے میں جب ایک دیو ہیکل مال بردار بحری جہاز''ایورگیون‘‘ جب اس نہر میں پھنسا تو ایک بار پھر یہ نہر ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی۔چین سے نیدرلینڈز کے شہر راٹرڈیم جانے والا یہ 400میٹر لمبا بحری جہاز تیز ہواؤں کے باعث توازن اور سمت برقرار نہ رکھ سکا اور نہر کو بلاک کرنے کا سبب بن گیا۔
    ایورگیون کے جاپانی مالک نے عالمی تجارت میں پیدا ہونے والے خلل پر معذرت کی۔6 روز کی مشقت کے بعد اس مال بردار جہاز کونکال لیا گیا۔ایورگیون کے دھنسنے اور بحری ٹریفک جام ہونے کے بعد اب نہر سویز سے متعلق بڑا قدم اٹھایا گیا ہے ،مصر نے دنیا کی اس مصروف ترین تجارتی گزرگاہ کو چوڑا کرنے پر غور شروع کر دیا ہے اس سلسلے میں سویز کینال اتھارٹی کے چیئرمین اسامہ ربی کہتے ہیں'' نہر کے شپنگ چینل کو چوڑا کرنے پر غور ہو رہا ہے، چینل کی بندش سے ہونے والے نقصانات اور ہرجانے کی مالیت1 بلین ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔‘‘
    آخر میں آپ کو بتاتے چلیں کہ نہر سویز کی کھدائی میں سوا لاکھ مصریوں نے جان کی قربانی دی لیکن ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور آج صرف اس ایک نہر کے باعث مصر پوری دنیا میں خاص مقام رکھتا ہے ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں