1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

’فرانس میں مسلمان حکومت‘

'خبریں' میں موضوعات آغاز کردہ از پاکستانی55, ‏8 جنوری 2015۔

  1. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    مشل ہولےبیک کہتے ہیں کہ فرانس میں ایک اسلامی جماعت کا ملک کی شبیہ تبدیل کر دینا محض خام خیالی نہیں
    --------------------------------------------------------------------------
    فرانس میں ایک متنازع کتاب شائع ہوئی ہے جس میں فرانس کو ایک اسلامی مملکت کے طور پر دکھایا گیا ہے جہاں یونیورسٹیوں کو قرآن پڑھانے پر مجبور کیا جا چکا ہے، خواتین کے لیے حجاب لینا ضروری ہو چکا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا قانونی حق بن گیا ہے۔
    پیرس سے بی بی سی کے نامہ نگار ہیو سکوفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے مطابق فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنےگھٹنے ٹیکتا رہتا ہے اور آخر سنہ 2022 میں ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کی صدارت اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
    اس کے بعد عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ملازمتیں چھوڑ دیں جس سے ملک میں بے روزگاری کم ہو جاتی ہے، فرانس میں جرائم کا دور دور تک نشان نہیں رہتا، خواتین کا پردہ معمول کی بات بن جاتی ہے اور مردوں کو اجازت مل جاتی ہے کہ وہ جتنی شادیاں چاہیں کریں۔

    اسلام کا ہوّا
    اس وقت تک فرانس کی عمومی آبادی اس قدر بےحس اور زوال پذیر ہو چکی ہوتی ہے کہ لوگ نئے صدر کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ اس نئی حکومت کو قبول کر لیتے ہیں اور ان کا ملک ایک اسلامی فرانس بن جاتا ہے۔
    [​IMG]
    فرانس کے کئی حصوں میں اسلامی ثقافت کے بڑے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں مسجدِ پیرس بھی شامل ہے
     
  2. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    مندرجہ بالا منظر کشی سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں فرانس کے عہدِ حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مشل ہولےبیک کی یہ کتاب کس قدر متنازع ہو سکتی ہے۔
    اس کتاب کا عنوان ’سبمشن` (اطاعت، فرماں برداری) ہے‘ اگرچہ اس کی باقاعدہ فروخت بدھ آٹھ جنوری سے شروع ہو رہی ہے، لیکن فرانس میں کتاب کے مندرجات پر بحث پچھلے کئی ہفتوں سے جاری ہے۔
    کیا واقعی یہ کتاب ادب کے لبادے میں محض لوگوں کو اسلام سے ڈرانے کی کوشش ہے؟ کیا یہ بہانہ کہکتاب محض خیالی ہے، مصنف کو اس الزام سے بچا سکتی ہے کہ ان کی کتاب دائیں بازو کے سیاست دان اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔
    [​IMG]
    مصنف کے بقول فرانسیسی مسلمانوں کا پس منظر ایسا ہے کہ نہ وہ بائیں سے خوش ہیں نہ دائیں سے
    -----------------------------------------------------------------
    دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا مصنف نے کچھ غلط نہیں کیا بلکہ کسی بھی اچھے ادیب کی طرح اس نے معاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے اور اس نے کڑوے سچ بغیر کسی لگی لپٹی کے لوگوں کے سامنے رکھ دیے ہیں۔
    فرانس میں مشل ہولےبیک کی کتاب پر اتنی زیادہ تکرار و بحث کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کی شناخت پر قومی سطح پر بحث ہو رہی ہے۔
    دوسری کتاب کی کامیابی
    گذشتہ برس یورپی پارلیمان کے انتخابات میں غیر ملکی تارکین وطن کی مخالف دائیں بازو کی جماعت نیشنل فرنٹ نے فرانس میں پہلی مرتبہ غیر معمولی کامیابی حاصل کر لی تھی۔ نیشنل فرنٹ کے رہنما مارین لی پین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 2017 کے صدارتی انتخابات میں ایک بڑی امیدوار ہو سکتی ہیں۔
    ناول کی کہانی میں بھی ہوتا یہی ہے کہ مارین لی پین کو صدارت سے دور رکھنے کی غرض سے دیگر سیاسی جماعتیں محمد بن عباس نامی ایک سحرانگیز رہنما کی حمایت کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
    یہ ناول جس تناظر میں شائع ہوا ہے اس میں اسی قسم کے ایک دوسرے ناول کی کامیابی بھی شامل ہے۔ ’لی سوسائڈ فرانسیا‘ (فرانسیسی خود کشی) نامی یہ ناول بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی ایرک زمور نے لکھا تھا اور اس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ فرانس اخلاقی طور نئے اور زیادہ پراعتماد اسلام کے سامنے مجبور ہو چکا ہے اور اس سے شکست کھا رہا ہے۔
    مشل ہولےبیک کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا ناول دراصل ایرک زمور اور شدید ردعمل کے حامل ان جیسے دیگر لوگوں کے منافرت انگیز خیالات کو ادبی تقویت پہنچا رہا ہے۔
     
  3. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    ’سبمشن‘ اس بدھ سے باقاعدہ فروخت ہو رہی ہے
    ------------------------------------------
    بائیں بازو کے اخبار ’لبریشن‘ کے ایک کالم نگار لارین جوفرن کے بقول اس ناول کے ذریعے ’مشل ہولےبیک صرف یہ کر رہے ہیں کہ وہ بائیں بازو کے فلسفیوں کے مشہور کیفے فلور میں مارین لی پین کی کرسی گرم کر رہے ہیں۔‘
    کالم نگار آگے چل کر لکھتے ہیں: ’مجھے نہیں معلوم مشل ہولےبیک کی نیت کیا ہے لیکن جہاں تک ان کی ناول کا تعلق ہے تو اس کے ناول سے تو مجھے یہی لگتا ہے کہ اس کے مقاصد سیاسی ہیں۔‘
    ایک مرتبہ جب میڈیا میں اس ناول کے بارے میں شور وغوغا ختم ہو جائے گا، تو لوگ اس کتاب کو فرانس کی تاریخ کے ایک اہم موڑ کے حوالے سے یاد رکھیں گے، ایک ایسے وقت سے حوالے سے جب انتہائی دائیں بازو کے خیالات ادب کا حصہ بنے اور عظیم ادب کہلائے۔
    کچھ دیگر ناقدین نے اس ناول پر مذکورہ کالم نگار سے سے زیادہ سخت تنقید کی ہے۔ ٹی وی میزبان علی بداؤ کے بقول ’اس کتاب کا سن کر مجھے تو قے ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کتاب سے میری تضحیک ہوئی ہے۔ سنہ 2015 کا نئے سال کا آغاز ایک ایسی کتاب سے ہو رہا ہے جس میں اسلام سے خوف کو ایک ادبی ناول کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
    دوسری جانب سے مشل ہولےبیک کی حمایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ناول میں ایسے مسائل پر بات کی گئی ہے جن کے بارے میں بائیں بازو کے بڑے شہروں میں رہنے والے ناقدین کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کو ان مسائل کا سامنا نہیں ہے۔
    سب سے احمقانہ مذہب
    فرانس کے معروف فلسفی اور ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم کے رکن الین فنکلکرات نے مشل ہولےبیک کو آنے والے وقت کا عظیم ناول نگار قرار دیا ہے۔
    ’فرانس میں اسلامائزیشن کے مسئلے کو اجاگر کر کے ایسی جگہ نشانہ لگایا ہے جہاں سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام ترقی پسندوں کو تکلیف ہو رہی ہے اور ان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔‘
    [​IMG]
    فرانس میں حجاب کے حوالے سے کئی تنازعات اٹھ چکے ہیں
     
  4. پاکستانی55
    آف لائن

    پاکستانی55 ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏6 جولائی 2012
    پیغامات:
    98,397
    موصول پسندیدگیاں:
    24,234
    ملک کا جھنڈا:
    جہاں تک مشل ہولےبیک کا اپنا تعلق ہے تو وہ ماضی میں اسلام کو ’سب سے زیادہ احمقانہ مذہب‘ قرار دے چکے ہیں، تاہم وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ وہ اپنے ناول کے ذریعے لوگوں کے جذبات ابھار رہے ہیں۔
    اپنے ناول کی اشاعت سے کچھ عرصہ پہلے ’پیرس ریو‘ نامی جریدے کو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ خیال حقیقت سے دور نہیں کہ ایک اسلامی جماعت فرانس کی شبیہ تبدیل کر رہی ہے۔ تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کے ناول میں فرانس میں اسلام کا غلبہ آنے والے چند سالوں کی بات دکھائی دیتا ہے۔
    ’میں نے خود کو ایک فرانسیسی مسلمان کی جگہ پر رکھ کے سوچا تو مجھے محسوس ہوا کہ دراصل یہ لوگ وہاں کھڑے ہیں جہاں ان کا دماغ بالکل کام نہیں کر رہا۔‘
    [​IMG]
    ناول میں دائیں بازو کی رہنما مارین لی پین کی مخالفت میں لوگ ایک اسلامی رہنما کی حمایت کرتے ہیں
    ------------------------------------------------------------------------
    ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنے پس منظر کے لحاظ سے پسماندہ ہیں اور یہ لوگ بائیں بازو کی سوچ سے بہت دور ہیں، خاص طور پر اس وقت سے جب سوشلسٹوں نے ہم جنس شادیوں کی منظوری دی ہے لیکن یہ لوگ اس دائیں بازو سے بھی دور ہیں جو مسلمانوں کو رد کرتا ہے۔
    روشن خیالی کی موت
    مصنف کے بقول: ’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر مسلمان فرانس میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہے تو وہ کسے ووٹ دے گا؟ سچ یہ ہے کہ فرانسیسی مسلمان ایک ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ جائے تو جائے کدھر۔ سیاسی نظام میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔‘
    ناول نے سنہ 2022 کے جس فرانس کا نقشہ کھینچا ہے وہاں یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم لازمی ہو چکی ہے۔
    مشل ہولےبیک کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی اس کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسانیت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی میں مرکزی حیثیت حاصل ہو اور ان روشن خیالی کے ان نظریات کو موت کی نیند سلا دینا چاہیے جو فرانس میں 18ویں صدی سے رائج ہیں۔
    [​IMG]
    ناول میں دکھایا گیا ہے کہ فرانس کی یونیورسٹیوں میں قرآن کی تعلیم لازمی ہو جاتی ہے
    ----------------------------------------------------------------
    روزنامہ ’لی فگارو‘ سے بات کرتے ہوئے مشل ہولےبیک کا کہنا تھا: ’جہاں تک عام زندگی میں مذہب کی واپسی کا تعلق ہے تو یہ ایک عالمی تحریک بن چکی ہے۔ آج کل ملحدانہ نظریات بہت اداس کن ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج کل ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں وہ تحریک دم توڑ رہی ہے جس کا آغاز قرون وسطیٰ کے اختتام سے ہوا تھا۔‘
    اپنے انٹرویو کے اختتام پر مصنف نے اس جانب اشارہ کیا کہ مذہب کی واپسی ایک اچھی چیز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ بھی ملحد نہیں رہے، بلکہ ان کے بقول روشن خیال انسان کو جس آفاقی خالی پن یا دماغی خلا کا سامنا ہے، اس سے سے تو اسلام بھی بہتر ہے۔
    ’ آخر کار جب میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا، بلکہ پہلی مرتبہ پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے خیال سے خاصی اچھی ثابت ہوئی۔
    ’صاف ظاہر ہے کہ تمام مذہب کتابوں کی طرح قرآن کی بہتر تفسیر کی ضرورت ہے لیکن اگر آپ اس کا دیانتداری سے مطالعہ کریں تو یہ کتاب مقدس جنگ (جہاد) کی عموماً اجازت نہیں دیتی، صرف دعا یا عبادت کی اجازت دیتی ہے۔ اس بنیاد پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے اپنے خیلات تبدیل کر لیے ہیں۔
    ’اسی لیے میں محسوس نہیں کرتا کہ میں جو لکھ رہا ہوں وہ کسی خوف کی وجہ سے لکھ رہا ہوں۔ بلکہ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم اس بات کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ اگر سچ پوچھیں تو عورتوں کے حقوق کے علمبردار (قرآن کے بارے میں) ان باتوں سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن میں اور میرے جیسے کئی دیگر لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے۔‘
    ناول کے آخر میں کہانی کا ہیرو فرینکوس خود ’دوسروں کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے‘ اور ایک ’اسلامی‘ یونیورسٹی میں اپنی ملازمت پر واپس چلا جاتا ہے۔ اس کی اس واپسی میں اس کی تنخواہ میں اضافے کا لالچ بھی شامل ہوتا ہے اور یہ وعدہ بھی کہ اسے کئی بیویاں ملیں گی۔
    http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2015/01/150107_muslim_run_france_sq
     

اس صفحے کو مشتہر کریں