1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’جستجوئے آزادی .......تحریر : صہیب مرغوب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    ’’جستجوئے آزادی .......تحریر : صہیب مرغوب

    ‘‘ تخت و تاراج چھوڑنے والے شاہی جوڑے کی زندگی کی تلخیاں

    تیسری دنیا کے جمہوری ممالک میں حکمران بادشاہ بننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، من مانی آئینی ترامیم اور صوابدیدی اختیارات کے ذریعے دوسرے اداروں کے اختیارات سلب کرنا ان ممالک میں عام سی بات ہے۔
    لیکن یورپ کی کہانیاں اس سے مختلف ہیں۔ اگلے چند ہفتوں کے اندر اندر ایک ایسے جوڑے کی کہانی منظر عام پر آنے والی ہے جس نے اپنی عزت و وقار کی خاطر پرتعیش، آرام دہ ترین شاہی زندگی کو ٹھوکر مارکر نیا راستہ چن لیا۔ تخت و تاراج چھوڑنا ’’آزادی‘‘ سے کم نہ تھا، محل کے جھنجھٹوں سے آزادی ۔ اسی مناسبت سے کتاب کا ٹائٹل ’’جستجوئے آزادی‘‘ (Finding Freedom) رکھا گیا ہے۔ کتاب کے مطابق سابق شاہی جوڑا لاس اینجلس میں 1.8 کروڑ پائونڈ (3.8 ارب روپے) کے محل نما گھر میںمقیم ہے ۔

    کتاب کے مصنف ہیری کے دیرینہ ایرانی نژاد دوست امید شکیبی اور مس کیرولین ڈیورنڈ ہیں۔ کتاب کا آغاز نہایت سنسنی خیز ہے۔ مصنف لکھتا ہے، ’’دونوں شہزادوں میں رنجشیں جنم لے رہی تھیں، وقت کا دھارا انہیں دور سے دور تر کرتا جا رہا تھا، ان رویوں کے باوجود میل ملاپ، رکھ رکھائو باقی تھا۔ تخت نشین کون ہو گا، طاقت کس کے حصے میں آئے گی؟ یہ بات وجہ رنجش نہ تھی۔ کون بنے گا بادشاہ، یہ دونوں بھائیوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا، وجہ تنازعہ میگھن تھی، شہزادے کی شریک حیات۔ شہزادے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شادی کے بعد محل میںمیگھن کو کھا جانے والی نظروں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میگھن کو شہزادی کا مقام ملے گا نہ درباریوں کو اس کے لفظوں کا پاس ہو گا، درباری بھی اسے ہلکا لینے لگے۔ انہیں ڈر خوف تھا کہ مقبولیت کی بلندیوں کے چھونے والا یہ جوڑا کہیں تخت نشین نہ ہو جائے۔ طاقتور درباری بھی کیٹ میڈلٹن اور ولیم کو تخت نشین دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ کیٹ میڈلٹن جیسا مقام نہ پا سکی۔ بس، اسی دن شہزادے ہیری کا دل محل سے اچاٹ ہو گیا تھا‘‘۔ شاہی خاندان کی جانب سے وقار نہ ملنے پر درباری بھی میگھن کو دوسرے درجے کی شہزادی سمجھنے لگے ۔

    مصنف حیران کن انکشاف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’شہزادے ہیری کے خیال میں شریک حیات بھی ماں جیسے حالات سے گزر رہی تھی، وہ ڈرتا تھا، حالات کہیں ماں کی طرح بیوی نہ چھین لیں۔ پاپا رازی ہر دم ماں کے پیچھے لگے رہتے تھے۔ 31 اگست 1997ء کو بھی پاپا رازی ماں کی کار کے پیچھے تھے، ڈرائیور نے کیمروں سے بچنے کے لئے کار بھگائی لیکن قابو نہ رکھ سکا، اور کار سامنے ٹنل کی دیوار سے جا ٹکرائی، ڈیانا کے ساتھ دودی الفاید اور ڈرائیور ہنری کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔ وہ اپنی ماں کی موت کا ذمہ دار پریس کو سمجھتا ہے، یہی پاپا رازی میگھن کے پیچھے سائے کی طرح لگے تھے، وہ ڈرتا تھا، کہیں بیوی کی موت بھی ماں جیسی نہ ہو۔ دونوں کب تک چھپتے، انہوں نے پاپا رازیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا لیکن ملکہ الزبیتھ نے روک دیا۔ اپنی ماں کو تو پاپا رازی کی وجہ سے کھو چکا تھا، اب شریک حیات کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ یہ بہت سی رنجشوں میں الگ ہونے کی ایک وجہ تھی‘‘۔ مصنف لکھتا ہے کہ ’’عام تاثر ہے کہ شہزادی میگھن آزاد خیال ہے، اسی نے شاہی تخت چھوڑا ہو گا، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شاہی خاندان سے الگ ہونے کی تمنا شہزادے ہیری کے دل میں 2016ء سے ہی مچل رہی تھی۔ بیوی نے الگ ہونے کا راستہ دکھایا‘‘۔ شہزادہ کہتا ہے، ’’ میں نے پوری جوانی شاہی محل کو دے دی، اب بھی میں محل کی مرضی ماننے کوتیار تھا، میگھن بھی ہر محلاتی آداب بجا لانے پر آمادہ تھی، لیکن حالات نے ہی خاص رخ لے لیا تھا۔ ہم نے جدائی کے سوا تمام راستے بند پائے‘‘۔ شاہی محل کا کہنا ہے کہ نجانے کیوں دونوں ہی مایوسیوں میں گھرے ہوئے تھے، وہ اپنے آداب اور طرز زندگی محل پر مسلط کرنا چاہتے تھے، جس کی گنجائش نہ تھی۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے علاوہ ایک اور اختلاف مالی آزادی کا بھی تھا۔ شہزادہ ہیری مالی خود مختاری کے حق میں تھے، یہ خارج از امکان تھی‘‘۔

    مصنف لکھتا ہے کہ ’’2018ء میں شادی کے بعد سے ہیری کی مقبولیت بے پناہ بڑھنے لگی، اس نے اپنے بھائی کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ برطانوی ہیری اور میگھن کو ہی شاہی مستقبل سمجھنے لگے تھے۔ پاپارازیوںکو یہی چبھن تھی، انہوں نے ایسے کانٹے بچھائے کہ سب کچھ خاک ہو گیا‘‘۔ انہوں نے ملکہ کے دل میں اس قدر گھائو پیدا کر دیئے کہ جب شہزادے ہیری نے 8 جنوری کو شاہی محل چھوڑنے کا لکھا تو ملکہ کی سرد مہری دیکھنے والی تھی، ان کی خاموشی نے ہیری اور میگھن کا دل توڑ دیا‘‘۔’’وجہ صرف یہ تھی کہ ملکہ بھی ہیری اور میگھن کی شادی سے خوش نہ تھیں۔ انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ شادی کر لو،لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی‘‘۔ یعنی جلد ہی ٹوٹ جائے گی۔

    مصنف لکھتا ہے،’’دو بھائی تو شاہی محل میں کسی سپیئر پارٹ کی مانند تھے، فالتو سا پرزے تھے، میگھن سے شادی بہت بعد کا قصہ ہے، اس سے کہیں پہلے بھی دونوں بھائیوںمیں کبھی بنتی نہ تھی۔ وہ شاہی محل کے حالات بدلنے کے درپے تھا لیکن شاہی قدغنیں آڑے آتی تھیں۔ ہیری اصرار کرتا تھا کہ شاہی خاندان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا فائدہ کیوں نہیں اٹھا سکتا، یوں سخت گیر، باتیں بنانے والے پاپا رازیوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ شاہی روایات نے اسے سوشل میڈیا سے رجوع کرنے سے روک دیا‘‘۔

    ہیری کی زبان سے شادی کا لفظ سنتے ہی محل میں آگ سی لگ گئی، ’’کیا تم میگھن سے شادی کرنے میں واقعی سنجیدہ ہو؟ بھائی ولیم نے سوالی نظروں سے اس کی جانب تقریباً گھورا۔ وہ یہ ’’وار‘‘‘ سہہ نہ سکا۔ ہیری نے خود بھی محسوس کیا کہ جب میگھن اور کیٹ میڈلٹن کی آنکھوں چار ہوتی ہیں تب بھی اس کے چہرے سے اپنی سسٹر ان لاء کے لئے محبت کا اظہار نہیں ہوتا۔‘‘

    کتاب میں بکنگھم پیلس، کیسنگٹم پیلس اور کلیرنس ہائوس کے تین پاور ہائوسز میں پائی جانے والی اندرونی چپقلش سے بھی پردے اٹھائے گئے ہیں۔ تینوں محلات میں اصولوں کی پاسداری کرنے والوں کو ہی عزت و تکریم ملتی ہے۔ پھر بکنگھم پیلس کے اندر بھی کئی طاقتور مراکز تھے، ان کی الگ سننا پڑتی تھی۔ ان محلوں، شاہی خاندان اوردرباریوں کو اصولوں کے غلام کہنا غلط نہ ہو گا۔ انسانوں کو اصولوں کے سانچے میں فٹ کرنا انہیں خوب آتا ہے لیکن ’’ ہیری اور میگھن نے ان محلات کے اصولوں میں فٹ ہونے کی بجائے اپنا راستہ خود چننے کی تمنا کی ہے۔ محل سے الگ ہو کر وہ آزادی کا راستہ پا سکتے تھے‘‘۔ اور انہوں نے یہ آزادی حاصل کر لی۔ کتاب کسی پریشر ککر سے کم نہیں۔ ڈھکن کھلتے ہی ایسی تپش پیدا ہو گی کہ شاہی محل دھواں دھواں ہو جائے گا۔ شاہی خاندان کا خیال ہے کہ کتاب کی اشاعت سے ہیری اور شاہی محل میں سمجھوتے کی رہی سہی کسر بھی ختم ہو جائے گی۔ ہمارا خیال بھی یہی ہے۔ اس ’’کتابی بم‘‘ میں شاہی محل کے کئی راز بے نقاب ہوں گے۔ ہیری اور اس کی شریک حیات نے کتاب کے مندرجات لکھوانے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنف نے وہی کچھ لکھا ہے جو اسے پہلے سے معلوم ہے، انہوں نے خود مصنف کو ایک لفظ بھی نہیں بتایا لیکن یہ باتیں کون مانے گا!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں