1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’غبارِ خاطر‘‘ از مولانا ابوالکلام آزاد سے اقتباس

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏8 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    خود شناسی



    چڑیا کا بچہ جو ابھی ابھی گھونسلے سے نکلا ہے۔

    ہنوز اڑنانہیں جانتا اور ڈرتا ہے۔

    ماں کی متواتر اکساہٹ کے باوجود اسے اڑنے کی جرأت نہیں ہوتی۔

    رفتہ رفتہ اس میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ ایک دن اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرکے اڑتا اور فضائے ناپیدا کنار میں غائب ہوجاتا ہے۔

    پہلی ہچکچاہٹ اور بے بسی کے مقابلے میں اس کی یہ چستی اور آسمان پیمائی حیرت ناک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جونہی اس کی سوئی ہوئی خود شناسی جاگ اٹھی اور اسے اس حقیقت کا عرفان حاصل ہوگیا کہ ’’میں اڑنے والا پرندہ ہوں‘‘ اچانک قالب ہیجان کی ہر چیز ازسر نو جاندار بن گئی۔ بے طاقتی سے توانائی، غفلت سے بیداری، بے پر و بالی سے بلند پروازی اور موت سے زندگی کا پورا انقلاب چشم زدن کے اندر ہوگیا۔

    غور کیجئے تو یہی ایک چشم زدن کا وقفہ زندگی کے پورے افسانے کا خلاصہ ہے۔
     
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    مولانا ابوالکلام آزاد : ایک کثیرالجہات شخصیت
    مولانا ابوالکلام آزاد کی پیدائش مکہ مکرمہ میں ۱۱ نومبر ۸۸۸۱ءکو ہوئی۔ان کا شمار دنیا کے ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جن کے نام اور کام رہتی دنیا تک باقی رہیں گے۔ مولانا آزاد کثیر الجہات شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شخصیت کا ہر پہلو روشن اور تابناک تھا۔ بالکل ترشے ہوے ہیرے کی طرح۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ ایک عالم دین بھی تھے اور مفسر قرآن بھی۔ وہ ایک بیباک صحافی بھی تھے اور صاحب اسلوب انشاءپرداز بھی۔ وہ ایک ماہر تعلیم بھی تھے اور بہترین مدبر بھی، وہ دانشور بھی تھے اور ہندو مسلم اتحاد کے علم بردار ۔مولانا ابوالکلام آزاد کا سب سے پہلا کارنامہ ان کی صحافت ہے۔ تعجب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا آزاد ۱۸۸۸ءمیں پیدا ہوتے ہیں اور ۱۸۹۹ءمیں صحافت جیسے اہم پیشے سے جڑ جاتے ہیں۔ روزہ نماز کی فرضیت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اوپر صحافت کو بھی فرض کرلیا۔ ۹۹۸۱ءسے لے کر ۱۹۰۸ءتک وہ جن چھوٹے بڑے اخبار سے یا تو جڑے رہے یا نکالتے رہے ان سے ہم سب بخوبی واقف ہیں مثلاً نیرنگ عالم ۱۸۹۹ء(کلکتہ)، المصباح ۲۲جنوری ۱۹۰۴ء، احسان الاخبار۱۹۰۲ء(کلکتہ)، لسان الصدق ۱۹۰۳ئ(کلکتہ)، الندوہ۱۹۰۵ءاور الوکیل وغیرہ ۔ لیکن انہوں نے اپنی صحافت کا باضابطہ آغاز کلکتہ سے جولائی۱۹۲۱ءمیں ہفتہ وار ”الہلال“ نکال کر کیا۔یہ اخبار کوئی عام اخبار نہ تھا بلکہ صوری و معنوی ہر دو لحاظ سے اپنے زمانے کی روش سے بالکل الگ ہٹ کر تھا۔ مولانا عبدالماجد کے لفظوں میں:

    ”اس نے اردو صحافت کی جیسے دنیا ہی بدل دی۔ صورت و سیرت مغزد قالب سب میں اپنے پیش رو اور معاصر ہفتہ واروں سے بالکل مختلف اور کہیں زیادہ شاندار اور جاندار، چھپائی کاغذ اور تصویریں سب کا معیار اعلیٰ، رنگین سرورق پر ایڈیٹر کا نام یوں درج ہوتا ”احمد المکنیٰ بابی الکلام الدہلوی“ یہ ’المکنیٰ‘ کے صحیح تلفظ اور معنی کے لئے صراح و قاموس کی گردان کرنی پڑی اور ایڈیٹر کہاں، مدیر مسﺅل ، محرر خصوصی اور رئیس قلم تحریر ’جریدہ‘ کی جگہ ’مجلہ‘ ولایتی ڈاک کی جگہ ”برید فرنگ“ حیرت انگیز کی جگہ ”مجیر العقول“ قسم کے خدا جانے کتنے نئے اور بھاری بھرکم لغات اور نئی ترکیبیں ، نئی تشبیہیں ، نئے استعارے اور نئے اسلوب بیان ہر ہفتے اس ادبی و علمی ٹکسال سے ڈھل ڈھل کر باہر نکلنے لگے اور حاذبیت کا یہ عالم تھا کہ نکلتے ہی سکہ رائج الوقت بن گئے۔ حالی و شبلی کی سلاست و سادگی سر پیٹتی رہی اور اکبر الہ آبادی اور عبدالحق (بابائے اردو) سب ہائیں ہائیں کرتے رہ گئے۔“

    (آئینہ ابوالکلام آزاد،ص: ۱۵)

    نومبر ۱۹۵۱ءمیں ”البلاغ“ نکلا اور پانچ ماہ بعد مارچ۱۹۱۶ءمیں بند ہوگیا۔ یہ اخبار صرف اخبار نہ تھا بلکہ دعوت و تبلیغ حق تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صحافت، سیاست کا ایک بڑا ہتھیار ہے ۔اکثر سیاستداں صحافت کا سہارا لیتے ہیں اور اپنی منفی سیاست (Dirty Politics) کو زرد صحافت(Yellow Juournalism)کے سہارے پر وان چڑھاتے ہیں۔ لیکن مولانا نے صحافت کو دعوت حق اور حصول آزادی کا ذریعہ بنایا اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب بھی ہوئے۔

    مولانا آزاد کا کمال یہ ہے کہ وہ صحافت و سیاست اورتصنیف و تالیف کو ساتھ لے کر چلتے رہے۔ اور تمام رکاوٹوں اور صعوبتوں کے باوجود اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔ جذبہ حب الوطنی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا چنانچہ ملک کی آزادی کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا تھا ۔ جس کی تلقین وہ ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کوکر تے رہے:

    ”ملک کی ترقی اور آزادی کی ذمے داری مسلمانوں کے سروں پر خدا ئے ذوالجلال کی طرف سے ہے۔ دنیا میں صداقت کے لئے جہاد اور انسانوں کو انسانی غلامی سے نجات دلانا اسلام کا قدرتی مقصد ہے۔ یاد رکھئے کہ ہندﺅں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے۔ مگر آپ کے لئے ایک فرض دینی اور داخل جہاد و فی سبیل اللہ ہے۔“ (الہلال دسمبر ۱۹۱۸ئ)

    مولانا آزاد کی حب الوطنی ، ملک کی آزادی اور نظریہ جہاد کو آج کے عالمی تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اپنے ملک کی آزاد ی کی خاطر اپنی جان نچھاور کرنے والے جوانوں کو دنیا کس نظر سے دیکھتی ہے اور ظالموں نے مظلوموں کو کن کن خطابات سے نواز رکھا ہے۔ کل تک جنہوں نے آزادی کی جنگ لڑکر اپنے ملک و قوم کو آزاد کرایا تھا آج دوسری قوموں اور ملکوں کی آزادی کو سلب کئے ہوئے ہیں اورا ن پر طرح طرح کے مظالم ڈھارہے ہیں اور جد وجہد کرنے والوں پر Terroristاور آتنک وادی جیسے گھناونے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔

    مولانا ابواکلام آزاد صرف سیاست داں نہ تھے بلکہ وہ ایک دانشور سیاست داں (Intelectual Politician)تھے ۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مذہب اور سیاست کو شیر و شکر کردیا تھا ۔ وہ بیک وقت پورے پورے مسلمان بھی رہے اور ایک منجھے ہوئے سیاست داں بھی۔ مولانا آزاد کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے انگریز مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے جو بیان دیا وہ مولاناآزاد کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نہیں دے سکتا تھا ملاحظہ فرمائیں:

    ”مجھ پر بغاوت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کیا بغاوت اس آزادی کی جدوجہد کو کہتے ہیں جو ابھی کامیاب نہیں ہوئی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں باغی ہوں، لیکن ساتھ یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ اس کا نام قابل احترام تقسیم ہند کے بعد آزاد ہندوستان میں آزادی کا جشن جس انداز سے منایا گیا اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں ، خون کی ہولی کھیلی گئی ، کتنے گھر اجڑ گئے ، کتنی ماﺅں کی گود سونی ہوگئی ، کتنی عورتوں کی عزت و آبروبرسر عام لوٹ لی گئی۔ کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ کتنے خاندان تقسیم ہوگئے ، اور نہ جانے کتنے لوگ بے گھر و بے در ہوگئے اور پناہ گزیں کیمپ میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ جامع مسجد دہلی کے باہر بھی ایک کیمپ لگا اور یہ پناہ گزیں نئے ملک پاکستان میں ہجرت کرجانے کو تیار بیٹھے تھے لیکن مولانا آزاد نے ان پناہ گزینوں کو جو دانشورانہ مشورہ دیا اور ان کے زخموں پر لفظوں کے مرحم رکھے کہ ان کے قدم اکھڑنے کے باوجود جم گئے۔ ان کے دلوں سے خوف و ہراس جاتا رہا اور انہوں نے اپنی زندگی اور موت کا رشتہ ہندوستان سے وابستہ کردیا ۔ مولانا نے جامع مسجد سے جو تقریر کی اس کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

    ”ہر اس کا موسم عارضی ہے، میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم کو ہمارے سوائے کوئی زیر نہیں کرسکتا، میں نے ہمیشہ کہا اور آج پھر کہتا ہوں کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دو، شک سے ہاتھ اٹھالو اور بدعملی ترک کردو یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو۔ اپنے دلوں کو مضبوط بناﺅ اور اپنے دماغوں کو سوچنے پر آمادہ کرو۔ پھر دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاملانہ ہیں۔ آخر کہا ںجارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟“

    ”یہ دیکھو ، مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا ہے۔“

    ”ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کنارے تمہارے قافلوں نے وضوکیا تھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش و خروش بیجا تھا، اسی طرح آج تمہارا یہ خوف و ہراس بیجا ہے۔ مسلمان اور بزدل یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ مسلمان کو نہ تو کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے۔

    یہ تھی مولانا کی وہ یاد گار تقریر جس نے بھاگتے ہوئے مسلمانوں کے قدم روک لئے اور اپنے وطن عزیز سے محبت و وفادار ی کرنا سکھایا۔ اگر مولانا نہ ہوتے تو شاید ہندوستانی مسلمانوں کا حشر عبرتناک ہوتا۔

    تقسیم ہند کی مخالفت میں ۵۱ اپریل ۱۹۶۴ءکو مولانا نے مسلمانوں کے تئیں جو خدشہ ظاہر کیا تھا وہ آج صد فی صد درست ثابت ہورہے ہیں۔ ملاحظہ ہو ایک اقتباس:

    ”جب پاکستان بن جائے گا تو کیا ہوگا؟ ہندوستان دوریاستوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ ایک ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی۔ دوسری ریاست میں ہندو اکثریت ہندو اکثریت کے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ایک دن اس اچانک صورت حال سے سابقہ پیش آئے گا کہ ایک صبح آنکھ کھلتے ہی وہ اپنے آپ کو اپنے گھر اور وطن میں پردیسی اور اجنبی پائیں گے۔ صنعتی، تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پسماندہ ہوں گے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے جو خالص ہندوراج بن گئی ہوگی۔“

    (بحوالہ جہان ابوالکلام آزاد،ص: ۸۹۱)

    آج مولانا کے پیش کردہ خدشات کو سچ ہوتا ہوا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمارے سامنے ہے۔آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت ہریجنوں سے بھی بدتر ہے۔ تقسیم ہند کے اثرات نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے تمام شعبہ زندگی سے عیاں ہیں بلکہ پاکستان آج بھی جن حالات سے دوچار ہے وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے اور وہ ہندوستانی مسلمان جو ہجرت کے نام پر پاکستان منتقل ہوگئے تھے۔ ۳۶ سال گذر جانے کے باوجود مہاجر ہی کہلاتے ہیںاور یہ نتیجہ ہے دو قومی نظریہ کا۔ اس کے برعکس پاکستان سے آنے والے رفیوجی ہندوستان میں پوری طرح ضم ہوچکے ہیں اور یہ قومی یک جہتی کی بہترین مثال ہے۔

    مولانا آزاد تقسیم ہند سے پہلے اور بعد بھی قومی یکجہتی کے سب سے بڑے علم بردار تھے۔ آج جب الیکشن کا موقع آتا ہے تو مسلمان ایسی سیاسی جماعت یا لیڈر ڈھونڈنے لگتے ہیں جو قومی یک جہتی کی علمبردار اور سیکولر ہو۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریہ بھی مولانا آزاد ہی کا پیش کردہ ہے، جو انہوں نے ۷۲ دسمبر ۱۹۶۷ءکولکھنو کے ایک جلسہ عام میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا:

    ”مسلمانوں کے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ غیر فرقہ وارانہ سیاسی جماعتوں میں شامل ہوں جو سب کی مشترک سیاسی و اقتصادی آزادی کی نقیب ہوں۔“ (بحوالہ جہان ابوالکلام آزاد، ص:۵۹۱)

    حالانکہ وہ چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ اب ہندوستانی مسلمانوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ کانگریس پارٹی میں شامل ہوں، جیسا کہ آج فرقہ پرست پارٹی کے فرقہ پرست لیڈر بھی انتہائی بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ مسلمانوں کو طرح طرح کے حربے آزماکر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور انہیں فرقہ پرستوں کو ووٹ دینے کے لئے مجبور کرتے ۔ لیکن مولانا آزاد نے مسلمانوں کو آزادانہ طور پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی کیونکہ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کانگریس پارٹی فرقہ پرستوں سے خالی نہیں رہ گئی ہے اور ان کا قومی یکجہتی کا آئینہ گر د آلود ہورہا تھا۔ قومی یک جہتی کے سلسلہ میں مولانا آزاد کا یہ مضبوط اور توانا نظریہ ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے دہلی کے ایک اجلاس میں دسمبر ۱۹۳۲ءمیں پیش کیا تھا:

    ”اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکر اعلان کر دے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے، بشرطیکہ ہندوستان، ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے۔ تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاﺅں گا۔ کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔“ ( بحوالہ جہان ابوالکلام آزاد، ص:۱۰۲)

    مولانا آزاد کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ ایک مضمون میں ان سب کا احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان کی دیدہ وری و دانشوری کے جوہر کہاں کہاں نہیں کھلتے ہیں۔ آج سے ستر سال پہلے انہوں نے وزیر تعلیم کی حیثیت سے سائنسی اور تکنیکی تعلیم کی جو بنیاد رکھی تھی، ہمارے تعلیمی ادارے آج بھی ان ہی بنیادوں پر چل رہے ہیں اور ان کی دانشوری کے چراغ سے روشن ہیں۔ دانشوری وہ جوہر ہے جو انسان کو بلند تر اور اعلیٰ نصب العین کے حصول کی راہ ہموار کرتی ہے اور پھر اسے ان بلندیوں پر پہنچا دیتی ہے جہاں وہ مینارئہ نور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کی دانشوری وقتی و ہنگامی اور ان کے عہد تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کے مذہبی شعور و آگہی کی رہین منت تھی۔ اب یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم ان کے دانشورانہ افکار و خیالات سے کس حد تک استفادہ کرسکتے ہیں۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں