1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏8 دسمبر 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔

    قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپتی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔

    یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔

    مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادر ان اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔

    مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔
     
    آصف احمد بھٹی اور سید شہزاد ناصر .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    یوسفی کی تحریر کا اپنا ایک اسلوب ہے جو ہزاروں میں پہچانا جاتا ہے
    شراکت کا شکریہ
    سلامت رہیں
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    دست زلیخا
    مشتاق احمد یوسفی

    بابائے انگریزی ڈاکٹر سمویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپے کے لالچ کے علاوہ کسی اور جزبے کے تحت کتاب لکھتا ہے، اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ہمیں بھی اس کلیّے سے حرف بہ حرب اتّفاق ہے، بشرطیکہ کتاب سے مراد وہی ہے جو ہم سمجھے ہیں، یعنی چیک بک یا روکڑبھی۔ دیباچے میں یہ وضاحت ازبس ضروری ہے کہ یہ کتاب کس مالی یا الہامی دباؤسے نڈھال ہوکرلکھی گئی۔ چنانچہ جو اہل قلم ذہین ہیں، وہ مشک کی طرح خود بولتے ہیں۔ جو ذرا زیادہ ذہین ہیں، وہ اپنے کندھے پر دوسروں سے بندوق چلواتے ہیں۔ یعنی تاریخ وفات، آلہ قتل اور موقع واردات کا انتخاب صاحب معاملہ خود کرتا ہے۔ اور تعزیرات پاکستان میں یہ واحد جرم ہے، جس کی سزا صرف اس صورت میں ملتی ہے کہ ملزم ارتکاب جرم میں کامیاب نہ ہو۔ 1961 میں پہلی ناکام کوشش کے بعد بحمداللہ ہمیں ایک بار پھر یہ سعادت بقلم خود نصیب ہو رہی ہے۔ تیشے بغیر مرنہ سکاکوہن اسد۔

    یہ کتاب ’چراغ تلے‘ کے پورے آٹھ سال بعد شائع ہو رہی ہے ۔ جن قدردانوں کو ہماری پہلی کتاب میں تازگی، زندہ دلی اور جواں سالی کا عکس نظر آیا، ممکن ہے، ان کو دوسری میں کہولت کے آثار دکھلائی دیں۔ اس کی وجہ ہمیں تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان کی عمر میں آٹھ سال کااضافہ ہوچکا ہے۔

    انسان کو حیوان ظریف کہا گیا ہے۔ لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اسلیے کہ دیکھا جائے تو انسان صرف واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتا ہے۔ انسان واحد جاندار ہے، جسے خلاق عالم نے اپنے حال پر رونے کے لیے غدودگریہ بخشےہیں۔ کثرت استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہوجاتے ہیں جیسے اگلے وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جایا کرتے تھے۔ لغزش غیر پر انہیں ہنسی کے بجائے طیش آجاتا ہے۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی ہے جو احمقوں کا وجوود سرے سے برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ لیکن، جیسا کہ مارکوئس دی سید نے کہا تھا، وہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے تو خود کو اپنے کمرے میں مقفّل کرلو اور آئینہ توڑکر پھینک دو۔

    لیکن مزاح نگار کے لیے نصیحت، فصیحت اور فہمائش حرام ہیں۔ وہ اپنے اور تلخ حقائق کے درمیان ایک قدآدم دیوارقہقہ کھڑی کرلیتا ہے۔ وہ اپنا روئے خنداں، سورج مکھی پھول کی مانند، ہمیشہ سرچشمئہ نور کی جانب رکھتا ہے اور جب اس کا سورج ڈوب جاتا ہے تو اپن ارخ اس سمت کرلیتا ہے، جدھر سے وہ پھر طلوع ہوگا؛

    ہمہ آفتاب بینم، ہمہ آفتاب گویم

    نہ شبنم، نہ شب پر ستم کہ حدیث خواب گویم

    حس مزاح ہی اصل انسان کی چھٹی حس ہے۔ یہ ہو تو انسان ہر مقام سے آسان گزر جاتا ہے۔ وں تومزاح، مذہب اورالکحل ہر چیز میں بآسانی حل ہوجاتے ہیں، بالخوص اردو ادب میں۔ لیکن مزاح کے اپنے تقاضے، اپنے ادب آداب ہیں۔ شرط اول یہ کہ برہمی، بیزاری اور کدورت دل میں راہ پائے۔ ورنہ بومرنگ پلٹ کر خود شکاری کا کام تمام کردیتا ہے۔ مزا توجب ہے کہ آگ بھی لگے اور کوئی انگلی نہ اٹھاسکے کہ’’یہ دھوآں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟‘‘ مزاح نگار اس وقت تک تبسم زیر لب کا سزا وار نہیں، جب تک اس نے دنیا اور اہل دنیا سے رج کے پیار نہ کیا ہو۔ ان سے۔ ان کی بے مہری وکمنگاہی سے۔ ان کی سرخوشی و ہوشیاری سے۔ ان کی تردامنی اور تقدس سے۔ ایک پیمبر کے دامن پر پڑنے والا ہاتھ گستاخ ضرور ہے، مگر مشتاق وآرزومند بھی ہے۔ یہ زلیخا کا ہاتھ ہے۔ خواب کو چھوکردیکھنے والا ہاتھ۔

    صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی

    ایک صاحب طرز ادیب نے، جو سخن فہم ہونے کے علاوہ ہمارے طرفدار بھی ہیں (تجھے ہم ولی سمجھتے جونہ سود خوار ہوتا۔۔۔ کی حد تک) ایک رسالے میں دبی زبان سے شکوہ کیا کہ ہماری شوخئی تحریر مسائل حاضرہ کے عکس اور سیاسی سوزوگداز سے عاری ہے۔ اپنی صفائی میں ہم مختصرًااتنا ہی عرض کریں گے کہ طعن وتشنیع سے اگر دوسروں کی اصلاح ہوجاتی تو بارود ایجاد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

    لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں، جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑدے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب ورواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔۔۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس، ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں، جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلاًانگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔

    فقیر گالی، عورت کے تھپڑاور مسخرے کی بات سے آزوردہ نہیں ہونا چاہئیے۔ یہ قول فیصل ہمارا نہیں، مولٰنا عبید زاکانی کا ہے (ازدشنام گدایاں و سیلئی زناں وزبان شاعراں ومسخرگاں مرنجید) مزاح نگار اس لحاظ سے بھی فائدے میں رہتا ہے کہ ممکن ہے، اس میں بھی تفنّن کا کوئی لطیف پہلو پوشیدہ ہو، جو غالیباً موسم کی خرابی کے سبب اس کی سمجھ نہیں آرہا۔ اس بنیادی حق سے دستبردار ہوئے بغیر، یہ تسلیم کرلینے میں چنداں مضائقہ نہیں کہ ہم زبان اور قواعد کی پابندی کو تکلّف زائد تصور نہیں کرتے۔ یہ اعتراف عجز اس لیے اور بھی ضروری ہے کہ آج کل بعض اہل قلم بڑی کوشش اور کاوش سے غلط زبان لکھ رہے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار بے دھیانی یا محض آلکس میں صحیح زبان لکھ جائیں تو اور بات ہے۔ بھول چوک کس سے نہیں ہوتی؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں