1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’مسلم مسجد کوبہ‘‘۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

'متفرقات' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏22 دسمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ’’مسلم مسجد کوبہ‘‘۔۔۔۔۔۔ صہیب مرغوب

    ایٹمی حملے اور قدرتی آفت میں جاپانیوں کی پناہ گاہ

    کوبہ میں مسلمان قلیل تعداد میں آباد تھے۔ جاپان نے کشادہ دلی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا ۔بیسویں صدی کے اوائل میں جاپانی شہر کوبہ کی حیثیت ایک چھوٹے سے قصبے جیسی تھی ،آج یہ بڑی بندرگاہ کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ بندرگاہ کی آبادکاری میں مسلمان بھی پیش پیش تھے۔یہ ان کی ایک خاص جگہ تھی۔ انڈیا سمیت کئی دوسرے ممالک کی جانب سے تجارت کے فروغ میں مسلمانوں کاکردار ناقابل فراموش ہے ۔سمندر کافی بے رحم تھا،جان توڑ محنت کرنے والے جاپانی بھی تند و تیز موجوں سے خائف رہتے تھے۔ سمندری پانی اکثر ہی ساحلی علاقوں کو برباد کرتا ہوا واپس سمندر میں ڈوب جاتا۔ لیکن با ہمت مسلمان کہاں پیچھے ہٹنے والے تھے۔ یہیں آباد کاری کی ٹھان لی ۔جان توڑ محنت کے بعد دینی فریضے کی ادائیگی کے لئے ایک مسجد کی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔
    جاپان کی پہلی مسجد ''مسجد کوبہ ‘‘یا ''مسلم مسجد کوبہ‘‘ وہاں کا اہم ثقافتی مرکز بھی ہے۔ یہ عالی شان مسجد دوسری جنگ عظیم کے انسانی المیے کی بھی گواہ ہے اور کئی سمندری طوفانوں کی داستانیں بھی در و دیوار میں پنہاں ہیں۔جاپانی مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کے لئے ماہر تعمیرات جان یوسف کی خدمات حاصل کی تھیں ،اللہ کی رحمت سے یہ مسجد امریکی بموں کو بھی سہہ گئی۔دوسری جنگ عظیم میں ہر شے راکھ کا ڈھیر تھی ، دور دور تک کچھ سلامت نہ تھا ۔ جہاں پہاڑ جیسی ٹھوس عمارات بھی دھماکے سے ریزہ ریزہ ہوئیں وہاں انسان کی کیا حیثیت ...بستیاں کی بستیاں پتھر کے زمانے میں واپس چلی گئیں ۔ ہاں ! صرف ایک عمارت پوری شان و شوکت سے قائم تھی اوروہ تھی ''مسجد کوبہ ‘‘!
    جاپان میں مسلمان
    جاپان کو دوسرے ممالک کے لئے 1853ء میں کھولا گیا ، مسلمانوں کی آمد اس سے پہلے کا واقعہ ہے۔ مشرق بعید کے اس ملک میں مسلمانوں کی آمد 17ویں صدی میں شروع ہوئی جس کا حوالہ فارسی جغرافیہ دان ابوالقاسم عبید اللہ ابن خرداذبہ (المعروف ابن خرادذبہ)(820ء تا 912ء ) کی تحاریر میں بھی ملتا ہے ۔وہ زرتشتی مذہب چھور کر مسلمان ہوئے تھے۔ ان کی کتاب میں جاپان میں اسلامی آثار پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے دو مرتبہ ''الواق واق ‘‘ کا حوالہ دیا ہے، یہ لفظ ایک یا ایک سے زائد جزائر کے لئے مستعمل ہے۔ یہاں ان کی مراد کوبہ شہر ہے۔
    مسجد کی تعمیر کا دور
    ۔1928ء میں ''کوبہ‘‘ کو اسے اپنا مسکن بنانے کے بعد یہاں کے مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کا سوچا۔ پیسے کم تھے۔ ذرائع آمدنی محدود تھے۔ لہٰذا 1928ء میں ''اسلامی کمیٹی برائے کوبہ‘‘ کے نام سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے گھر گھر جا کر چندہ جمع کیا۔دو میناروں والی اس مسجد کی تعمیر کا فریضہ چیکو سلواکیہ کے ماہر تعمیرات جان یوسف (1885ء تا 1969ء ) کی ذمہ داریوں میں شامل کیا گیا۔سات برس کی جان توڑ محنت اور جمع پونجی ختم کرنے کے بعد کہیں مکمل ہونے والی مسجد کی کیا بات تھی۔اپنی نوعیت کی پہلی تعمیر تھی، ڈھانچہ مضبو ترین بنیادوں پر استوار کیاگیا تھا ۔مسجد کے دالان اور کمروں میں لگائے گئے فانوس ، شیشے اور امبر کا استعمال اعلیٰ ذوق کا مظہر ہے۔سرخ رنگ کے قالینوں میں زرد رنگ کی آمیزش خوبصورت ماحول پیداکرتی ہے۔ دور افتادہ علاقوں سے آنے والوں کے لئے بیسمنٹ میں کمرے اور ہال بھی بنائے گئے تھے۔ یہاں درس و تدریس بھی جاری تھی۔
    یہاں تقریباََ دو سو افراد کو نماز جمعہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ کیوٹواوساکا کے قرب میں واقع ہونے کی وجہ سے کئی عشروں تک ان بڑے شہروں کے مسلمان نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے یہیں آتے تھے، آج وہاں بھی کئی بڑی مساجد قائم ہیں چنانچہ اب وہ لوگ یہاں کارخ نہیں کرتے۔ فانوس ، شیشے اور امبر کا استعمال بھی اعلیٰ ذوق کا مظہر ہے۔
    بموں کی بارش
    اور عظیم زلزلہ
    ۔1995ء میں آنے والے ''گریٹ ہین شن )ارتھ کوئیک ‘‘ میں اس ساحلی شہر کا نام و نشان مٹ گیا تھا صرف ایک عمارت لوگوں کی پناہ گاہ بنی، وہ یہی مسجد تھی ۔امریکہ نے ناگاساکی کے ساتھ کوبہ کی اس ساحلی بندرگارہ کو بھی بموں کا شانہ بنایا ، موت کے اس دہشت ناک کھیل میں مسجد کوبہ ہی سلامت بچی ، یہی بے گھروں کی پناہ تھی۔
    سیاحت اور اسلامی تقریبات کا مرکز
    امام مسجد کے پاس قالینوں کا اضافی ذخیرہ بھی موجود ہے، یہ قالین شادی ،بیاہ اور ایسی دوسری اسلامی تقریبات کے موقع پر استعمال کئے جاتے ہیں۔ مسجد کا بیرونی حصہ ان مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اس صورت میں امام مسجد کو خط تحریری طور پر آگاہ کرنا پڑتا ہے جو تمام قالین ہٹا کر ان کی جگہ دوسرے قالین رکھوا دیتاہے۔
    سیاحوں کی آمدو رفت بھی رہتی ہے ۔اکا دکا سیاحوں کی صورت میں پیشگی اطلاع دینے کی ضرورت نہیں، لیکن بڑے گروپ کا اہتما م کیا جاتا ہے۔فجر کی نماز سے نماز ظہر تک سیاحوں کو آنے جانے کی اجازت ہے، بعد ازاں سبھی افراد صرف دین میں مصروف رہتے ہیں۔
    جاپان کی شاہی بحریہ کا صدر دفتر
    اس کی مضبوطی کو دیکھتے ہوئے جاپان کی شاہی بحریہ نے اپنا مرکز بنانے کا قصد کیا، 1943ء میں اسے شاہی بحریہ کے کنٹرول میں دے دیا گیا،یہاں ان کا صدر دفتر قائم تھا ۔چند ہی برس کے گزرے ہوں گے کہ جاپانی حکومت نے اسے دوبارہ نماز کے لئے کھول دیا، آج بھی وہاں اذانوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔
    کوبہ کی اہمیت
    ۔557مربع کلومیٹر پر محیط ، کنسائی ریجن میں واقع ''کوبہ‘‘ کو شہر کا درجہ 1اپریل 1889ء میں حاصل ہوا، 16 لاکھ آبادی کے ساتھ یہ جاپان کا ساتواں بڑا شہر بن چکا ہے۔ قدیم ثقافتی مرکز ''کیتانو چو کا ایک حصہ ہونے کے ناطے یہ جاپان کے اہم ترین ثقافتی شہروں میں سے ایک ہے ۔ میجی ) اور تائی شو کی قدیم تہذیبیں اسی علاقے میں پھولی پھلیں ۔ انیسویں صدی میں میجی نشاۃ ثانیہ )کے دور میں یہ عالمی تجارتی مرکز بن چکا تھا،جہاز سازی کی بڑی صنعت یہیں قائم ہوئی تھی ۔1859ء میں ''معاہدہ پورٹ‘‘ سے اس کی ا ہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا، اب جاپان کی کار، سٹیل اور دیگر متعدد انڈسٹریز کے صدر دفاتر یہیں واقع ہیں۔ تاریخی اہمیت کے حامل مکانات اور دفاتر سیاحتی مرکز میں بدل دیئے گئے ہیں جبکہ خال خال مکانات میں وارثان رہائش پذیر ہیں۔


     

اس صفحے کو مشتہر کریں